اکتوبر ۲۰۰۸

فہرست مضامین

زرداری صدارت ___ چیلنج اور توقعات

پروفیسر خورشید احمد | اکتوبر ۲۰۰۸ | اشارات

Responsive image Responsive image

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ہماری نظر میں جناب آصف علی زرداری پاکستان کی صدارت کے لیے بوجوہ مناسب امیدوار نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی کے ارکان سینیٹ نے جناب سعیدالزماں صدیقی صاحب کو اپنے ووٹوں کا حق دار سمجھا۔ لیکن جب انتخابی ادارے کی اکثریت نے زرداری صاحب کو صدر منتخب کرلیا تو ہم نے کھلے دل سے اس نتیجے کو قبول کیا اور ان کو کامیابی پر روایتی مبارک باد دی۔ ہم نے کہا کہ اگر وہ دستور اور قانون کے مطابق اور ان معاہدوں اور وعدوں کے مطابق کام کرتے ہیں جو انھوں نے پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے قوم کے ساتھ کیے ہیں، خاص طور پر ناجائز طور پر معزول کیے جانے والے ججوں کی بحالی اور دستور کی اس شکل میں بحالی جو ۱۲ کتوبر۱۹۹۹ء کو تھی اور جس کا عہدوپیمان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے میثاقِ جمہوریت (مئی ۲۰۰۶ئ) میں کیا ہے، توہم ان کی غیرمشروط معاونت کریں گے اور ہمارے خیرخواہانہ جذبات ان کے لیے ہوں گے۔

جنرل مشرف کے استعفے اور زرداری صاحب کے حلفِ صدارت کے بعد پارلیمنٹ ۱۸فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے مطابق مکمل ہوگئی اور ملک نے آمریت سے جمہوریت اور شخصی اقتدار سے دستور اور قانون کی حکمرانی کی طرف اپنے سفر کا باقاعدہ آغاز کردیا۔ اب نئی حکومت خاص طور پر پیپلزپارٹی اور اس کی قیادت، اور پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کا امتحان ہے کہ وہ ۹سالہ آمرانہ دور کے طورطریقوں، روایات اور طریق حکمرانی سے کتنی جلد قوم کو نجات دلاتے ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے مطابق ایک حقیقی اسلامی، پارلیمانی، وفاقی اور فلاحی جمہوریت کے قیام کی طرف کس تیزی سے پیش رفت کرتے ہیں۔ یہ ایک تاریخی موقع ہے اور اسی میں ان کا اصل امتحان ہے۔

ہم چاہتے ہیں کہ اس موقع پر ملک کو درپیش چیلنجوں کو دو اور دو چار کی طرح پیش کردیں دوٹوک انداز میں پیپلزپارٹی کی قیادت کے سامنے بھی رکھ دیں کہ قوم کو ان سے کیا توقعات ہیں۔ ہمارے نزدیک اصل ذمہ داری اور امتحان پیپلزپارٹی کا ہے جسے مرکز اور تین صوبوں میں مکمل اقتدار حاصل ہے، جس نے اپنے اصرار پر صدر، وزیراعظم، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، صوبوں کے گورنر اور دو صوبوں میں اپنی مرضی کے وزراے اعلیٰ منتخب کرائے ہیں اور اپنی پارلیمانی حیثیت سے بڑھ کر ذمہ داریاں سنبھالی ہیں۔ مخلوط حکومت صرف ایک عنوان ہے، اصل اختیار اور اصل امتحان پیپلزپارٹی کا ہے اور شریکِ اقتدار جماعتوں نے بھی پیپلزپارٹی ہی کو فیصلہ کن کردار سونپا ہے۔

تین بنیادی پھلو

۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے نتائج کا اگر تجزیہ کیا جائے تو تین باتیں سامنے آتی ہیں جن کو ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہے۔

