برطانیہ کے ہفت روزہ اکانومسٹ نے کچھ عرصہ پہلے لکھا تھاکہ پاکستان ایک ایسا غریب ملک ہے جس میں امیروں کی ریل پیل ہے۔ فوجی حکومت کے چھے سالہ دورحکومت میں‘ اور خصوصیت سے گذشتہ دو سالوں میں‘ جہاں ملک میں غربت‘ بے روزگاری‘ افراط زر‘ بجٹ کے خسارے اور ملک کے تجارتی خسارے میں اضافہ ہوا ہے‘ وہیں امیروں کی تعداد میں بھی معتدبہ اضافہ واقع ہوا ہے۔ زمین کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے‘ اسٹاک ایکسچینج کے غبارے میں سٹہ کاری کے ذریعے ہوا بھرنے اور زندگی کے ہر شعبے میں کرپشن اور بدعنوانی کے فروغ کے نتیجے میں ایک مخصوص طبقہ امیر سے امیر تر ہو رہا ہے اور عام آدمی غریب سے غریب تر۔ اس کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ حکومت کی معاشی پالیسیاں دراصل گلوبلائزیشن اور عالمی مالیاتی اداروں کے زیراثر آزاد تجارت‘ نج کاری‘ سرمایہ پرستی‘ ڈی ریگولیشن اور کارپوریٹ کلچر کے نام پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ملک کی معیشت پر بے روک ٹوک چھا جانے کا موقع دینے سے عبارت ہیں۔
اس صورت حال کے نتیجے میں دولت کا ارتکاز خطرناک صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ملک میں ایک ایسی اشرافی معیشت (elitist economy) پروان چڑھ رہی ہے کہ بیرونی اور ملکی سرمایہ دار معیشت کے پورے دروبست پر قابض ہوتے جائیں اور عام انسان ایک نئی معاشی غلامی کے شکنجے میں کستے چلے جائیں۔ تازہ بجٹ (۲۰۰۶ئ-۲۰۰۵ئ) معیشت کے اس رخ کا پوری طرح عکاس ہے اور اگر اسے اسلام آباد کے ایئرکنڈیشنڈ ایوانوں میںتیار کردہ امیروں کا ایک ایسا بجٹ کہا جائے جو امیروں کو امیر تر بنانے کے لیے ہے تو بے جا نہ ہوگا یعنی:
a budget of the rich, by the rich and for the rich.
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملک کے عوام‘ پارلیمنٹ اور معیشت کے تمام کارفرما عناصر (stake holders) کا اس کے بنانے میں کوئی دخل نہیں۔ اقتدار پر بیورو کریسی‘ فوجی قیادت اور مفاد پرست عناصر کا قبضہ ہے اور پالیسی سازی پر ان کی گرفت مکمل ہے۔ عوامی واویلا ان کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ اہلِ علم غیرمتعلق ہیں اورخود پارلیمنٹ میں اٹھنے والی آوازیں خواہ ان کا تعلق حزب اختلاف سے ہو یا سرکاری حلقوں سے‘ کوئی اہمیت نہیں رکھتیں ___یہ بڑی دردناک صورت حال ہے اور اگر اس کی اصلاح کی فوری کوشش نہیں کی گئی تو ایک طرف معیشت تباہی کی طرف بڑھے گی تو دوسری طرف ملک کے عوام اور ان کے نمایندوں کا احساسِ بے بسی قوم کو تصادم اور انقلاب کی راہ پر ڈال سکتا ہے جس کے نتائج ضروری نہیں کہ خیر کی طرف ہوں۔
پاکستان کا المیہ ہی یہ ہے کہ پالیسی سازی پر عوام اور ان کے نمایندوں کی گرفت نہیں۔ ایک بااثر ٹولہ ہے جو ملک کو جدھر چاہتا ہے لیے جا رہا ہے۔ ۵۸ سال کے اس عرصے میں بیوروکریسی نے ۳۲ بجٹ بنائے اور فوجی قیادت کے بلاواسطہ انتظام و انصرام میں ۲۶ بجٹ بنائے گئے۔ ان میں سے کچھ کا تو صرف ریڈیوا ور ٹی وی پر اعلان ہوا اور جو کسی پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے تو صرف انگوٹھا لگوانے کے لیے۔ اس ۵۸ سالہ تاریخ میں صرف ایک بجٹ ایسا تھا جسے پارلیمنٹ نے پیش کیے جانے کے بعد رد کر دیا اور اسے دوبارہ مرتب کر کے اسمبلی میں پیش کیا گیا (یعنی جونیجو دور میں یٰسین وٹو کا بجٹ)۔ لیکن اس بجٹ کے پیش کیے جانے کے بعد مقتدر اور بااثر حلقے متحرک ہوگئے اور سال کے ختم ہونے سے پہلے اس حکومت ہی کا نہیں‘ اس اسمبلی کا بھی بوریا بستر لپیٹ دیا گیا۔
ہم بجٹ پر گفتگو کرنے سے پہلے تین بہت بنیادی امور کا تذکرہ کرنا چاہتے ہیں جن کا تعلق ان اداراتی اصلاحات سے ہے جن کے بغیر ہماری نگاہ میں بجٹ سازی اور پالیسی سازی اس یرغمالی نظام (hostage keeping) سے نکل نہیں سکتی جس کی گرفت میں وہ نصف صدی سے ہے۔
ہمارے ملک میں بجٹ سازی آج بھی انھی خطوط اور تحدیدات (limitations) کے شکنجے میں ہوتی ہے جو برطانوی سامراجی دور کا طرہ امتیاز تھا اور جسے ۱۹۳۵ء کے قانون کی شکل میں ملک پر مسلط کیا گیا تھا۔ بدقسمتی سے ہمارے دستور بنانے والوں نے اس شکنجے کو توڑنے اور مالیاتی امور میں پارلیمنٹ اور عوام کی حاکمیت کو دستور میں منوانے کی کوئی کوشش نہیں کی حالانکہ آزادی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا تقاضا تھا کہ ٹیکس لگانے اور تمام مصارف کی اجازت اور نگرانی کا مکمل اختیار پارلیمنٹ کو ہو۔ برطانوی استعمار کی روایت کو باقی رکھتے ہوئے اخراجات کا ایک حصہ جسے charged اخراجات کہا جاتا ہے وہ انتظامیہ کا طے کردہ ہوتا ہے جسے پارلیمنٹ میں پیش تو کیا جاتا ہے مگر اسے اس میں نہ صرف یہ کہ کمی و بیشی کا اختیار نہیں وہ اس پر ووٹ دینے کی بھی مجاز نہیں۔ اسے من و عن قبول کرنا ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ کوئی معمولی رقم نہیں۔ موجودہ بجٹ کے جاری اخراجات (Revenue Expenditure) کے تقریباً ایک تہائی‘ یعنی ۰۹۵.۹۶۱ بلین کے اخراجات میں سے ۸۴۵.۳۱۳ بلین روپے charged ہیں اور ترقیاتی اخراجات (Capital Expenditure) کا تقریباً ۹۶ فی صد‘ یعنی ۳۱۷.۲۲۷۱بلین میں سے ۲۱۲.۲۱۸۷ بلین charged ہے اور اس طرح Federal Consolidated Fund سے کل خرچ (authorized disbursement)‘ یعنی ۴۱۲.۳۲۳۲ بلین کا ۷۸ فی صد‘ یعنی ۰۵۷.۲۵۰۱ بلین روپے charged ہیں اور صرف ۳۵۵.۷۳۱ بلین روپے other than chargedہیں۔ (ملاحظہ ہو‘ Annual Budget Statement 2005-2006‘ ص ۱۹۰)
سرکاری خزانے کے مصارف کی اتنی بڑی رقم کے لیے پارلیمنٹ کے ووٹ کی بھی ضرورت نہیں ؎
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
جو چاہے سو آپ کرے ہے‘ ہم کو عبث بدنام کیا
دوسرا مسئلہ فوج کے بجٹ کا ہے۔ خواہ معاملہ جاری مصارف کا ہو یا ترقیاتی مصارف کا‘ بجٹ میں صرف ایک جملے میں مطالبہ زر آتا ہے اور پارلیمنٹ کو نہ اس کی تفصیلات فراہم کی جاتی ہیں اور نہ ان مصارف پر پارلیمنٹ کوئی احتساب کر سکتی ہے۔ یہ بھی اطلاع نہیں دی جاتی کہ اس میں سے کتنی رقم فوج کی تین بڑی مدات بری‘ فضائی اور بحری فوج پر خرچ کی جارہی ہے اور دفاع کی عمومی حکمت عملی اور فوجی اخراجات میں کیا مناسبت ہے۔
فوج کا بجٹ پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کی دسترس سے بھی باہر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فوج کا اپنا نظامِ احتساب ہے لیکن یہ سب پارلیمنٹ کی دسترس سے باہر ہے حالانکہ دنیا کے تمام جمہوری ممالک میں فوج کا مکمل بجٹ پارلیمنٹ اور اس کی کمیٹیوں کے سامنے آتا ہے اور چند حساس دائروں کو چھوڑ کر ہر خرچ پارلیمنٹ کی منظوری سے انجام پاتا ہے۔
