اچھے وقتوں کی بات ہے کہ مائیں اپنے بچوں کو باوضو ہوکر دودھ پلاتی تھیں اور کہتی تھیں کہ اگر تیرے حلق سے کبھی لقمۂ حرام اترا تو تجھے دودھ نہیں بخشوں گی۔ مائیں اس کا اہتمام بھی کرتی تھیں کہ خود ان کے حلق سے بھی لقمہ حرام نہ اترا ہو۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ محاورہ متروک ہونے کے ساتھ ساتھ‘ حرام کے حرام ہونے کا تصور بھی بالعموم ہمارے معاشرے سے متروک ہوگیا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ نیا کلچر بس یہ ہے کہ کسی بھی طرح مال آنا چاہیے اور کھانا پینا چاہیے۔ ع
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
اس حوالے سے حقیقی صورت حال اتنی دگرگوں ہے کہ غالباً بیان اس کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ ڈاکٹروں سے زیادہ مقدس پیشہ کس کا ہو سکتا ہے۔ مریض اس پر اندھا اعتماد کرتا ہے کہ وہ اس کا خیرخواہ ہے لیکن اب یہ بات عام ہے‘ ہر کوئی جانتا ہے اخباروں میں چھپ رہی ہے کہ دواساز کمپنیاں ڈاکٹروں کو نوازنے میں ہرحد پار کر گئی ہیں اور ڈاکٹر حضرات بھی سب حدوں سے آگے چلے گئے ہیں۔ اس حوالے سے کوئی حقائق معلوم کرنے کا کمیشن بنے تو ۱۱/۹ کی تفصیلات سے بھی زیادہ ضخیم رپورٹ تیار ہوجائے۔ مفت سیمپل سے شروع ہونے والی بات اب لیزگاڑیوں کی قسطوں‘ فائیوسٹار ہوٹلوں میں مع فیملی ویک اینڈ‘ بیرون ممالک کے دوروں (بلکہ عمرے کے ٹکٹ) تک پہنچ گئی ہے۔ اس سب کے عوض ڈاکٹر متعلقہ کمپنیوں کی تیار کردہ مہنگی سے مہنگی دوائیں تجویز کرتا ہے۔ دواساز کمپنی سے وابستہ لوگ معروف ڈاکٹروں کا نام لے کربتاتے ہیں کہ ہم نے ان کا اتنا اتنا ہزار ماہانہ باندھ رکھا ہے (اور ہمیں تو کوئی ایک کمپنی والا ہی بتاتا ہے‘ دیگر کمپنیوں کا حساب تو ڈاکٹر خود ہی جانتا ہے)۔
ملتان کے ایک ڈسٹری بیوٹر نے مجھے بتایا: ڈی جی خان تک میرا علاقہ ہے اور کوئی ڈاکٹر بھی پاک نہیں ہے‘ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!
اندازہ تو کریں کہ اس سے زیادہ کمینگی اور سفلہ پن (میرے پاس مزید سخت الفاظ نہیں) کیا ہوسکتا ہے کہ مجبور اور غریب بیماروں سے اس طرح رقمیں نکلوائی جائیں۔ یہ مصدقہ کہانیاں الگ کہ سرجن صاحب پیٹ کھول کر باہر آگئے کہ اندر تو فلاں چیز نکل آئی ہے‘ اتنے ہزار اور دیں ورنہ میں اس کے بغیر ہی سی دیتا ہوں‘ ثم: اناللّٰہ وانا الیہ راجعون۔
دوسری طرف نظر ڈالیں۔ وفاقی حکومت کا ادارہ ہے نیشنل ہائی وے اتھارٹی۔ بائی پاس تعمیر کے لیے زمینیں حاصل کرکے معاوضہ ادا کرتا ہے۔ گذشتہ دنوں میرے ذاتی علم کے مطابق ایک ادایگی میں ادارے نے ایک کروڑ رقم ادا کرنے سے پہلے اپنا حصہ ۳۰ لاکھ نقد وصول کیا۔ کسی نیب کسی انٹی کرپشن‘ کسی گڈ گورننس کی تقریر نے ان کا بال بیکا نہیں کیا۔اس کو ضرب دیں‘ جہاں جہاں حکومت زمینیں لے کر ادایگی کرتی ہے اور اندازہ کریں کہ اس محکمے کے عمال کتنا مال حرام لے جاکر اپنی آل اولاد کو کھلاتے ہیں۔ کسی صحافی بھائی کو فرصت ملے یا اسائنمنٹ ملے تو وہ معلوم کرسکتا ہے کہ حادثات کی صورت میں مرنے والوں اور زخمیوں کو معاوضہ دیا جاتا ہے‘ اس کا کتنا فی صد متعلقہ وارث کو ملتا ہے اور کتنا اوپر اور درمیان میں تقسیم ہوتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ فوری اعلانات کا راز جذبۂ ہمدردی نہیں‘ بلکہ یہ ہے۔
