اصولی حیثیت سے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ شرعی مسائل میں کسی شخص یا گروہ کا کسی خاص طریق تحقیق و استنباط یا کسی مخصوص مذہبِ فقہی کی پیروی کرنا اور چیز ہے اور اس کا اپنے اس خاص طریقے یا مذہب کے لیے متعصب ہونا اور اس کی بنا پر جتھے بندی کرنا اور اس سے مختلف مذہب رکھنے والوں سے مغائرت و منافرت برتنا اور اس کی پابندی ترک کرنے والوں کو اس طرح ملامت کرنا کہ گویا ان کے دین میں کوئی نقص آگیا ہے‘ بالکل ایک دوسری چیز ہے۔ پہلی چیز کے لیے تو شریعت میں پوری پوری گنجایش ہے‘ بلکہ خود صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم کے طرز عمل سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے اور دین میں اس سے کوئی خرابی رونما نہیں ہوتی۔ لیکن دوسری چیز بعینہٖ وہ تفرق فی الدین ہے جس کی قرآن میں مذمت کی گئی ہے‘ اور اس تفرق کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ لوگ فقہی مسائل ہی کو اصل دین سمجھ بیٹھے ہیں‘ پھر ان مسائل میں ذرا ذرا سے اختلاف پر ان کے درمیان الگ الگ اُمتیں بنتی ہیں‘ پھر ان فروعی بحثوں میں وہ اس قدر الجھتے اور ایک دوسرے سے بیگانہ ہوجاتے ہیں کہ ان کے لیے اُمت مسلمہ کی زندگی کے اصل مقصد (یعنی اعلاے کلمۃ اللہ اور اقامت دین) کی خاطر مل کر جدوجہد کرنا غیرممکن ہوجاتا ہے۔
… رفع یدین کرنا یا نہ کرنا‘ آمین زور سے کہنا یا آہستہ کہنا‘ اور ایسے ہی دوسرے امور صرف اسی وقت تک شرعی اعمال ہیں جب تک کوئی شخص ان کے ترک یا فعل کو اس بنا پر اختیار کرے کہ اس کی تحقیق میں صاحبِ شریعت سے ایسا ہی ثابت ہے‘ یا یہ کہ ایسا کرنا دلائل شرعیہ کی بنا پر ارحج اور اولیٰ ہے۔ مگر جب یہی اعمال کسی مخصوص فرقے کے شعائر بن جائیں اور ان کا ترک یا فعل وہ علامت قرار پائے جس کی بنا پر یہ فیصلہ کیا جانے لگے کہ آپ کس فرقے میں داخل اور کس سے خارج ہیں اور پھر انھی علامتوں کے لحاظ سے یہ طے ہونے لگے کہ کون اپنا ہے اور کون غیر‘ تو اس صورت میں رفع یدین کرنا اور نہ کرنا یا آمین زور سے کہنا یا آہستہ کہنا یا ایسے ہی دوسرے امور کا ترک اور فعل دونوں یکساں بدعت ہیں اور بدترین قسم کی بدعت ہیں۔ اس لیے کہ سنت رسولؐ اللہ میں بجاے خود تو ان اعمال کا ثبوت ملتا ہے‘ لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ ان اعمال کو مسلمانوں کے اندر گروہ بندیوں اور فرقہ سازیوں کے لیے علامات اور شعائر بنایا جائے۔ ایساکرنا دراصل حدیث کا نام لے کر صاحب حدیث علیہ السلام کے منشا کے بالکل برعکس کام کرنا ہے اور اس اصل کام کو غارت کرنا ہے جس کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے تھے۔ (’’رسائل و مسائل‘‘، ابوالاعلیٰ مودودی‘ ترجمان القرآن‘ جلد۲۷‘ عدد ۱-۲‘رجب و شعبان ۱۳۶۴ھ‘ جولائی و اگست ۱۹۴۵ئ‘ص ۸۴-۸۵)