ایک سیرت نگار کی حیثیت سے‘ شاہ مصباح الدین شکیل کا نام محتاجِ تعارف نہیں۔ وہ اس موضوع پر ربع صدی سے تحقیق و تصنیف میں مصروف ہیں۔ ان کی سیرتِ احمد مجتبٰی ؐکو صدارتی اوارڈ ملا‘ بعدہٗ انھوں نے سیرت النبیؐ البم شائع کیا ‘ اب اسے زیادہ بہتر صورت میں نئے نام نشاناتِ ارضِ قرآن سے پیش کیا گیا ہے۔ یہ کتاب قرآن پاک میں مذکور مختلف انبیاے کرام‘ان کے متعلقہ علاقوں‘ مقامات‘ عمارتوں اور مختلف النوع آثار کا ایک خوب صورت مرقع ہے۔ اسے عکسی تصویروں کے ساتھ ساتھ‘ نقشوں اور دیگر دستاویزات کے ذریعے ایک دل چسپ البم کی شکل دی گئی ہے۔ آغاز حضرت آدم ؑسے ہوتا ہے۔ سری لنکا کے کوہِ آدمؑ کے بعد حضرت ہابیل کے مزار واقع دمشق‘ جدہ میں حضرت حوا کے مزار‘ عرفات اور جبلِ رحمت کے ساتھ ساتھ‘ جدہ کے موجودہ مناظر اور ایک سو یا سوا سو سال پہلے کی مختلف تصاویر‘ مسجدخیف کی تصویر (جہاں ایک روایت کے مطابق تیس سے زائد انبیا مدفون ہیں۔) اسی طرح حضرت ادریس ؑ، حضرت ہود ؑ، حضرت صالحؑ، حضرت ابراہیمؑ اور اس ضمن میں مطاف‘ بابِ کعبہ‘ مقامِ ابراہیم‘ غلافِ کعبہ‘ غسلِ کعبہ اور مسجدحرام سے متعلق نئی پرانی بیسیوں تصاویر شامل ہیں۔ کتاب میں حضرت لوطؑ، حضرت اسحاقؑ، حضرت اسماعیل ؑاور حضرت یعقوبؑ کے آثار و مزارات کی تصویریں اور بیت المقدس کی بہت سی تصویری جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں‘ وعلیٰ ہذا القیاس۔
جناب مصباح الدین شکیل نے نئی پرانی‘ چھوٹی بڑی اور سادہ و رنگین نادر تصاویر کی فراہمی پر ہی اکتفا نہیں کیا‘ بلکہ موضوع سے متعلق تاریخی حقائق‘ واقعات اور ضروری تفصیلات بھی مہیا کی ہیں۔ اس طرح یہ کتاب قدیم و جدید دور کی ایک بیش بہا تاریخی اور تصویری دستاویز بن گئی ہے جس کی ترتیب میں آیاتِ الٰہی‘ احادیثِ نبویؐ اور جغرافیائی معلومات سے مدد لی گئی ہے۔ ہر صفحے کے نیچے ایک شعر دیا گیا ہے جو صفحے کے نفس مضمون کی رعایت سے ہے۔ اس کا اپنا ایک الگ لطف ہے۔
اس جامع مرقعے کی اہمیت‘ اس لیے بھی ہے کہ اس میں جزیرہ نماے عرب اور فلسطین سے متعلق بیسیوں ایسے آثار کی تصویریں شامل ہیں جو اب معدوم ہوچکے ہیں۔ ابتدا میں جناب نعیم صدیقی‘ ڈاکٹر غلام مصطفی خاں‘ حفیظ تائب اور محمد ابوالخیر کشفی کی تقاریظ شامل ہیں۔ معروف سیرت نگار جناب طالب الہاشمی کہتے ہیں: اس البم کو دیکھ کر آنکھیں روشن ہوجاتی ہیں اور روح جھوم اُٹھتی ہے۔ شاہ صاحب نے اسے مرتب کرنے میں بڑی ژرف نگاہی اور تحقیق و تفحّص سے کام لیا ہے۔
افسوس ہے کہ اس حسین و جمیل مرقعے پر قیمت درج نہیں۔ لیکن قیمت جو بھی ہو‘ ہر مسلمان گھرانے میں‘ جہاں مطالعے سے کچھ بھی دل چسپی یا رغبت پائی جاتی ہو (اور دین سے وابستگی تو الحمدللہ‘ ہوتی ہی ہے)‘ اگر یہ البم مہیا ہوجائے تو افراد خانہ‘ خصوصاً بچوں اور نوجوانوں کی معلومات میں بے حد اضافہ ہوگا‘ ان شاء اللہ! عازمین حج و عمرہ‘سفر سے پہلے اسے پڑھ لیں تو وہاں پہنچ کر زیادہ اپنائیت اور موانست محسوس کریں گے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