زمانہ جدید ہے ‘اس لیے شاطرانہ مہارت سے ناجائز اور حرام کے نئے نئے طریقے ایجاد ہوئے ہیں۔ پی ٹی سی ایل خود اور دوسروں کے لیے بھی یہ خدمت انجام دیتا ہے کہ انعامات کا لالچ دلا کر معصوم بچوں اور خواتین سے بلکہ پڑھے لکھے سمجھ دار مردوں سے بھی (کہ لالچ میں وہ بھی کسی سے پیچھے نہیں) دھوکا دے کر فون کرائے جاتے ہیں۔ کھلا دھوکا یہ کہ اشتہار میں کسی کونے میں نہایت باریک الفاظ میں لکھا جاتا ہے ۱۴ روپے فی منٹ جو وہ جانتے ہیں کہ لوگ نہیں پڑھیں گے اور انعام کے لالچ میں خوب فون کیے جائیں گے‘ اس لیے کہ سوال بھی ماشاء اللہ یہ ہوتا ہے کہ مزارقائد کراچی میں ہے یا لاہور میں۔ ہر کوئی فون کرتا ہے کہ انعام ملے گا۔پھر لاکھوں میں سے چند ہزار (شاید) بانٹ دیے جاتے ہیں اور سلسلہ جاری رہتا ہے۔ کیا یہ سرکاری سرپرستی میں جوا اور قمار بلکہ فراڈ نہیں لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کوئی پوچھنے والا نہیں۔
اس طرح کوئی بھی شعبہ دیکھ لیں‘ اسٹاک مارکیٹ اور پراپرٹی تو بڑے اسکینڈل ہیں۔ ملک میں کون سا کام اس ناجائز اور حرام کے بغیر ہو رہا ہے۔ کون سا دفتر کون سا محکمہ اس سے پاک ہے۔ ہفت روزہ ایشیا(۶ تا ۱۵ جون ۲۰۰۵ئ)میں جیل کے ایک قیدی کا رونگٹے کھڑے کر دینے والا خط شائع ہوا ہے کہ کس بے دردی سے قیدیوں سے جیل کا عملہ رشوت وصول کرتا ہے۔
بات اس سے شروع ہوئی تھی کہ حرام کو حرام سمجھنے کا کلچر تبدیل ہوگیا ہے اور حلال حرام کی تمیز اٹھ گئی ہے۔ اس وقت صرف مالی پہلو زیربحث ہے‘ ورنہ حلال حرام زندگی کے ہر دائرے میں ہے۔ ہر جگہ ہی تمیز اٹھتی جارہی ہے۔ آپ خود ہی اندازہ کریں کہ معاشرے میں کتنے لوگ ہیں جو یہ خیال رکھتے ہیں کہ ان کے اور ان کی اولاد کے منہ میں حرام کا لقمہ نہ جائے۔ یقینا ابھی ایسے لوگ موجود ہیں اور ان کی وجہ سے یہ معاشرہ عذابِ الٰہی کی ایسی گرفت میں نہیں آیا ہے کہ مٹا دیا جائے لیکن عام صورت حال کا اندازہ آپ ان چند مثالوں سے کرسکتے ہیں جس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔
حرام اور رشوت کا کیا اثر ہوتا ہے۔قرآن میں بنی اسرائیل کے حوالے سے اس کے لیے سحت کا لفظ آیا ہے جس کے معنی جڑ کٹ جانے کے ہیں۔ جس معاشرے میں رشوت ایسے عام ہو جس کا تجربہ اور مشاہدہ ہم کو براہِ راست بھی ہوتا ہے اور واقعات علم میں آتے ہیں اور اخبارات کے ذریعے عام بھی ہوتے ہیں‘ یوں کہیں کہ شیرمادر کی طرح پی جاتی ہے‘ وہ معاشرہ کھوکھلا ہوتا رہتا ہے اور بالآخر اس کی جڑ کٹ جاتی ہے۔