اوّل: عوام نے پرویز مشرف اور ان کے سیاسی حلیفوں کو یکسر مسترد کیا جس کا منطقی تقاضا تھا کہ پرویز مشرف کو اقتدار سے فی الفور فارغ کیا جائے اور اس پوری قیادت اور ٹیم سے نجات حاصل کی جائے جو ان کے دور میں اقتدار کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے تھی۔ ان انتخابات میں عوام نے مستقبل میں فوج کے سیاسی کردار کو بھی دوٹوک انداز میں طے کردیا اور بظاہر فوج کی نئی قیادت نے بھی عوام کے اس فیصلے کو قبول کرتے ہوئے سول نظام کے تحت کام کرنے اور سیاسی عزائم کا راستہ ترک کرنے کا اعلان کر کے عوام کے اس مینڈیٹ کو قبول کرلیا۔

دوم: عوام نے صرف پرویز مشرف ہی کو مسترد نہیں کیا بلکہ ان کی پالیسیوں کو بھی رد کیا اور اس انتخاب میں دیے گئے عوامی مینڈیٹ کا، جس کی تائید اس دور کے راے عامہ کے تمام سروے بھی کرتے ہیں، واضح تقاضا یہ ہے کہ قوم آمریت کی جگہ جمہوریت، شخصی اقتدار کی جگہ دستور اور قانون کی حکمرانی، خارجہ پالیسی اور نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے باب میں امریکا کی کاسہ لیسی ترک کر کے آزاد اور پاکستانی مفادات پر مبنی پالیسی اختیار کرے۔ اسی طرح کشمیر کے سلسلے میں، ملک کی نظریاتی شناخت اور کردار کے باب میں، اور معاشی اور مالیاتی میدانوں میں مشرف کی پالیسیوں کی جگہ ہم نئی پالیسیوں کے خواہش مند ہیں جو عوام کی خواہشات اور حقیقی ضروریات کے مطابق اور ملک و قوم کے مقاصد کے حصول اور مفادات کے تحفظ کا ذریعہ بنیں۔ انتخاب کا پیغام پالیسیوں میں تسلسل نہیں، تبدیلی اور بنیادی تبدیلی کا تھا اور ہے۔

سوم: ان انتخابی نتائج کا یہ پہلو بہت واضح ہے کہ عوام نے کسی ایک پارٹی کو حکمرانی کا  مکمل اختیار نہیں دیا۔ پیپلزپارٹی سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے ضرور سامنے آئی مگر اسے ۳۰فی صد ووٹ اور اسمبلی میں ۳۳ فی صد نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ اس کا تقاضا ہے کہ وہ اقتدار پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے بجاے حقیقی شرکتِ اقتدار کا راستہ اختیار کرے اور اولین توجہ ان مشترک مقاصد اور اہداف کو دے جو تمام جماعتوں اور خصوصیت سے دو بڑی جماعتوں کے منشور اور عوامی وعدوں میں مرکزی اہمیت رکھتے ہیں۔

درپیش چیلنج

اس سلسلے میں میثاقِ جمہوریت سرفہرست ہے۔ اس میثاق میں جو بڑی بنیادی باتیں طے کی گئی ہیں ان میں سے اہم ترین یہ ہیں:

۱- دستور کی اس شکل میں بحالی جو ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو تھی، جس کا مرکزی نکتہ پارلیمانی نظام کی اپنی اصل شکل میں بحالی اور پارلیمنٹ کی بالادستی اور وزیراعظم اور کابینہ کو ان اختیارات کی منتقلی ہے جو آمرانہ دور میں صدر نے حاصل کرلیے تھے بشمول ۵۸ (۲) بی کی تنسیخ اور سربراہانِ فوج اور گورنروں کے تقرر کے اختیارات۔

۲- عدلیہ کی مکمل آزادی اور ججوں کی تقرری اور معزولی کا ایسا نظام جو شفاف ہو۔

۳- دستور کے فریم ورک میں ایک دوسرے کے لیے ’جیو اور جینے دو‘ کے اصول پر حکمرانی کے اصول و آداب کا احترم اور کسی فوجی آمر کا ساتھ نہ دینے کا عہد۔

