اطہروقار عظیم


ستمبر ۲۰۰۸ء کے ترجمان القرآن کے اشارات میں قاضی حسین احمد کا مضمون ’رمضان کاپیغام اور ملک کے حالات‘ نہایت جامع، برمحل اور بصیرت افروز تھا۔ خاص طور پر یہ پیراگراف تو آبِ زر سے لکھنے کے لائق ہے: ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چند کبیرہ گناہوں کے علاوہ عام احکام کی خلاف ورزی پر نہ تو کوئی حد قائم کی، نہ ہی تعزیر دی۔ مثلاً پردے کا حکم آنے کے بعد بھی کسی روایت سے یہ ثابت نہیں ہے کہ پردہ نہ کرنے پر کسی مسلمان (عورت) کو تعزیری سزا دی گئی ہو۔ ڈاڑھی رکھنے یا موسیقی سننے پر سزا دینے کی بھی کوئی روایت موجود نہیں ہے۔ میرے علم میں کوئی ایسا واقعہ نہیں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا خلفاے راشدینؓ نے ان برائیوں پر کوئی سزا نافذ کی ہو۔ (یقینا) ان تمام برائیوں کو تعلیم و تربیت، ترغیبِ آخرت کے خوف اور اللہ کا تقویٰ پیدا کر کے مٹانے کی کوشش کی گئی۔ (لہٰذا) حضوؐر اور خلفاے راشدینؓ کی سیرت کی روشنی میں اس کا کوئی جواز نہیں ہے کہ بچیوں کے اسکولوں کو برباد کیا جائے یا حجاموں کو نوٹس دیا جائے۔ اس طرح کے اعمال سے اس بنیادی مقصد (نظامِ عدل کے قیام) سے توجہ ہٹ جاتی ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیا اور رسولوں کو بھیجا ہے‘‘۔ (ص ۱۰-۱۱)

یقینا وقت آگیا ہے کہ اس طرح کے مسائل پر کھل کر بات کی جائے۔ اس سلسلے میں یہاں میں ایک واقعے کا ذکر کرنا چاہوں گا۔۲۴ اگست کو صبح اٹک کے مرکزی بازار میں موجود وڈیو شاپس کی مارکیٹ کو بم دھماکوں سے تباہ و برباد کردیا گیا۔ مزید یہ کہ اس واقعے سے دو دن پہلے اٹک شہر کے مختلف حجاموںکی دکانوں پر دھمکی آمیز خطوط پھینکے گئے یا پھر تقسیم کیے گئے جس میں تین دن کے اندر وڈیو شاپس بند کرنے، معروف تعلیمی ادارے میں مخلوط تعلیم ختم کرنے اور حجاموں کو شیو کرنے سے منع کیاگیا۔ بصورت دیگر سخت مالی و جانی نقصان ہونے کا عندیہ دیا گیا۔ میں خود جب خط بنوانے کے لیے ۲۵ اگست کو اٹک میں ایک حجام کی دکان پر گیا جہاں میں تقریباً پچھلے ڈیڑھ سال سے جا رہا تھا تو وہاں مرکزی دروازے پر ایک بینر آویزاں تھا جس پر یہ تحریر تھا: ’’یہاں صرف  سنت کے مطابق بالوں کی کٹنگ کی جاتی ہے اس لیے غیرشرعی کام (شیو) کرنے پر مجبور نہ کیا جائے‘‘۔ حتیٰ کہ اُس دن حجام نے خط تک بنانے سے انکار کردیا۔ دینی پس منظر ہونے کے باوجود مجھے زندگی میں پہلی دفعہ ’مذہبی انتہا پسندی‘ سے خوف محسوس ہوا۔

دکھ تو اس بات کا ہے کہ زبردستی ڈاڑھی رکھوانے اور وڈیو سنٹرز کو تباہ کے ساتھ ساتھ وادیِ سوات اور قبائلی علاقہ جات میں بچیوں و لڑکیوں کے اسکولوں کو بھی تباہ و برباد کیا جا رہا ہے۔ معروف انگریزی ماہنامہ ہیرالڈ (Herald) نے اپنا خصوصی شمارہ (اگست ۲۰۰۸ئ) سوات میں بچیوں کے اسکول تباہ کرنے کے حوالے سے نکالا ہے۔ اس میں بیان کردہ اعداد وشمار کے مطابق ایک سال سے بھی کم عرصے (جولائی ۲۰۰۷ء تا مئی ۲۰۰۸ئ) میں صرف وادیِ سوات میں بچیوں کے ۴۰اسکولوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ اس عرصے کے صرف ایک ماہ بعد صرف مٹہ اور کابل کے ذیلی اضلاع میں ۲۰ دنوں میں مزید ۲۴ اسکولوں پر بموں کے ذریعے حملے کیے گئے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سوات کے ۵۶۶ بچیوں کے اسکولوں میں سے ۱۳۱ اسکول بند ہیں یا انھیں تباہ کردیا گیا ہے۔ جس سے تاحال ۱۷۲۰۰ بچیاں اسکولوں کی تعلیم سے محروم ہیں۔ باجوڑ ایجنسی میں اس سے  بھی بُری صورت حال ہے جہاں بچیوں کے تمام اسکولوں کو تباہ کردیا گیا ہے یا پھر وہ بند پڑے ہیں۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں بھی صورت حال اس سے ملتی جلتی ہے۔ خیبرایجنسی میں درہ آدم خیل میں ایک مقامی اسکول جہاں ۶۰۰ بچیاں زیرتعلیم تھیں وہ بھی تاحال بند پڑا ہے۔ صرف کرم ایجنسی میں صورت حال نسبتاً بہتر ہے۔

