تدوین ِحدیث کی تاریخ میں چالیس حدیثوں (اَربعین) کو جمع کرنے کی دیرینہ روایت موجود ہے۔ اس روایت کی آبیاری میں ہمارے اہلِ علم کی کثیر تعداد نے حصہ لیا۔ سب سے زیادہ مقبولیت ساتویں صدی ہجری کے محدث امام یحییٰ بن شرف نو.َ .َ وِی کی مرتبہ اَربعین کو حاصل ہوئی۔
امام نووی ایک بلندپایہ عالم اور عابد و زاہد شخص تھے۔ ان کی زندگی حصولِ علم کے لیے غیرمعمولی محنت و کاوش اور حددرجہ قناعت اور فقرودرویشی کے رویوں سے عبارت ہے۔ ان کے خلوص اور حسنِ نیت کا نتیجہ ہے کہ ان کی اَربعین کی بیسیوں شرحیں شائع ہوئیں، پھر اُنھی کی تقلید میں مختلف شائقین نے اپنی اپنی اَربعین (چالیس حدیثوں کے مجموعے) شائع کیے۔
امام نو.َ .َ وِی کی منتخب چالیس احادیث موضوعات کے اعتبار سے اس قدر جامع اور ہمہ گیر ہیں کہ ان میں ایک مسلمان کے لیے قرآن وسنت کی اہمیت، حلال و حرام، حقوق و فرائض، تجارت و کاروبار، عبادات و عقائد، معاشرت و معیشت، توبہ واستغفار اور اخلاقیات و معاملات کے بارے میں پوری ہدایات موجود ہیں۔
پیشِ نظر مجموعہ اس اعتبار سے ایک امتیازی حیثیت رکھتا ہے کہ اس کے مرتب اور مترجم نے خود امام نووی سے منسوب شرح کا ترجمہ کیا اور ہرحدیث کے موضوع سے متعلق دوسری احادیث، انبیا، علما، صلحا اور بزرگانِ اُمت کے اقوال، نصائح اور اہم نکات بھی یک جا کردیے ہیں۔ مزیدبرآں مرتب نے وطنِ عزیز کے موجودہ حالات و مسائل کے تناظر میںاپنی جانب سے موضوع کی مناسبت سے ضروری تبصرے بھی شامل کردیے ہیں۔ اس طرح ہرحدیث کا مرکزی موضوع ایک جامع اور مستقل مضمون کی شکل اختیار کرگیا ہے، جس میں متذکرہ بالا اضافوں کے علاوہ متنِ حدیث کا اُردو ترجمہ اور لفظی معانی بھی موجود ہیں۔ ہرمضمون کے آخر میں ’فقہ الحدیث‘ کے عنوان سے خلاصۂ کلام کے طور پر ایک ہدایت نامہ بھی مرتب کردیا ہے جس کی حیثیت ’پس چہ باید کرد…‘ کی ہے۔
بحیثیت مجموعی یہ احادیثِ نبویؐ کا ایک نہایت عمدہ مجموعہ ہے۔ نہ صرف انفرادی مطالعے میں، بلکہ اجتماعی مطالعے کے طور پر بھی (اجتماعات یا اسٹڈی سرکل میں) اس کا ایک ایک جزو پڑھا جائے تو قارئین و سامعین پر اُس کے مفید اثرات مرتب ہونے کی توقع ہے، ان شاء اللہ۔ کتابت اور پیش کاری ناشر کے صاحبِ ذوق ہونے کی علامت ہے۔ امام کا نام اِعراب کے ساتھ (نَوَوِی) لکھنے کا اہتمام ضروری تھا۔ (رفیع الدین ہاشمی)
مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی صاحب محتاجِ تعارف نہیں۔ جامعہ اشرفیہ ان کی پہچان ہے۔ اب جامعہ نے اپنا گرلز کالج بھی قائم کیا ہے۔ ماہنامہ الحسن لاہور میں ان کا درسِ حدیث ۲۰سال سے شائع ہوتا رہا ہے۔ ان دروس میں سے ۱۶۶ احادیث کے درس منتخب کر کے اس کتاب میں جمع کردیے گئے۔ اس کی خوبی یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس وقت جو بھی اہم ضروری مسائل ہیں ان سب کے بارے میں بہت اچھے انداز سے رہنمائی ملتی ہے۔ مثال کے طور پر زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں، اس ذیل میں ۶صفحے پر ٹیلی فون کو باعثِ رحمت بنانے پر ایک جامع تحریر مل جاتی ہے۔ اسی طرح قرض کے بارے میں جو حدیث ہے اس کی تشریح میں قرض کے بارے میں تمام ضروری باتیں مل جاتی ہیں۔ قنوتِ نازلہ پر چار صفحے کے درس میں ضروری امور بیان کرکے آخر میں مزید مطالعے کے لیے چار کتابوں کے حوالے مع صفحات نمبر دیے ہیں۔ اسی طرح گھریلو زندگی میں مغربی تہذیب کی نقالی کا موضوع اس حدیث (ص ۶۵۲) پر قائم کیا ہے جو چھوٹوں پر رحم اور بڑوں کی عزت نہ کرنے کے بارے میں ہے۔
احادیث کا گہرا مطالعہ ہے، مرکزِ شہر میں بیٹھے ہیں اس لیے ایک شہر اور معاشرہ نظر میں ہے۔ ان کی تحریر مسئلے کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرتی ہے لیکن زور نظری بحثوں پر نہیں، عملی رہنمائی پر ہے۔ اندازِ تحریر شُستہ اور سلیس ہے (عالمانہ نہیں)۔ بے حد مفید کتاب ہے۔ اس کے درس اخبارات و رسائل میں نقل کیے جاسکتے ہیں اور کتاب سب کو خاص طور پر طلبہ و طالبات کو پڑھنا چاہیے۔ کتاب میں کوئی ترتیب نہیں، آپ فہرست سے موضوع تلاش کرسکتے ہیں۔ (مسلم سجاد)
اخوان المسلمون کے نظام تربیت کی ایک منفرد خصوصیت تعلق باللہ، ذکرالٰہی اور مسنون دعائوں کا اہتمام ہے۔ بانیِ تحریک امام حسن البنا شہیدؒ نے اس غرض کے لیے ایک نصاب مرتب کیا تھا جو قرآنی اوراد، روزانہ وظائف اور مسنون دعائوں اور اذکار پر مشتمل ہے۔ ان کی ہدایت تھی کہ ہراخوان شب و روز کے کسی بھی حصے میں اس کا اہتمام کرے اور اس کو اپنا معمول بنالے، اور کوئی دن تلاوتِ قرآن سے خالی نہ جائے۔ اخوان المسلمون نے راہِ خدا میں استقامت اور قربانیوں کی جو لازوال تاریخ رقم کی ہے، یہ اسی ہدایت، اخلاص اور تربیت کا فیضان ہے۔ اس کے خوش گوار اثرات اس کے سیرت و کردار اور تحریکی کام پر مشاہدہ کیے جاسکتے ہیں۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان محترم قاضی حسین احمد اس مجموعے کی اسی اہمیت کے پیش نظر رقم طراز ہیں: ’’اگر ہم امام حسن البنا شہیدؒ جیسے متقی، عابد، شب زندہ دار اور مجاہد فی سبیل اللہ مرشد کی ہدایات کے مطابق ان کو صبح و شام کا ورد بنا لیں، تو یقینا ہمیں للہیت اور اخلاص کی وہ دولت نصیب ہوگی جو اللہ کی طرف دعوت دینے والوں کے لیے حقیقی ’زادِ راہ‘ ہے‘‘۔ (تقریظ، ص ۱۱)
محترم آبادشاہ پوری مرحوم کے ترجمے کے ساتھ اسے ۱۹۷۱ء میں شائع کیا گیا تھا۔ اب منشورات نے اس ترجمے کو محترم عبدالغفار عزیز کی نظرثانی کے بعد شائع کیا ہے۔ یہ جیبی سائز پر اس کا نیا اڈیشن ہے۔(امجدعباسی)
علی گڑھ میں اسلامی تہذیبی فکر کے حامل دانش وروں نے اب سے تقریباً ۱۲ برس قبل اُردو میں ایک علمی مجلے آیات کا آغاز کیا تھا۔ ان ماہرین میں بیش تر سائنسی علوم کے حاملین تھے اور انھیں سماجی و اسلامی علوم کے ثقہ ماہرین کا تعاون حاصل تھا۔ مضامین کے تنوع اور تحقیقی وتجزیاتی آہنگ نے اس مجلے سے بہت سی اُمیدیں وابستہ کردی تھیں، لیکن ۱۹۹۸ء کے بعد اس کی اشاعت معطل ہوگئی۔ اب تقریباً ۱۰ برس بعد اس کا پہلا شمارہ زیرتبصرہ ہے۔ مثبت سوچ رکھنے اور زندگی کے معاملات کو مغرب کی نگاہ سے نہ دیکھنے والے اصحابِ علم اس تحقیقی مجلے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
