پروفیسر خورشید احمد


بسم اللہ الرحمن الرحیم

قائداعظمؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ کہا تھا اور بھارت نے پاکستان کو بے دست و پا کرنے کے لیے آزادی کے فوراً بعد اس شہ رگ پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے سازش‘ دھوکے‘ فوج کشی‘ بدعہدی غرض ہر حربے اور ہتھکنڈے کا بے دریغ استعمال کیا اور بالآخر ریاست جموں و کشمیر کے دوتہائی حصے پر ناجائز اور غاصبانہ قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔

بھارت کے اس ناجائز قبضے کو نہ صرف پاکستان اور کشمیری عوام نے کبھی تسلیم نہیں کیا بلکہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے بھی قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی‘ ہر اعتبار سے ریاست کی حیثیت (status ) کو متنازعہ قرار دیا اور جموں و کشمیر کے باشندوں کے اس حق کو تسلیم کیا کہ انھیں اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے جس کے عملی اظہار کا ان کو موقع ملنا چاہیے۔

برطانوی محقق الیسٹرلیمب (Alastair Lamb)نے تو دو اور دو چار کی طرح یہ ثابت کردیا ہے کہ قانونی طور پر بھارت سے ریاست جموں و کشمیر کا الحاق کبھی ہوا ہی نہیں تھا لیکن یہ بات بھی کچھ کم اہم نہیں ہے کہ جب بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اپنا مقدمہ اس بنیاد پر لے کر گیا تھا کہ ریاست جموں و کشمیر اس کا حصہ ہے جس پر پاکستان اور اس کے قبائل نے دراندازی کی ہے تو سلامتی کونسل نے ایک نہیں سات بار اس امر کا اظہار کیا کہ ریاست کے مستقبل کا فیصلہ اس کے عوام استصواب راے کے ذریعے کریں گے ___ اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی مسئلہ کشمیر    اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے اور اقوامِ متحدہ کے مبصرین لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب ڈیوٹی دے رہے ہیں۔تقسیمِ ہند سے لے کر آج تک پاکستانی قوم کا متفقہ مؤقف یہی رہا ہے کہ کشمیر‘ تقسیمِ ہند کے نامکمل ایجنڈے کا حصہ ہے۔ تحریک پاکستان کے نظریاتی‘ سیاسی اور جغرافیائی ہر پہلو کا تقاضا ہے کہ وہ پاکستان کا حصہ ہو اور اسی حقیقت کا اظہار جموں و کشمیر کے معتبر نمایندوں نے جولائی ۱۹۴۷ء میں الحاقِ پاکستان کی قرارداد کی شکل میں کردیا تھا۔ جس کی باقاعدہ توثیق اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے کے ذریعے کی جانی تھی جسے بھارت نے آج تک نہیں ہونے دیا۔

جھاد آزادی کی نازک صورت حال

جموں و کشمیر کے عوام اپنے اس حق کو استعمال کرنے کے لیے ۵۷ سال سے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس جہادِ حریت میں پانچ لاکھ سے زیادہ کلمہ گو جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں۔ ہزاروں عصمتیں لٹ گئی ہیں‘ بستیوں کی بستیاں تباہ ہوچکی ہیں‘ ہزاروں افراد اس وقت بھی جیلوں میں محبوس ہیں۔ لیکن جموں و کشمیر سے مسلمانوں کی والہانہ وابستگی کے جذبے اور جدوجہد میں کوئی کمزوری نہیں آئی ہے‘ البتہ ۱۹۶۵ء کی جنگ کے بعد معاہدۂ تاشقند اور ۱۹۷۱ء کی جنگ کے بعد شملہ معاہدے کی شکل میں پاکستان نے اپنے اصولی مؤقف پر اصرار اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی پاسداری کے عہد کے ساتھ مسئلے کو دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے طے کرنے کی راہ قبول کرنے کی جو غلطی کی اس کا فائدہ اٹھا کر بھارت نے مسئلے کو آج تک معلّق رکھا ہوا ہے اور اپنی گرفت کو مضبوط کرنے اور مقبوضہ جموں و کشمیر کو سیاسی‘ معاشی‘ عسکری ہر اعتبار سے بھارت میں ضم (integrate) کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے لیے اس نے ایک طرف جبر اور ظلم کے ہر ہتھکنڈے کا بے محابا استعمال کیا ہے تو دوسری طرف وہ پاکستان کو بار بار لایعنی مذاکرات کے جال میں پھنسانے اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ’’کامیاب سیاست‘‘ کے کرتب دکھاتا رہا ہے۔

انھی حالات سے مجبور ہوکر جموں و کشمیر کے غیور اور آزادی پسند مسلمانوں نے بھارت کے استبدادی تسلط کے خلاف سیاسی جدوجہد کو ایک نیا رخ دیا اور جہاد کا راستہ اختیار کیا۔ یہی وجہ ہے کہ  ۱۹۸۹ء سے پوری ریاست عملاً حالتِ جنگ (state of war) میں ہے اور بھارتی اقتدار کی عملداری فوج کی بندوقوں کے سایے تک محدود ہوگئی ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھارت کی سات لاکھ فوج کے جارحانہ اقدامات کے باوجود بھارت کی سامراجی حکومت اور اس کے شریکِ جرم مقامی کٹھ پتلی حکمران اپنے اقتدار کو مستحکم نہیں کر سکے۔ آزاد مبصرین کی نگاہ میں اس بارے میں آج بھی کوئی دو رائے نہیں کہ جموں و کشمیر کے مسلمان بھارت کی حکمرانی اور تسلط پر کسی شکل میں بھی راضی نہیں اور وہ دہلی کی حکومت سے مکمل طور پر بے تعلق (alienated) ہیں۔ یہ جموں و کشمیر کی سب سے بڑی زمینی حقیقت (ground reality) ہے جسے نظرانداز کرکے بھارت اور پاکستان کے حکمرانوں کے درمیان کشمیر کے مستقبل کے بارے میں کسی معاملہ بندی (understanding) کا تصور ہمالہ سے بھی بڑی غلطی (Himalyan blunder) کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ بھارت کا مشہور صحافی اور سفارت کار کلدیپ نیر بھارت کی کشمیر پالیسی کا بڑا ہوشیار مؤید اور علم بردار ہے اور پاکستانی قیادت کو لچک کے وعظ دیتا رہتا ہے لیکن وہ بھی باربار یہ اعتراف کرچکا ہے کہ کشمیری عوام دہلی کی حکومت سے نفرت کرتے ہیں۔ بھارت کے مشہور اخبار انڈین ایکسپریس میں دفاع اور سلامتی کے امور کا ایک تجزیہ نگار اجائے شکلا (Ajai Shukla)اپنے ۵ مئی ۲۰۰۵ء کو شائع ہونے والے مضمون میں اعتراف کرتا ہے:

کشمیری دل کی گہرائیوں سے آزادی چاہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا خواب ہے جسے سیاسی عزم نے اور جن لوگوں نے اس کے لیے جانیں دی ہیں‘ ان سے وفاداری کے احساسات نے پرورش کیا ہے۔

پاکستان کے جو لبرل اور روشن خیال صحافی چند ماہ قبل کشمیر کے دورے پر گئے تھے وہ سب اس بات پر متفق تھے کہ کشمیر کے عوام بھارت کے ساتھ رہنے کو کسی صورت تیار نہیں خواہ پاکستان سے الحاق کے بارے میں اختلاف ہی کیوں نہ ہو اور ان میں ایک تعداد پاکستان سے اس کی پالیسیوں کے انتشار اور ژولیدہ فکری کی بنیاد پر مایوس ہو۔ ایک اور لبرل صحافی خالد حسن (ڈیلی ٹائمز کے واشنگٹن کے نمایندے) ابھی کشمیر ہوکر آئے ہیں اور وہ فرائی ڈے ٹائمز (شمارہ ۶سے۱۲ مئی ۲۰۰۵ئ) میں لکھتے ہیں کہ:

بھارت سے علیحدگی کا احساس مکمل ہے۔ کوئی بھی کشمیری اپنے آپ کو بھارتی نہیں سمجھتا۔ جب میں کشمیری کہتا ہوں تو میری مراد وادی کے مسلمان ہوتے ہیں۔ نہ وہ پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں جیسا کہ کبھی پہلے چاہتے تھے۔ پاکستان نے کشمیریوں کی قیمت پر جو پالیسیاں اختیار کیں‘ اس سے لوگ دل برداشتہ ہیں۔ جس سے بھی بات کرو‘ ایک ہی جواب ملتا ہے: آزادی۔ آج کے کشمیر کی حقیقت شہدا کے وہ قبرستان ہیں جہاں تقریباً تمام قبریں ان نوجوانوں کی ہیں جن کی فصل جوانی کی پہلی بہار ہی میں کاٹ دی گئی۔ (دی فرائی ڈے ٹائمز‘ ۶-۱۲ مئی ۲۰۰۵ئ)

جنرل پرویز مشرف نے اپنی دلّی کی ملاقاتوں کے بعد جن توقعات کا اظہار کیا ہے اور پھر سفما(South Asian Free Media Association) کے زیراہتمام جنوبی ایشیا کی پارلیمانی کانفرنس کے آخری اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جس ’’سنہری لمحے‘‘ کی بات کی ہے اس کا زمینی حقائق سے دُور کا بھی تعلق نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت ملّت اسلامیہ پاکستان اور اس کی حقیقی قیادت کے لیے سب سے بڑی ضرورت حالات کے بے لاگ جائزے اور صحیح حکمت عملی مرتب کرنے اور اس پر ڈٹ جانے کی ہے۔ موجودہ حکومت اپنی خوش فہمیوں کے خمار میں ایک ایسے راستے پر چل پڑی ہے جو ملک کے لیے تباہی کا راستہ ہے۔ اس کے نتیجے میں ہم خدانخواستہ ہمیشہ کے لیے اپنی شہ رگ سے محروم ہوسکتے ہیں۔ اس وقت کشمیر پالیسی پر مسلسل قلابازیوں پر مبنی جنرل صاحب کے غیر ذمہ دارانہ بیانات جموں و کشمیر کی تحریک آزادی کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن گئے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ بھارت سے کچھ حاصل کرسکیں گے۔ یہ ایک تاریخی مغالطہ ہے۔ دراصل پاکستان کے اصولی مؤقف کی قربانی اور کشمیر کی تحریکِ مزاحمت کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر یہ حکمران کشمیری عوام کی قربانیوں سے بے وفائی ہی کے مرتکب نہیں ہو رہے بلکہ اپنے سوا کروڑ بھائیوں اور بہنوں کو دھکے دے کر بھارت کے تسلط اور امریکا کی گرفت میں دینے میں معاونت کررہے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر پاکستان کی نظریاتی اساس پر ضرب کاری لگانے اور پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات کو قربان کرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ آج پاکستان کا نظریاتی تشخص‘ اس کی قومی سلامتی اور اس کے وسیع علاقوں کے لیے مناسب مقدار میں پانی کی فراہمی کے امکانات سب دائو پر لگ چکے ہیں۔

ضروری ہے کہ مسئلے کے تمام ضروری پہلوئوں پر کھل کر بات کی جائے اور قوم کو بیدار کیا جائے کہ اس کے ساتھ کیا ظلم ہو رہا ہے۔ اس وقت ملک کو ایک خطرناک راستے پر لے جانے کی کوشش ہو رہی ہے‘ اگر خدانخواستہ یہ کامیاب ہوجاتی ہے تو دراصل یہ اقبال اور قائداعظم کی قیادت میں برپا کی جانے والی تحریکِ پاکستان کی نفی اور اس جدوجہد کے نتیجے میں قائم ہونے والے پاکستان کو ایک انقلابِ معکوس (counter revolution) کے ذریعے دوبارہ جنوب ایشیا میں ضم کرنے پر منتج ہوسکتی ہے۔ نئے نقشہ جنگ کو سمجھنے کے لیے کشمیرپالیسی کی تبدیلی‘ پاک بھارت دوستی کے نئے آہنگ اور جنوبی ایشیا کی نئی شیرازہ بندی کا صحیح ادراک ضروری ہے۔ یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ یہ ایک نیا سیاسی‘ معاشی اور نظریاتی منصوبہ ہے جس میں اس علاقے کے بارے میں امریکا کی نقشہ بندی‘ اس میں بھارت کا کردار اور اس منصوبے کو روبہ عمل لانے میں کشمیر کی جدوجہد آزادی کی تحلیل (liquidation) ‘ علاقے کی اسلامی قوتوں کی کمرشکنی اور پاکستان کے اسلامی تشخص کو ختم کرنا شامل ہے تاکہ ایک ’’سیکولرپاکستان‘‘ کا فروغ ہو جو ’’سیکولرانڈیا‘‘ کے ساتھ مل کر جنوب ایشیا کا ایک پیادہ بن جائے اور بالآخر امریکا اور بھارت کی اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ (strategic partnership) کا ایک دم چھلّا بن کر رہ سکے۔ جنرل پرویز مشرف امریکا کے جس کھیل کا ایک کردار بن گئے ہیں اس میں بات کشمیر سے چل کر‘ بھارت دوستی اور جنوبی ایشیا کے نئے وژن تک پہنچتی ہے جو سب اس سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ آج کشمیر پالیسی کی تبدیلی کا تعلق کشمیر سے تو ہے ہی‘ مگر یہ کشمیر پر ختم نہیں ہوجاتی‘ بلکہ کشمیر کی تحریک آزادی کو قربانی کا بکرا بناکر پاکستان کے اس تصور اور کردار کو ختم کرنا بھی اس کا ہدف ہے جو اقبال اور قائداعظم کی قیادت میں ملّت اسلامیہ پاک و ہند کے مسلمانوں کا تصور تھا اور پاکستان کا قیام جس منزلِ مقصود کی طرف پہلا قدم تھا۔ اس لیے کشمیرپالیسی کی تبدیلیوں اور اس کے مضمرات پر بات کرنے سے پہلے ہم چاہتے ہیں کہ بھارت اور خود امریکا کا اصل ہدف سامنے رہے تاکہ جنرل صاحب کی کشمیر پالیسی کے خطرناک رخ کا صحیح صحیح ادراک ہوسکے۔

بہارتی حکمت عملی اور صدر مشرف

کلدیپ نیر نے دہلی مذاکرات اور پاکستان کی کشمیرپالیسی کی تبدیلی پر کھل کر جو کچھ لکھا ہے اسے قوم کے سامنے لانا بہت ضروری ہے۔ ڈان کے ۱۶ اپریل اور ۲۶ اپریل ۲۰۰۵ء کے شماروں میں کشمیر کے مسئلے پرموصوف کے دو مضامین بڑی اہمیت کے حامل ہیں اور بین الاقوامی بساط پر کھیلے جانے والے کھیل کے خدوخال کو سمجھنے میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ ۱۶ اپریل کو No Halfway Stop for Musharaf کے عنوان سے‘ چودھری شجاعت حسین کے جامع مسجد دہلی کے خطاب کے پس منظر میں‘ پاک بھارت دوستی کے اصل اہداف کو نمایاں کرتے ہوئے‘ موصوف کا ارشاد ہے کہ پاکستان کا اصل تصور ‘جو ان کی نگاہ میں قائداعظم کا تصور تھا___ اسلامی نظام نہیں سیکولرزم تھا۔

He wanted it to be a secular polity not mixing religion with politics. He died an unhappy man because during his lifetime he saw the country being mutilated and deformed in the name of Islam.

وہ چاہتے تھے کہ یہ ایک سیکولر معاشرہ ہو‘ جس میں مذہب کو سیاست سے نہ ملایا جائے۔ وہ اپنی موت کے وقت ایک ناخوش انسان تھے اس لیے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں اپنے ملک کو اسلام کے نام پر مسخ اور بدہیبت ہوتے دیکھا۔

شکر ہے کہ کلدیپ نیر صاحب اعتراف کرتے ہیں کہ اسلام کے اس ’’تخریبی عمل‘‘ کا اظہار قائداعظم کی زندگی ہی میں ہوگیا تھا ورنہ ہمارا لبرل طبقہ تو سارا الزام جنرل ضیاء الحق کے دور کو دیتا ہے۔

پھر ارشاد ہوتا ہے:

پاکستان میں کیوں ایسا جمہوری نظام قائم نہیں ہو سکتا جیسا کہ بھارت میں ہے۔

پھر کھل کر ارشاد ہوتا ہے کہ:

ان کو جان لینا چاہیے کہ وادی صرف اس لیے پاکستان کو نہیں مل سکتی کہ یہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔ دو قومی نظریہ اب صرف تاریخ ہے۔ جناح‘ مذہب کو سیاست سے الگ کرنا چاہتے تھے۔ صدر مشرف وادی میں جناح کی منطق کا اطلاق نہ کر کے آدھے رستے میں رک گئے۔ درحقیقت اسلام آباد نے کشمیریوں کی مقامی جدوجہد کو اخلاقی و سفارتی حمایت کے نام پر اسلامی قرار دے کر‘ اس کو بہت نقصان پہنچایا۔

موصوف اس کے بعد اس بھارتی ضد کا اعادہ کرتے ہیں کہ کشمیر کو پاک بھارت دوستی کے مذاکرات میں اولیت کا مقام نہیں دیا جا سکتا۔

میں اب تک نہیں سمجھ سکا ہوں کہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات کشمیر کا یرغمال کیوں ہوں؟ اگر کشمیر سے ان کا تعلق توڑ دیا جائے تو حل تک پہنچنا آسان ہوگا۔

جب ۱۰ سابق پاکستانی سفارت کاروں نے بھارت کا دورہ کیا اور بھارتی سفارت کاروں کے سامنے کشمیر کی مرکزیت پر اصرار کیا تو کلدیپ نیر صاحب اس پر برافروختہ ہوئے اور فتویٰ دے دیا کہ:

پاکستان کے سابق سفرا نے مجھے کبھی متاثر نہیں کیا کیونکہ انھیں کشمیر کا خبط تھا۔ وہ کہتے یہی تھے کہ سارے مسائل کا حل صرف کشمیر کے مسئلے کے حل پر مبنی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ سفارت کار پاکستان کے اصولی مؤقف کی مؤثر ترجمانی کر رہے تھے مگر کلدیپ نیر صاحب بھارت کے مؤقف پر انھیں لانا چاہتے تھے‘ اور سرحدوں کو غیرمؤثر بنانے کو مسئلے کا حل قرار دے رہے تھے۔ ارشاد ہوتا ہے:

اصل حل یہ ہے کہ سرحدوں کو نرم ہونا چاہیے تاکہ انھیں پار کرنا ایسا ہوجائے جیسے ایک گلی سے دوسری گلی میں جانا۔ ’’شجاعتوں‘‘ اور ’’مشاہدوں‘‘ کو اس مقصد کے لیے کام کرنا چاہیے‘ نہ کہ اس طرف یا اس طرف مسلمانوں کے علاقوں کے نقشے بنانا۔

دہلی میں مشرف موہن سنگھ مذاکرات کے بعد جو ’’روشنی‘‘ ان کو نظر آئی ہے اور جو پسپائی پاکستان کے مؤقف میںرونما ہوئی ہے ‘اس کا ادراک بھی کلدیپ نیر ہی کے الفاظ میں ضروری ہے جسے وہ عالمِ انبساط میں بالآخر ہری جھنڈی (Green Light Finally) کے عنوان سے ۱۶اپریل کی اشاعت میں پیش کرتے ہیں۔ وہ اپنے احساسات کا اظہار جس زبان میں کرتے ہیں اس میں ان کی خوشی ہی پھوٹی نہیں پڑتی بلکہ پاکستان کی بے بسی اور بے حسی دونوں کی تصویر بھی دیکھی جا سکتی ہے۔

صدر مشرف کے دہلی کے دورے کے کئی دن گزرنے کے بعد بھی یہاں یہ بحث گرم ہے کہ کیا وہ تبدیل ہوگئے ہیں؟ اور ہوگئے ہیں تو کیوں۔

میں نے سابق وزیراعظم اِندر گجرال سے پوچھا کہ کیا مشرف بدل گیا ہے؟ گجرال نے جواب دیا: اس کے پاس کیا راستے ہیں؟ اس کے ملک کو اَن گنت مسائل کا سامنا ہے۔ اسے دِکھ رہا ہے کہ بھارت بڑے سے بڑا ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے امریکی دوستوں نے اسے بتا دیا ہے کہ کشتی کو نہ ڈبوئے۔ (وزیر خارجہ نٹورسنگھ نے‘ مشرف کی دہلی میں آمد سے دو روز قبل اپنے واشنگٹن کے دورے میں اس بات کو محسوس کرلیا تھا)۔

بھارتی ایڈیٹروں سے ملاقات میں مشرف نے پہلے تو ہنستے ہوئے کہا کہ وہ ایک نئے دل کے ساتھ آئے ہیں (مطلب تھا کہ آگرہ کی ناکام سربراہی کانفرنس کے بعد)۔ پھر انھوں نے سنجیدہ لہجے میں کہا کہ امریکا میں نائن الیون کے حملوں نے انھیں تبدیل کر دیا ہے۔ ظاہر تھا کہ امریکا نے اسے واضح الفاظ میں (in no uncertain terms) بتا دیا تھا کہ واشنگٹن سرحد پار دہشت گردی کو سنجیدگی سے لے گا (take serious note)۔

مشرف نے من موہن سنگھ کو جو یقین دہانی کروائی تھی‘ اسے دہرایا کہ دہشت گردوں کو امن کے عمل کو ناکام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ وہ جنگجوئوں کو پاکستان کا کوئی علاقہ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ (کہا جاتا ہے کہ اسلام آباد نے اس بارے میں دہلی کو تحریر بھی دی ہے)

اس امر کی کافی شہادت ہے کہ دہلی کے بارے میں اسلام آباد کی پالیسی تبدیل ہوگئی ہے۔ کشمیر اعتماد سازی کے اقدامات میں سے ایک قدم ہوگیا ہے‘ نہ کہ مرکزی مسئلہ (core issue)‘ یا ایجنڈے کی پہلی شق۔ پاکستان نے بھارت کی اس یقین دہانی کو بھی تسلیم کرلیا ہے کہ وہ کسی مرحلے پر کشمیریوں کو بھی‘ یقینا آخری فیصلے سے قبل‘ مذاکرات میں شریک کرے گا۔

مشرف یقین رکھتا ہے کہ اگر سرحدیں اور لائن آف کنٹرول تبدیل نہیں کی جا سکتیں‘ تو سرحدوں کو نرم اور غیرمتعلق بنانا (جیساکہ وہ اسے کہتے ہیں) بہتر ہے۔

کلدیپ نیر کی یہ تحریر ہزار تقریروں اور بیانات پر بھاری ہے اور بھارت اور پاکستان دونوں کی کشمیر پالیسی کے بارے میں تازہ ترین صورت حال کی عکاس ہے۔

اقبال نے شاید کسی ایسی ہی صورت حال کے بارے میں کہا ہوگا کہ   ؎

دیکھ مسجد میں شکستِ رشتۂ تسبیحِ شیخ

بت کدے میں برہمن کی پختہ زناری بھی دیکھ

’مشرف ھمارا بھترین ساتہی‘

جنرل پرویز مشرف کی کشمیر پالیسی کی حالیہ تبدیلی‘ پاک بھارت دوستی اور بھارت کی ثقافتی یلغار اور سیکولر نظام کے فروغ کی باتوں میں کلدیپ نیر تنہا نہیں‘ ہر طرف سے یہی آواز اٹھ رہی ہے۔ عین اس زمانے میں‘ غالباً بھارت کی تاریخ میں پہلی بار‘ قائداعظم کی دریافتِ نو (rediscovery) کا ایک شرانگیز سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ قائداعظم پر ایک بھارتی دانش ور پروفیسرآسیانیندا (Asiananda) کی ایک کتاب Jinnah - A Corrective Reading of Indian History شائع ہوئی ہے۔ اس کی تقریب رونمائی اپریل ۲۰۰۵ء کے وسط میں جنرل پرویز مشرف کی دلّی یاترا   سے دو دن پہلے بھارت کے وزیردفاع پرناب مکرجی اور وزیر پٹرولیم مانی شنکرآرگر کی موجودگی    اور سرپرستی میں منعقد ہوئی تھی۔ کتاب کا مرکزی خیال ہے کہ محمد علی جناح اسی درجے کے ایک "great secular" لیڈر تھے جیسے پنڈت نہرو (دی ہندو‘ ۱۵اپریل ۲۰۰۵ئ)

بھارت کے ایک اور دانش ور رفیق دوسانی کی تازہ ترین کتاب: Prospects for Peace in South Asia حال ہی میں امریکا سے شائع ہوئی ہے اور یہ صرف انھی کی نہیں‘ بلکہ بھارت اور امریکا کے دانش وروں کی مشترک سوچ کا ماحصل ہے۔ دوسائی خود بھی امریکا کی مشہور اسٹینفورڈ یونی ورسٹی سے وابستہ ہیں اور اس کتاب میں ان کے علاوہ امریکا کے کلیدی ادارے  ووڈرو ولسن سنٹر کے ڈائرکٹر رابرٹ ہتاوے اور ایک دوسرے پالیسی ساز ادارے اسٹمسن سنٹر کے پروفیسرمائیکل کریپن سب کا تجزیہ شامل ہے۔ ان کی نگاہ میں مسئلہ کشمیر کی وجہ سے حسبِ ذیل رجحانات پروان چڑھے ہیں۔ m علاقے میں مذہب کے کردار کا فروغ(اسے وہ مذہبی انتہاپسندی کہتے ہیں)

  •  بھارت اور پاکستان کے نیوکلیر طاقت بننے کا عزم‘ داعیہ اور سانحہ
  • پاکستان کی آرمی کا سیاست میں کود جانا
  • قومی شناخت کی مرکزیت۔

اس کتاب میں بھارت کے عالمی عزائم اور اس کے لیے پاکستان سے کسی نہ کسی شکل میں معاملات طے کرنے کی ضرورت اور دوسری طرف پاکستان کی اس مجبوری کو بھی نمایاں کیا گیا ہے کہ بھارت کی بڑھتی ہوئی فوجی‘ سیاسی اور معاشی قوت کی وجہ سے بہرحال پاکستان کو بھی کہیں نہ کہیں سمجھوتا کرنا ہے اور ان کی نگاہ میں اس کے لیے سب سے مناسب وقت یہی ہے۔ لیکن اس کتاب کا بھی ٹیپ کا بند یہی ہے کہ جنرل مشرف اس کام کو انجام دینے کے لیے بہترین شخص ہیں اور یہ اس لیے کہ وہ اور جنرل جہانگیر کرامت دونوں ایک ’’سیکولر پاکستان‘‘ کے علم بردار ہیں۔

ہماری نگاہ میں اس منظرنامے کی سب سے مؤثر ترجمانی بھارت کے ایک اور دانش ور سوبا چندرن نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ مگر نہایت کھلے انداز میں کی ہے۔ موصوف بھی اس وقت امریکا کے علمی اور پالیسی ساز حلقوں ہی میں سرگرم ہیں اور دہلی کے Institute of Peace and Conflict سے وابستہ ہیں۔ان کے ارشادات بڑے گہرے غوروفکر کے متقاضی ہیں اور کشمیر کے بارے میں امریکا اور بھارت کی حکمت عملی کو سمجھنے میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ واشنگٹن میں ان کا ارشاد ہے کہ اس وقت بھارت کے اصل اہداف یہ ہیں:

(ا) امن کی بات چیت کے عمل کو بہرصورت برقرار رکھا جائے۔

(ب) کشمیر کے بارے میں یہ سمجھوتا کہ سرحد پار دہشت گردی حد سے نیچے رہے‘ خواہ مکمل طور پر ختم نہ بھی ہو۔

(ج) مستحکم اور سیکولر پاکستان۔

موصوف کانٹے کی بات یوں کہتے ہیں:

اگر جنرل مشرف ان تین عنوانات سے بھارت کے مطالبے کو پوراکرسکیں‘ تو ان سے معاملہ کرنا بھارت کے مفاد میں ہوگا۔ بھارت کو جو مسئلہ طے کرنا ہے‘ وہ یہ ہے کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی اور فوجی صورت حال میں کیا وہ بہترین رفیق کار ہیں۔

اور ان کا مشورہ یہی ہے کہ:

ہوسکتا ہے کہ جنرل مشرف صحیح آدمی نہ ہوں‘ لیکن وہ پاکستان میں بھارت کے بہترین  ساجھی ہیں۔ وہ قابلِ اعتماد ہوں یا نہ ہوں‘ نتائج صرف وہی دے سکتے ہیں۔

پروفیسر سوبا چندرن ان وجوہ کی طرف بھی واضح اشارہ کر دیتا ہے جن کی وجہ سے وہ بھارت کے منصوبے کے لیے جنرل پرویز مشرف کو بہترین ساجھی سمجھتا ہے۔

بھارت نے آج تک کسی متبادل (option) کی بات نہیں کی۔ وہ اٹوٹ انگ اور ناقابلِ تغیر سرحد کی بات کرتا ہے مگر جنرل صاحب کا ذہن کیا ہے:

حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے اتنے حل پیش کیے ہیں‘ کہ اب اس میں کوئی شک نہیں وہ کسی نہ کسی سمجھوتے پر آمادہ ہوجائیں گے۔

مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے مؤقف سے اتنا ہٹ گئے ہیں کہ مزید سمجھوتوں کی انھی سے توقع ہے۔ نیز جو بھارت کا اصل مقصد اور فوری ہدف ہے‘ یعنی کشمیر میں تحریکِ مزاحمت ختم ہوجائے‘ یا کمزور ہوجائے اور منقسم رہے وہ صرف اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے کہ جہادی تحریک دم توڑ دے۔ یہاں بھی موصوف کی نگاہ میں جنرل صاحب کا کردار ہی کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ سوبا چندرن کہتے ہیں:

وہ واحد آدمی ہیں جو سرحد پار دہشت گردی کو کنٹرول میں رکھ سکتے ہیں۔ یہ بھارت کے مفاد میں ہوگا کہ مسلح جدوجہد قابلِ برداشت حد سے نیچے رہے‘ تاکہ نئی دہلی اور سری نگر کے درمیان کسی عمل کا آغاز ہوسکے اور لائن آف کنٹرول پر باڑ لگانے کے کام کو مکمل کیا جاسکے۔

موصوف کی نگاہ میں جنرل پرویز مشرف ہی وہ شخصیت ہیں جو اس ہفت آسمان کو سر کیے جانے کو ممکن بنا سکتے ہیں۔ غور کیجیے کہ اصل ہدف سری نگر اور مظفرآباد میں راہداری نہیں‘ لائن آف کنٹرول پر اپنی گرفت مضبوط کر کے سفر کو آسان بنانا ہے جیساکہ کلدیپ نیر نے کہا کہ ایک گلی سے دوسری گلی میں جاسکیں‘ لیکن اصل مقصد سری نگر اور دہلی کے رشتوں کو مضبوط کرنا ہے تاکہ کشمیر بدستور بھارت کے نقشے کے مطابق ہی رہے۔

پھر سب سے اہم اسٹرے ٹیجک ہدف یہ ہے کہ پاکستان کی فوج اس معاملے میں اس طرح ملوث ہو کہ بھارت کے اہداف حاصل ہوسکیں اور پاکستانی عوام بھی کوئی منفی تحریک نہ اٹھا سکیں اور جو بات یا جو حل بھی امریکا‘ بھارت اور جنرل صاحب طے کرلیں‘ اسے ملک کے عوام پر مسلط کیا جاسکے۔ سوباچندرن اپنے تجزیے میں صاف الفاظ میں کہتا ہے کہ:

پاکستان میں سیاسی قیادت کمزور ہے اور مستقبل قریب میں بھی ایسی ہی رہے گی۔ دوطرفہ سطح پر جو کچھ طے کیا گیا ہے‘صرف مشرف وہ فرد ہیں‘ جو اسے نافذکرسکتے ہیں۔ ۱۹۹۷ء کے انتخابات میں بہت اکثریت حاصل کرنے کے باوجود نواز شریف لاہور پروسس کو آگے نہ بڑھا سکے۔ اگر یہ ایک حقیقت ہے‘ تو فوج سے براہِ راست معاملہ طے کرنا بھارت کے مفاد میں ہے۔ اگر مشرف آج اسے کنٹرول کرتے ہیں تو بھارت کو ان سے معاملہ کرنا چاہیے۔ جنرل میں اتنا حوصلہ تھا کہ اس نے تسلیم کیا کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں اب غیرمتعلق ہوگئی ہیں۔ اور ایک نرم سرحد کو عارضی حل سمجھا جاسکتا ہے۔

اور ٹیپ کا بند بھی ملاحظہ فرمالیجیے۔ جنرل صاحب خواہ ویسے بھارت کو پسند نہ ہوں لیکن اس لیے ضرور پسند ہیں کہ:

حقیقت یہ ہے کہ صرف جنرل مشرف ہی بھارت سے کیے گئے سمجھوتے کو پاکستان میں زبردستی نافذ (impose) کر سکتے ہیں۔

اس جملے کا ایک ایک لفظ اہم ہے۔ جنرل صاحب ایک ’’ناگزیر برائی‘‘ ہیں لیکن مطلب براری کے لیے ضروری ہیں۔ جو بات بھارت سے طے ہو وہ پاکستان کے عوام کے وژن تصورات‘ احساسات اور مفادات کے خلاف ہوگی اور اسے ملک پر مسلط (impose) کرنا ضروری ہوگا اور یہ جنرل صاحب اور فوج کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس لیے جنرل صاحب امریکا اور بھارت دونوں کے لیے بہترین مہرے ہیں یا کھل کر بات کی جائے تو ترپ کا پتہ ہیں! اور یہی وہ مجوزہ کردار ہے جس کے لیے ان کی وردی بھی ضروری ہے۔ امریکا اور بھارت کی جمہوریت نوازی اپنی جگہ‘ لیکن اس سیاسی نقشے میں رنگ بھرنے کے لیے جس کردار کی ضرورت ہے‘ اُسے فوجی لباس ہی میں ہونا چاہیے اور فوج کی قیادت بھی اسی کے پاس ضروری ہے‘ اور اسے اس روشن خیال اعتدال پسندی کا علم بردار ہونا چاہیے جو دراصل سیکولرزم کا دوسرا عنوان ہے اور جس کا اصل ہدف پاکستان کو اسلامی تشخص‘ اور جہاد فی سبیل اللہ سے محروم کرنا ہے۔

امریکا بہارت ملی بہگت

کشمیر کے سلسلے میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے‘ اسے اس علاقے کے بارے میں امریکا کے عزائم اور امریکا‘ بھارت اور اسرائیل کی اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ اور خود اقوام متحدہ کی ساختِ نو (restructuring ) کے پس منظر سے الگ کر کے نہیں سمجھا جاسکتا۔ اگر آپ امریکا کے سابق وزیرخارجہ سٹروب ٹالبوٹ کی کتاب Engaging India کا بغور مطالعہ کریں اور خصوصیت سے کارگل کے واقعے کے سلسلے میں‘ اور پھر اس کے نتیجے میں بھارت اورامریکا میں جو فکری اور سیاسی  ہم آہنگی ہی نہیں بلکہ اعتماد باہمی‘ اور مفادات کا اشتراک رونما ہوا‘ اس نے اس اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ کی راہ ہموار کی‘ جو اَب جارج بش کے دور میں ایک حقیقت بن چکی ہے۔ جسونت سنگھ نے ٹالبوٹ اور کلنٹن کے کردار اور تعاون کا صرف اعتراف ہی نہیں کیا بلکہ امریکا کے اس کھیل پر مہرتصدیق ثبت کر دی جو وہ پاکستان اور بھارت کے تنازع کا فائدہ اٹھا کر بھارت سے دوستی اور نئی پارٹنرشپ کے حصول کے لیے حاصل کرنا چاہتا تھا۔ جسونت سنگھ کا بیان غور کرنے کے لائق ہے:

ہمارے اور ہمارے پڑوسیوں کے درمیان گذشتہ چند مہینوں میں کچھ خوفناک باتیں ہوچکی ہیں۔ لیکن اس اختتام ہفتہ میرے اور آپ کے ممالک کے درمیان کچھ نئی اور بہت اچھی چیزیں واقع ہوئی ہیں جو بھروسے اور اعتماد سے تعلق رکھتی ہیں۔ میں اور میرے وزیراعظم اس کے لیے آپ کے صدر کے شکرگزار ہیں۔

اب یہی وہ اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ ہے جو مسئلہ کشمیر کو تحلیل (liquidate) کرنے‘ سرحدوں کو غیرمؤثر بنانے‘ تحریکِ جہاد کو ختم کرنے اور پاکستان اور بھارت کو نئے سیاسی‘ معاشی‘ ثقافتی رشتوں میں جکڑنے کے ایک نئے قسم کے ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کے احیا کے لیے سرگرمِ عمل ہے اور اس کا اصل اور آخری ہدف اسلامی احیا کے راستے کو روکنا ہے۔ دیکھیے ہنری کسنجر کس چابک دستی سے اس مقصد کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اپنے ایک تازہ مضمون Implementing Bush's Vision  میں وہ یوں رقم طراز ہے:

"Now India, in effect a strategic partner, not because of compatible domestic structures but because of parallel security interests in South East Asia and the Indian ocean and vis-a-vis the radical Islam" (The Nation May 17th, 2005).

اب بھارت اسٹرے ٹیجک پارٹنر ہے‘ ایک جیسے داخلی نظام کی بنا پر نہیں‘ بلکہ جنوبی مشرقی ایشیا اور بحرہند میں انقلابی اسلام کے مقابلے میں سلامتی کے متوازی مفادات کے حصول کے لیے۔

سیاست کا نقشہ اب بالکل واضح ہے۔ امریکا اور بھارت کے تعاون کا مقصد چین کے خلاف محاذ آرائی ہی نہیں‘ بلکہ بھارت کو ایک علاقائی قوت سے بڑھ کر ایک عالمی قوت بنانا ہے جس کے بارے میں گذشتہ ایک سال میں ایک درجن سے زائد امریکی رپورٹیں شائع ہوچکی ہیں اور تازہ ترین رپورٹ مئی کے دوسرے ہفتے میں شائع ہونے والی کارنیگی انڈوومنٹ کی رپورٹ ہے یعنی  South Asian Seesaw: A New US Policy on the Subcontinent جسے اس ادارے کے ایک سینیر اسکالر ایشلے جے ٹیلنگ نے مرتب کیا ہے اور جو اپنی رپورٹ کو امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزارائس کے افکار کا پرتو قرار دیتا ہے۔ اس رپورٹ میں اس بات کا بھی صاف اعتراف ہے کہ امریکا کی طرف سے پاکستان کو ایف-۱۶ طیّاروں کی پیش کش پر بھارت کی طرف سے جو بس واجبی سی تنقید کی گئی ہے‘ وہ اسکیم کا حصہ اور امریکی بھارت ملی بھگت ہے جو نئی امریکی حکمت عملی کا نتیجہ ہے:

علاقے کی تشکیل کے لیے امریکا کی غیرعلانیہ نئی حکمت عملی کا نتیجہ: ایک عالمی قوت (global power) کے طور پر بھارت کو آگے بڑھانا‘ جب کہ پاکستان کو بھی ایک کامیاب ریاست ہونے کے لیے مدد پہنچانا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے بھارت کی توانائی کی ضرورتوں کو پورا کرنا‘ اسے ایک عسکری قوت بنانا اور اسے ایک نیوکلیر قوت کی حیثیت سے عالمی نظام کا حصہ بنانا اس حکمت عملی کا حصہ ہے۔ گویا بھارت ایک عالمی طاقت ہوگا اور پاکستان اس کی ایک باج گزار اور طفیلی ریاست!

قومی کشمیر پالیسی سے انحراف

جنرل مشرف کہتے ہیں کہ وہ اہلِ کشمیر کے مفادات سے بے وفائی کے مرتکب نہیں ہوئے مگر صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کا یہ دعویٰ بالکل کھوکھلا اور خلافِ حقیقت ہے۔ جو کچھ وہ عملاً کررہے ہیں‘ وہ امریکا اور بھارت کی حکمت عملی کے فریم ورک کے بالکل مطابق ہے۔

ذرا ذہن میں تازہ کرلیں کہ انھوں نے اس سلسلے میں کیا کیا ہے:

۱-  روشن خیال اعتدال پسندی کے نام پر پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار یہ کہا ہے کہ سیکولرزم اسلام سے متصادم نہیں اور پاکستان کو اپنے سیکولر امیج کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنا چاہیے۔

۲-  امریکا کی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں اس طرح شرکت کی ہے کہ امریکا سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں۔ امریکا کے جتنے سپاہی افغانستان میں ہلاک ہوئے ہیں ان سے زیادہ پاکستان کے فوجی‘ خود پاکستان کی سرزمین پر ایسے لوگوں کے تعاقب میں مارے گئے ہیں جو امریکا کو جتنے بھی مطلوب ہوں لیکن وہ پاکستان کے لیے کبھی خطرہ نہ تھے اور اگر آج وہ جنرل مشرف کے مخالف ہوگئے ہیں تو محض اس لیے کہ جنرل صاحب محض امریکا کی محبت میں ان کے خون کے پیاسے ہیں اور انھوں نے اپنی فوج کو ان کے خلاف اعلانِ جنگ کرکے انھیں آگ اور خون کی ہولی میں دھکیل دیا ہے۔ ناردرن ایریا کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل صفدر حسن کے بقول (دی ڈیلی ٹائمز‘ ۲۳ مئی ۲۰۰۵ئ) شمالی علاقہ جات میں ۷۰ ہزارپاکستانی فوجی ۶۶۹ چوکیوں پر سرگرم ہیں جو اب تک ۴۸ آپریشن کرچکے ہیں جن میں ۳۰۶ افراد مارے گئے ہیں بشمول ۱۵۰ غیرملکی‘ جب کہ خود پاکستانی فوج کے ۲۵۱ جوان اور افسر ہلاک ہوچکے ہیں اور ۵۵۰ زخمی ہوئے ہیں۔ یہ تعداد ساڑھے تین سال میں افغانستان میں مرنے اور زخمی ہونے والے امریکی فوجیوں سے زیادہ ہے۔ کیا ملک میں کوئی فرد یا ادارہ ایسا نہیں جو احتساب کرے اور پوچھے کہ کس کی جنگ کون لڑ رہا ہے اور کس قیمت پر؟

۳- کشمیر جس کے بارے میں فروری ۲۰۰۲ء تک کہا جا رہا تھا کہ یہ ہماری خارجہ پالیسی اور پاک بھارت تعلقات کے باب میں مرکزی ایشو (core issue) ہے اور اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق جموں و کشمیر کے عوام کی آزاد مرضی سے حل کیے بغیر‘ بھارت سے کوئی سیاسی یا تجارتی معاملہ نہیں کیا جاسکتا اور کشمیر کی تحریکِ جہاد‘ آزادی کی جنگ ہے جسے کسی اعتبار سے دہشت گردی قرار نہیں دیا جاسکتا‘ ایک ایک کر کے ان سب پر مؤقف کو تبدیل کرلیا گیا۔ بھارت کی cross-border infiltration اور cross-border terrorism کی زبان ہم بھی استعمال کرنے لگے ہیں۔ بھارت کے ساتھ دہشت گردی کے پروٹوکول پر دستخط کر دیے گئے اور پاک بھارت مذاکرات کو نہ صرف بھارتی مطالبے کے مطابق‘ اس نام نہاد دہشت گردی کے خاتمے سے مشروط کر دیا گیا ہے جس کا اعادہ بھارتی قیادت دن رات کر رہی ہے اور کشمیر کے اپنے اٹوٹ انگ ہونے کے دعوے کے ساتھ کر رہی ہے بلکہ بھارت کے دوستی کے عمل میں پیش رفت کو کشمیر کے مسئلے کے حل سے بے تعلق (delink) بھی کر دیا گیا۔ نیز اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بھی ہم نے اٹھا کر رکھ دیا۔ متبادل حل کے طور پر تقسیمِ کشمیر کی تجویز پر بھی غور ہونے لگا اور وہ بھی مشترک کنٹرول اور محدود خودمختاری کی باتوں کے ساتھ۔ اب اصل مسئلہ ہی بدل گیا ہے‘ بھارت کے ناجائز قبضے سے جموں و کشمیر کی نجات اور جموں و کشمیر کے عوام کے حق خودارادیت کا مطالبہ جو اوّل دن سے پاکستان کا اصول اور قومی مؤقف تھا اور ہے اور جسے دستور کی دفعہ ۲۵۷ میں ملک و قوم کا وہ مؤقف قرار    دیا گیا ہے جس پر کوئی فرد سمجھوتا کرنے کا مجاز نہیں‘ اب اس کا ذکر غائب ہے اور بات صرف     نرم سرحدوں (soft border) اور سرحدات کو غیرمتعلق بنانے (making borders irrelevant ) کی ہو رہی ہے جس کے معنی اس کے سوا کچھ نہیں کہ امریکا اور بھارت کے مجوزہ ’’حل‘‘ پر سمجھوتا کرلیا جائے جس کے اہم اجزا یہ ہیں:

(ا) کشمیر کی مستقل تقسیم

(ب) دونوں حصوں میں کسی خاص شکل کی ’’خودمختاری‘‘

(ج) بھارت کے عمل دخل اور دراندازی کے لیے مستقل گنجایش

(د) امریکا کے لیے علاقے میں داخلے کی کھڑکی کھولنا۔

اور یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب کشمیر کی تحریکِ آزادی کا گلا گھونٹ دیا جائے‘ یا وہاں کی قیادت کو اس نئے نظام کا حصہ بنا لیا جائے یا پھر ان کو بے یارومددگار چھوڑ کر بھارتی فوج کے ہاتھوں ختم ہوجانے‘ یا مجبوری کے عالم میں غلامی کی کسی نئی شکل پر آمادہ ہوجانے کا سامان کیا جائے۔

آپ سات متبادلات (seven options) کا جائزہ لیں‘ یا تیسرے حل (third option) کی بات کریں‘ یا امریکی اسٹڈی گروپ اور فاروق کٹھواری جیسے لوگوں کی پیش کردہ اسکیموں کو دیکھیں‘ سب کا مرکزی خیال یہی ہے اور اب جنرل صاحب جو نقطہ نظر پیش فرما رہے ہیں وہ اس امریکی بھارتی ایجنڈے سے مختلف کوئی چیز نہیں۔ بھارتی اخبار دی ہندو کے نائب مدیر  سدھارتھ وراداراجن نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں جنرل مشرف اور من موہن سنگھ کی دلّی ملاقات کے بعد حالات کا جائزہ پیش کیا ہے۔ اس میں اپنے اصولی مؤقف سے پاکستان کی پسپائی اور بھارت کے اپنے ایجنڈے کے مطابق معاملات کو آگے بڑھانے کی پوری تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ (ملاحظہ ہو‘ Slaying the Demons of Distrust ‘نیوزلائن‘ مئی ۲۰۰۵ئ)

اور جس اعتماد (trust) پر اب سارا کاروبار مملکت چلانے اور بھارت سے کشمیر سمیت سارے معاملات طے کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں اس کا حاصل تو صرف یہ نظر آرہا ہے کہ مقصد اور ترجیح بھارت کا اعتماد حاصل کرنا ہے۔ پاکستان کے اہداف‘ مقاصد اور مفادات‘ پاکستانی عوام کی تمنائیں اور عزائم اور سب سے بڑھ کر انصاف اور عدل کے تقاضے‘ کشمیر کے ڈیڑھ کروڑ انسانوں کے حقوق اور ان کی آزادی سب ثانوی بلکہ غیرمتعلق ہوکر رہ گئے ہیں۔ دیکھیے بھارت کے اخبار انڈین ایکسپریس نے اپنی ایک تازہ اشاعت میں اس صورت حال کو کس طرح پیش کیا ہے:

"Now that the April Foreign Policy euphoria is over, the party poopers are out with full force. The question is again being asked : Can we trust Gen Musharraf?

اب‘ جب کہ خارجہ پالیسی کا اپریل کا سرخوشی کا عالم گزر چکا ہے‘ پارٹی کے ڈھنڈورچی پوری طاقت سے میدان میں آگئے ہیں‘ یہ سوال پھر پوچھا جا رہا ہے: کیا ہم جنرل مشرف پر بھروسا کرسکتے ہیں؟

یہ سوال اٹھانا ظاہر کرتا ہے کہ ہم نے واقعتا کوئی چیز دی ہے۔ لیکن سادہ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے قطعاً کوئی رعایت نہیں دی۔ سرحد کے ردوبدل‘ کشمیر میں سی بی ایم کی ترجیح‘ سب پر ہماری پوزیشن پہلے جیسی ہے۔ اس وقت تو ہم سے زیادہ پاکستان کو ایڈجسٹمنٹ کرنا ہے۔

اس کے بعد موصوف کہتے ہیں کہ بھارت کے لیے سلامتی اوّلین اہمیت کی حامل ہے اور اس پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا۔ نیز پاکستان پر امریکی دبائو شدید ہیں اور وہ پاکستان کو یہ بھی خوف دلاتے ہیں کہ زمینی حالات بدل گئے ہیں اور اب کشمیر میں پاکستان کی تائید بہت کم ہے‘ لکھتے ہیں:

کشمیر کے اندر پاکستان کی حمایت اپنی زیریں ترین سطح پر ہے۔ پاکستان پر امریکی دبائو بھی اپنی کاٹ دکھا رہا ہے اس لیے کہ ان کا دہشت گردی کے بارے میں تصور تبدیل ہوچکا ہے۔ (دی نیشن‘ ۱۷ مئی ۲۰۰۵ئ)

ان تمام امور کے ساتھ اس بات پر بھی غور کریں کہ جنرل صاحب نے تازہ ترین دعویٰ یہ بھی کر دیا ہے کہ:

میرا خیال ہے کہ حل موجود ہے۔ مجھے اس پر یقین ہے اور میں وہ حل جانتا ہوں کہ جو بھارت‘ پاکستان اور کشمیری عوام کے لیے قابلِ قبول ہونا چاہیے۔ (ڈان‘ ۲۱ مئی ۲۰۰۵ئ)

اس میں وہ بھارت کی ’’سیکولر حساسیت‘‘ (secular sensitivity) کے آگے بھی سپرڈالتے نظر آرہے ہیں اور دو قومی نظریہ‘ حق خود ارادیت اور حاکمیت کے تمام اصولوں کو ترک کرکے یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ:

اس لیے ضروری ہے کہ یہ عوام کی بنیاد پر‘ علاقے کی بنیاد پر ہو۔ علاقہ متعین کیا جائے لوگوں کو سیلف گورننس دی جائے‘ غیرفوجی علاقہ بنایا جائے اور کچھ ایسے کام کریں کہ سرحدوں کا سوال غیرمتعلق ہوجائے۔

اس پوری تقریر میں زیادہ سے زیادہ اپنی حکمرانی (maximum self governance) اور سرحدوں کو غیرمتعلق بنانا کلیدی تصورات ہیں جن کے صاف معنی یہ ہیں کہ اب آزادی اور حق خود ارادیت کا مسئلہ تو باقی ہی نہیں رہا۔ بھارت جوچاہتا تھا کہ جموں و کشمیر کے علاقے دونوں ملکوں کے زیراثر رہیں‘ ان کو زیادہ سے زیادہ خودمختاری دے دی جائے (جو خود بڑا دھندلا تصور ہے اور جس کا تجربہ مقبوضہ کشمیر میں شیخ عبداللہ کے زمانے میں ہوچکا ہے) اور یہ اضافہ کردیا جائے کشمیر کے تمام حصوں کے درمیان سرحد غیرمتعلق ہوجائے۔ سرحد محض ایک سرحدی لکیر کا نام نہیں‘ یہ کسی ملک یا علاقے کی حاکمیت کی علامت ہے۔ اور اگر یہی غیرمتعلق ہوجائے تو پھر سیاسی آزادی اور علاقائی سلامتی دونوں سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔

واضح رہے کہ من موہن سنگھ نے وزارتِ عظمیٰ کا حلف لینے کے بعد جو پہلی بات کی‘ وہ نرم سرحدوں کی تھی۔ اسی بات کو اب جنرل صاحب دہرا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ دہلی میں ان کے اس ارشاد کو بھی شامل کر لیجیے کہ کشمیر کے مستقبل کے نظام میں حریت کانفرنس کی قیادت کے ساتھ عمرعبداللہ اور محبوبہ مفتی کا بھی کردار ہوگا۔ اور شاید اس نہلے پر دہلا لگاتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی وزیراعلیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ پانی کے مسائل کا حل یہ ہوسکتا ہے کہ بگلیہار اور کشن گنگا کے ڈیم وغیرہ کے سلسلے میں مشترک نگرانی کا نظام قائم کیاجائے۔

اس سارے معاملے  کا ایک اور تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ متبادل حلوں کے اس سارے کھیل نے خود کشمیری قیادت کو بانٹ دیا ہے اور ان کے درمیان شدید کنفیوژن کی کیفیت ہے۔ آل پارٹیز حریت کانفرنس منقسم ہے اور اب ایک طرف میرواعظ عمر فاروق اور عمرعبداللہ (نیشنل کانفرنس) کے ساتھ ایک محاذ پر جمع ہونے کی باتیں کر رہے ہیں تو دوسری طرف سردار عبدالقیوم اپنی تاریخی پوزیشن تبدیل کرکے سات حلوں کے گن گانے لگے ہیں اور کشمیریوں کو ’’کسی بھی قسم کی خودمختاری‘‘ مل جانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ البتہ مجاہدین اور وہ کشمیری لیڈر جو اپنی اصولی پوزیشن پر مردانہ وار ثابت قدم ہے اور ہر خطرہ مول لینے کو تیار ہے‘ سید علی شاہ گیلانی ہے جو پاکستان کا سب سے مضبوط قلعہ ہے لیکن وہ اب یہ کہنے پر مجبورہوگیا ہے کہ ’’ہم نہ تھکے ہیں اور نہ دبے ہیں لیکن پاکستان کی قیادت غالباً تھک گئی ہے اور وہ اب کشمیر کی تحریکِ حریت کی وکالت ترک کر کے بھارت کے مؤقف کی وکالت پر اتر آئی ہے‘‘۔ وہ ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ کہتے ہیں:

آج کشمیر ثانوی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ اب بگلیہار اور کشن گنگا ڈیم کے مسائل اہم ہوگئے ہیں۔ صحافیوں‘اداکاروں‘ گلوکاروں اور عوامی وفودکی آمدورفت شروع ہوگئی ہے۔ پاکستان اور بھارت باہم شیروشکر ہورہے ہیں اور یہ سب کچھ اس کے باوجود ہورہا ہے کہ کشمیر پر بھارت کا قبضہ برقرار ہے اور یہاں ظلم و ستم کا بازار اسی طرح گرم ہے‘ بلکہ فوجی مظالم میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

جہاں تک ہمارا تعلق ہے‘ ہم زنجیرغلامی کو کاٹنے کے لیے اپنا کام کرتے رہیں گے‘   بے وفائی کرنے والوں کی اپنی منزل تاریک ہے۔

ذھنی شکست خوردگی

جنرل پرویز مشرف اپنی خطرناک قلابازی (u-turn) کے باوجود قوم سے یہی کہہ رہے ہیں کہ ان پر بھروسا کیا جائے‘ وہ کشمیر کے کاز سے کبھی بے وفائی (betray) نہیں کریں گے۔ قوم ان کے اس اعلان پر کیسے بھروسا کرسکتی ہے؟ قوم یہ دیکھ رہی ہے کہ تین سال سے کشمیر کے مسئلے پر وہ مسلسل پسپائی اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں اور اس طرح وہ قول و قرار کے معاملے میں سخت ناقابلِ اعتبار ثابت ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ میں ایوب‘ یحییٰ اور ضیاء کی طرح نہیں ہوں کہ اپنے اقتدار کو دوام دینے کی کوشش کروں لیکن عملاً انھوں نے ایوب اور ضیاء ہی کے نقش قدم پر چلنا پسند کیا‘ ریفرنڈم کا ڈھونگ بھی رچایا اور جس طرح ضیاء الحق نے ۹۰ دن کا وعدہ کر کے وعدہ خلافی کی‘ اسی طرح جنرل پرویز مشرف نے بھی دسمبر ۲۰۰۴ء میں وردی اتارنے کا عہدوپیمان کرکے عہدشکنی کی۔ دستور کی حفاظت کا حلف لے کر دستور کو پامال کیا‘ سیاست میں فوج کی عدم مداخلت کا عہد کرکے فوج کو سیاست میں ملوث کیا اور اب اسے بدستور ملوث رکھنے پر مصر ہیں۔ اس ریکارڈ کی موجودگی میں ان کے عہدوپیمان پر کون بھروسا کرسکتا ہے۔ اور ان کے الفاظ اور حقیقت کے فرق کو کون نظرانداز کرسکتا ہے کہ موصوف نے کوئٹہ میں اسٹاف کالج میں خطاب کرتے ہوئے‘ یہاںتک کہہ دیا ہے کہ ملک میں جمہوریت قائم ہے‘ نظامِ حکومت وزیراعظم چلا رہے ہیں اور فوج کا سیاست میں کوئی دخل نہیں! کیا دن کو رات اور رات کو دن کہنے اور چوری اور سینہ زوری کی اس سے تابناک مثال بھی مل سکتی ہے؟

پھر وہ کہتے ہیں کہ میں کسی کے دبائو میں فیصلے نہیں کرتا حالانکہ جس طرح امریکا کے    دبائو میں وہ ۲۰۰۱ء سے مسلسل اقدامات کر رہے ہیں اور اب بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں (واضح رہے کہ ۶ جنوری ۲۰۰۱ء کے پاک بھارت اعلامیے کے بارے میں امریکا کے     سابق وزیرخارجہ کولن پاول کا یہ اعلان اب ریکارڈ کا حصہ ہے کہ اس کا مسودہ ان کا تیار کردہ تھا (ملاحظہ ہو‘ ڈان ۱۱ مئی ۲۰۰۵ء کے شمارے میں سابق خارجہ سیکرٹری شمشاد احمد کا مضمون CBMs:not a final solution) وہ بالکل واضح ہے۔ اور باب ووڈ ورڈ کی کتاب    Bush at War میں پاکستان کے جنرل پرویز مشرف کے ذلت آمیز طریقے سے ہتھیار ڈالنے (abject surrender) کی جو تفصیلات ملتی ہیں اس کی روشنی میں کون اس بات پر یقین کرے گا کہ جنرل پرویز مشرف کے بنیادی فیصلے واشنگٹن میں نہیں‘ اسلام آباد میں ہوتے ہیں۔ خود ان کے وزیر کہتے ہیں کہ اگر ہم نے بش کا ساتھ نہ دیا ہوتا تو ہمارا حشر بھی افغانستان اور عراق جیسا ہوتا۔ کیا اس کے بعد بھی کسی ثبوت کی ضرورت ہے کہ یہاں فیصلے بیرونی دبائو کے تحت ہو رہے ہیں یا ملکی حاکمیت اور قومی وقار اور مفادات کے مطابق۔

جنرل صاحب بار بار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ دنیا کے حالات بدل گئے ہیں‘ اورنائن الیون کے بعد اب قوت کے استعمال سے سیاسی فیصلے نہیں ہو سکتے‘ حالانکہ نائن الیون کا اگر کوئی سبق ہے تو صرف یہ کہ اس کے بعد صرف قوت ہی کے ذریعے فیصلے ہو رہے ہیں۔ جو کمزور ہے یا قوت کا استعمال کرنے کا عزم اور داعیہ نہیں رکھتا‘ اس کے مقدر میں محکومی کے سوا کچھ نہیں۔ نیز یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قوت کا جواب قوت ہی سے دیاجاسکتا ہے اور امریکا اپنی ساری عسکری اور ٹکنالوجیکل برتری کے باوجود‘ نہ پورے افغانستان پر اپنا اقتدار مسلط کرنے میں کامیاب ہے اور نہ عراق پر‘ بلکہ پوری دنیا نائن الیون کے بعد‘ پہلے سے زیادہ غیرمحفوظ ہوگئی ہے۔ دہشت گردی کو دہشت گردی سے ختم کرنے کی حکمت عملی یکسر ناکام ہوگئی ہے‘ نیز دہشت گردی کے اسباب دُور کرنے کے بارے میں زبانی جمع خرچ کے باوجود‘ اس سمت میں کوئی مؤثر اقدام دنیا میں کسی جگہ بھی‘ (بشمول فلسطین‘ کشمیر‘ شیشان‘ فلپائن‘ تھائی لینڈ) نہیں کیا گیا۔ بدقسمتی سے کشمیر میں امریکا اور بھارت کے دبائو میں جنرل پرویز مشرف نے تو تحریکِ آزادی سے براء ت کا اعلان کر دیا ہے اور اسے دہشت گردی کے خانے میں رکھ دیا ہے لیکن بھارت کی ریاستی دہشت گردی اسی طرح جاری ہے بلکہ روز افزوں ہے۔ دوسری طرف حق خودارادیت ہی سے دست برداری کا راستہ اختیار کر کے ’’زیادہ سے زیادہ خودمختاری‘‘ علاقائی تقسیم اور کھلی سرحدوں کی باتیں ہورہی ہیں جو تنازع کے اسباب دُور کرنے کے بجاے‘ ان کو دائمی شکل دینے اور نہ ختم ہونے والی پنجہ آزمائی کا سامان فراہم کرنے کے مترادف ہے۔

سیدھی اور واضح بات یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف ذہنی شکست قبول کرچکے ہیں اور اپنی شکست پر پردہ ڈالنے کے لیے سیاسی ملمع آرائی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سیاسی‘ معاشی اور عسکری قوت میں عدمِ مساوات کوئی نئی بات نہیں اور دنیا میں سیاسی نقشے اس عدمِ مساوات کے باوجود بدلے ہیں اور بدلتے رہیں گے۔ کیا آج افغانستان میں امریکی افواج اور نہتے عوام کے درمیان قوت کی مساوات ہے؟ کیا عراق میں یہ مساوات ہے؟ کیا دنیا کے ۱۴۰ ممالک جو گذشتہ ۵۰سال میں عظیم اور طاقت ور استعماری قوتوں کے چنگل سے جنگِ آزادی لڑکر آزاد ہوئے ہیں عسکری مساوات کے ساتھ جدوجہد کر رہے تھے؟ کیا بھارت کو ۱۹۸۹ء کے بعد کشمیر میں جس مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ عسکری مساوات پر مبنی ہے؟ آج بھی جس جہادی تحریک سے بھارت پریشان ہے اور تلملا رہا ہے اس کے بارے میں اس کے اپنے چیف آف اسٹاف کا قول ہے کہ زیادہ سے زیادہ ۱۰ ہزار مجاہد (جنھیں وہ دہشت گرد کہتا ہے) میدان میں ہیں اور بھارت کی ۹ لاکھ فوج ان کو قابو نہیں کر پا رہی ہے۔بات مساوات کی نہیں‘ اصل مسئلہ ایمان‘ عزائم اور اپنے اہداف کے حصول کے لیے استقلال اور پامردی کا ہے۔ کارگل کے معرکے میں بھی اصل فاتح بھارتی فوج نہیں وہ شہید کرنل ہے جس نے تن تنہا بھارتی فوج کو خون کے آنسو رلا دیے اور جس کی شجاعت اور استقامت پر بھارتی فوج نے بھی رشک کیا!

پاکستان کوئی کاغذی مملکت (banana republic) نہیں۔ یہ ریاست الحمدللہ ایک نیوکلیر پاور اور ایک عظیم قوم کی روایات کی امین ہے جو اپنے ایمان‘ عزت اور آزادی کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے کے باب میں شاندار ریکارڈ رکھتی ہے۔ پاکستانی قوم نے گذشتہ ۵۷ برسوں میں اپنا پیٹ کاٹ کر فوج کو جو وسائل فراہم کیے ہیں اور جسے آپ خود ناقابلِ تسخیر دفاعی قوت کہتے ہیں وہ کس لیے ہے۔ کیا بین الاقوامی تعلقات کا یہ ایک مسلمہ اصول نہیں کہ جنگ خارجہ پالیسی کا ایک آلہ ہے (war is an instrument of foreign policy)۔ اگر جنگ امریکا‘ برطانیہ‘ روس‘ اسرائیل‘ بھارت کے لیے خارجہ سیاست کا ایک آلہ کار ہے تو دوسروں کے لیے کیوں ممنوع ہے۔ بلاشبہہ جنگ نہ مطلوب ہے  اور نہ محمود‘ لیکن اگر ضرورت پڑے تو آزادی اور  حاکمیت کی حفاظت کے لیے یہی مؤثر ترین راستہ ہوتا ہے۔ اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں اور پہلے سے اس دروازے کو بند کردینا دراصل اپنی آزادی اور حاکمیت کو دائو پر لگانے کے مترادف ہے۔ یہ مذہبِ گوسفنداں تو ہو سکتا ہے‘ اسے کیشِ مرداں قرار نہیں دیاجاسکتا۔

پھر ایک دعویٰ یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے بس یہ نادر موقع ہے جسے اگر ہم نے گرفت میں نہ لیا تو ہمیشہ کے لیے ضائع ہوجائے گا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت سے زیادہ ناسازگار وقت اس مسئلے کے حتمی حل کے لیے کبھی نہ تھا۔ اس وقت تو ضرورت اس کی ہے کہ تحریکِ آزادی کی حفاظت کی جائے‘ مناسب تیاری ___ عسکری اور معاشی اور سب سے بڑھ کر ملک میں قومی مفاہمت اور یک رنگی ___ جاری رکھی جائے اور صحیح وقت کا انتظار کیا جائے۔ بھارت کے لیے قبضے کی قیمت (cost of occupation) کو جتنا بڑھایا جا سکتا ہو‘ بڑھایا جائے‘ لیکن پورے تحمل اور حکمت و تدبیرکے ساتھ۔ یہ وقت دوستی کی پینگیں بڑھانے کا نہیں‘ مسئلے کو زندہ رکھتے ہوئے رکھ رکھائو کے ساتھ مناسب وقت کے انتظار کا ہے۔ نیز ہر اس اقدام سے مکمل اجتناب کیا جائے جو جموں و کشمیر کے عوام اور ان کی قومی تحریکِ مزاحمت کو کمزور کرنے والی یا ان کی توقعات پر اوس ڈالنے والی ہو۔ اور یہی رائے ان تمام افراد کی ہے جن کی نگاہ دنیا کے حالات‘ پاکستان کے لیے کشمیر کی اہمیت اور بھارت کے اپنے حالات پر ہے۔ جنرل صاحب کی یہ      بے قراری کہ ان کے عہدِحکومت اور من موہن سنگھ کے عہدحکومت میں مسئلے کا آخری حل نکل آئے‘ خودغرضی اور بے بصیرتی کے سوا کچھ نہیں۔ پاکستان کی خارجہ سیاست کے تمام اہم کردار متنبہ کر رہے ہیں کہ یہ وقت جلدبازی میں کوئی اقدام کرنے کا نہیں ہے۔

تجربہ کار سفارت کاروں کا اضطراب

آغا شاہی اور حمید گل تو بار بار کہہ چکے ہیں لیکن اب تو وہ لوگ بھی بولنے پر مجبور ہوگئے ہیں جو خاموش سفارت کاری سے آگے کبھی نہ بڑھتے تھے۔ مثلاً:

سابق خارجہ سیکرٹری شمشاد احمد جو کارگل کے وقت بھی اس عہدے پر فائز تھے ڈان میں اپنے مضمون: CBMs: Not a Final Solution (۱۱مئی ۲۰۰۵ئ) میں متنبہ کرتے ہیں کہ یہ وقت فیصلے کا نہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

ہر صورت میں‘ دونوں ملکوں کے تعلقات کی اشتعال انگیز تاریخ اور ماضی کے تجربات کے پیش نظر غیرحقیقی امیدیں قائم کرنے یا نتائج نکالنے میں محتاط ہونا چاہیے۔ دونوں طرف بداعتمادی اور اندیشوں کی گہری جڑیں ہیں‘ اور محض شعلوں پر پھونکیں مارنے یا نیک خواہشات کرنے سے یہ تحلیل نہ ہوجائیں گے۔ بھارت اور پاکستان دونوں کو اس کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے گہرائی میں جانا ہوگا۔

اعتماد سازی کے اقدامات بہتر ماحول پیدا کرنے کے لحاظ سے اس عمل میں معاون ہوسکتے ہیں لیکن یہ تنازعات حل کرنے کا متبادل نہیں ہیں۔ یہ حیرانی کی بات نہیں کہ لچک کی یک طرفہ پیش کشوں کے باوجود صدرمشرف متنبہ کرتے رہے ہیں کہ جب تک تہ میں پوشیدہ مسائل حل نہ پیش کیے جائیں گے‘ تنازعات پھر بھڑک اٹھیں گے۔ جو کام پیش نظر ہے‘ وہ آسان نہیں ہے۔ متعلقہ مسائل کی پیچیدگی کے بارے میں کوئی فریب نظر نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں ان کی مزید ضرورت ہے اور اسے برقرار رکھنا چاہیے لیکن جلدبازی میں ایسے فیصلوں کی طرف نہیں جانا چاہیے جو دونوں ممالک میں داخلی طور پر حکومت یا شخصیات کی تبدیلی کے بعد برقرار نہ رہ سکیں۔

ہمیں ضرورت ہے کہ پاکستان میں بھارت کے لیے اپنی تبدیل شدہ پالیسی کے بارے میں قومی اتفاق راے پیدا کریں۔ اس کے لیے شفافیت اور داخلی محاذ پر حقیقی قومی کوشش کے ذریعے اعتماد سازی کی ضرورت ہوگی‘ بحث اور اتفاق کے لیے ہوٹلوں کی لابیوں میں نہیں بلکہ پارلیمنٹری چیمبرز میں تمام متعلقہ سیاسی عناصر کے اشتراک کے ساتھ۔

ایک سابق سفیر جاوید حسن ڈان (۱۸ مئی ۲۰۰۵ئ) میں Kashmir: The  Time Factor کے عنوان سے اپنے مضمون میں حالات کی سنگینی پر قوم اور قیادت کو متنبہ کرتے ہیں اور صاف الفاظ میں کہتے ہیں کہ یہ وقت آخری حل کے لیے سب سے زیادہ ناموزوں ہے۔ اس وقت بہترین حکمتِ عملی اس مسئلے پر holding on operation (برقرار رکھنے کا عمل) ہے نیز آخری فیصلے کے لیے تیاری کی جائے جو ان کے خیال میں اگلے ۲۵ سال میں ہوسکتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

اگر ہم ربع صدی کے اس طویل وقفے کے بعد بھارت کے مقابلے میں مضبوط پوزیشن میں ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں داخلی سیاسی استحکام کو مضبوط کرنا چاہیے۔ قومی سطح پر ایک منظور شدہ سیاسی فریم ورک کے اندر جس میں نمایندہ اداروں کی اہمیت کو تسلیم کیا جائے‘ افراد پر انحصار کے بجاے ادارے تعمیر کیے جائیں‘ قانون کی حکمرانی کو مضبوط بنایا جائے اور میرٹ پر فیصلے کرنے کے اصول پر عمل کیا جائے۔

اس کے ساتھ ہی ہمیں ملک کی معاشی ترقی میں اضافہ کرنا چاہیے۔ اس کے لیے قومی وسائل کا زیادہ بڑا حصہ معاشی ترقی کے لیے مختص کر کے تعلیم‘ سائنس اور ٹکنالوجی کو اپنی معاشی منصوبہ بندی میں زیادہ اہمیت دینی چاہیے۔ اس کا تقاضا ہوگا کہ ہم اپنے دفاعی اخراجات پر سخت کنٹرول کریں اور ممکنہ کم ترین قیمت پر قابلِ لحاظ سدّجارحیت برقرار رکھیں۔

کشمیر کے تنازعے کے عاجلانہ آخری حل کی توقع یا تو موجودہ حقائق کے بارے میں شدید غلط فہمی پر مبنی ہے یا اس مفروضے پر مبنی ہے کہ پاکستان کا مستقبل اس کے ماضی سے بہتر نہیں ہوگا۔ یہ مفروضہ اتنا مایوس کن اور شکست خوردہ ہے کہ قبول نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارا گذشتہ ایک دو سال کا تجربہ بتاتا ہے کہ بھارت کشمیر کے آخری حل کے لیے ہماری  بے صبری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم سے یک طرفہ رعایتیں حاصل کرے گا۔

سابق سفیر اور خارجہ سیکرٹری اقبال اخوند اپنے مضمونKashmir: denouement or sell out  ( ڈان ‘۲۹ اپریل ۲۰۰۵ء )  میںاپنے شدید اضطراب کا اظہار کرتے ہوئے متنبہ کرتے ہیں کہ جلدی میں کوئی اقدام نہ کریں۔ وہ لکھتے ہیں:

کشمیر کے تنازعے کا معاملہ تو ایک طرف رہا‘ مشرف من موہن سنگھ معاہدہ ایسا ہے جو سیاچن یا بگلیہار یا تنازعے کے دوسرے ضمنی مسائل تک کے بارے میں کچھ نہیں کہتا۔ یہ سری نگر مظفرآباد بس سروس‘ ٹرکوں کے ذریعے تجارت کے اضافے اور منقسم ریاست کے دوسرے علاقوں اور شہروں کے درمیان بھی ایسی ہی سروس کے اجرا کی تجویز دیتا ہے۔ کیا لائن آف کنٹرول کی یہ نرمی (ایک طرح کا جواز فراہم نہ بھی کرے تب بھی) عملاً اس کو استحکام دینے کے مصداق نہیں ہے؟

اس طرح ہمارے آپشن کم ہوجاتے ہیں‘ (اور کافی عرصے سے کم ہیں) کہ اپنی پوزیشن پر کھڑے رہیں یا میدان جیسا بھی ہے‘ اس میں کھیلیں۔ لیکن جب کوئی کشمیر پر ہمارے اصولی مؤقف پر قائم رہنے کی بات کرتا ہے تو اس کے ٹھیک ٹھیک کیا معنی ہوتے ہیں؟مسئلہ کشمیر کا اساسی غیرمتبدل اصول (صرف اس لیے نہیں کہ یہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں لکھا ہوا ہے) حق خود ارادیت کا اصول ہے اور یہ کشمیری عوام کو نظرانداز کر کے کنٹرول لائن پر سمجھوتے کو خارج از بحث قرار دیتا ہے۔ شروع ہی سے بھارت اس بات کے حق میں رہا ہے کہ ’’جس کو ملے وہی پائے‘‘ کے اصول پر تقسیم کرلی جائے لیکن اب اس ملک میں کچھ امن کے حامی ایسے ہیں جو آگے جانے کے لیے تیار ہیں۔ یقینا پاکستان کے پاس کشمیر پر بھارت کے قبضے کو قبول کرنے اور جائز قرار دینے کا کوئی قانونی یا اخلاقی جواز نہیں ہے‘ اور نہ کوئی عملی سیاسی دلیل ہے کہ وہ اپنا حصہ رکھنے کے تبادلے میں ایسا کرے۔

بلاشبہہ معاہدئہ دہلی پر خاصا شور شرابا ہے مگر یہ ماحول دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی اہمیت کے بغیر نہیں ہے جہاں کے عوام جذباتی ہنگامہ آرائی کی لہروں کے ساتھ ایک انتہا سے دوسری انتہا کی طرف بہہ جانے کے عادی ہیں۔ کشمیر میں بس سروس اور تجارتی راستے کھولنے سے کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ یہ ایسا آغاز ہیں جن کے حتمی نتیجے کی کوئی پیشن گوئی نہیں کی جاسکتی۔ منقسم کشمیریوں کا باہم ملنا جلنا خود اپنی ایک حرکیات پیدا کرسکتا ہے۔ بھارت کو بھی زمینی حقیقت کا سامنا کرنا ہوگا اور اس کے مضمرات کو تسلیم کرنا ہوگا۔ بھارت کا کشمیر کو ۵۰برس سے اپنا اٹوٹ انگ کہنے نے اس حقیقت کو تبدیل نہیں کیا ہے کہ بھارت کا کشمیر پر قبضہ ہمیشہ کی طرح غیریقینی رہے گا۔

کسی بھی صورت میں کشمیر پر پیش رفت خط مستقیم پر نہیں ہوگی۔ یہ تسلیم کرنا چاہیے بھارت سے مذاکرات میں پاکستان کسی ہموار میدان میں نہیں کھیل رہا۔

سفارتی میدان میں آپ کا کھیل کرکٹ نہیں ہوتا۔ آپ اس پر انحصار نہیں کرسکتے کہ کوئی انضمام نامی سفارت کار آخری گیند پر چوکا لگائے اور ٹرافی جیت لائے۔

قائداعظم یونی ورسٹی کے سابق ڈین پروفیسر اعجاز حسین کی بات بھی ریکارڈ پر لانے اور اس پر غوروفکر کی ضرورت ہے‘ وہ لکھتے ہیں:

مشترکہ اعلامیے میں جنگ بندی پر کوئی دفعہ نہیں ہے‘ وادی سے بھارتی افواج کو واپس بلانے پر کوئی وعدہ نہیں ہے اور بھارتی سکیورٹی فورسز کے ریاستی دہشت گردی کے اقدامات کو روکنے کا کوئی وعدہ نہیں ہے۔ اسی طرح اس میں سیاچن‘ سرکریک یا بگلیہار پر کسی پیش قدمی کا کوئی بیان نہیں ہے۔ ان حقائق کے پیش نظر اُمیدوں سے بھی زیادہ کامیابی کے وعدے حیران کن ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ انھوں نے جو مبالغہ آمیز دعویٰ کیا ہے‘ اس کی کیا بنیاد ہے؟ انھوں نے اسے کشمیر کے تنازعے کو حل کرنے کی تلاش میں بھارتی قیادت کے خلوص کے حوالے سے بیان کیا۔ واہ‘ کیا سادگی ہے!

