پروفیسر خورشید احمد


جولائی ۲۰۰۷ء نے پاکستان کی تاریخ میں ایک منفرد حیثیت اختیار کرلی ہے۔ اس مہینے میں تین اہم واقعات رونما ہوئے۔ یہ تینوں واقعات اپنے موضوع اور نوعیت کے اعتبار سے خواہ کتنے ہی مختلف ہوں‘ لیکن ان کا پیغام ایک ہی ہے۔ ہمارا اشارہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے خونیں المیے‘ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے بارے میں تاریخی فیصلے‘ اور کُل جماعتی کانفرنس لندن کے نتیجے میں قائم ہونے والی ’آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ‘ (APDM)کی طرف ہے۔

اسے ایک قومی المیے کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ حصولِ آزادی کے ۶۰ویں سال میں ایک بار پھر پاکستانی قوم کو اپنی آزادی اور اپنے نظریاتی و تہذیبی تشخص کی حفاظت کی جنگ لڑنا پڑرہی ہے۔ ستم بالاے ستم کہ اب یہ جنگ بیرونی حکمرانوں کے خلاف نہیں‘ بلکہ اپنی ہی مملکت کے سپوتوں (زیادہ صحیح الفاظ میں:کپوتوں) اور اپنی ہی فوج کی اس قیادت سے لڑی جارہی ہے‘ جو نہ صرف قیامِ پاکستان کے مقاصد کو بالاے طاق رکھ کر بلکہ دستور‘ قانون‘ اجتماعی اخلاقیات اور ہراصول اور ضابطے کو پارہ پارہ کرتے ہوئے تمام حدود کو پھلانگ چکی ہے۔ اسی لیے اہلِ نظر کی راے ہے کہ یہ قیادت عملاً آج کی سب سے بڑی سامراجی اور فرعونی قوت کے اشارۂ چشم و آبرو اور دھمکی آمیز مطالبات کے آگے سپرڈالتے ہوئے خود ملک اور قوم کی آزادی اور شناخت کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔

ملکی صورت حال

اس خطرناک کھیل کا آغاز تو ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء ہی کو ہوگیا تھا‘ لیکن اس کا اصل چہرہ ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کو رونما ہونے والے الم ناک واقعے کے بعد ہی سامنے آیا‘ جب اسلام اور مسلم دنیا کے خلاف امریکی صدر جارج بش نے نئی صلیبی جنگ (crusade) کا آغاز کیا‘اور جنرل پرویز مشرف نے ان کی ایک ہی دھمکی پر اپنا قبلہ تبدیل کرکے پاکستان کی مقدس سرزمین کو ایک مسلمان ملک کے خلاف فوج کشی کے لیے استعمال کرنے کے مواقع فراہم کردیے۔ پھر جنرل موصوف: امریکی حکمرانوں کے عزائم کی برآوری کے لیے خود اپنی قوم اور اس کے دوستوں کے خلاف صف آرا ہوکر معصوم انسانوں کے خون بہانے اور چند کوڑیوں کے لیے ان کو پکڑپکڑ کر وقت کے جلادوں کے حوالے کرنے میں مصروف ہوگئے (جنرل مشرف نے اپنے اس اقدام کا اعتراف اپنی خودنوشت میں بھی کیا ہے)۔اس طرح اپنے حلیفوں کو دشمن بناڈالا‘ اور جو علاقے ہمارے محفوظ قلعے کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان وفاشعاروں کو امریکی افواج کی مسلط کردہ جنگ کی آگ میں جھونک کر خود اپنے قومی مفادات تک سے عملاً دست برداری اختیار کرلی۔ اس ضمن میں تحریک آزادی کشمیر سے عملاً  دست برداری‘ ملک کی ایٹمی صلاحیت کی تحدید اور اپنے محسن سائنس دانوں کو مجرم بناکر نشانۂ ظلم و ستم بنانا بھی شامل ہے۔

اس پسپائی اور پالیسی کے باب میں اُلٹی زقند (u-turn) ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ ’روشن خیالی‘ اور ’انتہاپسندی‘ کی مخالفت کے نام پر اسلام کے مسلمہ اصولوں اور تعلیمات تک پر سمجھوتا‘ دینی تعلیمی نظام کی ناکہ بندی کرنے‘ اسلامی شعائر کا مذاق اڑانے‘ ناچ گانے کے کلچر کی آبیاری کرنے اور سیکولر نظامِ زندگی اور معاشرت کے جبری فروغ کی باغیانہ راہ اختیار کی جارہی ہے۔ ملک کے اقتدار پر قابض گروہ کے اس شیطانی کھیل نے قوم کو نظریاتی طور پر شدید دبائو کا شکار کردیا ہے۔ ریاست کے وہ سارے وسائل جو ایک مقدس امانت کے طور پر ان کے سپرد تھے‘ حکمران طبقے کے ہاتھوں اپنے ذاتی مفادات کے حصول اور امریکی ایجنڈے کو قوم پر مسلط کرنے کے لیے استعمال کیے جارہے ہیں۔ اس ناپاک کھیل میں پاکستان کے غیرمتنازع ادارے مسلح افواج کو ملوث کرکے قومی دفاع‘ عالمی تشخص اور ملکی وحدت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا گیا ہے۔ اس دفاعی ادارے کو گروہی سیاسی مہم جوئی کے لیے استعمال کرتے ہوئے‘ گذشتہ تین سال سے اپنی ہی قوم کو دبانے اور سیاسی مسائل کو قوت کے ذریعے حل کرنے کے خونیں کھیل میں اسے بے دریغ جھونک دیا گیا ہے۔ صوبہ بلوچستان اور پاکستان کے قبائلی و شمالی علاقہ جات میں پاکستانی فوج کے بے دردانہ استعمال کے بعد جولائی میں‘ اسلام آباد میں مسجد‘ مدرسہ اور ماں‘ بہن اور بیٹی تک کے تقدس و احترام کو نہ صرف پامال کیا گیا ہے‘ بلکہ انھیں گولیوں سے بھون کر قوم اور قوم کی اپنی ہی دفاعی قوت کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ عدالت اور صحافت دونوں کو راستے کی رکاوٹ تصور کرتے ہوئے انھیں مکمل طور پر اپنے قابو میں لانے کے لیے اوچھے ہتھکنڈوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ جس نے پوری اجتماعی زندگی کو خطرات کی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ آج عالم یہ ہے ہرطرف خون ہی خون بہتا نظر آرہا ہے: اپنے ہی جگرگوشوں اور اپنی ہی بیٹیوں کی شہ رگوں کا خون۔ اسلام آباد کے نالوں میں معصوم بچوں اور بچیوں کی نعشوں کے ٹکڑے اور غلیظ پانی پر قرآن پاک کے بکھرے اور تیرتے ہوئے اوراق‘ استغفراللّٰہ۔

اگر صدربش نے افغانستان اور عراق کی سرزمین کو خون کی ندیوں سے سیراب کر دیا ہے تو انھی امریکی حکمرانوں کے ممدوح جنرل مشرف نے یہاں پاکستان میں خون کی ندیاں بہا دی ہیں۔ ایک سیاسی تجزیہ نگار اور مؤرخ ڈاکٹر صفدرمحمود نے بجاطور پر مشرف کے دور کی شناخت کو ’خون کی ارزانی‘ سے تعبیر کیا ہے۔ مہنگائی‘ غربت‘ انتخابات میں دھاندلی‘ پارلیمنٹ کی بے توقیری‘ آمرانہ اندازِ حکومت‘ سب کا ذکر کرنے کے بعد وہ بڑے درد و کرب کے ساتھ لکھتے ہیں کہ: ’’ان [جنرل مشرف] کے عہد کی صرف ایک ہی پہچان نمایاں طور پر اُبھرتی نظر آتی ہے‘ جو ان کے باقی کارناموں کو  دھندلا دے گی اور نہ صرف عوامی حافظے بلکہ تاریخ کے صفحات پر بھی باقی رہ جائے گی اور وہ    پہچان ہے ’خون‘۔ وزیرستان سے لے کر پشاور‘ اسلام آباد‘ لاہور‘ ملتان‘ کوئٹہ اور کراچی تک بہتا ہوا خون ...معصوم پاکستانیوں کا خون جو کبھی بھی اتنا ارزاں نہ تھا اور جو گذشتہ کئی برسوں سے بہہ رہا ہے: وانا‘ باجوڑ‘ کھپران‘ گلگت‘ فاٹا‘سرحدی علاقوں‘ پشاور‘ اسلام آباد خودکش حملوںسے لے کر لال مسجد تک اور پھر کوئٹہ اور کراچی میں بہنے والا خون۔ معصوم شہریوں اور طلبہ پر بم باری اور حملوں نے ملک میں نہ صرف انتقامی فضا پیدا کردی ہے اور پولیس اور فوج کو انتقام کا نشانہ بنا دیا ہے‘ بلکہ پاکستانی معاشرے میں لاقانونیت‘ عدم تحفظ اور خوف و ہراس بھی پیدا کردیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر پاکستان پر ’ناکام ریاست‘ کا لیبل لگ رہا ہے۔ اس لیے میں محسوس کرتا ہوں کہ مستقبل میں موجودہ دور کی پہچان ’خون‘ ہوگی، اپنے ہی شہریوں کا خون!‘‘ (روزنامہ جنگ ‘۱۵جولائی ۲۰۰۷ء)

اس خون آشامی کا ایک اور بھی کرب ناک پہلو یہ ہے کہ معصوموں کا یہ خون وقت کی سب سے بڑی سامراجی قوت امریکا کی قیادت کو خوش کرنے کے لیے بہایا جا رہا ہے۔ جس کا اصل ہدف (target) مسلم دنیا کی قوت کو پارہ پارہ کرنا‘ اُمت مسلمہ کو آپس میں دست و گریباں کرکے پورے علاقے کو جغرافیائی طور پر محکوم بنانا‘ ان کے معدنی و قدرتی وسائل پر قبضہ جمانا اورپوری دنیا پر اپنی بالادستی قائم کرنا ہے۔

بلوچستان میں فوج کشی‘ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں خون کی ہولی‘ اسلام آباد میں مسجدوں کا انہدام اور آرمی کیمپ میں بلاکر چیف جسٹس سے بدسلوکی‘ ان کا حبس بے جا میں رکھنا‘ بدنیتی پر مبنی ریفرنس اور معطلی وغیرہ‘ ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ اس ضمن میں ایک طرف جنرل مشرف اور ان کے چند ساتھی ہیں‘ جو اپنا کھیل کھیل رہے تھے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی تدبیر اپنا کام کر رہی تھی۔ 

لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر جس طرح فوج کشی کی گئی‘ جس بے دردی اورسفاکی سے اساتذہ‘ طلبہ اور طالبات کا قتلِ عام کیا گیا۔ پھر جس رعونت سے مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کیا گیا‘ جس انداز سے مسجد اور مدرسے کو ’دہشت گردی کے قلعے‘ کی شکل دے کر ملک کے اندر اور ملک کے باہر پوری دنیا کے سامنے پیش کیا گیا‘ اور جس فریب کاری کے ساتھ دروغ گوئی اور دھوکادہی کا مظاہرہ کیا گیا‘ اور جس ڈھٹائی سے حقائق کو چھپایا گیا___ اس رویے نے مدرسے کی انتظامیہ یا طلبہ کی ابتدائی غلطیوں اور طفلانہ حرکتوں کو فی الحقیقت غیرمتعلق بناکر رکھ دیا ہے۔ یوں اپنے نتائج اور اثرات کی شکل میں اس خونیں واقعے کے اصل مقاصد‘ کردار اور اہداف کو بے نقاب کرکے ثابت کردیا ہے کہ اصل مقصد تو فردِواحد کی آمریت کے اصول کو منوانا‘ فوجی قوت کے سیاسی استعمال  اور عسکری دبدبے اور اس کے فیصلہ کن رول کی بالادستی قائم کرنا اور امریکا کی خوشنودی کے حصول کے لیے اپنے ہم وطن معصوم انسانوں کا خون بہاکر تمام اہلِ وطن کو دہشت زدہ کرنا تھا۔

اصل مسئلہ کیا ھے؟

مسئلہ ریاست کی رٹ (writ)کا نہیں تھا‘ بلکہ فوجی آمریت اور بش کی سامراجیت کا   بول بالا کرنا تھا___ یہی ایشو اب قوم کے سامنے ہے کہ اس ملک کے نظامِ حکومت کو کسی دستور‘ قانون‘ ضابطے‘ نظامِ اخلاق اور عوامی حکمرانی کی بنیاد پر چلنا ہے یا فردِواحد کے آمرانہ استبداد اور فوج کے سیاسی استعمال کے ذریعے قوم کو غلامی میں جکڑنا ہے؟___ مطلب یہ کہ اس ملک کی قسمت کا فیصلہ اس قوم کے منتخب اور اس کے سامنے جواب دہ نمایندوں کو دستور اور قانون کے مطابق کرنا ہے یا امریکی قیادت کی خوشنودی کے حصول اور ان کی دھمکیوں کے زیرسایہ قائم رہنے والی فوجی حکومت کو یہ حق حاصل رہنا ہے؟

اگر بصیرت کی نظر سے دیکھا جائے تو چیف جسٹس کی معطلی‘ نام نہاد ریفرنس اور ملازمینِ ریاست کے ناقابلِ اعتبار بیاناتِ حلفی کی بھرمار میں بھی اصل ایشو یہی ہے___ یعنی دستور اور قانون کی حکمرانی یا قابض حکمران کا یہ زعم باطل کہ وہ جس فرد یا ادارے کو اپنے عزائم کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹ سمجھے‘ اسے دستور اور قانون کو بالاے طاق رکھ کر حقارت کے ساتھ اپنے راستے سے اٹھاکر پرے پھینک دے۔ ایشو یہی ایک ہے: آمریت یا جمہوریت‘ من مانے حکم یا دستور اور قانون کی حکمرانی‘ عوام اور پارلیمنٹ کی عمل داری اور اداروں کا استحکام یا فوجی قیادت کی حکومت اور خفیہ ایجنسیوںکی دھونس کے ذریعے حکمرانی کی روایت؟ سپریم کورٹ کے فیصلے کی اصل اہمیت یہی ہے کہ بات صرف چیف جسٹس کی بحالی کی نہیں‘ وہ تو بلاشبہہ ایک ضروری امر تھا‘ لیکن اصل مسئلہ دستور کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کا ہے اور جس میں اصل الاصول یہ ہے کہ کسی کو بھی ایسے  شاہانہ اختیارات حاصل نہیں ہیں کہ وہ وردی یا اقتدار کے رعب میں جس کے خلاف جو چاہے  اقدام کرڈالے اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔

ہم سمجھتے ہیں کہ لال مسجد کے خونیں المیے اور معصوم انسانوں کے قتلِ عام اور عدالت عظمیٰ پر یورش اور اس کے سربراہ کے اداراتی قتل  میں ایک گہرا ربط ہے۔ ان دونوں اقدام کی پشت پر وہ بنیادی مسئلہ ہے جس کی جڑیں قوم کی آزادی اور شناخت کے تحفظ‘ دستور اور قانونی بالادستی اور جمہوری نظامِ حکمرانی میں پیوست ہیں۔ اسی لیے ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ لال مسجد اور سپریم کورٹ دونوں کے بارے میں ہونے والی کارروائی اور اس پر عوامی ردعمل اور بالآخر عدالتی فیصلے (verdict) نے آزادی‘ شناخت‘ دستور کی حکمرانی‘ جمہوریت اور فوج کے سیاسی کردار کے مسئلے کو قومی زندگی کا سب سے مرکزی مسئلہ بنا دیا ہے۔

اسی تسلسل میں ’کُل جماعتی جمہوری تحریک‘ (آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ) کے قیام نے یہ پیغام بھی دے دیا ہے کہ آیندہ چند مہینے اس جدوجہد کے لیے کتنے اہم اور فیصلہ کن ہیں۔ پاکستانی قوم آج ایک بار پھر اسی نوعیت کی جدوجہد کے ذریعے اپنی قسمت اور اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں مصروف ہے‘ جیسا اس نے تحریکِ پاکستان کے دوران کیا تھا۔ فرق   یہ ہے کہ اس وقت جدوجہد کا ہدف پاکستان کا قیام تھا‘ اور اب پاکستان کی بقا‘ اس کے استحکام  اوراس کی اصل منزل کی طرف پیش قدمی کا چیلنج درپیش ہے۔ تب مقابلہ بیرونی غاصب اور    استعماری حکمرانوں سے تھا اور اب ان اندرونی اور غاصب و جابر قوتوں سے ہے‘ جنھوں نے ملک کے اقتدار پر قبضہ کرکے عوام کو ایک تاریخی جدوجہد کے ذریعے حاصل کی جانے والی آزادی‘ خودمختاری اور حق حکمرانی سے محروم کردیا ہے۔ اسی المیے کے ادراک پر ہی مستقبل کی تعمیر کا انحصار ہے۔

گویا کہ آج ملّی اور قومی سطح پر جدوجہد کا اصل ہدف حقیقی اسلامی‘ جمہوری‘ فلاحی اور وفاقی نظام کا قیام ہے۔ یہی وجہ ہے فوج کا سیاسی کردار‘ اس تحریک کے ایجنڈے میں ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مقصد اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک فوج کو دستور کے تحت سول نظام کے ماتحت اپنے دفاعی کردار تک محدود نہ کردیا جائے۔

اس مسئلے ہی کی تفہیم کے لیے ہم لال مسجد کے خونیں المیے اور عدالت عالیہ کے تازہ فیصلے کے کچھ اہم پہلوؤں پر اہلِ وطن کو غوروفکر کی دعوت دینا چاہتے ہیں۔

سانحہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ

لال مسجد‘ اسلام آباد اور جامعہ حفصہ کا مسئلہ اب ایک مسجد اور ایک مدرسے کا مسئلہ نہیں رہا ہے اور نہ دوبھائیوں کے صحیح یا غلط اقدام ہی اس کا محور اور مرکز ہیں۔ یہ بات کہاں سے شروع ہوئی اور کہاں پہنچی؟ اس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور لکھا جائے گا۔ ہم اس کی اہمیت سے انکار نہیں کرتے‘ بلکہ اس مطالبے کی بھرپور تائید کرتے ہیں کہ اس پورے مسئلے اور سانحے کی آزاد‘ بااختیار اور  اعلیٰ ترین عدالتی سطح پر تحقیق ہونی چاہیے‘ اور یہ تحقیق کھلی عدالت کے اصول پر ہونی چاہیے۔ جہاں ہرشخص کو گواہی دینے کا موقع ملے تاکہ پورے حقائق قوم کے سامنے آجائیں اور دودھ کا دودھ   پانی کا پانی ہوجائے۔ یہی وقت کی ضرورت اور انصاف کا تقاضا ہے۔

جیساکہ ہم اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ یہ ایک بڑے اور گمبھیر مسئلے کا سر عنوان معلوم ہوتا ہے۔ لال مسجد آج نہیں بنی اور جامعہ حفصہ ۲۰۰۷ء میں منصہ شہود پر نہیں آئی۔ البتہ جنوری ۲۰۰۷ء سے جو قضیہ شروع ہوا اور ۱۰‘ ۱۱ اور ۱۲جولائی ۲۰۰۷ء کو جس خونیں تباہی پر منتج ہوا‘ وہ جرنیل شاہی اور امریکی سامراج کے نام نہاد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے وسیع کینوس کا ایک اہم حصہ اور اس جنگ کا ایک نہایت اہم پلاٹ اور ایک گہری سازش ہے۔ ایسی سازش کہ جس کا اصل ہدف اسلام‘  اُمت مسلمہ‘ مسلمانوں کا دینی تعلیمی نظام اور پاکستان کا اسلامی کردار ہے‘ جب کہ عالمی سطح پر امریکا اور مغربی تہذیب کی بالادستی کے خلاف مسلمانوں کی تحریک مزاحمت کو ختم کرنا ہے۔ نیتوں کا حال    اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے اور فیصلہ کرنے والی اصل قوت بھی صرف وہی ہے اور یہ بھی وہی پروردگار جانتا ہے کہ کون سادہ لوحی میں الجھ کر دشمن کے کھیل کا حصہ بنا ہے یا واقعی ایسا نہیں ہوا ہے۔ بہرحال‘ یہاں ہم ذاتیات اور ضمنی واقعات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے جن اصولی اور مرکزی امور کی وضاحت اور تفہیم ضروری سمجھتے ہیں‘ ان میں سے چند ایک کی طرف‘ قوم اور اس کے سوچنے سمجھنے والے عناصر کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں:

  •  اسلام کے بارے میں مغرب کا مخصوص تصور: سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کا ایک خاص پیکر (امیج) پوری قوت‘ مہارت اور چابک دستی سے دنیا بھر میں اُبھارا اور پھیلایا جا رہا ہے۔ سردجنگ کے خاتمے اور اشتراکی سلطنت کے انہدام (دسمبر ۱۹۹۲ء) کے بعد‘ اسلام کے اس تصورِ جہاد اور مسلمانوں کی سرفروشانہ سرگرمیوں سے خائف ہوکر امریکا کی سیاسی اور فکری قیادت نے بڑی عیاری سے ایک نیا محاذ کھولا ہے۔ جس کے تحت خاص طور پر مغربی اقوام نے بڑی حد تک اسلام اور مسلمانوں کو‘ ان کی ساری بے سروسامانی اور معاشی اور عسکری کمزوریوں کے باوجود اپنا مدّمقابل اور بالفاظ صحیح تر مستقبل کا اصل حریف اور دشمن باور کرانا شروع کیا۔ یہ کام ۸۰ کے عشرے میں ہی شروع ہوگیا تھا‘ اور افغانستان سے اشتراکی روس کی پسپائی کے بعد پورے زوروشور سے اسے انجام دیا جا رہا ہے: علمی‘ سیاسی‘ معاشی‘ تہذیبی‘ عسکری غرض یہ کہ ہرمحاذ پر___ چونکہ مغربی تہذیب کی بنیاد مذہب اور سیاست کی تفریق پر ہے‘ اس لیے جس چیز کو مغرب کے غلبے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اور مغربی سامراج کے لیے سب سے بڑا خطرہ تصور کیا جا رہا ہے‘ وہ اسلام کا یہی تصور ہے کہ: ’’دین اور سیاست میں ایک ناقابلِ انقطاع ربط اور گہرا تعلق ہے۔ ریاست اور قانون‘ دین‘ الہامی ہدایت اور اس کے ذریعے حاصل ہونے والی اقدار‘ اصول اور اہداف سے غیرمتعلق نہیں ہوسکتے۔ اخلاق اور اقتدار دوالگ دنیائوں سے متعلق نہیں بلکہ اقتدار اور سیاست کو بھی اخلاق کا اسی طرح پابند ہونا چاہیے‘ جس طرح دین اسلام‘ افراد کی ذاتی زندگی اور محرکات کی صورت گری کرتا ہے‘‘۔

مغربی اقوام اور مفکرین کے بقول: ’’دین اسلام کا یہی جامع تصور مغربی تہذیب کے لیے اصل خطرہ ہے کہ یہ فکرونظر اور تہذیب و تمدن کا ایک بالکل دوسرا مثالیہ (paradigm) پیش کرتا ہے‘‘۔ جو مذہب‘ مغرب کے تصورِ حیات و اقدار کی بالادستی قبول کرنے‘ اس کے زیرسایہ ویسی ہی زندگی گزارنے کے لیے تیار ہو کہ جس سے مغرب کے مفادات پر ضرب نہ پڑے، وہی فرد، معاشرہ اور نظام فکر ’روشن خیالی اور اعتدال پسندی‘ کا علَم بردار ہے۔ اس کے بالمقابل جس دین کا اپنا تصورِ حیات اور تہذیب و تمدن اور معاشرت‘ معیشت اور سیاست کا نظام ہو‘ وہ اس مغربی تہذیب کے لیے خطرہ ہے۔ مغربی جنگجو حکمرانوں اور متعصب پالیسی سازوں کے نزدیک اس خطرے سے نمٹنے کا طریقہ بس یہی رہ گیا ہے کہ اس تصورِ حیات کو ہوّا اور بھوت (demon) بناکر پیش کیا جائے۔ پھر اس کو نیست و نابود کرنے کے لیے ہرممکن حربہ استعمال کیا جائے۔ اسلام کے لیے ’ریڈیکل اسلام‘ (انقلابی اسلام)، ’اسلامک فنڈامنٹلزم‘ (بنیادپرست اسلام)، ’پولیٹیکل اسلام‘(سیاسی اسلام) اور پھر ’اسلامک ٹیررازم‘ (اسلامی دہشت گردی) اور بالآخر ’اسلامک فاشزم‘ (فسطائی اسلام) کی مضحکہ خیز‘خودساختہ اور توہین آمیز اصطلاحات کا استعمال اسی سلسلے کی سوچی سمجھی کارروائی ہے۔ مسلمانوں کی دینی تعلیم کو اسی لیے ہدف بنایا جا رہا ہے اور دینی مدارس اور مساجد کو بھی اسی حوالے سے نام نہاد دہشت گردی کے مراکز قرار دیا جا رہا ہے۔

یہ ساری منظرکشی (image building) اس لیے ہے کہ نظریاتی‘ سیاسی اور جہاں ممکن ہو مسلمانوں کے خلاف عسکری کارروائیوں کے لیے جواز فراہم کیا جاسکے۔ اسے بدقسمتی ہی کہا جاسکتا ہے کہ نادانستگی میں‘ یا مفادات کی اسیری میں کچھ مسلمان بھی دشمنوں کے اس کھیل میں آلۂ کار بن جاتے ہیں‘ اور پھر ایسے جعلی دانش وروں کی بھی کمی نہیں ہے کہ جن کی تحریروں اور فدویانہ گفتگوؤں میں مغرب کے نکتہ سازوں (spin doctors) ہی کی صداے بازگشت سنائی دیتی ہے۔

  •  ناجائز تجاوزات کا واویلا: اس پس منظر میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے واقعات ایک غیرمعمولی اہمیت اور معنویت اختیار کرلیتے ہیں۔ لال مسجد‘ اسلام آباد کی پہلی جامع مسجد ہے جو اوقاف کے نظام کے تحت ۴۰‘۴۵سال سے دینی خدمات انجام دے رہی ہے۔ جامعہ حفصہ کی کارکردگی تقریباً دو عشروں پر محیط ہے۔ اس پورے عرصے میں لال مسجد کی زمین کے بارے میں کبھی کوئی تنازع پیدا نہ ہوا تھا۔ جامعہ حفصہ کے بھی صرف ایک حصے کو تجاوزات میں شمار کیا گیا۔ اس بارے میں گفت و شنید اور مذاکرات کے ذریعے معاملات کو حل کرنے کی کوششیں ہورہی تھیں۔ یہ کوئی نیا یا منفرد مسئلہ بھی نہیں ہے۔ اسلام آباد میں کسی گلی اورمحلے میں‘ کسی نہ کسی صورت میں کیا  اسی نوعیت کا بڑا یا چھوٹا تنازع موجود نہیں ہے؟ پھر بات صرف اسلام آباد تک محدود نہیں ہے۔   وطنِ عزیز کا کون سا گوشہ ایسا ہے جہاں ناجائز تعمیرات‘ کچی آبادیاں‘ غیرقانونی فوجی تنصیبات‘ سرکاری اور غیرسرکاری زمینوں پر تصرفات کے مسائل موجود نہیں ہیں!

روزنامہ ڈان کراچی (۲۲ جولائی ۲۰۰۷ء) میں اردشیر کاؤس جی کا مضمون‘ کراچی کے مرکزی تجارتی علاقے آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع ڈھائی ایکڑ کے قطعہ زمین کے بارے میں بڑی چشم کشا معلومات پر مشتمل ہے۔ یہ پلاٹ سندھ حکومت نے ریلوے کے استعمال کے لیے دیا تھا‘ مگر فوج کے کوارٹر ماسٹر جنرل‘ لیفٹیننٹ جنرل افضل مظفر کے ایما پر‘ وزیراعلیٰ سندھ ارباب عبدالرحیم نے اپنے قانونی اختیارات سے تجاوز کرکے اور سرکاری طور پر قائم ۱۴ رکنی کمیٹی کی سفارشات کو نظرانداز کرتے ہوئے ‘۴۳ منزلہ دوہرے مینار کے ’کراچی فنانشل ٹاور‘ کو تعمیر کرنے کی اجازت  عطا فرمائی ہے۔ جس کا انتظام و انصرام ایک فوجی ادارے نیشنل لاجسٹک سیل (NLC) کے سپرد ہوگا اور سرمایہ کاری احسان ہولڈنگ دوبئی کے تعاون سے ہوگی۔ اس تعمیراتی منصوبے پر کراچی کے عوام اور انتظامیہ سراپا احتجاج ہیں‘ مگر فوجی قیادت اور اس کی شریک کار نام نہاد سیاسی انتظامیہ نے اس احتجاج کو پرکاہ کی حیثیت نہیں دی۔

دوسری خبر ۲۵ جولائی کے ڈیلی ٹائمز لاہور کی ہے ‘جس میں بتایا گیا ہے کہ صرف لاہور میں ۳۵اسکول کئی سال سے چیخ رہے ہیں کہ ان کی زمینوں پر لینڈمافیا قابض ہے ‘جن کے سامنے حکومت اور قانون بے بس ہیں___ صاف ظاہر ہے کہ جامعہ حفصہ کا مسئلہ محض چند گز زمین کا مسئلہ نہیں تھا‘ کہ جس کے لیے یہ چنگیزی ڈراما رچایا جاتا۔

دوسرا ایشو جامعہ حفصہ کے طلبہ و طالبات کی ان سرگرمیوں کو قرار دیا جاتا ہے‘ جو پچھلے چند ماہ میں رونما ہوئیں (واضح رہے کہ جامعہ کے قیام سے سے اس سال کے آغاز تک ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا تھا اور نہ اسلام آباد کے ۸۰ دوسرے مدارس میں اور پاکستان کے سرکاری اعلان کے مطابق ۱۷ ہزار سے زائد مدارس کے طلبہ نے کبھی کوئی ایسا اقدام کیا تھا)۔ اس جامعہ کے طلبہ اور طالبات کے چند ایسے اقدام جن کے بارے میں ملک کے تمام ہی دینی قائدین اور تعلیمی اداروں کے ذمہ داران اپنے ذہنی تحفظات کا اظہار کرتے رہے‘ انھیں جس طرح پاکستان ہی میں نہیں پوری دنیا میں اُبھارا (project) گیا‘ وہ بڑا معنی خیزہے۔

جس ملک میں جرائم روز افزوں ہوں‘ اغوا براے تاوان کے واقعات عام ہوں‘ پولیس اور انتظامیہ قانون نافذ کرنے میں ناکام ہو‘ افراد اور ادارے پرائیویٹ سیکورٹی کے حصول کے لیے اپنے آپ کو مجبور پاتے ہوں‘ جہاں ایم کیو ایم جیسی تنظیمیں بھتہ خوری اور قتل و غارت گری کا    بازار گرم کیے رکھیں اور کوئی ان سے پوچھنے والا نہ ہو‘ بلکہ مسلح افواج کا سربراہ ببانگ دہل ان کی  پشت پناہی کر رہا ہو___ وہاں چند طالبات کا دینی جوش و جذبے ہی میں سہی ایسے چند اقدام کرنا اتنا بڑا جرم کیسے بن گیا؟ وہ اقدام کہ جن کے نتیجے میں کسی جان کا ضیاع تو دُور کی بات ہے کسی کی نکسیر بھی نہ پھوٹی ہو اور نہ کوئی دست و گریباں ہی ہوا ہو‘ وہاں ایسی فوج کشی کی جائے کہ مسجد کا تقدس پامال ہو‘ مدرسے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے اور اسے بالآخر منہدم کر دیا جائے‘ سیکڑوں افراد شہید کردیے جائیں اور فوج کے کمانڈوز (ایس ایس جی) کا اس طرح استعمال کیا جائے کہ جیسے دشمن کے بہت بڑے قلعے کو فتح کیا جا رہا ہو۔ حکمران طبقے نے ساری دنیا کو باور کرانے کی کوشش کی کہ جامعہ حفصہ میں بارودی سرنگیں ہیں‘ توپیں‘ میزائل اور خطرناک اسلحے کے انبار ہیں اور نہ معلوم کون سی تربیت یافتہ فوج ہے جو وہاں قلعہ بند ہے۔

چاروں طرف سے گھر جانے اور پانی‘ بجلی‘ سوئی گیس کی ناکہ بندی ہوجانے کے بعد  چند طلبہ آخری مرحلے میں بہرحال غیرقانونی ہتھیاروں سے اپنا دفاع کررہے تھے۔ اگر فی الحقیقت ان کے پاس وہی اسلحہ موجود تھا کہ جس کا شور ہر طرف بپا کیا گیا تھا‘ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان محصور‘ مجبور اور موت کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنے والوں نے اسے استعمال کیوں نہیں کیا؟پھر جس اسلحے کی بعد میں نمایش کی گئی‘ اس کے بارے میں ملکی اور غیرملکی صحافیوں سب نے لکھا کہ ان کا کوئی تعلق جامعہ کے طلبہ یا محافظوں سے ثابت نہیں کیا جاسکا۔ رہا چند دن کی مزاحمت کا مسئلہ تو روزانہ کشمیر میں دو دو اور تین تین مجاہد کئی کئی گھنٹے نہیں‘ کئی کئی دن صرف ایک دو کلاشنکوفوں کے ذریعے بھارت کی باقاعدہ فوج کے بڑے بڑے دستوں کو مصروف رکھتے ہیں۔

مسجد اور مدرسے کی انتظامیہ سے انتظامی اور اصولی سطح پر جو غلطیاں ہوئیں اور طلبہ و طالبات نے اچھے مقاصد کے لیے جو غیرمتوازن طریقے استعمال کیے‘ ان پر ناپسندیدگی اور گرفت کا اظہار دینی اور تعلیمی حلقوں نے بروقت کیا اور اصلاح احوال کی کوشش بھی کی (دیکھیے: جامعہ حفصہ کا سانحہ، مولانا زاہد الراشدی)۔ لیکن حکومت‘ اور مدرسے کی انتظامیہ دونوں ہی معاملات کو طول دیتے رہے۔

  •  خفیہ ایجنسیوں کا کردار: ان چھے مہینوں میں رونما ہونے والے واقعات پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت اور اس کی ایجنسیاں ایک خاص کھیل کھیل رہی تھیں۔ مسجد اور مدرسے کی انتظامیہ اس جال میں پھنسی ہوئی تھی لیکن اصل کھیل صرف اسلام آباد کے علاقے جی-۶ میں نہیں‘ کسی اور ہی محاذ پر کھیلا جا رہا تھا‘ اور وہ تھا دنیا کے سامنے پاکستان میں ’طالبانایزیشن‘ (Talibanization) کے نام پر اسلامی دہشت گردی اور اس کے لیے مسجد اور مدرسے کی مرکزیت کو ہدف بنانا۔ جنرل پرویز مشرف اور ان کے حواریوں نے اور ان کے پہلو بہ پہلو سیکولرمیڈیا نے‘ حتیٰ کہ پیپلز پارٹی کی سربراہ نے دسیوں تقاریر اور بیانات میں اسے ’اسلامی دہشت گردی‘ کی مثال کے طور پر پیش کیا۔ افہام و تفہیم کے ذریعے معاملات کو حل کرنے کی تمام کوششوں کو پہلے طول دے کر اور پھر جب وہ کامیاب ہوتی نظر آئیں تو انھیں سبوتاژ کرکے مسجد‘ مدرسہ اور چاردیواری کے تقدس کو پامال کر کے اپنی ’آزاد خیالی‘ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کارکردگی کا تمغہ لینے کے لیے سیکڑوں اساتذہ‘ طلبہ اور طالبات کو شہید کردیا گیا۔ اپنی ہی فوج کے کمانڈروں کو اس خونیں کھیل میں استعمال کیا گیا‘ جس کے نتیجے میں فوج کے جوانوں کی قیمتی جانیں بھی اس المیے کی نذر ہوئیں۔ اس سازش میں جرنیلی ٹولے کے ساتھ نام نہاد آزاد خیال اور لبرل طبقے بھی برابر کے شریک تھے اور جس طرح صدربش‘ برطانوی وزیراعظم گورڈن برائون‘ یورپی یونین کے نمایندے‘ آسٹریلیا کے وزیراعظم‘ بے نظیر بھٹو‘ ایم کیو ایم کے الطاف حسین یا ترکی کے فوجی صدر اور مغربی میڈیا نے جنرل پرویز مشرف کو شاباش دی ہے‘ وہ پورے کھیل سے پردہ اٹھانے کے لیے کافی ہے۔

اس آپریشن کی تمام تر بنیاد جھوٹ‘ مبالغے اور اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے مسجد‘ مدرسے اور اس کے طلبہ کے بارے میں ایسی تصویرکشی پر مبنی ہے جو بش کے عراق پر حملے سے    پہلے عراق کے ایٹمی ہتھیاروں کے واویلے کی یاد دلاتی ہے۔ جس طرح وہ فضا بنائی گئی تھی‘ بالکل     وہی طریقہ اسلام آباد اور پاکستان کے دینی اداروں کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ جو  اصل حقائق تھے‘ ان کو جاننے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی اور اگر کسی نے ان کی طرف توجہ بھی دلائی تو اسے نظرانداز کردیا گیا۔ ہم مسجد اور مدرسے کی انتظامیہ کے اقدامات کی تائید نہ کرنے کے باوجود  یہ سمجھتے ہیں کہ جرنیلی آمریت‘ لبرل فسطائی قوتوں اور عالمی میڈیا نے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کو  اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔

  •  عدل پسند لبرل نقطۂ نظر: ہم تصویر کے اس رخ کو سامنے لانے کے لیے جسے حکومت‘ لبرل اہلِ قلم اور مغربی میڈیا نے کُلی طور پر نظرانداز کیا ہے‘ ایک لبرل دانش ور ڈاکٹر مسعودہ بانو کے مضمون سے اقتباس دیتے ہیں جو پاکستان کے ایک لبرل اخبار دی نیوز (مئی ۲۰۰۷ء) میں شائع ہوا تھا۔ڈاکٹر مسعودہ بانو اوکسفرڈ یونی ورسٹی میں پوسٹ ڈاکٹریٹ تحقیق کر رہی ہیں اور دینی تعلیمی ادارے ان کے مطالعے کا خصوصی موضوع ہیں:

اپنے تحقیقی تجربے کے پورے دورانیے میں‘ مجھے کبھی ایسا معاملہ درپیش نہیں آیا کہ انسان نے جو کچھ میدان میں دیکھا ہو وہ عام عوامی تاثر میں یک سر مختلف ہو۔ جامعہ حفصہ کی  طالبات اور لال مسجد کے قائدین و طلبہ کے اقدامات‘ ذرائع ابلاغ میں شدید تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں کہ وہ ملک میں اپنی تعبیر اسلام نافذ کرنے کی کوشش کرکے دوسرے لوگوں کی آزادیوں پر دست اندازی کے مُرتکب ہورہے ہیں۔ تاہم‘ انھی لبرل حلقوں سے نسبت رکھنے کے باوجود‘ میرا تجربہ اور مشاہدہ مختلف ہے۔ عبدالرشید غازی کے مجھے دیے گئے متعدد انٹرویو اور جامعہ حفصہ کے کئی بار دورے کا تجربہ اس خوف ناک تصور کو سہارا دینے میں مددگار ثابت نہیں ہوا۔ دوسروں کے ردعمل دیکھ کر‘ میں باربار حیران ہوتی ہوں کہ ایسا ردعمل کیوں ہے؟ میں جب اس مدرسے کی حدود میں داخل ہوئی تو مجھے یہ احساس ہوا کہ یہ کسی لڑکیوں کے کالج کا ہوسٹل ہے۔ لڑکیاں اسلام کی انتہائی کٹر اور سخت گیر تعبیر کرتی ہیں‘ لیکن جو کچھ وہ کہتی ہیں اُس میں شعور موجود ہوتا ہے۔ گفتگو اور بحث و مباحثے کے دوران وہ: قبائلی علاقوں میں حکومت کے غیرقانونی اقدامات یا فوجی آپریشنوں‘ لاپتا لوگوں کے معاملات‘ الیکٹرانک میڈیا کو بہت زیادہ چھوٹ دینے اور ریاستی نظام کے عمومی انتشار کے احوال (جہاں حکومتی اداروں سے کوئی بھی عام شہری کام نہیں کراسکتا‘ جب تک اُس کے [بڑے لوگوں سے] تعلقات نہ ہوں) جیسے موضوعات پر بڑے اعتماد کے ساتھ اور جم کر بات کرتی ہیں۔ وہ سیاہ برقعوں میں نہیں‘ بلکہ اپنے گرد لپیٹے ہوئے دوپٹوں میں ہنستی اور ایک دوسرے سے خوش گوار گفتگو کرتی ہیں۔ وہ آپ میں دل چسپی لیتی ہیں اور یوں لگتا ہے کہ وہ عام کالج کی لڑکیوں جیسی ہی لڑکیاں ہیں‘ تاہم قدامت پرست ذہنی رجحان کے ساتھ۔

بہرحال اپنے ٹی وی انٹرویو کے دوران وہ جس معاملے کو پیش پیش رکھتی ہیں‘ کیا یہی اُن کا اصل رُوپ ہے؟میرے خیال میں‘ اس تاثر کا بہت زیادہ تعلق اُن کے لباس سے ہے۔ مدرسے میں کئی بار جانے کے دوران میں‘ مَیں نے ایک تقریب میں بھی شرکت کی۔ یہ نعت گوئی یا مذہبی موضوع پر تقریری مقابلہ تھا۔ مدرسے کے کھچاکھچ بھرے صحن میں ۳ ہزار لڑکیاں تو ضرور موجود ہوں گی اور کچھ لڑکیوں کی مائیں بھی وہاں موجود تھیں۔ اس پروگرام میں حکومت کے خلاف انتہائی ظریفانہ خاکے (skits) پیش کیے گئے۔ مدرسے کی طالبات پرویز مشرف یا اعجازالحق یا دیگر وزرا اور ذرائع ابلاغ کے نمایندوں کا روپ دھارے ہوئی تھیں۔ ان خاکوں میں حکومت کی کارکردگی پر بڑے لطیف پیرایے میں تنقید کی گئی تھی۔ اس تقریب کا منظرنامہ‘ ان پروگراموں کی یاد دلا رہا تھا جو پاکستان کے عمومی کالجوں میں ہوتا ہے۔

اسی طرح ڈھائی مہینے پاکستان کے چپے چپے پر پھیلے مدرسوں میں انٹرویو کرنے کے بعد جب مجھے عبدالرشید غازی سے انٹرویو کا موقع ملا تو وہ یقینی طور پر نفرت پھیلانے والے بنیاد پرست نظر نہیں آئے۔ اُن تک پہنچنا آسان ہے۔ وہ آپ کو وقت دیتے ہیں اور جدید دنیا کی حقیقتوں سے بھی خوب آگاہ ہیں۔ ہاں‘ یہ بات درست ہے کہ مدرسے میں ایک بندوق بردار [گن مین] بھی موجود ہے‘ لیکن ایک ایسے ملک میں کہ جہاں علما کا قتل ایک معمول ہو‘ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اُنھوں نے اپنے اردگرد سیکورٹی کے مزید انتظامات کیوں نہیںکیے ہیں‘ خصوصاً ایک ایسے وقت میں کہ جب وہ سرفہرست نشانے پر ہیں۔ مجھے ان ملاقاتوں اور رابطوں کے بعد جس چیز نے پریشان کیا‘     وہ یہ تھی کہ ذاتی طور پر دورہ کرنے کے بعد جامعہ حفصہ سے جو تصور بنتا ہے وہ کسی    تشدد پسند (militant) ادارے سے یک سر مختلف ہے۔ مجھے کئی لوگوں نے بتایا کہ  اس مدرسے میں داخل ہونے کے لیے تمھیں دل گُردے کی ضرورت ہوگی۔ لیکن       اس مدرسے کا پُرامن ماحول دیکھ کر مجھے لوگوں کے اس تبصرے پر حیرت ہوئی۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ غازی برادران نے اپنے بارے میں انتہائی پُرتشدد ہونے کا تاثر کیوں پیدا کیا؟کیونکہ جب آپ اُن سے ملنے کے لیے جاتے ہیں‘ تو اُس سے بالکل مختلف تصور پیدا ہوتا ہے۔ اس بات کو دو طریقوں سے سمجھا جاسکتاہے: اوّل‘ اگر یہ حقیقتاً خفیہ ایجنسی کا آپریشن تھا تب تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے‘ کیونکہ خفیہ ایجنسیاں یہی چاہتی ہیں کہ وہ انتہاپسند اور تشددپسند کا تصور اُبھاریں اور اُنھوں نے ان بھائیوں سے کہا ہوگا کہ وہ انتہاپسندانہ رویہ اختیار کیے رکھیں۔ دوم: اگر یہ ایجنسی کا آپریشن نہیں تھا اور مدرسے کے ساتھ کئی بار رابطہ رکھنے کے بعد میرے خیال میں یہی معاملہ تھا (اگرچہ کوئی بھی فرد یقینی طور پر نہیں کہہ سکتا)‘ تب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بھائیوں نے اس قدر انتہاپسند موقف کیوں اختیار کیا؟ کیا وہ حقیقت پسندانہ طور پر سمجھتے تھے کہ واقعی وہ حکومت پر کنٹرول حاصل کرکے شریعت نافذ کرسکتے ہیں؟ میرا خیال ہے کہ اُنھوں نے اس قدر انتہائی اقدامات اس لیے اٹھائے تاکہ اپنا وجود برقرار رکھ سکیں‘ نہ کہ حقیقی طور پر شریعت نافذ کرنے کے لیے۔ اس معاشرے میں میرے ساتھی جو لبرل طبقات سے تعلق رکھتے ہیں‘ وہ کسی تحقیق کے بارے میںاسے معقول دلیل قرار دیں گے کہ آپ اپنے مطالعے کے ہدف کے بارے میں حتمی فیصلہ کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ اُسے سمجھنے کی کوشش کریں۔

میں جامعہ حفصہ کی طرف ایک اور انداز سے دیکھتی ہوں۔ میں نے ملک بھر کے ۷۰سے زائد مدارس کے دوروں اور مصاحبوں (انٹرویوز) کے بعد جامعہ حفصہ کا دورہ کیا۔ میرے خیال میں ان تمام ہی مدرسوں میں حکومت کی امریکا نواز پالیسیوں‘ قبائلی پٹی میں حملوں‘ لاپتا لوگوں کے مسئلے‘ مدرسوں اور اسلام کو تحقیری لہجے میں پیش کرنے اور ذرائع ابلاغ کو بے حدوحساب چھوٹ دینے کے بارے میں تشویش کااظہار کیا گیا۔ اُن کی راے میں یہ ملک اسلام کے نام پر قائم کیا گیا تھا۔

جب آپ دیکھتے ہیں کہ معاشرے کی اتنی بڑی تعداد چند اُمور پر تشویش کا اظہار کرتی ہے‘ تب سمجھ لینا چاہیے کہ یہ چند افراد کا خلجان نہیں ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان پیپلز پارٹی‘ ایم کیو ایم اور معاشرے کے چند دیگر طبقات کی طرف سے جامعہ حفصہ کو دبانے کے لیے قوت کے استعمال کے مطالبے غیرحقیقت پسندانہ ہیں۔ قدامت پرست اقدار رکھنے والے یہ لوگ بھی تو بہرحال آپ کے معاشرے کا حصہ ہیں اور اُن کی تعداد بہت بڑی ہے۔ پُرتشدد اسلام پسندی کے ایسے مظاہر کو روکنے کے لیے واحد راستہ یہ ہے کہ حکومت ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی پالیسیوں کی اندھی پشتی بان نہ بنے‘ کیونکہ ان کی وجہ سے علما کو یہ قوت مل جاتی ہے کہ وہ بڑی تعداد میں اپنے پیروکاروں کو حرکت میں لے آئیں۔(The Puzzle of Jamia Hafsa ،دی نیوز انٹرنیشنل، ۴مئی ۲۰۰۷ء)

ہم نے ڈاکٹر مسعودہ بانو کے مضمون سے طویل اقتباس اس لیے دیا ہے کہ ایک غیر جانب دار  لبرل دانش ور خاتون بھی ان حقائق کی طرف متوجہ کر رہی ہے جنھیں یک سر نظرانداز کر کے سیاسی طالع آزما اور لبرل دانش ور آنکھیں بند کرکے استعماری قوتوں اور فوجی آمروں کی ہاں میں ہاںملانا اپنی معراج سمجھ رہے ہیں۔

جامعہ حفصہ اور لال مسجد کے خونیں انجام کے دو روز بعد ڈاکٹر مسعودہ بانو کا تبصرہ بھی اس لائق ہے کہ اس پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔ وہ دی نیوز میں لکھتی ہیں:

واہ! نام نہاد لبرل جیت گئے۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر بے رحمی سے حملہ کیا گیا‘ [عبدالرشید] غازی‘ ان کی والدہ اور ان کے سیکڑوں شاگرد [طلبہ و طالبات] مارے گئے۔ حکومت نے دارالحکومت کے عین قلب میں انتہائی سفاکانہ قتلِ عام کیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہی لبرل جو امن کی بات کرتے ہیں اور عراق پر جارحیت اور جنگ پر احتجاج کا علَم بلند کرتے ہیں‘ نہ صرف یہ کہ انھوں نے اس [فوجی آپریشن] کی حمایت کی حتیٰ کہ حکومت کو اس پر مبارک باد بھی دے رہے ہیں۔ لیکن کم از کم وہ لوگ جو اس حوالے سے خامہ فرسائی کرتے رہتے ہیں‘ ان کو اس قسم کے مطلق دعوؤں سے اجتناب کرنا چاہیے کہ اکثریت اس سے خوش ہے (یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جو ایک اخبار نے کیا)۔مجھے بطور محقق اس دوران غازی اور مدرسے کے اندر موجود لوگوں کے متعلق [بہت کچھ] جاننے کا موقع ملا‘ اور میں ایک ایسی عورت کی حیثیت سے کہ جو برداشت پر یقین رکھتی ہے اور جو انسانی جان کا احترام کرتی ہے‘ یہ کہنا چاہتی ہوں کہ میں اس تمام آرمی ایکشن کو ایک جرم کی طرح دیکھتی ہوں‘اور میں ایسے بہت سے لوگوں کو جانتی ہوں جو اسی طرح دیکھتے ہیں۔ اس وقت پاکستان ایک بٹے ہوئے گھر کی طرح ہے۔محض اغوا اور حکومت کی رٹ کو چیلنج کرنے جیسے جرائم کی بنا پر کس نے حکومت کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اپنے ہی عوام کا یوں قتلِ عام کرے؟ انھوں نے‘ غازی برادران اور ان کے شاگردوں نے‘ نہ کسی کو قتل کیا اور نہ جسمانی طور پر نقصان پہنچایا‘ تو پھر کس طرح ان کی سزا اس قدر شدید ہوسکتی ہے۔  یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس تمام خوں ریزی سے بآسانی بچا جاسکتا تھا‘ اگر جنرل مشرف کا ایک ایسے وقت میں مغرب کو اپنی وفاداری کا ثبوت فراہم کرنے جیسا مخصوص مقصد  نہ ہوتا‘ جب کہ وہ انتہائی کمزور ہوچکے ہیں اور انھیں مغرب کی حمایت کی شدید ضرورت ہے۔ دوسری صورت میں‘ قتلِ عام کے بغیر مسئلے کو حل کرنے کے لیے بہت سے ایسے اقدامات ممکن تھے جو اٹھائے جاسکتے تھے۔ بجلی‘ پانی اور گیس کاٹ دینے سے کم از کم لڑکیوں کو جلد یا بدیر باہر آنے پر مجبور کیا جاسکتا تھا۔ اسی طرح اگر مذاکرات کے لیے مزید کچھ دن دے دیے جاتے تو یقینا پاکستان کے وجود کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہوسکتا تھا۔ (What a Victory!‘دی نیوز‘ ۱۳جولائی ۲۰۰۷ء)

وہ اپنے فکرانگیز تبصرے کے اختتام پر لکھتی ہیں:

لال مسجد کے باب کو ختم کرنے سے پہلے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کس چیز نے [عبدالرشید] غازی کو (جس نے پوسٹ گریجویٹ ڈگری لے رکھی تھی) اور اُن کے طالب علموں کو (جن کی اکثریت متوسط طبقے سے تعلق رکھتی تھی اور جو میٹرک یا ایف اے کے بعد وہاں آئے تھے) اس مزاحمت پر مجبور کیا۔ ذرائع ابلاغ میں اُن کے حوالے سے ہونے والی بحث کا ارتکاز اُن کی جانب سے عوامی اخلاقیات سنوارنے کی مہم پر تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ انتہائی بنیادی انسانی حقوق کے مطالبات کی بنا پر حرکت پذیر ہوئے تھے۔ وہ قبائلی علاقوں میں ان ملٹری آپریشنوں کے خاتمے کے لیے دلائل دے رہے تھے‘ جو عام شہریوں کی ہلاکت کا باعث بن رہے تھے۔ وہ ملک میں مقدمہ چلائے بغیر لوگوں کو امریکا کے حوالے کرنے کی مخالفت کر رہے تھے۔ ہم میں سے جن لوگوں نے مدرسے میں جانے اور اُن سے اور اُن کے طلبہ سے بات چیت کرنے کی زحمت کی‘ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ بہ تکرار قانون کی بالادستی کی بات کرتے تھے۔ اپنے اہداف کو کامیاب بنانے کے لیے اُنھوں نے جو راستہ اختیار کیا‘ بلاشبہہ وہ درست راستہ نہ تھا‘ لیکن یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ کس چیز نے اُنھیں اور اُن کے پیروکاروں کو اس جدوجہد پر آمادہ کیا‘ کیونکہ حتمی طور پر اخلاقی خیالات و نظریات کی مُدلل قوت ہی لوگوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنی زندگی نچھاور کردیں۔ کوئی بھی شخص‘ حتیٰ کہ انتہائی غریب شخص بھی کسی معمولی بات کے لیے اپنی جان نہیں دے سکتا۔ (دی نیوز‘ ۱۳ جولائی ۲۰۰۷ء)

سانحے کے بعد کے تقاضے

ہم سمجھتے ہیں کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا مسئلہ کوئی منفرد واقعہ نہیں‘ بلکہ امریکا اور   جنرل مشرف کی اس حکمت عملی کا حصہ ہے جس کے تحت دہشت گردی کے نام پر جرنیلی آمریت کو مستحکم کرنے اور عالمی سامراج کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا مذموم کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ اسی لیے جہاں ہم ایک طرف اس پورے کھیل کا پردہ چاک کرنے کو اوّلیت دیتے ہیں اور اسے وسیع تر تناظر میں دیکھتے ہیں‘ وہیں ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس سانحے کی تحقیق کے لیے اعلیٰ ترین سطح پر عدالتی کمیشن قائم کیا جائے‘ جو سارے پہلوؤں کاجائزہ لے اورخصوصیت سے ان سوالوں کا جواب دے کہ:

                ۱-  لال مسجد اور جامعہ حفصہ کی انتظامیہ اور طلبہ و طالبات پر جو الزامات لگائے جارہے ہیں ان کی حقیقت کیا ہے‘ اور حالات کو اس مقام تک لانے میں کون کون سی قوتیں کس درجے میں شریک تھیں___ ہر ایک کا کردار اور رول بالکل کھل کر سامنے آئے۔

                ۲-  جنوری ۲۰۰۷ء سے پہلے کوئی مسئلہ کیوں پیدا نہیں ہوا ‘اور وہ کیا خاص حالات اور اسباب ہیں جن کی وجہ سے جنوری سے جولائی تک مختلف واقعات رونما ہوئے؟

                ۳-   انتظامیہ اور طلبہ و طالبات کی اصل شکایات کیا تھیں اور ان کو رفع کرنے کے لیے کیا کیا گیا؟

                ۴- انتظامیہ اور طلبہ و طالبات سے کیا غلطیاں سرزد ہوئیں اور حالات کی اصلاح اور افہام و تفہیم کے ذریعے معاملات کو طے کرنے کی کیا کوششیں ہوئیں‘ کیا معاہدے ہوئے‘ کس نے ان معاہدوں کو سبوتاژ کیا اور مصالحت کا عمل کیوں کامیاب نہ ہوا؟

                ۵-  اس پورے معاملے میں حقیقی تشدد کا کتنا حصہ ہے اور کون اس کا ذمہ دار ہے؟

                ۶- کیا حکومت کے پاس کوئی مذاکراتی حکمت عملی اور اختیار تھا؟ اور کیا عالمی تجربات کی روشنی میں قوت کے استعمال کے بغیر مسئلے کا حل ممکن نہیں تھا؟ اگر ایسا تھا تو کیا ضروری حد تک قوت کا استعمال ہوا یا قوت کا بے رحمانہ‘ بے محابا اور سفاکانہ استعمال کیا گیا؟

                ۷- یہ سوال بھی اہم ہے کہ قوت کے استعمال کے لیے جس دستوری اور قانونی جواز کی ضرورت ہے‘ وہ پورا کیا گیا؟ اسلام آباد میں سول اتھارٹی کون ہے؟ پولیس کے ذریعے مسئلے کو کیوں حل نہیں کیا گیا؟ پولیس اور رینجرز کو کئی مہینے اسلام آباد کس اتھارٹی کے تحت لایا گیا‘ اور  ان کو کیوں واپس کیا گیا؟ آخری فوجی آپریشن کا فیصلہ کس نے کیا اور کس دستوری اختیار کے تحت کیا گیا؟ اس میں سول انتظامیہ‘ کابینہ‘ چیف آف آرمی اسٹاف ہرایک کا کیا کردار ہے؟

                ۸- سپریم کورٹ کے بنچ نے مفاہمت کے ذریعے مسئلے کے حل کے لیے ہدایات جاری کی تھیں‘ ان کا کیا بنا؟ عدالت کا کیا رول رہا اور انتظامیہ نے عدالت کے احکام کے الفاظ اور اسپرٹ کی کہاں تک پیروی کی؟

                ۹- مسجد اور مدرسے میں موجود افراد اور اسلحے وغیرہ کے بارے میں حکومت کے دعوے کیا تھے اور حقیقت کیا نکلی؟ فوجی آپریشن کے لیے جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ کہاں تک ضروری تھا؟ جانی اور مالی نقصان کی صحیح پوزیشن کیا ہے؟ فی الحقیقت کتنے اساتذہ‘  طلبہ و طالبات اور دوسرا عملہ مسجد و مدرسے میں تھا؟ کُل اموات کتنی ہوئیں؟ قرائن و شواہد بتاتے ہیں کہ طالبات‘ طلبہ اور اساتذہ کو اس سے کہیں زیادہ تعداد میں قتل کیا گیا کہ جتنی تعداد حکومتی ترجمان بتاتے ہیں۔ اس قتلِ عام کی باقاعدہ اعلیٰ سطحی تحقیقات ہونی چاہییں۔

                ۱۰- فوج نے جو ہتھیار استعمال کیے‘ وہ کون کون سے تھے؟ مدرسے کے طلبہ کی طرف سے  کون سے ہتھیار استعمال ہوئے؟ انٹرنیٹ پر موجود مضامین اور روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والی تصاویر میں ’سفید فاسفورس‘ کے سفاکانہ استعمال کے شواہد کی کیا حقیقت ہے؟۱؎ کیمیکل اسلحے کے استعمال کا کس نے حکم دیا تھا؟ عمارت کے اندر آگ لگنے‘ لاشوں کے جھلسنے اور اس کے اسباب کا تعین ضروری ہے‘ نیز کس قسم کی گیسوں کا استعمال اس آپریشن میں کیا گیا اور ان کے کیا اثرات رونما ہوئے؟

                ۱۱-         جس اسلحے کی نمایش کی گئی ہے‘ اس کی حقیقت کیا ہے؟

                ۱۲-         مسجد میں طلبہ اور طالبات کو یرغمال بنائے جانے کے دعوے کی کیا حقیقت ہے؟ محاصرے کے دوران علما‘ صلح کاروں اور میڈیا کے نمایندوں کو مسجد اور مدرسے میں جانے سے


۱-  یاد رہے کہ حکومت کے فوجی اور سول ترجمان اس امر سے مسلسل انکار کرتے رہے‘ تاہم ۲۶ جولائی کو وفاقی وزیر مذہبی امور اعجازالحق نے اعتراف کیا: ’’لال مسجد آپریشن میں فاسفورس بم استعمال کیے گئے تھے‘‘۔ (روزنامہ نوائے وقت‘ لاہور‘ ۲۷ جولائی ۲۰۰۷ء)

                                                کس نے روکا؟ آپریشن کے بعد بھی دو دن مسجد اور مدرسے میں میڈیا کو داخل ہونے سے کیوں روکا گیا؟ اس زمانے میں اندر کیا کچھ ہوا؟ چار سو کفن منگوانے کے بعد صرف ۹۲لاشوں کی تدفین کا معما کیا ہے؟ بی بی سی کے نمایندے کو گورکن نے بتایا کہ ایک ایک قبر میں دو دو لاشیں ہیں۔ اس کی کیا حقیقت ہے؟

                ۱۳-  مسجد کی بے حُرمتی‘ قرآن پاک اور دینی کتب کی بربادی اور مسجد میں جوتوں سمیت جانا اور فوجی ترجمان کا یہ فتویٰ نشر کرنا کہ آپریشن کے دوران اس جگہ کی حیثیت مسجد کی نہیں رہی ہے‘ کہاں تک صحیح ہے؟ قرآن پاک کے جلائے جانے اور قرآن کے اوراق کی بے حُرمتی کے بارے میں سپریم کورٹ کے بنچ نے بھی سوال اٹھائے ہیں۔ یہ بڑا اہم مسئلہ ہے اور اس سلسلے میں سارے حقائق قوم کے سامنے آنے چاہییں۔

یہ اور متعدد دوسرے سوالات ایسے ہیں جن کے مبنی برحق جواب قوم کے سامنے آنا ضروری ہیں‘ اور پھر ان جوابات کی روشنی میں جس نے جس حد تک دستور‘ قانون اور اصولِ انصاف سے انحراف کیا ہے‘ اس کی ذمہ داری کا تعین اور قرارواقعی سزا کا اہتمام۔

ہم پوری ذمہ داری سے یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا مسئلہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے۔ جو کچھ ہوا ہے وہ ہماری تاریخ کے الم ناک ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح برطانوی استعمار کے ایک کارندے جنرل ڈائرنے ۱۹۱۹ء میں امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں کئی سو ہندستانیوں کو گولیوں سے بھون کر رکھ دیا تھا‘ پاکستان کی تاریخ میں ایک سیکولر اور نام نہاد روشن خیال جرنیل نے صدربش اور مغرب کے سامراجی حکمرانوں کی  خوش نودی اور انھیں اپنی وفاداری کا یقین دلانے کے لیے لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر یورش اور  خون کی ہولی کھیل کر ویسا ہی بدترین اقدام کیا ہے۔ تاریخ تو اس ظلم برپا کرنے والوں کو معاف نہیں کرے گی، لیکن ملّت اسلامیہ پاکستان کا بھی فرض ہے کہ وہ اس کشت و خون کے ذمہ داروں کا احتساب کرے‘ اور ہم چاہتے ہیں کہ یہ احتساب بھی دستور اور قانون کے مطابق ہو___ ایک سفاکیت کا جواب دوسری لاقانونیت سے نہ دیا جائے___ لاقانونیت اور دہشت گردی کو روکنے  کا اصل ذریعہ سب کے لیے قانون کی حکمرانی اور کھلے انداز میں احتساب اور انصاف کا قیام ہے۔ یہی راستہ معقول بھی ہے اور خیر اور صلاح بھی صرف اسی کے ذریعے رونما ہوسکتی ہے۔

عدلیہ کی بالادستی کے لیے سنگ میل

سپریم کورٹ کے ۱۳ رکنی بنچ کے ۲۰جولائی ۲۰۰۷ء کے فیصلے نے قوم کو یہ اُمید دلائی ہے کہ اعلیٰ عدالت نظریۂ ضرورت کے شیطانی چکر سے نکلنے کی طرف بڑھ رہی ہے اور عوام کو یہ اعتماد حاصل ہو رہا ہے کہ اس ملک کے کمزور اور مظلوم انسانوں کے لیے بھی انصاف کا حصول ممکن ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے ملک اپنی حقیقی منزل کی طرف گامزن ہوسکے گا۔