۴- انتقام کی سیاست کا خاتمہ اور احتساب کے ایک ایسے نظام کا قیام جو بے لاگ ہو، قابلِ اعتماد ہو اور شفاف ہو۔

۵- آزاد الیکشن کمیشن کا قیام۔

۶- وزیراعظم اور وزراے اعلیٰ پر دو مدت کی تحدید کا خاتمہ۔

۷- کارگل کے سانحے کی آزاد کمیشن سے تحقیق۔

۸- قومی سلامتی کونسل کا خاتمہ اور کابینہ کی دفاعی کمیٹی کا احیا۔

میثاقِ جمہوریت کے ان آٹھ نکات کے ساتھ کم از کم پانچ مزید ایشو ہیں جو اس کے بعد زیادہ اہمیت کے حامل ہوئے اور جن پر قومی اتفاق کا اظہار جولائی ۲۰۰۷ء کے اعلانِ لندن، اور مارچ ۲۰۰۸ء کے اعلانِ مری میں کیا گیا تھا، یعنی:

۱- ۳نومبر ۲۰۰۷ء کے غیردستوری اور ہراعتبار سے ناجائز اقدام کی مذمت اور اس کے تحت نئے ہونے والے اقدامات کی تنسیخ___ خصوصیت سے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کے معزول ججوں کی ۳نومبر ۲۰۰۷ء کی پوزیشن میںبحالی۔

۲- ملک کو جس معاشی اور توانائی کے بحران میں مبتلاکردیا گیا ہے اس سے نجات کی مؤثر کوشش اور عوام کو ریلیف دینے کا اہتمام۔

۳- ’دہشت گردی‘ کے خلاف امریکی جنگ اور پرویز مشرف کے کردار نے جو تباہ کن صورت حال پیدا کردی ہے، اس سے نجات کی منصوبہ بندی اور پاکستان کے مفادات کی روشنی میں قوت کے استعمال کی جگہ افہام و تفہیم سے سیاسی حل کی کوشش۔

۴- بلوچستان اور ملک کے دوسرے علاقوں میں آپریشن جاری ہیں۔ ان کا حاصل تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ ان کو فی الفور بند کر کے سیاسی مسائل کا سیاسی حل اور صوبوں کی محرومیوں کے ازالے کی قرارواقعی کوشش اور اس کے لیے متفقہ لائحۂ عمل کی تشکیل اور اس پر عمل کا نظامِ کار۔

۵- کشمیر کے مسئلے پر پرویز مشرف نے جو قلابازیاں کھائی ہیں اور پاکستان کے متفقہ   قومی موقف کو جو نقصان پہنچایا ہے اس کی تلافی اور جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی تحریکِ مزاحمت سے یک جہتی۔

یہ وہ ۵ ایشوز ہیں جن کے حل کی طرف پیش رفت کی کسوٹی پر زرداری صاحب اور پیپلزپارٹی کی حکومت کو جانچا اور پرکھا جائے گا۔ یہی اصل چیلنج کے مختلف پہلو ہیں اور قوم یہ توقع رکھتی ہے کہ زبانی جمع خرچ، پروپیگنڈے اور نعرہ بازی کا راستہ ترک کر کے قومی اتفاق راے پیدا کیا جائے گا اور ان تمام امور کی طرف حقیقی پیش رفت پر ساری توجہ مرکوز کی جائے گی۔

پی پی حکومت کی کارکردگی

گذشتہ ۶ مہینے میں زرداری صاحب کی قیادت میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے جس کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے وہ خاصا مایوس کن ہے۔ اس کے چند تشویش ناک پہلو یہ ہیں:

۱- جن بنیادوں پر مخلوط حکومت قائم ہوئی تھی ان کے بارے میں قول اور عمل کا تضاد اتنا واضح اور نمایاں تھا کہ مخلوط حکومت کا چلنا پہلے دن سے مشتبہ تھا اور بالآخر یہی ہوا کہ مسلم لیگ (ن) کو ججوں کی بحالی کے مسئلے پر حکومت سے الگ ہونا پڑا۔