ہمارے فوجی بجٹ کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ ڈیفنس سروس کے عنوان سے ایک بڑی رقم لی جاتی ہے جو آیندہ سال کے لیے ۵۰۱.۲۲۳ بلین روپے ہے۔ یہ رقم ۲۰۰۱ئ-۲۰۰۰ء کے بجٹ میں ۳۰۱.۱۳۳ بلین روپے تھی اور ۲۰۰۵ئ-۲۰۰۴ء کے بجٹ میں اسے بڑھا کر ۹۲۶.۱۹۳ بلین کیا گیا تھا اور اضافے کی بڑی وجہ بھارت سے ایک سال کے فوجی تصادم کی وجہ سے فوجی نقل و حرکت کو قرار دیا تھا۔ مگر فوجوں کی محاذ سے واپسی کے باوجود عملاً فوج کا خرچ مزید بڑھ گیا ہے۔ نظرثانی شدہ تخمینے میں اسے بڑھا کر ۲۵۸.۲۱۶ بلین کر دیا گیا ہے جو اب مزید بڑھا کر ۵۰۱.۲۲۳ بلین تجویز کیا گیا ہے۔ نیز فوجی عملے کو دی جانے والی پنشن جو تین سال پہلے تک فوجی بجٹ کا حصہ ہوتی تھی اسے سویلین بجٹ کی طرف منتقل کر دیا گیا ہے اور یہ رقم سال آیندہ کے لیے ۹۴۶.۳۶ بلین روپے ہے۔ اس کے علاوہ سول آرمڈ فورسز ہیں‘ جو عملاً فوج کے تحت ہیںلیکن ان کا خرچ سول بجٹ سے لیا جاتا ہے‘ یعنی فرنٹیر کانسٹیبلری (۵۳۱.۱ بلین روپے)‘ پاکستان رینجرز (۷۸۹.۳ بلین روپے) اور پاکستان کوسٹل گارڈ (۱۶۲.۳۵۹ ملین روپے)۔ کیڈٹ کالجوں پر خرچ اس کے سوا ہے جو خود ایک ارب روپے سے متجاوز ہے۔ اس میں اگر ان بیرونی قرضوں کی واپسی مع سود کی مد میں جو فوجی مقاصد کے لیے ‘ لیے گئے قرضے ہیں ان کو شامل کر لیا جائے تو بجٹ پر اس کا بوجھ تقریباً ۳۳۷.۱۶ بلین روپے کا ہے۔ اس میں اٹامک انرجی کمیشن کے اخراجات شامل نہیں ہیں جس کا ایک حصہ فوجی مقاصد کے لیے ہے اور ایک توانائی اور دوسرے پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔ اگر فوج کے پورے سالانہ بجٹ کا احاطہ کیا جائے تو یہ ۲۸۰ اور ۳۰۰ بلین روپے پر محیط ہے۔
بلاشبہہ فوج کی ہر حقیقی ضرورت کو پورا کرنا ملک کی سلامتی اور تحفظ کے لیے ضروری ہے اور ہر قوم اپنے دفاع کے لیے اپنا پیٹ کاٹ کر ان ضرورتوں کو پورا کرتی ہے اور کرنا چاہیے۔ لیکن قوم اور اس کی پارلیمنٹ کا حق ہے کہ وہ دوسرے مصارف کی طرح ضروری احتیاط کے ساتھ ان اخراجات پر بھی نگاہ رکھے اور قومی حکمت عملی سے اسے ہم آہنگ ہی نہ کرے بلکہ وسائل کے بہترین استعمال کو بھی یقینی بنائے۔
تیسرا مسئلہ بجٹ سازی کے طریق کار اور اس عمل میں صرف ہونے والے وقت اور قومی اداروں کی بجٹ سازی میں شرکت کا ہے۔ انٹرنیشنل پارلیمانی یونین نے دنیا کی ۸۰ جمہوری پارلیمنٹوں کا جو جائزہ شائع کیا ہے اس کے مطابق ان تمام ممالک میں بجٹ سازی کے لیے دو سے چھے ماہ کا وقت لیا جاتا ہے۔ بھارت میں یہ عمل ۷۵ دن میں پورا ہوتا ہے‘ جب کہ برطانیہ‘ کینیڈا‘ سویڈن‘ نیوزی لینڈ‘ برازیل‘ الجزائر‘ ارجنٹنا‘ ڈنمارک‘ بلجیم‘ فرانس‘ جرمنی‘ انڈونیشیا‘ اٹلی‘ جاپان‘ غرض بیشتر ممالک میں تین سے چار مہینے اس کے لیے وقف کیے جاتے ہیں۔ امریکا میں یہ عمل پورے سال جاری رہتا ہے۔ بجٹ پیش کرنے کے بعد پارلیمنٹ کے ساتھ پارلیمنٹ کی کمیٹیوں میں بحث ہوتی ہے اور یہ کمیٹیاں عوامی نمایندوں اور معیشت کے مختلف کارپردازوں کو اپنا اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کا موقع دیتی ہیں۔ انتظامیہ کے نمایندے پارلیمنٹ کی متعلقہ کمیٹیوں کے نمایندوں اور دوسرے عوامی اور تجارتی و صنعتی نمایندوں سے بحث و گفتگو اور کچھ لینے اور کچھ دینے کے ذریعے بجٹ کو آخری شکل دیتے ہیں۔ Ways and Means Committee ‘ تخمینہ کمیٹی یا فنانس کمیٹی پورے عمل میں شریک ہوتی ہے اور انتظامیہ کی طرف سے اخراجات کے تخمینوں اور آمدنی کے ذرائع پر کھل کر بحث کی جاتی ہے اور پھر بجٹ کو آخری شکل دی جاتی ہے۔ یہی جمہوریت کی روح ہے۔
اس کے مقابلے میں پاکستان میں بجٹ بنانے میں پارلیمنٹ اور اس کی کمیٹیوں کا عملاً کوئی حصہ نہیں۔ قومی اسمبلی میں بجٹ ایک طے شدہ شکل میں پیش کر دیا جاتا ہے اور بمشکل دو ڈھائی ہفتوں میں (۱۴ سے ۲۰ دن) اسے زبردستی منظور کرا دیا جاتا ہے۔ سینیٹ کا پہلے تو کوئی عمل دخل تھا ہی نہیں حالانکہ ہر وفاقی نظام میں ایوان بالا کا بجٹ سازی میں بڑا اہم کردار ہوتا ہے اور ۱۹۸۷ء سے پاکستان میں سینیٹ اپنا یہ حق تسلیم کرانے کے لیے سرتوڑ کوشش کر رہا تھا۔ سترھویں ترمیم کے ذریعے سینیٹ کو تھوڑا سا رول میسرآیا ہے لیکن بس اتنا کہ سات دن کے اندر اپنی سفارشات قومی اسمبلی کو بھیج دے جسے رد و قبول کا مکمل اختیار قومی اسمبلی کو ہے اور قومی اسمبلی کا عملی رویہ یہ ہے کہ گذشتہ تین سال سے سینیٹ نے بڑی محنت سے جو سفارشات پیش کی ہیں نہ ان پر کھل کر بحث کی ہے اور نہ ان کی اہم سفارشات کو بجٹ کا حصہ بنایا ہے۔
اس سال سینیٹ نے ۲۴۶ تجاویز پر غور کر کے ان میں سے ۵۸ کو متفقہ طور پر منظور کر کے قومی اسمبلی کو بھیجا۔ ان میں سے ۱۸ کا تعلق مالیاتی بل کی قانونی اور فنی خامیوں کی اصلاح سے تھا‘ تین کا تعلق قانون کو عدل وا نصاف کے مسلمہ اصولوں کے مطابق لانے کے لیے اساسی تجاویز سے تھا۔ ۱۷ تجاویز معاشی اور مالیاتی اعتبار سے بڑی بنیادی نوعیت کی تھیں جن کے بجٹ پر بڑے دُور رس اثرات مرتب ہونے تھے‘ یعنی روزگار کی فراہمی‘ غربت میں کمی‘ امیروں پر نئے ٹیکس‘ خصوصیت سے اسٹاک ایکسچینج اور زمینوں اور مکانوں کی فروخت پر cvt ‘بچتوں کی ترغیب کے لیے ٹیکس اصلاحات‘ بنکوں پر ٹیکس کی شرح میں کمی کی مخالفت‘ زرعی inputs پر درآمدی اور سیلز ٹیکس میں چھوٹ وغیرہ۔ نیز ۱۲ تجاویز معاشی پالیسی میں تبدیلی اور چھے کا تعلق مالیاتی اداروں‘ سرکاری انتظامی نظام اور دستور اور قانون میں ایسی تبدیلیوں سے تھا جو بجٹ سازی کو زیادہ نمایندہ بنا سکے اور اعداد و شمار کے نظام کو بہتر اور قابلِ اعتماد بنا سکے۔ لیکن ان میں سے چند ضمنی اور صرف ٹیکنیکل سفارشات کو تو اس لیے لے لیا گیا کہ وہ فنانس بل کے بڑے موٹے موٹے سقم (loop holes) دُور کر رہی تھیں اور وزارت خزانہ اور وزارت قانون کی سنگین غلطیوں کا مداوا کر رہی تھیں۔ لیکن نظام کی اصلاح اور بجٹ کو قومی ترجیحات سے ہم آہنگ کرنے والی تمام تجاویز کو بحث کے بغیر ہی رد کردیا گیا جس نے سینیٹ کی تمام کوشش کو ایک خواہ مخواہ کی مشق بنا کر رکھ دیا۔
۱- chargedاور other than charged کی تقسیم کو ختم کیا جائے اور تمام اخراجات اور تمام ٹیکس کے اقدامات بشمول ایس آر اوز جو عملاً ٹیکس لگانے کا ایک ذریعہ بن گئے ہیں پارلیمنٹ اور صرف پارلیمنٹ کے اختیار میں ہوں۔
۲- سینیٹ کو بجٹ سازی میں مؤثر کردار دیا جائے اور جہاں سینیٹ اور قومی اسمبلی میں اختلاف ہو وہاں ان اختلافات کو مصالحتی کمیٹیوں کے ذریعے حل کیا جائے۔
۳- بجٹ سازی کا عمل سال کے ختم ہونے سے چار مہینے پہلے شروع ہو اور اس کی ترتیب یہ ہونی چاہیے:
ا- جنوری کے آخر یا فروری کے شروع میں وزیرخزانہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے سامنے پچھلے سال کا معاشی جائزہ‘ معیشت اور مالیاتی اہداف اور ان کے حصول کا پروگرام پیش کریں اور آیندہ کے لیے اپنے اہداف‘ ترجیحات اور لائحہ عمل کے خدوخال رکھیں۔
ب- اس کے فوراً بعد دونوں ایوانوں میں بجٹ کے ان اہداف اور ملک کی ضروریات پر ایک ہفتہ عمومی بحث ہو۔
ج- اس بحث کی روشنی میں دونوں ایوانوں کی مالیاتی کمیٹیاں بجٹ کی تفصیلات پر غور کریں اور پارلیمنٹ کی مختلف وزارتوں سے متعلقہ کمیٹیوں کو موقع دیا جائے کہ دو سے تین ہفتوں میں اپنی سفارشات متعلقہ مالیاتی کمیٹیوں کو بھیج دیں۔
د- دونوں ایوانوں میں مالیاتی کمیٹیاں عوام کو اپنی سفارشات پیش کرنے کی دعوت دیں اور معیشت سے متعلق تمام کارفرما اداروں کو موقع دیا جائے کہ ان کمیٹیوں کے سامنے اپنے مسائل‘ ضروریات اورمشورے رکھیں۔
ھ- یہ کمیٹیاں وزارت خزانہ کے ساتھ الگ الگ یا مشترک اجلاس میں عوام کے مطالبات‘ ضروریات اور عوامی نمایندوں کی تجاویز اور مشوروں پر تبادلہ خیال کر کے اپنی تجاویز مرتب کریں۔
و- ان تجاویز کو حکومت کو مارچ کے آخیر یا اپریل کے شروع تک بھیج دیا جائے تاکہ ان کی روشنی میں وزارت خزانہ بجٹ کو آخری شکل دے‘ جو مئی کے وسط میں بجٹ کو آخری شکل میں دونوں ایوانوں کے سامنے پیش کر دے۔
ز- سینیٹ دو ہفتے (کام کرنے کے ۱۴ دن) میں اپنی آخری سفارشات اسمبلی کو بھیج دے اور اسمبلی ان پر باقاعدہ بحث کر کے دلائل کے ساتھ قبول یا رد کرنے کا کام انجام دے۔
ک- اسمبلی میں مکمل بحث کے بعد جون کے تیسرے یا چوتھے ہفتے میں بجٹ منظور کیا جائے۔
۴- پبلک اکائونٹس کمیٹی کو وسعت دی جائے ‘ اسے پارلیمنٹ کی مشترک کمیٹی بنایا جائے جس میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کو برابر کی نمایندگی دی جائے۔
۵- پبلک اکائونٹس کمیٹی سال بھر کام کرے۔ آڈیٹر جنرل کی ذمہ داری ہو کہ ہر تین مہینے بعد اپنی رپورٹ اس کمیٹی کو پیش کرے اور یہ کمیٹی کی ذمہ داری ہو کہ رپورٹ آنے کے تین مہینے کے اندر اندر اس پر غور کر کے اپنی رپورٹ دے دے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ سال کے ختم ہونے کے ایک سال کے اندر پارلیمنٹ کے سامنے آجائے۔ تین تین اور چار چار سال کے بعد رپورٹ کا آنا اسے بالکل بے معنی بنا دیتا ہے۔
دوسرا بنیادی مسئلہ نیشنل فنانس کمیشن کے ایوارڈ کا ہے جس کے بغیر بجٹ سازی کا پورا عمل غیر دستوری ہی نہیں ہوجاتا‘ عملی اعتبار سے مرکز اور صوبے دونوں کے لیے بجٹ سازی ایک مشکل بلکہ لاحاصل عمل بن جاتی ہے۔ دستور کی دفعہ ۱۶۰ کے تحت ہر پانچ سال بعد ایوارڈ کو لازمی قرار دیا گیا ہے اور اس کے بغیر مرکز اور صوبوں کو اپنے پورے مالی وسائل کا اندازہ ہی نہیں ہوسکتا جس کی عدم موجودگی میں وہ محض مفروضوں پر بجٹ بناتے ہیں۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان صوبوں کو ہوتا ہے جو بالکل اندھیرے میںبجٹ سازی کرنے پر مجبور ہیں۔
موجودہ حکومت جس ایوارڈ کی بنیاد پر مالی وسائل کی تقسیم کر رہی ہے‘ وہ ۲۰۰۲ء میں ختم ہوچکا ہے اور اس طرح اب یہ تیسرا سال ہے کہ صوبے اپنے حق سے محروم ہیں۔ واضح رہے کہ ۱۹۹۱ء سے پہلے صوبے اپنے بجٹ آزادی سے بناتے تھے اور بجٹ میں خسارے کا بھی ان کو اختیار تھا جسے مرکزی حکومت پورا کرتی تھی۔ ۱۹۹۱ء میں خسارے کے تصور کو ختم کیا گیا البتہ ترقیاتی منصوبے کی مالی ضرورتیں پوری کرنا مرکز کی ذمہ داری رہی۔ ۱۹۹۷ء کے ایوارڈ کی رو سے صوبوں کے لیے پبلک سیکٹر ترقیاتی پروگرام (PSDP) کی مرکزی ذمہ داری کو ختم کر دیا گیا اور صوبوں کو اس کے لیے خود ذمہ دار کیا گیا کہ اپنے وسائل سے یا قرض لے کر اسے پورا کریں۔ پہلے قابل تقسیم فنڈ میں کسٹم ڈیوٹی شامل نہیں تھی اور انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس ہی قابلِ تقسیم اجزا تھے جن میں مرکز ۲۰ فی صد رکھ کر ۸۰ فی صد صوبوں کو دے دیتا تھا۔ ۱۹۹۷ء میں کسٹم ڈیوٹی اس میں شامل کر لی گئی اور فنڈ میں تمام ٹیکس شامل ہوگئے‘ البتہ صوبوں کا حصہ کم کر دیا گیا۔ مرکز ۵.۶۲ فی صد اور صوبے ۵.۳۷ فی صد کے حق دار ٹھیرے۔ اس طرح عملاً مرکز نے صوبوں کے حصے کو محدود اور مقید کر دیا اور وسائل کا توازن مرکز کے حق میں اور صوبوں کے خلاف ہوگیا۔
سیلز ٹیکس آزادی کے وقت ایک صوبائی ٹیکس تھا اور دنیا کے ان تمام ممالک میں جہاں فیڈرل نظام ہے یہ ٹیکس صوبائی ہی ہوتا ہے مگر ۱۹۵۴ء میں مرکز نے عارضی طور پر صوبوں سے یہ ٹیکس لے لیا اور آج تک اسے مرکزی ٹیکس ہی بنائے ہوئے ہے جس کا نتیجہ ہے کہ صوبے مالیاتی اعتبار سے مرکز کے محتاج ہوگئے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ مرکز اور صوبوں میں وسائل کی تقسیم کے سلسلے میں ایک نئی اور مستقل افہام و تفہیم ہوجائے اور دستور میں ضروری ترمیم کے ذریعے اس مسئلے کا مستقل حل نکال لیا جائے‘ نیز مالیاتی ایوارڈ کے معاملے کو فوری طور پر طے کیا جائے۔ صرف ایک صوبے کے ایک خاص گروہ کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے پورا ملک نقصان اٹھا رہا ہے۔ سینیٹ نے بھی اپنی ۵۸سفارشات میں اس امر کو شامل کیا تھا کہ قومی مالیاتی ایوارڈ کا اعلان بجٹ کی منظوری سے پہلے کیا جائے لیکن بجٹ اسمبلی نے منظور کرلیا اور مالیاتی ایوارڈ کو ایک بار پھر تعویق میں ڈال دیا گیا ہے۔ یہی وہ رویہ ہے جو صوبوں میں بے چینی اور اضطراب کو بڑھا رہا ہے اور مرکز اور صوبوں میں ہم آہنگی کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن گیا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اصول طے ہوجانا چاہیے کہ مرکز میں صرف وہ وزارتیں ہوں گی جو مرکزی نوعیت کی ہیں اور دستور کے مطابق تمام صوبائی امور مکمل طور پر صوبوں کے پاس ہوں۔ نیز مالی وسائل کے اعتبار سے صوبے اپنے قدرتی وسائل کے مالک ہوں اور صوبے اور ملک دونوں کے حقوق کے درمیان ایک توازن سے معاملات طے کیے جائیں۔ انصاف اور حقوق کی ادایگی ہی کے ذریعے ملکی سلامتی اور استحکام ممکن ہے اور مالی وسائل کی منتقلی کے بغیر اختیارات کی منتقلی ایک لایعنی عمل ہے۔ اس مسئلے کا فوری حل ملک کے بہترین مفاد میں ہے۔