۱۰ مقالات، ایک رپورٹ اور مؤثر اداریے پر مشتمل یہ شمارہ اسلام، سائنس اور عالمِ اسلام کو درپیش علمی چیلنج کو زیربحث لایا ہے۔ کم و بیش ہر مقالہ تعارف تبصرے کا تقاضا کرتا ہے۔ تاہم یہ توجہ دلانا ضروری ہے کہ اس معیاری مجلے میں تمام احادیث باقاعدہ حوالے کے ساتھ درج کی جائیں اور اگر کوئی ضعیف حدیث ہو تو کم از کم پاورق میں ادارے کی جانب سے اس کی نشان دہی ضرور کردی جائے۔ مثال کے طور پر ص ۵۷ پر ایک حدیث: ’’عالم کی روشنائی، شہید کے خون سے زیادہ وزنی ہے‘‘ امام غزالی کے حوالے سے درج کی گئی ہے۔ اس روایت پر بڑی جان دار بحثیں، روایت و درایت کے باب میں سامنے آئی ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسی کمزور بات دی نہ جائے کہ قرآن و سنت کے مجموعی مزاج سے مناسبت نہیں رکھتی اور اگر درج کی جائے تو اس پر دوسرا نقطۂ نظر بھی دے دیا جائے، اور حدیث کا عربی متن تو ضرور درج ہو، مکمل حوالے کے ساتھ۔
مدیرمحترم کے فکرانگیز خطبے میں یہ حوالے کہ: ’’نواب واحد علی شاہ کے خاندان کی سائنسی خدمات اٹھارھویں صدی سے شروع ہوکر انیسویں صدی کے نصف تک پھیلی ہوئی ہیں۔ وہ خود ۱۰۰کتابوں کے مصنف تھے،اور انھوں نے جدید سائنس کی درجنوں کتابوں کا اُردو زبان میں ترجمہ کرایا تھا۔ افسوس کہ ان کی مفروضہ داستان تعیش سے بچہ بچہ واقف ہے، لیکن علمی خدمات سے لوگ واقف نہیں‘‘ (ص ۱۸۶) واقعی قابلِ توجہ ہے۔ اس پہلو پر ایک جامع تحریر پڑھنے کا اشتیاق پیدا ہوا۔
مناسب ہو تو اس تحقیقی مجلے کو اُردو کا بین الاقوامی جرنل بنا دیا جائے، اور اس کی مشاورت و ادارت میں دیگر ممالک، یعنی پاکستان، عرب دنیا اور مغرب میں معروف دانش وروں کا تعاون حاصل کیا جائے۔ (سلیم منصور خالد)
شفیق الاسلام فاروقی صاحب نہ صرف پاکستانی قارئین بلکہ امریکی جیلوں کے مسلمان قیدیوں اور دنیا کی ان عظیم شخصیات کے لیے جن کو وہ خطوط لکھتے ہیں، (مثلاً کلنٹن، ٹونی بلیئر، آرچ بشپ آف کنٹربری، مسلم ممالک کے سربراہان اور دشمن ممالک کے سفرا) محتاجِ تعارف نہیں۔ اُمت کا درد انھیں اس ’جواں عمری‘ (پ: جنوری ۱۹۲۲ئ) میں بھی تڑپائے رکھتا ہے۔ ۳۳۳صفحات کی اس کتاب میں ۵۸صفحے کا ان کا مقدمہ ہے اور ۸صفحات میں انھوں نے اپنے حالاتِ زندگی لکھے ہیں۔ صہیونیت کی کامیابیوں کا بیان بہت زیادہ کرنے سے ایک رعب سا طاری ہوجاتا ہے اور مقابلے کا حوصلہ ٹوٹنے لگتا ہے لیکن مقابلے کے لیے دشمن سے آگاہی ضروری ہے۔ اس کام کا آغاز ۴۰،۵۰ سال پہلے مصباح الاسلام فاروقی صاحب نے Jewish Conspiracy سے کیا اور ہم لوگ لفظ پروٹوکول سے آشنا ہوئے۔ اب بھی کئی خیرخواہانِ اُمت اس کام میں مشغول ہیں۔ اس میں فاروقی صاحب بھی شامل ہیں۔
