جولائی۲۰۰۵

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| جولائی۲۰۰۵ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

ہیومیوپیتھک ادویات میں الکوحل کا استعمال

سوال: حضرت وائل بن حجر حضرمیؓ سے روایت ہے کہ طارق بن سویدؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شراب کے بارے میں دریافت کیا تو آپؐ نے ان کو شراب پینے سے منع فرمایا۔ انھوں نے عرض کیا کہ میں تواس کو دوا کے لیے استعمال کرتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا کہ وہ دوا نہیں ہے بلکہ بیماری ہے(مسلم)۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہیومیوپیتھک ادویات الکوحل سے ہی بنتی ہیں اور اس کی طاقتوں کو بڑھانے کے لیے ۹۹فی صد الکوحل اور ایک فی صد دوا استعمال ہوتی ہے اور یہ بھی شفایابی کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ دوسری طرف دیکھاجائے (جو کہ بعض لوگ ہیومیوپیتھی کو صحیح ہونے کی دلیل دیتے ہیں) کہ ایلوپیتھک ادویات میں بھی کثیر مقدار میں الکوحل استعمال ہوتی ہے‘ جیسے سکون آور ادویات اور کھانسی کے شربت وغیرہ۔ سعودی عرب میں بھی شعبہ طب کے حوالے سے اسے صحیح نہیں سمجھا جاتا اور قانوناً اس کا استعمال جرم ہے۔ اس صورت حال میں یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کی پریکٹس نہ کی جائے۔

میں نے شراب سے متعلق دیگر احادیث بھی پڑھی ہیں۔ ان کے مطابق صرف وہ شراب حرام ہے جو نشہ پیدا کرے۰ لیکن ہیومیوپیتھک ادویات نشہ نہیں پیدا کرتیں‘ بلکہ شفایاب کرتی ہیں۔ میں خود ہیومیوپیتھک ڈاکٹر ہوں لیکن اس مسئلے کی وجہ سے پریشان ہوں اور پریکٹس نہیں کر پارہی۔ آپ رہنمائی فرمائیں۔

جواب: دورحاضر کے علما نے تحقیق کے بعد اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ ایسی دوائوں کا استعمال جن میں الکوحل شامل ہو‘ جائز ہے۔ مفتی دارالعلوم دیوبند مفتی نظام الدین فرماتے ہیں: ابتدائی دور میں الکوحل شراب کا جوہر یا پھر شراب کی تلچھٹ ہوتا تھا‘ اس لیے فقہا نے اُسے شراب کے زمرے میں شمار کر کے اس کو ناپاک اور حرام قرار دیا تھا اور اس کے عمومی اور دوا میں استعمال کو ناجائز قرار دیا تھا۔ مگر اب الکوحل سائنٹفک طریقے سے بننے لگی ہے۔ اس طرح وہ شراب نہیں رہتی بلکہ سرکے کے حکم میں آجاتی ہے اس لیے اس کا استعمال جائز ہے‘‘۔ البتہ اگر یہ بات ثابت ہوجائے کہ الکوحل شراب کا جوہر یا تلچھٹ ہے تو پھر اس کا استعمال ممنوع ہوگا۔

مولانا گوہر رحمن فرماتے ہیں: الکوحل خود نشہ آور اور حرام ہے لیکن دوائوں میں استعمال ہونے والی الکوحل سے نشہ آور مادہ کیمیائی عمل کے ذریعے ختم ہوجاتا ہے۔ فقہا کی تصریح کے مطابق‘ شراب سے اگر سرکہ بنا لیا جائے تو اس کا استعمال جائز ہے۔ ناپاک تیل‘ ناپاک چربی اور مُردار کی چربی سے جو صابن بنایا جائے وہ انقلابِ ماہیت کے سبب پاک ہے۔ اسی طرح الکوحل ملی ہوئی دوائیوں کا استعمال بھی جائز ہونا چاہیے۔

شراب کی اصل حقیقت نشہ آور ہونا ہے‘ دوائوں میں ملانے سے نشہ آور ہونے کی خاصیت اڑ گئی تو شراب ہونے کی خاصیت بھی ختم ہوگئی اور صفت بدلنے سے حکم بھی بدل گیا۔ (تفہیم المسائل‘ ج اول‘ ص ۲۶۴)