تیسرا بنیادی مسئلہ معاشی حالات اور کوائف کی صحت اور اعداد و شمار کے قابلِ اعتبار ہونے کا ہے۔ ملک کے سالانہ معاشی جائزے کا کام وزارتِ خزانہ کے بجاے ایک آزاد ادارے کے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔ نیز شماریات کی وزارت کا خودمختار ہونا ضروری ہے جو دستور یا کم از کم ملکی قانون کے تحت اپنا کام انجام دے۔ سی بی آر‘ وزارتِ تجارت‘ وزارتِ زراعت‘ اسٹیٹ بنک‘ غرض ہر ادارے کی ذمہ داری ہو کہ صحیح صحیح اعداد و شمار‘ مرکزی شماریاتی ادارے کو فراہم کرے اور یہ ادارہ خود اعداد و شمار کی صحت کے تعین اور ان کے حاصل کرنے اور ان کو مرتب کرنے کا کام انجام دے۔ اعداد و شمار اگر قابلِ اعتبار نہ ہوں تو یہ ملک کی سب سے بڑی بدقسمتی ہے اس لیے کہ صحیح منصوبہ بندی اور پالیسی سازی کا انحصار صحیح اعداد و شمار پر ہی ہوتا ہے۔ اور اگر اعداد و شمار کو سیاسی مصالح اور ضرورتوں کے مطابق بددیانتی سے تبدیل کیا جائے تو یہ ایک ظلم عظیم سے کم نہیں۔
اس سلسلے میں موجودہ حکومت کا ریکارڈ کوئی زیادہ قابلِ فخر نہیں۔ بجٹ کی جو دستاویزات دی گئی ہیں ان میں بڑے بڑے سقم ہیں۔ بجٹ کی تقریر‘ بجٹ کا اختصار اور تفصیلی دستاویزات میں نمایاں فرق ہیں جن کی وجہ سے بجٹ کے خسارے کی کل رقم مشتبہ ہوجاتی ہے اور جن مالیاتی ماہرین نے ان دستاویزات کا مقابلہ اور موازنہ کیا ہے وہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ مالیاتی خسارہ قومی پیداوار کے ۸.۳ فی صد سے کہیں زیادہ ہے۔
اگر مزید غوروخوض سے بجٹ کی دستاویزات کا جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ ماضی کی حکومتوں کی طرح اس حکومت نے بھی اپنی کارکردگی دکھانے اور صرف روشن پہلو پیش کرنے کی خاطر اعداد و شمار کے تقدس کو پامال کیا ہے۔ چند مثالیں بات کو سمجھنے میں مددگار ہوں گی۔
دنیا بھر میں قاعدہ ہے کہ ہر پانچ یا سات سال کے بعد معیشت میں تبدیل ہونے والی سرگرمیوں کا احاطہ کرنے کے لیے قومی آمدنی کی بنیادی معلومات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ یہ قومی آمدنی کی پیمایش (National Income Accounting) کا ایک خاص اصول ہے اور اس کے لیے بنیادی سال (base year )کو up gradeکیا جاتا ہے۔ مگر اس طرح کہ ماضی‘ حال اور مستقبل میں موازنہ متاثر نہ ہو۔ پاکستان میں ۸۱-۱۹۸۰ء کے بنیادی سال پر قومی پیداوار GDP کا حساب (calculation) ہورہا تھا‘ اب ۲۰ سال کے بعد ۲۰۰۰ئ-۱۹۹۹ء کو نیا بنیادی سال بنایا گیا۔اس تبدیلی کی وجہ سے کل قومی پیداوار تقریباً ۵.۱۹ فی صد زیادہ ہوجاتی ہے۔ قومی دولت میں تقریباً ۲۰ فی صد کا یہ اضافہ نظام کی تبدیلی کا مرہونِ منت ہے۔ اسے نئی پیداوار نہیں کہا جاسکتا بلکہ جو پیداوار موجود تھی اور حساب کا حصہ نہیں بن رہی تھی اسے صرف حساب کا حصہ بنایا گیا ہے۔ یہ نئی پیداوار نہیں ہے۔ اگر اس ایک بنیادی حقیقت کو نمایاں نہ کیا جائے تو حکومت کی کارکردگی اور معیشت کی تبدیلیوں کی اصل حقیقت کو سمجھنا ممکن نہیں ہوگا۔
یہ تو فنی مسئلہ ہے۔ دوسری مثال غربت کی لیجیے۔ ۲۰۰۵ئ-۲۰۰۴ء کے بجٹ کے موقع پر ایک مختصر سروے کی بنیاد پر حکومت نے دعویٰ کیا کہ غربت میں ۴ فی صد کمی ہوئی ہے حالانکہ اس مختصر جائزے اور نارمل ہائوس ہولڈ سروے کے نتائج کا موازانہ فنی اعتبار سے صحیح نہیں تھا لیکن حکومت نے غربت کی کمی کے دعوے شروع کر دیے۔ حالانکہ حقیقی پیداوار‘ روزگار‘ افراط زر‘ قومی بچت‘ سرمایہ کاری اور حقیقی اُجرت کے تمام اعداد و شمار کو سامنے رکھا جائے تو غربت کے کم ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ اس میں اضافے کا امکان زیادہ ہے۔ لیکن سچ کہا کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے۔ اس سال کا معاشی سروے مطالعہ فرما لیجیے۔ اس میں غربت اور تقسیمِ دولت کا باب تو حسبِ سابق قائم کیا گیا ہے لیکن غربت کے بارے میں اعداد و شمار غائب ہیں۔ تقسیمِ دولت کا تو پورا باب ہی غائب ہے۔ جو وعدہ سال گذشتہ کے بجٹ میں کیا گیا تھا اور جن اعداد و شمار کا سہارا لیا گیا اب ان کا ذکر نہیں بلکہ مبہم سے انداز میں بالواسطہ اشاریوں کی روشنی میں نیا دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایک اور سروے کی روشنی میں ایک کمرے‘ دو کمرے‘ تین کمرے اور چار کمرے کے مکان میں رہنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے جس سے غربت کی کمی کا نتیجہ نکالا جا سکتا ہے۔ حالانکہ مئی ۲۰۰۵ء میں پلاننگ کمیشن نے جو پانچ سالہ وسط مدتی ترقیاتی فریم ورک (Medium Term Development Framework) شائع کیا ہے اس میں صاف اعتراف ہے کہ:
اس وقت ملک کی ایک تہائی آبادی غربت کی سطح سے نیچے رہ رہی ہے۔ غربت کم کرنے کا MTDF ہدف ۲۰۱۰ء تک ۲۱ فی صد اور ۲۰۱۵ء تک ۱۳ فی صد ہے۔
واضح رہے کہ دو سال قبل جنرل پرویز مشرف نے کہا تھا کہ ۲۰۰۶ء تک غربت کی سطح کو ۲۰ فی صد پر لے آئیں گے۔ یہ سب اعداد و شمار کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہے۔
اسی طرح بے روزگاری کے مسئلے پر بھی حکومت کے ذمہ دار حضرات بشمول وزیراعظم صاحب نے قوم کو صحیح حقائق سے آگاہ نہیں کیا۔ جب پرویز مشرف صاحب برسرِاقتدار آئے اور جناب شوکت عزیز نے وزارتِ خزانہ کی ذمہ داری سنبھالی تو ملک میں بے روزگاری کی شرح ۵فی صد سے کم تھی۔ ۲۰۰۳ئ-۲۰۰۰ء کے درمیان اوسط بے روزگاری ۸ فی صد رہی۔ ۲۰۰۴ء میں ۵.۸فی صد تک پہنچ گئی۔ اس سال کے لیے دعویٰ کیا گیا ہے کہ بے روزگاری کم ہو کر ۸.۷ فی صد پر آگئی ہے اوراس کی وجہ یہ ہے کہ گذشتہ دو سال میں ۸.۲ ملین افراد کو روزگار ملا ہے۔ لیکن اگر آپ اس لیبرسروے کا مطالعہ کریں جس کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا گیا ہے تو معلوم ہوگا کہ ان ۲۸لاکھ روزگار پانے والے خوش نصیبوں میں سے ۱۱ لاکھ افراد وہ ہیں جن کو unpaid family helpers (بلامعاوضہ گھریلو معاون)قراردیا گیا ہے۔ روزگار فراہم کیے جانے والوں کی تعداد میں ان کی شمولیت پر خود اسٹیٹ بنک نے اپنی حالیہ سہ ماہی رپورٹ میں جو مئی میں پارلیمنٹ میں پیش کی گئی ہے‘ دبے لفظوں میں تعجب کا اظہار کیا ہے۔ یہ کیسا روزگار ہے جس میں روزگار پانے والے بلامعاوضہ معاون ہیں۔ اگر اس تعداد کو کم کر دیں تو دو سال میں ۱۷ لاکھ افراد کو روزگار ملا ہے‘ جب کہ اس عرصے میں بے روزگاروں کی تعداد میں مزید ۲۰ لاکھ افراد کا اضافہ ہوگیا ہے اور قومی اسمبلی میں فراہم کردہ تازہ اعداد و شمار کی روشنی میں ان میں ۳ لاکھ سے زیادہ بی اے‘ ایم اے اور ایم بی اے ہیں۔
پھر اس پورے عرصے میں حقیقی اُجرت میں برابر کمی ہو رہی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ جو برسرِکار ہیں ان کی بھی قوتِ خرید برابر کم سے کم تر ہو رہی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ بے روزگاری کے طوفان اور اُجرتوں میں حقیقی کمی کا نتیجہ غربت میں اضافے کے سوا کیا ہوسکتا ہے۔ سوشل پالیسی اینڈ ڈویلپمنٹ سنٹر(Social Policy and Development Centre) کے ایک تازہ تحقیقی جائزے کے مطابق ۲۰۰۳ئ-۲۰۰۰ء کے چارسالوں میں حقیقی اُجرت میں ۱.۳ فی صد کمی واقع ہوئی ہے اور وسیع تر تناظر میں مزدوروں کے تلخ حالات کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ۱۹۸۱ء کے مقابلے میں ۲۰۰۳ء میں ایک عام محنت کش کی قوتِ خرید میں ۲۰ فی صد کی کمی ہوگئی ہے۔ (ملاحظہ ہو‘ متعلقہ رپورٹ‘ ص ۲۱-۲۳)