۲- وعدوں اور سیاسی عہدوپیمان کے بارے میں زرداری کا سہل انگاری کا رویہ اور یہ دعویٰ کہ سیاست میں کیے گئے معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے اور جب چاہیں ان سے نکلا جاسکتا ہے، ایک اخلاقی جرم ہے۔ اس نے پوری سیاست ہی کو غیرمعتبر بنا دیا ہے جس کے نتیجے میں تمام تعلقات بے اعتبار ہو جاتے ہیں۔

۳- ان ۶ مہینوں میں حکومت اور خاص طور سے زرداری صاحب کی سوچ ’تبدیلی‘ سے زیادہ ’تسلسل‘ کی روش کا پتا دیتی ہے۔ یہ ۱۸ فروری کے مینڈیٹ سے بے وفائی کا راستہ ہے۔ ججوں کے معاملے کو جس طرح اس حکومت نے الجھایا ہے اس نے عدالت کو نظروں میں بے وقار کردیا ہے۔ مشرف نے عدلیہ کے ساتھ جو کچھ کیا، یہ اس سے کچھ بھی مختلف نہیں۔ اس نے باہر سے حملہ کرکے عدلیہ کے ادارے کو تباہ کیا اور زرداری صاحب کے نمایندۂ خاص وزیرقانون نے اندر سے سرنگ لگاکر رہی سہی کسر پوری کردی۔

۴- معاشی صورت حال بلاشبہہ ورثے میں ملی تھی اور توانائی کا بحران بھی۔ لیکن ان ۶ ماہ میں حکومت کسی مؤثر اور بنیادی پالیسی کو لانے میں یکسر ناکام رہی ہے۔ پالیسی پر اس کی گرفت نہیں اور کیفیت یہ ہے کہ ع

نے ہاتھ باگ پر ہے، نہ پا ہے رکاب میں

اسی ’تسلسل‘ کا نتیجہ ہے کہ عوام کی مشکلات اور خصوصیت سے زراعت اور صنعت، دونوں اہم شعبوں میں مسائل کا اضافہ ہوا ہے۔

۵- ان ۶ ماہ میں بلوچستان، وزیرستان، باجوڑ اور سوات میں فوجی آپریشن جاری ہیں بلکہ ان میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ مسائل کا سیاسی حل نکالنے کے وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ ایک طرف پاکستانی فوج اپنے ہی شہریوں پر آگ اور خون کی بارش کر رہی ہے اور دوسری طرف امریکا اور بھی بے باک ہوکر ہماری سرحدوں کی کھلی خلاف ورزیاں کر رہا ہے اور شرپسندوں کے نام پر عام شہریوں کو بے دردی سے ہلاک کر رہا ہے۔ ۲۰۰۴ء سے ۲۰۰۷ء تک مشرف کے دور میں امریکا نے ۳۴ بار ہماری سرحدات کی خلاف ورزی کی تو ان ۶ مہینوں میں ۲۳ بار امریکا نے حملے کیے اور ۳ستمبر ۲۰۰۸ء کا حملہ تو برملا اعلان جنگ کے مترادف تھا کہ امریکی ہیلی کاپٹروں نے پاکستانی سرحد پر اپنی فوجیں اتاریں اور عورتوں اور بچوں سمیت وہ درجنوں معصوم انسانوں کو شہید کرکے پورے طمطراق سے واپس چلے گئے ۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق یہ سب صدربش کے واضح احکامات اور direct action in Pakistan territory(پاکستانی علاقے میں راست اقدام) کی پالیسی کے مطابق ہوا۔ ستم یہ ہے کہ جس دن ایڈمرل مولن اسلام آباد میں وزیراعظم کو یہ یقین دہانی کرا رہے تھے کہ پاکستانی حاکمیت کا احترام کیا جائے گا، اسی وقت احترام کا جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ ہیلی کاپٹروں اور بغیرپائلٹ کے جہاز، ڈرون (drone) سے حملہ تھاجس میں ایک ہی ہلے میں ۷معصوم انسان شہید ہوگئے۔

