بیسویں صدی کی عالم گیر تحریک ِ احیاے اسلامی کے اصل معمار اللہ کے تین برگزیدہ بندے ہیں: ۱- علّامہ اقبال [م:۱۹۳۸ء] ۲- حسن البنا شہید [م:۱۹۴۹ء] ۳- سیّدابوالاعلیٰ مودودی [م: ۱۹۷۹ء]۔
اس دور کے فکری،تہذیبی اور سیاسی رجحانات کے فہم کی اصل کلید، ان شخصیات کے افکارو خیالات اور اُن کے نظریاتی، اخلاقی،سماجی اور سیاسی اثرات کا معروضی مطالعہ اور تفہیم ہے۔ آج کا تجزیہ نگار اور کل کا مؤرخ ان تاریخ ساز شخصیات اور اُن کی برپا کردہ تحریکات کے آئینے میں اُمت اسلامیہ کی اصل تصویر دیکھ سکتا ہے۔
تاہم، یہاں پر اسلامی مقدمۃ الجیش علّامہ اقبال کے فکری اور تہذیبی کارنامے کے بارے میں کچھ معروضات پیش ہیں:
اقبال کی علمی اور ادبی زندگی کا آغاز اُنیسویں صدی کے آخری عشرے میں ہوگیا تھا لیکن قومی زندگی پر ان کے اثرات یورپ سے واپسی کے بعد مرتب ہونے شروع ہوئے۔ اسرارِ خودی کی اشاعت اور انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں ان کی رُوح پرور شرکت نے نہ صرف فکرِ اقبال کے نئے دور کا آغاز کیا ، بلکہ اسی سے ان کی ملّی زندگی کے ایک نئے باب کا افتتاح بھی ہوا۔ اقبال نے اپنا پیغام، نظم و نثر اور زبان و قلم کے ذریعے پیش کیا اور بالآخر عملی سیاست میں شرکت کرکے تغیر اور تعمیر کے عمل میں مؤثر کردار ادا کیا۔ ان کی مساعی کا ثمرہ اسلامی فکر کی تشکیلِ نو، ملّت کی مزاجی کیفیت کی تعمیرِ جدید، ایک غلام قوم کی آزادی اور ایک عظیم اسلامی مملکت کے قیام کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے۔
ساتویں صدی ہجری میں جو کام مولانا جلال الدین رومیؒ (۱۲۰۷ء-۱۲۷۳ء) نے مثنوی کے ذریعے انجام دیا تھا، اسے دورِحاضر میں اقبال نے اوّلاً اسرارِ خودیاور رموزِ بے خودی اور پھر جاوید نامہ اور پس چہ باید کرد اے اقوام شرق کے ذریعے انجام دیا۔
اسرارِ خودی میں جمود اور انحطاط کے بنیادی اسباب کی نشان دہی کی گئی ہے۔ یونانی اور عجمی اثرات کی وجہ سے تصوف پرجو حیات کش تصور مسلمان ذہنوں پر مسلط ہوگیا تھا، اس کی تباہ کاریوں کو بیان کیا گیا ہے اور نفی ذات اور ترکِ دُنیا کی جگہ اثباتِ خودی اور تعمیرحیات کا اسلامی تصور پیش کیا گیا ہے۔
اسرارِ خودی کا مرکز تصور ایمان کی یافت اور اس کی قوت سے ایک نئے انسان: مردِمومن کی تشکیل ہے۔
رموز بـے خودی میں اس اجتماعی، اداراتی اور تاریخی پس منظر کو بیان کیا گیا ہے،جس میں یہ انسان اپنا تعمیری کردار ادا کرتا ہے۔ فرد اور ملّت کا تعلق، اجتماعی نصب العین، خلافت ِالٰہی کی تشریح و توضیح، اجتماعی نظم اور ادارات (خاندان، قانون و شریعت وغیرہ) کی نوعیت اور خودی کی پرورش اور ملّی شخصیت کے نمو میں تاریخ کے حصے پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
جاوید نامہ درحقیقت شاعر کے روحانی سفر کی داستان ہے، جس میں وہ عالمِ افلاک کی سیر کرتا ہے۔ دُنیا اور اس کے ماورا پر بصیرت کی نظر ڈالتا ہے اور مشرق و مغرب کی نمایندہ شخصیات کی زبان سے آج کی دنیا کے حالات، مسائل اور افکار اور مسلمانوں کے ماضی، حال اور مستقبل کے نقوش کو نمایاں کرتا ہے۔
پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرقمیں مغربی تہذیب کے چیلنج کا مطالعہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ یورپ کی ترقی کا اصل سبب کیا ہے اور مغربی تہذیب کے روشن اور تاریک پہلو کیا ہیں۔ مغرب کی اندھی تقلید کے خطرے سے قوم کو متنبہ کیا گیا ہے اور ترقی کی راہ کی نشان دہی کی گئی ہے۔
پیامِ مشرق اور ارمغانِ حجاز میں یہی پیغام دوسرے انداز میں بیان کیا گیا ہے اور اس کا اظہار اُردو کلام میں بھی ہوا ہے۔ خصوصیت سے بانگِ درا کی قومی نظموں میں بالِ جبریل کے ولولہ انگیز تغزل میں اور ضربِ کلیم کے بے باک رجز میں، جسے اقبال نے خود ’دورِحاضر کے خلاف اعلانِ جنگ‘ قرار دیا ہے۔
اقبال کی نثر کا غالب حصہ انگریزی میں ہے۔ ڈاکٹریٹ کے تحقیقی مقالے میں اُنھوں نے ایران کی مابعد الطبیعی فکر کا مطالعہ کیا ہے۔ یہ محض ایک فکری تاریخ نہیں ہے بلکہ اس کے آئینے میں اسلام پر عجمی اثرات کی پوری تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ اقبال نے تصوف کا جو تنقیدی جائزہ لیا ہے، وہ اصل مآخذ کے وسیع مطالعے پر مبنی ہے۔
اسلام کے تصورِ مذہب کی علمی اور فلسفیانہ تعبیر اسلامی الٰہیات کی تشکیل جدید میں پیش کی گئی ہے۔ اس کتاب میں بنیادی طور پر مغرب کے فکری رجحانات کو سامنے رکھ کر انسان، کائنات اور خدا کے بارے میں اسلامی تصور کی وضاحت کی گئی ہے۔ مذہب اور سائنس کے تعلق سے بحث کی گئی ہے اور ذرائع علم کا تنقیدی جائزہ لے کر بتایا گیا ہے کہ دورِ جدید کے یک رُخے پن کے مقابلے میں اسلام میں کس طرح عقل، تجربے اور وجدان کی ہم آہنگی قائم کی گئی ہے۔ اس بنیادی فکر کی روشنی میں آزادی اور عبادت کے تصور کو واضح کیا گیا ہے اور اُن تصورات کی بنیاد پر قائم ہونے والے تمدن کی خصوصیات پر روشنی ڈالی گئی ہے، نیز اسلامی قانون کی مثال کو لے کر یہ دکھایا گیا ہے کہ اسلامی تمدن میں ثبات اور تغیر کا حسین امتزاج کس طرح قائم ہوتا ہے اور اس کے اندر ہی سے زندگی اور حرکت کے چشمے کس طرح پھوٹتے ہیں۔
وقت کے علمی، تہذیبی، سیاسی اور معاشی مسائل کے بارے میں اقبال نے اپنے خیالات کا اظہار متعدد مضامین، تقاریر، بیانات، نجی گفتگوئوں اور خطوط کے ذریعے بھی کیا ہے جن کا بیش تر حصہ اب کتابی شکل میں شائع ہوچکا ہے۔
اگرچہ اقبال کی مخاطب پوری ملت اسلامیہ بلکہ پوری انسانیت ہے، لیکن خصوصیت سے اس نے مسلم اُمت کے ذہین اور بااثر تعلیم یافتہ طبقے کو خطاب کیا ہے۔ یہ مؤثر اور کارفرما طبقہ دو ذہنی اور لسانی روایات سے وابستہ تھا۔ اقبال نے اپنے افکار کے اظہار کے لیے بنیادی طور پر شعر کو ذریعہ بنایا اور غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک شکست خوردہ قوم کو حرکت اور جدوجہد پر اُبھارنے کے لیے عقلی اپیل کے ساتھ ساتھ جذباتی اپیل کی ضرورت تھی۔ وقت کی ضرورت محض عقل کو مطمئن کرنا نہ تھا بلکہ یہ بھی تھا کہ جذبات میں تموج برپا کرکے اس جمود کو توڑا جائے جس میں ملّت گرفتار تھی۔
ایک مدت سے برعظیم کی ملّت ِ اسلامیہ، انتشار ذات (split personality) کے مرض میں مبتلا تھی، یعنی عقیدے اور عمل میں یکسانیت اور مطابقت باقی نہ رہی تھی۔ عقیدہ موجود تھا مگر اس میں وہ حرارت نہ تھی جو جذبے کی خنکی کو دُور کرسکے اور بے عملی اور مایوسی کی برف کو پگھلا دے۔ عقیدے کا چراغ اگر ٹمٹما بھی رہا تھا تو عشق کی روشنی باقی نہیں تھی۔ اس کیفیت نے ’روحانی فالج‘ کی سی صورت اختیار کرلی تھی، جس سے حقیقی معنوں میں دین داری کی حس مجروح ہو رہی تھی۔ اس کیفیت میں تبدیلی اور انقلاب کے لیے صرف عقل کی روشنی کافی نہیں ہوسکتی تھی، اس کے لیے جذبے کی آگ بھی درکار تھی۔ اقبال نے جذباتی کیفیت میں انقلاب برپا کرنے کے لیے شعر کا جادو جگایا (مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم نے اپنے ابتدائی زمانے میں اس کو انجام دینے کے لیے خطابت کا طوفانی طریقہ اختیار کیا تھا۔ ان کے اسلوب کو اس کام سے خاص مناسبت حاصل ہے جو تاریخ ان سے لے رہی تھی، مگر افسوس کہ وہ تسلسل قائم نہ رکھ سکے)۔
علّامہ محمد اقبال کے کارنامے کا مختصر الفاظ میں احاطہ ناممکن ہے، مگر ہم اس کے چند اہم پہلوئوں کی طرف اشارہ کرنے کی جسارت کر رہے ہیں:
قدیم و جدید کی کش مکش میں راہِ اعتدال: قدیم و جدید کی کش مکش کو اقبال ’دلیل کم نظری‘ سمجھتے ہیں۔ اُنھوں نے دونوں سے پورا پورا استفادہ کیا، مگر کسی ایک کے سامنے سپر نہ ڈالی۔ ان کی نگاہ میں زندگی ایک ناقابلِ تقسیم وحدت ہے، جس میں ثبات و تغیر دونوں کا اپنا اپنا مقام ہے۔ اقبال کا اصل کارنامہ ہی یہ ہے کہ اس نے راہِ اعتدال کو نمایاں کیا۔ اس نے بتایا کہ صحت مند ارتقا اسی وقت ممکن ہے، جب تمدن کی جڑیں ماضی کی روایت میں مضبوطی کے ساتھ جمی ہوئی ہوں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ وہ حال کے مسائل اور مستقبل کے رجحانات سے بھی پوری طرح مربوط ہوں۔ اقبال کی نگاہ میں کورانہ تقلید، خواہ وہ ماضی کی ہو یا اپنے ہی زمانے کے چلتے ہوئے نظاموں کی، فرد اور قوم دونوں کے لیے تباہ کن ہے۔ صرف تعمیری اور تخلیقی تشکیل ہی کے ذریعے ترقی کی منزلیں طے کی جاسکتی ہیں اور یہی وہ راستہ ہے جو اقبال نے اختیار کیا۔
ماضی اور حال پر تنقیدی نگاہ: اقبال نے مسلمانوں کے ماضی اور حال دونوں پر تنقید ی نگاہ ڈالی۔ ان کے خیال میں مسلمانوں کے زوال کا بنیادی سبب یہ تھا کہ اُنھوں نے غیراسلامی اثرات کے تحت ایک ایسے تصورِحیات کو شعوری طور پر اختیار کرلیا، جو اسلام کی ضد تھا۔ اس سے ان کی صلاحیتیں پراگندہ ہوگئیں اور وہ تاریخ کی اہم ترین تعمیری قوت ہوتے ہوئے بھی تمدنی زوال، سیاسی غلامی اور فکری انتشار کا شکار ہوگئے۔ اس سلسلے میں یونانی اور عجمی مآخذ سے حاصل کیا ہوا تصوف سب سے اہم حیات کش قوت تھی، جس نے زندگی کا غیرحرکی اور جمود زدہ تصور مسلمانوں میں رائج کردیا۔ نفی ذات کے فلسفے نے یہاں بھی گھر کرلیا اور ترکِ دنیا، ترکِ آرزو عمل اور ترکِ عمل کی بنیاد پر جمود اور انحطاط کے مہیب سایے مسلط ہوگئے اور بالآخر ’آگ اس گھر کو لگی ایسی کہ جو تھا ، جل گیا‘۔
اسلام کا حرکی اور انقلابی پہلو: بگاڑ کے اسباب کی تشخیص کے بعد، اقبال نے اسلام کے تصورِ حیات اور اس کی بنیادی اقدار کو ان کی اصل شکل میں پیش کیا۔ اسلام کی جو تشریح و توضیح اقبال نے کی ہے، اس کی امتیازی خصوصیت اس کا حرکی اور انقلابی پہلو ہے۔ کائنات کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں عملِ تخلیق و ارتقا جاری ہے۔ کائنات محض ایک تخلیقی حادثہ نہیں ہے بلکہ اس میں کُنْ فَیَکُوْنَ کا سلسلہ جاری و ساری ہے اور ’جاوداں، پیہم رواں، ہر دم جواں ہے زندگی‘ اور پھر کائنات کی ’تخلیق اور اَمر‘ کی نوعیت پر غور کرکے ہی اسے سمجھا جاسکتا ہے۔ اگر خلق میں پیدایش اور وجود کی طرف اشارہ ہے، تو اَمر میں سمت اور منزل کی تعیین ہے۔ ہرچیز ایک مقصد کے لیے سرگرمِ عمل ہے اور وجود کا اساسی پہلو یہی احساسِ سمت، مقصدیت، حرکیت اور مطلوب کی طرف بڑھنے کا شوقِ آرزو ہے۔ کائنات ، انسان اور تاریخ، ہر ایک میں یہی حرکی اُصول کارفرما ہے۔ جسم اگر خلقت کا مظہر ہے تو روح اَمر کی آئینہ دار ہے۔ خودی اور اس کی تعمیر، اس حرکی اصول کا تقاضا ہے۔ ترقی اور بلندی کی راہ نفیِ ذات نہیں، اثباتِ خودی ہے، جو خود ایک ارتقائی اور حرکی عمل ہے۔ روح کی معراج ذاتِ باری تعالیٰ میں فنا ہو جانا نہیں، بلکہ ربِّ حقیقی سے مطلوب تعلق استوار کرنا ہے۔ ایمان، اس کا نقطۂ آغاز ہے اور عشق اس کی ترقی کا راستہ۔ یہی اُصولِ حرکت تاریخ میں بھی کارفرما ہے۔ تاریخی احیا محض ماضی کے صحت مند رجحانات کے بقا و استحکام کا نام نہیں بلکہ اَبدی اقدار اور تمدنی نصب العین کی روشنی میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کے میدانوں میں تخلیقی اظہار سے عبارت ہے۔ انسان اس ارتقائی عمل کا اصل کارندہ ہے۔ کائنات کی ہرشے اس اشرف المخلوقات کی مدد کے لیے فراہم کی گئی ہے۔ لیکن یہ انسانی زندگی فی الحقیقت کچھ اعلیٰ تر مقاصد کے حصول کے لیے ہے اور یہ مقصد ہے منصب ِنیابت ِ الٰہی۔ اسلام وہ طریقہ ہے جو انسان کو اس کام کے لائق بناتا ہے اور تاریخ اس حرکت کو صحیح سمت دیتی ہے۔ مردِ مومن اور ملت ِاسلامیہ کائنات کی اصلی معمار قوتیں ہیں۔ اگر وہ اپنا وظیفہ انجام نہ دیں تو بگاڑ رُونما ہوگا، خود ان کے درمیان بھی اور کائنات میں بھی۔
روحانی اور مادی تقسیم کی نفی:اقبال نے مذہب کی بنیاد عقل یا سائنس پر نہیں رکھی۔ اس نے عقل، تجربے، سائنس اور وجدان، ہر ایک کی اصل حقیقت کو واضح کیا اور اُن کی مجبوریوں اور دقتوں پر بھی روشنی ڈالی۔ اس نے بتایا کہ جبلت، عقل اور وجدان کے تناقض کو وحی کی روشنی اور تربیت کے ذریعے دُور کیا جاسکتا ہے اور تینوں کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ کرکے انسان کی خدمت اور رہنمائی کے صحیح مقام پر فائز کیا جاسکتا ہے۔یہ نومعتزلائی عقلیت اور مغرب کی بے جان سائنس کے مقابلے میں عقلِ سلیم کی فتح تھی۔ اس طرح نبی کا تجربہ اور مشاہدہ مذہبی فکر میں ایک اساسی حیثیت قرار پایا۔ روحانی اور مادی تقسیم کا باطل نظریہ ترک ہوا اور دونوں کے امتزاج سے متوازن اسلامی زندگی کی تعمیر کی راہ روشن ہوئی۔
مذہب کا انقلابی تصور:ایمان اور عمل کا باہمی تعلق واضح کرنے میں، اقبال نے غیرمعمولی ندرت کا ثبوت دیا۔ زندگی کا حرکی تصور آپ سے آپ عمل کو مرکزی حیثیت دیتا ہے۔ پھر مذہبی تجربے کی اساسی اہمیت بھی اسی سمت میں اشارہ کرتی ہے۔ اثباتِ خودی اور تعمیرِشخصیت ایک مسلسل عمل ہے، جس کے بغیر انسان مقامِ انسانیت کو حاصل نہیں کرسکتا۔ نیابت ِ الٰہی کے تقاضے صرف تسخیر کائنات اور اصلاح تمدن ہی کے ذریعے انجام دیے جاسکتے ہیں۔ خودی ایک بے لگام قوت کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ خدا پرستی اور اخلاقی تربیت سے ترقی پاتی ہے۔ عشق اس کی قوتِ محرکہ ہے اور مادّی قوت کو دین کی حفاظت اور پوری دُنیا میں نظامِ حق کے قیام کے لیے استعمال کرنا اس کی اصل منزل ہے۔ یہی خلافت ِ الٰہی ہے، یہی انسان کا مشن ہے۔ اقبال نے دینِ اسلام کا یہی انقلابی تصور اُجاگر کیا اور پوری ملّت میں حرکت پیدا کردی۔
دین اور سیاست کی دُوری کا خاتمہ: اس تصورِ حیات اور اس مشن کا لازمی تقاضا ہے کہ خود ریاست، سیاست، معیشت اور قانون اسلام کے تابع ہو۔ نہ صرف یہ کہ اسلام میں دین و دُنیا کی کوئی تقسیم نہیں، بلکہ دین اور ریاست ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں۔ اگر دین اور سیاست جدا ہوجائیں تو دین صرف رہبانیت بن جاتا ہے اور سیاست چنگیزیت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ مسلمانوں کی قومیت ان کے دین ہی سے تشکیل پاتی ہے اور اُن کی ریاست، معاشرت اور معیشت دین کے مقاصد ہی کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اسلام اپنے اظہار کے لیے ریاست اور تمدن کا رُوپ دھار لے۔ مسلمانوں کو ایسے خطۂ زمین کی ضرورت ہے، جہاں وہ اغیارکے اثرات سے آزاد ہوکر اپنے تمدنی وجود کا مکمل اظہار کرسکیں اور پھر اس روشنی کو باقی دُنیا میں پھیلا سکیں۔ اسی عمل کو اقبال نے ’اسلام کی مرکزیت‘ کہا ہے اور اسی کے لیے ایک آزاد زمین کا مطالبہ کیا۔ آزاد اسلامی ریاست صرف مسلمانوں کی سیاسی ضرورت ہی نہیں بلکہ خود اسلام کا بنیادی تقاضا ہے۔
مغربی فکر پر تنقید اور احیاے اُمت: اقبال نے مغربیت اور اس کے بطن سے رُونما ہونے والی مختلف تحریکوں، خصوصیت سے لادینیت، مادیت، قومیت ، سرمایہ داریت اور اشتراکیت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ان کے لیے اسلام میں کوئی گنجایش نہیں۔ نیز یہ کہ دراصل یہی تحریکیں انسان کے دُکھوں اور پریشانیوں کا سبب ہیں۔ مسلمانوں کی نجات ان کی پیروی میں نہیں بلکہ اپنی خودی کی بازیافت اور اپنے دین کے احیا میں ہے۔ اگر اُنھوں نے مغرب کی تقلید کی روش کو اختیار کیا، تو یہ ان کی خودی کے لیے زہرِ قاتل ہوگا۔ زندگی اور ترقی کا راستہ نہ ماضی کی اندھی تقلید ہے اور نہ وقت کے تقاضوں کی کورانہ پیروی، یہ راستہ اسلامی تعمیرنو کا راستہ ہے جواثباتِ خودی، احیاے ایمان، تعمیرِاخلاق، اجتماعی اصلاح اور سیاسی انقلاب کے ذریعے حاصل ہوسکتا ہے۔ اس کے ذریعے سیاسی غلامی سے بھی نجات ہوسکے گی، اور اس سے زیادہ خطرناک ذہنی، تمدنی اور تہذیبی غلامی سے بھی۔ پھر وہ جو زمانے کے پیرو بننے پر قناعت کر رہے ہیں، زمانے کی امامت کا فریضہ انجام دے سکیں گے اور یہی ملت اسلامیہ کے کرنے کا اصل کام ہے۔
اقبال نے ایک طرف دینی فکر کی تشکیلِ نو کی اور اسلامی قومیت کے تصور کو نکھارا تو دوسری طرف ملّی غیرت اور جذبۂ عمل کو بیدار کیا۔ مغربی افکار کے طلسم کو توڑا اور قوم کو تمدنی اور سیاسی اعتبار سے اسلام کی راہ پر گامزن کرنے میں رہنمائی دی۔ یہی ہے اقبال کا اصل کارنامہ، اور اسی بناپر وہ بیسویں صدی کے اسلامی تشخص کا امام اور اس میں تجدید کی روایت کا بانی ہے۔
ان معروضات کی روشنی میں اس حقیقت کو سمجھا جاسکتا ہے کہ اقبال محض ایک فرد کا نام نہیں، وہ ایک دور کی شناخت اور خصوصیت سے مسلمانانِ برعظیم کے جدید دور میں تحریک احیاے اسلامی کا ایک نمایاں معمار ہے۔ اس نے برعظیم کی اُمت ِ مسلمہ کو خوابِ غفلت سے بیدار کرکے میدانِ حیات میں اپنا تہذیبی اور سیاسی مقام حاصل کرنے کی جدوجہد کی طرف پکارا۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال بیسویں صدی میں اسلام کے نشاتِ ثانیہ کی انقلابی تحریک کا عنوان ہے اور میرے جیسے ہزاروں متلاشیانِ حق کے افکار و جذبات کی تہذیب میں اس کا بڑا ہاتھ ہے۔ ہم نے شعور کی آنکھ اقبال کے کلام کی روشنی میں کھولی اور ہمارے فکر اور جذبات کی صورت گری اس کی ضوفشانیوں کی رہینِ منت ہے۔ بلاشبہہ وہ ایک عظیم شاعر تھا مگر جس چیز نے شعرِاقبال کو ذہنی، فکری، احساساتی اور شعورِ زندگی کی تشکیلِ نو کی جدوجہد میں نئی رُوح پھونکنے کا ذریعہ بنایا، وہ اس کا پیغام ہے جس سے کلامِ اقبال کا ایک ایک حرف روشن اور تابندہ ہے ؎
شعر را مقصود اگر آدم گری است
شاعری ہم وارثِ پیغمبری است
[اگر شعر کا مقصد شخصیت کی تعمیر ہے تو شاعری پیغمبری کی وارث ہے]
دین اسلام میں مسجد ایک انقلابی ادارہ ہے اور مسلم معاشرے میں اس کا مقام وہی ہے جو انسانی جسم میں قلب کا ہے۔ جب تک قلب متحرک ہے جسم میں جان ہوتی ہے اور جب قلب کمزور پڑجاتا ہے تو جسم بھی شل ہوجاتا ہے۔ مسجد نہ تو اتوار کے اتوار سرگرم ہونے والا چرچ ہے، نہ محض یومِ سبت کو گریہ و زاری کرنے والا معبد، اور گنتی کے چند مخصوص اوقات اور دنوں میں پوجا پاٹ کیا جانے والا مندر، بلکہ دن رات کے کسی بھی لمحے نہ صرف فرض نمازوں، سنتوں، نوافل، اعتکاف اور قیام و سجود کی جگہ ہے بلکہ عبادت، تربیت، دعوت اور خاص طور پر خدمت خلق کا ایک ایسا مرکز ہے، جس کی مثال کسی دوسرے مذہب میں نہیں مل سکتی۔
مسجد کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو سب سے پہلے اپنے دست ِ مبارک سے مسجد قبا تعمیر کی اور یہاں پہلا جمعہ ادا کیا۔ اس کے بعد اپنے گھر تک کی تعمیر سے پہلے مسجد نبویؐ کی بنیاد رکھی اور اسے تمام انفرادی اور اجتماعی معاملات کا مرکز قراردیا۔
امام بخاریؒ نے اپنی کتاب الجامع الصحیح میں مسجد کے احکام و آداب اور اس کے استعمال کے دائرے کی تفصیل ۵۰ سے زائد ابواب باندھ کر بیان کی ہے، جس سے مسجد کی اہمیت، اس کے استعمال کا وسیع دائرہ اور معاشرے میں اس کے مقام و مرتبے کے علاوہ انسانیت کی خدمت کا پتا چلتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مسجد نبویؐ قیامت تک کے لیے اُمت مسلمہ کے لیے ایک مینارئہ نور اور اسوئہ نبویؐ کا عملی نمونہ ہے۔ اس کسوٹی پر ہم اپنے معاشرے میں مساجد میں ہونے والے اُمور کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ ہم نے اسے معاشرے میں عبادت، تربیت اور خدمت کا مرکز اور محور بنانے کے بجاے اسے مصنوعی تقدس دے کر نہ صرف مسلم معاشرے کو بلکہ پوری انسانی سوسائٹی کو اس کے حقیقی فوائد و ثمرات سے محروم کر دیا ہے۔ اس کی ظاہری بناوٹ، سجاوٹ اور صفائی و ستھرائی کی ماشاء اللہ بھرپور کوشش کی جاتی ہے لیکن اسے مسجد نبویؐ کی طرح حرکت و عمل اور مرجعِ خلائق کا ایک اعلیٰ اور مثالی نمونہ بنانے کی طرف بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔
اسلام کے دورِ عروج میں مساجد کا یہی حرکی کردار مسجد نبویؐ کی طرح پوری دنیا میں پایا جاتا تھا۔ یہاں صرف مسجد نبویؐ کی دس اہم سرگرمیوں کو قدرے تفصیل سے پیش کیا جارہا ہے، تاکہ اس کسوٹی اور معیار کی روشنی میں ہم اپنی مساجد کی تعمیر، ان میںتعلیم و تربیت اور خاص طور پر اُمت اور انسانیت کی ضروریات اور خدمت ِ خلق کے اہم کاموں کا سنجیدگی سے جائزہ لیں اور مسجد کے انقلابی کردار کو بحال کرنے کی سعی و جہد کریں:
مسجد نبویؐ کے اندر ’صفہ‘ نام کا ایک مقام تھا، جو تعلیم کے لیے مخصوص تھا۔ صفہ چبوترے یا پلیٹ فارم کو کہتے ہیں۔ مسجد کے ایک حصے میں ڈائس کے طور پر ایک چبوترہ بنا دیا گیا تھا، جو دن کے وقت تعلیم گاہ کا کام دیتا اور رات کے وقت بے گھر لوگوں کے لیے سونے کی جگہ۔ گویا یہ پہلی اقامتی (residential) یونی ورسٹی تھی، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمائی۔
پہلے ہی دن سے شہر کے باشندے بھی وہاں آنے لگے۔ بے خانماں لوگ حصولِ تعلیم کے لیے وہیں رہتے تھے۔مختلف لوگوں کی ضرورتوں کے پیش نظر مختلف قسم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ جو لوگ بالکل ہی اَن پڑھ تھے ان کو لکھنا پڑھنا سکھایا جاتا ۔ اہلِ مدینہ اپنی انتہائی فیاضی کے باعث یہ کرتے تھے کہ جب کھجوروں کی فصل تیار ہوتی تو ہرشخص کھجوروں کا ایک ایک خوشہ تحفے کے طور پر لاتا اور اسے مسجد نبویؐ کے اندر صفہ میں لٹکا دیتا۔ ان میں سے کھجوریں گرتیں تو صفہ میں رہنے والے غریب مسلمان انھیں کھاتے۔ ان خوشوں کی حفاظت کے لیے بھی ایک شخص مقرر کیا گیا تھا۔
حضرت معاذ بن جبلؓ جب اپنی انتہائی فیاضی کے سبب مقروض ہوگئے تو قرض کی ادایگی کے سلسلے میں انھیں اپنا مکان تک فروخت کر دینا پڑا۔ انھیں بھی رہنے کے لیے صفہ میں جگہ دی گئی اور ان پر یہ ذمہ داری بھی ڈالی گئی کہ وہ ان خوشوں کی نگرانی کریں۔ اصحابِ صفہ کے لیے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرسے اور کبھی مختلف صحابہؓ کی طرف سے کھانے کا انتظام ہوتا ۔ روایتوں میں آتا ہے کہ حضرت سعد بن عبادہؓ نے ایک دن اہلِ صفہ کے ۸۰ آدمیوں کو کھانے کی دعوت دی۔ (حلیۃ الاولیاء، طبقات الاصفیاء)
ایک دن رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرئہ مبارک سے نکل کر مسجد کے اندر آئے اور دیکھا کہ دو گروہ ہیں: ایک گروہ تسبیح پڑھنے اور ذکر و اذکار میں مشغول تھا اور دوسر ا گروہ علم حاصل کررہا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’اگرچہ دونوں اچھا کام کر رہے ہیں لیکن وہ گروہ بہتر ہے جو تعلیم کا کام کر رہا ہے‘‘۔ پھرآپؐ بھی اس دوسرے گروہ میں شامل ہوگئے۔
اصحابِ صفہ کو تعلیم و تربیت کے علاوہ فوجی کام بھی کرنے پڑتے تھے، مثلاً بعض اوقات کسی قبیلے کے خلاف تدبیر اختیار کرنے کی ضرورت پڑتی، یعنی دشمن کو سزا دینے یا تعاقب کرنے کا مسئلہ درپیش ہوتا۔ اسی تربیت گاہ سے بڑی بڑی شخصیتیں تیار ہوئیں۔ مشہور فقیہ عبداللہ بن مسعودؓ، مشہور قاری سالم مولیٰ ابی حذیفہؓ، مشہور محدث عبداللہ بن عمرؓ، مشہور زاہد ابوذر غفاریؓ، صہیب رومیؓ، سلمان فارسیؓ، ابودرداؓ، حضرت ابن مکتومؓ ، مؤذنِ رسولؐ حضرت بلالؓ، غسیل الملائکہ حضرت حنظلہؓ، فاتح عراق سعد بن ابی وقاصؓ، فاتح آرمینیا حضرت حذیفہ بن الیمانؓ وغیرہ۔
تعلیم ہی کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کی جسمانی تربیت کا بھی انتظام فرمایا۔ آپؐ ہمیشہ لوگوں کو ورزش کی ترغیب دیتے۔ نشانہ بازی کی مشق بھی ہوتی تو خود بھی وہاں جاتے اور اپنے سامنے گھڑ دوڑ، اُونٹوں کی دوڑ اور آدمیوں کی دوڑ کراتے، کشتی کے مقابلے کرواتے اور مختلف طریقوں سے ان کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔
آج بھی مسجد نبویؐ کے شمالی دروازے کے پاس ایک مسجد ہے ، جس کا نام’مسجد سبق‘ ہے۔ سبق کے معنی مسابقت میں حصہ لینا ہے۔ آپؐ اس جگہ بلندی پر کھڑے ہوتے اور جب گھڑسوار گھوڑے دوڑاتے ہوئے آتے تو خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فیصلہ فرماتے کہ کون سا گھڑسوار پہلے نمبر پر ہے اورکون سا دوسرے نمبر پر۔ سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ پانچ اوّل آنے والے گھڑسواروں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم انعام دیا کرتے تھے۔ کبھی کھجور کی شکل میں کبھی کسی اور چیز کی صورت میں۔
مسجد نبویؐ کے منبر پر جہاں جمعے کا خطبہ اور مختلف اوقات میں آپؐ کے خطبات و ارشادات کا معمول تھا، وہیں ادب اور شعروشاعری کی محافل بھی منعقد ہوتی تھیں اور حضرت حسان بن ثابتؓ اور دیگر اصحاب رسولؐ حمدِ خدا، مدحِ رسولؐ ، توصیف ِ اسلام اور جاہلی دور کے واقعات اور ادبی ذوق پر مشتمل اشعار بھی پڑھتے تھے۔ بخاری میں اس کی تفصیلات ملتی ہیں۔
مدینہ میں حبشیوں کی ایک تعداد بھی موجود تھی، جو نیزہ بازی اور دیگر جسمانی ورزشوں اور کھیلوں کا اہتمام خاص موقعوں پر کرتے تھے۔ عید کے دن ایک مرتبہ آپؐ نے مسجد نبویؐ میں حبشیوں کے کرتبوں پر مشتمل کھیل حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو دکھائے جو آپؐ کی اُوٹ میں دیکھتی رہیںاور جب تھک گئیں تو واپس اپنے حجرے میں چلی گئیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جب کوئی اہم مالی معاملہ پیش آتا اور نماز کا وقت ہوتا تو نماز کے بعد اور اگر نماز کا وقت نہ ہوتا تو الصلٰوۃ الجامعۃ کا اعلان کر کے لوگوں کو جمع فرماتے اور معاملہ ان کے سامنے رکھتے۔