مشترکہ بیان کے مطابق امن کا عمل ناقابلِ واپسی ہے۔ یہ مشرف کے اس سابقہ دعوے سے بہت نیچے اترنا ہے کہ کشمیر کے تنازعے کو حل کرنے میں ناکامی امن کے عمل کو روک دے گا۔ اس پسپائی کے بعد ایک اور پسپائی آئی۔ صدر نے اپنی سابقہ پوزیشن کی جو گذشتہ سال کئی موقعوں پر بیان کی تھی کہ کشمیر کا تنازع حل کرنے کے لیے ایک حتمی تاریخ کا تعین کیا جائے‘ خود ہی تردید کردی۔ ان قلابازیوں پر تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ان کی بھارت پر عنایات کا تسلسل ہے۔ بشمول اقوام متحدہ کی قراردادوں سے دستبرداری‘ کشمیر کے حل کے لیے نارملائزیشن کی اہمیت اور کشمیر میں روا مسلح جدوجہد کو دہشت گردی قرار دینا۔ کہا جا سکتا ہے کہ امن کے عمل کو ناقابلِ واپسی قرار دے کر کشمیر پر یوٹرن کو مکمل کرلیا گیا۔

پس کشمیر کی پالیسی جس پر صدر عمل پیرا ہیں اور جس کی مغرب اور بھارت حمایت کر رہے ہیں‘ امن کے عمل کی کامیابی کے لیے خوش آیند نہیں۔ کشمیر پر کوئی امن دیرپا ہونا ممکن نہیں ہے جو کشمیر پر قومی اتفاق راے کی مضبوط بنیادوں پر نہ ہو۔ صدر کو یاد رکھنا چاہیے کہ کشمیر پاکستان کی کئی حکومتوں کا قبرستان بن چکا ہے۔

فیصلے کی گہڑی

یہ ہے پاکستانی تجربہ کار سفارت کاروں اور دانش وروں کی سوچ جو قوم کی اجتماعی سوچ کی نمایندگی کرتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف اسے یکسرنظرانداز کرکے جس ایجنڈے پر بگٹٹ رواں دواں ہیں‘ وہ صرف ہزیمت اور تباہی کا راستہ ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ان کو اس میں مزید پیش قدمی سے روکا جائے اور قوم اپنے تشخص‘ آزادی‘ اسٹرے ٹیجک مفادات اور اپنے ڈیڑھ کروڑ کشمیری بھائیوں اور بہنوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے کمربستہ ہو۔ جس مشکل مقام پر جنرل صاحب نے ہمیں پہنچا دیا ہے‘ اس کی بڑی وجہ ملک میں فردِ واحد کا اقتدار اور قومی اداروں کے ذریعے اور قوم کو اعتماد میں لے کر قومی امور پر فیصلے نہ کرنے کا رجحان ہے جو ساری خرابیوں کی جڑ ہے۔ یہی جمہوریت اور آمریت کا بنیادی فرق ہے۔ جمہوریت میں اگر ایک طرف دستور کی بالادستی ‘ قانون کی حکمرانی اور قومی احتساب اور جواب دہی کا نظام مؤثر ہوتا ہے تو دوسری طرف فیصلہ سازی کے لیے اداروں پر انحصار کیا جاتا ہے‘ اور بحث و مشاورت کے نتیجے میں قومی امور پر فیصلہ قومی اتفاق راے سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود کشمیر پالیسی کے صحیح خطوط پر مرتب ہونے اور چلائے جانے کا انحصار جمہوریت کی مکمل بحالی اور پارلیمنٹ کی بالادستی میں ہے۔ جنرل صاحب جو کچھ کر رہے ہیں اس میں نہ انھوں نے کابینہ کو اعتماد میں لیا ہے‘ اور نہ پارلیمنٹ کو‘ حتیٰ کہ پارلیمنٹ کی کشمیرکمیٹی تک کو کسی معاملے میں شریکِ مشورہ نہیں کیا گیا۔ بس ایک شخص حالات کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اس پالیسی سے انحراف کر رہا ہے جس پر پوری قوم کا اتفاق رہا ہے اور جو خود دستور میں مرتسم ہے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ ایک بار پھر قوم کے تمام ذمہ دار عناصر پاکستان کی اصولی پالیسی کا اعادہ کریں اور قوم کو بیدار کریں تاکہ انحراف کرنے والے ہر قدم کو روک دیا جائے اور تحریکِ آزادی کشمیر کے شہیدوں کے خون سے بے وفائی نہ کرنے دی جائے ‘خواہ اس کے لیے جدوجہد کتنی ہی طویل اور صبرآزما کیوں نہ ہو۔

سب کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی سرحدی تنازع نہیں جیسا کہ چین اور بھارت کے درمیان ہے۔ ہمارے سامنے اصل ایشو ریاست جموں و کشمیر کے حق خود ارادیت کا ہے جس کی پشت پر انصاف کے مسلمہ اصول‘ بین الاقوامی قانون‘ اقوام متحدہ کی قراردادیں اور جمہوریت کی متفق علیہ روایات ہیں اور جن کا تقاضا ہے کہ ریاست کے ڈیڑھ کروڑ انسان اپنی آزاد مرضی سے اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کریں۔ یہی وہ حق ہے جس کو حاصل کرنے کے لیے وہ جان کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ جغرافیہ‘ تاریخ‘ عقیدہ‘ ثقافت‘ معیشت ہر اعتبار سے ان کی تقدیر پاکستان سے وابستہ ہے اور انھوں نے ہر ممکن طریقے سے اس کا اظہار بھی کردیا ہے خواہ اس کا تعلق گھڑی کے وقت سے ہو‘ یا قومی ترانے سے‘ کھیل سے ہو یا سیاست سے‘ تہواروں سے ہو یا رسوم و رواج سے___ ان کے قومی ہیرو پاکستان کے اکابر ہیں‘ بھارت کے نہیں___  لیکن اس حقیقت کے باوجود پاکستان اور خود اہلِ کشمیر کا مؤقف یہ ہے کہ ان کو اپنی رائے کے اظہار اور اپنے مستقبل کو طے کرنے کا باقاعدہ موقع ملنا چاہیے۔

پاکستان ان کے اس حق کا وکیل ہی نہیں‘ اس پورے معاملے میں ایک بنیادی فریق ہے۔ گوجھگڑا زمین کا نہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے اور اس طرح زمین کا مسئلہ بھی ریاست کے باسیوں کے مسکن ہونے کی حیثیت سے متعلق ہے کہ مکین اور مکان لاینفک ہیں۔ لیکن واضح رہے کہ اصل ایشو بھارت کے ناجائز قبضے سے نجات اور اہلِ کشمیر کا اپنی آزاد مرضی سے تقسیمِ ہند کی اسکیم کے تحت اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا ہے‘ زمین کی بندربانٹ اصل ایشو نہیں۔

پھر یہ بھی ایک مغالطہ ہے کہ کشمیر کے لوگ آسانیاں مانگ رہے ہیں۔ وہ تو اپنی آزادی اور شناخت کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگائے ہوئے ہیں اور روزانہ شہادتیں پیش کر کے اور ہر ہر شہید کی نماز جنازہ میں ہزاروں افراد کی صورت میں خراجِ تحسین پیش کر کے‘ اپنے عزم اور مستقبل پر اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں۔ مسئلہ ریلیف نہیں بھارت کے تسلط سے آزادی ہے۔

پاک بھارت دوستی کی کوئی بھی کوشش اسی وقت مفید ہوسکتی ہے جب وہ عزت اور برابری کے مقام سے ہو اور وہ اسی وقت بارآور ہو سکتی ہے جب اس کا ہدف بنیادی تنازع کے حق وا نصاف کے مطابق طے کیا جانا ہو جو تمام بگاڑ اور تصادم کا باعث رہا ہے۔ جو کچھ اس وقت کیا جا رہا ہے‘ وہ سراب ہے اور دھوکا___  اس سے کبھی بھی حقیقی دوستی جنم نہیں لے سکتی اور نہ کشمیر کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ ہم یہ کہنا بھی اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ حق و انصاف سے ہٹ کر جو بھی عارضی حل تلاش کیا جائے گا‘ وہ مزید تصادم اور تفرق کو جنم دے گا۔ پاکستانی قوم کسی ایسے انتظام کو کبھی قبول نہیں کرے گی جو کشمیری عوام کی تحریک آزادی سے بے وفائی پر مبنی ہو اور محض وقتی مفادات کے حصول کو سب کچھ سمجھ کر کیا گیا ہو۔ نیز کشمیری عوام بھی اپنی جدوجہد کو بے ثمر ہوتا نہیں دیکھ سکتے اور نہ وہ اپنے شہیدوں کے لہو سے غداری کے لیے تیار ہیں۔ ان کی جدوجہد بہرحال جاری رہے گی۔ اس لیے پاکستانی حکمرانوں کو ہمارا مشورہ ہے کہ سراب کی تلاش میں وقت ضائع نہ کریں اور اصل حقائق کی روشنی میں مسائل کے حل کے لیے کوششیں جاری رکھیں۔ سب سے زیادہ اپنی قومی یک جہتی کی فکر کریں اور وسائل کے صحیح استعمال کے ذریعے وہ قوت حاصل کریں جس کے بغیر ہم نہ اپنی آزادی کو محفوظ رکھ سکتے ہیں اور نہ اپنے مظلوم بھائیوں کے لیے حق و انصاف کے حصول کو ممکن بنا سکتے ہیں‘ اس لیے کہ ع

ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات


(کتابچہ دستیاب ہے‘ قیمت: ۵ روپے‘ سیکڑہ پر رعایت۔ منشورات‘ منصورہ‘ لاہور)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جمہوری ممالک میں چار سے پانچ سال ایک ایسی مدت ہے جس میں ایک حکومت یا قیادت کی کارکردگی‘ پالیسیوں کی صحت و عدمِ صحت اور قبولیت یا غیر مقبولیت کو جانچنے کے لیے کافی سمجھا جاتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کو پاکستان کا بلاشرکت غیرے حکمران بنے‘ اب ساڑھے پانچ سال سے زیادہ ہوچکے ہیں۔ اگرچہ ان کی اور ان کے امریکی سرپرستوں کی نگاہیں ۲۰۰۷ء اور ۲۰۱۲ء پر لگی ہوئی ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کے پائوں کے نیچے سے زمین تیزی کے ساتھ سرک رہی ہے۔ جن بلند بانگ دعوئوں کے ساتھ وہ ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو فوج کی طاقت استعمال کرتے ہوئے اقتدار پر قابض ہوئے تھے وہ ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔ ہوا کے رخ کا اندازہ لاکھوں افراد کے چار مظاہروں اور ۲ اپریل کی ملک گیر ہڑتال سے کیا جا سکتا ہے جو ساری سرکاری مخالفت‘ میڈیا کے ہیجانی طوفان‘ ملک کے طول و عرض میں متحدہ مجلس عمل کے ہزاروں کارکنوں کی پیش از ہڑتال گرفتاری اور پیپلز پارٹی کی زبانی ہمدردی لیکن ہڑتال سے مکمل عدم تعاون کے باوجود ایک مکمل اور مؤثر ترین عوامی احتجاج اور مجلس عمل پر عوامی اعتماد کا اظہار تھی۔

یہ عوامی جدوجہد مجلس عمل کی قیادت میں قانون کی پابندی اور جمہوری روایات کے مطابق ملک کی سیاست میں ایک نئی تبدیلی کا پیش خیمہ ہے۔ اس میں مجلس عمل کے کارکنوں کے ساتھ عوام کی بڑھتی ہوئی شرکت زمینی حقائق کی صحیح تصویرکشی کرتے ہیں۔ مجلس عمل نے تمام سیاسی قوتوں کو بشمول مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی اس قومی احتجاج میں شرکت کی دعوت دی لیکن  عمران خان (تحریکِ انصاف) کے سوا کسی نے بھرپور شرکت نہیں کی۔ اس طرح مجلس عمل کو تن تنہا اپنی عوامی قوت اور تائید کا اندازہ کرنے اور اسے کامیابی کے ساتھ متحرک کرنے کا بھی ایک   تاریخی موقع حاصل ہوگیا جس کا اعتراف ان تمام سیاسی تجزیہ نگاروں اور کالم نویسوں نے کیا ہے جو مجلس عمل کے مؤید نہ ہوتے ہوئے بھی سیاسی حقائق کا اعتراف کرنے میں بخل سے کام نہیں لیتے اور جن کا کام بقول سیکرٹری جنرل مسلم لیگ (ق) صرف ’’سرکاری سچ‘‘ کی تشہیر نہیں۔ رہا مجلس عمل کے احتجاج کا پُرامن اور جمہوری کردار اور منظم انداز کار‘ تو اس کا اعتراف تو جنرل پرویز مشرف تک کو  رائٹر کے نمایندے کو دیے جانے والے ایک حالیہ انٹرویو میں کرنا پڑا:

ان اجتماعات میں نظم و ضبط کا خیال رکھا گیا۔ (دی نیوز انٹرنیشنل‘ لندن‘ ۵اپریل ۲۰۰۵ئ‘ ص ۳)

حقیقی جمہوریت کے احیا‘ پاکستان کی آزادی اور حاکمیت کے دفاع‘ اس کے اسلامی تہذیبی تشخص کی حفاظت اور عوام کے مسائل کے حل اور مصائب سے نجات کے لیے جو عوامی تحریک اب شروع ہوگئی ہے‘ وہ اگر ایک طرف پاکستان کے مستقبل کے رخ کو متعین کرنے میں تاریخی  سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے تو دوسری طرف اس کے ذریعے وہ ایشوز بھی کھل کر قوم کے سامنے آگئے ہیں جو حکومت اور اس کو چیلنج کرنے والی عوامی قوت (مجلس عمل ) کے درمیان باعث نزاع ہیں۔ چونکہ یہ تحریک اب عوامی احتجاج کے دور میں داخل ہوگئی ہے اور صرف سیاسی کارکن ہی نہیں بلکہ  عام شہری‘ تاجر‘ دانش ور‘ علما اور طلبہ‘ سب اس میں شریک ہو رہے ہیں اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ اس تحریک کے مثبت قومی اہداف کو بالکل وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا جائے اور حکومت کے ترجمان اور ان کے حواری قلم کار حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کر کے اور جھوٹی خبروں سے کنفیوژن پھیلانے کی جو مہم چلا رہے ہیں اس کا پردہ پوری طرح چاک کر دیا جائے ۔

کہا جا رہا ہے کہ وردی کوئی مسئلہ نہیں‘ اصل مسئلہ تو معاشرتی ترقی اور میگا پروجیکٹس کی تکمیل کا ہے اور گویا حزب اختلاف ان کی مخالف ہے‘ جب کہ جنرل پرویز مشرف اور ان کے ساتھی معاشی ترقی‘ ہمسایوں سے دوستی اور عالمی برادری سے ہم آہنگی کے لیے ساری دوڑ دھوپ کر رہے ہیں۔

آیئے اس امر کا جائزہ لیں کہ اصل مسئلہ ہے کیا؟

اقبال اور قائد کا تصور پاکستان

سب سے بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر ہم نے انگریز اور ہندو قیادت دونوں کے خلاف جنگِ آزادی کن مقاصد کے لیے لڑی تھی؟ اگر مسئلہ صرف معاشی ترقی اور میگا پروجیکٹس ہی کا تھا اور عالمی قوتوں سے ہم آہنگی اصل منزل مراد تھی تو پھر برطانیہ سے‘ جو اس وقت کی سوپر پاور تھی‘ اور جس کے استعماری راج کا ہدف ہی ترقی اور مغرب کے نمونے پر ملک کی تعمیر تھا‘ لڑائی کس بات کی تھی؟ ریل کی پٹڑی اور سڑکوں کا جال تو انگریز کے دور میں بچھا دیا گیا تھا۔ صنعتی انقلاب بھی اس دور میں شروع ہوگیا تھا‘ نیا تعلیمی نظام بھی انھی کا مرہونِ منت تھا۔ ان کا دعویٰ تھا ہی یہ کہ ہم ساری دنیا میں ترقی اور تہذیبِ نو کے پرچارک ہیں۔ پھر مخالفت اور تصادم کس لیے تھا؟

حالات کا جتنا بھی تجزیہ کیا جائے‘ یہ بات بالکل نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ اصل لڑائی آزادی‘ حاکمیت‘ اپنے دین‘ اپنی اقدار‘ اپنی تاریخ اور اپنے قومی و ملّی تشخص کی حفاظت اور ترقی کی تھی۔ معاشی ترقی وہی معتبر ہے جو قوم و ملک کی آزادی اور اقدارِ حیات کے مطابق اور ان کو تقویت دینے والی ہو۔ عالمی قوتیں ہوں یا ہمسایہ ممالک‘ سب سے دوستی اور تعاون صرف اس فریم ورک میں مطلوب ہے جس میں ملک و ملّت کی آزادی اور نظریاتی و تہذیبی تشخص مضبوط اور محفوظ ہو۔ صرف معاشی اہداف تو برطانیہ کی حکمرانی میں بھی حاصل ہوسکتے تھے اور آزادی کی صورت میں ملک کی تقسیم کے بغیر بھی مشترک مقاصد کی حیثیت اختیار کر سکتے تھے۔ پاکستان کے قیام کا اصل جواز (raison de'tere) تو یہ صرف یہ تھا کہ نہ صرف ملک آزاد ہو بلکہ مسلمان بھی آزاد ہوں اور وہ اپنے دین و ایمان‘ اپنے اصول و اقدار اور اپنے تہذیبی تشخص کی مناسبت سے ترقی کی منزلیں طے کر سکیں۔

علامہ اقبال ؒ نے آخری زمانے (مارچ ۱۹۳۸ئ) میں واضح کر دیا تھا کہ انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے سے ہمارا مقصد یہی نہیں کہ ہم فقط آزاد ہو جائیں‘ بلکہ ہمارا اول مقصد یہ ہے کہ اس آزادی کا نتیجہ اسلام کی بنیاد پر ایک دارالسلام کی صورت میں ظاہر ہو اور مسلمان طاقت ور بن جائیں لیکن اگر یہ نتیجہ حاصل نہ ہو سکے تو پھر ایسی آزادی پر ہزار مرتبہ لعنت۔ (مقالاتِ اقبال، مرتبہ عبدالاحد معین‘ ص ۳۳۷-۳۳۸)

قائداعظمؒ نے قرارداد لاہور سے بھی پہلے صاف لفظوں میں کہا تھا کہ:

وہ لیگ کے جھنڈے تلے جمع ہوجائیں اور اپنے مطالبات پیش کرنے میں خوف و خطر کو پاس نہ پھٹکنے دیں۔ نیز اپنے ملّی‘ مذہبی‘ معاشرتی اور روایاتی حقوق کی حفاظت کے لیے نبردآزما رہیں۔ میں کانگریس سے یا ہندوئوں سے مساوات کے اصول پر آبرومندانہ مصالحت کرنے پر آمادہ ہوں لیکن میں مسلم قوم کو ہندوئوں یا کانگریس کا حاشیہ بردار نہیں بنا سکتا۔ (خطاب جبل پور‘ ۷ جنوری ۱۹۳۸ئ‘ بحوالہ گفتار قائداعظم‘ مرتبہ احمد سعید‘ قومی کمیشن براے تحقیق تاریخ و ثقافت‘ اسلام آباد‘ ص ۱۹۱)

علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے قائداعظمؒ نے اقتصادی ترقی کے سراب کا پردہ چاک کرتے ہوئے بتایا کہ ہندو قیادت کا مقصد مسلمانوں کو دینی‘ اخلاقی اور تہذیبی اعتبار سے اپنا محکوم بنانا ہے۔ انھوں نے فرمایا:

وہ ہمیں بندے ماترم جیسے مشرکانہ اور ملحدانہ گیت گانے پر مجبور کر رہی ہے۔ مجھے بحیثیت مسلمان‘ دوسری اقوام کے تمدن‘ معاشرت اور تہذیب کا پورا احترام ہے لیکن مجھے اپنے اسلامی کلچر اور تہذیب سے بہت زیادہ محبت ہے۔ میں ہرگز نہیں چاہتا کہ ہماری آنے والی نسلیں اسلامی تمدن اور فلسفے سے بالکل بے بہرہ ہوں۔ مسلمانوں کے لیے یہ امر قطعاً ناقابلِ قبول ہے اور ناقابلِ برداشت ہے کہ وہ اپنی حیات اور ممات‘ زبان‘ تہذیب و تمدن ایک ایسی اکثریت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں کہ جس کا مذہب‘ تہذیب اور تمدن اس سے قطعاً مختلف ہے اور جن کا موجودہ سلوک مسلمانوں کے ساتھ نہایت برا ہے بلکہ مذموم اور غیرمنصفانہ ہے۔ (گفتار قائداعظم‘ ص ۲۰۶)

میمن چیمبر آف کامرس اور میمن مرچنٹس ایسوسی ایشن کے ایک استقبالیے میں قائداعظمؒ نے وضاحت سے اپنا مؤقف پیش کرتے ہوئے فرمایا تھا:

مسلمانوں کے لیے پروگرام تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے پاس تو تیرہ سو برس سے ایک مکمل پروگرام موجود ہے اور وہ قرآن پاک ہے۔ قرآن پاک ہی میں ہماری اقتصادی‘ تمدنی و معاشرتی اصلاح و ترقی کے علاوہ سیاسی پروگرام بھی موجود ہے۔ میرا اس قانونِ الٰہیہ پر ایمان ہے اور جو میں آزادی کا طالب ہوں وہ اسی کلامِ الٰہی کی تعمیل ہے۔ قرآن پاک ہمیں تین چیزوں کی ہدایت کرتا ہے: آزادی‘ مساوات اور اخوت۔ بحیثیت ایک مسلمان کے‘ میں بھی انھی تین چیزوں کے حصول کا مستحق ہوں۔ تعلیمِ قرآن میں ہی ہماری نجات ہے اور اس کے ذریعے سے ہم ترقی کے تمام مدارج طے کر سکتے ہیں۔ (ایضاً،ص ۲۱۶)

قراردادِ لاہور کے بعد ۲۱ دسمبر ۱۹۴۰ء کو احمدآباد میں خطاب کرتے ہوئے قائداعظمؒ نے فرمایا:

دونوں قوموں کی آزادی کے لیے پاکستان بہترین ذریعہ ہے۔ مسلمانوں کو ہندو صوبوں میں پِس جانے کا خوف نہیں کرنا چاہیے۔ مسلم اقلیت والے صوبوں کے مسلمانوں کو اپنی تقدیر کا مقابلہ کرنا چاہیے لیکن مسلم اکثریت والے صوبوں کو آزادی دلانی چاہیے تاکہ وہ اسلامی شریعت کے مطابق اپنی زندگی بسر کر سکیں۔ (ایضاً،ص ۲۵۴)

حیدر آباد دکن میں راک لینڈ کے سرکاری مہمان خانے میں نوجوانوں کے اجتماع میں سوال جواب کی محفل میں پاکستان کے لیے اسلامی نظام کی بحث میں بڑے بنیادی نکات کی وضاحت کی:

سوال: مذہب اور مذہبی حکومت کے کیا لوازم ہیں؟

قائداعظم:جب میں انگریزی زبان میں مذہب کا لفظ سنتا ہوں تو اس زبان اور قوم کے محاورے کے مطابق میرا ذہن خدا اور بندے کی باہمی نسبتوں اور رابطے کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ میں بخوبی جانتا ہوں کہ اسلام اور مسلمانوں کے نزدیک مذہب کا یہ محدود اور مقید مفہوم یا تصور  نہیں ہے۔ میں نہ تو کوئی مولوی ہوں نہ مُلّا‘ نہ مجھے دینیات میں مہارت کا دعویٰ ہے‘ البتہ میں نے قرآن مجید اور اسلامی قوانین کے مطالعے کی اپنے تئیں کوشش کی ہے۔ اس عظیم الشان کتاب میں اسلامی زندگی سے متعلق ہدایات کے باب میں زندگی کے روحانی پہلو‘ معاشرت‘ سیاست‘ معیشت‘ غرض انسانی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جو قرآن مجید کی تعلیمات کے احاطے سے باہر ہو۔ قرآن کی اصولی ہدایات اور اس کا سیاسی طریقۂ کار نہ صرف مسلمانوں کے لیے بہترین ہے بلکہ اسلامی سلطنت میں غیرمسلموں کے لیے بھی سلوک اور آئینی تحفظ کا اس سے بہتر تصور ممکن نہیں۔

س: ترکی ایک سیکولر اسٹیٹ ہے۔ اسلامی حکومت اس سے مختلف ہے۔ آپ کی کیا رائے ہے؟

قائداعظم: ترکی حکومت پر میری نظر میں سیکولر اسٹیٹ کی سیاسی اصطلاح اپنے پورے مفہوم میں منطبق نہیں ہوتی۔ اب اسلامی حکومت کے تصور کا یہ بنیادی امتیاز پیش نظر رہے کہ اطاعت اور وفاکیشی کا مرجع خدا کی ذات ہے اس لیے تعمیل کا مرکز قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں۔ اسلام میں اصلاً کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ کسی پارلیمان کی‘ نہ کسی شخص یا ادارے کی۔ قرآن کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کے حدود متعین کرتے ہیں۔ اسلامی حکومت دوسرے الفاظ میں قرآنی اصول اور احکام کی حکمرانی ہے۔ آپ جس نوعیت کی بھی حکمرانی چاہیں‘ بہرحال آپ کو سلطنت اور علاقے کی ضرورت ہے۔

س: وہ سلطنت ہمیں ہند میں کیسے نصیب ہوسکتی ہے؟

قائداعظم: مسلم لیگ‘ اس کی تنظیم‘ اس کی جدوجہد‘ اس کا رخ اور اس کی راہ___ سب اسی سوال کے جواب ہیں۔ (ایضاً،ص ۲۶۱-۲۶۲)

ہم نے قدرے تفصیل سے قائداعظمؒ کے تصور پاکستان کے چند پہلو اس لیے بیان کیے ہیں کہ یہ بات واضح ہو جائے کہ بلاشبہہ ہمیں بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے معاشی استحکام مطلوب ہے لیکن اصل ہدف مسلم اُمت کی آزادی‘ حاکمیت اور تہذیبی و دینی تشخص کی حفاظت اور ترقی ہے۔ معاشی ترقی اسی کُل کے ایک حصے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے آج بھی پاکستان کی بقا‘ ترقی اور استحکام کا انحصار صرف معاشی عوامل پر نہیں بلکہ سیاسی‘ تہذیبی اور معاشی ‘سب عوامل کے ہم آہنگ اور ہم رنگ ہونے پر ہے۔

جنرل پرویز مشرف کے خلاف جو تحریک آج ملک کے طول و عرض میں پروان چڑھ رہی ہے‘ اس کا تعلق محض ان کی ذات سے نہیں بلکہ اصل چیز وہ نظامِ حکومت‘ وہ طرزِ حکمرانی اور وہ ملکی اور بین الاقوامی پالیسیاں ہیں جن کا وہ عنوان بن گئے ہیں۔ ساڑھے پانچ سال میں ان کے عزائم  کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ اگر ان کے اس نظامِ حکومت کو دو اور دو چار کی طرح واضح الفاظ میں بیان کیا جائے تو اس کے سات اجزا نمایاں ہو کرسامنے آتے ہیں۔ یہ نکات ان کے بیانات ہی نہیں‘ ان کی حکومتی پالیسیوں اور عملی اقدامات سے واضح ہوتے ہیں۔ عوامی احتجاجی تحریک ان ہی کے خلاف ہے۔

m فردِ واحد کی حکومت: ان کے نظامِ حکومت کی پہلی خاصیت فردِ واحد کی حکومت ہے۔ وہ دستور‘ قانون‘ ضابطوں اور روایات کسی کا بھی احترام نہیں کرنا جانتے اور خود اپنے بنائے دستور اور ضابطے کے بھی قائل نہیں۔ انھوں نے شخصی حکمرانی کا راستہ اختیار کیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دستور ایک غیرمتعلق کتاب اور پارلیمنٹ غیر مؤثر ادارہ بن کر رہ گئے ہیں۔ حتیٰ کہ ان کی  اپنی بنائی ہوئی حکومت بھی اس کھیل میں ایک بے بس تماشائی ہے۔ بظاہر وزیراعظم چیف ایگزیکٹو ہے لیکن اس کی عملی حیثیت چیف آبزور (معزز ترین تماشائی) اور من کہ ایک فدوی(most obedient servant) سے زیادہ نہیں۔ پالیسی کے معمولات ہوں‘ یا عالمی رہنمائوں سے مذاکرات اور معاہدات کے معاملات یا نظامِ حکومت کو چلانے کے لیے انتظامی اقدامات‘ حتیٰ کہ معمولی معمولی تقرریاں اور تبادلے___ سب کا انحصار ایک فردِ واحد پر ہے۔ ادارے مضمحل اور غیرمؤثر ہوکر رہ گئے ہیں اور قوانین اور ضابطے کاغذ پر بے جان‘ بے معنی اور بے توقیر الفاظ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ یہ جمہوریت اور اسلامی اصول حکمرانی کی ضد ہے اور موجودہ احتجاجی تحریک کا پہلا ہدف  اس شخصی حکمرانی کو چیلنج کر کے دستور‘ قانون اور اداروں کی بالادستی کا قیام ہے۔

  • فوج کی بالادستی: دوسرا نکتہ ملک کے نظامِ حکمرانی میں دستور کے مطابق سیاسی اور سول قوتوں کی بالادستی کا قیام ہے۔ وردی دراصل عنوان ہے ملک کے سیاسی نظام پر فوجی قیادت کے غیرقانونی تسلط کا۔ مخالفت وردی کی نہیں‘ وردی کے غلط استعمال کی ہے۔ فوج کی وردی فوج کی قیادت اور سپاہ کو زیب دیتی ہے۔ مملکت کی صدارت اور حکمرانی پر فائز تمام افراد کے لیے ضروری ہے کہ وہ دستور کے مطابق جمہوری ذرائع سے برسرِاقتدار آئیں اور ان اوصاف کے حامل ہوں جو دستور نے بیان کیے ہیں۔

دستور نے فوج کے تمام افسروں اورجوانوں کے لیے لازم کیا ہے کہ وہ سیاست میں ملوث نہ ہوں اور فوج پوری قوم کی معتمد علیہ اور صرف اور صرف دفاع وطن کے لیے مخصوص ہو۔ فوج کی قیادت کی تربیت اس خاصی قسم کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے ہوتی ہے اور وہ سیاست اور نظامِ حکمرانی کو چلانے کی اہلیت اور ذہنیت دونوں سے عاری ہوتے ہیں۔ پھر فوج کے سیاست میں آجانے سے وہ ایک متنازعہ قوت بن جاتی ہے جس سے اس کی دفاعی صلاحیت بری طرح مجروح ہوتی ہے۔ جنرل مشرف نے جو پالیسی اختیار کی ہے‘ اس کی وجہ سے فوج کا عمل دخل سیاست اور حکمرانی کے ہر شعبے میں اس طرح ہوگیا ہے کہ اب ان تمام میدانوں میں اسے حریف تصور کیا جانے لگا ہے۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ خطرناک کیفیت پیدا ہو رہی ہے کہ عوام چند جرنیلوںہی کو ہدف تنقید و ملامت نہیں بنا رہے بلکہ فوج بحیثیت ایک ادارے کے اپنی عزت و احترام کھو رہی ہے اور اس کے خلاف بے اعتمادی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اب اس کی طرف نگاہیں قوم اور وطن کے محافظ کی حیثیت سے نہیں اٹھ رہیں۔ وہ بگاڑ اور لوٹ کھسوٹ میں شریک اداروں میں ایک   شریک کار کی حیثیت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ یہ صورت حال دفاع وطن اور خود فوج کی عزت اور وقار کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ وردی پر اصرار کرکے جنرل پرویز مشرف نے اپنی ساکھ ہی کو خاک میں نہیں ملایا‘پوری فوج کے وقار اور عزت کو بھی پامال کیا ہے۔ جس طمطراق سے وہ دفاعی حصار میں منعقد کیے جانے والے سیاسی جلسوں میں فوجی وردی میں  شرکت کر رہے ہیں اور ایک مخصوص سیاسی ٹولے کے لیے مہم چلا رہے ہیں‘ اس نے فوج کو بحیثیت ادارہ‘ سیاست کی دلدل میں گھسیٹ لیا ہے اور یہ مقدس وردی اس بری طرح داغ دار کر دی گئی ہے کہ اسے محض فوجی وردی قرار دینا ایک  سنگین مذاق بن گیا ہے۔

جمہوری احتجاجی تحریک کا دوسرا ہدف فوج کو ایک بار پھر ایک مضبوط اور مؤثر دفاعی ادارہ بنانا‘ اسے سیاست کی آلایش سے پاک کرنا‘ اور پورے فوجی نظام کو دستور کے مطابق سول نظام کے تابع اور اس کا معاون بنانا ہے‘ حکمران رکھنا نہیں۔

  • قومی وقار کی پامالی: جنرل پرویز مشرف یہ کہتے ہوئے آئے تھے کہ قومی وقار اور عزت کو بحال کریں گے لیکن عملاً صورتِ حال یہ ہے کہ ان ساڑھے پانچ سالوں میں اور خصوصیت سے نائن الیون کے بعد کے ان کے اقدامات اور پالیسیوں کے نتیجے میں پاکستان امریکا کا     تابع مہمل بن گیا ہے۔ دنیا بھر میں آج امریکا کی غیرمنصفانہ اور ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف نفرت کا لاوا پک رہا ہے۔ مغربی دنیا میں ۷۰سے ۸۰ فی صد عوام اور عالم اسلام میں ۹۰ سے ۹۵ فی صد آبادی اسے ایک سامراجی قوت‘ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نبردآزما ایک جارح فریق اور عالمی امن کو تہ و بالا کرنے اور انصاف اور انسانی حقوق کو پامال کرنے والی ایک استبدادی طاقت قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان کی حکومت ’دہشت گردی‘ کے خلاف امریکی جنگ میں اپنے کردار پر اتنا فخر کررہی ہے کہ اسے‘ خصوصیت سے جنرل پرویز مشرف کو امریکا کے سب سے تابع دار حلیف اور خدمت گزار کی حیثیت سے دیکھا جا رہا ہے۔ پوری اُمت مسلمہ کی نگاہوں میں ہم نفرت اور حقارت کا ہدف بن گئے ہیں۔ دوسری طرف اس کے نتیجے میں ملک میں بدامنی اور بے چینی پھیل رہی ہے۔ تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد امریکی اور دوسرے اتحادی سفارت خانوں کو  معرضِ خطر میں دکھایا جاتا ہے اور پاکستان سفر کرنے والوں کے لیے تنبیہ جاری کی جاتی ہے۔

کبھی پاکستان کو عالم اسلام میں عزت اور وقار کا مقام حاصل تھا اور آج عالم اسلام کے عوام پاکستان کی قیادت کو صرف امریکا کا بغل بچہ سمجھ رہے ہیں۔ ہماری خارجہ پالیسی جتنی بے آبرو آج ہے‘ اتنی کبھی نہ تھی۔ اور اب تو صاف کہا جا رہا ہے کہ ہماری کوئی خارجہ پالیسی نہیں‘ ہم اپنے  قومی مفادات کی قیمت پر بھی امریکا کے مفادات بخوشی پورا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ہمیں بحیثیت قوم اس کے کارندے کا کردار ادا کرنے میں کوئی تکلف نہیں۔ بھارت سے دوستی بھی امریکا کے زیرہدایت کی جارہی ہے‘ اور عوامی ردعمل جاننے کے لیے اسرائیل کو تسلیم کرنے تک کے محاسے (feeler) اس کے اشارے پر دیے جا رہے ہیں۔ ایران پر امریکی دبائو میں ہم بھی کردار ادا کررہے ہیں اور نوبت بہ اینجا رسید کہ یہ تک کہہ رہے کہ ایک ہمسایہ مسلمان ملک پر ایک صریح ظالمانہ حملے کی صورت میں ہم مظلوم کا ساتھ دینے والے نہیں بلکہ خاموش تماشائی ہوں گے جس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ جب کل یہی کچھ ہمارے ساتھ ہو تو کوئی ہمارے حق میں آواز اٹھانے والا بھی نہ ہو۔ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!

اسلام کی ’روشن خیال‘ تعبیر

بات صرف سیاسی آزادی اور حاکمیت کے باب میں سمجھوتے تک محدود نہیں‘ اس دورحکومت میں خطرناک رجحانات کو ہوا دی جا رہی ہے: نظریاتی انتشار‘ دو قومی نظریے کے بارے میں شدید ژولیدہ فکری و مغرب کی آبرو باختہ تہذیب و ثقافت کا فروغ‘ بھارت کی مشرکانہ اور ہندو تہذیبی یلغار کے لیے خوش آمدید کا رویہ___ یہ سب باتیں پاکستان کے وجود اور اس کی تہذیبی شناخت کے لیے شدید خطرے کا باعث ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ مسلم لیگ (ق) کی قیادت عام حالات میں اسلام اور مسلمانوں کی اقدار ہی کی باتیں کیا کرتی تھی‘ اب وہ بھی بھارت کے ساتھ مشترک تہذیب کے راگ الاپ رہی ہے۔ کوئی مشترک پنجابی تہذیب کی بات کرتا ہے تو کوئی اپنے ماتھے پر تلک لگاکر‘ ہندو جنونیوں کے لیڈر شری ایل کے ایڈوانی کو لاہور کے قلعے میں مندر کا سنگِ بنیاد رکھنے کی دعوت دے رہا ہے    ؎

ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں

تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں

اسی لَے میں ایک آواز ’’اعتدال پسندی اور روشن خیالی‘‘ کی بلند کی جارہی ہے جس کے نام پر کبھی داڑھی اور حجاب کا مذاق اڑایا جاتا ہے‘ کبھی چوروں کے ہاتھ کاٹنے کو وحشت اور ظلم   قرار دیا جاتا ہے‘ کبھی حدود قوانین کو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے تو کبھی توہین رسالتؐ کا قانون کانٹا   بن کر چبھنے لگتا ہے۔ کبھی بسنت کے نام پر شراب و شاہد اور فحاشی کا بازار گرم کیا جاتا ہے‘ کبھی   مخلوط میراتھن ریس کا ڈراما رچایا جاتا ہے‘ کبھی دینی تعلیم اور مدارس کو زیرِعتاب لایا جاتا ہے اور کبھی انتہاپسندی کے نام پر ہر اصول و ضابطے اور تمام اقدار و روایات کو ہدفِ تنقید بنایا جاتا ہے اور   سمجھا جاتا ہے کہ ترقی نام ہے بے حجابی‘ عریانی اور فحاشی کو فروغ دینے کا۔

یہ سب کچھ اقبال اور قائد اعظم کے تصورِجدیدیت کے نام پر کیا جا رہا ہے حالانکہ قائداعظم نے جس پاکستان کے لیے جدوجہد کی تھی اور مسلمانوں نے قربانیاں دی تھیں وہ اسلامی تہذیب و معاشرت کی حفاظت اور فروغ کے ہدف کے لیے تھی‘ مغربی تہذیب اور ہندو ثقافت کے فروغ کے لیے نہیں۔ اور رہا اقبال‘ تو اس نے تو ساری زندگی ہی جس کارعظیم کے لیے وقف کی اس میں ترقی اور روشن خیالی کے اس فتنے کا پردہ چاک کرنے کو مرکزیت حاصل تھی۔ جاوید نامہ میں کس   بالغ نظری اور کس صاف گوئی اور راست فکری کے ساتھ وہ کہتا ہے:

شرق را از خود برد تقلیدِ غرب

باید ایں اقوام را تنقیدِ غرب

قوتِ مغرب نہ از  چنگ و رباب

نے زرقصِ دخترانِ بے حجاب

نے ز سحرِ ساحرانِ لالہ روست

نے ز عریاں ساق ونے از قطعِ موست

محکمی او را نہ از لا دینی است

نے فروغش از خطِ لاطینی است

حکمت از قطع و بریدِ جامہ نیست

مانعِ علم و ہنر عمّامہ نیست

علم و فن را اے جوانِ شوخ و شنگ

مغز می باید نہ ملبوسِ فرنگ

اندریں رہ جز نگہ مطلوب نیست

ایں کُلہ یا آں کُلہ مطلوب نیست

فکرِ چالا کے اگر داری بس است

طبعِ درّا کے اگر داری بس است

گر کسے شبہا خورد دودِ چراغ

گیرد از علم و فن و حکمت سراغ

ملکِ معنی کس حدِ او را نہ بست

بے جہادِ پیہمے ناید بدست

مشرق کو مغرب کی تقلید نے اپنا آپ بھلا دیا ہے۔ ان اقوامِ مشرق کو چاہیے کہ وہ مغرب کو تنقید کی نظر سے دیکھیں۔ مغرب کی قوت چنگ و رباب سے نہیں‘ نہ یہ بے پردہ لڑکیوں کے رقص کی وجہ سے ہے۔ نہ یہ سرخ چہرہ‘ محبوبوں کے جادو کی وجہ سے نہ یہ ان کی عورتوں کی ننگی پنڈلیوں اور بال کٹانے سے ہے۔ نہ اس کا استحکام لادینی کی وجہ سے ہے اور نہ اس کی ترقی رومن رسم الخط کے باعث ہے۔ افرنگ کی قوت ان کے علم اور فن کے سبب سے ہے۔ ان کا چراغ اسی آگ سے روشن ہے۔ ان کی حکمت لباس کی قطع و برید کے سبب سے نہیں‘ عمامہ علم و ہنر سے منع نہیں کرتا۔ اے شوخ و شنگ جوان علم و فن کے لیے مغز چاہیے نہ کہ مغربی لباس۔ اس راہ میں صرف نگاہ مطلوب ہے‘ یہ ٹوپی یا وہ ٹوپی مطلوب نہیں۔ اگر تیرے اندر زود و رس فکر اور تیزبین طبع ہے تو یہ دونوں چیزیں علم و فن کے لیے کافی ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنی راتیں فکر اور مطالعہ میں بسر کرتا ہے تو وہ علم و فن اور حکمت کا سراغ پالیتا ہے۔ معانی کی سلطنت جس کی حدود کا تعین کوئی نہیں کرسکا‘ کوشش پیہم کے بغیر ہاتھ نہیں آتی۔

آج کی جمہوری تحریک کا چوتھا ہدف پاکستان کی نظریاتی شناخت کا تحفظ اور اسلامی تہذیب و ثقافت پر اس حکومت کی سرپرستی میں پروان چڑھنے والی تہذیبی اور تمدنی یلغار کی بھرپور مزاحمت اور پاکستان کے اصل تصور کے مطابق اس کی تعمیرنو کے لیے اجتماعی جدوجہد اور نئی قیادت کو بروے کار لانے کی کوشش ہے۔

بہارت سے دوستی لیکن کس قیمت پر؟

بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے نام پر قومی غیرت اور پاکستان کے حقیقی مفادات کی قیمت پر بنیادی پالیسی کے معاملات میں ایسی قلابازیاں (U-turns) کھائی جارہی ہیں جن کے نتیجے میں نہ صرف ملک کی سلامتی اور استحکام معرضِ خطر میں ہے بلکہ پورے علاقے کا نقشہ ہی تہ و بالا ہوسکتا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ محض کوئی سرحدی تنازع نہیں‘ یہ ڈیڑھ کروڑ انسانوں کی آزادی اور       حقِ خودارادیت کا مسئلہ ہے اور پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات کے ساتھ ساتھ تقسیمِ ہند کے نامکمل ایجنڈے کا حصہ ہے۔ کسی فردِ واحد کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اسے اپنے کھلنڈرانہ رویوں اور اپنی طالع آزمائیوں کا نشانہ بنائے۔ کسی شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ قوم کے تاریخی موقف کو محض اپنے زعم میں تبدیل کر دے۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں جہاں ایک اخلاقی اور قانونی معاہدہ ہیں‘ وہیں وہ ایک عالمی میثاق کی حیثیت رکھتی ہیں جس کے تین بنیادی فریق ہیں: پاکستان‘ بھارت اور جموں و کشمیر کے عوام۔ اقوام متحدہ اور پوری عالمی برادری اس میثاق کی ضامن ہے۔ تعجب کا مقام ہے کہ ایک فوجی جسے عالمی سفارت کاری اور بین الاقوامی قانون اور آداب کے باب میں کوئی مہارت حاصل نہیں‘ کسی مشورے اور مجاز اداروں کے کسی فیصلے کے بغیر‘ ترنگ میں آکر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے بارے میں عالمی میڈیا کے سامنے یہ کہنے کی جسارت کرتا ہے کہ انھیں ایک طرف رکھا (set aside) جاسکتا ہے۔ صدافسوس یہ ہے کہ ایسا کہنے والے کا کوئی احتساب نہیں ہوتا‘ اور اقتدار کے پجاری نہ صرف اس کی تاویلیں کرنے لگتے ہیں بلکہ پوری کشمیر پالیسی کا رخ ہی بدل دیتے ہیں۔

اس قیادت کی سیاسی سوجھ بوجھ کے بارے میں کیا کہا جائے جو اسی پسپائی‘ عاقبت نااندیشی اور قومی مفادات سے بے وفائی کو اپنی ’’جرأت اور بہادری‘‘ کا نام دیتی ہے اور پھر خود اپنی تعریف کے راگ الاپتی ہے۔ ’’جرأت و فراست‘‘ کا عالم یہ ہے کہ جب امریکا بہادر کہتا ہے کہ ہمارا ساتھ دو‘ ورنہ ہماری دشمنی کے لیے تیار ہوجائو تو غیر مشروط ہتھیار ڈال دیتی ہے۔ لبنان اور شمالی کوریا جیسے کمزور اور چھوٹے ممالک سفارت کاری میں جوہر دکھاتے ہیں‘ ہم اس کے گردِراہ کو بھی نہیں پاسکتے۔ ۱۹۷۱ء کی شکست کے بعد بھی‘ شملہ معاہدے کے موقع پر سیاسی قیادت نہ صرف اقوام متحدہ کے چارٹر اور اس کے اصولوں کا ذکر شامل کرا لیتی ہے بلکہ جو بات بھی کرتی ہے وہ ’’دونوں حکومتوں کے اصولی مؤقف پر کسی اثر کے بغیر‘‘کے فریم ورک میں کرتی ہے اور کشمیر کے مسئلے کے آخری حل (final solution) کو ایجنڈے میں رکھتی ہے۔ لیکن ہمارے فوجی حکمران ان تمام قانونی اور سفارتی نزاکتوں کا کوئی ادراک نہیں رکھتے اور بس جرأت کا صرف یہ مفہوم سمجھتے ہیں کہ مستعدی سے دوسروں کے مطالبات کے آگے سپر ڈال دیں اور اپنے مؤقف کو چشم زدن میں ترک کر دیں۔

جمہوری جدوجہد کا پانچواں ہدف کشمیر کے معاملے میں قوم کے جذبات اور عزائم اور پاکستان کے حقیقی مفادات کی روشنی میں ایک ایسے محکم اور مبنی برحق موقف کا اعادہ ہے جو جموں و کشمیر کے عوام کے عزائم اور اہداف سے مطابقت رکھتی ہو‘ جو ان کی تاریخی جدوجہد کی قربانیوں کی     لاج رکھنے والی ہو اور جو پاکستان اور جموں و کشمیر کے عوام کے بہترین مفاد میں ہو۔ پاکستانی قوم بھارت سے دوستی ضرور چاہتی ہے لیکن غیرت اور ملکی اور ملّی مفادات پر کوئی سمجھوتہ کیے بغیر۔

m غربت اور مھنگائی: عوامی احتجاج کا ایک اور ہدف وہ معاشی مشکلات ہیں جو اس حکومت کی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں اور جن کی وجہ سے عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ زرِمبادلہ کے ذخیرے میں اضافہ بجا‘ لیکن جس زرمبادلہ کا کوئی فائدہ عوام کو اور خصوصیت سے مجبور اور    پسے ہوئے طبقات کو نہیں اس کا کیا حاصل؟ غربت کی شرح بڑھ رہی ہے اور آج ۵ کروڑ سے زیادہ افراد دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔ اگر ۱۹۹۰ء میں خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والی آبادی  کُل آبادی کا ۲۰-۲۲ فی صد تھی تو ۲۰۰۴ء میں ان کی تعداد ۳۲-۳۴ فی صد ہوگئی ہے۔ اگر ۱۹۹۹ء میں بے روزگاری کا تناسب صرف ۵ فی صد تھا تو ۲۰۰۴ء میں وہ بڑھ کر ۸ فی صد سے بڑھ گیا ہے۔ تیل اور گیس کی قیمتوں میں ان پانچ سالوں میں ۸۰ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ پٹرول ۱۹۹۹ء میں ۲۶ روپے لٹر تھا جو آج ۴۶ روپے لٹر ہے۔ آٹا ۹روپے کلو تھا‘ اب ۱۹ روپے کلو ہے۔ چینی ۱۳ روپے کلو تھی ‘   اب ۲۰ روپے کلو ہے۔ عوام چیخ رہے ہیں‘ اور جنرل پرویز مشرف اور ان کے ارب پتی معاشی مینیجر مبادلہ خارجہ کے ذخائر کے اضافے پر شادیانے بجا رہے ہیں اور کل تک جس اسٹاک ایکسچینج کی ہوش ربا ترقی پر نازاں تھے‘ اب مہینے بھر میں ہی اس میں ۴۰ فی صد کمی پر بغلیں جھانک رہے ہیں۔ جنرل مشرف اور ان کی حکومت بے شک ’ابن مریم‘ ہونے کا دعویٰ کریں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ عوام کے دکھوں کا مداوا کون کرے‘ ان کے زخموں پر مرہم کا پھاہا کون رکھے؟

عوامی جدوجہد کا ایک اہم ہدف اس معاشی استحصال اور ظلم کا خاتمہ اور ملک کی معاشی ترقی کا وہ آہنگ اختیار کرنا ہے جس کے نتیجے میں ترقی کے ثمرات عوام تک پہنچ سکیں‘ بے روزگاری ختم ہوسکے‘ مہنگائی کا عفریت قابو میں لایا جاسکے‘ دولت کی غیر مساویانہ تقسیم کو حدود کا پابند کیا جا سکے۔ اشیاے ضرورت عام آدمی کی دسترس میں ہوں‘ معاشی ترقی کے مواقع سب کو حاصل ہوں۔

  • صوبوں کی بے اطمینانی: جنرل مشرف نے اکتوبر ۹۹ء کے خطاب میں ایک ہدف صوبوں کے درمیان ہم آہنگی اور مرکز اور صوبوں کے تعلقات میں سدھار کو قرار دیا تھا مگر آج مرکز اور صوبوں میں جتنا بُعد ہے اور چھوٹے صوبے جس بے چینی اور اضطراب میں مبتلا ہیں‘ وہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے پہلے کے پُرآشوب حالات سے گہری مماثلت رکھتا ہے اور تمام  محبِّ وطن عناصر کے لیے شدید پریشانی کا باعث ہے۔ مشترکہ مفادات کی کونسل ایک دستوری ادارہ ہے‘ اس کا ایک بھی اجلاس گذشتہ پانچ سال میں نہیں ہوا۔ نیشنل فنانس ایوارڈ پر صوبوں کے مالیات اور ترقی کا انحصار ہے‘ اس پانچ سال میں کوئی ایوارڈ نہیں دیا جاسکا۔ صوبہ سرحد اپنے حق کے لیے  چیخ رہا ہے‘ بلوچستان کے عوام محرومیوں اور امتیازی سلوک کا شکار ہیں‘ سندھ میں بھی بے چینی کی لہریں اٹھ رہی ہیں۔ پانی کی تقسیم اور آبی ذخائر کی تعمیر کے مسئلے کو اتنا الجھا دیا گیا ہے کہ اب وہ ایک فنی مسئلے سے بڑھ کر ایک پیچیدہ سیاسی مسئلہ بن گیا ہے۔ شمالی علاقہ جات اور بلوچستان کے حساس علاقوں میں تصادم کی آگ پارلیمانی کمیٹی بجھانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن جنرل صاحب کے اندازِکلام میں کوئی فرق نہیں اور وہ اپنے  اذیت ناک اور توہین آمیز لب و لہجے میں کوئی تبدیلی لانے کو تیار نہیں جس کی وجہ سے حالات مزید بگاڑ کی طرف جا رہے ہیں۔ وہ ابھی تک مضبوط مرکز ہی پاکستان کی مضبوطی سمجھتے ہیں‘ جب کہ مضبوط صوبوں اور مطمئن صوبوں کے بغیر پاکستان کی مضبوطی کا تصور ہی ناممکن ہے۔

عوامی جمہوری تحریک کا ایک ہدف حقیقی وفاقی نظام کا قیام اور مرکز اور صوبوں میں اختیارات کی ایسی تقسیم اور اس کا نفاذ ہے جو صوبوں کی مضبوطی اور ترقی کا باعث ہو اور صوبوں کی مضبوطی اور ترقی کے ذریعے پاکستان مضبوط اور مستحکم ہو سکے۔

جو سیاسی تحریک متحدہ مجلس عمل کی قیادت میں مارچ ۲۰۰۵ء میں شروع ہوئی ہے اور جس کو ۲اپریل ۲۰۰۵ء کو ہڑتال نے مہمیز دی ہے وہ انھی اہداف کے حصول کے لیے ہے اور ان کے مکمل حصول تک ان شاء اللہ جاری رہے گی۔

ویب سائٹ پر راے عامہ

یہ اہداف عوام کے اصل جذبات اور عزائم کے آئینہ دار ہیں۔ مجلس عمل نے ان کو زبان دی ہے اور انھیں حاصل کرنے کے لیے جمہوری اور عوامی تحریک شروع کی ہے۔ تاہم یہ بھی ایک چشم کشا حقیقت ہے کہ جس طرح چاروں ملین مارچ اور ۲ اپریل کی ہڑتال میں یہ اہداف اور مقاصد ہرکسی کی زبان پر رہے ہیں‘ ایک تازہ جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ جنرل مشرف کی ذاتی ویب سائٹ پر بھی سوالات کی شکل میں انھی کی بارش ہو رہی ہے اور جنرل صاحب جو الٹے سیدھے جوابات دے رہے ہیں‘ وہ ان کی بوکھلاہٹ کے غماز ہیں۔ دی نیوز انٹرنیشنل لندن میں ۸ اپریل ۲۰۰۵ء کو شائع ہونے والے ایک جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ویب سائٹ پر سب سے زیادہ سوالات اور اعتراضات مہنگائی کے مسئلے پر آئے ہیں اور دوسرے نمبر پر آنے والے سوالات کا تعلق    جنرل صاحب کی نام نہاد ’’روشن خیال اعتدال پسندی‘‘ پر لوگوں کے احساسات اور اضطرابات ہیں۔ تجزیہ نگار لکھتا ہے کہ: جہاں تک روشن خیال اعتدال پسندی کا تعلق ہے‘ بظاہر عوام زیادہ   آزاد روی سے خوش نہیں ہیں جو الیکٹرانک میڈیا کے بعض چینلوں میں ظاہر ہو رہی ہے۔

جنرل صاحب نے اس کے جواب میں کہا ہے کہ وہ خود بھی حد سے زیادہ مغرب زدگی (over westernization) کے حق میں نہیں لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ مسئلہ محض الیکٹرانک میڈیا کا نہیں‘ ان کی ملک گیر پالیسی کا ہے اور پھر اصل مسئلہ حد سے زیادہ مغرب زدگی کا نہیں بلکہ جدیدیت (modernization) کے نام پر مغرب زدگی ہے جو اُمت مسلمہ کے عقیدے‘ تہذیب‘ تاریخ اور روایات کے خلاف ہے اور جسے ایک مفاد پرست طبقہ بیرونی میڈیا‘ این جی اوز اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی معرفت جنرل صاحب کی سرپرستی میں فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔

تیسرے نمبرپر آنے والے سوالات کا تعلق پاکستان کی آزادی اور حاکمیت سے ہے اور عوام نے امریکا کے بڑھتے ہوئے اثرات اور اس کی کاسہ لیسی کو ہدفِ تنقید بنایا ہے۔ چوتھے نمبر پر پاکستان کے نیوکلیر اثاثوں کی حفاظت اور ڈاکٹر عبدالقدیر خاں سے کیے جانے والے سلوک کے بارے میں عوام کا اضطراب ہے۔ جائزے میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ عوام کے ایک حصے کا خیال ہے کہ: Pakistan is selling its sovereignity cheaply (پاکستان اپنی خودمختاری اور حاکمیت کو کوڑیوں کے دام فروخت کر رہا ہے)۔

جنرل صاحب اس پر بہت برافروختہ ہیں اور جس نوعیت کے جوابات دے رہے ہیں  اس میں دلیل سے زیادہ غصہ‘ اور حقائق کی بنیاد پر بات کرنے کے بجاے اپنی ذات پر اعتماد اور بھروسے کا سہارا زیادہ ہے۔ اس ویب سائٹ سے جنرل صاحب یا پالیسی سازی کے ذمہ دار کوئی فائدہ اٹھاتے ہیں یا نہیں‘ لیکن اس سے یہ تو ثابت ہوگیا کہ جو بات ایم ایم اے کے ملین مارچوں میں کہی جا رہی ہے اور جس کا اظہار ۲ اپریل کی عوامی ہڑتال میں ہوا ہے‘ وہی اصل عوامی جذبات‘ احساسات اور مسائل کا آئینہ ہے۔ جنرل صاحب کی ویب سائٹ پر بھی اسی کا پرتو دیکھا جاسکتا ہے۔ اسے دی نیوز کے جائزے میں Let this be a wakeup call for all(اس سے سب لوگوں کی آنکھیں کھل جانا چاہییں)کہا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وی وی آئی پی کلچر سے نکلنے کی ضرورت ہے۔ نقارۂ نقارہ

طلبہ کنونشن : نوشتۂ دیوار

انھی دنوں راے عامہ کا ایک فیصلہ کن اظہار ۹ اپریل ۲۰۰۵ء کو جناح کنونشن سنٹر میں منعقد ہونے والے قومی طلبہ کنونشن میں جنرل مشرف کی موجودگی میں ہوا۔ اس کنونشن کے مقررین اور حاضرین سب چھلنیوں سے گزر کر پہنچے تھے لیکن اس کے باوجود جب کچھ دبنگ طلبہ مقررین نے وردی پر وعدہ خلافی‘ وانا میں ترقیاتی کاموں کے نام پر فوج کے استعمال‘ بلوچستان والوں کو وہاں سے ہِٹ (hit)ہونے کی دھمکی جہاں سے وہ سوچ بھی نہیں سکتے‘ فوج کے اقتدار سنبھالنے‘ اور    بسنت منانے جیسے پروگراموں پر عوام کا نقطۂ نظر پیش کیا تو بھرا ہوا ہال تالیوں سے گونج گونج اٹھا۔ جنرل مشرف نے جواب میں اپنی گھسی پٹی باتیں دہرائیں لیکن وہ بھی جانتے تھے کہ وہ اپنے سوا کسی کو قائل نہیں کررہے۔ اگر اس پر بھی وہ نوشتۂ دیوار نہ پڑھیں تو ان کی بالغ نظری کو کیا کہا جائے۔


متحدہ مجلس عمل نے ایک بڑی قومی خدمت بروقت انجام دی ہے کہ اس نے عظیم عوامی تحریک کے ذریعے قوم کے اصل مسائل اور اس کے حقیقی عزائم اور اہداف پر سب کی توجہ کو مرکوز کیا ہے۔ یہ المیہ ہے کہ بہت سی احزاب اختلاف ساحل سے نظارۂ طوفان کر رہی ہیں اور اپنی اپنی مخصوص ترجیحات میں گرفتار ہیں۔ ملک کی ضرورت آج یہ ہے کہ سب محب وطن اور جمہوری قوتیں مل کر ملک کو بحران سے نکالنے کی اجتماعی جدوجہد کریں اور امریکا کے اس کھیل کا پردہ بھی چاک کردیں کہ جنرل صاحب کسی روشن خیال اعتدال پسندی کے داعی ہیں اور دوسری نام نہاد لبرل قوتوں کو ان کا حلیف ہونا چاہیے۔ آج مسئلہ نام نہاد روشن خیالی اور اعتدال پسندی نہیں‘ یہ تو جنرل صاحب کی انتہاپسندی اور شخصی حکومت کو دوام بخشنے کے لیے محض ایک حربہ اور دھوکا ہے۔ پاکستان کی بنیاد اور پاکستان کے دستور کے ستون اسلام‘ پارلیمانی جمہوریت اور اصول وفاق ہیں۔ یہی     تین ستون عوامی جمہوری جدوجہد کی بنیاد ہیں۔ ان میں سے کسی کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان سب کا حاصل پاکستان کی آزادی اور حاکمیت کے تحفظ کے ساتھ‘ اس کی اسلامی تہذیبی شناخت کی ترقی اور استحکام اور سب کے لیے عدل و انصاف کا قیام ہے۔ یہی آج عوام کے دل کی آواز ہے اور پاکستان کی ترقی اور استحکام کا اصل نسخہ ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ آج آپ زندگی کے جس شعبے سے بھی متعلق کسی شخص سے بات کریں گے تو ٹیپ کا بند یہی ہوگا: ’’حالات بڑے خراب ہیں۔ ہر طرف گھٹاٹوپ اندھیرا ہے۔ ایک مخصوص طبقے کو چھوڑ کر‘ ہر شخص شدید مشکلات اور مصائب کا شکار اور بے بسی اور مایوسی کی گرفت میں ہے‘‘۔ نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ جس چیز کا مسلمان معاشرے میں کبھی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا‘ یعنی حالات سے بیزار ہو کر خودکشی‘ اب اس میں بھی روز افزوں اضافہ ہے۔ ان حالات میں ’’تابناک مستقبل‘‘ کی بات کیا بے وقت کی راگنی نہیں؟

اس ماحول میں بالعموم ردعمل کچھ ایسا ہی ہوتا ہے کہ ’’جسے دیکھو یہی کہتا ہے‘ ہم بیزار بیٹھے ہیں‘‘۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسے ہی حالات میں مستقبل اور خصوصیت سے تابناک مستقبل کا تصور اور اس کی طرف بڑھنے کی بات وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن جاتی ہے۔ اس لیے کہ اگر مستقبل کو حال سے بہتر بنانے کا احساس اور جستجو موجود نہ ہو تو پھر تاریکی کے چھٹنے اور حالات کو تبدیل کرنے کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا۔ بگاڑ اور تاریکی ہی کا تقاضا یہ ہے کہ بنائو کی فکر ہو‘ روشنی کی تلاش ہو اور تعمیرنو کے لیے جدوجہد کی جائے۔ ترقی اور اصلاح کا راستہ حالات کے آگے سپرڈال دینے کا نہیں‘ حالات کو صحیح رخ پر موڑنے کے عزم اور عملی کوشش کا راستہ ہے۔ زندہ رہنے اور پستی سے بلندی کی طرف اٹھنے ‘ اپنی اور مظلوم اقوام کی قسمت بدلنے کا یہی راستہ ہے۔ خاص طور پر ہرمسلمان کے لیے‘ ہرمسلمان ملک کے لیے اور بحیثیت مجموعی پوری اُمت مسلمہ کے لیے تو اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ ممکن ہی نہیں ہے۔ البتہ اس کے لیے ضروری ہے کہ ’’تابناک مستقبل‘‘ کا صحیح تصور ہمارے سامنے ہو‘ اور مستقبل کو تابناک بنانے کے لیے جن عوامل اور اقدامات کی ضرورت ہے‘ ان کا پورا پورا شعور ہو اور عملاً ایسے مستقبل کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے نہ صرف جدوجہد کا راستہ اختیار کیا جائے بلکہ اس کے تقاضے بھی پورے کیے جائیں۔ اس لیے ہماری نگاہ میں جہاں حالات کی خرابی کا ادراک ضروری ہے‘ وہیں مستقبل کے صحیح تصور اور ایک تابناک مستقبل کے حصول کے لیے مطلوبہ لائحہ عمل کی تفہیم ازبس ضروری ہے۔

مستقبل کا حقیقی تصور

سب سے پہلا سوال ہمارے غور کرنے کا یہ ہے کہ مستقبل ہے کیا؟ جس تابناک مستقبل کی بات ہم کر رہے ہیں‘ اُس کے بارے میں سب سے پہلے ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اس کی اصل وسعتیں کیا ہیں۔ یہ دنیا ایک عارضی گھرانا ہے۔ افراد ہی نہیں‘ اقوام کے لیے بھی یہ محدود امکانات سے عبارت ہے۔ البتہ اگر کوئی مستقبل ہے تو وہ صرف آخرت کا ہے‘ جو ہمیشہ کے لیے ہے۔ آخرت کی کامیابی ہی اصل کامیابی ہے۔ البتہ آخرت کی اس کامیابی کا انحصار اس دنیا ہی کی زندگی کی صحیح ترتیب و تنظیم پر ہے۔ دنیا ایک کھیتی کی مانند ہے‘ لیکن اس کھیتی سے تیار ہونے والی فصل یا منزلِ مقصود ہے یا آج کی کاروباری اصطلاح میں اس کی جو مارکیٹ ہے وہ آخرت ہے۔ اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ تابناک مستقبل وہ ہے جو آخرت میں تابناک ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس مستقبل سے محفوظ رکھے جو آخرت میں تاریک ہو۔

جب ہم اس موضوع پر انفرادی یا اجتماعی طور پر‘ ایک گروہ یا ایک قوم کی حیثیت سے‘ پاکستانی یا اُمت مسلمہ کے فرد کی حیثیت سے غور کریں تو ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اصل تابناکی اور اصل کامیابی اور اصل روشنی آخرت کی زندگی کی ہے۔ وہی ہمارا ہدف ہونا چاہیے۔ یہاں جو مشکلات بھی ہوں‘ جو صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں‘ اور پریشانیاں اور دشواریاں پیش آئیں بلکہ بظاہر جو ناکامیاں ہوں‘ وہ سب عارضی‘ وقتی اور غیرحقیقی ہیں۔ حقیقی کامیابی صرف آخرت کی کامیابی ہے۔ اس لیے جس تابناک مستقبل کا ہم خواب دیکھ رہے ہیںاور جس کے لیے ہم دعائیں کر رہے ہیں‘ جس کے لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے وہ آخرت کی کامیابی ہے۔

یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ہمارے اوپر ایک بہت بڑا انعام ہے کہ اس نے ہماری بشری کمزوریوں کو سامنے رکھ کر وعدہ فرمایا کہ اصل ہدف اور حقیقی کامیابی تو صرف آخرت کی کامیابی ہے لیکن تم کو دنیا میں بھی اس کی کچھ جھلکیاں دکھا دی جائیں گی ‘گویا اس کا کچھ حصہ تمھیں دنیا میں بھی میسرآسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے انقلابی پیغام اور مشن کا یہ بڑا اہم پہلو ہے کہ اس میں دنیا کی تعمیر اور اصلاحِ انسان ‘ اور یہاں انصاف اور خیر کا حصول اور غلبۂ آخرت کی کامیابی کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔ یہ پیغام اور مشن دوسرے مذاہب اور فلسفوں سے ہٹ کر ہے کہ اس میں وَلَا تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۹) کی بشارت موجود ہے کہ دیکھو حوصلہ نہ ہارنا اور نہ غم کرنا‘ اگر تم مومن ہو تو تم ہی غالب رہو گے‘ یعنی دنیا میں بھی تم کو کامیابی ہوسکتی ہے بشرطیکہ سچے معنی میں اہلِ ایمان کا رویہ اور کردار اختیار کرو۔ یہاں بھی حالات بدل سکتے ہیں‘ یہاں بھی تاریکیاں چھٹ سکتی ہیں‘ یہاں بھی زمین اپنی نعمتیں اُگل سکتی ہے اور آسمان اپنی برکتیں نازل کرسکتا ہے اور اس طرح یہ آخرت کی کامیابی کا آغاز ہو سکتا ہے۔ انتہا تو بہرحال آخرت ہی میں ہے البتہ آغاز یہیں سے ہوسکتا ہے کیونکہ یہ ایک تسلسل ہے۔ اس پہلو سے دنیا میں مستقبل کے تابناک ہونے کی خواہش کرنا‘ اس کی تمنا اور دعا کرنا‘ اس کے لیے کوشش اور جدوجہد کرنا بھی دراصل اسلام کے مشن کا ایک حصہ ہے۔

قرآن کی روشنی میں

اسی لیے ہمیں دعا کی صورت میں جو ہدف اور مشن دیا گیا وہ یہ ہے کہ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِo (البقرہ ۲:۲۰۱)’’اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا‘‘۔

قرآن نے اہلِ تقویٰ کو یہ بشارت بھی دی ہے کہ:

وَلَوْ اَنَّ اَھْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ (الاعراف ۷:۹۶)

اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔

اللہ تعالیٰ نے حق و باطل کی کش مکش کے بارے جس سنت الٰہی کا واشگاف اعلان کیا ہے وہ تو ہے ہی یہ کہ:

وَقُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًاo

(بنی اسرائیل ۱۷:۸۱)

اور اعلان کر دو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا‘ باطل تو مٹنے ہی والا ہے۔

اللہ کا قانون اور تاریخ کا فیصلہ بلاشبہہ یہی ہے کہ:

بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُہٗ فَاِذَا ھُوَزَاھِقٌط (الانبیاء ۲۱:۱۸)

مگر ہم تو باطل پر حق کی چوٹ لگاتے ہیں جو اس کا سر توڑ دیتی ہے اور وہ دیکھتے دیکھتے مٹ جاتا ہے۔

اللہ کا وعدہ ہے:

وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِیْنَ o اِنَّھُمْ لَھُمُ الْمَنْصُوْرُوْنَo وَاِنَّ جُنْدَنَا لَھُمُ الْغٰلِبُوْنَ o فَتَوَلَّ عَنْھُمْ حَتّٰی حِیْنٍ o وَّاَبْصِرْھُمْ فَسَوْفَ یُبْصِرُوْنَ o اَفَبِعَذَابِنَا یَسْتَعْجِلُوْنَ o فَاِذَا نَزَلَ بِسَاحَتِھِمْ فَسَآئَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِیْنَo وَتَوَلَّ عَنْھُمْ حَتّٰی حِیْنٍ o وَّاَبْصِرْ فَسَوْفَ یُبْصِرُوْنَo (الصٰفٰت ۳۷:۱۷۱-۱۷۹)

اپنے بھیجے ہوئے بندوں سے ہم پہلے ہی وعدہ کرچکے ہیں کہ یقینا ان کی مدد کی جائے گی اور ہمارا لشکر ہی غالب ہوکر رہے گا۔ پس اے نبیؐ، ذرا کچھ مدت تک انھیں ان کے حال پر چھوڑ دو اور دیکھتے رہو‘ عنقریب یہ خود بھی دیکھ لیں گے۔

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلامی تحریک کو مخاطب کر کے یاد دلایا جاتا ہے:

وَاذْکُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِیْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِی الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ فَاٰوٰکُمْ وَاَیَّدَکُمْ بِنَصْرِہٖ وَرَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَo (الانفال ۸:۲۶)

یاد کرو وہ وقت جب کہ تم تھوڑے تھے‘ زمین میں تم کو بے زور سمجھا جاتا تھا‘ تم ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں لوگ تمھیں مٹا نہ دیں۔ پھر اللہ نے تم کو جاے پناہ مہیا کردی‘ اپنی مدد سے تمھارے ہاتھ مضبوط کیے اور تمھیں اچھا رزق پہنچایا‘ شاید کہ تم شکرگزار بنو۔

غلبۂ حق کی نوید تمام صحف سماوی میں مرقوم ہے:

وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِـنْم بَعْدِ الذِّکْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَo اِنَّ فِیْ ہٰذَا لَبَلٰغًا لِّقَوْمٍ عٰبِدِیْنَo وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَo(الانبیاء ۲۱:۱۰۵-۱۰۷)

اور زبور میں ہم نصیحت کے بعد لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے اس میں ایک بڑی خبر ہے عبادت گزار لوگوں کے لیے اور اے نبیؐ، ہم نے تم کو دنیا والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

دنیا میں کامیابی اور آزمایش دونوں ہی اہلِ ایمان کی تقدیر ہیں:

عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّھْلِکَ عَدُوَّکُمْ وَیَسْتَخْلِفَکُمْ فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُوْنَ o (الاعراف ۷:۱۲۹)

قریب ہے وہ وقت کہ تمھارا رب تمھارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تم کو زمین میں خلیفہ بنائے‘ پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔

حق و باطل کی اس کش مکش میں نشیب و فراز آتے ہیں۔ شکست و فتح دونوں سے سابقہ پڑتا ہے اور اس عمل سے گزرے بغیر منزل مقصود حاصل نہیں ہوتی لیکن استقامت اور وفاداری سے جو جدوجہد کی جائے گی‘ وہ بالآخر کامیاب ہوکر رہے گی:

اِنْ یَّمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗط وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ ج وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُھَدَآئَ ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۴۰)

اگر تمھیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمھارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے۔ یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔ تم پر یہ وقت اس لیے لایا گیا کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں‘ اور ان لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھا جو واقعی (راستی کے) گواہ ہیں۔

مخالفت کے طوفان اہلِ ایمان کے عزم و ہمت اور توکل اور ایقان میں اضافے کا باعث ہوتے ہیں اور جب وہ استقامت دکھاتے ہیںتو پھر اللہ کی مدد آتی ہے اور وہ غالب و کامران رہتے ہیں:

اَلَّذِیْنَ قَالَ لَھُمُ النُّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِیْمَانًا وَّ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُo فَانْقَلَبُوْا بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَفَضْلٍ لَّمْ یَمْسَسْھُمْ سُوْٓئٌ لا وَّاتَّبَعُوْا رِضْوَانَ اللّٰہِط وَاللّٰہُ ذُوْ فَضْلٍ عَظِیْمٍo (اٰل عمرٰن ۳: ۱۷۳-۱۷۴)

جن سے لوگوں نے کہا کہ’’تمھارے خلاف بڑی قوتیں جمع ہوئی ہیں‘ ان سے ڈرو‘‘ تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور انھوں نے جواب دیا: ’’ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے‘‘۔ آخرکار وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت اور فضل کے ساتھ پلٹ آئے‘ اور ان کو کسی قسم کا ضرر نہ پہنچا اور اللہ کی رضا پر چلنے کا شرف بھی انھیں حاصل ہوگیا‘ اللہ بڑا فضل فرمانے والاہے۔

اللہ کا وعدہ یہ بھی ہے کہ:

یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِھِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَo ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ o (الصف ۶۱:۸-۹)

یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں‘ اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہی تو ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کر دے خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔

اور پھر اہل ایمان کو دعوتِ جہاد دی جاتی ہے جو آخرت کی کامیابی‘ جو فوزِ عظیم کا زینہ اور ضمانت ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرمایا گیا کہ:

وَاُخْرٰی تُحِبُّوْنَھَا ط نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌط وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَo(الصف ۶۱:۱۳)

اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو‘ وہ بھی تمھیں دے گا‘ اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہوجانے والی فتح۔ اے نبیؐ، اہلِ ایمان کو اس کی خوشخبری دے دو۔

مشکلات اور سختیاں ضرور آئیں گی مگر پھر اللہ تعالیٰ آسانیوں اور کامیابیوں کا سامان بھی کر دے گا بشرطیکہ اس پر توکل کر کے اپنی جدوجہد جاری رکھیں اور استطاعت بھر جدوجہد میں کمی نہ کریں۔

سَیَجْعَلُ اللّٰہُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًا o (الطلاق ۶۵:۷)

بعید نہیں کہ اللہ تنگ دستی کے بعد فراخ دستی بھی عطا فرما دے۔

فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا o اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا o (الم نشرح ۹۴:۵-۶)

پس حقیقت یہ ہے کہ تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔ بے شک تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔

سب سے اہم چیز یہ ہے کہ کسی حالت میں بھی اللہ سے مایوس نہ ہوا جائے اور جدوجہد سے کسی صورت میں بھی پہلوتہی نہ کی جائے۔ مومن کی قوت کا سب سے بڑا ذریعہ اللہ رب العزت سے تعلق ہے اور اس کا وعدہ ہے کہ اہلِ ایمان اور اہلِ تقویٰ کا مستقبل ہر حال میں روشن ہے‘ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی‘ اور اگر اہلِ ایمان صحیح طریقے سے جدوجہد کریں توانھیں آخرت کی کامیابی کے ساتھ دنیا میں بھی کامرانی حاصل ہوگی‘ اس لیے حالات کیسے بھی مشکل اور نامساعد ہوں‘ اہلِ ایمان کے لیے مایوسی کی کوئی گنجایش نہیں‘ قرآن کے الفاظ میں مایوسی کفر ہے اور اللہ کی رحمت کا دروازہ ہر لمحے کھلا ہوا ہے۔ ہر حال میں مومن کی نظر اپنے اللہ کے وعدے‘ اس کی نصرت اور مدد‘ اس کی اعانت اور سرپرستی اور اس کی رضا اور خوش نودی پر ہوتی ہے اور یہی وہ چیزہے جو اس کی زندگی کے ہر لمحے کو روشن اور اس کے ہر قدم کو تابناک مستقبل کی طرف پیش رفت بنا دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میںتابناکی اور کامیابی‘ اگر وہ آخرت کی کامیابیوں کے تسلسل کے لیے ہو‘ تو وہ خود بھی اصل کامیابی کے موثر ذریعے کی حیثیت سے ایک مطلوب شے ہے‘ نامطلوب چیز نہیں ہے‘ لیکن معیار‘ آخرت کی کامیابی ہی کو ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ اگر آخرت کی کامیابی کی بنا پر یہاں ہماری ساری زندگی صعوبتوں میں گزر جاتی ہے تو بھی یہ ناکامی نہیں۔ یہ بھی روشنی کی طرف اور تابناکی کی طرف پیش قدمی ہے۔ البتہ یہ اللہ کا ہمارے اوپر بڑا انعام ہے‘ رحم ہے اور فضل ہے کہ اس نے ہماری کمزوریوں کی بناپر ہم کو کسی ایسی آزمایش میں نہیں ڈالا جو ہماری استطاعت سے بڑھ کر ہو۔ انسان کی فطرت کا لحاظ رکھتے ہوئے اُس نے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ ہمیں زمین میں خلافت اور تمکن عطا کرے گا تاکہ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ اس دین کو دوسرے تمام طریقوں کے اوپر غالب کرنا اس کی سنت اور وعدہ ہے۔ یہ ساری چیزیں بھی مسلمان کا مقدر ہیں‘ ہماری تاریخ اور جدوجہد کا حصہ ہیں۔

مستقبل کی تابناکی کے بارے میں ایک مومن کو ایک پَلکے لیے بھی شک یا خوف میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ یقینا مشکلات ہیں‘ مسائل ہیں‘ پریشانیاں ہیں‘تصادم ہے‘ مگر اس کے ساتھ ساتھ ایمان کی قوت‘ اللہ پر بھروسا اور اللہ کا یہ وعدہ لَاتَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ کہ مایوس کبھی نہ ہونا‘ ہمت نہ ہارنا اور تابناک مستقبل کا صرف خواب ہی نہیں دیکھتے رہنا بلکہ اس کے لیے سرگرم عمل ہوجانا‘ یہ مسلمان کی شخصیت کا لازمی حصہ ہے۔ تو کیسی ہی پریشانیاں اور کیسی ہی مشکلات کیوں نہ ہوں لیکن ہماری نگاہ اسلام کے روشن مستقبل ہی پر ہونی چاہیے۔

کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ جب ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پانچ ساتھیوں کے ساتھ اس دعوت اور اس پیغام کا آغاز فرمایا تو حضرت ابوذر غِفاریؓ اسلام قبول کرتے ہیں اور اُن کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ ابھی آغازِ وحی کا تیسرا اور چوتھا سال ہی ہے۔ اس موقع پر ایک اِعرابی آتا ہے‘ اسلام قبول کرتا ہے اور حضوؐر اس سے یہ کہتے ہیں کہ اپنے قریے میں چلے جائو اور انتظار کرو اس وقت کا جب یہ دین غالب ہوگا۔ آپؐ قریش کے سرداروں کو مخاطب فرما کر کہتے ہیں کہ کیا میں تم کو ایک ایسا کلمہ نہ بتا دوں کہ جس کو اگر تم مان لو تو پھر عرب اور عجم تمھارے تابع ہوں گے۔ وہ وقت کہ جب مکہ میں مسلمانوں پر ظلم و ستم اور تعذیب اس مقام پر تھی کہ حضرت خبابؓ جیسے اولوا العزم صحابی بھی بے چین ہوکر کہتے ہیں: یارسولؐ اللہ! اللہ کی مدد کب آئے گی؟ تو آپؐ فرماتے ہیں کہ خباب‘ کیا تم ابھی سے تھک گئے ہو؟ کیا تم نہیں جانتے کہ تم سے پہلی قوموں کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا‘ ان کے گوشت کو ان کی ہڈیوں سے لوہے کی کنگھیوں سے جدا کیا گیا تھا اور ان کے جسم کو آروں سے کاٹ دیا جاتا تھا لیکن وہ اللہ کی راہ پر قائم رہتے تھے۔ لیکن دیکھیے حضور اکرمؐ یہ بات کہہ کر رک نہیں گئے بلکہ آپؐ نے فرمایا: خدا کی قسم! وہ وقت آئے گا جب ایک سوار تنِ تنہا صنعا سے حضرموت تک بے خوف و خطر سفر کرے گا اور اللہ کے سوا اسے کوئی خوف نہ ہوگا‘ یعنی جب دین حق کو غلبہ حاصل ہوگا۔ پھر سب نے دیکھا وہ وقت آیا اور اَطْعَمَھُمْ مِّنْ جُوْعٍ لا وَّاٰمَنَھُمْ مِّنْ خَوْفٍo (قریش ۱۰۶:۴) کی کیفیت پیدا ہوگئی‘ یعنی بھوک سے تحفظ اور کھانے کی فراوانی اور خوف سے نجات اور امن کی نعمت۔ پھر وہ وقت کہ جب حضوؐر مکہ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ ہجرت کا وقت ہے‘ بظاہر کس مپرسی کا عالم ہے۔ اپنے وطن کو چھوڑنا پڑ رہا ہے اور اس وقت جب سراقہ آپؐ کا تعاقب کر کے آپؐ تک پہنچ جاتا ہے تو آپؐ اسے کہتے ہیں کہ تمھیں کسریٰ کا کنگن دیا جائے گا۔ کیا وقت ہے لیکن کسریٰ کے کنگنوں کا ذکر کس اعتماد کے ساتھ کیا جا رہا ہے اور پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ کسریٰ کے کنگن آئے اور اس شخص کو دیے بھی گئے‘ سبحان اللہ!

تابناک مستقبل کی بات‘ میں کسی خوش فہمی یا شاعرانہ خیال آرائی کی بنا پر نہیں کر رہا بلکہ  اللہ کی کتاب اور نبی پاکؐ کی سنت یہ دونوں ہمیں یہ اعتماد اور یقین دلاتے ہیں کہ جو بھی حالات ہوں اور جیسے بھی حالات ہوں وہ لوگ جنھیں اللہ نے ایمان کی دولت سے مالا مال کیا ہے وہ تابناک مستقبل کے بارے میں کبھی کسی غلط فہمی کا یا کسی مایوسی کا شکار نہیں ہو سکتے۔

تاریخ کی گواھـی

اگر آپ تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو آپ دیکھیں گے کہ تاریخ کے نشیب و فراز‘ قوموں کا عروج و زوال‘ پستی و بلندی کے مناظر‘ کامیابی و ناکامی کی داستانیں‘ فتح و شکست کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ اللہ کے اسی وعدے کا منظرنامہ پیش کرتے ہیں۔ معلوم تاریخ میں کم از کم ۳۶ عظیم تہذیبوں کے اسی سفر کی کہانی ملتی ہے اور عروج کے وقت ہر تہذیب کو یہی گمان تھا کہ اب اس کا کوئی مقابلہ کرنے والا نہیں ہے۔لیکن پھر چشمِ تاریخ نے دیکھا کہ اُسے زوال‘ انتشاراور شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری اقوام اُبھریں اورتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ کا یہ سلسلہ برابر چلتا رہا اور چلتا رہے گا۔ حضرت عیسیٰ ؑنے سچ کہا تھا کہ کتنے آگے ہیں جو پیچھے رہ جائیں گے اور کتنے پیچھے ہیں جو آگے نکل جائیں گے۔

قرآن کہتا ہے کہ اسی طرح ہم قوموں کے در میان اتار چڑھاؤ‘کامیابی وناکامیابی اور زندگی ا ور موت کے دور لاتے رہتے ہیں۔ تاریخ سے صاف نظر آتا ہے کہ کوئی بھی دور ابدی یا مستقل نہیں۔ نہ کامیابی کو دوام ہے اور نہ ناکامی کو۔ حالات برابر بدلتے ہیں ۔اس لیے کسی ایک صورت حال کے اوپر یہ سمجھ لینا کہ اَب تو ہم بس پھنس گئے ‘اب کوئی را ستہ نہیں۔ اب شکست ہمارا مقدر ہے اور دوسروں کے تابع دار بن کر ہی زندہ رہ سکتے ہیں‘ یہ ایک مغالطہ ہے۔ جس کی نگاہ تاریخ پر ہو گی وہ کبھی بھی اس غلط فہمی کا شکار نہیں ہو سکتا۔

پو ری تاریخ کو چھوڑ دیجیے ۔ بہت سے لوگ آج موجود ہیں ‘میں خود بھی اپنے آپ کواِن میں شامل کر تا ہوں جنھوں نے چشمِ سر سے دیکھا کہ سلطنتِ برطانیہ کا ایک زمانے میں کیا دبدبہ  تھا۔ اسے دنیا کی حکمران قوت ہونے کار زعم تھا۔ غلبہ و بالادستی کو وہ اپنا مقدر سمجھتی تھی اور غرور کا یہ حال تھا کہ اس نے انگریزی زبان میں اس محاورے کا ا ضا فہ کیا کہ:

Sun is never set in the British Empire.

چونکہ دنیا کی چو تھا ئی سرزمین پر اس کی حکمرا نی تھی‘ اس لیے اس کا دعویٰ تھا کہ ہماری حکمرانی میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا ۔ایک جگہ سے غروب ہوتا ہے تو دو سری جگہ سے اُبھر جاتا ہے۔ لیکن پھر ہم نے دیکھا کہ چند ہی سالوں میں اس کی سلطنت قصۂ پارینہ بن گئی اور کیفیت یہ ہوئی کہ وہ ایک سپرپاور سے سکڑکر ‘ صرف ڈیڑھ جزیرے کی حکومت رہ گئی۔ اور اب تو عالم یہ ہے کہ ہفتوں اس کی قلمرو میں سورج طلوع نہیں ہوتا! اسی طرح دولتِ برطانیہ نے انگریزی زبان میں اس محاورے کا اضا فہ کیا کہ Britannia rules the waves ‘یعنی دنیا کے سارے سمندروں کے پانی پرہما ری حکمرانی ہے لیکن پھر ہم نے دیکھا کہBritannia had to waive the rule [یعنی برطانیہ کو حکومت چھوڑنا پڑی]اور سمندر اس کی گرفت سے نکل گیا۔ تو یہ ہیں وہ نشیب وفراز ‘ جن میں مغرور کے طلسم کا ٹوٹنا اور مظلوم کا بالاتر قوت بن جانا‘ یہ سب مناظر دیکھے جاسکتے ہیں۔

ابھی کل کی بات ہے کہ امریکا اور اشتراکی روس دونوں بڑی طاقتیں (super powers) تھیں اور دونوں ایک دو سرے سے برابر پنجہ آزمائی کر رہی تھیں۔ کیا آپ بھول گئے کہ روس کے سربراہ مملکت خروشچیف اقوامِ متحدہ کے ہال میں میز پراپنے جوتے رکھ کرکے کہتا ہے کہ : I have come here to bury capitalism. (میں یہاں سرمایہ داری کا جنازہ نکالنے آیا ہوں)۔

اور پھر آپ نے دیکھا کہ کس طرح روس منتشر ہو جاتا ہے۔ گویا کہ محض ایک خاص موقعے پر کسی کاحا وی ہوناکوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ جس کو ابدی (everlasting) سمجھا جائے۔اقتدار‘ غلبہ اور قوت سب بڑی وقتی اور عارضی چیزیں ہیں۔ہم نے خود اس کا نظارہ کیا ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ ایسے ابھی اور بہت سے تجربات اور مناظر ہم اور آپ دیکھیں گے۔ اس لیے یہ سمجھ لینا کہ اس وقت فلاں غالب ہے تو وہی غالب رہے گا‘ درست نہیں۔

اپنے ملک کی تاریخ بھی آپ دیکھ لیجیے۔ کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ ایک سرپھرے آمر (اسکندر مرزا) نے مکمل اقتدار کے زعم میں برسرِاقتدار آنے کے بعد پہلا بیان یہ دیا تھا کہ ہم اِن مولویوں کو کشتیوں میں بٹھا کر کے سمندر پار بھیج دیں گے۔ لیکن اللہ کی قدرت کو آپ نے دیکھا کہ مو لوی تو الحمد للہ وہیں ہیں ۔ خود اس کو ایک مہینے کے اندر ملک چھوڑنا پڑا۔یہاں کون تھا جس نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ’’ہما ری کر سی مضبوط ہے اور اس کو کوئی نہیں ہلا سکتا‘‘۔ لیکن کون سی کر سی ہے جو با قی رہ گئی۔ آپ چا ہے وسیع تر تاریخ کے پسِ منظر میں دیکھیں‘ چاہے اپنے دور کے عا لمی سطح پر رونما ہو نے والے نشیب وفراز کو دیکھیں اور خواہ آپ اپنے ملک میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر غور کریں‘ کہیں بھی مایوسی کے لیے کوئی وجہِ جواز نظر نہیںآتی۔ اس سے انکار نہیں کہ تاریکی آتی ہے‘ شکستیں بھی ہوتی ہیں‘ لیکن ہر نشیب کے بعد فراز اور ہر شکست کے بعد کامیابی کا امکان بھی رونما ہوتا ہے۔ کیا خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کی بلندیوں کے بعداُحد کی ہزیمت نہیں دیکھی ۔کیا حدیبیہ کے بعد فتحِ مکہ کا منظر رونما نہیں ہوا۔ کیا فتح مکہ کے بعد حنین سے سابقہ پیش نہیں آیا۔یہ نشیب و فراز زندگی کی حقیقت ہیں۔لیکن ان میں سے کسی کو لے کر یہ سمجھ لینا کہ اب کچھ ممکن نہیں اورہمت ہار جانااور مایوسی میں گرفتار ہو جانا کسی مسلمان کا شیوہ نہیں۔ جس کی نگاہ تاریخ پر ہو ‘انسانی زندگی کے نشیب وفراز پر ہو وہ کبھی بھی اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہوسکتا۔ اس کے اوپر قرآن شا ہد ہے ‘سیرت شاہد ہے ‘پو ری تاریخ گواہ ہے اور میرا اور آپ کا تجربہ گواہ ہے۔تو پھر کیوں ایک خاص وقت کی کیفیت کو ہم مستقل اور دوام کا درجہ دینے کی غلطی کریں۔ ہمیں چیزوں کو ان کے حقیقی پسِ منظر میں دیکھنا چاہیے اور اسی کی رو شنی میں پھر ہمیں اپنا رویہ اور اپنا کرنے کاکام متعین کرنا چاہیے۔

قابلِ غور مثبت پھلو

اس پس منظر میں غور کرنا چاہیے کہ جہاں یہ ناقابلِ انکار حقائق ہیں اور جہاں اللہ کا یہ وعدہ ہے کہ ان شاء اللہ حق غالب ہوگا اور باطل کو شکست ہوگی‘ وہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمیں ہمیشہ پو ری دیا نت کے ساتھ حالات کا بے لاگ جا ئزہ لینا چاہیے۔ خوش فہمیوں میں رہ کر کبھی کوئی فرد یا کوئی قوم وقت کے تقا ضوں کو پورا نہیں کر سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنِ پاک میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ مبارک میں جو بھی نشیب وفراز آئے اور معرکے ہوئے‘ اُن کے اوپر خود زمین و آسمان کے مالک نے تبصرہ فرمایا ہے‘ احتساب کیا ہے‘ آیندہ کے لیے سبق سکھائے ہیں۔ یہ بھی حکمت ہے کہ اس پورے تبصرے کو ہمیشہ کے لیے قرآن کا حصہ اس لیے بنا دیا گیا تاکہ انسان خوش فہمی میں مبتلا نہ ہوں۔ ہمیں متنبہ کردیا گیا اس وقت بھی جب اللہ کا نبیؐ ہمارے درمیان تھا‘ اگر انسانوں نے حقائق سے صرفِ نظر کیا ‘احکام سے رو گر دانی کی یاجو ذمہ داری سونپی گئی ہے اس کو ادا نہ کیا گیا تو جیتی ہوئی با زی پلٹ سکتی ہے۔ اور اسی طرح اگر حق کے داعی کی آواز پر لبیک کہا تو ہا ری ہوئی با زی جیتی جا سکتی ہے۔ قرآنِ پاک میں یہ تمام چیزیں اسی لیے محفوظ کی گئی ہیں کہ ہم اُن سے سو چنے کا انداز ‘ غوروفکر کا اَسلوب اور ہر دور میں حالات کے جائزے ‘ اُن کا احتساب ‘ان کی تشخیص اور پھر ان کی رو شنی میں لائحہ عمل کی تیاری کاکام انجام دے سکیں۔

اس وقت ہم بڑے نازک امتحانی دور سے گزر رہے ہیں ۔ تاہم‘ اس میں کچھ بڑے مثبت پہلو ہیں اور ان مثبت پہلوؤں میںیہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ عددی اعتبار سے مسلمان آج ‘ایک ارب ۴۰کروڑ کے قریب ہیں جو دنیا کی آبا دی کا پانچواں حصہ ہیں ۔ہم ابھی اڑھائی تین سو سال کے کھلے کھلے استعماری دور کے تسلط سے نکلے ہیں ۔ پورا عالمِ اسلام پانچ بڑی مغربی استعماری قوتوں کی گرفت میں تھا اور ہمیں سانس لینے تک کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن ہمارے دیکھتے دیکھتے استعمار کی گرفت ڈھیلی پڑی‘ اور غلامی کے سائے چھٹے اور ۵۷ آزادمسلمان مملکتیں وجود میں آئیں۔ تقریباً۹۰ کروڑ مسلمان اِن آزاد مملکتوں میں ہیں۔ اور تقریباً ۴۰‘ ۴۵ کروڑ مسلمان ایسے ہیں کہ جو ۹۰‘ ۹۵ مسلم آبادیوں کی شکل میں غیر مسلم ممالک میں رہ رہے ہیں۔ یہ عددی قوت ہر ایک اعتبار سے بڑی اہم حقیقت ہے۔ معاشی ‘ عسکری اور نظریاتی ہر اعتبار سے دنیا کے مستقبل کا فیصلہ کر نے میں انسانوں کی اتنی بڑی تعداد اور ان کی یہ قوت ایک بڑا اہم کر دار ادا کر تی ہیں۔

پھران ممالک کا محلِ وقوع دیکھ لیجیے ۔ دنیا کے کل زمینی رقبے کا تقریباً۲۳ فی صد مسلمانوں کے اقتدار کے تحت ہے۔اور یہ سارا علا قہ معاشی وسائل سے مالامال ہے۔ پو ری دنیا کی توانائی کے ۸۰فی صد ذخا ئرہمارے پاس ہیں۔ مالی وسائل اور جنگی اعتبار سے اور معاشی نقطۂ نظر سے تمام اہم  راستے انھی علاقوں سے گزرتے ہیں۔ معاملہ خواہ زمینی رابطوں کا ہو‘ یا سمندری اور ہوائی ‘ ان تمام میں مر کزی حیثیت مسلمان ممالک کی ہے۔

لیکن ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جسے ہم آزادی کہہ رہے ہیں‘ وہ صحیح معنوں میں مکمل طور پر آزا دی نہیں ہے۔بظاہر قانونی اور سیا سی انداز میں ہم استعمار کی گرفت سے نکل گئے ہیں‘ لیکن ان کا فکری غلبہ ‘تہذیبی گرفت ‘ عسکری اور معاشی قوت کا عدم توازن اور پھر اس وقت   عالم گیریت اور گلوبل سسٹم جس انداز سے کارفرما ہیں تو اس میں ایک سوپر پاور عسکری اور سیاسی اعتبار سے ‘ اور مغربی تہذیب فکری اور سا ئنسی‘ ٹکنالوجی اور ثقا فتی اعتبار سے چھائی ہوئی ہے اور مسلمان ملکوں کی آزادی حقیقی آزادی کا رنگ اختیار نہیں کر سکی ہے۔ دوسرے الفاظ میں نوآبادیاتی تسلط ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوا۔

اس نئے دور میں نوآبادیاتی استعماری تسلط کی شکل میںبڑی جو ہری تبدیلی آئی ہے‘اس کو سمجھنا ضروری ہے۔  یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی ایک ملک کے لیے خواہ عسکری اعتبار سے وہ کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو‘ ممکن نہیں کہ وہ پوری دنیا کو زیادہ دیر تک اپنی گرفت میں رکھ سکے۔بش چار سوا چار سال سے جو کچھ کر رہے ہیں اس کا نشا نہ صرف ہم رہے‘اُس کی قیمت ہم ادا کر تے رہے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خواہ وہ افغانستان ہو یا عراق ہو‘ سوپرپاور جو کچھ کرنا چاہتی تھی نہیں کر سکی اور وہ مجبور ہے کہ اپنی قوت کی کم مایگی (limitations of power )کا بھی احساس کرے۔ وہ جو کچھ کرنا چاہتی ہے محض اپنی قوت کے زعم میں کرنہیں سکتی۔ اگر کہیں اسے جبر کی قوت سے غلبہ میسر آبھی گیا ہے‘ تب بھی اس کا اقتدار بڑا کمزور اور محدود ہے اور اسے اس کی بڑی قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ ہرجگہ مزاحمت ہے اور یہ مزاحمت ایک بہت بڑے قومی اور مؤثر عنصر کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ سوپرپاور کی قوت کا مقابلہ اس کے سامنے سر جھکا دینے اور غلامی کو قبول کر لینے سے نہیں بلکہ سامراجی قوت کی مزاحمت کرنے سے ہوتا ہے۔ نائن الیون کے واقعے سے بڑے منفی نتائج رونما ہوئے ہیں۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سوپر پاور کے لیے ہر میدان میں اپنی من مانی کرنا ممکن نہیں رہاہے۔دہشت گر دی کے خلاف جنگ کا جائزہ لیجیے۔ آج نہ صرف امریکا بلکہ پوری دنیا اُس سے کہیں زیا دہ غیر محفوظ ہے جتنا اس واقعے سے پہلے تھی۔ طا قت کی اس ساری نمایش اور کشت وخون کے ذریعے افغانستان کو کھنڈر بنا دیا گیا ۔وہاں ۲۰ سے ۲۵ہزارمعصوم افراد شہید ہوئے۔ عراق میں ایک لاکھ سے زیا دہ عام شہری شہید ہوئے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ساری قوت اور وسائل کے بے محابا استعمال کے باوجود یہ سوپرپاور افغانستان ہو یا عراق کہیں بھی محفوظ نہیں۔

پھر آپ یہ دیکھیے کہ کس طرح عوامی بیداری کی ایک لہرسا ری دنیا میں رونما ہوئی ہے۔دنیا کے ہر سروے میں امریکا کی غیرمقبولیت بلکہ نفرت نمایاں نظر آتی ہے۔ وہ ممالک جن کی قیادتیں  بظاہر اس کے ساتھ ہیں‘مثلاً خود ترکی کا ایک سروے یہ بتاتا ہے کہ۸۰ فی صد سے زیادہ آبا دی اُس سے نفرت کا اظہار کررہی ہے۔جر منی اور فرانس کے ۶۰اور ۷۰فی صد لوگ امریکا اور روس کی پالیسیوں سے بے زاری کا اظہار کر رہے ہیں۔بر طا نیہ اس کا سب سے بڑا حلیف ہے لیکن وہاں عوامی ردِ عمل کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمند ر امریکا اور برطانوی حکومت کو چیلنج کر رہا ہے۔ میں نے خوداپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کس طرح لوگوں نے احتجاج کیا۔ ۱۹ مارچ ۲۰۰۵ء کو عراق پر حملے کے   دو سال بعد پورے یورپ میں اس ناجائز جنگ کے خلاف شدید عوامی مظاہرے ہوئے ہیں۔

ہما ری موجودہ فوجی حکومت بھی اس معاملے میں بش کے ساتھ ہے لیکن ملک کے کسی بھی کونے یاگوشے میں جا کر دیکھ لیجیے کہ عوام کے اس با رے میں جذ بات کیا ہیں۔نیوز ویک نے یہ دل چسپ اور عبرت آموز واقعہ ریکارڈ کیا ہے کہ افغانستان میں جس پاکستانی فوجی دستے نے ۱۰افغانوں کو شہید کیا تھا جب اس کا کما نڈر جو غالباً لیفٹیننٹ کرنل کے رینک کا تھا ‘ہلاک ہوا اور اس کا جنازہ اس کے گاؤں میں آیا تو اس کے باپ نے اپنے بیٹے کی نمازِ جنا زہ پڑھنے سے انکار کر دیا۔ نیوز ویک کے نمایندے نے اس سے پو چھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا ؟ تو اس نے کہا کہ میں نے اپنے بیٹے کو بڑی تمناؤں سے فوج میں بھیجا تھا مگر اس لیے نہیں بھیجا تھاکہ وہ جاکر مسلمانوں کو مارے ۔ اس کی نماز جنازہ بش کو پڑھنی ہے تو پڑھے‘ میں باپ ہوتے ہوئے بھی اس غدار کی نماز نہیں پڑھ سکتا۔ یہ ایک فرد کا واقعہ نہیں ہے ‘ایک باپ کا وا قعہ نہیں ہے‘یہ ایک قوم کی سوچ ہے۔    یہی پوری اُمت مسلمہ کی سوچ ہے۔

اسی طرح انڈی پنڈنٹ کے نامہ نگار رابرٹ فسک نے ایک پورا مضمون افغانستان کے بارے میں لکھا ہے جس میں وہ کہتا ہے: میں جہاں بھی گیا ہوں امریکی بم باری سے جولوگ شہید ہوئے ہیں‘ ان کے مزارلوگوں کے لیے مر جع بنے ہوئے ہیں۔ ہر جمعے کو وہاں عرس کا سماں ہوتا ہے اور امریکی فو جی تنہا با ہر نکلنے کی ہمت نہیں کرسکتے۔ اس طرح دیکھیے بظاہر امریکا کا غلبہ ہے ‘خون بھی بہہ رہا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی غورطلب ہے کہ عوامی سطح پر اس کا ردِ عمل کیا ہو رہا ہے۔ ہمیں منفی اور مثبت‘ روشن اور تا ریک دونوں پہلوئوں پر نظر رکھنی چاہیے۔ صرف ایک چیز کونہ دیکھیے۔ ساری بربادی کے باوجود‘ مَیں تو اس صورتِ حال میں ایک تابناک مستقبل کے امکانات بچشمِ سر دیکھتا ہوں۔

لیکن یہ بات ضرور میں کہنا چا ہتا ہوں کہ یہ تابناک مستقبل آپ سے آپ نہیں آئے گا۔ یہ اللہ کا قانون ہے کہ تبدیلی مسلسل جدوجہد‘ قربانی اور ثابت قدمی سے آتی ہے‘ یہی اللہ کی سنت اور قانون ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے قانون اور سنت کو بدلتا نہیں۔  فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًاج وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحْوِیْلًاo (فاطر ۳۵:۴۳) ’’تم اللہ کی سنت میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پائو گے اور تم اللہ کی سنت کو ٹلتی ہوئی ہرگز نہ دیکھو گے‘‘۔

قانون یہ ہے کہ آپ کو اس تابناک مستقبل کے لیے کوشش کرنی ہو گی۔آپ کو اس کے لیے جدوجہد کرنی ہو گی۔مجھے اور آپ کو اس کے لیے اپناکردار ادا کر نا ہو گا۔ پھر یہ تابناک ہو گا‘ اور کوئی چیز اس کو تابناک ہونے سے روک نہیں سکتی۔لیکن اگر ہم اپنا فرض ادا نہیں کریں گے‘ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے‘ یا ہم مایوسی کا شکار ہو جائیں گے تو پھر یہ مستقبل تابناک نہیں‘ تاریک ہوگا۔کسی بھی کاروبار میں نفع نقصان دونوں ہو تے ہیں۔بار بار نقصان ہوتے ہیں۔ آدمی دیوالیہ ہوجاتا ہے‘ دکان بند کرنی پڑجا تی ہے۔کارخانے پر قفل لگ جاتا ہے۔ لیکن کیا یہ ایک حقیقت نہیں ہے کہ ایک نقصان کے بعد آپ پھر نفع کے لیے کوشش کر تے ہیں۔ایک بارکاروبار میں نقصان ہونے کے بعد آپ پھر دوسرا کاروبار شروع کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔اگر کاروباری زندگی میں آپ کا یہ رویہ ہے تو پھر سیاسی ‘تہذیبی‘ دینی اور ایمانی زندگی کے لیے آپ اِس سے ہٹ کر کے کیوں سو چتے ہیں؟

منزل اور مقصد کا شعور

تابناک مستقبل تو ہمارا مقدر ہے۔ لیکن یہ اسی وقت ہمارا مقدر ہے جب ہم اس کا حق ادا کرد یں گے۔ اس کے لیے دو چیزیں بہت ضروری ہیں ۔پہلی چیز خود احتسابی ہے۔ آپ دیانت داری کے ساتھ جائزہ لیں کہ ہماری کمزوری کے اسباب کیا ہیں؟ پھر آپ یہ دیکھیں کہ ان حالات کا مقابلہ کر نے کے لیے صحیح لائحہ عمل کیا ہوسکتا ہے؟

جدوجہد اور اس کے نتیجے میں کامیابی کے لیے اولیں شرط ہے منزل اور مقصد کا شعور‘ یعنی انسان کا وژن‘ اس کا تصور ِ حیات۔ میں اگر اسے سے ذرازیا دہ کھل کر کہوں تو اس کا ایمان اور ایمان کی بنیاد پر اُس کا مقصدِ حیات اور زندگی کے اہداف۔ اگر یہ کمزو ری کا شکار ہو جائیں تو یہ سب سے بڑی مصیبت اور سب سے بڑی ناکامی ہے۔ آج مسلمانوں کا معاملہ یہی ہے کہ اللہ کی کتاب بھی موجود ہے ‘اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی موجود ہے‘ ہما ری تاریخ بھی موجود ہے اورصلحاے اُمت کی کوششیں اور کارنامے اور خدمات بھی موجود ہیں۔لیکن اس کے باوجود عملاََہم نے بھی زندگی کوخانوں میں بانٹ دیا ہے۔میں اُن کی بات نہیں کر رہا جو دین سے اتنے غافل ہیں کہ صرف دنیا کو اپنا ملجا اورماویٰ اور اپنا سب کچھ بنا چکے ہیں۔میں اُن کی بات کر رہا ہوں جو نمازیں پڑھتے ہیں ‘ جو روزہ رکھتے ہیں جو گڑگڑاگڑگڑا کر دعائیں بھی کر تے ہیں‘ جو صدقات وخیرات بھی دیتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں سو چتے کہ اِس نماز کے اثرات ہما ری انفرا دی اور اجتما عی زندگیوں پر بھی پڑنے چا ہییں۔کیا ہماری ذمہ داری صرف نماز پڑھ لینے کی ہے یا جس خدا نے ہمیں نماز پڑھنے کے لیے کہا ہے‘ اس نے ہمیں یہ بھی کہا ہے کہ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَـنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ، یعنی نماز تو وہ ہے جو انسان کو فحش اور منکر سے روکتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں جو پوری زندگی کو اللہ کی بندگی میں لانے کا ذریعہ بنتی ہے۔

ہم بڑے اہتمام سے رمضان کا استقبال کرتے ہیں ‘سحری اور افطار کا اہتمام کر تے ہیں‘ عیدیں منا تے ہیں لیکن یہ بھول جا تے ہیں کہ یہ روزہ تو تقویٰ کے لیے ہے۔یہ رو زہ تو اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے ہے۔قرآن نے تو اس کا مقصد اور حاصل یہ بتایا ہے کہ جس ہدایت‘ یعنی قرآن سے تمھیں سرفراز کیا ہے اسی پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکرگزار بن جائو (وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَo البقرہ ۲:۱۸۵)۔ گویا روزہ تو اس مقصد کے لیے ہے کہ ہم قرآن کے پیغام کو پھیلائیں‘ اللہ کی حاکمیت کو قائم کریں اور دین کی سربلندی کی جدوجہد میں مسلسل مصروف رہیں۔

ایمان کی فکر اور ایمان کے مطابق زندگی گزارنے کا عزم ہماری قوت کی پہلی بنیاد ہے۔ ضرورت ہے کہ ہم اپنا جا ئزہ لے کر کے یہ دیکھیں کہ ایمان ‘ایمان کے تقاضے ‘ زندگی کا مقصد اس کے اہداف اوروژن ‘اور اِس وژن کے ساتھ ساتھ پھر اِیمان اور عمل کے تعلق کی کیا کیفیت ہے۔ اسلام میں ایسا کوئی تصور موجود نہیں ہے کہ ایمان عمل کے بغیرہو ‘ جس طرح عمل ایمان کے بغیر ممکن نہیں ہے اسی طرح ایمان بھی عمل کے بغیر نامکمل اور بے ثمر ہے‘ یہ دونوں ساتھ ساتھ ہیں۔ لہٰذا ہماری پہلی کمزوری ایمان کی‘ تصورِ زندگی کی ‘مقصودِ حیات کی‘ ہدف کی اور منزل کے شعور کی ہے۔ اگر اسے ہم درست کر لیں تو باقی تمام معاملات صحیح رُخ پر آسکتے ہیں ۔اور جب تک یہ درست نہ ہو تو تابناک مستقبل ایک خواب اور سراب رہے گا‘ وہ ہمارا مستقبل نہیں بن سکے گا۔

اخلاقی قوت

ایمان کے ساتھ دوسری بنیادی چیز اخلاقی قوت ہے۔اخلاقی قوت کی بنیاد ایمان ہے۔ عبادات اِس قوت کو پیدا کرنے کا ذریعہ ہیں۔ یہ وہ قوت ہے جو انسان کو سکھاتی ہے کہ وہ ظلم کو    نہ برداشت کرے بلکہ اسے چیلنج کرے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے صاف کہا کہ اگر تم اخلاق کے اعلیٰ مقام پر ہو گے تو پھر تم میں سے ہر ایک دس دشمنوں کے لیے کا فی ہوگا۔اور اگر تمھا رے اخلاق کمزور ہو جائیں گے توتم دو کے لیے کافی ہوجاؤ گے۔لیکن آج معا ملہ یہ ہے کہ ہم ایک کا مقابلہ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ اس لحاظ سے ہماری دوسری کمزوری یہی اخلاقی قوت کی کمزوری ہے۔ اور اخلاقی قوت ایمان اور عبادات کے ساتھ پیدا ہوتی ہے‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے جلا پاتی ہے اور دعوت الی الخیر اور قربانی دینے سے اس میں نمو اور ترقی رونما ہوتی ہے۔

مادی وسائل کی ضرورت

تیسری اہم بات ما دی قوت ہے۔اگر آپ ما دی قوت کوحاصل کر نے میں غفلت برتتے ہیں اور مقابلے کی قوت پیدا کرنے کی فکر نہیں کرتے تو صرف ایمان اور اخلاق کے ذریعے سے آپ یہ با زی نہیں جیت سکتے ہیں۔ اسلام ہم میں حقیقت پسندی پیدا کرتا ہے اور فطرت کے قوانین کے احترام کی تلقین کرتا ہے۔

اسلام کی خوبی ہی یہ ہے کہ اس کی قوت اس کے اندر ہے کہ اس نے  ایمان ‘اخلاق اور مادی قوت‘اِن تینوں کو ایک وحدت میں تبدیل کردیا ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس بات کاحکم نہیں دیا کہ قوت حاصل کرو‘ اتنی قوت کہ دشمن پر تمھارا خوف اور دبدبہ قائم ہوسکے اور تم اس کو منہ توڑ جواب دے سکو:

وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ وَاٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِھِمْ ج لَا تَعْلَمُوْنَھُمْ ج اَللّٰہُ       یَعْلَمُھُمْ (الانفال ۸:۶۰)

اور تم لوگ‘ جہاں تک تمھارا بس چلے‘ زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلے کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعدا کو خوف زدہ کرو جنھیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔

قرآن میں طاقت کے حصول اور گھوڑوں کو تیار رکھنے کی جو بات کہی گئی ہے وہ محض گھوڑوں تک محدود نہیں بلکہ وہ اس بات کی دعوت ہے کہ اپنے وقت کی بہترین معاشی‘ سائنسی‘ عسکری ٹکنالوجی کو اپنی گرفت میں لاؤ۔ اس بارے میں قرآن نے بڑے پیا رے انداز میںاپنی بات کہی ہے کہ یہ قوت اتنی ہو نی چاہیے کہ تمھا رے دشمن کو خوف ہو جو دراصل تمھا را دشمن ہی نہیں‘ اللہ کا دشمن بھی ہے اور یہ دشمن وہ ہیں جنھیں تم جانتے ہو اور وہ بھی جن کو تم نہیں جانتے لیکن اللہ کو ان کا علم ہے۔

اجتما عی نظام کی اصلاح کے لیے قوت کا حصول ضروری ہے۔ یہ ما دی قوت اگر اللہ کے دین کی سر بلندی کے لیے ہو ‘ اگر اُمت مسلمہ کے شہداء علی الناس کے مشن کو ادا کرنے کے لیے ہو تو یہ عبادت ہے۔ یہ دنیا پرستی نہیں ہے‘یہ ما دہ پرستی نہیں ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ سب کچھ دیا ہی اسی لیے ہے کہ اُسے ہم مسخر کر کے اُن اخلاقی مقاصد‘اور نظر یات کے غلبے کے لیے استعمال کریں جو استخلاف کی بنیاد پرہما رے ذمے کیے گئے ہیں۔

معاشرے اور قیادت کا بگاڑ

ان تین بنیا دی چیزوں کے بعد پھر میں یہ بات کہنا چا ہتا ہوں کہ ِاس وقت جہاں انفرادی طور پر‘ الحمدللہ ہما رے معا شرے کے اندربہت خیر موجود ہے اور  میری طرح جن افراد کو بھی دنیا کے گوشے گوشے میں جا نے کا موقع ملا ہے‘ وہ یہ گوا ہی دے سکتے ہیں کہ خراب مسلمان معا شرہ   بھی اپنے اندر بڑا خیر رکھتا ہے۔لیکن اس اعتراف کے بعد ‘یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ آج  مسلم معاشرہ ‘مسلمانوں کا اجتما عی نظامِ قانون ‘ اخلاق‘ معیشت سب زبوں حالی کا شکار ہیں۔ اس پر پردہ ڈالنے سے کوئی فا ئدہ نہیں ۔ ہمیں سمجھنا چا ہیے کہ یہ بگاڑکی گرفت میں ہیں اور خود پورے معاشرے اور ریاست کی اصلاح اور تعمیرنو تابناک مستقبل کے حصول کے لیے ضروری ہے۔ انفرادی اصلاح کافی نہیں‘ دعوت‘ نیکی کا حکم‘ برائی کو مغلوب کرنے اور معاشرے اور ریاست کو شریعت اسلامی کے مطابق منظم اور سرگرم کرنا بھی دنیا اور آخرت کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔

پانچویں چیز مسلمانوں کی قیادت کا بگاڑ ہے۔اور میں یہاں ’قیادت‘ کے لفظ کو اس کے وسیع ترین مفہوم میں استعمال کر رہا ہوںجس میں گھر کا سر براہ‘ استاد اور تعلیمی ادارے کا سر براہ‘معا شی حیثیت سے قیادت کے مقام پر فائز لوگ‘ اور پھر اجتما عی اور سیاسی قوت اور سربرا ہی۔ اس وقت اُمتِ مسلمہ کا بہت بڑامسئلہ قیادت کا بگاڑ اور اسلامی معیار سے کوسوں دُور ہونا ہے۔ عوام کی خامیاں اپنی جگہ‘ مگر قیادت کا بگاڑ‘ اصل خرابی ہے۔ عوام الناس‘ عمل میں خواہ کتنے بھی گئے گزرے ہوں‘ ان کی خواہشات ‘ اور تمنائیںسب کا ہدف دورِ رسالت مآب اوردورِ خلافت را شدہ ہی ہے۔آپ کسی اَن پڑھ بڑھیا سے پو چھ لیں کہ تم کون سا نظام چا ہتی ہو؟ وہ کہے گی کہ مجھے وہ عدل چاہیے جو حضرت عمر فاروق ؓ نے دنیا کو دیا تھا۔ یہ احساس موجود ہے۔ لیکن قیادت ‘اس کا قبلہ ‘ اس کی وفاداریاں‘ اس کی ترجیحات سب بگاڑ کا شکار ہیں اور عوام اور قیادت کے درمیان ایک سمندر حائل ہے۔صرف سمندر ہی حائل نہیں بلکہ ان کے درمیان مسلسل کش مکش ہے اور اب تو عالم یہ ہے کہ اس قیادت میں ایسے بدنصیب بھی ہیں جن کو یہ تک کہنے کی جسارت ہو تی ہے کہ کیا میں لوگوں کے ہاتھ کاٹنا شروع کر دوں‘اور اس طرح پوری قوم کولنجا کر دوں۔انھیں ڈاڑھی اور حجاب کا تمسخر اُڑاتے ہوئے بھی کوئی شرم نہیں آتی۔ یہ بگاڑ بڑا بنیادی بگاڑ ہے۔

ہمیں ان پانچوں دائروں میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ ان میں سے ہم کسی ایک کو بھی اگر نظر انداز کر تے ہیں تو پھر تابناک مستقبل ایک خواہش تو ہو سکتا ہے‘ ایک حقیقت نہیں بن سکتا۔ یقین جا نیے ان میں سے کوئی مشکل اور کوئی سبب بھی ناقابلِ تسخیر نہیں ۔ہم نے آج بھی ان    گئے گزرے حالات میں اپنی آنکھو ں سے دیکھا ہے کہ کس طرح افراد کی زندگیاں بدلتی ہیں؟  کس طرح قوموں کی تقدیریں بدلتی ہیں؟ میں دو واقعات آپ کو بتانا چا ہتا ہوں۔

دو روشن مثالیں

جب ملایشیا آزا د ہوا تو اس وقت کی حکومت نے یہ طے کیاکہ انگریزوں کی حکمتِ عملی پر عمل کر تے ہوئے اسکول کے بچوں اور بچیوں کو تعلیم کے لیے بیرونِ ملک بھیجیں ۔اس کے لیے برطانیہ‘ آسٹریلیا اور امریکا ان تین ملکوں کا انتخاب کیا گیا۔اور ہزاروں کی تعدادمیں نوجوان نابالغوں اور اسکول کی عمر کے بچوں بچیوں کو بھیجا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ وہ اس طرح مغرب کے رنگ میں رنگ کرکے آئیں گے کہ پھر زندگی کی انھی رنگینیوں کو ملک میں عام کریں گے۔اور ہم اس طریقے سے ان کو آزادی دینے کے بعد بھی اپناغلام رکھ سکیں گے۔لیکن میں آپ کو بتاتاہوں کہABIM اوراسلامی تحریک وہاں پر انھیں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی وجہ سے رونما ہوئی اور بالکل فضا     بدل گئی۔

اس سے بھی زیا دہ آنکھیں کھولنے والی مثال الجزائر کی ہے۔ہم نے تو بر طانوی استعمار کو دیکھا ہے۔ جس میںفرانسیسیوں کے مقابلے میں پھر بھی کچھ معقولیت تھی۔ کچھ قانون کا احترام تھا۔ کچھ مذہبی روادا ری تھی ۔فرانس کا حال تو یہ تھا کہ انھوں نے اپنے مقبو ضہ علاقوں کو سیا سی اور معاشی اعتبار سے ہی تباہ نہیں کیا‘ بلکہ اخلاق ‘ تعلیم ‘حتیٰ کہ زبان‘ کسی کو نہیں چھوڑا۔ الجزائر میں استعمار کے جارحانہ رویے کے نتیجے میں یہ قوم عربی زبان سے محروم ہوگئی تھی۔جب ۵۵/۱۹۵۴ء میں وہاں کی قومی محاذ آزادی (این ایل ایف) کے سربراہ یہاں پاکستان آئے تو اس وقت میں جمعیت کا   ناظم اعلیٰ تھا۔ہم ان سے ملنے کے لیے میٹروپول ہوٹل میں گئے۔ہم اپنے ساتھ ایک عربی کا مترجم لے کر گئے۔جب ان سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ میں عربی نہیں بول سکتا ۔ کوئی فرانسیسی مترجم لائیے۔یہ کیفیت تھی وہاں کی مسلمان قیادت کی۔

اگر آپ فرانس کی میڈیا پالیسی کو دیکھیں تو سر پکڑ لیں گے کہ فرانسیسی دور اقتدار میں جو فلمیں فرانس میں نہیں دکھائی جا سکتی ہیں‘ وہ فحش پروگرام الجزائر میں پوری بے باکی سے ٹیلی کاسٹ کیے جاتے تھے۔ مقصد تھا پورے معاشرے کو بگاڑنا اور اخلاقی انارکی میں مبتلا کرنا۔ اس کا ردِعمل یہ ہوا کہ اسلامی مزاحمت اور اسلامی تحریک نے دل و دماغ میں طوفان برپا کر دیا۔ عربی زبان کا احیا ہوا‘ اسلامی نظام کی پیاس اتنی بڑھی کہ ۱۹۹۲کے انتخابات میں اسلامی فرنٹ کو تقریباً ۹۰ فی صد ووٹ ملے۔

مزاحمت‘ اصل طاقت

استعمار کی منصوبہ بندی ہمیشہ سے یہی رہی ہے جس کی تلقین آج بش صاحب اور ان کی ٹیم کر رہی ہے کہ تعلیم کو تبدیل کرو‘مدرسوں کو سیکولر رنگ میں رنگو۔ جہاد کا لفظ تو آج نہیں‘ پہلے دن سے دشمنوں کا ہدف رہا ہے ۔آپ کو معلوم ہے کہ اسلام پر غالباََ دو سری صدی ہجری کے اندر پہلی تنقیدی کتاب جو ایک عیسائی عالم کی طرف سے آئی ہے‘ اُس میں اصل ہدف جہاد اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے‘یعنی نبی پاک ؐ کی ذاتِ مبارک اور جہاد کا تصور ہمیشہ سے اصل ہدف رہے ہیں۔ فرانسیسی‘ برطا نوی‘ فرانسیسی‘ اطالوی استعما ری دور کا مطالعہ کر لیجیے‘ سب کے سامنے اصل ہدف جہاد تھا۔ خواہ وہ السنوسی کی تحریک ہو‘خواہ وہ الجیریا کے عبدالقادر کی تحریک ہو‘ خواہ وہ صومالیہ کی تحریک ہو‘ خواہ برعظیم کے شاہ اسماعیل شہیدؒ کی تحریک ہو۔ہر جگہ آپ دیکھیں گے کہ جہاد ہی نے استعمار کا راستہ روکا اور جہاد ہی کو استعمار نے ہدف بنایا۔یہ نئی نہیں‘ بڑی پرا نی حکمتِ عملی ہے۔ اور بظاہر معلوم ہو تا ہے کہ پتا نہیں یہ کیا کر لیں گے لیکن جہاد کا تصور ہو یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی سنت کی مرکزی حیثیت‘ دشمن کی ساری یلغار کے باوجود ان پر کوئی دھبا نہیں آسکا اور نہیں آسکتا۔ جھوٹی نبوتیں تک برپا کی گئیں لیکن دین حق پر کوئی آنچ نہ آئی۔ اسلام کو دبانے کی جتنی کوششیں ہوئیں‘ وہ اتنا ہی مستحکم ہوا    ؎

اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے

اتنا ہی یہ اُبھرے گا‘ جتنا کہ دبا دیں گے

تاریخ میں ہم پر بڑے سخت دور گز رے ہیں۔شا ید سب سے سخت دور وہ تھا جب چنگیز اورہلاکو کی فوجوں نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی ۔اور مسلمانوں کی مایوسی اور بے بسی کا عالم یہ تھا کہ مؤرخین لکھتے ہیں کہ اگرکوئی تاتار مسلمانوں سے کہتا تھا کہ تم لیٹ جاؤ اور انتظار کرو کہ میں اپنے گھر سے اپنی تلوار لے ا ٓؤں اور اس سے میں تم کو ذبح کروں تو وہ لیٹے رہتے تھے۔ حتیٰ کہ وہ اپنا خنجر لاتے اور ان کو ذبح کر دیتے۔یہ کیفیت تھی مسلمانوں کی۔لیکن اس کے بعد دیکھیے کہ      دو سوسال کے اندر اندر پھر حالات بدل گئے اور انھی تاتاریوں کے دل و دماغ کو اسلام نے مسخر کرلیا‘ جنھوں نے مسلمانوں کو فتح کیا تھا۔ اسلام نے ان کو فتح کرلیا اور بقول اقبال     ؎

ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے

پاسبان مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

وہی تاتار جو مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھا رہے تھے اور شہدا کے سروں سے مینار بناتے تھے‘ انھی کے ذریعے سے پھر۴۰۰ سال تک مسلمانوں کی حکمرانی کا نظا رہ چشمِ تا ریخ نے دیکھا۔ لہٰذا تاریخ کے نشیب وفراز سے پریشان نہ ہوں ۔لیکن اس میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ میرا اور آپ کا ردِ عمل کیا ہو تا ہے؟ غلامی یہ نہیں ہے کہ ہمارے ہاتھوں میں زنجیریں پڑجائیں اور ہمارے پاؤں بیڑیوں سے جکڑے ہوئے ہوں‘ بلکہ غلامی یہ ہے کہ ہم ظلم کی بالادستی کو قبول کرلیںاورمزا حمت کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔جہاد نام ہی مزا حمت کا ہے ۔جہاد نام ہے ظلم اور کفر کے غلبے کے خلاف جدوجہد کرنے کا۔خواہ وہ قلم سے ہو‘ زبان سے ہو‘ ذہن سے ہو‘مال سے ہو یا جان سے ہو۔یہ سب اس کی مختلف شکلیں ہیں۔اور اس وقت دشمنوں کا یہی ہدف ہے کہ مسلمانوں میں روحِ جہاد باقی نہ رہے ۔ ان کا ہدف ہماری قوتِ مزاحمت ہے‘ شر سے سمجھوتا نہ کرنے کا جذبہ ہے۔ حالات کے آگے سپر نہ ڈالنے کا داعیہ ہے‘ مقابلے کا جذبہ اور اُمنگ ہے۔ اقبال نے ’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘ میں ابلیس کی اس پریشانی کا اظہار بڑے واضح الفاظ میں کر دیا ہے    ؎

ہے اگر مجھ خطر کوئی تو اِس اُمت سے ہے

جس کے خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو

یہ جو شرارِ آرزو ہے‘یہ جو ظلم کے آگے ہتھیار نہ ڈالنے اور حق کے لیے جدوجہد کرنے کا جذبہ ہے‘ یہ ہماری اصل طاقت ہے۔ اگر یہ جذبہ آپ میں موجود ہے تو کوئی آپ کو غلام نہیں بناسکتا‘ کوئی ہمیں مغلوب نہیں کرسکتا۔اور اگر یہاں ہم نے شکست کھا لی تو ہمارے پاس اگر سونے کے انبار ہو ں ‘بنکوں میں ڈالروں کی ریل پیل ہو‘ حتیٰ کہ اسلحے کی فراوانی ہو‘ تب بھی ہم غلامی سے نجات نہیں پا سکتے۔ اس لیے اگرآپ مجھ سے ایک لفظ میںپو چھنا چا ہتے ہیں کہ تابناک مستقبل کی ضمانت کیا ہے؟ تو وہ ہے آرزو‘ وہ ایمان ہے ‘ وہ یہ جذبہ ہے ‘ وہ یہ مزاحمت ہے‘  وہ یہ احساس ہے کہ ہمیں اللہ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کو قبول کرنا     ہے‘ اس کے داعی بننے کے لیے جدوجہد کرنی ہے۔ اسی سے دنیا اور آخرت دونوں میں ہمارا مستقبل روشن ہو سکتا ہے۔

اتحاد کی ضرورت

میں بات ختم کرنے سے پہلے ایک اور امر کی طرف آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جو فتنے اورمشکلات آج ہمیں در پیش ہیں‘ اُن میں ایک ہمارا آپس کی تفرقہ با زی ‘کفر سازی‘ اور جزوی امور کو اتنی اہمیت دے دینا ہے کہ اصول پامال ہوجائیں اور باہم رواداری پارہ پارہ ہوجائے۔ اصول ‘ بنیاد اور متفق علیہ معاملات کو نظرانداز کر کے فرو عی ‘جزوی‘ غیر متعلق باتوں میں اُلجھ جانے اور ان کی بنیاد پر ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے کا مرض ہمارے مخالف بڑی کامیابی سے ہمارے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ یہ ایک ایسی حکمتِ عملی ہے جس سے ہمارے مخالف ہمیں نان ایشوز میں الجھا کراصل ایشوز سے جن کو ہمیںمل جل کر حل کر نا ہے‘ غافل رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کی مثال میں آپ کو یہ دینا چا ہتا ہوں کہ عراق میں امریکی قوتوں کے غلبے کے بعد جو سب سے زیا دہ اہم ایشو اٹھایا گیا وہ یہ ہے کہ عراق میں اتنے شیعہ ہیں اتنے سنی ‘اور یہ کبھی ساتھ نہیں رہ سکتے۔اور بددیانتی کی انتہا ہے کہ کرد جو آبا دی کا پانچواں حصہ ہیں‘ وہ ۱۰۰ فی صد سنی ہیں مگر انھیں کوئی سنی نہیں کہتے ۔لیکن جو ۲۲‘۲۳فی صد عرب سنی ہیں انھیں سنی قرار دیتے ہیں اور باقیوں کو   شیعہ قرار دیتے ہیں۔یہی چیز افغانستان میں آپ نے دیکھی۔پشتون اور فا رسی بولنے والے‘    سنی اورشیعہ‘یعنی یہ سارے تنازعات پیداکیے جا رہے ہیں۔ انھی کا پرتو آپ پاکستان میں بھی   دیکھ سکتے ہیں۔

میں نے آغاز میں کہا تھا کہ ایمان کے ساتھ ساتھ دین کا صحیح وژن ضروری ہے۔ اور اس وژن کے اندر ایک بڑی چیز ہے: الاقدم فالاقدم کہ جو اہم ہے اسی کو اہم ہونا چا ہیے۔جو مرکزی ہے اسی کو مرکزی ہونا چا ہیے۔جو اصول ہے اسی پر ہما ری اصل نظرہو نی چا ہیے۔اور جو اختلاف ہے ‘ جو فرو عی ہے اس کے با رے میں ہمیں توسع ‘ رواداری کواپنانا چا ہیے ۔مکالمہ ضرور کیجیے لیکن اس میں اُلجھ کر اصل کو بھول جانا اور تر جیحات کا بگڑ جانا یہ بہت بڑی تبا ہی ہے۔میں نے    جتنا مطا لعہ کیا ہے‘ میں آپ سے ایمان داری سے کہتا ہوں کہ اہلِ سنت کے درمیان جو مکاتب فکر ہیں ان میں ۹۵ فی صد ایشوز وہ ہیں کہ جن میں کوئی بنیادی اختلاف نہیں۔ سا رے اختلافات صرف ۵ یا ۶ فی صد معاملات کے اُوپر ہیں۔اور اگر آپ اہلِ سنت اور اہلِ تشیع کے مابین اختلافی امور کا جائزہ لیں تو یہ زیادہ سے زیا دہ بڑھ کر کے ۸ سے ۱۰فی صدامور کے بارے میں ہیں‘ جب کہ  ۹۰ فی صد امور میں ہم سب مشترک ہیں۔

کیا ظلم ہے کہ ۹۰ فی صد اور ۹۵فی صد قدر مشترک کو تو ہم بھول جاتے ہیں‘ اور اس پانچ سات فی صد جس کے با رے میں اختلاف ہے ‘اس میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ ہم اختلاف سے انکار نہیں کرتے لیکن اگر ہم اس اختلاف کو اس کی حدود میں رکھیں‘ اختلافی امور میں روادا ری بر تیں اور جو ہما رے مشترکات ہیں اس پر ڈٹ جائیںتو ہما ری کتنی بڑی قوت ہے ۔اور یہی وجہ ہے کہ میں کہتا ہوں کہ فقہ نظامِ زندگی ہے ‘ قانون ہے ‘ ہمارا راہنما ہے۔لیکن ہما ری تر جیحات میں سب سے پہلی چیز قرآن ہو نی چا ہیے۔پھر سنتِ رسول ؐ ، پھر فقہ‘اور پھر تاریخ ۔اگر یہ تر تیب آپ رکھیں گے تو کبھی بگاڑ نہیں آئے گا۔ اس سے بڑا سانحہ کیا ہوگا کہ ہم قرآن کو بھول جائیں ‘ سنت کی ہم فکر نہ کریں ‘فقے میں بھی مشترکات کو ہم نظرانداز کر دیں اور صرف فروعات میں ہی الجھ جائیں تو پھر حالات خراب نہ ہوں تو کیا ہو؟

عزمِ نو

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی صحیح بات کہی تھی کہ لن یصلح آخر ھذہ الامۃ الا بما یصلح بہ اولھا ، اِس اُمت کے آخری دور کی اصلاح بھی اُسی سے ہوسکتی ہے جس سے اِس کے پہلے دور کی اِصلاح ہوئی تھی۔اور وہ ہے قرآن۔تو آئیے ! اس کتابِ ہدایت کو تھام لیں اور غلبۂ اسلام کی اُس اُمنگ کو جو ساری قوت کا سرچشمہ ہے ‘اِس جذبے کو بیدار اور اُجاگر کریں کہ ہمیں ظلم کے آگے کبھی بھی سپر نہیں ڈالنا بلکہ مزاحمت کرنا ہے۔اور اگر آپ تاریخ پر غور کریں تو آپ یہ دیکھیں گے کہ خیر اور شر کی کش مکش سے ہی قوموں میں ساری تخلیقی قوت (creativity) پیدا ہو تی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح فزکس میں رگڑ (friction) سے انرجی پیدا ہوتی ہے ۔اسی طرح انسانی زندگی میں بھی اسی کش مکش سے تخلیقی قوت پیدا ہوتی ہے اور طاقت کے نئے سر چشمے پھوٹتے ہیں۔

تو آئیے!ہم ایمان اور اُمید کا دامن تھام لیں۔ اللہ کو اپنی قوت کا ذریعہ بنائیں ۔ اور اپنے عوام کو بیدار اور منظم کریں کہ اللہ کی نصرت کے لیے یہ ضروری ہے۔  ھُوَ الَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَ o (الانفال ۸:۶۲ )’’وہی وہ ذات ہے جس نے اپنی مدد اور مومنوں کے ذریعے سے تمھاری تائید فرمائی‘‘۔ اپنے رب سے مدد طلب کریں ۔ تاریکی سے مایوس نہ ہوں۔ بچپن میں‘ میں نے ایک قطعہ سنا تھا جسے حرزِجان بنا لیا‘ اس پر بات ختم کرتاہوں:

یوں  اہلِ  توکل  کی  بسر  ہوتی  ہے

ہر  لمحہ   بلندی  پہ  نظر  ہوتی  ہے

گھبرائیں نہ ظلمت سے گزرنے والے

آغوش میں ہر شپ کے سحر ہوتی ہے


یہ اشارات اس تقریر پر مبنی ہیں جو مدیر ترجمان القرآن نے ۱۱ مارچ ۲۰۰۵ء کو فاران کلب کراچی کے ایک بڑے اجتماع میں کی جس میں کراچی کے اہل دانش اور تاجر برادری کے سرکردہ افراد شریک تھے۔ ضروری نظرثانی اور اضافوں کے ساتھ۔

(کتابچہ دستیاب ہے۔ قیمت: ۵ روپے۔ سیکڑے پر رعایت۔ منشورات‘ منصورہ‘ لاہور۔ فون:۵۴۳۴۹۰۹)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

آج پوری ملّتِ اسلامیہ ہر سمت سے اندرونی اور بیرونی چیلنجوں اور خطرات کا نشانہ بنی ہوئی ہے اور اس کا سینہ اپنوں اور غیروں کے تیروں سے چھلنی ہے لیکن ہماری نگاہ میں اس وقت تین ایسے بنیادی اور گمبھیر چیلنج ہیں جن کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے اور ان کا مقابلہ کرنے کی صحیح حکمت عملی مرتب اور اختیار کرنے کی ضرورت ہے اور پوری اُمت مسلمہ خصوصاً ملّتِ اسلامیہ پاکستان کی بقا‘ استحکام اور ترقی اسی پر منحصر ہے۔ اسلام کی حفاظت کا بیڑا تو اس کے وحی کرنے والے نے اٹھا رکھا ہے۔ اگر ایک قوم اس کا حق ادا کرنے میں ناکام رہتی ہے تو وہ قادر ہے کہ دوسری قوموں کو اس امانت کا بار اٹھانے کے لیے آگے بڑھا دے جس طرح وہ ماضی میں کرتا رہا ہے۔ اس کی ایک تابناک مثال کی طرف اقبال نے اس طرح اشارہ کیا ہے   ؎

ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے

پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

لیکن اصل مسئلہ اسلام کی بقا کا نہیں‘ بحیثیت قوم اور اُمت ہماری بقا اور ترقی کا ہے۔ تمام اہلِ ایمان اور اصحابِ بصیرت کی ذمہ داری ہے کہ ان چیلنجوں اور خطرات کا صحیح صحیح ادراک کریں جن کی زد میں ہمارا قومی اور ملّی وجود ہے اور اُمت مسلمہ کو بیدار‘ منظم اور متحرک کرنے کی سعی و جہد کریں تاکہ ان چیلنجوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا جا سکے۔

جن تین چیلنجوں کو ہم بنیادی اور فیصلہ کن سمجھتے ہیں ان میں دو چیلنج اندرونی ہیں‘ اور ایک بیرونی ہے۔

داخلی صورت حال

سب سے پہلا چیلنج ہماری اپنی داخلی صورت حال کا نتیجہ ہے جس کا تعلق ذاتی کردار سے لے کر اجتماعی زندگی اور نظامِ حیات تک سے ہے۔ آج کا مسلمان فرد اور مسلمان معاشرہ ہمارے سارے دعووں کے باوجود‘ اسلام کے کم سے کم معیار سے بھی کوسوں دُور ہے اور ہم اسلام کی جو تصویر پیش کر رہے ہیں‘ وہ دین حق کا پرتو ہرگز نہیں۔ اچھی مثالیں آج بھی موجود ہیں اور شاید انھی کے طفیل ہمیں زندہ رہنے کی مہلت ملی ہوئی ہے‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ اپنی تمام نمازوں‘ روزوں‘ زکوٰۃ اور حج و عمروں کے باوجود‘ بحیثیت مجموعی ہم‘ انفرادی اور اجتماعی دونوں دائرہ ہاے زندگی میں جہالت‘ غفلت‘ نفاق‘ خود غرضی‘ ناانصافی‘ نفس پرستی اور دنیا طلبی کی گرفت میں بری طرح جکڑے ہوئے ہیں۔ خود دین کے بارے میں ہمارا وژن دھندلا اور پراگندا ہوتا جا رہا ہے۔ زندگی کے تضادات پر ہم کوئی خلش محسوس نہیں کرتے۔ جو ملک لاکھوں انسانوں کی بیش بہا قربانیوں کے ذریعے اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا اس میں اسلام ہی سب سے زیادہ مظلوم ہے۔ اس کے احکام کی کھلی کھلی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو نظرانداز ہی نہیں‘ علی الاعلان پامال کیا جا رہا ہے اور ہمارے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔

عالم یہ ہے کہ آج جان‘ مال‘ عزت بلکہ ایمان بھی محفوظ نہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اسے توڑنے میں جری ہیں۔ جرائم کی فراوانی ہے اور مظلوم کی دادرسی کرنے والا کوئی نہیں۔ غریب غریب تر ہو رہا ہے۔ اخلاقی گراوٹ اس انتہا کو پہنچ گئی ہے کہ مجرم کھلے بندوں جرم کرکے دندناتے پھرتے رہتے ہیں لیکن کوئی ان کو روکنے اور قابو کرنے والا نہیں۔ مسلم معاشرے میں خودکشی کا کبھی وجود نہ تھا مگر آج یہ عفریت بھی سر اٹھا رہا ہے اور معاشرے کو تہ و بالا کرنے والے اس ’سونامی‘ سے بچانے کی کوئی فکر اہل اختیار و ثروت کو نہیں۔ انفرادی بگاڑ نے اب اجتماعی بگاڑ کی شکل اختیار کرلی ہے اور اربابِ اقتدار خوابِ غفلت میں محو اور اپنی دل چسپیوں میں گم ہیں‘ بلکہ بگاڑ کی سرپرستی کی خدمت انجام دے رہے ہیں جس کی ایک شرمناک مثال حالیہ بسنت میلہ ہے۔ جنوب اور جنوب مشرقی ایشیا میں سونامی نے اور خود اپنے ملک میں بارشوں نے تباہی مچائی۔ ۵ فروری کو مظلوم کشمیری بھائیوں سے یک جہتی کا دن منایا گیا مگر عین اسی زمانے میں خالص ہندوانہ انداز میں اور عالمی میڈیا اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے زیرسایہ قومی غیرت اور ذاتی شرم و حیا کو بالاے طاق رکھ کر بسنت میلہ منایا گیا اور اسے ملک کے ذمہ دار ترین افراد کی سرپرستی حاصل رہی۔

اس بگاڑ کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اب اقدار اور پیمانے تک بدلنے لگے ہیں اور ’ناخوب‘ کو ’خوب‘ بناکر اور بڑا مفید اور دل آویز روپ دے کر پیش کیا جا رہا ہے۔ آزادی، ’روشن خیالی اور اعتدال پسندی‘ کے نام پر اصولوں‘ احکام‘قوانین اور اقدار کو سمجھوتے کی سان پر رکھ کر ٹکڑے ٹکڑے کیا جا رہا ہے۔ یہ اجتماعی فساد اس وقت ہمارا سب سے بڑا دشمن بن گیا ہے۔ اگر اپنے تصورِ دین کی حفاظت اور خیروشر کے معیارات کی تفہیم اور ان کے احیا کے باب میں کچھ بھی غفلت برتی گئی تو کوئی چیز ہمیں تباہی سے نہ بچا سکے گی کہ یہ اللہ کی سنت اور تاریخ کا فیصلہ ہے   ع

چمن کی فکر کر ناداں ’’تباہی‘‘ آنے والی ہے

قیادت اور حکمرانوں کا رویہ

اس صورت حال کو پیدا کرنے‘ بڑھانے کی ذمہ دار اور اصلاح کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہماری قیادت اور حکمران قوتیں ہیں۔ یہ بات اُمت مسلمہ کے لیے بالعموم اور پاکستان کے لیے بالخصوص صادق ہے۔ افراد اُمت کی ذمہ داری اور جواب دہی بھی اپنی جگہ حقیقت ہے اور ہم اسے کسی پہلو سے بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہتے مگر بگاڑ کو اس انتہا تک پہنچانے میں سب سے زیادہ ذمہ داری اس قیادت کی ہے جس کا فرض اس کو روکنا اور صلاح و خیر کے غلبے اور فروغ کے لیے جدوجہد کرنا تھا۔ ہم ’قیادت‘ کے لفظ کو اس کے وسیع تر معنی میں استعمال کر رہے ہیں جس میں زندگی کی ہر سطح کی قیادت شامل ہے لیکن اس وقت بگاڑ کا سب سے بڑا سرچشمہ حکومت اور ملک کا بالادست طبقہ ہے جس نے دستور‘ قانون‘ ضابطہ کار‘ روایات‘ اخلاقی اقدار سب کی پامالی کو اپنا شعار بنا لیا ہے۔ اس میں سرفہرست فوجی قیادت‘ معاشی اشرافیہ‘ بیوروکریسی اور نام نہاد آزاد خیال سیاسی قوتوں کا گٹھ جوڑ ہے جو قوت کے ہر منبع پر قابض ہے اور اختیار اور اقتدار کو ذاتی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کر رہا ہے اور اجتماعی زندگی کو بگاڑ‘ تصادم‘ ناانصافی اور بے راہ روی کی طرف لے جا رہا ہے۔

ہم بڑے دکھ سے یہ بات کہنے پر مجبور ہیں کہ اس بگاڑ میں مرکزی کردار جنرل پرویز مشرف اور ان کے ساتھیوں کا ہے جو اصلاح کے بلندبانگ دعوے کرتے ہیں مگر ان کے ساڑھے پانچ سالہ دورِاقتدار میں بحیثیت مجموعی بگاڑ انتہا درجے تک پہنچ گیا ہے اور نظریاتی خلفشار‘ اخلاقی بے راہ روی‘ سماجی بے انصافی‘ معاشی ظلم و استحصال‘ سیاسی جنبہ داری‘ مفاد پرستی اور بے اصولی کا یہ حال ہوگیا ہے کہ قوم کی ایک بیٹی کی عصمت دری کی جاتی ہے اور کہا جا رہا ہے حکمران مجرموں کو بچانے کے لیے کوشاں ہیں۔ سپریم کورٹ کے اعلیٰ ترین انتظامی افسر ۲۲گریڈ کے رجسٹرار کو بدعنوانی کے الزام میں برطرف کیا جاتا ہے۔ مرکزی وزرا میں وہ ’پارسا‘ بھی شامل ہیں جن پر نیب میں مقدمے چل رہے ہیں۔ ایک صوبے کا وزیراعلیٰ اپنے اہم ترین وزیر کو بدعنوانی کے الزام میں برطرف کرتا ہے اور وہ برطرف وزیر‘ وزیراعلیٰ پر بدعنوانی کا الزام لگاتا ہے اور پارٹی کی مرکزی قیادت دونوں کو خاموش رہنے اور فقط سیزفائر کرانے ہی میں عافیت دیکھتی ہے۔ گویا حمام میں سب ننگے ہیں۔ اور ستم بالاے ستم یہ کہ قومی احتسابی ادارے (نیب) کا ایک سینیر ڈائرکٹر (جو ریٹائرڈ فوجی افسر ہے)‘ رنگے ہاتھوں پکڑا جاتا ہے اور وہ بھی دو دوسرے ریٹائرڈ فوجیوں ہی کے کروڑوں اور اربوں کے کرپشن پر پردہ ڈالنے کے لیے۔ کوئی دن نہیں جاتا کہ پولیس کے افسر اور اہل کار جرم کرتے ہوئے نہ پکڑے جاتے ہوں اور ہزاروں ہیں جو ہر قانون سے بالاتر اور ہر گرفت سے آزاد ہیں اور عام شہریوں کی زندگیوں کو عذاب بنانے میں مصروف ہیں۔ ملک کی فوج کو اپنے ہی ملک کے شہریوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے اور فوج اور عوام کے درمیان فاصلے روز بروز بڑھ رہے ہیں۔ غربت‘ مہنگائی اور بے روزگاری میں ہوش ربا اضافہ ہو رہا ہے لیکن حکمران ہیں کہ اپنے لیے مراعات اور تنخواہوں میں اضافوں کے حصول اور  حفاظت کے نام پر فاقہ کش قوم کے اربوں روپے سے بلٹ پروف مرسیڈیز اور لینڈ کروزر منگوانے اور سرکاری خرچ پر عمرے کرنے میں مصروف ہیں۔

معاشی استحکام کی حقیقت

مبادلۂ خارجہ کے ذخائر میں اضافے کی خبریں سنانے والوں کو ذرہ برابر احساس نہیں کہ عام آدمی زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہے اور ہمہ پہلو بدعنوانی‘ بددیانتی اور کام چوری نے زندگی کے ہر دائرے کو مسموم کیا ہوا ہے۔ ایک طرف کشکول توڑنے کے دعوے ہیں‘ دوسری طرف بڑے پیمانے پر اس غریب قوم پر قرضوں کا نیا بوجھ لادا جا رہا ہے۔ صرف ان پانچ سالوں میں اربوں ڈالر کے نئے قرضے لیے گئے ہیں۔ اب تو اسٹیٹ بنک کی تازہ ترین رپورٹ بھی یہ کہنے پر مجبور ہے کہ بیرونی قرضے پھر ۳۶ ارب ڈالر سے تجاوز کرگئے ہیں۔ وہی ورلڈ اکانومک فورم جس کے داووس (سوئٹزرلینڈ) کے سالانہ اجلاس کے حوالے سے جنرل پرویز مشرف اور وزیراعظم شوکت عزیز اپنی کامیابیوں اور فتوحات کے شادیانے بجانے میں کوئی کسر نہیں  چھوڑتے‘ دیکھیے وہ پاکستان کی حالت کا کیا نقشہ کھنچ رہا ہے۔ ورلڈ اکانومک فورم گذشتہ پانچ چھے سال سے ایک رپورٹ The Global Competetiveness Index شائع کررہا ہے جس میں دنیاکے مختلف ممالک کی تین بنیادوں پر درجہ بندی کی جاتی ہے یعنی Growth Competetiveness Index ‘ Technology Index اور Public Institutions Index۔ اس میں معیشت کی کیفیت‘ اداروں کی حالت‘ بدعنوانی کی صورت حال‘ مسابقت اور سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول کی صورت کو سامنے  رکھا جاتا ہے۔ اس ادارے کی تازہ ترین رپورٹ اسی ماہ شائع ہوئی ہے: The Global Competetiveness Report 2004-05 اس کی تیاری میں ۱۰۰ سے زیادہ تحقیقی اداروں نے حصہ لیاہے اور یہ ۱۶۰اشاریوں (indicators) کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے‘ اس رپورٹ میں پاکستان کا مقام دنیا کے ۱۰۴ ملکوں میں ۹۱نمبر پر ہے یعنی ہم معاشی دوڑ میں سب سے پیچھے رہ جانے والے ۱۴ملکوں میں سے ایک ہیں۔ اس اشاریے میں بھارت کا نمبر ۵۵ پر آتا ہے اور مسلمان ملکوں میں دو ہم سے کم تر اور ۱۱ ہم سے بہتر ہیں۔ جنوب ایشیا میں بھارت اور  سری لنکا دونوں ہم سے نمایاں طور پر آگے ہیں۔ اور اس سے بھی زیادہ شرم کی بات یہ ہے کہ ۲۰۰۴ء کی فہرست کا مقابلہ جب ۲۰۰۳ء سے کیا جائے تو پاکستان اوپر جانے کی بجاے نیچے چلاگیا ہے۔ ۲۰۰۳ء میں ہم ۱۰۱ ملکوں میں ۷۳ ویں نمبر پر تھے اور ۲۰۰۴ء میں ۱۰۴ ملکوں میں ۹۱نمبر پر آگئے ہیں۔ دعوے ترقی کے ہو رہے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ مجموعی طور پر ہم ترقی کی سیڑھی پر اوپر جانے کے بجاے نیچے کی طرف لڑھک رہے ہیں۔

معروف ادارے ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل کے تیار کردہ گوشوارئہ بدعنوانی (کرپشن انڈکس) میں بھی وطن عزیز کی یہی صورتِ حال نظر آتی ہے۔ ۲۰۰۳ء میں ۱۳۳ ممالک کے جائزے میں ہمارا شمار ۹۲ نمبر پر تھا اور ۱۰ میں سے ہمیں ۵ئ۲ نمبر حاصل ہوئے تھے۔ ۲۰۰۴ء میں ۱۴۵ ممالک کے جائزے میں گر کر ۱۲۹ کے شمار میں آگیا ہے اور ہمارے نمبر ۱۰میں سے ۱ئ۲ ہوگئے ہیں۔ یہ ہے ہماری کارکردگی کا اصل چہرہ جس پر جنرل پرویز مشرف یہ غلاف چڑھا رہے ہیں کہ اب ملک میں صرف معمولی نوعیت کی (tactical) کرپشن ہے یعنی اعلیٰ سطح پر بڑے پیمانے کی (strategic) کرپشن ختم ہوگئی ہے۔ چوری اور سینہ زوری اگر اس کا نام نہیں تو پھر کیا ہے؟

بگاڑ کے اسباب اور عوامل کا جائزہ لیا جائے تو افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس کا     بڑا سبب پاکستان اور مسلم اُمت کی موجودہ قیادتیں ہیں جو ذات اور مفاد کے چکر میں ہیں‘ جو   مدد کو دستور‘ قانون‘ ضابطے اور اخلاق ہر چیز سے بالا رکھتی ہیں‘ جو نہ عوام میں سے ہیں اور نہ عوام کے سامنے جواب دہ ہیں بلکہ جن کے مفادات اور قوم کے مفادات متصادم ہیں۔ پاکستان میں صاحبانِ اقتدار کا موجودہ سیاسی گٹھ جوڑ دراصل فوجی قیادت‘ بیوروکریسی‘ معاشی اشرافیہ اور    ان سیاسی جماعتوں پر مشتمل ہے جو ہر قیمت پر اقتدار پر قابض رہنے میں اپنی عافیت دیکھتے  ہیں۔

ہمارا دوسرا چیلنج یہی قیادت ہے۔

امریکا کی عالمی سیاست

تیسرا چیلنج امریکا کی عالمی سیاست ہے جس کا خصوصی نشانہ اسلام‘ اسلامی دنیا اور پاکستان اور چند دوسرے مسلمان ممالک ہیں۔ صدربش نے اپنی صدارت کے پہلے چار سال میں عالمی بساط پر امریکی تسلط کو مستحکم کرنے اور ہر متبادل قوت کو غیرمؤثر بنانے کے لیے اپنا نقشۂ جنگ خاصے تفصیلی انداز میں بنا لیا تھا اور اب دوسرے دور میں اپنی پہلی ہی تقریر اور پھر کانگریس کے سامنے State of the Nation خطاب میں اسے اور بھی نوک پلک سے درست کر کے پیش کردیا ہے۔ ۲۱منٹ کی صدارتی تقریر میں انھوں نے ۴۲ بار liberty (آزادی) اور freedom (آزادی) کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے دنیا کے ہر گوشے تک آزادی اور جمہوریت کو مسلط کرنے کے عزائم کا اظہار کیا ہے۔ درحقیقت اس طرح صدر بش نے مستقبل کے نقشۂ جنگ کو بالکل واضح کر دیا ہے۔ الفاظ پر کیسا ہی ملمع کیوں نہ چڑھایا جائے‘ دل کی بات زبان پر آہی جاتی ہے۔ صدارتی تقریر میں صدر بش نے freedom (آزادی) کو fire (آگ) سے تشبیہ دی ہے: a fire in the mind of men اور یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ’’آزادی کی جنگ دنیا کے تاریک ترین گوشوں تک پہنچانا‘‘ اس کا مشن ہے۔ درحقیقت یہ آزادی کی تحریک نہیں‘ آزادی کے نام پر دنیا کو آگ اور جنگ کے شعلوں میں دھکیلنے کا خونی کھیل ہے۔

لندن کے اخبار دی گارڈین کے مضمون نگار ٹرس ٹرام ہنٹ (Tristram Hunt) نے اپنے ایک تازہ مضمون میں صدربش کے ایک مشیر کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں جو انھوں نے ایک امریکی صحافی رون سوس کائنڈ (Ron Suskind)سے کہے۔

اب ہم ایک سلطنت ہیں۔ جب ہم کوئی اقدام کرتے ہیں تو ہم اپنے لیے حقائق خود تخلیق کرتے ہیں۔ اور جس وقت آپ اس حقیقت کا مطالعہ کر رہے ہوتے ہیں‘ ہم دوبارہ اقدام کرتے ہیں‘ جس سے نئی حقیقتیں تخلیق پاتی ہیں۔ ہم تاریخ ساز ہیں۔ اب آپ کا‘ اور آپ سب کا کام محض یہ رہ جائے گا کہ ہم جو کرتے ہیں‘ اس کو پڑھتے (اور دیکھتے) رہیں۔ (گارڈین‘ ۱۸ فروری ۲۰۰۵ئ)

یہ رعونت دنیا میں آزادی اور جمہوریت کے نام پر نئے استعماری نظام کے قیام کے اصل چہرے سے پردہ اٹھادیتی ہے۔ ایسی ہی رعونت کا اظہار ۱۱؍۹ سے بہت پہلے کولن پاول نے بھی کیا تھا۔ اس وقت وہ پہلی عراق جنگ کے وقت امریکن چیف آف اسٹاف تھے‘ امریکا     میں پاکستان کی سفیر سیدہ عابدہ حسین نے پاکستان کے نیوکلیر دفاعی حق کا دفاع کرتے ہوئے  کولن پاول سے کہا تھا کہ جنرل صاحب‘ ہمارے پاس تو ایک دو ہی ’فٹ بال‘ ہیں، آپ کے پاس تو ہزاروں بم ہیں تو جنرل کولن پاول نے سختی سے جواب دیا:Madame! We are America (محترمہ! ہم امریکا ہیں۔)

یہ ایک حقیقت ہے کہ ’آزادی‘ کا علم بردار امریکا صرف حکم چلا رہا ہے اور ہمارے حکمران صرف اس کی آوازِ بازگشت بنے ہوئے ہیں۔ ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کے جو وعظ دیے جارہے ہیں‘ وہ امریکا کے نئے عالمی نظام میں اس کے حکم کے مطابق اپنے چہرے مہرے کو قابلِ قبول بنانے کی ایک کوشش سے زیادہ نہیں۔ صدربش‘ نائب صدر ڈک چینی‘ نئی وزیرخارجہ کونڈولیزا رائس‘ ۱۱؍۹ کمیشن کی سرکاری رپورٹ‘ امریکی تھنک ٹینکس کی درجنوں رپورٹیں‘ سی آئی اے کے تھنک ٹینک‘ نیشنل انٹیلی جنس کونسل سے لے کر امریکی کانگریس کی ریسرچ سروس کی رپورٹوں تک کو دیکھ لیجیے‘ سب میں یک زبان ہو کر یہی کہا جا رہا ہے ہمیں مسلمانوں کے ذہن کو بدلنا ہے‘ اصل خطرہ انتہا پسندی (Extremism) بنیاد پرستی (Fundamentalism) اور اس اسلامی اداراتی نظام (Islamist infrastructure)سے ہے جو جہاد کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ دہشت گردی‘ حتیٰ کہ اسلامی دہشت گردی (Islamist terrorism) تو صرف مظاہر ہیں‘ اصل منبع اسلام اور اس کا تصورِ جہاد ہے جس سے سیاسی اسلام (Political Islam) رونما ہوتا ہے اور جس کا ہدف سیکولرزم کے مقابلے میں اجتماعی زندگی اور ریاست کے نظام کو دین  اور مذہب کی روشنی میں تعمیر کرنا ہے۔

ان تمام پالیسی ساز اداروں اور افراد کے تجزیے کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلم دنیا میں امریکا سے جو نفرت ہے‘ اس کا منبع اسلام اور اس کا انقلابی تصورِحیات ہے جو ریاست اور مذہب کی دوئی کے مقابلے میں ان کی ہم آہنگی اور وحدت سے عبارت ہے۔ صدربش نے ۱۱ستمبر کے واقعے کے بعد صلیبی جنگوں (کروسیڈ) کی بات کر کے مسلمانوں کو چونکا دیا تھا مگر پھرفوراً ہی وہ واشنگٹن کے اسلامک سنٹرگئے اور پہلی بات جو کی وہ یہی اعتدال پسند(moderate) اسلام کی تھی۔ اس کے بعد سے جتنی بھی اہم رپورٹیں امریکی مفکرین یا اداروں کی طرف سے آرہی ہیں‘ ان میں اعتدال پسند اور انتہا پسند (extremist) اسلام کا فرق بیان کیا جا رہا ہے اور حسبِ موقع اسلامی دنیا میں سیکولرزم کے فروغ کی بات بھی کی جارہی ہے۔ ۱۱؍۹ کمیشن امریکا کا سب سے اعلیٰ بااختیار کمیشن تھاجس نے پاکستان اور جنرل پرویز مشرف کی ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کو امریکا کے مفاد میں سب سے اہم تصور قرار دیا۔ اس کمیشن نے اپنی رپورٹ کے صفحہ ۳۶۹ پر    یہ سفارش کی ہے جسے امریکی صدر نے وائٹ ہائوس سے جاری ہونے والے حقائق نامے    (۳۰ جولائی ۲۰۰۴ئ) میں امریکی پالیسی قرار دیا ہے:

اگر پرویز مشرف‘ پاکستان اور اپنی بقا کی جنگ میں روشن خیال اعتدال پسندی کے عزم پر ڈٹے رہتے ہیں تو پھر امریکا کو مشکل فیصلوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اسے پاکستان کے مستقبل کے حوالوں سے طویل المیعاد تعلق استوار کرنا ہوگا۔ امریکا کو اپنی موجودہ امداد جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ‘ انتہاپسندی کے خلاف جنگ میں حکومت پاکستان کی مزید مدد کرنا ہوگی۔ یہ مدد ایک جامع کوشش کی صورت میں ہونی چاہیے جس کادائرہ فوجی امداد سے لے کر بہتر تعلیم کے لیے وسائل کی فراہمی پر محیط ہونا چاہیے اور یہ تعاون اس وقت تک جاری رہنا چاہیے جب تک پاکستانی قیادت مشکل فیصلوں کے لیے تیار رہتی ہے۔ (امریکی شعبۂ تعلقات عامہ کا خبرونظر‘ اگست ۲۰۰۴ء شمارہ۲)

اس رپورٹ میں پورے عالم اسلام میں ’امریکا اور ہمارے مسلمان دوستوں‘ کے بارے میں سفارش کی گئی ہے کہ:

امریکا اور اس کے دوستوں کو ایک اہم فوقیت حاصل ہے کہ ہم ان کو ایسا تصور دے سکتے ہیں جس سے ان کے بچوں کا مستقبل سنور سکتا ہے۔ اگر ہم عرب ممالک اور عالم اسلام کے صاحبِ فکر لیڈروں کے نظریات پر توجہ دیں تو اعتدال پر مبنی اتفاق راے حاصل ہوسکتا ہے۔ (۱۱؍۹ رپورٹ‘باب ۱۲‘ ص ۳۷۶)

صدر بش نے ستمبر ۲۰۰۴ء میں اقوام متحدہ میں کیے جانے والے اپنے خطاب میں فرمایا کہ:

کئی عشروں سے دنیا میں آزادی‘ امن و سلامتی اور ترقی کا دائرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ہمیں اب اس دائرے کو مزید بڑھانے کا تاریخی موقع ملا ہے تاکہ بنیاد پرستی اور دہشت گردی کا انصاف اور عزت و وقار کے ساتھ مقابلہ کیا جاسکے۔

انھوں نے مزید فرمایا کہ :

ہمیں مشرق وسطیٰ کے اصلاح پسندوں کی مدد کرنی چاہیے کیونکہ وہ آزادی اور پرامن جمہوری معاشروں کی تعمیر کے لیے کوشاں ہیں۔

یہ تقریر امریکی شعبۂ تعلقات عامہ کے خبرونظر (اکتوبر ۲۰۰۴ئ‘ پہلا شمارہ) نے صدربش‘ جنرل پرویز مشرف اور صدر حامد کرزئی کی تصویر کے ساتھ شائع کی ہے۔

جنوبی ایشیائی امور کے لیے امریکا کی نائب وزیر خارجہ کرسٹینا روکا نے ۲۲ جون ۲۰۰۴ء کو ایوانِ نمایندگان کی بین الاقوامی تعلقات کمیٹی کے سامنے اپنے بیان میں فرمایا:

پاکستان کو ایک جدید اور اعتدال پسند اسلامی جمہوری ملک بنانے کے لیے اس کی مدد جاری رکھی جائے… پاکستان میں ہماری تمام پالیسیوں اور پروگراموں کا مقصد یہ ہے کہ اسے ایک اعتدال پسند اور خوش حال ملک بنانے میں مدد دی جائے۔ ہم سیکورٹی کے شعبے میں تعاون اور فروغ جمہوریت اور ترقی و خوش حالی کے اپنے پروگراموں کے ذریعے پاکستان کی مدد کر رہے ہیں۔ یہ ایسے پروگرام ہیں جو انتہا پسندی اور عدمِ استحکام کی روک تھام میں مدد دیتے ہیں… ہم حکومت پاکستان کی تعلیمی اصلاحات کی کوششوں میں بھی نمایاں مدد دے رہے ہیں۔ ان میں مدارس کی اصلاح شامل ہے… ہمارے پروگراموں سے سیاسی جماعتوں کی اصلاح میں بھی مدد ملے گی۔ ہم اساتذہ‘ میڈیا اور سول سوسائٹی کے لیڈروں‘ نوجوانوں اور متوسط طبقے کے ان پاکستانیوں پر بھی توجہ دے رہے ہیں جن کی طرف سے جمہوری اقدار کی مزاحمت ہوسکتی ہے۔ (خبرونظر‘ جولائی ۲۰۰۴ئ‘ پہلا شمارہ)

اصل ھدف: اسلام

’روشن خیال اعتدال پسندی‘ پر جو وعظ ہم گذشتہ دو سال سے سن رہے ہیں‘ ان کا شجرئہ نسب صدر بش اور ان کی انتظامیہ اور امریکی تھنک ٹینکس کے اسی تجزیے اور اصلاح کے نسخے سے مل جاتا ہے۔ اس کا ہدف اسلام کا تصورِ حیات‘ دین و دنیا کی یک رندگی کا نظریہ‘ تصورِ جہاد اور امربالمعروف ونہی عن المنکر اور اجتماعی زندگی میں اسلام کا کردار ہے۔ امریکا کی نارتھ ایسٹرن یونی ورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ایم شاہد عالم کی کتاب Is There an Islamic Problem? اسی ماہ شائع ہوئی ہے۔ اس میں انھوں نے بڑی دیانت اور جرأت کے ساتھ امریکا کے اصل عزائم کو بیان کیا ہے اور نہایت مدلل انداز میں ان کا تعاقب کیا ہے۔ انھوں نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں امریکی قیادت کے اصل ہدف کو بہت صاف لفظوں میں بیان کیا ہے:

مسلمانوں کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسلامی دنیا کے خلاف امریکی اور اسرائیلی عزائم اب اس سے کہیں زیادہ بڑھ چڑھ کر ہیں جتنے وہ ۱۱؍۹ سے پہلے تھے۔ اس وقت وہ اسلامی دنیا پر گماشتوں کے ذریعے غلبہ حاصل کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ اب ان کے عزائم اس سے آگے ہیں۔ وہ اب مطالبہ کر رہے ہیں کہ اسلامی دنیا‘ بلکہ خود اسلام‘ امریکی شرائط پر اپنی اصلاح کرے۔ (America's New Civilising Mission‘ڈان‘ ۱۲ فروری ۲۰۰۵ئ)

یہ کہ اسلام ہی اصل ہدف ہے اس کا اندازہ اس امر سے کیجیے کہ امریکا صرف دینی مدارس کے نظام کی تبدیلی ہی کے لیے کوشاں نہیں بلکہ پورے تعلیمی نظام کو سیکولر بنانے کا مطالبہ کررہا ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے ۲۰۰۲ء میں جو تعلیمی اصلاحات شروع کیں اور جن کے تحت نصاب کی تبدیلی‘ دینی مدارس کا رجسٹریشن اور آغا خان یونی ورسٹی امتحانی بورڈ آرڈی ننس ۲۰۰۲ء وغیرہ کا سلسلہ شروع کیا گیا‘ وہ سب اسی امریکی منصوبے کا حصہ ہیں۔ حال ہی میں امریکی حکومت کی جو دستاویزات سامنے آئی ہیں اور جنھیں وہاں کے قانونِ اطلاعات کے تحت حاصل کیا گیا ہے‘ ان میں ۲۰۰۲ء کا ایک پالیسی پیپر Strategy for Eliminating the Threat from Jehadist Networks of Al-Qaida: Status and Prospects سامنے آیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکی حکومت جو پالیسی پاکستان میں فروغ دے رہی ہے وہ اسی نسخے کا استعمال ہے۔

ایک ایسا سیکولر نظامِ تعلیم استوار کرنا جو پاکستان کے دیہی علاقوں کے لوگوں کے بنیاد پرست مدرسوں پر مکمل انحصار کو ختم کر دے۔

تعلیمی ’’اصلاحات‘‘

امریکی حکومت آٹھ مدات کے تحت اس مقصد کے لیے پاکستان کی مدد کر رہی ہے جس میں نصاب کی تبدیلی‘ اساتذہ کی تربیت‘ اساتذہ اور طلبہ کے تبادلے‘ تعلیمی وظائف شامل ہیں۔ لیکن چونکہ امریکا کو جنرل پرویز مشرف اور پاکستانی وزراے تعلیم کے سارے تعاون کے   باوجود پورا بھروسا نہیں‘ اس لیے اب امریکی کانگریس میں باقاعدہ ایک بل پیش کیا گیا ہے  (HR 4818) جس کی رو سے امریکا تعلیم کی اصلاح کے لیے ۱۰۰ ملین ڈالر کی جو مالی مدد دے رہا ہے وہ اس بات سے مشروط ہوگی کہ انھیں پاکستان کی ’جنوری ۲۰۰۲ئ‘ والی تعلیمی اصلاحات کے نفاذ کے لیے استعمال کیا جائے اور اس قانون کے منظور ہونے کے بعد ۹۰ دن کے اندر سیکرٹری آف اسٹیٹ ایوان نمایندگان کو مطلع کرے گا کہ یہ رقم صرف ان اصلاحات کے لیے استعمال ہوئی ہے جو امریکا کا ہدف ہے۔ ان اصلاحات کی تعریف اس قانون میں یوں کی گئی ہے:

تعلیمی اصلاحات میں پاکستان کے سیکولر نظامِ تعلیم کی توسیع اور بہتری‘ اور پاکستان کے نجی دینی مدارس کے لیے ایک معتدل نصاب تیار کرنے اور نافذ کرنے کی کوششیں شامل ہیں۔ (دی نیوز‘ ۱۶ اکتوبر ۲۰۰۴ئ)

پاکستان میں امریکا کی سابق سفیر نینسی پاول نے اس سلسلے میں بہت کلیدی کردار ادا کیا۔ آغا خان یونی ورسٹی امتحانی بورڈ کے حکم نامے پر عمل کرانے کے لیے یو ایس ایڈ نے ۱۳ اگست ۲۰۰۳ء کو آغا خان یونی ورسٹی کے ساتھ ایک معاہدہ کیا اور اخباری اطلاعات کے مطابق ۴۵ ملین ڈالر کی مدد کا وعدہ کیا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس معاہدے پر دستخط تو امریکی سفیر اور آغا خان یونی ورسٹی کے نمایندہ شمس لاکھا صاحب نے کیے مگر اس تقریب میں اصل گواہ اس وقت کی پاکستانی وزیرتعلیم محترمہ زبیدہ جلال صاحبہ تھیں۔ امریکی سفیر نے یہ بھی کہا کہ آغا خان بورڈ کی مدد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک وہ اپنے پائوں پر کھڑا نہ ہو جائے۔ واضح رہے کہ عراق پر امریکی قبضے کے فوراً بعد‘ پہلے سے تیار نصاب کے مطابق درسی کتب وہاں ۱۰ اپریل ۲۰۰۴ء کو متعارف کرا دی گئی تھیں۔ یہ کتب جون ۲۰۰۲ء میں حملے سے ایک سال پہلے ہی تیار کر لی گئی تھیں۔

صدر بش نے پاکستان کے بارے میں اپنے ایک ٹیلی وژن انٹرویو میں صاف الفاظ میں کہا ہے کہ پاکستان میں نصاب کی تبدیلی میرے مشورے پر امریکی امداد کے تحت کی جارہی ہے۔ اس بیان پر راقم نے سینیٹ میں سوال بھی اٹھایا جس کے جواب میں وزیرتعلیم نے فرمایا کہ یہ سب پروپیگنڈا ہے اور ہمیں کوئی dictate (مجبور) نہیں کر رہا۔ حالانکہ دو اور دو چار کی طرح یہ حقیقت واضح ہے کہ ’روشن خیال اعتدال پسندی‘، ’بنیاد پرستی کی مخالفت‘، ’انتہا پسندی سے برأت‘ کی ساری باتیں امریکا کے مطالبے پر کی جارہی ہیں‘ بالکل اسی طرح جس طرح ۱۳ستمبر کو کولن پاول کے ایک ٹیلی فون پر افغان پالیسی کا یوٹرن لیا گیا تھا اور جس طرح اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی ہماری فوجی قیادت امریکا کی فوجی قیادت کے ہر اشارے پر تسلیم و رضا کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔

ہم بڑے دکھ کے ساتھ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ۱۱؍۹ کے بعد جنرل پرویز مشرف نے جن   محاذوں پر پسپائی اختیار کی ہے‘ ان میں سے ہر محاذ ملک و ملّت کی سلامتی کے لیے بڑا اہم تھا یعنی افغانستان اور عالم اسلام کے عوام سے دوری بلکہ بے وفائی‘ امریکی استعمار کا آلہ کار بننا اور اس کی جنگی کارروائیوں کے لیے اپنا کندھا فراہم کرنا‘ مسئلہ کشمیر پر اپنے اصولی موقف سے پسپائی اور جہاد کشمیر کو بھارت اور امریکا کے دبائو میں پہلے سرحدی دراندازی اور پھر دہشت گردی تک سے موسوم کرنا‘ نیوکلیر محاذ پر کمزوری اور محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی افسوس ناک تذلیل اور امریکا کے ناجائز مطالبات کے آگے ہتھیار ڈالنا‘ تعلیم‘ میڈیا‘ حتیٰ کہ پارلیمنٹ کے ارکان تک کی تربیت کے لیے امریکی پروگراموں کو اختیار کرنا___ یہ سب محاذ پاکستان کی سیاسی‘ معاشی‘ دفاعی ‘ تہذیبی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اہم ہیں۔ ان کے بارے میں امریکا کے زیراثر پالیسی کی تبدیلی جس کا کریڈٹ کولن پاول اور اس سے زیادہ کونڈولیزا رائس نے اپنی ترغیب اور دبائو (carrot and stick) پالیسی٭ کی کامیابی کے عنوان سے لیا ہے۔

اسلام پر بے جا تنقید

ان میں سب سے زیادہ تشویش ناک قلابازی وہ ہے جو اسلام اور نظریہ پاکستان کے سلسلے میں جنرل پرویز مشرف نے کھائی ہے۔ اس کا حسین عنوان ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ہے حالانکہ اس میں ساری زبان‘ استعارے‘ محاورے‘ موضوع اور مدعا وہی ہے جو صدر بش اور امریکی کارپرداز ان سے کہلوانا چاہتے ہیں۔ کبھی وہ انتہاپسندی اور بنیاد پرستی سے توبہ کرتے ہیں‘ کبھی دہشت گردی پر کان پکڑتے ہیں‘ کبھی جدیدیت‘ جدید کاری اور اعتدال پسندی کی بات کرتے ہیں اور اسی خوش گفتاری میں کبھی’مُلّا‘ پر برس پڑتے ہیں اور داڑھی اور حجاب کو بھی رگید ڈالتے ہیں___ اور پھر ہمت کر کے سیکولرزم کی بات بھی کرڈالتے ہیں کہ اسلام اور سیکولرزم میں گویا کوئی تضاد نہیں ہے اور ان کو متصادم قرار دینا گویا مُلّا کی سازش ہے جس سے اسلام کو آزاد کرانے کے لیے وہ نہ صرف سرگرمِ عمل ہیں بلکہ پوری او آئی سی (OIC) کو بھی متحرک کر دینا چاہتے ہیں۔ جنرل صاحب کے ان ارشادات عالیہ پر نظر ڈالنا ضروری ہے تاکہ مُلّا کے اسلام‘ بش کے اسلام اور مشرف کے اسلام کے خدوخال واضح ہوسکیں۔

۲۴ ستمبر ۲۰۰۳ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو خطاب کرتے ہوئے جنرل صاحب کہتے ہیں:

ہمارا عقیدہ حرکی ہے جو اجتہاد(یا مشورے کے ذریعے تعبیر) کے عمل کے ذریعے مسلسل تجدید اور اطلاق کو تقویت دیتا ہے۔ اسلامی وژن تاریخ کے کسی ایک عہد کی گرفت میں نہیں ہے۔ یہ معتدل اور مستقبل بین ہے۔ اسلام کو چند انتہاپسندوں کی تنگ نظری کے ساتھ گڈمڈ نہیں کرنا چاہیے۔

جنرل صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ دانستہ یا نادانستہ (غالباً نادانستہ) وہ اس جملے میں ایک ایسی بات کہہ گئے ہیں جو اسلام کی پوری تعلیم پر خط تنسیخ پھیر دیتی ہے۔ دورِرسالت مآبؐ اور دورِ خلافت راشدہ ہمارا معیاری دور ہے جو ہمیشہ کے لیے نمونہ‘ معیار‘ دلیل اور حجت ہے۔ انھوں نے trapped in any one period of historyکے الفاظ استعمال کر کے عمومی بیان  (sweeping remark) کے ذریعے اس پر بھی ہاتھ صاف کر دیا ہے۔ بلاشبہہ اسلام موڈرن بھی ہے اور مستقبل بین بھی‘ لیکن مسلمانوں کے لیے ان کے ایمان کے تقاضے کے طور پر ان کا اصل حوالہ دورِرسالت مآبؐ اور دورِ خلافت راشدہؓ ہے اور سنت رسولؐ اور سنتِ خلفاے راشدہ اسلام کے اولیں‘ مستقل اور ناقابلِ تغیر مآخذہیں جنھیں ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کے نام پر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

یکم جنوری ۲۰۰۴ء کو OIC - Challenges and Response کے عنوان سے خطاب کرتے ہوئے جنرل صاحب مغرب کے پروپیگنڈے کا شکار ہوکر وہی زبان استعمال کرنے لگے جو صدر بش اور اسلام کے ناقدین مغربی میڈیا میں استعمال کر رہے ہیں یعنی: اسلام کا تعلق بنیاد پرستی کے ساتھ‘ بنیاد پرستی کا انتہا پسندی کے ساتھ اور انتہا پسندی کا دہشت گردی کے ساتھ۔

بجاے اس کے کہ وہ علمی انداز میں‘ ان میں سے ہر اصطلاح اور اس کے مالہٗ اور ماعلیہ کا تجزیہ کریں‘ ایک ہی سانس میں سب کا انکار کرجاتے ہیں اور اسلام کے دفاع کے نام پر وہی ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کا راگ الاپنے لگتے ہیں جس کا مطالبہ صدر بش اور کونڈولیزا رائس کر رہے ہیں۔

جدیدیت اور سیکولرزم کا وعظ

یہاں تک انسان خوش فہمی کا سہارا لے سکتا ہے لیکن جب آگے بڑھ کر وہ یہ بھی کہہ جاتے ہیں کہ اسلام اور سیکولرزم میں کوئی تصادم نہیں تو گویا بلی تھیلے سے باہر آگئی اور اسی طرح بش کی زبان اور مشرف کے الفاظ میں کوئی فرق باقی نہیں رہا۔ فرماتے ہیں:

ہمیں جس چیز کی ضرورت ہے‘ وہ ایک نشاتِ ثانیہ ہے۔ ہمیں اعتدال پسندی کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ ایک مصالحانہ طرزِعمل‘ پُرامن نقطۂ نظر تاکہ ہمارے اوپر سے یہ الزام دھل جائے کہ اسلام جنگ جُو مذہب ہے اور جدیدیت‘ جمہوریت اور سیکولرزم کا مخالف ہے۔

اگر کسی کو یہ گمان ہو کہ جنرل صاحب نے سیکولرزم کا ذکر شاید جوشِ خطابت میں اس کے اصل مفہوم کو سمجھے بغیر‘ صرف مغرب کے ناقدین کو مطمئن کرنے کے لیے کردیا ہے تو وہ اس کی گنجایش بھی نہیں چھوڑتے۔ یورپ میں Renaissance (نشاتِ ثانیہ) ایک متعین فکری‘ تہذیبی اور سیاسی انقلاب کے لیے استعمال ہوتا ہے جو خدا‘ مذہب اور روایت سے بغاوت اور اجتماعی زندگی کے لیے وحی اور دینی اقدار کی جگہ خالص عقل اوردنیاوی علم کی بنیاد پر متبادل بنیادوں کے تلاش کی کوشش تھی۔ ایسا بھی نہیں کہ سیکولرزم کا یہ حوالہ بس مغرب کی زبان بند کرنے کے لیے ہے۔ وہ مسلسل اس تصور کی تبلیغ فرما رہے ہیں کہ سیکولرزم اور اسلام میں کوئی تضاد نہیں۔ واشنگٹن پوسٹ میں جو مضمون ان کے نام سے شائع ہوا ہے اور جسے تمام پاکستانی اور اخبارات نے شائع کیا‘ اس میں بھی وہ کھل کر لکھتے ہیں کہ:

میں اپنے مسلمان بھائیوں سے کہتا ہوں: نشاتِ ثانیہ کا وقت آگیا ہے۔ آگے کا راستہ روشن خیالی کا راستہ ہے۔ ہمیں غربت کے خاتمے اور تعلیم‘ حفظانِ صحت اور عدلِ اجتماعی کے خاتمے کے ذریعے انسانی وسائل کی ترقی پر توجہات مرکوز کرنی چاہییں۔ اگر ہماری سمت یہ ہو تو یہ تصادم کے ذریعے حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں اعتدال کا راستہ اختیار کرنا ہوگا اور ایک مصالحانہ روش اختیار کرنا ہوگی تاکہ اس عام خیال کا مقابلہ کیا جاسکے کہ اسلام شدت پسندی کا مذہب ہے اور جدیدیت‘ جمہوریت اور سیکولرزم سے متصادم ہے۔ (واشگٹن پوسٹ ۱-۲ جون ۲۰۰۴ئ)

ورلڈ اکانومک فورم کے داووس میں منعقد ہونے والے سیمی نار (۲۳ جنوری ۲۰۰۴ئ) میں جنرل صاحب نے پھر اسی لَے کو آگے بڑھایا ہے۔جناب کے ارشادات عالیہ کی کچھ جھلکیاں ملاحظہ فرمایئے۔ پہلے مغرب کی پوزیشن کو یوں واضح کیا ہے:

اسلام اور مسلمانوں کے بارے میںمغرب کا تصور کیا ہے؟ پہلا تصور یہ ہے کہ اسلام انتہا پسندی‘ دہشت گردی‘ بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کا مذہب ہے۔ دوسرا تصور یہ ہے کہ اسلام جمہوریت‘ جدیدیت اور سیکولرزم سے متصادم ہے۔ اور تیسرا یہ ہے کہ مسلمان عالمی برادری میں جذب ہونے سے انکار کرتے ہیں۔

پھر اپنے زعم میں ان کا جواب دیا ہے کہ اسلام جمہوریت‘ سیکولرزم اور موڈرنزم کا مخالف نہیں۔ جمہوریت کی بابت تو بات زیادہ غلط نہیں کہی ہے (اگرچہ وہ یہ بھول گئے کہ خود وردی زیب تن رکھ کر اور صدارت اور چیف آف اسٹاف کے عہدے اپنی ذات میں جمع کر کے وہ کون سی جمہوریت کی بات کر رہے ہیں)۔ موڈرنزم اور سیکولرزم پر ان کے ارشادات ملاحظہ ہوں:

جدیدیت کی بات ہو تو اسلام زمانے اور ماحول کے مطابق فکر کا مسلسل جائزہ لینے کے عمل پر یقین رکھتا ہے۔ اسلام جدید ہے‘ یہ زمانے کا ساتھ دیتا ہے۔ یہ کبھی بھی ماضی سے پیوست نہیں رہا۔ اور تیسرے یہ کہ جہاں تک سیکولرزم کا تعلق ہے۔ اسلام اقلیتوں کے مساوی حقوق میں یقین رکھتا ہے۔ چنانچہ تفصیلات میں جائے بغیر‘ پاکستان جیسے ملک میں جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام کے ساتھ معروف ہے‘ لازماً یہ بات مضمر ہے کہ ہمیں اپنے تصورات میں جمہوری ہونا‘ سیکولر ہونا اور جدید ہونا ہے۔

اس کے جواب میں اس سے زیادہ کیا کہاجائے کہ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا

اور موڈرنزم اور سیکولرزم کی جو تعریف جنرل صاحب نے فرمائی ہے۔اس کے بارے میں تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ۔ عالمی خاندان میں فٹ نہ ہونے کی بات کے جواب میں کٹّر(bigoted) مسلمانوں پر ہاتھ صاف کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ کچھ سرپھرے ہیں جوساتھ نہیں چل پاتے‘ نہ یہ جدید علم حاصل کرتے ہیں‘ نہ انگریزی زبان سیکھتے ہیں اور موسیقی سے بھی دل نہیں بہلاتے‘ یہ مٹھی بھر لوگ ہیں‘ ان کی فکر نہ کرو۔

سیکولرزم کی حقیقت

اب جنرل صاحب کو یہ کون سمجھائے کہ جس طرح Renaissance(نشاتِ ثانیہ)کا ایک خاص تاریخی پس منظر ہے اسی طرح Enlightenment (روشن خیالی)بھی مغرب کی تہذیبی و فکری تاریخ کی ایک معروف اصطلاح ہے جس کے معنی ہی یہ ہیں کہ وحی کے بجاے عقل کی بنیاد پر تمام معاملات کا حل تلاش کیا جائے۔ آخرت اور روحانی پہلو غیرمتعلق ہیں اور اصل میدانِ کار صرف یہ دنیا اور اس کے امور ہیں اور سیکولرزم اس تثلیث (نشاتِ ثانیہ‘ روشن خیالی اور سیکولرزم) کا لازمی جزو ہے‘ اور سیکولرزم ضد ہے زندگی کے اس تصور کی جو دنیا کے معاملات کو دین اور وحی کے ذریعے حاصل شدہ علم و اقدار کی بنیاد پر مرتب کرنے کا داعی ہے۔ یہ کہنا کہ سیکولرزم کا تعلق محض مذہبی رواداری یا اقلیتوں سے خوش معاملگی سے ہے ‘علم سیاست اور تاریخ دونوں سے لاعلمی کا غماز ہے۔

Vergilius Ferm کی مرتب کردہ An Encyclopaedia of Relegions (مطبوعہ: دی فلاسوفیکل لائبریری‘ نیویارک) میںThe Enlightenment کی وضاحت یوں کی گئی ہے: ’’روشن خیالی اس تحریک کا نام ہے جو اٹھارویں صدی کے عمومی ماحول کو بیان کرتی  ہے‘‘۔

اسی انسائی کلوپیڈیا میں Renaissanceکی تشریح یوں کی گئی ہے:

علمی اور جمالیاتی بیداری کی لہر‘ جس کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ۱۴ویں صدی میں اس کا آغاز ہوا۔ یہ اچھا ہو یا برا‘ نشاتِ ثانیہ میں ایک انقلاب کی خاصیت تھی‘ اس کا کلیدی نکتہ سیکولر انسانیت دوستی تھا جس میں انسانی اور دنیاوی اقدار کو تسلیم کیا گیا تھا بغیر کسی دین یا کلیسائی جواز کے۔ (ص ۶۵۵-۶۵۶)

سیکولرزم کا مفہوم بھی اسی انسائی کلوپیڈیا میں یوں بیان کیا گیا ہے:

سیکولرزم افادی ‘ عمرانی اخلاقیات کی ایک مخصوص شکل (جی جے ہولی اوک: ۱۸۱۷ئ- ۱۹۰۶ء نے اس کو پیش کیا)‘ جو مذہب کے کسی حوالے کے بغیر اور صرف انسانی عقل‘ سائنس اور نظمِ اجتماعی کے ذریعے انسان کی بہتری چاہتا ہے۔ (ص ۷۰۰)

چونکہ سیکولرزم ان تمام اصطلاحات میں سب سے مرکزی حیثیت رکھتا ہے اس لیے اس کے مفہوم کو بالکل محکم کرنے کے لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ چند مزید حوالے دے دیے جائیں۔

Victor Hictz جو Havaford College پنسلوانیا امریکا کا پروفیسر ہے‘ سوشل سائنسز انسائی کلوپیڈیا میں اپنے مضمون میں لکھتا ہے:

سیکولر بنانے کا مطلب ہے کہ معاشرے کی اخلاقی زندگی سے مذہبی عقائد اور رسومات اوراجتماعیت کے لیے احساس کو ختم کر دیا جائے۔ ایک سیکولر سوسائٹی میں روز مرہ کے امور کسی الہامی مداخلت کے بغیر انجام دیے جاتے ہیں۔ دراصل یہ روشن خیالی کا فلسفہ تھا جس نے سیکولر فکر کو اصل طاقت فراہم کی۔ اس نظریے کا دعویٰ ہے کہ معاشرے کو ان اخلاقی اصولوں پر مبنی ہونا چاہیے جو انسان کی اجتماعی زندگی کے آفاقی نوعیت کے بارے میں صرف عقلی بنیادوں پر حاصل کیے جائیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ نظم اجتماعی کے عقلی اصولوں کو عموماً عقیدے پر مبنی مذہبی روایات کی ضد کے طور پر پیش کیا گیا۔

The Oxford Encyclopaedia of Modern Islamic Worldکی جلد چہارم میں چارلس ڈی اسمتھ اپنے مقالے میں سیکولرزم کا مفہوم ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:

سیکولر کی اصطلاح کا مطلب ہے کہ وہ جو مذہبی نہیں ہے۔ یہ لاطینی لفظ sacculum سے نکلا ہے جس کا ابتدائی مطلب وقت کے حوالے سے عہد یا نسل ہے۔ بعد میں اس کی شناخت وہ تمام معاملات ہو گئے جن کا کوئی تعلق جنت کے حصول سے نہ ہو‘ یعنی اس دنیا کے معاملات سے وابستہ ہوگیا۔

سیکولرزم یا لادینی عمل یورپ کے تاریخی تجربے پر مبنی ہے۔ اس کا مطلب تھا زندگی اور فکر کے تمام پہلوئوں کا مذہب سے کسی رشتے یا کلیسائی ہدایت سے بتدریج علیحدگی۔

اسلام اور سیکولرزم کا تضاد

ہم بالکل صاف لفظوں میں یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ جہاں تک دنیاوی امور اور مسائل کا تعلق ہے‘انسانی حقوق‘ آزادی‘ انصاف‘ تعلیم‘ صحت اور معاشی ترقی اور خوش حالی کا حصول‘ یہ سب اسلام کی نگاہ میں مطلوب ہی نہیں اس کے نظامِ حیات کا لازمی حصہ ہیں۔ اسی طرح دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ رواداری‘ اقلیتوں کے حقوق کا مکمل تحفظ اور تہذیب‘ سیاست اور معیشت کے دائروں میں مختلف مذاہب‘ ثقافتوں اور مکاتبِ فکروخیال کا وجود (co-existence)  اسلام کے اجتماعی نظام کا خاصہ ہیں لیکن اسلام اور سیکولرزم کا فرق___اور بڑا بنیادی اور جوہری فرق___ یہ ہے کہ اسلام زندگی کے تمام معاملات کو عقل کے ساتھ وحی الٰہی کی بالا اتھارٹی کے تابع کرتا ہے اور دنیا میں حسنات کے حصول کو آخرت میں حسنات کے حصول سے مربوط کرتا ہے۔ اسلام میں رہبانیت کا کوئی تصور نہیں۔ اسلام پوری انسانی زندگی کو دین کی فراہم کردہ ہدایت کی بنا پر حق وا نصاف کے ساتھ مرتب و منظم کرتا ہے اور اس طرح وہ تصورِ حیات جو صرف اس دنیا کی فلاح کا متلاشی ہو اور صرف عقل پر بھروسا کرے‘ اسے اسلام رد کردیتا ہے اور اس کی جگہ زندگی کا وہ تصور دیتا ہے جس میں دنیا کی تعمیروترقی کا سامان آخرت پر نگاہ رکھ کر اور اس کی کامیابی کو اصل منزل قرار دے کر نیز اللہ اور اس کے رسولؐ کی دی ہوئی رہنمائی کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔ یہ سیکولرزم کی ضد ہے اور اس نظام میں اس سیکولرزم کی کوئی گنجایش نہیں جو مغرب کے نشاتِ ثانیہ اور روشن خیالی کے جلو میں رونما ہوا اور جس نے دنیا کو جنگ و جدال‘ ظلم و استحصال اور سماجی بے راہ روی اور انتشار کی آماج گاہ بنا دیا۔

محمدؐ عربی کا اسلام

اسلام نے زندگی کو خانوں میں تقسیم نہیں کیا اور دین اور دنیا کو دو الگ الگ خانے بنانے کو وہ جاہلیت اور شیطان کی پیروی قرار دیتا ہے اور ایمان لانے والوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ پورے کے پورے دین میں داخل ہوجائیں۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً ص وَلاَ تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌo (البقرہ ۲:۲۰۸)

اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔

اسلام کی نگاہ میں صرف دنیا طلبی یا دنیا اور عقبٰی دونوں کی یکساں طلب زندگی کے دو مختلف نظریات ہیں جن کا مقصد‘ مزاج اور نتائج جدا جدا ہیں۔ صرف دنیاطلبی‘ سیکولرزم کا مقصود ہے اور اسلام دنیا اور آخرت دونوں کی بیک وقت فکر کا نام ہے۔ قرآن پاک میں ان دونوں نقطہ ہاے نظر کو تین متصل آیات میں بڑے جامع انداز میں بیان کر دیا گیا ہے حالانکہ یہاں اول الذکر خداکے منکر نہیں بلکہ اس کے ماننے والے ہیں البتہ وہ دنیا کے حسنات کو آخرت سے مربوط نہیں کرتے۔ اس میں یہ رمز بھی پوشیدہ ہے کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ سیکولرزم میں مذہب کی نفی نہیں بلکہ بس اسے ذاتی معاملہ قرار دیا گیا ہے‘ ان کا جواب بھی اسی میں آگیا:

فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَـآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا وَمَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍo وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَـآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ o اُولٰٓئِکَ لَھُمْ نَصِیْبٌ مِّمَّا کَسَبُوْاط وَاللّٰہُ سَرِیْعُ الْحِسَابِo (البقرہ ۲:۲۰۰-۲۰۲)

(مگر اللہ کو یاد کرنے والے لوگوں میں بھی بہت فرق ہے) ان میں سے کوئی تو ایسا ہے جو کہتا ہے کہ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا ہی میں سب کچھ دے دے۔ ایسے شخص کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اور کوئی کہتا ہے کہ اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی‘ اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔ ایسے لوگ اپنی کمائی کے مطابق (دونوں جگہ) حصہ پائیں گے اور اللہ کو حساب چکاتے کچھ دیر نہیں لگتی۔

اسلام تو نام ہی اس دین اور مسلک کا ہے جس میں انسان پوری زندگی کو اللہ کی اطاعت کے دائرے میں لے آئے اور صرف اسی طریقے کو اللہ نے پسندیدہ قرار دیا ہے۔

اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ قف (اٰل عمرٰن ۳:۱۹)

اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔

اور

وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ ج (اٰل عمرٰن ۳:۸۵)

اس فرماں برداری (اسلام) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اُس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔

اسلام کی نگاہ میں زندگی کے تمام معاملات کے لیے حَکَم اور قانون ساز اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور وہی آخری سند ہیں۔ ہر معاملے میں‘ خواہ اس کا تعلق عبادات سے ہو یا معاملات سے‘ خاندانی تعلقات ہوں یا معاشی امور‘ سیاست ہو یا عدالت‘ ملکی زندگی ہو یا خارجی اور بین الاقوامی مسائل‘ حلال و حرام کا تعلق انسان کی زندگی کے تمام پہلوئوں سے ہے اور ان حدود کا تعین کرنے کا اختیار اللہ اور اس کے رسولؐ کو ہے۔ ایمان کے معنی اس اختیار کو اپنے رب کو سونپنا ہے اور جس نے اس نکتے کو نہیں سمجھا‘ اسے اسلام کی ہوا تک نہیں لگی۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مومن وہ ہے جو اپنے ہوائے نفس کو میری لائی ہوئی ہدایت کے تابع کرلے۔ پھر بندے کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ

قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o لَا شَرِیْکَ لَہٗ ج (الانعام ۶:۱۶۲-۱۶۳)

کہو‘ میری نماز ‘میرے تمام مراسمِ عبودیت‘ میرا جینا اور میرا مرنا‘ سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔

اس دین کا مقصد اگر ایک طرف رب کی بندگی اور اس کی رضا کے حصول کو ہر چیز پر مقدم رکھنا ہے تو دوسری طرف انسانوں کے درمیان انصاف اور عدل کا قیام اور زندگی کو حسنات اور خیر سے مالا مال کرنا ہے:

لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج (الحدید ۵۷:۲۵)

ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا‘اور ان کے ساتھ کتاب (قانونِ حیات) اور میزان (عدل) نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔

ایمان اور تقویٰ کا تعلق صرف رب سے قربت اور روح کی بالیدگی ہی سے نہیں دنیا کی خوش حالی سے بھی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلَوْ اَنَّ اَھْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ  (الاعراف ۷:۹۶)

اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔

اسلام پوری دنیا کو اور اس کے تمام امکانات کو انسان کے لیے مسخر کرتا ہے اور یہی معنی ہیں انسان کی خلافت کے‘ لیکن ساتھ ہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں اس گھوڑے کی سی ہے جو کھونٹے سے بندھا ہوا ہے اور اس کی آزادی کی حد وہ ہے جو اس کی رسی متعین کرتی ہے جس سے وہ کھونٹے سے بندھا ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ انسان آزاد ضرور ہے مگر اس کی آزادی ان حدود کی پابند ہوجائے جو اللہ اور اس کے رسولؐ نے مقرر فرمائی ہیں۔ کافراور مومن میں یہی فرق ہے۔ اسلام نہ مُلّا کا اسلام ہے اور نہ اسے کسی بش اور کسی مشرف کی خواہشات کے تابع کیا جا سکتا ہے۔ وہ تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی ہدایت کا نام ہے اور بات وہی معتبر ہے جس کی سند اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل ہو۔ اہلِ ایمان اور اہلِ رحمت کی تعریف ہی قرآن یہ کرتا ہے:

اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرٰئۃِ وَالْاِنْجِیْلِ ز یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓٓئِثَ وَیَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ ط فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ لا اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَـانِ الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج لَآ اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ ص فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَکَلِمٰتِہٖ وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ o (الاعراف ۷:۱۵۷-۱۵۸)

(پس آج یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے) جو اس پیغمبر‘ نبی اُمی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تورات اورانجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے‘ بدی سے روکتا ہے‘ ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے‘ اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتاہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔ لہٰذا جو لوگ اس پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت اور نصرت کریں اور اس روشنی کی پیروی اختیار کریں جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے‘ وہی فلاح پانے والے ہیں۔ اے محمدؐ، کہو کہ ’’اے انسانو‘ میں تم سب کی طرف اس خدا کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمان کی بادشاہی کا مالک ہے‘ اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے‘وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے: پس ایمان لائو اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی اُمی پر جو اللہ اور اس کے ارشادات کو مانتا ہے‘ اور پیروی اختیار کرو اس کی‘ امید ہے کہ تم راہِ راست پالوگے۔

اس راستے کو اختیار کرنے کے بعد انسان اپنی آزادی کو اللہ کی مرضی اور اس کے حکم کے تابع کر دیتا ہے اور اسی کا نام اسلام ہے۔

فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا o (النساء ۴:۶۵)

نہیں‘ اے محمدؐ، تمھارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں‘ پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں‘ بلکہ سربسرتسلیم خم کرلیں۔

اسلام کی روح اور مسلمان کا شعار یہ ہے کہ جو اللہ کا رسول ؐ حکم دے اسے تسلیم کرلیں اور جس سے وہ روک دے اس سے رک جائیں۔ یہی شان تقویٰ ہے‘ فرمایا:

وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ق وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا ج وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ o (الحشر ۵۹:۷)

جو کچھ رسولؐ تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رک جائو۔ اللہ سے ڈرو‘ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔

اسلام: پاکستان کا مستقبل

جو بھی اس راستے کو اختیار کرے گا وہ اللہ کا چہیتا ہوگا اور جو اللہ کے بتائے ہوئے راستے سے انحراف کرے گا یا اللہ کی بندگی کرنے والوں کا استخفاف کرے گا‘ اس کا دل نورِایمان کا مسکن نہیں ہو سکتا۔ اسلام نہ مُلّا کا ہے اور نہ مشرف کا‘ اور نہ اسلام کو بش کی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے تراش خراش کا تختۂ مشق بنایا جا سکتا ہے۔ یہ تو صرف محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کا نام ہے اور قیامت تک انھی نقوش پر چلنے کا نام اسلام ہے۔ یہ ایک ازلی اور ابدی حقیقت ہے اور کسی کے کہنے سننے سے اس حقیقت پر کوئی حرف نہیں آسکتا۔ مسلمان وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر ڈٹ جاتا ہے اور اس سے سرِموانحراف نہیں کرتا خواہ کوئی اسے انتہاپسندی قرار دے یا بنیاد پرستی۔ مسلمان اُمتِ وسط ہیں اور اسلام عدل اور اعتدال کا راستہ ہے لیکن یہ اعتدال اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا متعین کردہ ہے‘ کسی دوسرے کی خواہش پر کی جانے والی تراش خراش کا نام اعتدال نہیں‘ تحریف اور ضلالت ہے۔ ان مسلمہ اصولوں اور تاریخی حقائق کی روشنی میں جنرل پرویز مشرف کی یہ جسارت بھی دیکھ لیںکہ وہ احکامِ الٰہی اور اسلام کے شعائر کا ذکر کس طرح کرتے ہیں اور اپنی ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کی رَو میں وہ کیا کچھ کہنے سے باک نہیں کرتے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان بشمول مسلمان اور دوسرے اعتدال پسندوں کا ملک ہے۔ انھوں نے کہا: ’’ہمیں انتہاپسند ملائوں کی ضرورت نہیں ہے۔ نہ اسلام کو ان کی ضرورت ہے‘‘۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کسی کو اجازت نہیں دے گی کہ وہ پردہ کرنے‘ یا داڑھیاں رکھنے جیسی خود ساختہ اسلامی اقدار کو مسلط کریں۔ ہاں یہ بھی ہے کہ کسی کو بھی پردہ کرنے      یا داڑھی رکھنے سے منع نہیں کیا جائے گا۔ پرویز مشرف نے عہد کیا کہ پاکستان میں    انتہا پسندی کو کسی قیمت پر برداشت نہیں کیا جائے گا۔ (ڈیلی ٹائمز‘ ۱۹ دسمبر ۲۰۰۴ئ)

زباں بگڑی سو بگڑی تھی‘ خبر لیجے دہن بگڑا

مُلّا پرتبّر ا کرنے کی آڑ میں‘ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح احکام اور دینی شعائر کا استخفاف کرنے والے اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی اسی ہرزہ سرائی کو ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ سمجھا جائے گا‘ تو ان کی عقل پر فاتحہ ہی پڑھی جاسکتی ہے۔ اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ انتہاپسندی کی تہمت کی دھول (smoke screen) میں اصول‘ احکام اور شعائر کے بارے میں ایسی لاف زنی کو قبولیت حاصل ہوسکتی ہے تو اسے امریکا کے سینیٹر بیری گولڈ وائر کے یہ الفاظ سنانا شاید بے محل نہ ہو کہ:

I would remind you that extremism in the defence of liberty is no vice. And let me remind you also that moderation in the pursuit of justice is no virtue.

میں آپ کو یاد دلائوں گا کہ آزادی کے دفاع میں انتہا پسندی کوئی برائی نہیں ہے۔ اور یہ بھی آپ کو یاد دلائوں گا کہ عدل کے حصول میں اعتدال پسندی کوئی خوبی نہیں ہے۔

آخر میں ہم صرف اتنا ہی عرض کریں گے کہ اسلام ایک اور صرف ایک ہے اور وہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلام ہے۔ ملّتِ اسلامیۂ پاکستان پوری اُمتِ مسلمہ کی طرح صرف اسی اسلام کو معتبر جانتی ہے۔ کسی مُلّا‘ کسی مشرف اور کسی بش کے قول یا خواہش کو اسلام کی سند حاصل نہیں ہوسکتی۔ ماضی میں بھی جس نے اسلام کا چہرہ بگاڑنے اور اسے اپنی خواہشات کا تابع بنانے کی کوشش کی‘ وہ ناکام و نامراد ہوا اور آج بھی ہر ایسی کوشش کا مقدرناکامی اور نامرادی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ ہم نے جس ذکر کو اتارا ہے‘ ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں (نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ o الحجر۱۵:۹)‘ اور یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِہِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ o (الصف ۶۱:۸) ’’یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں‘ اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا‘ خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔

؎  نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن

  پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

۲۰۰۴ء کے امریکا کے صدارتی انتخابات امریکا کی سوا دو سو سالہ تاریخ میں ایک منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ انتخابات بظاہر امریکا کی سرزمین پر اور امریکی ووٹروں کی شرکت سے واقع ہوئے لیکن عملاً ووٹ کے بغیر‘ دنیا بھر کے باشعور اور عالمی سیاست پر نگاہ رکھنے والے افراد اس انتخاب میں شریک تھے جو امریکا اور دنیا کو جارج بش کی خطرناک اور جنگجویانہ سیاست سے نجات دلانے کے لیے کوشاں ہیں۔ ہر بڑا شہر‘ ہر ٹی وی اسٹیشن‘ ہر اخبار کا دفتر اور ہر سیاسی چوپال پولنگ اسٹیشن کا منظر پیش کر رہا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ پوری دنیا کے باسی اس انتخاب میں بش اور کیری کے انتخابی معرکے میں خود اپنے مستقبل کو تلا ش کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے چشمِ فلک نے امریکا کے کسی بھی انتخابی معرکے میں یہ منظر نہیں دیکھا۔

جہاں تک امریکا سے باہر کی دنیا کا تعلق ہے‘ ہر اخباری جائزہ اور ہر راے عامہ کا سروے بھاری اکثریت سے جارج بش کے مقابلے میں جان کیری کی کامیابی کا اعلان کر رہا تھا۔ بات صرف عرب‘ مسلم اور تیسری دنیا تک محدود نہ تھی‘ بلکہ یورپ اور جنوبی امریکا کے تمام ممالک بشمول انگلستان میں دیکھی جا سکتی تھی۔ اگرچہ برطانیہ کی حکومت بش کی استعماریت کی طرف دار تھی لیکن وہاں کے عوام بھی بھاری اکثریت سے (کچھ جائزوں کے مطابق ۷۰ اور ۸۰فی صد) بش کی شکست کے متمنی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آخری نتائج آنے سے پہلے ہی کیری نے شکست تسلیم کرلی تو ان کی امیدوں پر اوس پڑگئی اور امریکی ووٹروں کی اکثریت سے (گو مقابلہ قریبی تھا اور بش کو عمومی ووٹوں کا ۵۱ فی صد اور کیری کو ۵.۴۸ فی صد ملا اور انتخابی ادارے میں بش کو ۲۷۰ اور کیری کو ۲۵۲ ووٹ ملے) جارج ڈبلیو بش مزید چار سال کے لیے امریکا کے  صدر منتخب ہوگئے۔

عالمی ردعمل

حالات کا اگر گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا حقیقت سے قریب تر ہوگا کہ عالمی راے عامہ اور امریکا کے زمینی حقائق کو نظرانداز کر کے امریکی ووٹروں کی اکثریت نے جو فیصلہ دیا ہے وہ جارج بش کی جیت سے زیادہ سینیٹر کیری کی شکست ہے۔ اس لیے کہ وہ اور ان کی انتخابی حکمت عملی اُس جارج بش کو نہ ہلا سکے جس کی خود امریکی عوام کی تائید ۲۰۰۱ء میں ۹۰ فی صد سے کم ہو کر ۲۰۰۴ء میں الیکشن سے چند دن پہلے صرف ۴۹ فی صد رہ گئی تھی (ٹائم میگزین‘ ۱۵نومبر ۲۰۰۴ئ‘ ص ۲۷)۔ یہ سب امریکی جمہوریت کے مخصوص آہنگ‘ میڈیا کی قوت‘ منظم اور طاقت ور لابیوں کی اثرانگیزی اور اصول اور اخلاقی اقدار کے بارے میں امریکی عوام کے مسخ شدہ اور ناقص وژن کا کرشمہ ہے کہ تباہ کاریوں کے تشویش ناک چار سالہ ریکارڈ کے باوجود جارج بش صدر منتخب ہوگئے اور اب امریکا اور اقوامِ عالم کو نئی آزمایشوں سے دوچار کریں گے۔

صدر بش نے اپنے مخصوص اندازمیں دعویٰ کیا ہے کہ ’’امریکا نے فیصلہ دے دیا ہے‘ اور مجھے اپنی پالیسی پر عمل کرنے کے لیے عوام کی جانب سے اختیار (مینڈیٹ) حاصل ہوگیا ہے‘‘۔ لیکن یہ دعویٰ اس اعتبار سے بہت محل نظر ہے کہ امریکا بری طرح تقسیم ہوگیا ہے اور دنیا کے سارے ہی ممالک کے عوام کی سوچ‘ جذبات اور توقعات اور امریکی قیادت کے عزائم اور اعلان میں اتنا بُعدواقع ہوگیا ہے کہ دنیا امن و سکون‘ قانون کی حکمرانی‘ بین الاقوامی انصاف کے حصول      اور جنگ وجدل سے پاک زندگی کے لیے‘ اپنے دیرینہ خوابوں کو پراگندا ہوتے دیکھ رہی ہے۔ ہرگوشۂ ارض پر بشمول امریکا بے یقینی‘ بے اطمینانی اور عدمِ تحفظ کے مہیب سائے منڈلا رہے ہیں۔ بش صاحب یہ انتخاب خوف (fear) کی فضا پیدا کر کے جیتے ہیں اور اب ساری دنیا اس خوف کی لپیٹ میں آرہی ہے۔ اگر کہیں کوئی خیر کا کلمہ ادا ہو رہا ہے تو وہ یہ ہے ’’بھلا ہو امریکی دستور کا‘ یہ بش کے آخری چار سال ہیں!‘‘ (امریکی دستور کے تحت کوئی تیسری مدت کے لیے صدرنہیں ہو سکتا)

۲۰۰۴ء کے امریکی انتخاب کا ایک غیرمعمولی پہلو یہ بھی تھا کہ امریکا اور یورپ کے اہم اخبارات نے ‘ جن کی روایت تھی کہ مضامین تو ہر مکتب فکر کے شائع کرتے تھے مگر ادارتی کالموں میں کسی صدارتی امیدوار کی تائید نہیں کرتے تھے‘ انھوں نے اس روایت کو توڑتے ہوئے سینیٹرکیری کی کمزوریوں کے اعتراف کے باوجود ووٹروں کو امریکا اور عالمی امن کے مفاد میں ان کو ووٹ دینے کا مشورہ دیا تھا۔ اس بات میں نیویارک ٹائمز‘ واشنگٹن پوسٹ اور اکانومسٹ لندن‘ یک آواز تھے جو دراصل ’’زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو‘‘ پر عمل کرتے ہوئے امریکا اور دنیا کو مزید کش مکش اور تصادم سے بچانے کے لیے کوشاں تھے۔ جب انتخابی نتائج میں بش کو فتح ہوئی تو جرمنی کے مشہور ہفت روزہ Der Spiegel نے سرورق پر امریکا کے مجسّمۂ آزادی کی آنکھوں پر امریکی جھنڈا باندھ کر امریکی عوام کی بند آنکھوں کا گلہ کیا۔ لندن کا ڈیلی مرر چیخ اٹھا کہ:

How can 59,054,087 people be so dumb?

