اکتوبر ۲۰۰۸

فہرست مضامین

دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا تازہ ہدف ___ پاکستان

پروفیسر خورشید احمد | اکتوبر ۲۰۰۸ | شذرات

Responsive image Responsive image

مختلف ذرائع سے یہ بات اب مصدقہ ہے کہ برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیر اور امریکی صدر جارج بش کے درمیان ایک خفیہ ملاقات میں بش نے بلیر سے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ہدف افغانستان اور عراق ہی نہیں بلکہ بالآخر ایران، سعودی عرب اور پاکستان بھی ہیں۔ بش اور بلیر اس بات پر متفق تھے۔ صدربش کے وہ مشیر جن کا تعلق اسرائیلی لابی یا نیوکونز (Neo-Cons) سے ہے، وہ تو پہلے دن سے یہ بات کہہ رہے ہیں بلکہ کئی تھنک ٹینک اپنے اپنے انداز میں ۱۹۹۹ء سے اب تک یہ بات کہتے رہے ہیں کہ شرق اوسط کے پورے سیاسی نقشے کوتبدیل کرنا اور خاص طور سے پاکستان کو اس نقشے سے مٹا دینا امریکا کا ہدف ہونا چاہیے۔ ہنری کسنجر نے بھی بڑے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ:

war on terror is a misnomer because terror is a method, not a political movement

(دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک غلط عنوان ہے اس لیے کہ دہشت گردی سیاسی تحریک نہیں، ایک طریق کار ہے)

جب ان سے پوچھا گیا کہ پھر امریکا جس جنگ میں مصروف ہے، اس کا ہدف کیا ہے؟ تو ان کا جواب تھا: Radical Islam۔ مزید سوال ہوا کہ ’ریڈیکل اسلام‘ کیا ہے؟ توارشاد ہوا: that which is not secular (وہ جو سیکولر نہیں ہے)۔ (ڈان، ۱۸ستمبر ۲۰۰۸ئ)

ویسے تو یہ بلی کبھی بھی تھیلے میں بند نہ تھی اور باہر اُچھلتی کودتی پھر رہی تھی لیکن گذشتہ دومہینوں میں جس طرح امریکی افواج نے پاکستان کی سرحدات کی خلاف ورزی کی ہے، بغیر پائلٹ کے جہازوں (ڈرون)، ہیلی کاپٹرگن شپس، اے-۱۳۰ اور بالآخر ایف-۱۶ سے بم باری کی ہے اور سب سے بڑھ کر ۳ستمبر کو امریکی فوجیوں نے انگوراڈا کے مقام پر زمینی کارروائی کی ہے،  اس نے ان تمام پردوں کو چاک کردیا ہے جو امریکا کی اس جارحیت کے درمیان حائل تھے۔ نیویارک ٹائمز نے واضح الفاظ میں رپورٹ کیا ہے کہ جولائی ۲۰۰۸ء میں صدربش نے واضح احکام جاری کیے ہیں کہ پاکستان کی سرزمین پر بلاواسطہ اور بلااطلاع کارروائی کی جائے اور اسی پر عمل ہو رہا ہے۔ حتیٰ کہ حکومت پاکستان کے کمزور اور بزدلانہ احتجاج کے بعد امریکی افواج کے سربراہ ایڈمرل مولن جس وقت اسلام آباد میں وزیراعظم کو پاکستان کی حاکمیت کے احترام کا بھاشن دے رہے تھے تو عین اسی وقت امریکی ڈرون پاکستانی حدود کوپامال اور پاکستان کے شہریوں کو شہید کر رہے تھے۔ اس کے ساتھ پاکستان کی فوج کو پاکستانی عوام کے خلاف صف آرا کرکے فوج کو محافظ کے بجاے دشمن کے مقام پر لانے، پاکستان کی نیوکلیر صلاحیت پر دست درازی کرنے، اور پاکستان کی آئی ایس آئی میں تبدیلیوں کے دھمکی آمیز مطالبات سب ایک ہی پلاٹ کے حصے    اور ایک ہی منصوبے کی کڑیاں ہیں۔ جو دیکھنا نہ چاہیں ان کا تو کوئی علاج نہیں، لیکن اب تو صرف دل کی آنکھ نہیں، سر کی آنکھ سے بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ امریکا کے مقاصد اور اہداف کیا ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ہمارا رویہ اور ہماری پالیسی کیا ہونی چاہیے۔ ہم صرف چند ضروری اشارے کرتے ہیں:

