اکتوبر ۲۰۰۸

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| اکتوبر ۲۰۰۸ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

بنک کو کرایے پر جگہ دینا

سوال: ہم جس ملک میں رہتے ہیں اس کا معاشی نظام سودی بنیادوں پر چلتا ہے۔ کوئی ملازم ہو یا کاروبار کرے کسی نہ کسی طور بنک سے اس کا واسطہ پڑتا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس سودی نظام کا حصہ بن جاتا ہے۔ کیا اس طرح ہم سودی نظام میں تعاون کے مرتکب تو نہیں ہوتے؟

دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ بے روزگاری اور ہوش ربا مہنگائی کے ہاتھوں لوگوں کا جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ اگر ایسے میں کسی کو بھرپور کوشش کے باوجود ملازمت نہ ملے اور بہ امر مجبوری اسے کسی بنک میں ملازمت کرنا پڑے تو کیا ایسا کرنا جائز ہوگا؟

ایک سوال یہ ہے کہ بنک کو کرایے پر جگہ دینا کیسا ہے کہ جگہ دینے والے کا اس کرایے پر ہی انحصار ہواور مجبور بھی ہو۔ کیا وہ بنک میں نوکری کرنے والوں کی طرح جگہ کرایے پر دے سکتا ہے؟

جواب : اسلام اپنے ہر ماننے والے سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ حلال اور طیب روزگار حاصل کرے اور حرام اور خبیث سے اجتناب کرے۔ اس بنا پر قرآن کریم اور احادیث صحیحہ نے  سود کے بارے میں بغیر کسی اشتباہ کے واضح احکام دیے کہ سود حرام ہے اور جس طرح ایک حرام شے کا استعمال کرنے والا، خریدنے والا، فروخت کرنے والا یا کسی کو پیش کرنے والا گناہ کا ارتکاب کرتا ہے، اسی طرح سودی کاروبار میں شرکت کرنے والا بھی یکساں طور پر گناہ گار تصورکیا جائے گا۔ اس اصولی وضاحت کے ساتھ یہ بات بھی جان لینا ضروری ہے کہ ایک حرام شے صرف اُس صورت میں ایک فرد کے لیے وقتی طور پر جائز ہوجاتی ہے جب اس کی جان کو خطرہ ہو، مثلاً حرام کیے ہوئے کھانے کا استعمال جان بچانے کی حد تک تو جائز ہوگا لیکن اس کا عادتاً استعمال مطلقاً حرام رہے گا۔

اگر ایک شخص کو اپنی مقدور بھر کوشش کے باوجود بنک کے علاوہ کوئی اورملازمت دستیاب نہیں ہے تو اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی جان بچانے کے لیے جب تک اسے کوئی حلال ملازمت نہ مل جائے، وہ ایسا کرسکتا ہے۔ لیکن آج کے دور میں جب مغربی سرمایہ دار ممالک کے بنک بھی مسلمان گاہکوں کے حصول کے لیے اپنے ہاں غیرسودی کھڑکیاں کھول رہے ہیں اور پاکستان میں خصوصاً اسلامی بنکوں کی شاخیں تیزی کے ساتھ ملک گیر پیمانے پر کھل رہی ہیں، کوشش ہونی چاہیے کہ اسلامی بنک میں ملازمت تلاش کی جائے اور اس طرح اپنی تعلیم و تربیت کا استعمال بھی ہو اور حرام سے بھی بچا جاسکے۔ اس لیے آپ کوشش کریں کہ کسی اسلامی بنک میں آپ کو ملازمت مل سکے۔

جہاں تک سوال ایک مکان یا دکان بنک کو کرایے پر دینے کا ہے، اس میں اصولی طور پر   یہ بات سمجھ لیں کہ شریعت کا حکم ظاہر پر لگتا ہے۔ اگر آغاز سے یہ بات آپ کے علم میں ہے کہ ایک شخص جو جگہ کرایے پر لے رہا ہے وہاں بنک قائم کیا جائے گا تو اس سے حاصل کردہ کرایہ گو مکان کا کرایہ ہے لیکن معصیت اور گناہ میں شرکت سے خالی نہیں کہا جاسکتا۔ البتہ ایک شخص کسی سے مکان یا دکان حاصل کرتا ہے اور مالک مکان کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس جگہ پر کیا کاروبار کرے گا، پھل فروش کی دکان بنائے گا یا بنک کی برانچ کھولے گا تو اسے کرایے پر مکان دینے میں کوئی قباحت نہیں۔  اگر یہ بات ظاہر اور واضح ہو کہ اس مکان میں حرام کام کیا جائے گا تو اس سے حاصل شدہ کرایہ مباح تصور نہیں کیا جائے گا۔ واللّٰہ اعلم بالصواب (ڈاکٹر انیس احمد)