حرام عام ہو جانا ہی اس کی وجہ ہے کہ دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔کیا ہمارے معاشرے میں دعائیں کرنے میں کچھ کمی ہے۔ لوگ مکہ مدینہ جاکر روتے ہیں‘ گڑگڑاٹے ہیں لیکن اثر نہیں ہوتا۔ دعا منہ پر مار دی جاتی ہے۔ حدیث کے مطابق بندہ کہتا ہے: اے رب! اے رب! لیکن اس کی نہیں سنی جاتی کیونکہ اس کا کھانا حرام ہے‘ اس کا پینا حرام ہے‘ اس کا لباس حرام ہے۔ جس غذا سے اس کے رگ ریشے پٹھے بنتے ہیں‘ حرام ہے۔حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے ایک موقع پر رسولؐ اللہ سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں مستجاب الدعوات ہوجائوں تو آپؐ نے ان سے فرمایا: حلال کھانے کا اہتمام کرو‘ تمھاری دعائیں قبول ہوں گی۔
یہ حلال حرام کا مسئلہ کوئی ذاتی یا انفرادی نہیں‘ قومی مسئلہ ہے۔ اگر کسی جادو کی چھڑی سے اس معاشرے کا ہر فرد صرف حلال پر اکتفا کرے اور حرام سے پرہیز کرے تو آپ چشم تصور سے دیکھ سکتے ہیں کہ گڈگورننس بھی آجائے گی‘ ٹیکس نصف ہوجائیں گے اور ترقیاتی کام دگنے بلکہ چوگنے ہوجائیں گے۔ مہنگائی ختم ہوجائے گی۔ معاشرے میں سکون ہوگا۔ جن ناجائز دوڑوں میں اچھے بھلے سب لوگ لگے ہوئے ہیں‘ وہ ختم ہوجائیں گی۔ دنیا کی زندگی بھی پرسکون گزرے گی اور آخرت میں بھی مغفرت اور نجات کی توقع کی جا سکے گی۔ لیکن کس طرح؟ یقینا ترغیب اور دعوت بھی ہو‘ لیکن اگر حیثیت و مقام کا لحاظ کیے بغیر چند مصدقہ مجرموں کو عبرت ناک سزا دی جائے تو یہ کلچر تبدیل ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ کلچر وہ کیوں تبدیل کریں‘ جو اسے رائج کیے ہوئے ہیں۔
ضرورت ہے کہ قوم کے بہی خواہ ایسی کوئی تحریک چلائیں کہ پھر سے حرام کو حرام سمجھنے کا کلچر عام ہو۔ اس حوالے سے حس اتنی تیز ہوجائے کہ بچے والدین سے خود کہیں کہ پیارے ابو‘ خدا کے لیے ہمیں حرام مت کھلائو۔ بیویاں شوہروں کو بتا دیں کہ حلال کی روکھی سوکھی حرام کے پراٹھوں سے بہتر ہے۔ حرام کھانے والے‘ معاشرے میں معزز نہیں‘ ذلیل ہوں۔ حرام کھانے کے راستے بند کیے جائیں‘ حرام کھانے والوں کی گرفت ہو‘ تعزیر ہو‘ کڑی سزائیں انھیں ملیں۔ اگر مجرم کو یقین ہو کہ وہ بچ نہ سکے گا‘ تو ارتکابِ جرم کا حوصلہ کرنے والے بہت کم رہ جائیں گے۔ (اس وقت تو اسے اپنے بھائی بندوں کی طرف سے تحفظ کا یقین حاصل ہوتا ہے۔)
ہمارے دستور کے مطابق یہ حکومت کے فرائض میں سے ہے کہ وہ ایسے اسباب پیدا کرے کہ ملک کے شہری حرام سے محفوظ رہیں لیکن اگر ارباب حکومت اس سے پہلوتہی کریں (بلکہ حرام عام کرنے میں لگ جائیں) تو معاشرے کے تمام عناصر اخبارات‘ میڈیا‘ استاد‘ طلبہ‘ امام‘ خطیب‘ ممبران اسمبلی ہر کوئی اس تحریک کے حوالے سے ایک عزم کے ساتھ آگے بڑھے (پہلے خود اپنے کو پاک کرے‘ پھر انگلی اٹھائے) تو حلال کی برکات بچشم سر نظر آئیں گی۔
ایک حدیث کے مطابق ایک پیلو کی لکڑی کے برابر بھی کسی کا کوئی حق غصب کیا ہو تو روز قیامت ادا کیے بغیر چھٹکارا نہیںہوگا۔