ایک دوپہر کو قبیلہ مضر کے لوگ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، جو تقریباً ننگے بدن، کمبل یا عبا لپیٹے ہوئے اور گلے میں تلوار لٹکائے ہوئے تھے۔ ان کے فقر اور فاقے کی یہ حالت دیکھ کر آپؐ کا چہرئہ مبارک متغیر ہوگیا۔ آپؐ گھر میں تشریف لے گئے۔ پھر باہر نکلے اور حضرت بلالؓ کو اذان دینے کی ہدایت فرمائی۔ چنانچہ حضرت بلالؓ نے اذان دی پھر اقامت کہی، آپؐ نے نماز پڑھائی۔
پھر آپؐ نے حاضرین کو خطاب فرمایا۔ سورئہ نساء کی پہلی آیت اور سورئہ حشر کی اٹھارھویں آیت پڑھی اور اس کے بعد فرمایا: ’’ہرشخص اپنے دینار و درہم، کپڑے، گندم اور جَو کی مقدار میں سے صدقہ و خیرات کرے‘‘۔ پھر فرمایا: (خیرات کرو) چاہے کھجور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو۔ لوگ آتے گئے اور کھانے کی چیزوں اور کپڑوں کے ڈھیر لگ گئے،جسے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ آفتاب کی طرح چمکتا ہوا دیکھا گیا۔ آپؐ نے قبیلہ مضر کے ان افراد کی بھرپور مدد کی۔
اسی طرح ایک انصاری صحابیؓ کا واقعہ ہے جو آپؐ کے پاس سوال کرنے کے لیے آئے۔ آپؐ نے پوچھا: ’تمھارے گھر میں کچھ نہیں ہے‘۔وہ بولے: ’کیوں نہیں، ایک کمبل ہے۔ کچھ اس میں ہم اوڑھتے ہیں اور کچھ بچھاتے ہیں اور ایک پیالہ ہے جس میں پانی پیتے ہیں‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’دونوں چیزیں ہمارے پاس لے آئو‘۔ وہ گئے اور دونوں چیزیں لے کر آئے۔ آپؐ نے ان دونوں کو ہاتھوں میں لیا اور فرمایا: ’کون خریدتا ہے ان دونوں چیزوں کو؟‘ ایک شخص بولا: ’میں لیتا ہوں دونوں کو ایک درہم کے بدلے میں‘۔ آپؐ نے پھر دو یاتین بار فرمایا کہ: ’’کون ایک درہم سے زیادہ دیتا ہے؟‘ آخر آپؐ نے نیلام کے ذریعے دو درہم میں دونوں چیزوں کو فروخت کر دیا اور اس انصاری صحابیؓ سے فرمایا کہ: ’ایک درہم کا اناج لے کے اپنے گھر میں ڈال دو اور ایک درہم کی کلہاڑی لائو‘۔ پھر اس کلہاڑی میں ایک دستہ اپنے ہاتھ سے ٹھوک کر فرمایا: ’جائو لکڑیاں کاٹو اور بیچو اور پندرہ دن بعد آنا۔ وہ صحابی گئے اور وہی کام کیا۔ پندرہ دن بعد انھوں نے دس درہم کما لیے تھے۔ کچھ درہم کا کپڑا خریدا اور کچھ کا غلہ۔ آپؐ نے انھیں نصیحت فرمائی کہ یہ کام ان کے لیے سوال کرنے سے بہتر ہے۔(ابن ماجہ، ابوداؤد)
اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے ماہرین اقتصادیات کہتے ہیں کہ آج کے جدید دور کے مائیکروفنانس(Micro Finance) کی بنیاد یہی حدیث ہے۔ کسی شخص کے پاس جتنی کچھ بچت ہے، اسے کارآمد اور نفع بخش کمائی کا ذریعہ بنانا اور اس کے لیے رہنمائی فراہم کرنا اور اپنی معمولی بچت و حقیر سرمایے سے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہی دراصل کامیابی کا راز ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی معمول تھا کہ نمازِ فجر اور عصر میں سلام پھیرنے کے بعد مقتدیوں کی طرف منہ کر کے بیٹھتے اور غیرحاضر اصحاب کے بارے میں دریافت کرتے اور اس کی وجہ جان کر ان کی ضرورت پوری کرنے کی کوشش فرماتے۔
مسجد نبویؐ میں مجاہدین کے لیے فوجی ہسپتال قائم تھا، جس میں ان کا علاج کیا جاتا تھا۔ زخمیوں کی مرہم پٹی ہوتی تھی۔ اس کام کی حضرت رفیدہؓ ذمہ دار تھیں جو زخمیوں کا علاج کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ مسجد میں اس مقصد کے لیے بنی غفار کا خیمہ بھی نصب کیا گیا تھا۔ جنگ ِ خندق کے موقعے پر حضرت سعد بن معاذؓ، جب شدید زخمی ہوگئے تو ان کے لیے خیمہ لگایا گیا تاکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی دیکھ بھال کرسکیں۔ (بخاری)
نجران کا ایک وفد آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؐ نے نہ صرف مسجد میں ان کی مہمان نوازی کی بلکہ عیسائی وفد کو جس کے افراد کی تعداد ساٹھ تھی، انھیں اجازت دی کہ وہ اپنے طریقے سے عبادت بھی کریں۔ اسی طرح قبیلہ ثقیف کا وفد آیا تو آپؐ نے نہ صرف ا ن کو مسجد میں بحیثیت مہمان ٹھیرایا بلکہ ان کے لیے مسجد نبویؐ میں ایک خیمہ نصب فرمایا اور ان کی تکریم کے لیے کئی صحابہؓ آگے بڑھے۔ مغیرہ بن شعبہؓ نے ان کی خدمت کے لیے بارگاہِ نبویؐ میں درخواست دی تو فرمایا کہ ان کی خدمت و تکریم سے تم کو نہیں روک رہا ہوں لیکن انھیں ایسی جگہ ٹھیرائو جہاں سے وہ قرآن سن سکیں۔ اس وفد میں ان کے سردار ابنِ عبدیالیل بھی تھے، جنھوں نے سفرطائف کے موقعے پر آپؐ سے بدسلوکی اور شہر کے لڑکوں اور غلاموں کو آپؐ کے پیچھے لگادیا کہ وہ آپؐ کی تضحیک و تحقیر کریں۔ انھوں نے آپؐ پر کیچڑ پھینکا اور پتھروں کی بوچھاڑ سے زخمی کر دیا۔ پیشانی مبارک کے خون نے بہہ کر پاے مبارک کو رنگین کر دیا تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد فرماتے ہیں:
آپؐ نے ان سخت بُت پرست اور اسلام کی عداوت میں سنگ دل لوگوں کو مسجد میں ٹھیرایا اور اسی کا نتیجہ تھا کہ جس قبیلہ طائف کو مسلمانوں کی منجنیق ۴۰ دن تک سنگ باری کرکے فتح نہ کرسکی اس کے بسنے والوں کے دلوں کو آں حضرتؐ کے خلق عظیم، اسلام کی مصلحت، مسجد کے قیام اور اسلامی عبادت کے نظارے نے چند گھنٹوں کے اندر فتح کرلیا۔ لوہے کی تلوار کو سر پر روکا جاسکتا ہے لیکن محبت کی تلوار کے لیے کوئی سپر نہیں۔(جامع الشواہد،ص ۱۹)
دورِ نبویؐ میں عورتیں فرض نمازوں کی ادایگی کے لیے مسجد نبویؐ میں آیا کرتی تھیں۔ آج بھی مسجدنبویؐ میں باب النساء موجود ہے ، جہاں سے ان کا داخلہ ہوتا تھا۔ بعض مرتبہ مردوں کو خطاب کرنے کے بعد آپؐ خصوصی طور پر عورتوں کے پاس آتے اور انھیں نصیحت فرماتے۔
سیرت کی کتابوں میں آتا ہے کہ اس دور میں عورتیں عام طور پر فجر، مغرب اور عشاء کی نماز مسجد میں باجماعت ادا کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ آپؐ نماز کے بعد عورتوں کی طرف تشریف لائے اور انھیں انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب دی۔ عورتوں نے اپنے گلے اور کانوں کی طرف ہاتھ بڑھائے اور اپنے زیور اُتار کر حضرت بلالؓ کو دے دیے۔ بچے بھی بالعموم عورتوں کے ساتھ آتے تھے۔ بچوں کے رونے کی آواز آتی تو آپؐ نماز کو مختصر کر دیتے تھے۔ نواسۂ رسولؐ حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کا مسجد میں آنا اور اپنے ناناؐ کی گود میں بیٹھنا بھی مشہور ہے۔
جہاد کا سامان مسجد نبویؐ میں جمع ہوتا تھا اور مجاہدین کو دیا جاتا تھا۔ جنگ ِ تبو ک کے موقعے پر آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے تعاون کی اپیل کی، تو حضرت ابوبکرؓ نے گھر کا پورا اثاثہ لاکر پیش کر دیا۔ حضرت عمرؓ نے گھر کا آدھا سامان پیش کیا۔ بعض غریب صحابیؓ محنت مزدوری کرکے اور ایک صحابیؓ نے رات بھر کھیت میں کام کرکے مٹھی بھر کھجوریں پیش کیں تو آپؐ نے سامان کے ڈھیر کے اُوپر اس کو بکھیر دیا۔ بعض اوقات مالِ غنیمت، انفال اور ہدیہ کا مال بھی مسجد نبویؐ میں آتا اور حق داروں میں تقسیم کیا جاتا۔ اگر مال ایک دن میں تقسیم نہیں ہوتا تو آپؐ اس رات گھر تشریف نہیں لاتے بلکہ مسجد میں ہی قیام فرماتے تھے۔
مسجد کو قضا اور عدالت کے لیے مرکز بنانے کا سلسلہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع ہوا۔ آپؐ مسجد میں فیصلے فرماتے، اور متعدد مدعی اور مدعا علیہ، ان کے گواہ اور دوسرے لوگ مسجد میں حاضر ہوتے ، جہاں ان کے بیانات لیے جاتے تھےاور فیصلہ سنایا جاتا تھا۔ ایک لحاظ سے یہ کھلی عدالت تھی، جس میں ہر شخص عدالتی کارروائی سننے اور دیکھنےآسکتا تھا۔
آپؐ نے عدالتی فیصلے مسجد میں کیے۔ جیسے فاطمہ مخزومی کی چوری ثابت ہونے پر ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ اور غامدیہ کے رجم کا فیصلہ۔ بنی قریظہ قبیلہ کے قلعے کے محاصرے کے دوران ان کے سرداروں نے آپؐ سے درخواست کی کہ آپؐ صحابی رسول ابولبابہؓ کو ان کے پاس بھیج دیں تاکہ وہ مشورہ کر کے کوئی فیصلہ کریں۔ ابولبابہؓ جب اس قبیلے کے پاس پہنچے تو عورتیں اور بچے دھاڑیں مارمار کر رونے لگے اور اس کیفیت کو دیکھ کر ان پر رقّت طاری ہوگئی۔ انھوں نے مشورہ دیا کہ وہ ہتھیارڈال دیں لیکن ساتھ ہی حلق کی طرف اشارہ بھی کر دیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ انھیں قتل کر دیا جائے گا، لیکن انھیں فوراً احساس ہوا کہ ان کا اس طرح اشارہ کرنا اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ خیانت ہے اور اپنے آپؐ کو مسجد نبویؐ کے ایک ستون سے باندھ لیا اور قسم کھائی کہ اب انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی اپنے دست ِ مبارک سے کھولیں گے۔ ابولبابہؓ چھے رات مسلسل ستون سے بندھے رہے۔ اس کے بعد ان کی توبہ قبول ہوئی اور آپؐ نے انھیں کھول دیا۔ (تفسیر الرازی، سورئہ انفال ۸:۲۷-۲۸)
ثمامہ بن اثالؓ جو قبیلہ بنوحنیفہ کے ایک سربرآوردہ رئیس اور علاقہ یمامہ کے بادشاہوں میں سے ایک تھے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بے خبری میں اچانک حملہ کر کے کام تمام کرنا چاہتے تھے، لیکن صحابہ کرامؓ کے ایک فوجی دستے نے گرفتار کر کے مدینہ لاکر مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا۔ آں حضوؐرنے جب ثمامہ کو دیکھا تو صحابہؓ سے فرمایا کہ ان کے ساتھ احسن طریقے سے پیش آنا اور پھر گھروالوں سے کہا کہ جو کچھ کھانا موجود ہے ، جمع کر کے ان کے پاس بھیج دیں اور ہدایت فرمائی کہ آپؐ کی اُونٹنی کا دودھ صبح و شام دوہ کر پیش کریں ، تاکہ ثمامہ اسلام کی طرف مائل ہوں۔ دو دنوں کے بعد آپؐ نے انھیں رہا کر دیا۔ اس کے بعد ثمامہ نے اسلام قبول کرلیا اور مرتے دم تک سچے اور مخلص مسلمان کی حیثیت سے زندگی گزاری۔(بخاری، حدیث: ۴۳۷۲)
یہاں مسجد نبویؐ کی دس اہم سرگرمیوں کو قدرے تفصیل سے اس لیے پیش کیا گیا ہے، تاکہ ہم موجودہ دور کی مسجدوں سے ان کا موازنہ کر کے دیکھیں کہ ان دونوں میں کتنا فرق ہے۔ آج ہماری مسجدیں صرف خالق کی عبادت کے لیے مخصوص ہوکر رہ گئی ہیں۔ ان میں مخلوقِ خدا کی خدمت کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ ان میں مکاتب و بچوں کے لیے ناظرہ قرآن یابعض جگہ مدرسوں کا انتظام ہوتا ہے۔ نمازوں کےعلاوہ یا تو بند رہتی ہیں یا ان سے کوئی کام نہیں لیا جاتا۔
وقت آگیا ہے کہ ہم مساجد کو جن پر لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپے کی رقم خرچ کر کے تعمیر کیا جاتا ہے، اس کی ظاہری بناوٹ،ان کے اندر اور باہر کی تعمیر اور سجاوٹ، یہاں تک کہ ان کے میناروں تک پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں، انھیں خدمت ِ خلق کے مختلف کاموں کا مرجعِ خلائق بنائیں اور مسجد کے اس فعال اور حرکی تصور کو جو دورِ نبویؐ اور دورِ خلفاے راشدینؓ میں عروج پر تھا، دوبارہ زندہ کریں:
مساجد میں ایک عمدہ قسم کی لائبریری اور دارالمطالعہ ضرور بنائیں، تاکہ اس میں اصحابِ صفہ کی طرح طالبانِ علم آئیں اور علم کی پیاس بجھائیں۔ آج کے دور میں آڈیو، ویڈیو، سی ڈی اور کمپیوٹر کے ذریعے مختلف علوم کو حاصل کرنا آسان بھی ہوگیا ہے اور سستا بھی۔مثال کے طور پر شہر بنگلور کی سٹی جامع مسجد میں اس قسم کی عام تعلیم، فنی تعلیم اور تعلیم بالغاں وغیرہ کی فراہمی کا مناسب انتظام ہے، جو قابلِ تحسین ہے۔
مساجد میں صدقات و زکوٰۃ کے وصول اور اس کی تقسیم کا نظم بھی ہونا چاہیے اور ایسی سوسائٹیاں قائم کرنی چاہییں جو باقاعدہ محلے کا سروے کرکے ڈیٹابنک تیار کریں، جن میں اس محلے کے بے روزگاروں ، بیوگان اور معذوروں اور صاحب ِ نصاب مرد اور عورتوں کے پورے اعداد و شمار سافٹ ویئر میں جمع ہوں اور باہم اشتراک سے بلاسودی قرضہ جات، روزگار کی فراہمی، صدقات کی وصولی، شادی بیاہ کے لیے سہولیات کا اچھے انداز سے انتظام کریں۔
مساجد میں نکاح اور اس سے متعلقہ معاملات کے لیے سہولتیں فراہم کی جاسکتی ہیں اور آسان اور کم خرچ شادیوں کا اہتمام ہوسکتا ہے۔ شادی شدہ لڑکیوں کے مسائل کے حل کے لیے کونسلنگ سنٹر (Counselling Centres)، دارالقضا اور باہمی تنازعات کے حل کے لیے پنچایت وغیرہ کا قیام بھی بحسن و خوبی ہوسکتا ہے۔
تفریح آج کے دور کی اہم ضرورت ہے اور تفریح کے نام پر صرف فحش اور گندی چیزیں میسر ہیں۔ بھارت میں جیّد علماے دین پر مشتمل اسلامک فقہ اکیڈمی کے بیسویں اجلاس (رام پور) نے اس سلسلے میں توجہ دی ہے اور طے کیا ہے کہ: ’’ایسے کھیل جو انسان کے وسیع تر مفاد میں ہوں، جن سے جسمانی قوت، چستی، نشاط کی بحالی میں مدد ملتی ہو اور جن کھیلوں کے بارے میں احادیث میں ترغیب آئی ہے، ان کے مستحب ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ کیا ان سے ملتے جلتے جمناسٹک، مارشل آرٹس، یا کم جگہ پر چھت تلے (indoor) کھیلوں کے لیے مواقع مسجد کے احاطے میں فراہم نہیں کیے جاسکتے ہیں؟ چھوٹے بچوں کے لیے تربیتی مقصد کے لیے خاکے بنانا، ان میں رنگ بھرنے، بچوں کے لیے نفسیاتی، اخلاقی اور لسانی نقطۂ نظر سے مفید اور جائز سہولیات فراہم کی جاسکتی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی ممالک، مثلاً امریکا، کینیڈا، جرمنی، سکنڈے نیوین ممالک اور برطانیہ میں مساجد اسلامک سنٹر کے نام سے موسوم کی جاتی ہیں، جہاں انڈرگرائونڈ (تہہ خانے میں) بچوں کے کھیلنے کی جگہ اور مختلف کھیلوں کا اہتمام ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بیرونی احاطے میں حلال اور سستے کھانوں کے ریسٹورنٹس اور چھوٹی چھوٹی دکانیں ہوتی ہیں ، جن میں روز مرہ کی اشیا اور ہاتھ کی بنی مصنوعات فروخت ہوتی ہیں۔ بڑی عمر کے لوگوں کے لیے آرام کرنے کا خصوصی انتظام ہوتا ہے۔
صحت اور حفظانِ صحت کی ضرورت سے کس کو انکار ہوسکتا ہے۔ ابتدائی طبی امداد کی تربیت، آفات میں بحالی (Disaster Management)کے کورسس، کلینیکل لیبارٹریاں اور بلڈبنک کا قیام۔ ممکن ہو تو ایکسرے اور اسکیننگ کی سہولیات جہاں مرد اور عورتوں کے لیے علیحدہ اوقات اور الگ اصناف کے ماہرین کی فراہمی ہو تو یہ عمل دورِ نبویؐ کے شفاخانے اور زخمیوں کی تیمارداری کے مترادف ہوسکتے ہیں۔
مسجد کے اطراف کرایے کے لیے دکانوں کی تعمیر اور اس کے ذریعے آمدنی کے ذرائع فراہم کرنے کا رجحان عام طور پر پایا جاتا ہے۔ اس کے بجاے لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے ہوسٹلز یا کم از کم کمرے تیار کیے جائیں تو طلبہ و طالبات کو مسجد کے احاطے میں پاکیزہ ماحول مل سکتا ہے اور تعلیم کے علاوہ تربیت کے مواقع بھی مل سکتے ہیں۔ یہ مثال میرے علم میں ہے کہ ایک غریب محلے میں صاحب ِ خیر نے مسجد بنائی ہے، جو دن رات کھلی رہتی ہے اور سیکڑوں طالب علم اپنے گھر میں جگہ کی قلت کی وجہ سے مسجد میں لکھتے پڑھتے ہیں۔ یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ اس مسجد کی وجہ سے سیکڑوں نوجوان گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ بن کر نکلے ہیں اور آج بہتر ملازمت اور اچھے معاش کے حصول کے ذریعے معاشرے میں ایک باعزت زندگی گزار رہے ہیں۔
جیساکہ یہ واقعہ کافی مشہور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری صحابی کو اپنا پیالہ اور چادر فروخت کرکے کلہاڑی خریدنے، اس کو دستہ لگا کر لکڑیاں کاٹنے کی رہنمائی کی۔ یہی دراصل آج کے مائیکروفنانس کا تصور ہے جس کی طرف مسلمانوں نے بہت کم توجہ دی ہے۔ اس قسم کی کوشش عین سنت ِ نبویؐ کی پیروی ہے اور یہ کام ہماری مسجد میں بڑی خوبی کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔
ہمارے ہاں مساجد میں حج اور عمرہ کے فضائل و مسائل پر تو بیانات واجتماعات ہوتے ہیں جو مسلم معاشرے کے صاحب نصاب و اہلِ ثروت سے متعلق ہیں، لیکن غربت کے مارے اور مصیبت زدہ لوگوں کی امداد کے لیے زکوٰۃ و صدقات پر گفتگو کم ہی ہوتی ہے۔ کیا محسن انسانیتؐ کی وارننگ وَالْفَقْرُ عَسٰی اَنْ یَّکُوْنَ کُفْراً (عنقریب فقروافلاس لوگوں کو کفر کی طرف لے جائے گا) ہمارے سامنے نہیں ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ بلاسودی سوسائٹیوں اور بیت الزکوٰ ۃ کا قیام وقت کی ضرورت ہے اور زیادہ اچھا ہو کہ یہ مسجد کے احاطے ہی میں ہو۔ فقرا و مساکین اپنی ضروریات کے لیے سودی قرضہ جات کے چکّر میں مبتلا ہوتے ہیں۔ بالآخر اپنے مکانات اور زیورات ہی نہیں بلکہ غربت کی انتہا میں خواتین کے لیےزندگی بہت زیادہ پُرخطر ہوجاتی ہے۔
معروف محقق ڈاکٹر حمیداللہ مرحوم نے خطبات بہاول پور میں زکوٰۃ کے تالیف ِ قلب کی مد میں غیرمسلموں کی امداد اور حضرت عمرفاروقؓ کے بیت المال سے بلاسودی قرضوں کے اجرا کا ذکر کیا ہے۔ تکثیری (Pluralistic) معاشرے میں تعلقات کی خوش گواری اور خیرسگالی و ہمدردی کے جذبات کو اُجاگر کرنے اور اسلام کے نظامِ رحمت کو عملی طور پر پیش کرنے کے لیے مساجد سے بلاتفریق مذہب و ملّت بلاسودی قرضوں اور زکوٰۃ و صدقات کی رقوم کا ایک حصہ کیا غیرمسلم عوام کے لیے بھی استعمال ہوسکتا ہے ؟ بالغ نظر علماے دین اوردانش وران ملّت کو حقیقت پسندانہ انداز میں اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
اُمت مسلم اور خاص طور پر ہمارے ملک میں اسلام کی نشاتِ ثانیہ کے لیے مسجد نبویؐ کے نمونے پر مساجد کے استعمال کے بارے میں انقلابی اور حرکی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اس کی طرف ملّت کے علماے کرام اور عمائدین عظام کو خصوصی اورفوری توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری مساجد معاشرتی ماحول کی بدصورتی اور ظلم کے اتھاہ سمندر میں کنول کے پھول کی طرح نمودار ہوں۔ جہاں نہ صرف خالق کی عبادت و بندوں کی تربیت کا اہتمام ہو بلکہ وہ خلق خدا کی خدمت و مودت کا بھی مرکز ہو۔ معاشرے کے مجبور، معذور اور حاشیہ پر رہنے والے افراد کی داد رسی ہوسکے۔
واقعہ یہ ہے کہ اگر مسجدنبویؐ کے طرز پر ان تمام سرگرمیوں پر مشتمل چند مسجدوں کا قیام عمل میں آجائے تو دنیا اپنے سرکی آنکھوں سے اس کی افادیت و اہمیت کو دیکھ سکےگی۔ سنت نبویؐ کے اجرا کے اس عظیم الشان کام سے نہ صرف اُمت مسلمہ کی نشاتِ ثانیہ ہوسکے گی، بلکہ صدقۂ جاریہ کے ایک ایسے سلسلے کا آغاز ہوگا ، جس سے ساری انسانیت مستفید ہوسکے گی اور ربِ جلیل و قدر کے ہاں بے پناہ اجر و ثواب کی مستحق بھی۔ساتھ ہی ہم اسلام کو ایک نظامِ رحمت و مودت کی عملی شہادت کے طور پر بھی پیش کرسکیں گے۔
ایک بزرگ بنانؒ کہتے ہیں: میں علامہ ابن عربیؒ کے یہاں گیا، وہ اپنے گھر پہ چاروں طرف کتابوں میں گھرے رہتے تھے۔ میں نے ان سے کہا: ’’ان تمام کتابوں کا خلاصہ مجھے دو مفید جملوں میں بتادیجیے‘‘۔
انھوں نے کہا: ’’تمھاری ساری کی ساری فکرمندی اس بارے میں رہے جس سے اللہ وحدہٗ لاشریک راضی ہو، اگر دل پر کوئی اور چیز آپڑے تو اسی وقت توبہ کرلو‘‘۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مجلس سے اٹھتے تو ساتھیوں کے ساتھ یہ دعا عموماً پڑھا کرتے تھے:
اَللّٰہُمَّ اقْسِمْ لَنَا مِنْ خَشْیَتِکَ مَا تَحُولُ بِہِ بَینَنَا وَبَینَ مَعَاصِیکَ، وَمِنْ طَاعَتِکَ مَا تُبَلِّغُنَا بِہِ جَنّٰتِکَ وَمِنْ الْیَقِینِ مَا تُہَوِّنُ بِہِ عَلَیْنَا مُصِیْبَاتِ الدُّنْیَا وَمَتِّعْنَا بِأَسْمَاعِنَا وَأَبْصَارِنَا وَقُوَّتِنَا مَا أَحْیَیْتَنَا وَاجْعَلْہُ الْوَارِثَ مِنَّا وَاجْعَل ثَأرَنَا عَلٰی مَنْ ظَلَمَنَا وَانْصُرْنَا عَلٰی مَن عَادَانَا وَلَا تَجْعَلْ مُصِیْبَتَنَا فِی دِیْنِنَا وَلَا تَجْعَلِ الدُّنْیَا اَکْبَرَ ہَمِّنَا وَلَا مَبْلَغَ عِلْمِنَا وَلَا تُسَلِّطْ عَلَیْنَا مَن لَا یَرْحَمُنَا [رواہ الترمذی، حدیث ۳۵۰۲]اے اللہ ہمیں اپنے ڈر کا وہ حصہ دے جو ہمارے اوپر تیری نافرمانیوں کے بیچ حائل ہوجائے، اپنی اطاعت کا وہ حصہ دے جس سے تو ہمیں اپنی جنت تک پہنچا دے، یقین کا وہ حصہ دے جس سے دنیا کی مصیبتیں ہمارے لیے آسان ہوجائیں، ہماری سماعت اور بصارت اور قوت کو جب تک ہم زندہ ہیں باقی رکھ۔ ہمارے وارث ہم ہی میں سے بنا، ہمارا انتقام ان کے خلاف کر جنھوں نے ہم پر ظلم کیا۔ جو ہم سے دشمنی کرے اس کے خلاف ہماری مدد کر اور دین کے معاملے میں ہمیں مصیبت میں نہ ڈال، اور دنیا کو ہماری سب سے بڑی فکر نہ بنادے اور نہ اسے ہمارے علم کی منزل بنا، اور نہ ہم پر انھیں مسلط کر جو ہم پر رحم کے روادار نہ ہوں۔
میں نے جب یہ دعا پڑھی تو میری روح سرشار ہوگئی۔ میں نے دہرا دہرا کر اسے یاد کرلیا۔ اب کیفیت یہ ہے کہ دعا کا ایک جملہ ہمیشہ رُکنے پر مجبور کردیتا ہے : ’’دنیا کو ہماری سب سے بڑی فکر نہ بنا‘‘۔
پھر ایک دن میں نے اپنے دل سے فکر مندی کو آواز دی کہ خود اسی سے اس کے بارے میں اور اپنے متعلق گفتگو کروں۔ یوں فکر مندی دل سے نکل کر میرے سامنے آن کھڑی ہوئی اور گفتگو شروع ہوگئی۔
میں: فکر کی تمھارے یہاں کتنی قسمیں ہیں؟
فکرمندی: دو قسمیں ہیں: دنیا کی فکر اور آخرت کی فکر۔رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی بتایا ہے: ’’جس کی فکر مندی آخرت کے لیے ہو، اللہ اس کے دل کو مال دار بنا دیتا ہے، اس کے کاموں کو اس کے لیے جمع کردیتا ہے، دنیا بے بسی کی حالت میں اس کے پاس آتی ہے۔ اور جس کی فکرمندی دنیا بن جائے اللہ اس کی محتاجی کو اس کی نگاہوں کے سامنے کردیتا ہے، اس کے کاموں کو بکھیر دیتا ہے اور دنیا سے اس کو وہی ملتا ہے جو اس کے مقدر میں ہوتا ہے‘‘۔
میں: میں اپنے آپ کو کیسے جانوں؟ اور اپنی فکرمندی کو کیسے پرکھوں، سمجھوں؟
فکرمندی:رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں جو نشانیاں بتائی گئی ہیں ان سے بھی تم جان سکتے ہو۔ اسی طرح علامہ ابن قیمؒ کی اس عبارت سے بھی رہنمائی لے سکتے ہو:
’’جب بندہ صبح و شام کرے اور اس کی فکر صرف اللہ وحدہ ہو تو :
¤ اللہ سبحانہٗ اس کی تمام ضروریات کا ذمہ لے لیتا ہے۔ ¤ اس کی ہر فکر مندی کو اٹھا لیتا ہے۔ ¤ اس کے دل کو اپنی محبت کے لیے خالی کردیتا ہے۔ ¤ اس کی زبان کو اپنی یاد کے لیے یکسوکردیتا ہے۔ ¤ اس کے اعضا وجوارح کو اپنی اطاعت کے لیے فراغت دے دیتا ہے۔
میں: اپنے روزمرہ کو ذہن میں لا رہا ہوں تو مجھے شرمندگی اور گھبراہٹ نے آن گھیرا ہے۔
فکرمندی: گھبراہٹ مسئلے کا حل نہیں، بلکہ یہ سوچو کہ جس کی فکر پر دنیا سوار ہوتی ہے، وہ اسی میں اُلجھا رہتا ہے۔ اسی کے لیے منصوبہ بناتا ہے، آخرت پر اسے ترجیح دیتا ہے ۔
میں: اس نامناسب کیفیت کو کس طرح جان سکتا ہوں؟
فکرمندی: اسے جاننے کی نشانیاں یہ ہیں:
¤ اللہ اس پر دنیا کی فکروں، الجھنوں اور غموں کو مسلط کردیتا ہے۔¤ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے ۔¤ اللہ اس کا دل اپنی محبت سے ہٹا کر مخلوقات کی محبت میں گرفتار کردیتا ہے۔¤ اس کی زبان کو اپنے ذکر کے بجاے دوسروں کے ذکر میں مصروف کردیتا ہے۔¤ اس کی صلاحیتوں کو اغیار کی خدمت میں مصروف کردیتا ہے۔ پھر وہ جانوروں کی طرح مارا مارا پھرتا ہے۔ (’’جوشخص رحمٰن کے ذکر سے تغافل برتتا ہے، ہم اس پر ایک شیطان مسلط کر دیتے ہیں اور وہ اس کا رفیق بن جاتا ہے‘‘۔(الزخرف۴۳:۳۶)
میں: مجھے تو لگتا ہے کہ میرے اندر دونوں طرح کی باتیں ہیں؟
فکرمندی: تمھارا احساس درست نہیں ہے۔ اللہ انسان کے دل میں دونوں فکروں کو جمع نہیں کرتا ہے: تو دنیا کی فکر ہوگی یا پھر آخرت کی فکر۔ تم شاید کہنا چاہتے ہو کہ کبھی کبھی آخرت کی فکر کی علامت کی جگہ تم فکر دنیا کی کوئی علامت اپنے اندر پاتے ہو،یہ کوتاہی انسان میں ہوجایا کرتی ہے۔
عبدالقادر جیلانیؒ نے ایک لڑکے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’اے لڑکے تیری فکرمندی کی چیزیں کھانا پینا، پہننا،شادی کرنا،گھر بنانا ،مال جمع کرنا نہ ہوں۔ یہ سب تو نفس اور طبیعت کی فکریں ہیں‘‘۔
اُس نے پوچھا: یاشیخ! پھر دل کی فکرمندی کہاں ہے؟
فرمایا : ’’تمھاری فکرمندی وہ ہے جو تمھیں پریشان رکھے، تمھاری فکر تمھارا ربّ ہو اور ربّ سے ملاقات کی فکر ہو اور ربّ سے ملاقات ایک فکرمند دل ہی کے نصیب میں ہے‘‘۔
میں (جھجکتے ہوئے): آخرت کے لیے فکرمند دل کے اوصاف کیا ہیں؟
فکرمندی: امام محاسبیؒ نے اس کا بہت عمدہ جواب اشعار میں دیا ہے۔ (ترجمہ عربی اشعار):
نادان اسے خاموش اور گونگا سمجھتا ہے، ارے دانائی نے اسے خاموش رہنے کو کہا ہے۔بے وقوف اسے محض بکنے والا سمجھتا ہے، تاہم اللہ کے لیے، خیرخواہی اسے بولنے کو کہتی ہے اور وہ لایعنی باتوں سے مطلب نہیں رکھتا ہے۔ لوگ اس سے آرام پاتے ہیں، وہ اپنے آپ میں تھکتا رہتا ہے۔ اس نے خواہش کو اللہ کی مرضی کے تابع بنادیا اور لالچ کی سرکوبی پرہیزگاری سے کردی۔
میں: اللہ یہ صفات میرے اندر پیدا فرمائے۔جس کے اندر یہ صفات ہوں وہ تو ہمیشہ اللہ کو یاد کرتا ہوگا؟
فکرمندی: ہاں، یہ درست ہے۔ دن میں پانچ نمازیں اسی لیے فرض کی گئی ہیں کہ دل دو ہی حالتوں میں رہے: نماز یا نماز کا انتظار۔ ہمیشہ اللہ کے ساتھ رہے ۔ ہمیشہ اللہ کی فکر میں ڈوبا رہے، اسی لیے تو جس کا دل مسجد میں نماز یا نماز کے انتظار میں اَٹکا رہتا ہے، اسے رحمان کے عرش کا سایہ ملے گا، اس دن جب اس کے سایے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہوگا۔
میں: فکر آخرت سے کیا مراد ہے؟
فکرمندی: آخرت قبر سے شروع ہوکر جنت یا دوزخ پر ختم ہوتی ہے۔ تم روزانہ بلکہ ہروقت اپنے دل اور اپنی فکر سے قبر کی زیارت کرسکتے ہو۔ امام محاسبیؒ نے نصیحت کی تھی: ’’ اپنی فکرمندی کے ذریعے قبروں میں ہو آیا کرو، اپنے دل پر سوار ہوکر میدان حشر میں ٹہل آیا کرو‘‘۔
میں: صالح فطرت لوگ آخرت کے لیے کس طرح فکر مند رہتے تھے؟
فکرمندی: توجہ سے سنو!