۰۸۷‘۰۵۴‘۵۹ افراد اتنے نہ سوچنے سمجھنے والے کس طرح ہوسکتے ہیں؟

اور ماسکو کا پراودا یہ لکھنے پر مجبور ہوا کہ:

امریکا کے بنیاد پرست عیسائی طالبان کا عکس ہیں۔ دونوں اپنے خدا کی توہین کرتے ہیں اور انکار کرتے ہیں (اکانومسٹ‘ اسپیشل رپورٹ، ’’امریکی اقدار‘‘ ۱۳ نومبر ۲۰۰۴ئ‘ ص ۲۹)

انھی جذبات و احساسات کا اظہار امریکا کے ہمسایہ ممالک کے عوام کر رہے ہیں۔ جارج بش انتخاب کے بعد دو ملکوں میں گئے۔ ایک چلی‘ جہاں انتخابی نتائج کے فوراً بعد ایشیاپیسفک اکانومک کارپوریشن فورم کا سربراہی اجلاس ہوا اور اس میںہزاروں انسانوں نے صدربش کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ وہ یہ بینر اٹھائے ہوئے تھے:

You have blood on your hands. We do not want you here.

تمھارے ہاتھ خون سے آلودہ ہیں۔ ہم تمھیں یہاں نہیں دیکھنا چاہتے۔

۲۰ سربراہانِ حکومت اور ۵۰۰ سے زیادہ کارپوریشنوں کے ذمہ داران میں سے سیاہ جھنڈیوں سے صرف ایک شخص کا استقبال کیا گیا اور وہ صدر بش تھے۔ یہ تھا عوامی ردعمل‘ جارج بش کے انتخاب کے بعدپہلے بیرونی دورے کے موقع پر۔ اس کے بعد ۳۰ نومبر ۲۰۰۴ء کو وہ دوسرے ہمسایہ ملک کینیڈا گئے۔ وہاں بھی دونوں شہروں میں‘ یعنی اوٹاوا اور ہیلی فیکس میں ہزارہا انسانوں نے اسی طرح احتجاجی نعروں سے ان کا استقبال کیا۔ کینیڈا کے وکلا کی بڑی تعداد نے کینیڈا کے وزیراعظم پال مارٹن کو ایک یادداشت پیش کی جو انسانیت کے خلاف جارج بش کے جرائم کی چارج شیٹ کا درجہ رکھتی ہے۔ اس میں جارج بش اور امریکا کے ان جرائم کی فہرست دی گئی ہے  جو گذشتہ چار سال میں ان کی قیادت میں وقوع پذیر ہوئے ہیں۔ ان وکلا نے مطالبہ کیا کہ   جارج بش کا استقبال نہ کیا جائے بلکہ جنگی جرائم کے خلاف ان پر اسی طرح مقدمہ چلایاجائے جس طرح جرمنی کی سیاسی قیادت پر دوسری جنگ کے بعد نیورمبرگ ٹرائل کے ذریعے چلایا گیا تھا۔ الیکشن میں کامیابی‘ حقائق پرپردہ نہیں ڈال سکتی اور پروپیگنڈے کا کرّوفر عوامی جذبات اور احساسات کو دھندلا نہیں کرسکتا۔ امریکا کی موجودہ قیادت اور اس کے حواری حکمرانوں کو ہوا کے رخ کا کچھ نہ کچھ اندازہ کرنا چاہیے کہ    ؎

سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا

کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا

انتخابی نتائج: بنیادی عوامل

بلاشبہہ ہر ملک کے شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ جس کو مناسب سمجھیں‘ مسندِقیادت پر سرفراز کریں لیکن عالم گیریت کے ثمرات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ ممالک جو عالمی کردار ادا کررہے ہیں‘ ان کی قیادت اور پالیسیوں کی تشکیل میں ان ممالک کے عوام اور قیادتیں بھی حصہ لیں (مداخلت کے بغیر) جو ان کی پالیسیوں سے متاثر ہو رہی ہیں۔ اس وجہ سے ضروری ہے کہ ہمارے عوام اور سوچنے سمجھنے والے عناصر ان اسباب و عوامل کا گہری نظر سے جائزہ لیں جو امریکا کے انتخابات‘ اس کے نتائج‘ اور عالمی پالیسیوں پر اس کے اثرات سے متعلق ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکی انتخابات کے جو نتائج نکلے اس کے اہم اسباب کیا ہیں اور ان سے کیا سبق سیکھا جا سکتا ہے۔

اس سلسلے میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ امریکا ایک ملک نہیں‘ عملاً ایک بّراعظم ہے۔ ۱۱۸ ملین ووٹروں نے اس انتخاب میں شرکت کی ہے لیکن تمام معروضی جائزے اس امر پر گواہ ہیں کہ امریکا کے عوام کی دل چسپی کا اصل مرکز و محور بین الاقوامی مسائل اور خارجہ پالیسیوں کے امور کبھی بھی نہیں رہے۔ ان کی اصل دل چسپی اندرونی مسائل سے ہوتی ہے۔ امریکی عوام کی معلومات دوسرے ممالک کے بارے میں بس واجبی سی ہیں۔ گو امریکا ایک مدت سے ایک بڑی عالمی طاقت ہے۔ اس وقت اس کی ۳ لاکھ فوجیں صرف عراق‘ افغانستان اور جنوبی کوریا ہی میں نہیں بلکہ دنیا کے ۸۰ سے زیادہ ممالک میں موجود ہیں اور عسکری‘ معاشی اور ابلاغی‘ ان تینوں راستوں سے وہ دنیا پر چھایا ہوا ہے۔ اس لیے امریکا کی قیادت اور اس کی پالیسیوں کی صحیح تفہیم ساری دنیا کے پالیسی بنانے والوںکے لیے ضروری ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان کی قیادت اور میڈیا دونوں نے اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی۔ ہمارے ملک میں پالیسی سازی کے اجتماعی‘ شورائی اور اداراتی نظام کا فقدان ہے جس کے نتیجے میں فردِواحد جو چاہتا ہے کرتا ہے اور سرکاری پارٹی کے ارکان اور ذرائع ابلاغ اس کی ہربات پر تعریف اور توصیف کے ڈونگرے برسانا اپنا فرضِ منصبی سمجھتے ہیں اور یہی ہماری اصل کمزوری ہے۔ ضروری ہے کہ امریکی معاشرہ ‘اس کے سیاسی نظام کی موجودہ کیفیت‘ وہاں پالیسی سازی کے طریق کار اور موثر قوتوں کا صحیح ادراک کیا جائے تاکہ پاکستان‘ اُمت مسلمہ اور دنیا کے دوسرے ممالک اپنے سیاسی‘ معاشی‘ تہذیبی اور نظریاتی مقاصد‘ عزائم اور مفادات کی روشنی میں صحیح خطوط پر پالیسی وضع کرسکیں اور متبادل حکمت عملی وجود میں لاسکیں۔ اسی لیے ۲۰۰۴ء کے انتخابات اور ان میں کارفرما عوامل کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کی ضرورت ہے۔

۱- خوف کا احساس

ان انتخابات پر تحقیقی کام کے لیے تو ابھی کچھ عرصہ لگے گا لیکن فوری طور پر جو بات کہی جاسکتی ہے اس میں سب سے اہم یہ ہے کہ ان انتخابات میں فیصلہ کن عنصر‘ کوئی مثبت ہدف یا کارکردگی نہ تھی بلکہ غالب چیز خوف کا احساس تھا جسے صدربش اور ان کی انتخابی مہم چلانے والوں نے بڑی کامیابی اور چابک دستی سے استعمال کیا۔ امریکا کی ایک امتیازی خصوصیت مادی خوش حالی اور عوام کا احساس امن وسلامتی ہے۔ گذشتہ ۲۰۰ سال میں کوئی لڑائی امریکا کی سرزمین پر نہیں لڑی گئی۔ دونوں عالمی جنگوں کا میدانِ جنگ یورپ‘ ایشیا اور افریقہ تھے۔ امریکی افواج نے شرکت ضرور کی مگر لڑائی امریکی سرزمین پر نہیں ہوئی‘ اس لیے امریکی عوام و خواص جنگ کی ہولناکیوں اور تباہ کاریوں کا تجربہ نہیں رکھتے۔ پرل ہاربر پر جاپانی حملے کے بعد ۱۱ستمبر کو نیویارک کے جڑواں ٹاوروں کی تباہی جس میں دنیا کے ۴۰ ممالک کے ۲ ہزار ۷ سو ۵۲ افراد ہلاک ہوئے دوسرا واقعہ ہے جس نے امریکیوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا۔

بش انتظامیہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر عدمِ تحفظ کے احساس کو نہ صرف اپنی پالیسی کا مرکز و محور بنایا بلکہ پوری انتخابی مہم جنگی خوف زدگی کی نفسیات (war-psychosis) کی بنیاد پر منظم کی اور اس جھانسے (trap) میں سینیٹر جان کیری بھی آگئے۔ انھوں نے بھی عراق اور ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف جنگ کے سلسلے میں وہی زبان استعمال کی بلکہ بش سے زیادہ شعلہ بیانی کی کوشش کی جو بالکل مصنوعی تھی۔ فطری طور پر امریکی ووٹر نے زمانہ جنگ کے صدر کو ہی اس جنگ کو جاری رکھنے کے لیے ترجیح دی۔  یہی بش کا ترپ کا پتا تھا کہ جنگ کے دوران کمانڈر تبدیل نہ کرو۔ اس کے باوجود عراق کی جنگ اور دہشت گردی امریکی ووٹروں کی نگاہ میں فیصلہ کن عامل کے طور پر تیسرے نمبر پر تھے‘ یعنی ۱۹ فی صد‘ جب کہ معیشت اور روزگار دوسرے (۲۰ فی صد) اور اخلاقی اقدار اور خاندان کے نظام کا تحفظ پہلے نمبر (۲۲فی صد) پر تھے۔

یہ بھی ایک دل چسپ حقیقت ہے کہ بش اور ان کی سیاسی ٹیم نے عراقی جنگ اور دہشت گردی (بین الاقوامی اور ملکی سطح پر) اور لبرل کیری کی وجہ سے خاندانی نظام اور اخلاقی اقدار (خصوصیت سے ہم جنس پرستی‘ اسقاطِ حمل اور جنسی بے راہ روی) کو خطرے کے دورخ بناکر    پیش کیا۔ اور یہی وہ منفی عامل ہے جس کی وجہ سے بش امریکا کے عوام کے مذہبی جذبات اُبھار کر خصوصیت سے قدامت پسند عناصر کی تائید کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ برازیل کے   صدر لولاڈی سلوا (Lula de Silva) نے اس پہلو کو بڑے صاف الفاظ میں یوں بیان کیا:

خوف کا استحصال ایک بہت ترقی یافتہ اعلیٰ درجے کی سائنس ہے لیکن برازیل اس کلچر کا قائل نہیں ہے جسے امریکی انتخابات میں فتح حاصل ہوئی۔ ہمیں جس بات پر تشویش ہے وہ یہ کہ اپنی سلامتی کے دفاع کے نام پر امریکا ان جنگوں کوآگے بڑھائے گا جو اس نے شروع کیں۔ (انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘ یکم دسمبر ۲۰۰۴ئ)

اسی احساس کی بازگشت کو فرانس سے لے کر ملایشیاتک تمام اہم تجزیہ نگاروں کی تحریروں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آج امریکا ہی نہیں پوری دنیا ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے مقابلے میں کہیں زیادہ غیرمحفوظ اور احساسِ خطر میں مبتلا ہے۔ اس کا سیاسی فائدہ جارج بش نے بھرپور انداز میں حاصل کیا ہے۔

۲-  عیسائی قدامت پرست عنصر

دوسرا اہم پہلو امریکا کی سیاسی اور اجتماعی زندگی میں مذہب اور مذہب میں بھی عیسائی قدامت پرستوں اور انتہا پسندوں کا کردار ہے۔ امریکا دنیا کے دوسرے ملکوں میں سیکولرزم اور آزاد خیالی (لبرلزم) کا علم بردار ہے‘ مسلمان ممالک کو اپنے زعم میں مذہبی عناصر سے پاک کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے باقاعدہ قانون سازی تک کر رہا ہے‘ خصوصیت سے پاکستان‘ سعودی عرب اور ایران کو ہدف بنایا ہوا ہے اور دینی تعلیم کو سیکولر سانچے میں ڈھالنے کے لیے پانی کی طرح ڈالر بہا رہا ہے‘ اور ان ملکوں کی قیادتوں کو سرکاری اور این جی اوز کے ذریعے زیردام لانے میں مشغول ہے۔ دین اور سیاست کے رشتے کو توڑنا اصل ہدف ہے۔ لیکن خود امریکا کا اپنا کیا حال ہے اور اس میں خصوصیت سے اس موثر‘ منظم اور نہایت طاقت ورگروہ کا جسے نیوکونز (neo-cons) کہا جا سکتا ہے کیا کردار ہے؟ یہ بات قابلِ غور بھی ہے اور چشم کشا بھی۔دستور میں ضرور ریاست اور مذہب کی تفریق کا اصول بیان کیا گیا ہے مگر تازہ ترین جائزے کے مطابق آبادی کا ۸۰ فی صد کہتا ہے کہ وہ خدا پر ایمان رکھتا ہے اور ۶۰ فی صد کا دعویٰ ہے کہ اس کی زندگی میں مذہب ایک موثر اور کارفرما قوت ہے (PEW کا سروے‘ مارچ مئی۲۰۰۴ئ‘ بحوالہ اکانومسٹ‘ ۱۳ نومبر۲۰۰۴ئ)۔ تقریباً اسی تناسب سے اسرائیل کی تائید اور فلسطینیوں سے بے اعتنائی اور مخالفت کی کیفیت ہے۔ اس کی تائید گیلپ کے سروے سے بھی ہوتی ہے جس کے مطابق ۵۰ فی صد سے زیادہ امریکی اس کے قائل ہیں کہ چرچ کو سیاست میں موثر کردار ادا کرنا چاہیے۔

جارج بش نے اس مذہبی جذبے کو بڑی کامیابی سے اپنی سیاسی مہم میں استعمال کیا۔ اپنے کو new-born عیسائی کی حیثیت سے سامنے لایا۔ یہاں تک دعویٰ کیا کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں وہ فرمانِ خداوندی کے مطابق کر رہا ہوں۔ اس کی الیکشن مہم کا اصل دماغ کارل روو  (Karl Rove) تھا۔ اس کی انتخابی حکمت عملی انتہائی کامیاب ثابت ہوئی۔ آیندہ بھی وہ پالیسی سازی میں اہم کردار ادا کرے گا۔

یہ عجیب تضاد ہے کہ بش اور اس کے پالیسی سازوں کو امریکا میں تو مذہب کے کردار کا استحکام مطلوب ہے اور عالم اسلام میں مذہب کے کردار کا استرداد--- وہاں انتہاپرستی کو سینے سے لگانا اور یہاں جسے انتہاپرستی کا نام دیا جا رہا ہے اس کے خلاف جنگ اور روشن خیال اعتدال پسندی کی تبلیغ بلکہ اسے قوت کے ذریعے مسلط کرنے کی سعی بلیغ۔ یہی وہ تضاد ہے جسے اقبال نے جہاد اور جنگ کے پس منظر میں یوں واضح کیا تھا:

فتویٰ ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے

دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر

تعلیم اُس کو چاہیے ترکِ جہاد کی

دنیا کو جس کے پنجۂ خونیں سے ہو خطر

باطل کے فال و فر کی حفاظت کے واسطے

یورپ زرہ میں ڈوب گیا دوش تاکمر

ہم پوچھتے ہیں شیخ کلیسا نواز سے

مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر

حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات

اسلام کا محاسبہ ، یورپ سے درگزر

۳- انتخابی مھم کا منفی پھلو

امریکا کے صدارتی انتخابات کا تیسرا اہم پہلو اس کا منفی رنگ ہے۔ بش صاحب نے خود بھی اور ان کی پوری میڈیا ٹیم نے بھی‘ جان کیری کی شخصیت کو ہدفِ تنقید بنایا اور اسے منہدم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ نجی زندگی‘ جنگی خدمات‘ ووٹنگ ریکارڈ کون سی چیز ہے جسے استعمال نہیں کیا گیا۔ پوری انتخابی مہم پر ۴ ارب ڈالر خرچ ہوئے جس میں سے ۴۵.۱ ارب ڈالر صرف ٹی وی کی اشتہاری مہم پر خرچ کیے گئے اور ایک نہیں دسیوں کتابیں اس مرکزی خیال پر لائی گئیں کہ کیری دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا۔ (ملاحظہ ہو‘ Unfit for Command  از John E.O. Neil اور Jerome Corsi)

اگر دنیا کی سب سے ترقی یافتہ جمہوریت کا یہی معیار ہے تو ’’پھر کسے رہنما کرے کوئی؟‘‘ ٹی وی پر دونوں امیدواروں کے مقابلے میں جان کیری کی ذہنی برتری اور پالیسی کے معاملات پر مضبوط گرفت کا اعتراف بلااستثنا سب نے کیا لیکن غیراخلاقی چالیں اس برتری کو بہا کر لے گئیں اور  ع

مکر کی چالوں سے بازی لے گیا ’’سرمایہ دار‘‘

امریکی ایجنڈا

بش صاحب کا دعویٰ ہے کہ انتخابی نتائج نے ان کی عالمی پالیسیوں کی تائید کر دی ہے  اور اب وہ پہلے سے بھی زیادہ جرأت کے ساتھ اس پالیسی پر گامزن ہوسکیںگے جو مندرجہ ذیل  خونی خصوصیات سے عبارت ہے:

۱- تن تنہا دنیا کے معاملات کو طے کرنے کی سعی اور اس کے لیے قوت کا بے محابا استعمال۔

۲- عالمی اداروں کو غیر موثر بنانا یا اپنی چاکری پر مجبور کرنا‘ خصوصیت سے اقوامِ متحدہ کو بے اثر کرنا‘ اس کے سیکرٹری جنرل کو بلیک میل کرنا اور اس طرح عالمی اداروں کو اپنے اہداف کے لیے استعمال کرنا۔

۳- کسی متبادل قوت کو وجود میں نہ آنے دینا۔

۴- کسی بھی خود ساختہ خطرے کی بنیاد پر پیشگی حملوں کے ’’اصول‘‘ کا سہارا لے کر فوجی اقدام کرنا۔

۵- دنیا کے دوسرے ممالک میں‘ جہاںقیادت سے ناخوش ہوں ‘اسے اپنے اور دنیا کے لیے خطرہ قرار دے کر تبدیلیِ قیادت پر عمل ۔

۶- دنیا میں کسی بھی دوسرے ناپسندیدہ ملک کو کسی بھی صورت میں اور کسی بھی درجے کی نیوکلیر طاقت بننے سے بہ جبر روک دینا۔

۷-  دنیا کے دوسرے ممالک میں قومی تعمیراور فروغِ جمہوریت کے نام پر تبدیلی کی تائید اور معاونت۔

۸- دنیا کے تیل کے وسائل پر قبضہ اور دنیا کی منڈیوں کو اپنی مصنوعات کے لیے آزاد عالمی تجارت کے نام پر حاصل کرنا‘ اور خود اپنی معیشت میں طرح طرح کی درآمدی پابندیوں اور  اعانتوں(subsidies) کو جاری رکھنا۔

یہ وہ بنیادی ایجنڈا ہے جس پر صدر جارج بش اپنی دوسری مدت صدارت میں کاربند رہنا چاہتے ہیں اور ان کے دست و بازو اس کا برملا اظہار کر رہے ہیں۔ انتخابی نتائج کے فوراً بعد جو اقدامات انھوں نے کیے ہیں وہ ہوا کے اس رخ کا پتا دیتے ہیں مثلاً:

۱-  کولن پاول سے نجات اور ان کی جگہ کنڈولیزا رایس کو سیکرٹری خارجہ مقرر کرنا جو نیوکونزکی گل سرسبد اور پیشگی حملوں اور حکومتوں کی تبدیلی کے فلسفے کی خالق ہیں۔

۲-  سیکرٹری دفاع رونالڈ رمس فیلڈ اور اس کے دست راست پال وولفورٹز کو باقی رکھنا حالانکہ ابوغریب کے واقعے کے بعد سے ان دونوں کی برطرفی کا مطالبہ ہر طرف سے ہو رہا ہے لیکن یہ بش صاحب کی آنکھ کے تارے ہیں۔

۳- اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے عراق کی جنگ کو برملا ناجائز (illegitimate)  قرار دیا اور امریکا کے مطالبات تسلیم کرنے میں تردد کا اظہار کیا تو ان کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں اور اقوام متحدہ کی کرپشن کی باتیں کی جانے لگیں۔ تیسری دنیا کے ممالک کے شدید احتجاج پر یہ لے فی الحال کچھ مدہم پڑگئی ہے لیکن اگر کوفی عنان       راہِ راست پر نہ آئے تو پھر اس لے کو بڑھایا جا سکتا ہے۔

۴-  فلوجہ پر حملہ اور عراق میں اجتماعی مزاحمت کی تحریک کو قوت سے کچلنے کے لیے فلوجہ کو ایک نشانِ عبرت بنانے کی کوشش۔ بش کے انتخاب کے بعد فلوجہ میں دو سو کے قریب امریکی فوجی مارے گئے ہیں اور عراقی شہریوں کی ہلاکت کا کوئی ریکارڈ نہیں لیکن اندازہ ہے کہ کئی ہزار افراد شہید ہوئے ہیں۔ فلوجہ میں حکمت عملی کا ایک اہم اور دردناک پہلو یہ تھا کہ سب سے پہلے امریکی فوج نے وہاں کے ہسپتال پر قبضہ کیا تاکہ ہلاک ہونے والوں کا ریکارڈ دنیا کے سامنے نہ آسکے اور زخمیوں کی آہ و بکا بھی دنیا تک نہ پہنچ سکے۔

اس کے ساتھ ہی یہ پہلو قابلِ غور ہے کہ صدر بش کے قریبی اور اندرونی حلقے کے جو دانش ور بش کی پالیسیوں کے لیے زمین ہموار کرنے کا کام کرتے ہیں‘ وہ بڑھ چڑھ کر شام‘ شمالی کوریا‘ ایران اور سعودی عرب کو آیندہ ہدف بنانے کی باتیں کررہے ہیں‘ البتہ خود پاکستان کے صدر ان کے پسندیدہ اور محبوب افراد میں سرفہرست ہیں‘ ان کی تو تعریف کی جاتی ہے مگر ہر تحریر کی تان اس پر ٹوٹتی ہے کہ پاکستان پر مزید دبائوڈالا جائے کہ وہ دہشت گردی کی مہم میں اور     بڑھ چڑھ کر حصہ لے‘ خود اپنے لوگوں کو نشانہ بنائے‘ مدرسوں کا مزاج لادینی بنائے‘ دینی سیاسی قوتوں کو غیرموثر بنائے‘ آزاد خیال سیاسی عناصر کو آگے لائے‘ حدود قوانین اور ناموسِ رسالتؐ کے قانون کو تبدیل کرے‘ پاسپورٹ سے مذہب کا خانہ نکالے اور معیشت کو بیرونی مصنوعات کے لیے کھول دے۔

ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے ہر طرف سے یلغار ہے۔ جنرل پرویز مشرف کو اس پوری مہم میں اپنے اصل ساتھی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے بلکہ جمہوریت پسندی کے سارے دعوئوں کے ساتھ ان کی وردی کو بھی (جو فوجی آمریت کی علامت ہے) اس کام کو انجام دینے کے لیے ضروری قرار دیا جا رہا ہے۔ ادھر جنرل صاحب کا بھی حال یہ ہے کہ ایک سال میں چار بار امریکا تشریف لے گئے ہیں۔ بش اور مشرف کے رازونیاز کا یہ عالم ہے کہ  ع

تاکس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری

امریکی عزائم

امریکی صدر کے قریب ترین حلقوں کی سوچ کے انداز کو سمجھنے کے لیے ہم صرف یہ اقتباس پیش کر رہے ہیں‘ انھیں دیکھیے اور اندازہ کیجیے کہ امریکی قیادت دنیا کو کہاں لے جانا چاہتی ہے اور مسلم ممالک کے سربراہ اس کے آلہ کار بننے کے لیے کس حد تک جانے کو تیار ہیں۔

فرانس کا ایک مشہور دانش ور پیٹرک سیل (Patrik Seale) اپنے ایک تازہ مضمون میں امریکا کے ذہنی منظرنامے کا یوں جائزہ لیتا ہے اور اسے جمہوریت بذریعہ فتح (democracy by conquest) کا نام دیتا ہے:

نوقدامت پسندوں کا استدلال ہے کہ عربوں پر تبدیلی باہر سے‘ اگر ضروری ہو تو طاقت کے ذریعے مسلط کی جانی چاہیے۔ پیشگی فوجی حملہ ایک آپشن رہنا چاہیے۔ عرب اسرائیلی تنازعے پر عربوں اور مسلمانوں کی مایوسی کو بآسانی نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔ امریکا دشمنی محض گرم ہوا ہے‘ جیسے ہی امریکا کے دشمنوں کو کچلا جائے گا‘ یہ اُڑ جائے گی۔ ڈگلس فِیتھ اور ولیم کرسٹل دو سربرآوردہ نیوکونزہیں جو اپنے اپنے طریقے سے پورے گروپ کی سوچ کی نمایندگی کرتے ہیں۔ فِیتھ پینٹاگون کی درجہ بندی میں تیسرے نمبر پر ہے۔ عام طور پر اسی کو کریڈٹ دیا جاتا ہے کہ اس نے وہ خفیہ معلومات وضع کیں اور استعمال کیں جن کی وجہ سے امریکا نے جنگ شروع کر دی۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ وہ برسرِمنصب ہے اور بش کی دوسری مدت میں اس کے اپنے عہدے پر برقرار رہنے کا امکان ہے۔

فِیتھ نے‘ جسے اسرائیل کا گہرا دوست کہا جاتا ہے‘ یروشلم پوسٹ سے ۱۲دسمبر کے اپنے خصوصی انٹرویو میں کہا کہ اگر ایران نے اپنے ایٹمی پروگرام کو ترک کرنے میں لیبیا کی پیروی نہ کی تو ایران کی ایٹمی تنصیبات کے خلاف فوجی حملے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔

اس نے پیش گوئی کی کہ عرب دنیا بشمول مصر‘ سعودی عرب اور اُردن جیسے حلیف ممالک میں آیندہ چار سال میں بش کی خارجہ پالیسی کا محور جمہوری اصلاحات کو ہونا چاہیے۔

ولیم کرسٹل حکومت میں شامل نہیں ہے اس لیے وہ زیادہ کھل کر بات کر سکتا ہے۔ وہ امریکی پریس کا اسامہ بن لادن ہے۔ ہمیشہ عرب دنیا اور ایران کے خلاف امریکی جہاد کی دعوت دیتا ہے۔ وہ مکالمے‘ سفارت کاری اور نیم دلانہ اقدامات میں یقین نہیں رکھتا۔ اس کی تکنیک تشدد پر کھلم کھلا اُبھارنا ہے۔

نیوکونز کے ترجمان ویکلی اسٹینڈرڈ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے اس نے صدام کا تختہ اُلٹنے کی مسلسل مہم چلائی۔ اب وہ امریکا کو علاقے کے دوسرے ممالک خصوصاً شام پر حملہ کرنے کے لیے اُکسا رہا ہے۔

اپنے مضمون میں کرسٹل گرجتا ہے: شام ایک دشمن حکومت ہے۔ ہم نے نرم و گرم دونوں طرح کی بات چیت کو آزمایا ہے۔ بات چیت ناکام ہوئی ہے۔ ہمیں اب  اسد کی حکومت کو سزا دینے اور روکنے کے لیے اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے۔

اس طرح کے فیصلہ کن اقدام کوجائز ثابت کرنے کے لیے وہ شام پر ان سرگرمیوں کی اجازت دینے اور حوصلہ افزائی کرنے کا الزام لگاتا ہے جو نہ صرف ہمارے عراقی دوستوں کی بلکہ براہِ راست امریکی افواج کی ہلاکت کا باعث بن رہی ہیں۔

کرسٹل کیا سفارش کرتا ہے؟ ’’ہم شام کی فوجی تنصیبات پر بم باری کر سکتے ہیں۔   ہم دراندازی روکنے کے لیے طاقت کے ساتھ سرحد سے کچھ پار جاسکتے ہیں۔ ہم مشرقی شام میں سرحد سے کچھ دور قصبہ ابوکمال پر قبضہ کرسکتے ہیں جو عراق میں شام کی سرگرمیوں کی منصوبہ بندی اور تنظیم کا مرکز معلوم ہوتا ہے۔ ہم شام کی حزبِ اختلاف کی کھلے اور چھپے حمایت کرسکتے ہیں‘‘۔

وہ اپنے مضمون کا اختتام ان الفاظ پر کرتا ہے: یہ وقت ہے کہ عراق اور وسیع تر مفہوم میں شرق اوسط میں جنگ جیتنے کے لیے ہم شام کے معاملے میں سنجیدہ ہوجائیں۔ (روزنامہ Star ‘لندن ‘۱۹ دسمبر ۲۰۰۴ئ)

امریکا کی The Inter-Press News میں جم ہوب(Jim Hobe) بش کے ساتھیوں کے عزائم کو یوں بیان کرتا ہے:

میڈیا کی مہم کا آغاز گذشتہ ہفتے ہوا۔ فائونڈیشن براے دفاع جمہوریت (F.D.D) کے تین تجزیہ نگاروں نے واشنگٹن ٹائمز میں ایک مضمون شائع کیا‘ عنوان تھا: ’’شام کا خونی کردار: اسد عراق کی دہشت گرد بغاوت کو امداد بہم پہنچا رہا ہے‘‘۔ ایف ڈی ڈی (ایک قدامت پرست گروپ ہے جو عموماً اسرائیل کی دائیں بازو لیکوڈ پارٹی کی حمایت کرتا ہے)۔

پھر ولیم کرسٹل نے جو منصوبہ براے نئی امریکی صدی (PNAC) کا بااثر صدر ہے ویکلی اسٹینڈرڈ کا ایڈیٹرہے‘ اپنے اداریے: شام کے بارے میں سنجیدہ ہونے کی ضرورت میں اسی موضوع کو لیا اور اس نتیجے تک پہنچا کہ عراق کی وجہ سے امریکی فوج پر حقیقی دبائوکے باوجود دمشق سے معاملہ کرنے کے لیے حقیقی راستے موجود ہیں۔

وال اسٹریٹ جنرل شرق اوسط کے بارے میں نیوکونز کی رائے کا قابلِ اعتبار اشارہ ہے۔ اس نے اپنے اداریے میں الزام لگایا: ’’شام دہشت گرد گروہوں کو مادی امداد پہنچا رہا ہے۔ عراق میں امریکی فوجیوں کو مارنے کے لیے اور عراقیوں کو کھلے عام مزاحمت میں شامل ہونے کی دعوت دے رہا ہے‘‘۔

اداریہ ’’شام کے بارے میں سنجیدگی؟‘‘ میں بش انتظامیہ پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ اشتعال انگیزیوں پر ملے جلے سیاسی اشارے اور کمزور ردعمل دے رہی ہے اور اس بات پر ابھارا کہ جس طرح ۱۹۹۸ء میں ترکی نے کردوں کی حمایت کرنے پر دمشق پر حملہ کرنے کے لیے جنگی تیاری کی تھی کم سے کم اسی طرح کے فوجی اقدام کی دھمکی دی جائے۔

حالانکہ شام امریکا سے ہرطرح کا تعاون کر رہا ہے اور اختلاف کا کوئی موقع نہیںدے رہا۔

مقابلے کی حکمت عملی

امریکا کی موجودہ قیادت کے عزائم کے بارے میں نہ کسی خوش فہمی کی گنجایش ہے اور نہ غلط فہمی کی۔البتہ اہم ترین سوال یہ ہے کہ اس کا مقابلہ کس طرح کیا جائے؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے دو باتوں کو سمجھنا ضروری ہے۔

ایک یہ کہ امریکا آج خود اوپر سے نیچے تک بٹا ہوا ہے۔ بلاشبہہ صدر بش اور ان کے قریبی ساتھی ملک کو ایک خاص رخ پر لے جانا چاہتے ہیں۔ اس میں مذہبی انتہاپرست‘ صہیونی قوتیں اور سرمایہ دارانہ نظام کی وہ قیادت جو فوجی صنعتی طاقت (Military- Industrial Complex)  سے تعبیر کی جاتی ہے اس وقت اصل فیصلہ کن قوت ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دانش وروں ‘ لبرل قوتوں اور عوام کا بڑا حصہ ان حالات پر دل گرفتہ ہے اور کسی دوسرے راستے کی تلاش میں ہے۔ جارج بش کو ۵۱ فی صد ووٹ ضرور حاصل ہوئے ہیں اور ہر طرح کے سیاسی کرتب کرکے حاصل ہوئے ہیں لیکن جن تقریباً نصف ووٹروں نے ووٹ نہیں دیے اور جن ۴۹ فی صد نے کیری اور دوسرے نمایندوں کو ووٹ دیے وہ بھی ملک کی ایک اہم سیاسی قوت ہیں اور کل فیصلہ کن قوت بن سکتے ہیں۔ اس لیے امریکا کو ایک سیاسی وحدت نہیں سمجھنا چاہیے اور اس سے مکالمے میں حکومت کے ساتھ دانش وروں اور دوسرے سیاسی عناصر اور قوتوں تک بھی رسائی حاصل کرنا ضروری ہے۔

دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ امریکا اور اس کی قیادت دنیا میں جتنی ناپسندیدہ آج ہے‘ کبھی نہ تھی۔ کبھی امریکا آزادی‘ خوش حالی‘ عالمی امن‘ جمہوریت ‘ ترقی اور انسانی مساوات کی  علم بردار قوت کے طور پر جانا جاتا تھا اور ابراہم لنکن اور ووڈر ولسن سے لے کر جان کینیڈی اور جمی کارٹر تک (امریکا کی ساری خرابیوں کے باوجود) دنیا کو ایک مثبت پیغام دیتے تھے لیکن بش سینیر اور بش جونیئر کے دور میں امریکا کا جو چہرہ دنیا کے سامنے آیا ہے اور اس کے نتیجے میں جو بُعد اور دُوری دنیا بھر کے عوام اور بہت سے ممالک کی قیادتوں کی طرف سے واقع ہوئی ہے‘ وہ عالمی سطح پر دنیا میں امن اور انصاف کے قیام کی تحریک کے نقطۂ نظر سے ایک مثبت شے ہے۔ اسے نظرانداز کرکے حالات کا صحیح جائزہ نہیں لیا جا سکتا۔

پھر امریکا کی معیشت بھی ایسے دبائو کا شکار ہے کہ یہ اس کے موجودہ سیاسی کردار کو طویل عرصے تک سہارا نہیں دے سکتی۔ اس وقت بھی امریکا دنیا کا سب سے مقروض ملک ہے اور دنیا کے بجٹ کا ۸۰ فی صد امریکا ہڑپ کررہا ہے ‘یعنی تقریباً ۲.۱ بلین ڈالر روزانہ۔ اس کا بجٹ خسارہ اور تجارتی خسارہ دونوں اژدہے کی طرح منہ کھولے کھڑے ہیں اور یہ صورت حال بہت عرصے نہیں چل سکتی۔ ڈالر پر برابر دبائو ہے اور یورو ایک متبادل عالمی کرنسی کے طور پر روز بروز ترقی کررہا ہے۔ یورپ میں امریکا سے بے زاری اور آزاد سیاسی اور معاشی پالیسی سازی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ چین اور جاپان اپنے اپنے طور پر عالمی قوت کے نئے مرکز کے طور پر رونما ہو رہے ہیں۔ لاطینی امریکا شمالی امریکا کی گرفت سے آزاد ہونے کی کوشش کر رہا ہے اور وہاں ایک بار پھر بائیں بازو کے رجحانات ترقی کر رہے ہیں۔ روس بھی امریکا کی زور زبردستی سے بے زار ہے اور نئے راستوں کی تلاش میں ہے۔

دنیا کے دوسرے ممالک کے لیے امریکا واحد آپشن نہیں اور مستقبل میں سیاست کو ایک بار پھر کثیرقطبیت (multi-polarity)کی طرف بڑھنا ہے۔ پاکستان اور اُمت مسلمہ کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو امریکا کے دامن سے نتھی نہ کرے اور اپنے اختیار کو کھلا رکھے اور آہستہ آہستہ خارجہ پالیسی میں آزادی سے قدم بڑھانے کی جگہ(independent space ) پیدا کرنے کی کوشش کرے۔

پھر یہ حقیقت بھی سامنے رہنی چاہیے کہ دنیا کے عوام ایک بڑی قوت ہیں اور ان کو طویل عرصے کے لیے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ مسئلہ محض حکومتوں کا نہیں عوامی قوت کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے۔ عوامی طاقت کو نظرانداز کر کے کسی پالیسی کو زیادہ دیر تک نہیں چلایا جاسکتا۔ اس لیے خارجہ پالیسی کے دروبست درست کرتے وقت اس پہلو کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے۔

ان حالات میں پاکستان کی خارجہ پالیسی پر خصوصیت سے امریکی انتخابات کے نتائج کی روشنی میں ازسرنو غور کی ضرورت ہے۔ امریکا ‘یورپ‘ چین‘ روس‘ افریقی اور ایشیائی ممالک سے تعلقات کے ساتھ ساتھ اُمت مسلمہ کے سیاسی اور معاشی اتحاد کے لیے اقدامات اور کسی نہ کسی شکل میں مشترک دفاع کے نظام کو حقیقت کا روپ دینا‘ ہمارے وجود‘ آزادی اور تہذیبی تشخص کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔ اس کے لیے ہرسطح پر کھلی بحث ہونی چاہیے۔ جس سہل انگاری اور کوتاہ بینی کے ساتھ جنرل پرویز مشرف اور ان کی ٹیم نے پاکستان کو بالکل امریکا کی جھولی میں ڈال دیا ہے اور مکمل طور پر امریکی ’گھڑے کی مچھلی‘ کے طور پر خارجہ پالیسی کی تشکیل کی جارہی ہے‘ وہ ملک کے مفاد سے متصادم اور تاریخ کے رخ کے حقیقی فہم سے عاری ہے۔

وقت آگیا ہے کہ ان امور پر کھل کر بحث ہو‘ پالیسی سازی کا کام تمام سیاسی قوتوں کے مشورے سے انجام پائے‘ پارلیمنٹ یہ کام کرے اور کسی ایک فرد کو سیاہ و سپید کا مالک نہ بننے دیا جائے۔ ہماری کمزوریوں کا بڑا سبب پارلیمنٹ کی بے بسی اور اجتماعی اور اداراتی انداز میں پالیسی سازی کا فقدان ہے۔ اب اس روش کو یکسر بدلنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس کے لیے دستور کی مکمل بحالی‘ پارلیمنٹ کی بالادستی اور تمام جمہوری‘ سیاسی اور دینی قوتوں کا یک جان ہو کر ملک اور اس کے نظریاتی‘ سیاسی اور تہذیبی تشخص کی حفاظت اور تحریکِ پاکستان کے اصل مقاصد کے مطابق ملک کی تعمیروترقی کے لیے جدوجہد کرنا ناگزیر ہے۔ عزت اور آزادی کا یہی راستہ ہے۔ اس وقت ذرا سی غلطی بڑے دُوررس اثرات اور نتائج پر منتج ہوسکتی ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ  تمام جمہوری قوتیں اس بنیادی مقصد کے لیے مل جل کر جدوجہد کریں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اک نشترِزہرآگیں رکھ کر نزدیک رگِ جاں بھول گئے!

اُمت مسلمہ کے مصائب اور آلام کی آج کوئی انتہا نہیں ہے۔ ہر سطح پر بگاڑ ہے اور سارا جسم زخم زدہ‘ گویا ’’تن ہمہ داغ داغ شد‘‘ کی کیفیت ہے۔ لیکن سب سے بڑا المیہ ایمان‘ معاملہ فہمی اور عوام کے جذبات اور احساسات کے ادراک کے باب میں ہماری قیادت کا افلاس اور دیوالیہ پن ہے جس نے دل و دماغ کو سوچنے اور صحیح راستہ تلاش کرنے کی صلاحیت سے محروم کر دیا ہے۔ جنھیں معاملات کا امین بنایا گیا تھا‘ وہ اپنی اُمت کی دولت کو خود ہی برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ دلوں کا حال تو صرف اللہ ہی جانتا ہے‘ مگر انسانوں کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ظاہر پر حکم لگائیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوںپر حکمران بلکہ قابض قیادتوں کے اعمال اور اعلانات کو دیکھ کر انسان یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے  ع

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

اس المیے کا تازہ ترین مظہر وہ بیان ہے جو جنرل پرویز مشرف نے کشمیر جیسے نازک اور اسٹرے ٹیجک اہمیت کے مسئلے پر ۲۵ اکتوبر کو اپنے ہی وزیراطلاعات کی طرف سے دی جانے والی افطار پارٹی میں اپنے ہی ملک کے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے‘ بڑی سہل انگاری بلکہ دیدہ دلیری سے‘جو زبان پر آیا بس کہہ ڈالا (off the cuff) کے انداز میں دے ڈالا اور اس کے عواقب اور مضمرات کا کچھ بھی خیال نہ کیا۔ اب خود وطن عزیز کے سنجیدہ فکر عناصر کے منفی ردعمل اور اس سے بھی بڑھ کر بھارت کی بے حسی اور سینہ زوری دیکھ کر ان کی اور ان کے حواریوں کی طرف سے عجیب عجیب تاویلات کی جارہی ہیں اور عالم یہ ہے کہ   ع

کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے

اہلِ دانش تو بچے کو بھی یہ سکھایا کرتے تھے کہ پہلے بات کو تولو‘ پھر منہ سے بولو‘ لیکن ہماری قیادت کا عالم یہ ہے کہ منہ سے بولنے کے بعد بھی سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔  اب ارشاد ہو رہا ہے کہ مجھے misrepresent ] غلط پیش[کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کس نے misrepresent کیا؟ آپ کے اپنے وزیراطلاعات نے؟ آپ کے اپنے منتخب صحافیوں نے؟ آپ نے خود ہی تو ان سے کہا تھا:

ہم کیا چاہتے ہیں؟ قوم کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم کیا چاہتے ہیں؟ اور اس پر بحث کرنا چاہیے۔

میری نظر میں consensus ]اتفاق راے[ وہ ہوگی جو آپ debate ]بحث[ کروائیں۔ میں سن رہا ہوں گا‘ دیکھ رہا ہوں گا‘ ٹی وی پر میڈیا پر لوگ کیا باتیں کر رہے ہیںاور وہی consensus ہوتا ہے۔ کوئی ووٹنگ نہیں ہوتی ہے اس میں۔ اُسی سے میں judgment ]اندازہ اور فیصلہ[کروں گا کہ ok ] ٹھیک ہے[ یہ میرے خیال میں لوگوں کو پسند ہوگا۔ وہ لے کر پھر بات کروں گا… میری آپ سے درخواست ہے کہ اس پر بحث کا آغاز کریں‘ اس پر لکھیں‘ debate کروائیں‘ لوگوں کو بلائیں اور ان سے بات کروائیں۔ (بحوالہ ۲۵اکتوبر ۲۰۰۴ء کی تقریر کا سرکاری متن)

اگر کسی نے misrepresent کیا ہے تو وہ خود جنرل پرویز مشرف ہی ہیں‘ کوئی اور نہیں۔ پتا نہیں انھوں نے خود اپنے کو  misrepresent کیاہے یا نہیں‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان‘ پاکستانی قوم اور اس مسئلے پر قائداعظم سے لے کر اب تک کے قومی اجماع (national consensus) کو خود انھوں نے بری طرح misrepresent کیا ہے۔ انھوں نے جس قومی جرم کا ارتکاب کیا ہے‘ اس پر ان کا بھرپور مواخذہ (impeachment) ہونا چاہیے۔

کشمیر پر قومی موقف

کشمیر پر قومی اجماع جن امور پر ہے اور قائم رہ سکتا ہے‘ وہ یہ ہیں:

                ۱-            جموں و کشمیر کی ریاست ایک وحدت ہے‘ اور اس کے مستقبل کا فیصلہ ایک وحدت کے طور پر کیا جانا ہے۔

                ۲-            ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ہونا باقی ہے‘ اس کے دو تہائی علاقے پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ ہے‘ نام نہاد الحاق ایک ڈھونگ اور دھوکا ہے جسے کوئی دستوری‘ قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی جواز حاصل نہیں۔

                ۳-            ریاست کے مستقبل کا فیصلہ اس کے عوام کو اپنی آزاد مرضی سے کرنا ہے جسے معلوم کرنے کے لیے بین الاقوامی انتظام میں استصواب راے کرایا جائے گا۔

                ۴-            کشمیر کا مسئلہ نہ زمین کا تنازع ہے‘ نہ سرحد کی صف بندی کا معاملہ ہے‘ اور نہ محض پاکستان اور بھارت میں ایک تنازع ہے بلکہ اس کے تین فریق ہیں: پاکستان‘ بھارت اور جموں و کشمیر کے عوام ---جنھیں آخری فیصلہ کرنا ہے۔

                ۵-            کشمیر بھارت کے لیے غاصبانہ ہوسِ ملک گیری کا معاملہ ہے اور پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے کیوں کہ اس کا تعلق ان بنیادوں سے ہے جن پر پاکستان قائم ہوا اور تقسیمِ ہند عمل میں آئی۔ اس کے ساتھ اس کا تعلق ریاست کے مسلمانوں کے (جن کو عظیم اکثریت حاصل ہے) مستقبل اور پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات‘ نیز معاشی اور تہذیبی وجود سے بھی ہے۔

ان پانچ امور پر قومی اجماع تھا اور ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان کا اصولی موقف یہ ہے کہ اس مسئلے کا حل اقوام متحدہ کی ۱۳ اکتوبر ۱۹۴۸ئ‘ ۵ جنوری ۱۹۴۹ء اور سلامتی کونسل کی دوسری قراردادوں کی روشنی میں کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق ہونا چاہیے۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے دوراقتدار کے اولین برسوں میں اسی موقف کا اظہار کیا اور ۱۲ جنوری ۲۰۰۲ء کی تقریر میں جنگِ آزادی اور دراندازی کے بارے میں ایک ابہام کے اظہار کے بعد‘ ۵ فروری ۲۰۰۲ء کو مظفرآباد میں آزاد کشمیر کی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے اصولی موقف کا ایک بار پھر پوری قوت اور صراحت سے اعادہ کیا اور قومی موقف پر ڈٹ جانے کے عزم کا اظہار کیا جسے  موجودہ پسپائی کی اہمیت اور سنگینی کو سمجھنے کے لیے ذہن میں تازہ کرنا ضروری ہے۔

پرویز مشرف صاحب کہتے ہیں:

گذشتہ برسوں سے ۵ فروری ہم سب کے لیے ایک اہم دن ہوگیا ہے۔ اس لیے کہ اس دن پاکستان کی حکومت اور عوام بھارتی مقبوضہ کشمیر میں اپنے بھائیوں اور بہنوں سے یک جہتی کو تازہ کرتے ہیں‘ اور کشمیری عوام کو ان کے لاینفک حق خودارادی کی شان دار جدوجہد میں غیر متزلزل‘ واضح اور جائز حمایت کو تقویت دیتے ہیں۔ آج ہم تنازع کشمیر سے متعلق اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی تنفیذ کے لیے اپنے عہد کو تازہ کرتے ہیں‘ اور بین الاقوامی برادری خصوصاً ہندستان کو وہ حلفیہ وعدہ یاد دلاتے ہیں جو کشمیر کے عوام سے کیا گیا تھا کہ انھیں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی ہم ہندستان کے غیر قانونی قبضے کے خلاف اہلِ کشمیر کی جدوجہد کے شہدا کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔

گذشتہ ۱۳ برسوں میں کشمیریوں کی حق خود ارادی کی جدوجہد نے خصوصی طور پر سخت لیکن المناک منظر دیکھا ہے۔ ۷ لاکھ بھارتی افواج نے ظلم و جبر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ایسی روش اختیار کی جس کی کوئی مثال نہیں۔ اس عرصے کے دوران ۸۰ ہزار سے زیادہ کشمیری شہید کیے گئے ہیں۔ ہزاروں کو تعذیب کا نشانہ بنایا گیا ہے اور وہ معذور ہوگئے ہیں اور ہزاروں تعذیب خانوں اور نظربندی مراکز میں انتہائی بے بسی کی حالت میں محبوس ہیں۔

خلاصہ یہ کہ کشمیر کے نوجوانوں کو عملاً انتہائی بے رحمی اور منظم انداز سے ختم کیا جا رہا ہے۔ بھارتی قابض فوجوں کا ایک خصوصی ہدف خواتین ہیں۔ بھارتیوں کا گھنائونا ہدف یہ ہے کہ کشمیر کے عوام کو جبراً جھکا دیا جائے اور انھیں مجبور کیا جائے کہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے حق کے استعمال کا مطالبہ ترک کر دیں۔

خواتین و حضرات! مقبوضہ ریاست کے ایک کروڑ عوام کو ان کے آزادی کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا ان کا حق‘ وقت گزرنے کے ساتھ ختم نہیں ہوگیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے نفاذ کو یقینی بنانے میں بین الاقوامی برادری کی ناکامی نے ان کے جواز کو کم نہیں کر دیا۔

بھارت آزادی کی تحریک کو بدنام کرنے کی ایک بدباطن عالمی مہم میں مصروف ہے۔ وہ الزام لگاتا ہے کہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد کی باہر سے پاکستان کے ذریعے سرپرستی کی جارہی ہے۔ اس نے اس کو سرحد پار دہشت گردی اور اسلامی بنیاد پرستی کے طور پر پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔ وہ مغرب کے خدشات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عالمی راے عامہ کو گمراہ کرنا چاہتا ہے۔

بھارت پاکستان پر کشمیر میں پراکسی وار کا الزام لگاتا ہے۔ یہ سوال کرنے کو دل چاہتا ہے کہ اگر کشمیر کی جدوجہد کو باہر سے منظم کیا جا رہا ہے تو وہ ۸۰ ہزار شہدا کون ہیں جو مقبوضہ کشمیر کے قبرستانوں میں دفن ہیں۔

خواتین و حضرات! کوئی بھی بیرونی عنصر کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ ہو‘ عوام کی خواہشات کے علی الرغم کسی بھی تحریک کو اس پیمانے پر‘ اس شدت سے‘ اتنے طویل عرصے تک برقرار نہیں رکھ سکتا۔ بھارت کی بھاری بھرکم فوجی مشین کی‘ مقبوضہ کشمیر میں ریاست کی جبری طاقت کے کلّی استعمال اور قوانین کے بلاامتیاز استعمال کے باوجود‘ آزادی کی تحریک کو کچلنے میں ناکامی کشمیری جدوجہد کی مضبوطی‘ مقبولیت اور مقامی ہونے کا ثبوت ہے۔ یہ جدوجہد کشمیر کے عوام کے دل و دماغ میں پیوست ہے۔ اس کے لیے وسائل اور توانائی کا مخزن بہادر کشمیری مردوں اور عورتوں کا خون پسینہ اور ان کے قائدین کا استقلال و عزم ہے۔

بھارت چاہتا ہے کہ ’سٹیٹس کو‘ کی بنیاد پر سلامتی کونسل کی قراردادوں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے قبضے کو مستحکم کرے اور فوجی حل مسلط کرے۔ اس طرح کی کوششیں دنیا میں کہیں بھی کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔ اقوام متحدہ کے اصولوں اور فیصلوں سے انحراف تنازعات اور سنگین صورت حال میں اضافے اور طوالت کا باعث ہوا ہے۔ کشمیر کوئی استثنا نہیں ہے۔دوسرے عالمی مسائل  کی طرح تنازع کشمیر کو بھی اقوامِ متحدہ کے فیصلوں کی بنیاد پر اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل ہونا چاہیے۔

خواتین و حضرات! میں اپنے کشمیری بھائیوں کو واضح یقین دہانی کرانا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی حکومت‘ عوام اور میں خود اپنے وعدے کی پاسداری کریں گے‘ اور ان کی منصفانہ اور عظیم جدوجہد کی مکمل سیاسی‘ سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھیں گے۔ (آزاد جموں اورکشمیر اسمبلی اور جموں اور کشمیر کونسل کے مشترکہ اجلاس سے خطاب‘ ۵ فروری ۲۰۰۲ئ)

ہم نے یہ طویل اقتباس اس لیے دیا ہے کہ یہ جنرل پرویز مشرف کی زبان سے قومی اجماع کا واضح اور مکمل اظہار تھا اور قوم آج بھی اس پر قائم ہے مگر جنرل صاحب نے ایک الٹی زقند لگاکر قومی اتفاق راے کو پارہ پارہ کرنے اور پاکستان کی کشمیر پالیسی کو بھارت اور امریکا کے عزائم اور مطالبات کے تابع کرنے کی مجرمانہ جسارت کی ہے اور کچھ حاصل کیے بغیر لچک کے نام پر وہ سب کھو دیا ہے جو ہمارا سیاسی‘ قانونی اور اخلاقی سرمایہ اور کشمیر کی تحریک مزاحمت کی تقویت کا سامان تھا اور اب خود بھی جھینپ مٹانے کے لیے اصولی موقف کی طرف پلٹنے کی بات کر رہے ہیں۔

کشمیر پالیسی میں تبدیلی

یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کے ۱۲ جنوری ۲۰۰۲ء کے بیان کے بعد دیے جانے والے بیانات میں ۵ فروری کے بیان کو چھوڑ کر ایک طے شدہ انداز(pattern ) نظر آتا ہے۔ انھوں نے آہستہ آہستہ پسپائی اختیار کی۔ جنرل صاحب کی پسپائی کا نقطۂ عروج ان کا ۲۵ اکتوبر کا بیان ہے جو دائرہ پورا کر کے قومی کشمیر پالیسی کی یکسر نفی پر منتج ہوا۔

                ___        پہلے دبے لفظوں میں ’’سرحد پار مداخلت‘‘ کو بند کرنے کی بات کی گئی۔

                ___        پھر پاکستانی زمین کو بھارت کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دینے کا اعلان ہوا (حالانکہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا حصہ نہیں اور لائن آف کنٹرول کسی سرحد کا نام نہیں اور مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر میں ایک ہی قوم آباد ہے)

                ___        پھر کشمیر کی مزاحمتی تحریک کی عملی اعانت اور تعاون سے بڑی حد تک دست کشی اختیار کی گئی۔

                ___        پھر ایک انٹرویو میں رائٹر کے نمایندے سے بات کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بالاے طاق رکھنے ( set aside کرنے) کا مجرمانہ اعلان کسی قانونی یا سیاسی اختیار کے بغیر کرڈالا گیا۔

                ___        اور اب ۲۵ اکتوبر کے بیان میں جسے بظاہر غوروفکر کے لیے لوازمہ (food for thought ) کہا جا رہا ہے‘ اور جو ہر قسم کے thoughtسے عاری ہے‘ ۱۹۵۰ء سے ۱۹۹۷ء تک دس بار مختلف شکلوں میں بیان کردہ نام نہاد آپشن ( option) کو اپنے زعم میں ایک نئے راستے لیکن حقیقت میں پالیسی میں ایک بنیادی تبدیلی کے طور پر پیش کیا ۔ اس سے بھی زیادہ بات یہ کی کہ اسے ایک خود ساختہ مگر برخود غلط اصول کے نام پر پیش کیا کہ جو چیز بھارت کے لیے ناقابلِ قبول (unacceptable) ہے‘ اس سے ہٹ کر راستہ نکالنا چاہیے۔

یہ بڑی ہی بنیادی تبدیلی ہے جسے اسٹرے ٹیجک پسپائی اور بھیانک سیاسی غلطی ہی کہا جاسکتا ہے۔ یہ بنیادی مفروضہ ہی ناقابلِ قبول ہے اس لیے کہ مسئلہ بھارت یا پاکستان کا قبول کرنا یا نہ کرنا نہیں بلکہ اصولی مسئلہ ہے جس کا تعلق ڈیڑھ کروڑ انسانوں کے حق خود ارادیت سے ہے۔ اس اصول کا انحصار کسی کی پسند اور ناپسند پر نہیں۔ اگر اس اصول کو مان لیا جائے تو پھر دنیا بھر کی سامراجی قوتوں سے گلوخلاصی کا تو کوئی امکان ہی باقی نہیں رہتا اس لیے کہ کوئی قابض قوت کبھی بھی اپنے تسلط کو ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی ہے‘ حتیٰ کہ اسے مجبور کر دیا جائے اور اس کے لیے قبضہ جاری رکھنا ممکن نہ رہے۔

دوسرا انحراف یہ کیا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کی ریاست کی وحدت کو سات حصوں میں پارہ پارہ کرتے ہوئے مسئلے کا مرکزی نقطہ (focus) ہی بدل دینے کی حماقت کی گئی ہے۔ اصل مسئلہ ریاست جموں و کشمیر کے الحاق (accession) کا ہے جسے تبدیل کر کے ریاست کی تقسیم (division) کا مسئلہ بنا دیا گیا۔

تیسری بنیادی چیز ان علاقوں کی حیثیت (status)کی ہے جس میں بلاسوچے سمجھے امریکا کے عالمی کھیل کے لیے دروازے کھولنے کے لیے آزادی‘ اقوام متحدہ کی تولیت اور بھارت اور پاکستان کے مشترک انتظام کے تصورات کو مختلف امکانات کی شکل میں پیش کیا گیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کا کوئی ادراک تک نہیں کیا گیا کہ ان میں سے ہر ایک کے پاکستان کی سالمیت‘ حاکمیت اور علاقے کے اسٹرے ٹیجک مفادات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اور ان عوام کے دل پر کیا گزرے گی جو ۵۷ سال سے بھارت کے ناجائز قبضے کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں اور قربانیاں دے رہے ہیں۔

چوتھی چیز شمالی علاقہ جات کے مسئلے کو نہایت سہل انگاری اور عاقبت نااندیشی سے سات میں سے ایک حصے کے طور پر پیش کر دیا گیاہے حالانکہ اس سلسلے میں پاکستان کی تمام حکومتوں نے اسے استصواب کے سلسلے میں جموں و کشمیر کی ریاست کا حصہ تسلیم کرتے ہوئے ایک اسٹرے ٹیجک پردے میں رکھا تھا۔ اس کی اہم تاریخی اور علاقائی وجوہ تھیں کہ تقسیم سے قبل کشمیر کی اسمبلی میں نمایندگی کے باوجود یہ علاقہ اس طرح کشمیر کا حصہ نہیں تھا جس طرح باقی ریاست تھی اور نہ یہ اس خرید و فروخت کا حصہ تھا جس کے نتیجے میں جموں و کشمیر پر ڈوگرا حکمرانی قائم ہوئی تھی۔ نیز یہ علاقہ وہاںکے لوگوں کی جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان میں شامل ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک وہ آزاد کشمیر کا حصہ نہیں شمار کیا گیا۔چین سے ہمارے سرحدی رشتے کا انحصار اس حصے پر ہے جو چین کے دو اہم صوبوں سے ملحق ہے۔ جنرل صاحب نے شوق خطابت میں ان تمام نزاکتوں کو نظرانداز کر کے اس علاقے کو بھی ’’آزادی‘‘ بین الاقوامی تولیت اور بھارت کے ساتھ مشترک کنٹرول کی سان پر رکھ دیا ہے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون!