یہ ہے وہ پس منظر جس میں زرداری صاحب نے صدارت کی ذمہ داری سنبھالی ہے اور وزیراعظم صاحب اور خود زرداری صاحب کے چند دن پہلے کے اس اعلان کے بعد سنبھالی ہے کہ آیندہ صدر غیر جانب دار فرد ہوگا جو وفاق کی علامت ہوگا۔

بحران سے نکلنے کی راہ

بہرحال اب ہم ان کو حالات کی سنگینی کا احساس دلاتے ہوئے یہ درخواست کرتے ہیں کہ اگر وہ فی الحقیقت اس ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اور اسے اپنی تاریخ کے سنگین ترین بحران سے نکالنے میں مخلص ہیں تو درج ذیل اقدام اور اعلانات کا اہتمام کریں تاکہ اُمید کے لیے بنیاد فراہم ہو۔

۱- سب سے پہلے اس امر کا اعلان کریں کہ زندگی کے ہر معاملے میں اور خصوصیت سے سیاست اور ریاست کے تمام امور میں عہدوپیمان کی مکمل پاسداری کی جائے گی۔ زندگی کا کاروبار  اس اعتماد ہی پر چل سکتا ہے کہ قول و قرار کا پاس کیا جائے اور ہرعہد کو پورا کیا جائے۔

۲- زرداری صاحب مفاہمت کی سیاست کی باتیں تو بہت کرتے رہے ہیں لیکن ان کے اولین کارناموں میں اتحادی حکومت کے ایک بڑے فریق سے بدعہدی اور نتیجتاً اس کی حکومت سے علیحدگی ہے۔ اب پنجاب میں متعین جیالے گورنر کی قیادت میں جو سیاسی دنگل مرتب کیا جا رہا ہے وہ ’جیو اور جینے دو‘ والی سیاست کودفن کر دے گا۔ اس سے یقینا تصادم کی سیاست پروان چڑھے گی جو ملک کے لیے اور خود حکمرانوں کے لیے تباہ کن ہوگا۔ اس سے احتراز کیا جائے اور دستور اور قانون کے دائرے میں خود بھی رہا جائے اور دوسروں کو بھی ان کا حق دیا جائے۔

۳- زرداری صاحب کو پیپلزپارٹی کے تمام سیاسی اور انتظامی امور سے لاتعلق ہوکر صدارت کے عہدے کو پارٹی سیاست میں ملوث ہونے سے بچانا چاہیے۔ اس کے لیے شریک چیئرپرسن کے عہدے سے فوری طور پر مستعفی ہونا ضروری ہے۔

۴- زرداری صاحب نے جو ذمہ داری سنبھالی ہے، اس کا تقاضا ہے کہ اپنی ذات سے متعلق دو امور کے بارے میں وہ تمام حقائق قوم کے سامنے رکھیں اور اپنی پوزیشن واضح کریں۔ ہم ذاتی امور کے احترام اور نجی اور شخصی معاملات کے حق کے قائل ہیں لیکن جب کوئی شخص پبلک ذمہ داری قبول کرتا ہے تو پھر ذاتی زندگی کے مختلف پہلوئوں کی حساب داری بھی کرنا پڑتی ہے۔ اس لحاظ سے ضروری ہے کہ وہ اپنی بے گناہی کے ثبوت کے لیے کسی بدنامِ زمانہ این آر او کا سہارا نہ لیں بلکہ کھل کر شفاف انداز میں قوم کو اعتماد میں لیں اور میثاقِ جمہوریت میں طے کردہ اصولوں پر مبنی کوئی نظام قائم کر کے ان شکوک و شبہات کو دُور کریں جو ملک اور ملک کے باہر موجود ہیں۔