۱- امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا مقصد ’القاعدہ‘ یا ’طالبان‘نہیں، مسلم دنیا کے نقشے کی تبدیلی ہے۔ یہ اللہ کا کرم ہے کہ امریکا اپنی اس جنگ میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ عراق میں بری طرح ناکام رہا ہے اور اب افغانستان میں بھی ناکامی کا منہ دیکھ رہا ہے۔ دونوں ملکوں میں زمین اس کے پائوں تلے نکل رہی ہے۔ افغانستان پر جو گروہ قابض ہے وہ عوام میں غیرمقبول ہے، وارلارڈز کی حکمرانی ہے اور وہ بھی اپنے اپنے محدود علاقوں میں۔ ہیروئن کا کاروبار عروج پر ہے اور دنیا کی ۹۰ فی صد رسد افغانستان سے کی جارہی ہے۔ طالبان اب ایک دینی گروہ کا نام نہیں، ایک قومی مزاحمت کا عنوان ہے۔ امریکی دانش ور، سابق فوجی کمانڈر اور سفارت کار اعتراف کر رہے ہیں کہ عراق کی طرح افغانستان میں امریکا جنگ ہار چکا ہے۔ امریکی مجلہ فارن افیرز کے تازہ ترین شمارے (ستمبر-اکتوبر ۲۰۰۸ئ) میں ایک نہیں دو مضمون اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں اور امریکی قیادت کو اس حقیقت کو تسلیم کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ پاکستان کی حکومت، فوجی قیادت اور پالیسی سازوں کو بھی اس بات کو سمجھ لینا چاہیے اور امریکا کی خاطر اپنی ہی قوم سے اس جنگ کو     فی الفور ختم کرنا چاہیے۔ اس کے لیے خارجہ پالیسی کی تشکیلِ نو اور دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ سے بتدریج لاتعلقی ضروری ہے۔

۲- سیاسی مسائل کا فوجی حل نہ کبھی ہوا ہے نہ ہوسکتا ہے۔ اس لیے اسے ناک کا مسئلہ بنانے کے بجاے مذاکرات، افہام و تفہیم اور سیاسی عمل کے ذریعے معاملات کو سدھارنے کی کوشش کی جائے اور امریکا کے دبائو کو ماننے سے صاف انکار کیا جائے۔ ان کے do more (مزید کرو) کے جواب میں صاف طور پر no more (مزید نہیں) کہہ دیا جائے اور اس پر پوری قوم کو ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مستحکم کردیا جائے۔ یہ قوم کے دل کی آوازہے۔ امریکی اداروں کے تحت کیے جانے والے سروے میں بھی ۷۳ سے ۹۰ فی صد آبادی نے دہشت گردی کے خلاف اس جنگ سے لاتعلق ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔

۳- پارلیمنٹ کا اجلاس بلا کر متفقہ قومی موقف کا اعلان کیا جائے اور حکومت، فوج اور قوم سب اس پر مضبوطی سے کاربند ہوجائیں۔

۴- امریکا کو وارننگ دے کر اس جنگ سے لاتعلق ہونے کا ٹائم فریم دے دیا جائے۔

۵- ناٹو ممالک نے تو یہ اعلان کردیا ہے کہ ہمارا مینڈیٹ صرف افغانستان کی حد تک ہے اس لیے ہم پاکستان کی سرزمین پر کارروائی کے مجاز نہیں لیکن امریکا اب بھی اپنے موقف پر عیاری کے ساتھ قائم ہے۔ اس کا جواب صرف ایک ہے اور وہ ہے ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ سے پاکستان کی لاتعلقی۔ اگر امریکا اس کے باوجود دبائو ڈالتا ہے اور سرحدوں کی خلاف ورزی کرتا ہے تو افغانستان میں موجود تمام فوجوں کے لیے رسد کی فراہمی پر پابندی اور ہرکارروائی کا منہ توڑ جواب۔ امریکا سے جنگ کرنے کی بات کوئی نہیں کر رہا، لیکن امریکا کے حملوںکا جواب ہمارا حق اور فرض ہے۔ قوم نے اس فوج کی ہر ضرورت کو اپنا پیٹ کاٹ کر اس لیے پورا کیا ہے کہ یہ ملک کی سرحدوں کے دفاع کا کام انجام دے، وہ اس کی اہلیت رکھتی ہے، پوری قوم اس کا ساتھ دے گی۔ کیا پاکستان وینزویلا، کیوبا، شمالی کوریا اور لبنان سے بھی زیادہ کمزور ہے کہ ہم اپنی سرحدوں کے دفاع اور اپنی عزت کی حفاظت کے لیے دنیا کی چھٹی یا ساتویں بڑی فوج ہونے اور ایٹمی صلاحیت کی موجودگی کے باوجود اپنا دفاع نہیں کرسکتے۔ یہ جنگ بازی اور جارحیت نہیں،عزت اور آزادی کے دفاع کا مسئلہ ہے اور اس سلسلے میں جو بھی کوئی کمزوری دکھائے گا، قوم اسے برداشت نہیں کرے گی۔