آخر تحریک اسلامی کب تک اس صورت حال پر خاموش رہ سکتی ہے؟ کیونکہ اسلام کے ہی نام پر زیادہ تر واقعات ہو رہے ہیں۔ انتہاپسند (شرپسند) عناصر رات کو آتے ہیں۔ اسکولوں کے چوکیدار کو علیحدہ باندھ کر، اسکول میں موجود اسلامی لٹریچر اور قرآن پاک کے نسخے علیحدہ نکال کر عمارت کو بموں سے اڑا دیتے ہیں۔ پچھلے سال اکتوبر میں مہمند ایجنسی میں ایک خاتون استاد کو  صرف اس لیے ہلاک کردیا گیا کہ وہ اُن کے فہم اسلام کے مطابق پردے میں نہیں تھی۔ حالانکہ  ان علاقوں میں شرح خواندگی (بالخصوص عورتوں میں) نہایت کم ہے۔ انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے سروے کے مطابق قبائلی علاقوں میں ۲۹ فی صد مرد پڑھے لکھے ہیں، جب کہ صرف ۳ فی صد عورتیں پڑھی لکھی ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے اہلِ دانش قبائلی علاقوں میں پائے جانے والے اس فہم اسلام پر کھل کر بات کریں اور بار بار بات کریں تاکہ پاکستان کے دیگر شہری علاقوں میں عوام و خواص کی اکثریت پرواضح ہوسکے کہ تحریکِ اسلامی، اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے جس راستے کو اختیار کیے ہوئے ہے، اُس کا طریق کار اور عملی نتائج اُس فہمِ اسلام سے قطعاً مختلف ہیں جو کہ قبائلی علاقہ جات اور سوات کے اضلاع میں نافذ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ سب کارروائیاں سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق اسلام کا غلط تصور پیش کرنے اور اسے بدنام کرنے کے لیے مخصوص عناصر کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے بھی کوئی معتبر اور تحقیق شدہ راے سامنے آنا چاہیے۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ امریکی خارجہ پالیسی دنیابھر میں بالعموم اور مشرق وسطیٰ میں بالخصوص ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کا رخ متعین کرتی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں موجود اسرائیل فلسطین تنازعے میں امریکا کی غیرمشروط اور لامحدود اسرائیل نوازی‘ کئی عشروں سے دنیابھر میں سنجیدہ اہلِ علم حلقوں میں سوالیہ نشان بنی رہی ہے۔ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ آخر امریکا اسرائیل کی اتنے بڑے پیمانے پرمالی‘ عسکری‘ سفارتی‘ سیاسی اور اخلاقی مدد کرنے پر اتنا مجبور کیوں ہے؟

اس سلگتے سوال کا نہایت موثر اور پُرمغز جواب دینے کی کوشش دو مغربی دانش ور پروفیسر حضرات جان میرشیمر (John Mearshimer) اور اسٹیفن ایم والٹ (Stephen M. Walt)نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ Israel Lobby & US Foreign Policy میں کی ہے۔ پروفیسر جان میرشیمر شکاگو یونی ورسٹی میں شعبہ تدریس سے منسلک ہیں‘ جب کہ پروفیسراسٹیفن ایم والٹ ہارورڈ یونی ورسٹی میں بین الاقوامی امور کے ذیلی ادارے میں پڑھاتے ہیں۔

۸۳ صفحات کی اس رپورٹ کو مختصر کرکے لندن ریویو آف بکس نے اپنی ۲۳مارچ   ۲۰۰۶ء کی اشاعت میں شائع کیا ہے‘ جب کہ اصل رپورٹ بھی انٹرنیٹ پرکسی اچھے سرچ انجن (Google/Yahoo)کی مدد سے تلاش کی جاسکتی ہے۔ اس رپورٹ کی سب سے اہم خصوصیت اس کے ۲۱۱ حوالہ جات ہیں جو فاضل مصنفین نے اسرائیل نواز سیاست دانوں‘ دانش وروں اور سیاسی کارکنوں کی تحریروں اور بیانات سے اکٹھے کیے ہیں۔