یہی معاملہ کشکول توڑنے‘ آئی ایم ایف سے نجات پانے اور قرضوں کے بوجھ میں کمی کے دعووں کا ہے۔ حقائق ان میں سے ہر دعوے کی تردید کر رہے ہیں۔ جولائی ۱۹۹۹ء سے دسمبر ۲۰۰۴ء تک بیرونی قرضوں میں ۵.۳ بلین ڈالر کا اور ملکی قرضوں میں ۶۴۱ بلین روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ اکانومک سروے کے مطابق ۲۰۰۴ء میں کل بین الاقوامی بوجھ (liability) ۲۶.۳۵بلین ڈالر تھا جو ۲۰۰۵ء میں بڑھ کر ۶۲۵.۳۶ ملین ڈالر ہوگیا ہے‘ یعنی ۳۶.۱بلین ڈالر کا حقیقی اضافہ۔آئی ایم ایف کا بھی بڑا ذکر ہے۔ اسی سروے سے میں ۱۳۲ پر دیکھا جاسکتا ہے کہ ۲۰۰۴ء میں آئی ایم ایف کا قرض ۷۶۲.۱ بلین ڈالر تھا اور ۲۰۰۵ء میں یہ ۷۵۷.۱ بلین ڈالر ہے۔ گذشتہ چھے سال میں ۱۴ بلین ڈالر کی پاکستانیوں کی ترسیلات اور ۲بلین کے قرضوں کی معافی کے باوجود ۱۴ سے ۱۵ بلین ڈالر کے درمیان نئے قرضے لیے گئے ہیں۔ قرضوں اور سود کی ادایگی کے بوجھ میں کمی کی وجہ تقریباً ۱۵بلین ڈالر کے قرضوں کی ری شیڈولنگ ہے جو نائن الیون میں امریکا کی چاکری کے عوض حاصل ہوئی ہے۔ اس کا کوئی تعلق کشکول توڑنے سے نہیں۔
وزیراعظم صاحب دعویٰ کر رہے ہیں کہ پاکستان دنیا کے پانچ تیز رفتار ترقی کرنے والے ملکوں میں شامل ہوگیا ہے اور ان کے حاشیہ نشین یہاں تک کہنے لگے ہیں کہ چین کے بعد پاکستان سب سے تیز رفتار ترقی کرنے والا ملک ہے۔ لیکن حقائق کچھ دوسری ہی تصویر پیش کر رہے ہیں۔ ابھی مئی ۲۰۰۵ء میں پاکستان ڈویلپمنٹ فورم کی کانفرنس ہوئی ہے جس میں یورپی کمیشن کے سفیر نے اور ورلڈ بنک اور ایشین ڈویلپمنٹ بنک کے نمایندوں نے صاف کہا ہے کہ غربت میں کوئی کمی نہیں ہوئی بلکہ اضافے کا امکان زیادہ ہے اور منہ پھاڑ کر انھوں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ یہ بات پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے کہ غربت‘ بے روزگاری وغیرہ کے موضوعات پر بین الاقوامی معیاروں کے مطابق قابلِ اعتماد اعداد و شمار فراہم کرے۔
عالمی ادارے پاکستان کی معاشی زبوں حالی کا جو نقشہ پیش کر رہے ہیں‘ وہ اس تجربے سے صد فی صد مطابقت رکھتا ہے جو ہر شہری اور خصوصیت سے عام صارف صبح و شام محسوس کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی ۲۰۰۴ء کی سالانہ رپورٹ میں دنیا کے ۱۷۷ ممالک میں پاکستان کا نمبر ۱۴۲ ہے‘ یعنی ہمارا شمار دنیا کے غریب ترین ۴۰ ممالک میں ہوتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں ہمارا نمبر سب سے نیچے ہے‘ یعنی بھارت‘ بنگلہ دیش‘ سری لنکا‘ مالدیپ اور نیپال سب ہم سے اوپر ہیں۔ فی کس آمدنی کے اشاریے میں ہمارا مقام ۱۷۷ میں ۱۳۴ واں ہے۔ غربت کے اشاریے میں جو صرف ۹۵ترقی پذیر ممالک پر مشتمل ہے ہمارا نمبر ۷۱ ہے۔
اسی طرح ورلڈ ڈویلپمنٹ فورم (جس کا مرکز Davos سوئٹزرلینڈ میں ہے) کے تازہ ترین جائزے کے مطابق دنیا کے ۱۰۴ ممالک کے معاشی ترقی میں مقابلے کے اشاریے (Growth Competetion Index) میں ہمارا نمبر ۹۱‘ جب کہ بھارت کا نمبر ۵۵ اور سری لنکا کا ۷۳ ہے۔ اور بھی افسوس ناک بات یہ ہے کہ ۲۰۰۳ء میں ہماری پوزیشن ۷۳ ویں تھی جو ۲۰۰۴ء میں گر کر ۹۱ویں ہوگئی ہے۔
ملک کے دستوری اور قانونی اداروں کا حال سب سے خراب ہے۔ سرکاری اداروں کے اشاریے (Public Institutions Index) کے مطابق ۱۰۴ ممالک میں ہمارا نمبر ۱۰۲ ہے‘یعنی دنیا کے سب سے بدحال ترین ممالک میں ہمارا شمار ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کے عالمی تجارتی ادارے (UNCTAD) نے جو دنیا کے ممالک کی درجہ بدرجہ فہرست تیار کی ہے اس میں کارکردگی کے اشاریے میں پاکستان کا نمبر ۱۴۰ ممالک میں ۱۱۶ واں ہے اور مستقبل کے امکانات کے اشاریے میں ہم اور بھی نیچے آئے ہیں‘ یعنی ۱۴۰ میں ہمارا نمبر ۱۲۹ ہے۔
ماحولیات اور صحت کے قومی فورم (National Forum for Environment and Health )کا جائزہ ابھی جون ۲۰۰۵ء میں شائع ہوا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان دنیا کے آلودہ ترین ۱۵ ممالک میں ہے۔ کراچی کے بارے میں یہ رپورٹ اس ہولناک صورت حال کی تصویرکشی کرتی ہے کہ: کراچی کی سڑکوں پر چلنے والی ۱۶ لاکھ گاڑیوں میں سے ۳۰ فی صد (۴لاکھ ۸ ہزار) فٹنس کے معیار پر پوری نہیں اترتیں۔
اسی طرح آبی تحقیقات کی پاکستان کونسل (Pakistan Council of Water Research ) کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے جائزے کے مطابق پاکستان کے ۱۷بڑے بڑے شہروں میں عام شہری ایسا آلودہ پانی استعمال کر رہا ہے جو پینے کے لائق نہیں ہے۔ دیہات کی تو بات ہی کیا جہاں صاف پانی کی فراہمی کا کوئی نظام ہی موجود نہیں ہے۔
اللہ کے فضل و کرم سے بین الاقوامی برادری اور عالمی مالیاتی ادارے ہماری اقتصادی ترقی کے قائل ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ [پاکستان کے] اندر بعض دوستوں کو یہ خبر نہیں پہنچی۔ یا یہ کہ انھیں اپنی قوم کی صلاحیتوں پر یقین نہیں۔
جس ’’جراء ت‘‘ اور ’’دریدہ دہنی‘‘ کا مرہونِ منت ہے وہ جنرل مشرف کی ٹیم کے کسی فرد کو ہی نصیب ہو سکتی ہے۔
ملکی معیشت کی تعمیر نو خوش فہمیوں اور شماریاتی مغالطوں سے نہیں کی جا سکتی۔ اس کے لیے حقائق کا سامنا کرنا ہوگا اور ایک بالکل نئی حکمت عملی تیار کرنا ہوگی۔ حکومت کو اعتراف کرنا چاہیے کہ اس کی اصل کامیابی محض ایک سال میں ۴.۸ فی صد کی شرح نمو ہے جس کی وجہ ۵.۷ فی صد زراعت کی ترقی ہے جس کی وجہ حکومت کی پالیسی نہیں‘ بروقت بارش کی صورت میں اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تھا۔ معیشت کے جن چند دائروں میں نسبتاً صورت حال بہتر رہی ہے اس کا انکار ناانصافی ہوگی۔ نیز چار سال تک macro stabilizationکا اسیر رہنے کے بعد معاشی ترقی (growth) کی طرف توجہ بھی ایک مثبت اقدام ہے۔
لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ چھے سال تک مکمل اختیارات رکھنے اور نائن الیون کے بعد غیرمعمولی بیرونی اسباب کی وجہ سے وسائل اور امکانات کے رونما ہوجانے کے باوجود حکومت کوئی مربوط اور حقیقت پسندانہ معاشی حکمت عملی اور پروگرام بنانے میں قطعاً ناکام رہی ہے۔ افراط زر کا عفریت آگ اُگل رہا ہے۔ توازن تجارت ایک بار پھر خطرناک حد تک ہمارے خلاف ہوگیا ہے اور ۲۰۰۵-۲۰۰۴ء میں بین الاقوامی تجارت کا خسارہ ۶ بلین ڈالر کی حد کو چھو رہا ہے۔ بجٹ کا خسارہ پھر ڈھائی سو اور تین سو بلین روپے کی حد میں آرہا ہے۔ انتظامی اخراجات پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے اور ان میں بجٹ میں فراہم کردہ رقم سے تقریباً ۲۰ فی صد اضافہ ہوا ہے‘ جب کہ ترقیاتی اخراجات میں پہلے نو ماہ میں فراہم کردہ رقم کا صرف ۴۹ فی صد خرچ ہوا ہے اور وہ بھی صرف زری (monetary) حد تک۔ اصل برسرِزمین حقیقی کارکردگی کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ دفاعی اخراجات میں برابر اضافہ ہو رہا ہے اور اس پر نگرانی کا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں ہے۔ ملک میں مالیاتی (fiscal) پالیسی اور زری (monetary) پالیسی میں بروقت رابطے کی کمی ہے جس کے نتیجے میں افراط زر کو بروقت روکنے کا اہتمام نہیں کیا جا سکا اور اب تاخیر سے زری پالیسی کو متحرک کیا گیا ہے کہ اس کے اثرات سرمایہ کاری پر ہوں گے۔ ٹیکس اور قومی آمدنی کے تناسب میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے جو قومی آمدنی کے ۹ اور ۱۰ فی صد پر رکا ہوا ہے اور دنیا میں کم ترین شرح پر ہے‘ جب کہ ترقی پذیر ممالک میں یہ شرح ۱۵ سے ۲۰ فی صد تک ہے۔ اسی طرح ملک میں بچت کی شرح ترقی پذیر ممالک کی اوسط شرح سے بہت کم ہے اور یہی صورت سرمایہ کاری کی سطح کی ہے جو عملاً ۱۶فی صد سے کم ہوکر ۱۵ فی صد پر آگئی ہے۔
غیرملکی پاکستانیوں کی ترسیلات ایک ارب ڈالر سالانہ سے بڑھ کر ۴ارب ڈالر ہوگئی ہیں اور گذشتہ چار سال میں ۱۴ ارب ڈالر سے زیادہ وصولی ہوئی ہے‘ ان کو پیداآوری مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے کوئی پالیسی اور اداراتی انتظام نہیں کیا گیا جس کا نتیجہ ہے کہ یہ ترسیلات ملک میں افراطِ زر‘ تعیشات‘ بہت زیادہ صرف کے فروغ اور اسٹاک مارکیٹ اور زمین کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔ معاشی ماہرین پکار رہے ہیں اور خود سینیٹ کی متفقہ سفارش بھی تھی کہ اسٹاک ایکسچینج پر جو ۰۱.۰فی صد ٹیکس لگایا گیا تھا اسے کم از کم ۰۵.۰ کیا جائے جس سے ۱۵سے ۲۰ ارب سالانہ آمدنی میں اضافہ ہوسکتا ہے اور اسٹاک ایکسچینج میں جو نفع خوری سٹّے کی بنیاد پر ہو رہی ہے اسے بھی لگام دی جا سکتی ہے‘ نیز زمین اور مکان کی فروخت پر cvt کم از کم ۰۵.۰ لگایا جائے تاکہ ان نودولتیوں کی دولت سے قوم کے غربا کا حق وصول کیا جاسکے۔ لیکن حکومت نے اس طرف کوئی پیش رفت نہیں کی بلکہ بنکوں کے نفع پر بین الاقوامی دبائو کے تحت انکم ٹیکس کی شرح پر ۳ فی صد کی کمی کر دی اور ۱۸۰۰ سی سی اور اس سے زیادہ کی کاروں کی درآمد پر بھی ڈیوٹی میں ۲۵ فی صد کمی کر دی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس بجٹ کو کار دوست (car-friendly)اور فوج دوست (fauj- friendly) قرار دیا جا رہا ہے۔ حکومت کی شاہ خرچیوں کا اندازہ کرنے کے لیے مشتے نمونہ از خروارے چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں:
ایوان صدر سے بات شروع کریں۔ ۲۰۰۰ئ-۱۹۹۹ء میں ایوان صدارت کا خرچہ ۹ کروڑ سالانہ تھا جو بڑھ کر ۰۵-۲۰۰۴ء کے بجٹ میں ۲.۲۱کروڑ ہوگیا‘ اب اسے مزید بڑھا کر اب ۱۶.۲۶کروڑ کر دیا گیا ہے۔ صدر کے بیرونی دوروں کے ۵.۳۰ کروڑ روپے اس کے علاوہ ہیں۔
وزیراعظم کے دفتر اور گھر کے اخراجات بھی چشم کشا ہیں۔ ۲۰۰۵ئ-۲۰۰۴ء کے بجٹ میں یہ رقم ۶۵.۲۲ کروڑ رکھی گئی تھی جو عملاً بڑھ کر ۶۱.۲۶ کروڑ ہوگئی اور اب اگلے سال کے لیے ۴۰.۲۳کروڑ رکھی گئی ہے۔ اس ۴ کروڑ کے اضافے کا کچھ پتا ضمنی گرانٹس کے مطالعہ سے چلتا ہے جہاں اس غریب ملک کے وزیراعظم کے لیے جو سہولتیں فراہم کی گئی ہیں ان کا ذکر اس طرح ہے:
ای سی جی مشین اور ایک کارڈیک ٹریڈ مل مشین (۲۷ لاکھ)‘ مرسڈیز کار کے فریٹ اخراجات (۹۵ لاکھ ۴ ہزار)‘ چارجز ۳ کروڑ ۳۲ لاکھ ۱۴ ہزار‘ رہایش ۱۸ لاکھ۔ سیکرٹریٹ کے لیے گاڑیوں کی خرید ۱۴ لاکھ ۵۰ ہزار)
(کیا یہ مشین ہمارے اچھے بھلے خوش حال وزیراعظم ذاتی جیب سے نہیں لے سکتے تھے؟ یقینا اگلے وزیراعظم کو اس کی ضرورت نہ ہوگی)
وزیراعظم صاحب کے غیرملکی دوروں کے لیے ۱۵ کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ (مطالبہ زر ۵۵)
اب ذرا صرف ضمنی مطالبات زر کے دوسرے صفحات پر سرسری نظر ڈال لیجیے کہ قومی خزانے کا بے دردانہ اسراف کس طرح ہو رہا ہے۔ واضح رہے کہ عام بجٹ میں تمام پہلے سے طے شدہ اخراجات موجود تھے اور جو ہزاروں کاریں وزراے کرام اور سرکاری افسران کے استعمال میں ہیں وہ سب اس میں موجود نہیں۔ صرف ۲۰۰۵ئ-۲۰۰۴ء کے سال میں اضافی خریداری کے لیے خزانے پر کیا کیا بوجھ ڈالا گیا ہے اس کی ایک جھلک دیکھیے:
کیبنٹ ڈویژن کے پاس کاروں کا سب سے بڑا بیڑا ہے۔ اس کے لیے اضافی مطالبہ زر نمبر۲ کے ذریعے صرف ٹرانسپورٹ کی مد میں ایک ارب ۱۲ کروڑ اور ۴۷ لاکھ کی رقم لی گئی ہے۔ مزید گھر کرائے پر لینے کے لیے ۲۱لاکھ کی رقم اس پر مستزاد ہے۔
وزارتِ مواصلات کے وزیرمملکت کے لیے دفتر کے لیے ۷ لاکھ روپے‘ گھر کے لیے‘ ایک کروڑ ایک لاکھ روپے‘ گاڑی کے لیے ۱۳ لاکھ روپے اور صواب دیدی اخراجات کے لیے ۴ لاکھ روپے (مطالبہ زر ۱۷‘ ص ۲۰)۔ وزارتِ کلچر اور یوتھ کے لیے تین کاروں کی خرید پر ۳۳ لاکھ ۶۰ ہزار (مطالبہ زر ۲۰‘ ص ۲۲)۔ وزارتِ ایکونومک افیرز کے وزیرمملکت کے لیے کار کی خرید ۱۰ لاکھ ۵۰ہزار روپے‘ صوابدید اخراجات ۴ لاکھ روپے (مطالبہ زر ۲۸‘ ص ۳۳)۔ وزارتِ خزانہ کے لیے کرائے کی مد میں ۷۸ لاکھ ۳۷ ہزار روپے‘ وزیر مملکت کے لیے کار کی فراہمی کے لیے ۲۳ لاکھ ۷۸ ہزار روپے‘ کار کی دیکھ بھال کے لیے ایک لاکھ ر۳۵ ہزار روپے‘ صواب دیدی اخراجات کے لیے ۴لاکھ روپے اور خاطر مدارات اور تحائف کے لیے ۲۰لاکھ روپے مزید رکھے گئے (مطالبہ زر۳۷‘ ص ۴۱)۔ وزارتِ ہائوسنگ اور ورکس کے بھی مزید مطالبہ زر میں وزیرمملکت کے گھر کے لیے ۲۳ لاکھ ۸۶ ہزار‘ نئی کار کے لیے ۱۴ لاکھ روپے اور صواب دید اخراجات کے لیے ۳ لاکھ حاصل کیے گئے ہیں۔ (مطالبہ زر ۵۹‘ ص ۶۱)
یہ صرف چند وزارتوں کے اعداد و شمار ہم نے پیش کیے ہیں ورنہ بجٹ کی دستاویزات ان شاہ خرچیوں کے ذکر سے بھری پڑی ہیں اور کوئی نہیں جو اس غریب ملک کے امیر حکمرانوں کی ان مسرفانہ سرگرمیوں پر گرفت کرسکے۔ صدر‘ وزیراعظم‘ وزراے کرام‘ سینیٹ اور اسمبلی کے ارکان کی تنخواہوں اور مراعات میں گذشتہ تین سال میں ۱۰۰ فی صد سے زیادہ اضافہ کیا گیا ہے‘ جب کہ عام شہری کی حقیقی قوتِ خرید میں کمی واقع ہوئی ہے اور آج عالم یہ ہے کہ ایک مسلمان ملک میں ۳۰۰ سے زیادہ افراد ہر سال بھوک اور افلاس سے تنگ آکر ہر ماہ حرام موت تک مرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون
اب ہم مختصراً یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اس وقت ملک کے سامنے معیشت کے میدان میں سب سے اہم مسائل کیا ہیں اور حکومت کی پالیسیوں اور بجٹ اور ترقیاتی پروگرام میں ان کا کہاں تک ادراک اور علاج موجود ہے۔
۱- اضافے کی رفتار برقرار رکہنا:سب سے پہلا مسئلہ ملکی پیداوار میں اضافے کی رفتار کو برقرار رکھنے کا ہے۔۸فی صد سالانہ کی رفتار سے اضافہ ماضی میں بھی کم از کم چار بار ہوچکا ہے‘ لیکن کیا اسے برقرار رکھا جاسکا؟ یہی اصل مسئلہ ہے۔ بظاہر یہ نظر آرہا ہے کہ ۴.۸ فی صد اضافے میں خاصا دخل خارجی عوامل کا تھا۔ ملک میں سرمایہ کاری اور بچت دونوں کی رفتار غیرتسلی بخش ہے اور اس کو بڑھائے بغیر قومی پیداوار میں اضافے کی رفتار کو باقی نہیں رکھا جا سکتا۔ الا یہ کہ بڑھتی ہوئی سرمایہ جاتی پیداوار کے تناسب (incremental capital output ratio) میں تبدیلی ہو جس کے لیے کوئی آثار نہیں۔ ماضی میں اضافے میں غیراستعمال شدہ گنجایش (unutilized capacity) کو استعمال کرنے کا بھی دخل ہے۔ اب مزید گنجایش بڑھائے اور پیداواریت میں اضافے کے بغیر ترقی کی رفتار کو برقرار رکھنا مشکل ہے۔ بجٹ میں ان امور کا ادراک نہ ہونے کے برابر ہے۔
۲- عوامی مصائب: اصل مسئلہ معاشی ترقی کی رفتار اور پیداوار میں اضافے کے نتیجے میں عوام کے مصائب میں کمی‘ قوت خرید میں اضافہ‘ زندگی کی سہولتوں کی فراہمی ہے۔ مغرب کے دانش وروں کے جس آپ سے آپ نیچے آنے (trickle down effect) کے فلسفے پر ہمارے ہاں معاشی منصوبہ بندی ہو رہی ہے وہ دنیا میں ہرجگہ بشمول ہمارے اپنے ملک میں ناکام رہا ہے۔ لیکن ہم مکھی پر مکھی مارنے میں مصروف ہیں۔ جب تک روزگار کی فراہمی‘ صحیح نوعیت کی تعلیم اور ہنرمندیوں کو فروغ دینے کا مؤثر انتظام‘ صحت کی سہولتوں کو بہتر بنانا اور سب سے بڑھ کر دولت کی ناہمواریوں اور علاقائی عدمِ مساوات کو سختی سے کم کرنے کو معاشی پالیسی کے واضح اور قابلِ پیمایش (measurable) اہداف نہیں بنایا جاتا عوام معاشی ترقی کے ثمرات سے محروم رہیں گے۔ اس وقت عالم یہ ہے کہ قومی دولت میں ہر ایک روپے کا اضافہ ملک کے امیر ۲۰ فی صد کی آمدنی میں ۴۸ پیسے کے اضافے کا ذریعہ بنتا ہے‘ جب کہ نچلی آمدنی والے ۲۰ فی صد کے حصہ میں صرف سات پیسے آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۰فی صد آبادی کا حصہ ملک کے کل صرفے (consumption) میں تین فی صد سے بھی کم ہے اور اس پورے عمل سے دولت میں جتنا اضافہ ہوتا ہے اتنا ہی معاشرے میں تقسیمِ دولت مزید غیرمنصفانہ ہوجاتی ہے۔ گذشتہ ۲۵سال میں Gini coefficientامیروں کے حق میں اور غریبوں کے خلاف سمت میں حالات کی تبدیلی کی خبر دے رہا ہے۔ Social Develpement in Pakistan کی رو سے ۱۹۸۸ء میں آبادی کے ۲۰ فی صد امیر ترین افراد کا دولت میں حصہ ۴۳ فی صد تھا جو ۲۰۰۲ء میں بڑھ کر ۶.۴۷ ہوگیا‘ جب کہ غریب ۲۰فی صد کا حصہ ۸.۸ فیصد سے کم ہو کر۷ فی صد اور غریب ترین ۱۰ فی صد کا ۵۸.۳ فی صد سے کم ہوکر ۷.۲ فی صد رہ گیا۔
ان مسائل کا حل صرف اس وقت ممکن ہے جب غربت کم کرنے‘ روزگار میں تیزرفتار اضافہ‘ تقسیم دولت کی اصلاح اور افراطِ زر کو لگام دینے کو پالیسی کے اہداف بنایا جائے اور محض قومی پیداوار میں اضافے کو ترقی کی علامت نہ سمجھ لیا جائے۔ اس کے لیے زراعت اور چھوٹی صنعت اور کاروبار کو اولین اہمیت دینا ہوگی اور زندگی کی بنیادی سہولتوں کی سستی فراہمی‘ تعلیم اور صحت کے لیے وسائل کے استعمال اور پیداواری لاگت کو کم کرنے کی پالیسی اختیار کی جانا چاہیے۔ یہ کام معیشت کو محض مارکیٹ اکانومی کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے سے انجام نہیں دیا جاسکتا۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ریاست معیشت میں ایک مثبت کردار ادا کرے اور انصاف کے حصول اور عوام کی خوش حالی کو معاشی پالیسی کا اصل ہدف بنائے۔ اس کے کوئی آثار اس بجٹ میں نظر نہیں آتے۔
۳- افراطِ زر : اس وقت افراطِ زر جو اب ۱۱ فی صد سے زیادہ ہے‘ بے روزگاری جو ۱۰فی صد کی حد چھو رہی ہے اور تجارتی خسارہ جو ۶ ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے سب سے اہم چیلنج ہیں۔ بجٹ کے موجودہ فریم ورک میں ان گھمبیرمسائل کا کوئی حل نظر نہیں آتا۔ یہ پالیسی میں انقلابی تبدیلیوں اور معاشی ترقی کے مثالی نمونے (paradigm )کی مکمل تبدیلی کا تقاضا کرتا ہے جس کا کوئی نام و نشان موجودہ حکومت کی پالیسیوں میں نظر نہیں آتا بلکہ اس تبدیلی کے صحیح ادراک اور اسے بروے کار لانے کی صلاحیت کا بھی فقدان نظر آتا ہے۔ اس کی نگاہ میں ہر مسئلے کا حل ڈی ریگولیشن اور نج کاری ہے۔ نیز ملک کی منڈیوں کو بیرونی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے کھول دینا ہے جو ہماری نگاہ میں حالات کو بگاڑنے کا ذریعہ تو ہو سکتا ہے‘ اصلاح کا موجب نہیں۔
۴- نج کاری:جس طرح نج کاری کی جا رہی ہے‘ وہ تشویش ناک ہے۔ ملک میں اب تک ۱۰۰ کے قریب صنعتوں کی نج کاری ہوچکی ہے۔ ایشین ڈویلپمنٹ بنک کے ایک جائزے کے مطابق ان میں سے صرف ۲۲ ٹھیک کام کر رہی ہیں‘ ۳۰ سے زیادہ بند ہوچکی ہیں جو زمین بیچ کر اپنا کام کر گئیں اور باقی ۴۰‘ ۴۵ کی کارکردگی نج کاری کے دور ماقبل سے بدتر ہے۔ ضرورت ہے کہ نج کاری کے پورے عمل کا آزادانہ جائزہ لیا جائے اور نجی شعبے کے ساتھ پبلک سیکٹر کو بھی باقی رکھا جائے‘ البتہ اسے سیاسی مداخلت اور محض بیوروکریسی کی گرفت سے بچایا جائے اور کارپوریٹ کلچر اور پیشہ ورانہ تقاضوں کے مسلمہ اصولوں کی روشنی میں پیشہ ور انتظامیہ کے ساتھ انجام دیا جائے اور ایک طرف ضروری ترغیبات فراہم ہوں تو دوسری طرف عوامی جواب دہی کے ایک مؤثر اور متحرک نظام کو قائم کیا جائے اور اس طرح ایک ساتھ نیا انتظام و انصرام مرتب کیا جائے۔ دنیا میں اس کے کامیاب تجربات موجود ہیں۔ آخر ہم سرمایہ داری اور استعماری قوتوں کے بتائے ہوئے عالم گیریت اور نج کاری کے نسخے پر آنکھیں بند کرکے کیوں عمل کیے جا رہے ہیں۔
۵- وسائل کی تقسیم: مرکز اور صوبوں کے درمیان وسائل کی صحیح تقسیم اور ملک میں علاقائی ناہمواریوں کی خطرناک صورت حال بھی بنیادی معاشی مسئلے کا درجہ اختیار کرگئی ہے۔ اب بات صرف قومی مالیاتی ایوارڈ کی نہیں‘ بلکہ صوبوں کے اپنے وسائل پر حق ملکیت اور اپنے لیے ترقیاتی منصوبوں کو خود بنانے اور اپنے وسائل کو اپنے علاقے کی بہتری کے لیے استعمال کرنے کے مواقع کی فراہمی کا ہے۔ مالی اور اقتصادی اختیارات کی نچلی سطح پرمنتقلی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
