یمنی صدر کے بقول: ’’عرب حکمران اُونٹ کی طرح ہیں‘ طیش میں آجائیں تو قابو پانا مشکل ہوجاتا ہے اور رام ہوجائیں تو بچہ بھی نکیل کھینچے پھرتا ہے‘‘۔ امریکا کی خاتون وزیرخارجہ نے اس تشبیہہ پر مہرتصدیق ثبت کر دی ہے۔ کئی کئی عشروں سے اپنے عوام کی گردنوں پر سوار عرب حکمرانوں کو ایسا رام کیا ہے کہ حکم پر حکم صادر کر رہی ہے اور کسی کو چوں تک کہنے کی جرأت نہیں ہورہی۔ کونڈولیزا نے حالیہ دورئہ مشرق وسطیٰ میں فلسطینی‘ اُردنی‘ مصری‘ سعودی اور صہیونی ذمہ داران سے بنیادی طور پر دو ہی باتیں کیں۔ مشرق وسطیٰ کا حل اور فوری اصلاحات تاکہ دہشت گردی پر قابو پایا جا سکے۔
مشرق وسطیٰ کا حل تو صرف اسی صورت ممکن ہے کہ صہیونی ہاتھ‘ فلسطینیوں کی گردن پر امریکی تلوار تانے رکھیں‘ کیونکہ اسرائیلی افواج کے سربراہ کے تازہ بیان کے مطابق: ’’محمود عباس ہم سے کیے گئے معاہدے پر عمل درآمد کر رہے ہیں۔ لیکن صرف اس صورت میں کہ اس کی گردن پر رکھی تلوار اسے اپنے تیزدھار ہونے کا یقین دلاتی رہے‘‘۔ محمود عباس سے بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ وہ اپنے وعدے کے مطابق تحریکِ انتفاضہ کو غیرمسلح کریں۔ جن دہشت گردوں کی فہرستیں ہم دے رہے ہیں انھیں گرفتار کریں اور اگر شارون اپنی مرضی اور ٹائم ٹیبل کے مطابق ’’بے مثال وسیع الظرفی‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف غزہ سے انخلا جیسا ’’عظیم‘‘ کارنامہ انجام دے تو اس پر شادیانے بجائیں اور پوری دنیا کو باور کرائیں کہ اب صہیونی ریاست فلسطین کا مقبوضہ علاقہ نہیں اسرائیل ہے اور یہودی قوم ہماری دشمن نہیں عزیز و عظیم دوست ہے۔
رہیں اصلاحات تو یہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا اہم ترین حصہ ہیں‘ عراق اور افغانستان پر قبضے سے بھی زیادہ اہم۔ یہ الگ بات ہے کہ عراق میں ہونے والے بھاری جانی و مالی نقصانات کے باعث‘ وسیع تر اصلاحات کچھ تاخیر کا شکار ہوجائیں اور بالآخر سارا منظر ہی بدل جائے‘ لیکن فی الحال یہی سمجھا اور سمجھایا جا رہا ہے کہ مسلم ملکوں میں من مرضی کی مکمل تبدیلی کے بغیر ’’نام نہاد‘‘ دہشت گردی سے نجات ممکن نہیں۔
کونڈولیزا رائس نے مختصر عرصے میں دوسری بار خطے کے حکمرانوں سے تفصیلی ملاقاتیں کیں اور انھیں ’’دوٹوک‘‘انداز میں کہا کہ وہ آزادانہ‘ شفاف اور منصفانہ انتخابات کروائیں۔ مصری دارالحکومت قاہرہ میں ایک پُرہجوم کانفرنس میں جب انھوں نے اپنا یہ حکم دہرایا تو اس پر تبصرہ کرتے ہوئے اخوان المسلمون کے مرشدعام محمد مہدی عاکف نے کہا: ’’رائس نے حق بات کہہ کر باطل مراد لی ہے۔ انھوں نے مصری عوام ہی کا مطالبہ دہرایا ہے لیکن اس کا مقصد واقعی آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف انتخاب نہیں‘ کمزور عرب حکومتوں سے مزید امریکی احکامات تسلیم کروانا ہے۔ عرب حکومتیں اپنے عوام کی بات پر تو کان نہیں دھرتیں لیکن دہرے معیار رکھنے والی امریکی انتظامیہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی ہیں۔ امریکا بات تو جمہوریت‘ آزادیوں اور منصفانہ انتخابات کی کرتا ہے لیکن مسلم عوام پر خود وہ تمام مظالم ڈھاتا ہے جن سے اسرائیلی مفادات کی حفاظت و تکمیل ہوتی ہو‘‘۔