ان محققین کی نظر میں امریکا کی اسرائیل نوازی کی دو اہم وجوہات ہیں: ۱- امریکا میں یہ تصور عام کردیا گیا ہے کہ امریکا اور اسرائیل کے عالمی تزویراتی مفادات یکساں ہیں ۲- یہ امریکا کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اسرائیل کی مدد کرے۔

امریکا اور اسرائیل کے تزویراتی مفادات مشترک ہونے کے تصور کا نتیجہ اسرائیل کی بھاری مالی امداد کی صورت میں نکلا ہے۔ گرین بک (جس میں سمندر پار بھیجے جانے والے عطیات اور قرضہ جات کا اندراج ہوتا ہے) کے مطابق اب تک اسرائیل ۱۴۰ارب ڈالر سے زائد کی امداد امریکا سے حاصل کرچکا ہے۔ سفارتی لحاظ سے امریکا کی اسرائیل نوازی کا اندازہ اس بات سے لگایاجا سکتا ہے کہ امریکا اقوام متحدہ کی ۳۲ اسرائیل مخالف قراردادوں کو ۱۹۸۲ء سے لے کر اب تک ویٹو (مسترد) کرچکا ہے۔حالتِ جنگ میں بھی امریکا اسرائیل کی بھرپور امداد کرتا رہا ہے مثلاً ۱۹۶۷ء اور ۱۹۷۳ء کی جنگوں میں امریکا کی نکسن انتظامیہ نے دو بار اسرائیل کی امداد کر کے اُسے روسی جارحیت سے بچایا ہے۔ اسی لیے ایک اہم امریکی عہدے دار نے بالکل صحیح کہا ہے: ’’ایسا اکثر ہواہے کہ جب ہم نے اسرائیلی وکیل کی حیثیت سے کام کیا ہے‘‘۔

رپورٹ میں فاضل پروفیسر محققین کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل نواز لابی کی سب سے موثر تنظیم امریکا اسرائیل عوامی امور کمیٹی (American Israel Public Affairs Committee) (AIPAC) نے امریکا کے مقتدر سیاسی حلقوں کو باور کرا دیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے مشترکہ تزویراتی خطرات سے نمٹنے میں باہمی تعاون سے دونوں کو فائدہ پہنچے گا۔

اس مبہم تصور کو اسرائیل نواز لابی نے مسلسل پروپیگنڈے کے ذریعے عقیدے کا درجہ  دے کر اکتوبر ۱۹۷۳ء کی جنگ میں ۲ئ۲ ارب ڈالر کی امداد امریکا سے حاصل کی ہے۔ اسی نے عرب ممالک کو تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کے انتہائی قدم اُٹھانے پر مجبور کیا ہے جس کی وجہ سے امریکا کو بھاری معاشی نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے۔

رپورٹ کے مطابق: اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف ظالمانہ کارروائیاں کرنے کے لیے ہمیشہ یہ دلیل دیتا رہا ہے کہ امریکا اور اسرائیل دونوں ممالک میں امن کو مشترکہ دہشت گردوں سے خطرہ ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پروفیسرز کے مطابق اسرائیل کے ساتھ غیرمشروط تعاون نے امریکی مفادات کو زیادہ نقصان پہنچایا ہے‘ مثلاً اسامہ بن لادن مسلم دنیا میں اپنے لیے ہمدردیاں‘ اسرائیلی افواج کی یروشلم میں موجودگی اور فلسطینیوں کی مظلومانہ کیفیت کو دلیل بناکر سمیٹتا ہے۔ یہی اسرائیل نوازی ہے جس کی وجہ سے مسلم دنیا میں امریکا کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپریل ۲۰۰۴ء میں ۵۲ سفیروں نے وزیراعظم ٹونی بلیر کو خط لکھ کر واضح کیا کہ اسرائیل فلسطین تنازعے نے عالمِ عرب بلکہ عالمِ اسلام میں امریکا کے خلاف نفرت کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

رپورٹ میں مختلف حوالوں سے ثابت کیا گیا ہے کہ اسرائیل امریکا کا قابلِ اعتماد اور وفادار اتحادی نہیں ہے کیونکہ امریکا کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کی مسلسل خلاف ورزی کرتا رہا ہے‘ مثلاً مقبوضہ بستیوں میں انخلا کے حوالے سے اور فلسطینی رہنمائوں کے منصوبہ بند قتل نہ کرنے کے حوالے سے اسرائیل اپنے وعدوں کی پاس داری میں یکسر ناکام رہا ہے۔ مزید یہ کہ اسرائیل نے حساس نوعیت کی دفاعی ٹکنالوجی‘ امریکا مخالف ملک چین کو دفاعی لحاظ سے مضبوط بنانے کے لیے فراہم کی ہے۔ ان دلائل کی بنیاد پر مصنفین نے اسرائیل کو امریکا کے لیے ایک تزویراتی بوجھ (strategic burden) قرار دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اسرائیل نواز حلقے امریکا سے غیرمشروط تعاون کا مطالبہ درج ذیل وجوہات کی بنیاد پر کرتے ہیں: ۱- اسرائیل ایک کمزور ملک ہے اور دشمنوں میں گھرا ہوا ہے ۲-اسرائیل ایک جمہوری ملک ہے اور کسی بھی حکومت کے ساتھ معاملات طے کرنے کے حوالے سے زیادہ مستحکم پوزیشن میں ہے۔ ۳- یہودیوں نے ماضی میں بہت زیادہ مظالم برداشت کیے ہیں اس لیے وہ امتیازی نرم رویے کے مستحق ہیں ۴-اسرائیل کی اپنے مخالفین کے مقابلے میں اخلاقی حیثیت بہت بہتر ہے۔