سورۂ یٰسٓ اپنے فضائل اور مضامین کے حوالے سے نمایاں مقام رکھتی ہے۔ اسے بجا طور پر قرآن کا دل کہا جاتا ہے۔ اس کی اہمیت اس بات کی متقاضی ہے کہ اس کا فہم حاصل کیا جائے تاکہ اس کے حقیقی فیوض و برکات سے استفادہ کیا جا سکے۔
محترم خلیل الرحمن چشتی نے سورۂ یٰسٓ کا ایک منفرد مطالعہ پیش کیا ہے۔ تمام آیات کو مختلف حصوں میں تقسیم کر کے انھیں مختلف عنوانات دیے گئے ہیں۔ یہ حقیقی مفہوم تک پہنچنے میں بہت معاون ہے۔ مختلف آیات کو مرکزی مضمون توحید و آخرت سے مربوط کرنے کی عمدہ کوشش کی گئی ہے اور علوم القرآن کی مختلف اصناف کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ سورہ کے اہم مضامین اور مطالب کو نمایاں کرنے اور فہم کو عام کرنے کے لیے ۸۸ ذیلی عنوانات قائم کیے گئے ہیں۔
آیات ۱۳ تا ۳۲ کی روشنی میں سچے حقیقی مومن کی ۱۰ صفات اخذ کی گئی ہیں۔ یہ انداز جہاں اچھوتا ہے وہاں عملی پہلو رکھتا ہے اور مطلوب بھی ہے۔
سورۂ یٰـسٓکا یہ مطالعہ فکرافزا اور ہر اس شخص کے لیے مفید ہے جو قرآن فہمی کا ذوق رکھتا ہو اور اسے مزید جِلا بخشنا چاہتا ہو۔ (ڈاکٹر سید منصورعلی)
مصنف نے قرآن میں مذکور حیوانات کا تعارف‘ ان کی نوعیت اور انسانی زندگی میں ان کی اہمیت و افادیت کو بڑے جامع اور خوب صورت انداز میں پیش کیا ہے۔ مصنف نے اس کتاب کی تالیف میں مولانا عبدالماجد دریابادی کی کتاب حیواناتِ قرآنی اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی تفسیر تفہیم القرآن سے استفادہ کیا ہے۔
قبل ازیں اس موضوع پر مصنف کی تین کتابیں اُردو اور پشتو میں شائع ہوچکی ہیں۔ حیوانات کے اس تذکرے میں مؤلف نے واضح کیا ہے کہ جانور‘ انسان کے لیے عطیّہ خداوندی اور بیش بہا نعمت ہیں مگر ان سے ہمارا سلوک انتہائی نامناسب بلکہ سفّاکانہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم جنگلی حیوانات کو تحفظ فراہم کریں اور ان کے ساتھ بدسلوکی سے باز رہیں تو اُن سے بہتر طور پر مستفید ہوسکتے ہیں بلکہ اس طرح اپنی عاقبت بھی سنوار سکتے ہیں۔
مصنف کا خیال ہے کہ انسان کے برعکس جانور کبھی قانونِ فطرت کی خلاف ورزی نہیں کرتے اور وہ اس کی پابندی سے خداے واحد کی عبادت اور تسبیح کرتے ہیں۔ مؤلف نے مختلف مثالوں سے ثابت کیا ہے کہ جانوروں کا وجود انسان کو دعوتِ غوروفکر دیتا ہے۔ پیشِ نظر کتاب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انسان اور حیوان کا رشتہ ازل سے قائم ہے۔
مجموعی طور پر کتاب دل چسپ اور لائقِ مطالعہ ہے۔ (اے ڈی جمیل)
شمائل ترمذی ، حدیث کی وہ مشہور کتاب ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سراپا کے بارے میں روایت کی گئی تمام احادیث کو یکجا کر دیا گیا ہے اور ان احادیث میں اتنی تفصیل ہے کہ انسان حیران ہوجاتا ہے اور وہ رسول اکرمؐ کے رفقاے کرام یعنی صحابہؓ کے بارے میں سوچتا ہی رہ جاتا ہے کہ انھوں نے کیمرہ اور فلم نہ ہونے کے باوجود اپنے محبوبؐ کی تصویر اتنی جزئیات کے ساتھ محفوظ کی ہے کہ آج برسوں گزرنے کے بعد بھی ہم آپؐ کو گویا کہ نظروں کے سامنے پاتے ہیں۔ سر کے بالوں سے لے کر قدموں تک‘ کیا چیزہے جو بیان نہیں کی گئی۔ میں نے ایک صفحہ کھولا تو عنوان ملا: انگلیاں‘ پوٹ‘ تلوے اور قدمین مبارک۔ دوسرا صفحہ دیکھا تو عنوان ہے: المسربۃ (حلقوم کے نیچے گڑھا) سے ناف تک بالوں کی باریک لکیر۔ اسی طرح آپؐ کی آنکھوں کے بارے میں‘ ہونٹوں کے بارے میں‘ گردن اور بازوئوں کے بارے میں مشاہدہ کرنے والوںنے ہر تفصیل بیان کردی ہے۔ اسی طرح چال ڈھال اور دیگر معمولات کھانے پینے‘ رفع حاجت کے طریقے تک کی تفصیل نظر آئے گی۔ مجلد خوب صورت پہلی کتاب میں مولانا عبدالقیوم حقانی نے شمائل ترمذی کی ۴۸ احادیث اور دوسری میں ۱۲حدیث کی تشریح کی ہے اور یوں جمال محمدؐ کا دلربا منظر پیش کر کے روئے زیبا کی تابانیاں دکھا دی ہیں ؎
اِذَا نَظَرْتُ اِلٰی اَسِـرَّۃِ وَجْھِہٖ
بَرَقَتْ کَبَرْقِ الْعَارِضِ الْمُتَھَلَّلِ
جب میں نے اس کے روے تاباں پر نگاہ ڈالی تو اس کی شانِ رخشندگی ایسی تھی جیسے کہ کسی لکۂ ابر میں بجلی کوند رہی ہو۔ (مسلم سجاد)
قارئین میں ابھی کچھ لوگ ایسے ضرور ہوںگے جنھوں نے جناب اے کے بروہی (م: ۱۹۸۷ئ) کو سنا ہوگا۔ ان کی انگریزی تقریر کا لطف سننے والوں کے لیے اب بھی تازہ ہوگا۔ انگریزی میں بیان پر ان کی قدرت‘ ان کا نرم و شیریں لہجہ اور اتارچڑھائو کے ساتھ دریا کے بہائو جیسی روانی‘ اور پھر بلند اور اعلیٰ مضامین! عدالت میں انھیں سننے کا موقع ملا اور دانش وروں کے اجلاس میں بھی۔ انھوں نے ۶اور ۷ مارچ ۱۹۷۶ء کو فیصل آباد (اس وقت کے لائلپور) میں سیرتؐ کے موضوع پر دوتقاریر کیں جن کا موضوع یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوری انسانیت کے لیے معلم تھے اور آخری نبی تھے۔ اس سادہ سی بات کو جناب بروہی صاحب نے جس طرح پیش کیا ہے وہ انھی کا حصہ ہے اور اس کا لطف حقیقی انگریزی جاننے والے اسے پڑھ کر ہی اٹھا سکتے ہیں۔ یہ خطبات زرعی یونی ورسٹی کے استاد پروفیسر ڈاکٹر سعید احمد نے رفقا کے تعاون سے شائع کیے ہیں۔ (م - س)
سماجی بہبود‘ تہذیب و معاشرت کا ایک اہم موضوع ہے۔ مسلمانوں میں بھی سماجی بہبود کی روایت نہایت پختہ رہی ہے لیکن آج ہم اس موضوع کو مغرب میں سماجی بہبود کے تناظر ہی میں دیکھتے ہیں۔ حالانکہ قرآن و احادیث اس ضمن میں ہماری بہترین رہنمائی کرتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد ہمایوں عباس شمس نے زیرنظر تصنیف میں‘ ہمیں یہی سبق یاد دلایا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے خاصے تحقیقی انداز میں موضوع کا احاطہ کیا ہے اور ان تمام سماجی سرگرمیوں کی نشان دہی کی ہے جو سماجی بہبود کی ذیل میں آتی ہیں۔ انھوں نے قرآنی تعلیمات کی روشنی میں سماجی بہبود کی اہمیت اور رفاہِ عامہ کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی اقدامات کی نشان دہی کی ہے مثلاً: معاشرے میں فروغِ علم‘ علاج معالجہ اور بیماروں کی عیادت‘ معذور افراد کی مدد‘ حیوانوں کی فلاح و بہبود‘ ماحولیاتی آلودگی کا خاتمہ‘ پانی کا انتظام اور شادی کا انتظام وغیرہ۔ مجموعی طور پر یہ ایک قابلِ عمل اور قابلِ قدر کتاب ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