۲۰ جولائی ۲۰۰۷ء کا فیصلہ گہرے غوروخوض کا متقاضی ہے مگر اس کا حق اسی وقت ادا ہوسکے گا جب عدالت اپنا تفصیلی فیصلہ دے گی۔ البتہ مختصر فیصلے نے جو تاریخی خدمت انجام دی ہے‘ اس کا ادراک ضروری ہے۔ ہماری نگاہ میں درج ذیل پہلو غیرمعمولی اہمیت کے حامل ہیں:

                ۱-  عدالت نے کوئی مبہم یا نیمے دروں نیمے بروں راستہ اختیار نہیں کیا‘ بلکہ دوٹوک الفاظ میں ایک واضح فیصلہ دیا ہے‘ جس نے قوم کو اُمید کی نئی کرن دکھائی ہے۔ اس پر عدالت پوری قوم کی طرف سے ہدیۂ تبریک کی مستحق ہے۔ ظلمتوں کی ماری اس قوم کے لیے یہ فیصلہ روشنی کا پیغام اور مستقبل پر بھروسے کی نوید کی حیثیت رکھتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔

                ۲-  پاکستان کی تاریخ میں‘ عدالت نے پہلی مرتبہ فوجی حکمرانی ہی کے دور میں ایک فوجی حکمران کے فیصلے کے خلاف دستور اور قانون کے مطابق فیصلہ دیا ہے‘ اور اس طرح طاقت پر قانون کی بالادستی کے اصول کو قائم کیا ہے۔ سیکولرزم اور نام نہاد جدیدیت کے علَم بردار جسٹس محمدمنیر نے تمیزالدین خان کیس سے ’نظریۂ ضرورت‘ کے بل پر دستور اور انصاف کی خلاف ورزی کا جو دروازہ کھولا تھا اور جس کے نتیجے میں آمریت کا عفریت دندناتا ہوا قومی زندگی میں داخل ہوا‘ اس نے جمہوریت کو پنپنے ہی نہ دیا۔ بلاشبہہ جسٹس حمودالرحمن نے جنرل آغا یحییٰ خان کو غاصب (usurper) قرار دیا تھا لیکن یہ فیصلہ جنرل یحییٰ کے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد آیا تھا‘ اور یہی وجہ ہے کہ یہ بعد کے طالع آزمائوں کا راستہ نہ روک سکا۔ حالیہ فیصلہ اپنی نوعیت کا پہلا فیصلہ ہے اور ہمیں یقین ہے کہ اگر قوم اس کی پشت پر مضبوطی سے قائم رہتی ہے توآیندہ یہ جمہوریت کے لیے فتح و کامرانی کے دروازے کھول دے گا‘ اور ان شاء اللہ فوجی آمریت قصۂ پارینہ بن جائے گی۔

                ۳-  اس فیصلے کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ اس میں دستور اور قانون کی بالادستی کے اصول کو بنیاد بنایا گیا ہے اور صدر (چیف آف اسٹاف) کا وہ اقدام صریحاً غیرقانونی تھا‘ جس کے تحت اس نے وردی کا سہارا لے کر چیف جسٹس کو بلاجواز‘ دستور کے واضح تقاضوں کو نظرانداز کرتے ہوئے غیرفعال کیا تھا یا جبری رخصت پر بھیجا تھا۔ اس فیصلے کو کالعدم قرار دینے سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ چیف جسٹس اس پورے زمانے میں دستوری اور قانونی طور پر چیف جسٹس تھے‘ قائم مقام چیف جسٹس کا تقرر غیرقانونی تھا ۔

                ۴- اس فیصلے میں تین کے مقابلے میں ۱۰ کی اکثریت نے یہ بھی فیصلہ دیا ہے کہ چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس دستور کے مطابق نہیں اور اس طرح اسے بھی حرفِ غلط کی طرح منسوخ کردیا گیا اور چیف جسٹس کسی داغ کے بغیر اپنے مقام پر بحال ہوگئے۔

                ۵- ضمناً اس فیصلے نے اس بات کو بھی واضح کردیا کہ قانون کی نگاہ میں سب برابر ہیں اور کوئی بھی احتساب سے بالا نہیں‘ بشمول چیف جسٹس لیکن احتساب‘ قانون اور دستور کے مطابق ہی ہوسکتا ہے۔ من مانے اور اندھادھند (arbitrary) انداز میں نہیں۔

                ۶- اس فیصلے میں خود عدلیہ کا بھی احتساب موجود ہے‘ خصوصیت سے جس طرح سپریم جوڈیشل کونسل نے کچھ ایسے اختیارات اپنے لیے حاصل کرنے کی کوشش کی‘ یا ایسے انداز میں اپنے کام کا آغاز کیا جو دستور اور اصول انصاف کے مطابق نہیں۔ ان تمام چیزوں پر بھی فیصلے میں گرفت کی گئی ہے اور غلط اقدام کو غیرمؤثر کردیا گیا ہے۔

ان تمام اعتبارات سے یہ فیصلہ سنہری حروف میں لکھے جانے کے لائق ہے اور عدلیہ کی آزادی اور اس کے اعتبار (credibility)کی بحالی کی راہ پر ایک عظیم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگرچہ یہ صرف پہلا قدم ہے‘ ہراعتبار سے اہم اور تاریخی قدم___  لیکن پھر بھی صرف پہلا قدم۔ ابھی ماضی کے ملبے کو صاف کرنے اور دستوریت اور قانون کی حکمرانی کی منزل کو پانے کے لیے عدالت‘ انتظامیہ اور خود قوم کو بہت کچھ کرنا ہوگا۔ جہاں یہ فیصلہ خالص دستور اور قانون کے مطابق ہے اور کسی سیاسی مصلحت کا سایہ اس پر نہیں‘ وہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسا صاف ستھرا اور   مبنی برعدل فیصلہ ممکن ہی اس لیے ہوا کہ قوم نے‘ اور خصوصیت سے وکلا برادری نے بے لاگ انداز اور بالکل دوٹوک طریقے سے عدالت کو یہ یقین دلا دیا تھا کہ قوم انصاف اور اصول کی بالادستی چاہتی ہے نہ کہ مصلحت پر مبنی کوئی فیصلہ۔ جس عدالت کو یہ یقین ہو کہ قوم انصاف چاہتی ہے اور انصاف کے لیے قربانی دینے کا عزم رکھتی ہے‘ وہ پھر پوری مضبوطی سے دستور اور انصاف کی علَم بردار بن سکتی ہے اور لاقانونیت اور قوت کے پجاریوں کو چیلنج کرسکتی ہے۔ اس بار الحمدللہ یہی  ہوا اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اس انداز میں ہوا۔ اب عدالت اور قوم دونوں پر ذمہ داری ہے کہ اس راستے پر استقامت اور حکمت کے ساتھ آگے بڑھے۔ اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ عدالت کو کسی ایسی آزمایش میں نہ ڈالا جائے جس میں اس کے قدم ڈگمگانے کا خطرہ ہو۔ سیاسی فیصلے سیاست کے میدان میں ہوں اور قانون اور دستور کی تعمیر اور تنفیذ کے معاملات عدالت میں طے ہوں۔      یہ توازن ضروری ہے اور اس نزاکت کو سامنے رکھ کر ہی ہم ملک میں جمہوریت کی آگے کی منزلیں سر کرسکتے ہیں۔

تاریخ ساز فیصلے کے دو اھم تقاضے

البتہ دو باتوں کی طرف توجہ دلانا ہم ضروری سمجھتے ہیں: پہلی یہ کہ اس فیصلے کے کچھ اخلاقی اور ایک حد تک خود قانونی تقاضے ہیں جن کو پورا کیا جانا چاہیے اور ان کا تعلق صدر‘ وزیراعظم‘ وزیرقانون اور ان اداروں کے سربراہوں سے ہے جن کا چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس سے بلاواسطہ تعلق تھا۔ انھیں اپنی ذمہ داری کا اعتراف کرنا چاہیے۔ چیف جسٹس اور قوم سے معافی مانگنی چاہیے اور اپنے عہدے سے استعفا دے دینا چاہیے تاکہ اس فیصلے کے منطقی تقاضے پورے ہوں۔ واضح رہے کہ وزیراعظم شوکت عزیز نے فیصلے سے پہلے یہ بات کہی تھی کہ اگر فیصلہ حکومت کے خلاف ہوتا ہے تو وزیراعظم کو مستعفی ہوجانا چاہیے۔ معاملہ صرف وزیراعظم کا نہیں‘ ان کے ساتھ جنرل مشرف کا استعفا بھی ضروری ہے۔

ریفرنس کے اصل ذمہ دار جنرل مشرف ہیں‘ جنھوں نے فوجی وردی میں چیف جسٹس کو ریفرنس کا نشانہ بنایا‘ استعفے کا مطالبہ کیا‘ کئی گھنٹوں تک حبسِ بے جا میں رکھا‘ تین مہینے تک پریس اور میڈیا میں ریفرنس کے حق میں دلائل دیتے رہے‘ مزید حقائق بیان کرنے کی دھمکیاں دیں‘ اور  طرح طرح کے الزامات لگانے سے بھی گریز نہ کیا۔ ۱۲مئی کے کراچی کے قتلِ عام اور اسلام آباد کے بھنگڑے کے جشن کو عوامی تائید‘ اپنی فتح اور چیف جسٹس کی شکست کا عنوان دیا‘ اور یہاں تک ارشاد فرمایا کہ اگر جھوٹ سچ پر غالب رہا تو وہ روئیں گے___  رونا تو بلاشبہہ ان کے مقدر میں   اللہ تعالیٰ نے لکھ دیا تھا مگر بات رونے پر ختم نہیں ہوسکتی۔ سب سے زیادہ اس ریفرنس کے اور اس ریفرنس کے سلسلے میں جو کچھ کیا گیا‘ اس کے ذمہ دار جنرل مشرف ہیں اور ان کا استعفا پہلا تقاضا ہے۔ ان کے ساتھ وزیراعظم‘ وزیرقانون‘ سیکرٹری قانون اور ان تمام افراد کا استعفا اور احتساب ضروری ہے جنھوں نے جنرل مشرف اور وزیراعظم کے موقف کی تائید میں بیان حلفی دائر کیے۔

دوسرا بنیادی مسئلہ جو اس ریفرنس اور مختلف حلفی بیانات سے سامنے آیا ہے وہ کاروبار حکومت میں ایجنسیوں کے کردار سے متعلق ہے‘ جو اپنے اصل فرائض منصبی سے ہٹ کر جاسوسی اور     خلافِ قانون سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ جن کا منہ بولتا ثبوت ان کے اپنے بیانات اور وہ معلومات اور ان معلومات کے ذرائع ہیں جن سے یہ بیانات بھرے ہوئے ہیں۔ حکومت پاکستان اور اس کے اداروں کی بڑی ہی کریہہ تصویر ہے جو ان بیانات میں قوم کے سامنے آئی ہے۔ اگر ان اداروں کا احتساب نہیں ہوتا اور ان سرگرمیوں کو لگام نہیں دی جاتی تو ہم کبھی بھی قانون اور ضابطے پر مبنی ایک ملک اور مہذب معاشرہ نہیں بن سکتے۔ جن حضرات نے قانون کی خلاف ورزی یا محض اثرورسوخ کی بناپر قانون اور ضابطے کے خلاف کام کا اعتراف کیا ہے‘ انھیں اس کی قرارواقعی سزا ملنی چاہیے‘ اور جنھوں نے برسرِاقتدار افراد کی تائید میں غلط بیانی اور فسانہ سازی سے کام لیا ہے‘ انھیں ان کی قیمت ادا کرنا چاہیے۔ ان بااثر مجرموں کو ایسے ہی چھوڑ دینے کے معنی یہ ہیں کہ ملک میں قانون کی حکمرانی محض ایک سراب ہوگی۔ یہ اقبالی مجرم ہیں اور ان کو اس کی ایسی سزا ملنی چاہیے جس میں دوسروں   کے لیے عبرت کا سامان ہو اور ملک کے نظامِ حکمرانی سے ان خرابیوں کاہمیشہ کے لیے ازالہ ہوسکے۔

۲۰جولائی کے فیصلے کے یہ دو کم سے کم تقاضے ہیں جو فوری طور پر پورے ہونے چاہییں۔

اُمید کا پیغام

آخر میں ہم اس پورے معاملے میں کُل جماعتی تحریک جمہوریت کے رول کا ذکر ضروری سمجھتے ہیں۔ یہ امر باعث افسوس ہے کہ اپوزیشن کی تمام جماعتیں اس میںشریک نہیں ہوئیں اور ایک بڑی جماعت جس نے میثاقِ جمہوریت پر دستخط کیے تھے وہ اس میثاق کے عہدوپیمان کے   علی الرغم فوجی حکومت سے معاملات طے کرنے میں مصروف رہی اور اس فیصلہ کن مرحلے پر بھی پیچھے رہ گئی۔ اس امر پر تاَسف کے اظہار کے ساتھ ہم اس اقدام کا خیرمقدم کرتے ہیں جو باقی تمام جماعتوں نے اس نئے محاذ کے قیام کی شکل میں اختیار کیا ہے‘ اور اسے ۲۰جولائی ۲۰۰۷ء کے فیصلے کی طرح جمہوریت کے قیام اور دستور اور قانون کی حکمرانی کی جدوجہد کا ایک سنگ میل قرار دیتے ہیں۔

قرارداد مقاصد سے لے کر ۱۹۷۳ء کے دستور تک جن چار باتوں پر قوم کاکامل اتفاق (consensus ) ہے‘ وہ یہ ہیں:

                ۱-   پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور اس کے وجود اور بقا کا انحصار اسلام کے احکام‘ اقدار اور اصولوں کے مطابق مبنی برعدل نظام کا قیام ہے۔ اقتدار ایک امانت ہے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے وفاداری کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔

                ۲-  پاکستان کا نظامِ حکومت جمہوری ہوگا جس میں عوام کے حقوق کی حفاظت‘ پارلیمنٹ کی بالادستی‘ عدلیہ کی آزادی‘ صاف شفاف انتخابات‘ اور عوام کی مرضی کے مطابق اور ان کے سامنے جواب دہی کے اصول پر حکومت کا قیام اور تبدیلی واقع ہوگی۔

                ۳-  پاکستان ایک فلاحی ریاست ہے جس میں تمام شہریوں کو بلاتفریق نسل‘ زبان اور مذہب زندگی کی ضروری سہولتیں حاصل ہونی چاہییں اور ترقی کے مساوی مواقع میسر ہوں تاکہ مہذب زندگی گزار سکیں۔

                ۴-  پاکستان کا سیاسی نظام وفاق کی بنیاد پر قائم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ تمام صوبوں کو اپنے وسائل پر تصرف کا اختیار ہو اور دستور کے دائرے میں تمام صوبوں کو مکمل خوداختیاری حاصل ہو۔ پاکستان کی مضبوطی اور خوش حالی کا انحصار تمام صوبوں کی مضبوطی اور خوش حالی پر ہے۔

ان اصولوں کا واضح تقاضا یہ ہے کہ ہر ادارہ اپنے اپنے دائرے میں دیانت داری سے کام کرے اور دوسرے اداروں میں دخل اندازی سے احتراز کرے۔ فوج کی اصل ذمہ داری دفاعِ وطن اور سول حکومت کے تحت خدمات انجام دینا ہے۔ سیاست میں فوج کی مداخلت دستور کی خلاف ورزی‘ سیاسی نظام کی بربادی کا ذریعہ اور خود فوج کی دفاعی صلاحیت اور قوم کی نگاہ میں غیرمتنازع حیثیت کو مجروح کرنے کا باعث ہوتی ہے۔ اس لیے فوج کو سیاست میں ملوث کرنا فوج اور ملک دونوں کے مفاد کے خلاف ہے۔

عوام کی مرضی کی حکومت اسی وقت قائم ہوسکتی ہے جب سب کو انتخاب میں شرکت کے مساوی مواقع حاصل ہوں اور انتخاب کا نظام ہرقسم کی دراندازی اور جانب داری سے پاک ہو۔ اس کے لیے راے دہندگان کی فہرستوں کا درست ہونا‘ الیکشن کمیشن کی مکمل آزادی اور غیر جانب داری اور پورے انتخابی عمل کا صاف اور شفاف ہونا ضروری ہے۔ صحافت کی آزادی بھی اس کے لیے ایک ضروری عمل ہے تاکہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا صحیح حقائق سے قوم کو آگاہ کرسکے۔ انتخابی عمل کو ہربدعنوانی سے پاک ہونا چاہیے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب انتخابات ایک غیر جانب دار حکومت کی نگرانی میں منعقد ہوں۔

کُل پاکستان جمہوری تحریک کا قیام انھی مقاصد کے حصول کے لیے ہے۔ ہرجماعت کا  اپنا منشور اور پروگرام ہے‘ لیکن ان مشترکہ نکات پر سب کا اتفاق ہے اور سب مل کر ان کے حصول کے لیے سیاسی جدوجہد کا عہد کرتے ہیں۔ چیف جسٹس کی معطلی کے خلاف وکلا اور عوام کی تحریک نے جمہوریت کی بحالی کے لیے عوامی تائید اور تحرک کی اہمیت کو ایک بار پھر واضح کردیا ہے۔ کُل جماعتی جمہوری تحریک‘ اپوزیشن کی جماعتوں کے اس عزم کا مظہر ہے کہ مشترک مقاصد کے حصول کے لیے وہ فیصلہ کن عوامی تحریک کا راستہ اختیار کر رہے ہیں اور یہ جدوجہد دستور کی مکمل بحالی اور جمہوریت کے قیام اور اسلامی نظام کے نفاذ پر منتج ہوگی‘ ان شاء اللہ!


(کتابچہ دستیاب ہے، منشورات، منصورہ، لاہور)

بجٹ بنانا بلاشبہہ ایک انتہائی اہم سرگرمی ہے اور بجٹ جہاں حکومت کی کُل آمدنی اور خرچ کا میزانیہ اور معاشی پالیسی اور ترجیحات کا عکاس ہوتا ہے وہیں اس کی حیثیت قانون سازی کے ایک ایسے کام کی ہے جس کے ذریعے معاشی مشکلات کے حل کے لیے قوم کے عزائم اور طرزِفکر کی نشان دہی ہوتی ہے۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ کوئی قوم ملکی معیشت کے تمام شعبوں میں معاشی خودکفالت کے حصول کے لیے دستیاب وسائل کو کتنی ہنرمندی سے استعمال کرتی ہے۔

بدقسمتی سے حکومت کی طرف سے مالی سال ۲۰۰۷ء-۲۰۰۸ء کے لیے پیش کیا گیا بجٹ انتہائی مایوس کن ہے۔ یہ یقینا ایک الیکشن بجٹ ہے جسے کسی بھی لحاظ سے حقیقی معاشی بنیادوں پر تیار کیا گیا بجٹ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے جی ڈی پی میں ۷ فی صد اضافہ کرنے کے علاوہ زرمبادلہ کے ذخائر کو ۱۵ ارب روپے تک پہنچا دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ     یہ کامیابی کہاں تک حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کا ثمرہ اور ان کے مؤثر ہونے کی دلیل ہے اور کہاں تک نائن الیون کے بعد بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کا اپنا سرمایہ پاکستان منتقل کرنے اور پاکستانی حکومت کے امریکا کے آگے ہتھیار ڈالنے کی وجہ سے سیاسی اور معاشی امداد کا نتیجہ ہے۔

عالمی بنک کی جانب سے ترقیاتی اشاریوں کے حالیہ مطالعے میں‘ جو ۱۵ اپریل ۲۰۰۷ء کو جاری کیا گیا ہے‘ قوتِ خرید کے تطابق (parity) کی بنیاد پر پاکستان میں ۱۹۹۹ء سے ۲۰۰۵ء تک جی ڈی پی میں فی کس اضافہ ۶۲ء۴ فی صد رہا‘ جب کہ اسی دورانیے میں دوسرے ترقی پذیر ممالک کی فی کس اوسط اضافہ کچھ اس طرح رہا: فلپائن ۱۷ء۵ فی صد‘ انڈونیشیا ۷۷ء۵ فی صد‘ ترکی ۷۹ء۵ فی صد‘ جب کہ بھارت ۳۲ء۷ فی صد۔ یاد رہے کہ اسی دورانیے میں کم آمدنی والے ممالک میں اوسط فی کس اضافہ ۳۸ء۶ فی صد تھا جو پاکستان میں اس اضافے سے ۳۰ فی صد زیادہ ہے۔ گویا اس حوالے سے حکومتِ پاکستان جو بلندبانگ دعوے کر رہی ہے اس علاقائی تناظر میں اس کا قدکاٹھ بہت ہی کم ہوجاتا ہے۔

حکومت کا ایک اور دعویٰ یہ ہے کہ اس کے دور میں غربت میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے اور کُل آبادی کا ۱۰ فی صد غربت سے نجات پا چکا ہے‘ یعنی اس حکومت سے پہلے ملک کی ۳۴ فی صد آبادی غربت کی حد سے نیچے تھی جو اَب صرف ۲۴ فی صد ہے۔ یہ دعویٰ بھی درست ثابت کرنا مشکل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ خط ِ غربت سے نیچے رہنے والوں میں سے ۳۳ فی صد اس خط کو عبور کرگئے ہیں۔ گویا ہرسال کُل آبادی کا دو سے تین فی صد خط ِ غربت سے اُوپر چلا گیا ہے۔ دیکھا جائے تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ غربت کے خط سے نیچے رہنے والے ۵کروڑ ۲۰ لاکھ افراد میں سے ایک کروڑ ۳۰لاکھ افراد غربت کی گرفت سے نکل گئے ہیں۔ اُسے محض ایک شماریاتی کرشمہ ہی کہا جاسکتا ہے!

زمینی حقائق کیا ہیں؟ کیا یہ حقائق حکومتی دعوؤں کی تصدیق کرتے ہیں؟ خود یہی سروے (پی ایس ایل ایم ۰۵-۲۰۰۴ء) جس کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا گیا ہے‘ اسی میں ایسے شواہد موجود ہیں جو سرکاری دعوؤں کی نفی کرتے ہیں۔ اس سروے رپورٹ کی جلد دوم میں‘ جس میں صوبائی اور ضلعی ڈیٹا کے حوالے سے ص ۴۰۶‘ جدول ۱.۵ میں کہا گیا ہے کہ انٹرویو کیے گئے افراد میں سے ۱۵ء۲۴ فی صد نے کہا کہ وہ ۲۰۰۵ء میں ۲۰۰۱ء کے مقابلے میں کہیں خراب یا بہت زیادہ خراب حالت میں رہ رہے ہیں‘ جب کہ اسی گروپ کے ۵ء۵۱ فی صد لوگوں نے بتایا کہ اس دوران ان کی حالت میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوسکی۔ اس صورت حال کی روشنی میں حکومتی بیان کی قلعی کھل جاتی ہے جس میں انھوں نے غربت کے خط کے نیچے کے ۳۳ فی صد افراد کے غربت سے نکل آنے کا دعویٰ کیا ہے۔ پاکستان میں ’غربت کے خاتمے‘ کے رواں پروگرام سے متعلق ایشیائی ترقیاتی بنک کی تازہ ترین رپورٹ (ورکنگ پیپر نمبر۴‘ ۲۰۰۷ء) میں کہا گیا ہے کہ اس ضمن میں عوام کا تاثر یہ ہے کہ       اس پروگرام کے نتیجے میں (جس میں سوشل ایکشن پروگرام بھی شامل ہے) خصوصاً ملک کے   دیہی علاقوں میں کوئی خوش گوار تبدیلی یا ترقی کے مظاہر نظر نہیں آتے۔

حکومت کا حقائق کو مسخ کر کے اعداد و شمار کو غلط انداز میں پیش کرنا ہرسنجیدہ شہری کے لیے فکروتشویش کا باعث ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بجٹ کی دستاویز اور بجٹ تقریر میں بہت سے واضح تضادات ہیں جو حیرت کا باعث ہیں۔ مثلاً وزیرمملکت براے خزانہ‘ وزیراعظم اور ان کے مشیران کے بقول بجٹ کا کُل حجم ۱۸ کھرب ۷۵ ارب روپے ہے‘ جب کہ بجٹ میں جو مختلف اخراجات کے تخمینے دیے گئے ہیں ان کا میزان ۱۵ کھرب ۹۹ ارب روپے بنتا ہے (خلاصہ بجٹ‘ باب دوم‘ ص ۷)۔ اور اس امر کی وضاحت نہیں کی گئی کہ ۱۸ کھرب والی رقم میں صدیوں کے بجٹ کی رقوم بھی شامل کرلی گئی ہیں تاکہ تاثر یہ ہو کہ تاریخ کا سب سے بڑا بجٹ پیش کیا گیا ہے۔

بجٹ کا سرسری جائزہ لینے سے ہی کم از کم چھے ناکامیوں کی نشان دہی کی جاسکتی ہے:

۱-  ملک کو ادایگیوں اور تجارتی خسارے کے حوالے سے سخت عدم توازن کا سامنا ہے۔ جب ۱۹۹۹ء میں حکومت نے اقتدار سنبھالا تھا‘ اس وقت تجارتی خسارے کا حجم ایک ارب ۷۴ کروڑ ڈالر تھا‘ جب کہ آج سات سال کے عرصے میں یہ ۱۱ ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ بلکہ یہ بھی خدشہ ہے کہ اس خسارے کا اصل حجم ۱۳ ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہوگا۔ اسی طرح ادایگیوں کے خسارے کا حجم ۰۰-۱۹۹۹ء میں ایک ارب ۱۴ کروڑ ڈالر تھا‘ جب کہ یہ خسارہ ۰۳-۲۰۰۲ء یعنی جس سال موجودہ قومی اسمبلی کا انتخاب ہوا مثبت ہوگیا اور ۳ ارب ۱۶کروڑ ڈالر ہوگیا۔ بدقسمتی سے اب‘ یعنی ۲۰۰۷ء میں ادایگیوں کے توازن میں خسارے کا حجم ۶ ارب ۲۰کروڑ ڈالر کی ہوش ربا حد تک ہوچکا ہے جو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ادایگیوں کا خسارہ ہے۔ اس سے زیادہ حیرت اور تشویش کی بات یہ ہے کہ اس بجٹ میں ان دو قسم کے خساروں کو فوری طور پر نیچے لانے کے لیے کوئی حکمت عملی تجویز نہیں کی گئی ہے۔

۲-  معاشی ترقی کو برقرار رکھنے کے لیے معیشت کا اشیا کی پیدایش کے سیکٹر (commoduty sector) میں اضافہ ضروری ہے کیونکہ اسی سے ترقی اور معیشت نمو پاتی ہے۔ اس وقت جس بڑھوتری کو ہم دیکھ رہے ہیں اس کی بنیاد دراصل خدمات کے شعبے اور خارجی عوامل پر ہے۔ جن میں بیرونِ ملک پاکستانیوں کا بھیجا ہوا سرمایہ (جو حکومت کی ملکیت نہیں) اور وہ امداد شامل ہے جو نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے معاوضے کے طور پر امریکی حکومت سے حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرح زراعت کے شعبے میں‘ جو پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے‘ کوئی قابلِ ذکر اور دیرپا معیاری یا مقداری بہتری نہیں ہوئی ہے۔ درحقیقت زراعت کے شعبے کو مسلسل نظرانداز کیاجاتا رہا ہے۔ اس میں پیداوار کی لاگت میں اضافہ ہوا ہے جو اشیاے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کاسبب بنا ہے۔ اسی طرح صنعتی شعبے خصوصاً ٹیکسٹائل کی صنعت سخت عدم توجہی کا شکار رہی ہے جس پر پاکستان کی ۶۰ فی صد سے زیادہ برآمدات کا دارومدار ہے۔ یہ ٹیکسٹائل کے شعبے میں بحران ہی ہے جس کے باعث ہماری برآمدات کافی کم ہوئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اب تیار شدہ مال (جس کی زیادہ قیمت ہوتی ہے) کے بجاے خام روئی برآمد کی جارہی ہے (اس سال ۳ ارب ڈالر کی روئی برآمد ہوئی ہے)۔ اسی طرح بعض دوسری صنعتیں مثلاً چمڑاسازی‘ سرجیکل آلات اور کھیلوں کے سامان کی صنعت بھی بحران کا شکار ہیں۔ ان صنعتوں میں بھی پیداواری اخراجات اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ ان کی مصنوعات عالمی منڈی میں دوسرے ممالک کی مصنوعات کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ حکومت نے ان مسائل کو نظرانداز کردیا ہے۔ اگر ان مسائل سے عہدہ برآ نہیں ہوا گیا تو پاکستان چند ہی سالوں میں ایک غیرصنعتی ملک بھی بن سکتا ہے۔ ۱۱۶ ٹیکسٹائل مِلیں پچھلے دو سال میں بند ہوچکی ہیں۔ کوئی پانچ لاکھ تکلے ساکت ہوگئے ہیں اور لاکھوں افراد کو روزگار سے محروم ہونا پڑا ہے اور زورِخطابت کے باوجود‘ ملک کی سب سے اہم اور نازک پیداوار کے بارے میں بجٹ خاموش ہے۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے اور زندگی کی عام ضروریات بھی پوری کرنا ہرکسی کے بس سے باہر ہے۔ عام شہری اس کی تکلیف دہ گرفت میں ہے۔ اسے دو وقت کی روٹی کا یارا نہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کھانے پینے کی اشیا میں افراطِ زر ۱۰ فی صد‘ جب کہ غیرسرکاری اندازوں کے مطابق ۱۵ سے ۲۰ فی صد ہے۔ شاندار فصلوں (گندم اور چاول) کی موجودگی میں یہ اعدادوشمار عجب لگتے ہیں۔ بجٹ میں جن امدادی اقدامات کا ذکر کیا گیا ہے ان کا شاید آغاز بھی نہ ہوسکے۔ تاریخ شاہد ہے کہ زرتلافی سے بدعنوانی بڑھتی ہے اور اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اس سبسڈی کی جو بظاہر پُرکشش رقم بجٹ میں دی گئی ہے یعنی ۲ کھرب ۱۰ ارب روپے اس میں ۹۰ ارب تو واپڈا اور کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کے لیے ہیں۔ ہم حیران ہیں کہ کھانے پینے کی اشیا کے باب میں دی جانے والی زرتلافی جو ۶ ارب روپے کے لگ بھگ ہے اور دو ڈالر سے کم آمدنی والی آبادی پہ اگر اسے تقسیم کیا جائے تو بمشکل ۷روپے فی کس فی مہینہ آتا ہے۔ ہرشخص سوچ سکتا ہے کہ اتنی ’بڑی رقم‘سے عام آدمی مہنگائی پر کیا قابو پاسکے گا اور اس سے غریبوں کو کیا ریلیف مل سکے گا؟

اس ملک کو ایسی معاشی اور صنعتی پالیسیوں کی ضرورت ہے جو روزمرہ استعمال کی اشیا پر درآمدی ڈیوٹی اور سیل ٹیکس کم کر کے پیداواری اخراجات میں کمی کرے۔ یوٹیلٹی سٹور سے صرف دوفی صد آبادی فائدہ اٹھا سکتی ہے اور یہ دو فی صد بھی صرف غریب افراد نہیں ہوتے۔کسی بھی طرح  یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ افراطِ زر پر ہمیشہ مالیات اور محاصل پالیسیوں کے اشتراک سے ہی قابو پایا جاسکتا ہے جن میں طلب و رسد دونوں کی ایک ساتھ فکر کی جائے‘ جب کہ یہ نہیں کیا جا رہا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس حکومت کے دورِاقتدار میں مہنگائی کا بھوت لوگوں کی خوشیوں کے قتل میں مصروف رہا ہے۔ ۲۰۰۰ء-۱۹۹۹ء میں افراطِ زر کی شرح صرف ۵۸ء۳ فی صد تھی۔ ۰۳-۲۰۰۲ء میں یہ تناسب ۱ء۳ فی صد رہا‘ جب کہ صرف ایک سال میں یعنی ۰۵-۲۰۰۴ء میں یہ ۳ء۹ فی صد تک پہنچ گیا۔ موجودہ اور گذشتہ سالوں کے دوران یہ اوسطاً ۸ فی صد رہا۔ موجودہ بجٹ کسی بھی پہلو سے افراطِ زر جیسے شدید اہم مسئلے کے مختلف پہلوؤں سے سنجیدگی سے نبٹنے میں بُری طرح ناکام رہا ہے۔

۴-  ملک کو جس دوسرے اہم مسئلے کا سامنا ہے‘ اس کا تعلق غربت اور بے روزگاری سے ہے۔ دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یہی حال انسانی وسائل کی ترقی و تربیت‘ افرادی قوت اور تعلیمی منصوبہ بندی کا ہے۔ بجٹ ان کے متعلق بھی بلندبانگ دعوؤں پر مشتمل ہے مگر ان چیلنجوں کا ٍمؤثر طور پر مقابلہ کرنے کے لیے کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ غربت میں کمی اور صحت کی سہولیات کی بڑے پیمانے پر فراہمی کے لیے بڑی رقوم مختص نہیں کی گئی ہیں۔ تعلیم جیسے اہم شعبے کے لیے وسائل کا قحط ہے‘ جب کہ حکومت نے اپنے اخراجات میں اضافہ کیا ہے اور شان و شوکت کی زندگی کا جیسے نشہ ہوگیا ہے۔ ترقیاتی بجٹ پر نظرثانی کرکے ۳۶ ارب تک کم کردیا گیا ہے۔ بجٹ حقیقی ترقی‘ غربت کے خاتمے‘ انسانی وسائل میں بہتری اور معاشرتی فلاح و بہبود کے حوالے سے ایک ناکام بجٹ ہے۔

۵-  پرویز مشرف اور شوکت عزیز کی پالیسیوں نے غریبوں کو غریب تر اور امیروں کو امیر تر کردیا ہے۔ گذشتہ آٹھ برسوں کے دوران یہ فاصلہ شرمناک حد تک بڑھا ہے۔ اکنامک سروے جیسی اہم سرکاری دستاویز میں اعتراف کیا گیا ہے کہ اس وقت اُوپر کے ۲۰ فی صد افراد کے پاس نیچے کے ۲۰فی صد افراد کے مقابلے میں قومی وسائل کا بہائو ۴۰۰ فی صد زیادہ ہے۔ ایک اور تحقیق کے مطابق حکومتی آمدنی میں ۱۰۰ روپے اضافہ ہو تو صرف ۳ روپے نیچے کی ۱۰ فی صد آبادی تک پہنچتے ہیں اور ۳۴ روپے اُوپر کے ۱۰ فی صد تک۔ اسٹاک ایکسچینج اور جایداد (رئیل اسٹیٹ) کے کاروبار میں تیزی جس کے نتیجے میں لوگ لکھ پتی اور کروڑپتی ہوگئے ہیں‘ سٹہ بازی کا مرہونِ منت ہے۔ یہ معاشی پالیسیوں کی خوبیوں کی وجہ سے نہیں ہے۔ ملک میں بڑے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا اشرافیہ طبقہ ڈاکوؤں کے سرداربن چکے ہیں۔ ان پر کوئی ٹیکس نہیں لگتا۔ عام آدمی تمام   براہِ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں کے بوجھ تلے پس رہا ہے اور جو استحصال کرنے والا طبقہ ہے وہ کسی بھی قابلِ ذکر ٹیکس سے مبرا ہے۔ عدمِ مساوات میں غیرمعمولی اضافے کے باعث معاشرہ تقسیم اور پولارائزیشن کا شکار ہوچکا ہے۔ اس خوف ناک صورت حال کا بجٹ میں ذکر تک نہیں ہے۔

۶-  جہاں تک حکومت کے اس دعوے کا تعلق ہے کہ ملک میں مالیاتی ڈسپلن قائم ہوگیا ہے‘ یہ محض ایک افسانہ ہے۔ بجٹ کا خسارہ ۳ کھرب سے زیادہ ہے‘ جب کہ بیرونی اور اندرونی دونوں طرح کے قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہوا ہے۔ پچھلے سات برسوں میں قرضوں کا کُل حجم بڑھ کر ۱۵ کھرب روپے ہوچکا ہے‘ جب کہ قرضوں سے نمٹنے کی سرکاری حکمت عملی مکمل طور پر ناکارہ ثابت ہوئی ہے۔ حکومت کی مالیاتی ناکامی کا ایک اور منہ بولتا ثبوت تقریباً ۴۰ ارب ڈالر کا قومی مقاصد کے لیے مفید استعمال نہ کرنا ہے‘ جس میں ۲۶ ارب ڈالر وہ ہیں جو بیرون ملک پاکستانیوں نے بھیجے ہیں اور ۱۰ سے ۱۲ ارب ڈالر وہ ہیں جو بیرونی امداد کے طور پر وصول کیے گئے ہیں۔ یہ خطیر وسائل سرمایہ کاری میں نہیں گئے‘ زیادہ تر خرچ شان و شوکت کے لیے‘ جایدادوں کی خریدوفروخت میں اور اسٹاک ایکسچینج میں سٹہ بازی کی صورت میں ہوا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ملک کی حالت اس فرد کی سی ہے جو چادر سے زیادہ پائوں پھیلاتا ہے۔ اس سلسلے میں خود حکمرانوں نے بدترین مثالیں قائم کی ہیں۔ غیرپیداواری اخراجات میں غیرمعمولی اضافہ ہوگیا ہے۔ یہی حال مسلح افواج کے بجٹ کا ہے جسے ۰۸-۲۰۰۷ء کے لیے تین کھرب کردیا گیا ہے جو ۱۹۹۹ء کے مقابلے میں ڈھائی گنا زیادہ ہے۔ اس سے معیشت عدمِ توازن کا شکار ہوئی ہے۔ موجودہ حکومت کو حکمت عملی کی ناکامی کے لیے یقینا جواب دہ ہونا پڑے گا۔

آخری بات یہ کہ اس سال ضلعی اور تحصیل حکومتوں کے علاوہ یونین کونسلوں کو جو بے حساب اور غیرمنطقی طور پر زیادہ رقوم فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے‘ یہ دراصل انتخابات میں استعمال کے لیے دی جانے والی سیاسی رشوت ہے۔ یہ عوام کے خون پسینے کی کمائی کا بدترین اور بددیانتی پر مبنی استعمال ہے۔ یہ رقوم صرف سرکاری پارٹی سے متعلق افراد کو دی جارہی ہیں۔

اس تبصرے کے بعد یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ بجٹ (۰۸-۲۰۰۷ء)اس قابل ہے کہ اسے پارلیمنٹیرین بالکل اُسی طرح ایوان سے باہر پھینک دیں جس طرح ۸۷-۱۹۸۰ء کے جناب یٰسین وٹو کی طرف سے پیش کیے گئے بجٹ کے ساتھ ہواتھا۔ اس سال کے بجٹ کا بھی وہی حشر ہونا چاہیے۔ کیا قومی اسمبلی اس ضمن میں اپنا قومی اور اخلاقی فریضہ ادا کرے گی یا وردی والی حکومت کے سامنے سرتسلیم خم کردے گی؟

 

عربی کا مشہور اور بڑا سچا مقولہ ہے کہ ’’عالِم کی موت پورے عالَم کی موت کے مترادف ہے‘‘۔ دنیا میں روشنی علم اور اہلِ علم و تقویٰ کے وجود سے ہے اور زندگی میں سب سے بڑا خسارہ ارباب علم و تقویٰ کی محبت سے محرومی اور ان کے دنیا سے رخصت ہونے کے نتیجے میں رونما ہوتا ہے‘ اور اگر رخصت ہونے والا عالِم شخصی طور پر آپ کا استاد‘ محسن اور مربی بھی ہو تو پھر یہ نقصان اور بھی سِوا ہوجاتا ہے۔ میرے لیے ہی نہیں‘ تحریک اسلامی‘ تحریک اہلِ حدیث اور عالمِ اسلام کے ہزاروں طالبانِ علم کے لیے استاد محترم مولانا عبدالغفارحسنؒ کا ۲۲ مارچ ۲۰۰۷ء کو اس دنیاے فانی سے ابدی زندگی کی طرف کوچ ایک ایسا ہی سانحہ ہے۔ اِنَّا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون۔ اللہ تعالیٰ  ان کی تقریباً ایک صدی پر پھیلی ہوئی دینی‘ علمی‘ دعوتی اور تربیتی خدمات کو قبول فرمائے‘ انھیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے‘ اور جنت میں ان کے درجات کو بلند فرمائے‘ اللھم اغفرلہٗٗ وارحمہٗ۔

مولانا عبدالغفار حسنؒ سے میری پہلی حقیقی ملاقات اس زمانے میں ہوئی جب وہ جماعت اسلامی کے شعبۂ تربیت کے ناظم مقرر ہوئے۔ میں اس وقت جمعیت کے ناظم اعلیٰ کی ذمہ داری   ادا کر رہا تھا۔ یہ صحیح ہے کہ ان کو دیکھنے کا اس سے پہلے بھی بارہا موقع ملا تھا لیکن وہ سرسری سلام و دعا سے زیادہ نہ تھا‘ اس لیے اس کا کوئی خاص نقش دل و دماغ پر نہیں۔ البتہ ۱۹۵۴ء سے ملاقاتوں اور استفادے کا جو سلسلہ شروع ہو وہ میری زندگی کا بڑی قیمتی سرمایہ ہے۔ فطری طور پر جس پہلی ملاقات کا میں ذکر کررہا ہوں اس کا موضوع جمعیت کی تربیت گاہوں میں مولانا عبدالغفار حسنؒ کی شرکت اور ہمارے پورے تربیتی پروگرام کو مرتب کرنے کے لیے ان کے مشورے اور ہدایات تھیں۔ مولانا کے علم اور خصوصیت سے علمِ حدیث کا رعب تو پہلے سے تھا لیکن اس ملاقات کی سب سے نمایاں یاد مولانا کی طبیعت کی سادگی‘ جس پر معصومیت کی چھاپ نمایاں تھی اور غرورعلم کی جگہ کسرنفسی اور  سب سے بڑھ کر طلبہ کے لیے شفقت اور ان کے سارے ہی مطالبات کو بے چوں و چراں تسلیم کرکے دل موہ لینے والی ادا تھی۔مجھے یاد نہیں کہ کبھی ایک بار بھی انھوں نے ہمارے کسی مطالبے کا جواب نفی میں دیا ہو۔

۱۹۵۴ء سے ۱۹۵۶ تک مجھے مولانا مرحوم سے جمعیت کے پروگراموں کے سلسلے میں بارہا ملنے‘ گھنٹوں استفادہ کرنے‘ اور پھر دو روزہ تربیت گاہ سے بڑھ کر ایک ہفتہ اور دس دس دن کی تربیت گاہوں میں ان کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔ بالعموم وہ ہمارے ساتھ ہی قیام فرماتے۔ درسِ حدیث اور اصولِ حدیث تو ان کے خاص موضوع تھے ہی مگر درسِ قرآن اور تربیتی موضوعات پر بھی باقاعدہ تقاریر کے علاوہ انفرادی اور اجتماعی نشستوں میں ہماری رہنمائی فرماتے اور کبھی کسی سوال پر کبیدہ خاطر نہ ہوتے۔ ان کے علم کے ساتھ ان کی سیرت‘ ان کی سادگی اور ان کی شفقت کا ہم سب پر گہرا اثر تھا۔ خرم بھائی [خرم مراد] تو ان کے گرویدہ تھے ہی‘ لیکن ہم سب بھی ان کی شخصیت کے اسیر تھے۔

مولانا عبدالغفار حسنؒ کے جماعت میں آنے کے بعد بہت تھوڑا عرصہ قریبی تعلقات کی سعادت نصیب ہوئی۔ ماچھی گوٹھ میں ان سے کئی بار گفتگو ہوئی اور معاملات کا حل نکالنے کے لیے ملاقاتیں ہوئیں۔ پھر کوٹ شیرسنگھ کی طویل شوریٰ کے دوران جس میں نئے دستور کی تدوین ہوئی برابر ملاقاتیں رہیں۔ بدقسمتی سے اس کے بعد مولانا عبدالغفار حسنؒ جماعت سے مستعفی ہوکر مولانا عبدالرحیم اشرف کے ساتھ فیصل آباد چلے گئے لیکن الحمدللہ اس کے بعد بھی وقتاً فوقتاً ان سے ملنے اور استفادے کا موقع ملتا رہا۔ جب وہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں استاذ حدیث تھے‘ اس زمانے میں مجھے پروفیسر عبدالغفور اور جناب صادق حسین کے ساتھ مسجدنبویؐ میں اعتکاف کی سعادت حاصل ہوئی۔ ہر روز ہی مولانا سے ملاقات ہوتی اور ہم ان سے استفادہ کرتے۔ کئی بار انھوں نے     درسِ قرآن دیا اور ہمارے بہت سے سوالات کا جواب دیا اور اشکال کی گرہ کشائی فرمائی۔

جمعیت کے زمانے میں مولانا سے حدیث کا سبقاً سبقاً درس لینے کا موقع بھی ملا۔ تقریباً ۸۰احادیث ہم نے ان سے پڑھیں اور کمالِ شفقت سے ایک بار تربیت گاہ کے آخری پروگرام میں فرمایا کہ حدیث کی روایت کے سلسلے کی آخری کڑی وہ خود ہیں۔یعنی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے نسلاً بعد نسل ۲۴ سلسلوں سے‘ وہ چند احادیث جن کا انھوں نے ہمیں درس دیا ہے‘ بلافصل ہم تک بھی پہنچ گئی ہیں اور اس طرح مولانا عبدالغفار حسن کے توسط سے ہم بھی وہ خوش نصیب ہیں جو اپنی ساری کمزوریوں اور محرومیوں کے باوجود اس ذہبی سلسلہ سے مربوط ہوگئے ہیں۔ اس وقت مولانا کے اس فیض خاص پر ہم سب پھولے نہیں سمائے۔ بعد میں ان کی کتاب عظمتِ حدیث میں روایت کے اس پورے سلسلے کو دیکھا تو اور بھی خوشی ہوئی کہ اس طرح ہم کو بھی مولانا کے توسط اور ان کی شاگردی کی نسبت سے اس سلسلے کا دامن تھامنے کی سعادت نصیب ہوئی۔

مولانا عبدالغفار حسنؒ کی پیدایش ۲۰جولائی ۱۹۱۳ء کو ضلع رہتک (مشرقی پنجاب) میں ہوئی۔ انھوں نے دارالحدیث رحمانیہ دہلی سے درس نظامی کی تکمیل اور دورہ حدیث کیا۔ پھر لکھنؤ یونی ورسٹی سے ۱۹۳۵ء میں فاضل ادب عربی اور ۱۹۴۰ء میں پنجاب یونی ورسٹی سے مولوی فاضل کی سندات حاصل کیں۔ دارالحدیث رحمانیہ دہلی‘ مدرسہ رحمانیہ بنارس اور مدرسہ کوثرالعلم مالیرکوٹلہ میں  درس وتدریس کی خدمات انجام دیں۔

ترجمان القرآن کے ذریعے مولانا مودودیؒ سے تعلق قائم ہوا اور ۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی قائم ہوئی تو گو تاسیسی اجلاس میں شریک نہ ہوسکے مگر خط کے ذریعے تاسیسی ارکان میں شامل ہوئے۔ ۱۹۴۸ء میں پاکستان ہجرت کی۔ کچھ عرصہ راولپنڈی میں جماعت کی تربیت گاہ میں تدریس کے فرائض انجام دیے۔ مولانا مودودیؒ کی پہلی گرفتاری کے موقع پر ایک ماہ کے لیے قائم مقام امیرجماعت کی ذمہ داری ادا کی۔ اس کے بعد بھی دو بار قائم مقام امیرجماعت کی حیثیت سے تحریک کی خدمت اور قیادت کی۔ ۱۹۴۳ء سے مرکزی شوریٰ کے رکن رہے اور ۱۹۵۷ء تک جماعت سے وابستہ رہے۔ طریق کار کے بارے میں کچھ اختلاف اور انتخابی سیاست سے اصولی بے زاری کے سبب جماعت سے الگ ہوئے لیکن جماعت کے مقصد‘ یعنی اقامتِ دین کے باب میں کبھی کسی تحفظ کا اظہار نہیں کیا۔ جماعت کے اور خصوصیت سے مولانا مودودیؒ کے علمی کام کے ہمیشہ معترف رہے اور کلمۂ خیر کہتے رہے۔ یہ بھی ایک اہم حقیقت ہے جماعت جمعیت کے بعد بھی وہ اپنے انداز میں اسی مقصد کی خدمت میں آخری وقت تک مصروف رہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انھوں نے اپنے لیے درس و تدریس کا راستہ اختیار کیا۔ فیصل آباد میں جامعہ تعلیمات اسلامیہ اور مدینہ یونی ورسٹی میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل میں نوسال رہنمائی کے فرائض انجام دیے۔ تحریک ختم نبوت کے دوران ۱۱ ماہ سنت یوسفی ادا کرنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی اور جیل میں بھی درس و تدریس اور دعوت و تبلیغ کا اس طرح اہتمام کیا کہ جیل مدرسہ میں تبدیل ہوگیا۔

مولانا عبدالغفار حسنؒ کی زندگی بڑی سادہ اور پاک صاف تھی۔ وہ سلف کا نمونہ تھے اور انھیں دیکھ کر اور ان سے گفتگو کرکے ایمان میں اضافہ ہوتا تھا۔ ان کی حکمت بھری مگر بڑی آسان‘ ہلکی پھلکی اور دل نشین باتیں دل پر نقش ہوجاتی تھیں۔ توازن اور میانہ روی مولانا کی زندگی کا شعار تھی۔ کتاب ان کا اوڑھنا بچھونا تھی۔ دنیا سے ان کو بس اتنی دل چسپی تھی جتنی روح اور بدن کے رشتے کو باقی رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ دنیا کو خدا کے دین کے مطابق بدلنے کے لیے جس جدوجہد اور کوشش کی ضرورت ہے‘ وہ ان کی زندگی کا مشن تھا۔ میرا پہلا اور اصل رشتہ تو ان سے شاگردی اور تحریکی رفاقت کا تھا لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے میرے مقدر میں یہ خوشی بھی لکھی ہوئی تھی کہ ان کے پوتے ڈاکٹر اسامہ حسن کا عقد میری بیٹی سلمیٰ سے ہوا اور اس طرح ہمارے خاندانوں میں بھی ارتباط کی ایک اور خوش گوار صورت پیدا ہوگئی۔

یہ مولانا عبدالغفار حسنؒ کی خوش نصیبی ہے کہ ان کے خاندان میں کم از کم پانچ پشتوں تک علم کی شمع بلافصل روشن رہی ہے۔ ان کے دادا مولانا عبدالجبار عمرپوری بڑے جیدعالمِ دین اور استادعصر تھے۔ ان کے والد مولانا حافظ عبدالستار عمرپوری کم عمری کے باوجود علمی دنیا میں نام پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ مولانا عبدالغفار حسنؒ خود اپنے عصر کے اہلِ علم و تقویٰ میں اُونچا مقام رکھتے ہیں اور ان کے صاحبزادے خصوصیت سے ڈاکٹر صہیب حسن‘ ڈاکٹر سہیل حسن اپنے اپنے میدان میں علم کی شمعیں روشن کیے ہوئے ہیں۔ ان کا پوتا ڈاکٹراسامہ حسن انگلستان کی ایک     یونی ورسٹی میں انفارمیشن ٹکنالوجی کا استاد ہے۔ وہ بھی‘ الحمدللہ علم دین کے حصول اور دعوت و تبلیغ کے میدان میں سرگرم ہے۔ یہ اللہ کا بڑا فضل اور انعام ہے جس پر جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے‘ذٰلک فضل اللّٰہ یؤتی من یشاء۔

 

حسن البنا شہید سے میرے تعلق کی بنیاد بڑی منفرد ہے۔وہ اسلامی تاریخ کی ان چند مرکزی شخصیات میں سے ہیں جن سے ملاقات نہ کرنے کی حسرت ہمیشہ رہے گی۔ مجھے اپنے بچپن میں مولانا ابولکلام آزاد،مولانا حسرت موہانی، مولانا شوکت علی اورعلامہ محمد اسد کو دیکھنے کا     موقع ملا۔مگر مولانا محمد علی جوہر اورعلامہ محمد اقبال دوایسی شخصیات ہیں جن کو نہ دیکھنے کا قلق رہاہے۔ اس تسلسل میں جس تیسری شخصیت کو دیکھنے کی تمنا، خواہش اور شوق رہا،وہ حسن البنا شہید تھے۔

حسن البنا کی شخصیت میں ایک غیر معمولی سحرانگیزی (charisma)  اور دل کش جاذبیت کا امتزاج نظر آتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے حسن البنا کے قالب میں ایک ایسی بے چین روح ہے، جو اپنے رب کی خوش نودی حاصل کرنے، اس کی مرضی و ہدایت کی روشنی میں دنیا کو بدل ڈالنے اور اسے مالک و خالق کی اطاعت میں لانے کے لیے ہر آن سرگرداں اورمضطرب ہے۔ یہ کیفیت ان کے بچپن سے لے کر جوانی اور پھر شہادت کے لمحات تک موجزن نظر آتی ہے۔ مجھے بے شمار مفکرین کو پڑھنے، استفادہ کرنے،اوربہت سے اہلِ دل سے ملنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی ہے۔ لیکن جو کرشماتی کیفیت حسن البنا شہید کی زندگی،ان کے روزوشب اور ان کے مکالمات ومعاملات میں نظر آتی ہے،اوروہ بھی نہایت فراوانی کے ساتھ، وہ کہیں اور نہیں ملتی۔ اسی لیے مجھے ایسی دل آویز شخصیت کونہ مل سکنے پر احساس تاسف ہمیشہ رہے گا۔

اخوان کے تیسرے مرشد عام جناب عمر تلمسانی مرحوم سے لے کر موجودہ مرشد عام محمدمہدی عاکف تک سبھی سے مجھے ملنے کا شرف حاصل ہے۔ کچھ سے تو خاصی قربت بھی رہی ہے، جیسے جناب استاد مصطفی مشہوراور جناب مامون الہضیبی۔مامون الہضیبی کے والد حسن الہضیبی جو حسن البنا مرحوم کے بعد دو سرے مرشد عام تھے ، ان سے ملاقات تو نہیں ہوئی،البتہ خط و کتابت کی سعادت حاصل ضرور ہوئی۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے دور میںانھوں نے اپنی تحریروں سے بھی نوازا۔ان مواقع کے باوجود حسن البنا جیسے عبقری قائدسے ملنے کے شوق اور نہ مل سکنے کی حسرت اپنی جگہ موجودہے۔انسان کسی عظیم شخصیت سے ملاقات میں کچھ حاصل کرتاہے یا کچھ حاصل نہیں کرپاتا،یہ دوسری بات ہے، لیکن ایسے پاک طینت اشخاص اور اہل اللہ کو دیکھنا اور ان کی مجالس میں بیٹھنا بھی روحانی تعلیم و تربیت کے زمرے میں آتا ہے۔ اس اعتراف حقیقت کے ساتھ ساتھ  ایک اور اعتراف بھی شاید بے محل نہ ہو۔ مجھ جیسے عقلیت زدہ انسان پر بھی یہ کیفیت باربار گزری ہے کہ حسن البنا شہید کو اپنے قریب پایا ہے۔ ان سے صحبت اور بالمشافہہ استفادے کے باب میں محرومی کے باوجود ان سے ایک ایسی نسبت زندگی بھر محسوس کی ہے جسے روحانی ملاقات کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ یہ ایک روحانی تجربہ ہے یا محض اپنی خواہشات کی تسکین کہ بارہا زندگی میں ان سے قربت اور ان کے حلقۂ مریداں میں شرکت کی لذت محسوس ہوئی ہے۔ یہ اللہ کا فضل اور ان کی طلسماتی شخصیت کا کرشمہ ہے۔

  •  پھلا تعارف:حسن البنا شہید کی داستانِ حیات، مقصدِ زندگی اور دعوتی و تحریکی خدمات کے بارے میں ہماری معلومات کا ذریعہ برادرم سعید رمضان مرحوم ہیں۔ سعید رمضان، حسن البنا شہید کے نہایت قریب اور معتمدعلیہ تھے۔ حسن البنا، رسالہ الشہاب نکالتے تھے، جس کی ادارت میں سعیدرمضان کا اہم کردار تھا۔ وہ نہایت ذہین، صاحب علم اوردعوت کو سمجھنے والی بھرپور شخصیت کے مالک تھے۔ مجھے ،خرم بھائی [خرم مراد] اور راجا بھائی [ظفراسحاق انصاری] کو ان سے ملنے اور ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کا شب و روز موقع ملا۔ اس طرح ہم بڑے خوش نصیب تھے کہ ہمیں ان کے بہت ہی قریبی ساتھی اور نوجوان شاگرد کے ذریعے، جو بعد میں ان کے داماد بنے،حسن البنا کی شخصیت اوران کی فکر، اخوان کی دعوت، اخوان کے نظام تربیت اور اجتماعی جدوجہد کے اسلوب سے واقفیت ہوئی۔ اسی طرح امام حسن البنا کے بیٹے سیف الاسلام اور نواسے ڈاکٹر طارق رمضان بن سعید رمضان سے بھی ہمیں ان کے حالات جاننے کا موقع ملا۔

سعید رمضان دسمبر ۱۹۴۸ء میں پاکستان آئے اور پھر فروری ۱۹۴۹ء میں امام حسن البنا کی شہادت کے بعد کچھ عرصہ کے لیے یہیں مقیم ہوئے۔ ۱۹۵۰ء میں وہ عرب دنیا میں پاکستان کو متعارف کروانے کے لیے گئے اور پھر ۱۹۵۱ء کی مؤتمر عالم اسلامی کی دوسری کانفرنس میں شریک ہوئے، اور اس کے معتمدعام دوم منتخب ہوئے۔ کانفرنس میںسعید رمضان کی تقریر مسحور کن تھی۔   اﷲ تعالیٰ نے انھیں تقریر کا غیر معمولی ملکہ عطاکیاتھا۔ عربی میں تو وہ قادر الکلام تھے ہی ،لیکن انگریزی پر مکمل دسترس نہ رکھنے کے باوجود، ان کے اظہار بیان میں تاثیر کچھ کم نہ تھی۔فکر و جذبات کا جو مؤثر اظہار ان کی خطابت میں تھا، وہ قابل رشک تھا۔ خاص طور پر نوجوانوں کو وہ مسحور کرنے اور عمل پر اُبھارنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے۔

پاکستان میں ان کے قیام کے دوران میں ہی چونکہ اخوان المسلمون پر پابندی لگا دی گئی تھی اور امام حسن البنا شہید کر دیے گئے تھے،اس لیے وہ یہیں ٹھیرگئے۔ آرام باغ،کراچی میں ایک فلیٹ انھوں نے کرایے پر لے لیا تھا۔یہ فلیٹ ہماری ملاقاتوں کا مرکز بن گیا تھا۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہوگا کہ ہم ان سے نہ ملتے ہوں۔ مولانا ظفر احمد انصاری مرحوم و مغفور سے جو راجا بھائی کے والد محترم اور تحریک پاکستان کے اہم قائد تھے، ان سے سعید رمضان کا غیرمعمولی تعلق خاطر تھا۔ وہ مولانا انصاری صاحب سے باپ کی طرح محبت کرتے تھے اور انصاری صاحب، سعید رمضان سے اپنے بیٹوں کی طرح محبت کرتے تھے۔ پاکستان میں قیام کے زمانے میں انھوں نے خود کو مختلف مفید کاموں میں مشغول رکھا‘ اور خاص طور پرکراچی کے نوجوانوں کو اسلامی مقاصد کے لیے سرگرم عمل کرنے میں کوشاں رہے۔ انھوں نے ان کی اچھی خاصی تعداد میں ایک نئی روح پھونک دی۔ ریڈیو پاکستان سے اسلام اور قرآن پر عربی تقاریر کا سلسلہ شروع کیا جو عرب دنیا میں بہت مقبول ہوا۔

  •  فکر اور قلب کا راستہ: اخوان اور حسن البنا شہید سے ہم جس راستے سے روشناس ہوئے وہ کتابی راستہ نہیں تھا۔ مولانا مودودی، میرے والدگرامی نذیر احمد قریشی مرحوم کے گہرے دوست تھے۔اس مناسبت سے مجھے مولانامودودی کو دیکھنے کی سعادت تو ۱۹۳۸ء میں حاصل ہو گئی تھی، البتہ مولانامودودی تک رسائی ان کی کتابوں ہی کے ذریعے ممکن ہوسکی۔ اس کے برعکس حسن البنا اور اخوان تک رسائی ان افراد کے ذریعے ہوئی، جنھیں حسن البنا شہیدنے تیار کیاتھا۔ دونوں کے درمیان یہ ایک بڑی وجۂ امتیاز ہے کہ مولانا مودودی فکر اور دماغ کے راستے، اور حسن البنا قلب اور روح کے راستے انسانوں کی زندگیوں میں داخل اور ان کی قلب ماہیت کرنے کا کارنامہ انجام دیتے ہیں۔ خود میری زندگی میں بھی یہ دونوں انھی راستوں سے داخل ہوئے،اور آج تک فکراور قلب میں سمائے ہوئے ہیں۔

مولانا مودودی تحریر و تقریر میں ممتاز، اعلیٰ درجے کے منتظم ، بلندپایہ مدبراور تحریک کے قائد تھے۔ اس طرح تحریک میںہر حیثیت سے ان کا کردار بڑا نمایا ں رہا ہے۔یہ اوصاف اپنی جگہ بڑی مرکزیت رکھتے ہیں، تاہم مولانا محترم کی شخصیت کا سب سے زیادہ غالب پہلو، ان کی فکر، ان کی تحریر اور وہ عظیم الشان لٹریچر ہے، جس نے افراد کے دل و دماغ میں طوفان بپا کیا اور ایک پوری نسل کی زندگی کا رخ بدل کر رکھ دیا۔ اسی طرح اگرچہ حسن البنا شہید کی تقاریراور کتابیں بھی ہیں اور  علمی اور عملی ہردو اعتبار سے ان کا بڑا بلند مقام بھی ہے، لیکن ان سب اوصاف کے ساتھ حسن البنا کا نمایاں ترین وصف انسان سازی ہے۔ ان کا بلند ترین کارنامہ روح سے روح کا اتصال ہے۔بلاشبہہ اس میں دلیل کی قوت کے ساتھ عقل کو اپیل بھی شامل ہے، لیکن ان کی شخصیت، ان کی دعوت اور ان کی تحریک کا اصل ہدف انسان کا قلب ہے۔ ان کی تقریروں کو پڑھتے وقت احساس ہوتا ہے کہ :ان کی زبان کے ساتھ ان کی روح بھی بولتی تھی۔ ان کے اس خاص اسلوب اور  اثر انگیزی کو روحانی ٹیلی پیتھی (spiritual telepathy)یا خیال رسائی کہا جاسکتا ہے۔

 اخوان المسلمون پر لکھا وسیع لٹریچر مجھے پڑھنے کا موقع ملا ہے۔ اخوان سے وابستہ اہل قلم نے بڑی مفیدذاتی یادداشتیں تحریر کی ہیں۔ یہ یادداشتیں نہ صرف تاریخی اعتبار سے، بلکہ فکری موضوعات کے لحاظ سے بھی معاصر اسلامی ادب کانہایت قیمتی سرمایہ ہیں ۔ اس تحریری لوازمے سے استفادے کے باوجود حسن البنا اور اخوان کو سمجھنے کے لیے جو چیزسب سے زیادہ پُرکشش ذریعہ رہی، وہ اخوان کے قائدین کی گفتگوئیں اور ان کے ساتھ زندگی گزارنے کے وہ مواقع ہیں جو مجھے حاصل ہوئے۔ اس طرح ان سے کتابی سے زیادہ قلبی رشتہ قائم ہوا۔