… ابراہم یمنیؒ کا بیان ہے:دو چیزوں نے دنیا کی لذت مجھ سے کاٹ دی، موت کی یاد اور اللہ عزوجل کے سامنے کھڑے ہونے کی فکر۔
… کعبؒ کہتے ہیں: جو موت کو سمجھ لے، دنیا کی مصیبتیں اور فکریں اس کے لیے آسان ہوجائیں۔
صحابہ کرامؓ تو ہر آن آخرت کے بارے میں فکرمند اور جنت کے مشتاق رہا کرتے تھے۔
میں: لیکن میں دنیا کی فکر کو دل سے کیسے نکالوں؟
فکرمندی: تم ایسا نہیں کرسکتے۔ کیوں کہ تم دنیا میں رہتے ہو ، اور قدرت حق کے قانون کے تحت اس کے ساتھ میل جول رکھنا ناگزیر ہے۔ تاہم، اسے اپنے ہاتھ میں لو، اپنے دل میں مت بٹھائو۔ پانی کی طرح کہ کشتی میں بھرجائے تو اسے ڈبودے اور کشتی کے نیچے رہے تو اسے سہارا دے۔
میں: مگر میں اس سے پوری طرح چھٹکارا پانا چاہتا ہوں؟
فکرمندی: تم ناممکن کی بات کررہے ہو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا پر غور نہیں کیا: ’’دنیا کو میری سب سے بڑی فکر نہ بنا‘‘۔
فکریں بہت ساری ہوسکتی ہیں، ان کا تعلق مفید امور سے ہوسکتا ہے، البتہ یہ خیال رہے کہ دنیا سب سے بڑی فکرمندی نہ بن جائے۔
حکیم ابن مقفع کی یہ بات سنا کر فکرمندی دوبارہ میرے دل میں اپنا نقش ثبت کرکے چلی گئی: ’’کتنے لوگ ہیں کہ جنھوں نے دنیا حاصل کرنا چاہی اور اس کے لیے یکسو ہوگئے، مگر پھر دنیا ان سے چھین لی گئی۔ کوششیں ان کے اعمال نامے میں لکھ دی گئیں، دنیا دوسروں کے قبضے میں چلی گئی، اور ان کا مال ان ہاتھوں میں چلا گیا جو انھیں پسند بھی نہیں تھے‘‘۔
اتوار کی رات، ٹھیک گیارہ بجے، میں ہفتہ بھر کی مصروفیات سے فارغ ہوچکا تھا۔
اب میں کیا کروں؟ میرے پاس فرصت کے طویل اوقات تھے۔ میں کمرے میں تنہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ میں کیا کروں؟
میرے دل میں ایک بُرے کا م کا خیال آیا اور اسی لمحے میں اس پر آمادہ ہوگیا۔ دروازہ اور کھڑکیاں بند کرلیں۔ اب کمرے میں مجھے دیکھنے والا کوئی نہیں تھا۔
میں اس بُرے کام کو کرنے ہی والا تھا کہ میرے کانوں سے ایک آواز ٹکرائی:
’’افسوس ہے اس بندے پر جس کے گناہ بڑھتے جارہے ہیں اور توبہ کم ہوتی جارہی ہے۔ وہ قبر سے جتنا نزدیک ہورہا ہے، اس کی غفلت میں اور اضافہ ہورہا ہے۔
اے گناہ گار! تجھے شرم نہیں آتی۔ تیری تنہائی میں بھی اللہ تیرے ساتھ ہے۔
تیرا ربّ تجھے ڈھیل دے رہا ہے اور تیرے گناہوں پر پردہ ڈالے ہوئے ہے مگر تُو اور زیادہ ڈھیٹ ہوگیا ہے‘‘۔
میں چونک پڑا۔ خوف سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ کون ہے؟ یہ کس کی آواز ہے؟
یکایک مجھے ایک سیاہ سی مخلوق نظر آئی، میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا تم کون ہو؟
اس نے کہا: ’’میں تمھاری بدی ہوں‘‘۔
میں: تم رات گئے کیوں آئی ہو؟
بدی: تمھیں نصیحت کرنے۔
میں: بدی اور نصیحت؟
بدی: ہاں، سمجھ دار کے لیے بدی میں بھی نصیحت کا سامان ہے۔
میں: تمھیں کیا کہنا ہے؟
بدی: کیا تم سمجھتے ہو کہ تم یہاں تنہا ہو؟
میں: کیا مطلب؟
بدی: تم جب گناہ کرنے جارہے تھے تو بڑے مطمئن لگ رہے تھے ۔ کیا تمھیں حساب کے دن کا خوف نہیں ہے؟ تم دیواروں کی آڑ میں انسانوں سے تو چھپ سکتے ہو، مگر کاش! تمھیں احساس ہوتا کہ تم اللہ کی نگاہ میں ہر وقت رہتے ہو۔
میں: مگر میں تو نیکی کے کام بھی کرتا ہوں، جن سے اللہ خوش ہوتا ہے۔
بدی: تنہائی میں گناہ کرنے سے اللہ کے ساتھ بندے کا تعلق خراب ہوجاتاہے اور اس کی نیکیاں مٹی میں مل جاتی ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میں اپنی امت کے ایسے بہت سارے لوگوں کو اچھی طرح جانتا ہوں، جو قیامت کے دن اتنی نیکیاں لائیں گے جیسے کہ تہامہ کے سفید پہاڑ، مگر اللہ ان سب کو راکھ کی طرح اڑا دے گا‘‘۔
صحابی رسول ثوبانؓ نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسولؐ! ہمیں ان کے بارے میں بتائیے، وہ کیسے لوگ ہیں؟ کہیں انجانے میں ہم بھی انھی میں شامل نہ ہوجائیں‘‘۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سنو! وہ تمھارے ہی بھائی ہیں، تمھاری طرح رہتے ہیں، تمھاری طرح شب بیداری بھی کرتے ہیں، لیکن ان کا حال یہ ہے کہ تنہائی میں گناہ کرنے کا موقع ملتا ہے تو کرڈالتے ہیں‘‘۔
میں: یہ حدیث تو دل دہلادینے والی ہے۔
بدی: اسی لیے میں تمھیں خبردار کررہی ہوں، اور یہ بھی سن لو کہ جب تم تنہائی میں گناہ کرتے ہو تو خدا کے ساتھ خلق خدا سے بھی تمھارا تعلق بگڑ جاتا ہے۔ لوگ تم سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔
میں: لیکن لوگوں کو کیا پتا کہ میں تنہائی میں کیا کرتا ہوں؟
بدی: یہ بات صحابی رسول حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے بتائی ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’’بندہ تنہائی میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنا غصّہ مومنوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے اور اس کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا‘‘۔
میں: لیکن میرے گناہ تو بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اتنے چھوٹے چھوٹے گناہوں سے میرا اعمال نامہ خراب نہیں ہوگا۔
بدی: قطرے قطرے سے دریا بن جاتا ہے اور میں تو خود بدی ہوں،میں تم سے زیادہ جانتی ہوں کہ انسانوں کے نامۂ اعمال کو قیامت کے روز کتنا خراب کردوں گی۔ ظاہر ہے چیونٹی اپنے گھر کے بارے میں جتنا جانتی ہے، اُونٹ چیونٹی کے گھر کے بارے میں اتنا نہیں جان سکتا۔
میں: یہ سب باتیں پہلے میری سمجھ میں کیوں نہیں آئیں؟ میں تو بڑی خطرناک غفلت میں اوندھے منہ پڑا تھا۔ میں تو دنیا کی رنگینیوں سے دھوکا کھا گیا۔
بدی:اللہ کے بندے، اٹھو، ابھی گنجایش ہے، تم تلافی کرسکتے ہو۔ مجھے اچھی طرح پہچان لو، میں بدی ہوں۔ قیامت کے دن ہلاکت کا سبب، بندوں کے بغض ونفرت کی و جہ، نیکیوں میں سے برکت اٹھانے والی، حافظے اور علم دونوں کے لیے مہلک۔
میں: اوہ، تو یہ سب کچھ تمھاری ہی و جہ سے ہے۔
بدی: یہی نہیں، اس سے بھی زیادہ۔ یہ سمجھ لو کہ ہر بدی دوسری بدی کو جنم دیتی ہے۔نیکی کا ثواب یہ بھی ہے کہ اس کے بعد دوسری نیکی کی توفیق ملے، اور بدی کی سزا یہ بھی ہے کہ اس کے بعد دوسری بدی سرزد ہو۔
میں: مگریہ بتائو کہ اب میں کیا کروں؟
میں تو گناہ کا ارادہ کرچکا ہوں ، اسے کرنے کے لیے کمرے کا دروازہ اور کھڑکیاں بند کرچکا ہوں۔ میرا یہ گناہ تو درج ہو ہی گیا ہوگا؟
بدی: نہیں، ایسا نہیں ہے بلکہ بندہ جب بدی کا ارادہ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ڈر سے اسے نہیں کرتا ہے تو اس کے نامۂ اعمال میں ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے۔ حدیث قدسی میں ہے: ’’جس نے بدی کا ارادہ کیا مگر اس کا ارتکاب نہیں کیاتو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک مکمل نیکی اپنے پاس لکھ لیتا ہے‘‘۔
اس لیے توبہ کا دروازہ کھٹکھٹائو۔ اپنے کمرے کا دروازہ اور کھڑکیاں بند رہنے دو۔ کمرے میں اندھیرا کرلو ،مگر کس لیے ؟
اللہ کی عبادت کے لیے۔کیوں کہ تنہائی کی بدی کو تنہائی کی نیکی سے مٹایا جاتا ہے۔
۷۰ءکے عشرے میں میرے چچا ڈاکٹر مشتاق گیلانی نے ہمارے آبائی قصبہ سوپور میں ایک تختی اور بستہ میرے کاندھوں پر لاد کر، ہاتھ پکڑتے ہوئے مرکزی درس گاہ، محلہ مسلم پیر میں پہلی جماعت میں داخل کرا دیا۔ یہ درس گاہ، براہِ راست جماعت اسلامی کے شعبۂ تعلیم کے تحت تھی۔ مدت گزرنے کے باعث اکثر یادیں دھندلی ہوچکی ہیں، مگر جن مشفق اساتذہ نے ہاتھ تھام کر تعلیم کا آغاز کرایا، ان محسنوں کی یادیں ابھی تک ذہن میں نقش ہیں۔
لیکن پھر ہوا یہ کہ بس د و ہی سال بعد اندرا گاندھی اور شیخ عبداللہ کے درمیان ہونے والے فروری ۱۹۷۵ء میں معاہدے کے نتیجے میں شیخ عبداللہ صاحب وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔اپوزیشن کے دبائو اور اعلیٰ عدالت کے ایک فیصلے سے پریشان وزیر اعظم اندرا گاندھی نے جون ۱۹۷۵ءکو پورے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کر دیا۔ اقتدار کی دیوی کی آغوش میں تازہ تازہ آئے شیخ صاحب نے بھی دیکھا دیکھی کشمیر میں ایمرجنسی نافذ کی اور جماعت اسلامی اور اس سے ہمدردی رکھنے والے تعلیمی، معالجی اور رفاہی اداروں کو بھی مقفل کردیا۔ اس ایک فیصلے سے جموں و کشمیر میں، ہم ۲۰ ہزار طلبہ و طالبات پر اسکولوں کے دروازے بند ہوگئے، اور انھیں پریشانیوں میں دھکے کھاتے ہوئے سرکاری اسکولوں میں پناہ لینا پڑی۔ جماعت اسلامی تو ان دنوں جموں و کشمیر کی انتخابی سیاست میں پیش پیش تھی اور اسمبلی میں اس کی نمایندگی بھی تھی۔ ’اندراعبداللہ ایکارڈ‘ کی مخالف جماعت اسلامی نے گاندر بل حلقے سے شیخ عبداللہ کے مقابل محمداشرف صحرائی کو بطور اُمیدوار میدان میں اتارا تھا۔ یہ ایک طرح سے ہاتھی اور چیونٹی کا مقابلہ تھا ، مگر نیشنل کانفرنس معمولی سا اختلاف راے برداشت کرنے کی بھی متحمل نہیں تھی۔ صحرائی صاحب کے الیکشن ایجنٹ ڈوڈہ کے سعداللہ تانترے کو سید پورہ آلسٹینگ کے مقام پر کھیتوں میں نہ صرف زدوکوب کیا گیا، بلکہ ان کی ایک آنکھ بھی نکال دی گئی۔ طرفہ تماشہ دیکھیے کہ چند ہفتے پیش تر یہاں پر جماعت اسلامی پہ جو پابندی عائد کی گئی ہے، اس میں ایک ’جرم‘ یہ بھی ہے کہ یہ انتخابی سیاست میں یقین نہیں رکھتی ہے۔ اب اس سادگی پر مر نہ جائے کوئی!
۱۴فروری کو پلوامہ میں بھارتی فوجی دستوں کے قافلے پر ایک خود کش حملے کے جوا ب میں پاکستان پر ہوائی حملوں کے بعد کھسیانی بلی کھمبا نوچنے کے مصداق بھارتی وزیرا عظم نریندر مودی نے اپنی انتخابی حکمت عملی کا رخ دوبارہ کشمیر کی طرف موڑ دیاہے۔ حُریت کے لیڈورں کو نظربند رکھنے اور فوجی آپریشن وغیرہ کی ناکامی کے بعداب بتایا جا رہا تھا کہ حریت کانفرنس پر پابندی عائد کرکے لیڈروں کو پابند سلاسل کیا جائے گا۔
سید علی گیلانی پچھلے نو سالوں سے مسلسل گھر پہ نظربند ہیں۔ پچھلے دنوں سرینگر سے دہلی واپس آتے ہوئے ایرپورٹ روڈ پر جب ان کی رہایش گاہ پر پہنچا، تو دیکھا کہ گلی میں تین بکتر بند گاڑیاں ان کے گیٹ کو بلاک کیے ہوئے ہیں۔ سخت سردی میں د و درجن کے قریب سیکورٹی کے اہل کار باہر کھڑے ، اندر جانے کے لیے نام وغیرہ کا اندراج کر رہے تھے۔اندر جانے کی اجازت دینا ان کے موڈپر منحصر ہے۔ گیلانی صاحب خاصے کمزور نظر آرہے تھے ۔ اگرچہ اخبارات و غیرہ کا مطالعہ کر رہے تھے، مگر بتایا کہ کمزوری اور نقاہت کے باعث اب کچھ تحریر نہیں کر پاتا۔ پہلی بار ڈائری سے ساتھ چھوٹ گیا ہے۔ ان کے دفتر کے افراد اور رفقا زیر حراست ہیں۔ گھر کا ملازم چند ماہ قبل گائوں گیا تھا، واپسی پر اس کو اندر جانے کی اجازت ہی نہیں ملی۔ مجھے بٹھا کر خود ہی اندر اطلاع کرنے چلے گئے۔
اسی سلسلے میں جماعت اسلامی جموں وکشمیرپر پانچ سال تک پابندی عائد کرکے اس کے امیر ڈاکٹر عبدالحمید فیاض، ترجمان ایڈووکیٹ زاہد علی سمیت ۴۰۰ کے قریب اراکین کو اب تک گرفتار کیا جا چکا ہے۔ اور یہ سطور لکھنے تک روزانہ کہیں نہ کہیں سے، جماعت کے کسی کارکن کی گرفتاری کی خبر موصول ہوتی ہے۔جماعت کے دفاتر اور تعلیمی ادارے بھی سیل کر دیے گئے ہیں۔ کئی جگہوں سے اطلاعات ہیں کہ ارکان کے ذاتی رہایشی گھر بھی سیل کر دیے گئے ہیں۔ شدیدسردی اور برف باری کے موسم اور رات کے اندھیرے میں گھر کی عورتوں، بچوں اور بزرگوں کو بے دخل کرکے گھر سیل کیے گئے ہیں۔ ان بے قصور افراد سے آشیانہ چھین کر مبتلاے عذاب کرنا انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے، جب کہ گھر کے مرد یا تو پہلے سے حراست میں ہیں، یا پھر روپوش۔
۱۹۷۷ء میں جب جماعت اسلامی پر پابندی اٹھائی گئی تو تعلیمی اداروں کے انتظام و انصرام کے لیے اس نے ’فلاح عام ٹرسٹ‘ قائم کیا۔ اس وقت اس ٹرسٹ کے تحت براہ راست ۳۵۰؍ اسکولوں میں ایک لاکھ سے زائد طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ پھر بالواسطہ طور پر تقریباً اتنے ہی اسکول ’فلاح عام ٹرسٹ‘ کی تعلیمی کاوشوں کے ساتھ منسلک ہیں۔ پابندی کے فوراً بعد جب دنیا کے دور دراز خطوں سے، ان اداروں سے فارغ التحصل طلبہ، یعنی ایلومنائی کے پیغامات آنا شروع ہوئے، تو پہلی بار معلوم ہوا کہ ان اداروں سے اٹھا ہوا ابر تو سارے جہاں پر برس رہا ہے۔ تقریباً ۳۰۰؍ایلومنائی نے ایک مشترکہ یادداشت میں حکومت کو بتانے کی کوشش کی ہے کہ یہ ادارے غریب اور دُور دراز کے دیہات میں تعلیمی معیار کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ اس لسٹ میں ایسے محقق اور پروفیسر شامل ہیں، جو فی الوقت نام ور اداروں، یعنی ہارورڈ یونی ورسٹی، امپیریل کالج، سوئزرلینڈ ، ویسٹ منسٹر، امریکا کے طبی تحقیق کے اعلیٰ اداروں، بھارت کے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی، جواہر لال نہرو یونی ورسٹی، علی گڑھ و جامعہ ملیہ اسلامیہ وغیرہ میں کام کر رہے ہیں۔
ان ماہرین، اسکالرز اور سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ان کی کامیابی میں ان اسکولوں اور وہاں کے اساتذہ کی محنت، لگن اور خلوص بھی شامل ہے۔اس یادداشت پر دستخط کرنے والوں میں ایک کشمیری پنڈت خاتون نتاشا کول بھی ہیں ، جو اس وقت یونی ورسٹی آف ویسٹ منسٹر، لندن[تاسیس: ۱۸۳۸ء] میں پڑھاتی ہیں۔ ایک طرف حکومت تو خود معیاری تعلیم دینے سے عاری ہے، دوسری طرف جو ادارے اس طرف عوامی خدمت، محنت اور لگن سے دن رات مگن ہیں، ان کا گلہ گھونٹے سے نہیں کتراتی ہے۔جموں و کشمیر میں اعلیٰ عہدوں پر برا جمان، خو د گورنر کے دفتر میں افسران کی ایک بڑی تعداد انھی اسکولوں سے فارغ التحصیل ہے۔ اس یادداشت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ۱۹۹۰ء میں بھی اس وقت کے گورنر جگ موہن نے ان اداروں پر پابندی عائد کی تھی، مگر بعد میں سپریم کورٹ نے اس غیرمنصفانہ پابندی کو ختم کر دیا تھا۔ ان ایلومنائی کا کہنا ہے کہ: ’’آخر سیاسی صورت حال سے نمٹنے میں ناکامی کا نزلہ ان تعلیمی اداروں پر کیوں اتارا جاتا ہے؟‘‘ ۱۹۹۷ء سے جماعت عسکری جدوجہد سے لاتعلق ہے۔ ایسے حالات میں، جب کہ جماعت اسلامی کشمیر، عسکریت میں براہِ راست یا بالواسطہ شریک بھی نہیں ہے اور تعلیمی ، تبلیغی او ررفاہی کاموں میں مشغول ہے، اس پر پابندی لگاناسمجھ سے باہر ہے۔ ایسی کارروائی ا ور پکڑ دھکڑ سے کشمیر میں حالات مزید خراب ہونے کااحتمال ہے۔ بھارت نواز نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی بھی اس پابندی کو غلط اقدام قراردے رہی ہے۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی لیڈر اور جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے سوال اٹھایا ہے: ’’حکومت ِدہلی کو آ خر جماعت اسلامی کشمیر سے اتنی پریشانی کیوں ہے؟ ہندو انتہا پسند گروپوں کو جھوٹ پھیلانے اور ماحول خراب کرنے کی پوری آزادی ہے، جب کہ ایک ایسی تنظیم پر پابندی لگائی جارہی ہے، جس نے کشمیریوں کی تعلیمی، سماجی اور فلاحی محاذوں پر لوگوں کی اَن تھک مدد کی ہے‘‘۔ کوئی سیاسی نظریہ جب میدان عمل میں پوری طرح ناکام ہوجاتا ہے، تو اس کے حاملین زور زبردستی پر اُتر آتے ہیں۔ بی جے پی جب فکری سطح پر اشترا کی دانش وروں کا مقابلہ نہیں کرسکی تو اس نے ’شہری نکسل واد‘ کی اصطلاح گھڑکر اپنے خلاف اْٹھنے والی آوازوں کو دبانے کی خاطر حقوق انسانی کا کام کرنے والوں کو’ باغی اور دہشت گردوں کے حامی ‘قرار دے دیا۔ ملک بھر میں ’شہری نکسل واد‘ کے نام پر جو کارروائی کی گئی،اب اسی کا اعادہ جموں وکشمیر میں جماعت اسلامی پر پابندی لگا کر کیا گیا ہے۔
نئی دہلی میں وزارتِ داخلہ کے ایک سینیر اہل کار سے جب میں نے جماعت پر پابندی کے پیچھے حقائق جاننے کی کوشش کی، تو انھوں نے فرمایا:’’جماعت اسلامی کشمیر سوسائٹی کو انتہا پسندی کی طرف لے جاکر ان کو ’سلفیت‘ کی طرف مائل کرکے مقامی خانقاہوں اور حنفیت سے متنفر کرواتی ہے‘‘۔ جب میں نے کہا: ’’اگر واقعی یہ بنیاد ہے تو خود اہل حدیث اور سلفی گروپوں پر پابندی کیوں نہیں لگائی گئی ؟ اگر سلفی واقعی اتنے ہی خطرناک ہیں ،تو جہاں تک مجھے یاد ہے کشمیر میں ۱۹۹۰ء میں صرف دو اہل حدیث مساجد تھیں ، جو اب حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ۴۰۰ سے تجاوز کر گئی ہیں۔ کون اس کی پشت پر ہے؟ اکتوبر۲۰۰۳ء میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کشمیر تشریف لائے تھے اور شہر کے وسط میں پولوگراؤنڈ میں، اننت ناگ کے اسٹیڈیم میں ان کی تقاریر ہوئی تھیں۔ اس کے علاوہ خود گورنر ہائوس میں بھی ان کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد ہوئی تھی‘‘۔میں نے ان سے کہا کہ: ’’شیخ نورالدین ولیؒ [۱۳۷۷ء-۱۴۴۰ء] المعروف ’نندہ رشی‘ { FR 648 }کے کشمیری زبان میں کلام کا اردو ترجمہ کرنے کا سہرا جماعت اسلامی کے رہنما قاری سیف الدین کے سر ہے۔ اسی طرح میرسید علی ہمدانی ؒ [۱۳۱۴ء-۱۳۸۴ء]کا کشمیری مسلمانوں کو دیے گئے وظیفہ ’اوراد الفتیحہ‘ کا ترجمہ اور تفسیر بھی جماعت اسلامی کی مرہونِ منت ہے‘‘۔یہ سن کر مذکورہ افسر بغلیں جھانکنے لگا اور کہا کہ: ’’کوئی پرانی فائل جماعت کے متعلق بنی ہوگی ، جو ایسے مواقع پر نکالی جاتی ہوگی‘‘۔ ایک عشرہ قبل حکومت کو یہ باور کرایا گیا تھا کہ: ’’کشمیر میں حریت اور تحریک آزادی کے خلاف فکری رہنمائی کے لیے سلفی حضرات کو استعمال کیا جائے‘‘۔ اب کچھ عرصے سے یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ: ’’صوفی ازم کا دامن تھا م کر اس تحریک کو دبایا جائے‘‘۔ تین سال قبل دہلی میں بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کی صدارت میں منعقدہ ایک صوفی کانفرنس میں ایک صاحب کو تو یہ بھی کہتے سنا ، کہ: ’’اب ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کے کارکنان اور مشائخ، مشترکہ طور پر وہابیوں اور دیوبندیوں کے خلاف شانہ بہ شانہ لڑیں گے‘‘۔
۱۴فروری کو پلوامہ واقعے میں مبینہ خود کش حملہ آور عادل احمد ڈار کا تعلق ایک بریلوی یا صوفی طرزِفکر رکھنے والے گھرانے سے تھا۔ پلوامہ کے گونڈی باغ گاؤں میں اس کے والد غلام حسن ڈار صاحب کے بقول: ’’عادل ڈار، مقامی درگاہ میں نعت خوانی اور امام صاحب کی عدم موجودگی میں امامت کے فرائض بھی انجام دیتا تھا۔ قرآن کے چند پار ے حفظ کرنے اور نعت خوانی کی مشق کے لیے اس نے چند ماہ ایک بریلوی دارالعلوم میں گزارے تھے اور حنفی اعتقاد سے اختلاف رکھنے والوں کے ساتھ بحث و مباحثہ کرنے سے چُوکتا نہیں تھا‘‘۔
یہ امرواقعہ، حکومتی پالیسی سازی کرنے والوں کے لیے ایک تازیانہ ہے ، جو کشمیری تحریک کو مذہبی انتہاپسندی اور فرقہ پرستی سے جوڑ تے ہیں۔ یہ لوگ بھول جاتے ہیں، کہ مغربی طاقتوں نے اپنے مفاد کے لیے پہلے طالبان، القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں کی پرورش کی۔ عراق میں تو داعش کو ہتھیار اور پھر ان کے خلاف لڑنے والی تنظیموں کو فوجی تربیت بھی دی۔پھر یہ نعرے بلند کیے، کہ: ’’مسلمانوں میں شدت پسندی آرہی ہے‘‘ جسے لگام دینے کی ضرورت ہےاور اس کے لیے تصوف کی تشہیر کی جانے لگی۔ یہ لوگ جان بوجھ کر اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں، کہ شدت پسند اور اعتدال پسند ہرفرقہ اور مسلک میں موجود ہوتے ہیں۔
بھارت میں توہمیشہ سے ہی حکومتیں مسلمانوں کو مولانا ابولکلام آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی کی تقلید کی تاکید کرتی آئی ہیں، کیوںکہ ان دونوں رہنمائوں نے آل انڈیا مسلم لیگ اور نظریۂ پاکستان کے خلاف انڈین نیشنل کانگریس کو ایک متبادل نظریاتی اساس فراہم کی تھی، مگر کیا بھارت میں ان کے ارادت مندوں کو سکون مل سکا؟
یہ سچ ہے کہ دہشت گردی کی اسلام میں کوئی گنجایش نہیں ہے، نہ کوئی فرقہ یامسلک ہی اس کی اجازت دیتا ہے۔ مظلوم علاقوں کے عوام اگر جبری قبضوں اور ظلم کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں، تو اس کو دہشت گردی کے ساتھ منسلک نہیں کیا جاسکتا۔ مغربی طاقتوں نے تصوف کی حوصلہ افزائی صرف اس وجہ سے کی، کہ اپنی سلگائی ہوئی آگ کے شعلے اس کے قابو میں نہیں آرہے تھے۔ ان کے یہاں ’تصوف کے نظریے‘ کا یہ پیغام ہونا چاہیے کہ مسلمان ہر حالت میں مہر بہ لب رہنے کی عادت بناڈالے۔ حالات سازگار ہوں تو شکر کے ساتھ خاموش رہے، اور اگر ظلم و ستم اور عزت و آبرو کا خون ہوتا ہوا دیکھے، تب بھی خاموشی اور بے حسی کو شعار بناڈالے۔ بس ایسی صوفیانہ پروڈکشن کی مغرب کو ضرورت ہے، نہ کہ سید سالار مسعود غازی کی طرح ظلم کے خلاف آواز بلند کرے۔تصوف کا مقصد انسانیت سے پیار ، محبت ، شفقت سے پیش آنا اور کردار سازی کرنا ہے، تاکہ نہ صرف گفتار، بلکہ اپنے کردار سے بھی ایک مسلمان دیگر مذاہب کے ساتھ مکالمہ کرے، جو صوفی بزرگوں کا خاصا رہا ہے، چاہے، کشمیر میں میر سیّد علی ہمدانی، نورالدین ولی ہوں یا بھارت میں خواجہ معین الدین چشتی یا نظام الدین اولیا ہوں!
یہاں ہم ایک مؤثر، اہلِ علم اور صائب الراے حضرات کے اجتماع میں بیٹھے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ ان میں سارے ہی لوگ جموں وکشمیر کے عوام کی جدوجہد آزادی کے حامی ہوں۔ اسی طرح یہاں پر جو بینر لگا ہوا ہے کہ: 'Azadi: The Only Way' ، ضروری نہیں کہ آپ حاضرین میں سب لوگ اس سے اتفاق کرتے ہوں۔ تاہم ایک چیز ہم سب میں ضرور مشترک ہے اور وہ یہ کہ ہم سب انسان ہیں۔ اگر ہم اپنی اس پہلی حیثیت، اپنے مقام اور مرتبے کو تسلیم کر لیں کہ ہم سب انسان ہیں تو: ہمیں انسان کا احترام کرنا چاہیے، ہمیں انسان کے جذبات کی قدر کرنی چاہیے، قطع نظر اس کے کہ وہ ہماری بات سے اتفاق رکھتا ہے یا نہیں رکھتا۔خیالات اور جذبات میں اختلاف ہو سکتا ہے ، رنگ اور نسل ، زبان اور وطن کا اختلاف ہو سکتا ہے۔ لیکن اس فطری اختلاف کو برداشت کرنے کی قوت اپنے اندر پیدا کرنا ہی انسان کی بڑی خوبی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْٓ اٰدَمَ ( اسرا۱۷:۷۰) یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی۔
میں نے آپ کے سامنے قرآن پاک کی جو آیت تلاوت کی ہے، اس میں آپ دیکھیں گے کہ ہمیں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے کہ انسان کا احترام کیا جائے۔ انسان کو پید ا کرنے والے خالق و مالک نے اعلان کیا ہے کہ میں نے انسان کو عزت اور احترام بخشا ہے اور قدر ومنزلت عطا کی ہے۔ اور اگر ہم انسان کی عزت نہ کریں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہم اسے پیدا کرنے والے کا بھی احترام نہیں کرتے۔ حالاں کہ شرفِ انسانی اور احترامِ آدمیت کے لیے یہ بنیادی ضرورت ہے۔
جموں و کشمیر کے حوالے سے اس اجتماع میں عنوان رکھا گیا ہے: Azadi: the Only Way ،یعنی ’’ایک ہی راستہ ہے: آزادی‘‘۔ یہاں ہونے والی تقاریر میں میرے لیے دو نکتے اُبھرکر سامنے آئے ہیں۔ ایک یہ کہ: What do you mean by Azadi?، ’آزادی سے آپ کا کیا مطلب ہے ؟‘ دوسرا Justice یا انصاف۔کیا آپ ایک آزاد ملک ہونے کے بعد انسانی معاشرے کی ایک بڑی بنیادی ضرورت انصاف کو ، maintain [برقرار]رکھ سکتے ہیں؟ اور کیا آپ لوگوں کو انصاف دے سکتے ہیںـ ـ؟
آج دہلی میں بیٹھ کر یا دلی والوں کی مجلس میں جب ہم یہ بات کریں کہ آزادی کیا ہے؟ تو ان کے لیے اس بات کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہونا چاہیے کہ ’آزادی کیا ہے؟‘ اس لیے کہ آپ کے آباواجداد بھی ایک سو سال سے زیادہ عرصے تک انگریزوں کے براہِ راست غلام تھے۔ انگریزوں کے اقتدار و بالا دستی کے خلاف انھوں نے تاریخی جدوجہد شروع کی تھی اور کہا تھا کہ ’’ہمیں آزادی چاہیے‘‘۔ وہ یہاں پر مسلط برطانوی سامراجی حکومت سے آزادی چاہتے تھے۔
بالکل اسی طرح گذشتہ [۷۲ ] برسوں سے جموں وکشمیر کے لوگوں کی غالب اکثریت، کشمیر میں بھارت کے فوجی طاقت کے بل پر قبضے سے آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سیدھی سی بات ہے اور کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ جو سمجھ میں نہ آ سکتی ہو۔
یہ آزادی کسی خاص کمیونٹی کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ آزادی جموں وکشمیر کے ہر فرد کے لیے ہے۔ چاہے وہ کٹھوعہ میں رہتا ہو ، یا آدم پور میں ، چاہے لیہہ میں رہتا ہو یا کرگل میں، چاہے وادیِ کشمیر میں رہتا ہو یا کشتوار میں، جہاں کہیں بھی رہ رہا ہے، چاہے وہ مسلمان ہے یا ہندو اور سکھ ہے یا عیسائی ، یا بودھ ___ یہ سب بھارت کے غیرمنصفانہ اور جابرانہ فوجی تسلط سے آزاد ہونا چاہتے ہیں۔
اس کے لیے میں آپ کو چند مثالیں دوں گا۔ مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ ۱۹۴۷ء میں جموں میں ڈوگرہ فوجی تسلط کے دوران ڈھائی لاکھ مسلمانوں کا قتل عام تسلیم شدہ تعداد ہے، حالاں کہ وہاں پر موجود افراد کہتے ہیں کہ پانچ لاکھ مسلمانوں کو بے رحمی کے ساتھ قتل کیا گیا تھا۔ ان کی لڑکیوں کو اغوا کیاگیا، مردوں کو ذبح کیا گیا اور ان کے بچوں کو پائوں تلے روند ڈالا گیا تھا۔ یہ سارے ظلم وستم ہم نے سہے ہیں۔ یہ ۶ نومبر ۱۹۴۷ء کی بات ہے، جب جموں میں اس سانحے کا آغاز ہوا تھا۔ ہم اسی وقت سے اس فوجی تسلط میں پس رہے ہیں، ہم پٹ رہے ہیں، ہماری عزتیں لوٹی جا رہی ہیں، ہماری عصمتیں پامال کی جا رہی ہیں، ہمارے نوجوانوں کو گولیوں کا نشا نہ بنایا جا رہا ہے اور ہمارے مکانات بغیر کسی جواز کے جلائے جار ہے ہیں، اور گھروں کو مسمار کیا جارہا ہے۔ یہ ساری صورت حال ہم کو مجبور کر رہی ہے کہ ہم بھارت کے فوجی تسلط سے جلد از جلد آزادی حاصل کریں۔
گذشتہ [۷۲ ] برسوں کے دوران ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں ، وہ آپ سب کو بھی جاننا چاہیے۔ ہم اس مجلس کے ذریعے بھارت کے ایک ارب ۲۰ کروڑ عوام سے مخاطب ہیں۔ ہم ان تک یہ پیغام پہنچانا چاہتے ہیں کہ آپ کا اور ہمارا ایک انسانی رشتہ ہے۔ اس وقت جب کہ آپ کے بھائیوں پر ظلم ڈھایا جا رہا ہے تو بحیثیت انسان آپ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں ۔ اگر آپ آواز نہیں اٹھاتے ہیں تو آپ اس انسانی رشتے کو کمزور بنا رہے ہیں۔
آج جموں وکشمیر کے ایک چھوٹے سے خطے میں آٹھ لاکھ مسلح بھارتی فوج کا مسلط ہونا بجاے خود ایک بہت بڑا جرم اور زیادتی ہے ۔ ان آٹھ لاکھ فوجیوں نے ہمارے خطے کی لاکھوں کنال زمین پر جبری قبضہ جما رکھا ہے۔ آپ اندازہ کیجیے کہ جب ایک چھوٹی سی قوم کی اتنی زمینوں پر زبردستی قبضہ کیا جا رہا ہو تو اس قوم کے مرد و زن کیسے اپنے مستقبل کو شان دار قرار دے سکتے ہیں؟ وہ کیسے اپنی زندگیوں میں امن اور چین حاصل کر سکتے ہیں؟
جب ایک مقامی آدمی کو مغربی بنگال یا مہاراشٹر ،بنگال، پنجاب، آسام یا اترپردیش سے آئے ہوئے سپاہی، جموں وکشمیر کے پشت ہا پشت سے آباد باشندے کو، چاہے وہ ہندو ہے یا سکھ، مسلمان ہے یا عیسائی یا بودھ___ اس سے وادی کے ہرگلی کوچے میں بلکہ اس کے اپنے ہی گھر میں گھس کر تحکمانہ لہجے میں پوچھ رہا ہے کہ ’مجھے شناختی کارڈ دکھائو‘ ___ یہ ایسی زیادتی ہے جس کو جموں و کشمیر کاکوئی شہری برداشت نہیں کر سکتا۔
۲۷ ؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو جب بھارتی فوجیں جموں و کشمیر میں آ گئیں، تو اس وقت بھی بھارتی وزیراعظم آنجہانی پنڈت نہرو نے کہا تھاکہ: ’’ہماری فوجیں یہاں ہمیشہ نہیں رہیں گی۔ ہم انھیں واپس بلا لیں گے اور آپ کو اپنا حق راے دہی دیا جائے گا‘‘۔ ان کا یہ وعدہ تاریخ میں لکھا جاچکا ہے۔ پھر جنوری ۱۹۴۸ء میں خود ہندستان یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں لے کر گیا اور وہاں عالمی برادری کے ساتھ بھارت نے ۲۵دسمبر۱۹۴۸ء کو یہ قرار داد پاس کی کہ:
ریاست جموں و کشمیر کے بھارت یا پاکستان سے الحاق کا مسئلہ آزاد اور غیر جانب دارانہ راے شماری کے جمہوری طریقے سے طے پائے گا۔
اس قرار داد کو ہندستان نے تسلیم کیا ، اس پر دستخط کیے ہیں، اور عالمی برادری اس کی گواہ ہے۔ اس طرح کی منظور ہونے والی ۱۸ قرار دادوں پر بھارت نے دستخط کیے ہیں۔ اس طرح بھارتی حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس نے بین الاقوامی سطح پر ہم سے جو وعدے کیے ہیں انھیں وہ پورا کرے۔
ہم نے جمہوری طریقہ بھی اختیار کیا ۔ ووٹ کے ذریعے اسمبلی میں جا کر ہم نے آواز اٹھانا چاہی، لیکن ہندستان نے طاقت کے نشے میں ایسی کسی بھی آواز پر کان نہیں دھرا، جو پُر امن طریقے سے اپنا حق حاصل کرنے کے لیے اٹھی تھی۔ جب تمام پُرامن راستے مسدود کردیے گئے تو عسکریت نے خود اپنا راستہ بنایا۔ جس کو ’ٹیررازم‘ کا نام دے کر، بھارت اعلیٰ تربیت یافتہ فوجیوں اور جدید ترین اسلحے سے لیس ریاستی ٹیررازم، کو استعمال کر کے اس جدوجہد کو دبا دینے کی ہرممکن کوشش کررہا ہے۔
آنجہانی گاندھی جی نے اپنی کتاب : تلاش حق میں کہا ہے کہ: ’’جس سسٹم میں انسانی، اخلاقی اور مذہبی قدروں کا احترام نہ ہو تو وہ سسٹم شیطانی کاروبار ہے‘‘۔ آج شیطان کا یہی کا روبار جموں و کشمیر میں چل رہا ہے ۔ بھارت ہو یا کوئی اور ملک، جہاں بھی ان اعلیٰ اخلاقی اور انسانی قدروں کا احترام نہیں کیا جاتا، وہاں کے لوگ شیطانی سیاست کا شکار ہوتے ہیں۔
میں عرض کر رہا ہوں کہ ہندستان سے آزادی حاصل کرنا ہمارا پیدایشی اور بنیادی حق ہے۔ آپ ۸ لاکھ کے بجاے سار ے ہندستان کی فوج کشمیر میں جمع کر دیں، لیکن آپ کبھی جذبۂ آزادی کو کچلنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے !
جموں وکشمیر کی غالب اکثریت کا یہ فرض بنتا ہے کہ اس ظلم سے نجات حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کریں، آواز اٹھائیں ۔ بھارت کے ایک ارب ۲۰ کروڑ لوگ جو اپنے آپ کو انسان کہتے ہیں، انسانی سماج کا حصہ سمجھتے ہیں، ان پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں، قلم اٹھائیں اور اس ظلم کے خلاف ان کا جو فرض بنتا ہے اس کو انجام دینے کا حق ادا کریں۔
ہمیں گذشتہ [آٹھ] عشروں سے جن مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، وہ تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ اکتوبر ۱۹۴۷ء کے جس الحاق کو بھارت بنیاد بناکر قبضہ برقرار رکھنا چاہتا ہے، وہ بھی عارضی اور مشروط الحاق تھا۔ باوجود اس کے کہ خود اس الحاق کے بارے میں بھی سوالیہ نشان موجود ہے کہ وہ ہو ابھی تھا یا نہیں ہوا تھا۔ آنجہانی ہری سنگھ نے اس پر دستخط کیے بھی تھے یا نہیں، جیسا کہ الیسٹر لیمب نے کتاب Birth of a Tragedy: Kashmir 1947 [راکسفرڈ بکس،۱۹۹۴ء] میں ثابت کیا ہے۔ بہرحال، ان چیزوں سے قطع نظر وہ معاہدہ بھی عارضی اور مشروط تھا کہ لوگوں سے پوچھا جائے گا اور مستقبل کے بارے میں ان کی راے لی جائے گی۔
۱۹۵۳ء میں، جب کہ شیخ محمد عبداللہ کو معزول کیا گیا تو بقول پنڈت پریم ناتھ بزاز [م:۶جولائی ۱۹۸۴ء] ۱۰ہزار لوگوں کو جیل بھیج دیا گیا ۔ ۴۷ء سے ۱۹۵۳ء تک شیخ محمدعبداللہ کے دورِ اقتدار میں جس طرح سے لوگوں کو دبا یا جا رہا تھا، میں خود اس کا عینی شاہد ہوں۔ گذشتہ برس ہا برس سے جاری ہماری جدوجہد کے اس مرحلے میں بھارتی حکمرانوں اور مسلح افواج کی جانب سے جو بدترین مظالم ڈھائے گئے ہیں، ان کی ایک ہلکی سی جھلک بھی انسان کو ہلاکر رکھ دیتی ہے، بشرطیکہ وہ انسان ہو۔
پورے بھارت میں بتایا جاتا ہے کہ کشمیری بچے اور نوجوان، قابض فوجیوں پر کنکر پھینکتے ہیں، مگر یہ نہیں بتاتے کہ آج تک اس سنگ باری سے کوئی بھارتی فوجی یا پولیس والا قتل نہیں ہوا۔ دوسری جانب ہمارے ہزاروں لوگ گولیوں سے بھون دیے گئے ہیں۔ ان مقتولین میں معصوم بچے اور گھریلو خواتین اسکول کی طالبات اور نوعمر لڑکے بھی شامل ہیں۔
یہ ہماری جدوجہد کا آخری مرحلہ ہے اور عوامی سطح پر یہ پُر امن ہے۔ اس جدوجہد میں ہم بندوق کا سہارا نہیں لے رہے ہیں۔ ہماری تحریک خالصتاً مقامی اور Indigenous تحریک ہے، اور اسی کے ذریعے پوری عالمی برادری میں یہ احساس بیدار ہو رہا ہے کہ جموں وکشمیر کے عوام اپنا پیدایشی حق حاصل کرنے کے لیے جان ومال کی قربانی دے رہے ہیں۔ تاہم، بدترین ریاستی تشدد، ظلم اور قتل و غارت کے جواب میں اگر کچھ نوجوان کسی درجے میں جوابی کارروائی کرتے ہیں، تو وہ تشدد کا اسی طرح ایک فطری ردعمل ہے، جس طرح تحریک آزادیِ ہند کے دوران ہوا تھا۔ تب کانگریس کی قیادت بہ شمول گاندھی جی نے یہی کہا تھا کہ: ’’مجموعی طور پر سیاسی جدوجہد میں ایسے واقعات کو روکنا ممکن نہیں، جب کہ ریاست ظلم کا ہرہتھکنڈا برت رہی ہے‘‘۔آج ہم بھی بھارتی نیتائوں سے یہی کہتے ہیں۔
ہم جموں و کشمیر کے ہر باشندے کے لیے حصولِ آزادی کا یہ حق حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس میں کسی قسم کے دھونس اور دبائو کو قبول نہیں کریں گے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ آزادانہ استصواب راے کے ذریعے اکثریت جو بھی فیصلہ کرے گی، وہ ہمیں قبول ہو گا۔ ہم یہ بات بار بار کہہ چکے ہیں کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق اکثریت اپنے مستقبل کا جو بھی فیصلہ کرے گی وہ ہمیں قبول ہوگا۔ آزادی کا ہمارا مطلب وہی ہے، جو ہندستان کا انگریزوں سے آزادی کے مطالبے کا مطلب تھا۔ ہم بھارتی قبضے سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ End to Forcible Occupation یہ ہمارا نعرہ ہے۔ اسی طرح ہمارا نعرہ ہے کہ’ گوانڈیا گو‘۔ انڈیا کا اس سر زمین پر کوئی آئینی، اخلاقی اور قانونی حق نہیں ہے۔ بندوق کی نوک پر آخر وہ کتنے عرصے تک ہمارے سینے پر مونگ دلتا رہے گا۔
۲۳ مارچ ۱۹۵۲ء سے جموں و کشمیر پر پاک بھارت مذاکرات کا عمل چل رہا ہے اور ۱۵۰بار مذاکرات کے دور مکمل ہو چکے ہیں، لیکن ان مذاکرات سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ کون نادان ہو گا جو ۱۵۰ بار مذاکرات کی ناکامی کے بعد پھرایسے بے معنی اور وقت گزاری کے عمل کا حصہ بنے؟ ایسا اس لیے ہورہا ہے کہ ہندستان ایک سانس میں کہہ رہا ہے کہ ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں اور دوسرے ہی سانس میں کہہ رہا ہے کہ جموں وکشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ اسی غیرمنطقی ہٹ دھرمی کے سبب اب تک کے مذاکرات ناکام ہوئے ہیں۔ آیندہ بھی کسی مذاکراتی عمل میں اس وقت تک شرکت بے معنی ہے، جب تک کہ بھارت، جموں وکشمیر کی اس متنازع حیثیت کو تسلیم نہ کر لے کہ جوامرواقعہ بھی ہے اور جسے خود بھارتی قیادت نے پوری دنیا کے سامنے تسلیم بھی کیا تھا۔
ہم نے ۳۱ ؍اگست ۲۰۱۰ء کو ایک پانچ نکاتی فارمولا پیش کیا تھا، جو مسئلہ کشمیر کا کوئی حل نہیں، لیکن مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف بڑھنے کا ایک راستہ ہے۔ اس میں پہلا نکتہ یہی ہے کہ کشمیر کی جو بین الاقوامی متنازع حیثیت ہے، اس کو آپ تسلیم کریں۔ اس کے بعد اقوام متحدہ کی نگرانی میں، افواج کا انخلا شروع کریں ۔ اس کے بعد کالے قوانین کے نفاذ کو ختم کریں۔ تمام گرفتار لوگوں کو رہا کریں اور ہمارے پُرامن لوگوں کے جو قاتل ہیں، ان کے خلاف آپ مقدمات چلائیں اور سزا دیں۔
یہ پانچ نکاتی فار مولا دراصل مذاکرات کے لیے ماحول بنانے کے لیے ہے، جس پر بات چیت ہو سکتی ہے ۔ ہم بات چیت کے منکر نہیں ہیں، مگر یہ بات چیت صرف بنیادی اور مرکزی ایشو پر ہونی چاہیے۔ یہ بات چیت دو فریقوں میں نہیں بلکہ تین فریقوں کے درمیان ہونی چاہیے۔ اس میں ہندستان ،پاکستان اور جموں وکشمیر کے آزادی پسند شریک ہوں۔ پھر اُس تاریخی پس منظر کو سامنے رکھا جائے۔ ۱۹۴۷ء سے لے کر آج تک جو بے مثال جدوجہد کی گئی ہے اور جو قربانیاں دی گئی ہیں ان کو پیش نظر رکھا جائے اور جموں و کشمیر کی جغرافیائی وحدت کو برقرار رکھتے ہوئے، ان مذاکرات کے بعد استصواب راے میں جو بھی نتیجہ سامنے آئے گا، اسے ہم سب قبول کریں۔
بھارت میں ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ: ’’اگر جموں وکشمیر بھارتی تسلط سے آزاد ہو جائے گا اور چوںکہ وہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے تو وہاں اقلیتوں کا مستقبل محفوظ نہیں ہوگا‘‘۔ یہ پروپیگنڈا بے جواز بھی ہے اور بے معنی بھی۔ چوںکہ جموں وکشمیر ،مسلم اکثریتی خطہ ہے، وہاں بسنے والی تمام اقلیتوں کے بارے میں ہم گارنٹی دیتے ہیں کہ ان کے جان ومال ، عزت وعصمت، ان کے مذہب و عقیدے اور ان کی عبادت گاہوں، سب کا تحفظ ہو گا۔ اس حوالے سے کسی کو کسی بھی قسم کی فکر مندی یا پریشانی کی ضرورت نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہندستان جودنیا بھر کے سامنے جمہوریت کا دعویٰ کر رہا ہے، کیا وہ خود اس اصول کو اپنا رہا ہے؟ کیا اس پر عمل کر رہا ہےـ؟ اگرایسا ہوتا تو جموں وکشمیر گذشتہ [۷۲]برسوں سے بھارتی جبر کا شکار نہ ہوتا۔ لیکن بہر حال ہم گارنٹی دیتے ہیں کہ ہمارے پاس ایسا نظام ہے، جس میں انصاف اپنا وجود اور عمل دکھائے گا، ان شا اللہ !
اس عرصے میں ۶ لاکھ قربانیاں لے کر، ہماری عزتیں اور عصمتیں لوٹ کر ، جنگلات کا صفایا کر کے، ہمارے لوگوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلنے کے بعد بھی آپ کو معلوم نہیں ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں؟ اسی لیے ہم نے کہا ہے کہ ہم نے جو پانچ نکاتی فارمولا پیش کیا ہے، جب تک اسے تسلیم نہیں کیا جائے گا ہم کسی قسم کی بات چیت کے لیے تیار نہیں ہیں۔ دہلی کی اس باشعور مجلس کے ذریعے میں اعلان کرتا ہوںکہ آپ کے جو صلاح کار ہمارے مظلوم بھائیوں سے ملنا چاہ رہے ہیں ، اُن کے سامنے ہمارے لوگ یہ مطالبہ دہرائیں گے کہ جب تک آپ اصل حقائق کو تسلیم نہیں کریں گے، آپ کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔ طلبہ،تاجروں ، دیگر آزادی پسند لوگوں کا مطالبہ ہے کہ اس زمینی صورتِ حال کو تسلیم کیے بغیر کوئی بات چیت نہیں کریں گے، کہ یہ محض وقت گزارنے کا بہانا ہے، اور مسئلہ حل کرنے کے لیے آپ کی نیت صاف نہیں ہے۔
کیا آپ نہیں جانتے کہ ہمارا مطالبہ کیا ہے؟ ہم کیا چاہتے ہیں؟ ہم خون دے کر اور جانیں دے کر باربار بتا رہے ہیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں؟ آزادی اور صرف آزادی چاہتے ہیں۔ عزتیں اور عصمتیں لٹا کر، بچیوں کو اُجڑتے دیکھتے اور جوانوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے سٹرتے ہوئے بھی ہم کہہ رہے ہیں کہ ہم بھارت کے جبری قبضے کے خلاف ہیں اور ہم اس سے آزادی چاہتے ہیں۔ لیکن آپ لوگ کہتے ہیں کہ:’’ ہم آپ کے پاس جائیں گے اور پوچھیں گے کہ ’’بتائو کہ تم کیا چاہتے ہو؟‘‘ بہر حال یہ فریب کاری ہے۔ آپ بات کی تہہ تک پہنچ کر دیکھیں اور اس خودفریبی سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
میں آپ کو برملا یہ حقیقت بتانا چاہتا ہوں کہ نہ ہمارے عوام تھکے ہیں، اور نہ ہماری قیادت مایوس ہوئی ہے۔ ہم جدوجہد آزادی میں بھرپور طریقے سے ہم قدم ہیں ۔ اس وقت تک برسرِکار ہیں، جب تک کہ ہم بھارت کے فوجی قبضے سے آزادی حاصل نہ کرلیں۔ بھارتی قبضے سے ریاست جموں و کشمیر کی آزادی کے ساتھ ہی بھارت اور پاکستان جیسے دو ایٹمی طاقت رکھنے والے ممالک ایک رستے ہوئے ناسور سے آزاد ہوجائیں گے۔ کیوں کہ مسئلہ کشمیر ایک ایسا لاوا ہے، جس کو حکمرانوں کی اناپرستی، ہٹ دھرمی اور عدم توجہی کی وجہ سے اگر اسی طرح دبانے کی کوشش کی گئی تو اس میں اتنا خطرہ موجود ہے کہ یہ پورے برصغیر ہی نہیں بلکہ پورے عالمِ انسانی کے خرمن کو جلاکر راکھ کرسکتا ہے۔اس لیے انسانیت کی بقا کے لیے اور اپنی آنے والی نسلوں کے امن کی ضمانت کے لیے، اس دیرینہ تنازع کو حل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، اور یہ جتنا جلد ہوگا، اتنا ہی بہتر ہوگا۔
آخر میں، مَیں انتظامیہ اور آپ سب حضرات کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
۵ فروری کو یوم یک جہتی کشمیر منایا جا رہا ہے۔ اسی نسبت سے میں آپ حضرات کی خدمت میں معروضات پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔ ۵ فروری کو یوم یک جہتی کشمیر منانے کے لیے پاکستانی حکومت، فوج اور عوام کا دل کی عمیق گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
جموں وکشمیر کے مظلوم عوام پچھلے ۷۰ سا ل سے اپنے حقِ خود ارادیت کے لیے برسرِ جدوجہد ہیں۔ اس جدوجہد میں پاکستان روزِ اول سے سیاسی ، سفارتی اور اخلاقی سطح پر مدد کرتا آ رہا ہے۔ سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان اور جموں وکشمیر کے محسن اور غم خوار مرحوم قاضی حسین احمد صاحب کو زبر دست خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے جنھوں نے ۱۹۹۰ء میں یوم یک جہتی کشمیر کا آغاز کرکے پاکستان کو تحریک آزادی کے حوالے سے زیادہ فعال اور سرگرم رول ادا کرنے کی ترغیب دی۔
کشمیر ی قوم اپنی آزادی کے لیے دنیا کی ایک بڑی ملٹری طاقت سے نبرد آزما ہے۔ اس جدوجہد میں پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو ہمارے حقِ خود ارادیت کو خود بھی تسلیم کرتا ہے اور عالمی برادری کے سامنے اس کی وکالت بھی کرتا ہے۔ ہم اس مدد او ر سپورٹ کے لیے پاکستان کے ممنون ہیں، البتہ اس ملک کی طر ف سے کشمیر کے حوالے سے زیادہ Avtive اور اہم رول ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ میری دلی خواہش ہے کہ پاکستان دنیا بھر میں اپنے سفارت خانوں او ر سفارتی چینلوں کو زیادہ متحرک کر ے اور انھیں کشمیر یوں کی جدوجہد اور جموں وکشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کو اجاگر کرنے کا ٹاسک سونپ دے۔
میں پاکستان کے حکمرانوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اپنی کشمیر پالیسی میں تسلسل اور استحکام پیدا کریں اور اس میں کسی بھی مرحلے پر معذرت خواہانہ رویے کو اختیار نہ کیا جائے۔ کشمیریوں کی جدوجہد مبنی بر حق ہے جس کو عالمی سطح پر بھی تسلیم کر لیا گیا ہے۔ پاکستان مسئلۂ کشمیر کا ایک اہم فریق ہے اور اس قبضے کا حتمی حل پاکستان کی شمولیت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ لہٰذا اس ملک کو جرأت اور حوصلے کے ساتھ اپنے موقف کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے اور اس میں کسی قسم کی کمزوریوں اور لچک کا مظاہرہ نہیں کیا جانا چاہیے۔
میں ایک بار پھر موحوم قاضی حسین احمد کو شاندار خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ آج یوم یک جہتی کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی کئی سیاسی اور مذہبی تنظیموں جلسوں اور جلسوں کا اہتمام کرتی ہیں ، البتہ اس دن کے آغاز کا سار کریڈٹ مرحوم قاضی حسین احمد صاحب کی ذات کو جاتا ہے جنھوں نے پہلی بار کشمیریوں کے تیئس عملی اور ردیدنی وابستگی ظاہر کرنے کا پیغام دیا۔ مرحوم قاضی صاحب خود بھی کشمیریوں کی جدوجہد کو کامیابی سے ہم کنار ہونے کے متمنی تھے۔ مرحوم اپنی ہر تقریر میں کشمیر کا تذکرہ کرتے تھے اور انھوں نے کشمیری مہاجرین کے تئیں جس ہمدردی اور شفقت کا مظاہرہ کیا وہ آب وزر سے لکھنے کے قابل ہے۔ کشمیر ی قوم مسئلہ کشمیر سے ان کی والہانہ وابستگی اور گراں قدر خدمات کو کبھی فراموش نہیں کر سکتی ۔ پاکستانی عوام کو چاہیے کہ وہ ۵ فروری کو روایتی طور پر منانے سے آگے بڑھ کر اس دن کو زیادہ سے زیادہ جلسے اور جلسوں کا انعقاد کر کے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کریں۔ اور جموں وکشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کو جتنا ممکن ہوسکے اُجاگر کیا جائے۔
میں پاکستان کی حکومت ، پاکستان کی سیاسی قیادت اور پاکستان کے عوام کی دل کی عمیق گہرائیوں کے ساتھ شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ جموں وکشمیر کے مظلوم ، محکوم اور غلام قوم کی حمایت دل و جان سے کرتے ہیں اور ایک بہت بڑا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ ہماری دل کی عمیق گہرائیوں کے ساتھ دعائیں ہیں کہ پاکستان سلامت رہے، محفوظ رہے اور ہر حیثیت سے انسانی قدروں کا احترام کرے اور پاکستان میں جتنے بھی لوگ بس رہے ہیں چاہے مسلمان ہوں، ہندو ہوں ، سکھ ہوں، عیسائی ہوں، احمدی ہوں، جو بھی لوگ پاکستان میں سکونت پذیر ہیں ان کو جان مال، عزت وآبرو، مذہب وعقیدہ اور عبادت گاہوں کی پر حیثیت سے حفاظت ہونی چاہیے۔ یہ ہم دل کی عمیق گہرائیوں سے چاہتے ہیں تا کہ پاکستان عالمی سطح پر ایک ایسا ملک سمجھا جائے کہ وہ انسانی قدروں اور اخلاق قدروں کا سب سے زیادہ پاسداری کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔
اللہ سے عاجزانہ التماس ہے کہ پاکستان جموں وکشمیر کے مظلوم عوام کی حفاظت اور ان پر جو مظالم ڈھائے جا رہے ہیں ان کو عالمی سطح پر عوام تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیتے رہیں گے، اور پاکستان کے عوام اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور ہم بھی دیکھیں گے کہ ہم بھارت کے جبری فوجی قبضے سے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ان شا اللہ ، ان شا اللہ ،ان شا اللہ ! اللہ ہماری مدد اور حفاظت کرے۔
یہ حقیقت واضح ہے کہ پروردگارِ عالم نے کرّہ ارض پر انسانوں کو بسا کر یہ دیکھنا چاہا ہے کہ کون بندگی کا راستہ اختیار کرتا ہے اور کون سرکشی دکھاتا ہے؟اللہ تعالیٰ بند گی اختیار کرنے والوں کو دائمی فلاح و کامرانی سے نوازیں گے اور سرکشی دکھانے والوں کو سزا دیں گے۔ دنیوی زندگی کو اس امتحان کے لیے سازگار بنانے کی خاطر شریعت دی گئی، تاکہ زندگی کا نظم ونسق بھی چلے اور افراد کی آزادیِ اختیار بھی باقی رہے۔یہاں پر ہم اس بات پر غور کریں گے کہ مقصدِ تخلیق اور مقاصدِ شریعت کی روشنی میں اسلامی تحریکات کا کیا رول ہونا چاہیے؟ اسلامی تحریکات سے ہماری مراد وہ تحریکات ہیں جو گذشتہ دو سو سال سے سرگرم کار ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کے [سیاسی]زوال کو عروج سے اور مغلوبیت کو اسلام کے غلبے سے بدلنا چاہتی ہیں۔ چوںکہ اس سوال کا جواب (کہ اسلامی تحریکات کیا طریق کار اختیار کریں؟) آنے والے دنوں سے متعلق ہے، اس لیےپہلے ہم یہ دیکھنا چاہیں گے کہ مستقبل کیسا ہوگا؟
یہ ایک فطری خیال ہے کہ آنے والے دن گزرے دنوں سے مختلف ہوںگے ،ہم مل جل کر سوچیں کہ کیوں اور کس حد تک مختلف ہوسکتے ہیں؟ اور یہ کہ اپنا اندازکار بدل کر نئے حالات میںکس طرح نئے طریقے اختیار کر سکتے ہیں؟اس امید کے ساتھ کہ بدلے ہوئے طریقے تحریک اسلامی کو اپنے مقصد، یعنی اللہ کے بندوں کو اللہ کی بندگی کی طرف بلانے میں کامیابی کی طرف لے جائیں گے۔
سب سے پہلے ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں دنیا آج کی دنیا سے کن باتوں میں مختلف ہوگی؟ آبادی بڑھے گی، دیہات سے شہر منتقلی بڑھے گی،مواصلات اور نقل و حمل کی تیزی بڑھے گی،ہر ملک میں مختلف رنگ و نسل کے لوگ اور مختلف مذاہب کے ماننے والے ایک ساتھ رہیں گے، غریبی اور محتاجی کم ہوگی، مگر دولت اور آمدنی میں فرق بڑھتا جائے گا۔ حکمرانی میں عوام کی شرکت بڑھے گی،مقامی حکومت اور بین الاقوامی اداروں کا رول بڑھے گا،قومی حکومتوں کا عمل دخل اور دور دورہ کم ہو گا۔ خاندان کی گرفت ڈھیلی پڑتی جائے گی،اوسط انسانی عمر میں اضا فہ ہوگا، لوگ طویل عمر تک زندہ رہیں گے۔ صحتیں پہلے سے بہتر ہوں گی۔ ہر آدمی،مرد ہویا عورت،اپنی فکر میں لگارہے گا، خود غرضی بڑھےگی۔ باہمی تعاون میں کمی آئے گی۔ باہم لین دین کےمعاملات درمیانی واسطوں کے بغیر براہ راست ہوں گے ،(مثلاً انٹرنٹ کے ذریعے۔) زرِ نقد، کا استعمال کم سے کم ہوگا۔ بڑی کارپوریشنوں کا زوال ہوگا، مالیاتی لین دین (Finance) میں بھی بڑے اداروں کی جگہ جو درمیانی واسطوں کا کام کرتے ہیں،براہِ راست مالیات فراہم کرنے والوں اور مالیات کے ضرورت مندوں کے باہمی ربط کا رواج بڑھے گا۔ ماحولیاتی تحفّظات کے سبب شرحِ نمو کم ہوگی، ہو سکتا ہے معیار زندگی بھی کمی کی طرف مائل ہو۔
دنیا کی چودھراہٹ کی دوڑ اور بڑی طاقتوں کی باہمی کشاکش بڑھے گی یا کم ہوگی، کچھ کہنا مشکل ہے۔ اگرچہ امن عالم کے بارےمیں کچھ کہنا اس سوال کا جواب دیے بغیر ممکن نہیں۔ رہا معاملہ عدل کا تو کوئی قطعی بات کہنا مشکل ہے۔ سماجی عدل کا ا نحصار نابرابری میں کمی اور کفالت عامّہ و شاملہ پر ہے، اور معاملات میں انصاف تب ہوتا ہے جب لوگ ایک دوسرے کے حقوق دینے کو تیار ہوں اور حکومت استحصالی ہو نے کے بجاے عوام کی خدمت میں مخلص ہو۔ دونوں باتوں کا تعلّق اخلاقی اقدار اور روحانی تصوّرات سے ہے(زندگی کیوں،کہا ں سے، کدھر کو؟) جب کہ باقی مذکورہ بالا باتوں کا تعلّق ٹکنالوجی سے ہے۔د یکھنا یہ ہے کہ ٹکنالوجی بدلنے سے ہونے والی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے کیا کرنا ہے اوردوسروں کے ساتھ عد ل و انصاف سے پیش آنے کے لیے لوگوں کو کیسے آمادہ کیا جائے؟ استحصالی حکمرانی کی جگہ خدمت گار حکمرانی لانے کا مسئلہ، مستقبل کے سیاق میں، خصوصی غور و فکر کا طالب ہے۔
اسلام [ایک بنیادی حد کے بعد] لوگوں کی آزادیاں برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ ٹکنالوجی ہو یا اس میں تبدیلی سے پیدا ہونے والے سماجی مسائل، اصولی طور پر لوگ آزاد ہیں جو چاہیں کریں۔ البتہ کچھ مقاصد ہیں جن کو سامنے رکھنا چاہیے ، کچھ حد یں ہیں جن کے اندر رہنا ہوگا۔ یہ حدود اور مقاصد انسانوں کی اپنی بھلائی کے لیے ہیں۔ اس میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ ان حدود و مقاصد کو جاننے کے لیے کن مآخذ کی طرف رجوع کیا جائے؟ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ یہ حدود و مقاصد دائمی ہیں یا اُن میں تبد یلی ہوسکتی ہے؟ اگر ان میں لچک ہے تو اس کا معیار کیا ہے؟ ایک اور پہلو جو قابلِ توجّہ ہے، حدود اور مقاصد کے رول کو ایک دوسرے سے ممتاز کر کے سمجھنا ہے۔
پہلے آخری سوال کو لیتے ہیں۔یقیناً مقاصد مذکورہ حدود سے زیادہ اہم ہیں۔ اس لیے کہ انسانوں اور معاشروں اور تنظیموں کی جانب سے حدیں اصلاً مقرر کی گئی ہیں، مقاصد میں یک گونہ ہم آہنگی اور توازن پیدا کرنے اورمؤثر بنانےکے لیے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مقاصد دائمی ہیں مگر یہ وضعی حدیں لچک رکھتی ہیں۔ مقاصد میں اگر کوئی لچک ہے تووہ درجۂ تحصیل سے متعلّق ہوگی(یعنی مقداری لچک)کہ خود مقاصد نہیں بدلتے۔ گویا مقاصد معیار کا درجہ رکھتے ہیں۔ وسائل کم ہوں تو درجۂ تحصیل کم ہوگا،وسائل فراواں ہوں تو درجۂ تحصیل زیادہ ہوگا۔ البتہ حدوں میں لچک مقداری (Quantitative)اور وصفی(Qualitative)دونوں طرح کی ہوتی ہے،تاکہ بدلتے حالات میں تحصیلِ مقاصد ممکن ہوسکے۔
ہم اس بات کو ایک مثال کے ذریعے واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔ سارے انسانوں کو کھانا پینا، کپڑا اور سر چھپانے کی جگہ ملے، یہ مقصود ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ہر اس فرد کو، جو کام کرسکتا ہے محنت کرنا چاہیے۔ جوافراد کم عمری، بڑھاپے، یا کسی معذوری کی وجہ سے اپنی ضروریات خود نہ پوری کر سکتے ہوں ان کی ذمّہ داری ،پہلے قدم پر، خاندان کے قریبی ان رشتہ داروں پر ڈالی گئی ہے کہ جو اس کی قدرت رکھتے ہوں۔ جن خاندانوں میں اس فارمولے پر عمل سے کام نہ چلے، یا جب خاندان بکھر چکے ہوں (جیسا کہ آج کل دیکھنے میں آرہا ہے)، تو ان معذوروں اور ضرورت مندوں کے لیے اجتماعی بندوبست درکار ہے۔ اکثر حالات میں غیر سرکاری ادارے، مثلاً: یتیم خانے وغیرہ یہ ذمّہ داری سنبھال لیتے ہیں۔ آخری چارہ کار ریاستی طور پر ضرورت کی تکمیل ہے۔ ہرصورت میں ضرورت کی تکمیل کا معیار اس ملک یا آبادی کو میسّر وسائل پر منحصر ہے۔
اس ذمّہ داری کی ادایگی کے لیے اسلام نے حکمراں کو امیروں سے ، زکوٰۃ ناکافی ہونے کی صورت میں مزید ٹیکس لینے کا بھی اختیار دیا ہے ( جہاں تک عمل کا سوال ہے ،پندرہ سو برسوں میں اس ذمّہ داری کی ادایگی یا اس کی ادایگی میں کوتاہی کی بے شمار مثالیں مسلمان ملکوں میں ملیں گی)۔ انسانی ہمدردی اور خدمت کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حاجت روائی ضرب المثل اور معروف ہے۔ ضرورت پڑی تو آپؐ نے مکّہ والوں کو غذائی امداد بھیجی حالاں کہ اس وقت تک مکّہ والے دائرۂ اسلام میں نہیں داخل ہوئے تھے۔دوسرے خلیفہ،سیّدنا عمر فاروقؓ نے قحط کے زمانے میں مدینہ کی عام آبادی کو کھانا کھلانے کا انتظام کیا تھا۔ ترقّی یافتہ ممالک میں جب سے فلاحی ریاست کے تصوّر نے جڑ پکڑی ہے اس بارے میں ایک سے بڑھ کر ایک اعلیٰ نمونے ملتے ہیں۔ آج بعض ممالک میں ہرشہری کو مفت تعلیم،علاج، نقل و حمل اور دوسری سہولتیں حاصل ہیں۔ جدید اسلامی معاشرے کو مقامی حالات اور عالمی معروفات کی روشنی میں اپنا موقف اختیار کرنا ہوگا۔
یہ مثال نسبتاً سادہ سی تھی، جس کے بارے میں زیادہ اختلاف کی گنجایش نہیں۔ اب ہم ایک دوسری مثال پیش کریں گے جس کی تفصیلات میں اختلاف کی کافی گنجایش ہے۔ انسانی عزّوشرف بھی ایک مقصد ہے جس کے ایک تقاضے کے طور پر یہ حکم دیا گیا ہے کہ اجتماعی امور باہمی مشورے سے طے کیے جائیں۔ تکریم بنی آدم کا مقصد جبرواستبداد سے اِبا کرتا ہے۔ یہ بات کہ کچھ لوگ دوسروں پر حکم چلائیں، نسلی بادشاہی ہو، کچھ لوگ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فیصلوں میں شرکت سے محروم کردیے جائیں، اسلام کو منظور نہیں۔
اس طریقے پر عمل درآمد کی کچھ مثالیں عہد نبویؐ اور خلافت راشدہؓ کے زمانے میں ملتی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مکّہ سے مدینہ آئے تو آپؐ نے آبادی کے مختلف گروہوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے ایک ایسا دستور بنایا جس میں آپؐ حکمران تھے، مگر غیر مسلم بھی اس وفاق میں برابر کے شریک تھے۔ سیّدنا عمرفاروقؓ نے مجوسی مذہب والوں کے جذبات کی رعایت سے انھیں حفاظتی ٹیکس، جزیہ سے مستثنیٰ کرتے ہوئے ان پر دوسرا ٹیکس لگایا۔ قدیم دور میں جو نظیریں ملیں، وہ اس زمانے کے معروفات، عادات اور امکانات کو سامنے رکھ کر سمجھی جانی چاہییں۔ آج اس مقصد کو آج کی عادات، معروفات اور امکانات کو سامنے رکھتے ہوئے حاصل کرنا ہو گا۔ عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق دینا، غیر مسلم شہریوں کی شرکت کا خیر مقدم کرنا اور ملکی فیصلوں میں بین الاقوامی قانون اور عہد و پیمان کا لحاظ رکھنا، ایسے امور ہیں، جن کو جدید اسلامی فکر کی تائید حاصل ہے (اگرچہ اس حوالے سے اختلاف کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔) اس کے سوا چارہ نہیں کہ اس بارے میں اختلاف کو بھی باہمی مشوروں سے طے کیا جائے، اس شرط کے ساتھ کہ اصل مقصد نہ فوت ہو،یعنی آدم کی ہر اولاد برابر کی عزّت رکھتی ہے، جو اسے ملنی چاہیے۔
ہماری نظر مقاصدِ شریعت پر ہونی چاہیے۔ فوری طور پر حدود کے نفاذ پر اصرار سے اگر مقاصد کا حصول خطرے میں پڑ رہا ہو توان کی تشریح، تعبیر اور تنفیذ کے حوالے سے دیکھا جائے کہ اسلامی شریعت کے اصولوں کی پاس داری کرتے ہوئے کہاں اور کتنی گنجایش ممکن ہے۔قیام عدل کی خاطر اور اجتماعی طور پر کفالت عامّہ کی ضمانت دینے کے لیے ملکی دستور میں مسلمان اور غیر مسلم شہریوں کو یکساں حقوق کی ضمانت دینا اس کی ایک اہم مثال ہے۔
ہم چاہیںگے کہ مسلمانوں کو اپنی اقدار و اطوار کے مطابق زندگی گزارنے کا حق ہر ملک میں حاصل ہو( جہاں وہ اکثریت میں ہوں وہاں بھی، اور جہاں وہ اقلیت میں ہوں وہاں بھی)۔ اس مقصد شرعی کے حصول کے لیے ہمیں غیر مسلم ہم وطن شہریوں کو بھی ہر ملک میں یکساں حقوق دینے چاہییں۔ اس دستور کے مطابق کسی عہدے پر کوئی بھی فائز ہو سکے گا۔ اگرچہ جدید بندو بست میں کسی بھی عہدے دار کو فیصلہ کن اختیا رات نہیں ملتے بلکہ انتظامیہ، مقنّنہ اور عدلیہ کے الگ الگ دائرۂ کار مقرر کرکے مطلق العنانی پر قابو پانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ماضی میں اس کی نظیر نہ ملنا اس بات کی دلیل نہیں کہ یہ موقف غلط ہے۔ یہ دیکھنا ہے کہ مقاصد کے حصول کا بہتر طریقہ کیا ہے؟
