اکتوبر ۲۰۰۸

فہرست مضامین

کلام نبویؐ کی کرنیں

مولانا عبد المالک | اکتوبر ۲۰۰۸ | فہم حدیث

Responsive image Responsive image

حضرت ابوایوب انصاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھے، اس کے بعد شوال کے ۶ روزے رکھے، وہ سارا زمانہ روزہ رکھنے والے کی مثل ہوگیا۔ (مسلم)

رمضان کے روزے ۱۰ ماہ کے برابر اور شوال کے روزے دو ماہ کے برابر ہوگئے، اس طرح ۱۲ مہینے بن گئے۔ نیکی ایک ہو تو دس لکھی جاتی ہیں اور یہ تو کم سے کم ثواب ہے۔ زیادہ کی تو کوئی حد نہیں، ۷۰۰گنا اور اس سے زیادہ بھی ہوسکتا ہے۔ جتنا کسی کا جذبہ اور اخلاص ہوگا اسی قدر اجروثواب زیادہ ہوگا۔

’دنیا‘ میں کسی ملک، علاقے اور حاکم کے ہاں اگر اس حساب سے اُجرت ملتی ہو کہ ایک مہینہ چھے دن کام کیا جائے اور اُجرت بارہ مہینے کی ملے، تو ہر شخص ایسی ملازمت کے لیے بے قرار ہوگا، سفارشیں ڈھونڈ رہا ہوگا۔شاید ہی ملک کا کوئی باشندہ پیچھے رہ جائے۔ لیکن یہ آخرت کا گھر ایسا گھر ہے، جو  نظروں سے اوجھل ہے، اس لیے یہاں کروڑوں، لاکھوں، ہزاروں کی جگہ چند سو ہی اپنا نام لکھوانے آتے ہیں اور اپنے آپ کو اس خدمت کے لیے پیش کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کے دور میں جنت کی محبت اور دوزخ کے خوف کے جذبات مرجھا گئے ہیں۔ ان کو تازگی اور زندگی دینے کے لیے اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت کے جامِ شیریں سے ایمان کو مضبوط کرنا ہوگا۔ دورِصحابہؓ اس نوع کے مناظر پیش کرتا ہے۔ وہاں انھیں سات دن، تین دن، ایک دن روزہ اور ایک دن افطار پر مشکل سے آمادہ کیا گیا۔ اس محبت کا ایک مظہر نفل روزے کا شوق ہونا ہے۔ ۶ دنوں کے روزے پر، خواہ مسلسل رکھے جائیں یا غیرمسلسل، صائم الدہر ہونے کی بشارت ہے، اورکیا چاہیے!

o

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ وہ پودے لگا رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کے پاس سے گزر ہوا۔ آپؐ نے پوچھا: ابوہریرہؓ! کیا کر رہے ہو؟ عرض کیا: یارسولؐ اللہ! اپنے لیے پودے لگا رہا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: میں تمھیں اس سے بہتر پودے نہ بتلائوں؟ میں نے عرض کیا: یارسولؐاللہ! ضرور بتلا دیجیے۔ آپؐ نے فرمایا: سبحان اللّٰہ والحمدللّٰہ ولا اِلٰہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر، ہر ایک کے بدلے میں تمھارے لیے ایک درخت جنت میں لگے گا۔ (ابن ماجہ)

اس کا استحضار ہو کہ جب ہم ذکرِ الٰہی سے اپنی زبان تر کرتے ہیں، تو سچی خبر دینے والے رسولؐ کے فرمان کے مطابق جنت میں درخت لگا رہے ہوتے ہیں (جن کے پھل آکر کھائیں گے، ان شاء اللہ) تو مسنون اوراد کو یاد کرنے اور دن رات کے متعین اوقات میں ان کے ورد کرنے کے ہمارے شوق کا کیا عالم ہوگا۔ یہ ہماری ترجیحات میں شامل ہوگا اور ہم دوسروں کو بھی تلقین کر رہے ہوںگے۔

