جولائی۲۰۰۵

فہرست مضامین

اُمت کا عروج و زوال٭ البقرہ کی روشنی میں

خرم مراد | جولائی۲۰۰۵ | فہم قرآن

Responsive image Responsive image

ترجمہ: مسلم سجاد

سورۂ بقرہ قرآن کی دوسری اور طویل ترین سورت ہے۔ اس میں ۲۸۶ آیات ہیں اور یہ تقریباً اڑھائی پاروں پر مشتمل ہے۔ البقرہ کو قرآن کے آغاز ہی میں رکھا گیا ہے۔ الفاتحہ کے فوراً بعد ہی ہم اس میں داخل ہوجاتے ہیں۔ اس طرح شمار کیا جائے تو یہ دوسری سورت ہے لیکن کئی لحاظ سے یہ پہلی ہے۔ اگر ہم الفاتحہ کو قرآن کا مقدمہ سمجھیں تو البقرہ اس کا پہلا باب ہے۔ اگر الفاتحہ انسانی قلب کی گہرائیوں سے اپنے خالق کے سامنے نکلنے والی پکار ہے جو اس زمین پر درست زندگی گزارنے کی ہدایت کے لیے اپنی فوری ضرورت اور انحصار کا اظہار ہے___ جو کہ یہ ہے ___ تو البقرہ اس انسانی طلب کا اللہ کی جانب سے پہلا جواب‘ درست زندگی گزارنے کا پہلا سبق اور  صراطِ مستقیم پر پہلا قدم ہے۔ اگر الفاتحہ کی آیات مکمل قرآن کا بیج‘ بنیاد‘ کُل اوراصل ہیں___  جیسی کہ وہ ہیں___  تو البقرہ اس نئے بیج کا پہلا پھل ہے اور کیا ہی عمدہ پھل ہے! ایک پاک درخت جس کی جڑیں مضبوط ہیں‘ جس کی شاخیں آسمان تک پہنچتی ہیں‘ جو اپنے مالک کی اجازت سے اپنے پھل ہر موسم اور ہر زمانے میں دیتا ہے۔ (ابرٰھیم ۱۴: ۲۴-۲۵)

گو کہ اسے قرآن کے شروع ہی میں رکھا گیا ہے‘ لیکن زمانی اعتبار سے البقرہ کی آیات مدنی دور کے بعد کے زمانے میں مختلف موقعوں پر نازل ہوئیں‘ یہاں تک کہ الواحدی کی روایت کے مطابق آیت ۲۸۱ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجۃ الوداع کے موقع پر‘ یعنی اتنی تاخیر سے نازل ہوئی۔

البقرہ کا مقام

آخر البقرہ کو قرآن کے بالکل آغاز میں کیوں رکھا گیا ہے؟ خاص طور پر‘ جب کہ اس کے مضامین بنیادی عقائد کے بجاے‘ جو اوّلیت رکھتے ہیں اور اس لیے ابتدائی دور کی وحی میں بنیادی اور نمایاں اہمیت رکھتے ہیں‘ مسلم اُمّت کی برادری اور اس کی اجتماعی زندگی کے گرد گھومتے ہیں۔ آیئے سب سے پہلے اسی سوال پر غور کریں۔

اس کی کوئی وجہ ہونی چاہیے اور اس کے جواب کو ہمیں اس سورت کے معانی کو سمجھنے کے لیے اہم کلید فراہم کرنا چاہیے‘ اس لیے کہ قرآن میں کوئی بات بھی بغیر وجہ اور مقصد کے نہیں ہے۔ اس اصول کو قرآن فہمی کے لیے ہمارے انداز اور طریقۂ کار میں بنیادی باتوں میں سے ایک ہونا چاہیے۔ ہم ہر موقع پر سوال: ’’کیوں‘‘ کا جواب حاصل نہ کرسکیں‘ ہر بات میں پوشیدہ معنی معلوم نہ کرسکیں لیکن یہ ضروری ہے کہ ہر نکتے پر یہ سوال اٹھائیں۔لیکن ایسا کرتے ہوئے ہمیں دو باتیں یاد رکھنی چاہییں:

اوّل: جس مطلب تک بھی ہم پہنچیں‘ یہ بہت اہم ہے کہ ہم ہمیشہ اس کو ایک انسانی کوشش سمجھیں جس میں غلطی ہوسکتی ہے اور ہرگز اسے من جانب اللہ قرار نہ دیں۔

دوم: کوئی ایسا جواب قبول نہ کیا جائے جو اُمّت کے متواتر اجماع سے یا قرآن کے مجموعی مزاج سے ٹکراتا ہو۔

یہ دو تنبیہات ذہن میں ہوں تو قرآن سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے ہر ہر قدم پر سوال: ’’کیوں‘‘ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں۔

البقرہ کے بارے میں مذکورہ بالا سوال اس وسیع تر سوال کا حصہ ہے کہ قرآن کو نزولی ترتیب کے مطابق کیوں مرتب نہیں کیا گیا‘ موجودہ ترتیب کیوں ہے‘ جب کہ اس کا زمانی تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ہے‘ نیز موجودہ ترتیب کی کیا حیثیت ہے؟

بعض علما کے مطابق صحابہؓ نے سورتوں کو اپنے اجتہاد کے مطابق ترتیب دیا ہے۔ وہ اس سے بہتر ترتیب قائم نہ کر سکتے تھے کہ سب سے طویل کو شروع میں رکھیں اور بتدریج سب سے مختصر کو آخر میں۔ دوسروں کے مطابق‘ رسولؐ اللہ نے خود اللہ تعالیٰ کی رہنمائی میں یہ ترتیب دی‘ جسے توقیفی کہا جا سکتا ہے۔ یہ ترتیب موضوعاتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ شواہد حتمی طور پر دوسری رائے کی تائید کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر مستند روایت کے مطابق جب کوئی نئی وحی آتی تھی تو رسولؐ اللہ کاتبین وحی کو بتاتے تھے کہ اسے کہاں رکھیں (سیوطی)۔ علاوہ ازیں سورتوں کو بھی ان کی موجودہ شکل رسولؐ اللہ کے اس دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے ہی دے دی گئی تھی اور یہ بھی زمانی نہیں ہے۔ وہ نمازوں میں ان کی تلاوت اور ان کی تعلیم اسی شکل اور ترتیب میں کرتے تھے جس میں وہ اب ہیں۔ یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ رسولؐ اللہ رمضان میں جبریل علیہ السلام کی موجودگی میں پورے قرآن کی تلاوت کیا کرتے تھے (سیوطی)۔ علاوہ ازیں ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سی سورتوںکے اختتام اگلی سورت سے واضح موضوعاتی ربط رکھتے ہیں۔

جہاں تک میں سمجھا ہوں‘ قرآن کو زمانی کے بجاے موجودہ ترتیب دینے کی دو وجوہات ہیں:

اوّل: گو کہ قرآن کو زمان و مکان کے ایک خاص موقع پر‘ ایک خاص مقام پر اور کچھ خاص لوگوں میں نازل کیا گیا‘ مگر قرآن آنے والے تمام زمانوں کے لیے اور تمام لوگوں کے لیے اللہ کی طرف سے مستقل ہدایت ہے۔ اس کی تاریخی ترتیب کومکمل طور پر نظرانداز کرکے اور اس ترتیب کا پتا بھی نہ چلنے سے‘ جو بہت سے مستشرقین کے لیے مایوسی اور غصے کا سبب ہے‘ یہ زمان و مکان کے مخصوص تاریخی حوالے سے بلند کر دیا گیا ہے اور لا زمان (timeless) بنادیا گیا ہے۔ اس طرح یہ تمام مواقع کے لیے بامعنی اور قابلِ عمل ہوجاتا ہے۔ اگر اسے زمانی ترتیب دی گئی ہوتی تو یہ وقت اور مقام کے ساتھ قید ہوجاتا اور اس کی افادیت ختم ہوجاتی۔ پھر یہ محض ایک تاریخی واقعہ ہوتا‘     یہ زمانے سے ماورا نہ رہتا۔