سیاست‘ حکومت اور سفارت کاری کی نزاکتوں سے ناواقف جرنیل جب بھی اقتدار پر غاصبانہ قبضہ جماکر ایسے معاملات سے نبٹتے ہیں اور فردِ واحد کو اجتماعی اور اداراتی فیصلہ کاری سے ہٹ کر قوموں کی قسمت سے کھیلنے کا اختیار مل جاتا ہے تو پھر ایسی بھیانک غلطیاں اور ٹھوکریں اس قوم کی قسمت بن جاتی ہیں۔

مغربی تجزیہ نگار اور بہارتی مبصرین کی رائے

پاکستانی قوم اور اس کے معتبر سیاسی قائدین تو اس سیاسی غارت گری( vandalism ) پر آتش زیرپا ہیں لیکن دیکھیے کہ مغربی تجزیہ نگار اور خود بھارتی سیاسی‘ صحافتی دانش ور‘ جنرل صاحب کی ان ترک تازیوں کو کس رنگ میں دیکھ رہے ہیں۔

سب سے پہلے برطانیہ کے رسالے ہفت روزہ اکانومسٹ (۳۰ اکتوبر تا ۶ نومبر ۲۰۰۴ئ) کا تبصرہ ملاحظہ فرمائیں جسے اس نے ’کمانڈو ڈپلومیسی‘ کا عنوان دیا ہے:

گذشتہ ۱۸ مہینوں سے بھارت اور پاکستان اپنے ۵۷ سالہ جھگڑے کے تصفیے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بعض دفعہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امن کے دو متوازی عمل جاری ہیں۔ ایک میں رکھ رکھائو والے سفارت کار جامع مذاکرات میں مصروف ہیں۔ دوسرا پاکستان کے صدر جنرل مشرف کا انفرادی مظاہرہ (solo show) ہے۔ بعض اوقات وہ سفارتی خندقوں سے تھک کر اوپر آجاتے ہیں اور عوامی سطح پر تبادلۂ خیالات کرتے ہیں۔ ان کے ابلاغی منتظمین (media managers) کو سوچنا چاہیے کہ جو ایک دفعہ کمانڈو بن گیا وہ ہمیشہ کے لیے ایک کھلی بندوق ہے (once a commando, always a loose cannon)۔ ان کے تازہ ترین ارشادات اب تک کے سب سے زیادہ غیر سفارتی ہیں۔ بھارت سے اپنے مرکزی تنازعے‘ یعنی کشمیر کے مستقبل کے بارے میں بات کرتے ہوئے جنرل مشرف اب تک عمومی اصولوں پر قائم رہے ہیں۔ کشمیر لائن آف کنٹرول کے ذریعے بھارتی اور پاکستانی انتظام کے حصوں میں تقسیم ہے۔ دونوں میں سے کوئی بھی اسے مستقل سرحد تسلیم نہیں کرتا۔ جنرل مشرف نے ہمیشہ اصرار کیا ہے کہ یہ ’سٹیٹس کو‘ کسی حل کی بنیاد نہیں بن سکتا۔ وہ کہتے ہیں یہ تنازع ہے اوریہی تین جنگوں کا سبب ہے۔ تازہ ترین جنگ ۱۹۹۹ء میں ہوئی۔

بہرطور ۲۵ اکتوبر کو ایک افطار ڈنر میں جنرل مشرف اپنے خیالات کو دو قدم آگے لے گئے۔

اول : وہ یہ قبول کرتے دکھائی دیے کہ جس طرح لائن آف کنٹرول پاکستان کے لیے ناقابلِ قبول ہے‘ اسی طرح استصواب کے لیے پاکستان کا مطالبہ جس میں کشمیری بھارت یا پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کریں گے‘ بھارت کبھی بھی اس کی اجازت نہیں دے گا۔

دوم: انھوں نے دوسرے متبادلات (options) کو بیان کرنا شروع کیا۔ انھوں نے کہا کہ کشمیر کے سات علاقے ہیں‘ دو پاکستان میں اور پانچ بھارت میں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان علاقوں میں سے کچھ یا سب کو غیر فوجی کر دیا جائے اور ان کی حیثیت تبدیل کر دی جائے۔ جس کا نتیجہ آزادی ہو سکتا ہے‘ بھارت پاکستان کے درمیان کانڈومینیم (condominium)  ]ایسا علاقہ جہاں دونوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں[ ہوسکتا ہے یا اقوامِ متحدہ کا مینڈیٹ۔

بہرحال شک و شبہے کی وجوہات ہیں۔ جنرل صاحب کی تجاویز کی اس وقت جو شکل ہے اس میں ان خیالات کی بازگشت سنی جا سکتی ہے جو عرصے سے فضا میں گردش کر رہے ہیں اور جو بھارت کے لیے ناقابلِ قبول ہیں۔بدتر بات یہ ہے کہ پریس کانفرنس کے ذریعے بات چیت کا مطلب یہ ہے کہ دونوں فریقوں میں خلیج اس قدر وسیع ہے کہ اس قسم کے خیالات پر کوئی ابتدائی بات بھی نہیں ہوئی ہے۔

بھارت نے سرد مہری کے ساتھ رسمی ردعمل دیا اور کہا کہ وہ میڈیا کے ذریعے کشمیر پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ مگر اس نے کم سے کم ان خطوط پر بات چیت کو یکسر خارج از امکان قرار نہیں دیا۔ شاید اس کو اندازہ ہے کہ جنرل مشرف ملک کی مذاکرات کی پوزیشن میں انقلابی تبدیلی کے لیے راے عامہ ہموار کرنے کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔ ان کو اس کی ضرورت ہے۔ ان کے مخالفین نے ابھی سے ہی ان پر کشمیر کی فروخت کی سازش کا الزام لگا دیا ہے۔

اپنے اقتدار کے پانچ سال میں جنرل مشرف نے اپنی حکومت کو پالیسی کی کچھ غیرمعمولی تبدیلیوں سے گزارا ہے۔ انھوں نے پاکستان کے پروردہ طالبان کو گہری کھائی میں پھنسا دیااور ایٹمی معلومات فروخت کرنے کے الزام پر ایک قومی ہیرو عبدالقدیر خان کی توہین کی۔ اس سب پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے جس پر انھوں نے اب تک قابو پایا ہے۔ اب انھوں نے غالباً اب تک کی سب سے مشکل فروخت شروع کر دی ہے: اپنے اہلِ وطن کو اس بات پر آمادہ کرنا کہ وہ کشمیر پہ اپنے بیش تردعووں سے دست بردار ہوجائیں۔

جنرل صاحب کے ابلاغی منتظمین اور وہ خود اپنی ان تجاویز پر جو بھی روغن چڑھائیں‘ ان کا ماحصل کشمیر پر اپنی قومی پالیسی اور اہداف سے مکمل طور پر دست کش ہونا اور تحریکِ آزادی کشمیر کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے سوا کچھ نہیں۔ دیکھیے خود بھارت کے دانش وروں اور تجزیہ نگاروں نے اسے کس رنگ میں دیکھا ہے۔

انڈین ایکسپریس (۲۷ اکتوبر ۲۰۰۴ئ) میں سی راجا موہن لکھتا ہے:

جنرل مشرف کی تجویز ہے کہ ریاست میں لائن آف کنٹرول کے پار جموں و کشمیر کا ایک حصہ باہمی سمجھوتے کے تحت متعین کیا جائے‘ وہاں سے فوجیں ہٹا لی جائیں اور اس علاقے کی سیاسی حیثیت کو تبدیل کر دیا جائے۔ یہ تجویز پاکستان کے ہمیشہ سے قائم کئی مضبوط موقفوں سے انحراف کیا ہے‘ یعنی:

اول: استصواب راے کے خیال کو ایک طرف رکھنے سے جنرل مشرف نے یہ اشارہ دیاہے کہ پاکستان کا اپنا ہی پروردہ خود ارادیت کا نظریہ جموں و کشمیر میں عملاً بروے کار نہیں آسکتا۔

دوم: انھوں نے اس تصور کو ترک کر دیا ہے کہ پاکستان جموں و کشمیر کے بعض علاقوں پر قبضہ کر کے شامل کر لے۔

سوم : تیسری اور زیادہ اہم تبدیلی یہ ہے کہ نام نہاد شمالی علاقوں کو بھی معاملے کا حصہ بنا دیا ہے حالانکہ ۱۹۷۲ء کے شملہ معاہدے کے بعد پاکستان نے شمالی علاقوں(بلتستان اور گلگت) کو پاکستانی ]آزاد[ کشمیر سے انتظامی طور ر علاحدہ کر دیا تھا۔

بھارت کے اہم روزنامے دی ہندو کی ۸ نومبر کی اشاعت میں جان شیرین نے مشرف صاحب کی تجاویز پر بھارت کے سفارت کاروں کے ردعمل کو یوں بیان کیا ہے:

بھارت کے سفارتی مبصرین نے جنرل مشرف کی نئی پہل کاری میں کشمیر پر پاکستان کے قدیم موقف سے انحراف کو نوٹ کیا ہے۔ پہلی دفعہ ایک پاکستانی صدرِ ریاست نے اشارہ دیا ہے کہ لائن آف کنٹرول دونوں ملکوں کے درمیان بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سرحد کے لیے اندازاً خدوخال فراہم کرسکتی ہے۔ انھوں نے یہ بھی اعتراف کرلیا ہے کہ آزاد کشمیر اور شمالی علاقے جو پاکستانی انتظام میں ہیں‘ متنازعہ علاقے ہیں۔

جنرل مشرف کی نئی تجویز نے استصواب کے مسئلے کو پسِ پشت ڈال دیا ہے اور اس کے بجاے منقسم جموں و کشمیر کے سات علاقوں کو متعین کیا ہے۔ جنرل مشرف نے جو خیال پیش کیا ہے‘ اس کے مطابق ساتوں علاقوں کے لوگ علاحدہ علاحدہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔

جان شیرین نے سری نگر مظفرآباد بس سروس اور گیس کی پائپ لائن کا بھی ذکر کیا ہے کہ اب پاکستان ان تمام امور کا کشمیر کے ’’کور ایشو‘‘ کے بنیادی مسئلے سے تعلق توڑنے (delink) کے لیے تیار ہے اور اس قلب ماہیت میں امریکا کا خصوصی کردار ہے جس کا امریکا کے وزیرخارجہ کولن پاول صاحب نے اپنے ۱۸ اکتوبر کے ایک بیان میں کریڈٹ لے بھی لیا ہے۔

دی ہندو کے ۸ نومبر ہی کے شمارے میں ایک اور تجزیہ نگار لوو پوری کا تبصرہ بھی توجہ کے لائق ہے:

صدر (جنرل مشرف) پاکستان کے وہ پہلے صدر ریاست ہوگئے جنھوں نے کشمیر کے پیچیدہ مسئلے کی اس حقیقت کا اعتراف کیا جس پر کم بحث کی گئی ہے‘ یعنی جموںو کشمیر لسانی‘ نسلی اور جغرافیائی اور مذہبی طور پر ایک منقسم ریاست ہے اور کوئی بھی حل اس ناقابلِ تردید حقیقت سے صرفِ نظر نہیں کر سکتا۔

پاکستانی صدر نے پہلی دفعہ اس اہم حقیقت کو بیان کیا ہے کہ پاکستانی ]آزاد[کشمیر اور وادی کشمیر میں بہت کم قدرِ مشترک ہے‘ اس لیے کہ دونوں کی مختلف نسلی اور لسانی بنیادیں ہیں… مشرف کی تجویز گیلانی کی اس پرانی تجویز کے خلاف ہے کہ جموںو کشمیر کو حق خود ارادیت ملنا چاہیے اور چونکہ یہ مسلم اکثریتی ریاست ہے‘ اس لیے پاکستان کے حق میں رائے دے گی۔

مشرف کے فارمولے کے ماخذ کے بارے میں اشارہ پاکستان کی حامی جمعیت المجاہدین کی قیادت کے ردعمل سے سامنے آتا ہے:جنرل مشرف ایک امریکی حل کو مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس طرح کشمیر کے مسئلے پر نظریاتی پسپائی دکھا رہے ہیں اور کشمیر کے عوام سے دغابازی کررہے ہیں۔

جب واقعات کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جاتا ہے تو جنرل مشرف کے نئے فارمولے کے پیچھے بین الاقوامی ڈور بہت واضح ہو جاتی ہے۔ یکم دسمبر ۱۹۹۸ء کو تاجر فاروق  کاٹھواڑی (جو اصلاً وادی کشمیر کا باشندہ ہے) کی سربراہی میں کام کرنے والے کشمیر اسٹڈی گروپ نے ایک رپورٹ میں تجویز دی تھی:

’’جموں و کشمیر کی سابقہ ریاست کے ایک حصے کو (کسی بین الاقوامی تشخص کے بغیر) ایک خودمختار وحدت کے طور پر تشکیل دیا جائے جس میں پاکستان اور بھارت دونوں طرف آنے جانے کی سہولت حاصل ہو‘‘۔ دراصل یہ تجویز زمینی اور آمدورفت کی رکاوٹوں کے باوجود کشمیری زبان کے حوالے سے نئی ریاست کی تہذیبی ہم آہنگی کو زیادہ سے زیادہ بڑھانا چاہتی ہے۔

آخری نتیجے کے طور پر اس گروپ نے جس کے کئی ارکان امریکی ایوانِ نمایندگان کے رکن ہیں یا دانش ور ہیں‘ بھارت اور پاکستان کے درمیان وادی کشمیر کے لیے کنڈومونیم (ایسا علاقہ جس میں دو خودمختار ریاستوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں) کا کیس پیش کر دیا تھا۔ تقریباً چھے سال بعد صدر مشرف ایک حل کے طور پر کنڈومونیم کے بارے میں بات کرتے ہیں اور اس طرح ایک متحدہ جموں و کشمیر میں استصواب راے کے پاکستان کے سخت اور اصرار کیے جانے والے مطالبے کو ایک دم ترک کر دیتے ہیں۔ صدر مشرف کے تجویز کردہ سات حصوں کی مشابہت ان سات علاقوں تک جاتی ہے جن کا تعین کاٹھواڑی رپورٹ کے دوسرے حصے میں کیا گیا ہے جو بعد میں آئی۔ (فرنٹ لائن‘ ۲۲ اکتوبر ۱۹۹۹ئ)

اس میں ایک تفصیلی نقشے کے ساتھ سات تجاویز ہیں جو امریکا کے سیاسی جغرافیے کے ماہرین کی مدد سے تیار کی گئی ہیں۔ ساتوں تجاویز میں کمیونل فالٹ لائن (مذہبی بنیادوں پر علیحدگی) واضح طور پر نظر آتی ہے۔ رپورٹ کی چھے تجاویز میں جموں و لداخ کے علاقوں کی تقسیم کی تجویز دی گئی ہے۔ تقسیم کے لیے اصل بنیاد مذہب محسوس ہوتی ہے‘ جب کہ زبان‘ ثقافت اور معیشت کے بندھنوں کو کم اہمیت دی گئی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ایک مکمل آزاد مسلم ریاست تخلیق کی جائے۔

اسی روزنامے میں ایک اور صحافی اور دانش ور مرالی دھر ریڈی‘ جنرل صاحب کے ۲۵ اکتوبر کے خطاب پر ۲۹ اکتوبر کی وزارت خارجہ کی توضیحات پر تعجب کا اظہار کرتا ہے اور صاف کہتا ہے کہ جنرل صاحب نے جو کچھ کہا‘ وہ ایک کمانڈو کے انداز کا مظہر ہے اور وہ اپنے یوٹرن کے لیے فضا بنانے کے لیے یہ سارا کھیل کھیل رہے ہیں:

تجویز پر ایک نظرڈالنا ہی اس بات کے لیے کافی ہے کہ اس کو ۱۹۴۷ء کے بعد سے پاکستانی انتظامیہ کی کشمیر پالیسی کے بارے میں ایک بالکل نئی سوچ کا عنوان دیا جائے۔ پاکستان کا بیان کردہ موقف یہ رہا ہے کہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نافذ کیا جائے اور کشمیریوں کو موقع دیا جائے کہ وہ فیصلہ کریں کہ آیا وہ بھارت کا حصہ بننا چاہتے ہیں یا پاکستان کا۔

اس تبدیلی کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے ریڈی کہتا ہے:

ایک ایسے موڑ پر جب بھارت کے ساتھ مکالمہ جاری ہے‘ کس چیز نے مشرف کو اپنی تجویز کو عوام کے سامنے لانے پر آمادہ کیا؟ نئی تجویز ۱۱؍۹ کے اثرات کا منطقی نتیجہ نظرآتی ہے۔ مشرف کو افغانستان پر یوٹرن اور طالبان سے لاتعلقی پر اس وقت مجبور ہونا پڑا جب ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کو نیویارک میں جڑواں ٹاور زمین بوس ہوگئے۔ ان قوتوں کے چیلنج نے‘ جو ’’دہشت گردی ‘‘کے خلاف امریکا کے نام نہاد اتحاد میں پاکستان کی شرکت کی مخالف ہیں‘ پاکستان کے اندر اس بحث کا آغاز کر دیا ہے کہ کشمیر پر ایک نئی سوچ کی ضرورت ہے۔

ایک اور بھارتی روزنامے دی ٹربیون میں ڈیوڈ دیوداس نے کشمیر ڈائری کے عنوان  سے ۱۰ نومبر کی اشاعت میں بڑی دل چسپ اور کھری کھری باتیں لکھی ہیں جن پر پاکستان کے پالیسی ساز اداروں اور سیاسی قیادت کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے بلکہ سردھننا چاہیے:

بے چارہ جنرل مشرف! کشمیر کے بارے میں انھوں نے حال ہی میں جو تجویز دی ہے‘ اس کی تاریخی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے سرحد کے اس طرف کے ردعمل سے ان کو شدید طور پر ناامید ہونا چاہیے۔ کیسی ستم ظریفی ہے کہ جولائی ۲۰۰۱ء میں انھوں نے آگرہ میں اہتمام کر کے میڈیا میں جو نئی اٹھان (come uppance) حاصل کی وہ انھوں نے کھلی کھلی باتیں کر کے نمبر بناکر حاصل کی۔ لیکن اس دفعہ اسی انداز کے کھلے پن نے ان کو ایک تکلیف دہ صورت حال سے دوچار کر دیا ہے۔ انھوں نے پاکستان کی سوداکاری کی پوزیشن کو علانیہ بیان کر کے‘ جس پر دونوں ممالک بالآخر راضی ہو سکتے ہیں‘ بے حد محدود کر دیا۔ اس کے نتیجے میں انھوں نے اپنے ملک میں اپنے مخالفین کے ہاتھ میں اپنی ٹھکائی کے لیے موٹا ڈنڈا تھما دیا ہے۔

جنرل صاحب کو خاص طور پر جسونت سنگھ کا ردعمل پڑھ کر پریشانی ہوئی ہوگی جنھوں نے بی جے پی اور نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کی طرف سے کسی تصفیے کی تلاش میں سرحدوں میں تبدیلی کو مسترد کر دیا۔ مسٹرسنگھ این ڈی اے کی حکومت میں مختلف اوقات میں وزیرخارجہ‘ وزیر دفاع اور وزیر خزانہ رہے ہیں۔ صدر مشرف نے جس حل کا ذکر کیا ہے اس کے بہت قریب کے حل پر اس وقت بحث ہوئی ہے‘ جب کہ این ڈی اے کی حکومت تھی…

معلوم ہوتا ہے کہ جنرل صاحب جس چیز کو آخری پیش کش ہونا تھی‘ وہاں سے مذاکرات کا آغاز کر کے انتہائی پیچیدہ صورت حال کا شکار ہوگئے ہیں۔ بلاشبہہ یہی ایک سپاہی اور سیاست دان کا فرق ہے۔ غالباً ان کا اعتماد اس ملاقات کی بنیاد پر ہے جو انھوں نے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ستمبر میں وزیراعظم من موہن سنگھ  کے ساتھ کی تھی۔ یقینا وہ سمجھتے ہیں کہ وہ جس آدمی سے بات کر رہے ہیںوہ سیاست کی غیریقینی دنیا سے تعلق نہیں رکھتا اور ایک دانش ور کی طرح حقائق پر انحصار کرتا ہے۔

اگر یہ سچ ہے تو صدر مشرف کو دو عوامل کے بارے میں سوچنا چاہیے تھا۔ پہلا: ڈاکٹر سنگھ نے ایک طویل مدت ایک کامیاب بیوروکریٹ کے طور پر گزاری ہے۔ دوسرا: اگر وہ سیاست دانوں کے طریقوں میں کوئی دقت محسوس کرتے بھی ہیں تو بہرحال وہ سرکاری مذاکرات کا طویل تجربہ رکھتے ہیں۔

فوجی حکمرانوں کے ملمع سازاور ابلاغی ماہرین جنرل مشرف کی ذہنی قلابازیوں اور تکے بازیوں پر جو بھی رنگ روغن چڑھانے کی کوشش کریں‘ عالمی میڈیا اور خصوصیت سے بھارتی میڈیا نے ان کی تجاویز کے اصل خدوخال کو بالکل بے نقاب کر دیا ہے اور اس آئینے میں جناب کمانڈو صدر صاحب کی الٹی زقند کا اصل چہرہ دیکھا جا سکتا ہے۔ پھر بھارتی قیادت نے جس بے التفاتی بلکہ حقارت سے اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے اور اپنے موقف سے سرمو ہٹنے سے انکار کردیا ہے‘ اس نے جنرل صاحب کی خوش فہمیوں کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے اور اب وہ بھارت سے غلط اشاروں کا گلہ کر رہے ہیں اور کسی بچے کی طرح بلبلا کر کہہ رہے ہیں کہ اگر بھارت اٹوٹ انگ کی بات کرے گا تو ہم بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بات کرنے لگیں گے۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمراں نہ برعظیم کی تاریخ کے نشیب و فراز سے واقف ہیں اور نہ ہندو قیادت کے ذہن اور عزائم کا حقیقی ادراک رکھتے ہیں۔ ان کی گرفت برہمن کی سیاست کاری‘ دھوکا دہی اور کہہ مکرنیوں پر بھی نہیں‘ اور وہ مکروفریب کے ان حربوں سے بھی ناآشنا ہیں جو کانگرس اور بھارت کی ہندو قیادت کا طّرہ امتیاز ہیں۔

پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر سیاست اور سفارت کاری کو اس کے مسلمہ آداب کے مطابق انجام نہ دیا جائے تو اس کا نتیجہ اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے۔ جو قیادت اپنے اصولی موقف کو اس سہل انگاری کے ساتھ ترک کر دیتی ہے اس کا انجام ناکامی اور ہزیمت کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ فلسطینی قیادت نے اسرائیل اور امریکا کے ہاتھوں یہی چوٹ کھائی اور جنرل پرویز مشرف قوم کو اسی ہزیمت اور پسپائی کی طرف لے جارہے ہیں۔ لیکن ان شاء اللہ پاکستانی قوم ان کو اس راہ پر ہرگز نہیں چلنے دے گی اور جموں و کشمیر کی عظیم جدوجہد آزادی سے کسی کو غداری کرنے کا موقع نہیں دے گی۔

شخصی آمریت کا خمیازہ

اگر جنرل مشرف کی اس اُلٹی زقند کا تجزیہ کیا جائے تو چند باتیں سامنے آتی ہیں:

اولاً‘ یہ نتیجہ ہے ملک میں جمہوری اداروں کی کمزوری‘ فردِ واحد کے ہاتھوں میں فیصلے کے اختیارات کے دیے جانے اور اس کے ہر مشورے بلکہ خیال آرائی کے قانون‘ ضابطۂ احتساب اور جواب دہی سے عملاً بالاتر ہونے کا۔ یہ اس بات کا کھلا کھلا ثبوت ہے کہ شخصی نظام سے زیادہ کمزور کوئی اور نظام نہیں ہوتا اور اس میں ایسی ایسی بھیانک غلطیاں ہوتی ہیں جو تاریخ کا رخ بدل دیتی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ جنرل صاحب کو ایسے پالیسی بیانات دینے کا اختیار کس نے دیا؟ ان کی حیثیت ایک عام تبصرہ گو کی نہیں‘ وہ پاکستان کی پالیسی کے امین اور اس کے پابند ہیں اور ان کو ذاتی خیالات کے اس طرح اظہار کا کوئی حق حاصل نہیں۔ دستور کے مطابق پالیسی سازی‘ پارلیمنٹ اور اس کابینہ کا کام ہے جو پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ ہے۔ دستور میں صدر کے لیے صواب دیدی اختیارات کے تمام اضافوں کے باوجود‘ صدر کو پالیسی سازی یا طے شدہ پالیسی سے ہٹ کر بیان دینے کا کوئی اختیار نہیں۔ وہ ان تمام معاملات میں کابینہ کی ہدایت کا پابند ہے۔ لیکن کیا ستم ہے کہ نہ پارلیمنٹ سے مشورہ ہوتا ہے‘ نہ کابینہ کسی مسئلے اور تجویز پر غور کرتی ہے‘ نہ وزارتِ خارجہ کو اعتماد میں لیا جاتا ہے اور صدر مملکت ایک کمانڈو کی شان سے اتنے بنیادی امور کے بارے میں طے شدہ پالیسی سے ایسے جوہری انحراف پر مبنی خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور سرکاری پارٹی کے ارکان مواخذہ کرنے کے بجاے تاویلیں کرنے اور آئیں بائیں شائیں کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اصل وجہ ایک شخص کے ہاتھوں میں اقتدار کا ارتکاز اور قومی اور اجتماعی محاسبے کا فقدان ہے۔ نیز پارلیمنٹ کو غیرمؤثر بنا دیا گیا ہے۔

پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سیاست اور سفارت دونوں میں اصولی اور انتہائی (maximal)  پوزیشن کے بارے میں اس وقت تک کوئی لچک نہیں دکھائی جاتی جب تک مخالف قوت اپنے پتے کھیل نہیں لیتی۔ جموں و کشمیر کے بڑے حصے پر قبضہ بھارت کا ہے اور لچک ہم دکھا رہے ہیں۔ تجویز بھارت کی طرف سے آنی چاہیے اور ردعمل ہمارا ہونا چاہیے لیکن یہاں الٹی گنگا  بہہ رہی ہے کہ قابض قوت تو اپنے موقف پر سختی سے قائم ہے‘ اور لچک ہم دکھا رہے ہیں اور  ایک خیالی آخری (minimal)پوزیشن کو بات چیت کے آغاز میں پیش کر رہے ہیں۔ایں چہ بوالعجبی است۔

وقت آگیا ہے کہ اس بات کو صاف الفاظ میں بیان کیا جائے کہ اس کام کے لیے مخصوص اہلیت اور ایک ایسی سیاسی قیادت جسے تاریخی حقائق اور عالمی سفارت کاری کا گہرا ادراک ہو‘ ضروری شرط ہے۔ فوج کا اپنا ایک مزاج اور تربیت ہوتی ہے اور فوجی کمانڈ کا یہ کام نہیں کہ وہ اہم اور سنجیدہ سفارتی‘ سیاسی اور فنی معاملات پر جولانیاں دکھائیں بلکہ اصول تو یہ ہے کہ فوج بلاشبہہ دفاع کے لیے ہے‘ لیکن جنگ و صلح ایسے اہم امور ہیں کہ ان کو صرف جرنیلوں پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ پھر آمریت کا تو خاصّہ ہے کہ ایک شخص اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے لگتا ہے‘ اور خود کو ہر مشورے سے بالا سمجھتا ہے اور اپنی بات کو حق اور قانون کا درجہ دینے لگتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو تباہی کا سبب بنتی ہے اور انسانوں کو ہٹلر‘ مسولینی اور اسٹالن بنا کر چھوڑتی ہے۔ ان حالات میں خوشامد‘ چاپلوسی اور مفاد پرستی کا کلچر جنم لیتا ہے۔ فیصلے حقائق اور میرٹ کی بنیاد پر نہیں کیے جاتے اور قومی مفاد تک کو  دائو پر لگا دیا جاتا ہے۔ جمہوری نظام میں فیصلے پارلیمنٹ میں ہوتے ہیں۔ کابینہ بھی کچھ اصولوں اورحدود کی پابند ہوتی ہے۔ غیر ذمہ دارانہ انداز میںاعلانات اور صرف اپنی مرضی کے مطابق اتفاق راے بنوانے کے ڈرامے نہیں ہوتے۔ ادارے فیصلے کرتے ہیں اور قومی مفاد کو ذاتی ترنگ کی چھری سے ذبح کرنے کا کسی کو موقع نہیں دیا جاتا۔ دیکھیے کہ بھارتی صحافی اور سفارت کار کلدیپ نیر جس کو جنرل صاحب نے ۲۵اکتوبر سے ہی پہلے اپنے ان خیالات عالیہ سے روشناس کرا دیا تھا‘ بگاڑ کی اصل وجہ کو کس طرح بیان کرتا ہے:

مشرف کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس ہر مسئلے کا حل موجود ہے۔ ایک حکمران کو جو کچھ کرنا چاہیے وہ بس یہ ہے کہ جرأت کا مظاہرہ کرے اور لوگ اس کی پیروی کریں گے۔ مشرف کو پاکستان میں بہت سے مسائل کا سامنا نہیں رہا۔ جمہوریتیں اتفاق راے کی بنیاد پر کام کرتی ہیں نہ کہ حکم دینے پر‘ حکمران کتنے ہی جرأت مند کیوں نہ ہوں… مشرف سے ملاقات کے بعد میں نے محسوس کیا کہ انھیں بھارت کے زمینی حقائق کے بارے میں کچھ زیادہ جاننے کی ضرورت ہے۔ کوئی سیاسی پارٹی‘ حکمران کانگریس‘ بی جے پی یا کوئی دوسری جماعت لائن آف کنٹرول کو تبدیل کرنے کی جرأت نہیں کر سکتی۔ (روزنامہ ڈان‘ ۲۳ اکتوبر ۲۰۰۴ئ)

پاکستان کی کمزوری کی اصل وجہ قیادت کا دستور‘ قانون‘ پارلیمنٹ‘ اجتماعی فیصلہ کاری  اور ادارتی نظم و احتساب سے بالا ہونے کا تصور رکھنا اور اس کیفیت کا مسلسل برداشت کیا جانا ہے۔ جب تک اس کی اصلاح نہیں ہوگی پاکستانی قوم ۲۵ اکتوبر جیسے اعلانات کی طرح کی بھیانک غلطیوں سے محفوظ نہیں رہ سکے گی۔ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ قومی مفاد سے ایسا خطرناک کھیل کھیلنے والوں کا مؤثر مواخذہ کیا جائے؟ کیا پارلیمنٹ اور قوم ایسی عاقبت نااندیش قیادت کو لگام دے گی یا اس کی سواری کے لیے بدستور اپنی پشت پیش کرتی رہے گی؟

زمینی حقائق پر نظر

اس وقت جو عالمی حالات ہیں ان پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ۱۱؍۹ کے بعد جو فضا بنا دی گئی ہے‘ وہ ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتی۔ امریکا سے دنیا بھر کے عوام کی بے زاری اور عراقی عوام کی مجاہدانہ مزاحمت اپنا رنگ دکھا کر رہے گی۔ امریکا کا جنگی بجٹ آج دنیا کے تمام ممالک کے مجموعی جنگی بجٹ کے برابر ہوگیا ہے۔ امریکا کا تجارتی خسارہ اس وقت ۵۵۰ بلین ڈالر سالانہ تک پہنچ رہا ہے جو اس کی کل قومی پیداوار کے ۷ئ۵ فی صد کے برابر ہے۔ اسی طرح اس کے بجٹ کا خسارہ ۴۰۰ ارب ڈالر سے متجاوز ہے۔ امریکا میں قومی بچت کی سطح بہت گرگئی ہے اور دنیا کی دوسری اقوام کی قومی بچت کو امریکا کے لیے استعمال کرنے پر ہی اس کی ترقی بلکہ بقا کا انحصار ہے۔ اس وقت دنیا کی بچت کا تقریباً ۸۰ فی صد یعنی تقریباً ۶ئ۲ بلین ڈالر روزانہ امریکا کی نذر ہو رہا ہے۔ نتیجتاً امریکا دنیا کا سب سے زیادہ مقروض ملک بن گیا ہے۔ امریکی قیادت اور دنیا بھر کے عوام کے درمیان خلیج روز بروز بڑھ رہی ہے۔ حالات ایک نئے رخ پر جا رہے ہیں--- مسئلہ وقت کا ہے‘ صبروہمت کا ہے‘ بصیرت اور تاریخ شناسی کا ہے۔ اور وقت ہمارے ساتھ ہے بشرطیکہ ہم حکمت اور صبر کا راستہ اختیار کریں۔

اسی طرح جموں و کشمیر کے زمینی حقائق بھی غیرمعمولی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ بھارت ریاستی ظلم و استبداد کے تمام ہتھکنڈے استعمال کر کے بھی وہاں کے عوام کو اپنی گرفت میں رکھنے میں ناکام ہے۔ اس امر پر سب ہی کا اتفاق ہے کہ وادیِ کشمیر ہی نہیں‘ جموں تک میں بھارتی حکومت اور دہلی کے اقتدار سے مکمل بے زاری ہے۔ حال ہی میں پاکستان کے جن معروف زمانہ آزاد خیال اور سیکولر صحافیوں نے مقبوضہ جموں کشمیر کا دورہ کیا تھا‘ ان میں سے ہر ایک اس پر متفق ہے کہ وہاں کے عوام بھارت کے ساتھ رہنے کے لیے کسی قیمت پر تیار نہیں۔ لبرل لابی کے ایک سرخیل کے الفاظ میں: alienation from Dehli is complete & irreversible. (دہلی سے بے زاری مکمل اور ناقابل رجوع ہے)۔

یہی وجہ ہے کہ اگر ۱۹۶۵ء کے زمانے میں پاکستان سے جانے والے کمانڈوز کو بھارتی فوج پکڑنے میں کامیاب ہوگئی تو آج کیفیت یہ ہے کہ چند ہزار مجاہدین نے سات لاکھ بھارتی فوجیوں کا ناطقہ بند کیا ہوا ہے۔ جہاد و حریت کی تمام تر جدوجہد مقبوضہ کشمیر کے جا ں نثاروں کے لہو کا ثمر ہے جس کا زندہ ثبوت ہر بستی میں وہاں کے شہیدوں کے مرقد ہیں۔ تاہم آزاد کشمیر اور پاکستان سے جو مجاہدین وہاں گئے ہیں وہ وہاں کے عوام کے ہیرو ہیں جن کو مکمل پناہ دی جاتی ہے اور شہادت کی صورت میں ۳۰‘۳۰ ۴۰‘۴۰ بلکہ ۵۰‘۵۰ ہزار افراد نماز جنازہ میں شرکت کر کے ان سے یک جہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ ہر جنازہ بھارت کے تسلط اور قبضے کے خلاف بستی بستی ایک استصواب کا درجہ رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریکِ مزاحمت‘ متحدہ جہاد کونسل اور حریت کانفرنس کے قائد سید علی شاہ گیلانی نے جنرل پرویز مشرف کی تجاویز کی سخت مخالفت کی ہے اور پاکستانی قوم کو یہ پیغام دیا ہے کہ جب ہم اپنی جانوں کی بازی لگائے ہوئے ہیں اور استبداد کی قوتوں کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے ہوئے ہیں توآپ کمزوری اور تھکن کا مظاہرہ کیوں کر رہے ہیں؟ ہم اس وقت آپ سے استقامت کی توقع رکھتے ہیں۔ اسلامی تاریخ سخت سے سخت حالات میں بھی حق کی خاطر ڈٹ جانے والوں کی تابناک مثالوں سے بھری پڑی ہے اور آج بھی فلسطین‘ عراق‘ افغانستان‘ کشمیر اور شیشان ہر محاذ پر طاقت ور دشمن کا مقابلہ کرنے والے کمزور مسلمان سینہ سپر ہیں۔ پھر پاکستان کی قوم اور قیادت کیوں صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ رہی ہے۔

امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے جب مائوزے تنگ سے تائیوان کے بارے میں بات کی تو اس نے یہ کہہ کر کسنجر کی زبان بند کر دی تھی کہ’’ہم اس معاملے میں ۱۰۰ سال بھی انتظار کرسکتے ہیں‘‘۔

اہل جموں و کشمیر نے ۵۷ سال جدوجہد کی ہے اور ۱۹۸۹ء کے بعد سے تو ان کی جدوجہد دسیوں گنا بڑھ گئی ہے۔ کیا ایسی جرأت مند اور جان پر کھیل جانے والی قوم کی ہمتوں اور امنگوں کے باب میں ہم بحیثیت قوم فخر اور تائید کے علاوہ کوئی اور راستہ اختیار کرسکتے ہیں؟ وقت ہمارے ساتھ ہے۔ بھارت اس انقلابی قوت کا تادیر مقابلہ نہیں کر سکتا۔ تاریخ میں کوئی بھی استعماری اور قابض قوت ہمیشہ غالب نہیں رہی ہے۔ جس قوم نے بھی بیرونی استبداد کے خلاف سپر نہ ڈالنے کا عزم کیا ہے‘ وہ ایک دن اپنی آزادی حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہوئی ہے: تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ۔ یہی زمانے کی کروٹیں اور نشیب و فراز ہیں جن سے تاریخ عبارت ہے۔

کیا ہم تاریخ کے اس سبق اور اللہ کے اس قانون کو بھول گئے ہیں؟ آزادی‘ ایمان اور عزت کوئی قابلِ خریدوفروخت اشیا نہیں۔ کشمیری قوم نے بھارتی وزیراعظم کے ۲ئ۵ بلین ڈالر کے معاشی پیکج کا ایک ہی جملے میں جواب دے دیا: ’’ہمیں سیاسی آزادی درکار ہے‘ معاشی پیکج ہمارا ہدف نہیں‘‘۔ اہلِ کشمیر نے تو اپنا جواب دے دیا‘ سوال یہ ہے کہ پاکستانی قوم کا جواب کیا ہوگا اور پاکستانی فوج جس کا مقصد وجود ہی ملک کا دفاع‘ کشمیر کی آزادی کا حصول اور علاقے پر بھارت کی بالادستی کو حدود کا پابند کرنا ہے‘ اس کا جواب کیا ہوگا؟ کیا یہ فوج معاشی کاروبار کرنے‘ زمینوں کا انتظام کرنے‘ سول ملازمتوں اور سیاست پر قبضہ کرنے کے لیے ہے یا ملک کے دفاع‘ مظلوموں کی مدد اور پاکستان کی شہ رگ کو دشمن کے قبضے سے آزاد کرانے کے لیے ہے۔ اس وقت عالم یہ ہے کہ فوج کے سربراہ نے اپنی دستوری‘ قانونی‘ اخلاقی ہر ذمہ داری کے برخلاف ایک ایسی تجویز پیش کر دی ہے جس کے معنی کشمیر کی تقسیم ہی نہیں بلکہ کشمیر کو اس خطے کے نقشے سے ہمیشہ کے لیے غائب کر دینے کے مترادف ہے۔ ان کی غفلت اور خوش فہمی کا یہ حال ہے کہ  ع

اک نشترِ زہرآگیں رکھ کر نزدیک رگ جاں بھول گئے!

ھماری قومی ذمہ داری اور تقاضے

اس خطرناک کھیل کو کیسے برداشت کیا جا سکتا ہے؟ پارلیمنٹ اور قوم کی ذمہ داری ہے کہ اپنا کردار ادا کرے۔ قومی احتساب کو موثر بنائے اور اس قومی اجماع پر سختی سے قائم ہوجائے جس کی شیرازہ بندی قائداعظمؒ نے اپنے ہاتھوں سے کی تھی‘ اور اپنی ساری توجہ اصولی موقف پر مکمل اعتماد اور استقلال کے ساتھ مرکوز کرے اور کشمیری عوام کی تحریکِ مزاحمت کی بھرپور معاونت کی پالیسی اختیار کرے اور پاکستان کی معاشی‘ اخلاقی‘ عسکری اور سیاسی قوت میں اضافے کے لیے اقدامات کرے تاکہ یہ قوم اپنا حق لے سکے‘ مظلوموں کی مدد کر سکے اور ظالموں کو ظلم سے روک سکے:

وَمَا لَکُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآئِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَـآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَھْلُھَا وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا وَّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًاo(النسائ۴:۷۵)

آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا! ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کردے۔

اس مقصد کے لیے قوت فراہم کرنا اور اس قوت کو رب کی امانت کے طور پر اپنی حفاظت اور مظلوموں کی مدد و استعانت کے لیے استعمال کرنا بھی عبادت ہی کے زمرے میں آتا ہے۔ اقبال نے اسی طرف اشارہ کیا ہے:

ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ

پہلے اپنے پیکرِخاکی میں جاں پیدا کرے

پھونک ڈالے یہ زمین و آسمانِ مستعار

اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے

اور یہ اس لیے کہ    ؎

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے

ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

اُمت مسلمہ آج جن حالات سے دوچار ہے کشمیر ہو یا فلسطین‘ افغانستان ہو یا عراق‘ مینڈانائو ہو یا شیشان--- حق و باطل کی کش مکش میں سرخرو ہونے کا ایک ہی راستہ ہے--- ایمان‘ تقویٰ اور جہاد۔ پسپائی‘ سمجھوتے اور کمرہمت کھول دینے سے کوئی قوم عزت اور آزادی کی زندگی نہیں گزار سکتی:

زندگانی کی حقیقت کوہکن کے دل سے پوچھ

جوے شیر و تیشہ و سنگِ گراں ہے زندگی

بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوے کم آب

اور آزادی میں بحر بے کراں ہے زندگی

اُمت مسلمہ‘ پاکستانی قوم اور اس کی سیاسی و عسکری قیادت کے لیے آج کے حالات میں اور خصوصیت سے کشمیر کی جدوجہد آزادی کے پس منظر میں اقبال کا پیغام یہ ہے کہ:

جس میں نہ  ہو انقلاب‘ موت ہے وہ زندگی

روح امم کی حیات‘ کش مکش انقلاب

صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم

کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب

نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر

نغمہ ہے سوداے خام خون جگر کے بغیر

اس قوم کا مقدر پسپائی نہیں‘ اپنے ملّی اور تاریخی اہداف کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد اور کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنا ہے۔ یہ کم ہمت لوگوں کا شعار ہے کہ زمانے کے ساتھ بہ جاتے ہیں۔ زمانہ ساتھ نہ دے تو مسلمان کا شیوہ یہ ہے کہ وہ زمانے کو بدلنے کے لیے سرگرم عمل ہوجاتا ہے‘ اور یہی عزت اور کامیابی کا راستہ ہے۔ آج جن کے ہاتھوں میں مسلمانوں کی قیادت ہے  اُن کو ہوا کے رخ پر مڑجانے والے مرغ بادنما کے مذموم کردار سے احتراز کرنا چاہیے اور اپنے مقاصد اوراہداف کے حصول کے لیے زمانے کو مسخر کرنے کا راستہ اختیار کرنا چاہیے    ؎

حدیث بے خبراں ہے‘ تو بازمانہ بساز

زمانہ با تو نسازد تو بازمانہ ستیز

صبح و شام اقبال اور قائداعظم کا نام لینے والے کیا اقبال اور قائداعظم کے راستے پر چلنے کے لیے تیار ہیں؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

شخصی اقتدار‘ فوجی مداخلت و حکمرانی اور عوامی نمایندوں کا نفاق و بے وفائی

۱۵ اکتوبر ۲۰۰۴ء کو قومی اسمبلی میں سرکاری جماعت کے ارکان اسمبلی نے حزب اختلاف کی پرزور اور شدید مزاحمت اور ہمہ جہتی مخالفت کے باوجود جس سرعت‘ دھاندلی اور منہ زوری سے صدر کے لیے دو عہدوں کے بل کو منظور کیا وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ حکمران جماعتوں کے اتحاد نے یہ بل منظور کرکے دستور اور جمہوریت کے سینے میں چھرا گھونپا ہے‘ خود اپنے اوپر اور پارلیمنٹ پر بے اعتمادی کا ووٹ دیا ہے‘ اور سب سے بڑھ کر جنرل پرویز مشرف کے پانچ سالہ دورحکمرانی کی ناکامی پر مہرتصدیق ثبت کر دی ہے۔ ان سب پر مستزاد‘ اپنے زعم میں جنرل پرویز مشرف کو پارلیمنٹ کے ایک دستور سے متصادم فاسد قانون (bad law)کا سہارا لے کر دستور کی خلاف ورزی‘ سترھویں ترمیم کے قانونی تقاضوں اور خود اپنے ۲۵ دسمبر۲۰۰۳ء کے قومی عہدوپیمان (national commitment) سے نکلنے اور بدعہدی کرنے کا ایک موقع فراہم کیا ہے۔یہ  عوام کے نمایندوں کے لیے سیاسی خودکشی سے کم نہیں۔

اس اقدام اور اس کے پس منظر اور پیش منظر پر جتنا بھی غور کیا جائے اسے ملک و ملت کے لیے اندوہناک ہی کہا جا سکتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف دہائی دے رہے ہیں کہ پارلیمنٹ میں فوج کو کیوں نشانۂ تنقید بنایا جا رہا ہے لیکن اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری خود ان پر اور ان کے پارلیمانی حواریوں پر آتی ہے کہ ان کے ان اقدامات کی وجہ سے ملک کی وہ فوج جسے کبھی صد فی صد عوام کی تائید حاصل تھی اب اتنی متنازع بنادی گئی ہے کہ ہر سطح پرہدف تنقید بنی رہی ہے اور اس کی دفاعی صلاحیتیں بھی بری طرح متاثر ہورہی ہیں۔ فوج کو سیاست میں ملوث کرنے اور اسے مستقل سیاسی کردار کا حامل قرار دینے کا اس کے سوا کوئی اور نتیجہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اس کے اس کردار کا ہر سطح پر پارلیمنٹ میں اور پارلیمنٹ کے باہر احتساب ہو۔ جنرل پرویز مشرف نے محض اپنے اقتدار کی خاطر وردی کو ہدف بنوایا ہے۔ ان کی اس ہوس کی قیمت فوج کا پورا ادارہ اور قوم کی نگاہوں میں اس کے مقام کو ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ جنرل صاحب کے ایک سینیررفیق لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی نے ان کو بڑا صائب مشورہ دیا ہے کہ اب بھی وہ اپنے عہد کو جو اب ہمارے دستور کا حصہ ہے پورا کریں اور فوج کو اس بدنامی سے بچالیں جو بصورت دیگر ناگزیر ہوگی۔ ان کا مشورہ ایک عقل مند دوست کا مشورہ ہے جس پر جنرل صاحب کو سنجیدگی سے غور اور نیک نیتی سے عمل کرنا چاہیے:

لیکن ایسا کیا ہوگیا ہے کہ جس سے صرف ایک باوردی صدر ہی نبٹ سکتا ہے‘ یہ کوئی نہیں بتاتا… میں نہیں سمجھتا کہ صدر کو پیچیدہ صورت حال کو مزید پیچیدہ کرنے کی کوئی خواہش ہے۔ یہ امکان کہ کچھ لوگ سڑکوں پر آجائیں گے جن کے پُرتشدد ہونے کا خاصا امکان ہے‘ ایک پریشان کن خیال ہے۔ اس بدنظمی کا الزام لامحالہ جنرل کی وردی سے دیرپا محبت پر لگے گا جو بہت پریشان کن ہوگا۔ کیا ہوگا اگر وردی نے بھی کوئی مدد بہم نہ پہنچائی؟ نہیں‘ میں نہیں سمجھتا کہ وردی اور تمغوں سے آراستہ صدر ایک اچھا تصور ہے۔ (ڈیلی ٹائمز‘ ۱۵ اکتوبر ۲۰۰۴ئ)

حالات کی ستم ظریفی ہے کہ عوام کے وہ نمایندے جو پارلیمانی جمہوریت کو مستحکم کرنے اور دستور کے مطابق ملک کا نظام زندگی چلانے کے لیے منتخب ہوئے تھے--- اور مسلم لیگ (ق) کا انتخابی منشور پارلیمانی جمہوریت اور پارلیمان کو مضبوط ومستحکم اور مؤثر کرنے کے دعووں پر مشتمل تھا--- ان کی ایک تعداد دستور کے خلاف ایسا قانون منظور کرتی ہے کہ ایک شخص بیک وقت فوج کا باوردی سربراہ اور سروس آف پاکستان کا تنخواہ دار ملازم بھی ہوسکتا ہے اور ملک کا صدر بھی جو خالص سیاسی عہدہ ہے‘ جب کہ خود فوج کے ریٹائرڈ سوچنے سمجھنے والے افراد صدر کو متنبہ کر رہے ہیں کہ وہ یہ خطرناک کھیل نہ کھیلیں‘ اور دستور کے تحت انھیں جو غیرمعمولی مواقع دیے گئے ہیں ان پر قناعت کر کے اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔

صدر کے دو عہدوں پر قابض رہنے کے سلسلے میں خود صدر اور ان کے ’’نورتن‘‘ گذشتہ چند مہینوں سے ڈرامے کے مختلف ایکٹ وقتاً فوقتاً اسٹیج کرتے رہے ہیں‘ اور اب دو عہدوں کے قانون کی شکل میں ابہام (suspense) کو ختم کر کے آخری ایکٹ کی طرف پیش رفت کا سماں باندھا جا رہا ہے۔ لیکن یہی وہ فیصلہ کن وقت ہے جب ایک بار پھر اس مسئلے کے سارے پہلوئوں پر غور کر لیا جائے تاکہ اب بھی ملک کو مزید بگاڑ اور تباہی سے بچانے کے لیے کوئی مؤثر اقدام ہو سکے ورنہ ہمیں صاف نظر آرہا ہے کہ ایک شخص کی ہٹ دھرمی اور مخصوص سیاسی گروہوں کی مفاد پرستی کے نتیجے میں ملک جس بحران اور خلفشار کی طرف جا رہا ہے‘ وہ کسی کے لیے بھی خیر کا پیغام نہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ عمل خود جنرل پرویز مشرف اور اس سے بھی زیادہ فوج کے لیے بحیثیت ایک دفاعی ادارے کے‘ بڑے ہی مہلک مضمرات کا حامل ہے۔ ابھی وقت ہے کہ عقل کے ناخن لیے جائیں اور ملک اور فوج کو اس بحران سے بچا لیا جائے۔

باطل اورفاسد قانون

’’دو عہدوں کا قانون‘‘ اگرچہ اسے پارلیمنٹ اکثریت سے منظور کرلے تب بھی یہ صرف ایک آمرانہ‘ استبدادی اور من مانی پر مبنی (arbitrary) قانون ہی نہ ہوگا بلکہ دستور کی اصطلاح میں‘ ایک اصلاً باطل اور فاسد قانون (void ab initio) ہوگاجس کی کوئی دستوری اور قانونی حیثیت نہیں ہوسکتی۔

سب سے پہلے ایک اصولی بات سمجھ لی جائے۔ بلاشبہہ ملک کی پارلیمنٹ اصل قانون ساز ادارہ ہے لیکن پارلیمنٹ بھی کوئی باطل اور فاسد قانون بنانے کی مجاز نہیں۔ اسلامی اصول فقہ کی رو سے چونکہ قرآن و سنت قانون کا اصل منبع ہیں اس لیے کوئی قانون ساز ادارہ قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنا سکتا۔ اگرخدانخواستہ کسی پارلیمنٹ کی صد فی صد اکثریت بھی شراب اور زنا کو قانون کے ذریعے جائز کرنے کا اعلان کر دے تو وہ قانون فاسد اور باطل ہی ہوگا۔ اسی طرح جن ممالک میں تحریری دستور ہے ان میں مقننہ پابند ہوتی ہے کہ دستور کے خلاف یا اس سے متصادم کوئی قانون سازی نہیں کر سکتی اور اگر وہ کوئی ایسا قانون بنا دیتی تو وہ سندجواز سے محروم رہتا ہے۔

جدید اصول قانون (jurisprudence)میں ایک بڑا بنیادی اضافہ( contribution) دوسری جنگ عظیم کے بعد نازی جرمنی کے ذمہ دار افراد کے مقدمے میں‘ جسے نیورمبرگ ٹرائل کہا جاتا ہے‘ ہوا۔ اس کے فیصلوں کو عالم گیر قبولیت حاصل ہے اس میں یہ اصول طے کیا گیا کہ کچھ اقدار اور اصول فطری انصاف اور عالم گیر صداقتوں کا درجہ رکھتے ہیں اور اگر ان کی خلاف ورزی کی جاتی ہے اور انسانیت کے خلاف جرائم کاارتکاب کیا جاتا ہے‘ تومحض یہ بات اس کے لیے جوازفراہم نہیں کرسکتی کہ حکم مجاز ادارے نے دیا تھا یا یہ کہ ایسا اقدام کسی ایکٹ آف پارلیمنٹ‘ یعنی قانون کے تحت کیا گیا تھا۔ یہی وہ بنیاد تھی جس پر جرمن پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے اُن قوانین کو باطل قرار دیا گیا جو انسانی اقدار کے خلاف تھے اور نازی جرمنی کے چیف جسٹس آرنسٹ یاننگ کو بطور ملزم اس عدالت میں پیش کیا گیا اور اسے عمرقید کی سزا دی گئی۔ اس کا یہ دفاع کچھ بھی کام نہ آیا کہ اس نے ان قوانین کو نافذ کرنے کے احکام دیے تھے جن کو پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا۔ نیورمبرگ کی عالمی عدالت کا فیصلہ تھا کہ ایسے اقدام جو بظاہر ملکی قانون کا درجہ رکھتے ہوں اور ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے ہی کیوں نہ بنائے گئے ہوں لیکن اگر ایسے ایکٹ آف پارلیمنٹ بنیادی طور پر اخلاقی اور انسانی جمہوری قدروں سے بالاتر یا متصادم ہوں توانھیں جائز قانون اور جائز اقدام تصور نہیں کیاجاسکتا۔ ایسے قوانین اپنی پیدایش کے وقت سے ہی باطل اور فاسد ہیں اور ان کو عدالت نافذ کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔

جدید اصول قانون کے اس کلیے کی روشنی میں آیئے اس امر کا جائزہ لیں کہ اگر ’’دو عہدوں کا قانون‘‘ اسمبلی میں منظور ہونے کے بعد سینیٹ سے گزر کر صدر کی منظوری (assent ) حاصل کر بھی لیتا ہے تب بھی اس کی حیثیت کیا ہوگی۔ وہ ایک باطل اور فاسد قانون (void piece of legislation) ہوگا جس کی کوئی قانونی اور اخلاقی حیثیت نہیں ہوگی۔ اس کی وجوہ مختصراً یہ ہیں:

۱-            دستور ملک کا بالاتر قانون ہے اور کوئی قانون دستور سے متصادم نہیں ہوسکتا۔ ہر قانون سازی کو دستور کی کسوٹی پر پر کھا جاتا ہے اور جو قانون اس کے برعکس ہو‘ وہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے اور کسی حیثیت سے بھی مؤثر نہیں ہو سکتا۔ اب دیکھیے دستور کیا کہتا ہے:

(i) دفعہ ۴۱ کی رو سے کوئی شخص جو قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کا اہل نہ ہو‘ وہ صدر نہیں ہوسکتا۔ اور قومی اسمبلی کے رکن کی اہلیت اور نااہلیت کا تعین دفعہ ۶۲ اور دفعہ ۶۳ میں کر دیا گیا ہے جس کی رو سے:

(د) وہ پاکستان کی ملازمت میں کسی منفعت بخش عہدے پر فائز ہو ماسواے ایسے عہدے کے جسے قانون کے ذریعے ایسا عہدہ قرار دیا گیا ہو جس پر فائز شخص نااہل نہیں ہوتا۔

دستور کی دفعہ ۲۶۰ میں سروس آف پاکستان کی تعریف کر دی گئی ہے جس میں ’’فوج کی ملازمت‘‘ اپنی ہر شکل میں موجود ہے۔

اسی طرح دفعہ ۶۳ کی شق (ک) کی رو سے سروس آف پاکستان سے ریٹائر ہونے والا کوئی شخص بھی اہل نہیں ہو سکتا جب تک ملازمت سے فراغت پر دو سال نہ گزر جائیں۔

شق (د) میں قانون کے ذریعے جس عہدے کو مستثنیٰ کیے جانے کا ذکر ہے وہ دفعہ ۲۶۰ کو   بے اثر (over-rule) نہیں کرسکتا۔

(ii) دستور کی دفعہ ۲۴۴ کے تحت مسلح افواج کے تمام ارکان کے لیے لازم کیا گیا ہے کہ وہ یہ حلف اٹھائیں کہ: ’’میں اپنے آپ کو کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمیوںمیں مشغول نہیں کروں گا‘‘۔

اس عہد کو محض قانون کے ذریعے نہ بدلا جا سکتا ہے اور نہ اس سے کسی کو مستثنیٰ کیا جاسکتا ہے۔

(iii) سترھویں دستوری ترمیم کے ذریعے دفعہ ۴۱ میں جو شرط عائد کی گئی تھی وہ دستوری ترمیم کا مقصد اور ہدف تھی ‘یعنی یہ کہ جنرل پرویز مشرف کو (d) (i) ۶۳ سے جو استثنا دیا گیا ہے وہ ۳۱ دسمبر۲۰۰۴ء کو ختم ہوجائے گا۔ اب دستوری ترمیم کے اس دستوری تقاضے سے فرار ممکن نہیں‘ اس لیے کہ قانون سازی کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ ترمیم کے بارے کوئی ایسی ترمیم نہیں ہوسکتی جو اصل ترمیم کے مقصد کے منافی اور اس کو کالعدم (undo) کرنے والی ہے۔

دو عہدوں کا قانون اگر تسلیم کر لیا جائے تو وہ سترھویں ترمیم کے مقصد کو کالعدم کرتا ہے‘ اس کی مکمل طور پر نفی کر دیتا ہے۔ یہ سادہ قانون کے ذریعے دستور میں تبدیلی کے مترادف ہوگا جو باطل اور فاسد ہے۔

(iv) یہ قانون دستور کے پورے ڈھانچے (structure) کو تہہ و بالا کر دیتا ہے۔ جس تقسیمِ کار پر دستور مبنی ہے اس میں صدر کا فیڈریشن کی علامت ہونا‘ پارلیمنٹ کی بالادستی‘ سول اور فوجی نظام کا الگ الگ ہونا‘ کسی ایک فرد کے ہاتھوں میں قوت کا ایسا ارتکاز نہ ہونا جو باقی اداروں کو غیرمؤثر کر دے‘شامل ہیں۔ یہ ’’قانون‘‘ ان تمام پہلوئوں سے دستور کے نظام کار سے متصادم ہے اور فردواحد کو دستوریا قانون سے بالا کرنے کی کوشش ہے جو جمہوریت کی ضد اور پارلیمانی نظام حکومت کی نفی ہے۔

(v) دفعہ ۴۲ کے تحت صدر کے حلف نامے میں ایک اہم شق یہ بھی ہے کہ:

میں اپنے ذاتی مفاد کو اپنے سرکاری کام اور اپنے سرکاری فیصلوں پر اثرانداز نہیں ہونے دوں گا۔

حلف کی اس شق اور دو عہدوں کے قانون میں چونکہ تصادم ہے‘ اس لیے کہ یہاں مفاد کا ٹکرائو (conflict of interest) آرہا ہے۔ یہ قانون جنرل پرویز مشرف ہی کو ایک اعتبار سے دستور کے متعدد احکامات سے استثنا دے رہا ہے۔ اس لیے وہ خود اس کی منظوری نہیں دے سکتے۔  اگر وہ اس قانون کو منظوری دیتے ہیں تو اپنے ذاتی مفاد کو بالاتر رکھتے ہیں اور حلف کی خلاف ورزی کی بنیاد پر اپنے کو صدارت کے عہدے کے لیے نااہل بنا لیتے ہیں۔

(vi)  یہ تو دستوری اور قانونی بحث تھی لیکن صدارت کے لیے سب سے اہم چیز ایک شخص کی صداقت‘ عہد کی پاسداری‘ دھوکادہی سے پاک ہونا اور امانت و دیانت ہے۔ دستور کی دفعہ ۶۲ میں بھی دو شقیں ایسی ہیں جو اس پہلو سے اہم ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ وہ شخص صدر نہیں بن سکتا جو:

(و) سمجھ دار‘ اور پارسا نہ ہو اور فاسق ہو‘ اور ایمان دار اور امین نہ ہو۔

(ز) کسی اخلاقی پستی میں ملوث ہونے یا جھوٹی گواہی کے جرم میں سزایافتہ ہو۔

بدترین بدعھدی

سترھویں دستوری ترمیم کے سلسلے میں اصل جوہری شق ہی یہ تھی کہ صدر چیف آف اسٹاف کا عہدہ ۳۱دسمبر۲۰۰۴ء تک چھوڑدے گا۔ سینیٹر ایس ایم ظفر جو اس معاہدے کو انجام کار تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کر رہے تھے اپنی کتاب Dialogue on the Political Chess Board میں اس کی پوری تفصیل بیان کرتے ہیں۔ کتاب کا آغاز اس آیت ربانی سے کرتے ہیں:

وَلَا تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْکِیْدِھَا (النحل ۱۶: ۹۱)

اور اپنی قسمیں پختہ کرنے کے بعد توڑ نہ ڈالو۔

کتاب کا انتساب مشہور صحابی رسولؐ حضرت ابوجندلؓ کے نام کرتے ہیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو نمایاں کرتے ہیں:

ابوجندل صبر کرو‘ اللہ تعالیٰ تمھارے لیے آسانی کا سامان کرے گا۔ ہم نے ان لوگوں سے ایک معاہدہ کرلیا ہے اور انھیں اپنا عہدوپیمان دے دیا ہے اور ہم اپنے عہد سے پھر نہیں سکتے۔

قرآن و سنت کی اس تذکیر کے ساتھ وہ بیان کرتے ہیں کہ:

میں نے صدر کو بتایا کہ ایم ایم اے نے صدر کے انتخاب کے مطالبے سے دستبردار ہونے پر رضامندی ظاہر کی ہے اور اس کے بجاے انھیں دستور کے تحت منتخب صدر تسلیم کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے‘ بشرطیکہ وہ اعتماد کا ووٹ حاصل کرسکیں۔ اس صورت میں وہ آپ سے دو میں سے ایک عہدہ چھوڑنے کے لیے کوئی حتمی تاریخ معلوم کرنے میں حق بجانب ہیں۔ (ص ۱۵۸)

اسی کے نتیجے میں صدر نے ایک عہدہ چھوڑنے کی شرط تسلیم کی جو معاہدے کا اصل نکتہ تھی۔

اب یہ بات طے ہوگئی کہ اس صورت میں صدر حتمی طور پر ایک قطعی تاریخ کا عندیہ دیں گے…پھر جو تاریخ بتائی جائے گی اس کا اطلاق نااہلیت کی دفعہ‘ یعنی دستور کی دفعہ ۶۳ (د) کے ذریعے ہوگا۔ (ص ۱۶۱)

دیکھیے بالکل واضح ہے کہ اصل ایشو کیا تھا۔ اور دستور کی دفعہ (d) (i) ۶۳ کو سترھویں ترمیم میں لانے کا مقصد چیف آف اسٹاف کے عہدے سے فراغت تھی۔ جب دستوری ترمیم کا مقصد ہی یہ تھا تو استثنا کا سہارا لیے جانے کی کوئی گنجایش نہیں رہتی:

چیف آف آرمی اسٹاف کا عہدہ چھوڑنے کے بارے میں انھوں نے کہا کہ وہ اس مسلمہ اصول کو تسلیم کرتے ہیں کہ صدر اور چیف آف آرمی اسٹاف کے دونوں عہدے ایک شخص نہیں رکھ سکتا۔ لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ ایک عارضی مدت کے لیے سول حکومت کو مضبوط و مستحکم کرنے کے لیے یہ ضروری ہے۔ مگر انھوں نے کہا کہ انھوں نے اس پر بھی لچک کا اظہار کیا ہے۔ (ص ۱۸۵)

اس کے نتیجے میں طے ہوا کہ ایک عہدہ‘ یعنی چیف آف اسٹاف کا عہدہ ۳۱دسمبر ۲۰۰۴ء تک چھوڑ دیا جائے گا۔ دفعہ ۶۳ (د) ۳۱ دسمبر ۲۰۰۴ء سے نافذ العمل ہوگی جو اس تاریخ کے بعد دو مناصب پر برقرار رہنے کو نااہل قرار دے گی۔

یہ معاہدے کے اسی مرکزی عہدوپیمان (commitment) کا اعلان عام تھا جو صدر نے ٹیلی وژن پر قوم اور پوری دنیا کے سامنے یوں کیا :

I have decided to leave the Army Chief post before Dec 31st, 2004. But it will be upon me to decide about the timing within this period.

میں نے ۳۱ دسمبر ۲۰۰۴ء سے پہلے آرمی چیف کا عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ کیاہے۔ لیکن اس مدت کے دوران اس کے وقت کا تعین میں خود کروں گا۔

دفعہ ۶۳ (i) (د) کے ساتھ دفعہ ۴۳ کا ذکر کرنے کا مسئلہ بھی لیاقت بلوچ صاحب نے اٹھایا لیکن ایس ایم ظفر صاحب نے اطمینان دلایا کہ دفعہ ۶۳ اس سلسلے میں کافی ہوگی (ص ۱۹۴)۔

ایس ایم ظفر صاحب نے اپنی کتاب  میں (ص ۲۲۶-۲۲۷) یہ بات بھی واضح کر دی ہے کہ صدر کو اعتماد کا ووٹ دینے کے سلسلے میں ایم ایم اے نے کوئی وعدہ نہیں کیا تھا‘ البتہ اس کی مخالفت نہ کرنے کا وعدہ کیا تھا جسے انھوں نے پورا کر دیا۔

سترھویں ترمیم اس بارے میں امرقاطع ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی بری فوج کی سربراہی سے ۳۱دسمبر۲۰۰۴ء تک فراغت کے بعد سیاست میں فوج کی مداخلت کا دروازہ بند ہوجائے گا۔ ایس ایم ظفر صاحب نے سینیٹ میں ۲۹ دسمبر کو اپنی تقریر میں اس بات کو اس طرح ادا کیا اور اسی کو انھوں نے اپنی کتاب میں ضمیمہ نمبر۹ کی شکل میں اصل معاہدے کے حاصل کے طور پر پیش کیا ہے:

اب میںاپنے حتمی نتیجے تک آئوں گا۔ جناب عالی! وقت آگیا ہے کہ ہم آگے کی طرف دیکھیں اور ہمیں لازماً آگے کی طرف پیش رفت کرنا چاہیے۔ ہم نئے ہزاریے میں ہیں‘ اب یہ وقت ہے کہ ہم سب عہد کریں‘ تمام سیاسی رہنمائوں اور کارکنوں کو عہد کرنا چاہیے‘بلکہ درحقیقت مکمل سول سوسائٹی کو‘ بشمول افواجِ پاکستان کے افسران اور تمام فوجیوں کو یہ عہد کرنا چاہیے کہ آیندہ سول میں فوج کی طرف سے کوئی مداخلت نہیں ہوگی۔ (ص ۲۷۷)

یہ تھا اصل مسئلہ اور جنرل پرویز مشرف اور پوری پارلیمنٹ کا عہدوپیمان۔ یہ ایک سیاسی اور عمرانی معاہدہ تھا جسے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ توڑا جا رہا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ  جو بھی اسے توڑ رہا ہے‘ یا توڑنے کے لیے سامان فراہم کر رہا ہے وہ دستور کا باغی‘ جمہوریت کا قاتل اور قوم کا مجرم ہے اور وہ اللہ کی پکڑ سے بھی نہیں بچ سکے گا۔

اس قانون کے فاسد اور خلاف دستور ہونے کے بارے میں تمام ہی آزاد ماہرین قانون یک زبان ہیں کہ یہ دستور کے خلاف اور جمہوریت کی نفی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی قرارداد پوری قانون دان برادری کے خیالات کی ترجمان ہے:

قومی اسمبلی نے ایک ایکٹ کے ذریعے‘ جو دستور کو پامال کرتا ہے اور جو ریاستی اداروں کو فرد واحد کے خبط (whim)کے تابع کرتا ہے‘ ملک کی دستوری حکومت کو ذاتی حکومت میں تبدیل کر دیا ہے۔ (ڈان، ۱۹ اکتوبر ۲۰۰۴ئ)

اس بارے میں دو آرا مشکل ہیں کہ یہ قانون کتاب قانون کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا اور پارلیمنٹ کے لیے خودکشی کا پروانہ ہے۔ اس کے نتیجے میں حکمران پارٹی کی جو بھی سیاسی حیثیت تھی وہ خاک میں مل گئی ہے۔ حکومت حکمرانی کے لیے ہر جواز سے محروم ہوگئی ہے اور جنرل صاحب اور ان کی پوری ٹیم نے اپنے اعتبار (credibility ) اور سندجواز (legitimacy )‘ دونوں پر وار کر کے خود ہی انھیں تار تار کر دیا ہے۔

مسئلہ صرف قیادت کے اعتبار اٹھ جانے نہیں‘ پورے نظام امر اور اصحاب امر کی سندجواز کا ہے۔ اور جو قیادت اور جو نظام اعتبار اور جواز دونوں سے محروم ہو وہ کھوٹے سکوں کی مانند ہے اور اس کے دن گنے جاچکے ہیں۔ جس ملک کا سربراہ اور حکمران پارٹی ایسے واضح عہدوپیمان کے بعد ان کو پامال کرنے پر تلے ہوئے ہوں‘ ان کے قول و فعل کا دنیا میں کسی کو اعتبار نہیں ہوسکتا۔

ایس ایم ظفر صاحب نے سورۃ النحل کی آیت ۹۱ نقل کی ہے جو عہد کی پاسداری سے متعلق ہے۔ ہم اس کے ساتھ اگلی آیت بھی پیش کرتے ہیں جو ایک آئینہ ہے جس میں جنرل پرویز مشرف اور حکمران پارٹی اپنا پورا چہرہ دیکھ سکتی ہے اور اپنے انجام کی تصویر بھی اسے اس میں صاف نظرآجائے گی:

وَاَوْفُوْا بِعَھْدِ اللّٰہِ اِذَا عٰھَدْتُّمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْکِیْدِھَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰہَ عَلَیْکُمْ کَفِیْلًاط اِنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَo وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّتِیْ نَقَضَتْ غَزْلَھَا مِنْ بَعْدِ قُوَّۃٍ اَنْکَاثًاط تَتَّخِذُوْنَ اَیْمَانَکُمْ دَخَلًام بَیْنَکُمْ اَنْ تَکُوْنَ اُمَّۃٌ ھِیَ اَرْبٰی مِنْ اُمَّۃٍط اِنَّمَا یَبْلُوْکُمُ اللّٰہُ بِہٖط وَلَیُبَیِّنَنَّ لَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ مَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ o (النحل ۱۶:۹۱-۹۲)

اللہ کے عہد کو پورا کرو‘ جب کہ تم نے اس سے کوئی عہد باندھا ہو اور اپنی قسمیں پختہ کرنے کے بعد توڑ نہ ڈالو‘ جب کہ تم اللہ کو اپنے اوپر گواہ بنا چکے ہو۔ اللہ تمھارے سب افعال سے باخبر ہے۔ تمھاری حالت اس عورت کی سی نہ ہوجائے جس نے اپنی ہی محنت سے سوت کاتا اور پھر آپ ہی اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ تم اپنی قسموں کو آپس کے معاملات میں مکروفریب کا ہتھیار بناتے ہو تاکہ ایک قوم دوسری قوم سے بڑھ کر فائدے حاصل کرے حالانکہ اللہ اس عہدوپیمان کے ذریعے سے تم کو آزمایش میں ڈالتا ہے‘ اور ضرور وہ قیامت کے روز تمھارے اختلافات کی حقیقت تم پر کھول دے گا۔ (النحل ۱۶: ۹۱-۹۲)

اور عہدومیثاق کی خلاف ورزی کرنے والوں کے بارے میں اللہ کا فرمان یہ ہے کہ اس کی زد خود ایمان تک پر پڑتی ہے:

اَوَ کُلَّمَا عٰھَدُوْا عَھْدًا نَّبَذَہٗ فَرِیْقٌ مِّنْھُمْط بَلْ اَکْثَرَھُمْ لاَ یُؤْمِنُوْنَo

یہاں تک کہ جب کبھی ان لوگوں نے پکا عہد کیا تو ان میں سے ایک فریق نے اس کو توڑ دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں اکثر ایمان سے عاری ہیں۔ (البقرہ ۲:۱۰۰)

فَمَنْ تَوَلّٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ (اٰل عمرٰن ۳:۸۲)

اور جواس کے بعد (اپنے عہد سے) پھر جائیں تو یہی فاسق لوگ ہیں۔


اس مسئلے کے قانونی اور اخلاقی پہلو بلاشبہہ بہت اہم اور ملک کے مستقبل اور یہاں جمہوری سیاست کے فروغ کے سلسلے میں کلیدی اہمیت رکھتے ہیں۔ لیکن اس کے بڑے دور رس سیاسی مضمرات بھی ہیں۔

عدم استحکام

جنرل صاحب اور ان کے حواری سیاسی استحکام کی خاطر وردی کی بات کرتے ہیں اور جنرل صاحب نے پانچ سال میں جو نظام قائم کیا ہے اور جسے وہ پایدار جمہوریت (sustainable democracy )قرار دیتے ہیں‘ اس کو بچانے اور آگے بڑھانے کا ذکر کرتے ہیں۔ لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ خود اس کے بارے میں اس قانون کا فتویٰ کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ پانچ سال میں انھوں نے استحکام کی طرف قدم بڑھایا ہے‘ جب کہ اگر ایسے کسی قانون کی ضرورت ہے تو وہ صرف اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب ان کا بنایا ہوا گھروندا استحکام سے محروم ہو۔ دراصل جنرل صاحب غیریقینی اور مجرم ضمیری کا شکار ہیں اور یہ قانون ان کے پانچ سالہ دور کے حاصل پر عدم اطمینان کا اظہار ہے۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ جو سیاسی نظام انھوں نے قائم کیا وہ متزلزل ہے۔ سیاسی قوت کا مرکز نہ عوام ہیں‘ نہ دستور‘ اور نہ پارلیمنٹ‘ صرف فوج  قوت کا منبع ہے‘ اور انھیں خطرہ ہے کہ ان کا بنایا ہوا یہ محل بندوق کی نالی کے بغیر زمین بوس ہوجائے گا۔ اگر وہ پانچ سال میں بھی اپنے پائوں پر کھڑے ہونے والا کوئی نظام قائم نہیں کرسکے تو مزید چار سال میں کیا کر سکتے ہیں؟ ان کے ایک مداح اسٹیفن کوہن (Stephen Cohen) نے اپنی تازہ ترین کتاب The Idea of Pakistan میں جنرل صاحب اور فوج کی حکمرانی کی ناکامی کا یوں اعتراف کیا ہے:

فوج کے ہر جگہ موجود ہونے کی وجہ سے پاکستان قومی سلامتی کی ایک ایسی ریاست رہے گا جس میں ترقی اور جواب دہی کی قیمت پر سلامتی کے مقاصد فیصلہ کن ہوں گے‘ نیز  جواز اور قوتِ متخیلہ کے فقدان کی وجہ سے سمت تبدیل کرنے کے قابل بھی نہ ہوگا۔ صدر اور آرمی چیف دونوں کی حیثیت سے پرویز مشرف کی کارکردگی غیراطمینان بخش ہے۔ مشکل نظر آتا ہے کہ مشرف کی قیادت کے مزید چار برس کسی طرح پاکستان کے مستقبل میں ڈرامائی تبدیلی لاسکیں۔ (بحوالہ Military's Broken Law لا از عرفان حسین‘ ڈان، ۱۶ اکتوبر ۲۰۰۴ئ)

پھر بات صرف جنرل صاحب کے بنائے ہوئے نظام کے عدم استحکام ہی کی نہیں بلکہ پورے نظامِ حکمرانی کی تباہی کی ہے۔ جنرل صاحب کے پورے دور حکومت اور خصوصیت سے اس ’’دو عہدوں کے قانون‘‘ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ملک کے اداروں کو تباہ کر دیا گیا ہے اور سارے نام نہاد استحکام کی بنیاد فرد واحد کو قرار دے دیا گیا ہے۔ شخصی حکمرانی اور وہ بھی فوجی لبادے میں‘ خرابی کی اصل جڑ ہے۔ ملکوں میں استحکام اداروں کے استحکام سے آتا ہے۔ فرد تو آنی جانی چیز ہے۔ جہاں استحکام کا انحصار محض ایک فرد پر ہو وہ آمریت ہی کو جنم نہیں دیتا بلکہ خود استحکام بھی خواب و خیال سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ جمہوریت کے درخت کو جو چیز کسی گھن کی طرح کھا رہی ہے اور جس نے اسے کھوکھلا کر دیا ہے‘ وہ یہی شخصی حکمرانی‘ ارتکاز اختیارات اور فردواحد کی ناگزیریت ہے۔ وقت آگیاہے کہ خرابی کی اس اصل جڑ پر ضرب لگائی جائے اور استحکام کے لیے وہ راستہ اختیار کیاجائے جو پایدار ہو۔ یہ صرف اداروں کے استحکام سے حاصل ہوسکتا ہے اور اس کے لیے جن اداروں کا استحکام ضروری ہے وہ دستور‘ پارلیمنٹ‘ سیاسی جماعتیں‘ عدلیہ‘ قانون کی حکمرانی اور جواب دہی کا مؤثر نظام ہیں۔ بات صرف ایک فرد کی ذات کی نہیں‘ گو جنرل صاحب اپنی تمام ساکھ اور جواز کھوچکے ہیں۔ لیکن اب بھی ہمارا ہدف ان کی ذات نہیں‘ ان کی یہ کوشش ہے کہ شخصی حکمرانی کے نظام کو ملک پر مسلط کر دیں۔

فوجی قیادت کے سیاسی عزائم

اس کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ یہ شخصی حکمرانی بھی دراصل فوجی حکمرانی (military rule) کی شکل میں ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کے فروغ کی راہ میں جو مشکلات اور موانع حائل رہے ہیں‘ ان میں سیاسی قوتوں کی کمزوریوں اور بے تدبیریوں کے ساتھ فوجی قیادت کے سیاسی عزائم اور سیاسی عمل میں بار بار مداخلت کا بڑا ہی بنیادی کردار ہے۔ جو بھی فوجی طالع آزما میدان میں آیا ہے اس نے استحکام اور قومی مفاد ہی کا سہارا لیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں استحکام اور قومی مفاد دونوں ہی پامال ہوئے ہیں۔

آج صورت یہ ہے کہ فوج کی دفاعی صلاحیت کمزور سے کمزور تر ہو رہی ہے اور سیاست‘ انتظامیہ‘ معیشت اور اجتماعی زندگی کے دوسرے دائروں میںاس کا کردار بڑھ رہا ہے۔ ان دائروں کے لیے نہ اس کو تربیت دی گئی ہے اور نہ اسے ان میں کوئی مہارت حاصل ہے۔ سول انتظامیہ میں آج ایک ہزار سے زیادہ ریٹائرڈ یا حاضر سروس فوجی چھائے ہوئے ہیں‘ سفارت کاری ہو یا تعلیمی اداروں کی سربراہی--- ہر جگہ ریٹائرڈ فوجیوں کی فوج ظفر موج براجمان ہے۔ پبلک سیکٹر کے اہم ترین اداروں کی سربراہی بھی فوجی عملے (personnel )کو سونپی گئی ہے اور معیشت کے میدان میں بھی فوجی ادارے اپنے ہاتھ پائوں پھیلا رہے ہیں۔ پروفیسر حسن عسکری رضوی ہیرالڈ میں اپنے ایک مضمون میں اس کا اس طرح نوحہ کرتے ہیں کہ:

The corporate interests of the military have expanded so much under General Musharuf that the army is now overwhelming all the major sectors of the state, economy and the society. And it is leading to a situation that can be declared as the colonization of the civil institutions by the military.