پراپرٹی کی خرید و فروخت کا ایک مسئلہ

س: ہماری اسٹیٹ ایجنسی ہے۔ ہمارا کام اپنے کلائنٹس کی پراپرٹی فروخت کرنا یا ان کو کوئی پراپرٹی دلانا ہے۔ ہم خود بھی پراپرٹی میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ گاہک سے ہمیں اس خریدوفروخت کروانے کے عوض کمیشن ملتی ہے۔ ایک نئے پروجیکٹ کے حوالے سے درج ذیل سوال کی وضاحت فرما دیں:

دبئی میں کئی نئے پروجیکٹ بن رہے ہیں جن کی بکنگ مکمل ہوچکی ہے اور ان پروجیکٹ پر کام بھی شروع ہوگیا ہے۔ عملاً صورت حال یہ ہے کہ ان کی بنیاد نہیں ڈالی ہے، لہٰذا پروجیکٹ کا ڈھانچا (structure) نہیں بن سکا ہے۔ ہمیں آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ ایسی صورت میں ان پروجیکٹ میں بکنگ کی ہوئی کسی بھی پراپرٹی کو دوبارہ بیچنا، یعنی جس شخص نے یہ پراپرٹی بک کروائی تھی اسے دورانِ تعمیر ہی اچھی پیش کش آجاتی ہے اور وہ اس پراپرٹی کو نئے خریدار کو بیچ دیتا ہے تو کیا اس پر ہم منافع لے سکتے ہیں؟

ج: آپ کی فراہم کردہ معلومات کی روشنی میں خریدوفروخت اگر خالی زمین کی ہے تو وہ موجود ہے، اس کی خریدوفروخت ہوسکتی ہے۔ لیکن اگر خریدوفروخت زمین پر تعمیرشدہ مکانات کی ہے، تو وہ ابھی بنے نہیں۔ بعض کی بنیادیں بھی نہیں رکھی گئیں اور بعض کے ڈھانچے بن گئے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جو چیز فروخت کی جارہی ہے اور جس کی خریداری کرلی گئی ہے، وہ ابھی معدوم ہے۔ ابھی تو پہلا شخص جس نے خریداری کی ہے، اس نے مکان حاصل نہیں کیا۔ وہ صرف کاغذی نقشے کی شکل میں کاغذ اور ذہن میں موجود ہے۔ اگر اسے بیع سلم قرار دیا جائے تب بھی زیادہ سے زیادہ پہلے شخص کے لیے یہ بیع صحیح ہوسکتی ہے۔ جب تک تعمیر کیے جانے والے مکان کی تمام صفات، قبضے کی تاریخ اور وقت متعین نہ ہو اس وقت تک بیع صحیح نہیں ہوسکتی۔ دوسری بیع تو اس وقت صحیح ہوسکتی ہے جب پہلے دونوں فریق میں تنازعہ پیدا نہ ہو اور خریدار مکان کا قبضہ حاصل کرلے۔ جن مکانات کی بنیاد رکھ دی گئی ہو یا نہ رکھی گئی ہو، دونوں کا ایک حکم ہے۔ خریدار نے جو رقم دی ہے اس کے عوض میں اسے بائع کو صفات کے لحاظ سے متعین رقبہ، متعین نقشہ اور متعین شدہ میٹریل سے تعمیرشدہ مکان دینا ہوگا۔ مجہول اور معدوم کی بیع حنفیہ اور مالکیہ دونوں کے نزدیک صحیح نہیں، البتہ  بیع سلم دونوں کے نزدیک صحیح ہے، لیکن وہ پہلے کے حق میں ہوسکتی ہے دوسرے کے حق میں نہیں۔ دوسرے کے حق میں بیع اس وقت صحیح ہوگی جب پہلا قبضہ کرلے۔ ھدایہ میں ہے: ’’حیوانات میں سلم جائز نہیں ہے، لیکن کپڑوں کی سلم جائز ہے کیونکہ وہ انسان کا بنایا ہوا ہے اور کپڑاصفات کے لحاظ سے متعین ہوسکتا ہے۔ یہی حکم مکان کا بھی ہے۔ یہ عدم جواز اس لیے ہے کہ فریقین میں تنازع کا خطرہ ہے، اگر دوسرے آدمی نے پہلے سے، چیز تعمیر سے پہلے خریدی ہو اور تنازع پیش نہ آیا ہو، اس نے قبضہ کرلیا ہو تو دوسری بیع بھی صحیح ہوجائے گی۔واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)


سابقہ زکوٰۃ کی ادایگی

س: ۱- تین سال ہوئے ایک ساتھی نے ایک کاروبار شروع کیا اور تین سال کے بعد احساس ہوا کہ نماز کے ساتھ ساتھ زکوٰۃ بھی فرض ہے۔ اب وہ پوچھتے ہیں کہ کیا پچھلے دو سالوں کی بھی زکوٰۃ ادا کروں یا صرف اس سال کی؟

۲- ایک صاحب نے ہائی ایس گاڑی ساڑھے سات لاکھ روپے میں خریدی اور اسے روڈ پر چلا دیا اور تین سال بعد زکوٰۃ کا خیال آیا۔ اب وہ پوچھتے ہیں کہ گاڑی کی سالانہ بچت پر زکوٰۃ دینا چاہیے یا گاڑی کی مالیت پر بھی زکوٰۃ ہے، نیز زکوٰۃ ایک سال ہی کی ہوگی یا تین سال کی؟