دو شکوک

پہلی بات کا تعلق ان میڈیکل رپورٹوں سے ہے جو بار بار وہ عدالت میں حاضر نہ ہونے کے سبب کے طور پر اپنی ذمہ داری پر اپنے وکیلوں کے ذریعے بھجواتے رہے ہیں اور جو اَب انگلستان کے اخبار Financial Times میں شائع ہونے کے بعد پبلک پراپرٹی بن چکی ہیں۔ دو ہی امکانات ہیں۔اگر یہ رپورٹیں صحیح ہیں تو دستور کی واضح دفعات کی روشنی میں قوم کو یہ جاننے کا حق ہے کہ اب وہ ان عوارض سے نجات پاچکے ہیں جو ان رپورٹوں کی ترسیل کے زمانے میں ان کو لاحق تھے اور جو ایک شخص کو کسی بھی کلیدی مقام کے لیے نااہل بنا دیتے ہیں۔ اور اگر یہ رپورٹیں درست نہیں تھیں اور محض عدالت میں حاضری سے بچنے کے لیے دی گئیں تو یہ عدالت کے سامنے غلط بیانی اور دروغ حلفی کے زمرے میں آتی ہیں۔ جو سیاست اور قانون دونوں کی نگاہ میں بہت بڑا جرم ہے۔ امریکا کے دستور کے تحت تو صدرمملکت کی معزولی صرف دروغ حلفی کی بنیاد پر ہوسکتی ہے۔  یہ معاملہ محض ایک صحافتی افشاے راز کا نہیں، اس کے بڑے اہم دستوری، قانونی، سیاسی اور اخلاقی مضمرات ہیں اور زرداری صاحب کو اسے نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔

دوسرا مسئلہ ان پر مالی کرپشن، منی لانڈرنگ اور اختیارات کے غلط استعمال کا ہے۔ بلاشبہہ کسی عدالت میں الزامات ثابت نہیں ہوئے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ الزامات بظاہر بالکل بے بنیاد نہیں۔ سوئٹزرلینڈ کے پرازی کیوشن جج نے خود کہا ہے کہ الزامات میں بہت کچھ موجود ہے اور کیس کے واپس لیے جانے سے اسے بہت مایوسی ہوئی ہے۔ انٹرنیٹ پر جو تفصیلات موجود ہیں، ان کے عام ہوجانے کے بعد ضروری ہے کہ متعلقہ افراد اپنی پاک دامنی ثابت کریں۔ اس لیے بھی کہ مسل پر یہ تمام معلومات موجود ہیں کہ کتنی بار التوا کی درخواستیں زرداری صاحب اور ان کے وکلا کی طرف سے آئی ہیں اور عدالتی عمل کو مدعی اور مدعاعلیہ دونوں نے اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔

دو قطعی الزام

دو چیزیں ایسی ہیں جن کا جواب ضروری ہے___ سویزبنک میں ۶۰ ملین ڈالر کی رقم جس کو اب پاکستانی حکومت نے واگزار کرا دیا ہے اور جس کے فائدہ اٹھانے والے (beneficiary)  زرداری صاحب ہیں، وہ کہاں سے آئی۔ یہ رقم تو ایک حقیقت ہے۔ زرداری صاحب نے اسمبلی اور سینیٹ کا ممبر بنتے وقت اپنے جن اثاثوں کا اعلان کیا تھا ان میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔ انھیں قوم کو بتانا چاہیے کہ یہ رقم کہاں سے آئی اور کس طرح اس پر ان کا حق ثابت ہوتا ہے۔ دوسرا مسئلہ انگلستان کے سرے محل کا ہے۔ اس کے بارے میں زرداری صاحب نے پبلک اعلان کیا تھا کہ ان کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ محترمہ بے نظیرصاحبہ نے اسمبلی کے اندر اس سے اپنی اور اپنے خاندان کی برأت کا اعلان کیا تھا۔ اب زرداری صاحب اسی سرے محل کی نیلامی سے حاصل ہونے والی رقم کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ اگر ان کا اب کا دعویٰ صحیح ہے تو جو اعلان انھوں نے اور محترمہ بے نظیر صاحبہ نے اسمبلی اور سینیٹ میں کھلم کھلا کیا تھا اس کی حقیقت کیا ہے؟

