مضامین کی فہرست


دسمبر ۲۰۱۶

۲۰۱۶ء اس حیثیت سے یاد رکھا جائے گا کہ پورے سال میں مختلف حلقوں کی طرف سے ’جمہوریت کو خطرہ ہے‘ کی گھنٹیاں بجائی جاتی رہی ہیں۔ ستمبر اور نومبر تو وہ مہینے ہیں جب سول اور  نیم عسکری ہرحلقے سے یہ راگ کچھ زیادہ ہی اُونچے سُروں میں الاپا گیا۔ اللہ اللہ کر کے نومبر اپنے اختتام کو پہنچا۔

جنرل راحیل شریف بڑی عزت اور اعزاز سے اپنی دستوری مدت ملازمت پوری کرکے، کسی توسیع سے دامن بچاتے ہوئے رخصت ہوئے اور فوج کی نئی کمانڈ نے ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر کیا جائے کم ہے۔ اللہ تعالیٰ اس ملک کو ہر طرح کی آمریت اور جبر کی حکمرانی سے محفوظ رکھے۔ دستور اور اس کے قائم کردہ سب ادارے اپنے اپنے دائرے میں مؤثر خدمات انجام دیں۔ ریاستی اُمور اور قومی زندگی کو چلانے کے لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور نے جو سرخ لکیر یں واضح طور پر کھینچ دی ہیں، ان کا سب احترام کریں۔ پھر نظم و ضبط یا چیک اینڈ بیلنس کا جو نظام دستور نےقائم کیا ہے اور جو جمہوری کلچر میں معتبر ہے، وہ مؤثر اور متحرک رہے، انحراف کی تمام مخلصانہ یا شرانگیز کوششیں ناکام و نامرا د ہوں، اور یہ ملک سارے خطرات سے محفوظ رہے۔ آمین!

اس سخت اور خطرناک مرحلے سے کامیابی سے گزرنے پر، جہاں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں، اور جنرل راحیل شریف کو ان کے معیاری پیشہ ورانہ کردار اور ہر طرح کی اشتعال انگیز یوں اور ترغیبات سے دامن بچا کر گزر جانے پر ہدیۂ تبریک پیش کرتے ہیں، وہیں قوم اور اس کے تمام بہی خواہوں اور خصوصیت سے سوچنے سمجھنے والے باثر افراد کو غوروفکر کی دعوت دینا چاہتے ہیں، کہ جمہوریت کو بچانے یا جمہوریت کی بساط لپیٹنے کے باب میں اس زمانے میں جو کچھ ہوا، اس کا  بے لاگ جائزہ لیں۔ خرابی جہاں بھی ہے اور خطرات جن دروازوں پر دستک دیتے رہے ہیں،  ان کو شناخت کرنا اور آیندہ کے لیے پیش بندی کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے اور اس سلسلے میں غفلت بڑی مہنگی پڑسکتی ہے۔

ہم پوری دل سوزی سے بات کا آغاز اس حوالے سے کرنا چاہتے ہیں کہ کیا یہ لمحۂ فکریہ نہیں ہے کہ پاکستان ہی کی تاریخ میں غالباً یہ منفرد واقعہ ہے کہ جس میں فوج کے ایک سربراہ کو وزیراعظم اور صدرِمملکت نے اس طرح رخصت کیا ہے کہ جیسے کسی بڑے خطرے کے ٹلنے پر   وہ سُکھ کا سانس لے رہے ہوں۔

حکومتی حلقے جس انداز میں ہفتوں سے اس مہم کے مقابلے میں جوابی مہم چلائے ہوئے تھے، ملک کے دَر و دیوار پر باربار جس قسم کی تحریریں رُونما ہورہی تھی، میڈیا کےدانش ور اور بعض جیالے جس جوش و خروش سے اور جس زبان میں اپنے اپنے خوابوں کو حقیقت کے رُوپ میں پیش کر رہے تھے اور تاریخوں تک کا ورد کرنے میں کسی بھی احتیاط کو ملحوظ رکھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کر رہے تھے___ الحمدللہ وہ پورا منظرنامہ بدل گیا ہے۔ تاہم، خود جمہوریت کو جو خطرہ  اس پورے کھیل سے اور اس کی ہرشکل اور ہرپہلو سے تھا اور آیندہ پھر کسی نئے عنوان سے سر اُٹھا سکتا ہے اس پر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کرنے اور مستقبل میں اس صورتِ حال سے بچنے کی تدابیر نہ کرنا بڑا عاقبت نااندیشانہ رویہ ہوگا۔

یہ امر تسلیم کرنا ہوگا کہ حکومت اور فوج کے درمیان تنائو یا کش مکش (tension) موجود تھی اور اس کا اظہار عجیب و غریب صورتوں میں ہوتا رہا ہے۔ فوجی ترجمانوں کے بیانات اور سوشل میڈیا پر مختصر پیغامات (tweets) کا تبادلہ یا سہارا بھی معمول کے مطابق نہیں تھا۔ پھر عسکری اور سیاسی قیادت کے درمیان مناقشے پر مبنی گمراہ کن خبر کا روزنامہ ڈان میں شائع ہونا اور اس کے بعد حکومت اور عسکری ذرائع دونوں کی طرف سے حقائق کو بے نقاب کرنے یا معاملات کو اور زیادہ گنجلک کرنے کے سلسلے میں جو کچھ کیا گیا، وہ بڑا تکلیف دہ تھا۔ ایسی بدنما صورتِ حال سے آیندہ بچنے کی فکر ازبس ضروری ہے۔ اس سلسلے میں میڈیا کے ایک بڑے حصے کا کردار بھی بڑا پریشان کن ہے۔ ہم نے دنیا کے کسی بھی مہذب جمہوری ملک کے میڈیا پر ساری آزادی کے باوجود ایسے حساس اُمور پر اس قسم کی لاف زنی کی کوئی مثال نہیں دیکھی۔ ہم اس غیر ذمہ دارانہ رویے کو ملک میں جمہوریت کے مستقبل اور اداروں کے درمیان غلط فہمیوں کے فروغ، نیز تعاون اور توازن کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔

اس پس منظر میں سینیٹ کے چیئرمین جناب میاں رضا ربانی کا انٹرنیشنل پارلیمانی یونین کے پلیٹ فارم سے بیان بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ انھوں نے بجا طور پر جمہوریت کو لاحق خطرات کی احتیاط سے نشان دہی کی ہے اور پارلیمنٹ کی بالادستی، تمام اداروں کے اپنے اپنے حدود میں کام کرنے اور احتساب کے باب میں سب کے لیے مؤثر نظام وضع کرنے اور کسی کے لیے بھی ’مقدس گائے‘ نہ ہونے کی بات کر کے قوم کو بڑے بنیادی مسائل کی طرف متوجہ کیا ہے۔

چیئرمین سینیٹ کی باتوں سے عمومی اتفاق کے ساتھ ہم یہ کہنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ پارلیمنٹ کی بالادستی دستور کے فریم ورک کے اندر ہے اور پارلیمنٹ بھی اسی طرح دستور کی تخلیق (creature) ہے، جس طرح دوسرے تمام ادارے، خصوصیت سے انتظامیہ، عدلیہ، فوج اور آزادیِ صحافت۔

جمہوریت کو جو حقیقی خطرات آج درپیش ہیں، ان میں جہاں فوج، بیوروکریسی اور عدلیہ کا اپنے اپنے دائرے کے اندرمحدود رہنا ضروری ہے، وہیں پارلیمنٹ اور پارلیمانی نظام کی پیداوار حکومت کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ دستور اور جمہوری کلچر اور ان کے اصول و آداب کا پورا پورا احترام کرے۔ سیاسی جماعتوں کی تنظیم اور ان کا کردار بھی جمہوری، دستوری اور آئین کی حکمرانی کے باب میں مرکزی اہمیت رکھتے ہیں۔

فوج کی مداخلت

پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ سیاسی اُمور میں فوج کی مداخلت، خواہ وہ کسی بھی عنوان سے ہوئی ہو اور اس نے کیسی ہی تائیدِ اعتبار (validation) حاصل کرلی ہو، وہ فی الحقیقت   ملک کے لیے نہایت نقصان دہ ثابت ہوئی ہے۔ بات صرف ملک کی سیاست، معیشت، معاشرت اور خارجہ تعلقات تک محدود نہیں رہی، خود ملک کی سلامتی، اس کے نظریاتی اور جمہوری تشخص اور فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیت ہرچیز پر اس کے منفی اثرات پڑے ہیں۔ دفاعی صلاحیت بھی متاثر ہوئی ہے۔ سیاست میں فوج کی شرکت سے نہ صرف کرپشن میں اضافہ ہوا بلکہ خود فوج کا دامن  جس طرح کرپشن سے پاک ہونا چاہیے، وہ بھی داغ دار ہوا ہے۔ اس سب پر مستزاد فوج کا بیرونی حکومتوں سے براہِ راست تعلق، بیرونی قوتوں کا ملک میں دراندازیوں میں خطرناک حد تک اضافے کا ذریعہ بنا ہے۔ یہ عمل جنرل محمد ایوب خان کے زمانے ہی میں شروع ہوگیا تھا، جو جنرل پرویز مشرف کے دور میں اپنی انتہا کو پہنچا ۔ اللہ کا شکر ہے کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے زمانے میں ایک عرصے تک یہ سلسلہ جاری رہنے کے بعد، اس میں کمی آنا شروع ہوئی اور جنرل راحیل شریف کے زمانے میں نمایاں فرق پڑا۔ ہم کس مقام تک گر گئے تھے، اس کا ادراک ضروری ہے، تاکہ بگاڑ کو اس کی ہرشکل میں روکا جاسکے۔

امریکی اثر و رسوخ

جنرل پرویز مشرف نے نہ صرف امریکی صدربش اور وزیرخارجہ کولن پاول کے حکم (ستمبر ۲۰۰۱ء) پر ملک کو امریکیوں کی آماج گاہ بنایا بلکہ ملک کی آزادی و خودمختاری کو پارہ پارہ اور امن و امان کو تباہ و برباد کیا۔ اسی پر بس نہیں، بلکہ ملک کے سیاسی معاملات میں بھی امریکا کو وہ اثر و نفوذ فراہم کیا، جس کا تصور بھی دل ودماغ کو مفلوج کردیتا ہے۔ پاول کے بعد کونڈالیزا رائس امریکا کی وزیرخارجہ اور بش کے زمانے میں کرتا دھرتا تھیں۔ موصوفہ نے اپنی خودنوشت میں جو صورتِ حال بیان کی ہے، وہ غور سے پڑھنے کی چیز ہے۔ اس کے آئینے میں اپنی سیاسی اور فوجی قیادت کی کارگزاریوں سے واقف ہونے کی ضرورت ہے تاکہ اس قسم کے سیاسی کھیل اور ملک کی سلامتی اور مفادات کا سودا کرنے کا دروازہ بندکیا جاسکے۔ جنرل مشرف صاحب آج دستور کی دفعہ۶ سے بھاگتے پھر رہے ہیں اور اب بھی ٹی وی شوز پر غداری کے الزام پر غصے میں آجاتے ہیں، لیکن واقعہ یہ ہے کہ کونڈالیزارائس کی خودنوشت کے آئینے میں ان کی جو اصل شکل نظر آتی ہے، وہ بڑی عبرت ناک ہے۔ اس میں اس وقت کی پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو صاحبہ کا بھی جو کردار سامنے آتا ہے، وہ پاکستان کی آزادی اور خودمختاری کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں۔ بات جب ذاتی مفاد کی ہو تو بدقسمتی سے ہرقیادت، چاہے وہ عسکری راستے سے اقتدار میں آئی ہو یا سیاسی دروازے سے، اس کی جو شکل قوم کے سامنے ہے اس پر شرمندگی ہوتی ہے۔

۲۰۰۷ء کے شروع میں جنرل مشرف صاحب نے خود امریکیوں سے درخواست کی کہ: ’’مَیں بے نظیر بھٹو صاحبہ سے مفاہمت چاہتا ہوں اور اس کے لیے امریکا کی معاونت چاہیے‘‘۔ ان کی اس خواہش کے جواب میں کونڈا لیزا رائس نے درمیانی کردار ادا کیا، جو بالآخر ۴؍اکتوبر ۲۰۰۷ء کو باقاعدہ معاہدے پر منتج ہوا۔ اس سلسلے میں امریکی سفیر متعینہ اسلام آباد پیٹرسن نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ معاہدے کے تین بنیادی نکات تھے:

۱- جنرل پرویز مشرف اپنی وردی اُتار دیں گے۔

۲- بے نظیر صاحبہ اور ان کے شوہر کے خلاف کرپشن کے جو مقدمات ہیں، انھیں ان کی گرفت سے خلاصی اور ضمانت دی جائے گی کہ اس سلسلے میں کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔

۳- دستوری ترمیم کی جائے گی جس کے نتیجے میں تیسری بار وزیراعظم بننے پر [۱۷ویں ترمیم کے ذریعے] جو پابندی ہے، وہ ختم کردی جائے گی۔

اس سارے بول تول اور معاملہ بندی میں امریکی صدر بش براہِ راست شریک تھے اور بے نظیر صاحبہ نے انھیں صاف کہا تھا کہ مَیں جنرل مشرف کے وعدے پر اعتماد نہیں کرتی، اور صرف امریکا کی ضمانت پر اس معاہدے میں شریک ہوسکتی ہیں۔ کونڈا لیزا رائس کے الفاظ:

"She didn’t trust Musharraf", adding that  "I am taking this as a US guarantee that he will".

واضح رہے کہ خفیہ طور پر یہ معاہدہ اس وقت ہو رہا تھا، جب ’لندن معاہدے‘ کے تحت بے نظیر صاحبہ اور میاں نوازشریف صاحب نے یہ عہد کیا تھا کہ ہم میں سے کوئی بھی فوجی حکمرانوں سے بات چیت نہیں کرے گا۔ بلاشبہہ مشرف صاحب نے ۳نومبر ۲۰۰۷ء کی ایمرجنسی کے ذریعے بے نظیر سے کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور بے نظیر صاحبہ نے بھی اس سے براءت کا اعلان کرتے ہوئے اس وقت کے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی حمایت کا اعلان کردیا۔ ڈاکٹر فرخ سلیم ۱۳نومبر ۲۰۱۶ء کے دی نیوز میں یہ ساری تفصیل دینے کے بعد ہماری سیاست اور اس میں امریکا کے کردار کا جو خلاصہ پیش کرتے ہیں وہ یہ ہے:

۱- امریکی پاکستان میں حکومتوں کے بننے اور ٹوٹنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔

۲- امریکی پاکستان میں ایسی قیادت کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالتے ہیں، جسے وہ ’ماڈریٹ‘ تصور کرتے ہیں۔

۳- ہمارے سیاست دان ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے اور عموماً امریکا کی ضمانت چاہتے ہیں۔

۴- امریکی کرپٹ سیاست دانوں کو ’محفوظ‘ کرنے میں مدد کرتے ہیں ۔ (دی نیوز، ۱۳نومبر ۲۰۱۶ء)

امریکا کا ہدف

واضح رہے کہ کونڈا لیزا رائس اپنی سوانح میں اپنے اس کردار کے بارے جو بات لکھتی ہیں وہ ہرپاکستانی کو اچھی طرح سمجھنی چاہیے اور جو نظریاتی جنگ آج عالمی سطح پر ہورہی ہے اس کی نوعیت کو سمجھنا چاہیے۔ پرویز مشرف اور بے نظیر کو شراکت ِ اقتدار کے اسٹیج پر لانے کے لیے امریکا کا اصل محرک کیا تھا؟ اس بارے میں کونڈا لیزا رائس کے الفاظ بہت واضح، اور قوم کے لیے چشم کشا ہیں:

اگر دو حریف طاقت میں تعاون کا معاہدہ کرسکیں، تو اس سے سیاست کا وزن ماڈریٹ (قیادت) کی طرف منتقل ہوجائے گا اور اسلام پسندوں کے وزن کو کم کردے گا۔ جیساکہ سابق وزیراعظم نوازشریف، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستانی سیاست میں دیگر نمایاں شخصیات کے مقابلے میں وہ عسکریت پسندوں سے تعلقات نبھانا چاہتے ہیں۔

مشرف صاحب نے یہی نہیں کیا بلکہ بھارت کی شرائط پر کشمیر کے مسئلے کو پانی پانی کرنے (liquidate ) اور بھارتی قیادت کی وضع کردہ ’دہشت گردی‘ کی تعریف کو قبول کرنے کے جرم کا بھی فخریہ انداز میں ارتکاب کیا جس کے نتیجے میں اصل دہشت گردی کو تحریکِ آزادی اور حقِ خوداختیاری (right of self determination) کی اس جدوجہد کے برابر کی سطح پر لاکھڑا کیا گیا جس بارے میں خود بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے مسئلۂ کشمیر پر ہمارے قومی موقف کو تسلیم کر رکھا ہے۔ اس پسپائی نے ہمارے قومی موقف کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔

پھر مشرف صاحب نے خود ملک کی سیاست میں ان عناصر کو گلے سے لگایا اور انھیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا، جو منظم عسکری قوت کو سیاست میں بے دریغ استعمال کر رہے تھے۔ وہ بھتّا خوری، قتل و غارت گری، ٹارگٹ کلنگ، ناجائز قبضے اور میڈیا اور سیاسی مخالفین کو دہشت زدہ کرنا، ان عناصر کا معمول تھا۔ ان کی قیادت بھارت کی تقسیم کو تاریخی غلطی قرار دیتی تھی، اس نے بھارت کی سرزمین پر پاکستان کے قیام کی مخالفت کی، اور اس کے بارے میں تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں بشمول آئی ایس آئی اور ایم آئی کو یقین تھا کہ بھارت اور اس کی ایجنسی ’را، ان کی مالی سرپرستی کر رہی ہے، ان کی دہشت گردی کی عسکری تربیت کا اہتمام کرتی ہے اور یہ بھارت اور برطانیہ دونوں کے آلۂ کار کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

حال ہی میں صوبہ سندھ میں ۱۴برس تک براجمان رہنے والے گورنر عشرت العباد اور جنرل مشرف کے منظورِ نظر کراچی کے میئر نے ایک دوسرے کے خلاف جو کچھ کہا ہے، حقیقت میں دونوں کے ’ارشادات‘ حرف بہ حرف درست ہیں۔ البتہ سوال ان قیادتوں پر ہے، خواہ ان کا تعلق فوج کے دائرۂ اقتدارسے تھا یا سیاست دانوں کے میدانِ کار سے: یعنی پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ’ن‘ اور مسلم لیگ ’ق‘ وغیرہ کہ جنھوں نے ان عناصر کی نازبرداری کی، انھیں سینے سے لگایا اور انھیں کھل کھیلنے کا ہرموقع فراہم کیا۔

پرویز مشرف چونکہ صدر ہی نہیں، فوج کے سربراہ بھی تھے، اس لیے ان کے دور میں جو کچھ ہوا، عوام کی نگاہ میں اس کی ذمہ داری میں فوج بہ حیثیت ادارہ بھی شریک تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور میں خود فوج کو اپنے جوانوں کو یہ ہدایت دینا پڑی کہ وہ فوجی وردی میں سول ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے سے اجتناب کریں۔ اللہ کا شکر ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے رخصت ہونے کے بعد یہ صورتِ حال ختم ہوئی۔ یوں فوج اور قوم کے اعتماد کا رشتہ بحال ہوا اور خصوصیت سے جنرل راحیل شریف کے دور میں فوج نے پھر وہ عزت اور اعتماد حاصل کرلیا، جو پاکستان کی قومی زندگی میں ہمیشہ اس کا طرئہ امتیاز رہا ہے۔

آگے بڑھنے سے پہلے ہم دل پر پتھر رکھ کر اور ندامت کے احساس کے ساتھ امریکی مداخلت کی ایک اور مثال ضرور قوم کے سامنے لانا چاہتے ہیں تاکہ قوم کو اندازہ ہوسکے کہ ملک کے سیاسی اور فوجی معاملات میں امریکی مداخلت اور اثراندازی کہاں تک پہنچ چکی ہے اور اسلام آباد میں امریکی سفارت خانہ جو اخباری اطلاعات کے مطابق دنیا میں سب سے بڑا امریکی سفارت خانہ ہے، کیا کیا گُل کھلاتا رہتا ہے اور ہماری سیاسی قیادت کس حد تک اس کے ہاتھوں کھیلنے کے لیے تیار ہوجاتی ہے۔

بروس ریڈل جو امریکی سی آئی اے میں اعلیٰ افسر اور امریکا کے چار صدور کے مشیر بھی رہے، وہ اپنی یادداشتوںDeadly Embrace  میں لکھتے ہیں:

واشنگٹن پس پردہ اس مقصد کے لیے متحرک تھا کہ جنرل پرویز کیانی کی اُس مدتِ ملازمت میں توسیع ہو، جو ۲۰۱۰ء میں ختم ہورہی تھی، جب کہ [یوسف رضا] گیلانی کی حکومت جو بعض وجوہ سے جنرل کیانی کو برقرار رکھنا چاہتی تھی اور تین سال کی توسیع دینا چاہتی تھی۔

جمہوریت کو خطرہ سیاست میں فوج کی مداخلت ہی سے نہیں ہے بلکہ فوج اور سیاسی معاملات میں امریکا اور دوسری بیرونی قوتوں کی کارفرمائیوں سے بھی یہ خطر ہ ہے۔ سیاسی قیادت بھی ان معالات میں شریکِ کار رہی ہے۔ یہ رویے جمہوریت، پاکستان کی سلامتی، آزادی، شناخت کی حفاظت، ترقی، عوام کی آرزوئوں اور عزائم کے مطابق تعمیروتشکیل میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ ویسے تو آج جمہوریت کو ساری دنیا ہی میں خطرات سے سامنا ہے۔ یورپ اور امریکا میں شدت پسند اور بند ذہن والی دائیں بازو کی سیاسی قوتوں کے عروج اور سیاسی اُفق پر چھا جانے کے امکانات نے ان خطرات کو اور بھی بڑھا دیا ہے۔ خود امریکا میں حالیہ صدارتی انتخاب (۸نومبر ۲۰۱۶ء) کے جو نتائج سامنے آئے ہیں، وہ آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں۔ پاکستان میں امریکی سفیر نے، اخباری اطلاعات کے مطابق، انتخابات پر ایک تقریب میں اقبال کا سہارا لیتے ہوئے اشارتاً اعتراف کیا ہے کہ   ؎

جمہوریت اِک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں

بندوں کو گِنا کرتے ہیں ، تولا نہیں کرتے

ہم موصوف کی خوش ذوقی، سیاسی جرأت اور سخن فہمی کی تو داد دیتے ہیں، لیکن ان کو یاد کرانے کی جسارت کرتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے سلسلے میں تو امریکی جمہوریت اس (گنتی والے) معیار سے بھی دُور ہی نظر آتی ہے، کیونکہ ہیلری کلنٹن صاحبہ نے ان سے بیس لاکھ ووٹ زیادہ حاصل کیے ہیں۔ تین ریاستوں میں ووٹوں کی گنتی میں گڑبڑ کی بھی خبریں ہیں اور فنڈ ریزنگ مہم جاری ہے کہ وہاں دوبارہ گنتی کرائی جائے جسے Physical recountکہا جاتا ہے ۔

سیاسی معاملات میں فوج کی کھلی یا پس پروہ مداخلت اور قومی سیاسی اُمور پر پبلک اظہارِ راے، جمہوری روایات اور دستور کے الفاظ اور روح سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اسی طرح فوج پر ناروا تنقید اور اسے سیاسی مخالفت یا سیاسی کردار پر اُبھارنا بھی دستور کی روشنی میں ایک سنگین جرم ہے، جس کا یہاں کھلے بندوں ارتکاب کیا جا رہا ہے۔ یہ سلسلہ اب مستقل بنیادوں پر ختم ہونا چاہیے۔ جمہوریت کے استحکام کے لیے یہ اولین ضرورت ہے۔

سیاسی قیادت اور غیر جمہوری رویہ

رضاربانی صاحب نے صحیح کہا ہے کہ فیصلہ سازی کا محل پارلیمنٹ اور اسلام آباد ہے۔ راولپنڈی [یعنی جی ایچ کیو]کا کردار قومی سلامتی اور دفاع کے نقطۂ نظر سے سیاسی قیادت کو باخبر رکھنا اور پالیسی سازی میں بلارُو رعایت اپنی راے پیش کر دینا مسلّم ہے۔ لیکن اصل فیصلہ باہمی مشاورت سے اور سیکورٹی، ڈپلومیسی، ملکی مفادات، عوام کے جذبات و احساسات اور نظریاتی، اخلاقی اصولوں اور ملکی مصالح کی روشنی میں سیاسی قیادت ہی کو کرنا چاہیے، اور معرو ف طریقے سے دستوری اداروں کے ذریعے کرنا چاہیے۔ جنھیں ذاتی اور شخصی ترجیحات اور مفادات سے پاک ہونا چاہیے۔

اس سلسلے میں اگر فوجی قیادت کے لیے لازم ہے کہ وہ حدود کا احترام کرے تو سیاسی قیادت کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ فیصلہ سازی کا وہی طریقہ اختیار کرے، جو دستور نے طے کیا ہے، جس کی حدود اور آداب کو قانون اور اعلیٰ عدالت کے فیصلوں میں بھی واضح کر دیا گیا ہے، مگر بدقسمتی سے ہماری سیاسی حکومتیں ان کا احترام نہیں کرتیں۔ اس طرح وہ صرف جمہوریت ہی کو پامال کرنے کی مرتکب نہیں ہوتیں بلکہ ملک و قوم کو بھی بہترین اور مفید ترین فیصلوں سے محروم رکھتی ہیں۔ یوں اپنے شخصی رجحانات کو فیصلہ سازی پر مسلط کرکے دستور، قوم اور جمہوری کلچر سے بے وفائی کی مرتکب ہوتی ہیں۔

بدقسمتی سے ہماری سیاسی قیادت جمہوری رویہ اختیار کرنے کے بجاے خالص آمرانہ رویہ اختیار کرنے کی بھی مجرم ہے۔ وہ جمہوریت کی جگہ ’بادشاہت‘ کو اپنا ماڈل سمجھتی ہے اور عملاً شاہانہ انداز ہی میں فیصلے کرتی ہے اور شاہانہ انداز ہی میں زندگی گزارتی ہے۔ ہم بڑے دُکھ سے کہتے ہیں کہ دونوں بڑی حکمران جماعتیں اور ان کی قیادتیں اس باب میں ایک ہی جیسا رویہ رکھتی ہیں۔ حزبِ اختلاف اور حکمران جماعت دونوں ہی میں ایک مختصر ٹولا ہے، جو سیاہ و سفید کا مالک بنا ہوا ہے۔

جماعت اسلامی کے سوا کوئی پارٹی ایسی نہیں ہے، جس کے اندر جمہوریت ہو۔ ’پلڈاٹ‘ اور ’فافن‘ کی رپورٹیں اس پر شاہد ہیں، لیکن اگر یہ رپورٹیں نہ بھی ہوتیں تو پوری قوم بچشم سر اس کا مشاہدہ کر رہی ہے۔ مسلم لیگ کی قیادت پر ایک خاندان اور اس کے چند معتمدعلیہ ساتھیوں کو مکمل غلبہ حاصل ہے۔ پارٹی کی نہ حقیقی ممبرشپ ہے اور نہ پارٹی کا اپنا کوئی مشاورتی اور فیصلہ کرنے کا نظام ہے۔ عدالت اور الیکشن کمیشن کے حکم پر نمایشی انتخابات کیے گئے ہیں۔ مجلس عاملہ کا اجلاس ساڑھے تین سال کے بعد صرف انتخابات کی خانہ پُری کے لیے منعقد کیا گیا ہے۔ غضب ہے کہ پارلیمانی پارٹی کا کوئی اجلاس برسوں گزر جاتے ہیں، منعقد نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ مرکزی کابینہ کا اجلاس بھی کئی کئی مہینے منعقد نہیں ہوتا، حالاں کہ ’رولز آف بزنس‘ [ضوابطِ کار]کی رُو سے ہفتے میں ایک بار کابینہ کا اجلاس ہونا چاہیے۔

مَیں گواہی دیتا ہوں کہ جنرل محمد ضیاء الحق کی حکومت جو ایک فوجی حکومت تھی لیکن ایک معاہدے کے تحت ’پاکستان قومی اتحاد‘ جس طرح ساڑھے آٹھ مہینے حکومت میں شریک رہا، اس کی کابینہ کا اجلاس ہرہفتے ہوتا تھا اور کئی کئی گھنٹے بلکہ پورا پورا دن جاری رہتا تھا اور ایک ایک پالیسی ایشو پوری بحث کے بعد طے ہوتا تھا۔ یہ بدقسمتی ہے کہ ۱۹۹۰ کے عشرے میں ’اسلامی جمہوری اتحاد‘ (آئی جے آئی) کی حکومت کے زمانے میں کابینہ کے اجلاسوں کی باقاعدگی میں خلل کا آغاز ہوگیا اور اب تو ایسا بھی ہوا ہے کہ کابینہ کا اجلاس سات یا آٹھ مہینے کے بعد منعقد ہوا ہے، اور سپریم کورٹ کو باقاعدہ اپنے فیصلے میں احتساب کرنا پڑا ہے کہ: ’’وزیراعظم کابینہ کے فیصلے کے بغیر ایسے فیصلے   اور اقدام کر رہے ہیں جن کے وہ مجاز نہیں‘‘۔ حد یہ ہے کہ ٹیکس لگانے، لیوی کا اطلاق کرنے اور ٹیکس سے چھوٹ دینے تک کا کام جو کابینہ کے فیصلے کے بغیر ہوہی نہیں سکتا، وہ بھی بے دریغ انداز میں کیا جارہا ہے۔ دسیوں وزیر ایسے ہیں کہ جو وزیراعظم کا چہرہ مہینوں تک نہیں دیکھ پاتے۔

اسی طرح قومی اسمبلی اور سینیٹ کا بھی یہ حال ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے اور قومی معاملات کے سلسلے میں فیصلوں پر اثراندازی سے مکمل طور پر محروم ہیں۔ حکمران پارٹی کے ارکان تک کسی شمار قطار میں نہیں۔ ان کی سعادت بس یہ ہے کہ اگر وزیراعظم صاحب اسمبلی میں آئیں، جو وہ شاذونادر ہی آتے ہیں کہ گذشتہ ساڑھے تین سال میں وہ صرف ۱۹ فی صدی اجلاس میں شریک ہوئے ہیں، تو اس وقت ممبر لائن لگاکر اپنے کام درخواستوں کی شکل میں پیش کرتے ہیں___    یہ ایک ایسی بدنما مثال ہے جس کی کوئی نظیر جمہوری ملک کی پارلیمنٹوں میں دُور دُور تک نہیں ملتی۔

اسی طرح جو دستوری ادارے ہیں، یعنی: کونسل آف کامن انٹرسٹ، نیشنل اکانومک کونسل، این ایف سی اوارڈ کمیٹی، پارلیمانی کمیٹی براے دفاع و قومی سلامتی، ان کے اجلاس مہینوں تک نہیں ہوتے، جس کے نتیجے میں تمام دوسرے متعلقہ ادارے بروقت مشاورت میں شرکت سے محروم رہتے ہیں۔ اگر چار و ناچار اجلاس ہوتے بھی ہیں تو نہایت عجلت میں، مناسب ایجنڈے اور ورکنگ پیپرز کے بغیر، بس رواروی میں معاملات کو نمٹانے کے لیے۔اصل فیصلہ وزیراعظم خودیا ان کے چند چہیتے وزیر اور مشیر کرتے ہیں ۔ یہ رویہ جمہوریت کی ضد اور اس کے فروغ کے لیے سمِ قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔ جمہوریت کو خطرہ صرف طاقت کے دوسرے ماخذ ہی سے نہیں، سیاسی قیادت کے مجرمانہ رویے کے نتیجے میں طاقت کے اس ارتکاز سے بھی ہے۔جب تک یہ درست نہ ہو جمہوریت پروان نہیں چڑھ سکتی۔

ہم دُکھ سے عرض کرتے ہیں کہ پارلیمان بھی اپنا کردار ادا نہیں کر رہی۔ نصف کے قریب ارکان وہ ہیں، جنھوںنے کبھی تقریر کرنے یا بحث میں حصہ لینے کی زحمت ہی نہیں کی۔ ایک بڑی تعداد بشمول بہت سی پارٹیوں کے سربراہ، وہ کلیدی ارکان ہیں جن کی اجلاسوں میں شرکت ۱۰ فی صد سے بھی کم ہے۔ اسمبلی میں جن ۱۵؍ارکان کی کارکردگی سب سے بہتر ہے، ان میں حکومتی پارٹی کا صرف ایک رکن ہے۔ الحمدللہ اس سلسلے میں جماعت اسلامی کے ارکان کا کردار مثالی ہے۔سب سے بہتر کارکردگی کا اعزاز جمعیت علماے اسلام کی خاتون رکن نعیمہ کشور کا ہے، جن کا اسکور ۷۰ فی صد رہا ہے۔ جماعت اسلامی کے چاروں ارکانِ اسمبلی اوّلین ۱۰؍ارکان میں شامل ہیں اور اس طرح جماعت اسلامی کا اسکور ۱۰۰ فی صد رہا ہے ، جب کہ اسمبلی میں کارکردگی کے حوالے سے سب سے کم شرکت کا سہرا فریال تالپور صاحبہ کا ہے، جو زرداری صاحب کی بہن اور پیپلزپارٹی کی بڑی حد تک کرتا دھرتا ہیں۔ بدقسمتی سے کم ترین کارکردگی دکھانے والوں میں محترم عمران خان صاحب، مسلم لیگ ن کے ’گلِ سرسبد‘ حمزہ شہباز شریف بھی شامل ہیں، ان کا اسکور ۲۰ فی صد سے بھی کم ہے۔ جماعت اسلامی کو اعلیٰ کارکردگی کا یہ اعزاز پہلی مرتبہ حاصل نہیں ہو رہا۔ ۱۹۷۲ء کی اسمبلی میں پروفیسر عبدالغفور احمد کو یہ اعزاز حاصل تھا۔ ۱۹۸۵ء کی اسمبلی میں لیاقت بلوچ سرفہرست تھے۔ سینیٹ کے ۲۱برسوں میں الحمدللہ، راقم الحروف کی اوّل پوزیشن رہی۔ آج بھی سینیٹ کے ۱۰ مؤثر ترین ارکان میں امیرجماعت برادرم سراج الحق اپنی تمام دوسری ذمہ داریوں کے باوجود شامل ہیں۔