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! کون سی دعا افضل ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اپنے رب سے دنیا اور آخرت میں عفو اور عافیت مانگو۔ اگلے دن وہ پھر آیا اور پوچھا: یارسولؐ اللہ! کون سی دعا افضل ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اپنے رب سے دنیا اور آخرت میں عفو اور عافیت مانگو۔ (جواب پاکر چلا گیا) اگلے دن پھر آیا اور پھر پوچھا: کون سی دعا افضل ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اپنے رب سے دنیا اور آخرت میں عفو اور عافیت کا سوال کرو۔ جب تجھے دنیا و آخرت میں عفو اور عافیت مل گئی تو، تو فلاح پاگیا۔ (ابن ماجہ)

گناہوں کی معافی اور آفات و مصائب سے حفاظت ایسی نعمتیں ہیں جو تمام نعمتوں کا احاطہ کرتی ہیں۔ دنیا و آخرت میں گناہوں کی معافی دنیا میں ایمان اور علم و عمل کی شاہراہ پر بلاروک ٹوک رواں دواں ہونے کی ضامن ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کو امن بھی میسر ہو۔ بیماری،معاشی تنگی، طاغوتی قوتوں کے ظلم و جبر، قتل و غارت گری، چوروں، ڈاکووں، دہشت گردوں اور تخریب کاروں سے تحفظ حاصل ہو۔ جان و مال اور عزت و آبرو محفوظ ہو۔ اہل و عیال، عزیز و اقارب، مسلمان بھائی اور بستی کے لوگ اپنے اپنے گھروں میں اطمینان کی زندگی بسر کر رہے ہوں، دن کو کام کرتے ہوں اور رات کو بستر ِاستراحت پر بے فکر ہوکر سوتے ہوں۔ اِس صورت میں اللہ کی بندگی اور تقویٰ کی زندگی کے سامان میں کوئی کسر نہیں رہ جاتی۔ تب ہی فلاح بھی کامل ہوگی۔

عفو اور عافیت ہر دور میں انسان کا مطلوب رہے ہیں۔ انھی سے انسانوں کو نوازنے کے لیے       اللہ تعالیٰ نے انبیاے کرام علیہم السلام مبعوث فرمائے اور کتابیں نازل کیں۔ انبیاے علیہم السلام اور اللہ تعالیٰ کے دین کی بدولت انسانوں کو بندگی اور امن نصیب ہوا ہے۔ آج دنیا جس بدامنی سے دوچار ہے، اس کی وجہ اللہ تعالیٰ سے بغاوت ہے۔ ان حالات میں اللہ کے سامنے عفو وعافیت کے لیے  دست ِسوال دراز کرنے کی ضرورت ہے۔ گناہوں سے معافی مانگنے اور اجتماعی زندگی میں اللہ کے دین کو نافذ کرنے سے عافیت اور امن میسر آسکتے ہیں۔

حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں سفر پر جانا چاہتا ہوں۔ مجھے ایسی دعا دیجیے جو میرا زادِ راہ بنے۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ تجھے تقویٰ کا زادِ راہ عنایت فرمائے۔ اس نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! مزید دعا کیجیے۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ تیرے گناہ معاف فرمائے۔ اس نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں، مزید دعا دیجیے۔ آپؐ نے فرمایا: تو جہاں کہیں جائے، اللہ تعالیٰ تجھے آسانی سے بھلائی عطا فرمائے۔ (ترمذی)

آج مسلمان اور ان کے معاشروں کو اسی زادِ راہ کی سب سے زیادہ ضرورت ہے لیکن اسی کی سب سے زیادہ کمی ہے۔ آج ہمارے جملہ مصائب اور محرومیوں کا علاج تقویٰ اور گناہوں سے معافی اور بھلائی کے کام ہیں۔ یہی وہ نسخۂ کیمیا ہے جس نے اُمت مسلمہ کو دنیا کی امامت و قیادت کے مقام پر فائز کیا تھا اور یہی نسخہ آج پھر اسے قوموں کا امام بنا سکتا ہے۔ ہے کوئی جو اس نسخے کو جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی شفقت اور پیار سے اپنے صحابی کو زادِ راہ کے تحفے کے طور پر دیا، اختیار کرے۔ کاش    اُمت مسلمہ بیدار ہوکر اپنے محبوب کی محبت میں تقویٰ کی راہ پر گامزن ہوجائے۔