  •  ایک سحرانگیز شخصیت: اس تناظر میں میرے دل و دماغ پرحسن البنا شہید کی جس چیز کا سب سے زیادہ اثر ہے، وہ ان کی مسحورکن شخصیت ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ   ایک ایسی پاک روح ہے جسے دیکھ کر اﷲ کی یاد انسان کے دل میں اُترجائے اور ایمان میں   حرارت و حلاوت محسوس ہو۔ امام حسن البناکی آپ بیتی یا دعوتی سفر کی یادداشتوں (مُذَکّرات)کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیسی شخصیت کے حامل انسان تھے۔ انھیں پڑھتے ہوئے یہ منظر سامنے آتا ہے کہ چھے سات سال کی عمر کے بچے کا دل دینی جذبات کا اُمنڈتا ہوا سرچشمہ ہے۔  پھر یہی بچہ ۱۷‘۱۸ سال کی عمر کو پہنچتے پہنچتے قاہرہ اور اسکندریہ کے ریستورانوں، قہوہ خانوں اور  سماجی محفلوں میں، تفریحی مقامات اور مختلف لوگوں سے مذاکرات تک میں، ہر جگہ ایک ایسی بے چین روح اور محبوب شخصیت کی صورت میں نظر آتا ہے، جو اپنے مالک سے محبت اور تعلق خاطر کی لذت سے سرشار ہے۔مگر اس شخصیت کا اس سے بھی زیادہ خوب صورت پہلویہ ہے کہ وہ نیکی اور پاکیزگی، کامیابی اور ابدی کامرانی کی اس لذت کو اپنی ذات تک محدود کرنے کے روایتی تصور کو نہیں اپناتی،بلکہ یہ مضطرب روح، اﷲ کے بندوں کو، اللہ کے غضب سے بچانے اور رب کی بندگی میں لانے کے لیے سرگرم و کوشاں ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس نے ۲۱ سال کے اندر مصر کا ہی نہیں،بلکہ عالم عرب کا پورا فکری نقشہ بدل دیا اور دنیا میں ایک تہلکہ سامچادیا۔

۱۹۲۸ء میں، اسماعیلیہ کے مقام پر منظم انداز سے دعوت کا آغاز کرنے والے حسن البنا نے  ۱۹۴۹ء میں جام شہادت نوش کیا۔ ان کی شہادت کے وقت پورے مصر میں اخوان کے لاکھوں وابستگان تھے اور ۲ہزارسے زیادہ شاخیں تھیں،جب کہ صرف قاہرہ میں ۲۰۰ تنظیمی حلقے تھے۔ امام البنامہینے میں ۲۰‘۲۲دن سفرپر رہتے تھے۔ شہر شہر، قریہ قریہ لوگوں سے ملتے اور ان سے مخاطب ہوتے تھے۔کنواںخود پیاسوں کے پاس پہنچتا،رات دن کی پروا کیے بغیر،نیند اورتھکن کو خاطرمیں لائے بغیر،قلب وروح کے دروازوںپر دستک دینے والے اس محسن کا نام حسن البنا تھا۔ جن دنوں وہ سفر میں نہیں ہوتے تھے، ان دنوں جہاں کہیں بھی ان کا مستقرہوتا،وہ وہیں پر دعوتی سرگرمیوں میں مصروف رہتے تھے۔ کوئی مسجد،محلہ حتیٰ کہ وہ جگہیں بھی جنھیں لوگ بالعموم اہل تقویٰ کے لیے کوئی بہت اچھی جگہ نہیں سمجھتے،مثلاکلب،عام ریستوران، اور ایسے ریستوران بھی جہاں نغمہ وسرود کی محفلیں برپا ہوتیں،وہ وہاں جاپہنچتے۔ ان جگہوں پر بھی بلامبالغہ ان کو بڑی عزت سے دیکھا جاتا تھا۔حسن البنا نے کوئی جگہ نہیں چھوڑی جہاں انھوں نے مقدور بھر شہادت حق کا فریضہ ادا نہ کیا ہو۔ وہ لوگ جو ان سے اختلاف کرتے تھے، وہ بھی ان کی روحانیت، ان کی ربانیت، ان کے اخلاص اور مقصد سے ان کی والہانہ وابستگی کی مٹھاس کومحسوس کرتے تھے اوربے اختیار احترام کرتے تھے۔   یہ کیفیت آج تک موجود ہے۔ان کی شخصیت کایہی وہ طلسماتی پہلو ہے،جس سے ارباب اقتداراور عالمی سامراج خوف زدہ تھے،اور ان کو اپنے عزائم کے حصول کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے۔

سعید رمضان مرحوم نے اپنی اہلیہ جو امام شہید کی صاحبزادی ہیں، کی تربیت کے حوالے سے مجھے بتایا کہ اس گھرانے پر اللہ تعالیٰ کی کتنی رحمت ہے۔یہ خاتون عبادت ،سخاوت اوروفاشعاری کا بہترین نمونہ ہیں۔سعید رمضان پر آزمایش اور بیماری کے بڑے سخت دور گزرے ہیں۔ مگر اللہ کی اس بندی نے اولاد کی بہترین تربیت کی اور شوہر کو بھی سہارا دیا۔ اس حسن تربیت کی ایک مثال ان کے صاحبزادے طارق رمضان کا اپنے والد کے قریبی دوستوں سے احترام کا رویہ ہے۔ وہ مجھ سے ہمیشہ اس احترام سے پیش آئے،جو ایک اچھے مسلم معاشرے میں باپ کے ایک قریبی ساتھی کا حق سمجھاجاتا ہے ۔ضمناً عرض ہے کہ طارق رمضان کا پی ایچ ڈی کامقالہ حسن البنا، یعنی اپنے نانا پر ہے،جوفرانسیسی زبان میں ہے ۔افسوس ہے کہ ابھی تک اس کا ترجمہ شائع نہیں ہوا۔

  •  اصل کارنامہ :۲۰ویں صدی کے آغاز میں اُمت مسلمہ زبوں حالی اور غلامی کے جس مقام پر پہنچ چکی تھی، اس میں امت مسلمہ خاص طور پر عرب دنیا کو دوبارہ حقیقی وژن دینا حسن البنا شہید اور اخوان کا بڑا کارنامہ ہے۔ اس کو اپنا حقیقی مشن یاد دلانا،امت میں خود اعتمادی کی کمی کا جو بحران پیدا ہوگیا تھا، اس بحران سے نکالنا۔ پھراس مشن کو حاصل کرنے کے لیے امنگ، پروگرام، تنظیم اور تحریک فراہم کرنا، یہ عظیم کارنامہ ہے،جس میں حسن البنا شہید کا کردار کلیدی اور فیصلہ کن ہے۔ مولانا مودودی نے جو کام برعظیم پاک و ہند میں کیا، وہی کام ایک مؤثر انداز میں حسن البنا شہید اور ان کے ساتھیوں نے عرب دنیا میں انجام دیا ۔ آج عالمی اسلامی احیاکی لہرکو اس مقام تک پہنچانے کا سہرا اﷲ کی توفیق اور فضل سے بنیادی طور پر انھی دو شخصیات کے سر ہے۔ بلاشبہہ اس میں علامہ محمداقبال کا بھی ایک اہم کردار ہے ،لیکن اس کا دائرہ فکری ہے،جب کہ دعوت،تنظیم،تربیت اور لائحہ عمل   انھی دو شخصیات سے منسوب ہے۔

للہیت اور درویشی حسن البنا شہید کی شخصیت کے غالب ترین پہلو ہیں۔ دعوت کی تڑپ اور وہ لگن کہ جس کا اظہار انھوں نے بچپن سے لے کر شہادت تک کیا، زندگی کا حصہ بننا ہے۔ اسی طرح ان کے ہاں اسلام کا تصور بہت صاف اور ہمہ گیر ہے۔ان کے نزدیک فرد، معاشرے، ریاست اور تاریخ کے لیے اسلام ہی ایک دعوت انقلاب ہے۔ گویا کہ اﷲ کی بندگی کی بنیاد پر زندگی کے پورے نظام کی تعمیر اور انسان کو خلافت کا جو منصب دیا گیا ہے، اس کے تقاضوں کو ہر سطح پر، انفرادی اور اجتماعی طور پر پورا کرنا زندگی کا لائحہ عمل ہے۔

اس وژن اور تصور میں مجھے ان کے ہاں تین اور خوبیاں نمایاں نظر آتی ہیں، اوّل:  بندے کا رب سے مضبوط تعلق، پھر بندوں کا بندوں سے ہمدردی ،وقار،اوربے لوثی پر مبنی تعلق۔ انھوں نے اس پہلو کو بہت مرکزی حیثیت و اہمیت دی۔ دوم: اجتماعیت ہے۔اس کے لیے انھوں نے چار اصطلاحیں استعمال کی ہیں: پہلی: مسلمان خاندان(اسرہ)، دوسری مسلمان معاشرہ (مجتمع یا سول سوسائٹی)،تیسری: مسلمان مملکت( دولۃ یااسٹیٹ)، اور چوتھی: عالمگیر اسلامی امہ،اور اس میں انھوں نے عرب قومیت اور اسلامی قومیت کو گڈ مڈ کرنے کی ٹھوکر نہیں کھائی۔ انھوں نے جہاں عربیت اور عربی قومیت کو اسلامی قومیت کا حصہ اور اسے قوس قزح کے رنگوں میں سے ایک رنگ قرار دیا ہے، وہیں انھوں نے عربی قومیت کوطاغوت نہیں بننے دیا،بلکہ اسے اسلامی معاشرے کا نمایاںاور روشن حصہ بنایا ہے۔ تیسرا یہ ہے کہ انھوں نے انفرادی انقلاب کو جو فرد کے اندر پیدا ہو تا ہے،اور اجتماعی انقلاب جو فرد کے ذریعے سوسائٹی میں رُو پذیر ہوتا ہے، ان کا آپس میں مضبوط بندھن قائم کیاہے،اور اس چیز کو اداراتی سطح پر منظم کیا ہے۔

سعید رمضان نے ہمیں ایک واقعہ یہ سنایا تھا،کہ اخوان کے کسی ساتھی سے کوئی غلط کام ہوگیا،جس پر معذرت کی غرض سے وہ امام حسن البنا کے پاس ایک سوا گھنٹہ رہا، لیکن انھوں نے اس ساتھی کو یہ موقع ہی نہیں دیا کہ وہ معذرت کر سکے۔ وہ پیاراور محبت سے ساتھی کی دل جوئی کرتے رہے کہ اس کو یہ ہمت نہیں ہوسکی کہ وہ معذرت کے الفاظ زبان پر لاسکے،حالانکہ امام شہید کو      یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ ساتھی معذرت کرنے کے لیے ہی آیا ہے۔اسی طرح بعض نوجوان ان کے پاس آتے اور خلافِ شرع چیزیں، مثلاً سونے کی انگوٹھی وغیرہ پہنے ہوتے، توحسن البنا ان کو      نہ ٹوکتے۔ لیکن تھوڑے ہی دن کی صحبت کے نتیجے میں ان کی انگوٹھی بغیر کچھ کہے اُتر جاتی تھی۔

ہمارے اخوان سے تعلق کا ایک اہم حوالہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے صرف جماعت اسلامی کو ہی نہیں، بلکہ پاکستان کو اور پاکستان کے تصور کو بھی عالم عرب میں پورے شعور کے ساتھ سمجھا اور پوری دل جمعی سے سمجھایا ۔ یہ سلسلہ ۱۹۴۶ء سے شروع ہو جاتا ہے ،جب قائداعظم [۱۸۷۶ء-۱۹۴۸ء] اور حسن البنا شہید کی ملاقات ہوئی تھی۔ اس طرح عالم عربی میں اخوان، پاکستان کے سب سے بڑے ہم نوا تھے۔ پاکستان بننے پر انھوںنے مصر بھرمیں پاکستان کا جشن استقلال منایا۔سعید رمضان نے تو قیام پاکستان کے بعد ۱۹۵۰ء میں بہت سے مسلم ممالک خاص طور پر عرب ممالک کے طول وعرض کا دورہ کرکے پاکستان کے تصور کی وضاحت کی تھی۔

  •  اخوان کے گھرے اثرات: مجھے کئی بار مصر جانے کا موقع ملا ہے۔ اس میں وہ زمانہ بھی شامل ہے کہ جب شدید گھٹن اورسخت آمرانہ گرفت کا دور دورہ تھا اور کسی کے لیے اف تک کرنے کی گنجایش نہیں تھی ۔ان دنوں میں بھی مجھے ہوٹلوںکے خدمت گار ملازمین (ویٹرز) تک نے اخوان اور حسن البنا کے بارے میںاپنے والہانہ جذبات سے آگاہ کیا۔

۱۹۵۴ء میں، مصر کے فوجی آمر مطلق ناصر کا دورِ عروج تھا اور ناصر کی مطلق العنانی جنون کی حدوں کو چھو رہی تھی۔ کوئی فرد اس کے خلاف دبی زبان میں بھی بات نہیں کرسکتا تھا۔ اخوان پر پابندی تھی، اس کے ہزاروںکارکنان گرفتار تھے۔ دسمبر ۱۹۵۴ء میں جب میں جمعیت میں تھا،   ایک روز خبریں سنتے ہوئے معلوم ہواکہ مجاہد کبیر شیخ محمد فرغلی سمیت اخوان کے چھے رہنماؤں[عبد القادر عودہ ،یوسف طلعت،ابراہیم طیب،محمود عبداللطیف،ہنداوی دویر] کو پھانسی دے دی گئی ہے ۔  یہ خبر ہمارے لیے گہرے صدمے کا باعث بنی ۔اس موقع پر ہم نے کراچی میں بھرپور احتجاج کیا ۔

اسی زمانے میںانٹرنیشنل اسمبلی آف مسلم یوتھ (IAMY) کی ایک کانفرنس کراچی میں منعقد ہوئی تھی،جس میں مصرکا سرکاری وفد شرکت کے لیے آیاتھا۔اس وفدکے سربراہ مصری فوج کے ایک کرنل تھے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کی طرف سے ہم نے اس کانفرنس میں، اس ظلم وزیادتی کے خلاف بھرپوراحتجاج کیا۔ اسی مناسبت سے ایک بڑا مؤثر دو ورقہ (پمفلٹ )راجا بھائی اورمیں نے انگریزی میں تیار کیا تھا: WHY OPPRESSION ON MUSLIM BROTHERHOOD? [اخوان المسلمون پر ظلم کیوں؟]__ جسے ہم چھپوا کر اور چھپا کر کانفرنس ہال میںلے جانے میں کامیاب ہوگئے۔ جوں ہی پاکستان کے وزیراعظم محمد علی بوگرا کانفرنس کا افتتاح کرنے کے لیے ہوٹل میٹروپول کے پنڈال میں داخل ہوئے، اس دو ورقے کی ایک کاپی انھیں دی گئی۔ اسی لمحے مختلف جگہوںپر کھڑے جمعیت کے ساتھیوں نے بڑے منظم انداز سے تمام قطاروں میں ہر شخص تک یہ پمفلٹ پہنچا دیا۔ اس واقعے سے پوری کانفرنس میں تہلکہ سا مچ گیا۔مصرکے سرکاری وفد کوتوگویاآگ لگ گئی،اور ادھرہماری حکومت حرکت میں آگئی۔میں جمعیت کے ناظم اعلیٰ کی حیثیت سے اس کانفرنس میں شریک تھا۔ خرم بھائی نے مصری وفد کے سربراہ کی تقریر کے دوران ہال میں کھڑے ہوکر ،اسے مخاطب کرکے کہا: تمھارے ہاتھ اخوان المسلمون کے راہ نماؤں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، تم قاتلوں کے ساتھی ہو۔

اس کشیدہ صورت حال کے باوجود، مصرکے سرکاری وفد میںشامل ایک نوجوان طالب علم بڑی خاموشی سے آکر ہمیں ملا اور اس نے کہا کہ:’’میں دل و جان سے اخوان کا ہمدرد ہوں۔ آپ لوگوں نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر جو اقدام کیا ہے، وہ حق پر مبنی ہے۔میںاپنے ہزاروں مظلوم ساتھیوں کی طرف سے آپ کا شکریہ اداکرتا ہوں‘‘۔

دراصل عوامی سطح پر جولوگ اخوان کے گرویدہ ہیں، وہ تو گرویدہ ہیں ہی،مگر جو اس تحریک سے باہر ہیں، میںنے ان پربھی اخوان کابے پناہ فکری و اخلاقی اثر دیکھا ہے۔اعلیٰ سطح کے اجلاسوں میں، پارلیمنٹ کے اندر ،وزرا اور عرب لیگ کے افسروں سے مجھے بات کرنے کے بہت سے مواقع ملے ہیں، اور جب بھی کھلے دل کے ساتھ انھوں نے آف دی ریکارڈ بات کی تو میں نے انھیں یہ کہنے پر مجبور پایا کہ:’’ اخلاقی اور نظریاتی اعتبار سے اگر کوئی قابل لحاظ قوت ایسی ہے جو مصر کو بچاسکتی ہے تو وہ صرف اخوان المسلمون ہے‘‘۔

  •  باطل کے مذموم عزائم: حسن البنا نے ایسے نامساعد حالات میں کام کیا، جب کہ: ایک طرف سامراجی طاغوت اوردوسری طرف مقامی اشرافیہ تھی (یہ مقامی اشرافیہ ہی غالب تعداد میں،سامراجی قوتوں کی آلۂ کار رہی ہے)۔ تیسری جانب وہ مہم جو.ُ فوجی افسران تھے جنھوں نے اقتدار کا مزا چکھ لیا تھا۔یہ مقتدر فوجی طبقہ ایک وسیع عالمی منظر نامے میں مغربی یا کمیونسٹ روسی سامراج کا آلۂ کار بنا۔ فوجی انقلابات کا یہ سلسلہ شرق اوسط سے شروع ہوا اور ۱۹۵۸ء میں پاکستان تک آپہنچا۔ اپنی ہی قوم کو فتح کرنے کی اس فوجی لہر نے افریقہ کے نو آزاد ممالک کی بڑی تعداد کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا۔ دراصل یہ حکمت عملی مغرب کے پیش نظر تھی،کہ جو ممالک آزاد ہو رہے ہیں وہ آزاد ہو کر بھی سامراجی قوتوں کے لیے چیلنج نہ بننے پائیں، اور کسی مثبت بنیاد کے بل بوتے پر نظریاتی یا معاشی و سیاسی قوت کا نیا مرکز نہ بن سکیں، اور اپنی معاشی، تجارتی، تہذیبی اور سیاسی پالیسیوں میں تابع مہمل بن کر رہیں۔

ان مقاصد کے حصول کے لیے اشتراکی عناصر نے اور امریکا اور اس کے حواریوں نے یہ کوشش کی کہ لوگوں کو خریدیں، معاشی مفادات کے جال میں پھنسائیں، سیاسی اور فوجی معاہدات کے ذریعے ان قوموں کو ایک نئی قسم کی غلامی میں جکڑ لیں۔اس ہدف کے حصول کے لیے انھوں نے یہ اصول طے کیا کہ: ’’فوجی قیادت ہی ہماری بہتر حلیف ہے۔جو اپنے ملکوں میںبغاوت کرکے اقتدار پر شبخون مارے،اور ہماری مدد سے ہماری قائم مقام (proxy) بن کرہماری مرضی پوری کرے‘‘۔ کچھ رپورٹوں میں صاف لکھا ہے کہ مغرب زدہ گروہوں کے لیے اقتدار کی راہیں کشادہ کرنا خواہ یہ فوجی انقلاب اور استبدادی حکومت (despotic rule) کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو، مغربی اقوام کے قومی مفاد میںہے، تاکہ مذکورہ ممالک کے عوام کو قابومیں رکھا جا سکے۔ مائلز کوپ لینڈ (Miles Copeland) جس نے عرب دنیا میں سفارتی ذمہ داریاں بھی ادا کیں اور وہ سی آئی اے کا ایجنٹ بھی تھا، اس کی یادداشتوں The Game of Nations: The Amorality of Power Politics (1970),  اور The Game Players Confessions (1989) سے بھی اس امر کی وضاحت ہوتی ہے۔ مغربی پالیسی ساز اور سیاسی تجزیہ کار اب     کھلے لفظوں میں اعتراف کرتے ہیں کہ: مسلم دنیا یاتیسری دنیا میں جو فوجی انقلاب آئے یا جو سیاسی اتھل پتھل ہوتا رہا ہے، ان سب کے پیچھے کسی نہ کسی صورت میں امریکا اور اس کی ایجنسیوں کا ہاتھ تھا‘‘۔مشرق وسطیٰ اس سامراجی چنگل سے کبھی نہیں نکل سکا۔

شام میں اخوان المسلمون کے سربراہ ڈاکٹر مصطفی سباعی [۶۳-۱۹۱۵ء] نے الفتح میں ایک مرتبہ لکھا تھا: [مسلم دنیا کی] سیاسی پارٹیاں ہر معاملے میں ایک دوسرے کی مخالف ہیں، مگر ایک نکتے پر ان کا اتفاق ہے، اور وہ ہے ’دین دشمنی‘___ اس لیے نظامِ حکومت میں تبدیلی کے سوا اصلاح کی کوئی صورت نہیں، اور نظامِ حکومت کی تبدیلی کا دارومدار ہے معاشرے کی تبدیلی پر۔ افسوس کہ علماے کرام اس بات کو نہیں سمجھتے‘‘۔ میں اس میں یہ اضافہ کروں گا، کہ ’دین دشمنی‘ کی اس روش میں فوجی قیادتوں اور سیاسی طالع آزمائوں کو عالمی سامراجی قوتوں کی بھرپور سرپرستی حاصل رہی ہے۔ صدافسوس اس بات پر کہ اپنی قوم کے مفادات سے بے وفائی کا ارتکاب کرنے میں یہ طبقہ     ادنیٰ درجے کی شرم تک محسوس نہیں کرتا، اور سامراجی آقائوں کے سامنے اپنی قومی اور ذاتی ذلت تک کو خوشی خوشی برداشت کرلیتا ہے، بلکہ اس توہین کو بھی اعزاز کی کوئی قسم تصور کرتا ہے۔

اس منظرنامے میںحسن البنا اور اخوان المسلمون نے دعوت،تنظیم اور تربیت کاکام شروع کیا۔وہ بہ یک وقت عالمی سامراج اور سامراج کے مقامی آلۂ کاروں کے سامنے چٹان بن کر کھڑے ہوگئے۔انھوں نے،دین کی گمراہ کن اور معذرت خواہانہ تعبیر کرنے والوںاور معاشرے میں سماجی، معاشرتی،اور سیاسی ظلم کی تمام بنیادوں کوپوری قوت سے چیلنج کیا۔اس کے لیے اخوان نے جو راستہ اختیار کیا، اس میں تنظیم اور صحافت کے ساتھ ساتھ سیاست میں کھلے بندوں حصہ لینا بھی شامل تھا۔ حسن البنا نے خود بھی الیکشن میں حصہ لیا ، اور اگر برطانوی اور مصری حکومت ان کا راستہ نہ روکتی   تو وہ بڑی عظیم اکثریت سے کامیاب ہوتے ۔

 ان پابندیوںاور تمام تر مشکلات کے باوجود حسن البنا نے جو طریقہ اختیار کیا، وہ افراد سے رابطے کا طریقہ تھا۔یہی وہ امتیاز ہے جس نے استبدادکے اندھے بہرے ظلم اور اپنی بات کہنے کے کھلے مواقع نہ ہونے کے باوجود گھر گھر، محلے محلے، گاؤں گاؤں، قریہ قریہ اس دعوت کو پہنچادیا۔   اسی لیے ساری پابندیوں کے باوجود آج بھی اخوان ایک اہم سیاسی اور نظریاتی قوت کے طور پر موجود ہیں،بلکہ ملک کی پارلیمنٹ میں مضبوط حزب اختلاف کا درجہ رکھتے ہیں۔حالانکہ اخوان کی تنظیم خلاف قانون ہے،اور اخوان کے وابستگان نے آزاد امیدواروں کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا۔ اخوان کی اس طلسماتی قوت کا ثبوت ہر موقع پر نظر آتا ہے۔ اس چیز کا گہرا تعلق   حسن البنا کی شخصیت اور ان کے اس طریقۂ کار سے ہے، جس میں تنظیم پر پابندی کے باوجود خود کار پھیلائو اورنچلی سطح تک ان کی رسائی ممکن ہوئی۔ یہ ان کی قوت کا بڑاراز اوربہت بڑا خزانہ ہے۔

  •  اخوان کی قوت کا راز: سعید رمضان کے ذریعے ہم نے اس راز کو سمجھنے کی کوشش کی ۔تب ہم نوجوان تھے اور اسلامی تحریکی لٹریچر کا تازہ تازہ مطالعہ کیا تھا۔اسلام کی ہمہ گیرانقلابیت کا جذبہ پوری طرح دل و دماغ پر چھایا ہوا تھا(الحمدللہ، آج بھی وہی کیفیت ہے،البتہ ماہ و سال کی رفت و گذشت کے سبب قوت کار کم رہ گئی ہے)۔ ہم یہ معلوم کرکے بہت خوش تھے کہ جو بات  مولانا مودودی نے مغربی طاغوت کی روح اور فطرت کے بارے میں کہی ہے ،اور جو بات مولانا نے اسلام کے انقلاب اور پورے نظام کی تبدیلی کے حوالے سے ارشاد فرمائی ہے،بالکل وہی بات حسن البنا نے بھی اپنے خطبات میں کہی ہے۔اس طرح نصب العین اور حصولِ منزل کی جدوجہد میں ہم اور اخوان ایک ہی منزل کے راہی ہیں۔

تاہم ایک پہلو میں ہمیں کچھ فرق محسوس ہوتا تھا۔ اخوت اور محبت کا ویسا کلچر ہمارے ہاں   اس طرح فروغ نہیں پاسکا، جس طرح اخوان کے یہاں نظر آتا ہے۔اس کاایک چھوٹا سا مظاہرہ روزمرہ کے میل جول میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔مثال کے طور پر ہمارے اہل حل و عقد جب ہم سے ہاتھ ملاتے تو ان کے ہاتھ کی گرفت میں ذاتی تعلق کا اس درجہ اظہار نہیں محسوس ہوتا تھا، جیسا اخوان کے بڑے اور چھوٹے ہر بھائی سے ملتے وقت محسوس ہوتا ۔ممکن ہے اس میں ہمارے خطے کی آب و ہوا ، کلچر اور رسم و رواج کا بھی اثر ہو۔ اخوان کے ہاں اﷲ کی خاطر محبت کے تصور کو بڑا مرکزی مقام حاصل ہے۔خود جماعت اسلامی کے تربیتی لٹریچر میں اس موضوع سے متعلق احادیث کاایک مؤثر انتخاب موجود ہے، لیکن اپنائیت کے اس تصور کووہ اہمیت اور مرکزیت اس درجے میں حاصل نہیں ہوسکی، جو اخوان کے ہاں نظر آئی۔اللہ کی خاطر محبت ہم نے اخوان کے احباب سے سیکھی۔ یہ سیکھا کہ اﷲ کی خاطربندوں کے درمیان تعلق کی بنیادکو کس طرح مضبوط بنایا جا سکتا ہے اور پھرجب اخوان کے لٹریچر کو پڑھا تو اس میں بھی اسی اسپرٹ کو رچا بسا پایا۔ اخوان کے جتنے بھی کارکنوں سے ہمیں ملنے کا موقع ملا،ان میںاسی جذبے اور حرارت کی فراوانی پائی۔ حسن البنا کی زندگی کا مطالعہ کیا تو ان کی زندگی کے اندر بھی یہی کیفیت موجزن دیکھی۔ غالباً ’محبت فاتح عالم‘ والی کیفیت اور اس سے رونما ہونے والی مقناطیسی قوت ہے ،جس کے ادراک نے ان سے اس تحریک کانام اخوان المسلمون رکھوایا(پیش نظر رہنا چاہیے کہ تیسری اور چوتھی صدی ہجری کی ’اخوان الصفا‘ سے اخوان المسلمون کا کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ خالص قرآنی اخوت سے اس کا رشتہ ہے)۔ یہ چیز ہمیں سب سے زیادہ متاثر کرنے والی تھی۔

اسی طرح ہم نے اخوان کے تربیتی نظام سے بھی بہت کچھ سیکھا۔ اس زمانے میں مولاناعبد الغفار حسن [م:۲۲مارچ ۲۰۰۷] جماعت اسلامی میںشعبہ تربیت کے ذمہ دار تھے۔  درس قرآن، درس حدیث، سیرت اور لٹریچر، جماعت کے تربیتی نظام کے عناصرترکیبی تھے ۔ اجتماع ارکان میں ان چیزوں کی باقاعدگی کے ساتھ احتساب کا اہتمام بھی تھا۔ روحانیت اور ربانیت، اخوان کے دو نہایت مرکزی پہلو ہیں۔ جمعیت میں ہم نے اخوان سے یہ سیکھا تھا کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں روحانی بالیدگی کے لیے شب بیداری بھی ایک مؤثر تربیتی پروگرام ہے۔ اس سے قبل جماعت اور جمعیت کے پروگراموں میں شب بیداری نہیں ہوتی تھی۔ یوں جمعیت اور جماعت میں بھی شب بیداری کا پروگرام متعارف ہوا۔

  •  نظام الاسرہ اور اس پر اختلاف:حسن البنا نے دعوت ، تنظیم اور تربیت کے آغاز ہی میں خداداد صلاحیت کی بنا پر اس خطرے کو بھانپ لیا تھاکہ آنے والے کل میں،اس راستے پر چلنے والے جاں نثاروں کو کن مشکلات سے دوچار ہونا پڑے گا۔ دعوت، تحریک اور آزمایش،    لازم و ملزوم ہیں۔ اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے انھوں نے کہا : بہترین طریقہ یہ ہے کہ افراد کو جوڑ کر اس طرح سے چھوٹے چھوٹے گروپ بنا دو کہ ریاستی جبر کے نتیجے میں اخوان کا مرکزی نظم رہے یا نہ رہے، مگر تنظیم کا یہ بنیادی یونٹ اپنی جگہ کام کرتا رہے۔

ایسے نظریاتی حلقے کی حد ۱۰ افراد پر قائم کی، جسے’ اسرہ‘ کہتے تھے۔جب ۱۰افراد پورے ہوجاتے تو انھیںدو ’اسروں‘ میں تقسیم کردیتے۔اس طرح انھوںنے ہزاروں حلقوں کی صورت میں نظام قائم کیا۔ اس نظام اسرہ میں سب سے زیادہ دل چسپ چیز اس کا اجتماعی مطالعے کانظام ہی  نہیں تھا، بلکہ اس میںعبادات بھی مشترک تھیںاورشب بیداریاں بھی۔ میرے نزدیک ’نظام اسرہ‘ میں سب سے اہم چیزیہ تھی کہ اس کے ممبران ایک دوسرے کی خوشیوں اور غموں میں پورے شعور  اور وابستگی سے شرکت کریں۔ ایک دوسرے کا سہارا بنیں۔کسی ایک ساتھی پرکوئی مصیبت آئے    تو ’اسرہ‘ کے تمام ساتھی اس کی مدد کو پہنچیں۔یہی اسرہ کا مرکزی اصول تھا: پاکیزہ، ہمدرد اور      بے لوث برادری۔

بعد کے حالات نے ثابت کر دیا کہ اخوان کی بقا کا بڑا انحصار اس ’نظام اسرہ‘ پر رہا۔اس کے ثمرات میںسے بہت متاثر کن چیزآزمایش اور ابتلا میں ان کی استقامت تھی۔ صدرناصر کے زمانے میں صرف مصر میں ۳۰ سے ۴۰ ہزار افراد جیلوں میں تھے اور بیش ترشدید تعذیب کا نشانہ بنائے گئے تھے ۔ ان سخت آزمایشوں اور ابتلا کے ادوار سے گزرنے کے باوجود انھوں نے الحمدللہ، جس تقویٰ اور استقامت کا ثبوت دیا ہے ،وہ پختہ ایمان اور اس ’نظام اسرہ‘ کی برکات کا عملی اظہار تھا،کہ جس نے لوگوں کو آپس میں جوڑ دیا تھا۔اسی ’نظام اسرہ‘ نے قیدی ساتھیوں کے خاندانوں کی دست گیری ، عملی مدد اور ہمت بندھانے میں معاونت کی ہے۔

سعید رمضان سے ’نظام اسرہ‘ سمجھ کر ہم نے اسلامی جمعیت طلبہ میں اس کو اختیار کرنے کی کوشش کی تھی۔جمعیت کی تنظیم کو جو اسکولوں ، کالجوں،یونی ورسٹیوں کے کارکنوں پر مشتمل تھی، اسے علاقائی اور رہایشی بنیادپرکام کے لیے منظم کیا،جو اسرے ہی کی ایک شکل تھی۔اس وقت کی جمعیت  کے ناظم اعلیٰ کو کچھ دیگر امور کے ساتھ اس پر بھی شدید اضطراب ہوا۔ وہ پریشان تھے کہ ہماری تحریک کے روایتی نظام میں یہ ایک نئی چیز آگئی ہے۔ بالآخر ہمیں اس نظام میں کچھ تبدیلیاں کرنا پڑیں۔ اس طرح ہمارارہایشی نظام تو باقی رہا، لیکن ’نظام اسرہ‘ اپنے اخوانی تصور کے مطابق ہمارے تنظیمی نظام کا حصہ نہ بن سکا۔ یوں کراچی جمعیت میں ’نظام اسرہ‘ محض چار پانچ سال تک ہی چلا۔ یہاں پر یہ تذکرہ بھی ضروری محسوس ہوتا ہے کہ جب جمعیت میں ’نظام اسرہ‘ پر بحث اٹھی،ان دنوں مولانا مودودی جیل میں تھے۔ مولانا امین احسن اصلاحی (م: دسمبر ۱۹۹۷ء) کا رجحان اسرے کے حق میں نہیں تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ یہ نوجوانوں کی محض ایک اپچ ہے اور بس۔ مگر انھوں نے کھل کر اس کی مخالفت نہیں کی تھی۔اس زمانے میں ہمیں جمعیت میں بڑی آزمایش اور نازک مرحلے سے گزرنا پڑا۔

اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ہوں ہمارے ان بزرگوں پر جنھوں نے اس دورآزمایش میںنوجوانوں کی راہ نمائی فرمائی اور جمعیت انتشار سے بچ گئی۔اس سلسلے میں محترم شیخ سلطان احمد صاحب ، چودھری رحمت الٰہی صاحب اورچودھری غلام محمد صاحب کا کردار اہم تھا۔ انھوں نے ہمارے اس داخلی قضیے کو سلجھایااور یہ کہا کہ کراچی جمعیت کے اس تجربے کو ہم اسلام اور تحریک کے مزاج کے خلاف یا روایات سے متصادم نہیںپاتے۔اس طرح ہمیں تائید حاصل ہوئی،اور اس بحث پر جو مقدمہ بنا تھا وہ قبول نہیں کیا گیا۔

  •  ھجرت اور دعوت کا ثمر: جس زمانے میں مصر میں اخوان ابتلا سے گزرے، انھوں نے اپنی ابتلا کی مدت کو قصۂ زمین، برسر زمین سمجھ کر حالات کا سامنا کیا۔ بعد میں جب موقع ملا تو ان میں سے کچھ لوگ سعودی عرب، کویت یا خلیجی ممالک چلے گئے۔کچھ افراد امریکا، جرمنی، انگلستان کی طرف جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔ اسلام کے ان نہایت قیمتی سپوتوں نے مغربی دنیا میں دعوت اسلام کی بھاری ذمہ داری سر انجام دینے کے لیے بڑی ٹھوس بنیادیں استوار کیں۔آج مغربی دنیا میں اشاعت اسلام کے بیش تر سر چشموں کے پیچھے روایتی مذہبی طبقوں سے کہیں زیادہ اخوان کے ان جلاوطن کارکنوں کی پرخلوص حکمت اور مساعی کارفرما ہے۔

اخوان میں ایک اور وصف بڑا متاثر کن اورقابل رشک ہے،اور وہ ہے ان کا اﷲ سے تعلق کے ساتھ ساتھ قرآن سے ربط۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیںہے کہ اخوان اور قرآن لازم و ملزوم     بن گئے ہیں۔اس باب میں میرا سب سے دل چسپ تجربہ وہ تھا، جب میں محترم میاں طفیل محمد کے ساتھ صدر حسنی مبارک سے ملنے مصر گیا تو ان لوگوں نے ہمارے لیے  نہر سویز کی سیر کا انتظام کیا تھا۔ ہم رات کے ۱۲ بجے سویز نہر کی سیر کے لیے نکلے اورفجر سے کچھ پہلے واپس آئے۔ وہاں ہوتا یہ ہے کہ جہاز سویز کے درمیان میں کمان تبدیل کرتا ہے۔ ایک جہاز ایک طرف سے آتا ہے اور  دوسرا جہازدوسری طرف سے۔ جب کمان تبدیل ہورہی تھی تو جس جہاز میں ہم تھے، اس کا ایک  اعلیٰ کمانڈر ہم سے ملا۔جب اس سے میاں صاحب،جماعت اور میرا تعارف ہوا، تو اس نے احترام اور اپنائیت کے اظہار کے لیے آہستگی سے اپنی جیب سے قرآن نکالا اور ہمیں ہدیہ کر دیا ۔یہ اشارہ تھا اس بات کا کہ میرا تعلق اخوان سے ہے۔ حالانکہ خفیہ سروس کے لوگ ہمیں گھیرے ہوئے تھے۔ یہ واقعہ غیرمحسوس انداز میں ہوا۔

  •  سماجی اور معاشی فکر: معاشرتی تشکیل کی فکراور وژن کے موضوع پر مولانا مودودی اور اخوان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں تھا، تاہم پروگرام کے نفاذکی تفصیلات میں کچھ امور پر ایک حد تک اختلافِ رجحان کا احساس ہوتا ہے۔ اخوان کے یہاں شروع ہی سے دعوت، سیاست، خدمت اور متبادل اقتصادی بنیاد تعمیر کرنے کی فکرساتھ ساتھ موجود رہی ہے۔ اخوان نے غربت کو ختم کرنے اور روزگار فراہم کرنے کی اسکیم ۱۹۳۳ء میں شروع کی تھی۔ اداراتی (انسٹی ٹیوشنل) مناسبت سے ان کے ہاں معاشی مسائل اور سامراج سے چھٹکارا پانے کا نظامِ کار نمایاں طور پر متحرک دکھائی دیتا ہے۔

ہمارے ہاں کام کا آغاز ایمان ، عقیدے اور دینی وژن سے ہوتا ہے۔ پھر ہم آہستہ آہستہ مذکورہ اداراتی اور سماجی مسائل کی طرف آتے ہیں۔ البتہ شعوری طور پر، آئینی مسائل ہمارے ہاں  مرکزیت کے حامل رہے ہیں، جن کو دنیا بھر کی اسلامی تحریکیں قابل تقلید اقدام تسلیم کرتی ہیں۔ مگر دوسری جانب معاشی اور معاشرتی مسائل پر ایک متوازن اور متناسب انداز سے ہماری توجہ مرکوز نہیں رہی، اس کمی کا مداوا کم از کم مستقبل میں ضرور ہونا چاہیے۔ میں نے اس سلسلے میں جو ہاتھ پاؤں مارنے کوشش کی ہے، ان مساعی میں مجھے مولانا مودودی ،مولانا اصلاحی اور چودھری غلام محمد [م:۱۹۷۰ء] کی خصوصی مدد اور راہ نمائی حاصل رہی ہے ۔میرا پختہ یقین ہے کہ ایمان، عقیدے اور اخلاق کی مرکزیت اور دینی روح کے ساتھ سماجی اور معاشی میدان میں تحریک کے انقلابی پروگرام کو کلیدی حیثیت حاصل ہونی چاہیے ۔مگر یہ کام نعروں کی سطح پر نہیں،بلکہ تسلسل اور ایک ایسے   اسلامی فریم ورک کے ساتھ ہو نا چاہیے، جو عصری تقاضوں کو بھی پورا کرنے کا بھرپور اہتمام کرے۔ سماجی و معاشرتی مسائل میں اخوان کی متوازن دل چسپی قابل رشک ہے ۔البتہ ان کے ہاں   افراط و تفریط کے بعض مناظر بھی نظر آتے ہیں۔اس سلسلے میںڈاکٹر مصطفی سباعی نے تو اشتراکیت فی الاسلام تک کی بات کہہ دی تھی،تاہم اسے اخوان کے مجموعی ذہن نے قبول نہیں کیا۔

اس کے برعکس جماعت اسلامی، عورتوںکے ووٹ کے حق اور خاص طور پر اجتماعی معاملات اور تحریکی نظام میں خواتین کی شرکت کے حوالے سے، اخوان سے بہت آگے تھی۔ عورتوں کے ووٹ کے حق کو اخوان نے ۱۹۵۰ء کے عشرے میں تسلیم کیا، مگرجماعت اسلامی نے شروع ہی سے اس کو تسلیم کیا تھا، بلکہ مولانا مودودی نے تو یہاں تک لکھا کہ عورتوں کی الگ شوریٰ ہو جو معاملات پر آزادانہ انداز میں غوروفکر کرے۔ اخوان اور جماعت میں پائے جانے والے ایسے جزوی اختلافِ راے کا تعلق نفاذدین کی تفصیلات سے ہے ،وژن اور تصور سے نہیں۔

  •  تشدد کے الزام کی حقیقت: ایک طرف تاریخ میں اخوان پر ابتلا و آزمایش کے دور باربار آئے۔ دوسری طرف خود انصاف اور قانون کا خون کرکے اقتدار پر ناجائز قبضہ کرنے اور اپنے ہی ہم وطنوں کا خون بہانے والے نام نہاد روشن خیال طبقے نے الٹا اخوان ہی کو تشدد پسند  کہہ کرانھیں الزامی مہم کا نشانہ بنایا۔افسوس کہ ہمارے یہاں لبرل طبقے کی لبرلزم کا حدود اربعہ بس  اتنا ہے کہ مغرب کی اندھی تقلید کی جائے ۔انھیں جمہوریت، انسانی حقوق، قانون کی حکمرانی اور عدل وغیرہ کی ہوا بھی نہیں لگی۔

اقتدار، وسائل، طاقت، قومی اقتدار، مادی وسائل، عسکری طاقت اور ذرائع ابلاغ پر قابض اس طبقے کے بارے میں ایک مرتبہ مولانا مودودی نے فرمایا تھاکہ یہ ایسے پہلوان ہیںجو   مدمقابل کے ہاتھ پاؤں باندھ کراس سے کشتی لڑنے کے لیے میدان میں اُترتے ہیں۔اس طبقے نے ایک طرف اخوان کو نشانہ بنایا، تو دوسری جانب پاکستان میں مولانا مودودی کو قید کرکے یہ کہنا شروع کیا کہ اخوان، تشدد پسند ہیںاورجماعت اسلامی کا تعلق بھی اخوان سے ہے۔ اخوان سے کوئی تنظیمی تعلق نہ رکھنے کے باوجود جماعت نے اخوان کے خلاف بدنیتی پر مبنی اس پروپیگنڈے کی مخالفت کی، اور اخوان کے دفاع میں کبھی کوتاہی نہیں برتی۔اخوان پر مظالم کے خلاف اور ان کی تائید و حمایت میں، ہم نے ہر پلیٹ فارم پر،تحریر اور تقریر میں آواز بلند کرنے کی کوشش کی ہے، مگرتصادم اور ٹکراؤ پر منتج ہونے والے ایجی ٹیشن کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ جماعت کو اس بارے میں ہمیشہ شرحِ صدر رہا ہے کہ مؤثر، باوقاراور نصیحت کے انداز میں بات زیادہ  پُر اثر ہوتی ہے۔

یہ تاریخی حقیقت ہے کہ اخوان نے کبھی اپنی حکومتوں کا تختہ الٹنے کے لیے طاقت یا زیر زمین روابط کو استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اخوان کے ہاںقوت مجتمع کرنے کی سوچ، فلسطین پر قبضے کے خواہاں یہودیوں اور یورپیوں کی سامراجی یلغار کو روکنے کا سرعنوان تھی۔اگرچہ ایک دومواقع پرچند غیر ذمہ دار نوجوانوں کی نامناسب انفرادی حرکتیں انھیںدلدل میں دھکیلنے کا ذریعہ بنیں، لیکن ان کی تاریخ کے گہرے مطالعے کی بنا پر میں یہ بات برملا کہہ سکتا ہوں کہ قوت کے استعمال کے حوالے سے ان پر عائدالزامات میں بہت کچھ محض زیب داستان کی حیثیت رکھتاہے۔

مناسب ہوگا کہ اخوان کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کے لیے یہاں پر امام حسن البنا کے اس مشہور خطبے پر غور کیا جائے، جو انھوں نے ۱۹۳۸ء میں اخوان کے پانچویں اجلاس میں دیا تھا۔ انھوں نے فرمایا تھا: ’’اخوان، فکروعمل کی سطحیت پر ریجھ جانے والے نہیں ہیں، بلکہ وہ گہری فکر اور وسیع    زاویۂ نظر کے حامل ہیں۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ کسی چیز کی گہرائیوں میں ڈوب کر نہ دیکھیں… وہ جانتے ہیں کہ قوت کے مدارج کیا ہیں: ان میں اولیت، عقیدہ و ایمان کی قوت کو حاصل کرنا ہے۔ اس کے بعد وحدت و ارتباط کی قوت کا حصول ہے، اور ان دونوں کے بعد زورِبازو کا درجہ آتا ہے… الاخوان، متشددانہ انقلاب کے بارے میں قطعی طور پر کچھ سوچنا ہی نہیں چاہتے۔ وہ کسی حال میں اس طریق کار پر اعتماد نہیں کرتے، اور نہ اس کا نفع بخش اور نتیجہ خیز ہونا انھیں تسلیم ہے… تاہم اگر حالات کی رفتار یہی رہے گی اور اصحابِ اقتدار اس کا علاج نہیں سوچیں گے، تو اس کا لازمی نتیجہ متشددانہ انقلاب کی صورت میں ظاہر ہوگا، لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ اس میں اخوان کا ہاتھ ہوگا، بلکہ یہ حالات کے دبائو اور اصلاح سے گریز کا لازمی نتیجہ ہوگا۔ ضرورت یہ ہے کہ ہماری قومی زندگی کے سیاہ وسفید پر قابض طبقے اپنی ذمہ داری اور صورت حال کی نزاکت کو سمجھیں‘‘۔

جماعت اسلامی پاکستان نے اپنے دستور کی دفعہ ۵(۴) میں واضح طور پر اعلان کیا ہے: ’’جماعت اپنے نصب العین کے حصول کی جدوجہد، خفیہ تحریکوں کی طرز پر نہیں کرے گی، بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کرے گی‘‘۔ اس طرح جماعت نے ہمیشہ کے لیے دوسرے دروازے کو بند کردیا۔ پھر اسی طرح جماعت اسلامی پاکستان نے ستمبر ۱۹۴۸ء کو مرکزی مجلس شوریٰ میں یہ قرارداد منظور کی تھی کہ: ’’اپنے مقصد کے حصول کے لیے جماعت اسلامی ایسے ذرائع اور طریقوں کا استعمال جائز نہیں سمجھتی‘ جو صداقت اور دیانت کے خلاف ہوں یا جن سے بدنظمی اور بدامنی رونما ہو۔ جماعت اسلامی، اصلاح و انقلاب کے لیے جمہوری طریقوں پر یقین رکھتی ہے، یعنی تبلیغ و تلقین کے ذریعے سے اذہان اور سیرتوں کی اصلاح کی جائے اور راے عام کو ان تغیرات کے لیے ہموار کیا جائے، جو ہمارے پیش نظر ہیں۔ جماعت کا کوئی کام خفیہ نہیں ہے بلکہ سب کچھ علانیہ ہے۔ جن قوانین پر ملک کا نظم و نسق اس وقت چل رہا ہے ان کو وہ توڑنا نہیں چاہتی، بلکہ اسلامی اصولوں کے مطابق بدلنا چاہتی ہے‘‘۔

مولانا مودودی نے ۱۹۶۳ء میں، مسجد ابراہیم ،مکہ معظمہ میں عرب نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’[دنیا بھر میں] اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری آخری نصیحت یہ ہے کہ انھیں خفیہ تحریکیں چلانے اور اسلحے کے ذریعے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے۔یہ بھی دراصل بے صبری اور جلد بازی ہی کی ایک صورت ہے ،اور نتائج کے اعتبار سے دوسری صورتوں کی بہ نسبت زیادہ خراب ہے ۔ ایک صحیح انقلاب ہمیشہ عوامی تحریک کے ذریعے سے برپا ہوتا ہے۔ کھلے بندوں عام دعوت پھیلایئے، بڑے پیمانے پر اذہان اور افکار کی اصلاح کیجیے، اور اس کوشش میں جو خطرات اور مصائب بھی پیش آئیں، ان کا مردانہ وار مقابلہ کیجیے۔ اس طرح بتدریج جو انقلاب برپا ہوگا، وہ ایسا پاے دار اور مستحکم ہوگا جسے مخالف طاقتوں کے ہوائی طوفان محو نہ کرسکیں گے۔ جلد بازی سے کام لے کر اگر کوئی انقلاب رونما ہو بھی جائے گا تو جس راستے سے وہ آئے گا ،اسی راستے سے وہ مٹا یا بھی جاسکے گا‘‘۔ (دیکھیے: ماہ نامہ ترجمان القرآن، جون ۱۹۶۳ء)

مولانا مودودی پہلی بار ۱۹۵۶ء میں عالم عرب گئے تھے، لیکن ان سے پہلے مولانا مسعود عالم ندوی نے ۱۹۴۹ء میں بلاد عرب کا دورہ کیا تھا۔ مسعود عالم صاحب نے اپنے ایمان افروز سفرنامے دیارِعرب میں چند ماہ میں یکم جولائی ۱۹۴۹ء کو لکھا تھا: ’’جس شخص پر اخوان سے تعلق کا ادنیٰ شبہہ بھی ہوتا ہے، اسے فوراً قیدکرلیا جاتا ہے۔ حیرت ہے، حکومت کی فوج اور پولیس کے سامنے، اسلام اور مصر کے دشمن قاہرہ کی سڑکوں پر اکڑتے پھرتے ہیں، لیکن مصری حکومت ان کے خلاف کچھ نہیں کرتی۔ اس کا سارا غیظ و غضب اسلام کے داعیوں پر ٹوٹتا ہے‘‘۔ پاکستان آکر مولانا مسعود عالم ندوی نے مختلف تربیتی پروگراموں میں اخوان کے بارے میں جو تاثرات بیان کیے، ان میں اخوان سے محبت، اخوان سے قربت، اخوان سے عقیدت اور اخوان کو اپنا دست و بازو سمجھنے کا پہلو غالب تھا۔ بعد ازاں خود مولانا مودودی نے کئی باراس بات کا اظہار فرمایاکہ:’’فکری اعتبار سے جو کام ہم کر رہے ہیں،وہی کام اخوان کر رہے ہیں۔ہمارے درمیا ن بنیادی نقطۂ نظر کا کوئی مسئلہ نہیں ہے‘‘۔

  •  امام شھید کے رفقا:یہ واقعہ بھی تاریخی نوعیت کا ہے کہ جب مصری حکومت نے اخوان پر پابندی لگائی تھی، تو عبدالقادر عودہ شہید [۱۹۰۶ء-۱۹۵۴ء] ہائی کورٹ کے جج تھے۔ پابندی کے خلاف مقدمہ چلا، مگر عدالت نے اخوان کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ جس عدالت نے فیصلہ دیا،اس کے جج عبدالقادر عودہ بھی تھے۔ان کا کہنا یہ تھاکہ: ’’مجھے تاریخ نے اخوان پر حَکَم[جج] بنایا اور بالآخر میں اخوان ہی کا ہو گیا‘‘۔ اپنی مشہور کتاب التشریع الجنائی فی الاسلامانھوں نے اخوان کی دعوت قبول کرنے کے بعدلکھی۔

بعدازاں جب میں کراچی یونی ورسٹی کے شعبہ معاشیات میں پڑھا رہا تھا، اس زمانے میں  سید قطب ہمارے لیے فکرو عمل کی ایک بڑی مؤثر علامت اور ہمارے ہیرو تھے۔افسوس ہے کہ مجھے سید قطب سے بھی ملنے کا موقع نہیں ملا،لیکن ان کی جان دار تحریروں اور علمی طور پر نہایت وقیع نگارشات سے بھرپور استفادے کی کوشش کی ہے۔ سب سے بڑھ کر حق کی راہ میں ان کی استقامت میرے لیے ہی نہیں، ہماری پوری نسل کے لیے روشنی کا مینار ثابت ہوئی ہے۔سید قطب کو ناصر نے قید میں ڈالا اور اس طرح مقدمہ چلایا کہ انھیں وکیل تک نہ کرنے دیا۔ سوڈان سے دو چوٹی کے وکیل احمد امین سالک اور محمد احمد دورابی، فروری ۱۹۶۶ء میں قاہرہ پہنچے تو انھیں دھکے دے کر مصر سے نکال دیا گیا۔ اس طرح سید قطب نے تن تنہا بڑی جرأت اور استقامت سے مقدمے کا سامنا کیا۔ آخر کار ۲۹اگست ۱۹۶۶ء کو مفسر قرآن، مفکر اسلام، اعلیٰ پائے کے ادیب اور دانش ور سیّد قطب کو پھانسی دے دی گئی۔

اخوان کے قائدین میں ،میرا سب سے زیادہ گہرا تعلق استاد مصطفی مشہور سے تھا۔ وہ متعدد بار پاکستان میں ہمارے مہمان رہے، خصوصاً افغانستان کے جہاد کے زمانے میں۔ اس کے علاوہ ان سے میری ملاقاتیں انگلستان، مصر، جرمنی اور ترکی میں بھی ر ہیں۔ ہم نے دعوت دین کے کاموں میںتبادلۂ خیال کے لیے ایک مشاورت قائم کرنے کی کوشش کی تھی۔ ان کوششوں کے وہ سربراہ تھے اور میں ان کا نائب تھا۔حسن البنا کی زندگی میں مصطفی مشہور نوجوانوں کے گروپ کے سربراہ تھے۔ اسی طرح مامون الہضیبی سے بھی مصر اور یورپ میں تبادلۂ خیال ہوتا رہا ۔ان تمام مواقع پر اشتراک اور افہام و تفہیم کا پہلو غالب رہا۔ البتہ حکمت عملی میں کبھی کبھار ترجیحات کے بارے میںاختلاف راے بھی پیدا ہوا۔ جماعت کے نظام تربیت کو انھوں نے سمجھنے کی کوشش کی۔ اخوان کے قائدین کویہ احساس تھا کہ فکری میدان میںہمارا [یعنی جماعت کا] کام ان سے بہترہے۔ہم نے کشمیر کے مسئلے کو تمام تفصیلات کے ساتھ واضح کیا اور اخوان نے اس مسئلے پر پاکستان کا بھر پور ساتھ دیا۔ اسی طرح فلسطین کے مسئلے کے سب سے مؤثر داعی اخوان تھے اور ہم نے ہمیشہ ان کا ساتھ دیا۔

  •  آرا میں اختلاف: جب سعید رمضان یہاں پاکستان میں تھے تو ان کی خواہش تھی کہ جماعت اسلامی کی موجودگی کے باوجود پاکستان میں ایک حلقہ ایسا بھی قائم کیا جائے جو براہ راست اخوان سے متعلق ہو۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے ’الاحباب‘ کے نام سے تنظیم بنانے کی کوشش بھی کی تھی۔ چودھری غلام محمد صاحب اور میرے سمیت ،جمعیت کے رفقا نے ان سے تفصیلی بات چیت کی اوربتایا کہ ایسا کوئی بھی متبادل یا متوازی نظام یہاں قائم ہوا تو وہ اس مقصد کے لیے مجموعی   طور پرمفید نہیں ہو گا۔ ہمارا یہ اختلاف نظریاتی نہیںبلکہ حکمت عملی کا تقاضا تھا۔

ایک مسئلہ متعدد بار اخوان کی طرف سے اٹھا یا گیا تھا کہ ہم سب مل کر عالمی سطح پر تنظیم کا ایک ڈھیلا ڈھالا وفاق قائم کریں، لیکن ہم نے اس تجویز کی تائید نہیں کی، اور ان کے سامنے یہ بات رکھی کہ موجودہ حالات میں حسب ضرورت آپس میں مل کر تبادلۂ خیالات سے آگے ہمیں نہیں بڑھنا چاہیے۔ اس کی دو وجوہ ہیں: پہلی یہ ہے کہ عالمی حالات کے پیش نظر کچھ رفاہی منصوبوں میں تعاون تو درست ہوسکتا ہے، لیکن اس سے زیادہ ربط و تعلق موجودہ عالمی اور خود مسلم ممالک کے سیاسی حالات کی وجہ سے نہ ممکن ہے اور نہ مفید۔دوسری وجہ یہ ہے کہ مسلمان ممالک میں کسی جگہ تحریک اسلامی پر پابندی ہے اوران کے خلاف ریاست قوت استعمال کر رہی ہے۔ کہیں کچھ نرمی ہے اور پناہ مل رہی ہے۔اگر آپ ایک نظم بن جائیں گے تو بین الاقوامی ریاستی تعلقات میں مسائل پیدا ہوں گے اورحکمرانوں کو تحریک اسلامی کے خلاف کام کرنے میں زیادہ قوت حاصل ہو جائے گی اور وہ اس کے خلاف زیادہ مؤثر اقدام کریں گے۔ البتہ اگر ہر ملک میں آزاد نظم رہے اور واحد مرکزیت سے گریز کیا جائے تو یہ تحفظ کا ذریعہ ہو گا۔ اسی لیے ہم نے کوئی بین الاقوامی تنظیم نہیں بنائی۔

یہ دُور اندیشی دراصل مولانا مودودی کی بصیرت کا مظہر ہے۔ البتہ کسی مسئلے پر مشترکہ موقف اختیار کرتے ہوئے متفقہ نقطۂ نظر بیان کرنا مختلف چیز ہے۔اس کے لیے وقتاً فوقتاً دوسرے پلیٹ فارم موجود ہیں۔ایسے پروگراموں میں اسلامی تحریکات کے ذمہ داران نے شرکت کرکے اس مقصد کو تقویت دی ہے، اورکوشش یہ رہی ہے کہ آپس میںزیادہ سے زیادہ ہم آہنگی رہے۔ یہ سوچ پوری دنیا میں اسلامی تحریک کے لیے مفید رہی ہے۔

۱۹۸۲ ء میں، قاہرہ میںمصر کے صدر حسنی مبارک سے ہم نے انھی کی دعوت پر ملاقات کی تھی۔اس ملاقات میں ہم نے یہ کہا تھا: ’’ اُمت کا مفاداسی میں ہے کہ ریاستی قیادت اور تحریک اسلامی تصادم کے بجاے افہام وتفہیم کاراستہ اختیار کریں، اور اگر تعاون ممکن نہیں تو ایک دوسرے کی پوزیشن کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر بقاے باہمی (co-existence)کا راستہ اختیار کریں۔

 ۷۰ کے عشرے میں،جب لیبیا میں اخوان پر پابندی نہیں تھی، ڈاکٹر شریف جوصدر قذافی کی کابینہ میں شامل تھے اور ڈاکٹر محمدیوسف مغائریف جو لیبیا کے آڈیٹرجنرل تھے، ان حضرات کے توسط سے مجھے پیش کش کی گئی تھی کہ میں لیبیا میں معاشی مشیر بن کر آجائوں، لیکن میں نے معذرت کی ۔ پھر جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ اخوان اور لیبیا کے مطلق العنان حکمرانوں کا راستہ الگ ہے۔اسی طرح سعودی عرب کے ذمہ داران سے اخوان کے بارے میں بار بار گفتگوئیں ہوئی ہیں۔ اُردن میںشہزادہ حسن بن طلال سے کئی بار میری ملاقات میں اخوان کے معاملے پر بات ہوئی ہے۔ ان تمام ملاقاتوں میں ہم نے کبھی بھی تحریک کی عزت اور وقار پر مصلحت آمیزی کا راستہ اختیار نہیںکیا،بلکہ ہمیشہ نصیحت اور تلقین کا راستہ اختیار کیا۔

۱۹۹۰ء میں، جب عراق نے کویت پر قبضہ کیا تو دنیا بھر سے اسلامی تحریکوں کے قائدین نے عالم عرب کا دورہ کیا۔ اس وفد میں محترم قاضی حسین احمد، ڈاکٹر نجم الدین اربکان،ڈاکٹر حسن ترابی اور اخوان المسلمون اُردن کے عبد الرحمن خلیفہ شامل تھے۔مجھے بھی اس وفد میں شرکت کا شرف حاصل ہے ۔ ہم نے عراق،اردن،سعودی عرب،اور ایران کا دورہ کیا،اور وہاں پر چوٹی کی قیادت سے ملاقاتیں کیں۔ اس دورے میں عراقی سربراہ صدام حسین سے بھی ہماری ملاقات ہوئی تھی۔اس گفتگو کا محور جنگ تھا۔ صدام حسین سے قاضی حسین احمدصاحب نے بڑے واضح لفظوں میں کہا تھا کہ: ’’جنگ آپ پر مسلط کی جارہی ہے۔ آپ کو چاہیے کہ مذکرات سے راستہ نکالیں۔ کویت پر قبضہ اصول اور حکمت دونوں اعتبار سے گھاٹے کا سودا ہے‘‘۔ ان کے نائب صدر سے ہم نے عراق میں گرفتار اخوان کے کارکنوں کی رہائی کے بارے میں بات کی،افسوس کہ انھوں نے کوئی واضح بات نہ کی۔

  •  جھاد اور تصورِ جھاد: عیسائی مشنریوں، جنگ جو. ُ صہیونیوں اورعلمی دیانت سے تہی دامن مستشرقین نے مسلم معاشروں کے مغرب زدہ عناصر کی مدد سے جہاد کے لفظ کو منفی پروپیگنڈے کا ہدف بنادیا تھا۔حسن البنا نے دعوت کے آغاز پر ہی یہ واضح کیا کہ جہاد کے معانی دراصل استبدادی، سامراجی اور طاغوتی قوتوںسے مقابلہ ہے۔اس طرح انھوں نے بڑے نمایاں انداز سے دعوت، فکر، تشریح، ابلاغ ، عمل،دفاع وغیرہ سے متعلق تفصیل سے راہ نمائی دی۔

اسی ضمن میں مولانا مودودی کا یہ بڑا اہم کارنامہ ہے کہ انھوں نے ۱۹۳۰ء میںجہاد کے تصور کو اپنی معرکہ آرا کتاب الجہاد فی الاسلام میں نکھار کر امت کے سامنے پیش کیا۔ ۱؎      ادھر اخوان المسلمون ۱۹۲۸ء میں قائم ہوئی ۔ حسن البنا کا یہ کارنامہ ہے کہ انھوں نے جہادکے تصور کو نکھارنے کے ساتھ ساتھ فلسطین پر یہودی قبضے سے نجات پانے کے لیے مسلم امت کواس کے لیے عملاً تیار بھی کیا۔ اس طرح وہ امت جو سیاسی غلامی ،معاشی محکومی ،اخلاقی ابتری اورفکری مرعوبیت کے ہاتھوںشکست اور پسپائی کی علامت بن چکی تھی ،اسے علامہ محمد اقبال ،حسن البنا شہید اور   مولانا مودودی نے ایمان، اعتماد، امنگ، اورعزم کے ساتھ راستہ بنانے کی راہ دکھائی ۔

حالیہ تاریخ کا مطالعہ کریںتو معلوم ہوتا ہے کہ مصر وہ پہلا ملک ہے جہاں کھل کر دین اور سیاست کی تفریق کی بات پیش کی گئی تھی۔ برعظیم پاک و ہند میںمولانا ابوالکلام آزاد،علامہ محمداقبال اور مولانا مودودی کے مضبوط استدلال نے یہاں پریہ بات نہیں چلنے دی، جب کہ مصر میں      علی عبدالرزاق (م: ۱۹۶۶ء) نے کھلے بندوں چیلنج کے انداز میں یہ بات کہی تھی کہ خلافت کاقیام ضروری نہیں ہے، اور دین اور سیاست کی تفریق ممکن ہے اور کچھ حالات میں مطلوب بھی۔     امام حسن البنا نے اس چیلنج کا فکری اور عملی سطح پر جواب دیتے ہوئے کہا تھاکہ: اسلام ایک ریاست، ایک نظام حکومت اور ایک معاشرے کی تشکیل کرتا ہے۔اس طرح انھوں نے ریاست کے اسلامی تصور کو تحرک اور تحریک کا حوالہ بنادیا ۔بعد ازاں مسلم دنیا میں جتنی بھی اسلامی تحریکیں اٹھیں، خواہ وہ  اخوان المسلمون یا جماعت اسلامی کے قافلے سے الگ ہوکر چلیں یاالگ سے قائم ہوئیں،ان سب کا ایک اہم ہدف اسلامی ریاست کا قیام طے پایا۔آج اسلام پر جو بھی تحقیقی ، تجزیاتی یا سخت متعصبانہ مطالعات سامنے آرہے ہیں،ان میں اسلامی احیا اور اسلامی ریاست، اخوان، جماعت اسلامی، مولانا مودودی ،سید قطب اور حسن البنا کا ذکر مرکزی موضوعات کے طور پر ملے گا۔