اگر پارلیمنٹ اور ارکانِ پارلیمنٹ اپنی ذمہ داری ادا نہیں کریں گے، تو پارلیمنٹ کی بالادستی کے بارے میں کتنے ہی خوش کُن دعوے آپ کیوں نہ کرڈالیں، پارلیمنٹ بالادست نہیں ہوسکتی۔ آج پارلیمنٹ ایک نمایشی ادارہ بنادی گئی ہے۔ ہرسال دسیوں بار کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے اجلاس برخاست کرنا پڑتے ہیں۔ سوالات کرنے والے کم ہیں اور جو سوال کیے جاتے ہیں،  ان میں تین چوتھائی جواب سے محروم رہتے ہیں۔ آدھی قانون سازی آرڈی ننس کے ذریعے کی جاتی ہے اور انتظار کیا جاتا ہے کہ اسمبلی برخاست ہو اور آرڈی ننس نازل کر دیا جائے۔ کمیٹیاں کچھ ہی متحرک ہیں، تاہم سینیٹ کی کمیٹیاں زیادہ مؤثر کردار ادا کر رہی ہیں۔ چودھری نثار علی خاں کے دورِ صدارت میں قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی نے اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کیا، لیکن موجودہ دور میں گو کہ قائد حزبِ اختلاف اس کے سربراہ ہیں، اس کی کارکردگی اطمینان بخش نہیں ہے۔ سب سے بڑا ستم یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے دورِحکومت کے اکائونٹس کا احتساب اس کمیٹی کا ایجنڈا ہے، جس کے سربراہ پیپلزپارٹی کے نمایندہ ہیں  ؎

گر ہمیں مکتب و ہمیں ملا

کار طفلاں تمام خواہد شد

عدلیہ کے کردار کو محدود کرنے کی کوشش

سپریم کورٹ کے محترم چیف جسٹس ظہیرجمالی صاحب اور دوسرے جج حضرات نے گذشتہ دو مہینوں میں چار مرتبہ حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ وہ بدترین حکمرانی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ ’اچھی حکمرانی‘ کا فقدان ہے۔ ذاتی پسندوناپسند رہنما اصول بن گئے ہیں اور بادشاہت کے انداز میں کارِ حکمرانی انجام دیے جارہے ہیں۔ احتساب کا دُور دُور پتا نہیں، تقرریاں میرٹ سے محروم ہیں۔ اعلیٰ عہدے خالی پڑے ہوئے ہیں۔ بہت سے اہم محکمے قائم مقام سربراہوں کی نگرانی میں چل رہے ہیں اور وہاں بھی بالعموم مطلوبہ گریڈ سے ایک گریڈ کم کے افسر کو لگایا گیا ہے تاکہ    وہ حکمرانوں کے اشارئہ چشم و ابرو پرکام کرے اور اختلاف کی جرأت نہ کرسکے۔ جو افسر اصول اور قواعد کا احترام کرتا ہے، وہ نظروں سے گرتا ہے اور انتقامی کارروائی کا مستحق بن جاتا ہے۔ یہ معاملہ کسی ایک شعبے کا نہیں، اہم ترین شعبوں کا بھی یہی حال ہے۔

وزیراعظم صاحب کے اہلِ خانہ (جن کی کوئی نمایندہ حیثیت نہیں اور جنھوں نے ’رازداری‘کا حلف بھی نہیں لیا ہے) سرکاری معاملات میں دخیل اور پالیسی بنانے،نافذ کرنے یا نگرانی کرنے پر مامور ہیں۔ سرکاری تقاریب میں شریک ہوتے ہیں۔ جن محفلوں اور اجتماعات میں ’رازداری‘ اصل الاصول ہے، ان میں شرکت کرتے ہیں اور اخباری اطلاعات کے مطابق اپنی مرضی سے جو معلومات آشکارا (leak) کرنا چاہتے ہیں ، بے دھڑک کرتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یہ اندازِ حکمرانی جمہوریت کے لیے سمِ قاتل ہے اور اقتدار میں نوازشریف ہوں یا بے نظیر صاحبہ یا زرداری صاحب، سب جمہوریت کے اس قتل میں شریک ہیں۔ جمہوریت کو  آج اصل خطرہ اسی طرزِ حکمرانی سے ہے۔اور جب تک اس کی اصلاح نہیں ہوتی، جمہوریت ایک خواب رہے گی، حقیقت نہیں بن سکتی۔ چیف جسٹس صاحب نے اورنج ٹرین کے مقدمے کی سماعت کے دوران بڑے دُکھ سے جو بات کہی ہے، وہ نوشتۂ دیوار اور پاکستان کے ہرمخلص بہی خواہ کے دل کی آواز ہے۔ ان کا ارشاد ہے:

جمہوریت کے نام پر بادشاہت اور اچھی طرزِ حکمرانی پر بُری حکمرانی اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ پاکستان کے عوام اس کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں .... عوام کو چاہیے کہ ووٹ دیتے وقت دُور اندیشی سے ان معاملات پر نظر رکھیں۔

چیف جسٹس کے ان ریمارکس پر حکومت کے ترجمان اور کاسہ لیس بڑے سیخ پا ہوئے ہیں اور عدالت کے رویے کو جمہوریت کے لیے ’خطرہ‘ بنا کر پیش کر رہے ہیں، لیکن دستور کی دفعہ۱۸۴ (ج) اور دفعہ ۱۸۷ ، اعلیٰ عدالت کی یہ ذمہ داری مقرر کرتی ہیں کہ مفادِ عامہ، بنیادی حقوق کی حفاظت اور انصاف کی فراہمی کے لیے اپنے غیرمحدود اختیارات کو استعمال کرے اور   اصلاحِ احوال کے لیے ضروری احکام جاری کرے۔ دستور نے نظم و ضبط کا یہ نظام قائم کیا ہے اور جمہوریت کے قیام اور استحکام کے لیے اس کی کلیدی اہمیت ہے اور یہ حکومت کو اُن مواقع پر  لگام دینے کے لیے ضروری ہے جب وہ جمہوری اصولوں اور دستور کے الفاظ اور روح سے انحراف کرتے ہوئے بادشاہت، آمریت یا جمہوری اقدار کی پامالی کی راہ پر گامزن ہو:

دفعہ ۱۸۷: ۱- عدالت ِ عظمیٰ کو بہ اخراج ہر دیگر عدالت کے، کسی دو یا دو سے زیادہ حکومتوں کے درمیان کسی تنازع کے سلسلے میں ابتدائی اختیارِ سماعت حاصل ہوگا۔

تشریح: اس شق میں ’حکومتوں‘ سے وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتیں مراد ہیں۔

۲- شق (۱) کی رُو سے تفویض کردہ اختیارِ سماعت کے استعمال میں عدالت ِ عظمیٰ صرف استقراری فیصلے صادر کرے گی۔

۳- آرٹیکل ۱۹۹ کے احکام پر اثرانداز ہوئے بغیر ، عدالت ِ عظمیٰ کو، اگر وہ یہ سمجھے کہ حصہ دوم کے باب۱ کے ذریعے تفویض شدہ بنیادی حقوق میں سے کسی حق کے نفاذ کے سلسلے میں عوامی اہمیت کا کوئی سوال درپیش ہے، تو مذکورہ آرٹیکل میں بیان کردہ نوعیت کا کوئی حکم صادر کرنے کا اسے اختیار ہوگا۔

اسی طرح دفعہ۱۸۷ بہت واضح ہے:

دفعہ ۱۸۷ : (۱) (آرٹیکل ۱۷۵ کی شق (۲) کے تابع) عدالت عظمیٰ کو اختیار ہوگا کہ وہ ایسی ہدایات، احکام یا ڈگریاں جاری کرے، جو کسی ایسے مقدمے یا معاملے میں جو اس کے سامنے زیرسماعت ہو، مکمل انصاف کرنے کے لیے ضروری ہوں، ان میں کوئی ایسا حکم بھی شامل ہے، جو کسی شخص کے حاضر کیے جانے، یا کسی دستاویزکو برآمد کرنے یا پیش کرنے کے لیے صادر کیا جائے۔

(۲) ایسی کوئی ہدایت، حکم یا ڈگری پاکستان بھر میں قابلِ نفاذ ہوگی اور جب اس کی تعمیل کسی صوبے میں، یا کسی ایسے قطعے یا علاقے میں کی جانی ہو، جو کسی صوبے کا حصہ نہ ہو، لیکن اس صوبے کی عدالت عالیہ کے دائرۂ اختیار میں شامل ہو، تو اس کی اسی طرح سے تعمیل کی جائے گی گویا کہ اسے اس صوبے کی عدالت ِ عالیہ نے جاری کیا ہو۔

دونوں دفعات بہت واضح ہیں اور عدالت ِ عالیہ کو صرف یہ اختیار ہی نہیں دیتیں، بلکہ  اس پر یہ لازم کرتی ہیں کہ وہ حقوق کی حفاظت اور عدل کی فراہمی کے سلسلے میں ہرحکومت اور حکومت کے ہر فرد اور ہرحکم، خواہ اس کا تعلق ان میں سے کسی بھی ادارے سے ہو، یعنی سیاسی قیادت، انتظامیہ، میڈیا، عسکری حکام اپنی ذمہ داری ادا کرے۔ عدالت: دستور، قوم اور اللہ تعالیٰ سب کے سامنے جواب دہ ہے۔ وہ یہ حلف لیتی ہے کہ خدا کو حاضروناظر جان کر اسلامی نظام کے قیام اور دستور اور قانون کے مکمل نفاذکے لیے ہرمفاد سے بالا ہوکر اپنی ذمہ داری ادا کرے گی۔

موجودہ وفاقی حکومت، اعلیٰ عدلیہ کے اس دستوری کردار سے اتنی خائف ہے کہ اس نے رات کی تاریکی میں ۲۴ویں دستوری ترمیم لانے کی کوشش کی، کہ دفعہ ۱۸۴ (ج) کے تحت عدالتی احکام پر نظرثانی کی کارروائی کا اسے اختیار دیا جائے۔ یہ جمہوریت اورعدل کے نظام کو کمزور کرنے اور انصاف کے تقاضوں کے نفاذ میں تاخیری حربے استعمال کرنے کے مترادف ہے اور پارلیمنٹ، عوام اور تمام سیاسی اور دینی قوتوں کو اس ترمیم کا راستہ روکنا چاہیے۔

آمرانہ طرزِ حکومت کا خاتمہ

اس موقعے پر ایک قومی امانت کو قوم تک پہنچانے کے جذبے سے میں اپنا ایک واقعہ ضبط ِ تحریر میں لارہا ہوں جو وزیراعظم محمد نواز شریف کے ذہن اور اندازِ حکمرانی کو سمجھنے میں مددگار اور ان کے رفقاے کار کی اپنی ذمہ داری بہ حُسن و خوبی انجام نہ دینے کی مثال ہے:

یہ بات ہے ۱۹۹۰ء کی آئی جے آئی کے زمانۂ حکومت کی۔ہم نے وزارت میں شرکت نہیں کی تھی، لیکن پارلیمنٹ میں پارٹی آئی جے آئی کی تھی، جس میں مسلم لیگ اور جماعت اسلامی اہم شریکِ کار تھیں۔ اقتدار میں آنے کے چند ہی مہینے بعد، نواز شریف صاحب نے بارھویں دستوری ترمیم ۱۹۹۱ء کا سلسلہ شروع کیا۔ اصل مسودے کے دو اہم حصے تھے: ایک یہ کہ نفرت انگیز اور وحشیانہ جرائم کے لیے اپیل کورٹس مقرر کی جائیں، اور دوسرے یہ کہ وزیراعظم کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ اپنے صواب دیدی اختیارات کے تحت، دستور کی جس شق کو چاہے وقتی طور پر معطل کرسکے اور معطلی کی مدت کے تعین کا اختیار بھی وزیراعظم ہی کو حاصل ہو۔ جب یہ مسوّدہ ہمارے سامنے آیا تو قاضی حسین احمد مرحوم اور میں نے اس کی بھرپور مخالفت کی، جو نوازشریف صاحب کے لیے بڑی ناگوار تھی۔ ہم نے صاف صاف کہہ دیا کہ یہ حق نہ ہم اپنے لیے لینا پسند کریںگے، نہ آپ کے لیے اور نہ کسی اور کے لیے، بشمول صدرِ مملکت۔ پھر صدر غلام اسحاق خان صاحب نے بھی اس کی سخت مخالفت کی اور میاں صاحب کو دستوری ترمیم کا یہ حصہ مسوّدے سے خارج کرنا پڑگیا۔ نوازشریف صاحب سے ہماری گفتگو کے دوران مسلم لیگ کے کئی وزرا بھی شریک تھے، جو پوری میٹنگ میں تو مکمل طور پر خاموش رہے لیکن میٹنگ ختم ہونے کے بعد    ان میں سے تین نے، یعنی: جنرل مجید ملک، وسیم سجاد اور حامدناصر چٹھہ نے مجھ سے فرداً فرداً اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ ان میں سے دو نے یہ تک کہا کہ ہم آپ کے ممنون ہیں کہ آپ حضرات نے اس ترمیم کا راستہ رکوا دیا، ورنہ ہم اس پر مضطرب تھے مگر کابینہ میں ہم اسے نہ روک سکے۔  جنرل مجید ملک صاحب اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں، لیکن باقی دونوں حضرات الحمدللہ بقید حیات ہیں اور میری اس بات کی تائید کریں گے۔

دراصل یہ نواز شریف صاحب کا مزاج اور ذہن ہے۔ انھوں نے ایک بار پھر۱۵ویں دستوری ترمیم کے ذریعے ایسے ہی اختیارات حاصل کرنے اور اسلام کے نام پر کُلی اختیارات کے حصول کی کوشش کی، جو کامیاب نہ ہوسکی۔

ہم دراصل اس نکتے کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ جمہوریت کو جہاں بہت سے بیرونی اور اندرونی خطرات لاحق ہیں، وہاں خود جمہوریت کا نام لینے والوں، اس کی دہائی دینے والوں اور اس کے نام پر حکمرانی کرنے والوں کے اپنے ذہن اور رویے بھی خطرات کو دعوت دینے کا باعث ہیں۔

ملک میں جمہوریت کے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لیے ہرکسی کو دستور، قانون اور اداروں کی مشاورت کا پابند کرناہوگا اور چیک اینڈ بیلنس کا ایسا نظام وضع کرنا، اور پھر اس پر عمل بھی کرنا ہوگا کہ سب اپنی اپنی حدود میں رہیں اور کوئی بھی ایسے اختیارات حاصل نہ کر پائے جو اسے مشاورت اور اداراتی ڈسپلن سے آزاد کردے۔ فوج اور عدلیہ کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی حدودِ کار میں رہیں اور میڈیا بھی۔ اجتماعی اُمور اور دستور میں دیے ہوئے حقوق کی پاس داری اور دوسروں کے حقوق پر دست درازی سے اجتناب بھی اشد ضروری ہے۔ اسی طرح پارلیمنٹ، حکومت اور وزیراعظم اور وزرا کے لیے بھی مشاورت کا التزام اور اس کا احترام اور دستور، قانون اور ضابطۂ کار کی پابندی لازم ہے۔ انتظامیہ، حکمرانوں کی ملازم نہیں ریاست کی ملازم ہے۔ پولیس ہو یا سول انتظامیہ، اس کے لیے قانون اور ضوابط کا پابند ہونا ضروری ہے اور حکومت ِ وقت کے اشارۂ چشم و ابرو پر اور ان کے ملازم کی حیثیت سے کردار کی ادایگی نہ صرف عزتِ نفس کے خلاف ہے بلکہ دستور اور قانون کی حکمرانی کی بھی ضد ہے۔

اخبارات میں پنجاب کے ایک چیف سیکرٹری کی تابع داری کا ایک واقعہ شائع ہواہے، جو سب کے لیے شرم کا باعث ہے۔ ہوا یہ کہ وزیراعلیٰ کے ہاتھ سے کوئی چیز چھٹ کر زمین پر گرگئی، تو قبل اس کے کہ وہ افراد جو ان کی خدمت پر مامور ہیں، آگے بڑھیں، چیف سیکرٹری صاحب نے جست لگائی اور وہ چیز اُٹھا کر وزیراعلیٰ کی خدمت میں پیش کر دی۔

انتظامیہ ہو یا پولیس، ایک بڑی تعداد حکمرانوں کی ذاتی پسند و ناپسند کے چکّر میں رہتی ہے اور اس کو اپنی ترقی اور اپنے مفادات کے حصول کے لیے زینہ بناتی ہے___ یہ رویہ جمہوریت، قانون کی حکمرانی، عدل و انصاف کے قیام اور عوام کی فلاح و بہبود کی راہ میں سنگین رکاوٹ ہے۔ جمہوریت کو خطرہ اس رویے سے ہے اور جب تک یہ طرزِفکر اور طرزِ عمل نہ بدلے گا، جمہوریت کا مستقبل تاریک رہے گا۔ الحمدللہ، ایسے لوگ بھی موجود ہیں، جو اصول اور ضابطے کا احترام کرتے ہیں اور جان پر کھیل کر ان کی پاس داری کرتے ہیں، لیکن افسوس ناک حقیقت یہ بھی ہے کہ ایسےلوگوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے، وہ اُٹھ رہے ہیں یا ریٹائر ہورہے ہیں۔ ان کی جگہ لینے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔

اس زمانے میں عدالتِ عظمیٰ نے دو بڑے اہم فیصلے کیے ہیں، جو آرڈر کی شکل میں جاری ہوچکے ہیں۔ ان کا پیغام یہ ہے کہ وزیراعظم کو اپنی صواب دید (discretion) میں حکمرانی کا کوئی اختیار نہیں، بجز ان چیزوں کے جو دستور نے ان کو متعین طور پر بطور اختیار دی ہیں۔ وزیراعظم کابینہ کے ذریعے فیصلے کرنے کا پابند ہے اور دستور کی دفعہ ۹۰ اور ۹۱ وفاقی حکومت کی صاف لفظوں میں تعریف دے رہی ہیں۔ اصل اختیار کابینہ کا ہے جس کا سربراہ وزیراعظم ہے۔ برطانوی قانون کے مطابق کابینہ کے تمام ارکان بشمول وزیراعظم برابر ہیں۔ صرف انتظامی وجوہ سے وزیراعظم کو اوّلیت حاصل ہے لیکن فیصلے اجتماعی ہونے چاہییں۔ملاحظہ کیجیے، دستور کی متعلقہ دفعات:

دفعہ ۹۰: (۱) دستور کے مطابق، وفاقی حکومت کی جانب سے وفاق کا عاملانہ اختیار صدر کے نام سے استعمال کیا جائے گا، جو وزیراعظم اور وفاقی وزرا پر مشتمل ہوگا، جو وزیراعظم کے ذریعے کام کریں گے۔

(۲) دستور کے تحت اپنے کارہاے منصبی کو وزیراعظم ، خواہ بلاواسطہ یا وفاقی وزرا کے ذریعے بجا لائے گا۔

دفعہ ۹۱: (۱) صدر کو اس کے کارہاے منصبی کی انجام دہی میں مدد اور مشورہ دینے کے لیے وزرا کی ایک کابینہ ہوگی، جس کا سربراہ وزیراعظم ہوگا۔

سپریم کورٹ نے اسی دستوری تقاضے کو پورا کرنے کے لیے واضح کر دیا ہے کہ وزیراعظم کے لیے لازمی ہے کہ وہ کابینہ کے فیصلوں کے ذریعے کام کریں اور تمام قانون سازی بھی اسی طریقے سے ہونی چاہیے۔

عدالت ِ عظمیٰ کے ان فیصلوں کے علاوہ سندھ ہائی کورٹ نے بھی ایک بڑا اہم فیصلہ صادر کیا ہے کہ: صوبائی وزیراعلیٰ کے لیے جہاں یہ ضروری ہے کہ وہ کابینہ کے ذریعے کام کرے، وہیں دستور انھیں ایسے مشیر (adviser) بنانے کا اختیار نہیں دیتا، جو وزیر کے درجے پر کام اور فیصلے کرسکیں۔

یہ بھی بڑا اہم فیصلہ ہے، اس لیے کہ وفاقی حکومت کے سلسلے میں دستور کی دفعہ ۹۳ وزیراعظم کے مشورے پر صدرپانچ مشیر مقرر کرسکتاہے، جن کا مرتبہ وزیرکے برابر ہوتا ہے لیکن صوبے کے لیے دستور میں ایسی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہرصوبے میں مشیروں اور خصوصی معاونین کی فوج ظفرموج مقرر ہے، جو بالکل وزرا کی طرح اختیارات استعمال کررہی ہے اور مراعات لے رہی ہے حالاں کہ ان سے ’رازداری‘ تک کا حلف نہیں لیا جاتا۔ یہ دستور اور جمہوریت کے ساتھ مذاق اور اپنوں کو نوازنے کا ذریعہ تھا۔ ہمیں توقع ہے کہ سپریم کورٹ، سندھ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کی توثیق کرے گی اور اس کا اطلاق تمام صوبوں پر ہوگا۔ یوں دستور کی خلاف ورزی اور اقرباپروری اور احباب نوازی کا یہ دروازہ بند ہوگا۔

کابینہ اور مشاورت کے تمام اداروں کے بارے میں ہم یہ بات بھی واضح کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہرسطح پر مشاورت کے معنی یہ ہیں کہ مشورے کے نتیجے میں جو فیصلہ کیا جائے گا، اس پر عمل بھی ہوگا۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو مشاورت کے سربراہ کی حیثیت سے شوریٰ کے فیصلے کو ویٹو کرنے کا اختیار نہیں ہوگا۔ اسلامی فکر کے ماہرین میں بھی اگرچہ ماضی میں اس سلسلے میں ایک سے زیادہ آرا رہی ہیں، اور کچھ علما کی نگاہ میں شوریٰ کا فیصلہ لازم اور غالب حیثیت رکھتا ہے۔ تاہم، کچھ علما کی نگاہ میں یہ صرف مشورہ ہوتا ہے، جس کے قبول یا رد کرنے کا اختیار امیر یا صدر کو حاصل ہے، لیکن اب اُمت کے اہلِ علم کا اس پر تقریباً اجماع ہے کہ شوریٰ کا فیصلہ ہی اصل فیصلہ ہوتا ہے، محض مشورہ نہیں ہوتا کہ جسے امیریا صدر ویٹو کر سکے۔ یہ شورائیت اور جمہوریت کی روح کے عین مطابق ہے۔

قیادت اور وراثت کا کھیل

سیاسی جماعتوں میں جمہوریت پر کاری ضرب لگانے والی ایک اور روایت، پارٹیوں میں اور خود حکومتوں میں ایک خاندان کا غلبہ اور قیادت کا وراثت کے طور پر منتقل ہونا ہے۔ وراثت کے ذریعے اقتدار دراصل بادشاہت کی علامت ہے، جب کہ جمہوریت کی روح سے یہ متصادم اور اس کے اصولوں کی ضد ہے۔ بلاشبہہ بے نظیرصاحبہ نے اپنی ذہانت، قابلیت اور صلاحیت سے اپنی قیادت کا لوہا منوایا، لیکن جناب ذوالفقار علی بھٹو کا اپنی اہلیہ کو صدر مقرر کرنا اور پھر   بے نظیر صاحبہ کا شریکِ صدر ہوتے ہوئے اپنی والدہ کو قیادت سے محروم کرنا۔ پھر ان کے بعد زرداری صاحب کا شوہر ہونے کے ناتے ایک مشتبہ وصیت کی بنیاد پر اقتدار سنبھالنا، اور پارٹی کا اس کے آگے سرتسلیم خم کر دینا، ایک عجیب اور بُری مثال ہے (بے نظیر صاحبہ نے اپنے دورِ اقتدار میں زرداری صاحب کو تلخ تجربات اور ان کی مجروح شہرت کی وجہ سے حکومت سے دُور رکھنے کی براہِ راست کوشش کی)۔ اسی طرح یہ بھی طرفہ تماشا ہے کہ بے نظیر صاحبہ کے  انتقال کے بعد ان کے زیرتعلیم صاحب زادے پارٹی کے چیئرمین بن گئے اور مرحومہ کے شوہر شریک چیئرمین کی کرسیِ صدارت پر متمکن ہوگئے۔ پھر ایوانِ صدر بھی ان کے تصرف میں آگیا اور صدرصاحب کی ہمشیرہ صاحبہ ڈرائیونگ سیٹ پر تشریف فرما ہوگئیں۔

یہی معاملہ مسلم لیگ ’ن‘ اور اس کی تمام ہم جولی لیگوں کا ہے۔ نیز وہ سب جماعتیں بھی، جن کو لبرل، آزاد خیال، بائیں بازو کی (Leflist) اور نہ معلوم کیا کیا ہونے کا دعویٰ ہے، وراثت کے اس دھندے سے پاک نہیں ہیں۔ کچھ دینی جماعتوں میں بھی بدقسمتی سے وراثت ہی کا سکّہ رائج ہے۔ ان میں واحد استثنا جماعت اسلامی پاکستان ہے، جس نے قیادت، تنظیم، فیصلہ سازی، اندرونی نظامِ احتساب، ہر پہلو سے حقیقی اسلامی جمہوری آداب کا پورا پورا احترام کیا ہے اور جس میں الحمدللہ جمہوریت اپنے آداب اور اپنی روح کے مطابق جاری و ساری ہے۔

اہلِ قیادت کی ضرورت

اسی طرح معاملہ صلاحیت، دیانت، فنی مہارت کی ضرورت و اہمیت کا ہے۔ جمہوری نظام میں سیاسی قیادت کا ہرفن مولا ہونا ضروری نہیں، لیکن اہلیت اور دیانت دولازمی صفات ہیں، جن کے بغیر قیادت مؤثر نہیں ہوسکتی۔ قرآن نے اہلیت کو ذمہ داری کے مناصب کے لیے اوّلین  اہمیت دی ہے اور حکم دیا ہے کہ اپنی امانتیں اہل لوگوں کے سپرد کرو (اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا لا - النساء۴:۵۸)، اور اہلیت کے باب میں بھی صاف اشارہ کر دیا ہے کہ اس میں علم اور جسم، یعنی فکری صلاحیت اور کام کی مناسبت سے جسمانی قوت اور مہارت ضروری ہیں (اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰہُ عَلَیْکُمْ وَ زَادَہٗ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَ الْجِسْمِط  - البقرہ ۲:۲۴۷)۔

بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتوں میں جماعتی اور سرکاری ذمہ داریوں کے باب میں فیصلے ذاتی تعلق، شخصی وفاداری اور مفادات کے اشتراک کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور بالعموم کسی  معروضی معیار کا احترام نہیں کیا جاتا۔ ’اندھا بانٹے ریوڑیاں، ہر پھر اپنوں ہی اپنوں کو دے‘ پر عمل ہوتا ہے۔ احتساب کے ادارے غیرمؤثر اور مذاق بن گئے ہیں۔ کرپشن کا دور دورہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ قومی وسائل ایک مخصوص طبقے (اشرافیہ) کے ہاتھوں کا میل بن گئے ہیں اور عوام بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں۔ستم یہ ہے کہ مشہور عالمی ادارے ’انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘ کی تازہ ترین رپورٹ جو Global Hunger Index کے عنوان سے ۱۲؍اکتوبر ۲۰۱۶ء کو شائع ہوئی ہے، اس کی رُو سے دنیا کے ۱۱۸ترقی پذیر ملکوں میں پاکستان پست ترین ۱۱ملکوں میں سے ایک ہے، یعنی نیچے سے ہمارا نمبر ۱۱ ہے۔ پاکستان کی آبادی کا ۲۲ فی صد، یعنی تقریباً ساڑھے چار کروڑ افراد خوراک کی کم سے کم مقدار سے بھی محروم ہیں اور پاکستانی بچوں کا ۴۵فی صد فطری ترقی کی رفتار سے محروم ہے۔ گویا چار سال کے بچے کی نشوونما کی وہ کیفیت ہے جو دو سے تین سال کے بچے کی ہوتی ہے۔

معاملہ وسائل کی کمی کا نہیں ہے، ان کی غیرمنصفانہ تقسیم ، بے دریغ استحصال اور غلط استعمال کا ہے۔ اس کی ایک تازہ ترین مثال عدالتِ عظمیٰ کے زیرغور اس مقدمے میں سامنے  آئی ہے۔ ضلع مظفرگڑھ کے ایک مخیر زمین دار نے اپنی ہزاروں ایکڑ زمین تعلیم اور فلاحی کاموں کے لیے وقف کی تھی مگر اس پر بااثر افراد نے ناجائز قبضہ کرلیا ہے اور اس کے بڑے حصے کو کوڑیوں کے مول اور سرکاری افسران نے اپنے اور اپنے مصاحبین کے مفاد میں پٹے (لیز ) پر دے دیا ہے۔ ان اربوں روپوں مالیت کی زمین ایک مخیر فرد نے عوام کے بچوں کی تعلیم، صحت اور دوسری ضرورتوں کے لیے وقف کی تھی۔

سپریم کورٹ کے جج جسٹس شیخ عظمت سعید صاحب نے اس مقدمے کے سلسلے میں پنجاب کے محکمہ اوقاف کی نااہلی اور بددیانتی پر نہ صرف سخت گرفت کی ہے، بلکہ یہاں تک کہہ دیا ہے کہ: ’’پنجاب حکومت اس قابل ہی نہیں کہ اس پر اعتماد کیا جائے‘‘ اور یہ کہ ’’کروڑوں روپے خردبرد کر لیے گئے لیکن نیب کو کیس نہیں بھیجا گیا۔ پنجاب حکومت زمین نہیں سنبھال سکتی تو اس کو سنبھالنے کا ٹھیکا کسی اور کے سپرد کردے۔ کچھ شرم و حیا بھی ہونی چاہیے۔ لگتا ہے کہ مظفرگڑھ میں ریاست کی رٹ بہت ہی کمزور ہے، اس لیے وہاں کی انتظامیہ ناجائز قابضین کے سامنے اتنی بے بس ہے‘‘۔ (روزنامہ جنگ، ۲۵نومبر ۲۰۱۶ء)

یہ اس صوبے کا حال ہے جس کے وزیراعلیٰ صاحب اپنے کو ’خادمِ اعلیٰ‘ کہلوانا پسند کرتے ہیں اور شب وروز سرگرم نظر آتے ہیں۔ یہ صورتِ حال صرف صوبہ پنجاب کے ساتھ خاص نہیں ہے، سب ہی صوبوں کا اور خود مرکز کا حال بھی یہی ہے۔ عوام مصائب کا شکار ہیںاور حکمران اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ ایک لاوا ہے جوزیرزمین پک رہا ہے اور وقتاً فوقتاً   یہ لاوا پھٹ کر فضا کو مکدر کر رہا ہے۔ جمہوریت کو ایک حقیقی خطرہ اس زمینی اور زیرزمین صورتِ حال سے ہے۔ امریکا کے حالیہ صدارتی انتخاب کے بے شمار پہلو ہیں لیکن محروم طبقات میں انتہاپسندی اور انتقام کی آگ کو بھڑکانے میں ایسے ہی حالات کا بھی بڑا دخل ہے۔ جمہوریت کے لیے خطرے کی اس جہت سے نظریں چُرانا بڑے خسارے کا سودا ہوسکتا ہے۔

اسی طرح کرپشن، پھر کرپشن اور دہشت گردی کا گٹھ جوڑ جمہوریت کے لیے ہوش ربا خطرے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے لیکن اربابِ اختیار کو اس کا کوئی شعور نہیں یا پھر ان کے اپنے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں اور خود وہ مسئلے کا حصہ ہیں۔ اس طرح ان سے مسئلے کے حل کی توقع عبث ہے۔

حکومت کی کارکردگی، سوالیہ نشان؟

اس وقت عالم یہ ہے کہ قومی آمدنی کا تقریباً نصف کالے دھن اور کالے کاروبار (بلیک اکانومی) کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو جتنا ٹیکس وصول کرنا چاہیے، وہ اس کے نصف سے بھی کم وصول کر رہی ہیں اور ریاست کا کاروبار قرضوں کے سہارے چل رہا ہے۔ زراعت اور صنعت خصوصیت سے ایکسپورٹ انڈسٹری چارپانچ سال سے رُوبہ زوال ہیں۔ حالات کی اصلاح کےلیے کوئی مؤثر پالیسی وضع کرنے میں حکومت ناکام ہے۔ توانائی کا بحران جاری ہے، گیس کی قلت دردِسر بن چکے ہیں۔ مہنگائی ناقابلِ برداشت ہے،   بے روزگاری روزافزوں ہے۔ پاکستانی کرنسی روز بروز بیرونی مارکیٹ میں اپنی قدر کھو رہی ہے۔ ملک سے سرمایہ باہر جارہا ہے اور حکومت ہے کہ محض ’پاک چین راہداری‘ (سی پیک) کی ڈفلی بجارہی ہے اور باور کرا رہی ہے کہ صرف سی پیک ہی گویا ہمارے سارے معاشی مسائل کا حل ہے۔ ان سب پر مستزاد پانی کی قلّت کا خطرہ اور تیل کے ذخائر کا خطرناک حد تک کم ہوجانا، ہوش اُڑا دینے والی کیفیات ہیں۔ یہ سب کچھ اس وقت ہورہا ہے، جب بھارت نے لائن آف کنٹرول پر عملاً جنگ برپا کی ہوئی ہے اور تین دریائوں کے پانیوں کی بوند بوند سے ملک کو محروم کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ یہ ہیں وہ حالات جو جمہوریت کے لیے اندرونی خطرہ ہیں اور اس خطرے کا کوئی ادراک اور اس کے مقابلے کی کوئی تیاری ایوانِ اقتدار میں نظر نہیں آرہی۔