کیا یہ ظلم نہیں کہ سوئی کی گیس سے پورا ملک فائدہ اٹھا رہا ہے لیکن سوئی اور بلوچستان کی آبادی کا بڑا حصہ اس سے محروم ہے۔ سرحد میں گرگری کے مقام پر جو گیس نکلی ہے‘ وہ پورے صوبہ سرحد کی ضرورت پوری کر سکتی ہے۔ اس کے بعد پاکستان کے دوسرے حصوں کو بھی یہ گیس فراہم کی جاسکتی ہے لیکن صوبے کے جنوبی علاقے جن کا پہلا حق ہے وہ محروم ہیں اور گیس نیشنل گرٹ میں ڈالی جارہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اصول طے کرنا ہوگا اور یہ اسلام کا بنیادی اصول ہے کہ معدنی وسائل پر علاقے کے لوگوں کا پہلا حق ہے۔ ضروری ہے کہ کم از کم ۱۵ فی صد گیس اسی ڈسٹرکٹ کو فراہم کی جائے۔ مزید ۱۵ سے ۲۵ فی صد اسی صوبے کو دی جائے اور باقی ملک کے دوسرے حصوں کو فراہم کی جائے۔ اس وقت بلوچستان اور سرحد بحیثیت مجموعی اور سندھ اور پنجاب کے دیہات اور چند علاقے شدید غربت اور وسائل سے محرومی کا شکار ہیں۔ علاقائی عدل و مساوات بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی انسانوں کے درمیان باہمی عدل و مساوات۔
۶- کرپشن:ملک میں کرپشن اور وسائل کو ضائع کرنا مجرمانہ حدود تک پہنچ چکا ہے۔ تمام ملکی اور بین الاقوامی جائزے اس امر پر شاہد ہیں کہ کرپشن میں اضافہ ہوا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے سروے یہی بتا رہے ہیں کہ ہر سطح پر کرپشن میں اضافہ ہوا ہے اور قومی صرفے کا‘ خصوصیت سے ترقیاتی اخراجات کا ۲۵ سے ۴۰ فی صد کرپشن کی نذر ہو رہا ہے۔ خود پلاننگ کمیشن کے ایم ٹی ڈی ایف میں جو مئی ۲۰۰۵ء میں شائع ہوا ہے اعتراف ہے کہ ہر سال قومی دولت کا ۶۵۰ بلین روپیہ ضائع ہو رہا ہے۔اس کے الفاظ میں:
پاکستان زراعت‘ صنعت‘ آبی وسائل‘ تعلیم اور صحت سمیت معیشت کے تقریباً تمام دائروں میں کم سے کم ۶۵۰ ارب روپے سالانہ کا نقصان وسائل کے ضیاع کے باعث اٹھا رہا ہے۔ (ایم ٹی ڈی ایف ۲۰۰۵ئ‘ ۲۰۱۰ء پلاننگ کمیشن‘ ص xviii)
اس میں اگر حکومت کے اخراجات میں کرپشن‘ ضیاع اور اسراف کو شامل کرلیا جائے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ رقم ۸۰۰ بلین پر نہ پہنچ جائے جو اس سال کے بجٹ کے ۸۰ فی صد کے برابر ہے۔ جس قوم کے اتنے وسائل ضائع ہو رہے ہوں‘ وہ پس ماندہ نہ ہو تو کیا ہو‘ اور اس میں عام آدمی کی غربت کے ساتھ امیروں کی ریل پیل نہ ہو تو کیا ہو؟
۷- خودانحصاری: ایک اور بنیادی معاشی مسئلہ ملک کی خودانحصاری کا ہے۔ یہ ہمارے نظریۂ حیات‘ ہماری سیاسی آزادی‘ ہماری ثقافتی شناخت اور معاشی معاملات میں ہماری اپنی ترجیحات کے مطابق معیشت کی تعمیروتشکیل اور بجٹ سازی کے لیے ضروری ہے۔ اُمت مسلمہ کو شہداء علی الناس کا منصب دیا گیا ہے اور یہ غیرمسلم دنیا پر انحصار اور محتاجی کے ساتھ ممکن نہیں۔ اس لیے معاشی ترقی اور اقتصادی نظام کی تشکیل کا ایک اساسی مقصد خودانحصاری کا حصول ہے اور بدقسمتی سے گلوبلائزیشن اور آزاد روی (liberalisation) کے شوق میں ہم اپنی آزادی اور قومی شناخت ہی کو دائو پر لگائے جارہے ہیں۔ نئی معاشی پالیسی میں خودانحصاری کو بھی ایک مرکزی ہدف ہونا چاہیے اور اس کے لیے سودی معیشت سے نجات ضروری ہے۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی گرفت سے نکلنا ہمارے قومی اہداف میں ہونا چاہیے۔ ہم عالمی تجارت اور انسانیت کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کو ضروری سمجھتے ہیں لیکن یہ سب اپنے قومی مقاصد اور ترجیحات کے فریم ورک میں ہونا چاہیے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنے معاملات پر قوت و اختیار رکھتے ہوں اور بیرونی قوتوں کے غلط مطالبات پر ’نہیں‘ کہنے کی ہمت اور صلاحیت رکھتے ہوں۔ جس طرح ہماری معیشت کو عالمی طاقتوں کے ہاتھوں گروی رکھا جارہا ہے‘ وہ ہماری آزادی اور سلامتی کے لیے خطرہ ہے اور قوم کو اس کا ادراک ہونا چاہیے۔
اس پہلو سے بھی موجودہ بجٹ مایوس کن ہے اور جس طرح دوسروں پر انحصار بڑھ رہا ہے بلکہ خود اپنی معیشت میں ان کے عمل دخل کو بڑھانے کا اہتمام کیا جا رہا ہے‘ وہ بہت تشویش ناک ہے۔
ہم اس جائزے کو ختم کرتے ہوئے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پاکستان کے معاشی مقاصد اور اہداف وہ ہیں جو اقبالؒ اور قائداعظمؒ نے تحریکِ پاکستان کے دوران بیان کیے تھے اور جو آج قرارداد مقاصد اور دستور میں ریاستی پالیسی کے رہنما اصولوں کے نام سے بیان کیے گئے ہیں۔ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ:
پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے اور اس کا پہلا اور اولین ہدف اسلامی تشخص کی حفاظت اور ترقی اور ہدایت پر عمل پیرا ہونا اور دنیا کے سامنے اس کا گواہ بننا ہے جو قرآن و سنت کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہے۔
دوسری بنیادی چیز اس ملک میں امن اور قانون کی حکمرانی‘ انصاف کی فراہمی‘ اور تمام انسانوں کو آزادی اور جدوجہد کے مواقع کی برابری کے ساتھ ساتھ بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے تاکہ انسان زمین پر اللہ کے خلیفہ کا کردار ادا کر سکے۔ اس کے لیے مکہ ہمارا ماڈل ہے جس کی قرآن نے یہ کیفیت بیان کی ہے کہ: اَطْعَمَھُمْ مِنْ جُوعٍ وَّاٰمَنَھُمْ مِن خَوْفٍ،بھوک اور خوف‘ جب تک معاشرہ ان دونوں لعنتوں سے پاک نہیں ہوتا‘ نہ معاشی ترقی ہوسکتی ہے اور نہ مہذب معاشرہ وجود میں آسکتا ہے۔ اسلام نے عدل وا نصاف کو انسانی معاشرے کی سب سے بڑی ضرورت قرار دیا ہے اور انبیاے کرام کی بعثت کا مقصد جہاں اللہ کی ہدایت کو انسانوں تک پہنچانا (تعلیم کتاب و حکمت) اور ان کا تزکیہ کرنا ہے‘ وہیں انسانوں کے درمیان انصاف کا قیام (لِیَقُومَ النَّاسَ بِالْقِسْطِ) ان کی اولین ذمہ داری ہے۔
اس لیے ہماری معاشی پالیسی کے مقاصد بھی ہدایت‘ کفالت‘ حفاظت‘ عدالت‘ خدمت‘ وحدت اور خودانحصاری کے سوا کچھ نہیں ہو سکتے۔ اور جب تک معاشی اور ریاستی پالیسی اس نئے محور پر نہیں آتی‘ ظلم‘ غربت‘ ناانصافی اور بے چینی ہمارا مقدر رہے گی۔ وقت کی اصل ضرورت منزل کا صحیح تعین اور اس کی طرف پیش رفت کے لیے قابلِ عمل نقشہ راہ کی تیاری اور سب سے بڑھ کر اس سمت میں سفر اور تمام وسائل کا ایمان دارانہ استعمال ہے تاکہ اس ملک کا ہر شہری عزت کی زندگی گزار سکے‘ کسی کا محتاج نہ ہو‘ انسان انسان کے حقوق پبھی ادا کرے اور اللہ کے بھی کہ یہ ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں ؎
کس نہ گردد در جہاں محتاجِ کس
نکتۂ شرع مبیں ایں است و بس
(کتابچہ دستیاب ہے۔ قیمت: ۵ روپے ، سیکڑے پر رعایت، منشورات‘ منصورہ‘ لاہور-۵۴۷۹۰)