حالانکہ زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔اسرائیل نواز حلقوں کا یہ دعویٰ کہ اسرائیل ایک کمزور ملک ہے قطعاً بے بنیاد ہیں ۔ ہم جانتے ہیں کہ ۱۹۴۷ء میں ہی اسرائیلی فوج زیادہ آراستہ اور مؤثر اختیارات کی مالک تھی۔ ۱۹۵۹ء اور ۱۹۶۷ء کی جنگ میں شام‘ اُردن اور مصر کے خلاف   یہ کامیابیاں ایک مضبوط ملک اور مضبوط فوج پر دلالت کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں واحد ایٹمی طاقت ہے۔ سیاسی لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو اُردن اور مصر سے امن معاہدوں کے بعد اسرائیل کی تزویراتی حیثیت زیادہ مضبوط ہوگئی ہے۔

یہ کہنا کہ اسرائیل ایک معیاری جمہوری ملک ہے بالکل غلط ہے کیونکہ اسرائیل ایک یہودی ریاست ہے جس کی بنیاد نسلیت (خون) پر ہے حالانکہ امریکی جمہوریت اس کے برعکس ہے۔ یہی وجہ ہے اسرائیل میں موجود ۱۳ لاکھ عربوں کی حیثیت دوسرے درجے کے شہری کی سی ہے۔ رہی سہی کسر غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے میں ۳۸ لاکھ فلسطینیوں کو سیاسی حقوق سے یکسر محروم کرکے پوری ہوگئی ہے۔ لہٰذا یہ دعویٰ ناقص ہے۔

اسرائیل نواز حلقوں کا یہ کہنا کہ ماضی میں یہودیوں کی مظلومانہ حیثیت اسرائیل کی امداد اور اُس کے وجود کے برحق ہونے کی اخلاقی دلیل فراہم کرتی ہے ایک غیرمنطقی بات ہے۔ کیونکہ اگر کل یہودی مظلوم تھے تو آج اسرائیل کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد وہ ظالم بن کر رہ گئے ہیں۔ اتنے بڑے پیمانے پر یہودیوں کی آبادکاری اور فلسطینیوں کا اُن کے گھروں سے انخلا ظالمانہ طاقت کے استعمال کے ذریعے سے ممکن ہوا ہے‘ مثلاً حکومت عثمانیہ کے تحت ۱۸۹۳ء میں موجودہ اسرائیلی علاقوں میں ۹۵ فی صد عرب آباد تھے‘ جب کہ یہودیوں کی تعداد صرف ۱۵ہزار تھی یعنی ۳۵ فی صد۔ ۴۸-۱۹۴۷ء میں اسرائیل کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد ۷۰ہزار فلسطینیوں کو زبردستی ہجرت پر مجبور کیا گیا تاکہ اکثریت کو اقلیت میں بدلا جاسکے اور پروپیگنڈا یہ کردیا گیا کہ فلسطینی رہنمائوں نے فلسطینیوں کو ایسا کرنے پر مجبور کیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیل نواز حلقوں کا آخری دعویٰ کہ اسرائیل کی اخلاقی حیثیت اُس کے مخالفین سے بہتر ہے‘ ایک شرمناک دعویٰ ہے کیونکہ ۱۹۴۹ء سے ۱۹۵۶ء کے درمیانی عرصے میں اسرائیلی افواج نے ۵ہزار فلسطینیوں کو قتل کیا۔ ان میں سے اکثر نہتے اور غیرمسلح تھے۔ ۱۹۵۶ء سے ۱۹۶۷ء کے درمیانی عرصے میں سیکڑوں مصری قیدیوں کو اسرائیلی افواج نے قتل کیا تھا۔ ۱۹۶۷ء میں ۲ لاکھ ۶۰ہزار فلسطینیوں کو بے گھر کیا گیا۔ ۱۹۸۲ء میں صابرہ اور شتیلا کے مہاجر کیمپوں میں ۷۰۰ معصوم فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ پہلی انتفاضہ تحریک (۱۹۹۱-۱۹۸۷ئ) میں اسرائیلی افواج میں انسان کی ہڈیاں توڑنے والے آلات تقسیم کیے گئے۔ سویڈن کی ایک تنظیم ’بچوں کو بچائو‘ (save the children) کے تحقیقاتی جائزے کے مطابق ۲۹ہزار ۹سو کے قریب زخمی فلسطینی بچوں کو انتفاضہ تحریک کے پہلے دو سالوں میں ہسپتال لایا گیا۔ ان بچوں میں سے ایک تہائی بچوں کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ ان تمام بچوں کی عمر ۱۰ سال سے بھی کم تھی۔