لہٰذا آپ ہیومیوپیتھی طریقۂ علاج کو شرح صدر کے ساتھ جاری رکھیں۔ ہیومیوپیتھی دوائیں تیار کرنا‘ ان کا استعمال اور ان کی خرید و فروخت‘ سب جائز ہے۔ (مولانا عبدالمالک)


زکوٰۃ کی رقم سے اسکول کی تعمیر

س: ایک تحریکی ساتھی نے غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے زیرانتظام‘ اپنے ہاں عصری تعلیم کے لیے ایک اسکول بنوایا ہے۔ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ اپنے طور پر مخیر حضرات سے مرکزی اور صوبائی سطح پر زکوٰۃ‘ صدقات‘ اعانت اور چرم قربانی وصول کرتا ہے‘ جب کہ مذکورہ بالا تحریکی بھائی نے دارالقرآن اور المحصنات للبنات کے نام سے رسیدیں بنوا رکھی ہیں اور تحریکی قائدین سے اپنے کام کو بڑھانے کے لیے تزکیہ بھی لے رکھا ہے۔ مگر موقع پر نہ دارالقرآن کا وجود ہے اور نہ المحصنات للبنات کا۔ وضاحت فرمایئے :کہ ۱-کیا ایک ادارے کی رقم دوسرے ادارے پر خرچ ہوسکتی ہے؟

۲-کیا مخیرحضرات کی رقوم جو کہ خالصتاً دینی امور پر خرچ کرنے کے لیے دی جاتی ہیں غزالی اسکول کی تعمیروترقی پر خرچ ہو سکتی ہیں‘ جب کہ طلبہ و طالبات سے داخلہ فیس اور مناسب ماہانہ ٹیوشن فیس بھی وصول کی جاتی ہے؟

واضح رہے کہ مخیر حضرات اپنی رقوم دیتے وقت تخصیص بھی کرتے ہیں کہ اتنی رقم دارالقرآن کے لیے اور اتنی رقم المحصنات للبنات کے لیے مختص ہے۔

قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دے کر یہ بھی صراحت فرمایئے کہ ایسا کرنا جائز ہے یا ناجائز؟

ج: زکوٰۃ کے مصارف قرآن پاک میں متعین کر دیے گئے ہیں۔ ان میں تبدیلی کی گنجایش نہیں ہے۔ ان مدات میں ۱-فقرا‘ ۲-مساکین‘ ۳-عاملین زکوٰۃ‘ ۴- تالیف قلب‘ ۵- غلاموں کو آزاد کرنا‘ ۶- غَارِمِیْن‘ یعنی وہ لوگ جو قرض یا کسی دیگر مالی معاملے میں بوجھ تلے دبے ہوں‘ ۷-فی سبیل اللہ اور ۸- مسافر۔ (التوبہ ۹:۶۰)

فی سبیل اللہ میں جہاد‘ اقامت دین کی جدوجہد اور قرآن و حدیث کی تعلیم شامل ہے۔ لکھائی پڑھائی‘ اسکول‘ کالج اور یونی ورسٹی کی تعلیم جو مسلمان اور کافر سب حاصل کرتے ہیں وہ فی سبیل اللہ میں شامل نہیں ہے۔ اس لیے غزالی اسکول زکوٰۃ کی رقم اپنی تعمیرات‘ اسکول کی ضروریات اور اساتذہ کی تنخواہوں وغیرہ کے لیے جمع نہیں کرسکتا۔

۲- جو رقم جس ادارے کے لیے حاصل ہو‘ اسے اسی ادارے پر صرف کرنا لازم ہے‘ اور اگر کوئی ادارہ موجود نہیں ہے اور اس کے نام پر زکوٰۃ جمع کر کے کسی دوسرے ادارے پر صرف کی جاتی ہے تو یہ بددیانتی اور خیانت کے زمرے میں آتا ہے۔ اس طرح کی برائی کا فی الفور خاتمہ کرنا چاہیے۔ جو صاحب اس کے مرتکب ہوں ان کے لیے پہلا حکم تو یہ ہے کہ رقم واپس کریں‘ تاکہ اسے اُس ادارے پر صرف کیا جائے جس کے لیے رقم اکٹھی کی گئی ہے۔ بصورتِ دیگر یہ رقوم دینے والوں کو واپس کی جائیں۔ اس کے بعد وہ جس مصرف کے لیے دینا چاہیں‘ ان سے اس مصرف کے لیے وصول کریں اور اسی میں صرف کیا جائے۔(ع - م)