لیکن معاملہ ماضی سے زیادہ مستقبل کا ہے۔ صدارت کا عہدہ ایک نازک عہدہ ہے۔ امریکا کے صدر کو بھی ذمہ داری سنبھالتے ہی اپنی تمام دولت کا اعلان کرنا ہوتا ہے اور صدارت کے دوران وہ اپنے کسی کاروباری اور آمدنی والے کام کو ہاتھ نہیں لگا سکتا بلکہ اس کی ساری دولت  ولایت (wardship) کے تحت ہوتی ہے۔ زرداری صاحب کے لیے بھی باعزت طریقہ یہی ہے کہ وہ اپنی دولت کا اعلان کریں، جو رقوم پہلے اعلان نہیں کی گئیں، ان کے بارے میں ذریعۂ آمدنی بتائیں اور یہ بھی بتائیں کہ کس پر کتنا ٹیکس دیا گیا ہے۔ اور پھر اپنے دورِ صدارت کے لیے کاروباری معاملات سے قطع تعلق کریں۔ جب تک سیاست میں یہ روایت قائم نہیں ہوتی، ملک سے کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں۔

خلقِ خدا کیا کھتی ھے

زرداری صاحب کو ان حالات کا جرأت سے سامنا کرنا چاہیے۔ ملک کے اندر بڑے پیمانے پر لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ بیرونی دنیا میں بھی ملک کی اور خودان کی عزت کی حفاظت کے لیے یہ ضروری ہے۔ دنیا بھر میں شائع ہونے والے مضامین اور اداریوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو ۹۰ فی صد نے ان امور کا ذکر کیا ہے اور انھیں محض یہ کہہ کر ختم نہیں کیا جاسکتا کہ این آر او کے گنگاجل سے اشنان کے بعد سب پاک ہوگیا ہے۔ صرف دو اقتباس ٹائم میگزین اور اکانومسٹ سے ہم اس بات کی تائید میں پیش کر رہے ہیں کہ یہ اب مُردہ اور ختم شدہ مسئلہ (dead and closed issue)نہیں جیساکہ فاروق نائیک صاحب فرماتے ہیں بلکہ ملک کے اندر اور ملک سے باہر ایک تروتازہ اور زیرِبحث (live and under discussion) مسئلہ ہے۔ اس لیے اس کا سامنا کیجیے۔ ذاتی عزت اور قومی مفاد دونوں کا یہی تقاضا ہے۔ ٹائم لکھتا ہے:

پاکستان کی صدارت تک زرداری کے عروج کی کہانی سنڈریلا کی روایتی کہانی کی طرح معلوم ہوتی ہے جس میں مافیا کی سنسنی کا عنصر شامل ہوگیا ہے۔ زرداری کی ہمیشہ ایک چکرباز ہونے کی شہرت رہی ہے۔ بے نظیر کے دوسرے دور میں جب وہ وزیر سرمایہ کاری تھے کمیشنوں میں سے خفیہ وصولی کے اسیکنڈلوں میں مبینہ طور پر ملوث ہونے نے ان کو مسٹر ٹین پرسنٹ کا لقب عطا کردیا تھا۔ نواز شریف اور پرویز مشرف نے ان کے خلاف منی لانڈرنگ اور کرپشن کے مقدمات برطانیہ، اسپین اور سوئٹزرلینڈ میں چلائے۔ گذشتہ برس پرویز مشرف کی ایک متنازع ایمنسٹی ڈیل کے بعد یہ تمام الزامات ختم کردیے گئے۔ زرداری کا موقف ہے کہ تمام الزامات کی بنیاد سیاسی تھی، تاہم ان کی ساکھ کے بارے میں شبہہ باقی ہے۔ زرداری کو اپنے ماضی کے بارے میں پائے جانے والے شکوک و شبہات پر قابو پانا ہوگا۔

اکانومسٹ نے زرداری کے صدر منتخب ہونے پر ادارتی نوٹ میں یوں لکھا:

