شادی بیاہ وغیرہ تقریبات کی رسوم کی پوری پوری اصلاح اس وقت تک ہو ہی نہیں سکتی جب تک کہ دینی زندگی اپنی صحیح بنیادوں پر تعمیر ہوتی ہوئی اس مرحلے پر نہ پہنچ جائے جہاں ان چیزوں کی اصلاح ممکن ہو۔ اس وقت تک [ہم سے وابستہ افراد] کو زیادہ تر صرف ان چیزوں سے اجتناب پر اصرار کرنا چاہیے جن کو صریحاً خلافِ شریعت کہا جاسکتا ہو۔ رہیں وہ چیزیں جو معاشرتِ اسلامی کی روح کے تو خلاف ہیں مگر مسلمانوں کی موجودہ معاشرت میں قانون و شریعت بنی ہوئی ہیں تو وہ ہمارے ذوقِ اسلامی پر خواہ کتنی ہی گراں ہوں، لیکن سردست ہمیں ان کو اس امید پر گوارا کرلینا چاہیے کہ بتدریج ان کی اصلاح ہوسکے گی۔ مگریہ گوارا کرنا رضامندی کے ساتھ نہ ہو، بلکہ احتجاج اور فہمایش کے ساتھ ہو یعنی ہر ایسے موقع پر یہ واضح کردیا جائے کہ شریعت تو اُس طرح کے نکاح چاہتی ہے جیسے ازواجِ مطہرات اور دوسرے صحابہ کرامؓ کے ہوئے تھے، لیکن اگر تم لوگ یہ تکلفات کیے بغیر نہیں مانتے تو مجبوراً ہم اس کو گوارا کرتے ہیں اور خدا سے دعا کرتے ہیں کہ وہ وقت آرہے کہ جب تم نبیؐ اور اصحابِ نبیؐ کی طرح کے سادہ نکاح کرنے کو اپنی شان سے فروتر نہ سمجھو!
ہمارا یہ رویہ تو اپنے حلقہ سے باہر کے لوگوں کے لیے ہے جن سے ہم مختلف قسم کے روابط پیدا کرنے اور جن کے ساتھ کئی طرح کے دنیوی امور میں معاملہ کرنے پر مجبور ہیں۔ لیکن خود اپنے حلقہ کے اندر ایسے جتنے روابط اور معاملات رونما ہوں،انھیں رسوم کی آلودگیوں سے پاک کر کے سادگی کی اس سطح پر لے آناچاہیے جس تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ نے انھیں پہنچایا تھا۔ ہمارے معاملات میں مباحات کو، مباحات ہی کی حد تک رہنا چاہیے اور ان میں کسی چیز کو قانون اور شریعت کے درجہ تک نہیں پہنچنا چاہیے۔ رواج کی رَو میں بہنے والے بہت سے ایسے ہوتے ہیں جو بغاوت کرنا بھی چاہتے ہیں مگر پہل کی جسارت نہیں کرسکتے۔ رسموں کی بیڑیوں سے نجات حاصل تو کرنا چاہتے ہیں مگر دوسروں سے پہلے انھیں کاٹنے کی جرأت نہیں رکھتے۔ اپنی پیٹھوں پر لدے ہوئے رواجوں کے بوجھوں سے ان کی کمریں ٹوٹ رہی ہوتی ہیں مگر ان کو پٹخ دینے میں پیش قدمی نہیں کرسکتے۔ یہ پہل اور پیش قدمی اب ہم لوگوں کو کرنی ہے۔ ہمارے ہر ساتھی کا یہ فرض ہے کہ پوری بے باکی سے پہل کرے۔ اور لوگوں کی ’ناک‘ بچانے کے لیے خود نکو بن کر معاشرتی زندگی میں انقلاب برپا کرے۔ خالص اسلامی انداز میں تقریبات اور معاملات کو سرانجام دینے کی مثالیں اگر جگہ جگہ ایک دفعہ قائم کردی جائیں تو سوسائٹی کا کچھ نہ کچھ عنصر ان کی پیروی کرنے کے لیے آمادہ ہوجائے گا اور اس طرح رفتہ رفتہ احوال بدل سکیں گے۔ (رسائل و مسائل، ابوالاعلیٰ مودودیؒ، ترجمان القرآن، ج ۲۹، عدد ۵، ذی القعدہ ۱۳۶۵ھ، اکتوبر ۱۹۴۶ئ، ص ۵۵-۵۶)