  •  حکمت عملی اور بحران: اخوان المسلمون ایک زندہ تحریک ہے ،اور ایک  فعال تحریک کی حیثیت سے اسے داخلی طور پر کئی بحرانوں سے گزرنا پڑا ہے ۔ بعض اوقات اس کے مختلف وابستگان الگ بھی ہوئے ہیں،اور انھوں نے الگ سے اپنی راہ بنائی بھی ہے ۔جب وہ الگ ہوگئے تو پھر اپنے قول وفعل کے ذمہ دار وہ خود ہیں، اخوان المسلمون یا حسن البنا ان افراد کے کسی فعل کے لیے جواب دہ نہیں ہیں۔

 اخوان المسلمون کے بڑے دھارے نے بڑے تسلسل کے ساتھ ،استبدادی حکومتوں کی جانب سے مسلط کردہ آزمایش کا مقابلہ کیا۔ اپنے متوازن اور راست طریق کار کو انھوں نے ترک نہیں کیا اور نہ وہ کسی رد عمل کا شکار ہوئے۔یہ دراصل حسن البنا کی اس تربیت کا کرشمہ ہے جس کے تحت مختلف نامساعد حالات کے باوجود انھوں نے راستہ نکالنے والی انقلابیت کا دامن تھامے رکھا۔ بالکل یہی صورت حال مولانا مودودی کے ہاں بھی دکھائی دیتی ہے، جو سخت سے سخت اشتعال انگیز حالات کے باوجود واقعات سے متاثر نہیں ہوتے ،بلکہ خداداد دانش اوراللہ پر بھروسا کرتے ہوئے اس طرح راستہ بنالیتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

اخوان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک طرف وہ لوگ تھے جنھوں نے شدید ردعمل میں آکراخوان سے ناتا توڑ لیااور اپنی نادانی سے استبدادی قوتوں کو مضبوط کیا۔ انجام کارظلم کی سیاہ رات طویل ہوئی اور تبدیلی کے امکانات کی دنیا محدود ہوئی۔ دوسری جانب الگ ہونے والے وہ لوگ تھے، جو سمجھتے تھے کہ ہمیں مقتدر قوتوں کے ساتھ مل کر راستہ بنانا چاہیے۔ ان میں سے بعض لوگوں نے صدر ناصر اور کچھ افراد نے صدر سادات سے تعاون بھی کیا،مگر کوئی امید بر نہ آئی بلکہ اس طرح وہ اور زیادہ بے وزن ہوئے۔مقصد کا حصول دُور کی بات ہے ،وہ خود اپنے مشن سے دور ہوتے چلے گئے۔ طاغوت کے طرف داروں سے مل کر طاغوت کو لگام دینا کارِمحال ہے۔گویا کہ مقصد اور منزل کے بارے میں سمجھوتا تباہ کن ہوتا ہے۔

حکمت اور مصلحت ،قرآن کے اصول ہیں۔ ان دونوں کا مفہوم سیرت پاک کے مطالعے سے متعین ہوجاتا ہے۔ہرجگہ اور ہر دور میں اسلامی تحریکوں کو چاہیے کہ وہ ان اصولوں کو اپنی پالیسی کا حصہ بناکر شہادتِ حق، تطہیرافکار اور تعمیرمعاشرہ کا راستہ بنائیں۔ اس راستے کا انتخاب کرتے ہوئے غلطی بھی ہوسکتی ہے، لیکن غلطی تو اس صورت میں بھی ہوسکتی ہے کہ آپ پورے معاشرے سے کٹ کر کسی جنگل بیابان میں چلے جائیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اجتہادی غلطی کا بھی ایک اجر ہے اور اگر اجتہاد صحیح ہے تو اس کے دو اجر ہیں۔ اسی فریم ورک کے اندر اخوان کے لیے بھی اور ہمارے لیے بھی، اور آیندہ آنے والوں کے لیے بھی اہم سبق ہے۔

  •  علمی میدان میں خدمات: عام طور پر ہمارے تحریکی حلقوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ حسن البنا شہید اور ان کے قریبی رفقا نے شاید کسی ٹھوس علمی کام کی بنیادیں استوار نہیں کیں،بلکہ یہ کام محض واعظانہ ابھار اور وقتی جوش و ولولے پر رواں دواں تھا۔میرے خیال میں یہ تاثر سراسر معلومات کی کمی کے باعث پھیلا ہے۔ مصر میں اخوان کے علاوہ بھی علمی کام کی روایت گہری اور بڑی وسیع ہے۔ اس علمی روایت میں دونوں طبقے شامل ہیں، یعنی اسلام پر تنقید کرنے والے بھی اور اسلام کا دفاع یا اسلام پیش کرنے والے بھی۔ بلاشبہہ حسن البنا شہید نے کوئی     بڑی بڑی کتابیںتصنیف نہیں کیں۔ ان کے ۲۰ رسائل اور بیش تر تقاریر ہیں۔ یہ مختصر رسائل بھی  فکری گہرائی اور حکیمانہ راہ نمائی سے بھرپور ہیں، اور قرآن اور سیرت کے گہرے مطالعے اور اپنے دور کے حالات پر انطباق کے مظہر ہیں۔

ہمارے ہاں علمی کام کازیادہ حصہ اللہ کے ایک بندے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی   فکر وکاوش کاثمرہ ہے۔ اس کے برعکس اخوان کے ہاں ہمیں نظر آتا ہے کہ ایک پوری ٹیم ہے جس نے مل کر یہ کام کیا ہے۔ اس کام کی وسعتوں کو دیکھیں تو یہ بڑا معرکے کا کام ہے ۔مثال کے طور پر عبدالقادر عودہ شہید نے اسلامی قانون پر جو کام کیا، وہ ۲۰ ویں صدی کے معتبر ترین کاموں میں سے ایک کام ہے۔ وہ اپنے فن کے ماہر تھے اور قرآن و سنت پر ان کی نگاہ بڑی گہری تھی۔سید قطب شہیدنے تفسیر فی ظلال القرآن ،العدالۃ الاجتماعیۃ فی الاسلام، معالم فی الطریق وغیرہ جیسی معرکہ آرا کتب لکھیں،بلکہ ادبی اور فکری نوعیت کی بڑی قابل قدر تصنیفات بھی پیش کیں۔ڈاکٹر مصطفی حسنی سباعی کی ایک دو آرا سے اختلاف کے باوجود:  السنۃ ومکانتہا فی التشریع الاسلامی،نظام السلم والحرب فی الاسلام،المرأۃ بین الفقہ والقانون،الاستشراق والمستشرقون،المرونۃ والتطور فی التشریع الاسلامی،التکافل الاجتماعی فی الاسلام،غیرمعمولی اہمیت کی حامل ہیں اور ان کے علاوہ بھی وہ مزید درجن بھر کتب کے مصنف ہیں۔ محمد الغزالی، بہی الخولی،محمد محمود الصواف،عبد البدیع صقر، محمداحمد ابوشقہ، ڈاکٹر سید سابق، ڈاکٹر عبدالعزیز کامل،ڈاکٹر عیسیٰ عبدہ ابراہیم،ڈاکٹر محمد المبارک، ڈاکٹر سعید حویٰ، عبدالکریم زیدان، ڈاکٹر جمال عطیہ ، ڈاکٹر یوسف قرضاوی، ڈاکٹر توفیق شاوی، پروفیسرمصطفی احمدزرقا، پروفیسر محمد قطب،پروفیسر عبد الحکیم عابدین،ڈاکٹر مالک بدری اور ان کے ہمراہ دیگر رفقا نے قائدانہ سطح کی کتب تحریر کیں۔انھوں نے یہ کام ایک ٹیم کی طرح انجام دیا۔ اوراس قافلۂ علم و دانش میں آج بھی قیمتی اضافے ہورہے ہیں۔پھر خود امام حسن البنا کے والد گرامی احمد عبدالرحمن البنا نے الفتح الربانی (شرح مسند امام احمد) ۲۴ جلدوں پر مشتمل ایک  بڑا وقیع علمی کارنامہ انجام دیا۔

اسی طرح صحافت کے میدان میں اخوان کے تجربات ،ندرت ِخیال ،بروقت اظہار ،  علمی شان اور عزم و حوصلے کو ابھارنے والاانداز بھی ایک قابل رشک پہلو رکھتاہے۔ یہ ایک دو پرچوں کی بات نہیں، بلکہ اس میں عربی،انگریزی اور فرانسیسی میں درجنوں چھوٹے بڑے رسائل وجرائد کے نام سامنے آتے ہیں۔پابندیاںلگتی رہیں،مگر نام ،اسلوب اور مقام بدل کرحق کی گواہی دینے کا فریضہ ادا کرنے میں کوتاہی نہیں کی گئی۔پھر علمی اور تحقیقی مجلوں کو دیکھتے ہیںتومختلف عرب ریاستوں اور یونی ورسٹیوں کے جرائد تک میں اخوانی علم کلام کی گونج سنائی دیتی ہے،کہیںدھیمے انداز میںاور کہیں پُرزور انداز میں۔یہ سب کام ایمانی حلاوت ،اجتماعی وابستگی،روحانی جذبے اور مؤثر تربیت کے نتیجے میں سامنے آئے ہیں۔

  •  آج کا منظرنامہ اور تقاضے:تحریک احیاے اسلام کے مخالفین نے جماعت اسلامی  اور اخوان المسلمون کے خلاف پروپیگنڈا کرتے ہوئے جہاد اور اسلامی ریاست کو ہدف تنقید بنایا ہے،اور ان دونوں چیزوں کو دہشت گردی سے جوڑ دیا ہے۔درحقیقت اس مغربی جارحیت کا مرکزی نکتہ اسلام کا وہ تصور ہے کہ جس کی وجہ سے امت کا اجتماعی ذہن مغرب کی طاغوتی بالادستی اور اس کی ذہنی، فکری، معاشی اور تہذیبی حاکمیت کو ماننے سے انکار کرتا ہے۔اہل مغرب یہ چاہتے ہیں کہ ان کی من مانی اور دھونس کو چیلنج کرنے والا کوئی نہ ہو۔ ہر کوئی ، ہر معاملے میں انھی کے فکر، خیال، اقدام اور عمل کو قبول کرے اور ایک خادم کی حیثیت سے زندگی گزارنے پر تیار ہو۔مغرب کے عزائم کے برعکس مسلمانوں کی تصورِجہاد سے وابستگی لازوال ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس امت کی طرف سے ہر نوعیت کے ظلم کے خلاف مزاحمت رک نہیں سکتی۔

اس جارحانہ پروپیگنڈے اور حالات وواقعات کے منفی بہاؤ کو دیکھتے ہوئے بسا اوقات لوگوں پر مایوسی کے آثار نظر آتے ہیں۔بلاشبہہ بے جا خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے، لیکن خواہ مخواہ کی مایوسی بھی غلط ہے۔ دشمن کے پروپیگنڈے سے خائف نہیں ہونا چاہیے، مگر کھلی آنکھوں اور کشادہ ذہن کے ساتھ معاملات کا تجزیہ کرنے کا عمل بھی ترک نہیں کرنا چاہیے۔

موجودہ عہد میں جس وسعت اورجس شدت کے ساتھ مولانا مودودی ،حسن البنا شہید، اور سید قطب شہیدکے خلاف یہود ونصاریٰ اور ہنود پروپیگنڈا کر رہے ہیں، اس کی فکری، مذہبی اور عملی بنیادوں کا ادراک کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں سید قطب اور مولانا مودودی کی فکر کو درست   پس منظر میں پیش کرنا نہایت ضروری ہے۔ جذباتی اور علامتی وابستگی سے بڑھ کر اسے شعوری اور نظریاتی تناظر میں سمجھنے اور پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

مولانا مودودی اسلامی تحریکوںکے سامنے آج ایک بڑا چیلنج یہ بھی ہے کہ صف بندی گہرے شعور کے ساتھ کی جائے اور مسلمان نوجوانوں کو دردمندی سے سنبھالا جائے۔اگر کوئی مسلمان نوجوان شدید دباؤ کے نتیجے میں ردعمل کے راستے پر جاتا ہے تو مجھے ڈر ہے کہ پھر وہ مغرب کے تعصب اور ظلم و ستم کے جواب میں اور زیادہ تشدد کی طرف ہی جائے گا۔ اصولاً یہ راستہ نہ درست ہے اور نہ مطلوب۔ اگر یہ نوجوان سید قطب اور سید مودودی کے اصل فکری نظام (پیراڈائم)کو  سمجھ لے گا تو ظلم کے خلاف دلیل کی قوت، کردار کی شان اور دعوت وحکمت کی طاقت کے ساتھ تو ضرور اٹھے گا، لیکن ایک ظلم کی جگہ وہ کبھی دوسرے ظلم کا حصہ نہیںبنے گا۔ یہ اسی وقت ہو گا جب وہ اس نظامِ فکر اور نظم ِتنظیم سے وابستہ ہوگا۔ اس طریقۂ کار کے لیے وقت لگے گا، محنت کرنا ہوگی،اورصبر و ہمت سے کام کرنا پڑے گا۔

میں تشدد کے فروغ کی کسی بھی شکل کو حقیقی اسلامی تحریک اور اسلامی احیا کے لیے ایک   تباہ کن خطرہ سمجھتا ہوں، تاہم کشمیر، فلسطین، چیچنیا میں آزادی کی تحریکوں، اور عراق و افغانستان پر غیرملکی تسلط کی نوعیت دوسری ہے۔ اسلام، انسانیت کے لیے نظام رحمت ہے، اورنبی کریمؐ رحمۃ للعالمین ہیں۔ اسلام کے علَم بردار یہ بات قبول نہیں کرسکتے کہ ایک ظالم کے ظلم کی سزا دوسرے بے گناہ لوگوں کو دی جائے۔ اس لیے جب مزاحمت کا راستہ اختیار کرنے کا مرحلہ آئے تو وہ بھی،رحمت عالمؐ کے پیش کردہ نمونۂ عمل کو سامنے رکھ کر اختیار کرنا ہوگا۔اس کے علاوہ اختیار کردہ راستہ سرور عالمؐ کا راستہ نہیںہوسکتا،چاہے اس کے لیے کیسے ہی خوش نما دعوے اور دلائل پیش کیے جائیں۔جان لینا چاہیے کہ جہاد اور انتقامی تشدد کے درمیان بڑا فرق ہے۔ ہمیں دشمن کے کھیل کا حصہ نہیں بننا،مگر خاموشی سے بھی خود ہمارے اور اسلام کے بارے میں ایک غلط تصور پیدا ہوگا۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ انسانیت کو خیر کی طرف بلائیں اور شھداء علی الناس کی ذمہ داری ادا کریں۔ ہم سب کو فکر کرنی چاہیے کہ اسلام کی دعوت، تربیت، شناخت اور تحریک اسلامی کا امتیازی کردار مجروح نہ ہونے پائے۔

یہی حسن البنا شہید اور مولانا مودودی کی دعوت اور ان کا پیغام ہے۔

                                               

۹ مارچ ۲۰۰۷ء پاکستان کی تاریخ میں ایک سیاہ دن کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دن ایک جرنیل نے اقتدار کے نشے میں ملک کے چیف جسٹس کو کئی گھنٹے اپنے کیمپ آفس میں قید رکھنے کے بعد بڑی رعونت سے معطل کردیا اور دستور کے واضح احکام کے برعکس ایک قائم مقام چیف جسٹس مقرر کردیا۔ کراچی اور لاہور سے ججوں کو ہوا کے دوش پر اسلام آباد لاکر اپنی مرضی سے ایک سپریم جوڈیشل کونسل قائم کردی جسے ناشایستہ عجلت (indecent haste) کے ساتھ دستوری چیف جسٹس کے خلاف ایک ریفرنس سے بھی نواز دیا گیا اور اس کونسل نے چشم زدن میں چیف جسٹس کے غیرفعال (non functional) کیے جانے پر مہرتصدیق ثبت کردی۔ اس طرح عملاً فوجی قیادت کے ہاتھوں عدلیہ کے خلاف ایک کودِتا (coup d'e'tat) واقع ہوگیا۔

پاکستان ہی نہیں‘ مہذب دنیا کی تاریخ میں نظامِ عدل کے خلاف ایسے کمانڈو ایکشن کی مثال نہیں ملتی۔ پھر چیف جسٹس کو اس طرح من مانے طور پر معطل ہی نہیں کیا گیا بلکہ اس کے ساتھ سخت ہتک آمیز رویہ اختیار کیا گیا۔ اسے زبردستی سپریم کورٹ جانے سے روک دیا گیا۔ اس کی کار اور گھر پر سے قومی اور چیف جسٹس کا جھنڈا اُتار دیا گیا۔ گھر پر پولیس اور رینجرز کی ایک بڑی نفری لگادی گئی۔ سارے راستے بند کردیے گئے‘ گھر سے لفٹر کے ذریعے گاڑیاں اٹھا لی گئیں۔ ٹیلی فون‘ ٹی وی اور انٹرنیٹ سے رشتے منقطع کردیے گئے اور ایک دہشت کی فضا قائم کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس لام بندی کے نتیجے میں فطری طور پر کچھ لمحات کے لیے پورے ملک پر سکتے کی سی کیفیت طاری ہوگئی لیکن پھر جلد ہی دکھ‘ حیرت اور افسوس اور غم و غصے کے بادل چھٹنے لگے۔

 جیسے ہی عوام و خواص کو معلوم ہوا کہ چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری نے عدلیہ پر حملہ آور ہونے والوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کردیا ہے اور اپنی اور عدلیہ کی عزت کی حفاظت کے عزم اور جرأت کا اظہار کیا ہے تو پوری قوم ایک نئے جذبے سے چیف جسٹس کے ساتھ یک جہتی کے اظہار اور عدلیہ کی آزادی‘ عزت اور وقار کی تائید‘ دستور اور قانون کی بالادستی اور فسطائی قوتوں کی دراندازیوں کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوئی اور یک زبان ہوکر انصاف اور جمہوریت کے تحفظ کے لیے سرگرم ہوگئی___ اور ۹ مارچ کے بعد کا ہر دن گواہ ہے کہ ملک کے گوشے گوشے میں وکلا‘ سیاسی اور دینی جماعتیں‘ صحافی‘ تاجر‘ طلبہ‘ غرض سوسائٹی کے تمام ہی طبقے جرنیلی آمریت کے اس وار کا بھرپور توڑ کرنے کی ملک گیر جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور ریاستی دہشت گردی اور پولیس اور رینجرز کی گولیوں اور لاٹھیوں کا پُرامن اور پُرعزم انداز میں مقابلہ کر رہے ہیں۔ حکمرانوں کو توقع تھی کہ وہ چیف جسٹس کو یوں دبوچ کر عدلیہ کو اپنی گرفت میں لے آئیں گے اور الیکشن کے اس فیصلہ کن سال میں اپنی من مانی کرنے کے لیے بگ ٹٹ کارفرمائیاں کرسکیں گے لیکن وہ اپنی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ تعالیٰ کی تدبیر کچھ دوسری ہی تھی___ جو کام انھوں نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے اور عدالت کے مقدس ادارے کو اپنی خواہشات کے تابع کرنے کے لیے اٹھایا تھا‘ وہی ان کے زوال اور ان شاء اللہ بالآخر مکمل ناکامی کا وسیلہ بن گیا۔ وَ یَمْکُرُوْنَ وَ یَمْکُرُ اللّٰہُ ط وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَo  (الانفال ۸:۳۰) ’’وہ اپنی چالیںچل رہے تھے‘ اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا‘ اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے‘‘۔

ایک اھم تاریخی واقعہ

جس طرح عدلیہ پر جرنیلی آمریت کے اس حملے کے جواب میں وکلا برادری اور ملک کی تمام ہی دینی‘ سیاسی‘ سماجی اور تجارتی قوتیں اُٹھ کھڑی ہوئی ہیں‘ اس سے ایک اہم تاریخی واقعے کی یاد تازہ ہوگئی جس میں آج کے پاکستان اور اس میں ہونے والی اس کش مکش کے لیے جو حکمرانوں اور عوام میں برپا ہے‘ بڑا سبق ہے۔

یہ واقعہ ساتویں صدی ہجری کے وسط (۶۳۹ھ) کا ہے جب مصر پر مملوک (خاندانِ غلاماں) حکمران تھے اور محض قوت کی بنیاد پر قانونی ضابطوں اور فقہی احکام کو پامال کر رہے تھے۔ اس زمانے میں ایک صاحبِ عزیمت قاضی شمس العلماء شیخ عزالدین عبدالسلامؒ نے ایک سنہری مثال قائم کرکے اسلام کے اصولِ حکمرانی اور نظامِ عدل کو نئی زندگی عطا کی۔ شیخ کا تعلق اصلاً بلادِشام سے تھا اور اپنے علم اور تقویٰ کی وجہ سے اسلامی دنیا میں شہرت رکھتے تھے۔ جب وہ مصر آئے تو الملک الصالح نجم الدین نے ان کو قضا (عدالت) کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز کیا۔ شیخ عزالدین نے قانونی معاملات میں مملوک اربابِ اقتدار کے خلاف بڑی جرأت سے حق و انصاف کے مطابق فتوے دیے اور احکام صادر کیے جس سے اقتدار کے ایوانوں میں ہلچل مچ گئی۔ بادشاہ نے خود شیخ کے پاس آکر فتویٰ اور عدالتی فیصلہ تبدیل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا مگر شیخ نے صاف انکار کردیا اور کہہ دیا کہ وہ عدالتی معاملات میں دخل اندازی نہ کریں ورنہ شیخ قضا کے منصب سے دست بردار ہوجائیں گے۔ نائب سلطنت نہ مانا اور ننگی تلوار لے کر اپنے سپاہیوں کے ساتھ شیخ کو قتل کرنے کے لیے ان کے گھر پہنچا اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ شیخ کے نوعمر بچے نے دروازہ کھولا تھا‘ شمشیر بدست سپاہیوں کو دیکھ کر سخت پریشان ہوا لیکن شیخ ایمان‘ عزم اور ہمت کا پیکر تھے۔ بلاخوف نائب سلطنت کے سامنے آئے اور وہ ایسا ہیبت زدہ ہوا کہ تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ شیخ نے فتویٰ تبدیل کرنے سے انکار کیا اور پوری متانت سے اپنا تمام سامان گھر سے نکال کے گدھے پر لادا اور قاہرہ چھوڑنے کا عزم کرلیا۔ سوال کیا گیا کہ کہاں جا رہے ہیں؟ تو جواب دیا گیا کہ ’’کیا اللہ کی زمین فراخ نہیں ہے کہ کسی ایسی سرزمین پر رہا جائے جہاں قانون کی پاس داری نہ ہو‘ جہاں اہلِ شریعت بے قیمت ہوجائیں اور عدالتی نظام میں اربابِ اقتدار مداخلت کریں‘‘۔

قاضی القضاۃ کے اس اقدام کی خبر قاہرہ کے طول و عرض میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور پھر کیا تھا___ مؤرخ لکھتے ہیں کہ کیا عالم اور کیا عامی‘ پورا قاہرہ گویا قاضی کی ہم نوائی کے لیے اُمنڈ آیا اور شیخ کے ساتھ ہوگیا۔ عوام الناس مصر کے قاضی کی حمایت میں گھروں سے اس طرح نکل آئے کہ بچے‘ بوڑھے‘ جوان‘ مرد‘ خواتین سب ان کے ساتھ تھیں۔ اس عوامی یک جہتی نے حکمرانوں کو ششدر کر دیا اور سلطان نے قاضی کے آگے سپر ڈال دی۔ مملوک اربابِ اقتدار شیخ کے فیصلے کو ماننے پر مجبور ہوئے اور اس طرح قانون نے اپنی بالادستی منوا لی اور عدالت کی عصمت اور وقار کا بول بالا ہوا۔ (ملاحظہ ہو‘ عبدالرحمن الشرقاوی کی کتاب  ائمہ الفقہ التسعہ‘  ص ۳۶۰-۳۶۱)

اس واقعے سے اسلامی قانون‘ نظامِ عدل اور اصولِ حکمرانی کے باب میں چند بنیادی اصول بالکل کھل کر سامنے آتے ہیں:

پہلا اصول قانون کی حکمرانی اور شریعت کی بالادستی کا ہے۔ اللہ کے دین اور انبیاے کرام علیہم السلام کی دعوت کا مرکزی نکتہ اللہ کی عبادت اور بندگی کے ساتھ انسانوں کے درمیان عدل وانصاف کا قیام ہے (الحدید۵۷:۲۵)۔ مقاصدشریعت میں سرفہرست عدل اورقسط کی فراہمی ہے اور اس بارے میں کوئی سمجھوتا یا مداہنت ممکن نہیں۔

دوسرا اصول قانون کی نگاہ میں سب کی برابری ہے۔ اس سلسلے میں امیراور غریب اور طاقت ور اور کمزور میں کوئی تمیز نہیں۔ سب کے لیے ایک ہی قانون ہے جیساکہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ماضی میں قومیں اس لیے تباہ ہوگئیں کہ وہ کمزوروں پر تو قانون لاگو کرتے تھے مگر ذی اثر قانون سے بالا رہتے تھے‘ جب کہ آپؐ کے مشن کا ہدف ہی یہ ہے کہ تمام انسانوں کو ایک ہی قانون کا پابند کیا جائے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر (العیاذ باللّٰہ) فاطمہ بنت محمدؐ بھی چوری کی مرتکب ہوگی تو اس کا بھی ہاتھ کاٹا جائے گا۔

تیسرا اصول عدلیہ کی آزادی اور قضا کے نظام کا انتظامیہ کی دراندازی سے مکمل طور پر پاک ہونا ہے۔ حاکمِ وقت پر بھی قاضی کا حکم اسی طرح نافذ ہے جس طرح کسی عام شہری پر۔ اور حکمرانوں کو قضا کے معاملات میںمداخلت یا اس پر اثرانداز ہونے کا کوئی حق نہیں۔

چوتھی چیز قوم کا عدلیہ پر اعتماد ہے ‘جو قاضی کے علم اور تقویٰ اور انصاف کے باب میں اس کے بے لاگ ہی نہیں‘ ہر اثر سے بالا ہونے پر مبنی ہے۔ عدل کی میزان کے آگے قوت کی تلوار بے اثر ہے اور تلوار کو عدل کی میزان کے خادم کاکردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ مگر یہ اسی وقت ممکن ہے جب عدالت اور عدل قائم کرنے کے ذمہ دار دیانت اور اپنے منصب کے تقاضوں کو پورا کرکے عوام کا اعتماد حاصل کریں۔

پانچواں اصول اور سبق اس واقعے سے یہ بھی نکلتا ہے کہ اگر تلوار میزانِ عدل کی چاکری کرنے سے باغی ہو‘ تو پھر عوام کی قوت وہ قوت ہے جو تلوار کو قابو کرسکتی ہے اور تلوار کو حدود کا پابند اور عدل کا آلہ کار بنا سکتی ہے۔ اس کے لیے عوام کا چوکس ہونا اور نظامِ عدل کی حفاظت کے لیے کمربستہ ہونے کا عزم اور آمادگی ہی نہیں‘ اس کا عملی اظہار بھی ضروری ہے۔ یہی جذبہ اور جرأت اس بات کا ضامن بن جاتا ہے کہ تلوار کمزور کے لیے خطرہ نہ بنے اور معاشرے میں انصاف اور خیر کی حفاظت اور افزایش کا ذریعہ بنے۔ نیز خود نظامِ عدل تلوار کی زد سے محفوظ رہے۔

یہ وہ اصول ہیں جن کی روشنی میں آج بھی ہمیں اپنے مقصد کا تعین اور اس کے حصول کی صحیح اور مؤثر حکمت عملی اور مناسب نقشۂ کار تیار کرنا چاہیے۔

عدلیہ اور دستوری حکمرانی کو چیلنج

جنرل پرویز مشرف نے ملک کے چیف جسٹس جناب افتخار محمد چودھری کو بظاہر جبری رخصت پر بھیج کر (مگربیک بینی و دوگوش عملاً برطرف کرکے) دراصل پورے نظامِ عدل اور دستوری حکمرانی کے عمل کو چیلنج کیا ہے۔ اگر اسے برداشت کرلیا جاتا ہے تو پھر ملک پر شخصی اور فوجی آمریت کواپنی قبیح ترین صورت میں مسلط ہونے سے روکا نہیں جاسکتا۔ اور یہ سارا کھیل کھیلا بھی اسی لیے گیا کہ عدالت کو اپنی گرفت میں لے کر سیاسی دروبست اور حکمرانی (governance) کے پورے عمل کو اپنے تابع کرلیا جائے۔ جس طرح یہ کام کیا گیا‘ اس میں دستور اور قانون کی تو دھجیاں بکھیری ہی گئیں‘ لیکن افسوس ہے شرافت اور انسانیت کی ہر قدر کو بھی پامال کیا گیا اور مقصد یہ دکھانا تھا کہ فوجی حکمران جس طرح چاہیں اور جدھر چاہیں نظامِ حکومت کو ہنکا سکتے ہیں۔ صاف نظر آرہا ہے کہ یہ کام پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا اور مستقبل کے سیاسی نقشے کی ایک خاص سمت میں صورت گری کے مقصد سے کیا گیا۔ چیف جسٹس کی ذات کو اس لیے نشانہ بنایا گیا کہ ان کو قابو کرکے عدلیہ کے پورے ادارے (institution) کو اپنا تابع مہمل بنایا جاسکے اور یہ اس لیے ضروری تھا کہ دستور کی جو خلاف ورزیاں ہورہی ہیں اور جو مزید پیش نظر ہیں ان کو صرف اس صورت میں روا رکھا جا سکتا ہے کہ عدلیہ اس پر صاد کرے۔ فوجی حکمرانوں اور آمرانہ عزائم رکھنے والوں نے۱۹۵۴ء سے یہی راستہ اختیار کیا ہے اور بدقسمتی سے عدالتوں نے بھی نظریۂ ضرورت کا سہارا لے کر فسطائی قوتوں کی کارفرمائیوں کے لیے سندجواز فراہم کرنے کی خدمت بالعموم انجام دی ہے۔ مجبوریاں اور توجیہات جو بھی ہوں‘ نیز جب بھی کسی صاحب ِ عزم جج نے دستور سے انحراف کے اس راستے کو روکنے‘ اور قانون کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی کی حفاظت کی کوشش کی ہے‘ اسے راستے سے ہٹانے کا کھیل کھیلا گیا ہے۔ کبھی یہ کام اچھے ججوں کی ترقی کا راستہ روک کر کیا گیا ہے تو کبھی ان کو راستے سے ہٹاکر‘ جس کے لیے نت نئے انداز میں عبوری دستوروں کا ڈھونگ رچا کر تازہ حلف کا مطالبہ کرکے یہ مقصد حاصل کیا گیا ہے۔

بات کسی کی ذات کی نہیں‘ اصول کی ہے اس لیے یہ حقیقت نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ جون ۲۰۰۵ء میں جسٹس افتخارمحمد چودھری کے چیف جسٹس بننے کے بعد حکمرانوں کو توقع تھی کہ چونکہ وہ ۲۰۱۳ء تک چیف جسٹس رہیں گے‘ اس لیے ان سے ایک طویل رفاقت (long partnership)  کا سلسلہ استوار کیا جائے۔ لیکن ان کو اس ڈیڑھ پونے دو سال بعد یہ احساس ہوگیا کہ راوی کے لیے سب چین لکھنا ممکن نہیں۔ جسے ’عدالتی فعالیت‘(judicial activism) کہا جا رہا ہے‘ وہ حکمرانوں کے عزائم کی تکمیل میں رکاوٹ بنتی جارہی ہے۔ خاص طور پر انسانی حقوق کی حفاظت‘ دستور کے مکمل احترام‘پارلیمانی جمہوریت اور فیوڈلزم کے اصولوں کی پاس داری اور سب سے بڑھ کر سیاست میں فوج کے مستقل رول کے سلسلے میں عدالت سے جس قسم کا تعاون فوجی حکمرانوں کو مطلوب تھا‘ وہ ملنا مشکل ہو رہا تھا‘ اس لیے چیف جسٹس کے خلاف دائرہ تنگ کرنے کا اور فائلیں بنانے کا کھیل شروع کردیا گیا اور نئے انتخابی عمل کے شروع ہونے سے پہلے ہی ان سے نجات حاصل کرلینے کی منصوبہ سازی کی گئی۔

اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ اکتوبر ۱۹۹۹ء کے فوجی اقدام اور ۲۰۰۲ء کے نام نہاد ریفرنڈم کے جواز (validation) میں جسٹس افتخار محمد چودھری کی تائیدی آواز نے ان عناصر کو غالباً ہمت دلائی ہوگی‘ لیکن ان کی توقعات پوری ہوتی نظر نہیں آرہی تھیں۔ چیف جسٹس بننے کے بعد بھی جس حد تک حکومت کا لحاظ رکھا جاسکتا تھا‘ رکھا گیا۱؎ ،گو اس بارے میں دوسری راے بھی موجود ہے لیکن جس طرح سپریم کورٹ بنیادی حقوق‘ دستور کی بالادستی اور مظلوم افراد اور طبقات کی حق رسائی کے سلسلے میں محتاط لیکن آزاد روش اختیار کر رہی تھی اس سے اقتدار کے ایوانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں اور ایجنسیوں کی سکہ بند کارروائیوں کے سہارے جنرل صاحب نے بالآخر ۹مارچ کو عدالت عظمیٰ پر بڑی عجلت اور بھونڈے انداز میں بھرپور وار کردیا۔ پھر اس کے دفاع میں انھوں نے اور ان کے چند وزرا نے جو انداز اختیار کیا اس نے حق‘ انصاف‘ سچائی سب کو پرزے پرزے کردیا اور ملک اور ملک کے باہر پاکستان کے امیج کو جتنا نقصان اس جارحانہ حملے اور اس کے بعد کیے جانے والے غیردستوری‘ غیراخلاقی اور غیرمہذب اقدامات نے پہنچایا ہے‘ اتنا کبھی کسی اور نے نہیں پہنچایا۔

چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری صاحب کے خلاف جو اقدام کیا گیا ہے وہ دستور‘ قانون‘ اخلاق و آداب اور عقلِ عام ہر ایک کے خلاف ہے اور بدیہی طور پر بدنیتی (malafide) پر مبنی نظرآتا ہے۔ ہمیں توقع ہے سپریم جوڈیشل کونسل اس ریفرنس کا فیصلہ حق وانصاف اور دستور کے مطابق کرے گی۔ آج جسٹس افتخارمحمد چودھری ہی زیرسماعت (on trial) نہیں خود اس ملک کا عدالتی نظام بھی زیرسماعت (on trial) ہے اور اللہ کی عدالت کے ساتھ اب عوام کی عدالت بھی   ساتھ ہی ساتھ برسرِعمل ہے۔ دنیاوی حد تک آخری فیصلہ عوام ہی کا قبول کیا جائے گا‘ اس لیے بھی کہ   ؎

زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھو
بُرا کہے جسے دنیا ، اسے بُرا سمجھو

جنرل پرویز مشرف اور ان کے حواری بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ معاملہ عدالت کے زیرسماعت ہے اور اس پر صحافتی اور عوامی سطح پر کوئی بحث نہیں ہونی چاہیے اور یہ بھی کہ ایک دستوری مسئلے پر حزبِ اختلاف اور وکلا حضرات سیاست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو قابلِ مذمت اور ناقابلِ قبول ہے۔ یہ اعلانات سنتے سنتے کان پک گئے ہیں‘ اس لیے سب سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان دعووں کے بارے میں کچھ عرض کردیا جائے۔

بلاشبہہ عدالت میں زیرسماعت معاملات کا فیصلہ عدالت پر چھوڑنا چاہیے اور کسی طرح بھی عدالت کو متاثر کرنا غلط ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ جو دستوری‘ قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی معاملات کسی بھی تنازع سے متعلق ہوں ان پر کلام نہ کیا جائے۔ عدالت کی کارروائی یا اس کو متاثر کرنے والی چیزوں پر تبصرہ معیوب نہیں‘ اصل مسائل پر بات چیت نہ صرف عدالت کے وقار کے منافی نہیں بلکہ عدالت کو حالات کو سمجھنے اور صحیح راے پر پہنچنے میں مددگار ہوتی ہے۔

قانون کی اصطلاح sub judice کے دو مفہوم ہیں: ایک under or before a 

court or judge/ under judicial consideration اور دوسرے undetermined۔ یعنی ابھی اس متنازع امر کو طے کرنا باقی ہے جو کام عدالت کر رہی ہے۔ کوئی اقدام جو عدالت کے اس کام میں مخل ہو یا اسے انصاف کرنے سے منع کرنے والا ہو‘ وہ غلط ہے۔ لیکن ہر وہ کام‘ بحث‘ مدد جو انصاف کے قیام کو آسان بنانے اور مسئلے کی تنقیح میں مددگار ہو‘ وہ ممنوع نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ توہین عدالت (contempt of court) کی تعریف یہ کی گئی ہے:

ایسا عمل جو عدالت کو انصاف فراہم کرنے سے روکے‘ رکاوٹ بنے یا پریشانی کا باعث ہو‘ یا جو اس کے وقار کو نقصان پہنچائے۔ (Black's Law Dictionary‘ص ۲۸۸)

عدالت کے زیرسماعت کے نام پر دستوری اور سیاسی موضوعات پر بحث و گفتگو کا دروازہ بند کرنا یا ان تمام امور کا زیربحث لانا جن سے خود عدالت کو مسئلے کو سمجھنے اور تنازع کے منصفانہ حل میں مدد ملے‘ نہ توہینِ عدالت(contempt) کی تعریف میں آتا ہے اور نہ زیرسماعت کی قدغن ان پر لاگو ہوتی ہے۔ اگر ایسا ہو تو زندگی کے ہزاروں لاکھوں امور پر اظہار راے اور بحث و مباحثے کا دروازہ بند ہوجائے۔

یہ تو تھی اصولی بات‘ لیکن جب یہ بات ان کی طرف سے کی جاتی ہے جنھوں نے    چیف جسٹس کا میڈیا ٹرائل آج نہیں‘ اسٹیل مل کے فیصلے کے فوراً بعد ۲۰۰۶ء کے وسط سے شروع کردیا تھا اور جو تسلسل کے ساتھ پریس کو ایک خاص نوعیت کی معلومات خفیہ طور پر فراہم کرکے پریشر بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں تو  ع

ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہیے

جرنیل صاحب خود ٹی وی پر دو گھنٹے لن ترانی فرماتے ہیں اور ہرجلسے میں گوہرافشانیاں کررہے ہیں۔ ان کے وزیر اور دو صوبائی وزراے اعلیٰ دن رات اسی مشق میں مبتلا ہیں اور جو وزیر خاموش ہیں جرنیل صاحب ان کو للکار رہے ہیں کہ میدان میں اترو‘ میرا دفاع کرو اور چیف جسٹس کے خلاف مہم چلائو۔ یہ سب سیاست نہیں تو کیا ہے؟ اس کے مقابلے میں ہماری سیاست شرافت‘ متانت اور دلیل کی سیاست ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ فوج کا سربراہ فوجی وردی میںسیاسی تقاریر کر رہا ہے‘ ووٹ مانگ رہا ہے۔ مخالفین کو تہس نہس کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے‘ قومی خزانے کو ہرجلسے میں بے دریغ لٹا رہا ہے۔ اگر یہ سیاست گندی سیاست نہیں تو کیا اسے فوجی پریڈ اور جنگی مشق (military exercise) کہا جائے گا؟ حکومت کا پورا اقدام اور اس پس منظر اور پیش منظر کی ہرہرحرکت سیاسی ہی نہیں‘ اوچھی سیاست بازی کی غماز ہے۔ اگر اہلِ سیاست اور قانون دان اس پر بھی ردعمل ظاہر نہ کریں تووہ اپنے فرائض منصبی کی ادایگی میں مجرمانہ کوتاہی کے مرتکب ہوں گے۔ سیاست خود کوئی برائی نہیں‘ جمہوری عمل تو عبارت ہی سیاست سے ہے۔ البتہ اوچھی سیاست نہیں ہونی چاہیے لیکن اس کا ارتکاب وکلا اور سیاست دانوں نے نہیں‘ جنرل صاحب اور ان کی حکومت نے کیا ہے۔ اس کے لیے ہماری بات نہیں‘ ان کے ان مداحوں کی سند بھی حاضر ہے  جن کے بل بوتے پر فوج کے سربراہ سیاست فرما رہے ہیں۔

مغرب کی تنقید

 لندن کا روزنامہ دی ٹائمز اپنی ۱۴مارچ ۲۰۰۷ء کی اشاعت میں Judicial Errorکے عنوان سے ادارتی کالم میں پاکستان کے حالات پر یوں تبصرہ کرتا ہے:

۱۹۹۹ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے صدرمشرف کا اصرار رہا ہے کہ ان کا مقصد پاکستان کے لیے حقیقی جمہوریت ہے… لیکن انھوں نے حسب وعدہ ملک میں ایک منتخب جمہوری حکومت کی واپسی کے لیے کوئی خاص سرگرمی نہیں دکھائی ہے۔

 چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری کی برطرفی اور اس کے خلاف عوامی ردعمل کا ذکرکرنے کے بعد دی ٹائمز فیصلہ دیتا ہے کہ:

Pakistan is literally without rule of law.

اور پھر چیف جسٹس چودھری کے ’عدالتی تحرک‘ پہلے سے جمع شدہ مقدمات کو نمٹائے اور خصوصیت سے لاپتہ ہوجانے والے افراد کے حقوق کی حفاظت کے باب میں مساعی کا ذکرکرنے کے بعد جنرل صاحب کے دوسروں پر سیاست چمکانے کے دعوے کے جواب میں بڑی مسکت انداز میں اداریے میں کہا گیا ہے کہ:

حکومت کے لیے کسی سیاسی محرک کا انکار لاحاصل ہے۔ اس کے اقدام کو تقریباً پوری دنیا میں اس سال کے انتخابات کے‘ اُن ضوابط کے تحت انعقاد سے پہلے جن کو قانونی طور پر چیلنج کرنے کی توقع ہے‘ عدلیہ کو سدھانے کی کوشش سمجھا جارہا ہے۔

اگر سیاست کا جواب سیاست سے نہ دیا جائے تو کیا کیا جائے؟ جنرل صاحب کے مقدمے کے بودے پن کا پول بھی ٹائمز نے یہ کہہ کر کھول دیا ہے کہ:

اب تک حکومت نے مسٹر چودھری کے خلاف جو کچھ کہاہے اگر ان کا مقدمہ اس سے بہت زیادہ خراب نہیں ہے تو ان کو بحال کردیا جانا چاہیے۔ اچھے جنرل جانتے ہیں کہ کب قدم پیچھے ہٹانے چاہییں۔ (ٹائمز، اداریہ‘ ۱۴ مارچ ۲۰۰۷ء)

نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، لاس اینجلز ٹائمز اور دوسرے مغربی اخبارات اور رسائل نے اپنے اپنے انداز میں یہی بات لکھی ہے کہ اصل کھیل سیاسی ہے اور جرنیل صاحب عدالت عالیہ کے دستوری اور قانونی امور اور حقوق انسانی کے معاملات میں حکومت پر گرفت سے پریشان ہیں‘ اور اس انتخاب کے سال میں اپنی وردی بچانے اور انتخاب کو من پسند انداز میں منعقد کرانے میں عدالت کی ممکنہ رکاوٹ کو دُور کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سیاست نہیں‘ بلکہ گندی اور پست سطح کی سیاست نہیں تو اور کیا ہے اور اس کا مقابلہ سیاسی تحریک سے نہیں تو پھر کس طریقے سے ہوسکتا ہے؟ ہم صرف اہم ذرائع یعنی لندن کے اخبار دی گاڑدیناور ہفت روزہ اکانومسٹ سے ضروری اقتباس دینے پر کفایت کرتے ہیں تاکہ جنرل صاحب اور ان کے میڈیا منتظمین کو اندازہ ہوجائے کہ   ؎

پتّا پتّا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ توسارا جانے ہے

دی گارڈین لندن اپنے ۱۷ مارچ ۲۰۰۷ء کے اداریے Justice Deniedمیں‘ جنرل مشرف اور چیف جسٹس کی ملاقات کا حال بیان کرنے کے بعد لکھتا ہے:

پاکستان ایک جوش کی کیفیت میں ہے۔ جب جنرل مشرف نے آٹھ سال قبل فوجی انقلاب کے ذریعے قبضہ کیا تھا‘ اس کے بعد مسٹر چودھری پہلے شہری ہیں جو اس کے سامنے کھڑے ہوئے ہیں۔ کم قیمت پر اسٹیل مل کی نج کاری کے فیصلے کو اُلٹ دینے‘ اور ان سیکڑوں لوگوں کے مسئلے کو جنھیں انٹیلی جنس ایجنسیوں نے غائب کررکھا ہے لے کر اُٹھنے کی وجہ سے وہ حکومت کی نظروں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہے تھے۔ لیکن مشرف کا وار حفظ ماتقدم کے طور پر بھی تھا۔

صدر کا انتخاب ایک پارلیمنٹ نے کیا ہے جس کی مدت اگلے سال ختم ہورہی ہے۔ مشرف کی اتنی مخالفت ہے کہ آنے والی پارلیمنٹ کا صاد کرنے کا امکان نہیں‘ خاص طور پر اس لیے کہ اس نے فوج کے سربراہ کا عہدہ چھوڑنے سے انکار کیا ہے۔ موجودہ پارلیمنٹ ہی سے اپنا انتخاب کروانے کی کوشش پر بہت سے قانونی اقدام ہوں گے۔ اس لیے ضرورت ہے ایک تابع دار چیف جسٹس کو مسند پر بٹھانے کی۔

لندن اکانومسٹ پاکستان کی صورت حال کا اپنے کالم میں جائزہ لیتے ہوئے یہ لکھتا ہے:

پاکستان کے شمالی قبائلی علاقوں کو زیر کرنے کی فوج کی کوششیں جنرل کی گرتی ہوئی مقبولیت کی ایک وجہ ہیں۔ اس وجہ سے وہ لوگوں کو  ایک امریکی کٹھ پتلی لگتا ہے۔ اس بات نے حال ہی میں پاکستان کے بڑے شہروں میں چھے خودکش حملوں سمیت دہشت گردی کی ایک لہر کو اٹھادیا۔ صدر کی کوشش یہ ہے کہ اقتدار پر قبضہ برقرار رکھنے کے لیے عدلیہ کا بازو مروڑ دیا جائے۔

اپنے اب تک کے دوسالہ دور میں مسٹر چودھری نے کم و بیش ہر وہ چیز کی ہے جس کی توقع ایک پاکستانی جج سے نہیں کی جاتی۔ انھوں نے بلوچستان میں مشتبہ باغیوں کے غائب کیے جانے پر انکوائری شروع کروا دی۔ انھوں نے حکمران سیاست دانوں اور پولیس کے سربراہوں کو‘ غریبوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینے پر سخت سرزنش کی۔ انھوں نے شادیوں کی شان و شوکت سے بھرپور تقریبات پر پابندی لگائی کہ اس سے طبقاتی امتیاز پیدا ہوتا ہے۔ انھوں نے افراطِ زر کے خلاف مقدمات سنے‘ پبلک پارکوں کو امیروں کے لیے گاف کلب بنانے کی ممانعت کی اور بچوں کی شادیوں کو غیرقانونی قرار دیا۔ گذشتہ برس انھوں نے ایک بڑی اسٹیل مل کی نج کاری کو بولیوں کے عمل میں بے قاعدگی کی وجہ سے روک کر صدر کو خاص طور پر ناراض کیا۔

اگر جنرل مشرف واقعتا مزید پانچ سال کے لیے صدر اور فوجی سربراہ رہنا چاہتے ہیں تو قانونی چیلنجوں کے ایک سیلاب کی توقع کرسکتے ہیں۔ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے واضح بات ہے کہ ایک آزاد ذہن کا اعلیٰ جج ان کی پسند کا نہیں ہو سکتاتھا۔ لیکن مسٹرچودھری کے معطل کرنے سے صورت حال زیادہ خراب ہوگئی ہے۔

اگر مسٹر چودھری کو برطرف کیا جاتا ہے تو جنرل مشرف کے لیے یہ دعویٰ کرنا مشکل ہوگا کہ ان کی حکومت دستوری ہے‘ اور اگر انھیں بحال کیا جاتا ہے تو وہ ان کے لیے بہت سی پریشانیوں اور دردسر کا باعث بن سکتے ہیں۔ ایسے میں لوگ سوچتے ہیں: الیکشن ہوں گے بھی؟

سیاست چمکانے اور عدالت کے زیرسماعت ہونے کے بارے میں اتنی وضاحت کافی ہے۔ نیز مندرجہ بالا معروضات سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اصل مسئلہ اس ریفرنس کا نہیں جو ساری بے قاعدگیوں کے بعد بظاہر اب داخل کردیا گیا ہے بلکہ اپنے سیاسی کھیل کے ’رنگ میں بھنگ پڑنے‘ کے خطرے سے بچنے کے لیے کھیلا جا رہا ہے اور اس کھیل نے ملک کے اندر بھی جرنیل صاحب کی ساکھ کو‘ (جو پہلے ہی کون سی اچھی تھی) بالکل خاک میں ملا دیا ہے اور پوری دنیا میں پاکستان اور خصوصیت سے جرنیل صاحب نے جو سیاسی کھڑاگ کیا تھا اس کا پول بھی کھول دیا ہے۔

حکومت کے غیرآئینی اقدامات

اس حقیقی پس منظر کی تفہیم کے ساتھ ساتھ اس بات کی ضرورت بھی ہے کہ دستوری اور قانونی اعتبار سے بھی ان اقدامات کا جائزہ لیا جائے جو ۹ مارچ اور اس کے بعد کیے گئے ہیں۔

سب سے پہلی بات سمجھنے کی یہ ہے کہ ملک کا دستور‘ تمام کچھ تبدیلیوں اور ترامیم کے باوجود اختیارات کی تقسیم کا ایک واضح نقشہ پیش کرتا ہے اور اقتدار کو تین متعین اداروں میں تقسیم کرتا ہے یعنی انتظامیہ‘ مقننہ اور عدلیہ۔ انتظامیہ کا سربراہ وزیراعظم ہے‘ جب کہ صدرمملکت وفاق کی علامت۔ صدر ان امور کو چھوڑ کر جن میں اسے صواب دیدی اختیارات حاصل ہیں‘ وزیراعظم اور کابینہ کی ہدایات کا پابند ہے۔ مقننہ کاکام قانون سازی‘ پالیسی ہدایات دینا اور انتظامیہ پر نظر رکھنا اور اس کا احتساب ہے‘ جب کہ عدلیہ دستور اور قانون کی محافظ اور دونوں سے آزاد اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ ہم اس وقت اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ موجودہ صدر نے اپنی فوجی وردی کی بنیاد پر پوری انتظامیہ کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے اور کابینہ بشمول وزیراعظم ان کے تابع مہمل بنے ہوئے ہیں جو دستور کی کھلی کھلی خلاف ورزی اور جمہوری عمل کو مسخ کرنے کا سبب بنا ہوا ہے لیکن اس سے بڑھ کر اب وہ عدالت پر بھی مکمل کنٹرول چاہتے ہیں اور اس کے لیے ۹ مارچ کا اقدام کیا گیا ہے۔ اس سے اختیارات کی تقسیم (separation of power)کا پورا نقشہ درہم برہم ہوگیاہے۔ یہی وہ چیز ہے جو آمریت اور فسطائیت کی طرف لے جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ووڈرو ولسن نے جو امریکی صدر ہونے کے ساتھ ایک قانونی ماہر بھی تھا‘ یہ اصول بیان کیا ہے کہ:

اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ طاقت کا غلط استعمال نہیں ہوگا‘ واحد راستہ یہ ہے کہ اس کو محدود کیا جائے‘ یعنی طاقت کو طاقت سے روکا جائے۔ آزادی کی تاریخ حکومت کی طاقت پر تحدیدات کی تاریخ ہے۔

اور امریکی جج جسٹس برانڈل نے ایک مشہورمقدمہ Myees vs. United States کے فیصلے میں اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا تھا‘ جسے دستور کا ایک مسلّمہ اصول شمار کیا جاتا ہے کہ:

۱۷۸۷ء کے کنونشن میں‘ اختیارات کی علیحدگی کا ڈاکٹرائن منظور کیا گیا‘ اس لیے نہیں کہ کارکردگی کو بڑھایا جائے بلکہ من مانی طاقت کے استعمال کو محدود کرنے کے لیے۔ مقصد ٹکرائوسے بچنا نہیں تھا بلکہ تین شعبوں (مقننہ‘ انتظامیہ اور عدلیہ) میں حکومت کے اختیارات کی تقسیم کی بنا پر ناگزیر ٹکرائو عوام کو آمریت سے بچانے کا سبب بن جاتا ہے۔(ملاحظہ کیجیے:Fundamental Law of Pakistan ، اے کے بروہی‘ ص ۷۰-۷۱)

ہمارے دستور کی بھی یہی بنیاد ہے لیکن unity of command کے نام پر جرنیل صاحب نے اس کا حلیہ بگاڑدیا ہے اور ملک پر من مانے اور آمرانہ حکمرانی (arbitarary rule)  کی سیاہ رات طاری کردی ہے۔

دستورکی رو سے عدلیہ‘ انتظامیہ سے مکمل طور پر آزاد ہے۔ صدر کو دستور کے مطابق اور دستوری روایات کا احترام کرتے ہوئے‘ جنھیں Judges Case میں قانون کا درجہ دے دیا گیا ہے‘ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے تقرر کا اختیار دیا گیا ہے لیکن ایک بار کسی جج کے تقرر کے بعد دستور نے صدر اور انتظامیہ سے یہ اختیار سلب کرلیا ہے کہ وہ جس طرح چاہے اور جب چاہے ایک جج کو فارغ کردے‘ رخصت پر بھیج دے‘ غیرفعال بنا دے‘ معطل کردے یا کسی اور شکل میں اس کے اختیارات میں تخفیف کرسکے۔ دستور کی دفعہ ۲۰۹ میں واضح طور پر لکھ دیا گیا ہے کہ صرف اس دفعہ کے تحت اعلیٰ عدالت کے کسی جج کے سلسلے میں کوئی کارروائی ہوسکتی ہے۔ وزیرقانون کی یہ ہرزہ سرائی کہ جسے ججوں کے تقرر کا اختیار ہے‘ اسے ان کو رخصت کرنے یا معطل کرنے کا اختیار بھی حاصل ہے اس لائق ہی نہیں کہ اس پر سنجیدہ گفتگو کی جائے۔ یہ ایک مسلمہ اصول ہے۔

بلاشبہہ قانون کی نگاہ میں سب برابر ہیںاور کوئی قانون سے بالا نہیں اور اگر کسی جج نے اپنے منصب کے منافی کوئی کام کیا ہے تو اس کا بھی اسی طرح محاسبہ ہونا چاہیے جس طرح کسی اور کا۔ لیکن بنیادی اصول یہ ہیں کہ:

اوّل، ہر اقدام اور احتساب قانون کے تحت اور اس کے دائرے کے اندر ہو۔

دوم، نیز صرف اسے اقدام کرنے کا حق ہے جسے قانون یہ حق دیتا ہے۔

سوم، اس حق کا استعمال بھی قرار واقعی قانونی عمل (due process of law) ہی کے تحت ہوسکتا ہے۔

چہارم، قانون کا استعمال من پسند (selective) نہیں بلکہ سب کے لیے یکساں ہونا چاہیے۔ یہ نہیں کہ جس سے آپ خوش ہیں اس کے لیے قانون کا کوئی وجود نہ ہو اور جس سے آپ ناراض ہوجائیں اس کے لیے ’قانون سب کے لیے‘ کا فرمان جاری ہوجائے۔

اور پنجم، قانون کا استعمال بدنیتی پر مبنی نہ ہو یعنی اسے نیک نیتی (bonafide)  سے استعمال کیا جائے بدنیتی (malafide)سے نہیں۔

چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری کے معاملے میںصاف نظر آرہا ہے کہ قانون کے ان پانچوں مسلمہ اصولوں کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پوری وکلا برادری اور ملک کے تمام ہی دینی‘ سیاسی اور پروفیشنل اداروں اور دانش وروں نے اسے قانون اور انصاف کا قتل قرار دیا ہے۔

سپریم جوڈیشل کونسل ایک دستوری ادارہ ہے جس کی تشکیل بھی دستور میں کردی گئی ہے جسے کوئی بدل نہیں سکتا۔ صدر کو دستور یہ اختیار دیتا ہے کہ کسی بھی جج کے خلاف ریفرنس اسے بھیج دے۔ الزامات کی تحقیق اور جرم کے تعین کا اختیار صدر‘ وزیراعظم یا کسی اور کو حاصل نہیں اور نہ صدر کا یہ کام ہے کہ چیف جسٹس سے سوال جواب کرے اور کہے کہ چونکہ وہ مجھے مطمئن نہیں کرسکے اس لیے میں ریفرنس بھیج رہا ہوں۔ یہ دستور کی کھلی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ہمیں ان دستوری ماہرین کی راے تسلیم کرنے میں تامل ہے جو یہ کہتے ہیں کہ چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس ہو ہی نہیں سکتا۔ دفعہ ۲۰۹ میں اس کے لیے اگر لفظی گنجایش ہے بھی‘ تو یہ عدل کے اساسی اصول کے خلاف ہے۔ ہماری نگاہ میں ریفرنس تو چیف جسٹس کے خلاف بھی دیا جاسکتا ہے لیکن یہ دستوری طور پر متعین کردہ سپریم جوڈیشل کونسل ہی کو بھیجا جاسکتا ہے۔ قانون کے ایک دوسرے اساسی اصول کہ ایک شخص اپنے معاملے میں خود جج نہیں ہوسکتا اس کی رو سے ایسی صورت میں متعلقہ جج اس ریفرنس کی حد تک کونسل میں شریک نہیں ہوگا اور دستور کے مطابق دوسرا سینیر جج اس کا رکن ہوجائے گا۔ صدر کا  چیف جسٹس کو کیمپ آفس میں طلب کرنا‘ خود استفسار کرنا‘ جواب طلب کرنا اور وہ بھی فوجی وردی میں دستور اور شایستگی ہرایک کے خلاف تھا۔ اس طرح صدر نے دستور کی کھلی کھلی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا ہے اور دستورکے ایک ستون یعنی عدلیہ کی آزادی پر ضرب لگائی ہے۔

دوسری چیز چیف جسٹس سے استعفا طلب کرنے سے متعلق ہے۔ یہ اختیار دستور نے صدر کو نہیں دیا اور انھوں نے یہ مطالبہ کرکے دستور کی خلاف ورزی اور عدلیہ کی آزادی پر ایک اور حملہ کیا ہے۔

تیسرا غیرقانونی عمل چیف جسٹس کے استعفا نہ دینے کے عندیے کے اظہار پر انھیں  معطل (suspend) کرنے کا ہے جس کا کوئی اختیار صدر یا سپریم جوڈیشل کونسل کسی کو بھی حاصل نہیں۔ چیف جسٹس اس وقت تک چیف جسٹس رہتا ہے جب تک اس کے خلاف کونسل فیصلہ نہ دے دے۔ آداب عدالت کا تقاضا ہے کہ وہ خود چھٹی پر چلا جائے یا خود کو ان امور سے غیر متعلق کرلے جو فیصلے پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ لیکن اسے غیرفعال کرنا یا جبری رخصت پر بھیجنا دستور اور قانون کے خلاف ہے۔ اب ۱۹۷۰ء کے جس قانون کی بات کی جارہی ہے وہ۱۹۷۳ء کے دستور کے بعد غیرمؤثر ہوچکا ہے اور ۱۹۷۵ء کے جواز (validation) کا تعلق صرف ان امور سے ہے جو اس قانون کے تحت ۱۹۷۰ء اور ۱۹۷۵ء کے درمیان ہوئے۔ آیندہ کے لیے ۱۹۷۳ء کا دستور اصل حَکَم ہے۔

چوتھی دستوری خلاف ورزی چیف جسٹس کی موجودگی میں قائم مقام چیف جسٹس کا تقرر اور دستور کے واضح احکام میں ’available‘ کا غیرقانونی اضافہ کرکے سینیرترین جج کی جگہ اس کے جونیر جج کا اس عہدے پر تقرر ہے۔ یہ روایت خود بڑی غلط ہے اور عدلیہ کی آزادی کے لیے بڑا خطرہ اور انتظامیہ کے لیے دراندازیوں کا دروازہ کھولنے والی ہے۔

پھر یہ بھی ایک معما ہے کہ چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری ۱۱بجے صبح سے ۴بجے شام تک خاکی صدر کے کیمپ میں محصور تھے۔ جرنیل صاحب کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے جمعہ کی نماز سے قبل یعنی ایک اور دو بجے کے درمیان چیف جسٹس کو ریفرنس کی چارج شیٹ دی۔ قائم مقام چیف جسٹس کی تقریب حلف برداری ۴ بجے ہوجاتی ہے اور اس میں سندھ اور پنجاب کے چیف جسٹس حضرات نے بھی شرکت کی جو جوڈیشل کونسل کے رکن تھے اور جن کو خاص طور پر خصوصی جہاز کے ذریعے لایا گیا جس میںلازماً ۴گھنٹے لگے ہوں گے۔ پھر طرفہ تماشا ہے کہ وزارتِ قانون کا نوٹی فکیشن ۳بجے جاری ہوا ہے جس میں قائم مقام چیف جسٹس کے تقرر کا اعلان ہے اور کونسل نے ۵بجے ایک ہنگامی اجلاس میں چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری کو غیرفعال کرنے کا فیصلہ کیا۔

اوّل تو یہی محل نظر ہے کہ کیا دستور‘ جوڈیشل کونسل کو یہ اختیار دیتا ہے؟ لیکن بفرض محال اگر یہ اختیار تھا بھی‘ تو صدر کے چیف جسٹس کو غیرفعال کرنے کے بعد اسے غیرفعال کرنے کی کیا ضرورت تھی۔کیا اس کے یہ معنی نہیں کہ صدر نے غیرفعال کرنے کا جو اقدام کیا وہ صحیح نہیں تھا اور اسی وجہ سے کونسل نے دوبارہ یہ اقدام کیا۔ لیکن اگر صدر کا وہ اقدام درست نہیں تھا تو قائم مقام چیف جسٹس کا تقرر اور اس کے حلف کا اقدام قانونی اور دستور کے مطابق کیسے ہوسکتے ہیں؟ خاص طور پر‘ جب کہ دستور میں سینیرترین جج کا قائم مقام مقرر کیا جانا دفعہ ۱۸۰ کے تحت ایک لازمی فرض (obligatory imperative) ہے اور availableکا اضافہ دستور میں کرنے کا کسی کو اختیار نہیں۔

یہ سب بڑے سنگین دستوری اور قانونی سوال ہیں اور ان کا سامنا کیے بغیر ملک قانون کی حکمرانی کی طرف پیش قدمی نہیں کرسکتا۔ جرنیل صاحب نے یہ سب کچھ کرکے خود کو دستوری اور قومی مواخذے کا مستحق بنالیا ہے___ دیکھیے ’قانون سب کے لیے‘ کا اصول کب حرکت میں آتا ہے۔

جس طرح یہ سارا اقدام کیا گیا ہے‘ اس کے دستوری پہلوؤں کے ساتھ اہم سیاسی اور اخلاقی پہلو بھی ہیں۔ چیف جسٹس کو کیمپ آفس میں بلانا‘ ان سے سوال جواب کا وہ عمل کرنا جو صرف جوڈیشل کونسل ہی کسی جج سے کرسکتی ہے‘ اور پھر فوج کے چیف آف اسٹاف کی وردی میں یہ عمل کرنا اور ٹی وی اور میڈیا میں اس کی تصاویر جاری اور نشر کرنا‘ پھر جب تک قائم مقام چیف جسٹس کی  حلف برداری مکمل نہ ہوگئی۔ چیف جسٹس کو کیمپ آفس میں محبوس رکھنا‘ جب کہ جرنیل صاحب بقول خود اس عرصے میںیعنی ۳بجے کی فلائٹ سے کراچی روانہ ہوگئے۔ (یہ بات انھوں نے جیو کے انٹرویو میں خود کہی ہے) پھر چیف جسٹس کی کار سے جھنڈا اُتارنا‘ ان کے گھر سے جھنڈا اُتارنا‘ ان کو سپریم کورٹ نہ جانے دینا اور زبردستی ان کو گھر میں محبوس کرنا‘ ان کے گھر کی پولیس اور رینجرز کی ناکہ بندی‘ ٹیلی فون‘ ٹیلی وژن‘ اخبارات‘ ذاتی عملہ ہر چیز سے محروم کردینا‘گھر کے اندر سیکورٹی ایجنسیوں کا ہرچیز پر قبضہ کرلینا اور پورے خاندان کو ایک وقت تک صرف ایک کمرے میں بند کردینا‘ ملنے جلنے پر پابندی___ یہ کس اخلاق کا مظاہرہ ہے؟ چیف جسٹس قومی پروٹوکول میں صدر‘ وزیراعظم اور سینیٹ کے صدر کے بعد چوتھے یا پانچویں نمبر پر آتا ہے۔ آرمی کے چیف آف اسٹاف کا نمبر پھر اس کے دس نمبروں کے بعد آتا ہے۔ پھر ابھی آپ نے ریفرنس بھیجا ہے‘ اس کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں ہوا لیکن جرم کے اثبات سے پہلے ایسی گھنائونی سزا قانون‘ انصاف اور اخلاق ہر ایک کے خلاف ہے اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو (خواہ وہ کیسے ہی اُونچے مراتب پر فائز ہوں) سزا نہ دینا قومی جرم ہوگا۔

یہ تو ۹مارچ کی بات ہے۔ پھر چیف جسٹس کے ساتھ ۱۳ مارچ کو جو کچھ ہوا‘ وہ اس سے بھی زیادہ شرم ناک اور مجرمانہ فعل ہے۔ اس پورے عرصے میں وکلا برادری کے احتجاج اور سیاسی جماعتوں اور عوام کی احتجاجی سرگرمیوں کو جس طرح اندھی قوت کے ذریعے دبانے کی کوشش کی گئی ہے اور میڈیا کے ذریعے صریح جھوٹ اور دھوکے کی جو مہم چلائی گئی ہے‘ اس نے قانون اور اخلاق دونوںکی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ جو حکمران اس سطح پر اتر سکتے ہیں وہ ہر قسم کے جواز سے محروم ہوجاتے ہیں اور ان کا شمار مجرموں کی صف میں ہوتا ہے۔ کیا جرنیل صاحب اور ان کے حواریوںکو ان حقائق کا کچھ بھی شعور ہے؟ اور کیا وہ قوم اور پوری دنیا کو بالکل بے عقل سمجھتے ہیں کہ گوئبلز کو مات کرنے والے ان کرتبوں سے وہ انھیں بے وقوف بناسکتے ہیں؟ملک اور بین الاقوامی میڈیا پر جس کی نظر ہے وہ جانتا ہے کہ حکومت کی ان تمام کارستانیوں کا انجام اس سے مختلف نہیں کہ آسمان پر تھوکا منہ پر___

عدلیہ کا امتحان

چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس کی جو جھلکیاں سرکاری’خفیہ خبررسانی‘ (leakege) کے ذریعے سامنے آئی ہیں‘ ان کے بارے میں سب حیران ہیں کہ کیا یہی وہ چارج شیٹ ہے جس کے سہارے جرنیل صاحب نے یہ اقدام کیا ہے؟ جسٹس افتخارمحمد چودھری نے اپنے کھلے دفاع کا اعلان کیا ہے اور یہ ان کا حق ہے اور فرض بھی۔ اگر ان سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو اس کا احتساب ضرور ہونا چاہیے۔ لیکن جو کچھ اخبارات میں آیا ہے یا جو ریفرنس سے پہلے ان کے میڈیا ٹرائل کے ذریعے قوم کے سامنے لایا گیا ہے اس میں بظاہر کوئی ایسی چیز نہیں جسے دستور‘ قانون یا عدالتی آداب کی صریح اور قابلِ گرفت خلاف ورزی کہا جاسکے۔ لیکن اس سلسلے میں اصل فیصلہ انصاف اور حق کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل ہی کرسکتی ہے اور اسے ہی کرنا چاہیے۔ البتہ ’قانون سب کے لیے‘ کے علَم برداروں سے اتنی گزارش کرنے کی جسارت ہم بھی کرسکتے ہیں کہ حضرت عیسٰی ؑکا مشہور واقعہ آپ کے لیے بھی بہت کچھ پیغام رکھتا ہے کہ:

Whoever of you has committed no sin may throw the first stone.