وحی کا موقع‘ یعنی شان نزول موجود ہے۔ اس کی اپنی افادیت ہے۔ جہاں ضروری ہو‘ یہ کسی مخصوص وحی کا تاریخی پس منظر بتانے میں مدد دیتے ہیں۔ یہ ہمیں اسے اپنے سیاق میں سمجھنے میں مدد دیتے ہیں‘ اس سے پہلے کہ ہم اس کو ایک عمومی مفہوم دیں یا اس کو ایک نئے سیاق میں  سمجھنے کی کوشش کریں‘ یہ قرآن کو اس کے وقت اور مقام کے ساتھ جوڑے بھی رکھتے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں برعظیم کے مشہور عالم‘ شاہ ولی اللہ دہلویؒ (۱۷۰۲ئ-۱۷۶۳ئ) کی رائے جاننا چاہیے۔  تفسیر کے اصولوں پر اپنی اہم تصنیف میں وہ یہ رائے بیان کرتے ہیں کہ قرآن کے کسی بھی حصے کی ’شانِ نزول‘ ، ’انسانیت کو درست عقائد اور عمل کی طرف رہنمائی کرنا‘ ہے۔ ان کے مطابق جو شانِ نزول بیان کی جاتی ہیں‘ ان میں سے بیشتر قرآن کا مطلب سمجھنے کے لیے بالکل ضروری نہیں ہیں۔ ان میں بہت سوں کی سند بھی مشتبہ ہے۔ (الفوز الکبیر فی اصول التفسیر)

دوم: جس وقت قرآن نازل ہو رہا تھا تو اس کے پہلے مخاطب غیر مسلم اور وہ لوگ تھے جو اس کا انکار کرنے پر مصر تھے‘ یا وہ تھے جو ایمان لائے تھے اور مطلوبہ اُمّت مُسلمہ کی شکل میں تشکیل دیے جا رہے تھے۔ تکمیلِ وحی کے بعد‘ اور اُمّت مُسلمہ کی تشکیل کے بعد اور اُس وقت جو انکار    اور اختلاف تھا اس کے ختم ہونے کے بعد‘ آنے والے تمام وقتوں کے لیے اس کا پہلا مخاطب     اُمّت مُسلمہ کو ہونا تھا۔ اس لیے کہ یہ کتاب اُمّت مُسلمہ کی امانت میں دی گئی ہے اور اسے یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ اس کی حفاظت کرے‘ اس کو سمجھے‘ اس کی تعبیر کرے‘ اس کے مطابق زندگی گزارے اور دوسروں کو بھی دعوت دے کہ وہ اس کے مطابق زندگی گزاریں۔ اس لیے نزولِ وحی کے وقت بنیادی پیغام‘ عقائد اور قرآن کی جو مخالفت کی جارہی تھی‘ اسے اور ساتھ ہی مسلم شخصیت اور مسلم برادری کی تشکیل کے بہت بڑے کام کو اوّلیت دی جانی چاہیے تھی‘ مگر تکمیل کے بعد اُمّت مُسلمہ‘ اس کا مقصد‘ منزل‘ ضروریات اور اجتماعی معاملات کو اوّلیت دی جانی چاہیے۔ یہ اُمّت جو قرآن پر ایمان رکھتی ہے اور قرآن سے اپنی شناخت حاصل کرتی ہے‘ اسے آنے والے تمام زمانوں میں موجود رہنا اور اس سے فائدہ اٹھانے والوں میں سب سے پہلے ہونا تھا۔

اگر ہم البقرہ کے مضامین کو اس روشنی میں دیکھیں‘ تو اسے قرآن کے آغاز میں رکھنے کی وجہ بالکل واضح ہو جاتی ہے۔ اس لیے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن البقرہ میں اُمّت مُسلمہ کا مشن بیان کرتا ہے‘ اس کو جذبہ اور تحرک دیتا ہے اور اپنے مشن کی تکمیل کے لیے اسے جن بنیادی وسائل اور اداروں کی ضرورت ہے وہ فراہم کرتا ہے۔