جنرل مشرف کے دور میں فوج کے کاروباری مفادات اتنے توسیع پذیر ہوگئے ہیں کہ فوج اب ریاست‘ معیشت اور سوسائٹی کے تمام بڑے شعبوں پر چھائی ہوئی ہے‘ اور ایسی صورت حال کی طرف بڑھ رہی ہے جس کو سول اداروں پر فوج کا استعماری قبضہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

ہمیں دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ فوجی قیادت اور خصوصیت سے جنرل پرویز مشرف کو کوئی شعور نہیں کہ فوج کو سیاست‘ معیشت اور انتظامیہ میں ملوث کر کے وہ کس طرح فوج کو قوم کے اعتماد اور محبت و عقیدت سے محروم کر رہے ہیں‘ اور اسے قوم کے مخالفانہ جذبات کا ہدف بنا رہے ہیں۔ فوج اپنے دفاعی اور پیشہ ورانہ کردار کو بھی کمزور کر رہی ہے اور عوام اور فوج میں فاصلے بڑھ رہے ہیں۔ اختلافات اور بے اعتمادی اس رخ پر جارہی ہے جو بے زاری اور نفرت کا روپ دھار سکتی ہے جو ملکی دفاع کے لیے بڑا ہی خطرناک ہو سکتا ہے۔

آج وردی کی بحث کا ہدف صرف ایک فرد نہیں بلکہ یہ اصولی مسئلہ ہے کہ اجتماعی زندگی میں فوج کا کیا کردار ہونا چاہیے؟ جنرل پرویز مشرف کی شخصی اور باوردی حکمرانی دراصل فوج کے سیاسی کردار کی علامت ہے۔ آج تک سیاسی عناصر بھی اور عدالتیں بھی ’’نظریۂ ضرورت‘‘ کے تحت فوج کے عارضی کردار کو گوارا کرتے رہے ہیں جس نے اس کے مستقل کردار کی راہ ہموار کردی ہے۔ اب اصل ہدف فوج کا یہی کردار ہے اور نظریۂ ضرورت کو ہمیشہ کے لیے دفن کردینے کی ضرورت ہے تاکہ اس باب کو مکمل طور پر بند کر دیا جائے۔ فوج صرف دفاع وطن کے لیے مخصوص ہو اور سیاسی نظام دستور کے تحت سیاسی قوتوں کے ذریعے ہی سے چلایا جائے۔ یہی جمہوریت ہے اور یہی اسلام کا تقاضا ہے جس کا بالواسطہ اعتراف خود جنرل صاحب اپنی اس تقریر میں کرچکے ہیں کہ خلیفۂ وقت فوجی سالار کو برطرف کرنے کا حق رکھتا ہے۔

امریکی عزائم کا آلـہ کار

جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوںکے نتیجے میں جن کو ان کے بقول فوجی قیادت کی تائید حاصل ہے‘ ملک امریکا کے عالمی عزائم کا آلہ کار بن گیا ہے۔ امریکا اس وقت عالم اسلام ہی نہیں‘ اسلام اور اس کی احیائی تحریک کو اپنا مدمقابل سمجھ کر ہر طرح سے کمزور کرنے اور کچل دینے کے لیے سرگرم ہے۔ اس لیے اس کروسیڈ میں جنرل صاحب کے تعاون نے پاکستان کو ساری دنیا کے مسلمان عوام اور انصاف دوست انسانوں سے کاٹ دیا ہے اور سمجھا جا رہا ہے کہ ہم امریکا کے پیادہ سپاہی (foot soldier ) کا کردار ادا کررہے ہیں۔ پاکستانی عوام بھی اس پالیسی سے نالاں ہیں اور پوری دنیا میں ہماری جو تصویر ابھر رہی ہے وہ شرمناک ہے۔ امریکا کی دوستی تو کبھی بھی قابل اعتبارنہ تھی اور آج بھی نہیں ہے لیکن امریکا نوازی اور امریکا کے آگے سپرڈالنے سے‘ ہم اپنے عوام سے دُور اور اپنے دوستوں کی نگاہ میں مخدوش بن گئے ہیں۔ اور امریکا کا یہ حال ہے کہ ہر تابع داری کے بعد وہ  ھل من مزید کا مطالبہ کرتا ہے اور ہمیں کمزور کرنے اور رکھنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ بھارت اور اسرائیل کو مضبوط کرنا اور پاکستان اور مسلمان ممالک کو کمزور رکھنا اس کی پالیسی کا ہدف ہے۔ نیز مسلم ممالک کے نظام تعلیم کو خالص سیکولر رنگ دینے‘ جہاد کے جذبے کو ختم کرنے‘ مسلمانوں کے مسائل کومسلسل نظرانداز کرنے اور اُمت مسلمہ کو اپنے معاشی اور ثقافتی شکنجے میں کسنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔

حد یہ ہے کہ امریکی کانگرس نے ایک نہیں کئی کئی قوانین منظور کیے ہیں کہ پاکستان کے رویے کو ہر سہ ماہی چیک کیا جائے کہ نام نہاد دہشت گردی کے سلسلے میں وہ کیا کر رہا ہے‘ نیوکلیر عدم پھیلائو کے بارے میں اس کا عمل کیا ہے اور اب تو یہ بھی کہ سیکولر تعلیم کے فروغ اور دینی مدارس کی تعلیم کی اصلاح کے بارے میں کیا کیا جا رہا ہے۔ ہر سہ ماہی جائزے کے بعد جس مالی امداد کا وعدہ کیا گیا ہے وہ بہ اقساط جاری کی جائے گی۔ اکتوبر میں امریکی نائب وزیرخارجہ کرسٹیناروکا  تشریف لائی تھیںتو ان کا اصل ہدف وزارت تعلیم کو اپنے منصوبے کے لیے مسخر کرنا اور شمالی علاقہ جات کا دورہ کر کے آغا خان فائونڈیشن کے کارناموں کا جائزہ لینا تھا۔ جس وقت محترمہ شمالی علاقہ جات کا دورہ کر رہی تھیں اس وقت ہیلری کلنٹن نیویارک میںآغا خان فائونڈیشن کے لیے عطیات جمع کرنے کی مہم کی قیادت کر رہی تھیں۔ اب پاکستانی فوج‘ پاکستانی پولیس‘ پاکستانی انتظامیہ اور پاکستانی سیاسی قیادت‘ سب کی تربیت کا ٹھیکہ امریکا یا امریکا کے فنڈ پر چلنے والی این جی اوز کے سپرد کیا جا رہا ہے۔ یہ سب عوامی احتساب اور پارلیمنٹ کی نگرانی سے بالا بالا شخصی حکومت کا کرشمہ ہے۔

سیکولر اقدار کا فروغ

عوام کے حقیقی معاشی مسائل کو نظرانداز کر کے معیشت کے تمام دروازوں کو عالمی ساہوکاروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی لوٹ مار کے لیے کھول دیا گیاہے۔ مبادلۂ خارجہ کے ذخائر بڑھائے جارہے ہیں لیکن ملک میں غربت بڑھ رہی ہے اور بے روزگاری میں اضافے کی رفتار دگنی ہوگئی ہے۔ دولت کی عدم مساوات میں دن دونی رات چوگنی بڑھوتری ہو رہی ہے‘ اشیاے صرف کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں‘ پانی اور بجلی کی قلت ہے۔ عوام علاج کی سہولت سے محروم ہیں اور بچوں اور نوجوانوں کی بڑی تعداد کے لیے تعلیم کا حصول ناممکن بنا دیا گیا ہے۔

تعلیم کی نج کاری کے نام پر تعلیم کے استحصال کا ایک ایسا نظام ملک پر مسلط کر دیا گیا ہے کہ عام انسان کے لیے اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلانا ناممکن ہوگیا ہے۔ انگریزی میڈیم کا فروغ‘ اے لیول‘ مشنری تعلیمی اداروں کا احیا‘ آغا خان فائونڈیشن کو امتحانات اور بالآخر نصاب تعلیم کا ٹھیکہ وہ چیزیں ہیں جو تعلیم کو قومی دھارے اور ملک کی نظریاتی اور اخلاقی اساس سے کاٹ کر مغرب کی تہذیبی غلامی کا آلہ کار بنانے کے منصوبے کا حصہ ہیں۔ مشنری اداروں کی سرپرستی کے لیے تو یہ بے چینی ہے کہ جن اداروں کو ۱۹۷۰ء کی دہائی میں قومی تحویل میں لیا گیا تھا ان کو ان صلیبی اداروں کو واپس دیا جا رہا ہے‘ لیکن اسی زمانے میں مسلمان اداروں جیسے انجمن حمایت الاسلام کے جن تعلیمی اداروںکو قومیایا گیا تھا انھیں ان اسلامی تنظیموں کو واپس دینے یا ان کے کردار کو بڑھانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ سارا کام یک طرفہ انداز میں سیکولر اور لبرل قوتوں کے عزائم کو تقویت دینے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک بیرونی ایجنڈا ہے جس کے تحت خود اپنی قوم کو دوسروں کی سیاسی‘ معاشی اور تہذیبی غلامی میں دیا جا رہا ہے اور یہ سب شخصی اور باوردی حکمرانی کا نتیجہ ہے۔

عوامی تحریک کی ضرورت

ان حالات میں قوم کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہیں رہا ہے کہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے مؤثر عوامی قوت کے ذریعے اس یلغار کا مقابلہ کیا جائے۔ اس سلسلے میں ہمارے اہداف بہت واضح اور متعین ہونے چاہییں یعنی:

۱-  ملک کی سیاست کو دستور کے تحت سیاسی قوتوں کے ذریعے کام کرنے کا موقع ملنا چاہیے‘ اور جو قیادت اپنی حکمرانی کا جواز (legitimacy )کھو چکی ہے اور جس نے ہر عہدوپیمان کو پامال کیا ہے اس سے نجات ضروری ہے۔

۲-  ملک کی فوج کو صرف دفاعی ذمہ داریوں کے لیے مخصوص کیا جائے اور کسی صورت میں بھی فوج کی سیاسی مداخلت کو گوارا نہ کیا جائے۔ تمام سیاسی جماعتیں عہد کریں کہ بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی صورت میں بھی سیاست میں فوج کو ملوث نہیں کریں گی اور عدالتیں بھی یکسو ہوجائیں کہ ’’نظریۂ ضرورت‘‘ کے تحت کسی بھی شکل میں فوج کی مداخلت کو سندِجواز نہیں دی جائے گی۔

۳-  پاکستان کی آزادی‘ نظریاتی تشخص اور تہذیبی شناخت کی ہر قیمت پر حفاظت ہوگی۔ امریکا سے دوستی صرف اپنی آزادی‘ معاشی خودانحصاری اور دینی‘ تعلیمی اور تہذیبی اقدار کی مکمل پاسداری کے ساتھ اختیار کی جائے گی اور زندگی کے تمام شعبوں میں امریکی مداخلت اور اثراندازی کو لگام دی جائے گی۔ حقیقی معنوں میں آزاد خارجہ پالیسی اختیار کی جائے گی جو پاکستان اور امت مسلمہ کے مفادات کی محافظ ہو۔ بھارت سے دوستی بھی مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل‘ برابری کے اصول اور باوقار سیاسی اور معاشی تعلقات سے مشروط ہوگی۔

۴-  ملک کے معاشی وسائل ملک کے عوام کو عزت کی زندگی گزارنے کے لائق بنانے کے لیے استعمال ہوں گے‘ اور ہرشہری کو اس کی بنیادی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔

۵-  ملک سے کرپشن کا خاتمہ اور ہر سطح پر اور ہر طبقے کے لیے جواب دہی اور احتساب کا آزاد‘ مؤثر اور بے لاگ نظام قائم کیا جائے گا تاکہ ملک کی سیاسی‘ معاشی اور تہذیبی زندگی کو  مفاد پرستوں کے چنگل سے آزاد کیا جاسکے‘ اور عام آدمی عزت کی زندگی گزارنے اور ملک کے وسائل سے اپنا حق وصول کرنے کے لائق ہوسکے۔

۶-  مغرب اور بھارت کی تہذیبی یلغار کے آگے بند باندھے جائیں اور پاکستان حقیقی اسلامی فلاحی ریاست کی اس منزل کی طرف پیش رفت کر سکے جس کا خواب ملت اسلامیہ پاک و ہند نے علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کی رہنمائی میں دیکھا تھا اور جس کے لیے بیش بہا قربانیاں دی تھیں۔ تقسیمِ ہند کی نفی اور مشترک ثقافت اور مفادات کے بھارتی منصوبے سے قوم کو آگاہ کیا جائے‘ اور اپنی آزادی‘ دینی تشخص‘ معاشی مفادات اور تہذیبی شناخت کی حفاظت کے لیے مؤثر عوامی تحریک برپا کی جائے۔

یہ ہیں وہ اہداف جن کو سامنے رکھ کر عوامی بیداری کی تحریک پورے نظم اور صبروتحمل سے چلانے کی ضرورت ہے۔ یہ تحریک اس وقت تک جاری رہنی چاہیے جب تک عوامی قوت کے ذریعے تمام اہداف حاصل نہ ہوجائیں۔ اس عوامی تحریک کو ہر غلط راستے سے بچایا جائے اور کسی طالع آزما کو یہ موقع نہ دیا جائے کہ وہ عوام کے جذبات اور قربانیوں کا فائدہ اٹھا کر اپنے لیے کوئی مسیحائی کا مقام حاصل کرلے۔ وقت آگیا ہے کہ ماضی کے تلخ تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور ان خطرات کے پورے ادراک کے ساتھ جن سے ماضی میں عوامی تحریکات زک اٹھا چکی ہیں‘ شخصی حکمرانی سے نجات اور عوامی حاکمیت اور اسلام کی بالادستی کی اس تحریک کو حقیقت پسندانہ منصوبہ بندی کے ساتھ اس کے اصل انجام تک پہنچایا جائے۔ وجاھدوا فی اللّٰہ حق جھادہ!

(کتابچہ دستیاب ہے۔ قیمت: ۵ روپے۔ سیکڑے پر رعایت: منشورات‘ منصورہ‘ لاہور)


دنیا میں ہمیشہ غلط کار لوگوں کا یہ خاصّہ رہا ہے کہ غلط کاروں کے انجام کی پوری تاریخ ان کے سامنے ہوتی ہے مگر وہ اس سے سبق نہیں لیتے۔ حتیٰ کہ اپنے پیش رَو غلط کاروں کا جوانجام خود ان کے اپنے ہاتھوں ہوچکا ہوتاہے اس سے بھی انھیں عبرت حاصل نہیں ہوتی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ خدا کا قانونِ مکافات صرف دوسروں ہی کے لیے تھا‘ اُن کے لیے اس قانون میں ترمیم کر دی گئی ہے۔ پھر اپنی کامیابیوں کے نشے میں وہ یہ بھی فرض کر لیتے ہیں کہ دنیا میں سب احمق بستے ہیں۔ کوئی نہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے‘ نہ اپنے کانوں سے سُن سکتا ہے اور نہ اپنے دماغ سے واقعات کو سمجھ سکتا ہے۔ بس جو کچھ وہ دکھائیں گے اسی کو دنیا دیکھے گی‘ جو کچھ وہ سنائیں گے اسی کو دنیا سنے گی‘ اور جو کچھ وہ سمجھائیں گے دنیا بُزِاخفش کی طرح اس پر سرہلاتی رہے گی۔ یہی برخود غلطی پہلے بھی بہت سے بزعمِ خویش عاقل اور فی الحقیقت غافل لوگوں کو لے بیٹھی ہے‘ اور اسی کے بُرے نتائج دیکھنے کے لیے اب بھی کچھ برخود غلط حضرات لپکے چلے جارہے ہیں۔   سید مودودیؒ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 چند اہم سیاسی‘ دفاعی اور بین الاقوامی مضمرات

پاکستان کی تاریخ بہت سے عجوبوں کے تذکرے سے مالا مال ہے لیکن اس میں تازہ ترین اضافہ دو مہینوں میں تین وزراے اعظم کا دورِ حکمرانی ہے جسے جنرل پرویز مشرف کا ’’ہیٹ ٹرک‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔

۲۵ جون ۲۰۰۴ء کو ڈیڑھ سال سے وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالے رکھنے والے جناب ظفراللہ خان جمالی نے ان افواہوں کی تردید کی جو ان کی وزارت عظمیٰ سے رخصتی کے بارے میں چند ہفتے سے گردش کر رہی تھیں‘ اور پھر اچانک ایک دن بعد ہی اپنے مستعفی ہونے کا اعلان کر کے ’‘میوزیکل چیرز‘‘ کے ایک کھیل کا آغاز فرمایا جس میں چودھری شجاعت حسین کو ایک قسم کے سیاسی حلالے کے طور پر وزیراعظم مقرر کیے جانے کا اعلان کیا گیا۔ چودھری صاحب ۵۷ دن وزیراعظم رہے اور اس اثنا میں جناب شوکت عزیز کا قومی اسمبلی میں انتخاب‘ قائد ایوان کی حیثیت سے تقرر اور پھر بالآخر ۲۸ اگست ۲۰۰۴ء کو وزیراعظم کی حیثیت سے حلف برداری واقع ہوئی۔ اس طرح ۲۶ جون کو شروع ہونے والے ڈرامے کا ڈراپ سین ہوا اور دنیا کی سیاسی تاریخ میں پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہوگیا کہ اس نے دو مہینوں میں تین وزراے اعظم کے اقتدار کا نظارہ  دیکھ لیا۔ اس سب کے نتیجے میں پانچ درجن سے زیادہ وزرا پر مشتمل کابینہ ملک کا مقدر بن گئی۔ اس میں ابھی مسلسل اضافے متوقع ہے۔

ستم ظریفی تو یہ ہے کہ جنرل صاحب کے الفاظ میں اس کھیل کو پاکستان کی سیاسی تاریخ کے most smooth and democratic transition  (سب سے زیادہ ہموار اور جمہوری انتقالِ اقتدار) کا نام دیا گیا۔ اور کولن پاول صاحب نے نہلے پہ دہلا مارتے ہوئے یہاں تک  فرما دیا کہ اب پاکستان کو ایک بااختیار ور وزیراعظم (empowered prime minister ) میسرآگیا ہے!اور اسی ’’دھول دھپے‘‘ میں جنرل پرویز مشرف صاحب نے بھی‘ جو کھلے عام ۳۱دسمبر۲۰۰۴ء سے پہلے آرمی چیف کی وردی اتارنے کا وعدہ قوم اور دنیا سے کرچکے تھے‘ ایک قلابازی کھائی اور اس بارے میں جو ابہام وہ اور ان کے گماشتے چند مہینوں سے پیدا کر رہے تھے‘ اسے تقریباً کھلے طور پر وردی نہ اتارنے کے ارادے کے اظہار کی شکل دے دی۔

یہ تمام واقعات ایسے ہیں کہ ان پرکھل کر گفتگو کرنے کی ضرورت ہے اور جو نیا سیاسی نقشہ مرتب ہو رہا ہے اس کے ادراک اور مضمرات کا احاطہ ایک اہم قومی ضرورت کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ اس وقت کچھ اوراہم موضوعات بھی ہمارے سامنے ہیں‘ جیسے: وزیرستان میں اپنے ہی لوگوں کے خلاف فوج کُشی‘ بلوچستان کے مخدوش حالات‘ عراق کی ہولناک صورت حال‘ بسلان کا سانحہ‘ شیشان میں بے پایاں ظلم اور روس کے نئے عزائم‘ فلسطین اور کشمیر کے تازہ واقعات اور امریکا کا صدارتی معرکہ‘ جن میں سے ہر ایک مفصل تجزیے و تبصرے کا متقاضی ہے لیکن ان سب کو نظرانداز کرتے ہوئے ہم ملک میں تازہ ترین سیاسی مہم کاری (political engineering) اور اس کے مضمرات پر ملک و قوم کو متوجہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں اور یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ    ؎

اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی

دوڑو‘ زمانہ چال قیامت کی چل گیا


سیاسی بحث میں شخصیات کا تذکرہ فطری ہے اور ناگزیربھی۔ لیکن ہماری دل چسپی کا اصل مرکز و محور ملک و قوم کے مقاصد اور مفادات ہیں اور حقیقی ہدف پالیسی اور اداروں کی اصلاح اور استحکام ہے۔ جب کوئی شخص پبلک لائف میں قدم رکھتا ہے تو گویا وہ خود کو اجتماعی احتساب کے لیے بھی پیش کرتا ہے اور اسے اس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ البتہ ہماری کوشش ہمیشہ یہ رہی ہے کہ قومی امور کو زیربحث لاتے ہوئے ذاتی معاملات اور معاشرتی تعلقات سے بالا ہوکر گفتگو کریں۔ جن محترم شخصیات کا ذکر اس بحث میں آیا ہے یا آئے گا‘ ان کے بارے میں ہماری بحث کا محور ان کی ذات نہیں بلکہ ان کے افکار‘ کردار اور اجتماعی رول ہے۔ ہمارا اصل مقصد پاکستان کا نظریاتی‘ سیاسی‘ ثقافتی اور معاشی استحکام ہے اور یہی وہ قدر مشترک ہے جو اس ملک کے تمام خیرخواہوں کو تنقیدواحتساب اور تعمیروترقی کے لیے سرگرم کرتی ہے۔

وزیراعظم جمالی کا استعفا

جس عمل کو ہم نے سیاسی مہم کاری کہا ہے اس کا سب سے اولین اظہار سابق وزیراعظم جناب ظفراللہ خان جمالی کی فارغ خطی اور اس کے اسباب اور طریق کار ہے۔ جمالی صاحب کو ایوان نے اپنا باقاعدہ قائد منتخب کیا تھا اور وہ کابینی حکومت(cabinet government )کے سربراہ تھے۔ اگر ان کی پالیسیوں پر عدمِ اعتماد تھا تو پارٹی اور پارلیمنٹ کو ان پر بحث کرنی چاہیے تھی‘ ان کا احتساب کیا جانا چاہیے تھا اور کھلے انداز میں معروف پارلیمانی ضابطوں کے مطابق ان کو ہٹایا جا سکتا تھا‘ مگر ایسا نہیں ہوا۔ صدرصاحب اپنے پارلیمانی چیمبر میں فوجی وردی میں  پہلی بار تشریف لائے اور سرکاری پارٹی کے ارکان سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا جس کے نتیجے میں ارکان اسمبلی نے ان کے سامنے شکایات کا دفتر کھول دیا ہے۔ جنرل صاحب نے کابینہ اور اسمبلی کی کارکردگی کے بارے میں اپنے تحفظات اور تنقیدات کا کھلا اظہار کیا۔ چند وزیروں کے بدعنوان ہونے کا ذکر بھی فرمایا۔ محلاتی سازشوں کے اس پس منظر میں خود جمالی صاحب کئی دن تک وزارتِ عظمیٰ سے فارغ کیے جانے کی افواہوں کی تردید کرتے رہے مگر دوسرے ہی دن اچانک اپنے استعفے کا اعلان کر دیا بلکہ متبادل وزیراعظم کی نامزدگی بھی کردی۔ اس پورے عرصے میں صدر پرویز مشرف اور چودھری شجاعت حسین بھی ان پر اپنے اعتماد کا اظہار کرتے رہے۔ البتہ سیاسی حلقوں میں یہ چہ مے گوئیاں ہوتی رہیں کہ وردی کے مسئلے پر صدرصاحب کی فرمایش کے مطابق دوٹوک بات نہ کہنے‘ عراق فوج بھیجنے کے معاملے میں عوامی جذبات کے احترام کا عندیہ دینے‘ حدود قوانین اور ناموس رسالتؐ کے قانون میں تبدیلی کے بارے میں تحفظات کے اظہار اور خود قومی سلامتی کونسل کے سلسلے میں کچھ دبے دبے احساسات کی بنا پر وہ صدر صاحب کا اعتماد کھو چکے ہیں اور ’باس‘ کی ناراضی مول لے چکے ہیں جس کی قیمت انھیں ادا کرنی پڑی۔

جمالی صاحب کو جس طرح اور جس عجلت میں فارغ کیا گیا‘ اس نے تمام پارلیمانی طور طریقوں‘ ضابطوں اور روایات کو پامال کر کے رکھ دیا ہے۔ ان کو ۱۸ ماہ وزیراعظم رکھنے کے بعد دو ماہ کے لیے بھی گوارا کرنا قبول نہیں کیا گیا اور ایک عبوری وزیراعظم لاکر ایک ایسے اپنے قابلِ اعتماد شخص کو وزیراعظم نامزد کیا جو خواہ کتنا ہی اچھا ٹیکنوکریٹ کیوں نہ ہو لیکن جس کی کوئی سیاسی بنیاد(base) نہ تھی‘ کوئی حلقہ انتخاب نہ تھا‘ پارٹی کے نظام میں اس کا کوئی مقام نہیں تھا‘ کوئی سیاسی تجربہ نہیں تھا‘ اسے نامزد وزیراعظم کا مقام دے کر اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کے لیے دوحلقوں سے انتخاب لڑایا اور ایک کھلے کھلے انتخابی تماشے کے ذریعے منتخب بھی کرایا گیا۔ اٹک میں جو ہوا سو ہوا‘ مگر مٹھی‘ (تھرپارکر) میں تو ایسا انتخاب ہوا کہ اس علاقے کے جو روایتی لیڈر تھے ان سے بھی دوگنے اور تین گنے ووٹ کسی طلسماتی عمل کے ذریعے ہونے والے وزیراعظم کو حاصل ہوگئے۔ اس سلسلے میں پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن کے نمایندوں کی رپورٹ چشم کشا ہے جو ملک کے انتخابی عمل کے افلاس اور الیکشن کمیشن کی جانب داری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انتخابی عمل کو اس طرح پامال کیا گیا کہ اس پر لوگوں کا اعتماد جو پہلے ہی متزلزل تھا‘ پارہ پارہ ہوگیا ہے اور ملک میں جمہوریت کی بحالی کا جو برا بھلا عمل شروع ہوا تھا‘ اسے بڑا دھچکا لگا ہے۔

جمالی صاحب کی فارغ خطی کے اسباب آخر ایک نہ ایک دن تو کھل کر سامنے آئیں گے ہی‘ تاہم ان کے بیانات میں بین السطور کچھ چیزیں نمودار ہونے لگی ہیں۔ لیکن جس بھونڈے اور غیرپالیمانی انداز میں یہ سارا کام ہوا‘ اس نے جمہوریت کے فروغ اور ارتقا پر بڑے منفی اثرات ڈالے ہیں۔ یہ اقدام ملک کو بہت پیچھے لے گیا ہے۔

چودھری شجاعت حسین نے عبوری وزیراعظم کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں بحیثیت مجموعی وقار کے ساتھ انجام دیں لیکن ان جیسے جہاںدیدہ اور بااثر سیاست دان کا اس پورے عمل کو آگے بڑھانے میں ایسا نمایاں کردار اور ایک انتخابی ڈھونگ کے ذریعے نئی قیادت کو آگے لانے میں ان کا حصہ‘ کسی صورت میں بھی ان کی نیک نامی کا باعث نہیں ہوا بلکہ ان کی شخصیت کو داغ دار کرنے کا ذریعہ بنا۔ ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان کے اقتدار کے دو مہینوں میں اس سلسلے میں جو کچھ ہوا وہ جمہوریت کے چہرے کو بگاڑنے‘ دستور کے تقاضوں کو پامال اور سول نظام اور پارلیمانی اداروں کے استحکام کو مجروح کرنے کا باعث ہوا ہے‘ اور اس میں ان کے ذاتی رکھ رکھائو کے باوجود نتائج کے اعتبار سے ہر بے لاگ مبصر اور تجزیہ نگار کی نگاہ میں ان کا رول منفی اور تکلیف دہ رہا ہے۔

پارلیمانی نظام پر ضرب

دوسرا بنیادی مسئلہ پارلیمانی نظام کے دروبست کی کمزوری بلکہ اس کے نظامِ کار کا درہم برہم ہوجانا ہے۔ یہ محض نظری یا ظاہری ہیئت کا مسئلہ نہیں۔ پارلیمانی نظام میں اقتدار کا سرچشمہ پارلیمنٹ ہوتی ہے جو عوام کی منتخب کردہ اور ان کے سامنے جواب دہ ہے۔ پارلیمانی نظام کا مرکزومحور وزیراعظم بحیثیت ایوان کے قائد اور ان کی کابینہ ہے جو ایوان کے سامنے انفرادی اور اجتماعی طور پر جواب دہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پارلیمانی جمہوریت میں پارٹی نظام کے مؤثر ہونے کے باوجود پارٹی کے صدر کے مقابلے میں پارلیمانی لیڈر کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے۔ یہ صرف انگلستان کے ویسٹ منسٹر (westminister) ماڈل ہی کا خاصہ نہیں۔ دنیا میں جہاں بھی پارلیمانی نظام ہے وہاں وزیراعظم چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے اور کابینہ اس کی قیادت میں کام کرتی ہے۔ اگر وزیراعظم کی مرکزی حیثیت نہ ہو اور قوت کا مرکز پارلیمنٹ اور ان کا لیڈر نہیں کوئی اور ہو تو ایسے میں پارلیمانی نظام کام نہیں کرسکتا۔ بھارت میں یہ مسئلہ آزادی کے فوراً بعد رونما ہوا اور اچاریہ کرپلانی جو کانگرس کے صدر تھے اور پنڈت جواہر لعل نہرو جو پارلیمنٹ کے لیڈر اور وزراعظم تھے کے درمیان رونما ہوا‘ اور پارلیمانی نظام کے اصول و روایات کے مطابق وزیراعظم کو مرکزی حیثیت دی گئی جو وہاں پارلیمانی جمہوریت کے استحکام کا ذریعہ بنی۔ بھارت کے سیاسی تجزیہ نگار اور تامل ناڈو کے سابق گورنر ڈاکٹر جی سی الیگزنڈر لکھتے ہیں:

وزیراعظم کے اختیارات کو کم کرنے سے روکنے کا اہم ترین تقاضا یہ ہے کہ اس کی پارٹی کے تمام ممبر اور حامی اور اتحادی پارٹیاں پارلیمانی طرزِ جمہوریت کے بنیادی اصول یعنی ’’وزیراعظم کی نظام میں بالادستی‘‘ کو ہمہ وقت اور کسی تحفظ کے بغیر قبول کریں۔ (’’پارٹی اور پی ایم ‘‘ دی ایشین افیر‘ لندن‘ ۱۶ ستمبر۲۰۰۴ئ‘ ص ۱۴)

پاکستان میں گذشتہ چند مہینوں میں جو کچھ ہوا ہے اس کا سب سے بڑا نقصان ملک کے پارلیمانی نظام کو ہوا ہے۔ وزیراعظم کی مرکزی حیثیت ختم ہوگئی ہے۔ قوت کا مرکز پارلیمنٹ‘ پارلیمانی پارٹی اور وزیراعظم اور کابینہ سے ہٹ کر صدر اور چیف آف اسٹاف کا عہدہ اور شخصیت بن گیا ہے۔ ایک غیر سیاسی شخص کو‘ خواہ وہ اپنے میدان میں کتنا ہی لائق کیوں نہ ہو‘ بطور وزیراعظم بنیادی طور پر صدر کی خواہش اور اشارے پر لانا اور اس اہم منصب پر فائز کر دینا ایک طرح سے پارلیمنٹ‘ پارلیمانی نظام اور خود وزارت عظمیٰ کے عہدے کی تنزلی (demotion) ہے۔ اب پالیسی سازی اور قوت کا سرچشمہ صدر‘ چیف آف اسٹاف ہے جو پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ نہیں اور نہ وہ پارلیمنٹ کی بحثوں میں شریک ہوکر پالیسی سازی اور قانون سازی میں کوئی مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ وزیراعظم محض ایک ملازم نہیں‘ اصل چیف ایگزیکٹوہے۔ اب صاف نظر آرہا ہے کہ جنرل مشرف ایک بار پھر کھلے کھلے چیف ایگزیکٹو بن گئے ہیں‘ تمام پالیسی فیصلے وہی کر رہے ہیں اور وہی ان کا اعلان بھی کر رہے ہیں‘ جب کہ وزیراعظم برملا اعلان کر رہے ہیں کہ وہ جنرل صاحب کی پالیسی کو لے کر چل رہے ہیں۔ اس طرح پارلیمانی نظام کے دستوری ڈھانچے پر صدارتی نظام مسلط (superimpose)کر دیا گیا ہے جس نے دستور کے ڈھانچے کا تیاپانچا کر دیا ہے اور دستور اور قانون کی حکمرانی عملاً ختم ہوگئی ہے۔ اس میں جو بھی‘ جس درجے میں بھی‘ جن وجوہ کی بنا پر بھی شریک ہوا ہے‘ وہ اس بگاڑ کا ذمہ دارہے۔ پوری قوم اس کے تلخ نتائج کو بھگت رہی ہے اور مزید بھگتے گی۔

داغ داغ جمہوریت

تیسرا پہلو صدر‘ وزیراعظم‘ کابینہ اور پارلیمنٹ کے باہمی تعلق اور رول کا ہے۔ جناب شوکت عزیز صاحب جس طرح وزیراعظم بنے ہیں وہ معروف سیاسی عمل کے حلیہ بگاڑنے کے مترادف ہے۔ کیا پوری قومی اسمبلی میں ایک شخص بھی اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لائق نہیں تھا کہ باہر سے ایک فرد کو لانا پڑا۔ پھر انتخاب میں جو کچھ ہوا وہ جمہوریت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ اپوزیشن کے نمایندے کو پارلیمنٹ میں آنے اور انتخابی مہم چلانے کا موقع نہیں دیا گیا۔ ایک طرف ایک شخص کو قائدایوان کے انتخاب کے لیے اہل قرار دیا جاتا ہے اور دوسری طرف اسے اجلاس میں شرکت کے لیے نہیں بلایا جاتا۔ شوکت عزیز صاحب نے کہا ہے کہ وہ چاہتے تھے کہ جاوید ہاشمی صاحب کو شرکت کا موقع دیا جائے۔ پھر کس چیز نے اسپیکرکو روک دیا؟ محض ایک تقریر کا خوف؟ کیا یہی شفاف جمہوریت ہے؟

انتخاب کے بعد شوکت عزیز صاحب نے یہ عندیہ دیا کہ ان کی کابینہ صرف میرٹ کی بنیاد پر بنائی جائے گی اور اہل ترین افراد اس میں ہوں گے۔ لیکن جمالی صاحب کی کابینہ کے سارے ارکان ان کی کابینہ کی زینت بھی بن گئے اور صدر صاحب کا کابینہ کی کارکردگی پر اظہار خیال اور چند افراد کی کرپشن کی بات‘ سب پادرہوا ہوگئی۔ پھر سیاسی جوڑ توڑ اور مختلف گروپوں کے ساتھ ملانے کا عمل شروع ہوا اور ناراض عناصر کو راضی کرنے کے کرشمے سب کے سامنے آگئے۔ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ بنی ہے اور اگر کہیں محکموں کی تبدیلی ہوئی ہے تو وہ بھی براے نام۔ پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کے ایک رکن پر الزامات اور ان کے جوابی الزامات اخبارات کی زینت بن چکے ہیں ان کا صرف محکمہ تبدیل کر دیا گیا اور ایک دوسرے صاحب کو وہ محکمہ دے دیا گیا‘ اور لطف کی بات یہ ہے کہ دونوں ہی بزرگ نیب کے مطلوبہ افراد میں سے ہیں اور وزارت بھی ان کو داخلہ کی دی گئی ہے۔ یہ بھی سوالیہ نشان ہے کہ جمالی صاحب جو اب وزیراعظم نہیں رہے اور دو وزرا کا جن کے محکموں کو تبدیل کیا گیا ہے تعلق بلوچستان سے ہے۔ کابینہ کی تشکیل اور بندربانٹ نے میرٹ کے وعدے کی دھجیاں بکھیردی ہیں۔

مبصرین کے اس خدشے کو یہاں نوٹ کیا جانا بے محل نہیں کہ کابینہ کے بنانے میں وزیراعظم اور ان کے اعلان کردہ اصولوں کا رول نہ ہونے کے برابر ہے‘ اور کابینہ ان کو ایک طرح سے ورثے میں ملی ہے اور اضافے کسی اور کے اشارے پر ہوئے ہیں‘ حتیٰ کہ لندن والوں سے رابطے کے لیے صدر کے نمایندہ خاص نے ہی جاکر معاملات طے کیے ہیں۔ اس سب کا حاصل یہ ہے کہ کابینہ جس طرح بنی ہے وہ خود پارلیمانی نظام کے اصول و ضوابط سے مطابقت نہیں رکھتا اور خطرہ ہے کہ یہ پارلیمانی نظام کے صحت مند ارتقا پر ایک ضرب کاری ثابت ہوگی۔

وزیراعظم کی گرفت کابینہ پر ڈھیلی ہوگی۔ وفاداری کامرکز کہیں اور ہوگا اور اس طرح اتنی بڑی کابینہ ایک مربوط اور ہم آہنگ ٹیم کی طرح کام نہیں کر سکے گی۔ وزیراعظم پر ایک طرف اوپر والوں کا دبائو ہوگا اور دوسری طرف سے پارٹی کے بااثر گروہوں‘ افراد اور ان کے مطالبات کا۔ ہدایت اور رہنمائی کا منبع کہیں اور ہوگا اور پارلیمنٹ ملک کو اچھی حکمرانی فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گی۔ خارجہ پالیسی ہو یا داخلہ پالیسی‘ سب اس انتشار اور رسہ کشی کا شکار ہوں گے۔ خدا کرے یہ خدشات غلط ثابت ہوں لیکن جس طرح معاملات رونما ہو رہے ہیں ان سے صاف نظرآ رہا ہے کہ حکمرانی کا نظام یک مرکزیت سے محروم اور دوہری عمل داری (diarchy) بلکہ ایک نئی قسم کی سہ نکاتی تشکیل (troika) کی طرف جا رہا ہے جسے کسی پہلو سے بھی اچھا شگون قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ٹیکنوکریٹ وزیراعظم کے لیے بھی بیک وقت کئی خدائوں کی بندگی کوئی اچھا نتیجہ نہیں نکال سکتی۔

نیا سیاسی کلچر

چوتھا پہلو نئے سیاسی کلچر کا ہے جو بالکل نیا تو نہیں لیکن وہ ان خرابیوں کو مستحکم اور دائمی کرتا جا رہا ہے جو ماضی میں بگاڑ اور تباہی کا سبب رہی ہیں اور جن کی موجودگی میں صحت مند جمہوری نظام اور انصاف‘ حق اور میرٹ پر مبنی اور کرپشن سے پاک اجتماعی زندگی کا وجود ناممکن ہے۔ جنرل پرویز مشرف صاحب نے تو تبدیلی کے اس عمل پر نہ صرف اطمینان کا اظہار کیا ہے بلکہ اسے مثبت قرار دیا ہے۔ ان کا ارشاد ہے: ’’میں ملک میں ایک اچھی تبدیلی دیکھ رہا ہوں اور ایک نئے سیاسی کلچر کا آغاز ہو رہا ہے‘‘۔

یہ نیا سیاسی کلچر کیا ہے؟ وہی جاگیردار طبقے کی بالادستی‘ وفاداریوں کی چشم زدن میں تبدیلی کا وہی کھیل جو پاکستان کی تاریخ میں مسلسل کھیلا جاتا رہا ہے: وزیراعظم ناظم الدین (جو مسلم لیگ کے صدر بھی تھے) کے ارکان پارلیمنٹ کا ان کے اپنے کیمپ سے نکل کر غلام محمد اور محمدعلی بوگرہ سے جا ملنا‘ ری پبلکن پارٹی کے پرچم تلے مسلم لیگیوں کے غول کے غول کا ڈاکٹر خان اورگورمانی کی طرف منتقل ہو جانا‘ کونسل اور کنونشن لیگ کے ڈرامے--- جو افراد آج شوکت عزیز صاحب کے دست راست ہیں اور جنرل پرویز مشرف کی وردی کے گن گارہے ہیں‘ کل وہی جنرل ایوب کی قصیدہ خوانی کر رہے تھے‘ جنرل یحییٰ کے ہاتھ مضبوط کر رہے تھے‘ جنرل ضیاء الحق کی کرسی مضبوط کر رہے تھے‘ نواز شریف صاحب پر جان چھڑک رہے تھے‘ بے نظیر کی وفاداریوں کے حلف اٹھا رہے تھے‘ ظفراللہ جمالی کے آگے پیچھے پھر رہے تھے۔ ان کے لیے سیاسی قبلہ بدلنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ خوشامد اور چاپلوسی ان کی فطرت اور چڑھتے سورج کی پوجا ان کا مستقل دین ہے۔ وزارتیں اور مفادات ان کا اصل مطلوب و مقصود ہیں۔ ان کی ’’جمہوریت پسندی‘‘ ان کو فوجی قیادت کو اقتدار کی دعوت دینے اور دستور اور قانون کو بالاے طاق رکھنے سے باز نہیں رکھتی‘ اور یہ صدارت اور فوج کی سربراہی کو رشتہ ازدواج میں منسلک کرنے میں نہ صرف یہ کہ کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے بلکہ اس میں ان کو اپنا اور جمہوریت کا مفاد نظرآنے لگتا ہے۔ ہوا کے رخ کے ساتھ بدلنا ان کی نگاہ میں ترقی کی علامت ہے۔ ملک اور اس کے اداروں پر چاہے کچھ بھی گزرے!

جنرل پرویز مشرف اصول پرستی اور سیاست میں گندگی سے نجات کے دعوے کے ساتھ برسرِاقتدار آئے تھے مگر وہ ایک ایک کر کے ہر وہ کام کر رہے ہیں جو بدنامِ زمانہ سیاست دان اور اقتدار کے بھوکے بیوروکریٹس اور جرنیل کرتے رہے ہیں۔ حلف کی خلاف ورزی‘وعدوں کونظرانداز کرنا‘ اپنی ذات کو ریاست کے مترادف بنالینا‘ پارٹیاں چھوڑنے والوں کو سینے سے لگانا‘ وزارتوں کے لیے بلیک میل ہونا اور ہر طالع آزما کو ایک ٹکڑا دے کر اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے میں کوئی باک محسوس نہ کرنا--- کیا یہی وہ مثبت تبدیلی ہے جس کا ڈھول پیٹا جا رہا ہے اور اسی کا نام نیا سیاسی کلچر ہے؟ پاکستان بلاشبہہ بہت سے بیرونی خطرات سے دوچار ہے‘ لیکن اس کی سلامتی اور ترقی کو سب سے بڑا خطرہ گھر کے ان ہی لوگوں سے ہے۔ مفاد اور قوت کی پرستش کا یہی وہ کلچر ہے جس نے جمہوریت کو پراگندا کردیا ہے‘ معاشرہ فساد کا شکار ہے‘ عوام مصائب میں مبتلا ہیں اوراصحاب اقتدار دادعیش دے رہے ہیں۔ ایسے دوستوں کی موجودگی میں دشمنوں سے کیا خطرہ۔ حالیہ تبدیلی نے اس کلچر کے چہرے سے ہر پردہ اٹھا دیا ہے اور اس ڈرامے کے تمام کردار بے نقاب ہوگئے ہیں۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ جب ایک قوم اس راستے پر چل پڑتی ہے تو پھر اسے تباہی سے اگر کوئی چیز بچاسکتی ہے تو وہ ایسا انقلاب ہے جو پورے نظام کو زیروزبر کر دیتا ہے--- کاش اس سے پہلے قوم کی آنکھیں کھل جائیں اور گاڑی کو پٹڑی پر لے آیا جائے۔

فوج کا سیاسی کردار

موجودہ سیاسی منظر اور پس منظر کا سب سے اہم اور سب سے تشویش ناک پہلو ملک کے سیاسی نظام میں فوج کے سیاسی کردار کا ہے اور ان دو مہینوں کی اکھاڑ پچھاڑ کا ایک مرکزی پہلو اسی مسئلے سے متعلق ہے۔ اندر اندر جو کھچڑی پکتی رہی ہے اس کا اصل ہدف فوج کی قیادت کو ایک دستوری اور سیاسی کردار عطا کرنا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کی تاریخ کوئی اچھی تصویرپیش نہیں کرتی۔ اصولی طور پر فوج کا کام ملک کا دفاع ہے اور فوج کو مکمل طور پر سیاسی قیادت کے تابع ہونا چاہیے۔ یہ جمہوریت کی اصل روح ہے اور کیسی ہی ملمع سازی کی جائے‘ فوج کو دفاع سے ہٹا کر کوئی سیاسی کردار دینا اصولی اور عملی ہر دو پہلوئوں سے ناقابلِ تصور اور عملی اعتبار سے ملک کی سیاست اور دفاع دونوں کے لیے تباہ کن ہے۔

قائداعظمؒ نے ۱۴ جون ۱۹۴۸ء کو کوئٹہ اسٹاف کالج کے فوجی افسروں سے خطاب کرتے ہوئے صاف الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ فوج سول نظام کے تابع اور اس کے احکام اور ہدایات کی پابند ہے اور یہی خود ان کے اس حلف کا تقاضا ہے جو وہ فوج میں شمولیت کے وقت اٹھاتے ہیں۔ دستورِ پاکستان میں یہی بات اعلیٰ ترین قانون کی حیثیت سے رقم کر دی گئی ہے۔ دستور کی دفعات۲۴۴ اور ۲۴۵ بالکل واضح ہیں۔ دفعہ ۲۴۵ کہتی ہے:

مسلح افواج‘ وفاقی حکومت کی ہدایات کے تحت‘ بیرونی جارحیت یا جنگ کے خطرے کے خلاف پاکستان کا دفاع کریں گی اور قانون کے تابع شہری حکام کی امداد میں‘ جب ایسا کرنے کے لیے طلب کی جائیں‘ کام کریں گی۔

اور دفعہ ۲۴۴ کے تحت حلف ان کے کردار اور ان حدود کی وضاحت کر دیتا ہے جن میں رہ کر انھیں اپنے فرائض انجام دینے ہیں:

میں ……… صدق دل سے حلف اٹھاتا ہوں کہ میں خلوصِ نیت سے پاکستان کا حامی اوروفادار رہوں گا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کی حمایت کروں گا جو عوام کی خواہشات کا مظہر ہے‘ اور یہ کہ میں اپنے آپ کو کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں مشغول نہیں کروں گا‘ اور یہ کہ میں مقتضیات قانون کے مطابق اور اس کے تحت پاکستان کی بّری فوج (یا بحری یا فضائی فوج) میں پاکستان کی خدمت ایمان داری اور وفاداری کے ساتھ انجام دوں گا۔

اللہ تعالیٰ میری مدد اور رہنمائی فرمائے ‘ آمین!

ہماری عدالتوں نے اس حقیقت کو نظرانداز کر کے ’’نظریۂ ضرورت‘‘ کے تحت فوج کی بار بار سیاسی مداخلت کو جو جواز فراہم کیا ہے اس نے سیاسی نظام کا حلیہ بگاڑ دیا ہے‘ اور ہر طالع آزما کو سیاسی نظام کی بساط لپیٹنے اور ’’قومی مفاد‘‘ کے نام پر فوجی اقتدار قائم کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ سیاسی قیادتوں اور خود عوام نے بھی اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کیا اور آج عالم یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف صاحب ایک نیا فلسفہ وضع فرما رہے ہیں کہ گویا فوج کو سیاست میں مداخلت کا ایک دائمی اختیار حاصل ہے۔ قائداعظم کے اس ارشاد کی ضد میں اور بالکل ان کے مدمقابل آتے ہوئے کوئٹہ ہی میں فوج کے گیریزن کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:

ہمیں اپنے ملک کا محض دفاع ہی نہیں کرنا ہے بلکہ ایک نئے وژن کے ساتھ اسے ترقی بھی دینا ہے‘ اور کوئی دوسرا ہمارے لیے اس کو نہیں کرے گا۔

جنرل صاحب کے قومی سلامتی کونسل کے تصور اور دستور کی سترھویں ترمیم کے موقع پر ان کے‘ سرکاری جماعت کی پوری قیادت کے‘ بلکہ ساری پارلیمنٹ کے عہدوپیمان کے باوجود ۳۱دسمبر ۲۰۰۴ء کے بعد بھی چیف آف اسٹاف کے عہدے سے چمٹے رہنے کے عزائم کے اظہار کی اصل حقیقت کو فوج کے اس تبدیل شدہ سیاسی کردار کے پس منظر میں ٹھیک ٹھیک سمجھا جا سکتا ہے۔ مسئلہ بالکل کھل کر سامنے آگیا ہے اور اب اسے ہمیشہ کے لیے طے ہوجانا چاہیے۔ یا فوج ایک دفاعی قوت ہوگی اور اس شکل میں اسے سیاسی قیادت کے تابع ہونا ہوگا اور سیاسی نظام کے بنانے اور چلانے میں اس کا کوئی کردار نہیں ہوسکتا۔ اور اگر فوجی قیادت کا سیاسی نظام کو بنانے اور چلانے میں کوئی کردار ہوگا تو پھر فوج ایک سیاسی پارٹی اور قوت بن جاتی ہے اور وہ پورے ملک اور پوری قوم کی امیدوں کا مرکز اور تائید کا محور نہیں رہ سکتی۔ پھر اس پر بھی اسی طرح تنقید ہوگی جس طرح تمام سیاسی قوتوں پر ہوتی ہے۔ پھر وہ بھی ایک پارٹی اور ایک گروہ کی نمایندہ بن جاتی ہے‘ پھر وہ بھی حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف میں سے ایک کی حلیف بنتی ہے‘ پھر وہ بھی سیاسی طورپر متنازع بن جاتی ہے۔ پھر وہ بھی مفادات کی جنگ میں ایک مخصوص حیثیت اختیار کرلیتی ہے۔ ایسی فوج کبھی بھی پوری قوم کی تائید کی دعوے دار نہیں ہوسکتی۔ ایسی فوج کی دفاعی صلاحیت بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اس میں بھی اسی طرح پارٹی بازی کا دروازہ کھل جاتا ہے اور جنبہ داری کا مرض لگ جاتا ہے۔ ایسی فوج کی پیشہ ورانہ حیثیت بری طرح متاثر ہوتی ہے اور فوج کو جس ذہنی افتاد ‘جس ڈسپلن اور جس غیر جانب داری کی ضرورت ہوتی ہے وہ اس سے محروم ہوجاتی ہے۔

سب سے بڑھ کر دستوری حکومت اور خصوصیت سے جمہوری نظام میں فوج کے ایسے کردار کا تصور ممکن نہیں۔ آج ترکی کے یورپی یونین میں داخلے کے سلسلے میں جو سب سے اہم بحث ہو رہی ہے ان کا تعلق فوج کے سیاسی کردار ہی سے ہے اور اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ فوج کو غیر سیاسی کیے بغیر ترکی کے جمہوری کردار کو دنیا تسلیم نہیں کرسکتی۔ ہمارا بھی یہی مسئلہ ہے کہ فوج کی قیادت ایک سیاسی کردار بن گئی ہے اور جب تک اس باب کو واضح طور پر بند نہیں کیا جاتا‘ ملک میں سیاسی استحکام محال ہے اور ایک جمہوری ملک کی حیثیت سے نہ ملک کے عوام اس پر مطمئن ہوں گے اور نہ دنیا اسے قبول کرے گی۔

اگر ہم اپنی ۵۷ سالہ تاریخ کا جائزہ لیں تو اس میں ۲۳وزیراعظم آئے ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ ان کا اوسط اقتدار اڑھائی سال رہا ہے بلکہ صحیح تر الفاظ میں اگر فوجی اقتدار کے زمانے کو نکال دیا جائے تو یہ اوسط کم ہوکر سوا سال ہی رہ جاتا ہے۔اس کے برعکس فوج کے چیف آف اسٹاف کی صدارت کا زمانہ ۳۰ سال ہے جس میں ۴ فوجی سربراہ صدر رہے ہیں۔ گویا ان کا اوسط اقتدار ساڑھے سات سال تھا۔ ان ۵۷ برسوں میں فوج کے ۱۱چیف آف اسٹاف رہے ہیں اور ان کی چیف آف اسٹاف ہونے کی اوسط مدت قواعد کے مطابق تین سال کے بجاے ۵سال سے زیادہ آتی ہے۔ فوجی قیادت ملک کو نہ سیاسی استحکام دے سکی‘ نہ معاشی ترقی میں کوئی غیرمعمولی کارنامہ انجام دیا اور دفاعی اعتبار سے بھی ۱۹۶۵ء کے معرکے کے بعد فوج اعلیٰ دفاعی صلاحیت کا ثبوت نہیں دے سکی۔ فوج کو ایک مؤثر دفاعی قوت بنانے کا ایک ہی راستہ ہے اور یہ کہ وہ خالص پروفیشنل فوج ہو‘ اس کی ہر جائز ضرورت پوری ہو‘ لیکن سیاست میں اس کی دخل اندازی کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہونا چاہیے اور اس سلسلے میں عوام‘ پارلیمنٹ‘ سیاسی جماعتیں اور عدالت ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور خود فوج کی قیادت کو بھی یکسو ہونا پڑے گا کہ وہ بیک وقت دوکشتیوں میں سفرنہیں کر سکتی۔

سترھویں ترمیم اور وردی

ان حالات میں سترھویں ترمیم کے ذریعے یہ طے کیا گیا کہ دستوری انحراف کا یہ دروازہ ۳۱دسمبر ۲۰۰۴ء کو بند ہوجانا چاہیے اور اس کے بعد فوج اور اس کا سربراہ صرف دفاعی ضرورتوں تک اپنی صلاحیتوں کو وقف رکھے گا اور سیاسی قیادت سیاسی طریقے سے عوام کے نمایندوں اور پارلیمنٹ اور دستور کے تحت اپنا کردار ادا کرے گی۔ اس عہد سے نکلنے کی جوکوشش کی جا رہی ہے وہ قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی‘ ہر اعتبار سے مجرمانہ اقدام ہے جسے کسی صورت میں بھی برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔ اگر ہم نے اب بھی اپنے ماضی سے کوئی سبق نہ سیکھا تو اس ملک میں جمہوریت‘ قانون کی بالادستی اور عوام کے حق حکمرانی کا مستقبل مخدوش ہے اور ملک کا دفاع بھی بری طرح متاثر ہوگا۔

اس سلسلے میں بظاہر جو دلائل دیے جا رہے ہیں وہ نہایت بودے بلکہ لچر ہیں۔ بنیادی طور پر تین باتیں کہی گئی ہیں جن کا تجزیہ ضروری ہے۔

m دستور کے تحت دونوں عُہدوں کا ساتھ :پہلی بات دستور کے حوالے سے کہی جارہی ہے کہ دونوں عہدے ساتھ ساتھ رکھے جاسکتے ہیں۔ اس سے زیادہ لغو دعویٰ مشکل ہی سے کیا جاسکتا ہے۔ بلاشبہہ ہمارا دستور باربار فوجی قیادتوں کی چیرہ دستیوں کا نشانہ بنا ہے اور اس سے اسے بری طرح نقصان ہوا ہے لیکن ہر دستور کا ایک ڈھانچا (structure) ہوتا ہے اور اس ڈھانچے میں فوج کے سیاسی کردار کی کوئی گنجایش نہیں۔ اسی لیے جنرل ضیاء الحق نے اور پھر جنرل پرویز مشرف نے اپنے اپنے دور میں اپنے لیے دستور میں خصوصی جگہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جو عارضی تھی اور اس کی حیثیت دستور سے انحراف کی تھی جسے بہ حالت مجبوری وقتی طور پر اور ایک متعین مدت کے لیے گوارا کیا گیا جس کے بعد اسے لازماً ختم ہوجانا تھا۔ سترھویں ترمیم میں آرٹیکل ۴۱ کے تحت ترمیم کا جواز ہی یہ تھا کہ چیف آف اسٹاف کے عہدے کو صدارت کے ساتھ جمع کرنے کو ایک تاریخ کا پابند کر دیا جائے۔ اسے دستور کی اصطلاح میں Musharruf-specific بھی کہا جاسکتا ہے اور عمومی طور پر ہر چیف آف اسٹاف پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔

اگر یہ مقصد نہیں تھا تو پھر اس ترمیم کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ اب جو قانونی موشگافیاں کی جارہی ہیں وہ بدنیتی اور عہدفراموشی پر مبنی ہیں اور اس کے سوا ان کو کوئی دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا۔ دفعہ d(۱)۶۳میں سروس آف پاکستان کا تصور واضح ہے اور دفعہ ۲۶۰ میں مزید وضاحت موجود ہے کہ فوجی سروس اس میں شامل ہے۔ اس سے ہٹ کر اس کی کوئی تعبیر دستوری تعبیر کے اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتی۔ notwithstanding کا اطلاق پوری دفعہ ۴۱ پر ہوتا ہے۔ اس کے صرف کسی ایک حصے تک اس کو محدود نہیں رکھاجاسکتا اور قانون کے ذریعے ترمیم کے معنی یہ ہیں کہ چیف آف اسٹاف کا تعلق ’’آرمڈ سروسز‘‘ سے نہیں رہے گا‘ نیز یہ کسی ایک فرد تک محدود نہیں ہوسکتا بلکہ اس عہدے کو سروس سے باہرکرنا پڑے گا۔ لیکن کیا اس کا تصور ممکن ہے کہ چیف آف اسٹاف ’’فوجی سروس‘‘ کا حصہ نہ رہے اور پھر چیف آف اسٹاف بھی ہو--- یہ ایک مضحکہ خیز اور سیاسی نظام اور فوجی انتظام دونوں کو تہ و بالا کرنے والا تصور ہی ہو سکتا ہے۔ دستور و قانون میں اس کی کوئی گنجایش نہیں۔

m ایم ایم اے سے معاہدہ: دوسری دلیل سیاسی ہے کہ ایم ایم اے سے جو معاہدہ کیا گیا تھا وہ مؤثر نہیں رہا۔ ان کے بقول ایم ایم اے نے اس کی پابندی نہیں کی‘ اس لیے صدر صاحب بھی اس کی خلاف ورزی کرسکتے ہیں۔ یہ دعویٰ بھی غلط اور بددیانتی پر مبنی ہے۔ صدر صاحب اور ایم ایم اے میں کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔ معاہدہ حکمران پارٹی اور ایم ایم اے میں ہوا جس کے نتیجے میں دستور میں ترمیم ہوئی اور وہ ایک دستوری تقاضا بن گیا جس کو کھلے طور پر صدر صاحب نے قبول کیا اور قوم سے عہد کیا کہ وہ اس کا احترام کریں گے۔ اب اصل معاملہ دستور کی اطاعت کا ہے‘ کسی خاص معاہدے کا نہیں۔

رہا ایم ایم اے کا معاملہ تو اس نے معاہدے کی مکمل پابندی کی ہے اور آج بھی اس پر قائم ہے۔ اس نے معاہدے کے تحت سترھویں ترمیم کے حق میں ووٹ دیا اور صدر‘ وزیراعظم اور حکمران پارٹی نے اس کا برملا اعتراف کیا۔ اس معاہدے کے تحت ایم ایم اے صدر کو اعتماد کا ووٹ دینے کی پابند نہیں تھی بلکہ معاہدے میں صاف لفظوں میں لکھا ہوا تھا کہ:

طے پایا کہ صدرمملکت کی پانچ سالہ جاری ٹرم کے تسلسل اور ان کے اس عہدے پر فائز رہنے کے لیے آئینی ترمیم کی حمایت کی جائے گی۔ مزیدبرآں سینیٹ‘ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں ایم ایم اے کے ممبران صدر کو اعتماد کا ووٹ دینے کے پابند نہ ہوں گے۔ ایم ایم اے کے ممبران صدر مملکت کے خلاف ووٹ نہیں دیں گے اور نہ کسی مخالفانہ فعالیت کا مظاہرہ کریں گے‘ نیز ووٹنگ کے عمل کے دوران ایم ایم اے کے تمام ممبران پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے ایوانوں میں موجود رہیں گے۔

ایم ایم اے نے اس معاہدے کی حرف بہ حرف پابندی کی۔

رہا مسئلہ قومی سلامتی کونسل کا‘ تو ایم ایم اے نے اس دفعہ کو دستور سے خارج کرانے کا ہدف حاصل کیا۔ جہاں تک عام قانون کے تحت ایسے ادارے کے قیام کا تعلق ہے‘ ایم ایم اے نے تعاون کا کوئی وعدہ نہیں کیا تھا۔ البتہ وہ مذاکرات کے لیے تیار تھی لیکن حکومت نے اس قانون سازی میں ایم ایم اے سے کسی بات چیت کی زحمت تک نہ کی۔ پھر بھی ایم ایم اے نے قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں میں متعلقہ قانون میں اپنی ترامیم داخل کرائیں جو اس کے اس عندیہ کی علامت ہے کہ وہ اس معاملے میں کوئی درمیانی راہ نکالنا چاہتی تھی جسے حکومت نے درخوراعتنا نہ سمجھا۔ لہٰذاایم ایم اے کی طرف سے کوئی وعدہ خلافی نہیں ہوئی۔

رہا صدر کا معاملہ تو انھوں نے اپنے ٹی وی خطاب میں قوم سے ہی نہیں‘ پوری دنیا سے بہت واضح الفاظ میں عہد کیا کہ انھوں نے ۳۱ دسمبر ۲۰۰۴ء تک چیف آف اسٹاف کے عہدے سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ ان کے الفاظ بہت اہم ہیں:

آخری مسئلہ وردی تھا۔ یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ یہ ایک مشکل فیصلہ تھا۔ میں نے پاکستان اور بیرونی دنیا میں ہمیشہ یہ کہا کہ صدر کا وردی میں ہونا جمہوریت کا حصہ نہیں ہے۔ یہ غیرجمہوری بات ہے لیکن پاکستان کے حالات کے حوالے سے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ میں کہتا رہا ہوں کہ مجھے اس کا احساس ہے کہ یہ جمہوری نہیں ہے اور مجھے کسی مرحلے پر یہ وردی اتارنا ہوگی۔ مجھے معلوم ہے کہ میرے بہت سے خیرخواہ مجھ سے کہتے ہیں کہ میں اپنی وردی نہ اتاروں کیونکہ وہ پاکستان کی سلامتی کے لیے فکرمند ہیں‘ میں بھی پاکستان کی سلامتی کے لیے فکرمند ہوں‘ مجھے پاکستان کی ترقی کی بھی فکر ہے۔

میں نے حالات پر گہرا غوروخوض کیا ہے اور ان کا جائزہ لیا ہے۔ میں نے اپنے آپ کو ایک طرف رکھ کر اس کا جائزہ معروضی طور پر لیا ہے‘ میں نے پاکستان کی سلامتی کے لیے بھی سوچا اور سیاسی ہم آہنگی کے لیے بھی۔

میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اس مسئلے پر صحیح وقت پر فیصلہ کرنا بے حد اہمیت رکھتا ہے۔ چنانچہ میں نے محسوس کیا کہ فیصلے کا یہی وقت ہے‘ اور اس لمحے فیصلہ کرنا ضروری ہے۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں دسمبر۲۰۰۴ء تک اپنی وردی اتار دوں گا اور چیف آف آرمی اسٹاف کے منصب سے دستبردار ہوجائوں گا۔ اس عرصے میں‘ میں خود ہی قطعی تاریخ کا فیصلہ کروں گا۔

آخر میں‘ میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے یہ فیصلہ کرنے میں میری رہنمائی کی۔ میں اس موقع پر پاکستانی قوم کو مبارک باد دیتا ہوں اور میں اپنی طرف سے قوم کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ میں پاکستان کی ترقی اور خودمختاری پر کوئی آنچ نہ آنے دوں گا۔

اللہ ہم سب کی حفاظت کرے۔

جس طرح چاہیں ان الفاظ کو پڑھ لیں‘ ان کا تجزیہ کرلیں‘ ان کی تعبیرکرلیں‘ بات بالکل واضح ہے کہ:

۱-  بہت سوچ بچار کے بعد فیصلہ کرلیا گیا۔

۲-  یہ طے ہوگیا کہ ایک عہدہ‘ یعنی چیف آف اسٹاف کا عہدہ چھوڑ دیا جائے گا۔

۳- اور یہ کام ۳۱ دسمبر تک ہوجائے گا۔

صرف ایک اختیار باقی تھا اور وہ یہ کہ ۳۱ دسمبر سے پہلے اگر اعلان کرنا چاہیں تو جنرل صاحب کرسکتے ہیں۔ یہ کوئی مشروط فیصلہ نہیں تھا کہ جب چاہیں اسے تبدیل کر دیں۔

عہدوپیمان کے بارے میں صدر صاحب کی ۲۰ نومبر ۲۰۰۲ء کی تقریر کا ایک اقتباس بھی خود ان کو یاد دہانی کے لیے پیش کرنا ضروری ہے جو انھوں نے قرآن پاک کی سورہ بنی اسرائیل اور سورئہ مائدہ کی عہد کی پابندی کے سلسلے میں دو آیات کے حوالے سے ارشاد فرمایا:

حکمرانوں کے لیے لازم ہے کہ وہ عوام کے اعتماد کا احترام کریں اور اپنے وعدوں کو پورا کریں۔

اگر افراد کو یہ حق دے دیا جائے کہ جب چاہیں اپنے عہدوپیمان سے پھر جائیں تو پھر زندگی کا نظام کیسے چل سکتا ہے اور ایسے قائدین کے قول و فعل پر کون بھروسا کر سکتا ہے۔

  • ترقی اور استحکام کے لیے باوردی صدر: اس سلسلے کی تیسری دلیل اور بھی بودی اور سیاسی اعتبار سے رسوا کن ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ملک کے سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کے لیے مضبوط اور طاقت ور صدر کی ضرورت ہے۔ ملک کی صدارت‘ سیاسی نظام ‘ پارلیمنٹ پر اس سے بڑا الزام اور اتہام نہیں ہو سکتا۔

دستور نے صدر کو اختیارات دیے ہیں اور اس کی قوت کا سرچشمہ دستور اور قانون ہے‘ بندوق کی نالی نہیں۔ اگر استحکام کے لیے وردی کی ضرورت ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ دستور نے صدر کو جو اختیارات دیے ہیں اور ان میں وافر اضافہ آٹھویں ترمیم اور سترھویں ترمیم کے ذریعے کیا جا چکا ہے‘ وہ کافی نہیں ہیں۔ اس طرح پارلیمنٹ جو اصل خودمختار (sovereign) ادارہ ہے وہ اقتدار کا سرچشمہ نہیں بلکہ اقتدار کا اصل سرچشمہ چیف آف اسٹاف کا عہدہ اور فوج ہے۔ یہ پورے سیاسی نظام اور دستوری انتظام کی نفی کے مترادف ہے۔ پہلے ہی پارلیمنٹ اور وزیراعظم دونوں کی تنزلی اور سبکی ہوچکی ہے اور اختیارات کا خاصا ارتکاز صدر کی ذات میں ہوگیا ہے۔ برا یا بھلا یہ انتظام پھر بھی دیکھنے میں دستوری لگتا ہے۔ لیکن یہ دعویٰ کہ سیاسی اور معاشی استحکام اور ترقی کے لیے صدر کا عہدہ اور اختیارات کافی نہیں اور اس کے لیے چیف آف اسٹاف ہونا ضروری ہے‘ یہ پورے سیاسی انتظام کی نفی کرتا ہے اور خود جنرل صاحب کے پانچ سالہ ’’کارناموں‘‘ پر خط تنسیخ پھیر دیتا ہے۔

سیاست دانوں کا وردی جاری رکھنے کی بات کرنا اور پنجاب کی اسمبلی کی شرمناک قرارداد سیاسی خودکُشی کے مترادف ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی شخص اپنی آزادی کو خود ہی فروخت کر دے اور اپنے کو غلام بنانے پر آمادگی کا اظہار کرے لیکن قانون کی دنیا میں یہی ایک چیز ہے جس کے بارے میں مکمل اتفاق راے ہے کہ کوئی شخص اپنی آزاد مرضی سے بھی خود اپنے کو فروخت نہیں کرسکتا۔


سیاسی اور دفاعی مضمرات کے ساتھ ان حالات کے کچھ بڑے اہم بین الاقوامی اثرات بھی ہیں۔ اگر کسی ملک کی قیادت عہدوپیمان کے بارے میں ایسی غیر ذمہ دارانہ روش اختیار کرسکتی ہے تو اس کے عالمی عہدوپیمان کی کیا حیثیت ہوگی۔ پاکستان نے جمہوریت کے احیا کے سلسلے میں پوری دنیا سے ایک عہد کیا ہے۔دولت مشترکہ میں ہماری واپسی اور یورپی یونین کا پاکستان کو جمہوری ملک تصور کرنا اس شرط سے مشروط تھا کہ صدر چیف آف اسٹاف کا عہدہ چھوڑدیں گے اور دستوری عمل کو مکمل طور پر بروے کار لانے کا موقع دیا جائے گا۔ امریکا کے مفادات جو کچھ بھی ہوں اور ہمیں علم ہے کہ امریکا کی جمہوریت سے دل چسپی کسی دوغلے پن اور مفاد پرستی پر مبنی ہے‘لیکن عالمی برادری میں ہمارا وقار اسی وقت بحال ہو سکتا ہے جب ہم جمہوری سفر کو جاری رکھیں اور اپنے تمام عہدوپیمان پورے کریں ورنہ ہماری اس کمزوری کا اصل فائدہ امریکا کو ہوگا جو پہلے ہی ہمیں بلیک میل کر کے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے اور صدر جنرل مشرف کو اپنا حلیف بنا کر پاکستان کو اپنی چاکری پر مجبور کر رہا ہے۔ جنرل صاحب نے بڑے طمطراق سے دعویٰ کیا ہے کہ میں کسی کے دبائو میں نہیں آتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ۱۱/۹ کے بعد جس طرح انھوں نے امریکا کے آگے گھٹنے ٹیکے ہیں اور مسلسل اس کے احکامات کی اطاعت کررہے ہیں‘ اس نے پاکستان کی آزادی‘ خودمختاری اور سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ بوب وڈورڈ کی کتاب Bush at War کا مطالعہ کرلیجیے۔ کانڈولیزا رائس کی امریکی کانگرس کے سامنے گواہی کو دیکھ لیجیے‘ صاف کہتی ہے ہم نے جنرل مشرف کے لیے گاجر اور چھڑی (carrot and stick) کی پالیسی اختیار کی۔ گاجر کم اور چھڑی زیادہ۔ بوب وڈورڈ لکھتا ہے کہ جنرل محمود احمد اور جنرل پرویز مشرف دونوں نے بلاچون و چرا امریکا کے ساتوں مطالبات اس طرح تسلیم کرلیے کہ خود جنرل پاول کو تعجب ہوا اور امریکا کی قیادت اس پسپائی اور سپردگی پر حیرت زدہ ہوگئی۔

Bush at Warکے صفحہ ۴۷ پر آرمٹیج کی جنرل محمود سے گفتگو بلکہ ڈانٹ ڈپٹ کا مطالعہ کرلیجیے جس سے ہر پاکستانی کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ پھر صفحات ۵۸-۵۹کے مطالبات اور ان پرآمنا وصدَّقنا کی داستان پڑھ لیجیے اور خود امریکی قیادت کے تعجب کا حال پڑھ کر پسینہ پسینہ ہوجایئے۔ بہادری کے سارے دعوے اپنے کمزور عوام ہی کے مقابلے میں ہیں۔ کیا پاکستان‘ ایران‘شمالی کوریا اور لبنان سے بھی کمزور ہے--- لیکن ہماری قیادت نے ہمارے ملکی وقار کو جو چرکے لگائے ہیں وہ اب تاریخ کا حصہ اور ہماری غیرت اور آزادی پر بدنما داغ ہیں۔ سات مطالبات کی بات اب امریکا کے ۱۱/۹ کے سرکاری کمیشن کی رپورٹ میں بھی آگئی ہے۔ (دیکھیے صفحہ ۳۳۱)

ہم یہ ساری باتیں دل پر پتھر رکھ کر رقم کر رہے ہیں لیکن حقائق حقائق ہیں اور ان سے آنکھیں بند کر کے ہم حالات کی اصلاح کی طرف کوئی پیش رفت نہیں کرسکتے۔

جناب شوکت عزیز صاحب اب ملک کے وزیراعظم ہیں اور انھوں نے دستور کی حفاظت کا حلف لیا ہے۔ پارلیمنٹ کے سارے ارکان اس حلف کے پابند ہیں۔ شوکت عزیز صاحب نے ملک میں قومی یک جہتی اور اتفاق راے پیدا کرنے اور اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کی بات بھی کی ہے۔ اب ان کا اور ان کی پارٹی کا امتحان ہے۔ وہ اس ملک کو دستور کے مطابق اور پارلیمنٹ کی بالادستی قائم کر کے چلانا چاہتے ہیں یا ملک کے پارلیمانی نظام کو تہ وبالا کرنے‘ اس پر ’’خاکی صدارتی نظام‘‘ مسلط کرنے کے عمل میں آلہ کار بنتے ہیں ۔ ہمیں کوئی شبہہ نہیں کہ عوام کی مرضی ان شاء اللہ بالآخر بالاتر قوت ثابت ہوگی اور انا ولاغیری جسے آج کی سیاسی اصطلاح میں "I Syndrom" بھی کہا جا سکتا ہے‘ کی تاریک رات جلد ختم ہوگی۔ اسے آخرکار ختم ہونا ہے!