تم میں سے جس نے کوئی گناہ نہیں کیا ہے وہ پہلا پتھر پھینکے۔

اور تاریخ گواہ ہے اس مجمع میں پہلا پتھر پھینکنے والا کوئی سامنے نہ آیا۔

جیساکہ ہم نے پہلے کہا آج صرف جسٹس افتخارمحمد چودھری ہی کا مقدمہ ہی زیرسماعت نہیں‘ ہماری عدلیہ کا بحیثیت ادارہ بھی امتحان ہے اور پوری قوم ہی سخت امتحان کی گھڑی میں ہے۔ عدلیہ کی تاریخ میں روشن اور تاریک دونوں پہلو نظر آتے ہیں۔ جس طرح مختلف ادوار میں نظریۂ ضرورت کے نام پر اصول اور اداروں کے صحیح خطوط پر ارتقا کے عمل کو نقصان پہنچا ہے اب اس کی تلافی کا وقت آگیا ہے۔ نیز اربابِ اختیار کے پروٹوکول‘ مالی فوائد اور مراعات کا مسئلہ بھی اب ڈھکا چھپا نہیں بلکہ اس کا کھل کر سامنا کرنا ہوگا۔

مسئلہ ایک فرد کے کاروں اور جہازوں کے استعمال کا نہیں‘ حکمرانی کے اس پورے کلچر کا ہے جس کو ایک مخصوص طبقے نے ملک پر مسلط کردیا ہے اور ہر کوئی اس دوڑ میں شریک ہوچکا ہے۔ بات عدلیہ اور انتظامیہ کے تعلق ہی کی نہیں بلکہ ملکی اور غیرملکی تجزیہ نگاروں کے اس اضطراب پر بھی ٹھنڈے دل کے ساتھ غوروفکر کرنے کی ہے جسے military judiciary allianceتک کا نام دیا گیا ہے۔ ہرفوجی طالع آزما کے لیے جواز فراہم کرنے والوں اور ہر عبوری دستور پر حلف لینے والوں کی روش پر اب نہ صرف کھلا احتساب ہونا چاہیے بلکہ اس بُری روایت کو ختم ہونا چاہیے تاکہ ملک میں حقیقی جمہوریت‘ دستور اور قانون کے احترام‘ اداروں کے استحکام‘ اداروں کی بنیاد پر پالیسی سازی اور فیصلہ کرنے کا نظام قائم ہوسکے اور یہ قوم اور ملک جن مقاصد کے لیے جمہوری جدوجہد اور اُمت مسلمہ پاک و ہند کی بے شمار قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا تھا۔ آج عدلیہ اور سیاسی قیادت ہی نہیں پوری قوم کے لیے فیصلے کی گھڑی (moment of truth) ہے اور سابق جج اور نام ور وکیل فخرالدین جی ابراہیم نے ایک مجلے میں جس چیلنج کی نشان دہی کردی ہے اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کا وقت ہے:

If people give up protesting now, they might as well forget about independent judiciary.

اگر لوگ اس وقت احتجاج کرنا چھوڑ دیں تو وہ بھلے آزاد عدلیہ کو بھول جائیں۔

ان کی بات سے مکمل اتفاق کے ساتھ ہم اس پر یہ اضافہ ضروری سمجھتے ہیں کہ بلاشبہہ اولین چیلنج عدلیہ کی آزادی اور اس پر فوجی حکمرانی کے شب خون سے پیدا شدہ حالات کے مقابلے کا ہے لیکن بات اس سے زیادہ ہے۔ یہ حملہ جس وجہ سے ہوا ہے وہ سیاست میں فوج کی مداخلت اور انتظامیہ پر چیف آف اسٹاف کا قبضہ ہے۔ اب عدلیہ کی آزادی بھی اسی وقت حاصل ہوسکے گی جب جرنیلی آمریت سے نجات حاصل کی جائے‘دستور کو اس کی اصل شکل میں نافذ کیا جائے‘ پارلیمنٹ کی بالادستی بحال ہو‘ دستور کی تینوں بنیادوں پر خلوص اور دیانت سے عمل ہو یعنی اسلام‘ پارلیمانی جمہوریت اور حقیقی فیڈرل نظام کا قیام۔ یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب قومی جدوجہد عدلیہ کی آزادی کے ہدف کے ساتھ عدلیہ پر حملے کے اسباب اور ان قوتوں کو بھی غیرمؤثر بنانے پر توجہ مرکوز کرے جو دستور‘ جمہوریت اور عدلیہ کی آزادی کی بساط لپیٹ دینے پر تلے ہوئے ہیں۔

یہ اسی وقت ممکن ہے جب اقتدار دستور کے مطابق عوام کو منتقل کیا جائے‘ جرنیلی آمریت سے نجات پائی جائے اور حقیقی طور پر آزاد عبوری حکومت کے تحت آزاد الیکشن کمیشن کے تحت صاف اور شفاف انتخابات منعقد کیے جائیں تاکہ عوام اپنی آزاد مرضی سے اپنے نمایندے منتخب کریں جو دستور کے مطابق اور قومی احتساب کے بے لاگ نظام کے تحت اپنی ذمہ داری ادا کریں۔ فوج اپنے پروفیشنل دفاعی ذمہ داریوں تک محدود ہو اور سیاست کو سرکاری ایجنسیوں کی دست برد سے پاک کیا جائے۔ جزوی اہداف سے اصل مقاصد حاصل نہیں ہوسکتے۔ اب اس جدوجہد کو مکمل جمہوریت اور دستور کے الفاظ اور روح دونوں کے مکمل نفاذ تک جاری رہنا چاہیے۔

 

اختلاف راے علم و تحقیق کے لیے رحمت ہے۔ یہ صرف کھلی بحث‘ تنقیدی جائزے اور دیانت دارانہ بحث کے ذریعے ہی ممکن ہے کہ صحیح علمی قدروقیمت کا تعین ہوسکے۔ حقیقی مکالمے کے مفہوم میں یہ شامل ہے کہ دلائل کے لیے وسعت قلبی‘حقائق کا ادراک‘ اختلاف راے کے لیے  تحمل و برداشت ہو‘ جب کہ اہم ترین پہلو علمی دیانت اور اخلاقی بلندی ہے۔ اگر یہ نہیں ہے تو باقی سب کی کوئی اہمیت نہیں۔

پاکستان دنیا کے سیاسی نقشے پر ۱۹۴۷ء میں اُبھرا۔ اس نے مسلمانان ہند کی جمہوری جدوجہد کے نقطۂ عروج کی عکاسی کی جس کے تحت انھوں نے برطانوی راج سے ایک نئے دستوری نظام کے تحت آزادی حاصل کی۔ اس نے مسلمانوں کو اس قابل بنایا کہ وہ مسلم اکثریتی علاقوں میں ایک آزاد اور خودمختار ریاست قائم کرسکیں جہاں وہ اپنے ایمان‘ اقدار‘ نظریات اور تاریخی روایات کی روشنی میں سماجی‘ سیاسی‘ اقتصادی اور ثقافتی ترقی کرسکیں۔ یہ ان کی اسلامی تشخص سے وابستگی اور تعلق ہی تھا جس نے پوری سیاسی جدوجہد کے دوران مسئلے کو زندہ رکھا‘ خاص طور پر تحریکِ خلافت (۱۹۱۱ء-۱۹۲۵ء) اور تحریک پاکستان (۱۹۴۰ء-۱۹۴۷ء) کے دوران۔ محمداقبال کا مسلم لیگ کے اجلاس سے صدارتی خطاب (۱۹۳۰ء)‘ قائداعظم محمدعلی جناح اور دیگر مسلم لیگی قائدین کے سیکڑوں بیانات اور پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کا قرارداد مقاصد (مارچ ۱۹۴۹ء) کا منظور کرنا‘ ان سب پر ایک محتاط نظر‘ اس بات میں کوئی شبہہ باقی نہیں رہنے دیتی کہ اسلام ہی تحریکِ پاکستان اور ریاست اور معاشرے کا مرکزی نکتہ تھا‘جو اس تاریخی جدوجہد کے نتیجے میں ایک حقیقت کے طور پر اُبھر کر سامنے آیا۔

سیکولرلابی نے آئین ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد پر بحث کے دوران پہلی مرتبہ سر اُٹھایا۔ اس موقع پر‘ قائداعظم کی ۱۱ اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کو ہندو ممبران اسمبلی نے جن کا تعلق کانگریس پارٹی سے تھا‘ پورے زوروشور سے اُٹھایا۔ آئین ساز اسمبلی کے مسلم ممبران نے لیاقت علی خان‘ عبدالرب نشتر اور مولانا شبیراحمدعثمانی کی قیادت میں اس دعوے کو رد کردیا اور قراردادمقاصد تقریباً متفقہ طور پر منظور ہونے سے سیکولرلابی کا پول کھل کر رہ گیا۔ یہ افسوس ناک امر ہے کہ سیکولر لبرل لابی اسی غبارے میں پھر ہوا بھرنے کے عمل پر مصر ہے۔ جسٹس محمدمنیر فریب اور تحریف کے اس کھیل کے مرکزی کھلاڑی تھے۔ اپنی کتاب: From Jinnah To Zia (وین گارڈ بکس‘ لاہور‘ ۱۹۸۰ء) میں انھوں نے جناح کا پاکستان بطور سیکولر ریاست کے تصور کے حق میں مبینہ دلائل پیش کیے۔ پاکستان اور بیرون ملک میں پائی جانے والی تمام سیکولر لابی اس کتاب میں جناح سے وابستہ کیے جانے والے بیانات کو اس بحث میں بنیادی حوالے کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ اگرچہ جسٹس منیراور سیکولرلابی کے الزامات کو بہت سے مصنفین بشمول تبصرہ نگار نے چیلنج کیا ہے ‘ لیکن زیرتبصرہ مختصر اور جامع کتاب: سیکولرجناح میں سیکولر حضرات کے موقف پر بہت بھرپور‘ جان دار اور شواہد کے ساتھ کڑی تنقید کی گئی ہے۔ سلینہ کریم نے انتہائی محتاط تحقیقی کام سے جسٹس منیر اور تمام ہم خیال سیکولر لابی کے اسکالر ادیبوں کے ٹولے بشمول اردشیر کاؤس جی ‘ اشتیاق احمد‘ پرویز ہود بھائی‘ اے ایچ نیر وغیرہ جیسے مریضانہ ذہنیت کی حد تک لکھنے والوں کے موقف کا بھرپور اور زوردار انداز میں رد کردیا ہے۔

یہ کتاب اس بات کے بارے میں کوئی شک و شبہہ باقی نہیں چھوڑتی کہ قائداعظم کو جانتے بوجھتے غلط نقل (quote)کیا گیا ہے۔ درحقیقت انھیں نہ صرف چھانٹ چھانٹ کر اور سیاق و سباق سے ہٹتے ہوئے نقل کیا گیا ہے بلکہ جو الفاظ انھوں نے کبھی نہیں کہے‘ وہ ان سے منسوب کردیے گئے ہیں۔ مزیدبرآں ان مصنفین نے بڑی تعداد میں اور بکثرت پائے جانے والے ان شواہد سے صرفِ نظر کیا ہے جو قائداعظم کے اس نقطۂ نظر اور وژن کو واضح کرتے ہیں‘ جو وہ پاکستان کے بارے میں اسلام کے اصولوں پر مبنی اور ملّت اسلامیہ کی آرزؤں اور تمنائوں کے مطابق ریاست کے طور پر رکھتے تھے۔سلینہ کریم نے نہایت محتاط انداز میں قائداعظم کے رائٹر کے نمایندے کو دیے گئے اس انٹرویو کا جس کا عام طور پر حوالہ دیا جاتا ہے‘ اصل متن تلاش کیا ہے‘ اور حتمی طور پر ثابت کیا ہے کہ جسٹس منیر نے جو الفاظ ان سے منسوب کیے تھے‘ وہ اصل بیان میں تھے ہی نہیں۔ جسٹس منیر نے ان سے یہ منسوب کیا ہے کہ انھوں نے کہا: ’’نئی ریاست ایک جدید ریاست ہوگی جس میں اعلیٰ ترین اختیار (sovereignty)  عوام کے ہاتھ میں ہوگا‘‘۔

یہ بات دل چسپی کا باعث ہوگی کہ گرامر کی ایک غلطی کی وجہ سے مصنفہ اس رخ پر پڑیں اور بالآخر تحقیق کے بعد یہ دریافت ہوا کہ یہ اقتباس محض لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے ایک جعل سازی تھا‘اور سب سے زیادہ پریشان کن پہلو یہ ہے کہ یہ بات ایک چیف جسٹس نے کی جسے انصاف اور سچائی کا نگہبان تصور کیا جاتا ہے۔

کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلا باب اس بیان سے متعلق ہے جو قائداعظم سے منسوب کیا جاتا ہے جوکہ جعل سازی کا ایک نمونہ ثابت ہوچکا ہے۔ باقی تین ابواب جناح سے متعلق دوسری ۱۲ فرضی باتوں کے بارے میں ہیں‘ جن کا تعلق ان کے مبینہ سیکولرزم یا ان کے اپنے نام نہاد سیکولر طرززندگی سے ہے۔ اس بحث میں محتاط محققہ نے ۴۰ سے زیادہ اقتباسات پیش کیے ہیں جن سے جناح کی اسلام کے عقیدے اور نظریے سے گہری وابستگی‘ اور انھوں نے ملّت اسلامیہ سے اسلام کے تحرک‘ تشخص اور پاکستان کی منزل کے تناظر میں جو پختہ عہد کیا تھا‘ ثابت ہوتا ہے۔ مصنفہ نے اپنے دعوے کو شک و شبہے سے بالاتر ناقابلِ تردید شواہد سے ثابت کیا ہے۔ انھوں نے سیکولر اور لبرل لابی کے اخلاقی اور علمی دیوالیہ پن کا بھی انکشاف کیا ہے جنھوں نے اپنے موقف کو‘ واقعات کو مسخ کر کے‘ حقائق سے انکار کرکے اور قبیح و ناروا علمی فروگذاشت کی بنیاد پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ سیکولر لابی کے ہردعوے کو حقائق اور ٹھوس دلائل سے رد کیا گیا ہے۔ بہرحال جناح کے ساتھ بالآخر انصاف کیا گیا ہے‘ جب کہ پاکستان میں انصاف تقسیم کرنے والوں نے ان کے سر ناانصافیاں منڈھی ہیں۔

اگرچہ زیرتبصرہ کتاب جناح کے پاکستان کے وژن اور جسٹس منیر اور ان کے پیرو اہلِ قلم کی فریب کاری جو انھوں نے برسوں پھیلائے رکھی‘ کے حوالے سے بھرپور ہے‘ تاہم مصنفہ نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اس کی حیثیت ایک تاریخ کی کتاب کی نہیں ہے۔ یہ اب بھی مفید ہوگا اگر اس بحث کے تاریخی تناظر میںاسی طرح کا قابلِ قدر علمی مطالعہ پیش کیا جائے۔

بحث کا پہلا مرحلہ ۱۹۴۹ء میں آئین ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد سے پہلے اور دوران بحث سے متعلق ہے۔ اس کے بعد ۱۹۵۳ء میں قادیانی مسئلے پر حکومت مخالف تحریک کے بعد کے اثرات کو سامنے لاتی ہے۔ جسٹس منیر کا اسلامی ریاست کے تصور اور جناح کے مبینہ سیکولر وژن کے بارے میں پہلا حملہ تحقیقاتی عدالت کی پنجاب میں فسادات کے بارے میں رپورٹ میں کیا گیا جو پنجاب ایکٹ II‘ ۱۹۵۴ء کے تحت قائم کی گئی تھی۔ یہ رپورٹ عام طور پر منیر رپورٹ ۱۹۵۶ء کے طور پر جانی جاتی ہے‘ اور اس پر مکمل تنقیدی جائزہ جماعت اسلامی پاکستان نے منیر رپورٹ کا تجزیہ ‘ (پنجاب ڈسٹربنس انکوائری رپورٹ کا تنقیدی جائزہ) کے عنوان سے شائع کیا‘ جو مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی نے لکھا اور اس تبصرہ نگار نے اس کا ترجمہ کیا۔

منیر رپورٹ  میں جناح کے ڈوم کیمپلز کے انٹرویو پر مبنی اسی مبینہ اقتباس (ص ۲۰۱) کا حوالہ دیا گیا ہے ‘جس کی حقیقت زیرتبصرہ کتاب میں بہت واضح طور پر کھول دی گئی ہے۔ہمارے جواب الجواب‘ منیر رپورٹ کا تجزیہ میں قائداعظم کے بارے میں اس موقف کو رد کردیا گیاتھا‘ مگر مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی جھجک نہیں کہ فریب دہی پوری طرح کھل کر سامنے نہیں آئی تھی جب تک کہ موجودہ کتاب سامنے نہیں آئی۔ اس تحقیق کا سہرا یقینا سلینہ کریم کو جاتا ہے۔

شریف المجاہد (قائداعظم جناح: اسٹڈیز ان دی انٹرپرٹیشن، قائداعظم اکیڈیمی‘ کراچی‘ ۱۹۷۸ء) اور دیگر بہت سے مصنفین بشمول تبصرہ نگار (کیا قائداعظم ایک دھوکا باز تھے؟  نیوایرا، کراچی‘ ۲۸ جنوری ۱۹۵۶ء) نے اس موضوع پر لکھا ہے اور قائداعظم کی اس مسئلے پر پوزیشن کو واضح کیا ہے۔بعض مقامات پر دھیمے‘ خوش گوار اور مناظرانہ انداز میں --- جس مشقت سے  سلینہ کریم نے تحقیق کی اور جس طرح سے انھوں نے جعل سازوں کی فریب دہی کا انکشاف کیا ہے‘ اپنے موضوع پر قابلِ تحسین کاوش ہے جو ریکارڈ درست رکھنے میں بھی مددگار ہے۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ یہ کتاب ایک آئینے کی مانند ہے جو قائداعظم کے پاکستان کے بارے میں حقیقی تصور اور سیکولر لابی کے مسخ شدہ بیانات دونوں کی عکاسی کرتی ہے۔

سلینہ کریم بجا طور پر دعویٰ کرتی ہیں کہ جناح نے اپنی تقریروں‘ تحریروں اور انٹرویو میں محض ایک بار بھی سیکولرزم کے نظریے کی واضح طور پر حمایت نہیں کی‘ یا پاکستان کے ایک سیکولر ریاست کے طور پر کوئی اشارہ بھی دیا ہے۔ درحقیقت انھوں نے بارہا پاکستان کے لیے ’مسلم ریاست‘، ’اسلامی ریاست‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے اور واضح طور پر کہا ہے کہ قیامِ پاکستان کے پیچھے جو تصور کارفرما تھا وہ ’اسلامی اصولوں‘ اور’اسلامی قانون‘ پر عمل درآمد تھا۔ تاہم ان سے قائد کے کئی بیانات میں اہم متعلقہ بیانات رہ گئے۔ مثال کے طور پر مسلمانانِ ہند کے لیے اپنے ایک پیغام (۸ستمبر‘ ۱۹۴۵ء) میں انھوں نے سیکولرزم کے نظریے پر ایک شدید ضرب لگائی۔ انھوں نے کہا:

ہرجہت میں مسلمان اپنی ذمہ داریاں زیادہ سے زیادہ محسوس کررہے ہیں۔ ہرمسلمان جانتا ہے کہ قرآنی احکام صرف مذہبی اور اخلاقی امور تک محدود نہیں ہیں۔ گبن کے بقول: اٹلانٹک سے گنگا تک قرآن کو ایک بنیادی ضابطے کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے‘ نہ صرف دینیات کے اعتبار سے بلکہ سول اور فوج داری ضابطوں اور ایسے قوانین کے لحاظ سے جو بنی نوع انسان کے افعال اور املاک پر اللہ تعالیٰ کے غیرمبدل قوانین کے طور پر محیط ہے۔ جہلا کے سوا ہر شخص اس امر سے واقف ہے کہ قرآن کریم مسلمانوں کا عام ضابطہ حیات ہے۔ ایک دینی‘ معاشرتی‘ سول‘ تجارتی‘ فوجی‘ عدالتی‘ فوج داری ضابطہ ہے۔ رسومِ مذہب ہی سے متعلق نہیں‘بلکہ روزانہ زندگی سے متعلق بھی۔ روح کی نجات سے لے کر جسمانی صحت تک‘ حقوق العباد سے لے کر فردِواحد کے حقوق تک‘ اخلاقیات سے لے کر جرائم تک اس دنیا میں سزا سے لے کر عقبیٰ میں سزا تک۔ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لازمی قرار دیا کہ ہرمسلمان کے پاس قرآن کریم کا ایک نسخہ ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنی رہنمائی خود کرسکے۔ لہٰذا اسلام محض روحانی عقائد اور نظریات یا رسم و رواج کی ادایگی تک محدود نہیں ہے۔ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور پورے مسلم معاشرے پر محیط ہے‘ زندگی کے ہرشعبے پرمن حیث المجموع اور انفرادی طور پر جاری و ساری ہے۔ (قائداعظم: تقاریر و بیانات‘ جلدسوم‘ ترجمہ:اقبال احمد صدیقی‘ بزمِ اقبال‘لاہور‘ ص ۴۷۴)

سیکولرزم سے متعلق ایک اور بہت اہم حوالہ‘ جو غالباً واحد حوالہ ہے جسے میں نے ان کی تقاریر اور بیانات میں پایا‘ پارٹیشن پلان کے اعلان کے بعد اور کراچی روانگی سے قبل‘ ۱۳ جولائی ۱۹۴۷ء کی ایک اہم پریس کانفرنس کے موقع پر سامنے آیا۔ان سے براہِ راست یہ سوال کیا گیا: پاکستان سیکولر ریاست ہوگی یا مذہبی ریاست؟مسٹر جناح نے جواب دیا: ’’آپ مجھ سے ایک احمقانہ سوال کر رہے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ مذہبی ریاست کے معنی کیا ہوتے ہیں‘‘۔ (ایک اخبار نویس نے کہا کہ مذہبی ریاست ایسی ریاست ہوتی ہے جس میں صرف کسی مخصوص مذہب کے لوگ‘ مثلاً مسلمان تو پورے شہری ہوسکتے ہیں اور غیرمسلم پورے شہری نہیں ہوسکتے)۔ مسٹر جناح نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’پھر مجھے ایسا لگتا ہے کہ پہلے میں نے جو کچھ کہا ہے (یعنی پاکستان میں اقلیتوں سے متعلق )وہ ایسے تھا جیسے چکنے گھڑے پر پانی گرا دیا جائے‘‘ (قہقہہ)۔ خدا کے لیے اپنے ذہن سے وہ واہیات باتیں نکال دیجیے جو کہی جارہی ہیں۔ مذہبی کا کیا مطلب ہے میں نہیں جانتا۔ (ایک صحافی نے کہاکہ ایسی ریاست جو مولانا چلائیں)۔ مسٹر جناح نے جواب دیا: ’’اس حکومت کے بارے میں کیا خیال ہے جو ہندستان میں پنڈت چلائیں گے؟‘‘ (قہقہہ)۔ مسٹر جناح نے کہا: ’’جب آپ جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں آپ نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا۔ ہم نے جمہوریت کا سبق تیرہ سو برس پہلے پڑھا تھا‘‘۔ (قائداعظم: تقاریر و بیانات‘ جلد چہارم‘ ایضاً‘ ص ۳۵۲)

سلینہ کریم نے کتاب کا آخری باب قائد کے ریاست اور معاشرے کے بارے میں وژن کے مختلف پہلوؤں کو قرآنی تعلیمات کی روشنی میں جائزے کے لیے مختص کیا ہے۔ یہ بحث مسٹر جناح کے اسلامی اقدار‘ اصولوں اور اسلامی روایات سے اور ان کے نقطۂ نظر کی گہری وابستگی کے کسی حد تک ادراک میں مددگار ہے‘ تاہم قرآن کے اقتصادی نظام اور خاص طور پر زکوٰۃ کا ایک سیاسی مسئلے کی بحث کے دوران تذکرہ باعثِ حیرت ہے۔ البتہ بحیثیت مجموعی کتاب میں جناح کے تصورِپاکستان پر بحث اُٹھائی گئی ہے جو اپنے موضوع پر لٹریچر میںمفید اضافہ ہے۔ مطالعہ پاکستان میں دل چسپی رکھنے والوں کو اس کتاب کا لازماً مطالعہ کرنا چاہیے۔(ترجمہ: امجد عباسی)

(Secular Jinnah: Munier's Hoax Exposed, by Saleena Karim, Laskeard, UK, Exposure Publishing, 2005, pp 148, ISBN: 1905363753)

 

جنرل پرویز مشرف نے دستور اور صدارتی آداب‘روایات اور وقار کو یکسر بالاے طاق رکھ کر اپنے مخصوص جنگ جویانہ انداز میں ۲۰۰۷ء کی انتخابی مہم کا آغاز کردیا ہے۔ اشاروں میں باتیں تو وہ ایک عرصے سے کر رہے تھے لیکن نام نہاد تحفظ خواتین بل کا دفاع کرتے ہوئے صاف لفظوں میں انھوں نے کہا کہ اب ملک میں اصل کش مکش دو قوتوں کے درمیان ہے۔ ایک ان کی روشن خیال لبرل ٹیم جس کے وہ خود سربراہ ہیں اور دوسری ملک کی اسلامی قوتیں جو ان کی نگاہ میں ترقی کی مخالف اور جدیدیت کی راہ کی اصل رکاوٹ ہیں۔ پھر بنوں اور کرک کے جلسوں میں انھوں نے کھل کر اپنی اور اپنے ساتھیوں کی انتخابی مہم کا آغاز کیا اور صاف صاف ووٹ مانگے۔ جوشِ خطابت میں اپنے مخالفین کو ’جاہل‘، ’منافق‘ اور ’جھوٹے‘ کے القاب سے نوازا اور یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ’’ملک آج ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایک طرف ترقی اور روشن خیالی ہے تو دوسری طرف جہالت اور انتہاپسندی‘‘۔ ان کے الفاظ میں:

There are  two roads: one leading towards development, progress and prosperity and the other leading towards backwardness and destruction. The coming elections would be very crucial and the outcome would define our national sense of direction. It is a contest between religious radicalism and enlightened moderation.

اور اب تازہ ترین ارشاد یہ ہے کہ وہ خود ۲۰۰۷ء کے انتخابات میں اپنے امیدواروں کا انتخاب کریں گے اور ان کی انتخابی مہم چلائیں گے۔ جس دوراہے کا وہ اب ذکر کررہے ہیں اس کی ایک راہ جنرل پرویز کی فوجی آمریت کی راہ ہے اور دوسری جرنیلی آمریت کے مخالفین اور اسلامی فلاحی اور جمہوری پاکستان کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی۔

یادش بخیر‘ جنوری ۲۰۰۷ء میں اس دوراہے کی نشان دہی کرتے وقت وہ بھول گئے کہ اس سے سواسات سال پہلے ۱۷ اکتوبر۱۹۹۹ء کو اپنے فوجی اقدام کے پانچ دن بعد انھوں نے ایسا ہی ایک ارشاد فرمایا تھاکہ:

آج پاکستان اپنی تقدیر کے دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایسی تقدیر جو فردِواحد کے ہاتھ میں ہے‘ خواہ سنوار دے یا برباد کر دے۔

سواسات سال تک مکمل اور غیرمشروط اقتدار اور امریکا کی بھرپور امداد کے باوجود اگر آج پھر وہ قوم کو بتا رہے ہیں کہ وہ ابھی تک قوم ایک دوراہے پر کھڑی ہے تو یہ ان کی اپنی اور ان کے بنائے ہوئے نظام کی ناکامی کا اس سے واضح اعتراف اور کیا ہوسکتا ہے۔ ان سات سال میں وہ اس منزل کی طرف کوئی پیش قدمی نہ کرسکے تو اب کس امید پر قوم کو نئی منزل کی راہ دکھا رہے ہیں۔

بالعموم جمہوری ممالک میں پارلیمنٹ کی مدت چار سے پانچ سال ہوتی ہے۔ اور ایک مدت ایک قیادت کی کامیابی و ناکامی کو واضح کرنے کے لیے کافی تصور کی جاتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کو سواسات سال ایسا اقتدار ملا ہے کہ ان کے لیے کوئی چیلنج نہیں تھا۔ ۲۰۰۲ء کے انتخابات کے بعد اور من مانی دستوری ترامیم اور ان سے بھی زیادہ ہر دستور اور قانون سے عملاً بالا ہوکر اور عالمی قوتوں سے پوری مفاہمت بلکہ سپردگی کا رویہ اختیار کر کے‘ وہ ملک و قوم کو جس مقام پر لے آئے ہیں‘ وہ ہراعتبار سے ۱۹۹۹ء سے بدتر ہے۔ ہمیں ان کی اس بات سے تو اتفاق ہے کہ فی الحقیقت ملک اس وقت ایک دوراہے پر کھڑا ہے لیکن یہ دوراہا وہ ہے جہاں جنرل پرویز مشرف اور ان کے حواریوں نے دھکے دے دے کر ملک کوپہنچایا ہے اور اب وہی سوال جو انھوں نے ۱۷ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو بڑے طمطراق سے اٹھایا تھا‘ اب خود ان کی ناکامیوں اور جرنیلی آمریت کی تباہ کاریوں کے بعد بڑی گمبھیر صورت میں ملک و قوم کے سامنے ہے یعنی:

کیا یہ وہ جمہوریت ہے جس کا تصور قائداعظم نے دیا تھا؟

آج قوم کے سامنے اصل سوال یہ ہے کہ قائداعظم کی رہنمائی میں ملّت اسلامیہ نے جس اسلامی‘ جمہوری اور فلاحی ریاست کے قیام کے لیے پاکستان بنایا تھا‘ جرنیلی حکمران نے اس سے ہمیں کتنا دُور کردیا ہے۔ اب قوم کے سامنے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ جس طرح برعظیم کے مسلمانوں نے پاکستان کے قیام کے لیے عوامی اور جمہوری جدوجہد کے ذریعے سات سال کی قلیل مدت میں یہ آزاد خطہ زمین حاصل کرلیا‘ جو بدقسمتی اور ہماری اپنی غلطیوں سے آہستہ آہستہ سیاسی طالع آزمائوں اور بیوروکریسی‘ جرنیلوں‘ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے گٹھ جوڑ کی دراندازیوں اور کچھ عاقبت نااندیش ججوں کی مصلحت بینی سے تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے‘ اسے بچانے اور اُمت مسلمہ اور اس کے حقیقی قائدین اقبال اور قائداعظم محمدعلی جناح کے تصور کے مطابق تعمیر کرنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دیں۔ بلاشبہہ پاکستان ایک دوراہے پر کھڑا ہے اور انتخاب کسی نام نہاد روشن خیالی اور کسی خیالی انتہاپسندی کے درمیان نہیں بلکہ سیدھے سیدھے فوجی آمریت‘ شخصی حکمرانی‘ امریکا کی سیاسی اور معاشی غلامی اور خدانخواستہ بالآخر بھارت کی علاقے پر بالادستی اور ملت اسلامیہ پاکستان کی حقیقی آزادی سے محرومی کے مقابلے میں ملّت اسلامیہ پاکستان کے دینی اور تہذیبی تشخص کی حفاظت‘ اللہ کی حاکمیت کے تحت عوام کی حکمرانی‘ پارلیمنٹ کی بالادستی اور قانون اور انصاف کے قیام کے درمیان ہے۔ ۲۰۰۷ء فیصلے کاسال ہے۔ قائداعظم کی رہنمائی میں سات برس میں ہم نے پاکستان حاصل کرلیا تھا اور جنرل پرویز مشرف کی حکمرانی میں ان سات برسوں میں پاکستان ہراعتبار سے اپنے اصل مقاصد سے دُور اور ایک نئی غلامی اور محکومی کی گرفت میں آگیا ہے جس سے نجات ہی میں اب پاکستان کی بقا اور اس کی ترقی کا امکان ہے۔

غلامی کے سایے

قیامِ پاکستان کا سب سے اہم حاصل ملت اسلامیہ پاکستان کی آزادی تھی یعنی مغربی سامراج سے آزادی کے ساتھ ساتھ بھارتی سامراج کی گرفت سے نکل کر خود اپنے دین وایمان ‘ تہذیب و ثقافت اور مادی اور روحانی اہداف کے حصول کے مواقع کا حصول۔ قرارداد مقاصد جو دستور کا قلب ہے‘ اس منزل کا بہترین اظہار و اعلان ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے سات سالہ دورِاقتدار میں ان تمام مقاصد پر کاری ضرب لگی ہے اور ایک ایک بنیاد کو منہدم کرنے کے لیے منصوبہ بندی کے ساتھ واضح اقدام کیے گئے ہیں جن سے ان کا پورا گیم پلان کھل کر سامنے آگیا ہے:

  • اسلام کی جگہ روشن خیال اعتدال پسندی کے نام پر سیکولرازم اور مغربی لبرلزم کا فروغ جس  کی زد ہردینی اور اخلاقی قدر پر ہو 
  • جمہوریت کی جگہ شخصی آمریت جس پر فوجی وردی مستزاد 
  • جن سرحدوں کو قائم کرنے کے لیے قیامِ پاکستان کی تاریخی جدوجہد ہوئی تھی اب بھارت دوستی کے نام پر انھیں غیرمتعلق بنا دینے کے منصوبے‘ جموں و کشمیر جو پاکستان کی شہ رگ ہے اسے مستقل طور پر بھارت کی گرفت میںدینے کی تجاویز 
  • کشمیر کا جو علاقہ مسلمانوں نے اپنے خون سے آزاد کرایا  اس پر بھی بھارت کے مشترکہ کنٹرول کے نقشے
  • جس مقبوضہ کشمیر میں مسلمان پانچ سے چھے لاکھ قیمتی جانوں کی قربانی دے کر آزاد ی کی جدوجہد کر رہے ہیں‘ اسے طشتری میں رکھ کر بھارت کو  پیش کردینے اور اس بھارتی خواب میں رنگ بھرنے کی باتیں کہ ناشتہ امرتسر میں ہو‘ دوپہر کا کھانا لاہور میں کھایا جائے اور رات کا کھانا کابل میں۔

جس مغربی سامراج سے لڑکر قوم نے آزادی حاصل کی تھی‘ آج جرنیلی حکمران خوشی خوشی بلکہ اسی نوعیت کے فخر کے ساتھ جس کا مظاہرہ دورِ غلامی کے نوابوں اور راجاؤں نے کیا تھا‘ امریکا کی بالادستی ہی نہیں عملی غلامی کے طوق پہن کر ملک کو نئے سامراج کے جال میں پھنسا رہے ہیں۔ دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد ملک امریکا اور اس کی دہشت گرد قیادت کے آگے اس طرح صف بستہ ہیں کہ ہر روز ان کی طرف سے نیا مطالبہ آرہا ہے اور ہمارے یہ فوجی جرنیل خود اپنے معصوم شہریوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں تاکہ امریکا سے داد وصول کریں حالاں کہ جو کچھ حاصل ہو رہا ہے وہ صرف جھڑکیاں‘ دھمکیاں اور ھل من مزید کے مطالبات ہیں۔ جنوری ۲۰۰۷ء کے پہلے ۱۴ دنوں میں ایک نہیں چار چار امریکی ذمہ داروں نے بڑے طمطراق کے ساتھ پاکستانی حکمرانوں کو دھمکیوں اور گھر.ُکیوں کے ساتھ دوغلے پن اور دھوکابازی کے تمغوں سے بھی نوازا ہے___ امریکی وزیرخارجہ کونڈالیزارائس‘ محکمہ سراغ رسانی کاسربراہ جان نیگروپونٹے‘ ناٹو کے ایساف کمانڈر ڈیوڈ ری چرڈ اور نائب وزیرخارجہ ری چرڈ بوچر نے اپنے اپنے انداز میں اور ایک دوسرے سے بڑھ کر پاکستان پر طالبان کی پشت پناہی‘ ان کی تنظیم نو اور تائید کا الزام لگایا ہے‘ دھمکیاں دی ہیں اور پاکستان کی سرزمین پر پیشگی حملے کے خالص جارحانہ اقدام کا عندیہ دیا ہے اور اس کا نمونہ پہلے ہی ڈمہ ڈولہ‘ باجوڑاور شوال امریکی طیارے اور میزائل پیش کرچکے ہیں۔ اس کے جواب میں ہماری طرف سے مجرمانہ پسپائی ہی اختیار نہیں کی گئی بلکہ قومی عزت و غیرت اور عسکری وقار کو مجروح کرتے ہوئے وزیرستان میں ایک سال میں دو بلکہ فی الحقیقت تین بار ہمارے علاقے پر امریکی بم باری کو خود اپنے سر لے لیا گیا ہے۔ یہ اگر غلامی کی نئی زنجیریں نہیں تو کیا ہیں؟

نئے امریکی قانون کا شکنجہ

پاکستان کی جو تذلیل اس جرنیلی آمریت میں ہوئی ہے‘ وہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ اگر اس جرنیلی کارنامے کی اصل تصویر دیکھنی ہے تو اس تازہ قانون کا مطالعہ کرلیجیے جو     ابھی امریکی ایوان نمایندگان نے بڑی عجلت میں نائن الیون کمیشن کی سفارشات کو قانونی شکل دینے کے لیے منظور کیا ہے۔ اس قانون کا سیکشن ۱۴۴۲ پاکستان کے بارے میں ہے۔ اس حصے میں دہشت گردی کے مقابلے کے نام پر پاکستان کی جو تصویر دی گئی ہے اور اس کے بارے میں جو پالیسی قانون کا حصہ بنائی گئی ہے اس کا ایک ایک لفظ پڑھنے اور تجزیہ کرنے کے لائق ہے۔    حملہ کرنے والے سعودی اور مصری تھے‘ القاعدہ کا مرکز افغانستان تھا۔ مگر افغانستان پر ایک صفحہ‘ سعودی عرب پر ایک صفحہ لیکن پاکستان پر پورے چھے صفحات پر مشتمل قانون لاگو کیا گیا ہے  جیسے اصل مجرم پاکستان ہے۔ یہ قانون پاکستان کے لیے کلنک کا ٹیکہ اور جنرل پرویز مشرف کی خارجہ پالیسی کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ ہے وہ مقام جس پر اس عظیم ملک کو جس نے اللہ کی مدد اور صرف اپنی کوششوں سے ایک ایٹمی طاقت بننے کی سعادت حاصل کی تھی‘ اب اس جرنیلی آمریت نے پہنچا دیا ہے۔ ہم پاکستان کے متعلقہ حصے کی چند اہم دفعات یہاں دیتے ہیں تاکہ قوم کو معلوم ہوسکے کہ ملک کو کس شکنجے میں کَس دیا گیا ہے اور کس طرح جس مدد کے لیے بغلیں بجائی جارہی ہیں اس کے سر پر پابندیوں کی تلوار کس کس شرط کے ساتھ چھائی ہوئی ہے اور اس کے لیے یہ پابندی بھی رقم کردی گئی ہے کہ وہ ہرسال امریکی صدر کے سرٹیفیکٹ کے بغیر ایک سانس بھی نہیں لے سکے۔ یہ پریسلر پابندیوں کی تازہ اور زیادہ مکروہ شکل ہے۔

                ۲- ایسے بہت سے مسائل ہیں جو امریکا اور پاکستان کے تعلقات کو خطرات سے دوچار کرسکتے ہیں‘ عالمی استحکام کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور پاکستان کو غیرمستحکم کرسکتے ہیں‘ بشمول:

                (اے)   جوہری ہتھیاروں کی ٹکنالوجی کے پھیلائو کو روکنا۔

                (سی)  مؤثر سرکاری اداروں کی تعمیر‘ خصوصاً سیکولر پبلک اسکول ۔

                (ای)   پورے ملک میں طالبان اور دوسری پُرتشدد انتہاپسند طاقتوں کی مسلسل موجودگی کے حوالے سے اقدامات کرنا۔

                (جی) دوسرے ملکوں اور علاقوں کی طرف جنگ جوؤں اور دہشت گردوں کی نقل و حرکت روکنے کے لیے پاکستان کی سرحدات کو محفوظ بنانا۔

                (ایچ) اسلامی انتہاپسندی کے ساتھ مؤثر طور پر نبٹنا۔

                (بی) پالیسی کا بیان: امریکا کی پالیسیاں درج ذیل ہوں گی:

                (۱)  عالمی دہشت گردی‘ خصوصاً پاکستان کے سرحدی صوبوں میں‘ ختم کرنے کے لیے اور طالبان سے وابستہ طاقتوں کے لیے پاکستان کے ایک محفوظ پناہ گاہ کے استعمال کو ختم کرنے کے لیے حکومت پاکستان کے ساتھ کام کرنا۔

                ۳-  حکومت پاکستان اور بھارتی حکومت کے درمیان تنازع کشمیر کے حل کے لیے مدد کرنا۔

                (سی) حکمت عملی متعلقہ پاکستان:

                ۱-  اس ایکٹ کے قانون بن جانے کے ۹۰دن کے اندر اندر صدر متعلقہ کانگریس کمیٹی کو ضروری ہو تو خفیہ رپورٹ پیش کرے گا جو امریکا کی طویل المیعاد حکمت عملی کو بیان کرے۔

                ۲-  متعلقہ کمیٹی سے مراد: کانگریس کی خارجہ امور کی کمیٹی‘ مجلس نمایندگان کی مصارف (appropriations) کمیٹی اور سینیٹ کی بھی خارجہ تعلقات اور مصارف کمیٹی۔

                (ڈی) پاکستان کو امریکا کی سلامتی کی امداد پر تحدید:

                تحدید:  (اے)یہ امداد منظور نہیں ہوگی جب تک کہ اس تاریخ کو ۱۵ دن نہ گزر جائیں‘ جب کہ صدر صورت حال کے بارے میں متعین معلومات حاصل کرے اور متعلقہ کانگریس کمیٹیوں کو تصدیق کرے کہ حکومت پاکستان اپنے زیراختیار علاقوں بشمول کوئٹہ اور چمن ‘ صوبہ سرحد اور قبائلی علاقے میں طالبان کو کام کرنے سے روکنے کے لیے اپنی تمام ممکنہ کوششیں کر رہا ہے۔

                (بی) اس تصدیق کو غیر خفیہ ہونا چاہیے لیکن اس کا ایک ضمیمہ خفیہ بھی ہوسکتا ہے۔

                ۲-   استثنا: صدر اس تحدید کو ایک مالیاتی سال کے لیے معطل کرسکتا ہے‘ اگر وہ کانگریس کی مصارف کمیٹیوں کو یہ تصدیق کرے کہ ایسا کرنا امریکا کی قومی سلامتی کے مفاد کے لیے اہم ہے۔

                (ای)  جوہری پھیلائو: (۱) کانگریس اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ پاکستان کا ایٹمی اور میزائل ٹکنالوجی کے پھیلائو کے نیٹ ورک کو باقی رکھنا پاکستان کو امریکا کے حلیف قرار دینے سے متغائر ہے۔

                ۲-  کانگریس کی راے: کانگریس کی راے یہ ہے کہ امریکا کی قومی سلامتی کے مفادات بہتر طور پر حاصل ہوں گے اگر امریکا پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے لیے ایک طویل المیعاد حکمت عملی طے کرے اور اس کو نافذ بھی کرے‘ اور جوہری پھیلائو کو روکنے کے لیے حکومت پاکستان کے ساتھ کام کرے۔

واضح رہے کہ اس قانون میں حقیقی طور پر صرف تین ملکوں کا ذکر ہے یعنی افغانستان‘ پاکستان اور سعودی عرب اور جیساکہ ہم نے عرض کیا‘ سب سے زیادہ پابندیاں اور شکنجے پاکستان  کے لیے ہیں۔ یہ ہے ہماری آزادی کی حقیقت۔

جرنیلی نظام کے لیے پاکستان کا دستور تو کب کا قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ اب تو امریکا کا یہ قانون موجودہ حکمرانوں کے لیے اصل ’دستور‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور انتہاپسندی‘ لبرلزم‘ طالبان دشمنی کے بارے میں جو کچھ کہا اور کیا جا رہا ہے اس کا پاکستان کے دستور‘ قانون یا مفادات سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ سب کچھ وہ امریکا کے فرمان کی تعمیل کے سوا کچھ نہیں۔

آج پاکستان جس دوراہے پر ہے وہ یہی امریکی غلامی یا حقیقی آزادی کا دوراہا ہے اور وقت آگیا ہے کہ پاکستانی قوم اس نئی غلامی کی زنجیروں کو پارہ پارہ کردے اور صرف اللہ کی غلامی میں حقیقی آزادی کا راستہ اختیار کرے۔

وفاق کا شیرازہ معرضِ خطر میں

جنرل پرویز مشرف کی سات سالہ حکمرانی کا ایک اور ثمرہ یہ ہے کہ ملک میں آج فیڈریشن جتنی کمزور ہے اور مرکز اور صوبوں کے تعلقات جتنے خراب آج ہیں ۱۹۷۱ء کے سانحے کے بعد کبھی نہ تھے۔ جنرل صاحب نے اپنا جو سات نکاتی پروگرام ۱۷ اکتوبر ۱۹۹۹ء میں اعلان فرمایا تھا اس میں ایک فیڈریشن کی مضبوطی اور تمام صوبوں اور مرکز میں زیادہ ہم آہنگی کا حصول بھی تھا مگر حاصل اس کے برعکس ہے۔ خود جرنیل صاحب نے اپنے حالیہ دورۂ سرحد میں اعتراف کیا ہے کہ فیڈریشن میں تعلقات کی بہتری حاصل نہیں کی جاسکی ہے۔ بلوچستان میں تین سال سے فوج کشی جاری ہے اور اس عرصے میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوچکے ہیں‘ سیکڑوںہلاک ہوئے ہیں اور پورا صوبہ ایک آتش فشاں کی شکل اختیار کرچکا ہے۔

صوبہ سرحد میں مرکز صوبائی حکومت پر ہر طرح کا دبائو استعمال کر رہا ہے۔ چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کو کسی مشورے کے بغیر مسلط کیا جاتا ہے۔ صوبائی اسمبلی کی قراردادوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ صوبے کے مالی حقوق ادا نہیں کیے جارہے۔ ایک تحریری معاہدے کے تحت پاکستان کے سابق چیف جسٹس کی سربراہی میں جو ثالثی کمیشن بنایا گیا تھا کہ پن بجلی کے منافعے کا اس کاحصہ ادا کیا جائے ۔ اس کے متفقہ فیصلے کو بھی نافذ نہیں کیا جا رہا اور صوبے کو صف آرائی پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ حِسبہ بل جوصوبائی اسمبلی نے دو بار منظور کیا ہے اسے مرکز ویٹو کرنے پر تلا. ُ  ہوا ہے۔ صوبائی وزیراعلیٰ کے مکان پر آئی بی کے اہل کار دھماکا خیز مواد رکھتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں ۷۰ ہزار فوج لگائی ہوئی ہے جو محض شبہے کی بنیاد پر    کشت و خون کر رہی ہے۔ ۷۰۰ سے زیادہ فوجی ہلاک ہوچکے ہیں اور اس سے زیادہ عام شہری   جاں بحق ہوئے ہیں۔ فوج اور ان قبائل کو جو پاکستان کے محافظ تھے ایک دوسرے کے خلاف   صف آرا کردیا گیا ہے اور امن کے معاہدات کے ذریعے اس آ گ کو بجھانے کی جو کوشش کی گئی ہے اس کو سبوتاژ کرنے کے لیے امریکا‘ افغانستان کی حکومت‘ افغانستان میں ناٹو کی ایساف کی کمانڈ اور خود ملک کے فوجی حکمران طرح طرح کی کارروائیاں کررہے ہیں جن سے خطرہ ہے کہ امن کی فضا ختم ہوجائے اور خدانخواستہ کوئی بڑا خونی تصادم پھر سر اُٹھالے۔

پنجاب چونکہ حکمران ہے‘ اس لیے اس سے بظاہر مرکز کے تعلقات اچھے ہیں لیکن دراصل خود صوبے کے مختلف حصوں کے درمیان کھچائو اور رسہ کشی ہے اور خصوصیت سے جنوبی پنجاب میں بے زاری کی لہریں اُٹھ رہی ہیں۔ سندھ کا معاملہ کچھ اور بھی پیچیدہ ہے۔ وہاں جس پارٹی نے  سب سے زیادہ ووٹ لیے تھے‘ اسے حکومت بنانے سے محروم رکھا گیا اور مصنوعی اکثریت پیدا کرکے سیاسی دروبست کا اہتمام کیا گیا۔ ایک لسانی تنظیم کو جو دراصل ایک مافیا کی حیثیت رکھتی ہے صوبے پر مسلط کردیا گیا ہے جس نے صرف کراچی ہی نہیں پورے صوبے میں تباہی مچائی ہوئی ہے۔ ایک ایسے شخص کو جو خودسزا یافتہ تھا‘ جھوٹی معافی دے کر اور سیاسی سودا بازی کے نتیجے میں  گورنر مقرر کیا گیا اور وہ گورنر باقی تمام صوبوں کے گورنروں کے مقابلے میں ایک متوازی حکومت کے ذریعے اپنی من مانی کر رہا ہے۔

صوبائی خودمختاری کا مسئلہ ایسی گمبھیر شکل اختیار کرتا جا رہا ہے کہ فیڈریشن کا شیرازہ   معرضِ خطر میں ہے لیکن جرنیل صاحب یونٹی آف کمانڈ کے نام پر فیڈریشن پر ایک وحدانی نظام مسلط کررہے ہیں اور یہ وحدانی نظام خاکی وردی میں ملبوس ہے۔ بگاڑ کی اصل وجہ یہ جرنیلی نظام ہے جس نے ملک کے سارے اداروں کا خانہ خراب کر دیا ہے۔

ایک دوراہا یہ بھی ہے کہ آیا اس ملک کو ایک حقیقی فیڈرل نظام کے مطابق چلنا ہے۔ آمریت اور وحدانی نظام جس کے بوجھ تلے خدانخواستہ پورا نظام درہم برہم ہو جائے۔

امن و امان کی بگڑتی صورت حال

جنرل پرویز مشرف نے ایک وعدہ قوم سے یہ بھی کیا تھا کہ وہ ملک میں امن و امان قائم کریں گے‘قانون کی حکمرانی ہوگی اور ہر فرد کو انصاف فراہم کیا جائے گا۔ لیکن ان کے سات سالہ دورِاقتدار میں جو چیز سب سے ارزاں ہوگئی ہے ایک عام فرد کی آزادی‘ زندگی اور عزت کی پامالی ہے۔ پولیس کی اصلاحات اس دعوے کے ساتھ کی گئی تھیں اب پولیس سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہوگی اور وہ عام شہریوں کو جان‘ مال اور عزت کا تحفظ دے سکے گی۔ پولیس کے لیے مالی وسائل اور ٹکنالوجی دونوں فراہم کرنے کا دعویٰ بھی کیا گیا لیکن پنجاب جیسے صوبے میں جس کا پولیس کا بجٹ ۶ ارب روپے سے بڑھ کر ۲۱ ارب روپے کردیا گیا ہے۔ صوبے کا دارالحکومت تک جرائم کا مرکز بن گیا ہے اور صوبے کے کسی گوشے میں عوام کو امن اور چین میسر نہیں۔ لاہور کے مصروف ترین علاقے میں دن دہاڑے صوبے کا اعلیٰ ترین قانونی افسر اڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل اور اس کے ساتھی قتل کر دیے جاتے ہیں اور ملزموں کی نشان دہی کیے جانے کے باوجود وہ پولیس کی دسترس میں نہیں آتے۔ سپریم کورٹ کا چیف جسٹس پولیس کی کارکردگی پر بے اعتمادی کا اظہار کرتا ہے اور   اعلیٰ عدالت کے جج یہاں تک کہتے ہیں کہ پولیس کا بجٹ روک دیا جائے اور یہ اربوں روپے   عوام کو ریلیف دینے کے لیے استعمال کیے جائیں۔ سپریم کورٹ بار بار پولیس کو ملزموں پر    ہاتھ ڈالنے کا حکم دیتی ہے اور پولیس افسر عدالت میں آنے تک کی زحمت گوارا نہیں فرماتے۔ صوبے میں نام لے کر ڈاکوؤں کے ۴۵ گروہوں کا ذکر کیا جاتا ہے جو سیکڑوں وارداتوں میں  ملوث ہیں مگر کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ صوبے کا وزیراعلیٰ بھی چیخ اُٹھتا ہے مگر ان بااثر ڈاکوؤں اور اغوا کاروں کے آگے بے بس ہے۔ پنجاب میں صرف ۲۰۰۶ء میں تمام جرائم میں ۲۵ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ کراچی اور سندھ کا حال اس سے بھی خراب ہے۔ سرحد میں پہلے تین سال صورت حال  بہتر تھی لیکن وہاں بھی ۲۰۰۶ء میں جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔ وزیرداخلہ خود جنرل پرویز مشرف کی تشویش کا یوں اظہار کرتے ہیں:

صدر کو ملک میں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح پر خاصی تشویش ہے‘ خصوصاً دہشت گردی‘ انتہاپسندی‘ فرقہ واریت‘ اسٹریٹ کرائم کے واقعات پر۔

یہ بیان وزیرداخلہ نے آرمی ہائوس میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد دیا جو جنرل پرویز مشرف کے سات سالہ دورِاقتدار کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

لیکن بات صرف روایتی جرائم ہی کی نہیں کہ چوری‘ ڈاکے‘ آبروریزی‘ اغوا براے تاوان‘   کارچوری اور موبائل چوری ہر جرم میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس سے زیادہ خطرناک رجحان یہ ہے کہ سیکڑوں شہریوں کو سرکاری ادارے اُٹھا کر لے جاتے ہیں اور مہینوں نہیں‘ برسوں ان کا پتا نہیں چلتا۔ سیکڑوں کو کسی عدالتی کارروائی کے بغیر اور کسی جرم کو ثابت کیے بغیر امریکا کے حوالے کر دیا گیا اور  بے غیرتی کی انتہا ہے کہ اسے اپنا کارنامہ بیان کیا جاتا ہے‘ حتیٰ کہ اپنی خودنوشت میں اس کا نمایاں طور پر ذکر کیا جاتا ہے اور یہاں تک دعویٰ کیا جاتا ہے کہ حکومت کو اس کے عوض کروڑوں ڈالر ملے۔   یہ اور بات ہے کہ ڈالروں والی بات کو ہر طرف سے تھوتھو ہونے کے بعد واپس لینے کی جسارت بھی کی گئی ہے۔ معصوم انسانوں کو یوں اُٹھا لینا دستور‘ قانون‘ دین‘ اخلاق ہر ایک کے خلاف ہے لیکن اس جرنیلی دور میں یہ بھی کھلے بندوں کیا جا رہا ہے اور سپریم کورٹ کے بار بار انتباہ اور پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود ان لاپتا افراد کا کوئی پتا نہیں مل رہا ہے۔

اگر بصیرت کی نگاہ سے حالات کو دیکھا جائے تو اس لاقانونیت کے فروغ کا ایک بنیادی سبب فوج کے جرنیلوں کا اقتدار پر غاصبانہ قبضہ‘ دستورشکنی اور اس دستورشکنی کے لیے عدالتی جواز کی فراہمی کی مکروہ روایت ہے۔ جب اعلیٰ ترین سطح پر دستور اور حلف توڑنے پر کوئی گرفت نہیں ہوگی تو پھر ہرسطح پر قانون شکنی کا دروازہ کھلے گا۔ جب طاقت ورقانون سے بالا ہوں گے تو پھر کون قانون کا احترام کرے گا۔ جب تک دستور توڑنے والوں کو دستور کی دفعہ ۶ کے تحت قرارواقعی سزا کا نظام مؤثر نہیں ہوگا‘ تو پھر کسی سطح پر بھی قانون کا احترام قائم نہیں ہوسکے گا۔

ایک دوراہا آج قوم کے سامنے یہ بھی ہے کہ اس ملک میں دستور اور قانون کی حکمرانی ہوگی۔ یا وردی اور قوت والے جو چاہے کرلیں وہ قانون کی گرفت سے باہر ہی رہیں گے۔ اگر انصاف اور امن ہمارا مقصد ہے تو پھر ہرسطح پر قانون توڑنے والے ہاتھ روکنے ہوں گے یا ایسے ہاتھوں کو کاٹنا پڑے گا تب ہی سب کی جان‘ مال‘ عزت اور آبرو محفوظ ہوسکیں گے۔

دستور کی بے وقعتی

بگاڑ کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ملک کا ایک دستور ہے لیکن وہ صرف کاغذ کا ایک پرزہ بنادیا گیا۔ یہ درست ہے کہ اصل دستور میں من مانی تبدیلیاں بھی کی گئی ہیں اور آٹھویں اور ۱۷ویں ترامیم کے ذریعے اس کا حلیہ خاصا بگاڑ دیا گیا ہے مگر اس سب کے باوجود جس دستور پر قیادت نے حلف لیا ہے اس کا بھی ان حکمرانوں کو کوئی پاس نہیں۔

دستور میں سب سے پہلے اللہ سے وفاداری اور اسلامی نظریے کی پاس داری کا حلف ہے مگر روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے نام پر اللہ کے احکام اور اسلام کی واضح تعلیمات سے انحراف کیا جارہا ہے۔ شراب جس کا استعمال دستور اور قانون کے تحت جرم ہے‘ اب کھلے بندوں منگوائی جارہی ہے اور ہوٹلوں اور دعوتوں میں جام لنڈھائے جارہے ہیں۔ زنا اب جرم نہیں رہی اور اللہ کی حدوں کو پامال کیا جارہا ہے۔ سود جسے شرعی عدالتوں نے ختم کرنے کا فیصلہ دیا تھااس کی بنیاد پر سارا نظام چلایا جارہا ہے۔ بے حیائی اور فحاشی کو عام کیا جا رہا ہے اور اس کا نام روشن خیالی رکھا گیا ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ جو فوج کا آج بھی رسمی موٹو ہے‘ اس کا ذکر بھی زبان پر لانے سے لرزہ طاری ہے اور قسمیں کھاکھا کر کہا جا رہا ہے کہ جہاد سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ہر جہادی تنظیم گردن زدنی ہے۔ نصابِ تعلیم سے بھی جہاد کا ہر ذکر خارج کیا جا رہا ہے۔ اگر بس چلے تو نعوذباللہ قرآن پاک میں بھی ترمیم کر کے ان تمام آیات کو نکال دیا جائے جو جہاد کے بارے میں ہیں۔ اسلامیات کے نصاب کو بھی بدلا جا رہا ہے اور دوسرے تمام مضامین سے اسلام اور اسلامی تاریخ و ثقافت کے ذکر کو خارج کیا جا رہا ہے اور وزیرتعلیم‘ جو ماشا اللہ سابق جرنیل بھی ہیں اور امریکا سے تعلیمی اصلاحات کے لیے سندجواز بھی لے آئے ہیں‘ فرماتے ہیں کہ ’’نصابِ تعلیم پر تنقید کرنے والے مکار اور منافق ہیں‘‘ اور’’یہ لوگ ملک کو چھٹی صدی میں دھکیلنا چاہتے ہیں‘‘۔ قرآن میں ۴۰ پاروں کی بات کرنے والے وزیرتعلیم کو کیا پتا کہ چھٹی صدی تو دورِ جاہلیت کی صدی ہے۔ سیدنا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا انقلاب تو ساتویں صدی میں آیا۔ دورِ رسالت مآب ؐ اور خلافتِ راشدہ ہی کا زمانہ مسلمانوں کے لیے   ہمیشہ معیار اور ماڈل رہا ہے‘ رہے گا۔ اُمت کا قبلہ آج کے حکمرانوں اور ان کے امریکی آقائوں کی تمام خواہشات کے باوجود ان شاء اللہ یہی رہے گا۔ حال ہی میں وزارتِ تعلیم نے جو وائٹ پیپر شائع کیا ہے وہ اس فکر سے ذرا بھی مختلف نہیں جو اس سے پہلے سکندرمرزا اور ایوب خاں جیسے لوگ پیش کرتے رہے ہیں اور جس طرح ان کے مذموم منصوبے عوام کے دبائو میں پادر ہوا ہوئے‘ اسی طرح ان شاء اللہ آج کے جرنیلی حکمرانوں کے عزائم بھی خاک میں ملیں گے۔