قاہرہ یونی ورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر ڈاکٹر حسن نافعہ نے بھی کونڈولیزا کے بیانات پر یہی تبصرہ کیا ہے کہ ’’رائس کے بیانات میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ وہ ان امریکی خواہشات کی ترجمانی کر رہی ہیں جو خطے پر امریکی قبضے کے استحکام کے لیے امریکی انتظامیہ کے دل میں مچل رہی ہیں۔ امریکا عرب ملکوں کے نظام نہیں‘ چند چہروں کو بدلنا چاہتا ہے‘‘۔
امریکا عالم اسلام بالخصوص مشرق وسطیٰ میں جو تبدیلیاں لانا چاہتا ہے‘ مصر ہمیشہ کی طرح ان کا سرخیل ہے۔ نظام و نصاب تعلیم میں جو تبدیلیاں اب مسلم ممالک پر مسلط کی جارہی ہیں‘ مصرکیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد سے ان کا آغاز کرچکا ہے۔ اسرائیل کی ناجائز ریاست کو ’’حلالی‘‘ تسلیم کرنے کی جو بات اب مسلم دنیا سے اٹھائی جارہی ہے‘ کیمپ ڈیوڈ اس معراج پر عشروں سے پہنچا ہوا ہے۔مختلف عرب ملکوں میں عوامی بیداری کی جو لہریں ہلکورے کھارہی ہیں‘ مصر میں سر سے اونچی ہورہی ہیں۔ وہی مصر جہاں صدر کے خلاف سرگوشیوں میں بھی بات کرنا ممکن نہ تھا اب کوئی دن نہیں جاتا کہ وہاں نئی سے نئی تنظیم وجود میں نہ آرہی ہو۔ مصری قانون کے مطابق تو عالم عرب کی سب سے بڑی تحریک اخوان المسلمون سمیت یہ سب تنظیمیں غیرقانونی ہیں‘ لیکن ان کے جلسے اور جلوس ملک کے طول و عرض کو اپنی گرفت میں لے چکے ہیں۔ زندگی کے ہر گوشے سے متعلق افراد نے اپنی الگ تنظیم اعلان کی ہے۔ اب ’’طلبہ براے تبدیلی‘‘، ’’کسان براے تبدیلی‘‘، ’’پیشہ ورافراد براے تبدیلی‘‘ حتیٰ کہ ’’فلمسٹار براے تبدیلی‘‘ کے نام سے نئی نئی تنظیمیں قائم ہورہی ہیں۔
کونڈولیزا نے بھی شاید مصر کی حالیہ تاریخ میں پہلی بار حکمرانوں کے علاوہ اپوزیشن پارٹیوں کے نو نمایندوں سے بھی ایک اجتماعی ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات میں سب سے نمایاں‘ سب سے مؤثر اور حکومت کی تمام تر سختیوں اور کوششوں کے باوجو د ایوان پارلیمنٹ میں ۱۷ سیٹیں حاصل کرنے والی تحریک اخوان المسلمون کو دعوت نہیں دی گئی‘ اور کونڈولیزا نے باقاعدہ بیان دیا کہ ’’بش انتظامیہ اخوان سے رابطے میں نہیں ہے اور نہ اس کے ساتھ بات چیت کا ہی فی الحال کوئی ارادہ رکھتی ہے‘‘۔ اخوان المسلمون بھی امریکی وزیرخارجہ کی آمد سے پہلے اپنا یہ قدیم مؤقف دہرا چکے تھے کہ ’’اگر کسی بیرونی ملک کو ہم سے مذاکرات کرنا ہیں تو وہ مصری وزارتِ خارجہ کے توسط سے رابطہ کرے‘‘۔ شاید اس اعلان کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ اخوان پر لاتعداد مظالم اس الزام کی آڑ میں ڈھائے گئے کہ یہ بیرونی طاقتوں کی آلۂ کار ہے۔