البتہ سوال یہ ہے کہ اس تاریخی جدوجہد میں کون کس کیمپ میں ہے اور کون جمہوریت‘ دستوریت اور قانون کی بالادستی کے تاروپود بکھیرنے اور ملک کی سلامتی کو دائو پر لگانے میں معاون رہا ہے‘ اور کون دستور کے دفاع‘ قانون کی حکمرانی کے قیام‘ جمہوریت کے فروغ اور اقتدار کو عوام کی مرضی کے تابع کرنے کی جدوجہد میں مثبت کردار ادا کر رہا ہے؟ تاریخ کا قاضی بڑا بے لاگ فیصلہ دیتا ہے اور سب سے بڑھ کر ہماری جواب دہی اپنے رب کے سامنے ہے جس کی گرفت سے کوئی مفرنہیں۔

آیئے وہ راستہ اختیار کریں جو ملک و قوم کو تباہی سے بچانے اور خیروفلاح اور جمہوریت اور انصاف کے فروغ کا ذریعہ بنے‘ اور آخرکار ہمیں اپنے رب کے سامنے سرخرو ہونے کی سعادت بخشے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اسلام اور مسلمانوں پر مخالف قوتوں کی یلغار کوئی نئی چیز نہیں    ؎

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز

چراغِ مصطفوی سے شرارِبولہبی

شرارِ بو لہبی اور چراغِ مصطفویؐ کی کش مکش دراصل ایمان اور جا ہلیت کی کش مکش ہے اور یہ پہلے دن سے ہے۔ اس کا نمونہ آدم علیہ السلام کو دنیا میں بھیجنے سے پہلے دکھا دیا گیا۔  افراد بدل جا تے ہیں‘ موضوعات تبدیل ہو جاتے ہیں ‘ایشوز بھی نت نئے سامنے آجاتے ہیں۔ زماں کی تبدیلی کے ساتھ مکان کی تبدیلی کو بھی دوام ہے۔ وہ سرزمین جہاں یہ برپا ہو اس میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ لیکن یہ کش مکش تاریخ کا حصہ ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ کش مکش اسلام کی دعوت کا لازمی تقاضا ہے۔ اس کش مکش کا ایک حصہ وہ ہے جو ہمارے اپنے سینے میں نفسِ امارہ اور نفسِ مطمئنہ کے درمیان پیکار سے عبارت ہے۔ پھر یہی کش مکش ہمارے ارد گرد‘ ہمارے گھروں میں ‘ ہمارے محلوں میں ‘ہمارے ملک میں اور پوری عالمی سطح پر ہو رہی ہے ۔ یہ نئی چیز نہیں‘ بالکل فطری ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ اس کش مکش کو سمجھا جائے‘اس کو جانا جائے   اور اس کا مقابلہ کیا جائے۔ اس پہلو سے مغرب کی تہذیبی یلغار کے موجودہ دور میں‘ان کے اہداف‘ ان کے طور طریقے اور وہ ہماری جن چیزوں کو نشانہ بنائے ہوئے ہے‘ اس کا سمجھنا بہت ضروری ہے۔

تہذیبی یلغار کی اصطلاح میں لفظ ’یلغار‘ کا استعمال بہت معنی خیز اور مغرب اور اسلامی دنیا کے موجودہ معرکے کی حقیقی کیفیت کاصحیح ترجمان ہے۔ آج جس کیفیت سے ہم گزر رہے ہیں وہ فی الحقیقت یک طرفہ حملے کی صورت ہے۔ فوجی‘ سیاسی ‘ سماجی‘ معاشی اعتبار سے قوی تر اور بالادست تہذیبی اور سیاسی قوت ہم پر حملہ آور ہے۔ یہ یک طرفہ جنگ ہے اور اسے یلغار ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ حقائق کی ٹھیک ٹھیک عکاسی ہے۔ جہاں تک تہذیبوں کے درمیان کش مکش کا اورخیالات کے ٹکراؤ کا سوال ہے‘ یہ ہمیشہ سے رہا ہے۔ افکار کے میدان میں مناظرہ اور مسابقت ایک ابدی حقیقت ہے۔ اقدار کا اختلاف اور موازنہ بھی ازل سے ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ تہذیبوں کے ایک دو سرے کے اوپر اثر انداز ہو نے کایہی وہ طریقہ ہے جس سے افکار جلا پاتے ہیں‘ نئے تصورات ابھرتے ہیں اور ترقی کے چشمے پھوٹتے ہیں۔ تبلیغ‘ ترقی ‘ دعوت‘شہادتِ حق یہ سب اس کے مختلف پہلو ہیں۔ تہذیبوں کے درمیان مقابلہ اورمسابقت کوئی پریشان کن چیز نہیں ہے۔ میں اس کوخوش آمدیدکہتا ہوں۔ دعوت نام ہی اس بات کا ہے کہ ہم ہر گروہ ‘ہر فرد ‘ہر تہذیب ‘ ہرملک ‘ہر قوم تک پہنچیں ۔ان کی بات کو سنیں اور اپنی بات سنائیں۔دلیل سے بات کریں ۔ ا پنی دعوت کی صداقت کو ثابت کریں اور انھیں اپنے دائرے میں شامل کر نے کی کوشش کریں : اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُط (النحل۱۶:۱۲۵) ’’اے نبیؐ، اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ‘ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو‘‘۔

تہذیبوں کے درمیان مسابقت اور ایک دوسرے پر اثر انداز ہو نے کی کو شش ایک فطری چیز ہے۔ یہ فطری چیز تشویش کا باعث اس وقت بنتی ہے جب جن دو تہذیبوں یا جن دو قوموں یا جن دو افراد کے درمیان یہ معاملہ ہو رہا ہے وہ دلیل کی بنیاد پر نہ ہو‘حقائق کی بنیادپر نہ ہو ‘وہ مواقع کی یکسانی کی بنیاد پر نہ ہو بلکہ ایک گروہ کو بالادستی حاصل ہوکہ وہ دوسرے کی کمزوری کا فا ئدہ اٹھا کر اس پر قوت کے ذریعے سے یا اثر انگیزی کے وہ ذرائع اختیار کرکے جو عقلی اور اخلاقی اعتبار سے درست نہیں ہیں‘ اسے مغلوب کر نے کی کوشش کرے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے یہ کہہ کر ایسے عمل کا در وازہ بند کر دیا کہ لا اکراہ فی الدین۔ اقدار میںمقابلہ ہو نا چاہیے ‘ انسانوں میں مذاکرہ ہونا چاہیے ۔ تبادلہ خیال اورڈائیلاگ انسانی زندگی ا ور تہذیب کے فروغ کا ذریعہ ہیں‘ ان کا دروازہ کھلا رہنا چاہیے ۔ لیکن نہ آپ ظلم و جبراورطاقت سے اپنے نظریات اور تصورات دوسروں پرمسلط کریں اور نہ کسی کو اجازت دیں کہ وہ آپ کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر محض اپنی قوت اور طا قت کا سہارا لے کر آپ کے عقائد‘ آپ کی اقدار ‘آپ کے اخلاق ‘آپ کے نظامِ زندگی ‘ آپ کے رہن سہن اور آپ کی تہذیب و تمدن پر چھاجائے ۔

یہ ہے کش مکش کی اصل نو عیت اورا سی بنا پر میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ تہذیبی کش مکش اور مقابلے کے لیے مغرب کی تہذیبی ’یلغار‘کا جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ بہت صحیح ہے۔ اس کے ذریعے وہ کیفیت ہمارے سامنے آجاتی ہے جس سے ہم سب دوچار ہیں۔ آیئے دیکھیں وہ کیفیت کیا ہے؟

مغربی تہذیب سے ہمارا معاملہ اب تقریباََ ۵۰۰‘۶۰۰ سال پرانا ہے۔ کو ئی نئی چیز نہیں۔ مغربی تہذیب کا عروج چو دہویں ‘پندرہویں ‘ سولہویں صدی میں یو رپ میں ہوا اور اسی زمانے میں اسلامی دنیا سے بھی شروع میں تعارف ‘پھر تعاون ‘پھر تصادم ‘ پھر غلبہ ‘پھر اقتدار کے استحکام کے دور آئے ‘اس کے بعد آزادی کی تحریکیں چلیں‘ جوابی رد عمل ہوا‘مغربی تہذیب کی بالا دستی اور اثر ورسوخ سیاسی حد تک ختم ہوا اورآزاد مسلمان مملکتیں وجود میں آئیں ۔ ہم ان سب ادوار سے گزرے ہیں۔ میں اس وقت پو ری تاریخ میں نہیں جا رہا ہوں ‘ صرف اشارہ کر رہا ہوں۔

اس وقت ہم جس دو رپر غور کر رہے ہیں اس کا آغاز افغانستان کے جہاد سے ہو تا ہے۔ ایران میں اسلامی انقلاب بر پا ہوا ‘ افغانستان پر روس نے  فوج کشی کی‘ اس کا مقابلہ کیا گیا اور پھر نو سال تک وہ تا ریخی جدو جہد بر پا ہوئی ‘جس کے نتیجے کے طور پر روس کی پسپائی ہوئی ۔اس سے پہلے کے دور کو ہم سردجنگ کا دور کہتے ہیں جس میں دو سوپرپاورز تھیں:امریکا اور روس۔ یہ دونوں مغربی تہذیب ہی کے مختلف مظہر تھے۔ لیکن ان کا اپنا اپنا تشخص‘ بنیاد اور عزائم تھے۔ اور یہ آپس میں بھی متصادم تھے۔

میں ان لوگوں میں سے ہوں جو شرح صدر کے ساتھ یہ بات کہتے ہیں کہ افغانستان میں جہاد اس علاقے ہی میں نہیں ‘اس دور کی تاریخ کو بدلنے میں موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اُس وقت ہمارے افغان بھائی بہنوں نے اور پو ری اسلامی دنیا نے جوجدو جہد کی اور عالمی سیاست کے پسِ منظر میں دنیا کی مختلف سیاسی قوتوں نے جس میں ہمارے مخالف اور دشمن اور مغربی تہذیب کے ایک حصے کے علمبر دار امریکا اور یورپ نے بھی شر کت کی وہ صحیح ‘ بروقت اور تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑنے والی جدوجہد تھی۔ البتہ اس جہاد کے آخری دور میں ہماری اور امریکا کی راہیں مختلف ہوگئیں۔ جب امریکا نے یہ محسوس کیا کہ اب روس کے لیے پسپائی کے سوا کوئی اور راستہ نہیں تو اس نے خالص اپنے تہذیبی اور سیاسی مقاصد کی خاطر اپنے کردار کوتبدیل کر ڈالا۔ اور وہ سیناریو وجود میں آیا جس کا ہدف یہ تھا کہ افغان جہاد کی کامیابی کے ثمرات سے افغان اور مسلمان امت کومحروم کیا جائے۔ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ افغانستان کی جہا دی قوتیں جہاں روس کے خلاف جہاد میں کا میاب اور سر خرو تھیں وہیں وہ اس تبدیلی کو نہ بر وقت محسوس کر سکیں اور نہ اس میں اپنا صحیح کردار ادا کرسکیں۔ اور نتیجہ یہ ہوا کہ تاریخ جس نئے فراز کی طرف بڑھنے والی تھی‘ نہ بڑھ سکی  اور اُمت مسلمہ ایک نئی اندرونی کش مکش اور بیرونی جنگ کی گرفت میں آگئی۔

جس وقت روس نے یہاں سے پسپائی اختیار کی ہے اور ابھی کوئی آثار نمودار نہیں ہوئے تھے کہ اسلامی قوتیں افغانستان میں مستحکم ہوکر وسط ایشیا اور باقی اسلامی دنیا کو ایک نئی صبح کی طرف لے جانے والے سفر کا آغاز کر رہی ہیں‘لیکن نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے یہ شور مچانا شروع کر دیا کہ ’’ہم اب یہ صاف دیکھ رہے ہیں کہ دنیا کے نقشے پر سے سرخ خطرہ ہٹ گیاہے لیکن سبزخطرہ نمودار ہورہا ہے‘‘۔ابھی توکوئی تبدیلی نمودار نہیں ہوئی تھی‘ ابھی توجہادی گروہ باہم دست و گریبان تھے لیکن انھوں نے یہ بات کہنا شروع کر دی ۔سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا دنیا کی واحد سپرپاور کی حیثیت سے ابھر آیا اور پھر اس کے بعد سے اب تک کا دور یہ وہ دور ہے جس میں نیا نقشۂ جنگ مرتب کیا گیا ہے۔ یہ نقشۂ جنگ عسکری بھی ہے‘ سیاسی بھی ہے‘ معاشی بھی ہے ‘ فکری بھی ہے اور ثقافتی بھی ہے ۔ اس کے یہ سارے پہلو ہیں۔ کبھی کسی کا پلہ بھاری ہوتا ہے ‘ کبھی کسی کو آگے بڑھایا جا تا ہے ‘کبھی کسی کو پیچھے ہٹایا جاتا ہے۔ لیکن یہ ہمہ جہتی یلغار اورحملہ جاری ہے اور ۱۱ستمبر کے بعد اپنی کیفیت اور کمیت ہر اعتبار سے گمبھیر سے گمبھیر ہو رہا ہے۔

تر جمان القرآن میں ‘میں اور میرے ساتھی اس یلغار کے مختلف پہلوؤں کی طرف مسلسل متوجہ کر رہے ہیں۔ اس پو رے زمانے میں ‘خواہ اس کا تعلق امریکا کے مفکرین سے ہو‘ جن میں فرانسس فوکو یو ما ‘سیموئیل ہنٹنگٹن ‘ڈینئل پائیس اور دسیوں دوسرے سرگرم جنگ ہیں‘  اور خواہ وہاں کے تھنک ٹینکس ہوں یا وہ این جی اوز ہوں‘ جو پو ری دنیا میں‘ خصوصاً مسلم دنیا میں‘ اس جنگ کے طبل بجا رہے ہیں‘ ان سب کا ایک ہی مرکزی خیال (theme) ہے۔اور وہ یہ ہے کہ اب اصل مقابلہ مغربی تہذیب اور اسلام ‘اسلامی تہذیب‘ مسلم دنیا اور خاص طور پر اسلامی تحریکوں کے درمیان ہونا ہے۔ آپ ان کی فکر کااندازہ اس بات سے کیجیے کہ ۱۹۸۹ ء میں جب روس نے افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلائیں‘ تو اسی سال کے اکانومسٹ نے ایک خصوصی مضمون شائع کیا اور اس میں پو ری تاریخ انسانی کے ۲۰ اہم لمحات بیان کیے۔ اور ان میں آخری لمحہ روس کی پسپائی کے بعد بننے والا نیا سیاسی اور تہذیبی نقشہ تھا۔ اس میں ایک جملہ بڑاا ہم تھا ۔اس نے کہا کہ رو س کی فو جیں تو واپس چلی گئیں ‘ دیوار بر لن بھی ٹوٹ گئی‘اشتراکیت بھی پسپاہو گئی لیکن کیا ہمارے پاس دنیا کو دینے کے لیے کوئی نیا حیات بخش نظریہ ہے جو اس خلا کو پر کر سکے۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ اس خلا کو پر نہیں کر سکتا۔ اور پھر اپنے مخصوص انداز میں یہ بات کہی کہ البتہ مسلمانوں کو یہ زعم ہے کہ ان کے پاس ایک نظریہ ہے جو اس خلا کو پر کر سکتا ہے۔ گو یا کہ یہ تنبیہ(warning) تھی کہ اب کش مکش کا جو نیاآہنگ ہے وہ کیا ہو سکتا ہے۔

اس کے دس سال کے بعد ایک اور دلچسپ چیز اکانومسٹ میں آئی اور وہ یہ تھی کہ انہوں نے یہ بتایا کہ آج سے ایک ہزار سال بعدروس کا ایک مؤرخ گزرے ہوئے ہزار سال کا جا ئزہ لیتا ہے۔دو ہزا ریے ختم ہو گئے ہیں۔ تیسراہزا ریہ شروع ہو رہا ہے۔ وہ جا ئزہ لیتا ہے اور وہ جا ئزہ لیتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ سرد جنگ کے ختم ہو نے کے بعد اور روس کی اوراشتراکیت کی پسپائی کے بعدامریکا ایک عالمی کر دارلے کرکے اٹھا لیکن اس کے بعد پھر چین اور مسلم دنیا یہ دو نئی قوتیں ابھریں۔ اور اس طرح ایک نئی خلافت قائم ہوئی ۔اس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ ایسا ہو گا۔مقصد یہ تھا کہ ایسا نہ ہو نے پائے‘ہمیں اس کے لیے پیش بندی کر نی چاہیے۔یہی وہ خیالات ہیں جنھوں نے مغرب کی ذہنی اور فکری فضابنائی ہے اور آج ان کے تھنک ٹینکس اور سیاسی قیادت سب اس پسِ منظر میں کام کرتے ہیں اور حکمتِ عملی بناتے ہیں۔

ہمیں ۱۱ستمبر کا واقعہ اسی پسِ منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ واقعہ کیسے ہوا ؟کس نے کیا؟ کون کون معاون قوتیں تھیں ؟سارے واویلے کے باوجود ان سوالات کا جواب دینے کی کوئی کوشش نہیں ہوئی ہے اور نہ ہورہی ہے ۔ اس کے برعکس‘ ۱۹۸۹ء سے۲۰۰۱ء تک نئے تہذیبی تصادم کی جو فضا بنائی گئی تھی‘اس واقعے کو بنیاد بنا کراس نقشے میں رنگ بھرا جا رہا ہے اور اسے ایک واضح اور متعین رخ دیا جا رہا ہے۔امریکی صدر نے نائن الیون کمیشن بڑے حیص بیص  کے بعد اور بڑے دباؤ کے بعد قائم کیا تھا اور ۱۸مہینے کی کوششوں کے بعد اس کی رپورٹ گذشتہ دنوں آئی ہے۔۶۰۰ صفحات کی رپورٹ  پڑھ ڈالیے ‘ اس میں ایک جملہ بھی ان سوالات کے بارے میں نہیں ہے۔ ان کی ساری تو جہ اس پر ہے کہ جسے وہ ’’اسلامک ٹیررزم‘‘ کہتے ہیں‘ اس کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟ لطف کی بات یہ ہے کہ اس اہم ترین دستاویز میں ’دہشت گردی‘ نہیں ’اسلامی دہشت گردی‘ کومقابلے کی قوت قرار دے کر بتایاگیا ہے ہماری یعنی امریکا کی اور مغربی اقوام کی ساری قوت اور ساری فکر اورسا ری کوشش آیندہ اس سے مقابلے کے لیے کیا ہونی چا ہیے۔

پچھلے پانچ چھ مہینوں میں تین چار بڑی اہم رپورٹیں آئی ہیں۔ان میں رینڈ کارپوریشن کی رپورٹ خاص طور پر اہم ہے جس کا میں نے جون ۲۰۰۴ء کے ترجمان القرآن کے اشارات میںذکر کیا ہے۔اس سے پہلے ایک اور رپورٹ آئی ہے جس کے بارے میں برادرم سلیم منصور خالد نے مارچ ۲۰۰۴ء کے ترجمان القرآن میں لکھا ہے ‘ایشیا میں اس کا مکمل ترجمہ قسط وار شائع ہو رہا ہے۔اب یہ نائن الیون کمیشن کی رپورٹ آئی ہے ۔یہ وہ تمام چیزیں ہیں جن کو بغور پڑھنے اور تجزیہ کر نے کی ضرورت ہے۔پھر اس کو اس فکری کام کے پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے جو اس پورے زمانے میں ہوا ہے۔ جہاں تک نائن الیون کمیشن کی رپورٹ کا تعلق ہے میں اس کے صرف دو تین نکات بتا دیتا ہوں۔ ان کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ آج امریکا کے لیے سب سے بڑاخطرہ دہشت گر دی ہے۔ دنیا میں جنگوں کا نقشہ اب بدل چکا ہے۔ جنگوںکا جو کر دار تاریخ میں رہا ہے اس اندازکی فوج کشی درکار تو ہو گی لیکن قوموں کے درمیان جنگ کی شکل میں نہیں بلکہ دہشت گر دی کا تعاقب کیا جائے گا۔ اور پھر وہ یہ مرکزی جملہ لکھتے ہیں کہ یہ نہ سمجھو کہ یہ صر ف دہشت گر دی ہے‘ہمارا اصل ہدف ’اسلامی دہشت گردی‘ ہے ۔اس طرح دہشت گردی کی باقی تمام شکلیں ‘اس کے مظاہر ‘حتیٰ کی خودا مریکہ کے اپنے نظام کو چیلنج کر نے کے لیے خود امریکی جودہشت گردی کے راستے اختیار کر رہے ہیں ان سب کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ واحدہدف ’اسلامک ٹیررزم‘ ہے۔ اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اسلامک ٹیررزم تو عنوان ہے‘اصل چیز وہ نظریاتی بنیادی ڈھانچا (Infrastructure ) ہے‘جس نے ان کے خیال میں اس دہشت گر دی کو اور امریکا کے خلاف نفرت کوجنم دیا ہے اور امریکا کو چیلنج کرنے کا جذ بہ اور قوت دی ہے۔ یہاں وہ نام لے کر اسلامی تحریکات خصوصیت سے اخوان المسلمون اورسید قطب کا ذکر کرتے ہیں‘ستم ہے کہ امام ابن تیمیہؒ کو بھی اس کا منبع قرار دیتے ہیں۔ جماعت کا نام تو نہیں لیا لیکن حقیقت ہے کہ جن شخصیات اور اسلامی تحریک کا نام لیا ہے وہ امریکی استعمار کے تازہ ہدف کی نشاندہی کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ بہت اہم ہے کہ اس رپورٹ میں جس چیز کو ہدف بنایا گیا ہے وہ محض القاعدہ نہیں بلکہ وہ بنیادی ڈھانچا  ہے جو ان کے زعم میں امریکا مخالف فکر اور مزاحمتی تحریکوں کو پروان چڑھا رہا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہی وہ منبع ہے جس سے یہ نیا ذہن‘ نئے جوان ‘ان کی مختلف کوششیں سامنے آئی ہیں اور انھی کوششوں میں سے ایک کوشش وہ ہے جو مسلح ہے اور جو دہشت گر دی کر تی ہے۔ یہ سارے کا سارا بنیادی ڈھانچا اب امریکا کا اصل ہدف ہے جسے وہ اپنے اقتدار کے لیے اصل خطرہ قرار دے رہے ہیں اور یہ ذہن پیدا کر رہے ہیں کہ گویا جب تک یہ باقی ہے‘ امریکا محفوظ نہیں ہے!

اس خطرے کے مقابلے کے لیے کیاحکمتِ عملی اختیار کی جائے؟ اس سلسلے میں ایک بڑی اہم کتاب آئی ہے :Imperial Hubris: Why the West is Loosing War on Terror جس کے لکھنے والے کا نام نہیں دیا گیا اسےanonymous یعنی گمنام کے نام سے لایا گیا ہے۔ یہ چند ہفتے پہلے آئی ہے۔دل چسپ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ جسے گمنام بنایا گیا ہے وہ سی آئی اے کا حاضر سروس آفیسرہے اور اسے باقاعدہ سی آئی اے نے اجازت دی ہے کہ اپنا نام بتائے بغیر یہ کتاب لکھے اور شائع کرے۔ اس اہم کتاب کے ساتھ ہی برطانیہ سے ایک اور کتاب Collosus: The Price of American Empireشائع ہوئی ہے‘ اس کا مصنف وہاں کا مشہور مورخ Niall Fergusonہے۔ دونوں کتابیں ایک ہی طرز کی ہیں۔ گمنام کی کتاب میں جو نقشۂ جنگ بنایا گیا ہے وہ اس اعتراف پر مبنی ہے کہ امریکا کے خلاف جو نفرت عالم اسلام میں ہے وہ امریکا کی پالیسیوں کی وجہ سے ہے۔یہ بات کھل کر پورے دھڑلے سے کہی گئی ہے اور اس میں یہ متعین کیا گیا ہے کہ اس نفرت کی وجہ وہ پالیسی ہے جو امریکا نے اسرائیل کی مکمل تائید میں اختیار کی ہے اور اسرائیل کی جو مدد وہ کر رہا ہے‘ ثانیاً مسلم ممالک کے حکمران جوظالم وجابر (tyrant) ہیں‘ وہ ہمارے ساتھ ہیں اورہم ان کی تائید کر رہے ہیں لیکن مسلمان عوام ان سے ناخوش ہیں ۔ تیسرے‘ چین‘ روس اور انڈیا جو مسلمانوں کی آزادی کی تحریکوں کو کچل رہے ہیں‘ لیکن ہماری تائید ان تینوں ممالک کو حاصل ہے۔ اسی طرح افغانستان اور عراق پر قبضہ اور تیل کے ذخائر کو امریکی تسلط میں لانے پر مسلمان اور عرب برافروختہ ہیں۔

اس تمام اعتراف کے بعد وہ کہتاہے کہ ہمارے سامنے چار سیناریو ہیں۔پہلا راستہ جس پر صدر بش کار بند ہیں یہ ہے کہ ہم محض قوت کے ذریعے سے ‘ فوج کشی کے ذریعے سے ‘ ان ’’دہشت گردوں‘‘کو بھی اور ان کو پناہ دینے والوں کو بھی ختم کر دیں۔ یہ کام محض انھیں ختم کرنے سے پورا نہیں ہو گا بلکہ اس کے لیے ہمیں قوت کا ایسا استعمال کر نا پڑے گا جس کے نتیجے کے طور پر ہزاروں لاکھوں انسانوں کی جا نیں جا ئیں گی‘ بستیاں تباہ ہوں گی‘نقل مکانی ہوگی اور بالآخر ان ملکوں پر فوجی قبضہ ہوگا۔ دو سرا را ستہ یہ ہے کہ ہم اپنی پالیسیاں تبدیل کریں ۔ ان سے بات چیت کریں اور کوئی را ستہ نکالیں ۔اس کا کہنا یہ ہے کہ پہلا ہم کرسکتے ہیں لیکن اس کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ اور یہ بھی ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ آیا اس سے فی الحقیقت تمام خطرات       ختم ہوجائیں گے ۔البتہ اس سے جو کچھ حاصل ہو گا وہ یہ ہے کہ امریکا کو دنیا میں مسلم دنیا میں ایک نئی قابض قوت بننا پڑے گا۔ گو یا کہ جس طرح سترھویں‘ اٹھارھویں‘ انیسویں اوربیسویں صدی کے وسط تک سامراج قابض تھا وہ را ستہ ہمیں اختیار کر نا پڑے گا۔کیا ہم یہ کر سکتے ہیں ؟ اور کیا  یہ قبضہ بہت عرصے چل سکتا ہے؟ اور کیا امریکی قوم اس کے لیے مسلسل قربانی دینے کو تیار ہے؟ لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ موصوف یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ دوسرا راستہ بھی ہم اختیار نہیں کرسکتے کہ ہم اپنی پا لیسیاں بد ل لیں۔ یہ بھی ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ پھر کیاکریں ؟

وہ کہتا ہے کہ پھر تیسرا را ستہ یہ ہے کہ ہم مسلم دنیا میں ’قوم سازی‘ (nation building) کریں ۔اس کے معنی یہ ہیں کہ وہاں کے نظامِ تعلیم کو‘میڈیا کو‘نو جوانوں کو ‘حکمرانوں کو ‘ان سب کو اپنے زیرِ اثرلائیں ۔ یہ کام جمہو ریت ‘ آزاد روی(لبرلزم) اور Globalizationیعنی عالم گیریت کے نام پر کیا جائے۔ اس کا دائرہ کار بڑا وسیع اور متنوع ہے۔ اس میں معیشت ہے ‘اس میں کلچر ہے‘ اس میں افکار ہیں ‘اس میں پارلیمنٹیرینز کی تر بیت ہے ‘اس میں طلبا کے تبادلے ہیں ‘اس میں میڈیا کو ہر قیمت پر استعمال کر نا ہے۔ یہ ’قوم سازی‘ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے ایک چوتھی چیز اور چا ہیے‘ اور وہ یہ ہے کہ امریکا ایک نئی قسم کی سلطنت (imperial power) بنے۔جس کے لیے اس نے Liberal Empire کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ آپ قابض تو نہ ہوں ‘لیکن ذہنوں پرقبضہ کریں ‘معیشت کو گرفت میں لائیں‘بین الاقوامی تجارتی کمپنیوں اور این جی اوز کے ذریعے سے معاشرے کو اپنی گرفت میں لے آئیںاور اپنے اثر ورسوخ کو اتنا بڑھا لیں کہ ان ممالک کی قیادتیں اور ان کے کارفرما عناصر آپ ہی کے مطلب کی کہیں۔ ساتھ ہی یہ پیغام بھی دے دیا جائے کہ اگر ہمارے نقشے کے مطابق کام نہیں کرو گے اور ’’لبرل میانہ روئی‘‘ اختیار نہیں کرو گے تو قوت استعمال کی جا ئے گی،’سزا دی جا ئے گی‘۔ لفظ استعمال کیا ہے punishmentکا اور اس punishment میںدو چیزیں ہیں ۔ پیش بندی کے طور پر حملہ (preemptive strike) جس کے معنی یہ ہیں کہ جہاں خطرہ محسوس ہو وہا ں فوج کشی کر ڈالو۔ کوئی ثبوت ہو نہ ہو‘جیسا عراق اور افغانستان میں کیا ہے۔اورregime changeیعنی حکمران مفید مطلب نہ ہوںتو ان کو بدل کرمفید مطلب لوگوں کو اوپرلاؤ ۔ یہ وہ نیا ماڈل ‘نیا نمونہ اور نیا نقشہ ہے جس کے مطابق عمل کر کے وہ سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے اقتدار کو قائم رکھیں گے۔

ہم جس مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں وہ یہ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس کا مقابلہ کیسے کیا جائے ؟اس کا مقا بلہ کر نے کا ایک طریقہ تو یہ ہے۔ اور یہ میں اس مفروضے پر کہہ رہا ہوں کہ ۱۱ستمبر کا واقعہ مسلمانوں نے کیا تھااور جسے وہ القاعدہ کہتے ہیںوہ اس کے ذمہ دار تھے ۔گو اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس وا قعے کے بعد بن لادن نے‘ القاعدہ نے‘ officially انکار کیا تھا کہ ہم اس کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب امریکا نے طالبان سے مطالبہ کیا کہ بن لادن کو گر فتار کر کے دے دوتو طالبان نے یہ کہا کہ ہمارے پاس ثبوت لاؤ۔اور اگر تم ہمیں ثبوت نہیں دینا چا ہتے ہو تو کوئی بین الاقوامی عدالتی کمیشن قائم کر دو جس مین تین مسلمان ممالک کے جج ہوں‘ان کے سا منے شہادتیں لاؤ ۔اگر وہ طے کرتے ہیں کہ یہ حملہ بن لادن نے کیا ہے تو ہم اسے آپ کو دے دیں گے۔

جو تحقیق آزاد ذرائع سے ہوئی ہے وہ حیران کن ہے ۔ خود امریکا کے تجزیہ نگاروں نے یہ بات کہی ہے کہ اگر ان چار حملوں میں صرف  یہ ۱۹ ہائی جیکر شریک تھے تو یہ کام ہو نہیں سکتا‘ جب تک کہ ان کے ۵۰‘۶۰ معا ونین امریکا میں زمین پر مو جود نہ ہوں اور خصوصیت سے ان ہوائی اڈوں پر جہاں سے یہ جہاز گئے ہیں ۔اس لیے کہ جس precision کے ساتھ ‘جس چابک دستی سے‘ ٹھیک ٹھیک نشانے پر اور بڑے مؤثر طریقے سے یہ اقدام ہوا ہے وہ کمپیوٹرائزکیے بغیر ہو نہیں سکتا۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ۷۴۷جہاز کو ایسے لوگ جن کو Executive Plan چلانے کی تربیت دی گئی ہووہ فضا میں اس جہاز پر قبضہ کر سکیں‘پا ئلٹ کو ہٹا دیں ‘ اسٹیرنگ پر آجائیں۔ اور پھر نیویارک جہاں دو ہزارفلک بوس عمارتیں تھیں اس میں سے متعین طور پر ایک خاص ٹاورکو اور وہ بھی ایک خاص مقام پر جا کر ہٹ کریں ۔ پھراس کے اٹھارہ منٹ کے بعد دوسرا ٹاور۔ اس کے چالیس منٹ کے بعدپینٹاگون ۔ یہ سب ممکن نہیں ۔ پینٹاگون کی عمارت تو صرف تین منزلہ تھی۔ اس کے بارے میں جو کتابیں آئی ہیں ان سے معلوم ہو تا ہے کہ خودپہلا اعلان جو وہاں ہواوہ یہ کہا گیا ہے کہ یہ ایک میزائل حملہ تھا۔ عمارت کو اگر آپ دیکھیں تو اس میں ایک بہت بڑاسوراخ ہے اور جہاز کا کوئی ملبہ وہاں نہیں پایاگیا۔ اور جس طرح ٹاور پر حملہ کرنے والے جہازوں کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ جہاز ساراکا سارا تحلیل ہو گیا ‘پینٹاگون میں یہ ممکن نہیں تھا۔ لیکن ۴۸گھنٹے کے اندرپینٹاگون نے چھ بار اپنے سر کاری بیان کو بدلا ہے۔ اور بالآخر اسے جہاز قرار دیا۔

اس بارے میںاتنی چیزیں آئی ہیں ‘میں ان سب کو نظر انداز کر تا ہوں‘ میں کہتا ہوں مان لیجیے کہ انھوں نے یہ اقدام کیا ہے اور اگر فی الحقیقت انھوں نے ہی کیا تھا‘تو میں آپ سے صاف کہنا چاہتا ہوں کہ ان کی جرأت اورسوچ کا فیصلہ تو اللہ کرے گا‘ لیکن بحیثیت مجموعی مسلمانوں کو اور اسلام کو اس سے نقصان پہنچا ہے۔ اور اس کے نتیجے کے طور پرتاریخ تہذیبی مکالمے کے جس رخ پر جا سکتی تھی وہ متاثر ہو ئی ہے۔ اگر کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مقابلہ کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے تو نتائج کے اعتبار سے‘ اسلام کے مزاج کے اعتبار سے ‘ اسلامی احیا کے امکانات کے اعتبار سے ‘ اسلامی دعوت کے اعتبار سے ‘ اسلامی تہذیب وثقافت کے اعتبار سے یہ را ستہ مقصد حاصل کر نے کا راستہ نہیں ہے۔ میں فلسطین اور کشمیر کی جہادی تحریک کی بات نہیں کر رہا‘ میں ٹریڈ ٹاور اور اس قسم کے واقعات پر بات کر رہا ہوںاور یہی وجہ ہے کہ تمام اسلامی تحریکات کے قائدین نے اس کی مذمت کی اور۱۲ستمبر۲۰۰۱کو منصورہ  سے ایک بیان جاری ہوا جس میں یہ کہا کہ ہم اس دہشت گر دی کے اس واقعے کی مذمت کر تے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ اعلان بھی کر تے ہیں کہ دہشت گردی افراد کی طرف سے ہو ‘گروہوں کی طرف سے ہو یا حکومتوں کی طرف سے ہو‘ مساوی طور پر قابلِ مذمت ہیں۔ اصل مسئلہ دہشت گر دی نہیں‘ بلکہ وہ اسباب ہیں ‘ وہ نا انصافیاں ہیں ‘وہ ظلم ہیں اوروہ مسائل ہیںجو لوگوں کو دھکیل دھکیل کر غلط راستے کی طرف لے جا رہے ہیں۔ اور جب تک ان معاملات کو حل نہیں کیا جائے گا دنیا میں امن اور سلامتی کا وجود عنقا رہے گا۔

تحریکِ اسلامی کا یہ ذہن ہے اوریہی ذہن حق پر مبنی ہے۔ جہاں مظلوم مجبور ہو کر تشدد کا راستہ اختیار کر تا ہے ‘دنیا بھر کی تحریکاتِ اسلامی اس کی کیفیت ‘اس کے احساسات ‘ اس کے جذبات کو محسوس کر تی ہیں۔  لیکن تبدیلی اور اسلامی انقلاب اور اسلامی احیا کا راستہ تشدد اور دہشت گردی کا راستہ نہیں ہے ۔ را ستہ وہی ہے جو اسلامی تحریکات نے سنت نبوی ؐاور قرآنی منہج کو سامنے رکھ کر مرتب کیا ہے۔ جہاد کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔ جہاد تو انصاف کے قیام‘ اللہ کے کلمہ کی بلندی اور اخلاقی اقدار کے احیا کے ذریعے انجام دیا جاتا ہے۔

اس پس منظر میں ‘میں اپنی بات کو سمیٹتے ہو ئے یہ کہوں گا کہ سب سے پہلی چیز دشمن کو جانناہے۔دشمن کے ہتھیاروں کو جاننا ہے‘دشمن کے اسالیب اور طریقوں سے واقفیت حاصل کرنا ہے‘ اور ان راستوں اور طریقوں کی تفہیم ہے جن سے یہ یلغار ہو رہی ہے۔ یہ ہمہ جہتی یلغار ہے‘ یہ فکری بھی ہے ‘یہ تعلیمی بھی ہے ‘ یہ ٹکنالوجیکل بھی ہے‘یہ معا شی بھی ہے ‘ یہ سیا سی بھی ہے ‘یہ فوجی بھی ہے۔ اس میں میڈیا بڑا اہم کردار ادا کررہا ہے۔ ہمارے گھروں کونشانہ بنا یا جا رہا ہے۔ ہماری ماؤں‘بہنوں اوربیٹیوں اور بچوں کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔

یہ بات بھی غور کر نے کی ہے کہ کھلے دشمن کا مقابلہ آسان ہو تا ہے لیکن جب دشمن آپ کے اندر سے ایسے عناصر کو استعمال کرے جن کانام اورچہرے آپ جیسے ہوںتو یہ خطرہ اور یہ لڑائی زیادہ گمبھیر اور زیا دہ مشکل ہو جا تی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک نے کفار کے بارے میں جتنی باتیں کہی ہیں ان سے زیادہ منافقین کے بارے میں کہی ہیں۔ہماری یہ جنگ تصادم و یلغار صرف با ہر سے نہیں‘ یہ اندر ونی سبوتاژ بھی ہے۔ آپ دیکھیے کہ مدارس کو نشا نہ بنایا جارہا ہے۔ نظامِ تعلیم کو بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

وہ مسلم دنیا کو چار گروہوں میں پیش کر رہے ہیں۔ ایک کو وہ کہتے ہیں بنیاد پرست۔ جو ان کی نگاہ میںدہشت گرد ہیں۔ دوسرے کو وہ کہتے ہیں قدامت پر ست۔جو ہیں توروایت اور اسلامی اقدار کے حامی لیکن وہ کوئی بڑا چیلنج نہیں ہیں۔بس وہ اپنی روایات کے علم بردار ہیں۔ تیسرے ہیں ماڈرنسٹ‘لبرل اورچوتھے ہیں کھلے کھلے سیکولرسٹ ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ان کو آپس میں لڑانا چا ہیے۔سا ری قوت ہماری اس پرصرف ہو نی چا ہیے کہ اسلام کو ایک روشن خیال میانہ روی کے مذہب کے طور پرپیش کیا جائے ۔ہم ان کی تا ئید کریں اوران کی تقویت کاذریعہ بنیں ۔ ان کے ذریعے ہم مسلمان معاشرے کو اندر سے تباہ کریں۔

تو یہ حملہ با ہر سے بھی ہے اور اندر سے بھی ہے۔ اور مسلمانوں کی سیاسی اور معا شی قوتوں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔

اس کا مقابلہ کر نے کے لیے سب سے پہلی چیزیہ ہے کہ ہم دشمن کو سمجھیں۔ دو سری چیزیہ ہے کہ ایک ہمہ جہتی حکمت عملی بنائیں‘محض کسی ایک ٹارگٹ کونہ لیں۔اور تیسر ی چیز یہ ہے کہ ہم ہر میدان میں مقابلہ کریں اوراس کی تیاری کریں ۔ مقابلے کے ساتھ ساتھ ڈائیلاگ اور مذاکرہ بھی کریں۔ لیکن یہ یاد رکھیں کہ آخری حل مذاکرات سے نہیں ہوگا۔ اپنے صحیح وقت پر ایک ہمہ گیر معرکے کے لیے آپ کو تیار ہو نا ہے۔ لیکن وہ تیاری دہشت گر دی کے اقدامات کے ذریعے نہیں ہوسکتی اور نہ یہ اس کے ممدومعاون ہوسکتے ہیں۔اس کا راستہ یہ ہے کہ عوامی جدوجہد کے ذریعے اپنے اپنے ملک میں اسلامی قیادت کو اوپر لائیں اور پھر ان ممالک کو اسلام کا حقیقی قلعہ بنائیں۔ یہی وہ جنگ ہے جو پاکستان میں ہم لڑرہے ہیں۔ اور یہی وہ جنگ ہے جو تحریکِ اسلامی ہر ملک میں لڑ رہی ہے اور یہی وہ طریقہ ہے جس سے ہم اس تہذیبی تصادم کا مقابلہ کر سکتے ہیں ۔ یہ کوئی وقتی جنگ نہیں ہے یہ کوئی شارٹ ٹرم جنگ نہیں ہے۔ بلا شبہ اس کے وقتی تقاضے بھی ہیں اور شارٹ ٹرم تقاضے بھی ہیں لیکن اصل جنگ لمبی ہے اور ہمیں اپنے آپ کو اس کے لیے تیار کرنا ہے اور پوری بالغ نظری کے ساتھ اس کام کو انجام دینا ہے ۔

اس سلسلے میں سب سے اہم چیز اُمت کو اسلام کی بنیاد پر فکری‘ عملی‘ اخلاقی‘ نظریاتی‘ تعلیمی‘ معاشی‘ تہذیبی ہر اعتبار سے مضبوط تر کرنا ہے۔ اس کے رشتے کو ایک طرف اللہ تعالیٰ سے اس طرح جوڑنا ہے کہ صرف اس کی مدد پر ہمارا بھروسہ ہو تو دوسری طرف اس کے فراہم کردہ وسائل کو اس کے بتائے ہوئے دین کی سربلندی اور اہداف کے حصول کے لیے منظم اور مرتب کرنا ہے۔ جن کو دنیا میں بڑی طاقتیں کہا جاتا ہے وہ عارضی اور بالآخر فنا ہونے والی ہیں۔ باقی رہنے والی قوت صرف حق کی قوت ہے۔ اللہ پر بھروسا اور اُمت کی صحیح خطوط پرتیاری ہی وہ راستہ ہے جس سے اس یلغار کا مؤثر مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے ایمان‘ مادی اور اخلاقی قوت‘ اتحاد اور باہمی تعاون اور سب سے بڑھ کر مسلسل اور صبرآزما جدوجہد درکار ہے۔ اقبال نے مسجد قرطبہ کے سائے میں جو پیغام اُمت مسلمہ کو دیا تھا وہ اسی جدوجہد کا پیغام تھا    ؎

جس میں نہ ہو انقلاب‘ موت ہے وہ زندگی

روحِ امم کی حیات‘ کش مکشِ انقلاب

اور یہ منزل رب سے تعلق‘ اسوہ نبویؐ کے مطابق جدوجہد‘ اور ہر قربانی کے لیے تیاری ہی سے حاصل ہوسکتی ہے     ؎

نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر

نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر

یہی وہ صحیح حکمتِ عملی ہے جس سے مغربی تہذیب کی اس یلغار کا مقا بلہ کیا جا سکتا ہے ۔

جس طرح فرعون نے انا ربکم الاعلٰی کا نعرہ لگایا تھامگر ذلت کی موت مرا ‘اسی طرح برطانیہ کے شاہ لوئی چہاردہم(xiv) نے دعویٰ کیا تھا کہ "I am the State" لیکن وہ اور اس کی سلطنت جلد ہی قصہ پارینہ بن گئی۔ آج کے فرعون اور لوئی بھی اُسی زبان میں بات کررہے ہیں اور اپنے حشر سے بے خبر ہیں۔ ہم امریکا کی قیادت اور اس کے عزائم پر مسلسل تنقید کر رہے ہیں اور درپیش خطرات کا پورا شعور رکھتے ہیں لیکن اس کے ساتھ تبدیلی کی ان لہروں پر بھی نظر ضروری ہے جو غالب نظام اور مغرور حکمرانوں کو چیلنج کر رہی ہے۔

یہ ردعمل عوامی سطح پر تو اول روز سے موجود ہے لیکن اب مقتدر حلقوں میں بھی اختلافی آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی ہیں جو استبدادی قوتوںکے لیے زوال کے آغاز کی علامت ہیں۔ ۱۱؍۹ کمیشن کی کارروائیوں اور رپورٹوں نے امریکی قیادت کے دعوئوں کا پول کھولنا شروع کر دیا ہے۔ پارلیمنٹ کی مختلف کمیٹیاں امریکا اور برطانیہ میں پالیسیوں کے پاے چوبیں کی نشان دہی کررہی ہیں۔ صحافی اور اہلِ قلم اب کھل کر بات کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ڈھائی سال کے حیص بیص کے بعد امریکا کی عدالت عالیہ نے گوانتاناموبے کے قیدیوں کے سلسلے میں پہلا اہم فیصلہ دیا کہ ان کے حق دفاع کو مستقلاً معطل نہیں رکھا جا سکتا اور عدالت نے اپنے فیصلے میں اس اصول کا بھی اعادہ کیا ہے کہ ’’جنگ ہو یا دہشت گردی کا خطرہ‘ انتظامیہ کو لوگوں کو ان کی آزادیوں سے محروم رکھنے کی کھلی چھٹی نہیں دی جا سکتی‘‘۔ عدالت نے اس کلیے کو بھی بیان کیا ہے کہ:

"A state of war is not a blank cheque for the president".

حالتِ جنگ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صدر جو چاہے کرے۔

عوامی سطح پر صدر جارج بش کی قباے شاہانہ کو تار تار کرنے کا کام ایک بہت ہی غیرمتوقع انداز میں ہو رہا ہے۔ ایک مشہور فلم ساز اور آسکرایوارڈ حاصل کرنے والے اداکار مائیکل مور (Michael Moore) نے ایک دستاویزی فلم بنائی ہے جسے امریکا (ہالی ووڈ)کے وال ڈزنی نے تو جاری کرنے سے انکار کر دیا مگر فرانس کے کینزکے میلے کو اس نے لوٹ لیا۔ اب یہ فلم امریکا اور یورپ میں دکھائی جارہی ہے۔ اس کا عنوان ہے فارن ہائٹ ۱۱/۹ (Fahrenheit 9/11)۔ اس فلم میں جارج بش کا اصل چہرہ اور استعماری کردار‘ نیز سعودی حکمرانوں سے ان کی اور ان کے خاندان اور ساتھیوں کے تعلقات کی پوری داستان بیان کی گئی ہے اور دکھایا گیا ہے کہ اس امریکی حکمران ٹولے نے اپنے سامراجی مقاصد اور دنیا کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے کس طرح ۱۱/۹ کو استعمال کیا ہے۔ اس کا ایک مرکزی کردار وہ بدنصیب ماں ہے جس نے اپنے بیٹے کو اپنا پیٹ کاٹ کر فوج میں بھرتی کرنے کے لیے تیار کیا اور جسے وہ اپنا سہارا سمجھ رہی تھی مگر کس طرح عراق کی جنگ نے اسے بے سہارا کر دیا۔ یہ ایک ماں کی نہیں پوری امریکی قوم کی کہانی ہے۔ انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون کے کالم نگار پال کروگ مین (Paul Krugman) کے الفاظ میں یہ فلم اپنی ایک گونہ جانب داری کے باوجود ۱۱/۹ اور اس کے بعد کے کھیل کے بارے میں ان حقائق سے پردہ اٹھاتی ہے جن سے امریکی عوام کو بے خبر رکھا گیا تھا۔

یہ ان لیڈروں کے بارے میں ضروری سچائی بیان کرتی ہے جنھوں نے ایک قومی المیے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا اور جس کی قیمت ایک عام امریکی نے ادا کی۔ (انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹریبون‘ ۵ جولائی ۲۰۰۴ئ)

ارجنٹائن کا صدر ہیوگو شاویز (Hugo Chavez ) سوال کرتا ہے کہ:

"Who gave the United States a whistle to be the world's refree?"

امریکا اپنی تمام چابک دستی اور اثرورسوخ کے باوجود اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے امریکی فوجیوں کو جنگی جرائم سے مستثنیٰ رکھنے کی قرارداد منظور نہیں کرا سکا اور آخری وقت پر اسے اس قرارداد کو واپس لینا پڑا۔ امریکا کی ساری کوشش کے باوجود اسرائیل کو جنگ کی عالمی عدالت میں منہ کی کھانی پڑی اور ۱۵ میں سے ۱۴ ججوں نے (صرف امریکی جج نے فیصلے سے اختلاف کیا) فلسطینیوں کی زمین پر آہنی باڑ بنانے کو خلافِ قانون قرار دیا اور اسے منہدم کرنے کا مطالبہ کیا جس کی توثیق اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی بھاری اکثریت سے کر دی ہے۔

امریکی فوج کے کچھ باضمیر افسر جو عراق سے واپس آئے ہیں صدر بش کی پالیسیوں کی ناکامی کا برملا اعتراف کر رہے ہیں۔۸۲ آرمڈ ڈویژن کا ایک افسر اعتراف کرتا ہے کہ صدر بش کے Mission Accomplishedاور عراق کی مبینہ آزادی کے اعلان کے بعد جو کچھ ہوا وہ مشن کی تکمیل نہیں بلکہ قتل و غارت گری کی نئی دوڑ کے سوا کچھ نہیں۔

ایک دفعہ پھر ہر طرف جنگ کی کیفیت تھی لیکن اس دفعہ آپ کا مقابلہ سول مزاحمت کاروں سے تھا۔ ہم عوام سے لڑ رہے تھے۔ ہر گھر‘ ہر چھت‘ ہر صحن‘ ہر اسکول کا میدان ایک مورچہ بن گیا تھا۔ ایک چیک پوائنٹ پر ایک نوجوان لڑکی نے کسی خوف کے بغیر مجھ سے بہترین انگریزی میں کہا: اگر میں تم کو قتل کر سکتی‘ تو ایسا ضرور کرتی۔

فلوجہ نے مجھے جنگ اس تناظر میں دکھائی۔ اگر ہم پورا شہر بھی روند کر رکھ دیتے اور اس کو ایک کھنڈر میں تبدیل کر دیتے‘ تب بھی ہم جیت نہیں سکتے تھے۔(فریڈرک ایف کلیرمونٹ: Faluja: A New Beginning بہ حوالہ: اکانومک اینڈ پولٹیکل ویکلی‘ ۳ جولائی ۲۰۰۴ئ)

کلیرمونٹ کے الفاظ میں فلوجہ میں جو کچھ ہوا ہے اگر کسی مثال سے بیان کیا جا سکتا ہے تو وہ اسٹالن گراڈ ہے جس نے دوسری جنگ کا رخ بدل دیا۔

اسٹالن گراڈ سے مقابلہ اس لیے مناسب ہے کہ وہ بھی جنگ میں ایک فیصلہ کن موڑ  (turning point ) تھا۔ فلوجہ عوامی شعور کے ایک نئے دور کا آغاز تھا جس میں صدام اور بعثی نظریہ بے معنی ہوگیا۔ مرد اور عورت‘ شیعہ اور سنی‘ عیسائی اور کُرد‘ سب شانہ بشانہ لڑے۔ یہ ایک نیا قومی شعور ہے جو مذہبی‘ اجتماعی اور سیاسی تفریقات سے بالا ہے۔ قابض فوج کی شعیوں اور سنیوں کو ایک دوسرے سے لڑانے کی کوشش بری طرح ناکام ہوئی۔ فلوجہ اس جدوجہد کی استعمار دشمن نوعیت کی علامت تھا۔ یہ عرب دنیا میں ایک نیا عنصر ہے اور آج قوم کی حرکی خصوصیت ہے۔

اب امریکی دانش ور یہ سوچنے اور کہنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ صدر بش اور ان کے ساتھیوں کا سارا کھیل ناکام رہا ہے۔ اس سلسلے میں مشہور دانش ور اور کالم نگار نکلسن کرسٹوف (Nicklson D. Kristof)کا مضمون "The Arrogance of Power" بہت چشم کشا ہے۔ وہ لکھتا ہے:

اگر صدر بش اپنی عراقی مہم کو بچانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے تجویز ہے : جارج ٹینٹ جیسے سی آئی اے کے خوشامدیوں کے ساتھ کم وقت گزاریں اور زیادہ وقت الجزیرہ ٹیلی ویژن دیکھیں۔

بش انتظامیہ کے خفیہ اطلاعات کے نظام کا مرکزی عنصر یہ نہیں تھا کہ یہ مناسب تعداد میں ٹیلی فون ٹیپ کرنے میں ناکام رہا‘ بلکہ یہ تھا کہ اس نے عراق یا وسیع تر عرب دنیا کے ذہن (mindset)کو سمجھنے کی پروا نہیں کی اور اب بھی نہیں کر رہا۔

صدربش اور ان کے طائفے کے ذہن کی یہ عکاسی مبنی برحقیقت ہے لیکن ستم بالاے ستم کہ مسئلہ محض صدربش کا نہیں عرب اور مسلم ممالک کے حکمرانوں کا بھی اس سے مختلف نہیں۔ اور مزید بدقسمتی ہے کہ خود ہمارے حکمران بھی اسی مرض کا شکار ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فتح کے ڈھول پیٹ رہے ہیں۔ یہ سب ہی اپنے عوام کے جذبات‘ احساسات اور عزائم سے لاتعلق ہیں اور آج کے نیرو (Nero) کا کردار ادا کررہے ہیں۔ اس پر بھی کیا یہ سب یہ توقع رکھتے ہیں کہ ان کا حشر بھی نیرو کے حشر سے مختلف ہوگا؟

شماریات (Statistics) کی بحیثیت ایک علم عمر اب ۱۰۰سال سے زیادہ ہے۔ اس زمانے میں زندگی کے ہر شعبے کے بارے میں قابلِ اعتماد اعداد و شمار کی اہمیت بے انتہا بڑھ گئی ہے اور معاشی اور معاشرتی منصوبہ بندی میں اعداد و شمار کا کردار روز بروز بڑھ رہا ہے۔ حکومت اور مختلف اداروں کی کارکردگی کا پیمانہ بھی یہی اعداد و شمار بن گئے ہیں۔ ان حالات میں اعداد و شمار کو جمع کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے والے اداروں کو مرکزی اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔ ایک زمانے میں تو شماریات کو ناقابلِ اعتماد گورکھ دھندا سمجھا جاتا تھا اور ایک ماہرِ شماریات نے یہاں تک لکھ دیا تھا کہ جھوٹ تین قسم کے ہوتے ہیں۔

Lies, white lies and statistics, in order of ascendence.

یہ مبالغہ صحیح نہیں۔ البتہ اعداد و شمار کی صحت اور ان کے جمع کرنے اور مرتب کرنے کے نظام کو حکومت کی مرضی پر چھوڑنا بڑا گمراہ کن ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک اس کے لیے متعدد طریقے اختیار کر رہے ہیں جس میں مندرجہ ذیل خصوصی اہمیت رکھتے ہیں۔

۱-            اعداد و شمار کے نظام کو آزاد انتظام کے تحت مرتب کرنا ‘ اس کے لیے قانون کے ذریعے آزاد اداروں کا قیام جن کو دستوری تحفظ حاصل ہو اور جن کے مالی ذرائع حکومتوں کی مرضی پر موقوف نہ ہوں۔

۲-            ہر موضوع کے بارے میں ایک سے زیادہ اداروں کے ذریعے اعداد وشمار کا حصول ‘ تاکہ ایک ہی موضوع کے بارے میں مختلف ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کا تقابل کیا جا سکے۔ نیز متبادل ذرائع کی موجودگی اعداد و شمار میں بددیانتی کرنے کے خلاف ایک مؤثر  رکاوٹ کا کردار بھی ادا کر سکے۔ اس باب میں خصوصیت سے نجی شعبے کے اداروں کی خدمات اہمیت اختیار کرگئی ہیں جو سرکاری ذرائع کے لیے بھی checks & balances کی کیفیت پیدا کرنے کا باعث ہوتی ہے۔

۳-            اب یورپ کے کئی ممالک خصوصیت سے انگلستان میں ایک ادارہ بہت مؤثر کردار ادا کر رہا ہے اور وہ ہے Statistics Commission جس کی حیثیت ایک طرح کے نگراں (Statistics Watch-dog  ) یا محتسب (Statistics-Ombudsman) کی ہے جو دوسروں کی تحریک پر اور خود اپنے اختیار سے (suo moto) شماریات کے پورے نظام پر نگاہ رکھتا ہے ‘اور جہاں کہیں کوئی ایسی تدبیر اختیار کی جاتی ہے جس سے شماریات کی صحت پر برا اثر پڑے‘ یہ کمیشن فوری طور پر احتساب کا فرض ادا کرتا ہے۔

حال ہی میں پاکستان میں بنیادی سال (year base) کو تبدیل کرنے کا کام ۲۳سال کے تغافل کے بعد بہت ہی عجلت میں کیا گیا اور نئی اور پرانی دونوں بنیادوں پر اعداد و شمار اور تبدیلی کے رجحانات کا تقابل شائع نہیں کیا گیا جو علمی اعتبار سے سخت قابلِ گرفت ہے‘ خصوصیت سے اس لیے کہ جس سال کو نیا بنیادی سال قرار دیا گیا ہے وہ غیرمعمولی حالات کا شکارتھا‘ یعنی ۲۰۰۰-۱۹۹۹ئ۔ اسی طرح غربت کی کیفیت اور کمیت کا تعین کرنے کے لیے جو سال میں چار بار ہائوس ہولڈ سروے ہوتے ہیں اور ان کے اوسط کو سال کے لیے غربت کے تعین کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طریقے سے ہٹ کر محض ایک مختصر (یعنی اصل نمونے کے صرف ایک تہائی) نمونے کی بنیاد پر اور وہ بھی صرف ایک سہ ماہی تک محدود رکھ کر جو اعداد و شمار دیے گئے ہیں ان کے بارے میں شدید شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اگر ہمارے ملک میں بھی شماریات کا کمیشن بحیثیت محتسب ہو تو ایسے واقعات پر بروقت گرفت ہو سکتی ہے۔

برطانیہ کے کمیشن نے حال ہی میں قومی شماریات کے دفتر پر سخت تنقید کی ہے کہ اس نے بلاجواز اور تمام حقائق ظاہر کیے بغیر کچھ میدانوں میں اعداد و شمار جمع کرنے کے طریقے میں تبدیلیاں کرڈالی ہیں۔ کمیشن نے یہ اصول بیان کیا ہے کہ:

سرکاری اعداد و شمار پر عوام کا اعتماد اعداد مرتب کرنے کے طریقوں کے معیار سے متاثر ہوتا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار مرتب کرنے کے انتظامات کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کے اعتماد کو تقویت دی جاسکے۔ (گارجین‘ جولائی ۲۰۰۴ئ‘ بیان پروفیسر ڈیوڈرڈ‘ چیئرمین شماریاتکمیشن)

پاکستان میں بھی شماریات کے سرکاری ادارے کی تنظیم نو‘ اس کے تمام معاملات میں مکمل شفافیت اور ایک آزاد کمیشن جو شماریات کے پورے نظام بشمول محکمہ کسٹم اور اسٹیٹ بنک کی فراہم کردہ معلومات پر نگاہ رکھے‘ وقت کی ضرورت ہے۔

جناب جسٹس ناظم حسین صدیقی چیف جسٹس آف پاکستان نے صوبہ پنجاب کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اور سیشن ججوں کی تربیت کی تکمیل پر فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کی تقریب تقسیمِ اسناد میں ملک کے عدالتی نظام پر عوام کے اعتماد کے مسئلے پر بڑے بنیادی اور فکر انگیز خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اس امر کا اعتراف کرتے ہوئے کہ عدلیہ پر عوام کا اعتماد مطلوبہ معیار سے کہیں کم ہے‘ انھوں نے صرف نئے ججوں ہی کو نہیں بلکہ عدلیہ کی ہر سطح پر ذمہ دار افراد کو تلقین کی ہے کہ ’’ہمیں (عدلیہ کو) ملک میں انصاف کے نظام پر عوام کے اعتماد کو بحال کرنا ہوگا‘‘۔ فاضل چیف جسٹس کا ارشاد ہے کہ ’’انصاف کی فراہمی مشکل کام ہے‘ تاہم نئے جج صاحبان اپنی ذہانت اور دل و دماغ کی تمام تر صلاحیتوں کو کام میں لاکر عوام کو انصاف کی فراہمی یقینی بناسکتے ہیں۔ اگر ہمیں ایک مہذب قوم کی حیثیت سے زندہ رہنا ہے تو اسلام کی آفاقی تعلیمات اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کے مطابق انصاف کی فراہمی کو افضل عمل کی حیثیت سے معاشرتی زندگی میں عملی شکل دینی ہوگی اور عوام کا اعتماد نظامِ انصاف پر بحال کرنا ہوگا‘‘۔ چیف جسٹس صاحب نے  یہ بھی کہا کہ ’’ڈسٹرکٹ جج نظام انصاف میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر ضلع کی سطح پر   جج صاحبان انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو پورا نظام انصاف زمین بوس ہوسکتا ہے‘‘۔

جسٹس ناظم حسین صدیقی صاحب نے ایک بڑے بنیادی مسئلے کی طرف عدلیہ اور پوری قوم کو متوجہ کیا ہے اور ہماری اجتماعی زندگی کی ایک نہایت ہی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔ اس وقت ملک کے سارے ہی ادارے سخت اضمحلال کا شکار ہیں لیکن جس ادارے کی اصلاح کی سب سے پہلے اور سب سے زیادہ فکر کرنی چاہیے وہ عدلیہ کا ادارہ ہے۔ اگر حالات کا بے لاگ جائزہ لیا جائے تو بڑے دکھ سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ آج ملک میں عام آدمی کے لیے انصاف کا حصول سب سے مشکل بن گیا ہے۔ پولیس کی بدعنوانی اپنی جگہ‘ لیکن عدلیہ کا ادارہ جس حد تک انصاف فراہم کرنے اور اپنے کو مفادات‘ بااثر عناصر کے دبائو اور خود حکومت وقت کی دراندازیوں سے بالا رکھ کر اصلاح احوال کے لیے جو کردار ادا کر سکتا ہے وہ اس میں کامیاب نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روز بروز عوام کا اعتماد پورے نظامِ عدل پر‘ نچلی سطح سے لے کر اعلیٰ ترین سطح تک بری طرح مجروح ہوا ہے۔ اس باب میں قوم جن مسائل سے دوچار ہے ان میں اہم ترین یہ ہیں:

اولاً ‘قوانین کی بھرمار ہے‘ مگر قانون کا احترام عنقا ہے۔ قوانین کی اکثریت سامراجی دور کا عطیہ ہے اور آزادی کے حصول کے بعد ۵۷ سال گزر جانے کے باوجود ان قوانین میں آزادی کے تقاضوں اور اسلامی قانون و روایات سے ہم آہنگی کے حصول کے لیے کوئی ہمہ گیر تبدیلی نہیں کی گئی۔ دسیوں قانونی کمیشن بنے ہیں اور اسلامی نظریاتی کونسل اور اعلیٰ عدالتی کمیشن  نے سفارشات پیش کی ہیں لیکن حکومت اور پارلیمنٹ نے ان پر کوئی توجہ نہیں دی ہے۔ حالانکہ ۱۹۷۳ء کے دستور کے تحت بنیادی حقوق کے نقطۂ نظر سے ملک کے قوانین کی اصلاح کا کام دوسال کے اندر اور اسلامی احکام و قوانین کے اعتبار سے سات سال کے اندر مکمل ہوجاناچاہیے تھا۔ آج بھی اگر پارلیمنٹ دن رات اس کے لیے کام کرے تو یہ مقصد ایک متعین مدت میں حاصل ہو سکتا ہے۔ اس سے عوام او رعدلیہ دونوں کا کام آسان ہو جائے گا۔

دوسری بنیادی چیز ہر سطح پر عدلیہ میں ججوں کے انتخاب‘ ان کی تربیت اور احتساب کے نظام کا مؤثر ہونا ہے۔ ججوں کے انتخاب میں دو ہی بنیادیں مرکزی حیثیت رکھتی ہیں‘ یعنی قابلیت (merit) اور دیانت(integrity)۔ زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح عدلیہ میں بھی تقرر کا نظام نہایت ناقص اور سیاسی اور دوسری مصلحتوں کے تابع ہے جس کے نتیجے میں ہر سطح پر عدلیہ میں ایسے عناصر در آئے ہیں جن کی صلاحیت اور دیانت دونوں شک و شبہے سے بالا نہیں۔ عدلیہ کو جس تربیتی نظام اور جس نظام احتساب کی ضرورت ہے وہ نہایت غیر مؤثر ہے۔ دستور نے اعلیٰ عدالتوں کے لیے تقرری کا جو نظام تجویز کیا ہے اس پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے۔ حالیہ تجربات اور دنیا کے دوسرے ممالک کے اقدامات کی روشنی میں جن چیزوں کی فوری ضرورت ہے وہ یہ ہیں:

ا-             عدلیہ کو مکمل طور پر انتظامیہ سے آزاد کیا جائے اور اس سلسلے میں طے شدہ پالیسیوں پر مکمل طور پر عمل ہونا چاہیے۔ جس میں مرکزی وزارت قانون میں ججوں کا بطور سیکرٹیری تقرر اور صوبوں کے چیف جسٹس صاحبان کا قائم مقام گورنر مقرر کیا جانا بالکل ختم ہونا چاہیے۔

۲-            ججوں کے تقرر کا نظام بھی اصلاح طلب ہے اور اس کے لیے بھارت کے حالیہ انتخابات کی روشنی میں اس پر غور ہونا چاہیے کہ دستوری ترمیم کے ذریعے ایک بالکل آزاد ادارہ نیشنل جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے جو مرکز اور صوبوں کی سطح پر ججوں کے تقرر کے لیے صدرمملکت کو ایک پینل کی سفارش کرے اور صدر اسی پینل میں سے تقرر کا پابند ہو۔

۳-            ججوں کی تعداد میں بھی ضرورت کے مطابق اضافے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ملک میں مقدمات کی بھرمار ہے اور پورے ملک میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد مقدمات (۵ ہزار سے زائد سزاے موت کے مقدمات) زیرسماعت ہیں۔ انصاف میں تاخیر انصاف سے محرومی کی ایک شکل ہے۔ ہمارے ملک میں حال یہ ہے کہ مقدمے کے فیصلے کے انتظار میں زندگی کے دن تمام ہوجاتے ہیں مگر مقدمے سے نجات نہیں ملتی۔ اس کی کئی وجوہ ہیں جن میں ججوں کی تعداد کی کمی‘ ججوں کی اسامیوں کا بلاجواز خالی رکھنا (اس وقت اعلیٰ عدالتوں میں مجموعی طور پر ۲۶ سیٹیں خالی ہیں‘ سپریم کورٹ میں ۴‘ لاہور ہائی کورٹ میں ۱۲‘ سندھ میں ۶‘ پشاور میں ۲ اور بلوچستان میں ۱۲)‘ وکیلوں کا بار بار مقدمات کی سماعت ملتوی کرانا‘ عدالت کے انتظامی نظام میں کرپشن اور ناقص کارکردگی‘ ججوں کی کارکردگی کے جائزے اور احتساب کے نظام کی کمزوریاں قابل ذکر ہیں۔ دنیا بھر میں قاعدہ ہے کہ ایک مقدمہ جب ضروری تفتیش مکمل ہونے کے بعد شروع ہوجاتاہے تو پھر اسے فیصلے تک تسلسل سے جاری رکھا جاتا ہے۔ مقدمات کے فیصلے میں تاخیر کی ذمہ داری عدالت‘ پولیس ‘ وکلا اور عوام سب پر آتی ہے اور اس کے مؤثر تدارک کی ضرورت ہے۔

۴-            ججوں کی مدت ملازمت پر بھی معروضی انداز میں غور کرنے کی ضرورت ہے۔نیز ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد مختلف بامعاوضہ ذمہ داریوں کے لیے ان کے دستیاب ہونے کے بھی اچھے نتائج سامنے نہیں آتے ہیں۔ اس لیے اس مسئلے پر ازسرنو غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھائی جائے‘ پنشن میں اتنا اضافہ ہو کہ ان کو ملازمت کی حاجت نہ رہے اور ان کی صلاحیتوں سے صرف تعلیم‘ تحقیق اور نیم عدالتی نوعیت کے کاموں میں فائدہ اٹھایا جائے جس کی کوئی تنخواہ نہ ہو بلکہ صرف ضروری سہولتیں فراہم کی جائیں۔ اس طرح مدت ملازمت کے بعد کی ترغیبات کا دروازہ بند کیا جا سکتا ہے۔

۵-            ہر سطح پر ججوں کے تقرر‘ ترقی اور احتساب کا نظام قائم کیا جائے۔

۶-            ہر سطح پر ججوں کے لیے تربیت‘ تحقیق اور کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے ضروری انتظامات کیے جائیں۔

۷-            عدلیہ کے حضرات کو خود بھی اپنے احتساب کی فکر کرنی چاہیے۔ جسٹس محمد منیر سے لے کر جسٹس ارشاد احمد خان تک جج حضرات میں سے کچھ نے جس طرح سرکاری اثرات کو قبول کیا اور قانون اور عدل پر سیاسی اثرات کو قبول کیا‘ وہ عدلیہ پر عوام کے اعتماد کو مجروح کرنے کا ذریعہ بنا ہے۔ جج حضرات جس طرح سیاسی اور سماجی محفلوں میں شریک ہو رہے ہیں اس سے ان کی غیر جانب داری کا تاثر متاثر ہو رہا ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ جس طرح کا سیاسی کردار ادا کر رہے ہیں وہ ان کے ماقبل کے دور کے بارے میں بھی لوگوں کے اعتماد پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ یہ تمام بڑے نازک معاملات ہیں اور ان کے بارے میں آداب اور روایات کی ذمہ داری خود عدلیہ پر ہے تاکہ اس کا کردار ہر طرح کی انگشت نمائی سے بالا رہے۔

ہمارے دستور کے تحت عدلیہ کی ذمہ داری صرف قانون کی پاسداری کی نہیں بلکہ دستور کی اطاعت اور حقوقِ انسانی کے سلسلے میں عوام کے حقوق کی حفاظت بھی ہے۔ اب تو عدالتی فعالیت (judicial activism) ایک معروف حقیقت بن گیا ہے۔ اس پس منظر میں عدلیہ کا ہر قسم کی سیاسی جانب داری سے پاک ہونا‘ حکومت کے اثرات سے اپنے کو محفوظ رکھنا اور دیانت اور ذہانت کے اعلیٰ ترین معیارات پر پورا ہونا ازبس ضروری ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے عدلیہ پر اعتماد کے مسئلے کو اٹھا کر ان تمام پہلوئوں پر ازسرنو غوروفکر کی دعوت دی ہے۔ ہماری رائے میں اس مسئلے پر کھلی بحث ہونی چاہیے اور پارلیمنٹ کو جلد از جلد اس کو زیرغور لاکر ضروری قانون سازی کر کے اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے۔