ایک دوراہا یہ بھی ہے کہ اس قوم کی منزل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا دین اسلام ہے یا اسلام کا وہ نمونہ جو بش اور اس کے حواریوں کے لیے قابلِ قبول ہو اور جو تصوف کی کوئی ایسی شکل اختیار کرلے جس سے باطل کی قوتوں اور سامراجی طاقتوں کو کوئی خطرہ نہ ہو۔

معیشت کی زبوں حالی

جنرل پرویز مشرف اور ان کے ظلِّی وزیراعظم شوکت عزیز اپنی معاشی فتوحات کا بڑا دعویٰ کرتے ہیں اور اس کا رکردگی کے سہارے عوام کے دل جیت لینے کی باتیں کرتے ہیں۔ کاش‘ یہ حضرات اپنے محلات سے نکل کر زمینی حقائق کو بھی دیکھیں اور بچشم سر نظارہ کریں کہ عوام کن مشکلات سے دوچار ہیں۔ اعدادوشمار کی بازی گری نہ غربت کو مٹا سکتی ہے اور نہ بھوک کا مداوا کرسکتی ہے۔ بے روزگاری جو انھی کے اعدادوشمار کے مطابق ۱۹۹۱ء میں ۳ فی صد سے کم تھی وہ ۲۰۰۳ء میں ۳ء۸ فی صد سے تجاوز کرگئی اور ۲۰۰۶ء میں ۸ء۶ بتائی جاتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں بھوک‘ افلاس اور بے روزگاری کی وجہ سے خودکشی کسی دور میں نہیں ہوئی لیکن اس جرنیلی دور میں ہرسال سیکڑوں افراد خودکشی تک پر مجبور ہو رہے ہیں۔ ایک حالیہ سروے کی روشنی میں صرف راول پنڈی میں اور صرف ۲۵ تھانوں سے حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر ۲۰۰۶ء میں ۵۲ افراد نے خودکشی کی ہے (جنگ،  ۲۰ جنوری ۲۰۰۷ء’اسلام آباد کا جڑواں شہر اور خودکشیاں‘ منوبھائی)

یہ حال ایک شہر کا نہیں پورے ملک کا ہے۔ ان سات سالوں میں اشیاے ضرورت کی قیمتوں میں ایک سو سے لے کر چار سو فی صد تک اضافہ ہوا ہے۔ دولت کی عدم مساوات میں محیرالعقول اضافہ ہواہے۔امیر امیر تر ہو رہا ہے اور غریب غریب تر ۔موجودہ حکومت کی ساری پالیسیوں کا ہدف امیروں کو امیر تر کرنا ہے جس کا ایک اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ ملک کی کُل آبادی میں بمشکل ۱۵ فی صد ایسے ہیں جو بنکوں میں حساب رکھتے ہیں۔ ان کی تعداد ۱۹۹۹ء میں ۸ء۲۹ ملین تھی جو ۲۰۰۶ء میں کم ہو کر ۲ء۲۶ ملین رہ گئی۔ ان میں سے جو اپنے بنک کھاتے میں اوسطاً ۱۰ ہزار روپے یا اس سے کم رقم رکھتے تھے وہ ۱۹۹۹ء میں کل کھاتہ داروں کا ۵ء۵۱ فی صد تھے‘ جب کہ ان کی کُل رقم بنک کے تمام کھاتہ داروں کی رقم کا ۳ء۱۱ فی صد تھی۔ لیکن جون ۲۰۰۶ء میں  ان کی تعداد ۵ء۵۱ سے کم ہوکر ۱ء۲۶ فی صد ہوگئی ‘ یعنی ۵۰ فی صد کی کمی اور ان کے کھاتوں کی رقم ۳ء۱۱ سے کم ہو کر ۸ء۰ فی صد رہ گئی یعنی اس میں کمی ۱۲۰۰ فی صد سے زیادہ ہوئی۔ اس کے برعکس اگر ان کھاتہ داروںکے کھاتوں اور ان میں رکھی ہوئی رقم کا مطالعہ کیا جائے جن کے ڈیپازٹ ایک کروڑ روپے یا اس سے زیادہ ہے تو ان کی تعداد ۱۹۹۱ء میں کل کھاتہ داروں کا صرف ۱ء۰ فی صد تھی‘ جب کہ ان کے کھاتوں میں جمع رقم کل رقم کا ۳ء۱۳ فی صد تھی لیکن ۲۰۰۶ء میں کھاتوں کی تعداد کے اعتبار سے ان کی تعداد کل کھاتوں کا صرف ۰۷ء۰ تھی‘ جب کہ ان کھاتوں میں رقم کل رقم کا ۵ء۳۴ فی صد (بحوالہ ڈان ۱۸-۲۴ دسمبر ۲۰۰۶ء‘ مضمونFailure of Monetary Policy از جاوید اکبر انصاری)

یہ تو صورت ہے عام افراد کی معاشی زبوں حالی کی‘ لیکن مجموعی معاشی صورت حال بھی کچھ کم تشویش ناک نہیں۔ افراطِ زر میں برابر اضافہ ہو رہا ہے اور اسٹیٹ بنک کے تازہ ترین اندازوں کے مطابق افراطِ زر کے بارے میں جو تخمینہ تھا کہ وہ ۲۰۰۶ء-۲۰۰۷ء میں ۵ء۶ فی صد ہوگا‘ اندیشہ ہے کہ وہ ۸ فی صد کے لگ بھگ ہوگا۔ اور جہاں تک اشیاے خوردونوش کا تعلق ہے تو دسمبر۲۰۰۵ء کے مقابلے میں دسمبر ۲۰۰۶ء میں یہ اضافہ ۷ء۱۲ فی صد ہوا ہے (بحوالہ دی نیشن ‘ ۲۱جنوری ۲۰۰۷ء)

تجارتی خسارہ ۵ بلین ڈالر سے بڑھ کر ۱۲ بلین ڈالر کی حدوں کو چھو رہا ہے اور بین الاقوامی ادایگی کا خسارہ ڈیڑھ بلین ڈالر سے بڑھ کر ۵ بلین سے تجاوز کر رہا ہے۔ گو زرمبادلہ کے ذخائر ۱۳بلین ڈالر کے لگ بھگ ہیں لیکن ۲۰۰۲ء کے مقابلے میں جب یہ ۱۱ مہینے کی درآمدات کے برابر تھے اس کے مقابلے میں اب یہ بمشکل چار مہینے کی درآمدات کے لیے کفایت کرتے ہیں۔

آزادی گروی رکھ کر جس معاشی ترقی کا شوروغوغا ہے اس کی حقیقت تلخ اور سراب کے مانند ہے۔ اور ایک دوراہا یہ بھی ہے کہ کون سی معاشی ترقی اس قوم کو مطلوب ہے۔

پاکستان دوراھے پر

دوراہے اور بھی ہیں لیکن سب کا مرکزی نکتہ ایک ہی ہے___ یعنی جنرل پرویز مشرف کے سات سالہ دورِحکمرانی میں قوم کو جس جگہ پہنچا دیا گیا ہے‘ اس سے نجات کا اب ایک ہی راستہ ہے اوروہ شخصی آمریت اور فوج کے سیاسی کردار سے نجات اور حقیقی جمہوری نظام کی طرف     پیش قدمی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ قوم ہمیشہ کے لیے اس امر کو طے کردے اور تمام جمہوری اور اسلامی سیاسی قوتیں یک جان ہوکر اس کے لیے سرگرم عمل ہوجائیں کہ ملک کی بقا اور ترقی کا انحصار ۱۹۷۳ء کے دستور کو اس کی اس شکل میں نافذ کرنے پر ہے جو اکتوبر ۱۹۹۹ء سے قبل موجود تھا۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ملک میں جرنیلی آمریت کے خلاف بھرپور تحریک ہو اور نئے انتخابات ایک حقیقی غیر جانب دار حکومت کے تحت کھلے اورشفاف انداز میں ہوں۔ اصل حکمران جنرل پرویز مشرف ہیں اور خود انھوں نے انتخابی مہم کا آغاز کرکے‘ کھلے عام یہ دعوت دے کر کہ ان لوگوں کو منتخب کرو جو میرے ساتھ ہیں اور ان کی آزاد خیالی کے علم بردار ہیں اور پھر یہ اعلان کر کے کہ وہ خود حکمران لیگ اور اس کے حواریوں کی لگام تھامے ہوئے ہیں‘امیدواروں کا انتخاب وہ خود کریں گے اور انتخابی مہم بھی وہ خود چلائیں گے۔ اب یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی موجودگی میں کوئی غیرجانب دار انتظام وجود میں نہیں آسکتا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس پورے دور میں کوئی فیصلہ پارلیمنٹ یا کابینہ نے نہیں کیا‘ سارے فیصلے جنرل صاحب خود کرتے ہیں‘ یا کورکمانڈر وں کی میٹنگ میں کیے جاتے ہیں۔ مرکزی کابینہ کو تو ان کی خبربھی اخبارات ہی کے ذریعے ہوتی ہے۔ ان حالات میں واضح ہے کہ اصل حکمران جنرل پرویز مشرف ہیں اور ان کی موجودگی میں کسی آزادی اور غیرجانب دار انتخاب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا۔ اس لیے تین بنیادی نکات ہیں جن پر    تمام سیاسی اور دینی جماعتوں کو متفق ہوکر جدوجہد کرنی چاہیے:

                ۱-  دستور کی اس کی اصل شکل میں بحالی‘ شخصی حکمرانی کا خاتمہ اور فوج کو دستور کے تحت مکمل طور پر منتخب سول نظام کے تحت کام کرنے کا پابند کرنا۔

                ۲-  چونکہ جنرل پرویز مشرف جو اصل حکمران اور سرکاری پارٹی کے حاکم مطلق ہیں ان کی حکومت کے تحت آزاد اور غیر جانب دار انتخابات ناممکن ہیں‘ اس لیے ان کا استعفا اور صحیح معنوں میں ایک غیرجانب دار انتظام کے تحت ایک مکمل طور پر بااختیار پارلیمنٹ کی تمام سیاسی جماعتوں کے مشورے کے مقرر کردہ آزاد الیکشن کمیشن کے تحت نئے انتخابات۔

                ۳-  انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کی غیرمشروط شرکت اور طے شدہ آداب کے مطابق انتخابی مہم کے پورے مواقع۔

اس سیاسی جدوجہد اور انتخاب میں جنرل پرویز مشرف کو بھی اسی طرح شرکت کا موقع ملنا چاہیے جس طرح باقی تمام سیاسی عناصر کو‘ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اقتدار سے فارغ ہوں‘ وردی اُتاریں تاکہ صدر کا عہدہ اور چیف آف آرمی اسٹاف کا عہدہ دونوں دستور کے تحت  بحال ہوسکیں اور وہ صدارت یا اسمبلی کی رکنیت جس کے لیے بھی حصہ لینا چاہیں برابری کی بنیاد پر حصہ لیں۔

انھیں دعویٰ ہے کہ وہ بزدل انسان نہیں۔ اگر ایسا ہے تو انھیں ہرگز زیب نہیں دیتا کہ   فوج کی وردی پہن کر فوجی بیرک کے محفوظ مقام پر بیٹھ کر اس سیاسی معرکے میں شرکت کریں۔    یہ دعوے کہ وردی کا کوئی تعلق جمہوریت سے نہیں اور پانچ سال والی اسمبلی سے دس سال کے لیے صدارتی انتخابات کرانے کے منصوبے دراصل سیاسی دیوالیہ پن ہی کا مظاہرہ نہیں بلکہ خود       اپنی کمزوری کا بھی اعتراف ہیں۔ اگر آپ کو اعتماد ہے کہ عوام آپ کے ساتھ ہیں تو پھر فوج کی چھتری تلے بیٹھ کر شب خون مارنے کے کیا معنی؟

فوج کو جس طرح سیاست میں ملوث کیا گیا ہے اور اس کے نتیجے میں جس طرح فوج متنازع بن گئی ہے اور عوام اور فوج میں فاصلے بڑھ گئے ہیں‘ یہ کھیل اب ختم ہونا چاہیے اور ہمیشہ  کے لیے ختم ہونا چاہیے تاکہ جمہوریت کی گاڑی پٹڑی پرچڑھ سکے اور فوج دستور کے تحت سول نظام کی قیادت میں اپنا کردار ادا کرسکے۔۲۰۰۷ء فیصلے کا سال ہے اور اب توقع ہے کہ یہ قوم وہ فیصلہ کرے گی جس کے نتیجے میں پاکستان اپنی اصل منزل کی طرف پوری قوت اور یک سوئی سے    پیش قدمی کرسکے گا۔

 

۱۸ جنوری بھی اب تحریکی زندگی کی یادوں میں ایک گراں لمحہ بن گیا ہے۔ لیجیے محترم بھائی سید فضل معبود بھی رخصت ہوئے! انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون۔

یہ خبر بجلی کی کوند کی طرح دل پر پڑی اور میں ایک لمحے کے لیے سکتے میں آگیا۔ جانتا ہوں کہ موت سب سے بڑی حقیقت ہے۔ بلاشبہہ ہر انسان فانی ہے اور ہم سب اس قافلے کے شریک ہیں۔ منزل تو وہی ہے‘ دنیا تو بس ایک درمیانی مرحلہ ہے لیکن اس سب سے بڑی حقیقت اور تقدیر سے اس ناگزیر ملاقات کو ہم بھولے رہتے ہیں۔ برادر محترم مولانا سید فضل معبود کے لیے فوری دعاے مغفرت کے بعد جو خیال دل و دماغ پر چھایا رہا وہ رفیق اعلیٰ سے ملاقات کے بارے میں اپنی غفلت کا احساس تھا۔ نہ معلوم کیوں ان کے انتقال کی خبر غیرمتوقع لگی اور اس کو اپنی بھول جان کر دل بے چین ہوگیا۔

فضل معبودصاحب سے میری پہلی ملاقات اسلامی جمعیت طلبہ کی نظامت اعلیٰ کے زمانے میں ہوئی۔ سرحد کے دورے پر آیا تو وہ پشاور کی جماعت کے امیر تھے اور جس محبت‘ شفقت اور  بے تکلفی سے ملے وہ آج تک دل پر نقش ہے۔ میں نے جن استاد سے قرآن پاک پڑھا ان کا تعلق بھی صوبہ سرحد سے تھا۔ پھر سرحد کے متعدد افراد سے مختلف حیثیتوں سے ملاقات رہی اور تعلقات استوار ہوتے رہے۔ لیکن میں اپنے حقیقی احساسات کے اظہار میں بخل کا مرتکب ہوں گا اگر یہ نہ کہوں کہ وہ پہلے پشتون تھے جن کے بارے میں مجھے یہ احساس ہوا کہ وہ پشتون تہذیب اور روایت کا نمونہ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر یوپی اور دلّی کی ثقافت کے بھی بہت سے پہلو لیے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر خورشیدالاسلام کا ایک معرکہ آرا مقالہ شبلی نعمانی پر ہے جس کا پہلا جملہ ہے:شبلی وہ پہلے یونانی ہیں جو ہندستان میں پیدا ہوئے۔ میں کوئی ایسی بات کہنے کی جسارت تو نہیں کرسکتا لیکن اپنے اس احساس کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ سید فضل معبود پشتون اور گنگاجمنا کی ثقافت کا سنگم تھے۔ زبان و بیان اور اظہار و ادا میں وہ دونوں ثقافتوں کا مرقع تھے اور کبھی ان کی زبان سے شین قاف اور تذکیر و تانیث میں کوئی لغزش محسوس نہیں کی۔ گفتگو میں نرمی اور مٹھاس‘ اُردو زبان کے اسرار و رموز کا ادراک‘ نکھرا ادبی ذوق‘ علمی بالیدگی اور ان سب کے ساتھ خلوص اور سادگی۔ فضل معبود کی شخصیت میں بلا کی کشش تھی۔ چھوٹوں کے ساتھ برابری کا معاملہ کرنا اور ان کوعزت دینا کوئی ان سے سیکھے۔

مولانا فضل معبود یکم اپریل ۱۹۱۸ء کو ضلع مردان کے قریب ایک دیہات تہامت پور میں پیدا ہوئے۔ ایم اے تک تعلیم حاصل کی۔ اُردو سے خصوصی شغف تھا اور اس زبان میں ایم اے کیا۔ ترجمان القرآن کے ذریعے مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ سے واقفیت ہوئی اور یہ رشتہ ۱۹۳۸ء میں قائم ہوا۔ ۱۹۴۵ء میں جماعت اسلامی کے دوسرے کل .ُ   ہند اجتماع میں جو پٹھان کوٹ میں منعقد ہوا‘ شرکت کی اور اپریل ۱۹۴۵ء میں جماعت کی رکنیت اختیار کی۔ جو عہد اپنے رب سے تجدید ایمان کے ساتھ کیا اسے آخری لمحے تک نبھایا اور ۱۸ جنوری ۲۰۰۷ء کو جان جانِ آفریں کے سپرد کی۔

جماعت اسلامی میں مختلف ذمہ داریوں پر رہے۔۱۹۴۶ء سے ۱۹۶۷ء تک پشاور شہر کے امیر رہے۔ ۱۹۵۰ء میں مرکزی شوریٰ کے رکن بنے اور ۲۰۰۰ء تک شوریٰ میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ کچھ عرصہ ریلوے کے محکمے میں ملازمت کی۔ ۱۹۵۸ء سے ۱۹۶۴ء تک روزنامہ انجام پشاور کے سب ایڈیٹر رہے۔ تین بار سنت یوسفی پر عمل کرتے ہوئے تحریکِ اسلامی کی خدمت کے صلے میں قیدوبند کی صعوبتیں ہنسی خوشی برداشت کیں۔ اس طرح دو سال سے زیادہ مدت جیل میں گزاری۔ کچھ عرصے مرکزی اُردو سائنس بورڈ کے ڈائرکٹر رہے۔بی ڈی ممبر بھی بنے اور الخدمت کے محاذ سے مریضوں کی دیکھ بھال کی۔ ریڈیو پاکستان سے پشتو اور اُردو میں دینی اور سماجی موضوعات پر تقاریر کا سلسلہ بھی ۱۹۶۰ء سے ۲۰۰۱ء تک جاری رہا۔ غرض اجتماعی زندگی کے ہر شعبے اور میدان میں کچھ نہ کچھ کردار ادا کیا۔

الحمدللہ آج صوبہ سرحد تحریک اسلامی کا بڑا گہوارا ہے اور صوبے کے طول و عرض میں دعوتی ساتھیوں کی فصل بہار ہے۔ لیکن ایک مدت تک میرے لیے صوبہ سرحد نام تھا محترم خان سردار علی خان کا‘ محترم تاج الملوک کا اور سید فضل معبود کا۔ ہر ایک کا اپنا اپنا مقام اور اندازِکار۔ گویا  ع

ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است

علمی اور ادبی ذوق‘ تحریکی اخوت اور ہمہ جہت ثقافتی دل چسپی کے اعتبار سے میرا سب سے زیادہ قرب برادرم فضل معبود ہی سے رہا۔ چراغِ راہ کی وجہ سے ایک خصوصی تعلق قائم ہوگیا۔ پھر شوراؤں میں ہمیں مل بیٹھنے اور ایک دوسرے کو سمجھنے اور باہمی استفادہ کرنے کا موقع ملا۔ ۱۹۶۴ء میں لاہور کی جیل میں ایک ہی بیرک میں ہم ساتھ رہے۔ میرے بزرگ ہونے کے باوجود انھوں نے کبھی مجھ سے خوردوں والا معاملہ نہیں کیا۔ محبت کے ساتھ جو احترام انھوں نے دیا‘ اس نے مجھے ان کا گرویدہ کر دیا۔ اسلام سے وفاداری‘ مولانا مودودی سے محبت‘ تحریک کے منہج کے باب میں مکمل یک سوئی‘ دعوت اور تنظیم دونوں میں سلیقہ‘ طبیعت میں بلا کی نفاست‘ معاملات میں کھرا ہونا اور تعلقات میں خلوص کے ساتھ مٹھاس‘ ان کی شخصیت کے ناقابلِ فراموش پہلو تھے۔ تحریک کے سچے مزاج شناس تھے اور ۱۹۵۷ء کے ماچھی گوٹ کے معرکے میں ان کی یک سوئی اور پھر    کوٹ لکھپت میں دستور جماعت کی تدوین میں ان کی معاونت‘ مَیں کبھی بھول نہیں سکتا۔

مولانا سید فضل معبود کو رسائل کے پورے پورے ریکارڈ رکھنے کا شوق تھا۔ مجھے ان کی ذاتی لائبریری دیکھنے کا موقع نہیں ملا لیکن مجھے یقین ہے کہ ان کے پاس کتب و رسائل کا بڑا قیمتی ذخیرہ ہوگا۔  فضل معبود صاحب کا حافظہ بھی بہت اچھا تھا اور جب بھی ہمیں وقت ساتھ گزارنے کا موقع ملا ہے احساس ہوا کہ انھیں چھوٹی چھوٹی باتیں بھی خوب یاد رہتی تھیں۔صحت کی خرابی کے باعث آخری زمانے میں مجھے ان سے ملنے کا موقع نہیں ملا جس کا افسوس رہے گا۔

الحمدللہ انھوں نے بھرپور تحریکی زندگی گزاری اور اس پورے عرصے میں پاے استقامت میں کوئی کمزوری نہیں آئی۔ نئے لوگوں کی حوصلہ افزائی بھی کی اور اپنے رب اور تحریکی ساتھیوں سے وفاداری کا معاملہ کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں اور خدمات کو قبول فرمائے‘ بشری کمزوریوں اور کوتاہیوں سے درگزر فرمائے اور انھیں جنت کے اعلیٰ مقامات پر جگہ دے  ع

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

 

پاکستان اور اس کے اسٹرے ٹیجک اثاثوں پر جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں  روشن خیالی‘ لبرلزم‘ لچک‘ ضرورت حتیٰ کہ ’جرأت‘ کے نام پر بجلیاں گر رہی ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا قیمتی اثاثہ‘ مفاد اور اصول اس فائرنگ کی زد (’in the line of fire‘) میں آکر مجروح ہو رہا ہے  یا جان ہی سے ہاتھ دھو رہا ہے۔ لیکن اب جیسے جیسے ۲۰۰۷ء کا انتخابی معرکہ قریب آرہا ہے اور   ملک ایک فیصلہ کن لمحے کی طرف بڑھ رہا ہے‘ جنرل صاحب کی جراحت کاریاں بھی تیز تر ہوتی جارہی ہیں۔ گذشتہ چند ہفتوں میں تین اہم ترین محاذوں پر انھوں نے جو حملے کیے ہیں‘ ان سے سیاسی نقشۂ جنگ بالکل کھل کر سامنے آگیا ہے۔ اب قوم اس تاریخی موڑ پر پہنچ گئی ہے جہاں پاکستان کے نظریاتی‘ سیاسی اور جغرافیائی وجود کے تحفظ اور اصل منزل کی طرف پیش رفت یا خدانخواستہ تحریکِ پاکستان اور اس کے ذریعے حاصل کردہ سرمایۂ حیات سے محرومی اور محکومی کے نئے دور کے آغاز میں سے ایک ہمارا مقدر ہوگا:

                ۱-  نظریاتی اعتبار سے دو قومی نظریہ‘ پاکستان کی اسلامی شناخت‘ شریعت کی بالادستی اور حدود اللہ کی پاس داری‘ اسلامی تہذیب و ثقافت کی حفاظت و فروغ اور تعلیم میں اسلامی اقدار اور اہداف کا واضح کردار سب سے اہم اور مرکزی ایشو بن گیا ہے۔ ان پر روشن خیالی اور لبرلزم کے نام پر کھل کر حملہ کیا جا رہا ہے۔

                ۲-  اب جملہ داخلی و خارجی امور کا فیصلہ دستورکے تحت ادارے اور عوام کے منتخب نمایندے نہیں کر رہے‘ بلکہ یونٹی آف کمانڈ کے نام پر ایک فردِواحد تمام اصولی‘ تاریخی اور قومی موقف سے انحراف کرتے ہوئے اورجواب دہی سے بالا ہوکر اپنے ذوق‘ خواہشات اور مخصوص مفادات کی روشنی میں کر رہا ہے اور کرنے کے استحقاق کا دعویٰ بھی کر رہا ہے۔ یہ پورے سیاسی نظام اور ملت اسلامیہ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر خط تنسیخ پھیرنے کے مترادف اور قوم کی آزادی اور عزت دونوں پر شدید ترین حملہ ہے۔

                ۳-  نظریاتی اور سیاسی انقلابِ معکوس (counter-revolution) کے ساتھ تیسرا خطرہ اب پاکستان کے جغرافیائی وجود کو لاحق ہے۔ اس کے بڑے بڑے مظاہر یہ ہیں: (۱)مرکز اور صوبوں میں بُعد‘ جو اب تصادم کی حدوں کو چھو رہا ہے (۲) بلوچستان میں  فوج کشی (۳)سندھ میں ایک لسانی مافیا کی سرپرستی (اسے کھلی چھوٹ جو لاقانونیت اور   بھتہ خوری سے بڑھ کر اب پھر مہاجر‘ پختون‘ پنجابی ٹکرائو اور خون خرابے کی طرف بڑھ   رہا ہے) (۴) شمالی اور جنوبی وزیرستان اور باجوڑ میں قوت کا بے محابا استعمال (۵) ایجنسیوں کے ذریعے ملک کے مختلف حصوں میں مذہبی‘ لسانی اور علاقائی عصبیتوں کا فروغ اور اسے تصادم اور خون ریزی تک لے جانے کی مساعی‘ اور اب (۶) ریاست جموں و کشمیر کے سلسلے میں جنرل صاحب‘ ان کے وزیرخارجہ اور وزارتِ خارجہ کی سرکاری ترجمانی کے ذریعے دست برداری کے اعلان کی شکل میں وہ ضرب کاری جس کے نتیجے میں خدانخواستہ برعظیم کا نقشہ ہی بدل سکتا ہے۔

بھارتی ٹی وی نیٹ ورک کو جنرل صاحب کا ۵ دسمبر۲۰۰۶ء کا انٹرویو دراصل اس پورے عمل کا ایک اہم حصہ ہے۔ اگر قوم اب بھی اس خطرناک اور تباہ کن کھیل کا راستہ نہیں روکتی تو ہمیں خطرہ ہے کہ معاملات اس کے ہاتھ سے نکل بھی سکتے ہیں۔

اس انٹرویو میں بہت کچھ کہا گیا ہے مگر دو چیزیں زیادہ اہم ہیں:

اوّل: جنرل صاحب کے سارے کھیل کا انحصار ’یونٹی آف کمانڈ‘ پر ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کی خاطر وہ فوج کی سربراہی چھوڑنے کو تیار نہیں۔ انھوں نے صاف کہا ہے کہ جو کچھ میں کر رہا ہوں اس کے لیے تین قوتوں کی تائید حاصل ہے اور اس لیے حاصل ہے کہ وہ خود ان کی سربراہی کررہے ہیں‘ یعنی فوج‘ اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی۔

بات بہت صاف ہے۔ عوام‘ عوامی نمایندوں اور منتخب اداروں‘ پارلیمنٹ حتیٰ کہ کابینہ تک کا اس میں کوئی ذکر نہیں اور ذکر کی ضرورت بھی نہیں کہ وہ کسی شمار قطار میں نہیں۔ یہ سیدھے سیدھے قوت کا کھیل ہے اور اس طرح ایک نوعیت کا نوآبادیاتی (colonial) نظام ہے اور اس کی بقا اور استحکام جنرل صاحب کا مقصد اور ہدف ہے۔

دوم: کشمیر کے معاملے میں پاکستان کے اصولی‘ تاریخی اور خود پاکستان کی بقا و ترقی کے لیے ناگزیر موقف سے مکمل طور پر انحراف‘ جسے یو ٹرن اور سمت کی تبدیلی (paradigm shift) کے علاوہ کسی دوسرے لفظ سے تعبیر نہیں کیاجاسکتا۔ یہ بھارت کے موقف کو کھل کر قبول کرنے کے مترادف ہے۔ اب صاف لفظوں میں یہ تک کہہ دیا گیا ہے کہ بھارت سے کشمیر کی آزادی ہمارا مقصد نہیں۔ کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ اصل ایشو نہیں۔ کشمیر بنے گا پاکستان‘ کشمیریوں کا نعرہ تھا‘ پاکستان کا ہدف نہیں۔ جموں وکشمیر پر پاکستان کا کوئی حق نہیں۔ گویا ۵۹سال تک جو کچھ پاکستان کرتا رہا وہ جھک مارنے سے زیادہ نہیں تھا۔ جو قربانیاں جموں و کشمیر اورپاکستان کے مسلمانوں نے آج تک دیں اور جن میں ۶لاکھ افراد کی شہادت‘ ہزاروں خواتین کی عصمت دری‘ اربوں کی املاک کا اتلاف‘ ہزاروں نوجوانوں کی گرفتاریاں‘ تعذیب اور مستقل معذوری‘ اور بھارت سے پاکستان کی چار جنگیں اور اس پس منظر میں فوج پر کھربوں روپے کا صرف___ سب ایک ڈھونگ‘ ایک سیاسی کھیل‘ ایک خسارے کا سودا تھا۔

اب فردِواحد کو یہ اختیار حاصل ہے کہ ریاست جموں و کشمیر پر بھارت کے قبضے کو سندِجواز عطا کردے‘ استصوابِ راے اور حقِخود ارادیت سے دست بردار ہوجائے‘اقوام متحدہ کی قراردادوں کو دفن کردے اور وہاں سے مسئلے کو واپس لینے تک کا اعلان کردے‘ آزادی اور تحریکِ آزادی سے برأت کا اظہار کر دے اور جو نظام جواہرلعل نہرو نے ۱۹۵۱ء میں دے کر ۱۹۵۳ء میں درہم برہم کردیا تھا اور جس خودمختاری کی خیرات دینے کا اعلان نرسمہارائو نے ۱۹۹۵ء اور ۱۹۹۶ء میں بار بار کیا تھا‘ اس سے بھی کم پر کشمیریوں کا سودا کرنے کے لیے آمادگی کا اظہار کیا جائے۔   اس سے بھی بڑھ کر خود آزاد کشمیر پر بھی مشترک کنٹرول (joint control )اور مشترک انتظام (joint management) کی باتیں کی جائیں۔ سید علی شاہ گیلانی اور تحریکِ آزادیِ کشمیر کے تمام ہی مخلص اور بھارت شناس قائدین نے اسے تحریک پاکستان‘ جموں و کشمیر کے مسلمانوں اور    پاکستانی قوم سے غداری قرار دیا ہے‘ اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ بھارت کی قیادت اور     جنرل پرویز مشرف کے اس کھیل کو ہرگز کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

بات بہت صاف ہے۔ جموں و کشمیر کی ریاست کی قسمت کا فیصلہ وہاں کے عوام کو تقسیم ہند کی اسکیم کے ایک عمل کے طور پر کرنا ہے۔ کشمیر کا قضیہ (dispute) زمین کی تقسیم یا سرحدات کی حدود میں تبدیلی کا مسئلہ نہیں۔ یہ ڈیڑھ کروڑ انسانوں کے حق خودارادیت کا مسئلہ ہے جس پر ماہ و سال کے گزرنے سے فرق نہیں پڑتا۔ آزادی اور حقوق کی جنگ امروز و فردا کی حدود کی پابند نہیں ہوتی اور یہی وجہ ہے کہ کشمیر کے عوام دو صدیوں سے زیادہ عرصے سے یہ جنگ لڑ رہے ہیں۔ برطانیہ‘ سکھ‘ ڈوگرہ‘ بھارتی حکمران‘ ان سب کے خلاف یہ جنگ لڑرہے ہیں اور ہم اس جنگ میں ان کے حلیف اور شریک ہیں۔ اس لیے کہ وہ دینی‘ تہذیبی‘ معاشی‘ سیاسی‘ جغرافیائی ہر اعتبار سے ہمارا حصہ ہیں۔ پاکستان کی جدوجہد میں جموں و کشمیر کے مسلمان برابر کے شریک تھے اور ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کے اجتماع میں انھوں نے قائم ہونے والے پاکستان کے حصے کے طور پر شرکت کی تھی‘ اور ۱۹جولائی ۱۹۴۷ء کو پاکستان کے قیام سے قبل انھوں نے اور ان کے منتخب نمایندوں نے پاکستان سے الحاق کا اعلان کردیا تھا‘ اور اس اعلان کے تحت انھوں نے لڑکر جموں و کشمیر کا ایک حصہ عملاً آزاد کروایا جو آج آزادکشمیر اور شمالی علاقہ جات کی شکل میں پاکستان سے متعلق ہے جسے ہم آزاد کشمیر کی حکومت کہتے ہیں۔ یہ محض ان علاقوں کی حکومت نہیں جو بھارت کے چنگل سے ۴۹-۱۹۴۷ء میں آزاد کرا لیے گئے تھے‘ بلکہ دراصل پورے جموں و کشمیر کی آزاد حکومت ہے جس کے تصور سے اب جنرل صاحب اور ان کے حواری توبہ کر رہے ہیں اور بڑی ڈھٹائی سے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان نے ’کشمیر بنے گا پاکستان‘ اور کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کبھی نہیں کہا۔ یہ کہ اٹوٹ انگ ایک بھارتی واہمہ ہے اور ہم نے بھارت کے قبضے کو ہرسطح پر چیلنج کیا ہے۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس بنیاد پر؟ کیا یہ بنیاد اس کے سوا کوئی اور تھی کہ ہندستان کی تقسیم کے فارمولے کے مطابق مسلم اکثریتی خطہ ہونے کی بنا پر جموں و کشمیر پاکستان کا حق ہے۔ پاکستان کے الفاظ تک میں ’ک‘ کا تعلق کشمیر سے ہے‘ قرارداد پاکستان میں کشمیر پاکستان کا حصہ ہے۔ الحاق پاکستان کی قرارداد سے پاکستان اور کشمیر ایک جسم بن چکے ہیںاور قائداعظمؒ نے اسی بنیاد پر اسے پاکستان کی شہ رگ کہا۔ اسی بنیاد پر جہادِ آزادی کا آغاز ڈوگرہ راج کے خلاف ہوا جو آج تک جاری ہے۔ جموں و کشمیر کے مسلمانوں نے کبھی اپنے کو پاکستان سے  جدا تصور نہیں کیا۔

ان کی گھڑیاں پاکستان کی گھڑیوں کے مطابق وقت بتاتی ہیں‘ پاکستان کی ہرخوشی پر وہ خوش‘ ہر کامیابی پر وہ نازاں اور ہرمشکل پر وہ دل گرفتہ ہیں۔ انھوں نے بھارت کے تسلط کو کبھی قبول نہیں کیا اور بڑی سے بڑی قربانی دے کر اس کے استبداد کا مقابلہ کیا۔ ۱۴ اگست کو وہ یومِ آزادی مناتے ہیں اور ۱۵ اگست کو یومِ سیاہ۔ بلاشبہہ تکمیل پاکستان کی اس جدوجہد کے لیے ہم نے بین الاقوامی قانون کی پاس داری کرتے ہوئے استصواب راے کے قانونی عمل کی بات کی‘ اور جو بھی حق پسند ہوگا وہ اس کا اعتراف کرے گا جیساکہ امریکا کی قیادت کی وقتی مفادات پر مبنی قلابازیوں کے باوجود امریکا کی سابق سیکرٹری آف اسٹیٹ میڈیلین آل برائٹ نے ۱۳ دسمبر ۲۰۰۳ء کو خود دہلی کی سرزمین پر برملا کہا تھا کہ: ’’کشمیری عوام کی خواہشات معلوم کرنے کا واحد راستہ استصواب راے عامہ ہے‘‘۔

ستم یہ ہے کہ آج وہ جرنیل جن کا فرض منصبی ہی یہ ہے کہ ایک ایک انچ زمین کی حفاظت کے لیے جان دے دیں‘ جموں و کشمیر کی جنت نشان زمین ہی نہیں‘ ایک کروڑ انسانوں کی مقبوضہ ریاست کو تحفتاً بھارت کی غاصب قیادت کو پیش کرنے اور اُمت مسلمہ کے ایک حصے کا سودا کرنے کو تیار ہیں۔

بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کیوں نہ خوش ہو۔ سابق وزیراعظم گجرال کس مسرت سے کشمیر پر جنرل صاحب اور وزارتِ خارجہ کی ترجمان کے بیان کو سنگِ میل قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ: ’’کشمیر پر پاکستان کا دعویٰ ختم ہونے کے بعد مسئلے کا حل جلد نکل آئے گا‘‘۔

یہ مسئلے کا حل نہیں‘ یہ پاکستان کی شہ رگ کو ہمیشہ کے لیے دشمنوں کے پنجے میں دینے اور ایک کروڑ انسانوں کو غلامی کی جہنم میں دھکیل دینے کی جسارت ہے۔ یہ آزادکشمیر اور شمالی علاقہ جات کو بھارت کی افواج اور سیاسی دراندازیوں کے لیے کھولنے کی غداری ہے۔ یہ پاکستان کے تصور‘ اور قائداعظم اور تحریکِ پاکستان کے نقشۂ پاکستان کو درہم برہم کرنے کی سازش ہے۔ اگر خدانخواستہ یہ کامیاب ہوتی ہے تو ہمیں ڈر ہے کہ اس کے نتیجے میں پاکستان کا نظریاتی ہی نہیں‘ جغرافیائی وجود بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔

یہ خطرات اب صرف نظری امکان کی حد سے بڑھ کر حقیقی تبدیلی کے دروازے تک پہنچ چکے ہیں اور جس طرح برعظیم کے مسلمانوں نے قائداعظم کی قیادت میں وقت کے حقیقی خطرات کا صحیح ادراک کرکے ۱۹۴۰ء میں برطانیہ اور کانگرس کے گٹھ جوڑ کا مقابلہ کرنے کے لیے قیامِ پاکستان کی جدوجہد کا آغاز کیا اسی طرح آج امریکا اور بھارت کے عزائم اور ان کا آلہ کار بننے والے طبقات اور قیادتوں کے مقابلے کا عزم اور پروگرام وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔

آج ملت پاکستان کی جدوجہد کا ہدف تحفظِ پاکستان اور تحفظِ کشمیر ہے۔ کشمیر اور پاکستان کو جدا نہیں کیا جاسکتا۔ جن کی نظر تاریخ کے حقائق پر ہے‘ وہ جانتے ہیں کہ کشمیر سے پسپائی دراصل پاکستان کے انتشار اور بربادی کا راستہ اور برعظیم کے نقشے کوایک بار پھر تبدیل کرنے اور اکھنڈ بھارت کے خواب میں رنگ بھرنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔ ملتِ اسلامیۂ پاکستان نے پہلے بھی اپنے نظریاتی‘ تہذیبی اور جغرافیائی تحفظ کی جنگ ساری بے سروسامانی کے باوجود لڑی ہے اور    ان شاء اللہ اب بھی لڑے گی۔ وسائل کے اعتبار سے آج ہم ۱۹۴۰ء کے مقابلے میں کہیں زیادہ مضبوط ہیں۔ ضرورت بیرونی سہاروں پر بھروسا کرنے کے بجاے اللہ کے بھروسے پر حق و انصاف کے موقف پر ڈٹ جانے اور ہر قربانی کے لیے آمادہ ہونے کی ہے۔

وہ قیادت جو قومی مقاصد کو ترک کرچکی ہے‘ اب قوم پر ایک بوجھ (liability) ہے اور  اس سے بھی بڑھ کر ملک کی سلامتی کے لیے ایک خطرہ (security risk)۔ ایسی قیادت سے نجات اور ایک ایسی متبادل قیادت کو زمامِ کار سونپنا وقت کی اہم ضرورت ہے جو ذاتی‘ گروہی اور عالمی طاقتوں کے مفادات کی اسیر نہ ہو‘ بلکہ ان پر ضرب لگانے کا داعیہ اور صلاحیت رکھتی ہو‘ جس سے دین اور قوم کے مفاد پر کسی سمجھوتے اور پسپائی کا خطرہ نہ ہو‘ جو خدا کی رضا اور ملتِ اسلامیۂ پاکستان کے حقوق اور مفادات کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگانے کا عزم رکھتی ہو‘ جو اپنی تاریخ اور  دنیا کی سامراجی قوتوں‘ خصوصیت سے امریکا٭ اور بھارت کے عزائم کاشعور رکھتی ہو اور جو قوم کو قربانیوں اور جدوجہد کے راستے پر متحرک کرنے اور اس راہ میں اپنے پیٹ پر دو پتھر باندھ کر ان کی قیادت کرنے کی مثال قائم کرسکتی ہو۔

آج پاکستانی قوم کے سامنے اصل سوال صرف ایک ہے___ کیا اب یہ قوم بیرونی ایجنڈے اور مفاد کی خاطر اصولوں کی قربانی دینے والی قیادت سے نجات کے لیے فیصلہ کن جدوجہد کے لیے تیار ہے؟ اگر ہمیں اپنا دین‘ اپنی آزادی‘ ملتِ اسلامیۂ پاکستان کی قربانیاں‘ اور پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کا تحفظ عزیز ہے تو جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی سازش کا بھرپور مقابلہ کریں۔ پاکستان اور نظریۂ پاکستان کی جنگ آج کشمیر کے   محاذ پر لڑی جارہی ہے اور وہاں پسپائی کے معنی دراصل مظفرآباد‘ اسلام آباد‘ پشاور‘ کوئٹہ اور کراچی کو نشانے پر (’in the line of fire‘) لانے کے سواکچھ نہیں   ع

تیرے نشتر کی زد شریانِ قیسِ ناتواں تک ہے

پروفیسر خورشیداحمد کے شذرے ’اسلامی نظریاتی کونسل کی غیر نظریاتی بیداری‘ (نومبر۲۰۰۶ء) پر  اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعود صاحب نے اپنا نقطۂ نظر پیش کیا ہے۔ یہ اور    مدیر ترجمان کا استدراک دونوں ذیل میں پیش کیے جارہے ہیں۔ (ادارہ)

محترم پروفیسر خورشیداحمد صاحب کا ایک شذرہ ’اسلامی نظریاتی کونسل کی غیر نظریاتی بیداری‘ کے عنوان سے ترجمان القرآن اور بعض اخبارات میں شائع ہوا ہے جس میں انھوں نے     اس بات پر مسرت کا اظہار کیاہے کہ ’’اس دستوری ادارے کو شاید اپنی تاریخ میں پہلی بار اپنے  مقام و کردار اور استحقاق کا احساس ہوا‘‘۔ پروفیسر صاحب نے ادارے کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے: ’’ہم خود اسلامی نظریاتی کونسل کو بااختیار دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے کردار کو زیادہ مؤثر بنانے کے حق میں ہیں‘‘۔ محترم پروفیسر صاحب اسلامی نظریاتی کونسل کے پرانے کرم فرما اور بہی خواہ ہیں۔ ان کے ارشادات کی ہم بے حد قدر کرتے ہیں‘ تاہم اس شذرے میں چند حقائق بیان کرنے میں پروفیسر صاحب سے کسی قدر فروگزاشت ہوئی ہے۔ اس لیے    ہم بصدادب چند معروضات پیش کرنا چاہتے ہیں:

۱-  پروفیسر صاحب نے فرمایا کہ کونسل نے قوانین پر نظرثانی کے لیے ایک جامع رپورٹ مرتب کرنا تھی جو آج تک مرتب نہیں ہوئی اور یوں کونسل نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کی‘   یہ بات صحیح نہیں ہے۔ کونسل نے یہ آئینی ذمہ داری مکمل کرتے ہوئے جامع رپورٹ مرتب کرکے دسمبر ۱۹۹۶ء میں شائع کردی تھی۔ پروفیسر صاحب کی خواہش ہو تو وہ کونسل کے دفتر سے طلب کرسکتے ہیں۔ ماضی میں کونسل کی رپورٹیں صیغۂ راز میں رکھی جاتی تھیں۔ موجودہ کونسل کے فیصلے کے تحت   اب یہ پبلک کے لیے دستیاب ہیں۔

یہ فائنل رپورٹ ۵۲۷ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس رپورٹ میں ۱۸۳۶ء سے ۱۸۸۱ء تک کے تمام قوانین کا جائزہ پیش کردیا گیا ہے۔ اس فائنل اور جامع رپورٹ کے علاوہ کونسل سالانہ اور خصوصی رپورٹیں بھی شائع کرتی رہی ہے جو کونسل کی لائبریری میں موجود ہیں۔

۲-  کونسل اس بات پر مسرت و اطمینان کا اظہار کرتی ہے کہ موجودہ حکومت نے مختلف قوانین پر ذرائع ابلاغ اور پارلیمنٹ میں بحث کا آغاز کیا ہے۔ اب تک پاکستان میں اسلامی قوانین کا نفاذ عام طور پر آرڈی ننسوں کے ذریعے ہوتا رہا ہے اور اس مرتبہ ان قوانین پر ذرائع ابلاغ پر بے لاگ گفتگو ہورہی ہے اور اُمید ہے کہ اسمبلی میں بھی اس پر سنجیدہ بحث ہوگی۔ اس سلسلے میں جو اندیشے‘ تحفظات اور جھنجھلاہٹیں سامنے آرہی ہیں وہ فطری امر ہے‘ لیکن خوش آیند بات یہ ہے کہ قانون سازی عوام کے منتخب نمایندوں کے ہاتھوں ہورہی ہے۔

۳-  پروفیسر صاحب کو شکایت ہے کہ ’’اسلامی نظریاتی کونسل کو ایک دستوری ادارہ ہوتے ہوئے بھی عملاً ایک عضو معطل ہی کا مقام دے دیا گیا‘‘ اور یہ کہ ’’کونسل ۵۰ سے زیادہ رپورٹیں تیار کرچکی ہے لیکن ان میں سے کسی ایک پر بھی پارلیمنٹ میں بحث نہیں ہوئی‘‘۔ بقول ان کے ’’حیرت کا مقام ہے کہ کونسل یا اس کے ارکان کو اس بے توقیری پر کبھی احتجاج کی توفیق نہیں ہوئی‘‘۔ ان رپورٹوں پر بحث پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کی دستوری ذمہ داری ہے تاہم انھوں نے کونسل کو مطعون کیا ہے کہ ’’ہمیں علم نہیں کہ اس سلسلے میں کونسل نے کبھی حکومت کو اپنی دستوری ذمہ داریاں ادا کرنے پر متوجہ کرنے کی زحمت فرمائی ہو‘‘۔ پروفیسر صاحب سینیٹ کے اہم رکن ہیں‘ وہ بہتر جانتے ہیں کہ ان رپورٹوں پر کیوں بحث نہیں ہوئی۔ وہ اپنی کوتاہی کے لیے کونسل کو ذمہ دار کیوں ٹھیراتے ہیں۔ کونسل کے نزدیک رپورٹ پیش کرنے پر کونسل کی ذمہ داری پوری ہوجاتی ہے۔ کونسل کو ’ولایتِ فقیہ‘ کا اختیار حاصل نہیں اور نہ ہی وہ کسی ایسے اختیار کی قائل ہے کیونکہ اس سے پارلیمنٹ کا استحقاق مجروح ہوتا ہے۔

۴-  پروفیسر صاحب نے یہ نکتہ بھی اٹھایا ہے کہ حسبہ بل اور حدود آرڈی ننس کے اصل مسودات اسلامی نظریاتی کونسل ہی نے تیار کیے تھے‘ انھیں غالباً اس بات پر اعتراض ہے کہ کونسل اپنے ہی تیار کردہ مسودات کی تائید کیوں نہیں کر رہی یا ان پر نظرثانی کی بات کیوں کرتی ہے۔ میں پروفیسر صاحب کو یقین دلاتا ہوں کہ کونسل‘ زیرغور ہرمسئلے پر کونسل کے ماضی کے فیصلوں اور سفارشات کو مدنظر رکھتی ہے بلکہ موجودہ کونسل نے یہ طریقۂ کار طے کیا ہے کہ کونسل کے ماضی کے فیصلوں کو بھی موجودہ کونسل کی توثیق کے بعد ہی نقل‘ شائع یا جاری کیا جائے گا۔

۵-  پروفیسر صاحب کو حسبہ بل کے بارے میں کونسل کی راے پر بھی اعتراض ہے۔  کونسل کی راے کے جس حصے کو انھوں نے ’دستوری بقراطیت‘ کا نام دیا ہے اس کی آئینی حیثیت پر  سپریم کورٹ کا فیصلہ آچکا ہے‘ اس لیے مجھے اس پر مزید [کچھ] کہنے کی ضرورت نہیں۔ البتہ کونسل نے جن شرعی تحفظات کا اظہار کیا تھا وہ پروفیسر صاحب کی توجہ کے لائق ہیں اور یہ تحفظات اس ماحول کو پیش نظر رکھ کر کیے گئے تھے جس میں پاکستان میں اقامت دین کے نام پر دین میں سیاست کوٹ کوٹ کر بھردی گئی ہے۔ اور اندیشہ ہے کہ حسبہ کا سیاسی استعمال شریعت اور دین کومتنازع بنادے گا۔ فرقہ واریت اور مذہبی جماعتوں کے حالیہ باہمی اختلافات سے اس اندیشے کو مزید تقویت ملی ہے۔

۶-  ’تحفظ حقوقِ نسواں‘کے بل پر پارلیمنٹ میں بحث کے آغاز سے پہلے ہی بعض حلقوں کی طرف سے حدود آرڈی ننس کی مکمل تنسیخ یا اس کو بعینہٖ باقی رکھنے پر جس طرح اصرار کیا جا رہا ہے اور اس پر پارلیمنٹ میں غوروخوض اور ترمیم کا راستہ روکنے کے لیے جس طرح زور ڈالا جا رہا ہے  اس پر افسوس ہوتا ہے کہ بعض لوگ جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بات تو کرتے ہیں لیکن قانون سازی کے لیے غیرجمہوری اور غیرپارلیمانی طرزِعمل پر مصر ہیں۔ پروفیسرصاحب سے درخواست ہے کہ اس غیرجمہوری اور غیرپارلیمانی طرزِفکر کی حوصلہ شکنی کی طرف بھی توجہ فرمائیں۔

استدراک از مدیر ترجمان القرآن

ترجمان القرآن (نومبر۲۰۰۶ء) میں شائع شدہ شذرے پر اسلامی نظریاتی کونسل کے فاضل اور محترم صدر ڈاکٹر محمد خالد مسعود کا ایک طویل مراسلہ موصول ہوا ہے جسے شائع کیا جا رہا ہے۔ شذرے کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ کیا کسی مسئلے پر پارلیمنٹ یا پارلیمانی پارٹیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ ایک دینی مسئلے پر کونسل کے علاوہ دوسرے علماے کرام‘ یا کسی مجلس یا ادارے سے قانون سازی کے دوران راے لیں اور اگر پارلیمنٹ کی پارٹیاں ایسا کرتی ہیں تو کیا اس سے اسلامی نظریاتی کونسل جیسے دستوری لیکن سفارشی ادارے کا استحقاق مجروح ہوتا ہے؟ سوال کونسل کے ایک یا ایک سے زیادہ ارکان کے اس موقف پر پیدا ہوا تھا جنھوں نے اس عمل پر برافروختہ ہوکر استعفا پیش کیا جو اخبارات میں شائع ہوا اور اب بھی کونسل کی ویب سائٹ پر دیکھا جاسکتا ہے:

… نے ۲۰ ستمبر ۲۰۰۶ء کو اسلامی نظریاتی کونسل سے استعفا یہ کہتے ہوئے دے دیا کہ حکومت نے تحفظ نسواں بل میں دستوری ادارے کو نظرانداز کیا ہے۔ اس لیے کہ حکومتی جماعت کے لیڈر چودھری شجاعت حسین نے بل کا جائزہ لینے کے لیے علما کی الگ کمیٹی تشکیل دی جس کا بیان کردہ مقصد یہ تھا کہ یہ یقینی بنائے کہ یہ بل اسلامی احکامات کے مطابق ہے۔ … نے کہا کہ یہ نظریاتی کونسل کے دائرۂ کار کی خلاف ورزی ہے… نے بہرحال جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ممبران کونسل کی ۳۰نومبر کی ملاقات میں شرکت کی۔

اصل مقصد اس طرف متوجہ کرنا تھا کہ کیا فی الحقیقت دستور کے تحت کونسل کو یہ حیثیت حاصل ہے کہ اس کے علاوہ کسی سے مشورہ کرنا اس کے استحقاق کو مجروح کرتا ہے اور کرنے والے   کونسل کے دائرۂ اختیار کی خلاف وزی (breach of jurisdiction) کے مرتکب ہوتے ہیں۔ کونسل کے محترم صدر نے ’ولایت فقیہ‘ سے برأت کا اظہار کیا ہے اور درست کیا ہے لیکن دائرۂ اختیار کی خلاف ورزی کے تصور کے ڈانڈے کہیں ایسے ہی کسی تصور سے تو نہیں مل جاتے؟

ہماری دوسری تمام معروضات ضمنی تھیں اور مقصود کونسل پر تنقید سے کہیں زیادہ اس نظام کے احتساب کے لیے تھیں جو کونسل جیسے وقیع ادارے کے قیمتی کام کا استخفاف کر رہا ہے۔ اشارتاً اس طرف بھی متوجہ کیا گیا تھا کہ اگر احتجاج کی ضرورت تھی تو کونسل کے کام سے اس بے توجہی بلکہ  بے توقیری پر تھی‘ کونسل کے باہر کے اصحابِ علم سے مشورہ کرلینے پر نہیں۔ اس پس منظر میں یہ کہنے کی جرأت تو نہیں کرسکتا کہ  ع

شعر مرا بہ مدرسہ کہ برد

البتہ اپنے عجز بیان کا کھلے دل سے اعتراف کرتے ہوئے یہ دعا ضرور کروں گا کہ  ع

دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زبان اور

میں فاضل چیئرمین کونسل کا ممنون ہوں کہ دسمبر ۱۹۹۶ء میں شائع کی جانے والی جامع رپورٹ کے بارے میں انھوں نے مطلع کیا ہے۔ مجھے اعتراف ہے کہ یہ رپورٹ میرے علم میں نہیں تھی‘ ان شاء اللہ میں اسے حاصل کر کے اس سے استفادہ کروں گا۔ میرے سامنے مئی ۱۹۸۴ء میں شائع کی جانے والی ’احکام اسلام‘ نامی رپورٹ تھی جسے دستور پاکستان کے آرٹیکل ۲۳۰ (۱) (د) کے تحت پیش کیا گیا تھا اور جس سے میری تشفی نہیں ہو سکی۔ اس طرح کے مجموعے تو پہلے سے موجود تھے‘ ضرورت اس امر کی تھی کہ قرآن و سنت کے جن احکام کو قانونی شکل دینا ضروری ہے ان کو اس انداز میں پیش کیا جائے جس سے نئی قانون سازی ہوسکے۔ آیات و احادیث کو جمع کر دینا بھی ایک خدمت ضرور ہے مگر اس سے دفعہ ۲۳۰ (۱) (د) کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ غالباً ۱۹۹۶ء کی رپورٹ دفعہ ۲۳۰ (۱) (ج) کے تحت ہے اور اس میں متعلقہ قوانین کو اسلام کے احکام سے  ہم آہنگ کرنے کے لیے متعین تبدیلیوں کی نشان دہی کی گئی ہوگی جس سے میں ضرور استفادہ کروں گا۔ اس معلومات کے لیے میں ڈاکٹر صاحب کا ممنون ہوں۔

ڈاکٹر صاحب نے درست لکھا ہے کہ قانون سازی پارلیمنٹ میں اور قومی سطح پر بحث و گفتگو کے ذریعے ہونی چاہیے اور آرڈی ننسوں کے ذریعے قانون سازی دستور اور جمہوریت کی روح کے منافی ہے۔ ہم دن رات اسی کا رونا رو رہے ہیں۔ جب پارلیمنٹ کا وجود نہ ہو‘ اس وقت تو کوئی مجبوری ہوسکتی ہے جیسی کہ ۱۹۷۹ء میں تھی‘ جب حدود آرڈی ننس نافذ ہوئے۔ لیکن اس وقت بھی اگر ڈاکٹر صاحب اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹوں پر نظر ڈالیں اور اس زمانے کے اخبارات کا مطالعہ فرمائیں تو صاف نظر آئے گا کہ حدود قوانین پر کھل کر بحث ہوئی ہے۔ علما اور مفکرین کے کنونشن ہوئے ہیں اور اس وقت کی کابینہ نے اسلامی نظریاتی کونسل کی تجویز پر ان قوانین کی منظوری دی تھی۔ کلہیا میں گڑ نہیں پھوڑا گیا تھا‘ البتہ یہ شرف موجودہ حکمرانوں کو حاصل ہے کہ پارلیمنٹ کی موجودگی میں گذشتہ چارسال میں اگر کوئی ۲۰قوانین پارلیمنٹ میں نہایت رواروی میں اور بالعموم مفصل بحث کے بغیر بنائے گئے ہیں تو اس کے پانچ گنا زیادہ‘ یعنی تقریباً ۹۵ آرڈی ننسوں کے ذریعے نافذ کیے جن میں سے ایک چوتھائی ایسے ہیں جو پارلیمنٹ کے اجلاس سے ایک دو دن قبل یا ایک دو دن بعد قوم پر مسلط کیے گئے ہیں۔ نیز دو درجن کے قریب آرڈی ننس وہ ہیں جو سپریم کورٹ کے واضح انتباہ (strictures)  کے باوجودتین تین اور چار چار بار بطور آرڈی ننس ہی نافذ ہوئے ہیں۔ یہ سارے قوانین اب تک صرف صدارتی فرمان کی بنیاد پر چل رہے ہیں۔ پارلیمنٹ میں ان پر کبھی بحث نہیں ہوئی ہے اور غضب یہ ہے کہ ان کو آج تک باقاعدہ منظور نہیں کرایا گیا۔

ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ اب تک پاکستان میں اسلامی قانون کا نفاذ عام طور پر  آرڈی ننسوں کے ذریعے ہوتا رہا ہے‘ لیکن یہ بات اسلامی قانون سازی سے مخصوص نہیں تمام ہی قوانین کے بارے میں ہے۔ اسلامی قوانین تو آئے ہی کتنے ہیں؟ ضمناً یہ بھی عرض کر دوں کہ سینیٹ میں جو شریعت بل ۱۹۸۶ء میں متعارف کیا گیا تھا اس پر پورے دوسال بحث ہوئی‘ اسے پبلک کی راے کے لیے بھی مشتہر کیا گیا اور سینیٹ کی باقاعدہ قرارداد کے ذریعے یہ کام کیا گیا۔ غالباً ۱۹۸۵ء سے آج تک یہ واحد قانون ہے جس میں سینیٹ میں ہفتوں بحث ہوئی اور تین ماہ اسے پبلک میں مشتہرکیا گیا جس کے نتیجے میں سینیٹ کو ۱۴ ہزار سے زیادہ آرا موصول ہوئیں اور ۹۹ فی صد اس کے حق میں تھیں۔ تحفظ نسواں کے نام نہاد قانون پر پارلیمنٹ میں اور قومی سطح پر بحث کا جو credit موجودہ حکومت کو دیا جا رہا ہے اس پر ان کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے‘ کم ہے۔ البتہ یہ  نہ بھولیں کہ ارکان اسمبلی و سینیٹ سے جس دبائو کے تحت بازو مروڑ کر (arm twisting) یہ بل منظور کرایا گیا اور جس طرح خود سرکاری پارٹی کے ۴۶ ارکان نے اسمبلی میں راے شماری میں شرکت نہ کرکے اپنی مجبوری کا اظہار کیا وہ بھی اسی حکومت کا طرۂ امتیاز ہے!

ڈاکٹر صاحب کی یہ شکایت بے محل ہے کہ پارلیمنٹ کے بحث نہ کرنے کا الزام کونسل کو دیا جارہا ہے۔ کم از کم میری تحریر میں اس طرف کوئی اشارہ بھی نہیں۔ کونسل نے بلاشبہہ اپنا فرض‘ رپورٹ پیش کر کے ادا کردیا اور میری تنقید کا ہدف پارلیمنٹ اور وہ تمام حکومتیں ہیں جنھوں نے اپنے فرض کی انجام دہی سے کوتاہی کی ہے۔ یہ سوال خود میں نے سینیٹ میں ایک درجن سے زیادہ مواقع پر اٹھایا ہے۔ ایک بار اس پر تحریکِ استحقاق تک پیش کی ہے اور میری تحریک پر سینیٹ میں کونسل کی  کم از کم‘ دو رپورٹوں (معیشت اور تعلیم) پر قائمہ کمیٹی نے سینیٹر محمد علی خاں ہوتی کی صدارت میں غور کیا اور اپنی مطبوعہ رپورٹ سرکاری طور پر سینیٹ میں پیش کی لیکن یہ اُونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ تمام حکومتیں اس کوتاہی کی ذمہ دار ہیں بشمول موجودہ حکومت‘ البتہ میرا اشارہ اس طرف تھا کہ اگرکونسل کے ارکان کو کسی معاملے پر اپنے اضطراب کااظہارکرنا چاہیے تھا وہ ان کے کام کے دستوری تقاضوں کو پورا نہ کرنا ہے‘ نہ کہ ایک ایسے معاملے پر خفگی کا اظہار جو پارلیمانی مشاورت کے آداب کے مطابق ہے اور اس سے کونسل کا کوئی استحقاق مجروح نہیںہوتا۔ جہاں تک میرے رویے کا تعلق ہے تو موجودہ کونسل کی تشکیل کے بارے میں متعدد پارلیمانی پارٹیوں کے تحفظات کے باوجود‘ میں نے اور میرے ساتھیوں نے سینیٹ میں تحفظ نسواں بل کو اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجنے کی تجویز دی تھی جسے حکومتی پارٹی نے رد کردیا۔ اسے کونسل کے فاضل ارکان ان پر حکومت کے اعتماد کا اظہار سمجھتے ہیں یا بے اعتمادی کا‘ یہ صرف ان کا استحقاق ہے!

