’فریضۂ زکوٰۃ کی ادایگی‘ (ستمبر ۲۰۰۸ئ) برمحل اور اہم تحریر ہے، تاہم مقدارِ نصاب کے ساتھ ساتھ زکوٰۃ کی مدات کا تذکرہ ہوتا تو تحریر زیادہ مفید ہوجاتی اس لیے کہ زکوٰۃ دیتے ہوئے لوگ یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ کہاں زکوٰۃ لگتی ہے اور کہاں نہیں۔ اسی طرح زکوٰۃ صرف رمضان میں دینے کا رجحان بھی توجہ طلب ہے۔ اس کی وجہ سے ضرورت مندوں کو سارا سال دقت پیش آتی ہے اور بہت سے مفید کام اور خدمتِ خلق کے منصوبے بھی متاثر ہوتے ہیں۔
’امریکی حملے کا اندیشہ‘ (اگست ۲۰۰۸ئ) ایک بروقت تحریر تھی۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان وہ علاقہ ہے جہاں حاجی صاحب تُرنگ زئی اور فقیر ایپی نے برطانوی استعمار کے خلاف زبردست مزاحمت کی تھی۔ مذکورہ مضمون میں فقیر ایپی کو ’فقیر آف اے پی‘ (ص ۲۷) لکھا گیا ہے جو درست نہیں۔ اس سے یہ تاثر اُبھرتا ہے کہ اے پی (A.P) کسی انگریزی لفظ کا مخفف ہے۔ حالانکہ درحقیقت ایپی ایک مقام کا نام ہے جو فقیر ایپی حاجی میرزلی خان کا مسکن تھا۔
’مابعد جدیدیت کا چیلنج اور اسلام‘ (جولائی، اگست ۲۰۰۸ئ) میں اسلامی فکر کے احیا کے لیے جن مثبت مواقع کی نشان دہی اور جس چیلنج کا اظہار کیا گیا ہے وہ مابعد جدیدیت سے پیدا ہونے والے خلا کا فوری جواب مانگتا ہے۔ کیا دنیاے اسلام کی اسلامی تحریکیں اس چیلنج کا جواب دینے کی اہلیت رکھتی ہیں یا بات صرف نعروں تک ہی محدود ہے؟ خاص طور پر پاکستان کی تحریکِ اسلامی___ہم سب کے لیے یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے!
’پیپلزپارٹی کی حکومت کے ۱۰۰ دن‘ (اگست ۲۰۰۸ئ) میں پروفیسر خورشیدصاحب نے حکومت کا پوسٹ مارٹم کرنے میں کوئی پہلو تشنہ نہیں رکھا۔ مغرب کی آنکھوں کے خار ترکی اور سوڈان کے متعلق ’اب سوڈان اور ترکی میں حکمران جماعت پر پابندی‘ میں موجودہ صورت حال پر خوب روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ’دشمن کا نام ہونا چاہیے‘ سے امریکا کے دانش وروں کی اسلام کے بارے میں اپنی مکروہ خواہشات کا برملا اعلان مسلمانوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ میری استدعا ہے کہ ایسے چشم کشا مضامین کثیرالاشاعت اخبارات میں ضرور شائع ہونے چاہییں تاکہ وسیع تر حلقے کو اسلامی ممالک خصوصاً امریکا کے ٹارگٹ ممالک کے حالات سے کچھ شناسائی ہو اور وہ جان سکیں کہ کس طرح امریکا مغرب کی مدد سے ہمارے گرد ایک جال پھیلاکر ہمیں تباہ کرنا چاہتا ہے۔ علاوہ ازیں ’مابعد جدیت کا چیلنج اور اسلام‘ علمی لحاظ سے اسلامی تحریکوں اور مسلمان دانش وروں کے لیے ایک فکرانگیز لائحہ عمل اختیار کرنے کی ایسی دعوت ہے جس پر اسلامی تحریکات کو ضرور غور کرنا چاہیے۔
اخبارات میں آئے روزبھوک، افلاس اور فاقوں کے ہاتھوں تنگ آکر خودکشی کرنے کی خبریں شائع ہوتی ہیں۔ لوگ اپنے ہاتھوں اپنے بچوں کے گلے گھونٹ رہے ہیں، قتل کر رہے ہیں۔ دل لرز کر رہ جاتا ہے کہ لوگ مسلمان معاشرے میں بھی خودکشی جیسی حرام موت کے مرتکب ہونے لگے ہیں اور کوئی ان کا پرسانِ حال نہیں۔ یہ معاشرتی انتشار کی بھی علامت ہے اور ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ ہمیں آگے بڑھ کر اس مسئلے کے حل کے لیے سنجیدگی سے عملی اقدامات اٹھانے چاہییں۔ عام لوگوں کے دکھ درد کا مداوا کرنے کی فکر کرنی چاہیے اور مصیبت جھیلنے کے لیے انھیں بے دست و پا، لاچار و بے بس اور تنہا نہ چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ مایوس ہوکر زندگی ہی ہار جائیں۔ میرے نزدیک جہاں کہیں بھی خودکشی کا کوئی ایسا واقعہ پیش آتا ہے اس کی ایک طرح سے ذمہ داری اردگرد کے جماعت اسلامی کے کارکنان پر بھی آتی ہے۔ الخدمت کمیٹی کے ممبران کو اپنے محلے اور گردونواح میں عوام کے مسائل سے آگاہ ہونا چاہیے۔ یہ ان کی اخلاقی اور منصبی ذمہ داری کا اہم ترین تقاضا ہے۔ عوامی تائید کے بغیر انقلاب ممکن نہیں۔ پرسانِ حال لوگوں کی حالت بدلنے پر زیادہ وسائل لگائے جائیں تو انقلاب کی منزل جلد قریب آسکتی ہے۔