زیرنظر فہرست جناب ضیاء اللہ کھوکھر کے ذاتی کتب خانے میں موجود ۱۳۰۰ سفرناموں کی فہرست ہے۔ پہلے‘ بہ اعتبارِ اسماے کتب‘ الفبائی ترتیب سے سفرناموں کی مختصر فہرست (نام کتاب‘ نام مصنف‘ مقام اشاعت) دی گئی ہے‘ بعدہٗ دوسری (بہ اعتبارِ مصنفین) فہرست میں مزید کوائف (ناشر‘ سنہ اشاعت‘ ضخامت‘ نام ملک) بھی شامل کیے گئے ہیں۔ آخری حصے میں ایسی کتابوں کی فہرست ہے جن میں کچھ جزوی سفرنامے ہیں یا سفرناموں سے اقتباسات یا انتخاب یکجا کیے گئے ہیں--- ’’اشاریہ‘‘ زیرنظر کتاب کی اضافی مگر اہم خوبی ہے‘ اس کی مدد سے قاری کسی خاص ملک کے سفرناموں تک رسائی حاصل کرسکتا ہے‘ مگر یہ اشاریہ قاری کی صرف جزوی رہنمائی کرتا ہے‘ مگر اس ضمن میں قابلِ غور بات یہ ہے کہ:
اوّل: اشاریہ صرف ۱۹ عنوانات (تراجم‘ مترجم (نامعلوم) مرتبہ‘ منظوم‘ خواتین‘ حرمین شریفین (حج و عمرہ)‘ پاکستان/آزاد کشمیر‘ بھارت‘ امریکا‘ ایران وغیرہ) پر مشتمل ہے۔ باقی بیسیوں ممالک بہت سے علاقوں اور بعض شہروں کے عنوانات اشاریے میں نہیں بنائے گئے۔
دوم: اشاریے میں پہلی فہرست کے بجاے دوسری فہرست (بہ اعتبار اسماے مصنفین) کا حوالہ دینا بہتر تھا۔
سوم: اشاریے میں دو دو عنوانات (حج /عمرہ‘ پاکستان/آزاد کشمیر‘ سوویت یونین/ روس) کے تحت حوالوں کو ملانا مناسب نہ تھا‘ مثلاً: پاکستان/ آزاد کشمیر کے تحت ۱۲۹ حوالے دیے گئے ہیں۔ اگر قاری صرف آزاد کشمیر کے سفرناموں تک رسائی چاہتا ہے تو اُسے یہ سب ۱۲۹ حوالے دیکھنا ہوں گے حالانکہ آزاد کشمیر کے سفرنامے‘ ممکن ہے/مثلاً: صرف ۲۹ یا اس سے بھی کم ہوں۔
اس سے قطع نظر مؤلف نے یہ فہرست بہت محنت و کاوش اور سلیقے سے مرتب کی ہے اور ان کی یہ کاوش ہر لحاظ سے قابلِ داد ہے۔ خصوصاً اس لیے کہ انھوں نے یہ کام‘ کسی منصبی مجبوری سے یا کسی ڈگری کے لیے نہیں‘ بلکہ ذاتی ذوق و شوق سے انجام دیا ہے--- یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ اپنے والد ماجد عبدالحمید کھوکھر مرحوم کی یاد میںقائم کردہ ان کا کتب خانہ ۳۰ ہزار سے زائد کتابوں اور تقریباً ڈیڑھ لاکھ رسائل و جرائد پر مشتمل ہے۔ مادہ پرستی کے اس دور میں کتب اندوزی کا یہ غیرنفع بخش شغف‘ عشق و دیوانگی کی ایک نادر مثال ہے۔
یہ ایک دل چسپ اور قابلِ مطالعہ کتاب ہے۔ سرورق جاذبِ نظر اور طباعت و اشاعت معیاری ہے۔ متعدد سفرناموں کے رنگین اور سادہ سرورق بھی شامل ہیں۔ (ر-ہ)
اس کتاب میں کشمیر کے مسئلے کی انسانی لاگت پر نہایت پُرمغز‘ مدلل اور حقائق پر مبنی تحقیق کی گئی ہے۔ اس میں مہاجرت کی زندگی بسر کرنے والے کشمیریوں کی قانونی حیثیت کا جائزہ عالمی‘ پاکستانی‘ بھارتی‘ مقبوضہ و آزادکشمیر کے قوانین کی رو سے لیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ انھیں قانون کی اصطلاح میں refugee یا displaced pesson کہا جانا چاہیے۔