عالمی سطح پر جو تبدیلیاں ہورہی ہیں اور خصوصیت سے امریکا کےحالیہ انتخابات کے نتیجے میں جنوری ۲۰۱۷ء میں جو نئی قیادت امریکا کی زمامِ کار سنبھال رہی ہے، ڈونلڈ ٹرمپ صاحب جس قسم کی ٹیم اپنے صدارتی انتظام و انصرام کے لیے ترتیب دے رہے ہیں اور امریکا، یورپ، جنوبی ایشیا اور شرقِ اوسط کے لیے جن پالیسیوں کا اشارہ دے رہے ہیں، اور خصوصیت سے امریکا بھارت تعلقات اور بھارت کے ذریعے اس علاقے میں جو کردارادا کرنا چاہتے ہیں، وہ بڑے سنجیدہ اور ٹھنڈے غوروفکر کا تقاضا کرتا ہے۔ اس مناسبت سے قومی مفادات کے تحفظ اور دیرپا پالیسی سازی کے لیے پوری قوم کو اعتماد میں لینے، قوم کو متحد کرکے اندرونی اور بیرونی خطرات کے مقابلے کی مؤثر منصوبہ سازی وقت کا اہم ترین چیلنج ہے اور اس پورے عمل کے لیے سول اور عسکری قیادت میں مکمل ہم آہنگی___ وہ پہلو ہے جس کو اولین اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔

بلاشبہہ اس پورے عمل میں پارلیمنٹ کا بڑا بنیادی اور مرکزی کردار ہے، لیکن کیا ہماری پارلیمنٹ اپنے اس فرضِ منصبی کا شعور رکھتی ہے؟ اور کیا اس فریضے کی انجام دہی کے لیے کمربستہ ہے؟ کیا ہمارا میڈیا پوری سنجیدگی سے ان موضوعات پر عوام کی تعلیم، بیداری اور انھیں متحرک کرنے میں اپناکردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے؟ کیا ہماری سیاسی جماعتیں اپنی ذمہ داری محسوس کرتی ہیں؟ ہم پوری دردمندی کے ساتھ یہی کہہ سکتے ہیں کہ  ؎

یہ گھڑی محشر کی ہے ، تُو عرصۂ محشر میں ہے

پیش کر غافل ، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے

o حضرت عبداللہ بن سَرجِس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حُسنِ کردار (نیک چال چلن) بُردباری اور اعتدال و میانہ روی ، نبوت کا چوبیسواں حصہ ہے۔ (ترمذی)

یعنی یہ اوصاف معمولی اور کم درجے کے نہیں ہیں۔ ان اوصاف کو انبیا علیہم السلام کی سیرت میں نمایاں مقام حاصل رہا ہے۔ جو شخص جس قدر اپنی سیرت و کردار میں ان اوصاف کو جگہ دے گا، وہ اسی قدر فیضانِ نبوت سے فیض یاب سمجھا جائے گا۔

اعتدال و میانہ روی زندگی کے ہر معاملے میں مطلوب ہے۔ دانش مند وہی ہے، جو زندگی کے تمام معاملات میں افراط و تفریط کے بجاے معتدل طرزِعمل اختیار کرے۔

oحضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دین آسان ہے اور دین سے جب بھی کسی نے زورآزمائی کی اور اس میں شدت اختیار کی، دین نے اسے ہرا دیا۔ پس، میانہ روی اختیار کرو اور بہ سہولت دینی اُمور (اور اللہ) کے قریب آئو اور خوش خبری لو اور صبح و شام اور کچھ رات کے حصے سے مدد حاصل کرو۔(بخاری)

مطلب یہ ہے کہ دین، انسان کے لیے مصیبت بن کر نہیں اُترا ہے۔ دین درحقیقت زندگی کے صحیح اور فطری طرزِعمل کا نام ہے۔ فطرت کی راہ پر چلنا ہی انسان کے لیے آسان ہے، اِلاّ یہ کہ کوئی اپنی فطرت ہی کا باغی ہوجائے۔ کم فہمی، عاقبت نااندیشی اور دوسرے غلط محرکات کی بنا پر اکثر ایسا ہوا ہے کہ آسان اور فطری دین کو لوگوں نے اپنے لیے مصیبت بنا لیا اور اپنی خودساختہ سختی اور مشقت کو مذہب کی طرف منسوب کر دیا۔

اس حدیث سے جو بات ذہن نشین کرانی مقصود ہے، وہ یہ ہے کہ دین میں تمھارے لیے معتدل طرزِعمل پسند کیا گیا ہے، جس کو تم اختیار کرسکو۔ اس لیے دین میں غلو اور شدت پسندی سے ہرگز کام نہ لو۔ ایسا نہ ہو کہ تم اپنی طرف سے کوئی ایسا طرزِعمل اختیار کرو، جو اعتدال سے ہٹا ہوا ہو۔ زندگی کے توازن کو برقرار رکھو، ہر ذمہ داری کو ملحوظ رکھو، صبح و شام اللہ کی عبادت کرو اور رات کے کچھ حصے میں بھی اس کے حضور میں کھڑے رہو۔ اس طرح اپنے لیے وہ قوت فراہم کرتے رہو، جس سے تمھارے لیے سفرِحیات کی دشواریاں آسان ہوجائیں اور تم خوشی اور مسرت کے ساتھ کامیابی سے ہم کنار ہوسکو۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہوا ہے: یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ ز (البقرہ ۲:۱۸۵) ’’اللہ تمھارے ساتھ آسانی چاہتا ہے اور تمھارے لیے سختی نہیں چاہتا‘‘۔

oحضرت ابو عبداللہ جابر بن سمرہؓ فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں شریک تھا، آپؐ کی نماز بھی اعتدال کے ساتھ تھی اور آپؐ کا خطبہ بھی اعتدال کے ساتھ تھا۔(مسلم)

یعنی نہ تو آپ نے بہت طویل نماز پڑھائی اور نہ بہت مختصر۔ یہی حال آپؐ کے خطبے کا بھی تھا۔ خطبے میں ایسی طوالت نہ تھی کہ سامعین گھبرا جائیں۔

oحضرت عمارؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: کسی شخص کی نماز کی طوالت اور اس کے خطبے کا اختصار اس کے فقیہ (دین کا فہم رکھنے والا)ہونے کی دلیل ہے، لہٰذا نماز کو لمبی کرو اور خطبے کو مختصر رکھو۔ یقینا بعض خطبے جادو ہوتے ہیں۔(مسلم)

مطلب یہ ہے کہ خطبہ بہت طویل نہیں ہونا چاہیے۔ خطبے کے مقابلے میں نماز طویل ہونی چاہیے۔    یہ بڑی ناسمجھی کی بات ہوگی کہ آدمی نماز تو بہت ہی مختصر پڑھائے، مگر خطبہ اس کا بہت طویل ہو۔  بعض خطبے ایسے بلیغ ہوتے ہیں جن میں جادو کا سا اثر ہوتا ہے۔ خطبے کا اختصار اس کی اثرانگیزی کو   کم نہیں کرتا بلکہ اس سے اس کی اثرانگیزی میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔

oحضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطاب فرما رہے تھے کہ آپؐ نے دیکھا کہ ایک شخص کھڑا ہوا ہے۔ آپؐ نے اس کے بارے میں دریافت فرمایا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یہ ابواسرائیل ہیں۔ انھوں نے نذر مانی ہے کہ وہ دھوپ میں کھڑے رہیں گے، نہ بیٹھیں گے اور نہ سایہ لیں گے، نہ بات چیت کریں گے اور روزہ رکھیں گے۔ آپؐ نے فرمایا: ان سے کہو کہ  بات چیت کریں، سایہ لیں، بیٹھیں اور روزہ پورا کریں۔(بخاری)

مطلب یہ ہے کہ دین و شریعت سے مقصود آدمی کی جسمانی تعذیب اور نفس کشی ہرگز نہیں ہے۔ اسلام میں جو چیز مطلوب ہے، وہ ہےتزکیۂ نفس اور انضباطِ نفس، نہ کہ نفس کشی۔ خواہشاتِ نفس پر قابو پانے کے لیے روزہ کافی ہے۔

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کسی نے غلط اور غیرشرعی قسم کی کوئی نذر اور منت مانی ہے، تو اس کا پورا کرنا ہرگز واجب نہیں ہے بلکہ اس کا نہ کرنا ضروری ہے۔

oحضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے نزدیک بہترین عمل وہ ہے، جو ہمیشہ کیا جائے اگرچہ وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔(بخاری ، مسلم)

عمل پر پابندی اختیار کرنے کی بڑی اہمیت ہے۔ مومن کا ہر نیک عمل اس تعلق کو ظاہر کرتا ہے، جو اس کا اپنے ربّ سے ہوتا ہے۔ کسی نیک عمل کو اختیار کر کے اسے چھوڑ دینے کے معنی صرف اس عمل کو چھوڑ دینا نہیں ہے، بلکہ اس سے اس تعلق کو بھی صدمہ پہنچتا ہے، جو آدمی کا اپنے ربّ سے ہوتا ہے۔ ظاہر ہے یہ چیز کبھی بھی پسندیدہ نہیں ہوسکتی کہ آدمی کے اس تعلق اور نسبت میں کسی قسم کی کمی پیدا ہو، جو اس نے اپنے ربّ سے قائم کی ہو۔ عمل پر پابندی اسی وقت ممکن ہے، جب کہ آدمی کا شعور بیدار ہو اور وہ عبادت و اعمال میں معتدل طرزِعمل اختیار کرے، اتنا ہی بوجھ اُٹھائے جتنا وہ اُٹھا سکتا ہو۔ یوں اعتدال کے راستے کو اختیار کرکے وہ اپنی زندگی میں بھی توازن پیدا کرسکتا ہے۔

oحضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ ان کے پاس ایک عورت بیٹھی تھی، اتنے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ آپؐ نے دریافت فرمایا: یہ کون ہیں؟ عرض کیا کہ یہ فلاں خاتون ہیں اور ان کی نماز کا بہت چرچا ہے (یہ نمازیں زیادہ پڑھتی ہیں)۔

 آپؐ نے فرمایا: رُک جائو! تم پر اتنی ہی ذمہ داری ہے جتنی تم میں طاقت ہو۔ اللہ نہ اُکتائے گا جب تک تم نہ اُکتائو۔ اللہ کو وہی دین و طاعت زیادہ محبوب ہے، جس پر اس کا اختیار کرنے والا پابندی اختیار کرے۔ (بخاری ، مسلم)

آدمی کی وہی طاعت و بندگی اور عبادت اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ اور حقیقت کی نگاہ میں معتبر ہے جو محض وقتی اور چند روزہ نہ ہو، بلکہ وہ اس کی زندگی کا لازمی حصہ بن گئی ہو۔

oحضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کسی کو محض اس کا عمل نجات نہیں دلائے گا۔

لوگوں نے عرض کیا: کیا آپؐ کو بھی نہیں، یارسولؐ اللہ؟

فرمایا: مجھ کو بھی نہیں سواے اس کے کہ مجھے اللہ اپنی رحمت میں چھپا لے، لہٰذا میانہ روی اختیار کرو اور بہ سہولت دینی اُمور (اور اللہ) کے قریب آئو اور صبح و شام اور کچھ رات کے حصے میں (عبادت کرو)، میانہ رفتار سے چلتے رہو، منزلِ مقصود کو پہنچ جائو گے۔(بخاری ، مسلم)

یعنی آدمی کو یہ غلط فہمی ہرگز نہیں ہونی چاہیے کہ وہ اپنے عمل کے بل پر جنت میں داخل ہوگا۔ طاعت و بندگی کا حق کس سے ادا ہوسکا ہے۔ آدمی کے لیے صحیح طرزِعمل یہی ہوسکتا ہے کہ وہ زندگی میں اعتدال کی روش اختیار کرے اور اللہ کی رحمت و مغفرت پر بھروسا رکھے۔ یقینا اللہ کی رحمت شاملِ حال ہوگی، اور وہ منزلِ مقصود پر پہنچ جائے گا۔

oحضرت انسؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے اُوپر سختی نہ کرو کہ اللہ  تم پر سختی کرے۔ ایک گروہ نے یہی تشدد اختیار کیا تھا تو اللہ نے بھی پھر اسے سخت پکڑا۔ دیکھ لو،   وہ ان کے باقیات راہب خانوں اور کنیسائوں میں موجود ہیں۔یہ انھی کی یادگار ہیں۔ رہبانیت کی راہ انھوں نے خود نکالی تھی۔ یہ طریقہ اللہ نے ان پر فرض نہیں کیا تھا۔ (ابوداؤد)

مطلب یہ ہے کہ اللہ نے جو احکام بھی دیے ہیں، وہ فطری اور قابلِ عمل ہیں۔ تم خود اپنے لیے پابندیاں اور سختیاں نہ ایجاد کرو۔ اس سے پہلے ایک قوم (یہود و نصاریٰ) نے دینِ فطرت کی خلاف ورزی کی اور اپنے لیے طرح طرح کی سختیاں اور مشقتیں گھڑلیں، تو اللہ تعالیٰ نے بھی اس کے ساتھ سختی فرمائی۔  رہبانیت اور ویراگ کی رسم عیسائیوں نے خود ایجاد کی تھی۔ اس کا حکم اللہ نے انھیں نہیں دیا تھا۔ آج بھی راہب خانوں اور کنیسائوں میں جو لوگ پائے جاتے ہیں، وہ اسی زمانے کی یادگار ہیں۔ مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ فطری اور متوازن دین پر عمل پیرا ہوں۔ ان لوگوں کی روش ہرگز اختیار نہ کریں، جنھوں نے اللہ کے انعامات کی قدر نہ پہچانی۔ زندگی کے فطری راستے سے ہٹ گئے۔(الحدید ۵۷:۲۷)

oحضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ دین موزوں اور مضبوط ہے، اسے نرمی کے ساتھ حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ (خواہ مخواہ کی سختیاں ایجاد کر کے) اللہ کی عبادت سے اپنے دل متنفر نہ کرو، کیونکہ زیادہ تیز رو مسافر نہ سفر طے کرپاتا ہے اور نہ سواری بچ پاتی ہے (یعنی وہ اپنی سواری کو ہلاک کر دیتا ہے اور منزلِ مقصود تک بھی پہنچ نہیں پاتا)‘‘۔(بیہقی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے دُنیا کے لیے جو دین بھیجا ، وہ جس طرح ہماری انفرادی زندگی کا دین ہے، اسی طرح ہماری اجتماعی زندگی کا بھی دین ہے۔ جس طرح وہ عبادت کے طریقے بتاتا ہے، اسی طرح وہ سیاست کے آئین بھی سکھاتا ہے، اور جتنا تعلق اس کا مسجد سے ہےاتنا ہی تعلق اس کا حکومت سے بھی ہے۔

اس دین کو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بتایا اور سکھایا بھی اور ایک وسیع ملک کے اندر اس کو عملاً جاری و نافذ بھی کر دیا۔ اس وجہ سے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی جس طرح بحیثیت ایک مزکیِ نفوس اور ایک معلّم اخلاق کے ہمارے لیے اسوہ اور نمونہ ہے، اسی طرح بحیثیت ایک ماہرِ سیاست اور ایک مدبرِ کامل کے بھی اسوہ اور مثال ہے۔

آج کی اس صحبت میں، اس کانفرنس کے محترم داعیوں کے ارشاد کی تعمیل میں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے اسی پہلو سے متعلق چند باتیں مَیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔

نئی شیرازہ بندی

اس امرِواقعی سے آپ میں سے ہرشخص واقف ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے عرب قوم سیاسی اعتبار سے ایک نہایت پست حال قوم تھی۔ مشہور مؤرخ علّامہ ابن خلدون نے تو ان کو ان کے مزاج کے اعتبار سے بھی ایک بالکل غیرسیاسی قوم قرار دیا ہے۔ ممکن ہے ہم میں سے بعض لوگوں کو اس راے سے پورا پورا اتفاق نہ ہو، تاہم اس حقیقت سے تو کوئی شخص بھی انکار نہیں کرسکتا کہ اہلِ عرب اسلام سے پہلے اپنی پوری تاریخ میں کبھی وحدت اور مرکزیت سے آشنا نہیں ہوئے ہیں، بلکہ ہمیشہ ان پر نراج اور انارکی کا تسلّط رہا۔ پوری قوم جنگ جُو اور باہم نبردآزما قبائل کا ایک مجموعہ تھی، جس کی ساری قوت و صلاحیت خانہ جنگیوں اور آپس کی لُوٹ مار میں برباد ہورہی تھی۔ اتحاد، تنظیم، شعور، قومیت اور حکم و اطاعت وغیرہ جیسی چیزیں، جن پر اجتماعی اور سیاسی زندگی کی بنیادیں قائم ہوتی ہیں، ان کے اندر یکسر مفقود تھیں۔ ایک خاص بدویانہ حالت پر صدیوں تک زندگی گزارتے گزارتے ان کا مزاج نراج پسندی کے لیے اتنا پختہ ہوچکا تھا کہ ان کے اندر وحدت و مرکزیت پیدا کرنا ایک امرِمحال بن چکا تھا۔ خود قرآن نے ان کو قوما لُدا کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے، جس کے معنی جھگڑالو قوم کے ہیںاور ان کی وحدت و تنظیم کے بارے میں فرمایا کہ: لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مَّآ اَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوْبِھِمْ (الانفال ۸:۶۲) ’’اگر تم زمین کے سارے خزانے بھی خرچ کرڈالتے جب بھی ان کے دلوں کو آپس میں جوڑ نہیں سکتے تھے‘‘۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۲۳برس کی قلیل مدت میں اپنی تعلیم و تبلیغ سے اس قوم کے مختلف عناصر کو اس طرح جوڑ دیا کہ یہ پوری قوم ایک بنیانِ مرصوص بن گئی۔ یہ صرف متحد اور منظم ہی نہیں ہوگئی بلکہ اس کے اندر سے صدیوں کے پرورش پائے ہوئے اسباب نزاع و اختلاف بھی  ایک ایک کر کے دُور ہوگئے۔ یہ صرف اپنے ظاہرہی میں متحد و مربوط نہیں ہوگئی بلکہ اپنے باطنی عقائد و نظریات میں بھی ہم آہنگ اور ہم رنگ ہوگئی۔ یہ صرف خود ہی منظم نہیں ہوگئی بلکہ اس نے پوری انسانیت کو بھی اتحاد و تنظیم کا پیغام دیا اور اس کے اندر حکم اور اطاعت دونوں چیزوں کی ایسی اعلیٰ صلاحیتیں اُبھر آئیں کہ صرف استعارے کی زبان میں نہیں بلکہ واقعات کی زبان میں یہ قوم شتربانی کے مقام سے جہاں بانی کے مقام پر پہنچ گئی اور اس نے بلااستثنا دُنیا کی ساری ہی قوموں کو سیاست اور جہاں بانی کا درس دیا۔

اصلاحِ معاشرہ کی بنیاد

اس تنظیم وتالیف کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایک بالکل اصولی اور انسانی تنظیم تھی۔ اس کے پیدا کرنے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو قومی، نسلی ، لسانی اور جغرافیائی تعصبات سے کوئی فائدہ اُٹھایا، نہ قومی حوصلوں کی انگیخت سے کوئی کام لیا، نہ دُنیوی مفادات کا کوئی لالچ دلایا، نہ کسی دشمن کے ہوّے سے لوگوں کو ڈرایا۔ دنیا میں جتنے بھی چھوٹے یا بڑے مدبّر اور سیاست دان گزرے ہیں، انھوں نے ہمیشہ اپنے سیاسی منصوبوں کی تکمیل میں انھی محرکات سے کام لیا ہے۔ اگر حضوؐر بھی ان چیزوں سے فائدہ اُٹھاتے تو یہ بات آپؐ کی قوم کے مزاج کے بالکل مطابق ہوتی لیکن آپؐ نے نہ صرف یہ کہ ان چیزوں سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا،بلکہ ان میں سے ہرچیز کو ایک فتنہ قرار دیا اور ہرفتنے کی خود اپنے ہاتھوں سے بیخ کنی فرمائی۔

آپؐ نے اپنی قوم کو صرف خدا کی بندگی اور اطاعت، عالم گیر انسانی اخوت، ہمہ گیر عدل و انصاف ، اعلاے کلمۃ اللہ اور خوفِ آخرت کے محرکات سے جگایا۔ یہ سارے محرکات نہایت اعلیٰ اور پاکیزہ تھے۔ اس وجہ سے آپؐ کی مساعی سے دُنیا کی قوموں میں صرف ایک قوم کا اضافہ نہیں ہوا بلکہ ایک بہترین اُمت ظہور میں آئی جس کی تعریف یہ بیان کی گئی: کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ( ٰ الِ عمرٰن ۳:۱۱۰)’’تم دنیا کی بہترین اُمت ہو، جو لوگوں کو نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے لیے اُٹھائے گئے ہو‘‘۔

ہرقیمت پر اصولوں کی پاس داری

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست اور حضوؐر کے تدبّر کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ آپؐ  جن اصولوں کے داعی بن کر اُٹھے، اگرچہ وہ جیسا کہ مَیں نے عرض کیا: فرد، معاشرہ اور قوم کی ساری زندگی پر حاوی تھے، انفرادی اور اجتماعی زندگی کا ہرگوشہ ان کے احاطے میں آتا تھا لیکن آپؐ نے اپنے کسی اصول کے معاملے میں کبھی کوئی لچک قبول نہیں کی، نہ دشمن کے مقابل میں، نہ دوست کے مقابل میں۔ آپؐ کو سخت سے سخت حالات سے سابقہ پیش آیا، ایسے سخت حالات سے کہ لوہا بھی ہوتا تو ان کے مقابل میں نرم پڑجاتا لیکن آپؐ کی پوری زندگی گواہ ہے کہ آپؐ نے کسی سختی سے دب کر کسی اصول کے معاملے میں کوئی سمجھوتا گوارا نہیں فرمایا۔ اسی طرح آپؐ کے سامنے پیش کش بھی کی گئی اور آپؐ کو مختلف قسم کے دینی و دنیوی مصلحتیں بھی سمجھانے کی کوشش کی گئی لیکن اس قسم کی تدبیریں اور کوششیں بھی آپؐ کے کسی اصول کو بدلوانے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ آپؐ جب دنیا سے تشریف لے گئے تو اس حال میں تشریف لے گئے کہ آپؐ کی زبانِ مبارک سے نکلی ہوئی ہربات اپنی اپنی جگہ پر پتھر کی لکیر کی طرح ثابت و قائم تھی۔ دنیا کے مدبّروں اور سیاست دانوں میں سے کسی ایسے مدبّر اور سیاست دان کی نشان دہی آپ نہیں کر سکتے، جو اپنے دوچار اصولوں کو بھی دنیا میں برپا کرنے میں اتنا مضبوط ثابت ہوسکا ہو کہ اس کی نسبت یہ دعویٰ کیا جاسکے کہ اس نے اپنے کسی اصول کے معاملے میں کمزوری نہیں دکھائی یا کوئی ٹھوکر نہیں کھائی لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پورا نظامِ زندگی کھڑا کر دیا، جو اپنی خصوصیات کے لحاظ سے زمانے کے مذاق اور رجحان سے اتنا بے جوڑ تھا کہ وقت کے مدبرین اور ماہرینِ سیاست اس انوکھے نظام کے پیش کرنے کے سبب سے حضوؐر کو دیوانہ کہتے تھے لیکن حضوؐ ر نے اس نظامِ زندگی کو عملاً دنیا میں برپا کرکے ثابت کردیا کہ جو لوگ حضوؐر کو دیوانہ سمجھتے تھے، وہ خود دیوانے تھے۔

صرف یہی نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ذاتی مفاد یا مصلحت کی خاطر اپنے کسی اصول میں کوئی ترمیم نہیں فرمائی بلکہ اپنے پیش کردہ اصولوں کے لیے بھی اپنے اصولوں کی قربانی نہیں دی۔ اصولوں کے لیے جانی اور مالی اور دوسری تمام محبوبات کی قربانی دی گئی۔ ہر طرح کے خطرات برداشت کیے گئے اور ہر طرح کے نقصانات گوارا کیے گئے لیکن اصولوں کی ہرحال میں حفاظت کی گئی۔ اگر کوئی بات صرف کسی خاص مدت تک کے لیے تھی تو اس کا معاملہ اور تھا، اس کی مدت ختم ہوجانے کے بعد وہ ختم ہوگئی یا اس کی جگہ اس سے بہتر کسی دوسری چیز نے لے لی لیکن باقی رہنے والی چیزیں ہرحال اور ہرقیمت پر باقی رکھی گئیں۔ آپؐ کو اپنی پوری زندگی میں یہ کہنے کی نوبت کبھی نہیں آئی کہ میں نے دعوت تو دی تھی فلاں اصول کی لیکن اب حکمت ِعملی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو چھوڑ کر اس کی جگہ پر فلاںبات بالکل اس کے خلاف اختیار کرلی جائے۔

اصولی سیاست

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست اس اعتبار سے بھی دُنیا کے لیے ایک نمونہ اور مثال ہے کہ آپؐ نے سیاست کو عبادت کی طرح ہرقسم کی آلودگیوں سے پاک رکھا۔

آپؐ جانتے ہیں کہ سیاست میں وہ بہت سی چیزیں مباح بلکہ بعض حالات میں مستحسن سمجھی جاتی ہیں جو شخصی زندگی کے کردار میںمکروہ اور حرام قرار دی جاتی ہیں۔ کوئی شخص اگر اپنی کسی ذاتی غرض کے لیے جھوٹ بولے، چال بازیاں کرے، عہدشکنیاں کرے، لوگوں کو فریب دے یا ان کے حقوق غصب کرے تو اگرچہ اس زمانے میں اقدار اور پیمانے بہت کچھ بدل چکے ہیں، تاہم اخلاق بھی ان چیزوں کو معیوب ٹھیراتا ہے اور قانون بھی ان باتوں کو جرم قرار دیتا ہے۔ لیکن اگر ایک سیاست دان اور ایک مدبّر یہی سارے کام اپنی سیاسی زندگی میں اپنی قوم یا اپنے ملک کے لیے کرے تو یہ سارے کام اس کے فضائل و کمالات میں شمار ہوتے ہیں۔ اس کی زندگی میں بھی اس کے اس طرح کے کارناموں پر اس کی تعریفیں ہوتی ہیں اور مرنے کے بعد بھی انھی کمالات کی بناپر وہ اپنی قوم کا ہیرو سمجھا جاتا ہے۔ سیاست کے لیے یہی اوصاف و کمالات عرب جاہلیت میں بھی ضروری سمجھے جاتے تھے اور اس کا نتیجہ یہ تھا کہ جو لوگ ان باتوں میں شاطر ہوتے تھے وہی لوگ اُبھر کر قیادت کے مقام پر آتے تھے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سیاسی زندگی سے دنیا کو یہ درس دیا کہ ایمان داری اور سچائی جس طرح انفرادی زندگی کی بنیادی اخلاقیات میں سے ہے، اسی طرح اجتماعی اور سیاسی زندگی کے لوازم میں سے بھی ہے، بلکہ آپؐ نے ایک عام شخص کے جھوٹ کے مقابل میں ایک صاحب ِ اقتدار اور ایک بادشاہ کے جھوٹ کو کہیں زیادہ سنگین قرار دیا ہے۔ آپؐ کی پوری سیاسی زندگی ہمارے سامنے ہے۔ اس سیاسی زندگی میں وہ تمام مراحل آپؐ کو پیش آئے ہیں ،جن کے پیش آنے کی ایک سیاسی زندگی میں توقع کی جاسکتی ہے۔

آپؐ نے ایک طویل عرصہ نہایت مظلومیت کی حالت میں گزارا اور پھر کم و بیش اتنا ہی عرصہ آپؐ نے اقتدار اور سلطنت کا گزارا۔ اس دوران میں آپؐ کو حریفوں اور حلیفوں دونوں سے مختلف قسم کے سیاسی اور تجارتی معاہدے کرنے پڑے، دشمنوں سے متعدد جنگیں کرنی پڑیں، عہدشکنی کرنے والو ں کے خلاف جوابی اقدامات کرنے پڑے، قبائل کے وفود سے معاملے کرنے پڑے، آس پاس کی حکومتوں کے وفود سے سیاسی گفتگوئیں کرنی پڑیں اور سیاسی گفتگوئوں کے لیے اپنے وفود ان کے پاس بھیجنے پڑے، بعض بیرونی طاقتوں کے خلاف فوجی اقدامات کرنے پڑے۔ یہ سارے کام آپؐ نے انجام دیے لیکن دوست اور دشمن ہرشخص کو اس بات کا اعتراف ہے کہ آپؐ نے کبھی کوئی وعدہ جھوٹا نہیں کیا، اپنی کسی بات کی غلط تاویل کرنے کی کوشش نہیں فرمائی، کوئی بات کہہ چکنے کے بعد اس سے انکار نہیں کیا، کسی معاہدے کی کبھی خلاف ورزی نہیں کی۔ حلیفوں کا نازک سے نازک حالات میں بھی ساتھ دیا اور دشمنوں کے ساتھ بدتر سے بدتر حالات میں بھی انصاف کیا۔ اگر آپ دُنیا کے مدبّرین اور اہلِ سیاست کو اس کسوٹی پر جانچیں تو مَیں پورے اعتماد کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کو بھی آپ اس کسوٹی پر کھرا نہ پائیں گے۔ پھر یہ بات بھی ملحوظ رکھنے کی ہے کہ سیاست میں عبادت کی سی دیانت اور سچائی قائم رکھنے کے باوجود حضوؐر کو اپنی سیاست میں کبھی کسی ناکامی کا تجربہ نہیں کرنا پڑا۔ اب آپ اس چیز کو چاہے تدبّر کہیے یا حکمت ِ نبوت۔

خوں ریزی سے پاک انقلاب

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست اور حضوؐر کے تدبّر کا یہ بھی ایک اعجاز ہے کہ آپؐ نے عرب جیسے ملک کے ایک ایک گوشے میں امن و عدل کی حکومت قائم کردی۔ کفّار و مشرکین کا زور آپؐ نے اس طرح توڑ دیا کہ فتح مکہ کے موقعے پر فی الواقع انھوں نے گھٹنے ٹیک دیے، یہود کی سیاسی سازشوں کا بھی آپؐ نے خاتمہ کر دیا، رومیوں کی سرکوبی کے لیے بھی آپؐ نے انتظامات فرمائے۔ یہ سارے کام آپؐ نے کرڈالے لیکن پھر بھی انسانی خون بہت کم بہا۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کی تاریخ بھی شہادت دیتی ہے اور آج کے واقعات بھی شہادت دے رہے ہیں کہ دنیا کے چھوٹے چھوٹے انقلابات میں بھی ہزاروں لاکھوں جانیں ختم ہوجاتی ہیں اور مال و اسباب کی بربادی کا تو کوئی اندازہ نہیں کیاجاسکتا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھوں سے جو انقلاب برپا ہوا، اس کی عظمت اور وسعت کے باوجود شاید ان نفوس کی تعداد چندسو سے زیادہ نہیں ہوگی جو اس جدوجہد کے دوران میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے شہید ہوئے یا مخالف گروہ کے آدمیوں میں سے قتل ہوئے۔

پھر یہ بات بھی غایت درجہ اہمیت رکھتی ہے کہ دنیا کے معمولی معمولی انقلابات میں بھی ہزاروں لاکھوں آبروئیں فاتح فوجوں کی ہوس کا شکارہوجاتی ہیں اور مفتوحہ ملک کی سڑکیں اور گلیاں حرام کی نسلوں سے بھرجاتی ہیں۔ اس تہذیب وتمدن کے عہد میں بھی اس صورتِ حال پر اربابِ سیاست شرمندگی اور ندامت کے اظہار کے بجاے اس کو ہرانقلاب کا ایک ناگزیر نتیجہ قرار دیتے ہیں لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں دنیا میں جو انقلاب رُونما ہوا، اس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ کوئی ایک واقعہ بھی ہم کو ایسا نہیں ملتا کہ کسی نے کسی کے ناموس پر دست درازی کی ہو۔

دنیوی کرّوفر کے بجاے فقر و درویشی

اہلِ سیاست کے لیے طمطراق بھی سیاست کے لوازم میں سے سمجھا جاتا ہے۔ جو لوگ عوام کو ایک نظام میں پرونے اور ایک نظم قاہر کے تحت منظم کرنے کے لیے اُٹھتے ہیں وہ بہت سی باتیں اپنوں اور بے گانوں پر اپنی سطوت جمانے اور اپنی ہیبت قائم کرنے کے لیے اختیار کرتے ہیں اور سمجھتے یہ ہیں کہ یہ ساری باتیں ان کی سیاسی زندگی کے لازمی تقاضوں میں سے ہیں۔ اگر وہ یہ باتیں نہ اختیار کریں گے تو سیاست کے جو تقاضے ہیں وہ ان کے پورے کرنے سے قاصر رہ جائیں گے۔ اس مقصد کے لیے جب وہ نکلتے ہیں تو بہت سے لوگ ان کے جلو میں چلتے ہیں، جہاں وہ بیٹھتے ہیں ان کے نعرے بلند کرائے جاتے ہیں، جہاں وہ اُترتے ہیں ان کے جلوس نکالے جاتے ہیں، جلسوں میں ان کے حضور میں ایڈریس پیش کیے جاتے ہیں اور ان کی شان میں قصیدے پڑھے جاتے ہیں۔ جب وہ مزید ترقی کرجاتے ہیں تو ان کے لیے قصرو ایوان آراستہ کیے جاتے ہیں، ان کو سلامیاں دی جاتی ہیں، ان کے لیے بَری و بحری اور ہوائی خاص سواریوں کے انتظامات کیے جاتے ہیں۔ جب وہ کبھی کسی سڑک پر نکلنے والے ہوتے ہیں تو وہ سڑک دوسروں کے لیے بند کردی جاتی ہے۔