حج کی تڑپ اور وسائل کی کمی

س: مجھے عمرے کی سعادت بفضل خدا تعالیٰ نصیب ہوچکی ہے۔ حرم پاک میں گزرے ہوئے لمحات و واقعات اور عبادات کا انہماک یہی وہ جذبہ ہے جو حج کے لیے بار بار اُکسا رہا ہے۔ مگر وسائل کی کمی آڑے آرہی ہے۔ چنانچہ درج ذیل صورتوں میں اگر وسائل میسرآسکیں تو ان کے استعمال سے حج شرعاً جائز ہوسکتا ہے یا نہیں۔

۱- جی پی فنڈ سے رقم نکلوا کر حج کرنا۔

۲- ایڈوانس تنخواہیں لے کر ۔ آج کل بنک ایڈوانس تنخواہ دیتے ہیں جس پر ۱۱ یا ۱۴    فی صد سود لیتے ہیں۔

۳- اپنی کوئی ذاتی ملکیت کی چیز رہن رکھ کر‘ مثلاً زرعی رقبہ‘ رہن رکھنا یا بیوی کی اجازت سے اُس کے زیور رہن رکھنا۔

ج: عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے بعد حج مبرور کی طلب اور تڑپ مبارک ہو!

اللہ تعالیٰ نے اپنے جس بندے کو اپنے گھر میں بلانا ہوتا ہے‘ اس کے دل میں اپنی اور اپنے گھر کی محبت پیدا کر دیتے ہیں اور جب محبت شباب کو پہنچتی ہے تو بلاوا آجاتا ہے اور اسباب و وسائل بھی میسر آجاتے ہیں۔ حلال اور طیب مال سے حج کی سعادت حاصل کرنے کی فکر اللہ تعالیٰ کا  فضل و کرم ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ وہ آپ کو حج کی سعادت بھی عطا فرما دیں گے۔ آمین!

جہاں تک آپ کے سوالات کا تعلق ہے تو مختصر جواب یہ ہے کہ جی پی فنڈ میں ملازم کی تنخواہ اورادارے کی طرف سے اس کے برابر جمع کردہ رقم تو اس کی ملازمت کا عوض ہے۔ اگر وہ اتنی مقدار میں مل سکتی ہو کہ اس سے حج کی سعادت حاصل کی جاسکتی ہو اور حج سے واپسی تک‘ اہل و عیال کے نان و نفقہ کا انتظام بھی موجود ہو‘ توپھر اس رقم سے حج کیا جا سکتا ہے۔ جی پی فنڈ میں ملازم اور ادارے کی طرف سے جمع کردہ رقم تو سود کے شائبے سے پاک ہے‘ اس کو وصول کرنا اور اس سے حج کرنا تو بلاشبہہ جائز ہے۔ البتہ ادارہ اس رقم کو بنک میں جمع کر کے اس پر سود بھی حاصل کرتا ہے اور جب ملازم کو وہ جی پی فنڈ جاری کرتا ہے تو اس میں یہ رقم بھی شامل ہوتی ہے۔ اس کے سود ہونے کے بارے میں فقہا کا اختلاف ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ رقم سود کے نام سے ادارے کو   ملی ہے اور ادارہ اس رقم کو اسی نام سے ملازم کو دیتا ہے۔ لہٰذا اس رقم کو مصارف حج میں شامل نہ کیا جائے بلکہ مستحق فقرا پر صدقہ کر دیا جائے۔ اس لیے کہ سود کی اس رقم کے اصل حق دار تو وہ لوگ ہیں جن سے جی پی فنڈ کی رقم پر سود حاصل کیا گیا ہے۔ لیکن ان افراد کا پتا چلانا ممکن نہیں ہے اور شرعی ضابطہ یہ ہے کہ جب کسی مال کا مالک معلوم نہ ہو تو وہ ’’لقطہ‘‘ (گری پڑی چیز) کے حکم میں ہوتا ہے۔ ایسے مال کو اصل مالک کی طرف سے فقرا اور مساکین کو دے دیا جاتا ہے۔ اس لیے یہ رقم ادارہ اور بنک میں نہ چھوڑی جائے بلکہ اسے ادارے سے لے کر فقرا کو دے دیا جائے۔ سود کی رقم کو فقرا کو دینا ان لوگوں تک پہنچانے کے مترادف ہوگا جن سے اس جی پی فنڈ کی رقم پر سود لیا گیا ہے۔