البقرہ کے فضائل

یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے البقرہ کے فضائل اور خوبیوں کا بہت اچھی طرح ذکر کیا ہے۔ حضرت سہل ابن سعدؓ سے آپؐ نے فرمایا: ہر چیز کی ایک چوٹی ہوتی ہے اور قرآن کی چوٹی سورۃ البقرہ ہے۔ جو کوئی اپنے گھر میں دن میں اس کی تلاوت کرے گا‘ شیطان اس کے گھر میں دن کو داخل نہیں ہوگا‘ اور جو رات کو اس کی تلاوت کرے گا شیطان اس کے گھر میں تین راتیں داخل نہیں ہوگا ۔ (ابن کثیر‘ طبرانی)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: اپنے گھروں کو قبرستان نہ بنائو۔ شیطان اس گھر میں داخل نہیں ہوتا جس گھر میں البقرہ کی تلاوت ہوتی ہے۔ (مسلم‘ ابن کثیر)

حضرت ابوعمامہؓ الباہری روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: قرآن کی تلاوت کرو‘ یہ اپنے ساتھیوں کی شفاعت کرے گا۔ دو روشن سورتوں البقرہ اور آل عمران کی تلاوت کرو اس لیے کہ قیامت کے دن وہ دو بادلوں یا روشنی سے بھرے ہوئے دو شامیانوں یا پرندوں کے دو غولوں کی طرح آئیں گی اور اپنے پڑھنے والوں کے لیے سفارش کر رہی ہوں گی۔ البقرہ کی تلاوت کرو‘ اس لیے کہ اس کے سیکھنے میں برکت ہے اور اس کو نظرانداز کرنے میں بڑا پچھتاوا ہے۔ صرف کاہل اور تن آسان اس کی تلاوت نہیں کرتے۔ (مسلم‘ ابن کثیر)

حضرت ابی بن کعبؓ سے آپؐ نے فرمایا: جو اس کی تلاوت کرتا ہے اس پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوتی ہیں۔اس کو وہ مقام حاصل ہوگا جو اللہ کی راہ میں ایک سال تک استقامت کے ساتھ جہاد کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔مسلمانوں کو ہدایت کرو کہ وہ سورۃ البقرہ سیکھیں۔ (قرطبی)

البقرہ معانی کا سمندر ہے‘  جتنا کوئی اس کے اوپر سوچتا اور غور کرتا ہے اتنا ہی اس کو ہدایت‘ دانش اور روشنی کے بیش قیمت جواہر ملتے ہیں۔ اس میں موجود معانی کے سمندر کے بارے میں‘   ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے کہا کہ انھیں صرف سورۃ البقرہ سیکھنے میں آٹھ برس سے زیادہ لگے۔ (سیوطی)

مرکزی موضوع

ہر سورت ایک وحدت ہے۔ بظاہر ایک نظر میں اس کے مضامین کتنے ہی منتشر لگیں‘ اس میں معانی اور پیغامات ایک مربوط اور مرتب انداز سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ ہر سورت کا ایک مرکزی موضوع ہوتا ہے جس کے گرد اس کے تمام مضامین بُنے ہوئے ہوتے ہیں۔ البقرہ کا مرکزی موضوع کیا ہے؟ میری رائے میں اس کا مرکزی موضوع اُمّت مُسلمہ کا مشن ہے: اس کی تعریف کرنا‘ اسے بیان کرنا‘ اُمّت کو اس کی تکمیل کے لیے آمادہ کرنا‘ اُبھارنا اور تیار کرنا‘ اور اس مشن کو ترک کرنے یا اس سے انحراف کرنے کے خلاف تنبیہ کرنا اور تحفظ فراہم کرنا۔ یہ موضوع آیت نمبر ۱۴۳ میں بیان کیا گیا ہے:

ہم نے تم کو اُمّت وَسَط بنایا ہے تاکہ تم انسانیت کے لیے گواہ ہو جائو جیسے کہ رسولؐ تمھارے اُوپر گواہ ہو۔

کس بات کے گواہ؟ ___اللہ کی دی ہوئی ہدایت اور حق کے گواہ‘ اس بات کے کہ اللہ ہی واحد الٰہ ہے (توحید)‘ قرآن اللہ کی کتاب ہے‘ آخری نبی سچے نبی ہیں‘ اس پیغام کے گواہ جو وہ لے کر آئے (رسالت)‘ اور آخرت کے گواہ۔