اُس زمانے میں ان چیزوں کے بغیر نہ کسی صاحب ِ سیاست کا تصور دوسرے لوگ کرتے اور نہ کوئی صاحب ِ سیاست ان لوازم سے الگ خود اپنا کوئی تصور کرتا لیکن ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس اعتبار سے بھی دُنیا کے تمام اہلِ سیاست سے الگ رہے۔ جب آپؐ اپنے صحابہؓ میں چلتے تو کوشش فرماتے کہ سب کے پیچھے چلیں، مجلس میں تشریف رکھتے تو اس طرح گھل مل کر بیٹھتے کہ یہ امتیاز کرنا مشکل ہوتا کہ محمدؐ رسول اللہ کون ہیں؟ کھانا کھانے کے لیے بیٹھتے تو دوزانو ہوکر بیٹھتے اور فرماتے کہ میں اپنے رب کا غلام ہوں اور جس طرح ایک غلام کھانا کھاتا ہے، اس طرح مَیں بھی کھانا کھاتا ہوں۔ ایک مرتبہ ایک بدو اپنے اس تصور کی بنا پر جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اس کے ذہن میں رہا ہوگا، سامنے آیا تو حضوؐر کو دیکھ کر کانپ گیا۔ آپؐ نے اس کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ڈرو نہیں، میری ماں بھی سوکھا گوشت کھایا کرتی تھی، یعنی جس طرح تم نے اپنی ماں کو بدویانہ زندگی میں سوکھا گوشت کھاتے دیکھا ہوگا، اس طرح کا سوکھا گوشت کھانے والی ایک ماں کا بیٹا مَیں بھی ہوں۔ نہ آپؐ کے لیے کوئی خاص سواری تھی، نہ کوئی خاص قصر و ایوان تھا، نہ کوئی خاص باڈی گارڈ تھا۔ آپؐ جو لباس دن میں پہنتے، اس میں شب میں استراحت فرماتے اور صبح کو وہی لباس پہنے ہوئے ملکی اور غیرملکی وفود اور سفرا سے مسجد نبویؐ کے فرش پر ملاقاتیں فرماتے اور تمام اہم سیاسی اُمور کے فیصلے فرماتے۔

یہ نہ خیال فرمایئے کہ اس زمانے کی بدویانہ زندگی میں سیاست اس طمطراق اور ٹھاٹ باٹ سے آشنا نہیں ہوئی تھی، جس طمطراق اور جس ٹھاٹ باٹ کی وہ اب عادی ہوگئی ہے۔ جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں ان کا خیال بالکل غلط ہے۔ سیاست اور اہلِ سیاست کی تو آشا ہی ہمیشہ سے یہی رہی ہے۔ فرق اگر ہواہے تو محض بعض ظاہری باتوں میں ہوا ہے۔ البتہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک نئے طرز کی سیاسی زندگی کا نمونہ دنیا کے سامنے رکھا، جس میں دنیوی کرّوفر کے بجاے خلافت الٰہی کا جلال اور ظاہری ٹھاٹ باٹ کی جگہ خدمت اور محبت کا جمال تھا لیکن اس سادگی اور اس فقرودرویشی کے باوجود اس کے دبدبے اور اس کے شکوے کا یہ عالم تھا کہ روم و شام کے بادشاہوں پر اس کے تصور سے لرزہ طاری ہوتا تھا۔

اہل اور تربیت یافتہ رفقا کی تیاری

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست اور آپؐ کے تدبّر کا ایک اور پہلو بھی خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کہ آپؐ نے اپنی حیاتِ مبارک ہی میں ایسے لوگوں کی ایک بہت بڑی جماعت بھی تربیت کر کے تیار کر دی جو آپؐ کے پیدا کردہ انقلاب کو اس کے اصلی مزاج کے مطابق آگے بڑھانے، اس کو مستحکم کرنے اور اجتماعی و سیاسی زندگی میں اس کے تمام مقتضیات کو بروے کار لانے کے لیے پوری طرح اہل تھے۔ چنانچہ تاریخی حقیقت سے کوئی شخص بھی انکار نہیں کرسکتا کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس انقلاب نے عرب سے نکل کر آس پاس کے دوسرے ممالک میں قدم رکھ دیا اور دیکھتے دیکھتے اس کرئہ ارض کے تین براعظموں میں اس نے اپنی جڑیں جمالیں اور اس کی اس وسعت کے باوجود اس کی قیادت کے لیے موزوں اشخاص و رجال کی کمی نہیں محسوس ہوئی۔ میں نے جن تین براعظموں کی طرف اشارہ کیا ہے، ان کے متعلق یہ حقیقت بھی ہرشخص جانتا ہے کہ ان کے اندر وحشی قبائل آباد نہیں تھے بلکہ وقت کی جبار و قہار سلطنتیں نہایت ترقی یافتہ تھیں لیکن اسلامی انقلاب کی فوجوں نے جزیرئہ عرب سے اُٹھ کر ان کو ان کی جڑوں سے اس طرح اُکھاڑ پھینکا گویا زمین میں ان کی کوئی بنیاد ہی نہیں تھی اور ان کے ظلم و جَور کی جگہ ہرگوشے میں اسلامی تہذیب و تمدن کی برکتیں پھیلا دیں جن سے دنیا صدیوں تک متمتع ہوتی رہی۔

دنیا کے تمام مدبّرین اور اہلِ سیاست کی پوری فہرست پر نگاہ ڈال کر غور کیجیے کہ ان میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نظر آتا ہے جس نے اپنے دوچار ساتھی بھی ایسے بنانے میں کامیابی حاصل کی ہوجو اس کے فکروفلسفہ اور اس کی سیاست کے ان معنوں میں عالم اور عامل رہے ہوں، جن معنوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے عالم و عامل ہزاروں صحابہؓ تھے۔

نبیِ خاتم    ؐ اور پیغمبر عالم    ؐ

آخر میں ایک بات بطور تنبیہ عرض کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا   اصلی مرتبہ اور مقام یہ ہے کہ آپؐ نبیِ خاتم  ؐ اور پیغمبرِعالمؐ ہیں۔ سیاست اور تدبّر اس مرتبۂ بلند کا ایک ادنیٰ شعبہ ہے۔ جس طرح ایک حکمران کی زندگی پر ایک تحصیل دار کی زندگی کے زاویے سے غور کرنا ایک بالکل ناموزوں بات ہے، اس سے زیادہ ناموزوں بات شاید یہ ہے کہ ہم سیّدکونین صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر ایک ماہرِ سیاست یا ایک مدبّر کی زندگی کی حیثیت سے غور کریں۔

نبوت و رسالت ایک عظیم عطیۂ الٰہی ہے۔ جب یہ عطیہ اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو بخشتا ہے تو وہ سب کچھ اس کو بخش دیتا ہے، جو اس دنیا میں بخشا جاسکتا ہے۔ پھر حضورصلی اللہ علیہ وسلم تو صرف نبی ہی نہیں تھے بلکہ خاتم الانبیاؐ تھے۔ صرف رسول ہی نہیں تھے بلکہ سیّدالمرسلؐ تھے۔ صرف  اہلِ عرب ہی کے لیے نہیں بلکہ تمام عالم کے لیے مبعوث ہوئے تھے اور آپؐ کی تعلیم و ہدایت صرف کسی خاص مدت تک ہی کے لیے نہیں تھی بلکہ ہمیشہ باقی رہنے والی تھی۔ اور یہ بھی ہرشخص جانتا ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کسی دینِ رہبانیت کے داعی بن کرنہیں آئے، بلکہ ایک ایسے دین کے داعی تھے جو روح اور جسم دونوں پر حاوی اور دنیا و آخرت دونوں کی حسنات کا ضامن تھا، جس میں عبادت کے ساتھ سیاست اور درویشی کے ساتھ حکمرانی کا جوڑ محض اتفاق سے نہیں پیدا ہوگیا تھا بلکہ یہ عین اس کی فطرت کا تقاضا تھا۔ جب صورتِ حال یہ ہے تو ظاہر ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا سیاست دان اور مدبّر اور کون ہوسکتا ہے لیکن یہ چیز آپؐ کا اصلی کمال نہیں بلکہ جیسا کہ مَیں نے عرض کیا آپؐ کے فضائل و کمالات کا محض ایک ادنیٰ شعبہ ہے۔

دنیا کی مختلف قوموں اور مختلف ملکوں میں ایک سے ایک مصلح گزرے ہیں، جنھوں نے انسانی معاشرے کو سدھارنے کی جدوجہد کی، جنھوں نے اچھائیوں کی دعوت دی اور برائیوں سے روکا، لیکن ان میں سے ہر ایک کا حال یہ تھا کہ اس نے کچھ خاص خاص اچھائیوں پر زور دیا اور چند ایک برائیوں کے خلاف آواز اٹھائی۔

ایسا کوئی مصلح نہیں پاؤگے، جس نے پوری انسانی زندگی کو اچھائی کے سانچے میں ڈھال دیا ہو، جس نے زندگی کے تمام پہلوؤں کا گہرا مطالعہ کیا ہو۔ ہر شعبۂ زندگی میں جتنی اچھائیاں ہوسکتی تھیں، ان سب کی تاکید کی ہو اور جتنی برائیاں ہوسکتی تھیں، ان سب کے خلاف آواز اٹھائی ہو۔

یہ خصوصیت بس محمد عربیؐ کو حاصل تھی، جنھیں ربّ العالمین نے رحمۃٌ للعالمینؐ بنا کر بھیجا تھا اور تورات و انجیل میں، جن کی خصوصیات میں سے یہ خصوصیت خاص طور سے ذکر فرمائی تھی:

یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ (الاعراف ۷:۱۵۷) وہ انھیں اچھائیوں کا حکم دے گا اور برائیوں سے روکے گا۔

چنانچہ اس پیش گوئی کے مطابق آنے والا نبی آیا تو اس نے ایسا نہیں کیا کہ وہ عام انسانوں سے الگ تھلگ رہتے ہوئے کچھ اچھائیوں کی تلقین کردے اور کچھ برائیوں سے دُور رہنے کی نصیحت کردے، بلکہ اس نے عام انسانوں کے درمیان اور مسائل کے منجدھار میں رہتے ہوئے اپنی زندگی گزاری اور قدم قدم پر پیش آنے والے معاملات میں بتایا کہ خیر کیا ہے؟ شر کیا ہے؟  جائز کیا ہے؟ ناجائز کیا ہے؟ کیا کرنا ہے؟ اور کیا نہیں کرنا ہے؟

تاجر کو ہدایت

اس نے بتایا اگر تجارت کی جائے تو اس طرح کی جائے کہ کسی کو دھوکا نہ دیا جائے۔    اس نے تاکید کی کہ جو چیز لوگوں کو دکھاؤ، وہی چیز ان کے ہاتھ فروخت کرو۔ ایسا نہ ہو کہ سامنے تو اچھا مال رکھ دو اور دیتے وقت غلط مال دے دو۔

ایک بار آپؐ نے دیکھا کہ ایک شخص غلے کی تجارت کر رہا ہے اور سامنے غلّے کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ آپؐ نے اس غلّے کے اندر اپنا ہاتھ ڈال دیا۔ دیکھا تو اوپر جو غلہ تھا، اندر کا غلہ اس سے مختلف تھا۔ اوپر تو سوکھا ہوا غلہ تھا مگر اندرکا غلہ بھیگا ہوا تھا۔

آپؐ نے فرمایا: ’’اے گندم بیچنے والے یہ کیا ہے؟‘‘

’’اللہ کے رسولؐ! یہ بارش سے بھیگ گیا ہے‘‘ گندم بیچنے والے نے عرض کیا۔

آپؐ نے فرمایا: تو اس بھیگے ہوئے غلے کو اوپر کیوں نہیں رکھا کہ لوگ اسے دیکھ سکیں۔ یادرکھو، جو لوگوں کو دھوکا دیتا ہے وہ ہم میں سے نہیں۔مَنْ غَشَّ فَلَیْسَ مِنِّی(مسلم:۱۰۲)

اس طرح آپؐ نے حیات انسانی کے ایک ایک گوشے کا جائزہ لیا اور زندگی کی کوئی ایسی اچھائی نہیں، جس کی تاکید نہ کی ہو اور کوئی ایسی برائی نہیں، جس سے خبردار نہ کیا ہو۔

ایمان کا دلکش تصور

حد یہ ہے کہ آپؐ نے ایک مومن کے ایمان کی علامت ہی یہ قرار دی کہ اسے اچھائی کرکے خوشی ہو اور برائی سرزد ہو جائے تو تکلیف ہو:

مَنْ سَرَّتْہُ حَسَنَتُہُ وَ سَائَ تْہُ سَیِّئَتُہُ فَذَلِکَ الْمُوْمِنُ (سنن ترمذی: ۲۱۶۵) آپ نے مومن کی شان ہی یہ بتائی کہ لوگ اس کی طرف سے پرامن رہیں۔ اس سے کوئی اندیشہ نہ رکھیں:

وَالْمُوْمِنُ مَنْ أَمِنَہُ النَّاسُ(سنن النسائی:۴۹۹۵)

آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ہاں بندے کا نام مومنین کے رجسٹر میں لکھا ہی نہیں جاتا، جب تک لوگ اس کے ہاتھ اور زبان سے محفوظ نہ ہوں، اور وہ مومنین کا درجہ نہیں حاصل کرسکتا جب تک اس کا پڑوسی اس کی اذیتوں سے محفوظ نہ ہو۔

آپؐ نے فرمایا: تین چیزیں ایسی ہیں، جو کسی کے اندر بھی ہوں تو وہ منافق شمار ہوگا، چاہے وہ روزے رکھتا ہو اور نمازیں پڑھتا ہو۔ حتیٰ کہ اس نے حج اور عمرہ بھی کرلیا ہو اور یہ دعویٰ کرتا ہو کہ وہ مسلم ہے۔ وہ شخص جو بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے۔

آپؐ نے فرمایا: وہ شخص ہم میں سے نہیں، جو عصبیت کی دعوت دے۔ وہ شخص بھی ہم میں سے نہیں، جو عصبیت کی بنیاد پر جنگ کرے۔ اور وہ شخص بھی ہم میں سے نہیں جو عصبیت پر جان دے۔

کیا قوموں کی پوری تاریخ میں کوئی بھی مصلح ایسا گزرا ہے، جس نے زندگی کے ایک ایک شعبے کی اصلاح کی ہو؟

کیا ایسا کوئی مصلح گزرا ہے، جس کی پوری دعوت کی بنیاد عام امن و محبت ہو؟

کیا ایسا کوئی مصلح گزرا ہے، جس کی دعوت کا طرۂ امتیاز ہی اچھائیوں سے محبت اور برائیوں سے نفرت ہو؟

اب آیئے ذرا تفصیل سے دیکھیے، زندگی کا کون سا گوشہ ہے، جس کی رحمت عالمؐ نے اصلاح نہیں کی؟ حیاتِ انسانی کا کون سا شعبہ ہے، جس کی برائیوں کا سد باب نہیں کیا اور اس میں بھلائیوں کو فروغ نہیں دیا؟

ظلم کا خاتمہ

انسانی زندگی کی سب سے بڑی برائی ظلم ہے۔ ظلم کے خلاف بے شمار لوگوں نے آواز اٹھائی، لیکن رحمۃٌ للعالمین نے ظلم کی جڑوں پر جس طرح تیشہ چلایا، اس کی کوئی نظیر نہیں پاؤگے۔

آپؐ نے فرمایا: اگر کوئی کسی کے بارے میں جانتا ہے کہ وہ ظالم ہے، اور پھر وہ اس ظالم کے ساتھ اس کی مدد کے لیے چند قدم بھی چلتا ہے، تو وہ اسلام کے دائرے سے خارج ہے۔

آپؐ نے فرمایا: اگر کوئی ظلم و زیادتی سے کسی کی زمین پر قابض ہو جاتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر سخت غضب ناک ہوگا۔

ظلم تو بہت دور کی بات ہے، آپؐ نے تو یہ تاکید فرمائی کہ اگر کسی مزدور سے تم نے خدمت لی ہے تو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے پہلے اس کی مزدوری ادا کردو۔

آپؐ نے یہاں تک تاکید فرمائی کہ اگر کوئی آدمی کسی سے کوئی سودا کر رہا ہو تو تم اس کے بیچ میں نہ کودو۔ اگر کسی نے کسی کونکاح کا پیغام دیا ہے تو تم اس کے قریب نہ پھٹکو، اور اس کا معاملہ خراب   نہ کرو۔ غرض آپؐ نے ظلم اور حق تلفی کے تمام دروازے، بلکہ یوں کہو کہ ظلم اور حق تلفی کے تمام رخنے بند کردیے۔ کوئی بھی ایسی بات، کوئی بھی ایسا معاملہ، کوئی بھی ایسا انداز، جس سے ظلم کی بوآتی ہو،  اس سے آپؐ نے کبھی چشم پوشی نہیں کی۔

حیوانوں کے ساتھ شفقت

انسان تو انسان، آپؐ نے کسی حیوان کو بھی مظلومی کی حالت میں دیکھنا پسند نہیں فرمایا۔ آپؐ کا ارشاد ہے: اگر کسی نے کوئی ننھی سی چڑیا بھی ناحق ماری تو قیامت کے دن وہ اللہ کے یہاں جواب دہ ہوگا۔

آپؐ نے فرمایا: لعنت ہے اس شخص پر، جو کسی حیوان کا مُثلہ کرے۔ محض اپنی تفریح کے لیے اس کے جسم میں چیر پھاڑ کرے۔

آپؐ نے ظلم و زیادتی کو، چاہے وہ کسی پر کسی بھی شکل میں ہو، ایک لمحے کے لیے بھی برداشت نہیں کیا۔ اس کے برعکس آپؐ نے اخوت اور محبت کا درس اور شفقت اور دل سوزی کا پیغام دیا۔

ایک موقعے پر آپؐ نے مہاجرین و انصار کو مخاطب کرکے فرمایا:

’’اے گروہ مہاجرین! اور اے گروہِ انصار! تمھارے کچھ بھائی ایسے بھی ہیں، جن کے پاس نہ مال ہے، نہ ان کا کوئی گھر بار ہے، تو تم میں سے ہر شخص دودو تین تین آدمیوں کو اپنے ساتھ ملا لے‘‘۔

ایک اور موقعے پر صحابہ کرامؓ سے فرمایا:

’’جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو، وہ ایک تیسرے آدمی کو بھی اپنے ساتھ لے جائے۔ جس کے پاس چار آدمیوں کا کھانا ہو، وہ اپنے ساتھ ایک پانچواں، بلکہ چھٹا شخص بھی لے جائے‘‘۔

ایک دوسرے موقعے پر آپؐ نے ساتھیوں کو نصیحت کی:’’جس کے پاس فاضل سواری ہو وہ اپنی سواری اسے دے دے، جس کے پاس سواری نہ ہو اور جس کے پاس ضرورت سے فاضل کھانا ہو، وہ اس شخص کو کھلادے، جس کے پاس کچھ کھانے کو نہ ہو‘‘۔

اخوت ومحبت اور ہمدردی و غم خواری کا کتنا زبردست پیغام ہے یہ!

پیغام محبت

آپؐ کا پیغام محبت مسلمانوں کے لیے خاص نہ تھا بلکہ ہر ہر انسان سے آپؐ نے محبت کرنا سکھایا ہے۔ ہر انسان کے دکھ درد میں شریک ہونے اور مصیبت میں اس کا ساتھ دینے کا پیغام دیا۔

آپؐ نے فرمایا: اگر کوئی آسودہ اور سیر شکم ہوکر سوتا ہے اور اس کے بغل میں اس کا پڑوسی بھوکا رہتا ہے، اور ایسا وہ جانتے بوجھتے کرتا ہے تو اس کا ایمان قابل قبول نہیں۔

وہ پڑوسی، جس کے ساتھ ہمدردی و غم خواری کو آپؐ نے ایمان کے لیے ضروری قرار دیا، اس کا مسلم ہونا ضروری نہیں ہے۔ وہ یہودی بھی ہوسکتا ہے، عیسائی بھی ہوسکتا ہے، ہندو بھی ہوسکتا ہے، سکھ بھی ہوسکتا ہے۔ وہ کسی بھی قوم، کسی بھی نسل اور کسی بھی مذہب کا ہو سکتا ہے۔

آپؐ نے پڑوسی کے حقوق کی مزید تاکید کرتے ہوئے فرمایا:تم میں سے کوئی شخص اپنی زمین یا گھر یا کھیت یا باغ بیچنے کا ارادہ کرے تو پہلے اپنے پڑوسی کو اس کی اطلاع دے۔

یہاں بھی آپؐ نے کسی پڑوسی کو خاص نہیں کیا۔ یہ پڑوسی کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ کسی بھی طبقے اور کسی بھی مذہب کا ہوسکتا ہے۔ جو بھی پڑوسی ہو اسے یہ حق حاصل ہوگا۔

حقیقت یہ ہے کہ رحمۃٌ للعالمین کی یہ محبت و شفقت ہر ایک کے لیے عام تھی۔ مسلم ہو یا غیرمسلم، دوست ہو یا دشمن، انسان ہو یا حیوان کوئی بھی آپؐ کی اس محبت سے محروم نہ رہا۔ سب سے آپؐ نے خود محبت کی اور ساتھیوں کو بھی اسی محبت کی تعلیم دی۔

آپؐ نے ساتھیوں کو تاکید فرمائی: لوگوں کی نقالی نہ کرو۔ یہ نہ کہو کہ لوگ اچھا سلوک کریں گے تو ہم بھی اچھا سلوک کریں گے، لوگ ظلم کریں گے تو ہم بھی ظلم کریں گے۔ تم اپنا یہ اصول بنا لو کہ لوگ تمھارے ساتھ اچھا سلوک کریں تو ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ وہ براسلوک کریں، تو  تم بُرا سلوک نہ کرو۔ تم کبھی کسی پر ظلم نہ کرو۔

کیا باہمی سلوک اور انسانی تعلقات کے سلسلے میں اتنی جامع اور مکمل تعلیمات کہیں اور ملتی ہیں؟ کیا انسانی تعلقات کے لیے اس سے زیادہ خوب صورت ہدایات کسی اور مصلح کے یہاں موجود ہیں؟

انسانوں کو عزت دی

اور آگے بڑھو، دیکھو اس رہبر کامل نے انسانوں کو کتنی عزت دی۔ ایک طرف تو آپؐ نے حسن تعلق اور حُسنِ سلوک پر زور دیا، مگر دوسری طرف انسانیت کی عظمت اور  احترام بھی ملحوظ رکھا۔

آپؐ نے انسانوں سے محبت کرنے کی تعلیم تو دی، مگر انسانوں کی غلامی سے منع کیا۔ آپؐ نے فرمایا:کسی مخلوق کی اطاعت، جس سے خالق کی نافرمانی ہوتی ہو، کسی بھی حال میں جائز نہیں۔ کسی بھی انسان کی اطاعت بس بھلائی کے کاموں میں کرنی ہے۔

کیا یہ انسان کی بے عزتی نہیں کہ وہ اپنے ہی جیسے انسانوں کی غلامی کرے؟ اور کیا یہ انسان کی نادانی نہیں کہ وہ جس خدا کا بندہ ہے، جس کی نعمتوں سے رات دن سیراب ہوتا ہے، اور جو غضب ناک ہو جائے، تو اس کے مقابلے میں کوئی پناہ دینے والا نہیں، ایک ایسی ذات کو وہ ناخوش کرکے اپنے ہی جیسے بے بس انسانوں کو خوش کرنے کی کوشش کرے؟چنانچہ آپؐ نے فرمایا: اپنے رب کو ناخوش کرکے اگر کسی نے اپنے بادشاہ کو خوش کیا تو اس کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

رحمۃ للعالمینؐ نے انسان کے مقام کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا، جب اسے یہ احساس دلایا کہ تمھارا خالق ہی اس لائق ہے کہ اس کی بندگی کرو۔ کوئی دوسرا اس قابل نہیں کہ اس کی عبادت کی جائے، یا آنکھیں بند کرکے ہر صحیح اور غلط بات میں اس کی اطاعت کی جائے۔

انسانی تاریخ میں کتنے بڑے بڑے مصلحین اور کتنے بڑے بڑے رہنما گزرے ہیں۔ ان رہنماؤں اور مصلحین کی بہت لمبی فہرست ہے۔ اس لمبی فہرست کو سامنے رکھو، اور پھر بتاؤ، ان رہنماؤں اور مصلحین میں سے کون ہے، جس نے انسان کو یہ عزت دی ہو؟

انسانی مساوات

آپؐ نے فرمایا: سارے انسان آدمؑ سے ہیں اور آدمؑ مٹی سے بنائے گئے۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی گورے کو کسی کالے پر برتری حاصل نہیں ہے۔ تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے، جو سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا ہو۔

آپؐ نے یہ ارشاد فرما کر پوری نوعِ انسانی کو کیسی عظمت عطا کردی! وہ مظلوم اوربدحال طبقے، جو پشت ہا پشت سے بلکہ ہزاروں سال سے کچلے ہوئے ہیں، جو ہر طرح سے دبائے اور ستائے ہوئے ہیں، جو ہر طرح کی عزت اور ہر طرح کی رعایت سے محروم ہیں، ان کے ٹوٹے ہوئے زخمی دلوں پر آپؐ نے کیسا ٹھنڈا مرہم رکھ دیا!!

سارے انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں، لہٰذا وہ سب برابر ہیں۔ آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ پیدایشی طور سے ان میں کوئی اونچ نیچ نہیں۔ کوئی چھوٹا بڑا نہیں۔ ان میں سب سے اونچا اور سب سے بڑا بس وہ ہے، جو اپنے کاموں کے لحاظ سے سب سے اونچا ہو، جو اپنے رب سے سب سے زیادہ ڈرنے والا اور اس کا سب سے زیادہ فرماں بردار ہو۔

عزت و ذلت کا کیسا منصفانہ اور کیسا بے مثال پیمانہ ہے! اگر کسی سماج میں عزت و ذلت کا یہ پیمانہ رائج ہوجائے، تو اس سے بہتر سماج اور کون سا ہوسکتا ہے؟

حکام کو گالیاں نہ دو

پھر آپؐ نے جہاں برائی اور خدا کی نافرمانی میں کسی حاکم کی اطاعت سے منع فرمایا، وہیں رعایا کو اس بات کی تاکید فرمائی کہ وہ اپنے ذمے داروں یا سربراہوں کو گالیاں نہ دے۔ آپؐ نے فرمایا: امرا و حکاّم کو گالیاں نہ دو، ان کے لیے دعائیں کرو کہ وہ سدھر جائیں، کیونکہ ان کے سدھر جانے سے تمھارے تمام معاملات سدھر جائیں گے۔

کتنی حکیمانہ بات فرمائی ہے آپؐ نے! امرا اور حکام کی برائیوں اور بدعنوانیوں سے نفرت اور بے زاری تو بہت اچھی اور قابل قدر بات ہے، لیکن اس کا علاج یہ تو نہیں ہے کہ انھیں گالیاں دی جائیں۔ انھیں گالیاں دینے سے ان کی برائیاں اور بدعنوانیاں تو دور نہیں ہوں گی، البتہ اس سے ایک نئی برائی جنم لے گی۔ ان سے خود گالیاں دینے والوں کا کردار داغ دار ہوگا۔

ایسے موقعے پر تو بہترین طرزِ عمل یہی ہوسکتا ہے کہ ان برائیوں کو دور کرنے کی سنجیدہ کوششیں کی جائیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی جائے کہ وہ حاکموں اور سربراہوں کو ہدایت دے۔ انھیں صحیح روش اختیار کرنے کی توفیق ارزانی کرے۔

حکاّم کو تنبیہ

آپؐ نے حکمرانوں کو تنبیہ کی، فرمایا: جس نے کسی گروہ میں سے کسی شخص کو کوئی عہدہ دیا، حالانکہ اس گروہ میں کوئی ایسا شخص موجود ہے، جو اس سے زیادہ اللہ کی نگاہ میں پسندیدہ ہے، تو اس نے اللہ، اللہ کے رسول اور تمام مومنین کے ساتھ خیانت کی۔

کتنی عمدہ، متوازن اور جچی تلی ہدایت ہے یہ!

اگر عہدوں اور مناصب کی تقسیم محض نیکی، دین داری اور اہلیت کی بنیاد پر ہونے لگے تو   یہ دنیا خیر کا گہوارہ بن جائے اور شر و فساد کو کہیں پنپنے کا موقع نہ ملے۔

یہ چند مثالیں ہیں، ورنہ آپؐ نے زندگی کے تمام شعبوں کے سلسلے میں اسی طرح رہنمائی دی۔ ہر معاملے کے، جو اچھے اور تعمیری پہلو تھے، ان کی تلقین فرمائی اور جو برے اور منفی پہلو تھے، ان سے منع فرمایا۔ آپؐ نے ہر اچھائی کی بھر پور حوصلہ افزائی کی اور ہر برائی کی شدت سے مذمت کی۔

رحمۃٌ للعالمین  ؐ کا امتیاز

یہ رحمۃ للعالمینؐ کی ایسی خصوصیت ہے، جس میں آپ ؐ کا کوئی شریک نہیں۔ دنیا کی ایک ایک قوم کے مصلحین اور دانشوروں کو دیکھ ڈالو۔ ان کے کاموں اور ان کے پیغاموں کو دیکھ ڈالو، ان کی ہدایتوں اور ان کی نصیحتوں کا مطالعہ کر ڈالو، تم کسی کے یہاں بھی نیکی اور بدی، حق اورناحق، صحیح اور غلط کا وہ واضح اور وسیع و ہمہ گیر تصور نہیں پاؤگے، جو رحمۃٌ للعالمینؐ کے یہاں نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔

اپنی بعثت کا تعارف کراتے ہوئے آپؐ نے کتنی صحیح بات فرمائی تھی:میں بھیجا گیا ہوں، تاکہ اچھے اخلاق کی تکمیل کروں، تمام اچھائیوں کو کمال کی بلندیوں تک پہنچا دوں۔(موطا)

اگر آج دنیا چاہتی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرہ اور ایک پاکیزہ ماحول کے اندر ایک پاکیزہ زندگی بسر کرے۔ اور ایک پاکیزہ زندگی کی، جو لذتیں اور برکتیں ہوتی ہیں، ان سے ہمکنار ہو، تو اس کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ کسی تعصب سے کام لیے بغیر رحمۃٌ للعالمینؐ کی دی ہوئی تعلیمات اورہدایات کو اپنے لیے مشعل راہ بنائے۔ وہ زندگی کی تاریک گلیوں میں ان سے روشنی حاصل کرے۔ ورنہ زندگی کی ظلمتوں سے نکلنا ممکن نہیں۔ انسانی سماج کی برائیوں سے نجات پانا ممکن نہیں اور ان ظلمتوں اور برائیوں کے ہاتھوں آج کا انسان کرب و اضطراب کے، جن انگاروں پر لوٹ رہا ہے، ان انگاروں سے چھٹکارا پانا ممکن نہیں۔

۱۹۸۰ء میں غرناطہ کے دفترِ سیاحت میں، مَیں مسلمانوں کے کسی مرکز کا پتا دریافت کرنے گیا۔ایک بوسیدہ سے رجسٹر کی اُلٹ پلٹ کے بعد کائونٹر پر کھڑے شخص نے مجھے ایک پتا لکھوایا۔ یہ پتا میں نے ایک ٹیکسی والے کو دکھایا اور وہ مجھے بہت سی پیچ در پیچ گلیوں سے گزار کر ایک گلی میں واقع پرانے مکان پر لے گیا۔ میں نے ٹیکسی والے سے کچھ دیر انتظار کرنے کے لیے کہا تاکہ معلوم کرلوں کہ کیا اس نے مجھے ٹھیک جگہ پر پہنچایا ہے۔

مَیں مکان کے اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ ایک بڑے تھال کے گرد دنیا کے مختلف ممالک کے تقریباً ۱۵؍افراد روایتی اسلامی لباس، جبے اور قبے پہنے کھانے کے لیے بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے کسی تعارف کے بغیر ہی ہاتھ کے اشارے سے مجھے کھانے میں شریک ہونے کی دعوت دی۔ میں نے گھر سے باہر نکل کر ٹیکسی ڈرائیور کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے رخصت کیا، اور دوبارہ اندر داخل ہوکر کھانے کے تھال کے گرد حلقہ باندھے ہوئے مجمعے میں شامل ہوگیا۔ ان شرکا کی اکثریت ان لوگوں پر مشتمل تھی جن کو عرفِ عام میں ’ہپی‘ (Hippie) اور ’بے فکرے‘ کہتے تھے۔

اس مجمعے میں برطانیہ کے انگریز، مراکش کے عرب اور خود غرناطہ کے نومسلم شامل تھے۔ مجھے اس وقت سخت حیرت ہوئی، جب تعارف کے بعد ایک شریکِ محفل نے میرے ساتھ پشتو میں گفتگو شروع کی۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب پاکستان میں مکمل امن تھا اور دنیا بھر کے  سیاحوں کے لیے سوات، پشاور اور افغانستان ایک جنّت نظیر بنا ہوا تھا۔

کھانے سے فارغ ہونے کے بعد غرناطہ کے ایک نومسلم ساتھی نے مجھے غرناطہ کی سیر  کے لیے دعوت دی تو میں نے اس مہربان سے کہا:’’ غرناطہ کی گلی کوچوں میں پیدل چل کر مجھے زیادہ خوشی ہوگی‘‘۔انھوں نے مجھے غرناطہ کی ایک خصوصیت تو یہ بتائی کہ: ’’جن مکانات پر باہر سے سفیدی کرائی گئی ہے، یہ اسلامی دور کی یادگار ہیں‘‘۔ دوسری خصوصیت اس نے یہ بتائی کہ: ’’جن مکانات کی کھڑکیوں کی اُونچائی قد ِ آدم سے اُوپر ہے، ان مکانات میں روایتی پردے کا اہتمام کیا جاتا ہے‘‘۔

 ہم غرناطہ کے گلی کوچوں سے ہوتے ہوئے کھلی شاہراہ پر پہنچے۔یہاں کئی جگہ میرے ساتھی نے راستے میں کچھ لوگوں سے دُعا سلام کی۔ جس سے مجھے یوں لگا کہ میں مسلم اندلس میں گھوم رہا ہوں، جہاں مسلمان اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ میرے ساتھی نے بتایا کہ: ’’غرناطہ میں اندلسی نومسلموں کی تعداد کُل ۳۰۰ ہے، لیکن رات کے وقت جب ہم سڑکوں پر گھومتے پھرتے آپس میں ملتے  اور دعا سلام کرتے ہیں تو اجنبیوں کو یوں لگتا ہے جیسے پورا شہر مسلم آبادی سے بھرا ہوا ہے‘‘۔