دوسری انتفاضہ تحریک (۲۰۰۵ئ-۲۰۰۰ئ) کے ابتدائی دنوں میں ۱۰ لاکھ گولیاںچلائی گئیں۔ اس وقت سے اب تک اسرائیل ہریہودی کے بدلے ۴ئ۳ فلسطینیوں کو قتل کر رہا ہے‘   جب کہ مقتولین بچوں کی نسبت ایک اسرائیلی بچہ بالمقابل ۷ئ۵ فلسطینی بچے ہیں۔ فلسطینیوں کے علاوہ اسرائیل نے غیرملکی پرامن کارکنوں کوبھی قتل کیا ہے‘ مثلاً مارچ ۲۰۰۳ء میں ایک امریکی خاتون کو اسرائیلی بلڈوزر کے نیچے کچل کر مار ڈالا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم ایہودبارک خود تسلیم کرتا ہے کہ ’’اگر وہ فلسطینی ہوتے توضرور کسی دہشت گرد تنظیم میں شامل ہوجاتے‘‘۔

۱۹۴۴ء سے ۱۹۴۷ء تک صہیونی تنظیموں نے بموں کے ذریعے دہشت گردی کروائی ہے تاکہ برطانیہ کو فلسطین کی طرف راغب کرایا جاسکے۔ ہیم لیون برگ (Haim levenberg)کے مطابق یہودی دہشت گردوں نے ۱۹۳۹ء میں بسوں اور پُرہجوم جگہوں پر بم نصب کرنے کی خوفناک روایت کا آغاز کیا۔

محققین نے بحث کو سمیٹتے ہوئے سوال اٹھایا ہے: اگر تزویراتی اور اخلاقی حیثیت سے اسرائیل قابلِ اعتماد اتحادی نہیں ہے بلکہ تزویراتی بوجھ ہے تو پھر آخر کیوں امریکا کی خارجہ پالیسی کا تمام تر بہائو اسرائیل کی طرف ہے؟

اس کا جواب اُن کی نظر میں صرف ’اسرائیل نواز لابی‘ ہے جس کا مرکزی کردار امریکی صہیونی مختلف سیاسی کمیٹیوں اور تنظیموں کے ذریعے ادا کرتے ہیں مثلاً امریکی اسرائیل عوامی امور کمیٹی (AIPAC) اثرپذیری کے حوالے سے امریکا بھر میں دوسرے نمبر پر ہے‘ جب کہ ایک اور تنظیم (Conference of Presidents of Major Jewish Organizations) کا تعلق براہِ راست اسرائیل کی توسیع پسندانہ عزائم رکھنے والی لیکوڈ پارٹی (Liquid Party) کے ساتھ ہے۔ اس تنظیم کے ایک رکن کا کہنا ہے: ’’یہ ہمارے لیے ایک معمول کی بات ہے کہ کسی معاملے کی حکمت عملی طے کرتے وقت ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اسرائیلی اس کے بارے میں کیا سوچتے ہیں‘‘۔

یہ لابی اسرائیل نواز عیسائیوں کی پوری کھیپ رکھتی ہے۔ ان میں نمایاں نام گیری بائر (Gary Buer)‘ جیری فارویل (Jerry Forwell)‘ والف ریڈ‘ ڈک آرمیئے (Dick Armey)اور ٹام ڈیلے (Tom Delay) ہیں۔ ان متعصب عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ اسرائیل کا دوبارہ معرض وجود میں آنا بائبل کی پیش گوئی کے مطابق ہے اور اسرائیل پر دبائو ڈالنا‘ خدا کی رضامندی کے خلاف کام کرنے کے مترادف ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق اسرائیل نواز حلقے اپنے مضبوط روابط واشنگٹن میں کانگریس اور انتظامیہ کے اعلیٰ عہدے داران کے ساتھ رکھتے ہیں۔ لابی میں موجودمتحرک ارکان امریکی کانگریس کے ممبران کے لیے فنڈز اکٹھے کرتے ہیں۔ اُن کے حق میں سیاسی مہمات چلاتے ہیں۔ یوں اُن کی ہمدردیاں ہمیشہ اسرائیل کے مفادات کے حق میں اکٹھی کرلی جاتی ہیں حتیٰ کہ ایوان نمایندگان کے ممبران معلومات کے حصول کے لیے سرکاری لائبریری یا کانگریس ریسرچ سنٹر جانے کے بجاے ایپک  (AIPAC) سے رجوع کرتے ہیں۔ یہی ایپک   اُن کی تقریریں تیار کرکے اور پالیسیوں کے حوالے سے مشورے دے کر اور ایوان نمایندگان کے انتخابی اخراجات کے انتظامی معاملات سنبھال کر اُن کی ہمدردیاں سمیٹتی ہے۔