سب انسانوں کے لیےبہتر ہوگی ایک ایسی دنیا، جس میں ہر ملک میں ہر فرد کو یکسا ں حقوق حاصل ہوں۔ اُسے اختیار ہوکہ وہ جس مذہب پر چاہے عمل کرے،یا کسی مذہب کو نہ مانے۔ جس میں ہر ایک کو دوسروں کے سامنے اپنے خیالات اور عقائد کی تبلیغ کا حق ہو۔ جس میں ہر مذہبی گروہ کو خاندانی زندگی اپنے پرسنل لا کے مطابق منظّم کرنے کا حق ہو،جو شخص کسی مذہبی پرسنل لا کی پابندی نہ پسند کرے اسے متبادل سول لاز کی تشکیل میں حصّہ لینے کا حق ہو۔باقی امور میں قانون سازی ایک ایسے فورم کے ذریعے عمل میں آئے، جس میں ہر فرد کو اپنی بات دلیل کے ساتھ پیش کرنے اور دوسروں کو سمجھانے کا موقع ملے۔اور جب ایک قانون بن جائے تو اس میں تبدیلی لانے کے مواقع بھی میسّر ہوں۔
سب کے لیے اچھّا ہوگا کہ کوئی ملک جو دوسرے ملکوں پر اپنی چودھراہٹ جمانے کی کوشش نہ کرے۔ امن کا قیام ،باہمی جھگڑوں کا خاتمہ، اظہارِ خیال کی آزادی یہ سب اُمور… مقاصد شریعت میں سے ہیں۔ آج کے حالات میں جب دنیا ایک آبادی میں تبدیل ہو چکی ہے (جس میں ہر رنگ و نسل، ہر مذہب کے لوگ مل جل کر رہتے ہیں اور ایک دوسرے سے لین دین، عہد و پیمان کے تعلّقات رکھتے ہیں) اس مقصد کے حصول کے لیے ایسی ہی فضا درکار ہے۔ انیسویں صدی کی وہ دنیا جس میں ایک ملک میں زیادہ تر ایک طرح کے لوگ رہتے تھے۔ ہرملک خود مختاری کے دعوے کے ساتھ خود کو اس بات کا مجاز سمجھتا تھا کہ ملک کی آ بادی کی اکثریت کی راے کے مطابق ایک نظام نافذ کرے اور باقی آبادی کو (جو اقلیتوں پر مشتمل ہو) چند بنیادی حقوق کی ضمانت دے۔ دوسرے ملکوں کو اس کی اجازت نہ تھی کہ وہ کسی خود مختار مُلک کے اس اختیار میں مداخلت کریں،لیکن وہ دنیا اب داستان ماضی بنتی جا رہی ہے۔ اب دنیا کے سارے ملک متعدد بین الاقوامی معاہدوں کے پابند ہیں۔ کسی ملک میں کوئی گروہ خواہ وہ اقلیّت میں ہی کیوں نہ ہو،اکثریت اس پر اپنی مرضی نہیں تھوپ سکتی۔عملی طور پر اس نقشے کے خلاف بہت کچھ ہوتا نظر آتا ہے، مگرعالمی طویل المیعاد رجحان یہی معلوم ہوتا ہے۔
تحصیل مقاصد میں لچک کی ایک مثال وہ حکمت ِتدریج ہے، جو اسلام نے غلامی کے رواج کو ختم کرنے کے سلسلے میں اختیار کی۔ ساتویں صدی کی دنیا، بالخصوص جزیرۃ العرب میں جنگی قیدیوں کو غلام بنالیا جاتا تھا،مفتوحہ عورتوں کو لونڈی بنا لیا جاتا تھا۔ پوری معیشت بھی غلامی پر قائم تھی۔ اس رواج کو رفتہ رفتہ ختم کرنے کے لیے اسلام نے متعدّد اقدامات کیے۔ حالت امن میں آزاد انسان کو پکڑ کر غلام بنا لینے کو قطعاً ممنوع قرار دیا،غلاموں کو اپنی آزادی خریدنے کی ترغیب دی اور ہمّت افزائی کی، اور غلام کے مالک کے لیے ضروری قرار دیا کہ وہ اسے معاوضہ لے کر آزاد کرنے پر راضی ہو۔ جن لونڈیوں کے یہاں اپنے مالک سے اولاد ہو،ان کو مالک کی وفات کے بعد آزاد قرار دیا، اور جنگی قیدیوں کو فدیہ کے عوض یا بلا معاوضہ( بطور احسان )رہا کرنے کی ہدایت دی۔ ان اقداما ت کے باوجود دنیاے اسلام میں غلامی اس وقت تک جاری رہی جب تک مغربی اقوام نے اس کے خاتمے کے لیے قدم نہ اٹھایا تو اس کی ذ مّہ داری ان مسلمان حکمرانوں پر تھی جنھوں نے اپنے مفادات کے لیے غلامی کو باقی رکھا۔ورنہ اِسلام کا منشا یہ نہ تھا کہ غلامی، دائماً باقی رہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبے میں غلاموں کے ساتھ حُسن سلوک اور ان کے حقوق ادا کرنے کی واـضح تاکید کی تھی۔ یہی نہیں ،ابنِ ماجہ کی روایت کے مطابق بسترِ مرگ پر بھی آپؐ کی وصیّت میں اس امر کی تاکید شامل تھی۔
اب دنیا میں قانوناً غلامی ختم ہوئی، دنیا میں رائج قانون کے مطابق کسی حال میں کسی انسان کو غلام نہیں بنایا جا سکتا۔ غور کیجیے تو مقصد تخلیق کا تقاضا ہے کہ انسان آزاد ہو، غلامی دنیوی زندگی کی امتحانی کیفیت کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتی۔ اِنسان کی آزادی مقصود ہے۔اس لیے کہ انسان آزاد حالت میں دنیا میں بھیجا گیا تھا ، ہر انسان آزاد پیدا ہوتا ہے اور اسے آزاد ہی رہنا چاہیے۔ تاریخ انسانی میں اس اصول کی خلاف ورزی(جو انسانوں کے ایک گروہ نے مرضیِ الٰہی کے خلاف کی تھی)اس کا سلسلہ اب نبیِ آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں ختم ہوا۔ یہ مقاصد میں لچک کی ایک مثال تھی۔ حالات کی بنا پر مقصد کی تکمیل کے لیے مناسب حالت تک پہنچنے میں تاخیرہوئی۔ ظاہر ہے کہ اب ایک بار مقصد کے مطابق حالت حاصل ہو جانے کے بعد پچھلی حالت کی طرف واپسی نا قابل قبول ہے۔ حال کے چند برسوں میں اس کے بر عکس موقف بعض احباب نے پیش کیا ہے۔ اُن کی بات مقصد تخلیق اور مقاصد شریعت دونوں سے ٹکرانے کی بنا پر نا قابل قبول ہے۔
سطورِ با لا میں ہم نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ مقاصد کہاں سے اخذ کیے جائیں؟ اصولاً اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ مقا صد کا ماخذ قرآن و سنّت ہیں، ساتھ ہی ان کی پہچان اور تعبیر میں عقل و فطرت کا بھی حصّہ ہے۔ انسان کی اصل مطلوب حالت آزادی اور خود اختیاری کی حالت ہے۔یہی خلافت ارضی اور اُخروی جواب دہی سے مناسبت رکھنےوالا موقف ہے۔اب اگر کوئی کتاب و سنّت کی بعض نصوص سے استدلال کرتے ہوئے جن کا تعلّق غلامی سے ہے، غلامی کے تسلسل یا احیا کا دعویٰ کرے تو اس کا یہ دعویٰ اس لیے نہیں قبول کیا جائے گا کہ وہ معیارِ مقصود سے ٹکراتا ہے جو چاہتا ہے کہ ہر فرد انسانی اپنے فیصلے خود کرے۔ یہی عقل کا تقاضا ہے اور فطرت کے مطابق ہے۔ کتاب و سنّت کی نصوص کو مقاصد کی روشنی میں سمجھنا چاہیے۔ مقصد تخلیق آیات محکمات سے واضح ہے اور مقاصد شریعت قرآن و سنّت کی نصوص کے مجموعے سے سمجھے گئے ہیں۔ کسی ایک باب میں ان دونوں کو پس پشت ڈال کر اختیا ر کیا ہوا موقف درست نہیں ہو سکتا۔
اسی قسم کی ایک دوسری مثال جنگ کے نتیجے میں قبضے میں آنے والی زمینوں، دوسرے غیرمنقولہ اثاثوں اور منقولہ دولت کی ہے۔ اس بارے میں بھی معروفات بدلتے رہے ہیں اور ان کے بدلنے کے ساتھ اسلامی بندوبست بھی بدلا ہے۔ آج یہ پورا معا ملہ’ جنیوا کنونشن‘ اور دوسرے متعلقہ معاہدوں کے تحت آتا ہے، جن کی پابندی کا ہر ملک نے عہد کیا ہے۔ ماضی میں بھی اس کی مثال موجود ہے۔بعض صحا بیوںؓ کے اصرار کے با وجود حضرت عمرؓ نے عراق و شام کی مفتوحہ زمینوں کو ان فوجیوں کے درمیان تقسیم نہیں کیا جنھوں نے لڑ کر اس علاقےکو فتح کیا تھا، کیوںکہ ایسا کرنے سے اعلیٰ تر مقاصد مجروح ہوتے۔ اب اگر کوئی گروہ غنیمت کی تقسیم سے متعلّق آیات کا حوالہ دے کر عرف عام اور معاہدوں کے خلاف عمل کرے تو اس کا فیصلہ درست نہیں قرار دیا جائے گا۔
اسلامی تحریکات بیسویں صدی کے شروع میں ابھریں ۔انھوں نے بیسویں صدی کے وسط تک وہ شکل اختیار کرلی، جو آج ان کی پہچان بن چکی ہے۔ تحریکوں کے ظہور اور ارتقا کے وقت ان کے سامنے مخصوص حالات تھے۔ان کے میدان کار میں یہ سوال اٹھ چکا تھا کہ اجنبی حکومت کے خاتمے کے بعد (جس کی تشکیل میں ان ملکوں کے باشندوں کا کوئی دخل نہ تھا )ملک میں ریاست کی تشکیل کن اصولوں کے مطابق ہو؟ قدرتی طور پر وہ تحریکیں یہ مطالبہ کرنے لگیں کہ آزاد قومی حکومت اللہ کی حاکمیت کے تحت کتاب و سنّت میں دیے گئے اصولوں کے مطابق تشکیل پائے۔ دنیا میں آج کے ماحول میں حاکمیّت اعلیٰ کی بحث اب سرِ فہرست نہیں رہی۔ایک ملک پر دوسرے ملک سے آئے ہوئے لوگوں کی حکومت کا زمانہ گزر گیا تو حاکمیّت اعلیٰ کی بحث بھی پسِ پشت چلی گئی اور اسی کے ساتھ ملکی دستور وں میں حاکمیّتِ الٰہی کی صراحت بھی تحصیل حاصل سمجھی جانے لگی۔اب دوسرے ملکوں کی طرح مسلم اکثریت والے ممالک بھی کچھ عملی مسائل کے حل تلاش کر رہے ہیں اور وہا ں کام کرنے والی تحریکوں کو ان مسائل کا حل پیش کرنا ہے۔
رہےغیر مسلم اکثریت والےملک، تو وہاں اصل مسئلہ اسلام کے تعارف اور پیغمبرؐ اسلام کے مشفقانہ (یعنی محسنِ انسانیتؐ ہونے کے) تصوّرسے متعارف کرانے کا ہے۔ آج کسی جگہ بھی وہ سوالات سرفہرست نہیں جو گذشتہ صدی کے وسط تک سرفہرست تھے۔ غور سے دیکھیے تو ان ملکوں میں (خواہ مسلم اکثریتی ممالک ہوں یا وہ ممالک جہاں مسلمان اقلیّت میں ہیں) چلنے والی اسلامی تحریکوں کے عملی طور طریقے بھی عملاً بدل چکے ہیں۔ انھوں نے بدلے ہوئے حالات میں بدلے ہوئے طریقے بھی اختیار کرنا سیکھ لیا ہے۔
فکر مندی کی بات یہ ہے کہ ابھی تک ان نئے رجحانات کے بیان اور توجیہ و تشریح پر مشتمل خاطر خواہ لٹریچر نہیں تیار ہو سکا ہے۔ چنانچہ ایک طرف ماضی کے مخصوص حالات کی پیداوار لٹریچر کو اس طرح پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے جیسے وہ زمان و مکان سے بلند ہو۔ دوسری طرف حکمت عملی کے نام پر ایسے اقدامات کیے جاتے ہیں جن کو پرانے لٹریچر کے پروردہ ذہن سمجھ نہیں پاتے۔
اس سے دو طرح کی خرابیاں جنم لیتی ہیں: ایک طرف ضمیر ملامت کرتا ہے کہ حالات اور راے عامّہ کے دباؤ کے تحت عزیمت کی راہ چھوڑی جا رہی ہے۔ خیال آتا ہے کہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ اسلامی ریاست قائم کرنے کے مقصد کے تحت ایسا دستور بنایا جائے جو شریعت اسلامی کو ملکی قانون قرار دیتا ہو، صدر مملکت کا مسلمان ہونا ضروری قرار دیتا ہو،وغیرہ وغیرہ۔مگر سوال یہ ہے کہ (اسلامی دستور سازی کی) اس تجویز کو کثرت راے سے منظور کرانا ممکن نہ ہو ، اور اسے بزورِ قوت نافذ کرنے کے لیے فوج ساتھ دینے کو تیار نہ ہو، یا فوج بھی اس کی طاقت نہ رکھتی ہو، تو کیا کیا جائے؟ مسلم ضمیر حیران ہے کہ ایسی صورتِ حال میں کیا کیا جائے؟
دوسری خرابی یہ پیدا ہوتی ہے کہ ایسے میں بعض مسلمان گروہ یہ خیال کرتے ہیں کہ عوام کو ساتھ لینے کی کوشش جس کو اسلامی تحریکات نے اسلامی ریاست قائم کرنے کی شرطِ لازم سمجھ رکھا ہے ’’غیر ضروری ہے۔ جب جہا ں موقع ملے اسلامی قانون کی حکمرانی کا اعلان کر دینا چاہیے‘‘۔ عملاً یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسے گروہ اسلامی قانو ن کا جو نفاذ کرتے ہیں وہ چند جرائم کی سزاؤں، یعنی حدود کے نفاذ تک محدود رہتا ہے۔ شریعت کےبڑے بڑے مقاصد اُن کی توجہ مبذول نہیںکراپاتے، مثلاً: قیامِ عدل، کفالت عامّہ، شاملہ اور معقول تقسیم دولت، آمدنی میں پائےجانے والے فرق کو کم کرنا، ملک کو اقتصادی طورپرمضبوط بنانا،تاکہ دوسروں کی محتاجی ختم ہو، کرپشن کا خاتمہ اور اعلیٰ کارکردگی کی حامل انتظا میہ کی بحالی۔ اِن مقاصدکے حصول کی کوشش کم ہی نظر آتی ہے۔ مزید برآں ان گروہوں کے جابرانہ اقدامات کا ہدف زیادہ تر دوسرے مسلمان ہی ہوتے ہیں۔ ان کے نفاذِ حدود پر مرکوز اقدامات سے مقامی اور عالمی دونوں سطحوں پر اسلام سے توحّش پیدا ہوتا ہے، اسلام کی ترجیحات کے بارے میں شدید غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں اور متعدد اسلامی مقاصد مجروح ہوتے ہیں۔ نیز بزعمِ خود جو محدود مقاصد وہ حاصل کر پاتے ہیں، وہ دیرپا نہیں ثابت ہوتے۔ ان کی ایسی ہی حرکتوں سے غیرمسلم اکثریت والے ملکوںمیں اسلام کی بدنامی ہوتی ہے اور پیغمبرؐ اسلام کی تصویر بگڑتی ہےاور مسلم ممالک میں اسلامی تحریکات کو شبہے کی نظر سے دیکھا جانے لگتا ہے۔
مشکل یہ ہے کہ اکثر مخلصین یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ: ’’اسلامی تحریک ہر زمان و مکان میں ایک لگابندھا طریقہ اختیار کرنے پر مامور ہے‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تحریک اپنے مقصود، اللہ کے بندوں کو بندگیِ ربّ کی طرف بلانے کے لیے حالات کی مناسبت سے مختلف طریقے اختیار کر سکتی ہے، کسی لگے بندھے اور غیرلچک دار طریقے کی پابند نہیں۔
اس مرحلے میں ضروری ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف حالات کا مقابلہ کس طرح کیا۔تفصیلات میں جائے بغیر ہم یہ بتانا چاہیں گے کہ مقاصد سے وابستگی کے ساتھ حدود اور ذرائع میں لچک کی تعلیم ہمیں سیرتِ مطہرہؐ میں ملتی ہے۔ کارِ نبوت کی انجام دہی سے متعلّق جن مختلف حالات کی طرف ہم قارئین کی توجّہ مبذول کرانا چاہیں گے وہ درج ذ یل ہیں:
¤ شعب ابی طالب میں محصوریت ¤ طائف کے داعیانہ سفر سے واپسی پر شہر مکّہ میں سکونت کا مسئلہ ¤ ہجرت حبشہ اولیٰ اورہجرت حبشہ ثانیہ ¤ بیعتِ عقبہ،اولیٰ و ثانیہ ¤ مدینہ پہنچنے پر مواخات کی تنظیم ¤ مسجدِ نبویؐ کی تعمیراور مسلمانوں کے لیے بازار کا قیام ¤ میثاق مدینہ ¤ صلح حدیبیہ ¤ فتح مکّہ پر عام معافی کا اعلان ¤ غزوۂ حنین کے موقعے پر تقسیمِ غنائم میں مکّہ والوں کو ترجیح ¤ خطبہ حجّۃ ا لوداع۔
سطورِ بالا میں مقاصد اور ذرائع،حدود میں لچک، وغیرہ امور پر گفتگو سے ہمارا منشا یہ تھا کہ ایسے غورو فکر کا آغاز کریں جو آج اور آیندہ کے ممکنہ حالات میں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے اور ان کو عام انسانوں کے درمیان مقبول بنانے میں مددگار ہوسکے۔نیز مسلمانوں کو اس مخمصے سے نکال سکے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے، یعنی یہ کہ ہم بدلے حالات میں مناسب نئے طریقے کس بنیاد پر اختیار کرسکتے ہیں؟
ایک دقّت یہ ہے کہ بعض لوگ اسوۂ نبویؐ سے استشہاد میں ہر طرح کے حالات کا احاطہ کرنے کے بجاے اپنی پسند کی نظیریں پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔یہی طریقہ وہ بعد کی صدیوں میں اسلامی تاریخ کے مطالعے کے بارےمیں اختیار کرتے ہیں۔اس غلطی کا ازالہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ قرآن وسنّت ،سیرت نبویؐ اور اسلامی تاریخ کا مطالعہ پہلے سے اختیار کیے ہوئے کسی موقف کی تائید کے لیے نظیریں جمع کرنے کے لیےنہ کیا جائے، بلکہ کھلے ذہن کے ساتھ کیا جائے۔اس کے باوجود، مختلف مطالعہ کرنے والے مختلف نتیجے نکالیں تو تبادلۂ خیال کے ذریعے ایک راے تک پہنچنے کی کوشش کریں، اور اتفاق راے نہ ہو سکنے کی صورت میں رواداری سے کام لیں۔ ایک دوسرے کو کافر یا گمراہ قرار دینے اور مرنے مارنے پر نہ اتر آئیں۔ مذکورہ بالا ابواب سیرت کا مطالعہ ابن ہشام کی السیر ۃ النبویہ یا تاریخ اسلامی کی کسی مستند کتاب میں کیا جا سکتا ہے۔یہاں ہم تفصیلات بیان کرنے کے بجاے صرف اس سبق کو یاد دلانے پر اکتفا کریں گے، جو کسی خاص واقعے سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ان مثالوں کا تفصیلی مطالعہ حکمت کے نئے سبق سکھا سکتا ہے۔ دنیا میں حالات بدلتے ہیں۔ ہر بار ایک نئی صورت حال در پیش آتی ہے۔ہر بار ایک نئے انداز کا حل درکار ہوتا ہے۔ اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی تحریک کسی لگے بندھے لائحۂ عمل کی پا بند نہیں، بس مقاصدِ اسلام سے وابستگی شرط ہے۔اس کے ساتھ کتاب و سنّت، سیرت و تاریخ،عقل و فطرت اور با ہمی مشاورت اور تجربوں سے سبق حاصل کرنا لازم ہے۔آج کے حالات میں اسلامی تحریکات کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ وہ نئے حالات میں نئی بات، نئے انداز سے، نئے مخاطب لوگوں کے سامنے رکھنے میں کتنی مستعدی، حاضر دماغی اور دانش مندی دکھاتی ہیں۔
یہ مسئلہ کسی ایک تنظیم کا نہیں ہے۔ تنظیمیں بنتی اور ٹوٹتی رہتی ہیں مگر مجموعی طور پر آثار اُمیدافزا ہیں۔تشویش اس بات کی ہے کہ نئے حالات کے تجزیے ، کتاب و سنّت، تاریخ و سیرت اور تجربات سے سبق سیکھنے اور کھلے ذہن سے با ہم تبادلۂ خیال کا خا طر خواہ اہتمام نہیں کیا جارہا ہے۔اس کے لیے ہمارے مدارس،جامعات،تعلیم گاہوں، یونی ورسٹیوںاور منبرو مسجد، گھر و بازار سب کوایساکردار ادا کرنا ہوگا جو ایک بہتر مستقبل کی تعمیر کے لیے سازگار ہو۔
آج دنیا بڑے تشویش ناک حالات سے دو چار ہے۔ اسلام اور مسلمان انسانیت کی مدد کے لیے آگے بڑھ سکیں تو ا نھیں خوش آمدید کہا جائے گا۔ آیندہ سطور میں ہم یہی بات قدرے تفصیل سے پیش کریں گے۔
مسائل کی فہرست تو بڑی لمبی ہے مگر ہم تین اہم مسائل کے ذکر پر اکتفا کریں گے، جن کا تعلّق بالترتیب: آب و ہوا، فنانس اور نظام زر اور خاندان اور سماجی رشتوں سے ہے، یعنی ماحولیات، مالیات اور سماجیات۔ مسائل کے ذکر کے بعد ہم یہ بتائیں گےکہ اسلامی تعلیمات کس طرح ہمیں ان مسائل کا سامنا کرنے میں مدد کرتی ہیں۔
ایسی دنیا کو تباہی سے بچا سکتے ہیں تو صرف ایسے لوگ، جو رشتوں کی خاطر مفادات کی قربانی دے سکیں، سماجی بہبود کی خاطر نجی اغراض کو بھول سکیں،آنے والی نسلوں کے لیے کرۂ ارض کو بچائے رکھنے کی خاطر اپنے آرام و آسایش میں کچھ کمی برداشت کریں،کاروبار اورمالیاتی لین دین میں جس عدم تیقّن اور جن خطرات کا سامنا ناگزیر ہے، ان سے عہدہ برآ ہونے کے لیے دوسروں کے شریک بننے کو تیار ہوں( نہ کہ اپنی ساری ذہانت اِس پر صرف کرتے ہوں کہ کاروباری خطرات اور عدم تیقّن کو کس طرح اپنے سر سے ٹال کر دوسروں پر تھوپا جائے ، نفع ہو تو ان کو ملے، نقصان پہنچے تو اسے دوسرے بھگتیں)۔ آخرت میں جواب دہی کا احساس جگا کر اور اُس دائمی زندگی کو سنوارنے کے لیے آج کے دنیوی مفادات کو ثانوی درجہ دینے کی تعلیم دے کر اسلام ایسے ہی انسان بناناچاہتاہے۔
تاریخ نے ایسے دوربھی دیکھے ہیں، جب سیاسی رہنمائوں نے انسانوں کی خدمت کا راستہ اختیار کیا اور کاروبارِ معیشت سنبھالنے والوں نے عام صارفین اور مزدوروں کی بھی بھلائی چاہی۔ خاندانی زندگی محبّت اور خلوص پر قائم رہی اور سماجی رشتوں کو نفع اندوزی پر ترجیح دی گئی۔ماضی میں ہم نے دیکھا ہے کہ مذاہب عالم، بے لوث بزرگ،دانش وَر، فلسفی،شاعر، قصّہ گو، غرض ہر جہت سے اس رجحان کو تقویت ملی ہے اور آج بھی مل سکتی ہے۔ اسلام اور مسلمان ان جہتوں میں سے ایک اہم جہت ہیں، جو دوسرے مذاہب کے مخلص پیرووں ، دیگر دانش وَروں، اور اچھے انسانوں کے ساتھ مل کر مذکورہ بالا تینوں دائروں ،یعنی ماحولیات،مالیات اور سماجیات، میں دنیا کو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچا سکتے ہیں۔
افسوس کا مقام ہے کہ آج مسلمان یہ کردار ادا کرنے کے لائق دکھائی نہیں دیتے۔ مستقبل کی دنیا کو اپنی رہنمائی، خدمت اور تعمیری سرگرمیوں کے ذریعے سہارا دینے اور سنبھالنے کے بجاے مسلمان ماضی کے جھگڑے چکانے میں لگے ہوئے ہیں۔ انسانوں کی خدمت کی خاطر متّحد ہونے کے بجاے وہ مسلکی اختلافات اورفرقہ وارانہ تعصبات کی بنیادوں پر بٹے ہوئے ہیں۔اپنے خداداد کردارِ شہادت علی النّاس کی ادایگی کی خاطر یکسو ہونے کے بجاے وہ پراگندہ فکر اور پراگندہ حال ہیں۔ بڑے کاموں میں مطلوب تعاون اور تضامن کی خاطر اختلافات کو نظر انداز کرکے رواداری اور خوش خلقی کے ساتھ خدمتِ انسانیت کو اپنا ایجنڈا بنانے کے لیے ہمیں اپنی ترجیحات بدلنی ہوں گی۔
مستقبل پر توجہ کی مرکوزیت (focus)،ماضی کے اختلافات کو پسِ پشت ڈالنے کے حوصلے اور باہمی اتحاد و رواداری کے ساتھ ساتھ دنیا میں تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے طاقت درکار ہے: اقتصادی قوت چاہیے جو مسلمان کو دوسروں کا دست نگر نہیں ان کو سہارا دینے والا بناسکے۔ معاشی قوت تجارت سے آئے گی جس کے لیے پیداواری عمل کی عادت ڈالنی ہو گی۔اس عمل میں انہماک خود بخود ایجاد و اختراع اور تعاون و تنظیم کی طرف لے جا ئے گا، جو اقتصادی قوت کی کلید ہے۔ اُمّت مسلمہ کی اٹھان میں اس پہلو نے بھی بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس کا معمار، میدانِ تجارت میں بھی رہنما ئی کرتا تھا،جس نے منتشر قبائل کی توانائی کو ایک انسانی مِشن پر مرکوز( فوکس) کرکے دنیا کی تاریخ بدل دی۔ یہ آج بھی ممکن ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں فرمایا: وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (القلم۶۸:۴) ’’اور بے شک آپ اخلاق کے بہت بلند مرتبے پر فائز ہیں‘‘۔
۱- عَنْ مَالِکٍ اَنَّہٗ قَدْ بَلَغَہٗ اَنَّ رَسُوْلُ اللہِ قَالَ: بُعِثْتُ لِاُ تَمِّمَ حُسْنَ الْاَخْلَاقِ (موطا،امام مالک، حدیث: ۱۶۲۷) امام مالکؒ سے روایت ہے کہ ان کو یہ خبر پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے‘‘۔
’مکارم اخلاق‘ سے مراد وہ بہترین اخلاقی تصورات، اصول اور اوصاف ہیں، جن پر ایک پاکیزہ انسانی زندگی اور ایک صالح انسانی معاشرے کی بنیاد قائم ہو۔
۲- دوسری روایت: اِنَّمَا بُعِثْتُ لِاُ تَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقِ [السنن الکبرٰی، البیہقی، حدیث: ۱۹۳۳۱]’’مجھے تمام اخلاقی اچھائیوں کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے‘‘۔
’مکارم اخلاق کی تکمیل‘ سے مراد یہ ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انبیاؑاور ان کے صالح پیروکار مختلف اوقات میں اور مختلف قوموں اور ملکوں میں اخلاقی فضائل کے مختلف پہلوئوں کو اپنی تعلیم سے نمایاں کرتے رہے اور اپنی عملی زندگی میں ان کے بہترین نمونے بھی پیش کرتے رہے، مگر کوئی ایسی جامع شخصیت اس وقت تک نہ آئی تھی کہ جس نے انسانی زندگی کے تمام پہلوئوں سے متعلق اخلاق کے صحیح اصولوں کو مکمل طور پر بیان کیا ہو۔پھر ایک طرف خوداپنی زندگی میں ان کو برت کردکھایا ہو اور دوسری طرف ایک سوسائٹی اور ریاست کا نظام بھی انھی اصولوں کی بنیاد پر بنایا ہو اور چلا کر دکھایا ہو ۔ یہ کام باقی تھا جسے انجام دینے ہی کے لیے حضور نبی آخرالزماں محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم بھیجے گئے تھے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں خود مکارم اخلاق کی تکمیل کو اپنی بعثت کا اصل مقصد قرار دیا ہے ۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ مکارم اخلاق کی تکمیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ضمنی کام نہیں تھا کہ آپؐ کا مشن تو کچھ اور ہو اور ضمناًآپؐ نے یہ کام بھی کردیا ہو، بلکہ دراصل یہ وہ اہم کام ہے جس کی انجام دہی کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو مبعوث فرمایاتھا۔ ایک حدیث میں حضرت عائشہ صدیقہؓنے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کے بارے میں بتایا تھا کہ کَانَ خُلُقُہٗ الْقُرْآنُ ، یعنی حضوؐرکا اخلاق قرآن تھا۔[مسنداحمد، حدیث: ۲۴۰۷۵]
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ: اَکْمَلُ الْمُؤمِنِیْنَ اِیْمَاناً اَحْسَنُہُمْ خُلُقًا [ابوداؤد ، حدیث: ۴۰۸۳] ’’بروایت ابوہریرہؓرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’مومنوں میںسے کامل تروہ ہے جو ان میں سے اخلاق میں بہتر ہے ‘‘۔ ایک اور حدیث کا ترجمہ یہ ہے :’’سب سے وزنی چیز جوقیامت کے دن مومن کی میزان میں رکھی جائے گی وہ اس کا حُسنِ اخلاق ہوگا‘‘۔ [ترمذی، حدیث: ۱۹۷۵]
اس حدیث میں حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اخلاق حسنہ کو کمال ایمان کا مدار قراردیا ہے۔ اس سے بھی اخلاق کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔
ایک اور حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمروبن العاصؓ سے روایت ہے: اِنَّ مِنْ خِیَارِکُمْ اَحْسَنُکُمْ اَخْلَاقًا [بخاری، حدیث: ۳۳۸۷ ]’’تم میں بہتر لوگ وہ ہیں جو اخلاق کے اچھے ہیں‘‘۔
حضرت معاذؓ سے روایت ہے کہ (یمن کی طرف) پابہ رکاب ہونے کے بعد آپؐ نے سب سے آخری وصیت یہ فرمائی تھی کہ : اَحْسِنْ خُلُقَکَ لِلنَّاسِ [موطا،امام مالک، حدیث: ۱۶۲۱] ’’اے معاذؓ!لوگوں کے ساتھ بہتر اخلاق سے پیش آنا‘‘۔حضرت معاذؓ کو یمن بھیجتے وقت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں یہ آخری نصیحت فرمائی۔
۱- تقویٰ: ترمذی اور مشکوٰۃ کی ایک حدیث میں جس کی روایت عطیہ السعدی نے کی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’بندہ اہل تقویٰ کا مقام نہیںپاسکتا تا وقتیکہ وہ ان چیزوں کو بھی نہ چھوڑ دے جن میں (بظاہر )کوئی حرج نہیں ہے، اس اندیشے سے کہ کہیں وہ ان چیزوں میں مبتلا نہ ہوجائے جن میں حرج (گناہ ) ہے‘‘۔[ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب الورع والتقویٰ، حدیث: ۴۲۱۳]
مراد یہ ہے کہ بعض اوقات جائز امور بھی حرام کاموں کا ذریعہ بن جاتے ہیں ۔ اس لیے ایک مومن کے سامنے صرف جواز کا ہی پہلو نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے اس لحاظ سے بھی چوکنا رہنا چاہیے کہ کہیں یہ جائز کام حرام کا ذریعہ نہ بن جائے۔
۲-متقیانہ زندگی کا اصول:ابن ماجہ اور مشکوٰۃ کی ایک حدیث میں جس کی روایت حضرت عائشہؓنے کی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’اے عائشہؓ! حقیر گناہوں سے بچتی رہنا، اس لیے کہ ان کے بارے میں بھی اللہ کے ہاں باز پرس ہوگی‘‘۔ [ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر الذنوب، حدیث: ۴۲۴۱]
صغیرہ گناہ بظاہر ہلکا نظرآتاہے لیکن اسے بار بار کیا جائے تو دل زنگ آلود ہوجاتاہے اور کبائر سے نفرت آہستہ آہستہ ختم ہوجاتی ہے۔ اس طرح صغیرہ گناہ کم خطرناک نہیں ہے۔ متقیانہ زندگی گزارنے کے لیے صغیرہ گناہ سے بھی بچنا چاہیے۔
حافظ ابن قیمؒ نے لکھا ہے کہ: ’’گناہ کو نہ دیکھو کہ وہ کتنا چھوٹا ہے بلکہ اس خدا کی بڑائی کو سامنے رکھو جس کی نافرمانی کی جسارت کی جا رہی ہے‘‘۔اگر خداے بزرگ و برتر اورمالک یوم الدین کی عظمت اور اس کے عذاب کی ہولناکیاں پیش نظر ہوں، یعنی چشمِ تصور میںرہیں تو پھر انسان کسی چھوٹے سے چھوٹے گناہ پر بھی دلیر نہیں ہوسکتا۔
۳- وسائل و ذرائع کی پاکیزگی: مشکوٰۃ کی ایک حدیث میں حضرت عبداللہ ابن مسعودؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’کوئی شخص بھی خدا کے مقر ر کردہ رزق کو حاصل کیے بغیر موت کا لقمہ نہ بنے گا۔ سنو!اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور رزق کے حصول میں جائز ذرائع و وسائل کام میںلائو۔ رزق کے حصول میں تاخیر تمھیں ناجائز ذرائع اختیار کرنے پر آمادہ نہ کردے۔ اس لیے کہ اللہ کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ صرف اس کی اطاعت ہی سے حاصل کیا جاسکتا ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ، ج۲،ص۴۵۲)
اس روایت میں دو اہم دینی حقائق بیان کیے گئے ہیں:
اگر کسی بھی انسا ن کو رزق کے حصول میں ناکامی یا تاخیر محسوس ہو تو اسے مایوسی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ نے رزق کی جو مقدار اس کے لیے مقرر کی ہوئی ہے وہ بہرحال دیریا سویر اسے مل کر رہے گی۔
یوں تو انسان بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہوئے بھی بظاہر دُنیاوی خوش حالی اور آسایش پا لیتا ہے ،لیکن یہ دراصل خدا کی طرف سے مہلت ہوتی ہے جس کے بعد اللہ تعالیٰ کے عذاب کا تازیانہ برستا ہے ۔ حقیقی خوش حالی اور راحت و سکون تو وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرماںبرداری کرتے ہوئے حاصل ہو۔