آپس میں گفتگو کرتے ہوئے ہم کھانے کے لیے ایک ریستوران میں بیٹھ گئے۔ اندلسیوں کی سرزمین غرناطہ میں ایک مسلمان نوجوان کی رفاقت سے میرا دل جذباتِ مسرت سے لبریز تھا۔ میرا ساتھی بڑی سنجیدگی سے مجھے بتا رہا تھا: ’’اسلام پتھر کی طرح جامد وجود نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ہرے بھرے درخت کی طرح زندہ وجود ہے۔ اگر اسے نچلے تنے سے بھی کاٹا جائے تو اس کی جڑوں سے نئی کونپلیں پھوٹتی ہیں‘‘۔

اس اندلسی نوجوان کو یقین تھا:’’ا ندلس کی سرزمین پر اسلام کے جس تناور درخت کو جڑ سے اُکھاڑنے کی کوشش کی گئی تھی، وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکے گی۔ اس درخت کی جڑیں اندلس کی سرزمین میں بہت گہرائی تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اس میں سے ان شاء اللہ نئی شاخیں پھوٹیں گی اور برگ و بار لائیں گی‘‘۔ اندلسی نوجوان کا یقین اتنا راسخ تھا کہ مجھے علّامہ محمداقبال کا یہ شعر یاد آنے لگا   ؎

دانہ را کہ بآغوشِ زمین است ہنوز

شاخ در شاخ و برومند و جواں می بینم

(وہ دانہ جو ابھی زمین کے اندر چھپا ہوا ہے، میں اسے جوان، شاخ در شاخ اور پھل دار دیکھ رہا ہوں)۔

یہی حال ۱۹۷۰ء کے عشرے میں وسطِ ایشیا کا تھا۔ ہمارے افغان دوست، اسمگلروں کے ذریعے کچھ اسلامی کتابیں تاجکستان بھیجا کرتے تھے۔ ہمیں یقین تھا کہ: ’’تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان، کرغیزستان، قازقستان، آذر بائیجان اور پھر کوہ قاف کے علاقوں (چیچنیا اور داغستان) اور روسی فیڈریشن میں شامل تاتارستان وغیرہ ایک بار پھر اسلامی دنیا کا حصہ بنیں گے‘‘۔

 لیکن اشتراکی روس کے حلقہ بگوش حلقے، جن میں پاکستانی کمیونسٹوں اور سوشلسٹوں کے علاوہ صوبہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے نام نہاد قوم پرست بھی شامل تھے، ہمارے اس یقین کو   زعمِ باطل سمجھتے تھے اور ہمارا مذاق اُڑاتے ہوئے کہا کرتے تھے: ’’ان علاقوں کو بھول جائو۔ وہاں اب مسلمان نہیں بلکہ سویٹ انسان بستے ہیں، جنھوں نے مذہب کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ تاریخ کا پہیہ  پیچھے کی طرف کبھی نہیں گھومے گا۔ یہ اب آگے کی طرف ہی گھومے گا اور اشتراکی تحریک وسط ایشیا سے افغانستان کے راستے پاکستان کا رُخ کرے گی‘‘۔

تاہم، اسلام نے وسطِ ایشیا کے تمدن پر اتنے گہرے اثرات چھوڑے ہیں کہ ۷۰سال تک جبر کے تمام ہتھکنڈوں کے باوجود، اشتراکی روس کے ٹوٹتے ہی اسلامی تہذیب ان علاقوں میں نمودار ہونے لگی اور استعماری طاقتوں کو تشویش لاحق ہوگئی کہ مشرقی یورپ سے مشرقی ترکستان تک پھیلا ہوا ترک مسلمانوں کا وسیع و عریض خطہ اگر پھر اسلامی دنیا کے ساتھ ہم آغوش ہوگیا، تو اس نئی سپر طاقت کا مقابلہ کیوں کر ممکن ہوگا۔

اگرچہ اس وقت ظاہربین نظروں کو یہ دیوانے کی بڑ معلوم ہوتی ہے، لیکن آج سے ۳۰،۳۵سال قبل سوویت یونین کی پسپائی بھی اسی طرح ناممکن نظر آتی تھی۔ ایک صاحب ِایمان کا وجدان، جن ممکنات کو دیکھ سکتا ہے وہ ایک منافق اور کافر کی نظر سے اوجھل ہوتے ہیں۔ علّامہ اقبالؒ کو یہ انقلاب ۷۰سال پہلے نظر آرہا تھا، جب انھوں نے کہا تھا   ؎

انقلابے کہ نہ گنجد بہ ضمیرِ افلاک

بینم و ہیچ ندانم کہ چساں می بینم

(وہ انقلاب جو آسمانوں کے ضمیر میں نہیں سما سکتا، میں اسے دیکھ رہا ہوں اور کچھ نہیں جانتا کہ کیسے  دیکھ رہا ہوں۔)

مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھتے ہوئے یہی خواب دیکھا تھا کہ ان شاء اللہ اسلام کی احیا کے بعد سرمایہ دارانہ نظام کو واشنگٹن اور کمیونزم کو ماسکو میں پناہ نہیں ملے گی۔

آج سے تقریباً ۱۰۰سال قبل جب دنیا کی استعماری طاقتیں یورپ کے مرد بیمار    (عثمانی سلطنت) کی آخری رسومات ادا کرنے کی تیاریاں کر رہی تھیں اور عثمانی خلافت کا خاتمہ کرکے وہ سمجھنے لگی تھیں کہ انھوں نے مصطفےٰ کمال کے ذریعے اسلامی خلافت کے بجاے سیکولرزم کو ترکی کے دستور کی بنیاد بنا دیا ہے تو علامہ محمد اقبال نے مصطفےٰ کمال کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا    ؎

لادینی و لاطینی کس پیچ میں اُلجھا تو

دارو ہے ضعیفوں کا لاغالب الا ھو

مصطفےٰ کمال نے یہ سمجھا تھا کہ بڑی تعداد میں علما کو قتل کر کے اور عربی رسم الخط کو لاطینی  رسم الخط میں تبدیل کر کے اور اسلام کے بجاے سیکولرزم اور لادینیت کو ملکی دستور کی بنیاد قرار دینے سے، وہ ترک قوم کا رشتہ اپنے شان دار ماضی سے کاٹنے میں کامیاب ہوجائے گا اور اسے یورپ کا ایک ملک بنادے گا لیکن حیف کہ اس کی نظر ترک قوم کے ضمیر میں گندھی ہوئی اسلامی اقدار تک نہ پہنچ سکی۔ ترکی میں اسلامی قوتوںنے اس بدلی ہوئی صورتِ حال میں جبرواستبداد کے ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرنے کے لیے نئی حکمت عملی اپنائی۔

علامہ بدیع الزماں سعید نورسی [۱۸۷۷ء-۲۳مارچ ۱۹۶۰ء]کی نوری تحریک اس جوابی حکمتِ عملی میں پیش پیش تھی۔ نوری رسائل کے ذریعے انھوں نے اپنا پیغام خاموشی سے پھیلانا شروع کیا۔ اسلام کے ساتھ محبت رکھنے والے ترک اس کے حلقہ بگوش ہوگئے اور سینہ بہ سینہ ان کے پیغام کو پھیلاتے رہے۔ ان کے پیش نظر کوئی فوری تبدیلی یا انقلاب نہیں تھا، بلکہ وہ اسلامی تہذیب اور اسلامی فکر کو بچانے کا ایک ۵۰سالہ منصوبہ لے کر خاموشی سے اپنی منزل کی طرف بڑھنے لگے اور اب یہ خاموش لہریں جنھیں مغربی دنیا Creeping Islam (یعنی رینگتا ہو اسلام) کہتی ہے،   دنیا کی توجہ کا مرکز بنتی دکھائی دے رہی ہیں  ع

آسماں ہوگا سحر کے نُور سے آئینہ پوش

دنیا نے ظلم پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور ظالم، ظلم کی آخری حدوں کو چھونے کا کھیل پوری شدت سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ آج کے بنگلہ دیش کا ہر دن ظلم کی نئی داستان لیے طلوع ہوتا ہے۔ یوں تو اُس سرزمین پر برپا ظلم کی ان داستانوں کے کئی عنوان ہیں، تاہم یہاں چند پہلو پیش کیے جارہے ہیں:

جیل میں یوسف علی کی رحلت

۱۸؍نومبر کو جماعت اسلامی جمال پور کے ۸۵ سالہ بزرگ رہنما ایس ایم یوسف علی، قید کے دوران ڈھاکا میڈیکل کالج میں انتقال کر گئے۔ یاد رہے کہ چند ماہ قبل انھیں بنگلہ دیشی ٹریبونل نے ’موت تک قید‘ کی سزا سنائی تھی۔

مرحوم یوسف علی ۱۹۷۰ء میں جماعت اسلامی کے جمال پور سے قومی اسمبلی کے لیے اُمیدوار تھے۔ اُن دنوں وہ سنگھ جانی باہمکھی ہائی اسکول جمال پور میں ہیڈماسٹر تھے۔ ۱۹۷۱ء میں سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد بھی وہ مسلسل اسی اسکول میں تعلیمی و تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ اس پورے زمانے میں ان کے خلاف کبھی کوئی فوجداری یا جنگی جرم کی نہ کوئی بات سنی گئی اور نہ کسی نے ان پر الزام لگایا اور نہ کہیں کوئی معمولی درجے کا مقدمہ ہی درج کیا گیا۔

۲۰۱۳ء میں یوسف علی صاحب کو ۸۲سال کی عمر میں ایک روز انھیں اچانک قید کر کے ڈھاکا سنٹرل جیل میں ڈال دیا گیا اور پھر خانہ زاد مقدمے کے تحت پہلے جنگی ملزم بنایا اور ۲۰۱۶ء میں جنگی مجرم قرار دے کر عمربھر کے لیے قید کی سزا سنا دی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں ظالموں کی قید سے رہائی دلا دی، انا   للّٰہ     وانا    الیہ     رٰجعون۔

اس سے ٹھیک ۲۴ روز قبل اسی طرح کا ایک اور افسوس ناک واقعہ یہ رُونما ہوا کہ ۲۵؍اکتوبر ۲۰۱۶ء کو مسلم لیگ کے ۸۵سالہ سلیمان مُلّا اور اسلامی جمعیت طلبہ کے ۶۵سالہ ادریس علی کے خلاف متنازعہ ٹریبونل میں مقدمہ آخری مرحلے میں داخل ہوا۔ ۲۶؍ اکتوبر کو سماعت شروع ہوئی تو سرکاری وکیل نے ٹریبونل کو آگاہ کیا: ’’مسلم لیگ شریعت پور سے تعلق رکھنے والے  امن کمیٹی سے وابستہ ملزم سلیمان مُلّا کا گذشتہ رات جیل میں انتقال ہوگیا ہے۔ جس پر ٹریبونل نے یکم نومبر تک مقدمے کی سماعت ملتوی کردی‘‘۔(ڈیلی اسٹار، ۲۷؍اکتوبر)

اس سے پیش تر بھی بنگلہ دیش کی قاتل حکومت اور سفاک عدالت کے ہاتھوں تین اور رہنما اسی طرح موت کی آغوش میں چلے گئے، جن میں:

بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے ۸۵سالہ بزرگ رہنما عبدالعلیم خان کو ۹؍اکتوبر ۲۰۱۳ء کو ’موت تک قید‘ کی سزا سنائی گئی تھی، وہ پھیپھڑوں کے کینسر کے مریض تھے۔ اسی مرض میں قید کے دوران ۲۹؍اگست ۲۰۱۴ء کو انتقال کرگئے۔

جماعت اسلامی کے بزرگ رہنما اے کے ایم یوسف (پ:۱۹ مارچ ۱۹۲۶ء) کو قید کے دوران مذکورہ ٹریبونل نے ’موت تک قید‘ کی سزا سنائی۔ انھوں نے ۸۷برس کی عمر میں جیل ہی میں ۲فروری ۲۰۱۴ء کو رحلت فرمائی۔

جماعت اسلامی کے سابق امیر اور عالم اسلام کے مایہ ناز فرزند پروفیسر غلام اعظم (پ:۷نومبر ۱۹۲۲ء) کو اس ٹریبونل نے ۱۵جولائی ۲۰۱۳ء کے روز ’موت تک سزاے قید‘ سنائی تھی۔ پروفیسر صاحب نے ۲۳؍اکتوبر ۲۰۱۴ء کو ۹۱برس کی عمر میں دورانِ اسیری انتقال فرمایا۔

دوسری طرف ۲۶؍اکتوبر کو بنگلہ دیشی فورسز اور پولیس نے بہیمانہ کارروائی کرکے ضلع جھیناہدہ سے جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کے سات کارکنوں کو شہید کر دیا۔ اس طرح گذشتہ چار ماہ کے دوران اسی ضلع سے تحریکِ اسلامی کے ۱۴کارکنوں کو قتل کیا گیا ہے۔ (’BD جماعت‘ ، ۲۷؍اکتوبر ۲۰۱۶ء)

نومنتخب امیرجماعت کے خلاف مہم

۱۷؍اکتوبر ۲۰۱۶ء کو خفیہ بیلٹ کے ذریعے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے ۴۰ہزار ارکان نے جناب مقبول احمد کو امیرجماعت منتخب کیا۔ مقبول احمد، فینی کے ایک معروف مقامی اسکول میں بطورِ استاد ذمہ داریاں ادا کرچکے ہیں۔ اُن کے بارے میں والدین، بچوں اور اساتذہ کی راے ہے کہ وہ ایک شریف النفس انسان، متوازن، مشفق عالم اور سراپا معلم ہیں۔ جب امیرجماعت  مطیع الرحمٰن نظامی کو حکومت نے قید کر دیا تو جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ نے انھیں چھے برس (۲۰۱۱ء-۲۰۱۶ء) تک بنگلہ دیش جماعت اسلامی کا قائم مقام امیر جماعت مقرر کیا۔

مقبول احمد صاحب جیسے ہی امیرجماعت منتخب ہوئے تو اگلے ہی روز انٹرنیٹ پر کسی نے     یہ جملہ اُچھالا: ’’مقبول احمد بھی جنگی مجرم ہیں‘‘۔ پھر رفتہ رفتہ سوشل میڈیا پر جعلی کہانیوں اور   جھوٹے الزامات کی ایک طوفانی مہم برپا کر دی گئی اور انھیں ’جنگی جرائم‘ میں گھیرنے کے لیے دائرہ تنگ کیا جانے لگا، حالانکہ ۱۹۷۱ء میں وہ جماعت کے کوئی نمایاں فرد نہیں تھے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ قائم مقام امارت کے پورے چھے برس ہی میں نہیں بلکہ اُس سے پہلے ۱۹۷۱ء سے ۲۰۱۱ء تک مقبول صاحب کو کبھی کسی فوجداری الزام کا سزاوار قرار نہ دیا گیا۔

چونکہ یہ سب کام اس منصوبے کے تحت کیا جارہا ہے کہ جماعت اسلامی کو کسی بھی اعتبار سے قدم جمانے نہ دیے جائیں۔ اس لیے مقبول احمد صاحب کے امیرجماعت منتخب ہونے کے ۲۲ویں روز ’جنگی جرائم کی نام نہاد عدالت‘ کے اسسٹنٹ ڈائرکٹر نورالاسلام نے ضلع فینی کا دورہ شروع کیا۔ یہاں پر جماعت کے مخالف اخبار کی یہ رپورٹ حقیقت کو بے نقاب کرتی ہے: ’’نورالاسلام نے منگل کی سہ پہر سرکٹ ہائوس پہنچ کر جماعت اسلامی کے امیر مقبول احمد کے خلاف ۱۹۷۱ء کے جنگی جرائم کی تلاش کا آغاز کیا‘‘ (ڈھاکا ٹربیون، ۸نومبر ۲۰۱۶ء)۔

پھر عوامی لیگی لیڈر میر عبدالحنان نے پریس کانفرنس سے خطاب میں اعلان کیا:’’ہم مقبول احمد کے خلاف شواہد اکٹھے کر رہے ہیں اور اس کے لیے انٹرنیٹ، اخبارات پر گردش کرنے والی رپورٹوں کو بنیاد بنارہے ہیں‘‘(ڈھاکا ٹربیون، ۱۵نومبر ۲۰۱۶ء)۔سوال یہ ہے کہ اگر اُن پر واقعی ایک نہیں بلکہ ۱۰ہندوئوں کو قتل کرنے کا الزام تھا،تو اس جنگی جرم کے خلاف ۴۶ برس تک کیوں کسی نے آواز نہ اُٹھائی؟ کس فائل میں یہ کیس دبا ہوا تھا، کہ اس کی تلاش کا آغاز پانچویں عشرے میں کیا جارہا ہے؟ مقتولین کے کسی وارث نے کیوں ۴۶برس تک کہیں کوئی رپورٹ درج نہیں کرائی؟ ان سوالوںکا جواب دینے کے بجاے سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر مسلسل یہی پروپیگنڈا کرکے جماعت کی قیادت کو دبائو میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

جنگی جرائم کے مقدمات میں عالمی شہرت کے حامل قانون دان بیرسٹر ٹوبی کیڈمین کا     یہ بیان قابلِ توجہ ہے: ’’بنگلہ دیش میں جنگی جرائم کے ٹریبونل اپنے قیام کے پہلے روز سے سیاسی انتقام اور عدل و انصاف کے قتل کی آماج گاہ بنے ہوئے ہیں۔ گذشتہ مہینے بنگلہ دیشی وزیرخارجہ محمدشہریار عالم نے اسٹیٹس پارٹیز کی ۱۵ویں اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: ’’اب ہمیں جنگی جرائم کے لیے عالمی سطح پر عدالت لگانے کے لیے ماضی کا رواج ترک کر دینا چاہیے، اور ملکی سطح پر ہی ایسے مقدمات چلانے کے رواج کو فروغ دینا چاہیے‘‘۔ یہ بیان عالمی انصاف اور عدالتی روح سے متصادم ہی نہیں بلکہ بنگلہ دیشی حکومت کی بدنیتی آشکارا کرنے کے لیے کافی ہے۔ اسی دوران میں بنگلہ دیشی حکومت کی انتقامی سوچ نے جماعت اسلامی کے نومنتخب امیر مقبول احمد کو بے بنیاد الزامات اور مقدمات کے گرداب میں پھنسانے کا عمل شروع کر دیا۔ وہ ہے بنگلہ دیش کہ جہاں ایک گھنائونے عدالتی ڈرامے میں انصاف کا قتل اور جماعت اسلامی سے انتقام ہرقیمت پر‘‘۔(ہوفنگسٹن پوسٹ، ۲۲نومبر ۲۰۱۶ء)

چند پہلو یہ بھی ملاحظہ کیجیے:

  •   بھارت ویسے تو بنگلہ دیشی شہریوں کے بھارت میں داخلے کے لیے نہایت سخت پابندیاں لگائے ہوئے ہے، لیکن اس ریاست کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لیے طویل المیعاد منصوبے پر  عمل پیرا بھی ہے، جس کا نمایاں محاذ وہاں کی پڑھی لکھی قوت کو اپنے ہاتھ میں رکھنا ہے۔ مثال    کے طور پر : ’’ڈھاکا میں بھارتی ہائی کمشنر نے بنگلہ دیش سے کم از کم ۱۸سال کی عمر کے اُن تمام طالب علموں کو، جو بھارتی یونی ورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں، جملہ پابندیوں اور ویزے کی رسمیات سے مستثنیٰ قرار دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ: ’’بنگلہ دیشی طالب علم درخواست دیں تو انھیں فوراً بھارتی ویزا جاری کر دیا جائے گا‘‘۔ (ڈیلی اسٹار، ۱۹؍اکتوبر)

یہ چیز بھارت کے سیاسی عزائم اور مستقبل بینی کی دلیل ہے، جس میں عالمِ اسلام اور    خود پاکستان کے لیے سبق موجود ہے کہ وہ اپنی یونی ورسٹیوں میں بنگلہ دیشی طالب علموں کے لیے وظائف کا اجرا کرکے انھیں اُمت سے جوڑنے کی بامعنی کوشش کریں۔

  •   ڈھاکا یونی ورسٹی میں اکنامکس کے پروفیسر ابوالبرکات (ماسکو یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی) نے بڑے زوردار انداز سے اپنی تحقیق پیش کی ہے: ’’بنگلہ دیش سے روزانہ ۶۳۲ ہندو بھارت منتقل ہورہے ہیں۔ یہ تعداد سالانہ ۳لاکھ ۳۰ ہزار ۶ سو ۱۲ بنتی ہے۔ ۱۹۷۱ سے قبل ۷۰۵ ہندو مشرقی پاکستان چھوڑ کر بھارت چلے جاتے تھے۔ ۱۹۷۱ء سے ۱۹۸۱ء کے دوران یہ تعداد ۵۱۲؍افراد روزانہ تھی۔ ۱۹۸۱ء سے ۱۹۹۱ء کے دوران ۴۳۸ اور ۱۹۹۱ء سے ۲۰۰۱ء کے دوران ۷۷۴ ہندو بنگلہ دیش کو خیرباد کہہ رہے تھے۔ اس لیے میری تحقیق کے مطابق ۳۰سال بعد بنگلہ دیش کی سرزمین پر کوئی ہندو شہری باقی نہیں رہے گا‘‘۔ (ڈھاکا ٹربیون، ۲۰نومبر ۲۰۱۶ء)

یہ بے سروپا تحقیق جہاں مذکورہ پروفیسر کی ناقص معلومات کی دلیل ہے، وہیں خود بنگلہ دیش اور بھارت کے مسلمانوں کے خلاف ہندو انتہا پسندوں کو انتقام کا ہتھیار تھمانے کا ذریعہ بھی ہے۔ اس بیان نے بھارت اور بنگلہ دیش میں مسلم ہندو آبادیوں کے مابین تنائو کی فضا پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، خصوصاً برما کے مسلمان مہاجرین اور آسام میں مسلمانوں کے لیے سخت ناخوش گوار صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے۔ یہ ’تحقیق ‘ کمیونسٹ بہی خواہوں کی ذہنی اُپج اور انتشار پروری کی منفرد مثال ہے (مخصوص این جی اوز کی جانب سے وقتاً فوقتاً اسی نوعیت کا پروپیگنڈا سندھ میں ہندو آبادی کے حوالے سے کیا جاتا ہے، اور بھارت میں حقائق جانے بغیر مسلمانوں کو طعنے دیے جاتے ہیں کہ: ’’تم مسلمان پاکستان میں ہندوئوں کو تنگ کر رہے ہو‘‘۔ حالانکہ سندھ میں اس نوعیت کی کوئی فضا نہیں)۔

یہ ’تحقیق‘ اس پس منظر میں اُچھالی گئی ہے کہ ۳۰؍اکتوبر کو برہمن باڑیا اور ناصرنگر میں ہندوئوں کے مندروں پر حملے ہوئے، جن پر پہلے ہی بھارت اور بنگلہ دیش کی ہندو آبادی میں شدید ردعمل پایا جاتا ہے۔ ان افسوس ناک واقعات میں، عوامی لیگی حکومت نے جماعت اسلامی کو ملوث کرنے کی شرانگیز کوشش کی، جسے نہ صرف جماعت اسلامی نے مسترد کیا بلکہ مظلوم ہندوئوں کی بحالی کے لیے کوششیں کیں۔ دوسری طرف ڈھاکا کے ایک میڈیا ہائوس کی تحقیق کے مطابق: ’’برہمن باڑیا اور ناصرنگر میں ہندوئوں کے مندروں میں اور دکانوں پر حملے کا سرغنہ عوامی لیگی   ممبر پارلیمنٹ عبدالمقتدر چودھری ہے‘‘۔ (بی ڈی نیوز24، ۱۲نومبر ۲۰۱۶ء)

  •   بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان کس نوعیت کے برادرانہ معاشی تعلقات ہیں؟ اس کی جھلک بنگلہ دیشی وزارتِ خارجہ کے اس بیان سے ظاہر ہوتی ہے: ’’۲۰۱۲ء اور ۲۰۱۳ء ہر دوممالک میں ۵ء۳۴ بلین ڈالر کی تجارت ہوئی، جس کے تحت انڈیا سے بنگلہ دیش کو ۴ء۷۷۶ بلین ڈالر اور     بنگلہ دیش سے بھارت کو ۵۶۴ملین ڈالر کی اشیا بھیجی گئیں‘‘ (روزنامہ فرسٹ پوسٹ، ۱۵؍اکتوبر ۲۰۱۶ء)۔یہ چیز بذاتِ خود اس امر کی دلیل ہے کہ بنگلہ دیش ، بھارت کی محض ایک منڈی ہے۔
  •   عوامی لیگ کے بزرگ رہنما اور سابق وزیر عبدالرزاق نے سارک کلچرل سوسائٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’بنگلہ دیش کے دستور میں اسلام کو ریاست کا مذہب قرار دینے کی شق محض اسٹرے ٹیجک مجبوری ہے، جسے ہم کسی بھی وقت نکال باہر کریں گے‘‘۔ (بی ڈی نیوز24، ۱۳نومبر ۲۰۱۶ء)۔اس سے عوامی لیگ کی سوچ اور عزائم نمایاں ہوجاتے ہیں۔
  •   اخبار نے خبر دی کہ حسینہ واجد نے ان ۲ہزار بھارتی فوجیوں کو اعزاز سے نوازنے کا اعلان کیا جو ۱۹۷۱ء کی جنگ کے دوران پاکستان کے خلاف لڑتے ہوئے مارے گئے۔یاد رہے کہ NDTV کی رپورٹ (۱۶دسمبر ۲۰۱۱ء) کے مطابق: ’’۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان کے محاذ پر ۳ہزار ۹سو بھارتی فوجی ہلاک اور ۹ہزار ۸سو۵۱ زخمی ہوئے تھے‘‘۔ (ڈیلی اسٹار، ۱۰نومبر ۲۰۱۶ء)

مذکورہ خبر پڑھ کر بنگلہ دیش کے قیام کو مکتی باہنی کا کارنامہ سمجھنے والوں کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ حقیقت کچھ اور تھی۔ دراصل مشرقی پاکستان کو چاروں طرف سے بھارتی فوجی یلغار کا سامنا تھا، اور ان کا مقابلہ پاکستان کے محض ۳۵ہزار جوان کر رہے تھے، جو عملاً آٹھ ماہ سے محصور تھے، جنھیں نہ تازہ کمک حاصل تھی، نہ اسلحے کی وافر کھیپ میسر تھی، بلکہ سفارتی و ابلاغی سطح پر بھارتی اور اشتراکی پروپیگنڈے کی زد میں تھے۔ گذشتہ برس بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کا ڈھاکا میں یہ اعلان کہ پاکستان توڑنے میں بھارت نے کلیدی کردار ادا کیا، اور بنگلہ دیشی وزیراعظم کی یہ سپاس گزاری کہ: ’’ہم آنجہانی بھارتی فوجیوں کو اعزازت سے نوازیں گے‘‘، اصل کہانی بیان کرتے ہیں۔

یہ تمام پہلو بنگلہ دیش کی قومی اور سماجی زندگی پر چھائےظلم کے گہرے بادلوں کی نشان دہی کرتے ہیں۔ انصاف کے نام پر قتل کی داستانیں سناتے اور محکومی کی زنجیروں کی جھنکارکا پتا دیتے ہیں۔

’’ہمیں اس سے غرض نہیں کہ بلی کا رنگ کالا ہے یا سفید، بس اگر وہ چوہے پکڑ سکتی ہے تو وہ اچھی بلی ہے‘‘___ سابق چینی صدر ڈینگ ژیاؤپنگ کا یہ جملہ بدلے ہوئے چین کا مکمل تعارف پیش کرتا ہے۔ اب وہاں کمیونسٹ نظریے کی بنیاد پر نہیں، صرف اور صرف اقتصادی مقاصد کی بنیاد پر پالیسیاں بنتی ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی چین (CPC) کے مضبوط نظام کی ملکی اُمور پر مکمل گرفت ہے۔ اگرچہ سابق صدر نے اسے بھی ایک خاص طرز کا یا چینی طرز کا کمیونزم قرار دیا تھا۔ موصوف نے ماؤزے تنگ کی بنائی ہوئی تقریباً تمام پالیسیوں کو تبدیل کرتے ہوئے کھلی منڈی اور کاروباری مقابلے پر مبنی پالیسی وضع کی۔ اس حوالے سے آج کا چین ایک مکمل تبدیل شدہ چین ہے۔ اب وہ دنیا میں مضبوط ترین اقتصادی قوت بننے کے لیے کوشاں اور اپنی اس کوشش میں بڑی حد تک کامیاب ہے۔ ۲۰۳۰ء اس کے سامنے ایک بڑے اقتصادی سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔     وہ ’چین پاکستان اقتصادی راہ داری‘ (CPEC) جیسے کئی منصوبوں پر عمل پیرا ہوکر پوری دنیا سے  جڑ جانا چاہتا ہے۔

۲۴؍اکتوبر سے ۲نومبر تک پاکستان کی آٹھ سیاسی جماعتوں کے ذمہ داران پر مشتمل وفد نے حکمران پارٹی کی دعوت پر چین کا سرکاری دورہ کیا۔ ان جماعتوں کے نام ہمارے میزبانوں کی فراہم کردہ فہرست میں رکھی گئی ترتیب کے مطابق یہ ہیں: جمعیت علماے اسلام (ڈپٹی چیئرمین سینیٹ، مولانا عبدالغفور حیدری وفد کے سربراہ تھے)، جماعت اسلامی پاکستان، نیشنل پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ق)، ملّی عوامی پارٹی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، پاکستان تحریک انصاف۔ دورے کا ایک مقصد چین میں ہونے والی ترقی، موجودہ رجحانات اور آیندہ منصوبوں کے بارے میں آگاہی دینا تھا۔ وفد کے اکثر شرکا کے لیے یہ امر بھی انتہائی دل چسپی کا باعث تھا کہ دورے کا آغاز مسلم اکثریتی علاقے سنکیانگ کے دارالحکومت ’اُرمچی‘ سے ہورہا تھا۔ اس دورے کے دوران میں دارالحکومت بیجنگ سمیت تین صوبوں کے پانچ شہروں میں جانا ہوا۔ بیجنگ تو پہلے جانے کا موقع مل چکا تھا، لیکن مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ اور اقتصادی ترقی کے اہم مرکز فیوجیان پہلی بار جانا ہوا۔

اُرمچی، سنکیانگ یا شنجیان کا دار الحکومت ہے۔ سنکیانگ کا مطلب ہی ’نیا صوبہ‘ ہے۔     یہ علاقہ کبھی مشرقی ترکستان کہلاتا تھا۔ چینی انتظامی تقسیم کے مطابق اس کی دستوری حیثیت ایک ’خودمختار‘ علاقے کی ہے جو رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ آبادی کا تناسب انتہائی کم، یعنی اوسطاً صرف ۱۳؍افراد فی مربع کلومیٹر ہے۔ کم آبادی کا یہ تناسب صرف اسی صوبے میں نہیں، چین کے تمام مغربی صوبوں میں یہی کیفیت ہے۔ ایک اندازے کے مطابق مغربی صوبوں میں جو چین کے رقبے کا ۵۰ فی صد سے زائدہیں، صرف ۶ فی صد آبادی بستی ہے،جب کہ مشرقی صوبوں میں ۹۴ فی صد آبادی ہے۔ صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں کا مرکز و محور بھی زیادہ تر یہی مشرقی اور جنوب مشرقی صوبے ہیں۔

مسلم اکثریتی علاقہ ہونے کے باعث اُرمچی اور کاشغر وغیرہ شہروں میں سب سے زیادہ مساجد دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن ان شہروں کی پہلی جھلک ہی سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ علاقے میں  وسیع و عریض تعمیر و ترقی، بلند و بالا عمارتوں اور سڑکوں کے وسیع جال سے، ان کا اصل نقشہ تیزی سے تبدیل ہورہاہے۔ یہاں ہماری پہلی باقاعدہ مصروفیت صوبے میں مذہبی اُمور کے ذمہ دار کی بریفنگ تھی۔ دارالحکومت بیجنگ سے آئے ہوئے حکومتی ذمہ داران کے ساتھ بیٹھ کر انھوں نے اسی نکتے پر زور دیا کہ: ’’اگرچہ چین میں کسی مذہبی شناخت کو اُجاگر نہیں کیا جاتا لیکن تمام علاقوں کے لوگوں کو ان کے مذاہب و روایات کے مطابق زندگی بسر کرنے کا حق حاصل ہے‘‘۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ: ’’علاقے کے مکینوں کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنے کے لیے دور دراز علاقوں میں منتقل ہونے اور ملک کے دیگر علاقوں سے سرمایہ کاروں اور ہنرمند افراد کو یہاں آکر بسنے کی ’ترغیب‘ و سہولت دی جاتی ہے‘‘۔ مقامی آبادی میں البتہ اس ’ترغیب‘ کو کئی دُور رس اور کثیر جہتی مقاصد سے تعبیر کیا جاتا ،اور مسلم اکثریتی آبادی کو بتدریج اقلیت میں تبدیل کرنے کا احساس پایا جاتا ہے۔

بریفنگ کے بعد جماعت اسلامی کے وفد(نائب امیر جماعت میں میاں محمد اسلم، نائب قیم جماعت محمد اصغر اور راقم) نے ملاقات میں ان خبروں کی حقیقت کے بارے واضح سوالات کیے، جو وہاں رمضان المبارک میں روزوں اور عمومی طور پر ۱۸سال سے کم عمر بچوں کے مسجد جانے پر پابندیوں کی باتوں پر مشتمل ہیں۔ توقع کے مطابق: ’’انھوں نے ایسی تمام خبروں کی سختی سے تردید کی‘‘۔ ہمارا مقصد بحث نہیں تھا، بلکہ متوجہ کرنا تھا کہ ایسی خبریں کسی طور بھی خود چین کے مفاد میں نہیں ہیں۔

اُرمچی پہنچنے کے پہلے روز ہی رات کے کھانے کے لیے شہر کے وسط میں واقع ایک ’مسلم ریسٹورنٹ‘ لے جایا گیا۔ انتہائی پُرتکلف اور پُرلطف کھانوں والا یہ کئی منزلہ وسیع و عریض ریسٹورنٹ، ایک جامع مسجد کے قریب ہی واقع ہے۔ ہم دوسری منزل پر بیٹھے ایک کے بعد دوسرے آنے والے پکوان سے محظوظ ہورہے تھے کہ اچانک نچلی منزل سے پہلے موسیقی اور پھر بلند آواز میں ساز و سرود کے ساتھ رقص شروع ہوگیا۔ بتانے والوں نے بتایا کہ: ’’ناچ گانے اور   اس کے دیگر ’لوازمات‘ کی جتنی بھرمار اس مسلم اکثریتی علاقے میں ہے، شاید چین کے دوسرے علاقوں میں بھی نہیں ہے‘‘۔ مقامی آبادی اور تجزیہ نگار تبصرہ کرتے ہیں کہ: ’’اس علاقے کی اصل شناخت ہی ناچ گانا اور دیگر خرافات کو بنایا جارہا ہے‘‘۔