پھر دعا کروانے کا انداز بھی تو دیکھیے!

o

حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے، تین آدمیوں کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ خوشی سے ہنستے ہیں: ایک اس آدمی پر جو نماز کی صف میں کھڑا ہے، دوسرا وہ آدمی جو آدھی رات کو نماز پڑھے اور تیسرا وہ آدمی جو لشکر کے میدان سے پیچھے ہٹنے کے بعد بھی میدانِ معرکہ میں لڑ رہا ہو۔ (ابن ماجہ)

اللہ تعالیٰ اس آدمی سے زیادہ خوش ہوتے ہیں جو بندگی میں زیادہ اُونچا ہو۔ یہ تینوں آدمی بندگی میں بلندمقام پر ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ ان کو دیکھ کر انتہائی خوش ہوتے ہیں۔ کتنا خوش قسمت ہے وہ انسان جو باجماعت نماز میں شرکت کرے اور کوشش کرے کہ پہلی صف میں ہو، رات کو تہجد کے لیے نیند اور آرام قربان کرکے اللہ تعالیٰ کے مقربین میں شامل ہوجائے اور جہاد و اقامت دین کے کام میں اپنے مورچے پر ڈٹ جائے۔ دوسرے لوگ بھاگ بھی جائیں تو وہ کھڑا رہے۔ آج کا ایک جہاد اقامتِ دین اور احیاے دین کا جہاد ہے جو دعوت کے ذریعے ہو رہا ہے۔ دوسرا جہادِ آزادی ایسے ممالک میں جاری ہے جن پر طاغوتی طاقتوں نے غاصبانہ قبضے کر رکھے ہیں۔ ان دونوں میدانوں میں جو لوگ کام کر رہے ہیں، ان میں وہ شخص اللہ کو زیادہ محبوب ہے جو استقامت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ وہ اللہ کا محبوبِ نظر ہے۔

o

حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہلِ بیت حضرت علی ؓ،حضرت فاطمہؓ اور دوسروں کو بلایا تو میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں بھی آپؐ کے اہلِ بیت میں شامل ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: ہاں! اس وقت تک جب تک کسی حکمران کے دروازے پر نہ جائو یا کسی امیر کے پاس سوال لے کر نہ جائو۔ (الترغیب والترہیب بحوالہ طبرانی اوسط)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ بیت میں شامل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ حکمرانوں کی خوشامد نہ کی جائے، دین فروشی سے احتراز کیا جائے، ان کے سامنے دست سوال دراز نہ کیا جائے۔ آج اگر    اہلِ دین نبیؐ سے تعلق کے اس تقاضے کو پورا کریں تو انقلاب آسکتا ہے۔ تمام علما و مشائخ، تمام مدارس اپنے ذاتی مفادات اور مصالح سے بالاتر ہوجائیں تو پوری اُمت مسلمہ ان کے ساتھ کھڑی ہوگی اور کفار کے آلۂ کاروں کا اقتدار زمیں بوس ہوجائے گا۔ اہلِ دین اُمت مسلمہ کی کشتی کو بھنور سے    نکال لیں گے اور اپنی خودمختاری کا تحفظ کریں گے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن آدمی کے پاس اس کا کھلا ہوا    نامۂ اعمال لایا جائے گا، (وہ اس کو پڑھے گا)، پھر کہے گا: اے میرے رب! میں نے دنیا میں  فلاں فلاں نیک کام کیے تھے۔ وہ تو اس میں نہیں ہیں؟

اللہ تعالیٰ جواب دے گا: لوگوں کی غیبت کرنے کی وجہ سے وہ نیکیاں تمھارے نامۂ اعمال سے مٹا دی گئی ہیں۔ (ترغیب و ترہیب)