اس لیے ہمیں تعجب نہیں ہونا چاہیے جب ایریل شیرون نے امریکی سامعین کے سامنے کہا تھا: ’’جب لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہم اسرائیل کی مدد کیسے کرسکتے ہیں تو میں اُنھیں یہی کہتاہوں کہ صرف ایپک کی مدد کیجیے‘‘۔

رپورٹ کے مطابق اسرائیل نواز گروہ عوامی سطح پر بھی میڈیا کے ذریعے مسلسل یہ     یقین دہانی حاصل کرتے ہیں کہ امریکی عوام اسرائیل کے بارے میں مثبت راے رکھتے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اسرائیل نواز لابی کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ اسرائیل کے بارے میں آزادانہ مباحثہ نہ ہوسکے کیونکہ کھلم کھلا اور غیر جانب دارانہ مباحثے کے نتیجے میں امریکا سے یہ منطقی سوال لازماً پوچھا جائے گا کہ وہ اتنے بڑے پیمانے پر اسرائیل کی غیرمشروط امداد آخر کیوں کر رہا ہے؟ چنانچہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اہم اور مرکزی ذرائع ابلاغ کے اداروں پر اسرائیلی موقف سے ہمدردی رکھنے والے افراد بٹھائے گئے ہیں۔ جیساکہ مشرق وسطیٰ کے سیاسی معاملات کے ماہر صحافی ایرک الٹرمین (Eric Alterman) کا کہنا ہے: ’’ذرائع ابلاغ پر وہ لوگ چھائے ہوئے ہیں جو اسرائیل کے بارے میں تنقید کا سوچ بھی نہیں سکتے‘‘۔

لہٰذا اس میں قطعاً مبالغہ آرائی نہیں کہ شکاگو ٹائمز، واشنگٹن ٹائمز، وال سٹریٹ جنرل اور دیگر میگزینوں مثلاً کمنٹری ، نیو ری پبلک اور ویکلی سٹینڈرڈ ہرلمحہ پُرجوش انداز میں اسرائیل کے دفاع کے لیے تیار رہتے ہیں۔ مشہور رسالے ٹائم کے سابق انتظامی مدیر میکس فرینکلن (Max Franklen) نے اسرائیل نواز رویوں کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے: ’’مجھے اعتراف ہے کہ میں اسرائیل کے ساتھ جذباتی طور پر منسلک رہا ہوں‘ میرا اسرائیل کے بارے میں ہمدردانہ رویہ میرے اُن دوستوں کی وجہ سے ہے جو وہاں (اسرائیل میں) ہیں۔ اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میرے جریدے کے قاری عربوں سے زیادہ یہودی ہیں‘‘۔

اس سب کے باوجود اگر کبھی کونے کھدرے سے نرم الفاظ میں اسرائیل مخالف بات آبھی جاتی ہے تو اس کی سخت مزاحمت کی جاتی ہے مثلاً سی این این کو اسرائیل مخالف رپورٹ دکھانے پر ایک دن میں ۶ہزار مزاحمتی ای میلز وصول ہوئیں جس میں اس رپورٹ کے نشر کرنے پر متعلقہ ادارے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق اسرائیل نواز لابی کی ہمیشہ سے انتہائی کوشش رہی ہے کہ تعلیمی اداروں کی فضا کو اسرائیل نواز بنایا جائے کیونکہ اسرائیل کی پالیسیوں کے حوالے سے سب سے زیادہ  صحت مند تنقید انھی تعلیمی اداروں کی طرف سے کی جاتی ہے۔چنانچہ لابی درس گاہوں کے نصاب پر نظر رکھتی ہے اور مسلسل اس امر کا جائزہ لیتی ہے کہ پروفیسر حضرات کیا پڑھاتے ہیں اور کیا لکھتے ہیں۔ اسی سلسلے کو مزید منظم کرنے کے لیے ستمبر۲۰۰۲ء میں کٹر اسرائیل نواز یہودی دانش ور مثلاً ڈینیل پائپس اور مارٹن کریمر نے کیمپس واچ (campus watch) کے عنوان سے ایک ویب سائٹ بنائی۔ اس کا مقصد اسرائیل کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والے پروفیسروں کے نام اور نظریات کا اندراج کرنے کے لیے طالب علموں کی حوصلہ افزائی کرنا تھا۔ تاکہ اُن دانش وروں و پروفیسروں کو بلیک لسٹ کردیا جائے۔ یا پھر اُن پروفیسروں کی متعلقہ انتظامیہ پر سیکڑوں مذمتی خطوط اور ای میلز کے ذریعے دبائو ڈالا جاسکے مثلاً کولمبیا یونی ورسٹی میں پروفیسر ایڈورڈسعید اور تاریخ دان رشید خالدی کو لابی نے اپنے اس پروپیگنڈا مہم کا نشانہ بنایا۔