اُرمچی میں وفد کی اہم ترین مصروفیت ’صوبائی اسمبلی‘کی عمارت میں ڈپٹی سپیکر اور چینی حکمران پارٹی کی سٹینڈنگ کمیٹی کے رکن نعیم یاسین سے ملاقات اور ان کی جانب سے دی گئی ضیافت میں شرکت تھی۔ پاکستان، چین، افغانستان اور وسطی ایشیا کے سنگم پر واقع ہونے کے باعث انھوں نے باہم تعاون و ترقی کے وسیع تر امکانات پر زور دیا۔ بے تکلف مزاج کے حامل میزبان نے انتہائی سلیقے سے سجی کھانے کی میز پر بیٹھ کر مسکراتے لیکن شرمندہ کردینے والے انداز سے کہا: ’’ہم یہاں عام طور پر کھانے کے ساتھ شراب پیش نہیں کرتے، لیکن مہمان وفد میں شریک بعض افراد کے تقاضے پر اس کی پیش کش بھی کی جائے گی‘‘۔

وفد میں شریک سب احباب اس بارے میں تو محتاط اور حساس تھے کہ گوشت اور دیگر کھانوں میں کہیں حرام کی آمیزش نہ ہوجائے۔ ہر کھانے میںمیزبانوں کی جانب سے حلال کھانے کے خصوصی انتظام کے باوجود سب شرکا کھانے کے ساتھ لکھے ناموں کو احتیاط سے پڑھتے تھے۔ کبھی یہ بھی ہو تاکہ صرف سلاد، روٹی، مکئی کے بھٹے اور شکرقندی وغیرہ پر ہی اکتفا کرلیا جاتا۔لیکن دوسری جانب شراب کے جام چڑھا لیے جاتے۔ زیادہ حیرت تو ان احباب پر ہوئی جو نمازوں اور طویل تسبیحات کا اہتمام بھی پورے جوش و جذبے سے کرتے، لیکن اس بدبودار، مہلک، صریح حرام اُم الخبائث کے عشق میں بھی گرفتار رہتے۔ یہاں اس حقیقت کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ وفد میں شریک بعض احباب کو دیکھ کر رشک آتا تھا کہ بظاہر تو عام دنیادار انسان لگتے ہیں، لیکن ان کا شاید ہی کوئی لمحہ، دل ہی دل میں ذکر و تسبیح اور درود شریف کے بغیر گزرا ہوگا۔

اُرمچی سمیت یہ پورا علاقہ دنیا کے بہترین میوہ جات کا بھی مرکز ہے۔ اعلیٰ ترین معروف میوہ جات کے علاوہ جو پھل دنیا بھر سے منفرد دیکھا وہ انتہائی صحت مند اور شیریں عناب تھا۔ بڑے بیر کے سائز کا عناب پہلی بار کھایا۔ تازہ بیر بھی ہر جگہ میوہ جات میں شامل تھے، لیکن اُرمچی کے بیروں کی شیرینی انتہائی منفرد تھی۔ قدرتی جمال، شان دار تاریخی ورثہ، اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں بے مثال، کمال کے مہمان نواز، قریب ترین ہمسایے، پاکستان سے عقیدت کی حد تک محبت رکھنے والے یہ لوگ ___ سنکیانگ واقعی بہت سے امتیازات رکھتا ہے۔

اگلے روز ایک سفاری پارک دکھانے کااعلان کیا گیا۔ درجۂ حرارت منفی تین تھا۔ اعلان ہوا کہ چونکہ کھلے علاقے میں جانا ہے، اس لیے گرم کپڑوں کا خصوصی انتظام کریں۔ گاڑیاں روانہ ہوئیں تو عین شہر کے وسط میں پُررونق بازاروں کا رخ کیا گیا۔ سفاری پارک اور پُررونق وسیع و عریض تجارتی مراکز؟ کوئی مطابقت سمجھ میں نہ آئی۔ ایک جگہ گاڑیاں رکیں، لفٹ کے ذریعے چوتھی منزل پر لے جایا گیا، وہاں چند راہ داریوں سے گزر کر باہر نکلے تو دنیا بدل چکی تھی۔ کئی کلومیٹر پر پھیلا رقبہ  کئی ہزار سال پرانے آثار و اشجار محفوظ کیے ہوئے تھا۔ یہ سفاری پارک واقعی کسی عجوبے سے کم نہیں۔ ہزاروں سال پرانے درخت اب پتھر بن چکے ہیں۔ یہیں پر انتہائی اعلیٰ اور منفرد اقسام کے جانوروں کی پرورش کی جارہی ہے۔ نادر تصاویر اور پینٹنگز کا انتہائی قیمتی سرمایہ محفوظ ہے، جو جمال فطرت کے ساتھ ساتھ، انسانی تاریخ کے مراحل و مناظر بھی قلب و نگاہ پر ثبت کردیتا ہے۔

اُرمچی سے رخصت ہونے سے قبل وہاں کی ایک جامع مسجد اور دینی مدرسے کا دورہ بھی کروایا گیا۔ دراز قامت اور وجیہ صورت مولانا عبدالرقیب صاحب اور ان کے ساتھیوں نے مرکزی دروازے پر وفد کا خیر مقدم کیا۔ استقبالیہ دروازے سے متصل ڈیوڑھی کی دیواروں پر لگے مدرسے کے نئے مجوزہ ماڈل اور موجودہ دروس و اسباق کی تفصیل بتائی۔ انھوںنے بتایا کہ معہد العلوم الشرعیۃ  پورے علاقے کا اکلوتا دینی تعلیمی ادارہ ہے، جس میں۲۳۰ طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ تعلیم کا بنیادی مقصد ائمہ و خطبا کی تیاری ہے۔ بچیوں کی تعلیم کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ نئی عمارت پر کئی کروڑ خرچ آئے گا، جو حکومت فراہم کررہی ہے۔ بریفنگ کے بعد مدرسے کی عمارت سے متصل مسجد میں گئے۔ کئی شرکا نے وہاں نوافل ادا کیے۔ دوبارہ مدرسے کی عمارت میں آکر ایک  کمرئہ جماعت میں لے جایا گیا، جہاں ۳۰ کے قریب بچے تفسیر قرآن پڑھ رہے تھے۔ ایک طالب علم نے بے حد خوش الحانی سے تلاوت سنائی اور دوسرے سے اس روز کا سبق سنا گیا۔ راقم نے مدرسے کے مہتمم کی اجازت سے، وفد کی نمایندگی کرتے ہوئے عربی میں چند کلمات کہے ،دُعائیں دیں اور یاددہانی کروائی کہ آپ سب نے یہاں کی پوری مسلم آبادی کی نمایندگی کرتے ہوئے، علم و کردار کی خوش بُو عام کرنے کا ذریعہ بننا ہے۔ آتے ہوئے سید مودودی علیہ الرحمۃ کی خطبات کا ترجمہ اور کشمیری شال جناب عبدالرقیب صاحب کو پیش کی تو بہت خوش ہوئے۔

چین کی وسعت کا اندازہ لگائیے کہ اُرمچی سے صوبہ فیوجیان کے شہر فوژو گئے تو یہ مسلسل ساڑھے پانچ گھنٹے کی پرواز تھی۔لاہور سے لندن جائیں تو تقریباً سات گھنٹے کی پرواز ہوتی ہے۔ وہاں سے بیجنگ گئے تو مزید ساڑھے تین گھنٹے کی پرواز تھی۔ اُرمچی میں درجۂ حرارت منفی ۳ تھا، جب کہ فیوجیان میں ۲۳ اور بیجنگ میں منفی ایک۔ فیوجیان چین کا اہم تجارتی، صنعتی، ساحلی علاقہ ہے۔ ایک اہمیت اس کی یہ ہے کہ گوادر اور وسطی ایشیا سے منسلک نئی راہ داریاں اور سڑکیں کاشغر اور اُرمچی سے ہوتی ہوئی اسی صوبے تک پہنچ رہی ہیں۔ یہاں بھی مختلف شہروں اور ان کے ذمہ داران کے ساتھ ملاقاتوں اور پُرتکلف ضیافتوں کے علاوہ چند اہم کمپنیوں کا دورہ کروایا گیا۔

مثال کے طور پر گوانزو شہر میں واقع ’سافٹ ویئر پارک‘ ہی کو دیکھ لیجیے۔ اس میں ۲ لاکھ افراد کام کرتے ہیں۔ ۲۰۱۵ء میں اس نے۹۲ء۵؍ ارب ڈالر کا کاروبار کیا ہے۔ منصوبے اور اندازے کے مطابق۲۰۲۰ء میں اسے ۲۵۰؍ ارب ڈالر کی آمدن ہوگی۔ معاشرتی اثرات اس کے تجارتی حجم سے بھی بڑھ کر ہیں۔ یہ کمپنی اپنے مختلف کمپیوٹر پروگراموں اور آلات کے ذریعے پورے معاشرے اور اس کے ہر فرد کی زندگی کنٹرول کرسکتی ہے۔لوگوں کے موبائل فون، ان میں لگے سم کارڈوں اور دیگر کئی طرح کے کارڈوں کے ذریعے یہ لوگ کسی بھی جگہ اور وہاں موجود کسی بھی فرد کے بارے میںمکمل معلومات رکھتے ہیں۔ ان معلومات کی روشنی میں مستقبل سازی کرتے ہیں۔ لوگوں کومختلف سہولتیں فراہم کرتے ہوئے ان کے لیے آسانیاں (اور خدانخواستہ مشکلات) پیدا کرسکتے ہیں۔

سمارٹ فون اب سمارٹ ٹریفک، سمارٹ سیاحت اور سمارٹ تجارت سمیت ہر شعبۂ زندگی کو سمارٹ کررہے ہیں۔ مثلاً انھوں نے بتایا کہ: اس شہر میں نئے سال کے موقعے پر ایک ہفتے میں ۹۸لاکھ ۷۵ ہزار ۷سو ۹۷ افراد نے سفر کیا۔ انھوں نے سفر کیسے کیا، کب کیا، قیام کہاں ہوا، گاڑی کہاں پارک کی، سب معلومات اسی سمارٹ دنیا میں محفوظ ہیں۔ حکمران جماعت کمیونسٹ پارٹی چائنا (CPC) کے ارکان کی تعداد ۸کروڑ ۸۰لاکھ ہے۔ ان تمام ارکان کا ریکارڈ، ان سے رابطہ، ان کے تبادلے بھی اسی سمارٹ دنیا کے ذمے ہے۔ یہ امر بھی دل چسپ تھا کہ ہررکن سے آمدنی کا ۲ء۴فی صداعانت لی جاتی ہے۔ خیال آیا کہ یہ تو ’زکوٰۃ‘ ہوگئی۔ لیکن یہ چندہ صرف صاحب ِ نصاب سے نہیں، ہر رکن سے لیا جاتا ہے۔ دینے کا تکلف بھی نہیں کرنا پڑتا، ’سمارٹ نظام‘ خود ہی منہا کرلیتا ہے۔

کونے میں لگا ایک کیمرا اور اس سے بنائی ویڈیوز کی ایک جھلک دکھاتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ: ’’یہ ۲۵کلومیٹر کے فاصلے پر موجود شخص کی آنکھوں کی حرکت تک ریکارڈ کرسکتا ہے۔ سُبحان اللہ! انسانوں کا بنایا ہوا ایک کیمرہ یہ صلاحیت رکھتا ہے، تو پوری کائنات کامالک کتنا سمیع و بصیر ہوگا۔ اس ذات نے اپنا ایک تعارف یہ کروایا: لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ ز وَ ھُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ ج (الانعام۶:۱۰۳)’’ اسے کوئی آنکھ نہیں پاسکتی اور وہ ہر آنکھ کا احاطہ کیے ہوئے ہے‘‘۔ گویا وہ تو آنکھوں میں بسے خواب اور دلوں میں جاگزیں خیالات سے بھی مکمل باخبر ہے۔ حیرت ہے دن رات اس کی قدرت کا مشاہدہ کرنے والے ہم انسان اس حقیقت سے بے خبر ہوجاتے ہیں۔ ’’خبردار! کیمرے کی آنکھ دیکھ رہی ہے‘‘ پڑھ کر تو ہم چوکنا ہوجاتے ہیں لیکن ’’خبردار! اللہ تمھیں دیکھ رہا ہے‘‘ کے اعلان پر کان نہیں دھرتے۔

گوانزو پہنچتے ہی تقریباً ایک ہزار سال قدیم، وسیع و عریض جامع مسجد جانے کا موقع ملا۔ پرانی عمارت کے باہر چینی اور انگریزی زبان میں لگی تختی پر لکھا تھا کہ: ’’اس مسجد کا نام مسجدالاصحاب یا مسجد صحابہ تھا جو ’محمدی‘ (ہجری)سال ۴۰۰ میں تعمیر کی گئی تھی‘‘۔ یہ حقیقت بھی اہم ہے کہ دارالحکومت بیجنگ سمیت چین کے تقریباً ہر شہر بلکہ قصبات میں بھی صدیوں پہلے تعمیر ہونے والی مساجد پائی جاتی ہیں۔ اکثر و بیش تر مساجد اسی طرح ہزار سال یا اس سے بھی پرانی ہیں۔ انھیں تعمیر کرنے والے کتنے خوش قسمت تھے کہ خود صدیوں پہلے قبروں میں جا سوئے لیکن، ان کی حسنات آج بھی آباد ہیں۔ قیامت تک اس فصل گل و لالہ میں خوشحالی ہی آتی رہے گی۔ خدانخواستہ کوئی نمازی نہ ہونے کی صورت میں بھی اللہ اکبر کی صدائیں، بندوں سے خالق کا تعارف کرواتی رہیں گی۔

دارالحکومت بیجنگ میں بھی بے حد مصروف وقت گزرا۔ چائنا انسٹی ٹیوٹ براے عالمی اسٹڈیز کے ذمہ داران نے CPEC پر تفصیلی بریفنگ دی۔ اہل پاکستان کی اکثریت جسے صرف ایک سڑک یا بندرگاہ سمجھتے ہیں، وہ بنیادی طور پر پوری دنیا، بالخصوص جنوبی ایشیا کا اقتصادی نقشہ تبدیل کردینے کا ایک جامع منصوبہ ہے۔ اس کے ذریعے چین اور جنوبی ایشیا کے دیگر کئی ممالک،    وسطی ایشیا، یورپ اور افریقہ سے براہِ راست منسلک ہوجائیں گے۔ اس پورے منصوبے میں بالآخر ۶۵ممالک شریک یا منسلک ہوجائیں گے۔

یہ صرف چین پاکستان اقتصادی راہ داری ہی نہیں، اس وقت اس طرح کے کئی اور منصوبوں پر بیک وقت عمل ہورہا ہے۔ اسی منصوبے کے تحت اُرمچی اور کاشغر سے چلنے والی مال گاڑی ۱۰ روز کے سفر کے بعد یورپ کا قلب چیرتے ہوئے گزر جائے گی۔ CPEC کے علاوہ ایک اور اقتصادی راہ داری BCIM کے نام سے تعمیر ہورہی ہے جو بنگلہ دیش، چین، بھارت اور میانمار کو  باہم مربوط کرے گی۔ کئی راہ داریوں میں سے صرف گوادر بندرگاہ سے کاشغر تک تعمیر ہونے والی ۲ہزار کلومیٹر کی سڑک ہی وہ اکلوتا منصوبہ ہے، جس میں صرف دو ممالک (چین پاکستان) شریک ہیں۔ اس منصوبے میں صرف سڑک ہی نہیں، ریلوے لائنوں بندرگاہوں اور سمندری راستوں کا ایک پورا جال ہے۔ توانائی کے بہت سارے منصوبے مکمل ہونا ہیں۔ اس لیے اسے One Road One Belt کا نام دیا گیا ہے، یعنی ایک سڑک اور کئی راستوں کا جال اسے ایک علاقہ بنا دے گا۔

پاکستان کے لیے اس میں بہت سے اقتصادی مواقع اور امکانات ہیں، جب کہ بھارت اور امریکا پورے منصوبے بالخصوص CPEC کو اپنے لیے ایک چیلنج سمجھ رہے ہیں۔ گوادر بندرگاہ پر کام شروع ہوتے ہی اسے ناکام کرنے کی کوششیں شروع ہوگئیں۔ ان تمام تر رکاوٹوں کے بعد آج یہ بندرگاہ کام شروع کرچکی ہے۔ گوادر اور خطے کی دوسری بندرگاہوں میں موازنے کی ایک جھلک دیکھیے تو اصل حقیقت سامنے آتی ہے۔ گوادر سے ۷۲کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کی گہرائی۱۱ میٹر ہے اور وہاں ۱۰جہاز بیک وقت لنگر انداز ہوسکتے ہیں۔ ایران کی دوسری قریبی بندرگاہ، بندرعباس ۹ میٹر گہری ہے اور وہاں ۲۴جہاز آسکتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کی بندرگاہ جبل علی ۹میٹر گہری ہے اور ۶۷ جہاز آسکتے ہیں۔ سعودی عرب کی دمام بندرگاہ ۹ میٹر اور ۳۹جہاز، قطر کی دوحہ بندرگاہ ۱۱ میٹر اور ۲۹جہاز، سلطنت آف عمان کی صلالہ بندرگاہ ۱۰میٹر اور ۱۹جہاز، جب کہ گوادر کی بندرگاہ ۱۸میٹر گہری ہے اور یہاں بیک وقت ۱۲۰بحری جہاز لنگر انداز ہوسکتے ہیں۔

اس حقیقت میں شک نہیں کہ اس سارے منصوبے کا زیادہ فائدہ چین ہی کو ہوگا۔ مثلاً اسے اپنا اقتصادی پہیہ چلانے کے لیے درکار تیل کا ۵۱فی صد خلیجی ریاستوں سے درآمد کرنا پڑتا ہے۔ بحری جہاز یہ تیل لے کر بحیرۂ عرب، بحر ہند اور پھر تنگناے ملاکا سے ہوتے ہوئے سوا تین ماہ میں چین کے صنعتی علاقوں میں پہنچتے ہیں۔ CPEC کی تعمیر سے یہ تیل صرف ۲۸دن میں چین پہنچ سکے گا۔ یہی عالم دیگر درآمدی و برآمدی سامان کی نقل و حمل کا ہوگا۔ اپنے اس منصوبے اور ترقی میں چین اپنے تمام تجارتی حصہ داروں کو شریک کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کو وہ ان تمام شرکا میں سرفہرست سمجھتا ہے۔ یہی حقیقت کسی صورت بھارت سے ہضم نہیں ہورہی۔ اس کے دانش وَروں کے بقول اس سے کشمیر پر بھارت کا موقف کمزور پڑجائے گا۔ بھارت کی بنیادی سرمایہ کاری سے بننے والے چاہ بہار وسطی ایشیا تجارتی راستے کو خطرات لاحق ہوجائیں گے۔ وہ علانیہ کہہ رہے ہیں کہ CPEC کو ناکام کرنے کے لیے بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کو مدد دینا ہوگی۔

چین جانے والے وفد میں شریک بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں فعال قوم پرست جماعتوں کے ذمہ داران نے پورے دورے کے دوران میں صرف اسی ایک نکتے پر گفتگو کی: ’’ہمارے ساتھ انصاف نہیں ہورہا۔ منصوبے میں شامل ترقی کے زیادہ تر منصوبے ان دو چھوٹے صوبوں کے بجاے پنجاب میں بنائے جارہے ہیں۔اس نکتے پر پورے وفد کا مکمل اتفاق تھا اور سبھی نے اس پر بات کی کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں خصوصی فری تجارتی زون اور پیشہ ورانہ تعلیم کے ادارے کھولے جائیں تاکہ اس اہم منصوبے کے ثمرات عام شہریوں اور تمام علاقوں کو حاصل ہوسکیں۔گوادر بندرگاہ اور سڑک بنانے کے لیے وہاں سے اُٹھائے جانے والے غریب شہریوں کو متبادل روزگار اور معقول معاوضہ دیا جائے‘‘۔

اگرچہ اس ساری بحث کا زیادہ تر تعلق ہمارے میزبانوں سے نہیں تھا اور اسے ہماری مرکزی و صوبائی حکومتوں ہی کو باہم گفت و شنید اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے حل کرنا ہوگا لیکن یہ موضوع پورے دورے کے دوران غالب رہا۔ آخری روز چین میں پاکستانی سفیر کی جانب سے وفد کے اعزاز میں دیے گئے ظہرانے کے دوران تو بعض احباب کی جانب سے یہ تلخی دوبدو بحث کی صورت اختیار کرگئی۔

یہاں تو پھر ہم اپنے ہی گھر میں بیٹھے تھے، چینی میزبانوں کے سامنے اور ہر مجلس میں یہی بات کرنا بعض اوقات ماحول کو بہت بوجھل بنادیتا تھا۔ ہماری مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو حتمی طور پر اس بدنما بحث کو ختم کرنا ہوگا۔ محروم علاقوں کو مساویانہ ہی نہیں، زیادہ حصہ دینا ہوگا۔ یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ بعض اوقات احساس محرومی، خود محرومی سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے لیے سب بیٹے برابر تھے۔ آخر ایک نبیؑ سے زیادہ انصاف بھلا کون کرسکتا تھا؟ لیکن احساس محرومی نے خود برادرانِ یوسفؑ سمیت سب کو ہلاکت و اذیت کی راہ پر ڈال دیا۔ اللہ کرے کہ ہم سب ان قرآنی تعلیمات و واقعات کی روشنی میں اپنا مستقبل اور اپنی دنیا و آخرت محفوظ بناسکیں۔

گھریلو، خاندانی اور معاشرتی زندگی کی تنظیم یا نظم و ضبط متوازن زندگی کا ناگزیر تقاضا ہے۔ اسی طرح معاشی سرگرمیوں: دفتر اور کاروبار کے اُمور کو کیسے مؤثر اورکامیاب بنایا جائے، نیز معاشرتی زندگی اور معاشی زندگی میں کیسے اعتدال و توازن اختیار کیا جائے کہ ایک خوش گوار اور پُرسکون زندگی گزاری جاسکے۔ اس ضمن میں ذیل میں چند گزارشات پیش ہیں۔

خاندانی یا گھریلو زندگی

   o          آپ خواہ کھانا پکا رہے ہوں، کوئی مضمون لکھ رہے ہوں، یا تقریر کر رہے ہوں، تمام متعلقہ چیزیں کام شروع کرنے سے پہلے اپنے پاس رکھ لیں تاکہ آپ کو بار بار اٹھنا نہ پڑے۔ اسے تیاری کہتے ہیں اور کسی بھی کام کے لیے یہ بڑی اہم چیز ہے۔

   o          اگر آپ کو کوئی کام ہو یا کہیں سے خریداری کرنی ہو تو تمام چیزیں ایک نوٹ بک، کارڈ یا کاغذ پر لکھ لیں اور اپنی سرگرمیوں کا پورا نقشہ تیار کر لیں تاکہ آپ کو دوبارہ سفر نہ کرنا پڑے اور کم سے کم فاصلہ طے کرکے آپ کا سارا کام مکمل ہو جائے۔

   o          خریداری ایک مرتبہ کیجیے۔ ایک ہفتے میں ایک بار سے زائد خریداری دور حاضر میں وقت کے ضیاع میں شمارہوگا۔

   o          سہولیات کے بل وقت پر ادا کردیجیے اور تاخیر کرکے آخری وقت میں مشکلات مت پیداکیجیے۔

   o          اپنی سالانہ چھٹیوں کو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ بہتر انداز سے گزارنے کی کو شش کریں۔

   o          ان چیزوں کی خریداری سے بچیں جو آپ کی خصوصی توجہ مانگتی ہیں، مثلاً نقش ونگار والی اشیا۔

   o          اگر چیزیں سستی مل رہی ہیں مگر آپ کو ان کی ضرورت نہیں ہے تو آپ انھیں مت خریدیں۔

   o          وہ چیزیں بھی نہ خریدیں جن کے لیے جگہ نہیں ہے،یا خصوصی جگہ کے اہتمام کی ضرورت ہوگی۔

   o          ہفتہ وار خوراک کا چارٹ بنالیں۔ مرغن اور مہنگی غذاؤں کی جگہ سادہ اور کم خرچ غذاؤں پر گزارا کریں۔

   o          ضروری نہیں ہے کہ آپ مشہور برانڈ والی چیزیں کھائیں۔ اس میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو رائلٹی دینی پڑتی ہے۔ اس کے بجاے آپ اپنے دوستوں اور رشتے داروں کے ساتھ ہفتہ وار یا ماہانہ یا چھٹیوں کے دوران ’ون ڈش‘ پارٹی کرنے کی کوشش کریں۔

 معاشرتی    یا    قومی   زندگی

   o          کسی دوست کو اطلاع دیے یا رابطہ قائم کیے بغیر ہرگز نہ ملیے۔اسی انداز سے اپنے دوستوں میں اس کلچر اور عادت کوپروان چڑھانے کی کوشش کریں۔

   o          عام حالات میں بھی بغیر اطلاع کے کسی کے گھر اور دفتر نہ جائیں۔ یہ تہذیب اور شائستگی کے خلاف ہے۔ اگر آپ بغیر اطلاع کے جاتے ہیں تو اس شخص کوآپ آزمایش میں ڈالتے ہیں۔

   o          ایسے لوگوں سے بچیں جو بے مروت ہوں اور خواہ مخواہ وقت ضائع کرنے کی کوشش کریں۔

   o          اپنے مشکل حالات میں اپنوں اور غیروں کو دیکھنے کی کوشش کیجیے۔

   o          ٹیلی فون کے استعمال میں احتیاط کریں۔ بسا اوقات بہت ہی غیر ضروری باتیں اور غیرمتعلقہ باتیں اور تفصیل بیان کی جاتی ہے۔ ایسے مواقع پر حکمت سے کام لیتے ہوئے بات چیت کو مختصر کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔

   o          فضول گوئی سے اجتناب کرکے بھی وقت بچایا جاسکتا ہے۔

   o          وقت کی پابندی کیجیے اور جہاں تک ممکن ہو اپنے گھر، دفتر، معاشرے میں اور تقریبات کے حوالے سے لوگوں کو پابندی وقت کی ترغیب دیجیے۔

   o          عام گفتگو اور لوگوں کے ساتھ بے تکلفانہ بات چیت کو پانچ منٹ تک محدور رکھیے۔

معاشی زندگی:دفتر  اور کاروباری  اُمور

معاشی مصروفیات، دفتری یا کاروباری معاملات میں درج ذیل اُمور پیش نظر رکھیے:

   o          جب آپ کوئی وقت مقرر کریں تو اس امر کا یقین کر لیں کہ دونوں فریق اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ صحیح وقت کیا ہے؟اسے دوبارہ دہرا کرتصدیق کرنا بہتر ہے۔

   o          مقررہ مقام پر پہنچنے کے لیے سفر میں آپ کو جو وقت لگے گا اسے اس فاصلے سے ہم آہنگ کرلیں، جو دونوں مقامات کے درمیان ہو۔ تاہم، ضروری ہے کہ کچھ نہ کچھ گنجایش غیر متوقع حالات کے لیے بھی رکھ لی جائے، تاکہ مقررہ مقام پر بر وقت پہنچنے میں آپ کو کوئی دشواری نہ ہو۔ٹریفک کا ہجوم اوروی وی آئی پی موومنٹ کو بھی پیش نظر رکھیں۔

   o          اگر آپ ایک خط لکھ کر یا ٹیلی فون کے ذریعے کوئی مقصد حاصل کرسکتے ہوں تو ذاتی طور پر متعلقہ لوگوں سے ملنے کی کوشش نہ کریں۔

   o          چھوٹے چھوٹے معاملات پر فیصلے جلد ہوجانے سے وقت بچایا جاسکتا ہے۔

   o          معاملات میں بے جا مداخلت سے پرہیز کیا جائے۔

   o          دوسروں کا وقت ضائع نہ کیجیے۔ دوسروں کو انتطار کی زحمت مت دیجیے۔

   o          تیزی سے کام کیجیے۔ اس کا ہر گز مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ مار دھاڑ کے ساتھ کام کریں بلکہ سست روی اور سست رفتاری سے بچتے ہوئے اسے مقررہ وقت میں کرنے کی کوشش کیجیے۔ امتحان کے تین گھنٹوں میں جس کیفیت سے کام کیا جاتا ہے، زندگی میں بھی اسے ضرور ملحوظ رکھیں۔

   o          خطوط کو دیکھ کر فوراً فیصلہ کرلیں کہ اس پر کیا اقدام کرنا ہے۔

   o          ای میل کا جواب تحریر کرکے اس پر غور کیجیے۔ اگر کوئی جذباتی بات یا غیر مناسب جواب تحریر کرلیا گیا ہے تو اسے بھیجنے سے پہلے اہتما م کے ساتھ بار بار دیکھیے۔ کوشش کیجیے کہ ایک رات گزرنے کے بعد جواب بھیجا جائے۔

   o          مناسب ہوگا کہ اپنی ای میل دن میں صر ف دو بار چیک کریں۔ فوری جوابات ضروری ہوں تو اس میں لچک پیدا کرلیں۔

   o          کئی غیرجواب شدہ کالز کو جمع کرکے ایک وقت میں باری باری فون کرنے کی کوشش کریں۔

   o          عام معاملات میں فون پر کوشش کریں کہ تین منٹ میں بات ختم ہوجائے ورنہ پانچ منٹ سے زائد بات کرنا وقت کے ساتھ ظلم ہے۔

   o          میٹنگز کم از کم کرنےکی کوشش کریں اور وہ بھی ایجنڈے کے مطابق۔ میٹنگز کو ادارے کے مفاد کے لیے استعمال کیجیے۔ بحث و مباحثہ سے ٹیلی ویژن کے ٹاک شوز کا نعم البدل مت بنائیے۔

   o          دوپہر کا کھانا سادہ رکھیں اور کھانے کے بعد چند لمحات آرام کرلیں۔یہ قوت عمل کا باعث ہوگا۔

   o          ہم ہر کام نہیں کرسکتے۔ ان مصروفیات پر توجہ دیجیے جو بہت اہم ہیں اور جن سے آپ کو  زیادہ فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ کم نفع مند کاموں کو مؤخر کرسکتے ہیں یا پھر کسی دوسرے فرد کے سپرد کرکے اس پر کچھ لاگت لگاکر بہتر طریقے سے کر اسکتے ہیں۔

   o          اپنے وقت کا ریکارڈ رکھیے اور جائزہ لیتے رہیے کہ کتنا کارآمد اور کتنا غیر کارآمد خرچ ہوا۔

   o          منا سب شیڈول تو بنایئے لیکن شیڈولنگ کے جال میں مت پھنسیں۔

   o          کام میں حارج ہونے والی باتوں اور مداخلت کو کنٹرول میں رکھنے کی کوشش کیجیے۔

   o          اپنے قیمتی وقت [پرائم ٹائم] کی شناخت کیجیے اور اس سے بھر پور فائدہ اٹھائیے۔

   o          اپنے اہم کاموں کو اس وقت کرنے کی کوشش کیجیے، جب آپ کے جسم میں قوت زیادہ ہو اور یہ آپ خود اپنا جائزہ لے کر معلوم کرسکتے ہیں۔

   o          وہ کام جن کو کرنےکو طبیعت نہیں چاہ رہی ہے (جائز کام)، انھیں کرنے کے لیے اپنے آپ پر جبر کرکے جلد ازجلد کرنے کی کوشش کیجیے۔

   o          غیر متوقع اُمور کے لیے بھی تیار رہیے اور ان کاموں کو بھی اپنے شیڈول کا حصہ بنائیے۔

   o          سفری اوقات کو استعمال کرنے کا فن سیکھیے۔ اس وقت کو بھی بہتر طورپر استعمال کرنے کی کوشش کیجیے اور دورِ حاضر کی ٹکنالوجی سے بھرپور فائدہ اٹھائیے۔

   o          ۲۰؍ ۸۰ کے قاعدے کے مطابق کام کیجیے، یعنی وہ کام کریں جن میں محنت کم اور استفادہ یا نتائج زیادہ ہوں اور اسی کے مطابق ترجیحات کا تعین کیجیے۔

   o          جب بہت زیادہ کام آجائیں تو اپنے کاموں کو تقسیم کرنے کی کوشش کریں ۔ اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ کارڈز لیں اور اپنے کاموں کے دو گروپ بنالیں: آج کے کرنے کے کام اور وہ کام جو کل ہو سکتےہیں ۔دو گروپ بنا کر کام کرنے کی کوشش کریں۔

   o          ہر ۴۵منٹ کے بعد آپ چند منٹوں کا وقفہ لینے کی کوشش کریں تاکہ آپ زیادہ توجہ اور توانائی کے ساتھ کام کرسکیں۔

   o          اپنے مسائل حل کرنے کےلیے اور اپنی سوچ کو منظم کرنے کے لیے آپ کاغذ اور قلم کے استعمال کی عادت ڈالیں۔ نوٹ بک ہو تو بہتر ہے۔اسمارٹ فون بھی معاون ہیں۔

   o          کاملیت پسند بننے کی کوشش نہ کریں بلکہ کام کو اپنی استعداد کے مطابق احسن طریقے سے کریں۔

   o          بعض اوقات غیرضروری سوچ اور بہت بڑی منصوبہ بندی بھی آپ کے کام میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہے۔ ایسی صورت میں فوری عمل بھی فائدہ مند ہوتا ہے۔تساہل آپ کو کام شروع کرنے سے روکتا ہے اور کاملیت آپ کو کام ختم کرنے سے روکتی ہے۔

   o          اپنے رویّے کو معتدل رکھیے۔

   o          اپنے آپ میں اور اپنے رویے میں لچک رکھیے۔ اتنے سخت بھی نہ بن جائیے کہ ٹوٹنا پڑے۔اتنے نرم بھی نہ بنیں کہ لوگ آپ کو موڑ توڑ کے رکھ دیں۔