’او- لیول کی اسلامیات میں فرقہ واریت‘ (جولائی ۲۰۰۸ئ) میں فاضل مضمون نگار سلیم منصورخالد نے کچھ زیادہ ہی حساسیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ایک ۱۵سال کا بچہ جو اولیول میں قدم رکھتا ہے وہ اس بات سے واقف ہے کہ وہ کس فرقے سے تعلق رکھتا ہے، وہ سُنّی ہے یا شیعہ۔ ۱۵ سال کا بچہ نہ تو کم سن ہے اور نہ کم فہم۔ میڈیا نے آج کے بچوں کو پہلے سے ہی بہت کچھ سکھا دیا ہے۔ فرقہ واریت ایک نہایت عام موضوع ہے۔
رمضان میں افطار کے اوقات میں باقاعدہ فقہ جعفریہ اور حنفیہ کے اوقات بتانا بھی فرقہ واریت کی مثال ہے۔ وہ بچہ جو پہلی بار روزہ رکھتا ہے، اُسے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اپنا روزہ کس فقہ کے مطابق افطار کرنا ہے۔ جیو پر نشر کیے جانے والے مشہور پروگرام ’عالم آن لائن‘ اور ’الف‘ فقہ جعفریہ اور فقہ حنفیہ کے علیحدہ علیحدہ علما آکر اپنے فقہ کی تعلیم دیتے ہیں۔ یہ کام والدین کا ہے کہ وہ اپنے بچے کو اپنے فقہ کے مطابق تعلیم دیں۔ اور یہ بات تو مانی ہوئی ہے کہ یہ دو الگ الگ فرقے ہیں جن کی دینی تعلیم ایک دوسرے سے قدرے مختلف ہے۔ پھر اگر فرخندہ نور صاحبہ کیمبرج بورڈ کے نصاب کے مطابق دو الگ فرقوں کی تعلیمات کا ذکر کرتی ہیںتو اس پر اتنا شدید ردعمل کیوں ہے۔
یاد آتا ہے کہ دو تین سال قبل اُردو ڈائجسٹ میں اولیول کے اُردو نصاب کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس پر کافی بحث ہوئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اُردو کا یہ نصاب تبدیل ہوچکا ہے۔ تعریف کی بات یہ ہے کہ کیمبرج یونی ورسٹی نے اس پر غور کیا اور اسے حل کیا۔
یہ ہماری قوم کا المیہ ہے کہ دوسروں کی ٹانگ کھینچنے سے باز نہیں آتے۔ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ خود کس قدر گہرے گڑھے میں گرے پڑے ہیں، کس دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔ اپنے نظام کو خراب قرار دے کر بڑے آرام سے سرخرو ہوجانا ہمارا مشغلہ بن گیا ہے۔ پھر جو اس نظام کا حصہ نہیں بنتا اسے مصنف کے مطابق ’کالا انگریز‘ بنا دیا جاتا ہے۔ دراصل ہم یہ تسلیم کرنے سے ہچکچاتے ہیں کہ انگریزوں کا نظامِ تعلیم ہمارے نظام سے کئی گنا بہتر ہے۔ GCE کو وہاں کون گھاس ڈالتا ہے، کون نہیں___ اس سے ہماری کیا غرض؟ ہمارے لیے تو یہی کافی ہے کہ اس نظام کے تحت بچوں کی بہتر طریقے سے نشوونما ہوسکتی ہے۔ پڑھائی صرف رٹا لگانے یا صفحات بھرنے سے نہیں ہوتی۔ بچپن میں ہمیں یہ سکھایا جاتا ہے کہ علم مومن کی گم شدہ میراث ہے جہاں سے ملے حاصل کرلے۔ اور تو اور، علم حاصل کرو چاہے تمھیں چین جانا پڑے۔ اب اگر ہم ایک بہتر نظام کو اپناتے ہیں تو ہم خود اپنے ہی بڑوں کے مذاق/طعنے کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ ایسے میں ایک دوسرے پر مخصوص چھاپ لگانے سے کسی کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے ہم اس مسئلے کا حل کھلے دل سے نکالیں۔