یہ کتاب پہلی نظر میں ایک تصنیف لگتی ہے۔ جس میں مصنف کے ۳۷ مضامین جمع کردیے گئے ہیں لیکن آگے انکشاف ہوتا ہے کہ یہ برطانیہ کے اخبارات کے ان مضامین اور کالموں پر مشتمل ہیں جن کے تراشے فاروقی صاحب کو ان کے احباب نے ارسال کیے ہیں۔ان کا عرصہ ۱۹۹۴ء سے ۲۰۰۷ء تک ہے۔ اس دوران برطانوی پریس میں یہودیوں کو خلاف جو کالم شائع ہوئے ہیں وہ آپ کو بڑی حد تک اِس میں مل جائیں گے۔ جیساکہ کتاب کے عنوان سے ظاہر ہے، مرکزی نکتہ یہ ہے کہ صہیونیت اپنے آخری دم پر ہے اور آخری باب لکھا جا رہا ہے۔ امید ہے کہ فاروقی صاحب جلد ہی ان خطوط کا مجموعہ شائع کردیں گے جو انھوں نے قیدیوں اور اہم شخصیات کے نام لکھے ہیں یا ان سے وصول کیے ہیں۔ یہ ان کا سلیقہ ہے کہ ہر چیز فائلوں میں محفوظ ہے، شائع کرنے کے اسباب فراہم ہونے میں وقت لگتا ہے۔ (م- س)
سانحۂ کارگل پر تحقیقاتی کمیشن کے قیام کا مطالبہ دوسرے ایسے ہی قومی حادثوں پر تحقیقات کے مطالبے کی طرح شاید ہی پورا ہو (حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ خفیہ رکھی گئی اور اس پر عمل بھی نہ ہوا)۔ جنٹل مین سیریز کی اس پانچویں کتاب میں جسے غالباً استغفراللہ کا نام رمضان کے ماہِ اشاعت کے حوالے سے دیا گیا ہے، سانحۂ کارگل کے اصل حقائق آشکار کیے گئے ہیں۔ یہ کتاب انگریزی میں Witness to Blunder کے نام سے ساتھ ہی شائع ہوئی ہے۔ یہ ایک اچھی روایت ہے۔ عموماً اتنا صبر نہیں کیاجاتا اور ترجمے کا ارادہ رہ جاتا ہے۔
سانحۂ کارگل کے بارے میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ جنرل مشرف کی کتاب بھی آچکی ہے۔ نواز شریف کا موقف بھی کچھ دوسری کتب میں سامنے آچکا ہے۔ اس کتاب نے اصل ذرائع تک پہنچ کر یہ ثابت کیا ہے کہ فوج میں چار کے ٹولے نے سول حکومت کو بے خبر رکھ کر اتنا بڑا اقدام کرڈالا۔ منصوبہ بندی کا یہ عالم تھا کہ فضائیہ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ کیونکہ فتح یقینی سمجھی گئی تھی اور یہ فرض کرلیا تھا کہ بھارت جواب نہیں دے گا، اس لیے واپسی کا کوئی انتظام نہیں سوچا گیا تھا (ہم کشتیاں جلانے والے لوگ ہیں)۔ اس مشق سے پاکستانی فوج کی جو جگ ہنسائی ہونی تھی وہ تو ہوئی لیکن فوج کے جوانوں کی قیمتی جانوں کا بڑے پیمانے پر ضیاع ہوا۔ کتاب ان افراد کی گفتگوؤں اور تبصروں پر مشتمل ہے جنھوں نے اس آپریشن میں حصہ لیا۔
کارگل کے حقائق کے ساتھ ہی اس کتاب میں بڑی خوبی سے مسئلہ کشمیر کی پوری تاریخ بیان کردی گئی ہے اور کارگل سے پہلے کے قریبی حالات بھی تفصیل سے آگئے ہیں۔ ساتھ ہی فوج کے افسروں اور جوانوںنے استقامت اور قربانی کی جو مثال پیش کی وہ بھی ریکارڈ پر آگئی ہے۔ کیا مصنف سے یہ توقع بے جا ہوگی کہ وہ سانحہ جامعہ حفصہ اور لال مسجد پر بھی ایسی ہی ایک حقائق کُشا کتاب مرتب کردیں۔ قوم اس حادثے کو انجام دینے والے کرداروں کی اپنی زبان سے یہ جاننا چاہتی ہے کہ ’حبِ وطن‘ کے کن جذبات سے یہ انجام دیا گیا اور ’v‘ کا نشان بناکر دکھایا گیا۔ یہ کہانی تو طویل ہوتی جارہی ہے۔ قبائلی علاقوں میں جو آپریشن کیے جا رہے ہیں ان کے ’سرجنوں‘ کی طرف سے بھی کچھ حقائق آنے چاہییں تاکہ صاحب ِ کتاب ’جنٹل مین اناللہ‘ لکھ سکیں۔ (م - س)