مشکوٰۃ کی ایک اور حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓسے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی شخص حرام مال کمائے ،پھر اس میں سے صدقہ دے تو وہ قبول کرلیا جائے اور پھر وہ اپنے مال میں برکت سے بھی نوازاجائے۔ اس کا متروکہ حرام مال صرف جہنم کا توشہ بن سکتا ہے ( اس سے آخرت کی سعادت و کامرانی حاصل نہیں کی جاسکتی)۔ بلاشبہہ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ وہ برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا، بلکہ برائی کو بھلائی سے ختم کرتا ہے۔ (یہ ایک حقیقت ہے کہ ) نجاست کو نجاست سے مٹا کر پاکیزگی حاصل نہیں کی جاسکتی‘‘۔ [مسنداحمد، حدیث: ۳۵۶۶]
اس روایت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ محض مقصد کا پاک ہونا ہی کافی نہیںہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وسائل و ذرائع کی پاکیزگی بھی ضروری ہے۔
۴-علامت تقویٰ : ترمذی اور مشکوٰۃ کی ایک حدیث میں جس کی روایت حضرت حسن بن علیؓ نے کی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ کلمات یاد کرلیے ہیں: ’’جو چیز شک میں مبتلا کرنے والی ہو، اسے چھوڑکر اس کام کو پسند کرلو جو شک و شبہہ سے با لاتر ہو۔ اس لیے کہ سچائی سراپا سکون و اطمینان ہے اور جھوٹ سراپا شک و تذبذب‘‘۔ (ترمذی، الذبائح، حدیث: ۲۵۰۲)
۵-توکّل: ترمذی کی ایک حدیث جس کی روایت حضرت انسؓ نے کی ہے، کہ ایک آدمی نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسولؐ! میں اونٹ کو باندھ کر توکل اختیار کروں یا اسے چھوڑ کر؟‘‘ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اسے باندھ لے اور پھر خدا پر توکّل کر‘‘۔(ترمذی، الذبائح، حدیث: ۲۵۰۱)
ترمذی اور مشکوٰۃ کی ایک اور حدیث جس کی روایت حضرت عمرؓ نے کی ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا :
اگر تم اللہ پر اس طرح توکل کرو، جس طرح کہ توکّل کرنے کا حق ہے تو وہ تم کو اس طرح روزی دے گا جس طرح پرندوں کو روزی دی جاتی ہے۔ صبح سویرے خالی پیٹ (آشیانوں سے ) نکلتے ہیں اور شام کو آسودہ ہو کر پلٹتے ہیں۔ [ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب التوکل والیقین، حدیث: ۴۱۶۲]
پرندوں کے ساتھ تشبیہہ د ے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حقیقت کو آشکار کیا ہے کہ توکل یہ نہیں ہے کہ انسان ہاتھ پیر توڑکر گھر میں بیٹھا رہے، بلکہ توکل یہ ہے کہ خدا کے دیے ہوئے اسباب و وسائل کو کام میں لا کر نتائج خدا کے حوالے کردے۔
۶-شکر: مسنداحمد کی ایک حدیث جس کی روایت حضرت ابو ہریرہؓ نے کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’شکر گزار بے روزہ انسان صبر کرنے والے روزہ دار کی طرح ہے‘‘ [مسنداحمد، حدیث: ۷۶۲۹]۔یعنی جو صبر کے ساتھ نفلی روزے رکھتا ہے اور جو شکر کے ساتھ خدا کی دی ہوئی حلال روزی کھا کر دن گزارتاہے، دونوں خدا کے ہاں درجہ میں برابر ہیں ۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پانی پینے کے بعد بھی شکر اداکرتے تھے۔
ایک حدیث جس کی روایت حضرت ابوہریرہؓنے کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جو تم میں سے ( مال ، جسم اور وجاہت کے اعتبار سے) بالا تر ہیں، ان کو نہ دیکھو، اور جو تم سے (اس لحاظ سے)فروتر ہیں ،ان کو دیکھو ۔ اس طرح یہ صلاحیت پیدا ہوسکے گی کہ تم اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو حقیر نہ سمجھو گے‘‘[صحیح ابن حبان ، کتاب الرقائق، باب الفقر، حدیث:۷۱۳]۔ ایک اورروایت ہے: ’’جب تم میں سے کسی کی نگاہ ایسے شخص کی طرف اٹھے جو مال اور جسمانی طاقت میں اس پر فضیلت دیا گیا ہے توچاہیے کہ اسے دیکھے جو ( اس لحاظ سے ) فروتر ہے‘‘۔ [مسلم، کتاب الزہد، والرقائق، حدیث:۵۳۷۵]
شکر ادا کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں اور دل و دماغ کی صلاحیتوں کو اللہ کی ہدایت کے مطابق استعمال کیا جائے اور اس کی نافرمانی کے کاموں سے پرہیز کیا جائے۔
۷- صبر:مسلم کی ایک حدیث جس کی روایت حضرت صہیبؓ نے کی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’مومن کے معاملے پر تعجب ہے کہ اس کا سارا کام خیر ہی خیر ہے۔ یہ (سعادت) مومن کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہے۔ اگر اسے دُکھ پہنچتا ہے اور وہ صبر کرتا ہے، تویہ اس کے لیے بہتر ہوتا ہے، اور اگر اُسے خوشی حاصل ہوتی ہے اور وہ سراپا شکر بن جاتا ہے تویہ بھی اس کے لیے بہتر ہوتا ہے۔ گویا وہ ہرحال میں خیر ہی سمیٹتاہے‘‘۔[مسلم، کتاب الزہد والرقائق، حدیث:۵۴۲۹]
بخاری اور مسلم کی ایک حدیث میں جس کی روایت حضرت انسؓ نے کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزرایک ایسی عورت کے پاس سے ہوا جوایک قبر کے پاس بیٹھی رورہی تھی۔آپؐ نے فرمایا :’’اللہ کا تقویٰ اختیار کراور صبر سے کام لے‘‘۔ اس عورت نے حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پہچانتے ہوئے کہا :اپنی راہ لو ،میری جیسی مصیبت تم پر تو نہیں پڑی ہے۔ کسی نے اس سے کہا کہ یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے جو تمھیں صبر کی تلقین فرمارہے تھے تووہ دوڑی ہوئی آئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا :حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔ اس پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’بس صبر وہی ہے جو سینے پر پہلی چوٹ لگتے وقت کیاجائے‘‘۔ایک اور حدیث ہے کہ :’’اگر کوئی اللہ سے صبر کی توفیق مانگے تو اللہ اسے صبر کی توفیق عطا فرماتا ہے‘‘۔[بخاری، کتاب الجنائز، باب زیارۃ القبور ، حدیث: ۱۲۳۶]
۱- ضبط نفس: حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پہلوان وہ نہیں ہے جو (حریف کو میدان میں )پچھاڑ دے ، بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس کو قابو میںرکھے ‘‘۔(مسلم ، کتاب البر والصلۃ والآداب، حدیث: ۴۸۳۰)
حضر ت ابوہریرہؓنے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ مجھے نصیحت کیجیے۔ آپؐ نے فرمایا :’’غصہ نہ کرو‘‘۔ یہ بات آپؐ نے بار بار فرمائی: لَا تَغْضَبْ(غصہ نہ کرو )۔[بخاری، کتاب الادب، باب الحذر من الغضب، حدیث: ۵۷۷۱]
۲-عفو و حلم:حضرت عائشہؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے معاملے میں کسی سے کبھی بھی انتقام نہیں لیا مگر یہ کہ اللہ کی حرمت (شعائر اللہ یا حدوداللہ) پامال ہوتیں توآپ اللہ کے لیے انتقام لیتے تھے ۔ [بخاری ، کتاب الحدود، حدیث: ۶۴۱۶]
حضرت انسؓ دس سال تک حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتے رہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی مجھے نہیں ڈانٹا، نہ یہ فرمایا کہ یہ کام کیوںنہیں کیا، نہ یہ فرمایا کہ یہ کام کیوں کیا۔[مسلم، کتاب الفضائل، حدیث: ۴۳۷۰]
۳- وسعتِ ظرف:ابوالاحوص جشمی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں۔ انھو ں نے کہا کہ میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا:اگر میں کسی شخص کے پاس سے گزروں اور وہ میری ضیافت و مہمانی کا حق ادا نہ کرے اور کچھ عرصے کے بعد اس شخص کا گزر میرے پاس سے ہوتوکیا میں اس کی مہمانی کا حق اداکروں یا اس کی (بے مروتی اور روکھے پن )کا بدلہ لے لوں؟ توآپؐ نے فرمایا: ’’نہیں، بلکہ تم اس کی مہمانی کا حق ادا کرو‘‘۔(صحیح ابن حبان، حدیث:۵۴۹۳)
۴-حیا: ۱-حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حیاایمان ہی کی ایک شاخ ہے‘‘۔(مسنداحمد، حدیث: ۹۵۱۸]
حضرت عبداللہ بن عمرؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: برہنہ ہونے سے بچو، کیونکہ تمھارے ساتھ وہ ہیں جو تم سے کبھی جدانہیں ہوتے اِلا یہ کہ رفع حاجت یا صنفی تعلق (میاں بیوی کے فرائض زوجیت)قائم کرنے کا موقع ہو۔ ان (فرشتوں ) سے شرمائو اور ان کا احترام کرو‘‘۔[ترمذی، الذبائح، ابواب الادب عن رسول اللہ، حدیث: ۲۷۹۵]
موطا، امام مالکؒ کی ایک حدیث ہے:’’ہر دین کا کوئی امتیازی وصف ہوتاہے۔ اسلام کا بنیادی وصف حیا ہے‘‘۔[شعب الایمان للبیہقی ، فصل فی التواضع، حدیث: ۷۸۹۵]
۵-تواضع و انکساری:حضرت عمرؓ نے ایک بار منبر پر سے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: اے لوگو!تواضع وانکساری اختیار کرو۔ اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے: ’’جو اللہ کے لیے جھکتا ہے، اللہ اسے بلند کرتاہے۔ وہ اپنے آپ کو چھوٹا سمجھتا ہے، حالانکہ وہ لوگوں کی نگاہوں میں بڑا ہے۔ اور جس نے تکبر کیا، اسے اللہ تعالیٰ گرادیتا ہے تو وہ لوگوں کی نگاہوں میں چھوٹا ہے، حالاںکہ وہ خود اپنے آپ کو بڑا خیال کرتا ہے ،یہاں تک وہ ان کے سامنے کتے اور سؤر سے بھی زیادہ ذلیل ہوجاتا ہے‘‘۔(مشکوٰۃ)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی ٹیک لگا کر کھاتے ہوئے نہیں دیکھے گئے او رنہ کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپؐ کے پیچھے دو آدمی چلتے ہوئے دیکھے گئے ہوں (ابو داؤد، مشکوٰۃ)۔یہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع و انکساری کا حال تھا۔
۶- شہرت سے پرہیز:حضرت سعدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اَنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْعَبْدَ التَّقِیَّ الْغَنِیَّ الْخَفِیَّ [مسلم، کتاب الزہدوالرقاق، حدیث: ۵۳۷۸] ’’اللہ تعالیٰ متقی،غنی اور گمنام بندے کوپسند کرتاہے‘‘۔
اس حدیث میں غنی کے معنی خود دار اور قناعت پسند کے بھی لیے جاسکتے ہیں اور اس کے معنی خوشحال کے بھی ہوسکتے ہیں ۔ الخفی سے مراد ایسا شخص ہے جو شہرت اور ناموری کا بھوکا نہ ہو۔
۷-قناعت:حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جو اسلام لایا اور اسے گزارے کے مطابق روزی میسر آگئی اوراللہ تعالیٰ نے اسے اپنی دی ہوئی روزی پر قناعت کی توفیق بخشی تو وہ فلاح و کامرانی سے ہم کنار ہوگیا‘‘۔[مسلم،مشکوٰۃ ،روایت عبداللہ بن عمرؓ ]
۸- میانہ روی:حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :خَیْرُالْاُمُوْرِ اَوْسَطُہَا ۔ایک اور حدیث میں فرمایا: ’’حسن سیرت، بردباری اور میانہ روی ،نبوت کے اجزا میں سے چوبیسواں حصہ ہے‘‘۔ (ترمذی)۔ایک اور حدیث ہے: ’’اخراجات میں میانہ روی سے معاشی مسئلہ نصف رہ جاتا ہے‘‘۔ [شعب الایمان، البیہقی، باب الاقتصاد فی النفقۃ، حدیث: ۶۲۸۱]
۹-مستقل مزاجی: حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دین کے کاموں میں سے پسندیدہ کام وہ ہے جس پر کرنے والا پابندی کرے اور مستقل مزاجی دکھائے اگرچہ تھوڑا ہو‘‘[مسلم، حدیث: ۱۳۴۵]۔ استقلال کے ساتھ تھوڑا کام نتائج کے لحاظ سے بہتر ہے کہ وقتی جوش کے تحت ہنگامی کام کرڈالے اور پھر خاموش ہوجائے‘‘۔
۱۰-فیاضی: حضرت عبداللہ بن زبیرؓسے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہؓاور حضرت اسماؓ بنت ابوبکر سے بڑھ کر فیاض عورتیں نہیں دیکھیں۔
۱۱- امانت و دیانت: ۱-حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’چار چیزیں تمھیں میسر ہوں تو دُنیا کی کسی چیز سے محرومی تمھارے لیے نقصان دہ نہیں ہے: (۱)امانت کی حفاظت(۲) راست گفتاری (۳)خوش خلقی اور (۴) روزی میں پاکیزگی‘‘۔ [مسند احمد، حدیث: ۶۴۸۲]
۱۲- حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’جو تمھارے پاس امانت رکھے، اسے اس کی امانت ادا کردو، اور جوتم سے خیانت کرے، تم اس سے خیانت نہ کرو‘‘۔[ترمذی، ابواب البیوع عن رسولؐ اللہ، حدیث: ۱۲۲۲]
اللہ تعالیٰ ہمیں حُسنِ اخلاق کی اہمیت کو سمجھنے،مکارم اخلاق کی بنیادوں کو مضبوط بنانے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی روشنی میں بہترین انفرادی اخلاق کو اپنانے اور اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،آمین۔
اس کتاب پر ایک طبقے نے تحسینی بیانات دیے، تاہم معاصرین کا یہ ردعمل بھی ملاحظہ کیجیے: lلندن کے معروف روزنامے Times (۱۵نومبر ۱۸۸۳ء، ص۲) نے تبصرہ کیا: ’’یہ کتاب محض عیسائی کینہ پروری اور عمومی نفرت انگیزی کی نشرواشاعت ہے‘‘۔اوکسفرڈ یونی ورسٹی میں عربی کے پروفیسر ڈیوڈ سیمویل مارگولیتھ (۱۸۵۸ء-۱۹۴۰ء) کے بقول: ’’یہ ایک اعتراف شدہ متعصبانہ تحریر ہے‘‘۔ (محمد اینڈ رایز آف اسلام، ۱۹۰۵ء) سیّد امیر علی (۱۸۴۹ء-۱۹۲۸ء) کے مطابق: ’’میور، اسلام کا تسلیم شدہ دشمن ہے‘‘۔(اسپرٹ آف اسلام، لندن، ۱۸۹۱ء) ۔ ادارہ
گذشتہ دو صدیوں سے رومیوں نے مسلمانوں کو پہلے تو سیاسی طور پر پسپا کیا۔پھر اس سے بھی زیادہ غم ناک پہلو مسلمانوں کی فکری و نظریاتی پسپائی تھی۔ مسلمان مغرب کے شمشیر بکف حملہ آوروں کے سامنے سرنگوں ہونے کے ساتھ ہی ساتھ تحقیق کے میدانوں میں بھی شکست خوردہ ہوگئے۔
یورپی اقوام مادی فتح کے ساتھ فکری میدانِ کار زار میں بھی کود پڑیں اور خالص دینی موضوعات کو تختۂ مشق بنانے کے لیے مسلمانوں ہی کی صفوں سے بھی اپنی ’فوج‘ بھرتی کرنا شروع کی۔ ان معاندانہ کوششوں کا ہدف نمایاں طور پر سیرتِ رسولؐ اور جہاد تھا اور ہے۔ ان کا مدعا یہ رہا ہے کہ ’’اسلام کو تمام تر غلبہ تلوار کے زور پر ملا ہے اور اسلام خون ریزی سکھاتا ہے‘‘۔ اس نوع کے اعتراضات کا تعلق چوں کہ زیادہ تر سیرت پاکؐ سے تھا، اس لیے مغربی مصّنفین نے بڑے اہتمام سے اس موضوع پر لکھا۔ ۱۸۶۱ء میں لندن سے ایسے اعتراضات پر مبنی ایک ضخیم کتاب The Life of Mahomet l،سر ولیم میور ( ۱۸۱۹ء-۱۹۰۵ء)نے لکھی، جو اس وقت یوپی کے لیفٹیننٹ گورنر تھے۔ یہ کتاب بنیادی طور پر یورپی ذہن کی جانب سے ایک ’چارج شیٹ‘ کی حیثیت رکھتی تھی۔ اس کتاب میں لگائے گئے الزامات سے مسلمان بہت بے چین ہوئے۔ تاہم، اس کتاب کا اوّلین جواب دینے کی رضاکارانہ ذمہ داری سرسیّد احمد خان (۱۸۱۷ء-۱۸۹۸ء) نے لی۔ اور اس مقصد کے لیے سرسیّد۱۸۶۹ء میں انگلستان گئے۔۲ ولیم میور کی کتاب کی پہلی جلد کا جواب کتاب کی صورت میں مرتب کر کے۱۸۷۰ء میں لندن ہی سے انگریزی ایڈیشن Eassays on the Life of Muhammad شائع کی۔۳ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کتاب میں جہاد سے متعلق مباحث سے کوئی خاص تعرض نہیں کیا گیا (ویسے بھی ولیم میور نے اپنی کتاب کی تیسری اور چوتھی جلدوں میں جہاد کے متعلق مباحث چھیڑے ہیں)۔ بعض مقامات پر اس حوالے سے ضمنی باتیں مل جاتی ہیں۔ اسلام پر جبر و اکراہ کے الزام کے جوابات دیے ہیں۔
لیکن جنابِ سرسیّداحمد کا اسلوبِ بیان مستشرقین سے ملتا جلتا ہے، وہ لکھتے ہیں: ’’جس اصول پر حضرت موسٰی نے کافروں پر تلوار کھینچی تھی اور یہودیوں اور عیسائیوں کے نزدیک خدا کے حکم سے وہ تلوار کھینچی گئی تھی کہ تمام کافروں اور بت پرستوں کو بغیر کسی استثنا کے قتل و غارت اور نیست ونابود کردیں۔ اس اصول پر مذہب اسلام نے کبھی تلوار کو میان سے نہیں نکالا۔ اس نے کبھی تمام کافروں اور بت پرستوں کے نیست و نابود کرنے کا یا کسی کو تلوار کی دھار سے مجبور کرکے اسلام قبلوانے کا ارادہ نہیں کیا۔ ہاں، بلاشبہہ اسلام نے بھی تلوار کو نکالا مگر دوسرے مقصد سے، یعنی خدا پرستوں کے امن اور ان کی جان و مال کی حفاظت اور ان کو خدا پرستی کا موقع ملنے کو، اور یہ ایک ایسا منصفانہ اصول ہے جس پر کوئی شخص کسی قسم کا الزام نہیں لگا سکتا‘‘۔ ۴
یہ وہی اسلوب ہے جس سے عموماََ مستشرقین، انبیا کرامؑ کی گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ سرسیّد نے پوری کتاب میں الزامی جواب دینے کے لیے یہی اسلوب اختیار کیا ہے۔ ان کے برعکس الطاف حسین حالی ( ۱۸۳۷ء-۱۹۱۴ء) خطباتِ احمدیہ کی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’دوسری خصوصیت اس کتاب کی یہ ہے کہ سرسیّد نے اس کتاب میں مناظرہ کے اس مخاصمانہ طریقے کی جگہ جو مسلمانوں میں عموماََ دائر و سائر ہے اور جس سے فریقِ مخالف کے دل میں بجاے رغبت کے نفرت اور بجاے آشتی کے ضد پیدا ہوتی ہے، ایک ایسا دوستانہ اور بے تعصبانہ طریقہ اختیار کیا ہے جو کسی کو ناگوار نہیں معلوم ہوتا اور مسلمانوں کے لیے ایک ایسی مثال قائم کی ہے کہ جس کی پیروی کرنے کی نہایت ضرورت تھی۔ ۵
جناب الطاف حسین حالی کی یہ محض ایک غیر محتاط اور غیرمنصفانہ دلیل ہے۔ اگر چہ سرسیّد کا بنیادی مقصد ’ولایت‘ [تاج برطانیہ] کے ساتھ دوستانہ روابط قائم کرنے کے لیے بہت سی معذرتیں پیش کرنا تھا۔ سرسیّد خطباتِ احمدیہ کی اشاعت کے بعد ۲۷سال تک زندہ رہے، لیکن معلوم نہیں ہوسکا کہ انھوں نے ولیم میور کی بقیہ تین جلدوں کا جواب کیوں نہ لکھا۔ تاہم، سیرتِ نگاری پر سرسیّد کے افکار نے بعد کے اہل قلم پر بہت گہرے نقوش چھوڑے۔ اس دور میں اس قافلے کے آخری نقیب مولانا شبلی نعمانی (۱۸۵۷ء-۱۹۱۴ء) تھے۔ ولیم میور کی جانب سے جہاد پر اعتراضات کا تفصیلی جواب مولوی چراغ علی (۱۸۴۴ء-۱۸۹۵ء) کے حصے میں آیا، اور انھوں نے تحقیق الجہاد ۶ کے نام سے کتاب تصنیف کی۔ جب ۱۸۷۰ء میں سرسیّد ہندستان واپس آئے، تو اسی سال دونوں کی ملاقات ہوئی۔ سرسیّد نے اس سے قبل۱۸۶۴ء میں غازی پوری میں ’سائنٹی فک سوسائٹی‘ قائم کی، جس کا بنیادی مقصد مغربی علوم کو اردو زبان میں ترجمہ کرنا تھا۔ چراغ علی صاحب چوں کہ زبانوں میں کافی مہارت رکھتے تھے، اس لیے مذکورہ ملاقات کے بعد سرسیّد نے ترجمے کے منصوبوں کی ذمہ داری ان پر ڈالی۔ منصوبہ ترجمہ کے مالی اخراجات ریاست حیدر آباد دکن برداشت کرتی تھی۔ اس لیے بعدازاں سرسیّد کی تجویز پر چراغ علی صاحب ریاست حیدر آباد میں کئی اہم مناصب پر فائز رہے۔ دونوں کی رفاقت بہت مضبوط تھی۔ ۷
چراغ علی صاحب نے اپنی کتاب تحقیق الجہاد کو بڑی عقیدت اور محبت کے ساتھ سرسیّد کے نام منسوب کر کے ۱۸۸۵ء میں شائع کیا۔ تاہم، انگریزی اشاعت کے بعد چراغ علی صاحب نے سرسیّد کو کتاب کا اردو ترجمہ کرنے میں مدد طلب کی۔ سرسیّد نے جواب میں لکھا کہ: ’’اُردو میں اس کی اشاعت مناسب نہیں ہے، کیوں لوگ آپ کے مقصد کو نہیں سمجھیں گے۔ علی گڑھ میں پہلے سے آپ کے خلاف مخاصمانہ ماحول پیدا ہوچکا ہے اور حیدر آباد کے لوگ علی گڑھ والوں سے بھی زیادہ جاہل ہیں۔ اگر اردو میں اس کی اشاعت ہوگئی، تو آپ کے خلاف نفرت کی زہریلی فضا قائم ہوجائے گی‘‘۔ ۸ خواجہ غلام الثقلین نے اس کتاب کا اردو ترجمہ ۱۹۱۳ء میں کرکے پانی پت سے شائع کیا۔ اس بحث سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ چراغ علی صاحب کی کتاب دراصل اس سلسلے کی کڑی تھی، جس کا آغاز سرسیّد احمد خاں نے کیا تھا۔ ۹
تحقیق الجہاد کا بنیادی مقدمہ یہ تھا کہ: ’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنی جنگیں لڑی تھیں وہ تمام دفاعی تھیں‘۔ اس خطے میں چراغ علی صاحب پہلے آدمی ہیں، جنھوں نے ’دفاعی‘ اور ’اقدامی جہاد‘ کی تقسیم متعارف کرائی، جس کا اثر بعدازاں اکابر سیرت نگاروں تک کے ہاں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس لحاظ سے شبلی نعمانی بھی اپنی معرکہ آرا کتاب سیرت النبیؐ میں ’دفاعی‘ اور ’اقدامی‘ اصطلاحیں استعمال کرتے ہیں، اور وہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے غزوات کا تجزیہ کرتے ہیں، تو ان کے نزدیک تمام جنگیں دفاعی ہیں۔ مختصراً عرض ہے کہ جہاد کے حوالے سے یہ تقسیم اسلامی قانون سے قریب نہیں ہے۔
سرسیّد صاحب نے اپنے رفقا کے ہمراہ مغرب کو جواب تو دے دیا، لیکن اپنی صفائی بحیثیت مجرم کے پیش کی۔ اہلِ مغرب نے یہ اعتراض کیا کہ ’’اسلام تلوار کی طاقت سے پھیلا ہے ’’تو ان حضرات نے سرے انکار کردیا کہ ’’اسلام اور تلوار کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے‘‘۔ اسی طرح وہ تمام نزاعی مسائل زیرِ بحث آئے، جو آج بھی زندہ موضوعات ہیں۔ اسیرانِ جنگ، غلامی، مالِ غنیمت، متحارب اور مفتوح اقوام سے تعلق، جزیہ کی وصولی اور اس نوع کے تمام مسائل میں سرسیّد کی فکری روایت اس وقت سے تاحال دور ازکار تاویلات میں مصروف کار ہے۔
اس مختصر پس منظر سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جہاد کے مسئلے پر اس خطے میں یہ ایک نئی فکر پروان چڑھی۔ ایک جانب اہل مغرب کا تعصب تھا اور دوسری جانب معذرت خواہ اہل قلم۔ اس گھٹاٹوپ ماحول میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی (۱۹۰۳ء-۱۹۷۹ء)پہلے آدمی ہیں، جنھوں نے بغیر کسی معذرت خواہی کے، مخالفین کے اتہامات کا جواب دیا۔ اس موضوع پر مولانامودودی کی معرکہ آرا کتاب کا پس منظر ایک واقعہ بنا۔
۲۰ویں صدی کے آغاز میں ہندوؤں کی بعض تحریکیں اٹھیں جن کا بنیادی مقصد مسلمانوں کو تہذیبی اور سماجی سطح پر کمزور کرنا تھا۔ انھی میں سے ایک ’شدھی تحریک‘ بھی تھی۔ یہ تحریک اس نظریے کی بنیاد پر بنی کہ ہندستان کے لوگ دراصل ہندو ہیں۔ اس لیے جو لوگ دوسرے مذاہب پر ایمان لائے ہیں، ان کو دوبارہ شدھی بنا دینا چاہیے۔ ۱۰ اس مقصد کے لیے ’شدھی تحریک‘ نے مختلف طریقے اختیار کیے، اور آخر کار نسل پرست برہمن کھلی دشمنی پر اتر آئے۔ بالآخر مسلمانوں کو جبراً ہندو بنانا شروع کیا۔ یہ دشمنی اس حد تک بڑھ گئی کہ شدھی تحریک کے لیڈروں نے ایک قدم آگے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں کھلم کھلا گستاخیاں شروع کردیں۔
۲۳ دسمبر ۱۹۲۶ء کو اس تحریک کے بانی سوامی شردھا نند (۱۸۵۶ء-۱۹۲۶ء) کو عبدالرشید نامی ایک مسلمان نے قتل کردیا۔۱۱ اس سے مسلمانوں کے خلاف ماحول ابتر ہوگیا۔ایک بار پھر ہندوؤں نے اسلام اور مسلمانوں کو مطعون کرنے کا آغازکیا۔ مظاہروں سے ہندستان کے حالات خراب ہوتے چلے گئے۔ تاہم، تصورِ جہاد ایک بار پھر جلسوں اور اخباروں میں اعتراضات کی زد میں آگیا۔ اس بار ہندوؤں کی نفرت اور تعصب نے ایسی شدت اختیار کی کہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے بڑے بڑے دانش ور بھی اس سے بچ نہ سکے۔
گاندھی جی (۱۸۶۹ء-۱۹۴۸ء) جو بڑے صائب الراے آدمی تصور کیے جاتے تھے، انھوں نے اپنی نفرت کا اظہار سوامی کے تعزیتی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اس طرح کیا کہ: ’’عبدالرشید اس قتل کا ذمہ دار نہیں ہے بلکہ وہ لوگ ذمہ دار ہیں جنھوں نے نفرت پھیلا کر اس کو قتل پر اُکسایا۔۱۲ اسلام ایسے ماحول میں پیدا ہوا ہے، جس کی فیصلہ کن طاقت پہلے بھی تلوار تھی اور آج بھی تلوار ہے‘‘۔۱۳ اخبار الجمیعۃ(۱۹۲۷ء) کے اداریوں سے یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ فسادپرور ہندو اس وقت کس قسم کا زہریلا پروپیگنڈا کررہے تھے۔
سیّد موودوی لکھتے ہیں:’’ہندوؤں نے اس سلسلے میں جو رکیک اور غلط پروپیگنڈا شروع کیا ہے، اس میں ایک طرف تو ان کے لیڈر گورنمنٹ کو دھمکی دے رہے ہیں اور دوسری طرف مسلمانوں کو مرعوب کرنا اور خوف دلانا چاہتے ہیں۔ ہندو اخبارات نے جو روش اختیار کی ہے اور ماتمی جلسوں میں جو زہریلی تقریریں کی جارہی ہیں، وہ نہایت خطرناک اور امن سوز ہیں۔ جہاں تک اظہارِ غم اور ہمدردی کا معاملہ ہے،[تو] اظہارِ ماتم کا یہ کون سا طریقہ ہے کہ ایک مرتکب جرم کےساتھ (جوابھی تک متحقق نہیں کہ کون ہے) ساری مسلمان قوم کو موردِ طعن و تشنیع بنایا جائے، بلکہ اس پر بھی قناعت نہ کرکے مذہب اسلام کے خلاف بھی سب و شتم کا بازار گرم کردیا جائے۔ سڑکوں پر سرِ راہ بھجن گاتے پھرنا اور ماتمی جلسوں میں مساجد پر اوم [ایشور]کے جھنڈے گاڑنے کا اعلان کرنا، تمام مسلمانوں کے شدھ [پاک]کرنے کا ارادہ ظاہر کرنا، مسلمانوں سے داڑھی منڈانے اور چوٹی رکھوانے کا مطالبہ کرنا، ہندوجاتی [ہندو قوم]کے نوجوانوں کو مرنے کے لیے تیار کرنا، یہ آخر کون سی تہذیب و شائستگی ہے؟۱۴
[الجمعیۃ، ۱۰ جنوری ۱۹۲۷ء ہی میں مولانا مودودی لکھتے ہیں:] ’’ایک مہاشہ صاحب کے ارشادات ملاحظہ ہوں، جو ۷جنوری کے [اخبار] تیج میں شائع ہوئے ہیں:’۱۸ویں صدی کے آخری دس سالوں میں مختلف یورپین ممالک کے رہزن، قزاق، لٹیرے، جانباز ڈاکو، لچے، لقے، شہدے، شاہین چور، حرام زادے جنھیں اخلاق و شائستگی سے کوئی واسطہ نہیں تھا، مہلک و تباہ کن آلات اور سمیات سے مسلّح ہوکر اپنے اپنے گھروں سے چل کر ایشیا میں وارد ہوئے۔ انھوں نے کمزور اقوام کو تباہ کیا اور اپنے حلقۂ غلامی میں لاکر ان کے ممالک میں لوٹ مار مچادی، سیاسی جرائم کا ارتکاب کیا، ان کی نظیر صفحہ تاریخ میں مسلم غنڈا پن اور ظلم و سفاکی کے سوا اور کوئی نہیں ملتی ہے۔ عرب کے وحشی بربریوں کے گروہوں کے گروہ جو محمدصاحب کے جانشینوں کی فتوحات کے نشوں سے سرشار و سرمست تھے، زیادہ اراضی پر قابض و متمکن ہونے اور نئی چراگاہوں پر متصرف ہونے کی حرص میں ہاتھوں میں قرآن و تلوار لیے ہوئے ایران اور ہندستان کے فی مابین علاقے کو ٹڈی [دَل]کی طرح برباد کرنے کے لیے چڑھ دوڑے تھے اور سَبھَیتَا [تہذیب]جو کہ دوہزار سالوں سے چلی آتی تھی، ایسے وحشی و سفاک بربریت مجسم دشمن سے دوچار ہوئی، جس کو ہنر و فنون لطیفہ، لٹریچر یا حُسن و خوبی کی قدر نہیں تھی۔ اس دشمنِ انسانیت عدو کا نعرہ جنگ، تباہی و بربادی ہی تھا۔ ہندستان میں داخل ہوکر ان بدباطن بربریوں نے بودھوں کے مَٹھوں [تعلیمی مراکز]اور دھرم اَستھانوں [مندروں] کو ملیامیٹ کردیا۔ تعلیم کے مراکز غنڈا گردی و شہدے پن کے مرکزوں میں تبدیل ہوگئے۔ بھارت ورش [ہندستان]نے بودھ اُتم دھرم [اعلیٰ بدھ مذہب]کھودیا اور بودھ پرجا [عوام]کو لاکھوں کی تعداد میں جبراً عرب کے دین میں تبدیل کیا گیا۔ اس وقت ہندستان میں ایک بھی مسلمان نہیں تھا، مگر آج سات کروڑ مسلمان ہیں‘‘۔۱۵
مولانا مودودی لکھتے ہیں: ’’ممکن ہے اس تحریر کو ایک شخصی تحریر کہا جائے، لیکن لاہور کے اخبار سوراجیہ کی اس تحریر کے متعلق کیا کہا جائے گا، جو کسی شخص کا ذاتی اخبار نہیں بلکہ [انڈین نیشنل] کانگریس کی سرپرستی میں نکل رہا ہے:مسلمانانِ ہند کی تواریخ کسی بھی پہلو میں شان دار نہیں، نہ انھوں نے کوئی فلاسفر پیدا کیا ہے اور نہ ہی کوئی سائنس دان، نہ کوئی حقیقی دھرماتما [فیاض]اور نہ ہی کوئی جاںباز محب وطن، بلکہ وقتاً فوقتاً انھوں نے اپنی بربریت اور وحشیانہ پن کا ہی ثبوت دیا ہے اور اس کا واحد کارن [مقصد] ان کا مذہبی کٹر پن، عدمِ رواداری، تنگ دلی اور غلط خیالات ہیں‘‘۔۱۶
ان حالات میں جس تصور کے خلاف سب سے زیادہ پروپیگنڈا کرایا گیا، وہ جہاد ہے۔ برطانوی ہند کے طول و عرض میں اسی زبان میں آگ کے شعلے بلند کرتے اور لاوا اُگلتے پروپیگنڈے کی زد میں اسلام اور مسلمان تھے۔