۳- ایک شخص نے گھر کے استعمال کے لیے کار خریدی۔ کیا اس پر زکوٰۃ ہے؟

۴- اگر کار کو سواری لے جانے اور لانے کے لیے کرایہ پر چلایا جائے جیساکہ نمبردو میں عرض کیا ہے تو کیا اس پر زکوٰۃ ہوگی یا صرف اس کے سالانہ منافع پر۔

ج :  جب سے آدمی صاحب ِ نصاب ہوجائے تب سے زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہوجاتا ہے۔ اگر آپ کے دوست ۲۰۰۷ء کو صاحب ِ نصاب ہوئے تو ۲۰۰۷ء سے اور اگر پہلے سے صاحب ِ نصاب ہیں تو جب سے صاحب ِ نصاب ہیں اسی وقت سے زکوٰۃ دینا شروع کریں گے۔

۲- گاڑی کی مالیت پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ گاڑی کی آمدن اور پس انداز کی ہوئی رقم سب  مل کر مقدار نصاب کو پہنچیں تو زکوٰۃ ادا کرنا ہوگی۔ وسائل آمدن پر زکوٰۃ عائد نہیں ہوتی۔ گاڑی آمدن کا وسیلہ ہے۔ اگر گاڑی ساڑھے سات لاکھ روپے کی زکوٰۃ ادا کر کے خریدی تھی تو جب سے چلائی جارہی ہے اس کی سالانہ آمدن پر زکوٰۃ عائد ہوگی، اس کی مالیت پر نہیں۔ اگر زکوٰۃ ادا نہیں  کی تھی تو ایک مرتبہ اس کی زکوٰۃ ساڑھے سات لاکھ روپے سے اداکردی جائے تو پھر سال بہ سال اس کی آمدن پر زکوٰۃ دی جائے۔

۳- اسی طرح گھر کے استعمال کے لیے خرید کردہ گاڑی پر زکوٰۃ عائد نہیں ہوتی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمان پر اس کے گھوڑے میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ اس سے مراد استعمال کا گھوڑا ہے۔

۴- کار اگر کاروبار کے لیے چلائی جائے تو پھر اس کی آمدنی پر زکوٰۃ عائد ہوگی جب کہ وہ اکیلے یا پس انداز کی ہوئی رقم کے ساتھ مقدار نصاب کو پہنچتی ہو۔ واللّٰہ اعلم! (ع - م)


علاقائی رسم و رواج کی حیثیت

س: اسلام میں علاقائی رسم و رواج کی کیا حیثیت ہے اور اُن کو کرنے یا نہ کرنے کا بنیادی اصول کیا ہے، بالخصوص شادی کے موقع پر کی جانے والی مہندی کی رسم؟

میرے خیال میں یہ رسم غیراسلامی یا نامناسب اس لیے ہے کہ اس میں ناچ گانا، مووی یا تصویریں بنانا اور مخلوط تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے اور بے جا اسراف سے کام لیا جاتا ہے۔ اس رسم کو اسٹیٹس سمبل کے طور پر بھی ادا کیا جاتا ہے، نیز اس میں وقت کا ضیاع بھی ہوتا ہے۔اگر مندرجہ بالا وجوہات میں سے کوئی بات نہ ہو، صرف خاندان کی خواتین اور سہیلیاں اکٹھی ہوں، گھریلو قسم کے گانے ڈھولکی یا دف پر گائے جائیں، اور پردے کا خیال رکھا جائے، یعنی یہ رسم صرف مل بیٹھنے کا بہانہ ہو تو کیا پھر بھی اس رسم کا ادا کرنا ناجائز یا غیراسلامی ہوگا؟

ج: علاقائی رسمیں خصوصاً شادی بیاہ کے رواج میں سے جو شریعت سے متصادم نہ ہوں، ان کی اجازت ہے۔ آپ نے خود ہی وضاحت کی ہے کہ مہندی کی رسم میں غیرشرعی کام، ناچ گانے، مووی، تصویریںبنانا، مخلوط تقریبات، بے جا اسراف، اسٹیٹس سمبل کا مظاہرہ اور وقت کا ضیاع ہوتا ہے۔ اگر یہ رسم ان بے جا اُمور سے پاک ہو، محض بچی کو دلہن بنانا ہوتو سادہ طریقے سے ایسا کیا جاسکتا ہے، جس طرح انصار کی خواتین نے حضرت عائشہ صدیقہؓ کو نہلادھلا کر، بناسنوار کر دلہن بناکر نبی کریمؐ کے گھر رخصت کیا تھا۔ شادی کے موقع پر بڑی خواتین کا دف کے ساتھ گانے گانا اگرچہ اپنے گھر کے محدود دائرہ میں ہو، صحیح نہیں ہے۔ صرف چھوٹی بچیاں ایسے گیت گاسکتی ہیں،  جن میں فحش نہ ہو۔واللّٰہ اعلم! (ع - م)