طرفہ تماشا یہ ہے کہ اخوان کے اس واضح مؤقف کے باوجود اس کے خلاف یہ الزام اب بھی دہرایا جاتا ہے‘ جب کہ جو تنظیمیں اب وجود میں آرہی ہیں‘ جن سے امریکی حکمران باقاعدہ مذاکرات کر رہے ہیں‘ جن کا ایک فرد گرفتار ہوجائے تو پورا مغربی میڈیا احتجاج کا طوفان برپا کر دیتا ہے۔ امریکی یونی ورسٹی کے ایک سابق پروفیسر سعدالدین ابراہیم اور ’’الغد‘‘ پارٹی کے ایک لیڈر ایمن نور کی چند روزہ گرفتاری پر ان کا نام لے لے کر امریکی انتظامیہ سمیت مغربی ممالک نے احتجاج کیا اور بالآخر انھیں رہا کروا لیا۔ ان تنظیموں پر مغربی ممالک کا آلہ کار ہونے کا کوئی الزام نہیں ہے۔ حالیہ ماہ جون میں اخوان المسلمون کے ۸۵۰ افراد گرفتار ہوئے جن میں اخوان کے سیکریٹری جنرل سمیت کئی قائدین شامل تھے‘ مغربی دنیا میں کہیں سے کوئی صداے احتجاج سنائی نہیں دی۔ یہ رویہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ تمام امریکی و مغربی تجزیہ نگار و مبصرین اعتراف کرتے ہیں کہ ’’مصر میں جب بھی منصفانہ و آزادانہ الیکشن ہوں گے‘ اخوان المسلمون کا واضح طور پر جیت جانا یقینی ہے۔
تمام مبصرین اس بات پر بھی متفق ہیں کہ صدرحسنی مبارک اپنے ربع صدی کے دوراقتدار میں اس وقت کمزور ترین پوزیشن میں ہیں۔ سادات کے قتل ہونے سے لے کر اب تک صدر حسنی مصر کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں‘ تب سے لے کر اب تک ایمرجنسی نافذ ہے۔ صدر پرویز مشرف کی طرح ان کا بھی اصرار ہے کہ ترقی کا سفر جاری اور ملک کو درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایمرجنسی کی ’’وردی‘‘ ناگزیر ہے حالانکہ ان کے اقتدار کے تقریباً تین عشروں میں مصر کی ۶۰ فی صد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے چلی گئی ہے۔ بے روزگاروں کی تعداد ۷۰ لاکھ سے متجاوز ہے۔ مصری بنکوں سے ۳۰ ارب پائونڈ لوٹے جا چکے ہیں۔ بجٹ کا خسارہ ۵۵ ارب پائونڈ سے بڑھ چکا ہے۔ ۳۰۰ ارب پائونڈ مالیت کے سرکاری اثاثہ جات نج کاری کے ذریعے صرف ۱۶ ارب میں فروخت کر دیے گئے ہیں۔ اور اب حکومت کے پاس صرف ۱۸ ادارے باقی بچے ہیں۔
مایوسی اور ابتری کے اس عالم میں برطانیہ اور مصر کی دہری شہریت رکھنے والے ان کے بیٹے جمال مبارک کو ان کا خلیفہ بنانے کی کوششیں بھی عروج پر رہیں لیکن تمام امکانات کا جائزہ لینے اور کئی کوششوں میں ناکامی کے بعد حکومتی پارٹی اور شاید امریکی انتظامیہ کا فیصلہ یہی ہوا ہے کہ فی الحال حسنی مبارک ہی آیندہ ستمبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات کا جیتنے والا گھوڑا ہوں گے۔ اگرچہ یہ امکان بھی اپنی جگہ پارہا ہے کہ انتخاب جیتنے کے چند ماہ بعد استعفا دے کر ہنگامی طور پر جمال ہی کو لایا جائے۔ ملک گیر مظاہروں اور سنگین عوامی اضطراب کے باوجود امریکا کا بدستور حسنی مبارک کے ساتھ کھڑے ہونا اور صہیونی ذمہ داران کا لگاتار صدر حسنی سے ملاقاتیں کرکے اس کی تعریفیں کرنا امریکی اصلاحات کے دعووں اور وعدوں کی قلعی کھول رہا ہے۔