۲- ایڈوانس تنخواہ پر ۱۱ یا ۱۴ فی صد سود دینا پڑتا ہے۔ لہٰذا حج کے لیے اس صورت کا تصور ذہن سے نکال دیجیے۔

۳- اسی طرح رہن رکھ کر بنک سے قرض لینے پر بھی سود لیا جاتا ہے اس لیے یہ بھی ناجائز ہے۔ یہ بات ہم سب کو ذہن نشین کرنا چاہیے کہ حج کا مقصد تو اللہ تعالیٰ کی محبت میں لبیک اللھم لبیک کہتے ہوئے بیت اللہ شریف کی طرف احرام کی حالت میں نکل کھڑے ہونے کا نام ہے۔ لہٰذا خبیث اور ناپاک مال کو حاصل کرنا‘ پھر اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی محبت کا اظہار کرنا‘ اللہ تعالیٰ سے دعواے محبت کے منافی بلکہ دین کے ساتھ استہزا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت کو آدمی اپنے دل میں اس طرح پرورش دے کہ سودی رقم سے حج کر کے بے اعتدالی اور بے راہ روی کا شکار نہ ہوجائے۔

نہ صرف حج‘ بلکہ تمام دینی و دنیاوی کاموں میں سود کی رقم کے استعمال سے حتی الامکان بچنا چاہیے۔(ع - م)


جامعات کا ماحول اور دینی تعلیم

س:’’رسائل و مسائل‘‘ (جنوری ۲۰۰۵ئ) میں ’’خواتین اور دعوت دین میں رکاوٹیں‘‘ کے تحت پیش کی گئی رائے سے اتفاق نہیں۔ والدین اگر بچیوں کو یونی ورسٹی میں حصولِ تعلیم کی اجازت نہیں دیتے تو بجا ہے۔ اس لیے کہ جامعات کا عربی اور قرآن و سنت کے حوالے سے معیار ناقابلِ اطمینان ہے‘ جب کہ دینی مدارس اس حوالے سے ایک معیار تسلیم کیے جاتے ہیں۔ عموماً جامعات کی تعلیم لادینی اور مخلوط ماحول میں ہوتی ہے جو شرعاً صحیح نہیں اور والدین کے لیے عدمِ اطمینان کا باعث بھی ہے۔ لہٰذا خواتین کے لیے دینی مدارس کو ترجیح دینا ہی بہتر ہے۔ خواتین کا بنیادی فریضہ گھر اور بچوں کی تربیت ہے‘ جب کہ ہمارے ہاں تعلیم ملازمت کے حصول کے لیے حاصل کی جاتی ہے۔ چنانچہ یونی ورسٹی وغیرہ میں خواتین کے حصولِ تعلیم پر اس قدر زور دینا مناسب نہیں۔

ج:کسی بھی شخص کو دلیل اور تجزیے کی بنیاد پر کسی بھی رائے سے اختلاف کا پورا حق ہے۔ لیکن دینی مدارس اور سرکاری یا غیر سرکاری جامعات سے سندِفراغت لینے والے‘ عربی اور اسلامیات کے شعبوں کے طلبہ و طالبات کی علمی صلاحیت کے بارے میں عمومی فتویٰ شاید کچھ زیادتی ہے۔ میرے اپنے طلبہ میں ایسے افراد شامل ہیں جو کسی دینی مدرسے سے فارغ نہ تھے‘ لیکن انھوں نے ایم اے کا مقالہ عربی زبان میںتحریر کیا جسے عرب ممتحنین نے جانچا اور معیاری قرار دیا۔ ان طلبہ اور طالبات میں سے بعض اس وقت اندرون و بیرون ملک تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