انھی دنوں مولانا محمد علی جوہرؔ(۱۸۷۸ء-۱۹۳۱ء)۱۷ نے جامع مسجد دہلی میں خطبہ دیتے ہوئے حسرت سے کہا:’’ کاش! کوئی بندۂ خدا اس وقت اسلامی جہاد پر ایسی کوئی کتاب لکھے، جو مخالفین کے سارے اعتراضات و الزامات کو رفع کرکے جہاد کی اصل حقیقت دنیا پر واضح کردے‘‘۔۱۸
مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں کہ: ’’تقریر سننے والوں میں سے ایک میں بھی تھا۔ میں جب وہاں سے اٹھا تو یہ سوچتا ہوا اٹھا کہ کیوں نہ میں ہی اللہ کا نام لے کر اپنی سی کوشش کروں‘‘۔ مولانا جوہرؔ کی اس آرزو نے سیّد مودودی کو مہمیز دی اور اس موضوع پر لکھنے کا آغاز کیا۔ سیّد مودودی ان دنوں جمعیت العلما کے سہ روزہ اخبار الجمیعۃ، دہلی کے ایڈیٹر تھے، اور روزِ اول (دسمبر۱۹۲۴ء) سے دسمبر۱۹۲۸ء تک ادارت کے فرائض انجام دے رہے تھے۔۱۹
اسی پرچے میں اسلامی قانونِ جنگ پر مولانا مودودی نے یہ سلسلہ وار مضامین بہ عنوان ’کیا اسلام خوں ریزی سکھاتا ہے؟‘ لکھنا شروع کیا، تو جمعیۃ العلما کے ناظم مولانا احمد سعید نے، اس سلسلہ تحریر کے تعارف میں یہ سطور قلم بند کیں:’’دنیا میں حقیقی امن و صلح کا پیغام اگر کوئی مذہب لایا ہے تو وہ صرف اسلام ہے۔ مگر عداوت اور بغض کا بُرا ہو کہ اس نے مخالفین اسلام کی آنکھوں کو ایسا اندھا کردیا ہے کہ اُن کو یہ روشنی نظر نہیں آتی، اور وہ برابر اسلام کی تعلیم کو خونی تعلیم اور اسلام کو خونی مذہب کہتے ہیں۔ مخالفین اسلام کے غلط پروپیگنڈے کی قلعی کھولنے اور اسلام کی حقیقی اور سچّی تعلیم کو واضح کرنے کے لیے جمعیۃ العلما کے اخبار الجمیعۃ میں ایک پُر از معلومات سلسلۂ مضامین شروع کیا جارہا ہے، جو مخالفین کے لیے مشعل ہدایت اور مسلمانوں کے لیے بصیرت کا ذریعہ ہوگا۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ صلح و جنگ کے احکام کو صحیح اسلامی تعلیم کے مطابق پڑھیں اور سمجھیں اور ہندستان کے تمام قومی و مذہبی معاملات میں سچی رہنمائی سے مستفید ہوں، تو فوراً ۲ فروری۱۹۲۷ء سے اخبار الجمیعۃ کو التزام سے پڑھیے اور اپنے احباب و اقربا کو پڑھائیے اور سُنایئے۔ ہر مسلمان کا قومی اور مذہبی فرض ہے کہ حق کی اس آواز کو دوسرے مسلمانوں تک پہنچا دے۔ بالخصوص اس وقت ائمہ مساجد کی اسلامی خدمت یہی ہے کہ جمعہ کے روز الجمیعۃ کے مضامین مسلمانوں کو سنا کر اُن میں اسلامی تعلیم کی سچی واقفیت پیدا کریں، تاکہ وہ عام مسلمانوں کا طبقۂ مخالفین کی تلبیس کی مضرتوں سے محفوظ رہے۔ الجمیعۃکی توسیع اشاعت بھی طریقِ حق میں سے ایک مفید اور نتیجہ خیز طریقہ ہے‘‘۔ ۲۰
جب الجمعیۃ میں ۲۳، ۲۴ قسطیں چھپ چکیں تو اندازہ ہوا کہ اتنے بڑے موضوع کو اخباری صفحات پر نبھانا ممکن نہیں۔ اس لیے مولانا مودودی نے اقساط کی اشاعت روک دی۔۲۱ اور پھر اس سلسلۂ مضامین کو مفصل مباحث کے ساتھ کتابی صورت میں مرتب کرکے دارالمصنّفین کے سپرد کیا۔ بالآخر یہ مضامین علّامہ سیّد سلیمان ندوی [۱۸۸۴ء-۱۹۵۳ء] کے تجویز کردہ عنوان الجہاد فی الاسلام کے تحت ۱۹۳۰ء میں وہیں سے شائع ہوئے۔ سیّدمودودی نے دارالمصنّفین کے سامنے بعض شرائط رکھی تھیں، جس کا ذکر سیّد سلیمان ندوی نے مجلس دارالمصنّفین کے رکن مولانا عبدالماجد دریابادی سے ایک خط میں کیا:’’ابوالاعلیٰ صاحب مودودی نے اسلام اور جنگ پر سلسلۂ مضمون لکھا تھا اور الجمیعۃ میں شائع ہوا تھا، اس موصوف نے مع اضافہ ابواب کثیر تین ساڑھے تین سو صفحوں کی ایک کتاب لکھی ہے، جو معیار کے مطابق اور پُر معلومات ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس کو دارالمصنّفین شائع کرے اور اس کے معاوضے میں وہ ان کو دائمی رکن بنائے اور اپنی مطبوعات سالانہ معارف ان کو دیا جائے‘‘۔ ۲۲
دسمبر۱۹۲۹ء کے معارف میں الجہاد فی الاسلام کے بارے مولانا سیّد سلیمان ندوی نے لکھا:’’دارالمصنّفین سے امسال زیرِ طبع ایک کتاب اسلام اور اس کے قوانینِ جنگ ہے، جس میں اسلام کی رواداری، جہاد اور اس کے اسباب و اغراض دوسری قوموں کے حقوق، ان سے لڑائی اور صلح کے احکام، دوسرے مذاہب اور موجودہ متمدن حکومتوں کے قوانینِ جنگ سے مقابلہ اور موازنہ، یہ کتاب شاید ۵۰۰ صفحات پر ختم ہو۔ آدھی سے زیادہ چھپ چکی ہے۔ شاید دو مہینے میں پوری ہوسکے‘‘۔ ۲۳
کتاب کی اشاعت کے بعد ماہ نامہ معارف کے مدیر جناب سیّد سلیمان ندوی، الجہاد فی الاسلام کے مختصر تعارف میں لکھا:’’سالِ گذشتہ کی طرف سے اس مہینے جو نئی کتابیں چھپ کر تیار ہورہی ہیں، ان میں تیسری کتاب کا نام الجہاد فی الاسلام ہے، اس کے مؤلف ابوالاعلیٰ صاحب مودودی ہیں۔ تقریباً ۵۰۰ صفحات میں یہ کتاب تمام ہوئی ہے۔ اس میں اسلامی جہاد کے اصول و مسائل، معترضین کے جوابات، مخالفین کے شکوک و شبہات کی تردید، یہودیوں، عیسائیوں، ہندوؤں اور بودھوں کے اصول سے ان کا مقابلہ اور یورپ کے موجودہ قوانینِ جنگ پر تبصرہ اور جہاد کے اسلامی قوانین سے ان کا موازنہ ہے۔ عربی اور انگریزی کی بہترین مستند کتابوں کے حوالوں سے یہ لکھی گئی ہے۔ خیال ہے کہ اس ضروری مسئلے پر اس سے زیادہ مدلل، مبرہن اور مبسوط کتاب اب تک نہیں لکھی گئی‘‘۔ ۲۴
ہندستان کے مشاہیر اہل علم و فکر میں اس کتاب نے خوب پذیرائی حاصل کی۔ علامہ محمد اقبال (۱۸۷۷ء-۱۹۳۸ء) نظریۂ جہاد میں دل چسپی رکھتے تھے اور اہل قلم کو اس موضوع پر لکھنے کے لیے اُبھارتے رہتے تھے۔ ۲۵ جب 'الجہاد فی الاسلام ان تک پہنچی تو فرمایا:
’اس [کتاب] کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے معذرت خواہانہ لہجہ اختیار نہیں کیا، بلکہ جنگ و جہاد کے متعلق اسلام کے جو نظریات ہیں، اُنھیں کسی تاویل یا تعبیر کے بغیر، بڑے کرّوفر سے پیش کیا ہے‘۔ ۲۶
دارالاسلام کے منصوبے کے لیے سیّد مودودی کے انتخاب کا ذریعہ بھی یہ کتاب بنی تھی:
'سید نذیر نیازی (م:۱۹۰۰ء-۱۹۸۱ء) راوی ہیں کہ علامہ [محمد اقبال] نے چودھری نیاز علی خاں[۱۸۸۰ء-۱۹۷۶ء] سے ’دارالاسلام‘ کے ’مرد کار‘ کی فراہمی کے بارے میں کہا:
’حیدرآباد [دکن] سے ترجمان القرآن کے نام سے ایک بڑا اچھا رسالہ نکل رہا ہے۔ مودودی صاحب اس کے ایڈیٹر ہیں۔ میں نے ان کے مضامین پڑھے ہیں۔ دین کے ساتھ ساتھ وہ مسائل حاضرہ پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ ان کی کتاب الجہاد فی الاسلام مجھے بہت پسند آئی ہے۔ آپ کیوں نہ انھیں ’دارالاسلام‘ آنے کی دعوت دیں۔ میرا خیال ہے وہ دعوت قبول کرلیں گے‘۔ ۲۷
جن حضرات کو اس زمانے میں کتاب پڑھنے کا موقع ملا، ہر کسی نے اس کی بہت تعریف کی ہے۔ مثال کے طور پر رئیس احمد جعفری [۱۹۰۸ء-۱۹۶۸ء]لکھتے ہیں:’’بچپن سے مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے افکار و دماغی زورِ قلم اور متوازن راے کا سکہ دل پر بیٹھا ہوا تھا۔ یہ وہی صحافی تھا جس نے اپنی نوجوانی کے زمانے میں جمعیۃ العلما کے ترجمان الجمیعۃ کی عنانِ ادارت ہاتھ میں لی اور اسے بام عروج پر پہنچایا، ہندستان کے بلند پایہ اخبارات کی صفِ اوّل میں پہنچادیا، سوامی شردھانند کے [واقعۂ] قتل کے بعد جس نے ’اسلام اور تشدد کا مسلک‘ کے موضوع پر اتنے عالمانہ سیر حاصل اور بلند پایہ مقالات لکھے کہ دھوم مچ گئی، مخالفین تک داد دینے پر مجبور ہوگئے‘‘۔ ۲۸
سیّد مودودی لکھتے ہیں:’’میں نے جب دنیا میں آنکھیں کھولیں، تو ایک خاص مذہبی ماحول میرے سامنے تھا، جس کی بہت سی چیزیں مجھ کو اپیل نہیں کرتی تھیں۔ خوش قسمتی سے میری ابتدائی تعلیم عربی زبان ہی میں ہوئی تھی اور اسلامی علوم کی ابتدائی کتابیں میں پہلے ہی پڑھ چکا تھا۔ اس سے مجھے احساس ہوا کہ جب میں قرآن اور حدیث کو پڑھ کر سمجھ سکتا ہوں تو مجھے جاننا چاہیے کہ وہ اسلام کیا ہے جو قرآن و حدیث پیش کرتے ہیں۔ اس مطالعے کے دوران میں مَیں نشان بھی لگاتا گیا اور نوٹس بھی لیتا گیا، جس سے معلوم ہوا کہ اسلام فی الواقع کیا ہے؟ اس مطالعے نے تفصیلی اور تحقیقی شکل اس وقت اختیار کی جب میں نے 'الجہاد فی الاسلام لکھنی شروع کی‘‘۔ ۲۹
یہ وہ تصنیف ہے جس نے خود سیّد مودودی کے اندر انقلاب برپا کیا اور انھوں نے صحافت کو خیر باد کہہ کر احیاے اسلام کے لیے جدوجہد شروع کی، جس نے بعد میں جماعت اسلامی کو وجود بخشا۔ جسٹس ملک غلام علی [۱۹۲۰ء-۲۶ستمبر۱۹۹۴ء] کے بقول 'الجہاد فی الاسلام کے بارے میں سیّد مودودی نے ایک مرتبہ خود فرمایا: ’’اس کتاب نے سب سے زیادہ فائدہ خود مجھے پہنچایا ہے۔ میں نے جب اس کتاب کے لکھنے کا ارادہ کیا تھا، تو میرے اندر دینی حمیت سے زیادہ قومی حمیت کا جذبہ کام کررہا تھا، لیکن تالیف و تحقیق کے دوران میں جب مجھے ایک ترتیب کے ساتھ اسلام کے اساسی نظریات اور اس کے تفصیلی احکامات کا غور سے مطالعہ کرنے کا موقع ملا، تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مجھ میں نہ صرف نظامِ شریعت کا فہم اور اس کی حقانیت کا غیر متزلزل یقین اُبھر آیا، بلکہ اس نظام کے احیا کا ولولہ بھی مجھ میں پیدا ہوگیا اور اس کے لیے کام کرنے کا طریقہ بھی میری سمجھ میں آگیا۔ اس کے بعد میں نے اخبار نویسی کے مروج اور پامال راستے کو خیر باد کہنے کی ٹھان لی۔ الجمیعۃ سے علیحدگی اختیار کرلی اور یہ طے کیا کہ صحافت کی دنیا میں اگر آیندہ قدم رکھوں گا، تو صرف اس شرط پر، کہ اسے دینِ حق کی خدمت کا ذریعہ بناؤں۔ اس کے بعد مزید پانچ سال تک پھر صرف مطالعہ، لکھنے پڑھنے اور اپنی علمی استعداد بڑھانے کا کام کرتا رہا‘‘۔ ۳۰
اس شاہکار تصنیف نے بے شمار لوگوں کی زندگیاں سنواری ہوں گی۔ یہاں ہم صرف جناب شورش کاشمیری (۱۹۱۷ء-۲۵؍اکتوبر۱۹۷۵ء) کے احوال نقل کر رہے ہیں جو مجلس احرار کے رہنما کی حیثیت سے ساہیوال سنٹرل جیل میں قید تھے۔ ان کے ساتھ بعض معروف کمیونسٹ لیڈر بھی اسیر تھے۔ شورش صاحب لکھتے ہیں:’’میں نے [جیل ہی میں] مختلف پروفیسروں سے کمیونزم پڑھنا شروع کیا۔ دو سال تک پڑھتا رہا اور سچ تو یہ ہے کہ میری ذہنی بنیادیں ہل گئیں۔ میں خدا کے وجود سے لے کر عام اخلاقی اقدار تک کے عقیدے میں ڈانواں ڈول ہوگیا۔میں نے قرآن مجید کی باقاعدہ تلاوت ترک کردی، کیوں کہ میں سمجھتا تھا کہ مطلب جانے بغیر اس کی تلاوت بے فائدہ ہے۔ خداوند تبارک و تعالیٰ کو (نعوذ باللہ) فرصت کے قہقہوں کا موضوع سمجھتا تھا۔ اور ہر اس مسئلے کی تضحیک میں خوشی ہوتی، جو مذہب کے’غیر عقلی‘ وجود سے پیدا ہوتا ہے۔ اسی اثنا میں مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی نے مجھے مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی ایک ضخیم تصنیف 'الجہاد فی الاسلامبھجوائی۔ میں نے سرورق دیکھا اور کتاب کو سرہانے رکھ چھوڑا۔ کچھ دنوں بعد میرا [سنٹرل] جیل خانے کے سپرنٹنڈنٹ سے کسی بات پر جھگڑا ہوگیا۔ اس نے مجھے تنہائی میں بھیج دیا اور مارکسزم کے موضوع کی تمام کتابیں روک لیں۔ میں نے اصرار کیا، لیکن وہ نہ مانا۔ جب دوچار دن بے مطالعہ تنہائی میں گزر گئے تو میں نے محض دفع الوقتی کے لیے 'الجہاد فی الاسلام طلب کی۔ سپرنٹنڈنٹ ہندو تھا، اس لیے مذہبی کتاب سمجھ کر بھیج دینے پر راضی ہوگیا۔ میں نے تین دن میں تمام کتاب پڑھ ڈالی۔ یہ مطالعہ آنکھوں کی مشغولیت تک محدود رہا۔ دماغ میں اس کا ایک دھندلا سا نقش ہی قائم ہوسکا، البتہ دل نے ایک لطیف اثر قبول کیا۔ اب میں نے کتاب کے ۲۰صفحے بلا ناغہ پڑھنا اور ان پر اپنے فہم کے مطابق سوچنا شروع کیا۔ جب میں کتاب ختم کرچکا، تو مجھے اپنے دماغ و دل میں حیرت انگیز تبدیلی محسوس ہوئی۔ میں نے قیدِ تنہائی سے نکلتے ہی کمیونزم اور سوشلزم کے معلّمین سے بحث و مذاکرہ شروع کردیا۔ جب وہ میری زبان سے اسلام کی تصریحات سنتے، تو اپنے سوالات بھول جاتے اور انھیں حیرت ہوتی کہ اسلام کا مفہوم مروجہ اصطلاحِ مذہب سے کتنا مختلف ہے‘‘۔ ۳۱
معلوم نہیں کتنے اور گُم نام لوگ ہوں گے، جن کی زندگیاں اس تصنیف کی بہ دولت اسلام کے سانچے میں ڈھلی ہوں گی۔ تاہم، استعماری دور میں مسلمانوں کا جدید تعلیم یافتہ طبقہ جس ذہنی ارتداد سے گزر رہا تھا، اس طبقے کو سیّد مودودی کی غیر معمولی طاقت ِانشا نے ان نازک حالات میں بہت بڑا سہارا دیا۔ ہم واضح کرچکے ہیں کہ سیّد مودودی سے قبل، ہندستان میں جتنے اہلِ قلم نے جہاد پر قلم اٹھایا، ان تمام نے اپنا مقدمہ مجرم کے کٹہرے میں کھڑے ہوکر اپنی صفائی پیش کی۔ ہر ایک نے معذرت خواہی اختیار کی۔ سیّد مودودی کے بارے میں بہت واضح ہے لیکن علامہ اقبال نے بھی وہ شہادت دی ہے کہ یہ ایسی تصنیف ہے جو عذر خواہی سے پاک ہے۔ استادِ محترم جناب ڈاکٹر محمدمشتاق احمد کی روایت ہے کہ ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری(۱۹۳۲ء-۲۰۱۶ء) کہا کرتے تھے کہ: ’’سیّد مودودی جہاد کے بارے میں غلط فہمیاں ختم کرنے نکلے تھے لیکن کمال یہ ہے کہ عذر خواہی سے بالکل احتراز کیا‘‘۔ بلاشبہہ یہی اس تصنیف سے سب سے بڑی خوبی ہے۔
۱- مولانا شبلی نعمانی کے دور تک مستشرقین کی جتنی کتابیں منظرِ عام پر آئی تھیں، ان کی فہرست مولانا شبلی نے سیرت النبیؐ میں دی ہے۔ سیرت النبیؐ، شبلی نعمانی،( اعظم گڑھ، دارالمصنّفین، ۱۹۷۴ء)، ج۱،ص ۹۲-۹۵
۲- انگلستان کے سفر کا ایک مقصد اس کتاب کا جواب دینا بھی تھا۔ اس کتاب کو لکھنے میں انھوں نے بہت صعوبتیں اٹھائیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: مولانا الطاف حسین حالیؔ، حیاتِ جاوید (دہلی: انجمن ترقی اردو، ۱۹۳۹ء)، حصّہ دوم، ص ۱۲۰-۱۱۹۔اس کتاب کی تفصیلی روداد کے لیے دیکھیے: مسافرانِ لندن، شیخ محمد اسماعیل پانی پتی [۱۸۹۳ء-۱۹۷۲ء] (لاہور: مجلسں ترقیِ ادب، ۲۰۰۹ء)۔
۳- سرسیّد نے کتاب خطباتِ احمدیہ اردو میں لکھی تھی۔ اس کو آپ کے صاحبزادے جسٹس سیّد محمود [۱۸۵۰ء-۱۹۰۳ء] نے انگریزی میں ترجمہ کیا تھا، دیکھیے:The New Encyclopedia Britannica، جلداوّل(یونی ورسٹی آف شکاگو، ۱۹۸۵ء)، ص ۱۶۴
۴- خطباتِ احمدیہ بہت بعد (۱۸۸۷ء) میں شائع ہوئی۔ یاد رہے ولیم میور کی کتاب کا پہلے انگریزی سے فارسی میں ترجمہ کیا گیا، یعنی سرسیّد کے پڑھنے کا اصل ماخذ فارسی کتاب تھا۔ ثریا حسین، سرسیّد احمد خان اور ان کا عہد، (علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاوس، ۱۹۹۳ء)، ص۱۱۳۔ سرسیّد کی انگریزی زبان سے ناواقفیت کی شہادت خطباتِ احمدیہ میں بھی مذکور ہے۔ دیکھیے: سرسیّد احمد خان، خطباتِ احمدیہ،(کراچی: نفیس اکیڈمی، ۱۹۶۴ء)
۵- خطباتِ احمدیہ، ص ۲۲۵
۶- حیاتِ جاوید، حصّہ دوم، ص ۱۲۵۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے معجزات پر الزامی جواب کے طور پر جو اسلوب اختیار کیا گیا ہے، وہ بھی نازیبا ہے۔اصل میں یہ کتاب چراغ علی نے انگریزی میں اس عنوان سے لکھی: A Critical Exposition of Popular Jihad،(کلکتہ: تھیکرسپنک اینڈ کمپنی، ۱۸۸۵ء)
۷- چراغ علی کی وفات پر سرسیّد نے بہت گہرے غم کا اظہار کیا تھا۔ ملاحظہ ہو: شیخ محمد اسماعیل پانی پتی، مقالاتِ سرسیّد ، (کلب روڈ لاہور: مجلس ترقی ادب،۱۹۶۵ء)، ص ۷۸۱
۸- سرسیّد احمد خان، مکتوبات، (لاہور: مجلس ترقی ادب، ۱۹۸۶ء)، ص ۳۷۰
۹- مزید دیکھیے:وحیدالرحمان، The Religious Thought of Moulvi Chiragh Ali،تحقیقی مقالہ براے ایم اے (مانٹریال: میک گل یونی ورسٹی، ۱۹۸۲ء)
۱۰- اس کا لفظی مطلب ہے پاک کرنا، یعنی جو لوگ اسلام قبول کرچکے ہیں انھیں دوبارہ ہندو بنا کر پاک کرنا۔
۱۱- عبدالرشید کے متعلق سیّد مودودی کے الجمیعۃ ۱۹۲۷ء کے مضامین میں تفصیل موجود ہے۔ جنھیں مضامین جناب خلیل احمد حامدی[۱۹۲۹ء-۲۴نومبر ۱۹۹۴ء] نے آفتابِ تازہ کے نام سے مرتب کیا ہے: سیّدابوالاعلیٰ مودودی، آفتابِ تازہ، ( لاہور: ادارہ معارف اسلامی، ۱۹۹۳ء) ۔ سیّد مودودی نے لکھا ہے کہ: اس وقت تمام مسلمان زعما نے سوامی جی کے قتل کی شدید مذمت کی تھی، لیکن ہندوئوں نے اسی روز مجنونانہ انتقام لے لیا، اور مسلمانوں پر حملہ کرکے پانچ لوگ زخمی کیے۔ ایک غریب مسلمان مفتی محبوب علی کو شہید کردیا۔(آفتابِ تازہ، ص ۲۳)۔ عدالت نے مفتی محبوب علی کے قتل میں گرفتار ملزمان کو رہا کردیا (ایضاً، ص ۱۱۷) ہندوؤں نے بار بار یہ الزام لگایا کہ سوامی جی کو مسلمانوں نے ایک سازش کے تحت قتل کردیا ہے لیکن وہ اس کا کوئی ثبوت پیش نہ کرسکے، بالآخر عبدالرشید کو گرفتار کرلیا گیا۔ ان کی جانب سے خرابی دماغ کا عذر پیش کیا گیا، جس کو کسی تحقیقات نے غلط ثابت نہیں کیا (ایضاً، ص۶۷)
۱۲- وی جی ڈیسائی، A Gandhi Anthology Book،اوّل، (احمدآباد: نواجیون پبلشنگ، ہائوس، ۱۹۵۸ء)، ص ۱۲
۱۳- ’سیّدابوالاعلیٰ مودودی‘، الجہاد فی الاسلام، (اعظم گڑھ: دارالمصنّفین، ۱۹۳۰ء)، ص ۸؛ محمدیوسف بُھٹہ، مولانا مودودی اپنی اور دوسروں کی نظر میں (لاہور: ادارہ معارفِ اسلامی، طبع دوم، مارچ ۱۹۸۴ء)، ص۲۵۱
۱۴- ’ہندوؤں کا امن سوز پروپیگنڈا‘، سیّد مودودی، الجمیعۃ، ۱۰جنوری ۱۹۲۷ء، بہ حوالہ آفتابِ تازہ، ص ۲۵
۱۵- سیّد ابوالاعلیٰ مودودی،آفتابِ تازہ، مرتبہ: خلیل احمد حامدی، ص ۲۷
۱۶- ایضاً، ص ۲۸
۱۷- ہندوؤں نے مولانا محمدعلی جوہرؔ کے خلاف بھی خوب پروپیگنڈا کیا کہ عبدالرشید کو اُکسانے میں وہ بھی شریک ہیں، سیّد مودودی نے الجمیعۃ، ۲۲ جنوری ۱۹۲۷ء میں اخبار ارجن کے مضمون کا حوالہ دیا ہے: گذشتہ چھے ماہ میں دہلی کے مسلمان اخبارات نے سوامی جی کے برخلاف حد درجہ کا زہریلا اندولن جاری رکھا۔ یہاں تک کہ مولانا محمد علی کے اخبار 'ہمدرد نے بھی سوامی جی کے برخلاف مسلمانوں کو خوب بھڑکایا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کئی متعصب مسلمانوں کا یہ وشواس ہوگیا کہ سوامی جی کا قتل کرنا ثواب کا کام ہے‘‘۔(آفتابِ تازہ، ص ۳۹)
۱۸- جسٹس ملک غلام علی کے مطابق سیّد مودودی نے خود مولانا محمد علی جوہرؔ کی آرزو کو بیان کیا ہے: یہ غوغا آرائی ایک مدّت تک بڑے زور و شور سے جاری رہی۔ مولانا محمد علی مرحوم نے ان بہتان تراشیوں سے تنگ آکر جامع مسجد دہلی میں ایک تقریر کی اور آبدیدہ ہوکر کہا کہ کاش کوئی اللہ کا بندہ ان الزامات کے جواب میں اسلام کا صحیح نقطۂ نظر پیش کرتا۔ تقریر سننے والوں میں ایک میں بھی تھا۔ میں جب وہاں سے اٹھا تو یہ سوچتا ہوا اٹھا کہ کیوں نہ میں ہی اللہ کا نام لے کر اپنی سی کوشش کروں‘‘۔ (مولانا مودودی اپنی اور دوسروں کی نظر میں، ص ۲۵۱-۲۵۲)
۱۹- ڈاکٹر ایچ بی خان کے مطابق سیّد مودودی نے ۱۶ مئی ۱۹۲۸ء کو الجمیعۃ کی ادارت سے قطع تعلق کرلیا تھا۔ ایچ بی خان کے نام مکتوب میں مولانا مودودی نے بھی اس تاریخ کی تصدیق کی ہے۔ (تذکرہ سیّد مودودی، اوّل، مرتبہ: جمیل احمد رانا، سلیم منصور خالد، (لاہور، ادارہ معارف اسلامی، اپریل ۱۹۸۶ء)، ص ۱۸۵، ۱۸۶۔خود نوشت، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، مشمولہ: نقوش آپ بیتی نمبر، [مدیر: محمد طفیل، ۱۹۲۳ء-۴ جولائی۱۹۸۶ء]، ( لاہور: ادارہ فروغِ اردو، جون ۱۹۶۴ء)، ص ۱۲۹۱۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: تذکرہ سیّد مودودی، دوم، ۱۹۹۸ء [مقالہ:صفت برق چمکتا ہے ترا فکربلند، از پروفیسر سیّد محمد سلیم: ۱۹۲۲ء- ۲۷؍اکتوبر ۲۰۰۰ء]،ص ۱۴۳-۱۴۸
۲۰- اخبار الجمیعۃ، ۲فروری، ۱۹۲۷ء، بہ حوالہ: وثائق مودودی، مرتبہ: سلیم منصورخالد(لاہور: ادارہ معارف اسلامی، ۱۹۸۴ء)، ص ۸۰
۲۱- ڈاکٹر سفیراختر، مقالہ: ’مولانا مودودی اور معارف‘، در تذکرہ سیّد مودودی،اوّل (اپریل۱۹۸۶ء، حوالہ مذکور)، ص ۱۶۴
۲۲- عبدالماجد دریابادی (مرتب)، مکتوباتِ سلیمانی، (لکھنؤ: صدق جدید بک ایجنسی ۱۹۹۳ء)، حصہ اول، ص۲۴۵۔ ڈاکٹر سفیراختر، حوالہ بالا۔
۲۳- ماہنامہ معارف، اعظم گڑھ، دسمبر ۱۹۲۹ء ،ص ۴۰۳
۲۴- ماہنامہ معارف، اعظم گڑھ، جنوری ۱۹۳۰ء، ص ۲-۳
۲۵- بشیر احمد ڈار (مرتب)، انوارِ اقبال (کراچی: اقبال اکادمی پاکستان، ۱۹۶۷ء)، ص ۳۱۸
۲۶- ہفت روزہ چٹان، لاہور، ۲۵؍ اپریل ۱۹۵۴ء بہ حوالہ: ڈاکٹر سفیراختر: بیاد سیّد مودودی، (دارالمعارف، لوہسرشرفو، ۱۹۹۸ء)ص۱۶
۲۷- ہفت روزہ ایشیا، لاہور، [مدیر: چودھری غلام جیلانی- ۱۹۲۱ء- ۱۸جنوری ۱۹۹۰ء] ۱۷؍ اپریل ۱۹۶۹، نیز رحیم بخش شاہین،[۱۹۴۲ء-۱۸جولائی ۱۹۹۸ء]، اوراقِ گم گشتہ، لاہور: اسلامک پبلی کیشنز، ۱۹۷۵، ص ۸۶
۲۸- رئیس احمد جعفری، دید و شنید، ( کراچی: رئیس احمد جعفری اکیڈمی ۱۹۸۴ء)، ص ۵۶
۲۹- سید ابوالاعلیٰ مودودی، تصریحات ،مرتبہ: سلیم منصور خالد(لاہور: البدر پبلی کیشنز، نومبر ۲۰۰۹ء)، ص۲۵۳
۳۰- مولانا مودودی اپنی اور دوسروں کی نظر میں، ص ۲۵۲-۲۵۳
۳۱- ایضاً، ص ۳۸۳
اسلام نے معاشرے کے ہر طبقے کی ہدایت و رہنمائی کے لیے جو اصول مقرر کیے ہیں ان میں بچوں کی تعلیم و تربیت اور پرورش کے اصول بھی ہیں۔ قرآن کریم کی متعدد آیات میں اللہ رب العزت نے بچوں کے متعلق کچھ نہ کچھ بیان کیا ہے اور بار بار طفولیت، ذُرّیت اور اولاد کے الفاظ سے اشارہ کیا ہے، نیز لوگوں کی تعلیم و تفہیم کے لیے بعض انبیا کرامؑ کی طفولیت کا بھی ذکر کیا ہے، جیسے حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسماعیلؑ، حضرت اسحاقؑ، حضرت یوسفؑ، حضرت یحییٰؑ، حضرت عیسیٰؑ، حضرت محمدؐ کے زمانۂ طفولیت کو بیان کیا ہے، یہاں تک کہ بچوں کو زندگی کی رونق کہا ہے:
اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ زِيْنَۃُ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا ۰ۚ (الکہف۱۸: ۴۶)یہ مال اور یہ اولاد محض دُنیوی زندگی کی ایک ہنگامی آرایش ہے۔
دوسری جگہ اللہ رب العالمین نے اولاد کو مرغوب چیزوں میں شمار کیا ہے:
زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَاۗءِ وَالْبَنِيْنَ (اٰل عمرٰن۳: ۱۴) لوگوں کو مرغوب چیزوں کی محبت خوش نما معلوم ہوتی ہے،جیسے عورتیں اور بیٹے ہیں۔
قرآن کریم میں کئی مقامات پر اطفال و اولاد کو نعمت سے تعبیر کیا گیا ہے:
وَاَمْدَدْنٰكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِيْنَ (بنی اسرائیل۱۷:۶) ہم نے تمھاری مال و اولاد سے مدد کی۔
حضور اکرمؐ کے اوقات میں بچوں کا بھی حصہ تھا۔ چنانچہ آپؐ بچوں کے ساتھ مزاح فرماتے، ان کے ساتھ تفریح کرتے اور صحابہ کرامؓ کو بھی بچوں کے ساتھ مہربانی و شفقت کے ساتھ پیش آنے کی تعلیم فرماتے۔
مذکورہ ارشادات اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ بچوں سے محبت کرنا بجا ہے، لیکن ان کی صحیح تربیت و پرورش اہم ذمہ داری ہے۔ بصورت دیگر یہی بچے جو فخر، قوت، کثرت کا سبب ہوتے ہیں، باعث ذلت و عذاب بھی بن سکتے ہیں۔اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
اِنَّمَآ اَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَۃٌ۰ۭ وَاللہُ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِيْمٌ۱۵ (التغابن ۶۴:۱۵) تمھارے مال اور تمھاری اولاد تو ایک آزمایش ہیں اور اللہ ہی ہے جس کے پاس بڑا اجر ہے۔
بچے کو بڑوں کی دنیا میں قدم رکھنے کے لیے مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ نشوونماکے یہ مراحل اپنی الگ خصوصیات رکھتے ہیں۔ اگر بچوں کی تعلیم و تربیت میں مطلوبہ تقاضوں اور ضرورتوں کا لحاظ رکھا جاتا ہے تو کوشش نتیجہ خیز ہوتی ہے، ورنہ نتائج تسلی بخش نہیں ہوتے۔ ماہرین علم النفس نے تعلیم و تربیت کے لحاظ سے انسانی اَدوار کو کئی حصوں میں تقسیم کیا ہے، جس میں بچے ذہنی و جسمانی اعتبار سے بلوغ تک پہنچتے ہیں:
۱- زمانۂ حمل(قرارِ حمل سے وضع حمل تک کا زمانہ)۲-ابتدائی بچپن (مدت رضاعت) ۳-بچپن(نرسری سے چھے سال تک) ۴-لڑکپن(۶ سال سے ۱۰ سال تک) ۵-نوجوانی (۱۰سال سے ۱۸ سال تک)
یوں تو انسانی عمر کا ہر دور انتہائی نازک اور توجہ طلب ہے، لیکن لڑکپن اور نوجوانی بچوں کی ابتدائی تعلیم کے اَدوار ہیں۔ لڑکپن کے اس دور میں بچے کی جسمانی، نفسیاتی اور عقلی بالیدگی پچھلے دور کے مقابلے میں بڑھ جاتی ہے۔ وہ ہر کام میں اپنے بڑوں کا دست نگر نہیں رہتا۔ ذہنی اور جسمانی دونوں طرح کے کاموں کو انجام دینے کی صلاحیت اس میں پیدا ہوجاتی ہے۔ عمر کا یہ دور گھر سے نکل کر اسکول جانے اور دوسرے بچوں سے ملنے جلنے اور دوستی کرنے کا دور ہوتا ہے۔ اس دور میں بچوں کے اندر اُچھل کود، کھیل کود، بھاگ دوڑ اور چیزوں کی جستجو کا شوق بڑھ جاتا ہے ۔ان کے اندر کاموں کے کرنے اور ایک دوسرے سے وفاداری کا داعیہ پیدا ہوتا ہے۔ قوت فیصلہ بلاکی ہوتی ہے۔ اپنے بڑوں خاص کرماں باپ اور اساتذہ کا دل سے احترام کرتے ہیں اور ان میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی خواہش ہوتی ہے، جس کے لیے وہ مقدور بھر کوشش کرتے ہیں، لیکن ان کے کسی کام میں استقرار نہیں ہوتا۔ یہ سب عمدہ صفات ہیں۔ ان کو پروان چڑھنے کا موقع دیا جائے۔ کامیابی پر شاباش دی جائے اور ناکامی پر ہمت دلائی جائے، نقد و جراح سے گریز کیا جائے ، اور صحت مند تفریح کا اہتمام کیا جائے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم جہاں بچوں کے حقوق کے حوالے سے فکر مند ہے، وہیں قرآن میں بچوں کے تحفظ کے اہتمام و انتظام کے اشارے بھی ملتے ہیں۔ پیدایش سے پہلے ہی بچے کا تحفظ شروع ہوجاتا ہے اور بعد پیدایش اس میں تقویت اور استحکام آجاتا ہے۔ انسانی زندگی میں بچوں کی اہمیت کے پیش نظر اسلام کا دامن بچوں کے لیے وسائل تربیت سے بھرا پڑا ہے۔ اسلام بچوں کی روحانی تربیت مواعظہ حسنہ سے کرتا ہے۔ عقلی و ذہنی صلاحیتوں کی اصلاح اعلیٰ کردار کے ذریعے کرتا ہے اور جسمانی تربیت اچھی عادات اور کھیل کود و ورزش کے ذریعے کرتا ہے۔
’تربیت‘ کا لفظ اپنے وسیع تر معنی میں انسان خاص کر چھوٹے بچوں کی جسمانی و عقلی، روحانی اور فکری قوتوں کا اُجاگر کرنا ہے، اور پرورش و پرداخت کے ذریعے ان کی مخفی صلاحیتوں کو کمال بخشنا ہے۔
امام غزالیؒ فرماتے ہیں:’’بچہ والدین کے پاس اللہ کی امانت ہے۔ اس کا پاک دل ایک صاف شفاف عمدہ جوہر ہے، جو ہر طرح کے نقش و نگار سے خالی ہے۔ اس پر جس طرح نقش جمانا چاہیں جم جائے گا۔ اگر اچھی عادتوں کا خوگر بنایا گیا اور تعلیم و تربیت کا عمدہ بندوبست کیا گیا تو وہ دنیا و آخرت میں سعادت مند ہوگا، اور اس کے والدین اور مربی اس کے اجر و ثواب میں برابر کے شریک ہوں گے، اور اگر اس کی تعلیم و تربیت میں غفلت برتی گئی، اور بری عادتوں کا خوگر بنایا گیا تو وہ ہلاک و برباد ہوگا، اور اس کی ذمہ دار اس کے مربی پر عائد ہوگی‘‘۔(الغزالی، احیاء علوم الدین، ج۳، ص ۷۲)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَہْلِيْكُمْ نَارًا (التحریم۶۶:۶) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچائو۔
گویا تربیت کے ذریعے بنی نوع انسان کو عقیدہ و اخلاق، علم و ہنر اور تہذیب و تمدن کا پابند کیا جاتا ہے۔ ان کی جسمانی قوتوں کو مناسب غذا فراہم اور ان کی روحانیت کو فروغ دیا جاتا ہے، تاکہ اچھے افراد پیدا ہوں، صالح جماعت کی تشکیل ہو اور دنیا کا نظام صحیح ڈھنگ سے چلے۔
