تاریخ میں قومیں فروخت کرنے کا ریکارڈ ملتا ہے اور سستی فروخت کرنے کا ثبوت تو علامہ اقبال نے چہ ارزاں فروختند کہہ کر نقش کر دیا ہے۔ لیکن ہمارے حکمران جتنی فروخت کرچکے ہیں اور بقایا فروخت کرنے کے لیے جتنے بے تاب اور بے چین ہیں اس کی مثال غالباً تاریخ میں مشکل سے ملے گی۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ قوموں کی آواز کو زبان دینے والے معلوم نہیں کس خوابِ خرگوش میں ہیں۔ آپ کے ’’اشارات‘‘ اپنی جگہ‘ ہمارے نامی گرامی ادیب و شاعر کہاں ہیں؟ ایسی نظمیں‘ قطعے اور کارٹون نظر نہیں پڑتے کہ اس سرے سے ا س سرے تک آگ لگا دیں۔ ہمارے صدر تو کشمیر طشتری میں لیے بیٹھے ہیں۔ لیکن بھارت طشتری میں لینے کی بھی قیمت مانگ رہا ہے۔ آخر کو بنیا ہے۔
ڈاکٹر عبدالمنعم نے ’’مسلمان معالج: ذمہ داریاں اور تقاضے‘‘ (جون ۲۰۰۵ئ) میں مسلمان ممالک میں ڈاکٹروں کے حوالے سے بہت اہم امور کی طرف متوجہ کیا ہے۔ ہمارے ہاں ہسپتالوں میں اور عام علاج معالجے میں دوسرے معاشرتی دائروں کی طرح شرعی تقاضوں کا لحاظ اٹھتاجا رہا ہے۔ حیا بھی ایک اضافی قدر ہوگئی ہے جس کے معانی ڈاکٹر اور مریض یا مریضہ خود طے کرتے ہیں۔ ہسپتالوں کے متعدد واقعات اخبارات کی زینت بن چکے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب سارا تن داغ دار ہو تو علاج کہاں سے شروع کیا جائے؟
سلیم منصور خالد صاحب نے ’آغا خان بورڈ‘ (ستمبر ۲۰۰۴ئ) سے جس جہاد کا آغاز کیا تھا‘ اسے ’’روشن خیال‘‘ تعلیم (جون ۲۰۰۵ئ) عنوان سے بہ خوبی جاری رکھا ہے۔ انھوں نے واقعات و حقائق کے آئینے میں بڑی کربناک تصویر پیش کی ہے۔ پڑھنے والا سوچتا رہ جاتا ہے کہ ہم نے پاکستان کیا اس لیے بنایا تھا؟
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک کے حکمران ملک کو ایسی راہ پر لے جا رہے ہیں اور نہایت تیزی سے لے جارہے ہیں جو ملک کے باشندوںکی ضمیر کی آواز کے خلاف ہے۔ لیکن جیسے کوئی ان کو روک نہیں رہا‘ ان کا ہاتھ نہیں پکڑ رہا۔
یقینا یہ حکمران ہماری بداعمالیوں کی سزا میں ہم پر مسلط کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ استغفار کی مہم چلائی جائے‘ گلی گلی محلے محلے یہ پکار ہو کہ اللہ کے بندو! اللہ سے بخشش مانگو‘ اس کی طرف پلٹو‘ وہی عزت دینے والا ہے۔ نیک اعمال اختیار کرو تو اچھے حکمران ملیں گے۔ میرا ذاتی تاثر ہے کہ ہم بحیثیت قوم اس پہلو سے متوجہ نہیں ہیں‘ پھر اللہ ہماری طرف توجہ کیوں کرے؟
۱۰۰ صفحات قارئین کے نام ہوتے ہیں اور صرف دو صفحات ’’مدیر کے نام‘‘۔جون کے شمارے میں آپ نے وہ بھی ضبط کرلیے۔ گزارش ہے کہ آیندہ چار صفحے دے کر حساب برابر کیا جائے۔
نجی تعلیمی اداروں میں ٹیچروں کا آنا جانا رہتا ہی ہے کیونکہ دونوں طرف سے بہتر کی تلاش جاری رہتی ہے۔ الوداع ہونے والے معلم یا معلمہ کو تحفہ دینے کا رواج ہے۔ ہم نے یہ اہتمام کیا ہے کہ الوداع ہونے والے کے نام سال بھر کے لیے ترجمان القرآن جاری کروا دیتے ہیں۔ یوں تحفے کے ساتھ ساتھ تذکیر و تربیت کاسامان بھی ہو جاتا ہے جو ٹیچر چاہے تو جاری رکھ سکتا ہے۔
ترجمان القرآن: اسکولوں‘ کالجوں اور جامعات میں مختلف مقابلوں میں انعامات دیے جاتے ہیں۔یہ ایک ایسا انعام ہے جو ۱۲ ماہ تک چلتا ہے۔ اسی طرح دیگر مواقع کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ شرط نیت و ارادہ ہے۔
خواتین میں دینی شعور پیدا کرنے اور ملک و ملّت کے مسائل سے آگہی میں مسجد اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ مگر اس وقت ہماری بیشتر مساجد کے دروازے خواتین پر بند ہیں۔ دوسرے مسلم ممالک میں خواتین کا مساجد میں آنا ایک معمول کی بات ہے۔ ان کی آمدورفت کا راستہ اور حصہ علیحدہ ہوتا ہے۔ اگر ہماری خواتین نماز‘ خطبات جمعہ و عیدین کے لیے ستروحجاب کی شرعی حدود کے ساتھ مسجدوں میں آنا جانا شروع کریں تو اس سے بہتر تبدیلی آئے گی۔ خواتین ہر کام اور ضرورت کے لیے باہر آرہی ہیں تو مساجد ہی کیوں علاقۂ ممنوعہ ہوں۔
یہ وہ تدبیر ہے‘ جس کے ذریعے امید کی جاسکتی ہے کہ اُمت کی خواتین کومنکرات سے بچا کر‘ مغربی تہذیبی یلغار کے مقابلے کے لیے تیار کیاجاسکتا ہے۔ علماے کرام اور قائدینِ ملت کو اس پہلو پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