۱۹۷۴ء سے حج و عمرہ کی مسلسل سعادت حاصل کرنے کے بعد، سفرِحج و عمرہ کے حوالے سے پیش آنے والے مسائل و مشکلات کا عام فہم تذکرہ ہے اور مسائل کے حل کے لیے عملی راہ نمائی بھی دی گئی ہے۔ عموماً اہلِ پاکستان حجِ تمتع (عمرہ اور حج) کرتے ہیں، اس لیے مکہ پہنچ کر پہلے عمرہ کی ادایگی کرنا ہوتی ہے، لہٰذا عمرہ کا طریقہ بھی تفصیل سے بیان کر دیا گیا ہے۔ حج کی کتابوں میں عام طور پر مدینہ منورہ سے متعلق زیادہ تفصیلات نہیں ملتیں۔ مذکورہ کتاب میں مدینہ منورہ کی تاریخ، وہاں کی مساجد وغیرہ کے بارے میں بھی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ کتاب کا ایک اہم پہلو حاجی صاحبان کو حج کے بعد خوداحتسابی کی دعوت دینا ہے کہ حج کرنے کے بعد آپ نے اپنے میں کیا تبدیلی محسوس کی، اور میرا شمار کن لوگوں میں ہوا، نیز حج سے واپسی پر مجھے کن باتوں کو اپنانا چاہیے۔(پروفیسر میاں محمد اکرم)
ابوالامتیاز ع س مسلم، شخصیت اور شاعری ، ڈاکٹر غزالہ یونس، ناشر: علامہ قتیل اورینٹل لائبریری و مرکز تحقیق، پٹنہ بہار ۳۔ صفحات: ۳۱۰۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔ [نام ور ادیب، شاعر اور صحافی، ابوالامتیاز ع س مسلم کی سوانح اور فن پر ایک تحقیقی مقالہ، جس پر ونوبا بھاوے یونی ورسٹی ہزاری باغ نے مصنفہ کو پی ایچ ڈی کی ڈگری عطاکی۔ یہ کتاب ان کی شخصیت اور شعری اور نثری فن کے تقریباً تمام پہلوئوں کا تنقیدی جائزہ پیش کرتی ہے۔]
مجلہ تحقیق معاشرتی علوم ،مدیر: ڈاکٹر محمد اسحاق۔ اگست ۲۰۰۴ء سے جولائی ۲۰۰۶ئ۔ پاکستان مجلس تحقیق براے معاشرتی علوم، شعبہ عربی جامعہ، کراچی- ۷۵۲۷۰۔ [تنظیم اساتذہ کی مجلس تحقیق براے معاشرتی علوم کی چوتھی پیش کش ہے۔ اس کے روح رواں جامعہ کراچی کے شعبۂ عربی کے صدر ڈاکٹر محمداسحاق ہیں۔ ۹ مقالات جن میں بہت تنوع ہے، مثلاً تبیین قرآن میں سنت کی حیثیت اور فکرفراہی، سلطنت عثمانیہ کے گوہرآب دار۔ ۹مقالات اور ۵ کتب پر تبصرہ شاملِ اشاعت ہے۔ مدیر کے قلم سے اداریہ قرآن مجید اور پاکستان میں نصابِ تعلیم کی پالیسی بنانے والوں کے لیے نہایت مفید عملی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ پڑھنے میں دقت پیش آتی ہے، اگر ایک پوائنٹ سائز بڑھا دیا جائے تو ایک مقالہ شاید کم ہوجائے لیکن پھر سب پڑھے جائیں گے۔]
۳۶۵ کہانیاں ،حصہ سوم، مؤلف: محمد ناصر درویش۔ ناشر: بیت العلم ٹرسٹ، ST-9E، بلاک ۸،گلشن اقبال، کراچی۔ صفحات: ۲۴۱ (بڑی تقطیع)۔ قیمت (مجلد): درج نہیں۔ [بیت العلم ٹرسٹ کراچی کی دیگر علمی و دینی خدمات کے ساتھ ساتھ بچوں کے معیاری ادب کی تخلیق کے لیے کہانیوں کا سلسلہ۔ ۳۶۵ کہانیاں، حصہ سوم، کل چار حصے ہیں۔کہانیاں جدید دور کے مکالماتی اور دل چسپ انداز میں لکھی گئی ہیں۔ نبی کریمؐ اور صحابہ کرامؓ کی سیرت اور دیگر اخلاقی و سبق آموز کہانیوں کے ساتھ ساتھ اسلاف کی زندگی کے روشن پہلوئوں کا بالخصوص تذکرہ۔]