قرآن کریم کی آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ علم نافع، اعمال صالحہ اور خوفِ خدا کے ساتھ جسمانی قوت سربراہی و سرداری کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے، اور اس کی افادیت اور اس کے مستحسن ہونے کے اشارے ملتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ’طالوت‘ کو اس کی طاقت و قوت کی وجہ سے بادشاد منتخب کیا اور فرمایا:
ان کے نبی نے ان سے کہا کہ اللہ نے طالوت کو تمھارے لیے بادشاہ مقرر کیا ہے۔ یہ سن کر وہ بولے: ’’ہم پر بادشاہ بننے کا وہ کیسے حق دار ہوگیا؟ اس کے مقابلے میں بادشاہی کے ہم زیادہ مستحق ہیں۔ وہ تو کوئی بڑا مال دار آدمی نہیں ہے‘‘۔ نبی نے جواب دیا: ’’اللہ نے تمھارے مقابلے میں اسی کو منتخب کیا ہے اور اس کو دماغی و جسمانی دونوں قسم کے اہلیتیں فراوانی کے ساتھ عطافرمائی ہیں اور اللہ کو اختیار ہے کہ اپنا ملک جسے چاہے دے، اللہ بڑی وسعت رکھتا ہے اور سب کچھ اس کے علم میں ہے۔(البقرہ۲: ۲۴۷)
چنانچہ دیگر اوصاف و کمالات کے ساتھ ساتھ سربراہ کے لیے جسمانی طاقت و قوت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے اسلام نے دوسری فطری قوتوں کی طرح جسمانی قوت کو پروان چڑھانے کی ترغیب دی ہے، تاکہ امت کا ہر فرد اخلاقی، علمی اور جسمانی، ہر اعتبار سے مکمل ہو۔ کسی بھی گوشے سے نقص کا احساس نہ ہو۔ اس کی طاقت و قوت نمایاں طور پر ظاہر ہوتی ہو۔
اسی کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مطہرہ سے بھی بدنی سرگرمیوں کے ثبوت ملتے ہیں۔ مختلف کھیلوں اور ورزشوں کا ذکر ملتا ہے۔ ماں باپ کے لیے بچوں کی تربیت سے متعلق کھیلوں اور بدنی سرگرمیوں میں مشغول کرنے کی ترغیب و تنبیہ ملتی ہے کہ حرکت بچوں کے لیے حصولِ قوت کا باعث ہے۔ احادیث میں ہے کہ بھاگ دوڑ میں مقابلہ آرائی خواہ پیدل ہو یا سواری پر اللہ کے رسولؐ کے زمانے میں ہو اکرتی تھی۔ خود اللہ کے رسولؐ اس طرح کے مقابلے میں شریک ہوتے اور دوسروں کو اس کی ترغیب دیتے۔ چنانچہ عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں:
ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: سَابَقَ بَیْنَ الْخَیْلِ الَّتِیْ قَدْ اُضْمِرَتْ، فَاَرْسَلَھَا مِنَ الْحَفْیَاءِ ، وَکَانَ أَمَدُھَا ثَنِیَّۃَ الْوَدَاعِ ، وَسَابَقَ بَیْنَ الْخَیْلِ الَّتِیْ لَمْ تُضَمَّرْ ، فَأَرْسَلَھَا مِنْ ثَنِیَّۃِ الْوَدَاعِ ، وَکَانَ أَمَدُھَا مَسْجِدَ بَنِیْ زُرَیْقِ (بخاری، کتاب الصلوٰۃ، ج۱، ص ۵۹) بے شک اللہ کے رسولؐ نے تیار کیے ہوئے گھوڑوں کے درمیان حفیاء سے ثنیۃ الوداع تک مقابلہ کیا اور بغیر تیار کیے ہوئے گھوڑوں کے درمیان ثنیۃ الوداع سے مسجد بنی زریق تک مقابلہ کیا۔
مربی اعظمؐ مفید ورزشوں کی حوصلہ افزائی فرماتے اور بذات خود بچوں کی نگرانی فرماتے۔ حدیث میں ہے کہ:’’آنحضرتؐ حضرت عبداللہؓ، حضرت عبید اللہؓ اور بنی عباس کے اور بچوں کو کھڑے کرکے فرماتے، دوڑ کر جو پہلے میرے پاس پہنچے گا اسے اتنا انعام ملے گا۔ چنانچہ بچے آپؐ کی طرف دوڑتے اور آپؐ کے پاس پہنچ کر کوئی آپؐ کے سینے مبارک اور کوئی پیٹ مبارک پر گرتا۔ آپؐ ان کو اٹھاتے اور چومتے، گلے لگاتے‘‘۔(مسنداحمد: ۲۱۴)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے بچوں کے لیے بعض ورزشوں کو برقرار رکھا کیونکہ ورزش بچے کی عقلی، اخلاقی، بدنی، حتیٰ کہ معاشرتی قوت کے فروغ کا ذریعہ ہے۔
تیر اندازی فن سپہ گری کا اہم جز ہے جس سے فوجی تربیت اور ذہنی ورزش بیک وقت ہوتی ہے۔ جسم میں تیزی اور چستی پیدا ہوتی ہے۔ زمانۂ قدیم میں دشمنوں کے لیے اس کا استعمال ہوا کرتا تھا۔ دوسری اہم بدنی ورزش پیرا کی ہے جس سے انسان کا جسم صاف پانی سے دھل کر چاق و چوبند ہوجاتا ہے۔نبی کریمؐ نے والدین کو نصیحت کی ہے کہ: عَلِّمُوا اَوْلاَدَكُمْ السِّبَاحَةَ والرِّمَايَةَ (بیہقی ، کتاب السبق و الرمی، ج ۱۰، ص ۱۵) ’’اپنی اولاد کو تیرا کی سکھائو اور تیراندازی سکھلائو‘‘۔
ماہرین کی نظر میں
جدید تحقیقات بھی یہی بتاتی ہیں کہ ورزش اور کھیل سے بچے کی ذہنی قوت میں ترقی ہوتی ہے۔تربیت کے ماہرین کی راے ہے:’’کھیل ایک زبردست خواہش اور فطری داعیہ ہے، جس کی بہر حال جائز حدود میں تکمیل ہونی چاہیے۔ جو لوگ بچوں کو کھیل سے محروم رکھتے ہیں، وہ دراصل فطرت سے جنگ اور بچوں پر ظلم کرتے ہیں۔ قدرت نے یہ زبردست داعیہ بلاوجہ نہیں رکھا ہے۔ بچوں کی ذہنی و جسمانی، معاشرتی و اخلاقی نشونما کے لیے کھیل نہایت ضروری ہے۔
ماہرین نفسیات نے اپنے مشاہدے سے کھیل کی مختلف توجیہات پیش کی ہیں، جن کا تذکرہ بچوں کی تربیت کے حوالے سے مفید و معاون ثابت ہوسکتا ہے اور وہ اس طرح ہیں:
۱- کھیل کے ذریعے بچے اپنی فاضل توانائی خارج کرتے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو فالتو قوت بچوں کے جسم کو متاثر کرسکتی ہے۔
۲- کھیلوں کے ذریعے بچے اپنے آپ کو مستقبل کی ذمہ داریوں کے لیے تیار کرتے ہیں۔ بچیاں گڑیاں کھیل کر امور خانہ داری سے واقفیت حاصل کرتی ہیں اور بچے مختلف کھیلوں کے ذریعے فرائض کی انجام دہی کا سلیقہ سیکھتے ہیں۔
۳- وہ اپنی الجھنوں اور پریشانیوں سے چھٹکارا پانے کے لیے کھیل کود سے اپنی طبیعت کا بار ہلکا کرتے ہیں۔
۴- اس طرح وہ اپنے جذبات، رشک، رقابت اور مقابلے و مسابقت کی تسکین کرتے ہیں۔
۵- کھیل، ان کی تخلیقی سرگرمیوں کے مظہر ہیں۔
۶- بالیدگی اور نشوونما کے مختلف مراحل پر جسم اور ذہن مختلف قسم کی جسمانی مشقت کا تقاضا کرتے ہیں اور کھیل ان تقاضوں کو پورا کرتے ہیں۔
علما و مفکرین اسلام نے بھی بچوں کے لیے کھیل کود کو اہم بتایا ہے۔
امام غزالیؒ بچوں کی فکری و نفسیاتی نشوونما پر گہری نظر رکھتے تھے۔ وہ فرماتے ہیں:’’دن میں کسی وقت بچے کو ورزش کرنے اور چلنے کی عادت ڈالی جائے تاکہ اس پر سُستی کا غلبہ نہ ہو‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ: ’’سبق پڑھنے کے بعد بچے کے لیے فکری راحت اور قلبی تفریح کا مناسب بندوبست کیا جائے تاکہ بچہ شوق سے پڑھے، اور پڑھائی سے متنفرنہ ہوجائے۔ سبق سے فارغ ہونے کے بعد اسے ایسے کھیل کھیلنے کی اجازت دی جائے کہ جس سے وہ دماغی تھکاوٹ دُور کرسکے، دل و دماغ کو راحت پہنچا سکے، مگر کھیل ایسا نہ ہو جو اس کو مزیر تھکاوٹ میں مبتلا کردے۔ اگر اس قدر کھیل کی اجازت نہ ہو اور تعلیم میں ہمیشہ سخت گیری کی جائے تو بچے کا دل اُکتا جاتا ہے اور طبیعت کی تیزی سست پڑنے لگتی ہے، بلکہ زندگی تلخ ہوجاتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ کوئی حیلہ ایسا ڈھونڈنے لگتا ہے کہ جس سے بالکل کچھ نہ سیکھے ‘‘۔ (الغزالی، احیاء علوم الدین، ج۳، ص ۱۲۹)
مشہور مقولہ ہے:’’جس ملک میں کھیل کے میدان آباد ہوں گے تو ان کے اسپتال ویران ہوں گے، اور جس ملک کے کھیل کے میدان ویران ہوں گے، اس ملک کے اسپتال آباد ہوں گے‘‘۔
اس لیے انسانی زندگی میں کھیل کی بہت اہمیت و افادیت ہے۔
۱- جسمانی فائدے: آج کے اضطرابی دور میں بچوں کی تعلیم، کسب معاش اور دیگر اہم مسائل ہمہ وقت انسان کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ سارے دن کی محنت و مشقت کے بعد انسان تھک جاتا ہے اور طبیعت میں چڑ چڑاپن پیدا ہوجاتا ہے۔ ان حالات میں ورزشی تفریح انسان کی کسالت کو دور کرکے پھر تازہ دم کردیتی ہے۔ دراصل انسان ورزش میں فطری طورپر دل چسپی رکھتا ہے، جیسے دوڑنا، کودنا، چھلانگ لگانا، کرکٹ، فٹ بال وغیرہ۔ اس قسم کے کھیلوں سے ورزش خود بخود ہوجاتی ہے۔ اس لیے کہ اس میں ہاتھ، پیر، نظر کا استعمال، آوازوں کا نکلنا، یہ سب ورزش کے ذریعے ہیں۔
اسی طرح کھیلنے سے دل کی حرکت تیز ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے خون تیزی سے جسم کے ہر حصے میں گردش کرتا ہے، بند مسامات کھل جاتے ہیں، پھیپھڑوں کا عمل تیز ہوجاتا ہے اور صاف اور تازہ ہوا جسم میں داخل ہوکر تازہ خون پیدا کرتی ہے۔ اعضا طاقت ور اور پٹھے مضبوط ہوجاتے ہیں، بچہ چُست اور پھر تیلارہتا ہے۔ کوئی بیماری جلد اثر انداز نہیں ہوتی۔
۲-اخلاقی فائدے: بچوں میں اخلاق و اتحاد پیدا ہوتا ہے اور مل جل کر کام کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ دوسرے بچوں کے ساتھ مل کر کھیلنے سے، اجتماعی زندگی گزارنے کی قدرت پیدا ہوتی ہے۔ نظم و ضبط کی پابندی اور منظم زندگی بسر کرنے کے جذبات کو ترغیب ملتی ہے۔ متفقہ کوششوں سے منزل مقصود پر پہنچنے کی بہتر تربیت اور تعلیم کھیلوں سے ہی حاصل ہوتی ہے۔
۳-نفسیاتی فائدے:کھیل بچوں کو اجتماعیت کا درس دیتا ہے۔ ہم عمر ساتھیوں کے ساتھ مل جل کر کھیلنے سے دوسروں کی راے قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ دوسروں کی راے کو اپنی راے پر ترجیح دینے کا مادہ پیدا ہوتا ہے، انانیت و خود پسندی سے نجات پانے میں معاون ہوتا ہے، اور دوستانہ ماحول میں کھیلنے سے کینہ و کدورت بھی ختم ہوتی ہے اور تعلقات خوش گوار ہوجاتے ہیں۔
چنانچہ کھیلوں سے جہاں جسمانی توانائی پیدا ہوتی اور ذہنی نشوونما ہوتی ہے، وہاں فرماں برداری، فرض شناسی، تدبیر، حسن انتظام، صبر، قناعت، تحمل مزاجی اور مدِمخالف کو شکست دینے کے جذبات اور اخلاقی محاسن پیدا ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں اپنے مخالف کی طاقت سے مرعوب نہ ہونا، ناکامی اور مایوسی کے باوجود ہمت نہ ہارنا بلکہ ڈٹ کر مقابلہ کرنا، مشکلات میں ثابت قدم رہنا، کسی حالت میں ہراساں نہ ہونا بلکہ ذہنی صلاحیتوں کو برقرار رکھنا، یہ سب اوصاف محض کھیلوں سے پیدا ہوتے ہیں۔
لہٰذا بچے کی زندگی اور صحت کے لیے ورزش اور کھیل کی اہمیت واضح ہے۔ والدین، اساتذہ اور ہرسطح کی حکومتوں پر لازم ہے کہ وہ بچے کے لیے ایسی فضا ہموار کریں، تاکہ وہ ورزش اور کھیل کے ذریعے اپنی قدرتی، ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کو اُجاگر کرسکے۔ تاہم، خیال رہے کہ نامناسب، نقصان دہ اور غیر شرعی کھیل نہ کھیلیں، یعنی جس میں جوا شامل ہو، حیا اور و قار برقرار نہ رہتا ہو، اور وہ کھیل جو دوسروں کے لیے تکلیف دہ اور اذیت ناک ہوں۔
سوال : کیا یہ درست ہے کہ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کا مقصد جہاد کی تیاری ہے؟
جواب :نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کا مقصد اللہ کی عبادت اور اس کی رضاجوئی ہے۔ جہاد بھی اللہ کی عبادت ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ نماز، روزہ انسان کو جہاد کے لیے بھی تیار کرتے ہیں۔ حُسنِ نیّت اور اخلاص کے ساتھ کی جانے والی ایک نیکی اور عبادت مسلمان کو دوسری نیکی اور عبادت کے لیے تیار کرتی ہے۔
سوال : کیا خیروشر کی قوتیں انسان کے باہر ہی سے اثرانداز ہوتی ہیں، یا یہ انسان کے اندر بھی موجود ہوتی ہیں؟
جواب :یہ قوتیں اندر بھی موجود ہوتی ہیں اور باہر بھی۔ اگر یہ انسان کے اندر نہ ہوں تو باہر کی طاقتیں ان سے کیسے ربط قائم کرسکتی ہیں۔ اندر وہ قوتیں موجود ہوتی ہیں، جبھی تو وہ بیرونی قوتوں کو متاثر کرتی ہیں۔
سوال : ہم شیطان کی اثراندازی کا احساس کس طرح کرسکتے ہیں؟
جواب :جب انسان اپنے اندر بُرائی کی اُکساہٹ محسوس کر رہا ہو تو سمجھ لے کہ شیطان بُرائی کی ترغیب دے رہا ہے۔ اس پر اسے چوکنا ہوجانا چاہیے۔
سوال : کیا نماز روزے سے نفس کی پاکیزگی بھی حاصل ہوتی ہے؟
جواب :مسلمان کی نماز تو اسے یہی حکم دیتی ہے کہ وہ بُرائی سے بچے۔ بشرطیکہ نماز پڑھنے والا یہ سمجھ کر نماز پڑھے کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے۔ اگر وہ بلاسوچے یا نماز کے مقصد کو نظرانداز کرکے پڑھے گا تو پھر نماز پڑھ کر رشوت لینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں سمجھے گا۔ اگر رشوت لینے والا نماز پڑھے گا اور سمجھے گا کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے تو یہ خیال کرکے کہ مَیں تو حرام کھا رہا ہوں، وہ رشوت کے قریب بھی نہیں جائے گا۔
سوال : کیا نماز اقامت ِ دین کا حکم بھی دیتی ہے؟
جواب :نماز ہی تو حکم دیتی ہے اقامت ِدین کا۔ جب آپ [نماز میں دعاے قنوت پڑھتے ہوئے]کہتے ہیں: نَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَنْ یَّفْجُرُکَ ’’ہم ہر اس شخص کو چھوڑ دیں گے اور اس سے تعلق کاٹ دیں گے جو تیرا نافرمان ہو‘‘۔ تو دشمنانِ دین سے آپ کی لڑائی کا آغاز ہوجاتا ہے۔
سوال : تقلید اور عدمِ تقلید کی اصل نوعیت کیا ہے؟
جواب :جب کوئی محقق یا عالم کسی معاملے میں تحقیق کرنے بیٹھتا ہے تو درحقیقت وہ تقلید نہیں کرتا بلکہ عملاً وہ غیرمقلّد ہوتا ہے۔ اگر آدمی یہ قسم کھا کر تحقیق کرنے بیٹھے کہ مَیں اپنی تحقیق میں اسی نتیجے پر پہنچوں گا جو کسی خاص امام کا ہے، تو ایسی تحقیق بے کار ہے۔ تحقیق کے لیے ضروری ہے کہ انسان خالی الذہن ہوکر بیٹھے اور پھر ایمان داری کے ساتھ تحقیق کرے کہ اس مسئلے کے بارے میں کسی امام کا مسلک کس حد تک اور کتنا کچھ وزن رکھتا ہے؟
سوال : اسلام میںجہیز کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب :جہیز کا دینا ناجائز نہیں، مگر آج کل اس کو جو شکل دے دی گئی ہے، وہ بُری ہے۔ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تو جہیز کے بارے میں مجبور نہیں کیا۔ اگر کوئی جہیز نہ بھی ہو، تو بھی نکاح ہوجاتا ہے۔ دراصل ایک مسلمان معاشرے میں عدم توازن اس لیے پیداہوتا ہے کہ خدا اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چیز کا حکم نہیں دیا، لوگ وہ کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ’’کرنا پڑتا ہے؟‘‘۔ لیکن جن چیزوں کا حکم دیا گیا ہے، انھیں نظرانداز کردیتے ہیں، مثلاً میراث کے جو حصے اللہ نے مقرر کیے ہیں، انھیں ادا نہیں کرتے۔ ایسا طرزِعمل کبھی مفید ثابت نہیں ہوتا۔
سوال : ’خمر‘ کے معنی کیا ہوتے ہیں؟
جواب :خمر کے معنی عربی لغت میں ڈھانک لینے کے ہوتے ہیں۔ چوں کہ شراب انسانی عقل کو ڈھانک لیتی ہے، یعنی اس پر پردہ ڈال دیتی ہے، اس لیے کہ یہ لفظ شراب کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔
سوال : تو کیا اس سے مراد صرف شراب ہے یا اس میں دوسرے نشے بھی آجاتے ہیں؟
جواب :خمر کے معنی تو شراب کے ہی ہیں مگر اس کی تشریح حضرت عمرؓ کے بقول یوں ہے کہ وَالْخَمْرُ مَا خَامَرَ الْعَقْلَ [مسلم:۵۴۸۰] یعنی ’خمر‘وہ ہے جو عقل کو ڈھانک لے۔ گویا اس میں ساری نشہ آور چیزیں آگئیں، اور خمر کے معنی محض انگوری شراب تک محدود نہیں رہے۔ اسی طرح حدیث میں یہ آیا ہے کہ:[مَا اَسْکَرَ کَثِیْرُہٗ فَقَلِیْلُہٗ حَرَامٌ،ابوداؤد:۳۲۱۴] ’’جس شے کی کثیر مقدار نشہ پیدا کرے، اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے‘‘۔ گویا اس سے بھی دوسری نشہ آور اشیا کے استعمال کی کوئی گنجایش باقی نہیں رہتی، خواہ وہ قلیل مقدار میں استعمال کی جائیں یا کثیر مقدار میں۔
سوال : آج کل بعض لوگ ذہنی سکون کے لیے بعض مُسکّن ادویات استعمال کرتے ہیں، جس سے ان کا دماغ Dull[کند] سا ہوجاتا ہے۔ ایسی مُسکن ادویات اگر زیادہ مقدار میں استعمال کی جائیں، تو انسان اپنے آپ کو اُونگھتا ہوا، drowsy [خواب آلودہ، نیم خوابیدہ] سا محسوس کرتا ہے۔ کیا ایسی چیزیں بھی نشے کی ذیل میں آتی ہیں؟
جواب :Dull ہونا اور چیز ہے، اور نشہ اور شے ہے۔ دونوں میں فرق ہے۔ نشے کی تعریف یہ ہے کہ انسان پر ایسی حالت یا کیفیت طاری ہوجائے کہ اسے اپنے ارادے پر اختیار نہ رہے اور اس کی قوتِ فیصلہ اور قوتِ تمیز ختم ہوجائے۔ لیکن وہ کیفیت جسے آپ Dull ہونا کہتے ہیں، وہ اور چیز ہے۔ ان دونوں کے فرق کو اس طرح سمجھ لیجیے کہ: کوکین کے نشے میں مدہوش کوئی شخص اگر برسرِعام برہنہ بھی ہوجائے تو اسے احساس نہیں ہوتا کہ مَیں یہ کیا کر رہا ہوں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی قوت تمیز ختم ہوگئی ہے۔ اس کے برعکس Dull ذہن کے آدمی کو ایسی حالت میں اپنے ننگے ہونے کا احسا س ہوگا۔ پہلی حالت نشے کی ہے، لیکن دوسری نہیں۔
سوال : بنک کے ملازم کی تنخواہ میں سود شامل ہوتا ہے، اسی لیے اُسے ناجائز ٹھیرایا گیا ہے، لیکن ایک عام سرکاری ملازم کو جو تنخواہ ملتی ہے اس میں بھی سود کی رقم شامل رہتی ہے، تو یہ کیوں کر جائز ہے؟
جواب :بنک کے ملازم کو ملنے والی تنخواہ تمام تر سود پر مشتمل ہوتی ہے ،جب کہ سرکاری ملازم کی کُل تنخواہ میں محض ایک حصہ سود کا ہوتا ہے۔ لیکن دونوں میں اصل فرق یہ ہے کہ بنک کا ملازم براہِ راست سودی کام کرتا ہے، جب کہ کوئی عام سرکاری ملازم سود سے براہِ راست متعلق کوئی ڈیوٹی انجام نہیں دیتا۔ اسی لیے بنک کی ملازمت اور عام ملازمت ایک درجے میں نہیں ہے۔
سوال : ہوٹلوں میں بیروں کو دی جانے والی ٹپ کی شرعی نوعیت کے بارے میں عرض ہے کہ یہ ٹپ کیا رشوت کی تعریف میں آتی ہے؟
جواب :ٹپ کا اب عام رواج ہوگیا ہے، لیکن اس کی نوعیت وہ نہیں ہے جو رشوت کی ہے۔ ٹپ اگر آپ نہ بھی دیں تب بھی بیرا چائے لائے گا۔ وہ ٹپ کے لیے آپ پر کوئی جبر نہیں کرسکتا، اور نہ آپ کا کوئی حق سلب کرسکتا ہے، نہ آپ کے کسی حق سے انکار کرسکتا ہے۔ اس لیے یہ رشوت کی تعریف میں نہیں آتی ہے۔ رشوت یہ اس وقت ہوگی جب بیرا آپ کو اس ٹپ کے بدلے میں کوئی زائد شے لا کر دے، مثلاً وہ دو پیالی کے بجاے ٹپ کے لالچ میں آپ کو تین پیالی لادے اور مالک کو رقم دوپیالیوں ہی کی ملے۔ یہ چیز رشوت ہوگی اور اسی لیے حرام ہوگی۔
سوال : اگر کوئی مسلمان ریسرچ کو اپنا فریضہ بنا لے تو یہ کہاں تک درست ہے؟
جواب :دیکھنا یہ ہوگا کہ وہ ریسرچ کس غرض کے لیے کرنا چاہتا ہے، کیوں کہ ریسرچ براے ریسرچ تو بے معنی ہے۔ ہر ریسرچ کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے۔ چاہے وہ مقصد روپیہ کمانا ہو یا شہرت حاصل کرنا، یا قومی سربلندی کا مظاہرہ کرنا۔ ریسرچ براے ریسرچ کبھی نہیں ہوا کرتی۔ ہر کام کا کوئی مقصد ہوتا ہے ، اگر کوئی مسلمان اس مقصد کو سامنے رکھ کر ریسرچ کرے کہ اس سے اسلام اور مسلمانوں کو فائدہ پہنچے تو یہ ایک مفید چیزہے۔
سوال : کیا عیسائیوں کے ساتھ مل کر کھانے پینے کی اجازت ہے؟
جواب :یہ تو قرآن مجید ہی میں آیا ہے کہ ان کے ساتھ مل کر کھایا پیا جاسکتا ہے۔ بس اس بات کی احتیاط کرنی چاہیے کہ اگر ان کے دسترخوان پر کوئی حرام چیز ہو تو اُسے استعمال نہ کیا جائے۔
سوال : لاہور کی بادشاہی مسجد اور دہلی کی جامع مسجد میں کیا خصوصیات ہیں؟
جواب :لاہور کی جامع مسجد بہت بڑی ہے، جب کہ دہلی کی جامع مسجد حُسن اور خوب صورتی میں بہت بڑھی ہوئی ہے۔ اس میں داخل ہوتے ہوئے جو گنبد سا ہے، اس کے نیچے کھڑے ہوکر اُوپر دیکھیں تو قرآنِ پاک کی آیات یکساں خط میں لکھی نظر آتی ہیں۔ حالاں کہ عبارت شروع ہونے کے مقام سے انتہائی بلندی تک پہنچتے پہنچتے ابتدائی اور آخری خط کی موٹائی میں ایک اور سولہ کی نسبت ہوجاتی ہے۔ لکھنے والے کا کمال یہ ہے کہ اس نے بلندی کی طرف جاتے ہوئے خط کی موٹائی میں اس تناسب کے ساتھ اضافہ کیا ہے کہ نیچے سے پڑھنے والے کو خط بالکل یکساں جلی معلوم ہوتا ہے۔
سوال : ’لیپاپوتی‘ اور ’لیپ پوت‘ میں کون سا لفظ صحیح ہے؟
جواب :دونوں صحیح ہیں۔ ’لیپاپوتی‘ بول چال کی زبان میں استعمال ہوتا ہے، لکھنے میں نہیں آتا، اور ’لیپ پوت‘ لکھنے میں آتا ہے۔
’سیرتِ نبویؐ کا ایک گوشہ، مدینہ مارکیٹ‘ایک حیرت انگیز، سبق آموز اور روح پرور مضمون ہے۔ عبدالرقیب صاحب اگر سیرتِ پاکؐ سے اس نوعیت کی عملی معاشی تفصیلات کو یک جا کردیں تو یہ بہت بڑی خدمت ہوگی۔
سیرتِ نبویؐ پر متعدد مقالات پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی، لیکن جس انداز سے جناب ایچ عبدالرقیب نے ’مدینہ مارکیٹ‘ (مارچ ۲۰۱۹ء)کو لکھا ہے، اس سے نہ صرف انصاف، معاش اور ترقی کے راستوں کا علم ہوتا ہے، بلکہ ہم آج کے ماحول میں، رسولِ پاکؐ سے اپنی معاشی زندگی کی تنظیم کے لیے سبق حاصل کرتے ہیں۔
’سیرتِ نبویؐ کا ایک گوشہ، مدینہ مارکیٹ‘ عام طور پر ہماری نظروں سے اوجھل رہا ہے۔ یہ مضمون تمام تاجروں، صنعت کاروں اور معاشی تنظیم وتعلیم کے ذمہ داروں کے لیے ایک تحفہ ہے۔ ڈاکٹر انیس احمد نے ’اسلامی ریاست کی بنیاد‘ (مارچ ۲۰۱۹ء) میں کمال حد تک بتایا ہے کہ انسانی زندگی میں ’حاکمیت ِ الٰہی‘ کی اہمیت اور سبق کیا ہے۔
تحریک ِ پاکستان ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو ختم ہونے والے باب کا نام نہیں، بلکہ ہرآنے والے دن میں تحریک ِ پاکستان کا مطالعہ اہمیت کا حامل رہے گا۔ جناب جاوید اقبال خواجہ نے ’دو قومی نظریے کی فتح اور پاکستان‘ (مارچ ۲۰۱۹ء)لکھ کر ، تحریک ِ آزادی کے علمی و تاریخی ورثے کو اتنی خوب صورتی اور عام فہم انداز سے مرتب کردیا ہے کہ ہمیں گاندھی اور قائد کی شکل میں دو کردار، دورویےاور دو تحریکیں اپنا پیغام دیتی نظر آتی ہیں۔
عبدالغفار عزیز صاحب نے ’خطیب اقصیٰ کی رحلت…‘ (مارچ ۲۰۱۹ء) کو ایک زندہ تحریک کی صورت میں پیش کرکے ہم زندوں کے لیے،جو مُردنی کے شکار ہیں، زندگی کا پیغام دیا ہے۔
حضرت مولانا محمود حسنؒ اسیرِمالٹا کا زندگی میں آخری خطاب جس شان سے ملّت کے سامنے ہوا، اور اس میں جو پیغام عطا کیا گیا، وہ ۱۹۲۰ء کا نہیں بلکہ زندگی بھر کا پیغام ہے۔ قدیم اور جدید کی بے جا کش مکش کی نفی ہے اور مقصد پر نظر رکھنے کی تلقین ہے۔ علماے کرام دینی بصیرت سے قوم کی رہنمائی کرتے آئے ہیں، لیکن بُرا ہو جدیدیت کا، کہ جس نے علما کو غیرمتعلق قرار دینے کی کوشش کی۔ ترجمان نے اسے شائع کرکے بہترین خدمت انجام دی۔
’نریندرا مودی کی قید میں‘ (مارچ ۲۰۱۹ء)، مفتی عبدالقیوم منصوری نے وہ ہولناک منظر قارئین کو دکھایا ہے کہ جس میں خود ان کے وہ اکابرین، جو متحدہ قومیت کے علَم بردار تھے، کے لیے عبرت کا سامان موجود ہے۔
’گم شدہ متاع کی تلاش میں‘(مارچ ۲۰۱۹ء)کے مطابق شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ اجنبی زبان کے سیکھنے یا دوسری قوموں کے علم وفنون حاصل کرنے کے حامی تھے۔ وہ ایسی تعلیم کے حامی تھے کہ جو مسلمانوں کے ہاتھوں میںہو اور اس پر اغیار کا اثر نہ ہو ۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے دو تاریخی مقامات ’دیوبند اور علی گڑھ ‘ کا رشتہ جوڑنے کے لیے مرض الموت کے باوجود علی گڑھ کا سفر کیا اور وہاں پہنچ کر ’جامعہ ملیہ اسلامیہ‘کا سنگ بنیا د رکھا۔
مولانا مودودیؒ کی تحریر ’گھریلو زندگی کی بنیاد‘ (مارچ ۲۰۱۹ء) پر عمل کرکے کامیاب معاشرہ تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر انیس احمد نے اسلامی ریاست کے قیام کے خواہاں حکمرانوں کے لیے بہترین طریقے سے رہنمائی کی ہے۔ ’سیرتِ نبویؐ کا ایک گوشہ، مدینہ مارکیٹ‘ایچ عبدالرقیب نے حضوؐر کی سیرت کے ذریعے ایک مسلمان تاجر کی بھرپور رہنمائی کی ہے، جب کہ ’نریندرا مودی کی قید میں‘ کے عنوان سے مفتی عبدالقیوم منصوری نے اپنی رُوداد میں بھارتی حکمرانوں کے ظالمانہ اور مکروہ چہرے کی تصویر کشی کرکے پوری فلم دکھا دی ہے۔
ترجمان القرآن (ماہ فروری ۲۰۱۹ء) ماشا ءاللہ ماضی، حال اور مستقبل کے حالات و واقعات پر مشتمل اپنے اندر ایک خزینہ لیے ہوئے ہے۔ ہرمضمون پر اپنے جذبات کا اظہار کرنا کماحقہٗ ممکن تو نہیں ، تاہم جی چاہتا ہے کہ مختصر ترین الفاظ میں، چند سطور پیش خدمت کردوں: محترم سیّد منورحسن صاحب کا فرمان: ’اس سفر کو وہیں سے شروع کرنا ہوگا، جہاں سے بظاہر ختم ہوگیا تھا‘، ایک مشورہ ہی نہیں بلکہ ایک حکم کی حیثیت رکھتا ہے۔ چودھری رحمت الٰہی مرحوم کی زندگی کا جو نقشہ محترم پروفیسر خورشیداحمد صاحب نے کھینچا ہے، وہ قابلِ رشک ہے۔جماعت سے وابستہ ہرکارکن تک اس تحریر کو پہنچنا چاہیے۔ پہلے فوجی آمر کی مولانا مودودیؒ پر تنقید، جاوید اقبال صاحب کا ایک بڑا قیمتی مضمون ہے۔مرزا محمد الیاس صاحب کے اُٹھائے گئے سوالات کی روشنی میں ہر کارکن کو اپنا جائزہ لینا چاہیے۔ عالمی اُفق پر منڈلاتے معاشی بحران پر ڈاکٹروقار مسعود خاں نے مؤثر رہنمائی دی ہے، اور عابدہ فرحین نے خواتین پر تہذیبی حملے کی وضاحت کرتے ہوئے رہنمائی کی ہے۔
ترجمان القرآن کے صفحات ہمیشہ خدا اور اس کے رسولؐ کے پیغام کے لیے وقف رہے ہیں اور ان میں کبھی مدیرترجمان یا اُن کے کسی رفیق کے ذاتی حالات کا تذکرہ نہیں کیا گیا۔ [قارئین] بار بار یہ دریافت کرتے ہیں کہ اگر مولانا [مودودی] آج کل تفہیم القرآن نہیں لکھ رہے تو پھر کیا کر رہے ہیں؟ ان استفسارات میں تشویش اور پریشانی نظر آتی ہے۔ سب رفقا کی خدمت میں ہم یہ گزارش کریں گے کہ مولانا خوداس بات کے شدید آرزومند ہیں کہ وہ اس عظیم الشان کام کو جلد از جلد پایۂ تکمیل تک پہنچائیں، لیکن بعض ناگزیر مجبوریاں اس راہ میںحائل ہیں۔
ان میں سب سے بڑی مجبوری مولانا کی علالت ہے۔ مولانا ایک عرصۂ دراز سے گُردے کی تکلیف میں مبتلا ہیں۔ آج سے چند سال قبل اس کا آپریشن کردیا گیا، جس سے پتھری کی تکلیف عارضی طور پر رفع ہوگئی، لیکن تھوڑی مدت کے بعد گردے میں پھر ذرّات جمع ہونے شروع ہوگئے اور انھوں نے بہت جلد سنگ ریزوں کی صورت اختیار کرلی۔ دینِ حق کا یہ سپاہی اس تکلیف کے باوجود مختلف کاموں میں منہمک رہا اور اُس نے علالت کے سامنے کبھی ہتھیار ڈالنے گوارا نہ کیے۔ لیکن اب کچھ عرصہ سے یہ تکلیف مزید بڑھ گئی ہے اور اس نے اُن کے دائیں شانے اور گھٹنےکو شدید طور پر متاثر کیا ہے…جس سے ان کے قویٰ اور بھی مضمحل ہوگئے[ہیں]۔
خطوط اور استفسارات کی بھرمار مولانا کا بہت سارا وقت لے جاتی ہے۔لیکن ان سب مجبوریوں کے ہوتے ہوئے بھی مولانا اس کام سے غافل نہیں۔وہ اس کی اہمیت کو اچھی طرح جانتے ہیں اور اس کو پورا کرنے کے لیے سخت بے تاب ہیں۔ خود ہم بھی اُن سے بار بار اس کے لیے اصرار کرتے ہیں اور بعض اوقات ہمیں اُن کی صحت کے پیش نظر یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ ہم مولانا سے تقاضا نہیں کررہے بلکہ اُنھیں ستارہے ہیں۔ ہمارے مطالبات کی طویل فہرست سن کر جس میں تفہیم القرآن، ’اشارات‘، ’رسائل و مسائل‘ اور مضامین، الغرض سبھی قسم کے تقاضے شامل ہیں، مولانا اپنے مخصوص انداز میں مسکراتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اچھابھائی دُعا کریں‘‘۔
ہم قارئین کی خدمت میں درخواست کرتے ہیں کہ وہ خداوند تعالیٰ کے حضور میں مولانا کی صحت ِ کاملہ اور عاجلہ کے لیے دُعا فرمائیں، تاکہ وہ پوری یکسوئی اورانہماک کے ساتھ ان ضروری کاموں کی طرف متوجہ ہوسکیں۔ (پروفیسر عبدالحمید صدیقی ’اشارات‘، ترجمان القرآن ، جلد۵۲، عدد۱، اپریل ۱۹۵۹ء، ص۲-۳)