معاملہ صرف مصر تک ہی محدود نہیں ہے‘ گذشتہ ۳۵ سال (۱۹۶۹ئ) سے برسرِاقتدار معمرالقذافی ہوں‘ گذشتہ ۲۷ سال (۱۹۷۸ئ) سے حکمران یمنی صدر علی عبداللہ صالح ہوں‘ مراکش‘ اُردن اور شام کے ملوک و صدور کی کئی کئی عشروں کی حکمرانی کے بعد اب ان کے صاحبزادوں کا اقتدار ہو یا خلیجی ریاستوں میں اقتدار کا تسلسل ہو‘ امریکا کا رویہ یکساں ہے۔ جمہوریت اور آزادیوں کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے‘ حکمرانوں کو ان کے اپنے ہی عوام کے غیض و غضب سے لرزاں اور ترساں کیا جاتا ہے‘ دورِ جدید کی اہم پیش رفت سیٹلائٹ چینلوں کے ذریعے انھیں وسطی ایشیا کی ریاستوں سمیت مغربی راے عامہ میں عوام کی قوت کے مناظر دکھائے جاتے ہیں۔ سقوطِ صدام حسین کے مناظر بار بار دکھائے جاتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد امریکا کا کسی بین الاقوامی یا اخلاقی ضابطے کو خاطر میں نہ لانا دکھایا جاتا ہے‘ افغانستان و عراق کے کھنڈرات اور مزید بم باری و خونخواری کی فلمیں چلائی جاتی ہیں۔ امریکی اور بالخصوص صہیونی ذرائع ابلاغ سے مسلم ممالک میں دندناتے نام نہاد دہشت گردوں کی موجودگی اور سراغ ملنے کی چنگھاڑتی خبریں سنائی جاتی ہیں اور پھر ہمہ پہلو تبدیلیوں کے لیے امریکی مطالبات کی فہرست تھما دی جاتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ان ملکوں میں اپنی ڈھب کے مزید مہرے تیار کرنے کا عمل بھی جاری ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نے حالیہ دورے میں سعودی عرب سے اصلاحات کے پُرزور مطالبے کے ساتھ ہی ان تین افراد کی رہائی کا مطالبہ کیا جو ان کے بقول اصلاح پسند ہیں اور سعودیہ میں جمہوریت چاہتے ہیں۔ کونڈولیزا اس حقیقت سے یقینا بے خبر نہیں ہوں گی کہ مصر کی جس سرزمین پر کھڑے ہوکر انھوں نے اپنا یہ مطالبہ دہرایا‘ اسی مصر کی جیلوں میں حقیقی اصلاح کے لیے کوشاں ہزاروں سیاسی قیدی اذیتیں جھیل رہے ہیں۔ اس کے پڑوس لیبیا میں سالہا سال سے ضمیر کے سیکڑوں قیدی لاپتہ ہیں‘ اس کے پڑوس تیونس میں کم و بیش ۱۵ ہزار سیاسی قیدی ۱۸‘۱۸‘ ۲۰‘۲۰‘ سال سے جیلوں میں ہیں اور ان کے زندہ یا مردہ ہونے کا علم ان کے اہلِ خانہ کو بھی نہیں ہے‘ اور خود جس سعودی عرب سے وہ تین اصلاح پسندوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہی ہیں وہاں ۱۹۹۰ء میں عراق کویت جنگ کے دوران امریکی افواج کی آمد کی مخالفت کرنے پر ہزاروں علماے کرام کو گرفتار کیا گیا تھا اور یہ گرفتاریاں امریکی خوشنودی کا موجب ٹھیریں اور کیا اب بھی وہاں صرف یہ تین ہی قیدی انصاف کے حق دار و منتظر ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ گوانتاناموبے اور ابوغریب کی مہیب کالک اور ذلت منہ پر سجائے چند مخصوص افراد کی رہائی کا مطالبہ کرنا ‘ خود تو رب ذوالجلال کی مقدس ترین کتاب کی بے حرمتی کرنے والوں کو بھی انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے سے انکار کرنا لیکن اوروں سے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی بات کرنا‘ کیا آپ کو خود اپنی ہی نظروں میں ذلیل نہیں کر دیتا۔
سعودی وزیرخارجہ سعود الفیصل نے کونڈولیزا کے ان مطالبات پر انھیں مخاطب کرتے کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمیں جو بھی اصلاحات کرنا ہوں گی اپنے عوام کی تمنائوں اور مرضی کی روشنی میںکریں گے۔ باہر سے تھونپی جانے والی اصلاحات ہمارے لیے ناقابلِ قبول ہیں‘‘۔ تقریباً یہی بات یمنی صدر علی عبداللہ صالح نے ایک اور انداز سے کی تھی۔ انھوں نے عرب وکلا کے یونین کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پتے کی بات کرتے ہوئے کہا: ’’ہم عالمِ عرب میںدوسروں سے زیادہ ایک دوسرے سے ڈرتے ہیں۔ پڑوسی ملکوں کے تعلقات آپس میں سخت کشیدہ لیکن ہزاروں میل دُور واقع دوسرے ممالک سے بڑے دوستانہ ہوں گے… ایسا کیوں ہے؟ ہم ایک دوسرے کا خوف کیسے دُور کرسکتے ہیں…؟ ہمیں سب سے پہلے حاکم اور محکوم کے درمیان پایا جانے والا بُعد اور دُوری ختم کرنا ہوگی… ہمیں اپنے سیاسی نظام کی غلطیاں خود درست کرنا ہوں گی…اس سے پہلے کہ ہمیں باہر سے حکم نامہ موصول ہو… اس سے پہلے کہ دوسرے ہم پر اپنی تہذیب اور اپنے عوام کی خواہشات کے علی الرغم اصلاحات ٹھونسیں… ہمیں خود مطلوبہ اصلاحات کرنا ہوں گی کیونکہ ہماری ایک اساس اور شناخت ہے‘ جب کہ دوسرے صرف ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں‘‘۔
اپنے عوام کو عارضی طور پر مطمئن کرنے اور دوسروں کو جواب دینے کی حد تک تو یہ تقاریر خوب ہیں لیکن عوام تو عمل چاہتے ہیں۔ ستمبر ۲۰۰۶ء میں یمن میں بھی صدارتی انتخابات ہونا ہیں۔ کچھ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ علی عبداللہ صالح نے یہ انتخابی مہم کی تقریر کی ہے اور ساتھ ہی ساتھ عملی ’’اصلاحات‘‘ کے طور پر یمن میں پائے جانے والے ۴ ہزار دینی مدارس و مراکز کی چھان پھٹک بھی شروع کر دی ہے اور اس دوران ۱۴۰۰ مدارس بند بھی کر دیے گئے ہیں۔ ساتھ ہی بدرالدین حسین الحوثی کی قیادت میں ایک مسلح شیعہ گروپ کے خلاف خونی کارروائیاں بھی کی گئی ہیں جس کے دوران ۵۰۰ افراد مارے گئے… یعنی اصلاحات کا وسیع تر عمل پورے عالمِ اسلام میں عروج پر ہے۔ لیکن مسلم حکمران اور خود امریکا یہ حقیقت جانتے ہیں کہ مسلم عوام میں تیزی سے نمو پاتا شعور اور امریکی انتظامیہ اور اس کے پٹھو حکمرانوں کے رخ سیاہ سے تیزی سے سرکتا پردہ اب کسی بڑی تبدیلی پر ہی منتج ہوگا___ حقیقی تبدیلی پر!