۹ستمبر کو جب زرداری صدر پاکستان کی حیثیت سے اپنا حلف اٹھا رہے تھے تو ان کے  سر پر تین سایے منڈلا رہے تھے: ایک، معیشت ایک بحرانی کیفیت میں ہے، دوسرے مقامی طالبان کے خلاف جنگ کی صورت حال خراب ہے، اور تیسرے زرداری خود کو اپنی اس شہرت سے جدا نہیں کرسکے جو انھیں اپنی مرحومہ بیوی بے نظیر بھٹو کے دور میں مسٹر ٹین پرسنٹ کی ملی تھی: ایک ایسا آدمی جو ملک دانش مندی سے چلانے میں     کم دل چسپی رکھتا ہے، بہ نسبت اس کو لالچ کے ساتھ لوٹنے میں۔ (اکانومسٹ، ۱۳ستمبر ۲۰۰۵ئ)

ہم یہ سب باتیں بادل ناخواستہ ضبط تحریر میں لارہے ہیں لیکن اب جس ذمہ داری کے مقام پر زرداری صاحب فائز ہیں، اس کا تقاضا ہے ان تمام امور کو صاف کیا جائے۔ ہم سیاسی انتقام کو ایک سنگین جرم سمجھتے ہیں اور الزام ثابت ہونے سے پہلے کسی بھی شخص کومجرم قرار دینے کو غلط سمجھتے ہیں لیکن اگر الزامات ہرکہ و مہ کی زبان پر ہوں اور اتنے تسلسل کے ساتھ ہوں، اور کسی کھلے عدالتی عمل کے ذریعے بے گناہی ثابت کیے بغیر محض سیاسی مفاہمتوں کی بنیاد پر اسے داخل دفتر کر دیا جائے، تو یہ بھی انصاف کے خلاف شہرت کی بحالی ہے۔ اس کے نتیجے میں اچھی شہرت بحال نہیں ہوسکتی۔ انتقام غلط ہے مگر پبلک شخصیات کا احتساب اور انصاف ایک ضروری عمل ہے اور اس سے فرار عزت میں اضافے کا سبب نہیں بن سکتا۔

مسلمان تو یہ احتیاط بھی کرتا ہے کہ ایسا موقع نہ دے کہ اس پر کوئی الزام لگ سکے۔ ہم اسی جذبے سے اس توقع کا اظہار کر تے ہیں کہ سیاسی معاملات، پالیسی کے امور، اداروں کی بحالی اور تقویت اور خارجہ اور داخلہ مسائل کے بارے میں صحیح اقدامات کی فکر کے ساتھ، ذاتی معاملات کے بارے میں ہرشک و شبہے کو دُور کرنا اب زرداری صاحب کی ذمہ داری ہے۔ جو پبلک لائف کا راستہ اختیار کرتا ہے اسے ذاتی وفاداری اور پاک دامنی کے چیلنج کا بھی مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔

Sir Roy Jenkins نے اپنی مشہور زمانہ کتاب Cabinet Governmentمیں لکھا ہے کہ ایک وزیر کے لیے ہر فن مولا ہونا ضروری نہیں لیکن سب سے ضروری وصف character and integrity (کردار اور دیانت) ہے۔ یہ موجود ہو تو پھر قوم اس قیادت پر پورا اعتماد کرسکتی ہے اور علم و تجربے کی کمی مشاورت اور معاونت سے پوری کی جاسکتی ہے۔لیکن اگر کردار خام ہو اور دیانت مفقود یا مشتبہ ہو تو پھر نظامِ حکومت چلانا محال ہے۔

کیا ہم توقع کریں کہ صدارت کا حلف لینے کے بعد قوم کو ایک ایسے آصف علی زرداری سے معاملہ کرنا ہوگا جو ماضی کے تصور سے مختلف ہوگا، جو مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ ایک اچھی شہرت والے انسان کے طور پر کرے گا۔ ہماری دعا ہے کہ ملک و قوم کو ایوب، یحییٰ، ضیا اور مشرف سے نجات ملے اور جو مثال باباے قوم قائداعظم محمدعلی جناح نے قائم کی، اس کا احیا ہو۔


 

(کتابچہ دستیاب ہے، قیمت: ۸ روپے۔ سیکڑے پر رعایت، منشورات، لاہور)