یہاں اگر یہ بات بھی ریکارڈ پر لے آئی جائے تو بے محل نہیں ہوگا کہ یہ بل جس کے بارے میں ملک کے علماے کرام کی عظیم اکثریت اور اہم قومی جماعتیں اس کی متعدد شقوں کے خلافِ اسلام ہونے پر یقین رکھتی ہیں‘ ہمارے علم کی حد تک آج تک باقاعدہ کونسل کو نہ غور کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے اور نہ کونسل نے اس پر باقاعدہ بحث کے بعد کوئی راے دی ہے۔ اس کی تصدیق صدر کونسل کے اس اخباری بیان سے بھی ہوتی ہے جو بل کے منظور ہونے کے بعد انھوں نے دیا تھا اور اس استعفا سے بھی جو ایک فاضل رکن نے دیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود جنرل پرویز مشرف نے بار بار اعلان کیا ہے کہ کونسل نے اس کو اسلام کے مطابق قرار دیا ہے اور ۲۰ رکنی کونسل جس میں اس وقت استعفا دینے والے ارکان سمیت صرف ۱۲ رکن ہیں‘ کے غالباً چھے سات ارکان بشمول ایک استعفا دینے والے رکن نے صدر سے مل کر اس تاثر کو کچھ وزن دینے کی خدمت بھی انجام دی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہی ہے کہ اب تک باقاعدہ کونسل نے اس کے بارے میں کوئی راے نہیں دی بلکہ کونسل کی ویب سائٹ کے مطابق دو ارکان نے ۲۲ نومبر ۲۰۰۶ء کو کونسل کی رکنیت سے استعفا دے دیا ہے اوراس کی وجہ ویب پر یہ درج ہے:

ہم نے اسلامی نظریاتی کونسل کو بطور احتجاج چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے کیونکہ وزیراعظم شوکت عزیز اور مسلم لیگ کے صدر چودھری شجاعت حسین نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا ہے اور تحفظ نسواں بل اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجے بغیر منظور کرلیا ہے۔

کیا کونسل کے چند ارکان نے جنرل صاحب کو کمک پہنچا کر اور کونسل کے اجلاس میں کسی فیصلے کے بغیر محض ذاتی آرا کی شکل میں کونسل کی راے کا تاثردے کر کونسل کی عزت میں اضافہ کیا ہے یا شعوری یا غیرشعوری طور پر وہ بھی اسی سیاست میں شریک ہوگئے ہیں جس کا حسبہ بل کے بارے میں وہ اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں اور اس طرح خود کونسل کے ان ارکان نے جو صدارتی دربار میں حاضری کے اعزاز سے نوازے گئے ’’دین کے نام پر دین میں سیاست کوٹ کوٹ کر‘‘ بھرے جانے کا ایک حقیقی نمونہ تو کہیں پیش نہیں کردیا؟

حسبہ بل کے سلسلے میں ڈاکٹر صاحب نے جو کچھ فرمایا ہے‘ اس کا انھیں حق ہے لیکن میرا سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ جس ’ماڈل بل‘ کی بنیاد پر سرحد کی اسمبلی نے اپنا بل بنایا تھا وہ اسلامی نظریاتی کونسل ہی کا تیار کردہ تھا۔ بعد کی کونسل اس پر نظرثانی کرسکتی ہے مگر دلیل کے ساتھ کہ پہلے جو مسودہ تجویز کیا گیا تھا وہ کیوں درست نہیں تھا اور اس کے لیے شرعی دلائل کیا ہیں؟ دستوری اعتراضات اس کے دائرۂ اختیار میں نہیں اور سپریم کورٹ نے جو راے دی تھی اسے بھی عدالت کا فیصلہ قرار نہیں دیا جاسکتا اور اس پر دستوری ماہرین کلام کرسکتے ہیں اور کر رہے ہیں۔

دستور کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ دستور کے تحت ہر ادارے (مقننہ‘ انتظامیہ اور عدلیہ) کا دائرۂ کار مقرر ہے اور ہر ایک کے لیے ضروری ہے کہ اپنے متعین دائرہ اختیار کی حدود میں کام کرے۔ قانون سازی مقننہ کا کام ہے اور عدلیہ کا کام قانون بننے کے بعد شروع ہوتا ہے اور وہ اس کے نفاذ اور دستور سے اس کی ہم آہنگی یا تصادم کے بارے میں حتمی راے دے سکتی ہے۔ لیکن قانون سازی کے عمل میں عدلیہ کا کوئی کردار نہیں۔ اگر دستور کی دفعہ ۱۸۶ کے تحت صدر اس سے کوئی راے لے تو وہ مشاورتی عمل ہوگا۔ عدلیہ کوئی قانونی حکم جاری نہیں کرسکتی۔ نیز عدالتی اور دستوری روایات اس کی گواہ ہیں کہ عدالت قانون سازی کے عمل میں بلاواسطہ یا بالواسطہ مداخلت سے اجتناب کرتی ہے۔ سابق چیف جسٹس اجمل میاں نے اپنی خودنوشت میں نوازشریف صاحب کے دور کے ایک واقعے کے پس منظر میں اس اصول کو ان الفاظ میں واضح کیا ہے جو ہمارے علم کی حد تک ساری دنیا میں تسلیم کیا جاتا ہے:

ہمارا دستور‘ مقننہ‘ انتظامیہ اور عدلیہ کے سہ گونہ اختیارات پر مبنی ہے۔ یہ ہر ایک کی حدود واضح طور پر بیان کرتا ہے۔ عدلیہ کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ مقننہ اور انتظامیہ کے افعال کا فیصلہ دے کہ یہ اسلامی دستور کے مطابق ہیں یا نہیں۔ اگر مقننہ کوئی ایسا قانون منظور کرتی ہے‘ یا صدر کوئی ایسا آرڈی ننس جاری کرتا ہے‘ جو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہو تو عدلیہ اس کو دستور کے خلاف قراردے کر ختم کرسکتی ہے… عدلیہ کو یہ اختیار اور یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ چیف جسٹس کمیٹی کے ذریعے کسی مجوزہ قانون کی مخالفت میں کسی احتجاج کا آغاز کرے‘ یا کوئی اخباری بیان جاری کرے‘ یا کوئی قرارداد    منظور کرے‘ اور اس طرح عوامی محاذآرائی پیدا کرے۔ عدلیہ سے توقع نہیں کی جاتی  کہ وہ کسی ایسے تنازعے میں اُلجھے جو اس کے سامنے فیصلے کے لیے لایا گیاہو۔      (A Judge Speaks Out‘ اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس‘ ۲۰۰۴ء‘ ص ۲۱۶-۲۱۷)

رہا قوانین کے اور خود دینی احکام کے غلط استعمال کا مسئلہ‘ تو بہرصورت حق حق ہی رہے گا اور حکم اپنی جگہ قائم رہے گا محض غلط استعمال کی وجہ سے حق اور قانون تبدیل نہیں ہوتے۔ غلط استعمال کو روکا جانا چاہیے۔ ورنہ کوئی اصول باقی رہے گا‘ نہ قانون اور ضابطہ۔

ہمیں یہ تو جان کر خوشی ہوئی کہ کونسل کی سابقہ رپورٹیں اب افادہ عام کے لیے شائع اور فراہم کی جارہی ہیں البتہ یہ بات بڑی نادر اور عجوبہ روزگار نوعیت کی ہے کہ ’’موجودہ کونسل نے یہ طریقہ کار طے کیا ہے کہ کونسل کے ماضی کے فیصلوں کو بھی موجودہ کونسل کی توثیق کے بعد ہی نقل‘ شائع یا جاری کیا جائے گا‘‘۔ کیا اب کونسل نے فی الحقیقت اپنے لیے ایک نوعیت کی ’ولایت فقیہ‘ کا کردار اختیار کرلیا ہے۔ سوال پیداہوتا ہے کہ موجودہ کونسل ماضی کی تمام کونسلوں پر حَکم بن کر ان کے فیصلوں اور تجاویز کی توثیق کی ذمہ داری کس دستوری یا شرعی استحقاق کی بنا پر اپنے لیے طے کر رہی ہے۔ ایک دور کے اہلِ علم کی آرا سے دوسرے دور کے علما اختلاف کرسکتے ہیں۔ عدالتوں میں فیصلوں میں اختلاف ہوتا ہے اور اعلیٰ عدالتیں ماتحت عدالتوں کے فیصلوں کو تبدیل بھی کرتی ہیں  حتیٰ کہ اپنے فیصلوں پر بھی نظرثانی کرسکتی ہیں لیکن یہ حق موجودہ کونسل کس بنیاد پر اپنے لیے حاصل کر رہی ہے کہ اس کی توثیق کے بغیر ماضی کی کونسلوں کے فیصلے نہ نقل کیے جاسکتے ہیں اور نہ شائع اور جاری کیے جاسکتے ہیں۔

آپ کو حق ہے کہ دوسروں پر ’دین کے نام پر سیاست‘ کی چوٹ جس فیاضی سے چاہیں کریں لیکن اپنی پیش رو کونسلوں کے فیصلوں اور سفارشات کی عصمت کو تو محفوظ رہنے دیں۔ ان کے فیصلوں اور سفارشات پر نظرثانی کا حق آپ کو کس نے دیا ہے۔ ان سے اختلاف آپ ضرور کریں لیکن ان کے فیصلے اور سفارشات قومی امانت اور دستوری سرمایہ ہیں۔ ان کو جیسی کہ وہ ہیں شائع ہونے دیں‘ پھر شوق سے جس پر چاہیں تنقید کریں اور جس پر چاہیں خط تنسیخ پھیر دیں لیکن نظرثانی کے بعد شائع کر کے جس سنسرشپ کا راستہ اختیار کیا جا رہا ہے‘ وہ کلیسا کی روایات کا حصہ تو ہوسکتا ہے اسلام کی روایت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ نیز آپ آزادی‘ جمہوریت اور ذرائع ابلاغ اور پارلیمنٹ میں بحث کے قدردانوں کے لیے جس طرح راے کے آزادانہ اظہار کے حق کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں دوسروں کی آرا کو ’نظرثانی‘ کے بغیر ’نقل‘ شائع اور ’جاری‘ کیے جانے کے حق کو تسلیم کرنا چاہیے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہر دور کی کونسلوں کو اہلِ علم اور عوام کی نگاہ میں قدر و منزلت کے اعتبار سے ایک ہی مقام حاصل نہیں رہا۔ ’روشن خیالی‘ کے اس دور میں کونسل کی آرا کو معروضی حقائق اور اُمت کے علمی سرمایے کی روشنی ہی میں پرکھا اور جانچا جائے گا اور اس سلسلے میں توقع ہے کہ خود کونسل اپنے دستوری مقام اور علمی دیانت کی امین اور محافظ ہوگی اور حکمرانوں کے اشارۂ چشم و ابرو کے مقابلے میں قرآن وسنت سے وفاداری کا تاریخی کردار ادا کرے گی۔ یہی ہماری دعا اور توقع ہے۔

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۱۵ نومبر ۲۰۰۶ء پاکستان کی تاریخ میں ایک سیاہ دن شمار کیا جائے گا۔ اس روزِ سیاہ ملک کی قومی اسمبلی نے اسلام اور شریعت اسلامی کے خلاف امریکی اور یورپی استعمار کی کھلی جنگ میں جنرل پرویز مشرف کے حکم اور دبائو کے تحت‘ ان کے ایک آلۂ کار کا کردار ادا کرتے ہوئے ’تحفظ نسواں‘ کے نام پر’انہدام حدود اللہ‘ کے ایک قانون کو پاکستانی عوام کے شدید احتجاج کے باوجود منظورکرلیا‘ اور اس طرح اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک میں کتابِ قانون سے ایک شرعی حد اور چند دوسرے اسلامی احکام کو خارج کرنے کا ’کارنامہ‘ انجام دے کر قرآن و سنت اور اُس دستورِ پاکستان کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی جس کا حلف اُٹھا کر یہ وجود میں آئی تھی۔ پھر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کھلے احکام کے خلاف اس بغاوت پر جنرل صاحب نے سارے دستوری‘ سیاسی اور اخلاقی آداب کو بالاے طاق رکھ کر اپنے ہم رکاب‘ آزادخیال‘ ترقی پسند اور اِباحیت پرست عناصر کو نہ صرف مبارک باد دی بلکہ ایک نئی صف بندی اور سیاسی جنگ کا اعلان بھی کردیا جس سے اس قانون کے اصل مقاصد اور اہداف کے بارے میں کوئی شک و شبہہ باقی نہیں رہا۔ یہ بل گویا نظریاتی اور تہذیبی جنگ کا عنوان ہے اور یہی وہ خاص پہلو ہے جسے ملک اور ملک کے باہر تمام آزاد خیال اور بش کے ہم نوا عناصر پیش کر رہے ہیں۔

دوسروں کو ’سیاست چمکانے‘ کا طعنہ دینے والے‘ خود اپنی اصل سیاست کا چہرہ حدود اللہ پر ضرب لگانے والے جرنیل کے ان الفاظ میں دیکھ سکتے ہیں:

معاشرے کے ترقی پسند اور اعتدال پسند عناصر کو‘ جو اکثریت میں ہیں‘ اُٹھ کھڑے ہونا چاہیے اور اپنی حقیقی قوت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اعتدال پسند اور ترقی پسند قوتیں غالب آئیں گی۔ بہت نازک وقت ہے۔ آپ کو بنیادپرست اور انتہاپسند طاقتوں کو مسترد کر دینا چاہیے۔ مجھے امید ہے کہ آپ ترقی پسند لوگوں کو منتخب کریں گے۔ (دی نیشن‘ ۱۶ نومبر ۲۰۰۶ئ)

واشنگٹن ٹائمز جنرل صاحب کو اس امریکی ایجنڈے کو آگے بڑھانے پر کھل کر داد دیتا ہے اور کہتا ہے کہ:

بدھ کو پاکستان کے ایوان زیریں نے جو قانون منظور کیا ہے وہ حقوق نسواں اور سیکولر قانون کے غلبے‘ دونوں کے لیے پیش رفت ہے۔ پوری مسلم دنیا میں اس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے۔ پاکستان کی ترقی میں مسلم دنیا کے دوسرے ممالک کے لیے بشمول ایران اور سعودی عرب جہاں حدود آرڈی ننس جیسے قوانین ہیں‘ غیرمعمولی اہمیت کا سبق ہے۔ (اداریہ، ’پاکستان میں خواتین کے حقوق‘، ۱۷ نومبر ۲۰۰۶ئ)

ٹونی بلیر اور امریکا کے وائٹ ہائوس کے ترجمان‘ دونوں نے اس بل کا خیرمقدم کیا ہے اور اپنی ھل من مزید روایت پرقائم رہتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ یہ ناکافی ہے‘ اور آگے بڑھو اور  تمام مبنی بردین قوانین سے نجات حاصل کرو!

جنرل صاحب کا سیکولر ایجنڈا تو پہلے دن سے سر اُٹھا رہا تھا مگر بار بار کی کوشش کے باوجود  وہ اس سمت میں کوئی بڑا قدم اٹھانے کی ہمت نہیں کر پارہے تھے جو مغرب کی ان سیکولر قوتوں کو  خوش کرے جو شرعی قوانین خصوصیت سے حدود‘ تحفظ ناموسِ رسالتؐ، ختم نبوتؐ اور پھر دینی تعلیم‘دینی مدارس اور اسلام کے تصورِ جہاد کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ بش کی دہشت پسندی کے خلاف نام نہاد جنگ نے جنرل صاحب کو اپنے قدم جمانے اور بیرونی سہاروں پر اپنے باوردی اقتدار کو مستحکم کرنے کا موقع دیا اور پھر وہ فیصلہ کن گھڑی آگئی جب بش اور مغربی اقوام نے ان کی وفاداری کے ثبوت کے لیے ان سے مطالبہ کیا کہ خود اپنی قوم کے نوجوانوں کو قتل کریں‘ جہاد کی  ہرشکل سے برأت کا اعلان کریں‘ خصوصیت سے کشمیر کی جدوجہد آزادی سے دست کش ہوں جسے پاکستانی عوام ہی نہیں پوری اُمت اسلامیہ ایک مبنی برحق جہاد سمجھتی ہے۔ اس سلسلے کا سب سے    بڑا مطالبہ یہ تھا کہ حدود قوانین کو کتابِ قانون سے ساقط کر کے اپنی روشن خیالی، مگر بالفاظ صحیح تر  ’بش خیالی‘ اور آزادروی کا ثبوت دیں___اور بالآخر ارکانِ پارلیمنٹ حتیٰ کہ ان کی اپنی پارٹی کی ایک معتدبہ تعداد (آخری راے شماری میں سرکاری پارٹی کے ۴۲ ارکان نے شرکت نہیں کی جن  سے جواب طلبی کی جارہی ہے) کے عدمِ تعاون کے باوجود جنرل صاحب نے پیپلزپارٹی سے       بے نظیرصاحبہ کے خصوصی حکم نامے کے تحت کمک حاصل کرکے صدربش کے ’اسلام کی اصلاح‘ (reforming Islam) کے کروسیڈ میں اپنا کردار ادا کیا۔ اس کے نتیجے میں ملک کا سیاسی منظرنامہ بھی متاثر ہوا۔ حزبِ مخالف نہ صرف بٹ گئی بلکہ جیساکہ بی بی سی کے مبصر نے کہا: حدود بل  مستقبل میں صدرمشرف اور پیپلز پارٹی کی ورکنگ ریلیشن شب کا سنگ بنیاد ثابت ہوگا‘‘، اور سیکولر دانش وروں اور صحافیوں کے گرو‘ امتیازعالم صاحب نے اسے اس طرح بیان کیا کہ:

درحقیقت اس بل نے سیاسی قوتوں کی نئی صف بندی کے امکانات کا راستہ کھول دیا ہے اور انتخابات سے پہلے آزاد رو بمقابلہ قدامت پسند قوتوں کی محاذآرائی کے لیے    فضا تیار کردی ہے۔ اس [مشرف] کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہوگا کہ   بے نظیر بھٹو کے ساتھ لبرل پلیٹ فارم سے ملاؤںکا مقابلہ کریں۔ (دی نیوز، ۲۱ نومبر ۲۰۰۶ئ)

حدود قوانین میں تبدیلی کے اقدام کا جائزہ خالص شرعی اور اعتقادی پہلوؤں کے ساتھ‘ آج کے اس ملکی اور بین الاقوامی سیاسی پس منظر میں لیا جانا ضروری ہے۔

عراق پر حملے اور حدود اللّٰہ پر حملے کے لیے

بش اور مشرف کی یکساں حکمت عملی

عراق پر صدربش کے جارحانہ حملے اور جنرل پرویزمشرف کی شرعی قوانین پر عیارانہ یلغار میں تین اہم مشترک عناصر ہیں اور استعماری اور آمرانہ قوتوں کی ذہنی ساخت (mind-set) اور جنگی حکمت عملی کو سمجھنے کے لیے ان کا ادراک ضروری ہے:

  • جہوٹا جواز اور غلط بیانی: صدربش اور ان کی پوری ٹیم نے صریح جھوٹ‘غلط بیانی اور حقائق کو مسخ کرکے جنگ کا جواز پیدا کیا۔ تباہ کن ہتھیاروں کا واویلا کرکے طبلِ جنگ بجایا اور عراق میں آگ اور خون کی ہولی شروع کردی۔ سیکولر اور لبرل قوتوں نے پاکستان کے دینی اور تہذیبی تشخص کو تہ و بالا کرنے کے لیے بھی حدود قوانین کے بارے میں صریح جھوٹ‘ غلط بیانی اور حقائق کو مسخ کرکے ان پر حملہ آور ہونے کا راستہ استوار کیا۔ بھرپور میڈیا ٹرائل کیا گیا اور صاف نظرآرہا ہے کہ تین صریح غلط بیانیاں (established lies) ہیں جن پر اس جنگ کی بنیاد ہے‘ یعنی:

ا : یہ قوانین ایک فردِواحد کے مسلط کردہ ہیں اور انھیں کوئی سیاسی حمایت حاصل نہیں۔

ب: یہ خواتین کے خلاف امتیازی سلوک پر مبنی ہیں۔

ج: زنا بالجبر (rape) کا نشانہ بننے والی خواتین کے لیے عینی گواہ لانا ضروری ہے ورنہ ان کو زنا بالرضا کے جرم میں دھر لیا جاتا ہے‘ مرد چھوٹ جاتا ہے اور عورت محبوس کر دی جاتی ہے۔

غلط بیانیاں تو اور بھی ہیں مگر ان تین باتوں کو اس تسلسل اور تکرار سے پھیلایا گیا ہے اور اس سلسلے میں حقائق کو اس طرح مسخ کیا گیا ہے کہ بش کے تباہ کن ہتھیاروں والے بڑے جھوٹ  (big lie) کے علاوہ اس کی کوئی دوسری نظیر حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ ہم ان تینوں کے بارے میں اصل حقائق پیش کریں گے تاکہ اس طائفے کی دیانت اور اس کے دعوئوں کے قابلِ اعتبار ہونے کی حقیقت سامنے آسکے۔ جس مقدمے کی بنیاد ہی جھوٹ اور غلط بیانی پر ہو‘ اس کا حشر بش کی عراقی مہم جوئی سے مختلف کیسے ہوسکتا ہے؟

  • ظاھری مقاصد اور حقیقی اھداف میں فرق: دوسری مماثلت کا تعلق اعلان شدہ مقاصد (declared objectives)اور حقیقی اہداف (real targets) میں نمایاں فرق بلکہ بُعدالمشرقین سے ہے۔ عراق کی جنگ کے لیے تباہ کن ہتھیاروں کی تلاش کے ساتھ جمہوریت کے فروغ کو مقصد بتایا گیا‘ جب کہ اصل مقصد عراق کے تیل کے ذخائر پر قبضہ‘ مشرق وسطیٰ کے سیاسی نقشے کی تبدیلی اور عراقی حکومت کو ختم کر کے اسرائیل کے لیے غیرمحدود مدت کے لیے تحفظ کا حصول تھا۔ اسی طرح حدود قوانین پر حملہ بظاہر عورتوں کے حقوق کی حفاظت اور قانون کے غلط استعمال کے دروازے بند کرنا ہے مگر فی الحقیقت یہ ملک کو سیکولر بنانے اور اس کی اسلامی شناخت  ختم کرنے کے امریکی اور لبرل عناصر کے ہمہ گیر منصوبے کا پہلا کلیدی اقدام ہے۔ اصل ایشو دین اور ریاست کے تعلق اور اجتماعی زندگی اور قانون سازی میں الہامی ہدایات اور دینی احکام کے  فیصلہ کن کردار کا ہے۔ حدود قوانین کی بحث میں مرکزی نکتہ ہے ہی یہ کہ اصل حاکم کون ہے؟ مغربی اقوام کو شریعت سے جو کد ہے‘ اس کی بنیاد بھی یہی ہے کہ اقدار اور اساسی قانون کا منبع انسانی تجربہ ہے یاالہامی ہدایت؟ انفرادی دین داری جسے صوفی اسلام کا نام دیا جارہا ہے‘ اس سے مغرب کے استعماری نظام کو کوئی خطرہ نہیں لیکن اسلام کا وہ تصور جو انسانی زندگی کے جملہ معاملات کے لیے بنیادی رہنمائی اللہ اور اس کے رسولؐ کی فراہم کردہ ہدایت سے حاصل کرتا ہے اور جس کے نتیجے میں اُمت مسلمہ ایک تاریخ ساز قوت بنتی ہے وہ ’سیاسی اسلام‘ (political Islam) بن جاتا ہے   اور جو بنیاد پرستی (fundamentalism) اور انتہاپسندی (extremism) قرار پاتی ہے۔ حدود قوانین توصرف پانچ ہیں جو مقاصد شریعت کے محافظ ہیں‘ ان سے خطرہ ہی یہ ہے کہ اس طرح شریعت رہنما قوت بنتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ حدود کا حقیقی نفاذ تو آج تک ہوا ہی نہیں لیکن یہ بھی گوارا نہیں کہ حدود کتابِ قانون کا حصہ ہوں کہ کہیں کل ان کا مکمل نفاذ نہ ہوجائے۔ نیز حدود پر حملہ مسلم اُمت کی اس صلاحیت کو آزمانے ( test) کے لیے ہے کہ یہ قرآن و سنت کے احکام میں تبدیلی کو کس حد تک برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اگر ایک حد کو پامال کیا جائے گا اور اسے برداشت کرلیا جائے گا تو پھر کل ایک ایک کر کے دوسری تمام حدود کو بھی پامال کرنے کی طرف پیش قدمی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ایک معمولی اقدام نہیں بلکہ اس کے دُور رس اثرات ناگزیر ہیں۔ یہ ایک نظریاتی‘ اخلاقی اور تہذیبی کش مکش کا عنوان ہے اور یہی وجہ ہے کہ مغربی اقوام کے چوٹی کے ماہرین حکمت عملی (strategists ) بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ اسلامی دنیا کو قابو میں کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ اسلام میں تبدیلی کی جائے۔ روشن خیال اور اعتدال پسند اسلام اور بنیاد پرست اور جہادی اسلام کی تفریق اس کا مظہر ہے۔ حدود قوانین پر تازہ حملہ عورتوں کے تحفظ کے لیے ایک اقدام  نہیں‘ مسلم معاشرے اور اُمت مسلمہ کو شریعت اور اسلامی اقدار کی بنیاد پر اجتماعی زندگی کا نقشہ  تعمیر کرنے کے عزائم سے روکنے کا پیش خیمہ ہے۔ یہ اسلام کی اصلاح بالفاظ دیگر مرمت کرنے (reforming Islam ) اور دنیا میں اسلام کو نئی شکل دینے (restructuring) کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔

  • حکمت عملی میں یکسانیت: معرکۂ عراق اور حدود پر یورش میں تیسری مماثلت اُس تکنیک میں ہے جس سے ان معرکوں کے لیے صف بندی کی گئی ہے۔ دستور‘ قانون‘ اخلاقی‘ سیاسی روایات سب کو بالاے طاق رکھ کر ایک فردِواحد کا قوت اور  جوڑ توڑ کے ذریعے  اپنے اہداف حاصل کرنے کے لیے دوسروں کو استعمال کرنا ہے۔ اقوامِ متحدہ کا چارٹر کسی ملک کو    یہ اختیار نہیں دیتا کہ دوسرے آزاد ممالک پر فوج کشی کرے لیکن عراق پر اقوام متحدہ کو نظرانداز کرکے بش نے اقدام کیا‘ اور یہاں جنرل پرویز مشرف نے اپنی وردی کے سہارے ارکان پارلیمنٹ کو طاقت کا ہر حربہ استعمال کر کے اپنا آلۂ کار بنایا۔ اپوزیشن کو تقسیم کرنے اور سرکاری پارٹی کو بلیک میل کرکے اپنے مقاصد حاصل کیے۔ پارٹی میں اختلاف کرنے والوں کا منہ بند کیا گیا اور ہر نوعیت کے دبائو کے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے۔ حدود قوانین کے ناقدین کے سرخیل امتیازعالم بھی اس کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں کہ:

حدود قوانین میں ترمیم کرنے کی کوششوں کو حکمراں پارٹی‘ مسلم لیگ (ق) اور ملاؤں کی طرف سے سخت مزاحمت پیش آئی ہے۔ صدرمشرف نے بازو مروڑ کر یہ ممکن بنایا کہ  مسلم لیگ (ق) سیلیکٹ کمیٹی کے بل کو آگے بڑھائے۔ (’حدود کی سیاست‘، دی نیوز، ۲۱ نومبر ۲۰۰۶ئ)

یہ وہی حربے ہیں جن سے بش نے اپنا نام نہاد  حلیفوں کا اتحاد بنایا۔ اسی طرح     جنرل مشرف نے حدود کے خلاف جنگ میں حلیفوں کو ساتھ لیا اور ملک کو ایک نظریاتی جنگ میں جھونک دیا۔

جہوٹ اور غلط بیانیاں

حدود قوانین کے خلاف مقدمہ سراسر جھوٹ اور غلط بیانیوں پر مبنی ہے جو اس پوری جدوجہد کوبدنیتی پر مبنی (malafide) ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔

حدود قوانین میں بھتری کے لیے ترامیم

ایک بات یہ کہی جارہی ہے کہ ہم قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں کرنا چاہتے اور حدود قوانین اور حدود میں فرق کرنا ضروری ہے۔ پھر بڑے دھڑلے سے کہا جاتا ہے کہ حدود قوانین انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں اور وہ مقدس نہیں‘ انھیں بدلاجاسکتا ہے۔ ان قوانین میں بہتری پیدا کرنے‘ عملی مشکلات کو دُور کرنے اور قانون کو اس کی اسپرٹ کے مطابق نافذ کیے جانے کے عمل کو مؤثر بنانے کے بارے میں ہر سوچ بچار جائز بلکہ ضروری ہے اور اس پر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ عملاً اس سلسلے میں کئی کوششیں ہوئی ہیں جن کا کوئی ذکر اس بحث میں نہیں کیا جاتا۔ اگر اسلامی نظریاتی کونسل کی کارروائیوں اور رپورٹوں کا مطالعہ کیا جائے تو ایک درجن سے زیادہ مواقع پر کونسل نے ان قوانین کو مؤثر بنانے کے لیے تجاویز پیش کی ہیں اور وزارتِ قانون سے ردوکد کی ہے مگر سیکولر ذہن رکھنے والی انتظامیہ کے ہاں کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔

حدِ زنا آرڈی ننس ۱۰ فروری ۱۹۷۹ء کو ملک میں جاری اور نافذ ہوا۔ اس قانون میں کم ازکم پانچ ترامیم گذشتہ ۲۷ برسوں میں ہوئی ہیں جواس کا ثبوت ہیں کہ حد میں نہیں البتہ حدود آرڈی ننس میں کسی اصلاح یا تبدیلی کی ضرورت ہے تو وہ کی گئی ہے اور کی جاسکتی ہے۔

  •   ۱۹۸۰ء میں آرڈی ننس کی دفعہ ۲۰ میں ترمیم کرتے ہوئے طے کیاگیا کہ اس آرڈی ننس کے تحت کسی بھی مقدمے کی سماعت سیشن کورٹ میں ہوگی اور ضابطہ فوجداری کی دفعہ ۳۰ کے تحت بااختیار مجسٹریٹ کی عدالت میں نہیں ہوگی۔
  •  ۱۹۹۷ء میں آرڈی ننس کی دفعہ ۱۵ کی ذیلی دفعہ (۳) میں ترمیم کرتے ہوئے زنابالجبر کے جرم میں کم از کم چار سال قید کی سزا کی حد مقرر کی گئی۔
  • اسی طرح ۱۹۹۷ء میں ذیلی دفعہ (۴) کا اضافہ ہوا اور گینگ ریپ کی صورت میں ہرملزم کے لیے موت کی سزا مقرر کی گئی۔
  • تعزیر کی صورت میں کوڑوں کی سزا کو ختم کیا گیا۔
  •  ۲۰۰۴ء میں ضابطہ فوجداری میں دفعہ ۱۵۶ کا اضافہ کیا جس کے مطابق زنا بالرضا کے مقدمات میں مقدمے کی تفتیش کے لیے ایس پی سے کم درجے کا کوئی پولیس افسر تفتیش نہ کرسکے گا‘ نیز عدالت کی پیشگی اجازت کے بغیر ملزم گرفتار بھی نہیں کیا جائے گا۔

اس سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ طریق کار کے (procedural) معاملات میں اصلاح کا دروازہ کھلا ہوا ہے اور آیندہ بھی اس سلسلے میں تجربات کی روشنی میں تبدیلیاں کی جاسکتی ہیں البتہ ضابطے کی اصلاحات کے نام پر حدود کی تبدیلی یا ان کو غیرمؤثر بنادینا قابلِ برداشت نہیں۔

یہاں ضمناً حکومت کے منفی رویے کی عکاسی کے لیے ایک اور مثال بھی ریکارڈ پر لانا ضروری ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے ۱۹۸۹ء میں‘ زنا بالجبر کے سلسلے میں اپنے ایک فیصلے میں‘    زنا آرڈی ننس کی دفعات ۸ اور ۹ (۴) میں تین ترامیم کا فیصلہ دیا اور صدرمملکت سے گزارش کی کہ یکم فروری ۱۹۹۰ء تک مذکورہ دفعات میںترمیم کردیں ورنہ دستور کے تحت ’’مذکورہ بالا دفعات قابلِ نفاذ نہ ہوں گی اور شرعی قوانین پر عمل ہوگا‘‘۔ لیکن حکومت نے ترمیم کرنے کے بجاے سپریم کورٹ کی شریعہ بنچ میں اپیل کردی جس کا آج تک فیصلہ نہیں ہوا ہے‘ یعنی ۱۶ سال سے یہ ترامیم معلق ہیں۔

حدود قوانین میں ترمیم‘ بشرطیکہ وہ شریعت کے مطابق اور ان قوانین کے مقاصد کے حصول کے لیے ہو‘کوئی رکاوٹ نہیں۔ مخالفت ان ترامیم کے باب میں ہے جو حدود کو ختم یا غیرمؤثر کرنے کے لیے کی جائیں‘ جیساکہ حالیہ تحفظ نسواں قانون کے ذریعے کی جارہی ہیں۔

حدود قوانین‘ فردِ واحد کا اقدام

دوسری صریح غلط بیانی کا تعلق دن رات کے اس دعوے سے ہے کہ حدود قوانین جنرل ضیاء الحق کا ذاتی اقدام تھا جو سعودی عرب کے دبائو میں کیا گیا۔ جہاں تک ان کے نفاذ کے لیے صدارتی آرڈی ننس کے طریقے کو اختیار کیے جانے کا سوال ہے‘ وہ ایک حقیقت ہے لیکن اسی طرح کی ایک حقیقت ہے جیسی دوسرے سیکڑوں آرڈی ننس قوانین کی شکل میں ملک کی کتابِ قانون میں موجود ہے۔ جنرل ایوب سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک ہر فوجی حکمران نے سیکڑوں قوانین صدارتی فرمان کے ذریعے نافذ کیے ہیں اور پارلیمنٹ کی موجودگی میں بھی ۹۰ فی صد قانون سازی آرڈی ننسوں کے ذریعے ہو رہی ہے۔ اس پر اصولی تحفظات اپنی جگہ‘ لیکن صرف اسی ایک آرڈی ننس کو مطعون کرنا قرین انصاف نہیں۔

جہاں تک حدود قوانین کا تعلق ہے‘ ان کی حیثیت بہت مختلف ہے۔ یہ قوانین کسی انسان کے بنائے ہوئے نہیں بلکہ قرآن وسنت کے طے کردہ ہیں اور ان پر اُمت مسلمہ کی پوری تاریخ میں عمل ہوتا رہا ہے۔ دوررسالت مآبؐ سے لے کر مغربی استعمار کے قبضے تک یہ مسلمان ممالک میں جاری وساری تھے۔ مولانا مناظراحسن گیلانی مسلمان بادشاہوں پر تنقید کے ساتھ اس حقیقت کو بھی نمایاں کرتے ہیں کہ:

حالانکہ اور کچھ ان بادشاہوں کے عہد میں تھا یا نہ تھا لیکن قانون جہاں تک میں جانتا ہوں‘ ہر زمانے میں‘ مسلمانوں کی کسی حکومت کا کسی ملک میں‘ کوئی قانون اسلام کے سوا نافذ نہ رہا… مسلمانوں کے ہاتھ میں دنیا کی سیاست کی باگ ڈور جب تک رہی‘ اسلامی قانون کے ساتھ اس کی وفاداری مسلسل رہی۔ (مناظراحسن گیلانی‘ مقالاتِ احسانی‘ ص ۶۲-۶۳)

سلاطین دہلی کے نظامِ حکومت کی عمومی کیفیت مولانا سعیداحمداکبرآبادی یوں بیان کرتے ہیں:

مسلمان بادشاہوں کی یہ خصوصیت رہی کہ ان میں جو بادشاہ متقی اور پرہیزگار تھے‘ وہ تو خیر اسلامی شعائر و حدود کا احترام کرتے ہی تھے‘ ان کے علاوہ جو سلاطین عشرت پسند اور لذت کوش ہوتے (باستثنا معدودے چند) وہ بھی اسلامی احکام کا احترام ملحوظ رکھنے میں کسی سے کم نہ تھے‘ نیز عدالتوں کے فیصلے قرآن و حدیث کی روشنی میں ہوتے تھے۔ (سعیداحمد اکبرآبادی‘ مسلمانوں کا عروج و زوال‘ ص ۳۶۵)

ہندستان میں اسلام کا قانون فوجداری صدیوں نافذ رہا۔ یہ کوئی آج کا عجوبہ نہیں۔ہندو مؤرخ وی ڈی مہاجن لکھتا ہے:

جرائم کی تین قسمیں تھیں‘ یعنی خدا کے خلاف جرائم‘ ریاست کے خلاف جرائم اور افراد کے خلاف جرائم۔ سزائوں کی چار قسمیں یہ تھیں: حد‘ تعزیر‘ قصاص‘ تشہیر۔ قرآن وہ بنیاد تھی جس پر قوانین مبنی تھے۔ اکبر تک نے فوجداری جرائم کے معاملات میں مداخلت نہیں کی جو اسلامی قانون تھا۔ (دی مسلم رول اِن انڈیا، ص ۲۰۷)

ایک اور ہندو مؤرخ آر سی ماجومدار لکھتا ہے:

اسلامی فوجداری قوانین اور سزائیں پورے مغل دور میں نافذ رہیں‘ حتیٰ کہ اکبر نے بھی فوجداری قانون میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں کی۔ (دی ہسٹری اینڈ کلچر آف دی انڈین پـیپل‘ دی مغل ایمپائر، ممبئی‘ ۱۹۷۴ئ‘ ص ۵۴۴)

حدود کے نفاذ کا قانون کسی خلا میں نہیں بنایا گیا۔٭ ایک طویل تاریخی روایت کا تسلسل ہے اور اس کی جمہوری اساس مسلمانوں کے عقیدے اور ایمان پر ہے‘ کسی ووٹ پر نہیں۔ قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں اسلامی قانون کے نفاذ کا دعویٰ بار بار ہوا اور خود قائداعظمؒ نے نصف درجن سے زیادہ مواقع پر شریعت اور اسلامی قوانین کے نفاذ کا ذکر کیا ہے۔پھر تحریک نظام مصطفیؐ کا مرکزی مطالبہ اسلامی شریعت کا نفاذ تھا جس کا آغاز خود جناب ذوالفقار علی بھٹو نے امتناع شراب کے آرڈی ننس سے کیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے حدود قوانین اسی کا تسلسل تھے۔

یہ بھی کہنا غلط ہے کہ جنرل ضیا الحق نے سعودی قانون کا چربہ یہاں نافذ کیا۔ سعودی عرب میں اس سلسلے میں کوئی باضابطہ قانون (legislation) نہیں ہے۔ وہاں ججوں کے بنائے ہوئے قانون (Judge made law)کا نظام نافذ ہے جو قرآن و سنت سے براہِ راست استفادہ کرکے قانون نافذ کرتے ہیں۔ نیز جو قوانین جنرل ضیاء الحق کے دور میں مرتب ہوئے وہ      اس وقت کی اسلامی نظریاتی کونسل کے تیارکردہ مسودے پر مبنی تھے۔ جس کونسل نے یہ مرتب کیے اس میں جسٹس محمد افضل چیمہ‘ جناب خالداسحاق‘ مولانا محمد یوسف بنوری‘ خواجہ فخرالدین سیالوی‘    مفتی سیاح الدین کاکاخیل‘ مفتی محمد حسین نعیمی‘ مولانا محمد تقی عثمانی‘ مولانا ظفراحمد انصاری‘     جناب جعفرحسین صاحب مجتہد‘ مولانا محمد حنیف ندوی اور ڈاکٹر ضیاء الدین احمد‘ علامہ سید محمد رضی‘ مولانا شمس الحق افغانی اور ڈاکٹرمسز خاور خان چشتی۔ (اسلامی نظریاتی کونسل‘ سید افضل حیدر‘ دوست پبلی کیشنز‘ اسلام آباد‘ ۲۰۰۶ئ‘ ص ۷۶۵)

اس قانون کی تسوید میں کسی سعودی عالم کا کوئی کردار نہیں تھا۔ جن تین عالمی شہرت کے ماہرین قانون نے مدد کی وہ ڈاکٹر معروف دوالیبی سابق وزیراعظم شام‘ ڈاکٹر مصطفی احمد زرقا‘ پروفیسر قانون جامعہ شام‘ اور ڈاکٹر حسن ترابی سابق اٹارنی جنرل سوڈان تھے۔ ڈاکٹر معروف اور ڈاکٹر حسن ترابی فرانس کی سوبورن یونی ورسٹی سے قانون میں پی ایچ ڈی کی سند رکھتے تھے اور   یونی ورسٹی پروفیسر کی خدمات انجام دے چکے تھے۔ جس کابینہ نے اس کی سفارش کی اس میں جناب اے کے بروہی‘ جناب شریف الدین پیرزادہ‘ جناب غلام اسحاق خان‘ جناب محمدعلی خان ہوتی‘ جناب چودھری ظہورالٰہی‘ جناب خواجہ محمد صفدر‘ جناب محمد خاں جونیجو تھے اوراس قانون کو  مسلم لیگ‘ جمعیت علماے پاکستان‘ جمعیت علماے اسلام‘ جماعت اسلامی اور نواب زادہ نصراللہ کی  پی ڈی پی کی حمایت حاصل تھی۔ بلاشبہہ اس وقت پارلیمنٹ نہیں تھی مگر تین سیاسی جماعتوں کے سوا پوری قوم نے اس کی تائید کی تھی۔ انھیں محض ایک شخص کی اختراع کہنا حقائق کی صحیح ترجمانی نہیں۔

خواتین پر مظالم میں اضافہ

تیسری بڑی غلط بیانی یہ ہے کہ قانون کے بننے کے بعد عورتوں پر مظالم میں اضافہ ہوگیا ہے‘ ان کے خلاف امتیازی سلوک کیا جارہا ہے‘ جیلیں عورتوں سے بھردی گئی ہیں‘ زنابالجبر کے مقدمات میں شہادت نہ ہونے پر زنابالرضا میں عورتوں کو دھرلیا جاتا ہے‘ عورتوں کو بے دریغ سزائیں دی جارہی ہیں‘ اور یہ کہ زنا کے سلسلے میں عورت کی گواہی قبول نہیں کی جاتی وغیرہ وغیرہ۔  یہ ایک ناخوش گوار حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں دوسرے مظلوم طبقات کی طرح عورت ہی ناروا سلوک اور ظلم کا شکار ہے اور اس کی بڑی وجہ جاگیردارانہ نظام‘ بااثر طبقات کا قانون سے بالاہونا‘ ہرسطح پر کرپشن‘ پولیس اور عدالت کے نظام کی خرابیاں اور قانون کے احترام کی روایت کا فقدان ہے۔ اس کا تعلق محض حدود قوانین سے نہیں اور ساری خرابیوں کو ان حدود قوانین سے    جوڑ دینا صریح ناانصافی ہے۔

پھر جو دعوے حدود قوانین کے سلسلے میں پورے دھڑلے سے کیے جاتے ہیں‘ وہ ذہنی اختراع سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ ہم صرف چند کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہ دعویٰ کہ ہزاروں خواتین ان قوانین کی وجہ سے جیلوں میں ہیں‘ حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ وومن ایڈ ٹرسٹ کے ایک جائزے کے مطابق جو ستمبر۲۰۰۳ء میں ملک کے تین جیلوں کے کوائف پر مبنی ہے‘ صورت حال یہ سامنے آتی ہے: اڈیالہ جیل راولپنڈی میں کل ۱۲۵ خواتین تھیں جن میں سے ۸ئ۲۴ فی صد حدود کے تحت تھیں۔ کوٹ لکھپت جیل لاہور میں یہ تناسب ۴۹ فی صد تھا جہاں کل تعداد ۹۷ تھی۔ کراچی سنٹرل جیل میں تعداد سب سے زیادہ تھی‘ یعنی ۲۸۰ اور حدود کے تحت مقدمات میں ماخوذ کا تناسب ۲۸ فی صد تھا۔ ان تین جیلوں میں حدود کے مقدمات میں ماخوذ خواتین کا تناسب اوسطاً ۳۱ فی صد تھا۔

حال ہی میں صدارتی آرڈی ننس کے تحت جن خواتین کو جیلوں سے رہا کیا گیا ہے ان کے جو اعدادوشمار اخبارات میں آئے‘ ان سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے کہ حدود قوانین کے تحت محبوس خواتین کا تناسب ایک تہائی سے کم تھا۔

اسی طرح حدود قوانین کے اجرا سے پہلے اور ان کے نفاذ کے بعد کے کوائف کا موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ زنا بالرضا کے جرم بننے کے باوجود‘ آبادی میں تناسب کے اعتبار سے کوئی نمایاں فرق نہیں پڑا۔ اگر پاکستان اور بھارت میں جنسی جرائم کے اعداد وشمار کا موازنہ کیا جائے تو پانچ سال میں (۱۹۹۱ء تا ۱۹۹۵ئ) بھارت میں جہاں حدود قوانین سے قبل ہی کا برطانوی قانون نافذ ہے‘ پاکستان کے مقابلے میں ۵۰۰ فی صد زیادہ اضافہ ہوا ہے‘ جب کہ بھارت میں صرف زنابالجبر جرم ہے‘ جب کہ پاکستان میں اس زمانے میں زنابالجبر اور زنابالرضا دونوں جرم تھے:

   ۱۹۹۱ئ  ۱۹۹۵ئ  اضافہ

ہندستان میں زنا بالجبر            ۹۷۹۳     ۱۳۷۹۵   ۴ئ۴۰

پاکستان زنابالجبر+ بالرضا     ۱۴۸۲     ۱۶۰۶     ۷ئ۷

(ملاحظہ ہو شہزاد اقبال شام کا مقالہ’ارتکاب زنا (نفاذ آرڈی ننس ۱۹۷۹ئ) نفاذ کے    ۲۵ سال___ ایک مطالعہ‘۔ انھی کی مرتب کردہ کتاب پاکستان میں حدود قوانین‘ مطبوعہ شریعۃ اکیڈمی‘ اسلامی یونی ورسٹی‘ اسلام آباد‘ ص ۸۹)

پاکستان میں زنا اور زنا بالجبر کے واقعات میں جو اضافہ ہوا ہے‘ اگر آبادی میں اضافے کے تناظر میں دیکھا جائے تو کسی اعتبار سے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ حدود قوانین کے بعد جیلیں عورتوں سے بھر دی گئی ہیں۔ زنا بالجبرکے جو واقعات رپورٹ ہوئے‘ وہ ۱۹۴۹ء میں ۵۲۱ تھے‘ ۱۹۸۰ء میں ۷۳۹ ہوچکے تھے۔ ان قوانین کے نفاذ کے بعد ۱۹۸۱ء میں یہ تعداد ۱۱۰۱ تھی جو ۲۰۰۴ء میں ۲۳۶۵ ہوگئی۔ آبادی کے تناسب سے ایک لاکھ میں ۰ئ۱ اور ۶ئ۱ کے درمیان رہی۔ مسلم معاشرے میں یہ بھی بہت شرم ناک اور افسوس ناک ہے۔ سعودی عرب میں جہاں حدود قوانین کو ٹھیک ٹھیک نافذ کیا گیا ہے جرائم میں غیرمعمولی کمی واقع ہوئی اور آج بھی یونیسکو کی رپورٹوں کے مطابق  سعودی عرب میں جرائم کا تناسب دنیا میں سب سے کم ہے‘ جب کہ بھارت اور مغربی ممالک میں جہاں کوئی حدود قوانین موجود نہیں‘ زنا بالجبر نے سوسائٹی کی چولیں ہلا رکھی ہیں۔ بھارت کے   نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی رپورٹ کے مطابق جسے پارلیمنٹ میں جولائی ۲۰۰۶ء میں پیش کیا جانا تھا‘ ہرآدھے گھنٹے میں ایک عورت کی جبری عصمت دری کی جاتی ہے اور ہر ۷۵ منٹ پر ایک کو  قتل کیا جاتا ہے۔ نیز صرف ۲۰۰۴ء میں ۲۰۰۳ء کے مقابلے میں ملک کے ۳۵ بڑے شہروں میں   جبری عصمت دری میں ۳۰ فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔ (رائٹر کی رپورٹ‘ یکم جون ۲۰۰۶ئ)

برطانیہ میں برٹش کرائم سروے کے مطابق ۰۵-۲۰۰۴ء میں ۱۶ سال کی عمر سے بڑی خواتین میں سے ۲۳ فی صد نے اعتراف کیا کہ ان کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ایک سال میں عورتوں کی کُل آبادی کے ۳ فی صد نے اعتراف کیا کہ اس سال ان کی عصمت دری کی گئی ہے۔ پاکستان میں جنسی جرائم کا تناسب ایک لاکھ کی آبادی میں ۶ئ۱ ہے‘ جب کہ انگلستان میں یہ ۳ فی صد‘ یعنی ایک لاکھ میں ۳۰۰۰ بنتا ہے۔ امریکا میں ۱۹۸۶ء سے ۲۰۰۵ء تک اوسطاً ہرسال ایک لاکھ خواتین جبری عصمت دری کا نشانہ بن رہی ہیں‘ جسے وہاں forceable rape کہا گیا ہے۔  (بحوالہ سرکاری رپورٹ Crime in the United States 2005)۔ یہ دعویٰ کہ حدود قوانین کی وجہ سے پاکستان میں جرائم میں اضافہ ہوا ہے اور جیلیں عورتوں سے بھردی گئی ہیں‘ سرتاسر اتہام اور غلط بیانی پر مبنی ہے۔

پھر یہ دعویٰ بھی ایک سفید جھوٹ ہے کہ کسی ایسی خاتون کو جو زنا بالجبر کا نشانہ بنی ہواور الزام ثابت نہ ہونے کی صورت میں اسے زنا بالرضا کے جرم میں سزا دی گئی ہے۔ شریعت کورٹ کے ججوں اور قانونی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ایسا ایک واقعہ بھی وجود پذیر نہیں ہوا۔ امریکی محقق پروفیسر چارلس کینیڈی نے پاکستان میں حدود قوانین کے نفاذ پر جو تحقیق کی ہے اس میں پانچ سال کے تمام واقعات اورمقدمات کا تجزیہ کرکے وہ جس نتیجے پر پہنچا ہے وہ جنرل پرویز مشرف اور ان کے   روشن خیال کذب فروشوں کے لیے ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ان کے جھوٹے دعوے کی حقیقت دیکھی جاسکتی ہے چارلس کینیڈی اپنے مضمون Implementation of the Hudood Ordinance میں‘ جو اولاً امریکی جریدے Asian Survey میں شائع ہوا تھا اور پھر اس کی کتاب Islamization of Laws and  Economy (مطبوعہ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز‘ اسلام آباد‘ ۱۹۹۶ئ) میں‘ لکھتا ہے:

شاید حدود آرڈی ننس کا سب سے زیادہ اہم پہلو اس قانون کا خواتین کے حقوق پر مبینہ اثر ہے۔ کئی حالیہ مطالعوں میں یہ کہا گیا ہے کہ ضیاء کا نظامِ مصطفیؐ اور خاص طور پر حدود آرڈی ننس خواتین سے امتیازی سلوک کرتے ہیں۔ اسلامیانے کے عمل کے خواتین کے مقام پر جو اثرات ہوئے ہیں‘ اس کا جائزہ لینا اس مضمون کے دائرے سے باہر ہے۔ ہماری تحقیق حتمی طور پر ثابت کرتی ہے کہ حدود آرڈی ننس کے نفاذ کے محدود دائرے میں عورتوں کے خلاف کوئی واضح امتیازی رجحان نہیں ہے (دیکھیے: جدول ۳)۔ حقیقت اگر کچھ ہے تو وہ مردوں ہی کے خلاف تھوڑا بہت جنسی امتیاز ہے۔ حدود آرڈی ننس کے تحت ڈسٹرکٹ اور سیشن عدالتوں میں جو مجرم قرار دیے گئے ان کے ۸۴ فی صد مرد ہیں‘ اور جن کی سزائیں وفاقی شرعی عدالت میں برقرار رہیں ان میں ۹۰ فی صد مرد ہیں۔ سب سے زیادہ کھل کر سامنے آنے والی حقیقت تو زنا کی تعزیر کے حوالے سے یہ ہے کہ یہ جرائم کرنے میں کوئی جنسی تفریق نہیں ہے لیکن ڈسٹرکٹ اور سیشن کورٹ سے مجرم قرار پانے والوں کے ۵۶ فی صد اور وفاقی شرعی عدالت سے سزا پانے والوں میں ۹۰ فی صد مرد ہیں۔ ثانی الذکر تحقیق ویز (Weiss)  کے اس دعوے کی تردید کرتی ہے جسے عام طور سے مغربی اور پاکستانی پریس درست سمجھتا ہے کہ پاکستان میں زنا کی سزا مردوں کے مقابلے میں عورتوں کو زیادہ دی جارہی ہے۔ کسی کو حدود آرڈی ننس کی تنفیذ کے خلاف جائز شکایت ہوسکتی ہے۔ لیکن عورتوں کے خلاف جنسی امتیاز ان میں سے ایک نہیں۔(کتاب مذکورہ بالا‘ ص ۶۱-۶۲)

چارلس کینیڈی نے پہلے پانچ سال (۸۴-۱۹۸۰ئ) کے تمام مقدمات کا جائزہ لے کر اعداد و شمار سے اسے ثابت کیا ہے۔ زنا بالرضا کی دفعہ ۱۰ (۲) کے تحت ڈسٹرکٹ کورٹ میں ۱۴۵مردوں اور ۱۱۴ خواتین کو ملزم قرار دیا گیا لیکن وفاقی شرعی عدالت نے ۷۱ مردوں اور صرف ۳۰خواتین کو سزا دی۔ گویا ۲۵۹ میں سے ۱۵۸ کو رہا کر دیا اور ۱۰۱ کی سزا برقرار رکھی‘ جب کہ زنا بالجبر دفعہ ۱۰ (۳) کے ۱۶۵مقدمات میں جن میں سیشن کورٹ نے ۱۶۳ مردوں (یعنی ۹۹ فی صد) اور صرف ۲ خواتین (یعنی صرف ایک فی صد) کو سزا دی تھی لیکن وفاقی شرعی عدالت نے ان ۱۶۵مقدمات میں صرف ۵۹ مردوں کی زنابالجبر کی سزا باقی رکھی۔ دونوں خواتین کو رہا کردیا اور   ان مردوں کو بھی جن کے بارے میں شہادت محکم نہیں تھی۔ پانچ سال میں کل ۱۶۰ افراد کوان  دونوں جرائم میں سزا ہوئی اور وہ بھی تعزیری۔ (ملاحظہ ہو‘ کتاب مذکورہ‘ جدول ایک‘ دو اور تین‘ صفحات ۵۹-۶۳)

بعد کے اعداد و شمار اس تفصیل سے موجود نہیں لیکن بین الاقوامی یونی ورسٹی سے شائع شدہ کتاب پاکستان میں حدود قوانین حدود قوانین کے نفاذ کے ۲۵ سالہ جائزے میں ۲۰۰۳ء تک کے جو اعداد و شمار دیے گئے ہیں‘ وہ اس رجحان کی تائید کرتے ہیں۔ چارلس کینیڈی کے تحقیقی مقالے میں درج شدہ حاصل تحقیق کا خلاصہ اس حقائق کو سمجھنے میں مددگار ہوگا۔ چارلس کینیڈی  جس نتیجے پر پہنچا ہے وہ یہ ہے:

۱- حدود آرڈی ننس کے نفاذ کے نو سال بعد سب سے بڑانتیجہ یہ ظاہر ہوتا ہے: حدود آرڈی ننس کے نفاذ کا پاکستان کے فوجداری قانونی نظام پر نہایت معمولی اثر ہوا ہے۔ پاکستان اور مغرب دونوں جگہ عام خیال تھا کہ حدود کا نفاذ‘ (قطع ید اور رجم) پاکستان میں عام ہوجائیں گے۔ فروری ۱۹۸۸ء تک ملک میں حد کی کوئی سزا نہیں دی گئی ہے۔ حد کی صرف دو سزائوں کو (دونوں چوری کی) وفاقی شرعی عدالت نے برقرار رکھا ہے۔ یہ دونوں سزائیں سپریم کورٹ نے بعد میں ختم کردیں۔

۲- اسی طرح حدود آرڈی ننس کے نفاذ سے پاکستان میں عورت کی حیثیت پر کوئی مضرت رساں اثر نہیں ہوا ہے‘ جیساکہ اکثر الزام لگایا جاتا ہے۔

۳- حدود کے تحت انصاف فراہم کرنے کے عمل نے‘ زیادہ تر اعلیٰ عدالتوں پر بہت زیادہ بوجھ کی وجہ سے سول لا کے تحت طریق کار کے مقابلے میں‘ بہت کم وقت لیا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے قیام نے‘ جس کا فوجداری قانون کا نہایت محدود دائرہ ہے‘ طریق کار کو رواں کیا ہے۔

یہاں یہ اضافہ مفید ہوگا کہ چارلس کینیڈی کی تحقیق کے مطابق وفاقی شرعی عدالت میں ایک مقدمہ اوسطاً چار مہینے میں ہر مرحلہ طے کر کے فیصلے پر منتج ہوتا ہے‘ جب کہ عام عدالتوں میں   یہ مدت ۱۸ ماہ سے کئی کئی سال اور کچھ مقدمات میں ۱۵ اور ۲۰ سال پر پھیلی ہوئی ہے۔

۴- یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے (گو کہ اس کے لیے شہادت لانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے) کہ حدود کی سزائوں کا اندیشہ‘ متعلقہ جرائم کے ارتکاب کرنے میں ایک روک (deterrant) ثابت ہواہے۔

ان چار مثبت اثرات کے ساتھ چارلس کینیڈی کے اس تحقیقی جائزے سے تین منفی نتائج بھی سامنے آتے ہیں جو غورطلب ہیں:

۵- اس قانون کے نفاذ نے عدالتی اور سیاسی اداروں کے تعلقات میں کوئی واضح تبدیلی نہیں کی ہے‘ نہ اس نے پاکستان میں عدالتی طریق کار کو نمایاں طور پر تبدیل کیا ہے۔

اس کی بنیادی وجہ‘ جسے ہم آخر میں بتائیں گے ‘وہ دوغلا نظام ہے جوملک پر مسلط ہے‘   یعنی ایک چھوٹے سے دائرے میں شرعی قوانین اور پورا نظام دورِ استعمار کے تیار کردہ قانونی نظام اور ضابطہ فوجداری اور سول قانون کی گرفت میں!