رپورٹ میں تفصیلاً بتایا گیا ہے کہ اسرائیل نواز حلقوں کا پروپیگنڈا ہتھیاروں میںسے سب سے زیادہ پرانا اور خطرناک ہتھیار‘ اپنے مخالفین پر سامیت مخالف یا یہودیت مخالف (antisemitic) ہونے کا الزام لگاتا ہے۔ حالانکہ یہود مخالف ہونا اور اسرائیل کی پالیسیوں پر تنقید کرنا دو مختلف باتیں ہیں لیکن اسرائیلی پالیسیوں پر ہونے والی تنقید کو یہودیت مخالف نفرت پھیلانے کے مترادف سمجھاجاتا ہے۔ یعنی اسرائیل پر تنقید کرتے ہی آپ سامیت مخالف ہوجاتے ہیں۔

پس ثابت ہوا کہ اسرائیل نواز لابی کامل اطاعت چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ۲۰۰۲ء کے شروع میں جب عرب دنیا میں امریکا کے خلاف نفرت کم کرنے کے لیے اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم پر نرم الفاظ میں امریکی انتظامیہ نے ناپسندیدگی کا اظہار شروع کیا تو اسرائیل نواز لابی نے ’مشترکہ دہشت گردی کے خطرے‘ کے حق میں پروپیگنڈا مہم شروع کرکے امریکی انتظامیہ کو اپنا   ہم خیال بنالیا۔ اس لیے یہ بات طے ہے کہ اگر بش انتظامیہ امریکا کو اسرائیل سے دُور رکھنے کی کوشش کرتی ہے یا پھر مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کی ظالمانہ کارروائیوں کے خلاف آواز بلند کرنے کی کوشش کرتی ہے تو اُسے فوراً اسرائیل نواز لابی اور خود کانگریس کے ارکان کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

رپورٹ میں انکشافات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے فاضل مصنفین لکھتے ہیں: اسرائیل نواز قوتیں امریکی افواج کو مشرق وسطیٰ کے معاملات میں اپنے مفادات کے مطابق ملوث کرنے میں طویل عرصے سے دل چسپی لیتی رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مارچ ۲۰۰۳ء میں عراق پر حملے کی اہم ترین وجہ ’عراقی تیل‘ کے بجاے اسرائیل نواز لابی کا دبائو تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اگست ۲۰۰۲ء میں ڈک چینی نے عراق کے خلاف جنگ کے حق میں سخت منفی بیانات کی مہم چلائی جوکہ ریکارڈ پر ہے۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں نے عراق میں تباہی پھیلانے والے غیرروایتی ہتھیاروں کی موجودگی کے حوالے سے اپنے مرضی کے موقف کے مطابق مبہم تصورات پر مبنی معلومات پھیلانے میں بھرپور حصہ لیا۔ آخر میں صدام حسین نے اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کے ساتھ تعاون کرنے کی بھی یقین دہائی کرا دی تھی جس کی وجہ سے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جنگ کے خطرات کم ہوگئے ہیں لیکن اسرائیل کے وزیرخارجہ شمعون پیریز نے ستمبر ۲۰۰۲ء میں ان الفاظ کے ذریعے جنگ پر اصرار کیا: ’’صدام حسین کے خلاف کارروائی ناگزیر ہوچکی ہے کیونکہ معائنہ کاروں کی قانونی کارروائی مہذب لوگوں کے لیے ہی مناسب ہوتی ہے‘ جب کہ غیرمہذب اور بے ایمان لوگ معائنہ کاروں کی کارروائی کو سبوتاژ کرسکتے ہیں۔

۱۹۹۸ء میںاسرائیل نواز قوتوں نے صدر کلنٹن کے نام کھلے خطوط میں صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ ان خطوط پر دستخط کرنے والے بیش تر افراد آج بھی امریکی انتظامیہ کی پالیسی سازی میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان میں نمایاں نام الیوب ابراہم‘ جان بولٹن‘ ڈگلس نتھ‘ ولیم کوئسل‘ برٹیڈلیوس‘ ڈونلڈ رمس فیلڈ‘ رچرڈ پارلے اور پال وولف وٹرز کے ہیں۔ اُس وقت تو یہ گروہ جنگ شروع کرانے میں ناکام رہا لیکن ناین الیون کے سانحے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس گروہ نے ڈک چینی اور بش کوعراق میں اقتدار کی تبدیلی کے لیے جنگ کرنے پر راضی کرلیا۔

اسرائیل نواز لابی نے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر پروپیگنڈا مہم کے ذریعے صدام حسین کی حکومت کو دنیا کی خطرناک دہشت گرد حکومت ثابت کیا اور اپنی خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے عراق میں تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کا افسانہ گڑھا۔ امریکا پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اسرائیل کے فطری اتحادی ہونے کے حوالے سے دبائو ڈالا گیا حتیٰ کہ ۲۰ستمبر ۲۰۰۲ء میں صدربش کے نام نیوکزرویٹوز (اسرائیل نواز لابی) نے خط میں یہاں تک لکھا: ’’اگر عراق کا    ناین الیون کے حملوں سے براہ راست تعلق ثابت نہ بھی ہوتا تو بھی دنیا کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے لیے حکمت عملی کے طور پر دہشت گردی کو فروغ دینے والی قوتوں کا خاتمہ ضروری ہے اور اس بات میں سب سے اہم کام صدام حسین کو عراق میں اقتدار سے الگ کرنا ہے‘‘۔