   o          ایک جیسے کام ایک جگہ جمع کرلیں۔

   o          اپنے موجودہ طریقۂ کام کا جائزہ لیں اور اس میں حسب ضرورت تبدیلی کریں۔

   o          کام کرنے کے فنکار بنیے۔ محض محنت کافی نہیں بلکہ بہترین طریقے سے کام کیجیے۔

   o          اپنے کاموں اور معاملات کی چیک لسٹ بنائیے، یعنی یہ کہ کیا کیا کام کرنے ہیں۔

   o          بیک ورڈ شیڈول بنائیے، یعنی کام ختم کرنے کی مطلوبہ تاریخ سے پیچھے کی جانب منصوبہ بندی کیجیے۔

   o          چھوٹے چھوٹے کاموں کو ایک وقت میں نمٹائیے۔

   o          ہمیشہ اپنی ترجیحات پر توجہ دیں اپنی مصروفیات پر نہیں۔

   o          دوسروں کے اوقات کی قدر کیجیے۔

   o          فیصلے کرنے میں تاخیر نہ کیجیے۔

   o          اپنے دفتر یا تنظیم کے ساتھیوں کا وقت ضائع نہ کیجیے۔

   o          اپنی ذاتی خوبیوں اور خامیوں کا جائزہ لیتے رہیے اور اپنی اصلاح کرتے رہیے۔

   o          اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا سیکھیں۔

   o          اپنی تحریر کو بہتر بنائیے۔اپنے لہجے میں شیرینی لانے کی کوشش کیجیے اور تیکھے لہجے سے احتراز کیجیے۔

   o          اپنے کاموں کو اپنے لیے رکاوٹ مت بنائیے بلکہ معاون بنائیے ۔

   o          جو چیزیں اور معاملات عموماً تنگ کرتے ہیں ان کا حل نکالنے کی کوشش کیجیے۔

   o          ہمیشہ بیک اپ پلان رکھیں جیسے آپ لوڈ شیڈنگ کے پیش نظر یوپی ایس یا جنریٹر کا انتظام رکھتے ہیں۔

   o          اوقات کو پرائم اور نان پرائم ٹائم میں تقسیم کریں اور اس کا لحاظ رکھتے ہوئے کام کریں۔

   o          کاموں کے لیے وقت کے گروپ بنالیں اور اس وقت میں تیزی کے ساتھ کام کرنے کی کوشش کریں۔

   o         جوکام کریں صحیح کریں۔

   o          جب کام ختم کرلیں تو پھر اسے ایک طرف رکھ دیں اور بار بار اس پر نظریں نہ دوڑائیں۔

   o          اپنی جیب میں ہمیشہ کھلے پیسےبھی رکھیں۔ بعض اوقات ریزگاری کی ضرورت پڑتی ہے۔

   o          اپنے معاونین کی ہمیشہ رہنمائی کرتے رہیں اور ان کی عزتِ نفس کا ہمیشہ خیال رکھیں۔ انسانوں کے ساتھ غرور اور تکبر کا رویہ آپ کو بہت جلد بغیر سیڑھیوں کے بغیر زمین پر پہنچا دےگا۔

   o          نشست سے پہلے ہمیشہ پچھلی نشست کی روداد اور اگلی نشست کا ایجنڈا بھیج دیں۔

   o          اپنے ساتھ کام کرنے والوں کی صلاحیت کا خیال بھی رکھیں۔

   o          اپنے معاونین کو متحرک رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ کرتے رہیں۔

   o          باربار میٹنگوں کے بجاے کانفرنس کال کرلیں یا اسکائپ کال کرلیں۔

   o          جہاں ضرورت ہو دیگر ساتھیوں سے مدد طلب کرلیں۔

   o          اپنے کام سے لطف اندوز ہوں۔ کام کو اپنی پسند بنالیں اور اسے اس حق کے مطابق کرنے کی کوشش کریں۔زندگی کی جائز تفریحات سے فائدہ اٹھائیں۔

   o          اپنے کام کرنے کی جگہوں پر کنٹرول حاصل کریں۔

   o          ترجیحات کا تعین کریں اور ضبط ِ تحریر میں لائیں۔

   o          صحیح وقت پر کام کریں اور کام کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔

   o          مقا صد متعین کریں اور کام مکمل ہونے پر خوشی کا اظہار کریں اور خدا کا شکر ادا کریں۔

   o          بہتر طریقے سے کام دوسروں کو تفویض کریں۔

   o          معذرت کرنے کا فن استعمال کریں۔ جو کام نہیں کرسکتے اور جو کام آپ کے مقاصد کے مطابق نہیں ہے اس سے معذرت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ دوسروں کی دنیا بنانے کے لیے اپنی دنیا اور اپنی آخرت تباہ نہ کریں۔ اپنی نوکری بچانے کے لیے دوسروں کے کرپشن کا حصہ بن گئے تو دوسرے اتنے طاقت ور ہوتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو تو بچالیں گے اور جیلیں آپ کاٹیں گے اور مقدمات کے اخراجات آپ کی نسلیں (وراثت سے) ادا کریں گی۔

   o          کاموں کا اور فاصلوں کا اندازہ لگائیں اور منصوبہ بنائیں تاکہ صحیح وقت پر کام ختم کر سکیں۔

   o          سفرعقل مندی اور منصوبہ بند ی کے ساتھ کریں۔مقصدِ سفر واضح ہو۔ کاموں کی فہرست پہلے سے تیار ہو۔ ٹکٹ اور ہوٹل کی بکنگ کر لی گئی ہو۔ جن افراد سے ملنا ہے ان سے ملاقات کے اوقات طے ہوں۔ ان سے ملاقات کا ایجنڈا طے ہو۔ اس کےلیے آپ نے ہوم ورک کرلیا ہو۔

   o          بہتر کارکردگی کا مطالبہ کریں۔ اپنے ساتھیوں کو متحرک رکھیں۔ انھیں کام کے فوائد بتائیں۔ انھیں اس معاملے میں ان کے خوش گوار مستقبل کے بارے میں ترغیب دیں۔

   o          ’خدا حافظ‘ کہنے کا فن سیکھیں۔ کچھ کاموں کو ترک کرنا سیکھیں ۔ کچھ قربانیاں دینا سیکھیں۔

   o          تنظیم وقت اور گھر کے کام کاج کے لیے ٹولز [چیزیں] استعمال کریں۔ یہ کارآمد اور وقت بچانے کا اچھا ذریعہ ہیں۔جہاں ممکن ہو ٹولزکو اپنی ضرورت کے مطابق بنائیں۔

   o          اپنے آپ پر ذمہ داریوں کا بہت زیادہ بوجھ نہ ڈالیں۔ انسان خود بے وقوفی کرکے اپنے اوپر بوجھ لادتا ہے۔

   o          ایک وقت میں ایک چیز یا ایک کام کریں۔ بیل گاڑی یا ٹرانسپورٹ کنٹینر بننے کی کوشش نہ کریں۔

   o          جو کام شروع کریں اسے ختم بھی کریں۔ یہ ایک اچھی عادت ہے اور اس سےآپ کی کامیابی کا راز وابستہ ہے۔ اس عادت سے آپ کی کارکردگی میں اضافہ ہوگا۔

   o          اپنی شخصیت اور رویے میں لچک پیدا کریں۔ ہٹ دھرمی انسانی تعلقات میں زیب نہیں دیتی۔

   o          کام کے بھوت نہ بنیں۔اچھے انداز میں کام کریں۔

   o          اچھی طرح سے اور غلطیوں سے پاک کام کرنے کی کوشش کریں۔احسن طریقے سے کام کریں کیونکہ یہ انسانوں سے مطلوب ہے۔

   o          ناممکن کاموں کو کرنے کی کوشش نہ کریں۔ اپنے قد سے چھوٹے ہونا یا بونا بننا ناممکن ہے۔ لیکن ایک یا دو انچ قد بڑھ سکتا ہے۔

   o          کرنے کے کاموں کی فہرست کو اپنے ساتھ بلکہ اپنے سامنے بھی رکھیں۔

   o          افراد کی تربیت کریں اور انھیں زیادہ سے زیادہ اُمور سپرد کریں اور آگے بڑھنے کا موقع دیں۔

   o          مداخلتی چیزوں کا جائزہ لیں اور انھیں دور کرنے کی کوشش کریں۔ اوقات کو ضائع کرنے والی چیزوں کا جائزہ لیں، مداخلتوں کا جائزہ لیں اور پھر انھیں دُور کرنے کی کوشش کریں۔

   o          ہر کام کے لیے ہدف مقرر کریں اور اس وقت میں اسے کرنے کی کوشش کریں۔

   o          اگر فون پر کام کیا جاسکتا ہے تو خط لکھنے اور ای میل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

   o          غیر ضروری چیزوں کا مطالعہ نہ کریں اور اسی انداز سے روزانہ آنے والی ای میلز کو چھانٹ لیا کریں۔

   o          پہیہ دوبارہ ایجاد نہ کریں ، جو چیزیں میسر ہیں ان سے فائدہ اٹھائیے۔

   o          اپنے کام کے سلسلے میں کسی سے معاونت کی ضرورت ہے تو اسے ضرور حاصل کریں۔

   o          جب کسی کام میں کامیابی ہوجائے تو اس کی خوشی منایئے۔رب کا شکر ادا کیجیے اور اپنے معاونین کو ان کی محنت پر حوصلہ افزائی کیجیے۔ انھیں کریڈٹ دیجیے۔ یقین کیجیے آپ کی قائدانہ صلاحیتوں کے لیے یہ بہت اہم ہے۔

   o          غیر متوقع چیزوں اور واقعات کا اندازہ لگایئے اور ان کے لیے بھی وقت نکالنے کی منصوبہ بندی کرلیجیے۔

   o          اپنے تضیع اوقات کا عمومی طور سے جائزہ لیتے رہیے اور اس سلسلے میں اپنی اصلاح کرتے رہیے۔

   o          اپنے حافظے کے ساتھ مہربانی فرمایئے اور نوٹ بک کا استعمال کیجیے۔حافظے کو اہم چیزوں کے لیے رکھیے۔

   o          جب گھر یا دفتر سے خریداری کے لیے نکلیں تو مکمل فہرست کے ساتھ نکلیں، تاکہ ایک ہی چکر میں بہت سارے کام ہوجائیں۔ہمیشہ ماسٹر لسٹ اپنے پاس رکھیں۔

   o          دفتر کی عام گفتگو جسے چٹ چاٹ کہتے ہیں اور مزاحیہ چیزوں، کرکٹ اور واقعات پر تبصروں سے پرہیز کیجیے۔

   o          اپنے گھر اور معاشی مقام میں فاصلہ کم کرنے کی کوشش کریں تاکہ آپ کے وقت کی بچت ہو۔

   o          دفتری زندگی میں جوابات کے عمومی خطوط (ٹیمپلیٹ ) بنالیں، تاکہ بار بار آپ کو لکھنا نہ پڑے اور آپ ایک ہی ڈرافٹ کی ایڈیٹنگ کرکے اپنا وقت بچانے کی کوشش کریں۔

   o          کام کی منصوبہ بندی کریں پھر کام کریں۔ گاڑی چلانے سے پہلے منزل متعین کرلیں۔

   o          کام کرنے سے پہلے منطق کے سوالات اپنے آپ سے کریں: کیا؟، کیوں؟ کیسے؟ اور کب؟

   o          خاص اور منتخب کام کریں، جن کے بغیر گزارا ہوسکتا ہے اسے چھوڑدیں۔

   o          وہ کام جو دماغی صلاحیت کا مطالبہ کرتے ہیں انھیں ان اوقات میں کریں جب آپ کا دماغ اس کام کے لیے تیار ہو۔

   o          ایک وقت میں ایک کام کریں۔

   o          اپنے یومیہ کاموں کے لیے ٹائم ٹیبل بنائیں۔

   o          قابلِ عمل مقاصد کا تعین کریں۔

   o          گھر پر کام مت لے جائیں اور گھر کو کام پر مت لائیں۔ جب کام پر آئیں تو گھر سے نشریاتی رابطہ کم از کم رکھیں اور جب گھر جائیں تو گھر والوں کے حقوق ادا کریں۔دفتر والوں سے نشریاتی رابطہ کم کردیں۔ شریک حیات اور بچے اور والدین آپ سے آپ کا وقت، آپ کی باتیں اور آپ کی مسکراہٹیں مانگتے ہیں۔ ان کےلیے اجنبی نہ بنیے۔

                (مجموعی طور پر زندگی کے روزمرہ اُمور میں بہتری کے لیے ہماری کتاب شاہراہِ   زندگی   پر کامیابی   کا   سفر کا مطالعہ مفید رہے گا)۔

ہمارے اکثر دکھوں،پریشانیوں اور شکایتوں کی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہم دوسروں کی نظروں میں اچھا بننا یا سرخرو ہونا چاہتے ہیں۔ یہ خواہش خصوصاً اس وقت مری نہیں، جب ہم اپنی اخلاقی خوبیوں، مثلاً دوسروں کا حال احوال دریافت کرکے، دوسروں کی مدد کرکے اور ان کی مشکلات میں معاونت کرکے، ان کے دل میں اپنے لیے جگہ بنانا چاہیں۔ تاہم، یہ خواہش اس وقت ہمارے لیے پریشانی کا باعث بن جاتی ہے، جب ہم اپنی دولت، اپنے اسٹیٹس اور اپنی کامیابیوں کو بڑھا چڑھا کے بیان کرتے، یا اپنی کار اور کوٹھی سے دوسروں کو مرعوب کرنے کے آرزو مند ہوتے ہیں۔ اسی چیز سے دکھاوے اور نمود و نمایش کا مرض پیدا ہوتا ہے، جو آج ہمارے معاشرے میں عام ہے۔

 ایک مثا ل پر غور کیجیے: ایک متوسط اور نچلے متوسّط طبقے کا فرد بھی جب اپنی بیٹی یا بیٹے کی شادی کرتا ہے تو استطاعت نہ ہونے کے باوجود وہ ادھر اُدھر سے قرض لے کر ، یا سامان بیچ کر،  محض اس لیے تین چار سو مہمانوں کی ضیافت کا اہتمام کرتاہے کہ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو عزیز و رشتہ دار کیا کہیں گے؟ کچھ یہی معاملہ اعلیٰ اور اعلیٰ متوسط طبقے کا ہے کہ جو شادی بیاہ کی تقریبات میں محض دکھاوے کے لیے کئی کئی ڈشیں کھانے پہ رکھتا ہے۔ اسی طرح بارات اور ولیمے کے علاوہ مہندی، مایوں وغیرہ کی غیر ضروری رسومات پہ روپے پیسے کو پانی کی طرح بہادیا جاتاہے۔ یہ فضول خرچی محض اس لیے کی جاتی ہے کہ سوسائٹی میں اپنی ناک اونچی ہو۔ عزیزو رشتہ دار کہیں کہ واہ کیا مہندی کی تقریب تھی! دلہن کے ملبوسات اور میک اپ پر ہر گھرانہ ہزاروں روپے لٹا دیتا ہے اور اب تو دلہن کے ساتھ ساتھ دولہا میاں کو بھی کوئی مہنگا بیوٹیشن میک اپ کرکے تقریب میں  شرکت کے قابل بناتا ہے۔ گویا ایک بیٹے یا بیٹی کی شادی ہی میں اتنے اخراجات اُٹھ جاتے ہیں کہ عام آدمی کی کمر بوجھ سے جھک جاتی ہے۔

ان ساری پریشانیوں کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ ہم دکھاوے اور نام و نمود کی فرسودہ ، تکلیف دہ سماجی روایات کی ڈور سے بندھ گئے ہیں اور بعض صورتوں میںا ن سے متفق نہ ہونے کے باوجود روایات کی ان زنجیروں کو توڑنے کی اپنے اندر ہمّت نہیں پاتے کہ ’’دنیا کیا کہے گی؟‘‘

ہم میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں کہ کہہ دیں:’’دنیا جو کہے میری بلاسے‘‘ اور پھر اپنی استطاعت کے مطابق سادگی سے یہ ضروری فریضہ انجام دیں۔ یہ کہاں کی عقل مندی ہے کہ محض لوگوں کے کہنے سننے کے خوف سے ہم خود کو مقروض بنالیں۔

اس دکھاوے اور نمود و نمایش نے ہمارے اخلاقی معیارات کو اتنا کھوکھلا اور مضحکہ خیز بنادیا ہے کہ اب شرافت ، کردار، تعلیم اور صحت جیسی خوبیوں پر دولت کو ترجیح دی جاتی ہے۔ دولت ہی خوبی کا واحد معیار بن کر رہ گیا ہے۔ یہ معیار اتنی اہمیت اختیار کرگیا ہے کہ اگر اسکول اچھا ہو، فیس معقول ہو، اساتذہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں ، تب بھی ہم ایسے اسکول میں بچّوں کو نہیں پڑھاتے جس کی شہرت اونچے اسکول کی نہ ہو۔ پڑھاتے ایسے اسکول میں ہیں جس کی فیس مہنگی ہو اور جس کا نام اور شہرت ایسی ہو کہ لوگ سن کر کہیں کہ: ’’اچھا، آپ کا بچّہ فلاں اسکول میںپڑھتا ہے ‘‘۔ ایسے مشہور اسکولوں کا حال یہ ہے کہ ہوش رہا فیس دینے اور ٹرانسپورٹ کا خرچ برداشت کرنے کے باوجود بچّے کو پرائیویٹ ٹیوشن پڑھانا پڑتی ہے۔ سربلند کرنے کے سماجی مرتبے کے علاوہ اگلے درجوں میں تعلیم اور کیریئر بنانے میں مددگارو معاون بننے کی بھی اُمید ہوتی ہے۔ ہم ایسی ہی ’اونچی دکان‘سے ’پھیکا پکوان‘ خریدنا پسند کرتے ہیں۔ اسکول سے بچّے نے کیا اور کتنا سیکھا اور اسکول کے اساتذہ نے  کتنی محنت کی اور کیا کچھ سکھایا اور تربیت دی___ ان سوالات سے والدین کا عموماً کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

لوگوں کی سوچ اس درجہ طبقاتی ہوگئی ہے کہ ہم آدمی کی حیثیت اور مرتبے کا اندازہ اُس علاقے سے لگاتے ہیں جہاں وہ رہتاہے ۔ ایک اچھے کردار اور اخلاق کا آدمی اگر کسی نواحی یا نیم پس ماندہ بستی کا رہایشی ہو تو عموماً وہ بے وقعت ہوجاتاہے۔ رشتہ دار اگر بدقسمتی سے ایسی بستی کے رہایشی ہوں تو ان کے پاس آنا جانا اور ملنا جلنا بھی براے نام ہی ہوتاہے۔

اس کی وجہ اور کیا ہے کہ ہماری نظروں میں زندگی کی سب سے بڑی قدر دھن دولت، کار،کوٹھی او ر بنک بیلنس ہے۔ یہ مادی اشیا یقینا زندگی میں اہمیت رکھتی ہیں اور ان کے جائز حصول میں کوئی عیب نہیں ہے۔ لیکن اس سے زیادہ بُری بات اور کیا ہوگی کہ دولت اور مادی اشیا کے سامنے ہم انسانی اور اخلاقی اوصاف اور خوبیوں کو کم تر اور بے وقعت سمجھنے لگیں۔

ہم بھول جاتے ہیں کہ دولت باوجود اپنی طاقت اور اہمیت کے، عمر اور جوانی کی طرح ڈھلتی چھاؤں ہے۔ ہم نے کتنے دولت مندوں کو قلاّش ہوتے اور کتنے قلاّشوں کو دولت مند ہوتے دیکھا ہے۔ روپیہ پیسہ تو گردش کرنے والی چیز ہے۔ ایسی عارضی اور پُر فریب حقیقت پر جان دینا، اسی کو سب کچھ سمجھ لینا، اچھّائی اور برائی کا اسی کو پیمانہ بنالینا، کوتاہ نظری اور سطحی سوچ کا شاخسانہ ہے۔

آج معاشرے میں بدعنوانی کی شرح اس درجہ کیوں بڑھ گئی ہے کہ کوئی محکمہ، کوئی شعبہ اور کوئی کاروبار اس بدعنوانی کے ناسور سے محفوظ نہیں ہے۔ یہ سب کچھ زرپرستی کانتیجہ ہے۔ روپیہ پیسہ لوگوں کا ایمان اس لیے بن گیا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کی ساری سہولتیں ، عزّت، وقار، بچّوں کی تعلیم اور ان کا محفوظ مستقبل سب کچھ دولت ہی سے ممکن ہے۔ یہ یقین اس درجہ ہے کہ زندگی سے قناعت، صبر و استغنا اور سادگی و کفایت شعاری کی صفات غائب ہوگئی ہیں۔ اس کے برعکس دولت کی محبت نے جو بیماریاں ہمارے اندر پیدا کردی ہیں، وہ ہیں: حرص و ہوس، لالچ، غرور، تکبر، غفلت، بے خوفی اور دیدہ دلیری۔ جس کا حتمی نتیجہ ہے احترام آدمیّت کا خاتمہ۔ جب آدمی کو دولت اور سماجی مرتبے سے تولا جائے گا تو احترامِ آدمیّت کا خاتمہ منطقی نتیجہ ہے۔

ول ڈیورانٹ نے لکھا ہے کہ: ’’آدمی اور پست حیوان میں بہت کم فرق ہوتاہے اور زیادہ تر لوگ اس فر ق کو بھی مٹادیتے ہیں‘‘۔ یہ فرق اُس وقت مٹتا ہے جب آدمی اپنی جبلّتوں اور خواہشوں کا غلام ہوجائے اور دولت کو ان کی تکمیل کا ذریعہ بنالے۔ ہمارے معاشرے میں جب کسی شخص کے پاس دولت آتی ہے تو وہ ایک شان دار بنگلہ یا کوٹھی بناتاہے ، سالِ رواں کی مہنگی اور پُرتعیش کار خریدتا ہے، قیمتی اور مہنگے لباس پہننے لگتا ہے۔ بیوی ، زیورات سے لد پھند جاتی ہے، ہیرے جواہرات کے نیکلس اورقیمتی انگوٹھیاں، غرض دولت ہے کہ ہر ہر چیز سے امارت چھلکی پڑتی ہے۔ دولت کا فقط یہی استعمال رہ گیا ہے کہ اس کی نمایش سے محروم لوگوں کو ترسایا تڑپایا اور للچایا جائے۔ دوسرے ملکوں اور دوسری قوموں میں آپ نمود و نمایش اور دکھاوے کا یہ انداز نہیںپائیں گے۔

اسلام نے اسراف اور فضول خرچی کرنے والوں کو ’شیطان کا بھائی‘ کہاہے۔ جو دولت مند ہوتے ہیں، کم ہی دیکھنے میں آیا ہے کہ رزق کی اس کشادگی کا فیض وہ اپنے غریب رشتہ داروں اور ضرورت مندوں کو پہنچائیں۔ اس لیے کہ جو دولت محنت سے کمائی جاتی ہے، وہ محنت دولت کی محبت بھی دل میں پیدا کردیتی ہے۔ اسے رفاہ عامّہ کے کاموں میں خرچ کرنے اور ضرورت مندوں کی امداد کرنے میں دل دُکھتا ہے اور یہ خیال روکتا ہے خرچ کرنے سے کہ اپنی محنت اور خون پیسے کی کمائی میں دوسروں پر کیوں لٹاؤں؟ دوسروں کا اس میں کیا حصّہ ہے جو میں اپنی کمائی میں سے ان کا حصّہ نکالوں۔ لہٰذا، دولت آتی ہے تو ساتھ اپنی محبت بھی لاتی ہے بلکہ دولت اکثر صورتوں میں جمع ہوتی ہی دولت کی محبت اور بخل سے ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں امیر ، امیر تر اور غریب ، غریب تر ہوتا جارہا ہے ۔ دولت مندوں اور کھاتے پیتے گھرانوں کے لوگ اگر غریب غربا کو دینے دلانے میں ذرا دریادلی اور فیاضی دکھائیں تو معاشرے میں غربت و افلاس میں اضافہ کیوںہو، لوگ فاقہ کشی پر مجبور کیوں ہوں، نان شبینہ سے محتاجی انھیں خودکشی اور ڈاکازنی پر مجبور کیوں کرے؟

آج کسی بھی متّمول علاقے میں چلے جائیے، جہاں وسیع و عریض کوٹھیاں اور بنگلے بنے ہیں۔ وہاں اکثر صورتوں میں آپ کو ویرانی اور سناّٹے کا راج نظر آئے گا۔ اس لیے کہ بچّوں کی  شادیاں ہوگئیں یا بہتر مستقبل کی تلاش میں وہ ملک سے باہر چلے گئے اور اب کوٹھی یا بنگلے میں    دو میاں بیوی، چند ایک ملازمین کے ساتھ بڑھاپے اور بیماری کے دن کاٹ رہے ہیں۔ دولت اور اسراف نے کیا دیا؟ تنہائی اور ویرانی!

دولت یقینا ایک نعمت ہے، اگر اس نعمت سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچایا جائے، اور یہ لعنت ہے اگر اسے نمود و نمایش، دکھاوے یا اسراف میں اڑایا جائے۔

فقہی اختلاف کی حقیقت

’اسلامی فقہ اکیڈمی مکّہ مکرمہ‘ نے اپنے دسویں اجلاس منعقدہ ۲۴-۲۸صفر ۱۴۲۳ھ بمطابق ۱۷-۲۰ ؍اکتوبر ۱۹۸۷ء میں ایک فیصلہ دیا تھا۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر پیش ہے۔(ادارہ)

’’مجلس نے ان مشکلات اور تصورات کا مطالعہ کیا اور جائزہ لیا ہے، جو اختلافِ مذاہب کے سلسلے میں نوخیز ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں اور وہ ان کی بنیاد اور مفہوم سے واقف نہیں ہوتے۔ یہ تصورات بعض گمراہ کن لوگ ان میں پھیلاتے ہیں۔ مجلس سمجھتی ہے کہ جب اسلامی شریعت واحد ہوگی، اس کے اصول قرآنِ مجید اور سنت ِ ثابتہ سے (یک جا صورت میں) اخذ کیے جائیں گے   تو پھر مذاہب میں اختلاف کیوں پیدا ہوگا؟ پھر کیوں مذاہب متحد نہ ہوں گے کہ مسلمان احکامِ شریعت کے ایک فہم اور ایک مذہب کے ساتھ کھڑے ہوسکیں۔

اسی طرح مجلس نے مذہبی عصبیت اور اس سے پیدا ہونے والی مشکلات کا بھی جائزہ لیا ہے۔ خصوصاً عہدحاضر میں بعض نئے زاویہ ہاے نظر کے پیروکاروں کا معاملہ کہ یہ لوگ جدید اجتہادی تصور کی طرف بلاتے ہیں اور قدیم اسلامی اَدوار سے لے کر اب تک اُمت کے قبول کردہ مستقل مذاہب پر طعن کرتے ہیں۔ اس کے ائمہ کو تنقید کا نشانہ بناتے یابعض کو گمراہ قرار دیتے ہیں اور لوگوں کے درمیان نئے نئے فتنے کھڑے کرتے ہیں۔ مجلس اس موضوع کی مناسبت سے جملہ اُمور اور گمراہی و فساد کی صورت میں نکلنے والے اس کے نتائج کا تجزیہ کرنے کے بعد دونوں گروہوں (گمراہی کے فتوے لگانے والوں اور عصبیت میں مبتلا کرنے والوں) کو درج ذیل بیان کے ذریعے تنبیہ کرتی اور توجہ دلاتی ہے:

مسلم ممالک میں مذاہب کے فکری اختلاف کی دو قسمیں ہیں:

  •  اعتقادی مذاہب میں اختلاف l فقہی مذاہب میں اختلاف۔

پہلا اختلاف، یعنی اعتقادی اختلاف واقعتاً ایک عذاب کی سی شکل اختیار کرتے ہوئے مسلم ممالک میں خطرناک حد کو پہنچ گیا ہے۔ جس سے مسلمانوں کی وحدت پارہ پارہ ہوگئی ہے اور یہ سخت قابلِ افسوس صورتِ حال ہے۔ یقینا اُمت کو اہلُ السنۃ والجماعت کے مذہب پر مجتمع ہونا چاہیے، جو مذہب عہد ِ رسالت اور عہد ِ خلافت ِ راشدہ میں صاف و شفاف اسلامی فکر کی صورت میں قابلِ اتباع رہا ہے۔ خلافت راشدہ کے منہج کو قابلِ اِتباع ہونے کا یہ حق اس لیے حاصل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

تم پر میری سنت اور میرے بعد خلفاے راشدینؓ کی سنت کی پیروی لازم ہے۔ اس پر تمسک اختیار کرو اور اس کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے رکھو۔(ابوداؤد، ترمذی)

دوسرا اختلاف، یعنی بعض مسائل میں فقہی مذاہب کا اختلاف ہے، تو اس کے علمی اسباب ہیں اور یہ موضوع غوروفکر کا تقاضا کرتا ہے۔ اس میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بلیغ حکمت موجود ہے اور یہ بندوں پر اس کی رحمت ہے۔ یہ نصوص [متن]سے احکام اخذ کرنے کے میدان میں وسعت کا ذریعہ ہے۔ یہ قانونی، فقہی دولت نعمت بھی ہے، جو اُمت اسلامیہ کو اس کے دین و شریعت کے معاملے میں وسعت سے ہم کنار کرتی ہے۔ اس کا انحصار محض ایک مسئلے یا معاملے میں شرعی تطبیق ہی پر نہیں محدود رہتا کہ اس کے علاوہ اس کا کوئی مقصود نہ ہو۔ صورتِ واقعہ یہ ہے کہ جب اُمت کسی امام کے مذہب میں تنگی محسوس کرتی ہے تو وہ دوسرے امام کے مذہب میں وسعت، نرمی اور سہولت پاتی ہے، خواہ یہ عبادات کے مسائل ہوں یا معاملات کے، عائلی اُمور ہوں یا فوجداری معاملات، اور یہ وسعت بھی شرعی دلائل کی روشنی ہی میں ملتی ہے۔

اختلافِ مذاہب کی دوسری قسم، یعنی فقہی اختلاف کوئی نقص نہیں ہے اور نہ یہ دین اسلام کے اندر کسی تناقض کی علامت ہے۔ کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس کے پاس کوئی ایسا کامل قانونی نظام ہو جو اس کے اپنے فہم و اجتہاد سے تشکیل پایا ہو اور اس میں یہ فقہی و اجتہادی اختلاف نہ ہو۔

یہ ممکن ہی نہیں کہ اختلاف نہ ہو، کیوں کہ بیش تر نصوصِ اصلیہ ایک سے زائد صورتوں میں رہنمائی کرتی ہیں۔ اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ نص تمام امکانات کا احاطہ کرلے۔ اس لیے کہ نصوص تو محدود ہوتی ہیں اور وقائع (واقعات) غیرمحدود ہوتے ہیں جیساکہ علما کی ایک تعداد نے کہا ہے:

’قیاس‘ کی طرف رجوع، احکام کی علّت، شارع کے مقصود، شریعت کے مقاصد عامہ، وقائع میں ان کی احکامی حیثیت ، اور درپیش صورتِ حال میں گہرا غوروخوض ضروری ہے۔ اس کام میں احتمالات کے درمیان علما کی ترجیحات اور ان کے فہم میں اختلاف کا پایا جانا فطری امر ہے،  جس کی وجہ سے ایک ہی موضوع میں علما کے بیان کردہ احکام بھی مختلف ہوجاتے ہیں اور علما میں سے ہر ایک حق تک پہنچنے ہی کی کوشش کرتا ہے۔ جو اس حق کو پالے اس کے لیے دو اجر ہیں اور جو خطا کرجائے اس کے لیے ایک اجر ہے اور یہیں سے وسعت پیدا ہوتی ہے اور تنگی ختم ہوتی ہے۔ لہٰذا، اس مذہبی اختلاف کے وجود میں کہاں عیب ہے، جب کہ فی الواقع یہ اللہ کی اپنے مومن بندوں پر رحمت اور نعمت ہے اور ساتھ ہی عظیم فقہی دولت اور ایسی خوبی و خصوصیت ہے جس پر اُمت مسلمہ فخر کرسکتی ہے۔ تاہم، اِدھر اُدھر سے کچھ فتنہ انگیز افراد بعض مسلمان نوجوانوں میں اسلام کے حوالے سے پختگی نہ ہونے سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ خصوصاً ایسے نوجوان ان کے جھانسے میں آجاتے ہیں جو بیرونِ ممالک تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ گمراہی پھیلانے والے ان کے سامنے بعض فقہی اختلافات کو یوں پیش کرتے ہیں کہ گویا یہ اعتقادی اور بنیادی اختلافات ہیں۔ وہ ان کے ذہنوں میں ظلم و جَور سے یہ بات بٹھا دیتے ہیں کہ یہ اختلاف تو شریعت کے تناقض پر دلالت کرتا ہے۔ وہ ان کے سامنے اختلاف کی دونوں صورتوں کا فرق بیان نہیں کرتے جو ان کے درمیان ہے۔

دوسرا طبقہ جو مذاہب کو ویسے ہی ترک کر دینے کا داعی ہے اور چاہتا ہے کہ لوگ انھی کی جدیدیت زدہ آزاد روی کو اختیار کریں۔ یہ طبقہ مستقل فقہی مذاہب کو مطعون اور ان کے ائمہ کو  موردِ الزام ٹھیراتا ہے۔ ہم فقہی مذاہب اوران کے وجود اور خوبیوں اور ائمہ کے حوالے سے اپنے اس بیان میں، فتنہ پرور طبقوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس شرانگیز اسلوب کو چھوڑ دیں۔    آج ہمیں اُمت مسلمہ کے شیرازے کو متحد کرنے اور دشمنانِ اسلام کے خطرناک چیلنجوں سے نبردآزما ہونے کی اشد ضرورت ہے‘‘۔(ترجمہ: ارشاد الرحمٰن)