منفی لحاظ سے دیکھا جائے تو حدود آرڈی ننس کے نفاذ نے خاندانی اور سماجی تنازعات میں ایک اضافی راستہ فراہم کیا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت میں اپیل کیے جانے والے مقدمات کے ۵۰ فی صد کا تبدیل ہونا یہ حقیقت سامنے لاتا ہے کہ عدالتوں میں بہت سے مقدمات اس لیے لائے جاتے ہیں کہ سوشل کنٹرول کو روبہ عمل لایا جاسکے۔ والدین‘ شوہروں اور سرپرستوں کو معمول کے مطابق سوشل کنٹرول کے جو طریقے مہیا ہیں‘ حدود آرڈی ننس کے آنے سے ان کو اضافی طور پر یہ اختیارات حاصل ہوئے ہیں کہ اپنے بچوں یا بیویوں کو حقیقی یا مخفی دھمکیاں دے سکیں۔

آخری نکتہ بھی پاکستان کے سماج اور سیاسی اور معاشرتی نظام اور مجموعی طور پر جو طبقاتی گروہی اور اشرافیہ کے اقتدار کا نظام ہے‘ اس کو سمجھنے اور اس کی اصلاح کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے‘ یعنی:

آخری بات یہ ہے کہ حدود آرڈی ننس کی زد میں غیرمتناسب طور پر پاکستان میں معاشی طور پر کم حیثیت طبقہ رہا ہے۔ متوسط طبقے یا اعلیٰ طبقے کے پاکستانی بہت کم اس کے تحت ملزم قرار دیے گئے ہیں۔ نہ یہ عدالتوں کا قصور ہے‘ نہ قانون کا بلکہ یہ پاکستانی معاشرے کی ساخت میں موجود عدم مساوات کا عکاس ہے۔

ہم نے ایک غیرمسلم مغربی محقق کے مطالعے اور حاصل مطالعہ کو اس لیے پیش کیا ہے کہ حدود قوانین پر جذباتی اور بیرونی پروپیگنڈے کے زیراثر کلام کرنے کے بجاے معروضی انداز میں غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ خرابی ان قوانین میں نہیں بلکہ:

                ۱-            اس سماجی‘ معاشی اور قانونی نظام میں ہے جو دور استعمار کے ورثے میں ہم پر مسلط ہے۔

                ۲-            ان بااثر طبقات کے ظلم وستم اور قانون کے غلط استعمال میں ہے جو عوام پر غلبہ پائے ہوئے ہیں۔

                ۳-            پولیس‘ زیریں عدالتوں اور مقدمے کے طریق کار کی خرابیوں کی وجہ سے ہے جن کی اصلاح کی طرف سے غفلت برتی جارہی ہے۔ واضح رہے کہ مقدمے کے طریق کار کا سارا قانون (procedural law) وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ اختیار سے دستوری قدغن کے ذریعے باہر کردیا گیا ہے اور اس باب میں وہ ’ٹک ٹک دیدم‘ دم نہ کشیدم‘ کی تصویر بن کر رہ گئی ہے۔

عورت کی گواھی

ایک اور غلط بیانی جو بڑے دھڑلے سے کی جارہی ہے‘ عورت کی گواہی کے بارے میں ہے‘ خصوصیت سے زنا بالجبر کے سلسلے میں۔ بلاشبہہ شریعت نے اس زنا کے سلسلے میں حد کے    نفاذ کے لیے قابلِ اعتماد مرد گواہوں کی شرط رکھی ہے اور اس کی بڑی مصلحتیں ہیں۔ لیکن جرمِ زنا‘ اقدامِ زنا‘ تشدد‘ اغوا براے زنا و قحبہ گری ان سب کے سلسلے میں تعزیر کے لیے عورت کی گواہی نہ صرف معتبر ہے بلکہ کچھ حالات میں جیساکہ علامہ ابن قیم نے لکھا ہے ضروری ہے اورمعتبر ترین ہے۔ یہی بات وفاقی شرعی عدالت نے اپنے واضح فیصلوں میں کہی ہے اور اس پر عمل کیا ہے۔ اس پر بھی بڑا واویلا ہے کہ زنا بالجبر کی نشانہ بننے والی عورت سے گواہوں کا مطالبہ ظلم ہے حالانکہ زنابالجبر ہی وہ صورت حال ہے جس میں عورت پر زیادتی کی صورت میں فطری طور پر وہ چیخ و پکار کرے گی اور اس طرح لوگ اس کی مدد کو آسکتے ہیں جو گواہ بن سکتے ہیں۔ لیکن یہ بات صریح جھوٹ ہے کہ مظلوم عورت کی اپنی گواہی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ عورت کی گواہی اس جرم کی صورت میں بڑی اہم اور مرکزی حیثیت کی حامل ہے اور اس کے ساتھ قرائنی شہادت مجرم کے جرم کے ثبوت کا ذریعہ بنتی ہے۔ دورِ رسالت مآبؐ اور دورِ خلافت راشدہ میں اس جرم کا نشانہ بننے والی خواتین کی گواہی پر سزا ہوئی ہے اور خود پاکستان میں وفاقی شرعی عدالت عورت کی گواہی پر زنابالجبر کے مجرموں کو سزا دی ہے۔

آج تک کسی خاتون کو کسی بھی عدالت میں محض اس بنا پر گواہی دینے سے نہیں روکا گیا کہ وہ عورت ہے۔ حدِ زنا کے ہر مقدمے میں لیڈی ڈاکٹر بطور گواہ عدالتوں میں پیش ہوتی ہیں اور ان کی گواہی کی بنا پر سزائیں بھی دی جاتی ہیں۔ ایسے مقدمات کی تعداد بے شمار ہے جن میں محض عورت کی اکیلی گواہی ہی پر سزائیں دی گئیں۔ اس کی صرف چند مثالیں ذیل میں پیش کی جارہی ہیں:

  • ایک مقدمے ’محمد علی بنام سرکار‘ میں ۸/۹ سال کی بچی سے زنا بالجبر کا ارتکاب کرنے والے ملزم کو عمرقید‘ ایک لاکھ روپے جرمانہ اور ۳۰ کوڑوں کی سزا صرف خواتین کی عینی گواہیوں کی بنیاد پر سنائی گئی۔
  • ایک اور مقدمے ’محمد اقبال عرف بالا بنام سرکار‘ میں زنا بالجبر کی شکار ۱۳ سالہ بچی اور اس کی ۱۰ سالہ سہیلی کی گواہی پر ملزم کو عمرقید کی سزا سنائی گئی۔
  • اسی طرح ایک اور مقدمے ’محمد نعیم بنام سرکار‘ میں چھٹی جماعت کی طالبہ کی گواہی پر تین ملزموں کو ۲۵‘۲۵ سال قیدبامشقت اور ۳۰‘۳۰ کوڑوں کی سزا سنائی گئی تھی۔
  • اسی طرح ’عبیدالرحمن بنام سرکار‘ میں ایک شخص نے اپنی ۱۳ سالہ بھانجی کے ساتھ زنا بالجبر کا ارتکاب کیا اور اس کی اکیلی گواہی پر ملزم کو ۲۵ سال قیدبامشقت اور محمود اسٹیڈیم رحیم یارخاں میں سرعام ۳۰ کوڑے مارنے کی سزا دی گئی۔

وفاقی شرعی عدالت نے اسی موضوع کو زیربحث لاتے ہوئے ایک مقدمہ ’رشیدہ پٹیل بنام وفاق پاکستان‘ میں درج ذیل خیالات کا اظہار کیا ہے:

ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اسلام اپنے منفرد معاشرتی نظام میں خواتین کو بار شہادت سے حتی الوسع بری الذمہ رکھنا چاہتا ہے… تاہم خصوصی حالات میں اگر کوئی واقعہ (بشمول حدود و قصاص) صرف ان کی موجودگی ہی میں درپیش ہو اور کوئی مرد موجود نہ ہو‘ یا ان کی تعداد ان کے بغیر مطلوبہ نصاب شہادت کے مطابق نہ ہو‘ یا وہ واقعہ اندرون خانہ ہی وقوع پذیر ہوا ہو‘ تو ایسی صورتوں میں ان کو شہادت سے روکنا‘ ان کی گواہی کو ناجائز سمجھتے رہنے پر اصرار کرنا اور ایسے مقدمات میں سرے سے ان کو ساقط الاعتبار ٹھیرانا قرآن مجید کے عمومی احکام سے مطابقت رکھتا ہے اور نہ اس کے مثالی نظام عدل سے‘ اور نہ اسوۂ حسنہ اور عہد خلافت راشدہ سے اس کی تائید کی جاسکتی ہے۔ خاص طور پر ان اداروں میں جہاں صرف خواتین کام کرتی ہیں یا رہایش پذیر ہوتی ہیں (مثلاً گرلز ہوسٹل‘ نرسنگ ہوم‘ویمن سنٹر وغیرہ)‘ یا ان اوقات میں جب ان کے مرد گھروں میں موجود نہ ہوں‘ اگر اس قسم کے جرائم کا ارتکاب ہو تو ایسی صورت میں اثباتِ جرم کا کیا طریقہ ہوگا؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ ایسے مقامات جہاںصرف خواتین ہی گواہ ہوں یا صرف غیرمسلم موجود ہوں‘ اس جرم کے ارتکاب کی شہادت دینے کون آئے؟ بہرحال ہمارے نزدیک مخصوص حالات میں خواتین کی گواہی حدود و قصاص سمیت سب معاملات میں لی جاسکتی ہے‘ البتہ ایسی شہادتوں پر حد کی سزا نہیں دی جائے گی اور صرف تعزیری سزا کے لیے انھیں قبول کیا جائے گا۔

ہمیں اس سے انکار نہیں کہ دوسرے تمام قوانین کی طرح حدود قوانین کو بھی پولیس اور مفادپرست طبقات نے‘ حتیٰ کہ کچھ حالات میں ظالم رشتہ داروں یا سابق شوہروں نے غلط استعمال کیا ہے‘ اور اس کی سب سے شرم ناک مثال حدود آرڈی ننس کی دفعہ ۱۶ کا غلط استعمال ہے جس میں عورت ملزم ہو ہی نہیں سکتی لیکن اس کے باوجود سیکڑوں خواتین کو اس دفعہ کے تحت گرفتار کیاگیا ہے‘ لیکن ان تمام زیادتیوں کا ازالہ حدود قوانین کو تبدیل کرنے سے نہیں‘ نظام کی اصلاح سے ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے بار بار اس طرف متوجہ کیا ہے مگر حکومت اور پارلیمنٹ کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ ہم وفاقی شرعی عدالت کے ایک فیصلے کا ایک حصہ نقل کرتے ہیں جس سے اندازہ ہوگا کہ خرابی کہاں ہے۔ غلام نبی کاٹھیو بنام سرکار ایک عبرت ناک منظر پیش کرتا ہے۔

ایک مقدمے میں ایک شخص نے حسن جونیجو ولد محرم جونیجو کے خلاف مقدمہ درج کروایا کہ اس نے اس کی بیٹی مسماۃ بے نظیر کے ساتھ زنا بالجبر کا ارتکاب کیا ہے۔ لیکن متعلقہ پولیس افسر نے مقامی زمیندار کے کہنے پر اصل ملزم کو گرفتارکرنے کے بجاے مقامی زمیندار کے ایک مخالف غلام نبی کاٹھیو ولد مہرو کاٹھیو کو نہ صرف گرفتار کیا بلکہ پورا مقدمہ اسی کے خلاف قائم کیا جس کے نتیجے میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے اسے ۱۰سال قید بامشقت اور ۲۵ ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ عدالت عالیہ نے اس مقدمے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:

ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ پولیس کا رویہ حیران کن اور متعلقہ جج کا رویہ اس سے بھی زیادہ حیران کن ہے۔ ایک سینئر جج جو سیشن جج کے مرتبے پر فائز ہے اور پورے حیدرآباد ڈویژن کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کا جج ہے ‘اس سے اس کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی جو اس نے کیا۔ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فاضل جج  جناب عبدالغفور حسین نے چالان کے مندرجات کو پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کی‘ ورنہ اس پر صورت حال واضح ہوجاتی۔ ملزم چونکہ غریب آدمی تھا اور وکیل کرنے کی استطاعت نہ رکھتا تھا‘ لہٰذا اس کے مقدمے کی سماعت بغیر وکیل کے ہوئی۔ وہ چونکہ غیرتعلیم یافتہ اور اَن پڑھ آدمی تھا‘ لہٰذا اپنا دفاع کرنے کے قابل نہ تھا۔ لہٰذا یہ عدالت کی ذمہ داری تھی کہ ایک ایسے شخص کو انصاف فراہم کرتی جو پولیس اور مقامی زمیندار کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہوا تھا۔

پولیس افسر سے جب اس بات کی وضاحت طلب کی گئی کہ اس نے حسن کے بجاے غلام نبی کو کیوں گرفتار کیا۔ اس نے کہا کہ حسن اصل میں غلام نبی کا بھائی تھا اور مدعی مقدمہ نے غلطی سے غلام نبی کے بجاے اس کے بھائی حسن کا نام لکھوا دیا۔ لیکن وہ یہ محسوس نہ کرسکا کہ جس فرد کا نام ایف آئی آر میں ہے وہ غلام نبی کا بھائی نہیں ہوسکتا کیونکہ حسن محرم کا بیٹا ہے اور اس کی ذات جونیجو ہے‘ جب کہ غلام نبی مہرو کا بیٹا ہے اور اس کی ذات کاٹھیو ہے۔ مختلف ذات اور مختلف ولدیت کے افراد آپس میں بھائی کیسے ہوسکتے ہیں۔ فیصلہ مکمل کرنے سے پہلے ہم کچھ سوالات اٹھانا چاہیں گے:

۱- آخر کب تک پولیس اور زمینداروں کے ہاتھوں اس ملک میں غریب اور معصوم ظلم کا شکار ہوتے رہیں گے؟

۲- آخر کب تک اصل مجرموں کو چھوڑا جاتا رہے گا اور بے گناہ لوگوں کو مقدمات کا سامنا کرناپڑے گا؟

۳- آخر کب تک یہ ناانصافیاں جاری رہیں گی اور قانونی طریق کار کو غلط طور پر استعمال کیا جاتا رہے گا؟

۴- آخر کب تک معصوم شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کی واضح پامالی ہوتی رہے گی؟

۵- آخر کب تک اس ملک کے معصوم‘ اَن پڑھ اور غریب شہری جوکہ اسی طرح انسان ہیں جس طرح دولت مند نام نہاد طاقت ور اور بڑے شہری ہیں‘ ان افراد اور حکام کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہوتے رہیں گے جن کی ذمہ داری ہے کہ ان کی زندگی آزادی‘ عزت‘ جایداد اور عقائد کی حفاظت کریں۔

عدلیہ‘ انتظامیہ‘ پولیس اور تمام متعلقہ لوگوں پر ان سوالوں کا جواب قرض ہے۔

نسواں بل میں قرآن و سنت کے خلاف ترامیم

ہمارے اس جائزے سے یہ حقیقت ثابت ہوجاتی ہے کہ اصل حدود قوانین پر تنقید  سرتاسر غلط اور بے محل ہے بلکہ یہ کذب‘ غلط بیانی اور بددیانتی پر مبنی ہے۔ البتہ جہاں اصلاح کی ضرورت ہے وہ حدود قوانین اور تمام قوانین کے نفاذ کے نظام: پولیس‘ انتظامی اور عدالتی مشینری‘ عوام اور سرکاری کارپردازوں کی تعلیم و تربیت اور ان کے نظامِ احتساب (accountablity) میں ہے۔ تحفظ نسواں کے نام پر ان اصل خرابیوں کی طرف توجہ دیے بغیر حدود قوانین میں ایسی تبدیلیاں کرنے کی شرم ناک جسارت کی جارہی ہے جو شریعت کے مسلمہ احکام کے خلاف ہیں اور قرآن و سنت کے نصوص اور ان کی اسپرٹ سے متصادم ہیں۔ ہم برادر عزیز و محترم مولانا محمد تقی عثمانی کا مقالہ اس شمارے میں شائع کر رہے ہیں جو اس کے مختلف پہلوؤں کو مسکت دلائل کے ساتھ واضح کردیتا ہے۔ ہم صرف اختصار کے ساتھ اتمامِ حجت کے لیے اس قانون کے ذریعے قرآن و سنت کے خلاف کی جانے والی ترامیم کا ذکر کر دیتے ہیں:

                ۱-            قرآن و سنت اور اجماع کی رُو سے زنا بالرضا کی طرح زنا بالجبر بھی حد ہے لیکن اس قانون کے ذریعے حدود قوانین کی دفعہ ۶ اور ۷ کو منسوخ کرکے زنا بالجبر کی حد کو ختم کیا جارہا ہے۔ حدود قوانین کی دفعہ ۴ اور ۵ جنھیں باقی رکھا گیا ہے‘ ان کا تعلق صرف زنابالرضا سے ہے اور زنا بالجبر ان کے دائرے سے باہر ہے۔ اور نئی دفعہ جو زنا بالجبر (rape) کے بارے میں ضابطہ فوجداری میں شامل کی جارہی ہے‘ اس میں حد کی   سزا نہیں ہے بلکہ دریدہ دہنی کی انتہا ہے کہ اس قانون کے مقاصد کی تشریح کرتے ہوئے دعویٰ کیا گیا ہے: ’’زنابالجبر کے جرم کے لیے حد نہیں ہے‘ اس کے لیے تعزیر ہے‘‘۔    یہ قرآن و سنت کے خلاف اتہام اور ایک جرمِ عظیم ہے اور اللہ سے بغاوت کے مترادف ہے۔

                ۲-            زنا بالرضا کو ضابطوں کی تبدیلی کے ذریعے ریاست اور معاشرے کے خلاف جرم (crime against state and society) کی جگہ جو اسلام کے تصورِ قانون کا حصہ ہے‘ صرف فرد کے خلاف جرم کی سطح پر لے آیا گیا ہے جو اسلام کے فلسفۂ قانون کی نفی ہے۔

                ۳-            حدود قوانین کی دفعہ ۳ کو منسوخ کر کے شرعی قوانین اور احکام کی دوسرے قوانین پر بالادستی کو ختم کردیا گیا ہے جو اسلام کے پورے نظامِ قانون پر ایک ضرب اور اس کی بے وقعتی کے مترادف ہے۔

                ۴-            اسلامی قانون میں حدوداور تعزیرات ایک جامع نظام کا حصہ ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ حدود قوانین میں متعلقہ تعزیری احکام بھی شامل کیے گئے تھے۔ ان تمام احکام کو حدود قوانین سے نکالنا اسلام کے نظامِ قانون پر ضرب اور اسلام سے انحراف ہے اور قانون کے  دوغلے نظام (dual system)کو جو ویسے بھی غلط ہے‘ ان جرائم پر بھی مسلط کرنا ہے جو حدود کے دائرے میں آتے ہیں۔ اس کے دو بڑے اہم نتائج ہوں گے: ایک یہ کہ یہ تمام جرائم وفاقی شرعی عدالت کے دائرے سے باہر ہوجائیں گے اور ہر کارروائی عام عدالتوں میں ہوگی اور دوسرے یہ کہ عام سیکولر قوانین‘ خصوصیت سے عائلی قوانین‘ جن کا گہرا تعلق ان حالات سے ہے‘ ان کو اپنے اپنے دائرے میں بالادستی حاصل ہوجائے گی اور شرعی قوانین کی ان پر بالادستی ختم ہوجائے گی۔ دستور کی دفعہ ۲۲۷ اس سلسلے میں بے کار ہے اس لیے کہ اس کے نتیجے میں کسی سیکولر قانون پر شرعی قانون کی بالادستی نافذ نہیں کی جاسکتی۔

                ۵-            حد کے معاملے میں کسی حکومت حتیٰ کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تخفیف یا معافی کا اختیار نہیں۔ اس نئے قانون کے نتیجے میں صوبائی اور مرکزی حکومت کو سزا میں تخفیف یا معافی کا اختیار مل جاتاہے جو قرآن و سنت کے احکام کے خلاف ہے۔

                ۶-            قذف کے قانون میں جو تبدیلیاں کی گئی ہیں‘ وہ بھی قرآن و سنت کے احکام کے خلاف ہیں۔

                ۷-            لعان کے بارے میں بھی شریعت کے احکام کو نظرانداز کردیا گیا ہے اور اسے صرف طلاق کا ایک سبب بنا دیا ہے‘ جب کہ شریعت کے مطابق قسم نہ کھانے کی صورت میں سزا اور اعتراف کی صورت میں حد کا اطلاق ہوتا ہے۔

یہ سات چیزیں مجوزہ قانون میں صراحتاً قرآن و سنت کے خلاف ہیں اور اگر ان کو پارلیمنٹ ملکی قانون کا درجہ دیتی ہے تو یہ قرآن وسنت سے بغاوت کے مترادف ہے۔

کہا جارہا ہے کہ کیا یہ اتنا اہم مسئلہ ہے کہ اس پر ملک گیر احتجاج کیاجائے اور اسمبلی سے مستعفی ہوجایا جائے۔ اللہ کی ایک حد کو قائم کرنا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ۴۰سالوں کی بارشوں سے بہتر ہے اور ایک حد کو جانتے بوجھتے پامال کرنا تمام حدود سے بغاوت کے مترادف ہے۔ قرآن پاک کی ایک آیت یا ایک حکم کا انکار پورے قرآن کے انکار کے مترادف ہے اور انسان کو اگر وہ جانتے بوجھتے اس جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو کفر اور ارتداد کی طرف لے جاتا ہے۔ اور اس بارے میں مداہنت پورے دین سے مداہنت قرار پائے گی۔ نیز یہ جرم اور بھی سنگین ہوجاتا ہے کہ اگر کسی ملک میں شرعی حدود کتابِ قانون کا حصہ نہیں ہیں تو یہ ایک کوتاہی اور نافرمانی ہے لیکن ایک مرتبہ کتابِ قانون کا حصہ بنانے کے بعد اسے خارج کرنا صریح انکار‘ بغاوت اوراحکام الٰہی پر ضرب لگانے کے مترادف ہے۔

ایک معمولی مثال سے اسے یوں سمجھیے کہ روزہ نہ رکھنا ایک گناہ اور کوتاہی ہے‘ مگر روزہ رکھ کر توڑ دینا ایک جرم ہے‘ اور اس کا کفارہ ہے (اور کفارہ بھی بہت سخت کہ مسلسل ۶۰ دن تک روزے رکھے جائیں) اور روزہ کو حکم الٰہی ماننے سے انکار کفر کا درجہ رکھتا ہے اور انسان کو ارتداد کی سرحدوں پر لے جاتا ہے۔ جنرل مشرف اور ان کے حواری اس قانون کے ذریعے جو کام کر رہے ہیں وہ   اللہ کے غضب کو دعوت دینے والا عمل ہے اور اُمت مسلمہ کے لیے کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔   اور اگر اس پر بھرپور احتجاج نہ کیا جائے‘ اس اقدام کو روکنے کے لیے مؤثر جدوجہد نہ کی جائے اور اگر یہ مسلط کردیا گیا ہے تو اسے بدلنے کے لیے ہرممکن اقدام نہ کیا جائے تو یہ اللہ اور اس کے  رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بے وفائی ہوگی جو اپنی دنیا اور آخرت خراب کرنے کا راستہ ہے    ؎

یہ گھڑی محشر کی ہے‘ تو عرصۂ محشر میں ہے

پیش کر غافل عمل‘ کوئی اگر دفتر میں ہے

 

(کتابچہ دستیاب ہے۔ قیمت: ۶ روپے‘ سیکڑے پر رعایت۔ منشورات‘ منصورہ‘ ملتان روڈ‘ لاہور)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

آزادی اور محکومی میں بنیادی فرق کسی خاص ہیئت اور نظام سے بھی کہیں زیادہ فیصلہ سازی کے اختیار اور اسلوب کا ہے۔ معاملہ فرد کا ہو یا قوم کا___ اگر بنیادی فیصلے اور پالیسیاں خوف‘ دبائو‘ بیرونی مداخلت یا بلیک میلنگ کے زیراثر مرتب کی جارہی ہوں تو ظاہری ملمع سازی جو بھی کی جائے‘ حقیقت میں یہ سب محکومی کی شکلیں ہیں اور فرد یا قوم کی آزادی پر خط تنسیخ پھیرنے کے مترادف ہیں۔ علامہ اقبال نے اسی حقیقت کو یوں بیان کیا تھا کہ    ؎

پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات

تو جھکا جب غیر کے آگے‘ نہ من تیرا نہ تن

جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے حادثے کے بعد جو قلابازیاں کھائی گئی ہیں‘ ان کے نتیجے میں ہماری خارجہ‘ عسکری اور داخلہ پالیسیاں امریکا کے اشارۂ چشم و ابرو کے مطابق تشکیل پا رہی ہیں اور یہ سلسلہ عالمی حالات میں جوہری تبدیلیوں کے باوجود ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر آج بھی جاری ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ آزادی جو ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو قائداعظم کی قیادت میں لڑی جانے والی سیاسی اور جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان کی آزاد اسلامی ریاست کے قیام کی صورت میں ملت اسلامیہ پاک و ہند نے حاصل کی تھی‘ وہ نئی محکومی کے سیاہ سایوں کی زد میں ہے۔ پاکستان ایک ایسی دلدل میں دھنس گیا ہے جس سے نکلنے کی کوئی راہ موجودہ قیادت کے ہوتے ہوئے‘ نظر نہیں آرہی۔

خود کو دھوکا دینے کے لیے جو بھی خوش بیانیاں کی جائیں‘ حقیقت یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی گردن اب امریکا اور مغربی اقوام کی گرفت میں اس طرح پھنسی ہوئی ہے کہ ہاتھ پائوں مارنے کے باوجود وہ فیصلہ کرنے کی آزادی سے محروم ہوچکے ہیں___ اور اس وقت ملک کو جو  سب سے بڑا خطرہ درپیش ہے‘ اس کی زد ہماری آزادی‘ قومی عزت و وقار اور اپنے حقیقی ملّی مفادات کے تحفظ کے اختیار اور صلاحیت پر ہے۔ قوم اب اس فیصلہ کن دوراہے پر کھڑی ہے جہاں ایک طرف آزادی کی بازیافت کا ہدف ہے تو دوسری طرف خوف اور بیرونی دبائو کے تحت امریکا کے نئے سامراجی جال میں امان (survival) کے نام پر دائمی محکومی کی ذلت کی زندگی۔ قوم کے سامنے ایک تاریخی لمحہ انتخاب ہے جسے انگریزی محاورے میں moment of truthکہتے ہیں۔ موجودہ قیادت تحریکِ پاکستان کے مقاصد اور اہداف سے بے وفائی کی راہ اختیار کرچکی ہے خواہ   یہ کسی نام نہاد مجبوری کی بناپر ہو یا مفادات اور مخصوص اغراض کے حصول کے لیے___ بات جو بھی ہو‘ قوم کے لیے اب اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں کہ اصل خطرات کا احساس کرے اور اپنی آزادی‘ ایمان اور عزت کے تحفظ کے لیے ایک فیصلہ کن جدوجہد کرے۔ حقائق پر اب کسی طرح ملمع سازی کارگر نہیں ہوسکتی۔

۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو حالات جیسے بھی تھے اور فوجی ڈرامے کے پیچھے جو عوامل اور جو کردار کارفرما تھے اس کی تفصیل سے قطع نظر (گو ایک دن اصلیت سے پردہ اُٹھے گا) ملک و قوم کی آزادی اور عزت و وقار کو سب سے بڑا دھچکا ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے سانحہ نیویارک و واشنگٹن کے بعد جنرل پرویز مشرف اور ان کے حواریوں کے امریکا کے آگے سرتسلیم خم کرنے اور پاکستان کو ان کی چراگاہ      بنا دینے کے اقدام سے لگا۔ اس واقعے کو اب پانچ سال گزر چکے ہیں اور اس زمانے میں وہ ایجنڈا‘ پروگرام اور اہداف کھل کر سامنے آگئے ہیں جن پر یہ قیادت عمل پیرا ہے۔ اس دور کے سب سے  اہم پہلو تین ہیں:

اوّلاً، قوم کی قسمت کا فیصلہ ایک فردِواحد کے ہاتھوں میں ہے جو کسی ادارے‘ کسی نظام اور کسی دستوری قانون کا پابند نہیں۔ محض فوج کے ادارے کی سربراہی کے بل بوتے پر اور فوجی ڈسپلن کا فائدہ اُٹھا کر بنیادی فیصلے اپنی ذاتی مرضی‘ خواہشات اور مجبوریوں کے تحت کر رہا ہے‘ اور عملاً   قیامِ پاکستان کے مقاصد اور ملت پاکستان کی تاریخی‘ نظریاتی‘ سیاسی اور تہذیبی عزائم کے برعکس اپنی خواہشات اور ترجیحات اور امریکا کے حکمرانوں کے احکام اور خواہشات کے مطابق کر رہا ہے۔ جب پارلیمنٹ نہیں تھی اس وقت بھی اور اب بھی جب بظاہر ایک پارلیمنٹ اور کابینہ ہے‘ فیصلہ سازی کا اختیار ایک فرد کو حاصل ہے۔ وہ کوئی لاگ لپیٹ رکھے بغیر برملا اعلان بھی کر رہا ہے کہ میں ہی اصل حکمران (man in command) ہوں اور باقی سب میری مرضی کے تابع ہیں۔ یہ وہ بنیادی مسئلہ ہے جس نے ملک و قوم کی آزادی کو معرضِ خطر میں ڈال دیا ہے۔

دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ گو جنرل پرویز مشرف کی طاقت کا اصل منبع فوج اور اس کا ڈسپلن ہے‘ اور یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ اس عرصے میں انھوں نے خود فوج کے اعلیٰ کمانڈ اسٹرکچر کو بھی اپنی ذاتی جاگیر (feifdom) کی شکل میں ڈھال لیا ہے جس کا اعتراف خود فوج کے وہ سابق جرنیل بھی کر رہے ہیں جو جنرل صاحب کے حامی رہے ہیں جس کی سب سے اہم مثال جنرل طلعت مسعود کا وہ بیان ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ فوج کی بالائی سطح پر جنرل صاحب نے اپنے یار دوستوں کو بھر لیا ہے اور وہ خود ایک father figure(باپ)کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ لیکن اس سے بھی زیادہ خطرے کی بات یہ ہے کہ خود جنرل پرویز مشرف ناین الیون سے لے کر  آج تک جو بھی فیصلے کر رہے ہیں وہ حقائق‘ معروضی دلائل اور پاکستان اور اُمت مسلمہ کے مفادات سے ہٹ کر خوف اور امریکی دبائو کے تحت کر رہے ہیں۔

یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ناین الیون کے بعد جو یوٹرن پاکستان کی پالیسیوں میں آیا اور جس نے وہ خشتِ اوّل ٹیڑھی رکھی جس کے نتیجے میں ’تا ثریا می رود دیوار کج‘ کی کیفیت پیدا ہوتی ہے‘ وہ امریکی دھمکی کہ ’تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے مخالف ہو‘ اور ہمارے ساتھ کے معنی ہمارے حکم کے تابع ہو ورنہ باغی اور دہشت گرد شمار کیے جائو گے اور ’پتھرکے دور کی طرف لوٹائے جائو گے‘ کا نتیجہ تھی۔ کسی خیالی وار گیمز (war games)کا جو بھی فسانہ جنرل صاحب نے اپنی خودنوشت میں کیوں نہ تراشا ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ فیصلہ پاکستانی قوم کا آزاد فیصلہ نہ تھا بلکہ  ایک خوف زدہ حکمران کا واحد سوپرپاور کی دھمکی کے تحت ایک محکومانہ تعمیل ارشاد کا منظر تھا جس نے جارج بش‘ کولن پاول ہی نہیں‘ پاکستان میں امریکی سفیر نینسی پاول تک کو ششدر کر ڈالا تھا‘ اور جو کچھ نہ کچھ مزاحمت کی توقع رکھتے تھے کہ شاید سات میں سے تین چار شرائط کو پاکستان تسلیم کرے مگر باقی پر ردوکد کرے گا۔ وہ حیرت میں پڑ گئے کہ ایک ہی سانس میں ساتوں شرائط تسلیم کر کے   جنرل صاحب نے طوقِ غلامی خوشی خوشی زیب تن کرلیا اور قوم کو خوش خبری سنائی کہ ’پاکستان بچ گیا‘ لیکن اس ’بچنے‘ کی کیا شکل بنی اس کا مختصر نقشہ ہم ابھی پیش کریں گے۔ اس وقت جس بنیادی بات تک گفتگو کو محدود رکھ رہے ہیں وہ آزادانہ فیصلے کا فقدان‘ اور خوف‘ دبائو اور بیرونی مداخلت کے خطرے کے تحت پالیسی کی بنیادی تبدیلی ہے۔

تیسری بنیادی چیز یہ ہے کہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ دراصل امریکا کی نئی سامراجی حکمت عملی کا عنوان ہے اور اس کا مقصد نام نہاد دہشت گردی کا تعاقب نہیں‘ نئی سامراجی ملک گیری‘ عالمی سیکورٹی زونز کا قیام‘ شرق اوسط اور وسطی ایشیا کے معاشی وسائل پر تسلط اور گرفت‘ دنیا بھر کی مزاحم قوتوں اور ممالک کو اپنے قابو میں کرنا‘ خواہ تبدیلی قیادت کے ذریعے‘ یا جمہوریت کے فروغ کے نام پر سیاسی تبدیلیوںکے سہارے اور خواہ پیشگی حملے (pre-emptive strike) پر عمل پیرا ہوتے ہوئے فوج کشی کے ذریعے۔ بہانہ جو بھی ہو یہ جوع الارض‘ سیاسی غلبہ و تسلط کے قیام‘ معاشی وسائل پر گرفت اور اپنی تہذیب کو دوسروں پر مسلط کرنے کی عالم گیر جدوجہد ہے اور عملاًجنرل پرویز مشرف ناین الیون کے بعد امریکا کے اس پورے سامراجی عالمی پروگرام میں آلہ کار بن گئے ہیں‘ اور ان کی تازہ خودنوشت In The Line of Fire اس کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ وہ امریکا کے اس پورے ایجنڈے میں اس کے شریک اور پاکستان اور مسلم دنیا میں اس امریکی نقشے میں رنگ بھرنے والے ایک کلیدی کردار ہیں۔ اس کتاب کے ذریعے انھوں نے امریکا کو یقین دلایاہے کہ میں ہی تمھارے اس پروگرام کو آگے بڑھا سکتا ہوں۔ لیکن اس کے معنی صاف لفظوں میں یہ ہیں کہ اقبال اور قائداعظم کے تصورِ پاکستان کو بھول جائو اور اُمت مسلمہ پاک و ہند نے جن مقاصد اور عزائم کے لیے جدوجہد کی تھی‘ وہ اب قصۂ پارینہ ہے‘ اب اصل منزل بش کے تصور کا محکوم اور تابع دار پاکستان ہے جسے جنرل صاحب اب ’روشن خیال میانہ روی‘ کا لبادہ پہنے قوم کے لیے قابلِ قبول بنانے کا کھیل کھیل رہے ہیں۔

ذلت و پسپائی کا آغاز

فیصلے کی آزادی کی قربانی اور خودی اور بیرونی دبائو کے تحت پالیسی سازی کا آغاز     ناین الیون کے بعد ہوا اور یہ عمل آج تک جاری ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر ہم یہ فیصلہ نہ کرتے تو ملک تباہ ہوجاتا اور اس کے تمام اسٹرے ٹیجک مفادات قربان ہوجاتے۔ یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ ہم نے امریکا سے جنگ کے خطرے کو سامنے رکھ کر war gamesکا پورا نقشہ بنایا اور اس کے بعد امریکا کی فوجی قوت اور عزائم اور اپنے وسائل کا جائزہ لے کر امریکی شرائط تسلیم کیں۔ یقین نہیں آتا کہ ایک جرنیل کو امریکا کی فوجی قوت اور تباہ کاریوں کا اندازہ کرنے کے لیے کسی خیالی وار گیمز کی ضرورت تھی۔ عام سوجھ بوجھ کا ہرشخص اس حقیقت سے واقف ہے کہ دونوں میں کیا فرق ہے۔ مسئلہ وارگیمز کے ذریعے اپنی بے بضاعتی کی دریافت کا نہیں بلکہ اسٹرے ٹیجک حقائق کا جائزہ اور حق اور ناحق اور اپنی آزادی‘ عزت اور ایمان کے مطابق کسی موقف کے تعین اور ایک خونخوار سامراجی قوت کے عالمی عزائم‘ خصوصیت سے اپنے ہمسایہ مسلمان ممالک کے بارے میں اس کے ناجائز اور استعماری مقاصد میں آلہ کار بن جانے یا انھیں لگام دینے کی پالیسی یا کم از کم اس میں خود ذریعہ نہ بننے کا تھا۔

وسائل اور قوت کا فرق تو واضح تھا اور اس کے لیے کسی وار گیمز کی ضرورت نہ تھی۔ جنگی اور سیاسی حکمت عملی کا تعلق اس فرق کی روشنی میں جائز اور مبنی بر حق موقف کے تعین کا تھا اور یہ کام خوف کے تحت نہیں ہوش و حواس کے ساتھ مقاصد اور وسائل کی روشنی میں کرنے کا تھا۔ بلاشبہہ امریکا ایک زخمی شیر کی مانند تھا مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ بظاہر اپنی کھال بچانے کے لیے ہم اپنی آزادی‘ اپنی عزت‘ اپنے ایمان کی قربانی دے دیں۔ آخر ایران‘ ترکی حتیٰ کہ لبنان تک نے اپنے قومی مقاصد اور وقار و عزت کے مطابق ردعمل کا اظہار کیا۔ آخر ساری دشمنی کے باوجود امریکا نے ایران کو دھمکی دینے کا راستہ کیوں اختیار نہ کیا حالانکہ افغانستان تک رسائی کے لیے ایران‘ پاکستان اور وسطی ایشیا کے ممالک تینوں راستے تھے۔ امریکا پاکستان کے عدمِ تعاون کی شکل میں اس کی مرضی کے برعکس اس کی فضائی حدود (air space) کی خلاف ورزی کرسکتا تھا جیساکہ ۱۹۹۸ء میں افغانستان میں کچھ ٹھکانوں پر حملے کے لیے کرچکا تھا۔ ترکی نے اپنی پارلیمنٹ میں معاملہ رکھا اور پارلیمنٹ کے فیصلے پر قائم ہوگیا۔ امریکا جزبز ہونے کے سوا کچھ نہ کرسکا۔ امریکا نے لبنان سے مطالبہ کیا کہ  حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دو اور لبنان کی حکومت نے صاف انکار کردیا۔

پاکستان کے سامنے کم از کم چار راستے (options)تھے:

اوّل: یہ کہ سربراہ حکومت پوری قوم کو اعتماد میں لیتے‘ فوج کو مکمل طور پر تیاری کا حکم دیتے‘ اور جس طرح ۱۹۶۵ء میں لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے کلمے کی بنیاد پر بھارت کا مقابلہ کرنے کے لیے قوم کو تیار کیا تھا اسی طرح امکانی حملے کے لیے پوری قوم کو متحد کرکے مستعدومتحرک (mobilize) کیا جاتا۔ ہمیں یقین ہے کہ امریکا کے لیے یہ ایک مؤثر رکاوٹ ہوتا اور اگر افغانستان پر وہ فوج کشی کرتا بھی تو پاکستان پر فوج کشی کی جرأت نہ کرتا۔

دوم: اگر اس انقلابی فیصلے کی جرأت اور وژن نہیں تھا تو کم از کم یہ تو کیا جا سکتا تھا کہ ہم آنکھیں بند کرکے تمام شرائط ماننے کے لیے تیار نہیں البتہ بات چیت کے ذریعے کوئی قابلِ قبول صورت پیدا کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے عالمی راے عامہ کو بھی mobilizeکیا جاسکتا تھا۔ اسے No, Butکی حکمت عملی کہی جاسکتی ہے۔

سوم: اس سے بھی کم تر ایک تیسری صورت ہوسکتی تھی‘ یعنی Yes, Butکہ ہم تعاون کے لیے تیار ہیں لیکن کچھ شرائط کے ساتھ۔

چہارم: جنرل صاحب کے وارگیمز کا حاصل یہ تھا:Yes, Yes, Yes۔ انھوں نے چوتھا راستہ اختیار کیایہ کہ ہم یہ کام پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے کر رہے ہیں مگر نتیجہ برعکس نکلا۔ پاکستان کے ایک ایک مفاد پر شدید ضرب پڑی‘ یعنی ہماری آزادی‘ ہماری کشمیر پالیسی‘ استعماری جنگ کے خلاف تحریکِ مزاحمت اور دہشت گردی کا فرق‘ پاکستان کی نیوکلیر صلاحیت کی حفاظت اور ترقی اور نیوکلیر میدان میں بھارت سے برابری کا مقام۔ اور جو معاشی نقصانات ملک کو برداشت کرنے پڑے‘ ان کا اندازہ خود امریکی نارتھ کمانڈ کے اعلان کے مطابق جو خود ان کی   ویب پر آیا تھا‘ صرف پہلے دو سال میں یہ نقصان ۱۲ ارب ڈالر تھا۔ جو نام نہاد معاشی امداد امریکا نے دی ہے‘ وہ اس کا ایک چوتھائی بھی نہیں۔

خوف اور بے اعتمادی کے تحت جو بھی فیصلے ہوتے ہیں‘ ان کا یہی حشر ہوتا ہے۔ آج افغانستان اور عراق دونوں جگہ امریکا کی ننگی جارحیت کی ناکامی اور دہشت گردی کی عالمی رو میں چنددرچند اضافے کے باوجود ہماری تابع داری کی پالیسی کا وہی حال ہے جس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ جو دھمکی ناین الیون کے وقت امریکی نائب وزیرخارجہ جارج آرمیٹج نے دی تھی‘ اسی نوعیت کی دھمکیاں مختلف انداز میں آج تک دی جارہی ہیں۔ کوئی دن نہیں جاتا کہ پاکستان کے کان نہیں مروڑے جاتے کہ طالبان کی درپردہ مدد کر رہے ہو۔ صدربش سے لے کر ڈک چینی‘ رمزفیلڈ‘ کونڈولیزارائس‘ جنرل ابی زائد اور نکولس برنر تک ہرموقعے پر مطالبہ کرتے ہیں: do more۔ جو کہتے ہو‘ وہ کرکے دکھائو۔ جنرل صاحب کے سارے اعلانات کہ ہم نے سب سے زیادہ القاعدہ کے ارکان پکڑے ہیں‘ ان کی صفائی کے لیے کافی نہیں سمجھے جاتے‘ حتیٰ کہ اب افغانستان کے  صدر حامد کرزئی صاحب بھی منہ در منہ جنرل صاحب پر دہشت گردی کی پناہ اور سرپرستی کا الزام لگارہے ہیں۔ اور صدربش کو وائٹ ہائوس کے ڈنر کے سلسلے میں کھلے بندوں کہنا پڑا کہ میں دونوں کی  زبانِ حال (body language)  پر نگاہ رکھوں گا۔ اس سے پہلے صدربش اسلام آباد آئے تھے تو اس موقع پر یہ طمانچا رسید کیا تھا کہ میں یہاں اس لیے آیا ہوں کہ دیکھوں جنرل مشرف جو کہتے ہیں وہ کر رہے ہیں یا نہیں؟ دوسری طرف جس دن جنرل صاحب اپنے حالیہ دورۂ امریکا سے واپسی پر لندن نازل ہوتے ہیں‘ اسی دن برطانوی فوج کی ایک نیم سرکاری رپورٹ میں آئی ایس آئی کے خلاف چارج شیٹ پیش کی جاتی ہے اور آئی ایس آئی کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔

اس شرم ناک یلغار کا تازہ ترین مظہر وہ رپورٹ ہے جو لندن کے اخبارات ڈیلی ٹیلی گراف اور سنڈے ٹائمز نے اکتوبر ۲۰۰۶ء کے شروع میں شائع کی ہے اور جس کا حاصل یہ ہے کہ افغانستان میں ناٹو کے کمانڈر نے ان پانچ ممالک کی حکومتوں سے جن کی فوجیں افغانستان کی ناٹو فوج کا بڑا حصہ ہیں‘ کہا ہے کہ ایک بار پھر پاکستان کو اس نوعیت کا پیغام دینے کی ضرورت ہے کہ ’ہمارے ساتھ ہو یا پھر ہمارے دشمن ہو‘۔

ناٹو کے کمانڈر کا یہ بھی کہنا ہے کہ طالبان کو پاکستان میں تربیت دی جارہی ہے۔ سوال   یہ ہے کہ انھیں کسی تربیت کی ضرورت ہے؟ دراصل یہ ایک احمقانہ سوال ہے کہ وہ افغان مجاہد جو روس کے خلاف برسرپیکار رہے‘ جو خوں ریز خانہ جنگی میں ۲۰ سال سے مصروف ہیں اور جن کے رگ و پے میں عسکریت صدیوں سے جاری و ساری ہے‘ ان کو پاکستان میں کسی تربیت کی ضرورت ہے۔ اصل مسئلہ ان کی تربیت کا نہیں پاکستان کی گوشمالی اور بے عزتی کا ہے۔

پاکستان کا مقام

جنرل پرویز مشرف کی اس پالیسی کا حاصل یہ ہے کہ سب کچھ کرنے کے باوجود وہ معتبر نہیں اور امریکا‘ برطانیہ اور ناٹو کمانڈر ہی نہیں‘ بھارت کی قیادت اور افغانستان کے نمایشی حکمران تک پاکستان کے خلاف شب و روز زبان طعن دراز کر رہے ہیں۔ بھارت آج افغانستان میں  معتبر اور بااثر ہی نہیں‘ وہاں سے پاکستان کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہے‘ اور پاکستان جس نے گذشتہ ۲۶‘ ۲۷ سال افغانستان کے لیے ہر قسم کی قربانیاں دی ہیں‘ تائید و معاونت کی ہے اور آج بھی جس کی سرزمین پر ۳۰ لاکھ افغان مہاجر موجود ہیں وہ سب سے زیادہ ناقابلِ اعتماد بلکہ گردن زدنی شمار ہو رہا ہے اور جن کی خاطر جنرل پرویز مشرف دوستوں کو دشمن بنانے کی خدمت انجام دے رہے ہیں وہ ان کو ذاتی دوستی اور ان کی فوجی وردی کے تحفظ کے باب میں جو بھی کہیں لیکن سربراہ مملکت اور پاکستان کے کردار کے بارے میں بداعتمادی‘ طعنہ زنی اور تحقیر اور تذلیل کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ صدر بش نے اسلام آباد میں جنرل پرویز مشرف کے منہ پر کہا کہ نیوکلیر معاملے میں بھارت اور پاکستان برابر نہیں اور دونوں کی تاریخ اور ضرورتیں الگ الگ ہیں۔ بھارت کے لیے نیوکلیر تعاون کے دروازے کھول دیے ہیں اور پاکستان کے لیے نہ صرف ہردروازہ بند ہے بلکہ اس کی نیوکلیر صلاحیت آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے‘ اور عملاً اتنا دبائو ہے کہ نیوکلیر صلاحیت ٹھٹھر کر رہ گئی ہے اور حرکی سدّجارحیت (dynamic deterrance) کے لیے جس سرگرمی کی ضرورت ہے وہ خود جنرل صاحب کی خودپسندی اور کوتاہ اندیشی کے ہاتھوں معرضِ خطر میں ہے۔

پاکستان امریکا کی نگاہ میں کتنا ناقابلِ اعتماد ہے اس کا اندازہ اس سودے سے کیا جاسکتا ہے جو ایف-۱۶ کے سلسلے میں ہوا ہے۔ پہلے تو امریکا نے سودا کر کے رقم وصول کرنے کے باوجود ایف-۱۶ دینے سے انکار کردیا۔ پھر اب ہزار منت سماجت کے بعد جو معاملہ طے کیا ہے وہ اتنا   شرم ناک اور ہماری آزادی اور وقار کے اتنا منافی ہے کہ اسے قبول کرنے کا تصور بھی گراں گزرتا ہے۔ جس حالت میں یہ جہاز ملیںگے‘ اگر ملے بھی تو‘ وہ مقابلے کی حقیقی دفاعی صلاحیت پیدا کرسکیں گے اور نہ پوری طرح ہمارے اپنے قبضہ قدرت میں ہوں گے۔ امریکی کانگریس کمیٹی میں ۲۰ جولائی ۲۰۰۶ء کو نائب وزیرخارجہ جان ہلر نے جو شرائط بیان کی ہیں اور ان کے بعد یہ اطلاع آئی ہے کہ ۳۰ستمبر کو پاکستان نے اس سودے کے بارے قبولیت کی دستاویز پر دستخط کردیے ہیں‘ انھیں پڑھ کر انسان حیرت میں رہ جاتا ہے کہ اس ملک کے فوجی حکمران‘ ملک کے ساتھ کیا کھیل کھیل رہے ہیں۔ ملاحظہ ہوں وہ شرائط۔ اخباری اطلاعات کاخلاصہ یہ ہے:

  •  پاکستان کے تمام اڈوں اور سہولیات کا سیکورٹی سروے کرلیا گیا ہے۔ سیکورٹی کے منصوبے بنا لیے گئے ہیں‘ پاکستان ان سب کی پابندی کرے گا۔
  •  ان سیکورٹی منصوبوں کی تعمیل کو یقینی بنانے کے لیے امریکی موجودگی ضروری ہوگی۔
  •   پاکستان ان جہازوں کو کسی تیسرے ملک کے خلاف امریکا کی اجازت کے بغیر استعمال نہیں کرسکتا۔
  •  ان جہازوں میں وہ ٹکنالوجی نہیں ہے جو کسی ایسے ملک کی فضائی حدود میں داخل ہوسکے جس کا دفاع مضبوط ہو۔ یہ جوہری اسلحے بھی نہیں لے جاسکتے۔
  • ان جہازوں پر رسائی پاکستانی فضائیہ کے صرف ان افسروں کو حاصل ہوگی جن کی پیشگی منظوری امریکا نے دی ہو۔
  • جب تک امریکا کو اطمینان نہ ہو کہ پاکستان سیکورٹی منصوبوں کے تقاضوں کو مکمل طور پر پورا کر رہا ہے‘ کوئی جہاز نہیں دیا جائے گا۔
  • ان جہازوں میں ایسے راڈار لگائے جائیں گے جو صرف غیرناٹو ممالک کے ہوائی جہازوں کو پہچان سکیںگے۔ دوسرے الفاظ میں ناٹو ممالک کے حملہ کرنے والے ہوائی جہازوں کے لیے یہ آسان نشانہ ہوں گے۔

ان شرائط پر بھی جب کمیٹی کے ممبران کی تسلی نہ ہوئی تو نائب وزیرخارجہ نے بتایا کہ اور بھی کچھ امور ہیں جو بند کمرے کے اجلاس میں بتائیں گے۔

یہ ہیں وہ کبوتر جو قوم کے گاڑھے پسینے کی کمائی کے ۵بلین ڈالر امریکا کو دے کر حاصل کیے جارہے ہیں۔ یہ فیصلہ کرنا کچھ بھی مشکل نہیں کہ ان سے ہمارے دفاع‘ خصوصیت سے بھارت کے مقابلے کے لیے دفاعی صلاحیت میں کتنا اضافہ ہوگا اور امریکا کی فوجی سازوسامان کی صنعت کی کتنی سرپرستی ہوگی؟

جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں خود ملک کا دفاع بھی خطرات سے دوچار ہوگیا ہے۔   اس سے صرف انحراف ممکن نہیں۔ ان کی خودنوشت کا تجزیہ اس وقت ہمارا موضوع نہیں لیکن اس میں ان کی شخصیت کی جو تصویر اُبھر کر سامنے آتی ہے وہ ان کے اپنے الفاظ میں ایک ’داداگیر‘ کی ہے۔  صفحہ ۲۶ اور ۲۷ پر جو اپنی تصویر اُنھوں نے پیش کی ہے اور جو ان کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے کلید کی حیثیت رکھتی ہے انھی کے الفاظ میں یہ ہے:

ایک لڑکے کو اپنی بقا کے لیے گلی یا محلے میں نمایاں ہونا پڑتا ہے۔ لازمی طور پر میرے محلے میں بھی ایسے گینگ تھے اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ میں ان میں سے ایک میں شامل ہوگیا۔ اور یہ بھی بتانے کی ضرورت نہیں کہ میں سخت جان (tough) لڑکوںمیں سے ایک تھا… پھر بغیر سوچے میں نے اپنی گرفت میں آئے لڑکے کو مار لگائی۔   لڑائی شروع ہوگئی اور میں نے مار مار کر اس کا بھرکس نکال دیا۔ اس کے بعد لوگوں نے مجھ کو ایک باکسر قسم کا آدمی سمجھ لیا اور میری شہرت داداگیر کی ہوگئی۔ اس لفظ کا ترجمہ  نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا مطلب ہے‘ ایک ایسا ’ٹف‘ لڑکا جس سے آپ نہیں اُلجھتے۔ (اِن دی لائن آف فائر)

بات صرف بچپن کی نہیں‘ خودنوشت کی تحلیل نفس کا حاصل اس کے سوا نہیں کہ یہ ان کی شخصیت کا طرۂ امتیاز ہے۔ البتہ وہ یہ بتانا بھول گئے کہ داداگیر اپنے سے کم تر پر‘ پریشر ہوتا ہے مگر اپنے سے قوی تر کے آگے بھیگی بلی بن جاتا ہے۔ چونکہ بش اور امریکا زیادہ بڑے داداگیر ہیں اس لیے جنرل صاحب اس کے ٹولے (gang) کے ایک چھوٹے ساتھی بن جاتے ہیں اور خود اپنے ماتحتوں اور ملک کے کمزور عوام کے لیے bully کا کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن کیا مہذب معاشرے اور اچھی حکمرانی میں بھی اس کی کوئی گنجایش ہوسکتی ہے؟

جنرل صاحب نے ناین الیون کے ضمن میں جن وار گیمز کا ذکر کیا ہے (ص ۲۰۱-۲۰۲)‘ وہ خودفریبی کا شاہکار ہے۔ اگر آزادی‘ ایمان‘ عزت اور بین الاقوامی عہدوپیمان کے دفاع کا یہی معیاری طریقہ ہے تو پھر انسانی تاریخ ازسرنو لکھنے (re-write) کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ قرونِ اولیٰ کی بات چھوڑ دیجیے‘ صرف اپنے قریبی زمانے پر نگاہ ڈالیے۔ دوسری جنگ شروع ہونے سے قبل جرمنی کی طاقت کا موازنہ اگر خود برطانیہ کے حکمران اپنی قوت سے کرتے تو جرمنی کو چیلنج کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ چیمبرلین جرمنی کی عسکری قوت سے اتنا مرعوب تھا کہ مقابلے کی جگہ  اطمینان دلانے کا راستہ اختیار کرلیتا مگر چرچل نے ہارتی ہوئی بازی کو پلٹ کر رکھ دیا اور بیسویں صدی کی تاریخ نے نئی کروٹ لی۔ اگر دولت عثمانیہ کی زبوں حالی کے پیش نظر اور اس وقت کی یورپ کی تین سوپر پاورز کی ترکیہ پر یورش کے موقع پر جنرل پرویز مشرف کا ہیرو کمال اتاترک کسی ایسی ہی وارگیمز کا اسیر ہوجاتا تو آج ترکی کا کوئی وجود دنیا کے سیاسی نقشے پر نہ ہوتا لیکن قوت کے عدم توازن کے باوجود مقابلے کی حکمت عملی کامیاب رہی اور دولت عثمانیہ نہ رہی مگر ایک آزاد مسلمان ملک کی حیثیت سے ترکی نے اپنا سربلند رکھا۔ اگر فرانس کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہونے والے الجزائری مجاہدین کسی جرنیل کے وارگیمز کے اسیر ہوتے تو ڈی گال کی افواج کا مقابلہ کرنے کا تصور بھی نہ کرتے۔ اگرہوچی من کا مشیر کوئی جرنیل ایسے ہی وارگیمز کا طلسم بکھیرتا تو ویت نام کےتن آسان امریکا جیسی سوپرپاور کا مقابلہ کرنے کی حماقت نہ کرتے اور امریکا ویت نام کی فوجی شکست اور سیاسی ہزیمت سے بچ جاتا۔ اگر ماوزے تنگ کی کسانوں کی فوج چیانگ کائی شیک اور امریکا کی مشترک قوت کا حساب کتاب کسی وارگیمز سے کرتے تو چین کی تاریخ بڑی مختلف ہوتی۔

دُور کیوں جایئے اگر افغانستان اور عراق میں وہاں کے عوام کو کوئی ایسا جرنیل میسر ہوتا جو وارگیمز کی روشنی میں معاملات طے کرتا تو امریکہ چین ہی چین میں بنسری بجا رہا ہوتا اور پانچ سال کے قبضے کے باوجود افغانستان سے فوجی واپس بلانے کے لیے برطانوی فوج کے سربراہ جنرل سررچرڈ ڈرینٹ کو ۱۲ اکتوبر ۲۰۰۶ء کو یہ نہ کہنا پڑتا کہ ہمیں افغانستان سے فوجیں واپس بلانے کی فکر کرنی چاہیے‘ اور ساڑھے تین سال کی جنگ گیری کے بعد امریکا کی ۱۶ انٹیلی جنس ایجنسیز کی      یہ مشترک رپورٹ سامنے نہ آتی کہ مزاحمت روز بروز بڑھ رہی ہے اور ہمارے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔ فوجی قوت کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو‘ عوامی قوت کے سامنے نہیں ٹھیرسکتی۔ اور خدا بھلاکرے حزب اللہ کا کہ ان کے پاس کوئی ایسا جرنیل نہیں تھا جو وارگیمز کی مشق کرکے بتادیتا کہ دس بارہ ہزار مجاہدین کا اسرائیل کی پوری فوجی حکومت سے مقابلہ حماقت ہے اور اس طرح اسرائیل ۳۴ دن کی خوں ریزی کے بعد سیزفائر اور فوجوں کی واپسی کی زحمت سے بچ جاتا۔ باقی سب کو بھول جایئے‘ ۱۹۷۹ء کے اس دن کو یاد کرلیجیے جب روس کی سوپر پاور نے افغانستان پر کھلی فوج کشی کی تھی اور روسی سفیر نے جنرل ضیاء الحق سے‘ اس پاکستانی فوج کے ایک اور سربراہ سے‘ کہا تھا کہ اگر روس کو چیلنج کیا تو تمھاری خیر نہیں اور امریکا جیسی سوپر پاور نے بھی بس اتنا کیا تھا کہ ماسکو میں ہونے والے اولمپک میں اپنے کھلاڑی بھیجے سے انکار کردیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے دفترخارجہ نے بھی شاید کسی وارگیمز کی مشق کرکے کہا تھا کہ اپنی انگلیاں نہ جلائو۔ لیکن ضیاء الحق نے مقابلے کی قوت کی فکر کیے بغیر ایک تاریخی فیصلہ کیا اور پھر خود امریکا کے صدر کے ایک نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر زبگینو برزنسکی نے افغان جہاد کی متوقع کامیابی کو بھانپ کر ۱۹۸۶ء ہی میں لندن ٹائمز میں اپنے ایک مضمون میں اعتراف کیا کہ:

افغانستان میں روس کی سیاسی اور عسکری شکست کے واحد معمار جنرل ضیاء الحق تھے۔ (لندن ٹائمز‘ ۱۸ اپریل ۱۹۸۶ء بحوالہ روزنامہ نواے وقت‘ یکم اکتوبر ۲۰۰۶ئ)

تاریخ ایسی داستانوں سے بھری پڑی ہے مگر اس کے لیے قیادت میں ایمان‘ عزم‘ بصیرت اور شجاعت کے ساتھ اللہ اور اپنے عوام کی تائید ضروری ہے۔ جہاں فیصلے خوف اور دبائو کے تحت ہوتے ہوں وہاں آزادی اور مزاحمت کی جگہ محکومی اور پسپائی لے لیتے ہیں۔

قرآن کا اپنا اسلوبِ ہدایت ہے۔ سورۂ بقرہ میں خوف کو بھی جہاد اور شہادت کے پس منظر میں آزمایش کی ایک صورت قرار دیا ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی اللہ سے تعلق اور اس کی طرف واپسی کی حقیقت کی تلقین کے ساتھ جہاد‘ شہادت اور صبروصلوٰۃ کا راستہ بتایا گیا ہے۔ (البقرہ ۲:۱۵۳-۱۵۶)

امریکا کی تابعداری کب تک؟

اگر بہ فرض محال یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ ۲۰۰۱ء میں کوئی اور چارۂ کار نہیں تھا‘ پھر بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آج ۲۰۰۶ء میں کیا مجبوری ہے کہ ہم صدربش کا اسی طرح دم چھلّا بنے ہوئے ہیں حالانکہ زمینی حقائق یکسر بدل چکے ہیں۔ افغانستان میں امریکا پھنس گیا ہے اور سارے عسکری کرّوفر کے باوجود نہ افغانستان کو اپنے زیرحکم لاسکا ہے اور نہ اسامہ بن لادن اور ملاعمر کو گرفتار کرسکا ہے۔ طالبان ایک ملک گیر قوت کی حیثیت سے اُبھر رہے ہیں اور ناٹو کے کمانڈر اور بین الاقوامی صحافی اور سفارت کار اعتراف کر رہے ہیں کہ کرزئی حکومت کی ناکامی‘ وارلارڈز کی زیادتیوں‘  معاشی زبوں حالی اور قابض فوجیوں کے خلاف نفرت اور بے زاری کے نتیجے میں طالبان کی قوت بڑھ رہی ہے۔ کئی صوبوں میں عملاً ان کی حکومت ہے‘ ایک صوبہ میں برطانوی افواج نے طالبان کے ساتھ معاہدہ امن تک کیا ہے اور ہرطرف سے طالبان سے معاملہ کرنے اور ان کو شریکِ اقتدار کرنے کے مشورے دیے جارہے ہیں۔

اسی طرح عراق میں امریکی فوجیں بری طرح پھنسی ہوئی ہیں۔ تشدد اور مزاحمت روزافزوں ہے۔ عراق کی تقسیم کے خطرات حقیقت کا روپ ڈھالتے نظرآرہے ہیں اور وہ سول وار کے چنگل میں ہے۔ دنیا میں دہشت گردی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ عراق کے بارے میں مشہور رسالے Lancetکے تازہ (اکتوبر ۲۰۰۶ئ) شمارے میں جو اعداد وشمار آئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ساڑھے ۶لاکھ افراد ہلاک ہوچکے ہیں جو آبادی کا ڈھائی فی صد ہے اور جنگ کی آگ  بجھنے کے کوئی آثار نہیں۔ اس وقت امریکا میں اس کی ۵۰ فی صد سے زیادہ آبادی جنگ کی مخالفت کر رہی ہے۔ یورپ میں یہ مخالفت ۷۰ اور ۸۰ فی صد کے درمیان ہے‘ جب کہ مسلم اور عرب دنیا میں ۹۰ فی صد سے زیادہ افراد اس جنگ کے خلاف ہیں‘ حتیٰ کہ عراق میں کیے جانے والے    تازہ ترین سروے کے مطابق عراق کی ۹۳ فی صدسنی آبادی اور ۶۵ فی صد شیعہ آبادی امریکی فوجوں کی فوری واپسی کے حق میں ہے۔

امریکا میں بش مخالف تحریک تقویت پکڑ رہی ہے۔ برطانیہ میں ٹونی بلیر کی پالیسی کے خلاف کھلی کھلی بغاوت ہے۔ برطانوی فوج کے ذمہ دار افراد فوجوں کی واپسی کی بات کر رہے ہیں۔ اسپین اپنی افواج عراق سے واپس بلاچکا ہے اور اس کے بعد سے وہاں امن ہے۔ اٹلی‘ جاپان وغیرہ تخفیف کی بات کر رہے ہیں۔ یہ ہے ہوا کا رخ___ لیکن جنرل پرویز مشرف اب بھی بش کے دست راست اور پاکستان اور اس کی سیکورٹی افواج کو بش کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ہراول دستہ بنائے رکھنے پر تلے ہوئے ہیں۔ خود اپنے وزیرستان کے تجربات سے سبق سیکھنے کو تیار نہیں اور قبائلی علاقے کے طالبان اور دینی قوتوں سے معاہدہ کرنے کے باوجود اس پر طرح طرح کی ملمع سازی میں مصروف ہیں۔

امریکا کے جو بھی مقاصد تھے وہ ہمارے مقاصد اور اہداف ہرگز نہیں ہوسکتے اور اب تو امریکا خود ان مقاصد کے بارے میں شدید انتشار کا شکار ہے اور نکلنے کے راستوں کی تلاش میں ہے‘ جب کہ جنرل صاحب ’مدعی سُست گواہ چست‘ کے مصداق گرم جوشی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور  اپنی قدروقیمت کو بڑھاچڑھا کر پیش کرنے میں مشغول ہیں۔

درپیش چیلنج اور فیصلہ کن مرحلہ

پاکستانی قوم کے لیے فیصلے کی گھڑی آپہنچی ہے۔ اس وقت ہماری آزادی‘ ہمارا ایمان‘ ہماری عزت اور ہمارا مستقبل سب دائو پر ہیں۔ امریکا سے اچھے تعلقات‘ اصولی اور خودمختارانہ مساوات کی بنیاد پر زیربحث نہیں۔ یہ تعلقات ہمیں ہرملک سے رکھنے چاہییں اور امریکا کے ساتھ جہاں جہاں مشترک مفادات کا معاملہ ہے‘ وہاں ہماری خارجہ پالیسی کے لیے اس کا ادراک ضروری ہے‘ البتہ صدربش کی تاریخی غلطی ___یعنی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک ہونا غلط تھا اور اگر کسی بھی مجبوری کے تحت شریک ہوگئے تھے تو اس شرکت کو جاری رکھنا ملک و ملّت کے مفاد سے متصادم ہے۔ جتنی جلد ممکن ہو‘ ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ موجودہ خارجہ پالیسی کو تبدیل کیا جائے اور تبدیلی کے ایک واضح راستے پر گامزن ہوکر اپنی آزادی اور عزت و وقار کو بحال کیا جائے۔ اور یہ کام اسی وقت ہوسکتا ہے جب قوم موجودہ حکمران ٹولے سے نجات پائے کہ اس کی موجودگی میں آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرنے کا کوئی امکان نہیں۔

اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ فیصلہ سازی کو ایک فردِ واحد کی گرفت سے آزاد کیا جائے اور قومی امور کے بارے میں سارے فیصلے جمہوری انداز میں بااختیار پارلیمنٹ کے ذریعے انجام دیے جائیں اور پارلیمنٹ اور حکومت حقیقی معنی میں عوام کے سامنے جواب دہ ہو۔ قومی بحث و مباحثے اور ہرسطح پر مشاورت کے ذریعے پالیسی سازی انجام پائے۔ اس کے لیے بھی جمہوری عمل کی مکمل بحالی اور اداروں کا استحکام اور بالادستی ضروری ہے۔

جہاں فوری مسئلہ آزادی کے تحفظ اور جمہوری عمل کی بحالی کا ہے‘ وہیں یہ بات بھی ضروری ہے کہ امریکا کا ایجنڈا صرف سیاسی اور عسکری بالادستی تک محدود نہیں۔ اس کا ہدف ایک نئے    عالمی سامراج کا غلبہ ہے جس میں سیاسی اور عسکری بالادستی کے ساتھ معاشی وسائل پر امریکا اور مغربی اقوام کا تصرف اور تہذیبی‘ تعلیمی اور ثقافتی میدان میں مغربی تہذیب کا غلبہ اور حکمرانی ہے۔ آخری تجزیے میں یہ جنگ تہذیبوں اور اقدار کی جنگ کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ امریکا اسلام کے اس تصور کو کہ یہ ایک مکمل دین اور نظام تہذیب و حکومت ہے اپنا اصل حریف سمجھتا ہے اور اس کا خیال ہے کہ جب تک مسلمانوں کے دل و دماغ سے آزادی‘ اسلامی تشخص اور اسلام کے ایک مکمل ضابطۂ حیات و تہذیب ہونے کے تصورات کو خارج نہ کردیا جائے‘ امریکا کی بالادستی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر روز نت نئے مسائل کو اٹھایا جا رہا ہے جن کا اصل ہدف اسلام کی تعلیمات اور اقدار پر ضرب اور مسلمانوں کو ان کے جداگانہ تشخص سے محروم کرنا ہے۔ تہذیبوں اور مذاہب کے تکاثر (plurality) کی جگہ مغربی تہذیب کی بالادستی اور دوسری تہذیبوں‘ مذاہب اور اقوام کے اس کے نظامِ اقدار میں تحلیل کیے جانے کا ہدف ہے۔ اس کے لیے ایک حربہ مسلمانوں کو روشن خیال اور قدامت پسند‘ لبرل اور انتہاپسندوں میں تقسیم کر کے اُمت کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا اور مسلمانوں کو آپس میں ٹکرانے اور تقسیم کرنے کی پالیسی پر عمل ہے۔ یہ ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کا تازہ اڈیشن ہے۔ اس میں بش‘ بلیر اور مشرف ایک ہی کردار ادا کر رہے ہیں۔

جنرل پرویز مشرف کی سرپرستی میں اور چودھری شجاعت حسین کی سربراہی میں ایک   مذہبی محاذ تصوف کے فروغ کے لیے قائم کیا گیا ہے اور مقصد یہ ہے کہ اسلام کو اگر امربالمعروف اور نہی عن المنکر سے پاک کردیا جائے‘ جہاد کے تصورات کو مجہول کردیا جائے‘ خیروشر اور کفرواسلام کی کش مکش کی بات ختم کردی جائے‘ تو پھر اسلام کا ایک ایسا اڈیشن تیار کیا جاسکتا ہے جس سے باطل کی قوتوں اور ظلم کے کارندوں کو کوئی خطرہ نہ ہو۔ غضب ہے کہ اس کے لیے اقبال اور قائداعظم کا نام استعمال کیا جارہا ہے حالانکہ اقبال کے پورے پیغام کا حاصل حق و باطل کی کش مکش اور اس میں مسلمان کا جہادی کردار ہے۔ اقبال اور قائداعظم دونوں کو ہندو قیادت ہی نے نہیں انگریزی حکمرانوں اور ان کے قلمی معاونین نے انتہاپسند (extremist) اور فرقہ پرست (communalist) کہا تھا اور دونوں نے فخرسے کہا تھا کہ ہاں‘ ہم اپنے اصولوں پر قائم اور ان پر فخر کرتے ہیں اور اصولوں سے بے وفائی اور غداری کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ قائداعظم نے باربار کہا کہ میں تمام مسلمانوں کو    متحد کرنے میں مصروف ہوں اور ان کو گروہوں میں بانٹنے والوں کو ان کا دشمن سمجھتا ہوں۔ ایک موقعے پر انھوں نے لاہور میں طلبہ کو خطاب کرتے ہوئے صاف لفظوں میں کہا تھا کہ ’’تمھاری تاریخ جہاد کی تاریخ ہے اور مسلمان کے لیے شہادت سے بڑا کوئی رتبہ نہیں‘‘۔ اقبال نے جہاد کو اسلام کے غلبے اور مسلمانوں کی قوت اور سطوت کو اپنی ساری جدوجہد کا ہدف قرار دیا اور ہر اس فتنے پر ضرب لگائی جو جہاد کے راستے سے فرار کی راہیں سمجھاتا ہے۔

آج محکومی کے جو تاریک سائے اُمت پر منڈلا رہے ہیں وہ خوف‘ دبائو اور غیروں کی  کاسہ لیسی اور دراندازی کا ثمرہ ہیں اور ملّت اسلامیہ پاکستان کی آزادی‘ ایمان اور عزت اس کی  زد میں ہیں۔ تحریکِ پاکستان ایسے ہی خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے برپا کی گئی تھی‘ اور      ملّت اسلامیہ پاک و ہند کی بیش بہا قربانیوں کے نتیجے میں پاکستان ایک آزاد اسلامی ملک کی حیثیت سے نقشے پر اُبھرا۔ ان نقوش کو مٹانے کی جو عالم گیر سازشیں ہو رہی ہیں اور جس طرح اسے کچھ آلہ کار اپنی ہی قوم سے میسر آگئے ہیں‘ اس کا مقابلہ تحفظ پاکستان کے لیے ایسی ہی ہمہ گیر تحریک سے کیا جاسکتا ہے جس تحریک کے نتیجے میں پاکستان قائم ہوا۔ آج ہم ایک بار پھر اپنی آزادی‘ اپنے ایمان‘ اپنی شناخت‘ اپنی تہذیب اور اپنی عزت کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں اور ہماری زندگی اور ہماری آنے والی نسلوں کی زندگی کا انحصار اس جدوجہد اور اس کی کامیابی پر ہے ۔