ہاں‘ یہ بات درست ہے کہ سرکاری جامعات میں ایم اے اسلامیات کے نصاب میں چونکہ عربی پر عبور نہ شرط ہے اور نہ اس کے لیے دوران تعلیم کوئی اہتمام کیا جاتا ہے اس بنا پر کسی کا اسلامیات میں کسی جامعہ سے ایم اے کرنا‘ عربی پر عبور کی دلیل نہیں ہوسکتا۔ گذشتہ ۳۵ برس میں جن فارغ التحصیل حضرات کے انٹرویو مَیں نے خود کیے ہیں‘ ان میں یہ معاملہ محض سرکاری جامعات نہیں‘ بلکہ خود دینی مدارس سے فارغ التحصیل حضرات کے ساتھ بھی پیش آیا ہے اور وہ عربی میں تقریباً یکساں معیار کے پائے گئے ہیں۔ الا ماشاء اللہ!

میری گزارشات نظری نہیں‘ بلکہ عملاً تین دہائیوں سے زائد عرصے سے شعبۂ تعلیم سے وابستگی کی بنا پر ہیں۔

جامعات کے ماحول کا مجھے پوری طرح علم ہے لیکن کیا اس بنا پر اصلاح کے عمل کا آغاز ہی نہ کیا جائے۔ کیا اس ملک میں ایسی ہزاروں لاکھوں بچیاں آج موجود نہیں ہیں جو انھی جامعات سے مختلف مضامین میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے ساتھ‘ اسلام کی دعوت دینے اور اس پر خود عامل ہونے کی اعلیٰ مثالیں پیش کرتی رہی ہیں‘ اور آج انھی میں سے  بعض‘ پارلیمنٹ میں اسلامی تشخص کے ساتھ ملک کے معاشرتی‘ سیاسی‘ تعلیمی اور معاشی مسائل پر‘ بربناے علم و تجربہ مناسب مشورہ دینے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔

والدین کے نقطۂ نظر سے اپنی اولاد کا تحفظ اور خصوصاً دین و حیا کی فکر ایک فطری امر ہے لیکن یہ سمجھنا بے بنیاد ہے کہ ہر طالبہ جو یونی ورسٹی میں داخلہ لے گی معصیت کی مرتکب ہوکر رہے گی‘ اور ہر وہ طالبہ جو بی اے یا میٹرک کرکے گھر میں بیٹھ رہے گی‘ لازماً تقویٰ‘ علم اور معروف کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہوگی۔

بلاشبہہ‘ اسلام نے ایک معاشرتی ترجیحی حکمت عملی تجویز کی ہے۔ لیکن خود گھر کے اندر اسلام پر عمل کرنے اور کرانے کے لیے بھی خاتونِ خانہ کو اعلیٰ ترین تعلیم کی ضرورت ہے۔ اسلام نے عورت کو نہ صرف اس کی اجازت دی‘ بلکہ ترغیب دی ہے کہ وہ اپنے دین‘ نسل اور عقل کے تحفظ کے لیے علم حاصل کرے۔

ممکن ہے بعض صورتوں میں ایسا ہی ہو کہ یونی ورسٹی میں تعلیم کا مقصد محض اسناد کا حصول ہے۔ لیکن چند افراد کی اس محدود اور جامد فکر کی بنا پر مصالح عامہ کے خلاف‘ خواتین کو حصولِ علم کے اعلیٰ مواقع سے محروم کر دینا دین کے مقاصد کے منافی ہے۔ اگر موجودہ تعلیمی مراکز میں بعض پہلو کمزور ہیں تو اس کمی کو دُور کیجیے‘ جامعات کے معیار کو بلند کیجیے‘ وہاں ایسے اساتذہ لایئے جو علم پر پورا عبور رکھتے ہوں۔ طالبات کے لیے ایسی جامعات بنایئے جہاں پورے کا پورا عملہ صرف خواتین پر مشتمل ہو۔ لیکن جب تک یہ سارے کام بحسن و کمال پورے نہ ہو جائیں‘ طالبات کو اعلیٰ تعلیم سے محروم کرنے کی غلطی نہ کریں۔(ڈاکٹر انیس احمد)