ہم تمام مسائل کے سفارتی اور سیاسی حل ہی کو اولیت دیتے ہیں لیکن اگر کوئی اپنی طاقت کے زعم میں ہماری حاکمیت اور آزادی پر دست درازی کرے گا تو اس کو منہ توڑ جواب دینا ہمارا فرض اور مسلم اُمت کی روایت ہے۔ برداشت کی ایک حد ہوتی ہے اور امریکا کی موجودہ قیادت نے  ہرحد کو پامال کردیا ہے۔ پاکستانی قوم اور قیادت کے پاس اس کے سوا کوئی باعزت راستہ نہیں کہ امریکا کی اس جنگ کو خیرباد کہے اور اپنے گھر کی حفاظت اور تعمیر پر ساری توجہ دے۔ اسپین اور اٹلی نے اپنے اپنے قومی مصالح اور مفادات کے تحفظ کے لیے یہی راستہ اختیار کیا ہے اور ناٹو کا ممبر ہوتے ہوئے کیا ہے___آخر ہمارے لیے عزت اور آزادی کے تحفظ کے لیے اس تباہ کن جنگ سے دست کش ہوجانے کے سوا اور کیا راستہ ہے۔

ایک فرانسیسی مفکر ایمانویل ٹوڈ (Emmanual Todd)  نے اسپین کے ردعمل سے سبق سیکھنے کا مشورہ دیا ہے۔ ہم بھی اپنی بات اس کے اس اقتباس پر ختم کرتے ہیں کہ اس میں روشنی کی ایک کرن نظر آتی ہے۔ پاکستان کے لیے بھی اس میں بڑا سبق ہے:

میں ایک خوش گوار پہلو پر اپنی بات ختم کرنا چاہوں گا۔ عراق سے اسپینی افواج کے انخلا سے امیدپیدا ہوئی ہے۔ بش کی جنگ کا شاید یہ مقصد تھا اور ایسا ہو بھی سکتا تھا کہ ایک مسلسل اور وسیع ہوتے ہوئے تشدد کا منحوس چکر آگے بڑھتا رہے۔ ہسپانویوں، اطالویوں، جاپانیوں، انگریزوں اور دیگر پر ایک دفعہ حملہ ہوجائے تو ان کی آبادیاں غیرمعینہ مدت کی جنگ کے آگے سرنگوں ہوجائیںگی۔ جب دہشت گردوں نے ۱۱مارچ ۲۰۰۴ء کو میڈرڈ میں حملہ کیا تو کسی کو نہیں معلوم تھا کہ اسپینی عوام کا ردعمل کیا ہوگا۔  اسپینی اس عظیم جھوٹ کو قبول کرسکتے تھے کہ عراق پر حملے کا مقصد دہشت گردی کی جنگ کو کم کرنا ہے۔ دہشت گردی کا اسپینی ردعمل نسلی منافرت کا اُبھار اور امریکا سے زیادہ قربت بھی ہوسکتا تھا۔ جنگ کی ابتدائی وجوہات (اس خاص صورت میں غیروجوہات/ non-reasons) کو نظرانداز کردینا اور قدیم زمانے کی طرح لڑائی کے منحوس دائرے کی گرفت میں آجانا آسان ہے۔ شاید پہلی جنگ عظیم اس کی ایک مکمل مثال ہے۔ یہ قومی مفادات کے حصول کے لیے شروع ہوئی اور جلد ہی ایک بے معنی خونی غسل میں تبدیل ہوگئی۔ یورپ کی قومیں سب کچھ کھونے کے بعد بھی برسوں لڑتی رہیں۔

اسپین میں اس کے برخلاف ردعمل رونما ہوا۔ اسپینی ووٹروں نے (سابق وزیراعظم) ازنار سے نجات حاصل کرلی، (نئے منتخب وزیراعظم) زپاٹیرو نے عراق سے اسپینی افواج واپس بلوا لیں، اورشاید یہی بات بڑھتے ہوئے تشدد کے اس چکر کو توڑنے کے لیے کافی ہو جس کی بہت سے توقع کر رہے تھے اور کچھ اس کی امید کرنے والے بھی تھے۔ شاید ہم اسپینی عوام کے اس سے زیادہ احسان مند ہیں جتنا ہم جانتے ہیں۔ اگر ایک لمحے کے لیے بش کے الفاظ مستعار لیے جائیں تو ان کا ووٹ، ان کا فیصلہ درحقیقت شر پر خیر کی فتح تھی۔