مسلمانوں کی برادری ایمان کی بنیاد پر وجود میں آتی ہے‘ اس لیے یہ عقیدے کی برادری ہے۔ ایمان کا مطلب ہے اللہ اور اس کے پیغام کے ساتھ ذاتی طور پر باعمل مکمل وابستگی۔ اس کا تقاضا ہے کہ اپنے آپ کو کُل کا کُل اللہ کو دے دیا جائے (آیت ۲۰۸)۔ اور جو قربانی وہ طلب کرے وہ دی جائے‘ حتیٰ کہ جان کی قربانی بھی۔ ایمان‘ اُمّت کی شناخت ہے۔ ایمان انفرادی اور اجتماعی طاقت کی بنیاد ہے۔ شھداء علٰی الناس کا منصب بھی اس لیے مرکزی اہمیت رکھتا ہے کہ یہ ایمان کا آخری تقاضا ہے۔ اس لیے‘ ایمان کی دعوت پوری سورت میں جابجا پھیلی ہوئی ہے۔

خطاب اجتماعی ہے: یاایھا الذین اٰمنوا۔حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی جگہ قرآن کسی شخص کو ذاتی حیثیت میں مخاطب نہیں کرتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان کو اپنی حقیقت کے لحاظ سے ایک اجتماعی وجود پیدا کرنا چاہیے۔ پس‘ مخاطب اُمّت ہے۔ جہاں کسی طویل سلسلہ آیات (آیات: ۴۰ تا ۱۲۳) میں بنی اسرائیل سے خطاب کیا گیا ہے‘ وہاں بھی اصل مقصد یہ ہے کہ ایمان کی بنیاد پر وجود میں آنے والی نئی برادری کو بتایا جائے کہ ایسی برادری کہاں کہاں ٹھوکر کھا سکتی ہے۔ قلب و ذہن کے‘ اخلاق و آداب کے‘ معاملات اور رویوں کے کون کون سے امراض داخل ہوسکتے ہیں جو برادری کے ڈھانچے کو تباہ کرسکتے ہیں۔

موضوعاتی تقسیم

غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ البقرہ کو کچھ متعین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جن کے اپنے موضوع ہیں لیکن ایک دوسرے سے متعلق ہیں۔ ان حصوں کو مزید ذیلی حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ یہ تقسیم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں بتائی گئی ہے‘ لیکن غوروفکر اور تفہیم کو بہت آسان کردیتی ہے۔ میری فہم کے مطابق سورت کے ایسے سات حصے ہیں:

حصہ اوّل: آیات ۱ تا ۳۹ (۳۹ آیات)۔ ہدایت کی بنیادیں۔

حصہ دوم: آیات ۴۰ تا ۱۲۳ (۸۴ آیات)۔ بنی اسرائیل‘ ایک مسلم اُمّت زوال کی کیفیت میں‘ عہدشکنی اور قلب و عمل کے امراض۔

حصہ سوم: آیات ۱۲۴ تا ۱۵۲ (۲۹ آیات)۔ پیغمبرانہ مشن اُمّت مُسلمہ کے سپرد کرنا۔

حصہ چہارم: آیات ۱۵۳ تا ۱۷۷ (۲۵ آیات)۔ کلیدی انفرادی خصائص‘ دین اور شریعت کے بنیادی اصول۔

حصہ پنجم: آیات ۱۷۸ تا ۲۴۲ (۶۵ آیات)۔ اجتماعی زندگی کے اصول‘ قوانین اور ادارے (عبادت‘ جان‘ مال اور خاندان کا تقدس)۔

حصہ ششم: آیات ۲۴۳ تا ۲۸۳ (۴۱ آیات)۔ مشن کی تکمیل کی کلید: جہاد اور انفاق۔

حصہ ہفتم: آیات ۲۸۴ تا ۲۸۶ (۳ آیات) ۔اخلاقی اور روحانی ذرائع۔  (جاری)