۲۰۰۳ء کے اوائل میں عراق پر حملے کے جواز کے لیے تفصیلی بریفنگ امریکی انتظامیہ کو دی گئی جس میں عراق کے حوالے سے مفروضوں پر مبنی معلومات کی بنا پر انتہاپسندانہ اقدام کی سفارش کی گئی اور حیرت انگیز طور پر عراق جنگ میں اسرائیل کے انتہائی سرگرم کردار پر پردہ ڈال دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ مشہور امریکی صحافی مائیکل کسلے نے ۲۰۰۲ء میں ایک مضمون میں بیان کیا: ’’اسرائیل کے عراق جنگ میں سرگرم کردار کے حوالے سے عوامی سطح پر شاذو نادر ہونے والی مباحث کو ایک مثال سے یوں بیان کیا جاسکتا ہے جیسے ایک کمرے میں ہاتھی ہو اور ہر کوئی اُسے دیکھ بھی رہا ہو لیکن کوئی یہ نشان دہی کرنے کے لیے تیار نہ ہو کہ یہ ہاتھی ہے‘‘۔

رپورٹ میں یہ بھی تفصیلاً بیان کیا گیا ہے کہ سقوطِ بغداد کے بعد اسرائیل نواز لابی نے شام کے خلاف مہم جوئی کے لیے ایندھن اکٹھاکرنا شروع کیا۔ شیرون کے قومی سلامتی کے مشیر    ابراہم ہالوے‘ وولف وٹرز‘ رچرڈ پارلے‘ یورین کلپن اور دیگر اسرائیل نواز صحافی مثلاً زیوشیف‘   یوی کلائیں نے شام میں بشارالاسد کی حکومت کو امریکا کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے اُسے اقتدار سے ہٹانے کا مطالبہ اپنی تحریروں اور بیانات کے ذریعے کرنا شروع کردیا۔ یہاں تک کہ ایپک نے  اپنا سیاسی اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے امریکی کانگریس میں شام مخالف قانون پاس کروالیا  جس پر ۱۲ستمبر ۲۰۰۳ء کو خود بش نے بھی دستخط کردیے۔ قانون کا واحد مقصد شام پر دبائو بڑھانا تھا۔

اسرائیل نواز لابی کا اب نیا ہدف ایران ہے۔ اس لابی نے ایران کے ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی کوششوں سے امریکا کو ڈرا کر اُسے ایران کے خلاف نیا فوجی محاذ کھولنے پر اُکسانا شروع کر دیا ہے۔ اسرائیلی وزیردفاع بن یامین بن ایلیرز کا یہاں تک کہنا ہے: ’’عراق ایک مسئلہ ہے لیکن اگر مجھ سے پوچھا جائے تو میں کہوں گا کہ ایران عراق سے زیادہ خطرناک ہے‘‘۔

حالانکہ ایران کے ایٹمی طاقت بننے سے امریکا کو براہِ راست کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ اگر واشنگٹن ایٹمی روس‘ ایٹمی چین حتیٰ کہ ایٹمی جنوبی کوریا کے ساتھ رہ سکتا ہے تو پھر وہ ایٹمی ایران کے ساتھ بھی رہ سکتا ہے لیکن اسرائیل نواز لابی کا پروپیگنڈا بدستور جاری ہے جس کا منہ بولتا ثبوت AIPAC کی ویب سائٹ ہے جس میں ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف مبہم معلومات پر مبنی مضامین آئے روز شامل ہوتے رہتے ہیں۔

فاضل محققین پروفیسرز نے اپنی رپورٹ کے اختتام میں امریکا کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر’’امریکا اسرائیل کے تحفظ کو مضبوط بنانے کی غرض سے‘ مشرق وسطیٰ کی جغرافیائی تشکیلِ نو میں ناکام رہتا ہے تو پھر اُسے انقلابی عربوں اور مسلم دنیا کے غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسرائیل تو اپنی طے شدہ حکمت عملی کے عین مطابق امریکا کے کندھوں کے پیچھے رہنے‘ موجودگی کو چھپاکر اپنے خلاف منفی اثرات کو کم کرے گا۔ لیکن امریکا کے خلاف مسلم دنیا میں نفرت میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ اس لیے امریکا کے قومی مفاد میں ہے کہ وہ اسرائیل سے فاصلہ رکھے کیونکہ اسرائیل کی قربت امریکا کی قومی سلامتی کو نئے خطرات سے دوچار کر رہی ہے‘‘۔