۱۹۹۰ء سے ۲۰۰۲ء یعنی بارہ برسوں میں ۷۵۰ کلومیٹر طویل کنٹرول لائن کے اطراف میں کم و بیش ہر علاقے سے ہجرت ہوئی ہے۔ مقبوضہ سے آزاد کشمیر کی جانب ہجرت کرکے آنے والوں کی رجسٹرڈ تعداد ۱۹ ہزار سے زائد ہے جو ۳۲۸۱ خاندانوں پر مشتمل ہے جن کی اکثریت مختلف مقامات پر قائم ۱۵ کیمپوں میں پناہ گزین ہے‘ جب کہ غیررجسٹرڈ مہاجرین کی تعداد ۱۷ہزار کے لگ بھگ ہے۔ معلومات اور لٹریچر کی کمی کی وجہ سے مہاجرین کے بارے میں تحقیق کے لیے فیلڈورک خصوصاً انٹرویوز اور مشاہدات پر انحصار کیا گیا ہے۔ اگرچہ یہ مہاجرین ہجرت کے نتیجے میں بھارت کے جسمانی تشدد یا موت کے خوف سے آزاد ہوگئے ہیں مگر وہ اپنی سرزمین (مقبوضہ کشمیر)کے ساتھ پوری طرح وابستہ ہیں اور واپسی کے خواہش مند ہیں۔ یوں ان کی مستقل بحالی کی حقیقی کوشش تو یہی ہوسکتی ہے کہ مسئلہ کشمیر حل ہو اور وہ پُرامن ماحول میں اپنے گھروں کو لوٹ سکیں تاہم موجودہ عارضی قیام میں انھیں انسانی بنیادوں پر زیادہ سے زیادہ سہولیات بہم پہنچانا‘ حکومت‘ سول سوسائٹی اور عالمی اداروں کی اہم ذمہ داری قرار پاتا ہے۔ اس وقت آزاد کشمیر اور پاکستان میں بہت سی سہولتوں کے باوجود غیریقینی کیفیت کا شکار ہیں۔ اس ضمن میں قانونی دستاویزات کی عدم موجودگی اور اس سلسلے میں منفی حکومتی رویہ ان کی بے چینی اور اضطراب میں کئی گنا اضافے کاسبب ہے (ص ۱۷)۔ پاکستانیات اور کشمیر سے دل چسپی رکھنے والوں اورکشمیری مہاجرین کی امداد کے لیے سرگرم اداروں کے ذمہ داروں کو اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ یہ معلوماتی کتاب ہر لائبریری میں ہونا چاہیے۔ (محمد الیاس انصاری)
ڈاکٹر نجمہ محمود علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں انگریزی کی استاد رہ چکی ہیں۔ سید حامد بھارت کی سول سروس میںاہم انتظامی عہدوں پر خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے۔ آج کل ہمدرد یونی ورسٹی نئی دہلی سے بطور چانسلر وابستہ ہیں۔ ان کا نام بطور دانش ور‘ ادیب اور سماجی راہنما کے بہت اہم گردانا جاتا ہے۔ انھوں نے ہندستانی مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لیے بھی بھرپور کام کیا ہے۔
نجمہ محمود نے زیرِنظر کتاب میں‘ سید حامد کی شخصیت کے تمام پہلوئوں کو بڑی خوب صورتی اور چابک دستی سے پیش کیا ہے۔ وہ ان کی شخصیت کو خارجی سطح ہی پر نہیں‘ داخلی سطح پر بھی پرکھنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ انھوں نے سید حامد کی ذات میں چھپے ہوئے اس جذبے کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے جس کے تحت سید حامد نہ صرف دانش ور اور سماجی راہنما بلکہ ایک سچے اور پُرخلوص مسلمان نظر آتے ہیں۔ سید حامد کی قومی و ملّی خدمات کے علاوہ ان کی ادبی و تنقیدی اور شعری تخلیقات کو بھی موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔ مجموعی اعتبار سے کہا جا سکتا ہے کہ نجمہ محمود کا تجسس انھیں دائرے سے سوئے مرکز لے جاتا ہے اور یہ مرکز اور دائرے مکمل اور مربوط ہیں۔ (محمد ایوب لِلّٰہ)