نماز میں سنتوں کے لیے جگہ کی تبدیلی

سوال : نماز باجماعت میں اداے فرض کے بعد اداے سنت کے لیے جگہ کی تبدیلی پر ہمارے ہاں زور دیا جاتا ہے اور یہ چیز ایسی عادت بن گئی ہے کہ اگر اس پر عمل نہ کیا جائے تو اس کو بُرا سمجھاجاتاہے، گویا یہ بھی ایک ضروری چیزہے۔ اس کی دلیل یہ    دی جاتی ہے کہ ’’قیامت میں وہ جگہ گواہی دے گی جہاں سنتیں ادا کی گئی ہیں‘‘۔   سوال یہ ہے کہ اس پر اتنا زور دینا کیا مقام رکھتا ہے؟ نیز یہ کہ دلیل میں جو بات کہی جاتی ہے وہ حدیث میں ہے یا قرآن میں؟ یہ بھی فرمایئے کہ جگہ کی تبدیلی کے کیا معانی ہیں؟ کیا وہاں سے بالکل ہٹ جانا چاہیے جہاں فرض نماز ادا کی گئی ہے؟

جواب:فرض کے بعد مقتدیوں کے لیے جگہ بدل کر سنتیں ادا کرنا مستحسن ہے، ضروری نہیں، اور جگہ بدلنے کے معنی یہ ہیں کہ مقتدی اپنی جگہ سے ایک قدم آگے یا پیچھے، دائیں بائیں ہٹ جائے۔ اگر اس نے اتنا بھی کرلیا تو جگہ بدل گئی۔ البتہ اس کو ضروری قرار دینا غلط ہے۔ اصل مقصد یہ ہے کہ فرض کے لیے جو صف بندی کی گئی تھی وہ فرض ادا ہوجانے کے بعد توڑ دی جائے۔ اگر فرض کے بعد امام اور مقتدی ٹھیک اپنی اپنی جگہ پر سنتیں شروع کر دیں تو نئے آنے والے کو یہ دھوکا ہوسکتا ہے کہ ابھی جماعت کی نماز ہورہی ہے۔ اگر امام اپنی جگہ سے ہٹ گیا ہو یا دوچار مقتدی بھی صف سے اِدھر اُدھر ہوگئے ہوں اور صف ٹوٹ چکی ہو تو یہ مقصد حاصل ہوجاتا ہے۔ ہرمقتدی کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ لازماً وہ اپنی جگہ بدل ہی دے۔

دلیل میں جو بات کہی جاتی ہے وہ اس خاص مسئلے سے متعلق نہیں ہے، کیوں کہ زمین قیامت میں ہر اس عمل کی خبر دے گی جو اس پر کیا گیا ہوگا، چاہے وہ اچھا ہو یا بُرا۔ اگر ایک ہی جگہ فرض اور سنتیں دونوں ادا کی گئی ہوں، تب بھی وہ اس کی گواہی دے گی۔ زمین کی گواہی جگہ بدلنے پر منحصر نہیں ہے۔ زمین کے خبر دینے کا ذکر سورۃ الزلزال کی آیت یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَھَاo (جس دن زمین اپنی خبریں بیان کرے گی۔۹۹:۴) میں موجود ہے۔ اس آیت کی تشریح میں جو احادیث آتی ہیں، ان میں بھی اس کا ذکر ہے۔ (مولانا   سیّد احمد  عروج   قادری)


نماز میں گھڑی دیکھنا

سوال : نماز کے دوران غیرارادی یا ارادی طور پر گھڑی پروقت دیکھ لینا کیا فاسد ِ صلوٰۃ ہوگا؟

جواب: نماز دراصل اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی اور مخاطبت کا وقت ہے۔ اس وقت کسی اور طرف توجہ کرنا بالکل اسی طرح ہے کہ ایک شخص کو آپ اپنی طرف متوجہ کریں اور پھر آپ کسی اور کام میں مشغول اور اس کی طرف سے بے توجہ ہوجائیں۔ اسی لیے نماز جیسی عبادت کا صحیح تقاضا تو یہ ہے کہ اس وقت آدمی اپنے آپ کو کلیتاً اللہ تعالیٰ کی طرف یک سو کرلے اور قصداً وقت وغیرہ نہ دیکھے۔

تاہم، اگر کوئی شخص وقت دیکھ ہی لے اور سمجھ لے، البتہ زبان سے اس کا تلفظ ادا نہ کرے تو نماز فاسد نہ ہوگی۔ چنانچہ فتاویٰ عالم گیری میں ہے:

اگر کوئی شخص دورانِ نماز فقہ کی کسی کتاب میں سے کچھ حصہ دیکھ لے اور سمجھ لے تو بالاجماع نماز فاسد نہیں ہوگی۔ فتاویٰ تاتار خانیہ میں ایسا ہی لکھا ہے اور جب  محراب پر قرآن کے علاوہ کوئی دوسری چیزلکھی ہو، نمازی اسے دیکھے، اس پر غور کرے اور پھر سمجھ لے تو امام ابویوسفؒ کی راے ہے کہ نماز فاسد نہیں ہوگی اور مشائخ احناف نے اسی راے کو قبول کیا ہے۔(ج۱، ص ۵۳)اور اگر بلاارادہ نظر پڑ گئی تب تو ظاہر ہے کہ کوئی مضائقہ نہیں۔(مولانا خالد سیف اللہ رحمانی)


محراب میں تصاویر یا بزرگوں کے نام لکھنا

سوال : عموماً دیہات کی بعض مساجد کی محرابوں اور سامنے کی دیواروں پر بزرگوں کے نام یا فطرت کے آثار کی تصاویر بنائی دکھائی دیتی ہیں۔ اس ضمن میں ہدایت فرمائیں؟

جواب:محراب میں تصویروں کی نقاشی خواہ وہ کسی بھی ذی روح کی ہو سخت گناہ اور مکروہ ہے۔ ہدایہ میں ہے: ’’سب سے زیادہ کراہت اس تصویر میں ہے جو امام کے سامنے ہو، پھر   اس میں جو اس کے سر کے اُوپر ہو، پھر دائیں، پھر بائیں اور پھر پیچھے کی تصویر‘‘۔اور یہ کہ: ’’مکروہ ہے کہ اس کے سر کے اُوپر چھت میں یا کوئی لٹکی ہوئی تصویر ہو‘‘۔ (ہدایہ، ج۱،ص ۱۲۲)

اس لیے کہ اس میں شرک کا شبہہ پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے زمانے میں قبرپرستی اور اولیا پرستی کا مرض جس طرح عام ہے ، اس فضا میں نمازی کے سامنے دیواروں پر بزرگوں کے نام لکھنا اور  ان کے کتبے لگانا بھی کراہت سے خالی نہ ہوگا۔ غیرذی روح کی تصاویر کی بعض فقہا نے اجازت دی ہے۔ یہاں تک کہ علامہ شامیؒ نے سورج و چاند اور ستاروں کی تصویروں کا بنانا بھی جائز قرار دیا ہے (ردالمختار، ج۱،ص ۶۰۷)۔ مگر میرے خیال میں یہ راے محل نظر ہے۔ چاند، سورج اور ستاروں کی بعض مذاہب میں پرستش کی جاتی ہے اور ان کے عبادت خانوں میں ان کی تصویریں بنائی جاتی ہیں ۔ اس لیے ایسی اور اس قسم کی تمام ہی تصویروں سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ علامہ ابن نجیم مصری نے مطلقاً تصویروں کی نقاشی کو مکروہ قرار دیاہے۔ (البحرالرائق،ج ۵،ص ۲۵۱)۔(مولانا خالد سیف اللہ رحمانی)


قرض پر رقم سے نفع حاصل کرنا حرام

سوال : ہمارے قصبے میں ایک عیدگاہ ہے، وہ مسجد نما ہے۔ اس کے چاروں طرف عیدگاہ کی زمین ہے۔ ایک طرف کی زمین لب ِسڑک ہے۔ متولیان عیدگاہ اس میں دکانیں بنوانا چاہتے ہیں مگر عیدگاہ فنڈ میں مالی وسائل نہیں ہیں اور عیدگاہ کی مرمت اور دیگر ضروریات کے پیش نظر دکانیں بنوانا ضروری ہے۔ اس کے لیے ایک صاحب ِ ثروت مسلمان سے اس شرط پر معاملہ طے کرنا چاہتے ہیں کہ وہ دکانیں اپنے روپے سے بنوا دیں اور پہلے ہی ان سے دکانوں کا کرایہ طے ہوجائے۔ پھر جب دکانیں بن جائیں تو وہ ان دکانوں کو من مانے کرایے پر اُٹھائیں اور جب تعمیرات میں ان کی لگی ہوئی رقم وصول ہوجائے تو دکانیں عیدگاہ کی ملکیت ہوجائیں۔ ظاہر ہے کہ مثال کے طور پر اس وقت اگر ان سے ۱۰روپے یا ۱۵روپے ماہانہ کرایہ طے ہوتا ہے تو وہ ۲۰ یا ۲۵ یا زائد میں اُٹھائیں گے، جس سے حاصل کردہ زائد کرایہ ان کا نفع ہوگا جس کی خاطر وہ رقم دینے کے لیے تیار ہوں گے۔ اس صورت میں شرعی مسئلہ کیا ہے؟یہ جائز معاملہ ہوگا یا ناجائز؟

جواب: ذیل کی چند اصولی باتیں سامنے رکھیے تو اس معاملے کا شرعی حکم معلوم کرنا آسان ہوجائے گا:

۱- معدوم، یعنی جو چیز موجود نہ ہو اس کی بیع ناجائز ہے اور جس طرح بیع ناجائز ہے اسی طرح اس کا اجارہ بھی ناجائز ہے۔

۲- قرض اور بیع یا قرض اور اجارے کو ملا کر معاملہ کرنا جائز نہیں ہے۔

۳- قرض دے کر اس سے کوئی نفع حاصل کرنا حرام ہے۔

ان اصولوں کو سامنے رکھ کر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ آپ نے جس معاملے کے بارے میں سوال کیا ہے وہ ان تینوں اصولوں کے خلاف ہے۔ جو دکانیں ابھی موجود نہیں ہیں، ان کو کرایے پر دینے کا معاملہ ایک ایسی شے کا معاملہ ہوگا، جو معدوم ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ وہ متمول مسلمان جو رقم لگائیں گے، اس کی حیثیت قرض ہی کی ہوگی۔ لہٰذا، یہ معاملہ دوسرے اصول کے بھی خلاف ہوگا، قرض کے معاملے میں اجارہ بھی داخل ہوگا جو غلط ہے۔ اور جیساکہ آپ نے لکھا ہے کہ وہ صاحب ِ ثروت مسلمان اس معاملے پر اس لیے تیار ہوں گے کہ متولیوں کو کرایہ کم دیں اور من مانے کرایے پر ان دکانوں کا دوسروں سے معاملہ کر کے اپنی قرض دی ہوئی رقم پر نفع حاصل کریں، لہٰذا یہ معاملہ تیسرے اصول کی رُو سے بھی حرام ہوگا۔ (مولانا  سیّد احمد  عروج   قادری)


غیرمسلموں کے برتن

سوال :  معاشرتی زندگی میں [خصوصاً غیرمسلم ممالک میں] اکثر اوقات غیرمسلموں سے سابقہ پیش آتا ہے اور بہت سے مواقع پر باہم کھانے پینے کی نوبت آتی ہے۔ اس ضمن میں اُن کے برتنوں کے استعمال کے بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب:برتن کی پاکی اور ناپاکی کے سلسلے میں اصولی طور پر تین باتیں پیش نظر رکھنی چاہییں:

۱- برتن دو وجوہ سے ناپاک ہوتا ہے ۔ یا تو اس لیے کہ اس کو استعمال کرنے والا وہ ہے جس کا جھوٹا ناپاک ہو، مثلاً: کتّا، سؤر وغیرہ،یا اس لیے کہ: اس میں جو چیز رکھی جائے وہ خود ناپاک ہو، مثلاً برتن میں خون یا شراب رکھ دی جائے۔

جہاں تک غیرمسلموں کی بات ہے تو ان کے جھوٹے ناپاک نہیں ہوتے۔ تمام انسانوں کے جھوٹے پاک ہیں اور اس میں مسلم اور کافر کا کوئی فرق نہیں ہے (الدر المختار علی ردّ المختار، ج۱،ص ۲۱۵)۔ اس لیے ظاہر ہے کہ ان کے برتن اس وجہ سے تو ناپاک نہیں ہوسکتے۔

جہاں تک ناپاکی کی دوسری وجہ ہے تو چونکہ مشرکین کے ذبیحے اور اہلِ کتاب کے وہ ذبیحے جن پر حضرت مسیح علیہ السلام کا نا م لیا جائے حرام اور نجس ہیں۔ اس لیے اس کا امکان موجود ہے کہ شاید برتن ان کے لیے استعمال کیے گئے ہوں۔ اسی طرح بعض قوموں میں کتّے، سؤر وغیرہ بھی کھائے جاتے ہیں، ان کے برتنوں کے بارے میں بھی اس شبہے کی گنجایش ہے۔

۲-  عام حالات میں ان ناپاکیوں سے پاکی کے لیے صرف اس قدر کافی ہے کہ ان کو دھو لیا جائے، اور عادتاً ہر قوم میں کھانے کے بعد برتن دھو بھی لیے جاتے ہیں۔ ان برتنوں کے دھونے میں پاکی کی نیت اور ارادہ بھی ضروری نہیں، فقط دھو لینا ہی کافی ہے، چاہے مسلم دھوئے یا غیرمسلم۔

 ۳- ناپاکی کا فیصلہ محض شبہہ کی بنا پر نہیں کیا جاسکتا، تاآنکہ اس کے لیے کافی قوی وجہ نہ ہو اور نہ شریعت ان احکام میں ضرورت سے زیادہ کھوج کرید اور تجسس کو پسند کرتی ہے۔

حضرت عمر فاروقؓ کے ساتھ سفر میں ایک صاحب نے مقامی باشندے سے پانی کے ایک گڑھے کے بارے میں سوال کیا کہ: ’’اس سے درندے تو نہیں پیتے ہیں؟‘‘ حضرت عمرؓ نے اس کا جواب دینے سے منع فرما دیا۔ (موطا امام  مالک)


لہٰذا، جب تک قرائن کی روشنی میں برتن کے ناپاکی کے لیے استعمال کیے جانے کا غالب گمان نہ ہو اور برتن دُھلا ہوا بھی نہ ہو، اس بات کا گمان غالب ہو کہ اس کے لیے ناپاک پانی استعمال کیا گیا ہوگا، اس وقت تک اس کو ناپاک شمار نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت عمرؓ نے اپنے عہد خلافت میں اہلِ ذمّہ پر یہ شرط بھی عائد کی تھی کہ وہ ا ن کی طرف جانے والے مسلمان قافلوں کی ضیافت کریں (موطا امام  مالک)۔ظاہر ہے کہ اس ضیافت کے لیے انھی کے برتن استعمال کیے جاتے تھے۔البتہ، جس جگہ ناپاکی کا احتمال زیادہ ہو، جیسے یورپ وغیرہ میں، جہاں کہ سؤر کی چربی کا مختلف قسم کی غذائوں میں بہ کثرت استعمال ہوا کرتا ہے، وہاں احتیاطاًان کے برتنوں سے بچنا چاہیے۔ (مولانا خالد  سیف اللہ  رحمانی)

 

حدائق الریحان، حسان بن ثابت، منظوم ترجمانی: پروفیسر رئیس احمد نعمانی۔ ناشر: گوشہ مطالعات فارسی، پوسٹ بکس ۱۱۴، علی گڑھ- ۲۰۲۰۰۱، بھارت۔ صفحات: ۶۲۔قیمت: درج نہیں۔

زمانۂ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں جن شعرا کو نعت ِ رسولؐ لکھنے کی سعادت نصیب ہوئی، ان میں نمایاں ترین نام حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا ہے۔

ڈاکٹر رئیس احمد نعمانی، مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کے بلندپایہ اساتذہ میں سے ہیں۔ جو نہ صرف عربی اور فارسی ادبیات کے عالم اور محقق ہیں، بلکہ قادرالکلام شاعر بھی ہیں۔ انھوں نے حضرت حسانؓ کے قصائد سے سیرتِ پاکؐ پر اشعار کا انتخاب کرکے، انھیں اُردو اشعار میں ڈھالتے ہوئے ترجمے کے ساتھ عربی متن بھی پیش کیا ہے۔

یہ مختصر، مگر اپنی قدر کے اعتبار سے بڑے بڑے دیوانوں پر بھاری کتاب،حُسنِ خیال اور حُسنِ بیان کا مرقع ہے کہ رسولؐ اللہ سے محبت و شیفتگی جس کے حرف حرف پھوٹتی ہے۔

جنابِ نعمانی اس عشق و سعادت کی راہ پر چلتے ہوئے، ۱۹۹۹ء میں حضرت کعب بن زہیرؓ کے مشہور قصیدے بانت سعاد اور ۲۰۰۲ء میں محمد بوصیری کے قصیدۂ بردہ کا مکمل اور منظوم ترجمہ بھی کرچکے ہیں۔ (سلیم    منصور  خالد)


مصادرِ سیرتِ نبویؐ، ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی۔ ناشر: دارالنوادر، الحمدمارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۷۰۳۱۸-۰۴۲۔ صفحات: حصہ اوّل: ۶۴۰، حصہ دوم: ۶۶۶۔ قیمت سیٹ: ۲۰۰۰ روپے۔

سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا بنیادی مآخذ قرآن کریم ہے، پھر ازواجِ مطہراتؓ اور  صحابۂ کرامؓ۔ ازاں بعد محدثین اور سیرت نگاروں نے اس مقدس کام کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دیں۔

ڈاکٹر محمد یاسین مظہرصدیقی نے گذشتہ ۴۰برس سے سیرت نگاری کو اپنا میدانِ تحقیق بناکر، اُردو میں بہت سا ذخیرہ منتقل کیا ہے۔ اس دوران وہ جن مآخذ سے استفادہ کرتے رہے ، ان میں سے اکثر مصنفین کے احوال و آثار اور خصوصاً سیرت نگاری کے حوالے سے ان کے علمی ورثے پر بطور تعارف مظہرصاحب نے ایک منصوبے کے تحت مضامین لکھے۔ یہ کتاب انھی مفصل اور مختصر مضامین پر مشتمل ہے۔ انھوں نے بجاطور پر لکھا ہے: ’’سیرت نگاری کا ابتدائی رجحان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام و فرامین اور تشریعی نوعیت کے واقعات و کوائف جمع کرنے کے اوّلین کارنامے کی شکل میں اُبھرا، جو حدیث و سنت کا ذخیرہ کہلایا۔ یہی وجہ ہے کہ تمام ابتدائی مؤلفینِ سیرتؐ اپنی اپنی جگہ ماہرین فنِ حدیث اور محققینِ کتاب و سنت تھے‘‘۔ (ص ۵۱)

انھوں نے قارئین کو امام عروہ بن زبیر (۲۲-۹۴ہجری) سے لے کر مولانا محمد ادریس کاندھلوی (۱۳۱۷-۱۳۹۴ہجری) تک (۲۵+۲۴) ۴۹ اہلِ علم و فن سے روشناس کرانے کی سبیل پیدا کی ہے۔ ان مضامین میں مؤلف نے محض حالات ہی نہیں لکھے، بلکہ جہاں ضروری تھا اختصار کے ساتھ تنقیدو تبصرہ بھی کیا ہے ، تاکہ قاری دوسرے پہلو سے بھی واقف ہوسکے۔

مثال کے طور پر ابنِ اسحاق کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’[انھیں] روایات کثرت سے  جمع کرنے کا شوق تھا…روایت و درایت دونوں لحاظ سے ابن اسحاق کی متعدد مرویات مشتبہ بھی ہیں اور بعض اوقات قابلِ ذکر رد بھی‘‘ (ص ۸۰، ۸۱، اوّل)۔ اسی طرح علّامہ واقدی کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’سیرت و تاریخ میں واقدی کی مہارت ہی نہیں بلکہ امامت مسلّم ہے‘‘ (ص ۱۴۹)، مگر اسی صفحے پر امام بخاری کا یہ قول بھی درج کرتے ہیں: ’’وہ [واقدی] متروک الحدیث تھے۔ ان کو امام احمد بن حنبل نے ترک کر دیا تھا۔ معاویہ بن صالح کا بیان ہے کہ واقدی کذّاب ہیں‘‘ (۱۴۹-۱۵۰)۔ پھر دونوں نقطہ ہاے نظر کاتجزیہ کرنے کے دورا ن بتاتے ہیں کہ دراصل: ’’واقدی کو غیرثقہ، ضعیف اور ناقابلِ اعتماد قرار دینے والے علما و محققین نے ناقدین کے عمومی بیانات پر زیادہ تکیہ کیا ہے۔ ابھی تک واقدی کی روایات و احادیث کا کوئی تجزیاتی مطالعہ نہیں کیا گیا ‘‘ (ص۱۵۰، ۱۵۱)۔ زیرنظر کتاب میں شامل ان مضامین میں ڈاکٹر صدیقی نے شخصیات پر بھی بحث کی ہے۔

جلداوّل کے شروع میں سیرتِ نبویؐ پر تحقیق و تحریر کے آغاز اور ارتقا پر مقدمہ تحریر کیا ہے۔ یہ مجموعہ سیرت نگاری کی روایت کے بارے میں قیمتی معلومات فراہم کرتا ہے اور قارئین کی معلومات میں اضافے کا ذریعہ بنتا ہے۔ (س     م       خ )


جناب غلام احمد پرویز کی فکر کا علمی جائزہ، مرتب: شکیل عثمانی۔ ناشر: نشریات، الحمدمارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۲۰۳۱۸-۰۴۲۔ صفحات: ۱۷۶۔قیمت: ۲۲۰ روپے۔

۲۰ویں صدی میں سنت اور حدیث کے منکرین میں ایک نام غلام احمد پرویز صاحب کا بھی تھا، جنھیں قیامِ پاکستان کے بعد بالخصوص حاکم طبقوں کی سرپرستی بھی حاصل رہی۔ وہ دین کے مآخذ قرآن (حدیث، سنت اور پھر فقہ) پر تیشہ زنی کرتے ہوئے دین بے زار قوتوں کے ہاتھ مضبوط کرنے اور نئی نسل کے اذہان میں شک اور تذبذب کی فصل بونے میں حصہ لیتے رہے۔

اس طرزِ فکر پر معاصر علما اور دانش وروں نے، بڑی مسکت اور مدلل گرفت کی۔ اس نوعیت کی منتخب تحریروں کا ایک مجموعہ شکیل عثمانی نے زیرنظر کتاب کی صورت میں مرتب کیا ہے۔ اگرچہ  اس میں حوالہ تو جناب پرویز کا ہے، مگر میڈیا کی لہروں کے سہارے یہ فکر آج بھی بہ ااندازِ دگر:  تجدد اور روشن خیالی زہرناکی پھیلا رہی ہے۔ ان حوالوں سے پرویز صاحب کو محض تاریخ کا موڑ  سمجھ کر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، بلکہ معاصر جدیدیت اور ’اسلام کی جدید کاری‘ کے شائقین کی حرکتوں کا مفہوم بھی اس آئینے میں پڑھا دیکھا جاسکتا ہے۔

 شکیل عثمانی نے اس مؤثر انتخاب کے لیے جن اہل فکرودانش سے تحریریں مستعار لی ہیں، ان میں شامل ہیں: سیّدابوالاعلیٰ مودودی، امین احسن اصلاحی، قمرعثمانی، ماہرالقادری، پروفیسر خورشیداحمد، ڈاکٹر محمد دین قاسمی، خورشید ندیم، وارث میر۔  (س     م       خ )


اسلامی معاشرے کی تعمیر میں خواتین کا حصہ، مولانا محمد یوسف اصلاحی۔ ناشر: البدر پبلی کیشنز، ۲۳- راحت مارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۲۵۰۳۰-۰۴۲۔ صفحات: ۲۴۰۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

مولانا محمد یوسف اصلاحی نے زیرتبصرہ کتاب میں اسلامی معاشرتی زندگی کی اہمیت، اسلامی تہذیب و تمدن کی بنیادوں کا ذکر کیا ہے، جن سے اخلاصِ عمل، فکرِ آخرت اور اسلامی معاشرت اور اجتماعی زندگی پروان چڑھتی ہے۔ اسی طرح قرآن و حدیث کی تعلیمات کے ساتھ ساتھ اسلامی تاریخ سے صحابہ و تابعین اور دیگر مستند واقعات پیش کیے ہیں، جو اصلاح و تربیت کے لیے عملی نمونے کی حیثیت رکھتے ہیں۔معاشرے کی تعمیر میں خواتین کے کردار کو نمایاں کرتے ہوئے پُرمسرت، خوش گوار اور پُرسکون گھریلو زندگی کے لیے رہنمائی دی گئی ہے۔ میاں بیوی کے حقوق و فرائض، عورت کے اصل میدانِ عمل اور دیگر معاشرتی مسائل اور فقہی احکامات سے آگہی دی گئی ہے۔ (امجد عباسی)


تعارف کتب

Oتدریب المعلّمین، سیّد ندیم فرحت، سیّد متقین الرحمٰن۔ ناشر: انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد۔ صفحات: ۳۰۸۔ قیمت: ۵۰۰ روپے۔[یہ کتاب بنیادی طور پر دینی مدارس کے اساتذہ کی رہنمائی کے لیے مرتب کی گئی ہے، جس میں: پروفیسر خورشیداحمد، مولانامحمد رفیق شنواری، مولانا معین الدین قریشی، ڈاکٹر محمد سلیم، مولانا عبدالقدوس محمدی اور سیّد ندیم فرحت کی جانب سے رہنما خطوط پر مشتمل تحریریں ہیں۔ ان تحریروں میں قرآن، حدیث، فقہ اور علمِ کلام کی تدریس کے ساتھ ہم نصابی سرگرمیاں اور عمومی خطبات سے متعلق عملی اُمور بیان کیے گئے ہیں۔]

O سعودی عرب، کل اور آج  ، رضی الدین سیّد۔ ناشر: راحیل پبل کیشنز، کراچی۔ فون: ۲۵۲۴۵۶۱-۰۳۲۱۔ صفحات:۲۲۴۔ قیمت: ۳۳۰ روپے۔ [سعودی عرب کی مختصر تاریخ بیان کی ہے، پھر زائرین عمرہ و حج کے لیے چھوٹے چھوٹے مضامین، جن کی حیثیت مفید ہدایت ناموں کی ہے۔ زائرین پڑھ لیں تو سفر آسان تر ہوگا۔  آخر میں پاکستانی بھائیوں سے گزارش کی گئی ہے کہ اپنے خوابوں اور آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سرزمین کو ایک بار دیکھنے کا جتن وہ ضرور کریں، کیوں کہ جس نے خانہ کعبہ اور روضۂ مبارک نہیں دیکھا، اس نے دنیا میں کچھ بھی نہیں دیکھا۔]

O ارقم ، شمارہ۵،۲۰۱۶ء، مدیر: ڈاکٹر ظفر حسین ظفر۔ ناشر: بزمِ ارقم۔ نزد نادرا آفس، راولاکوٹ، آزاد کشمیر۔ صفحات: ۳۸۴۔ قیمت: ۸۰۰ روپے۔ [اس مجلّے کے پہلے چار شمارے مقامی کالج سے شائع ہوتے رہے، جب کہ یہ شمارہ نجی انتظام میں شائع کیا گیا ہے۔ اس میں مختلف ادبی و تحقیقی تحریروں کے ساتھ سیرتِ پاکؐ پر مولانا مودودی کا ایک مضمون (ص ۱۲-۲۰، اور یہ مضمون موجودہ اشاعت میں شامل ہے) اور کنور اعظم علی خاں خسروی کی  آپ بیتی (ص ۲۶۸-۳۲۲) بھی شائع کی گئی ہے۔ مشاہیر، کشمیریات، سفرنامہ، تحقیق، تبصرۂ کتب کے تحت مختلف حصوں میں دل چسپ تحریروں کو پیش کیا گیا ہے۔ ]

خورشید عالم ،سالار زی، بونیر

میں ۱۹۹۱ء سے ترجمان القرآن کا قاری ہوں اور ان شاء اللہ یہ رشتہ قائم و دائم رکھوں گا۔        ماہِ نومبر۲۰۱۶ء کے شمارے کے مضامین عام فہم، سبق آموز، دل چسپ اور انقلاب پرور ہیں۔ اگر ان پر کماحقہ عمل کیا جائے، خصوصاً: ’منظم زندگی اور چند عادات‘(محمدبشیرجمعہ)، ’رزقِ حلال اور ہماری زندگی‘ (شیریں زادہ خدوخیل)، نیز پروفیسر خورشیداحمد صاحب کے شذرات’سرکاری ہسپتالوں کی حالت ِ زار‘ اور ڈاکٹر حمیداللہ کے ’سرکاری مناصب اور ذرائع کا استعمال‘۔


محمد    سلیمان طاہر ،لاہور

سیّدمودودیؒ نے ’ریاکاری کا علاج‘ (نومبر ۲۰۱۶ء) میں توجہ دلائی ہے: ’’جماعت اپنے دائرے میں ریاکارانہ رجحانات کو کبھی نہ پنپنے دے، اپنے کاموں میں اعلان و اظہار کو بس حقیقی ضرورت تک محدود رکھے‘‘۔


راجا محمد عاصم  ،موہری شریف، کھاریاں

’عراق میں حالیہ جنگ اور مشرقِ وسطیٰ‘ (نومبر ۲۰۱۶ء) میں مسلم دنیا پر مسلط کردہ جنگ کی مدلل انداز میں نشان دہی کی گئی ہے۔ ڈاکٹر طاہرمسعود نے روزمرہ زندگی کے معاشرتی رویوں پر مؤثر توجہ دلائی ہے۔


ڈاکٹر فضل عظیم ، نورورسک ،بونیر

’اظہار راے کی آزادی‘ (اکتوبر ۲۰۱۶ء) ڈاکٹر طٰہٰ جابر العلوانی کی تحریر آنکھیں کھول دینے والی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اُمت مسلمہ کے انحراف کے اسباب کا تذکرہ کرتے ہوئے بجاطور پر توجہ دلائی ہے کہ علما کی  بے بسی اور عوام کی غفلت حکمرانوں کو سرکش بنا دیتی ہے۔ علما اگر دین کے احکام کے ساتھ آزادیِ اظہار راے کی شرعی اہمیت و روایت سے بھی آگاہ کرتے، تو حکمرانوں کو سرکشی کا موقع نہ ملتا اور اُمت میں بگاڑ نہ پیدا ہوتا۔


تشکر خان ، جہلم

ترجمان  احوالِ عالم سے آگہی اور اسلامی فکر اورشعور کو عام کرنے کا مفید ذریعہ ہے، نیز تزکیہ و تربیت کا سامان کرتا ہے۔ اس مجلے کو عام کرنا چاہیے تاکہ اسلام کا شعور پھیلے۔

۶۰ سال پہلے

.....خودی کو ٹھیس لگتی ہے!

اصلاح و تعمیر کی سعی کرنے والوں کو جن بڑی بڑی بُرائیوں سے بچنے کی فکر کرنی چاہیے، ان میں [شامل ہیں] کبر، ریا اور فسادِ نیت۔ اسلامی عقیدہ و اخلاق کے نقطۂ نظر سے ان کی حیثیت بنیادی عیوب کی ہے.... اس لیے اِن کا کوئی شائبہ تک اُن لوگوں میں نہ پایا جانا چاہیے جو مسلم معاشرے کی اصلاح اور اسلامی نظامِ زندگی کی تعمیر کا نیک ارادہ لے کر اُٹھیں۔

دوسرا درجہ اُن بُرائیوں کا ہے جو اساس و بنیاد کو تو نہیں ڈھاتیں مگر اپنی تاثیر کے لحاظ سے کام بگاڑنے والی ہیں، اور اگر تساہل و تغافل برت کر اُن کو پرورش پانے دیا جائے تو تباہ کُن ثابت ہوتی ہیں۔ اگرچہ معاشرے کی صحت کے لیے ہرحال میں اِن عیوب کا سدِباب ضروری ہے لیکن ان افراد اور جماعتوں کو توان سے بالکل پاک رہنا چاہیے جن کے پیش نظر اصلاحِ معاشرہ اور اقامت ِ دین حق کا مقصد عظیم ہو....

انسان کی کمزوریوں میں سب سے بڑی اور سخت فساد انگیز کمزوری ’نفسانیت‘ہے۔ اس کی اصل تو حُب ِ نفس کا وہ فطری جذبہ ہے جو بجاے خود کوئی بُری چیز نہیں بلکہ اپنی حد کے اندر ضروری بھی ہے اور مفید بھی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ جذبہ انسان کی فطرت میں اس کی بھلائی کے لیے ودیعت فرمایا ہے تاکہ وہ اپنی حفاظت اور اپنی فلاح و ترقی کے لیے کوشش کرے۔ لیکن جب یہی جذبہ شیطان کی اُکساہٹ سے عشقِ نفس اور پرستشِ نفس اور خود مرکزیت میں تبدیل ہوجاتا ہے تو مصدرِ خیر ہونے کے بجاے منبع شر بن جاتا ہے۔

بُرائی کی طرف اس جذبے کی پیش قدمی کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ آدمی اپنی جگہ اپنے آپ کو بے عیب اور مجموعۂ محاسن سمجھ بیٹھتا ہے، اپنی خامیوں اور کمزوریوں کا احساس کرنے سے اغماض برتتا ہے اور اپنے ہر نقص یا قصور کی تاویل کر کے اپنے دل کو مطمئن کرلیتا ہے کہ مَیں ہرلحاظ سے بہت اچھا ہوں۔ یہ خود پسندی پہلے ہی قدم پر اُس کی اصلاح و ترقی کا دروازہ اُس کے اپنے ہاتھوں سے بند کرا دیتی ہے۔

پھر جب یہ ’من چہ خوب‘ کا احساس لیے ہوئے آدمی اجتماعی زندگی میں آتا ہے، تو اُس کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ جو کچھ اُس نے اپنے آپ کو فرض کر رکھا ہے، وہی کچھ دوسرے بھی اُسے سمجھیں۔ وہ صرف تعریف و تحسین سننا چاہتا ہے۔ تنقید اُسے گوارا نہیں ہوتی۔ خیرخواہانہ نصیحت تک سے اس کی خودی کو ٹھیس لگتی ہے۔ اس طرح یہ شخص اپنے لیے داخلی وسائلِ اصلاح کے ساتھ خارجی وسائلِ اصلاح کا بھی سدِّباب کرلیتا ہے۔(’اشارات‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، دسمبر ۱۹۵۶ء، ص۲۱۸-۲۱۹)