’’پاکستان میں خواتین کے کام کا لائحہ عمل‘‘ (مئی ۲۰۰۵ئ) میں جناب عبدالشکور نے خواتین کے لیے ایک چار نکاتی لائحہ عمل (خو اتین کا حقِ وراثت‘ عزت کے نام پر قتل اور محرکات کی روک تھام‘ ملازم پیشہ خواتین کا تحفظ اور خواتین کی شرح خواندگی میں اضافہ) تجویز کیا ہے۔
بلاشبہہ پاکستان جیسے نظریاتی اور اسلامی ملک میں اس طرح کے مسائل کا موجود ہونا ایک تشویش ناک امر ہے جس کے تدارک کے لیے سنجیدگی سے سوچا جانا چاہیے۔ اس ضمن میں‘ چند گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔
۱- یہ حقیقت ہر وقت پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ خواتین کے کام کا اصل دائرہ کار اُن کا گھر ہے۔ گھر کے میدان کو چھوڑ کر کسی دوسرے میدان کو ہدف بنانا مجبوری کی حالت میں تو ہوسکتا ہے‘ لیکن اپنے اصل ہدف کو نظرانداز کر دینا یا کسی دوسرے میدان میں اتنا آگے بڑھ جانا کہ واپسی کا راستہ نہ رہے‘ درست نہیں۔ بالخصوص سیاسی حوالے سے جہاں مرد حضرات اپنا بھرپور کردار ادا کرسکتے ہیں وہاں خواتین کو بہت زیادہ ملوث کرنا میرے نزدیک صحیح نہیں۔
۲- دیے گئے چاروں نکات مغرب کے لیے بہت زیادہ کشش رکھتے ہیں اور حقیقت میں یہ اُن کے ایجنڈے کا حصہ ہے کہ ان معاملات کو اتنا آگے بڑھایا جائے کہ بالآخر عورتوں کو مردوں کے مقابل بلکہ مخالف کھڑا کر دیا جائے۔ اس لیے مسئلے کی اہمیت اپنی جگہ‘ لیکن دوسروں کے بنائے گئے میدان میں ہمارا کھیلنا درست نہیں ہوگا۔ ہمیں ایسی حکمت عملی ترتیب دینا چاہیے کہ میدان بھی ہمارا اپنا ہو اور اہداف بھی ہمارے اپنے طے کردہ ہوں۔
۳- مثال کے طور پر ’’خواتین کے حق وراثت‘‘ کے لیے خواتین کتنا آگے جاسکیں گی؟ قرآن مجید میں خواتین کے حق وراثت کے بارے میں صراحت موجود ہے۔ ہمارے آئین اور قانون میں بھی اُن کا یہ حق محفوظ ہے اور خواتین کی ۹۰ فی صد سے زیادہ تعداد اس بات سے آگاہ بھی ہے کہ وراثت میں اُن کا حق ہے۔ مسئلہ کیا ہے؟ مسئلہ صرف اور صرف یہ ہے کہ مرد یہ حصہ دینے پر آمادہ نہیں ہے۔ پھر کیوں نہ یہ مہم مردوں کی طرف سے چلائی جائے کہ حق دار کو اُس کا حق ملنا چاہیے۔ جائزہ لیا جائے کہ دینی حلقوں کے گھرانوں میں یہ حق لازمی دیا جا رہا ہے یا نہیں۔
۴- اکثر عزت کے نام پر قتل کے واقعات کو اس طرح پیش نہیں کیا جاتا جس طرح اصل واقعہ ہوتا ہے۔ یہ مغرب کا ایجنڈا ہے کہ عورت کو مظلوم ہی ثابت کرنا ہے‘ چاہے وہ جو کچھ بھی کرتی رہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ غلطی لڑکی کی طرف سے ہو۔ اگر ایسا ہو تو اُس کے لیے سخت سزا تجویز کرنے میں کیا ہرج ہے کہ دوسری لڑکیوں کے لیے عبرت ہو۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ سزا دینے کا اختیار صرف عدالت کا ہے اور اگر لڑکی بے قصور ہے تو اُس کی حفاظت بھی ضروری ہے۔ لیکن ذرا تصور کیجیے کہ ایک عورت اپنے سیاہ کرتوتوں سے پورے خاندان کی عزت کو پامال کرتی ہے اور بار بار سمجھانے کے باوجود سیدھے راستے پر نہیں آتی اور بالآخر گھر والے کوئی کارروائی کرتے ہیں۔ ایسے میں آپ لڑکی کی حفاظت کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں تو آپ کا وزن کس پلڑے میں ہوگا؟ کیا ہمارا معاشرہ ہمارے اس کردار کو قبول کرے گا؟
۵- ’’خواتین کے تحفظ‘‘ کے حوالے سے جو فضا بنتی ہے وہ یہ ہے کہ معاشرہ بڑا بے حیا اور بے غیرت ہے اور عورت بے چاری بہت مظلوم ہے جسے حفاظت درکار ہے۔ یہی وہ فکر ہے جو مغرب دینا چاہتا ہے۔ کیا اس مہم کو ’’خواتین کے مسائل میں اُن کی مدد‘‘ کا عنوان نہیں دیا جاسکتا؟
اب چند گزارشات خواتین کے کام کے حوالے سے ہیں۔ مسلم خواتین کے کام کے لائحہ عمل کو درج ذیل تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ۱- گھر کا میدان ۲- دعوتی میدان ۳- سیاسی میدان۔
خواتین کا اصل دائرہ گھر ہے۔ ایک خاتون اگر اپنے گھریلو فرائض کو احسن انداز میں پورا کرتی ہے اور گھر کے محاذ کو سنبھال لیتی ہے تو اس سے بڑا کام اور کوئی نہیں۔ بچوں کی تعلیم و تربیت‘ گھر کے نظام کی دیکھ بھال اور اپنی عزت و ناموس اور شرم و حیا کی حفاظت‘ یہ وہ بنیادی فرائض ہیں جن سے پہلوتہی‘ پورے خاندانی نظام کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ اللہ اور رسولؐ نے اس کام کو جتنی اہمیت دی ہے اس کا اندازہ قرآن و سنت سے آگاہی رکھنے والے ہر شخص کو ہے۔
تعلیم: ۱-خواتین کی شرح خواندگی میں اضافے کے لیے جہاں سیاسی سطح پر منظم جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے وہاں موجودہ صورت حال کے پیش نظر مسلم خواتین کا بڑی تعداد میں شعبہ تعلیم کو اختیار کرنا وقت کی اہم ضرورت بن گیا ہے۔ تعلیم وتدریس کی اہمیت سے کسے انکار ہوسکتا ہے۔ اگر بچوں کے ذہنوں میں شروع ہی سے اللہ اور رسولؐ کا نقش بٹھا دیا جائے تو مغربی تہذیب کے بڑے سے بڑے طوفان کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک باعزت پیشہ بھی ہے۔ مہنگائی کا علاج بھی بڑی حد تک اس سے کیا جا سکتا ہے اور دعوتی حوالے سے بھی بہت آسانی سے کام کیا جا سکتا ہے‘ نیز اس کے نتائج بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ یاد رہے حکومت پرائمری اسکولوں میں صرف خواتین اساتذہ کی تقرری کے بارے میں غور کر رہی ہے اور پرائیویٹ اسکولوں میں تو پہلے ہی ایسا ہو رہا ہے۔ اس لیے کوشش ہونا چاہیے کہ تحریک سے تعلق رکھنے والی طالبات تعلیم سے فارغ ہوکر ترجیحاً تدریس کا پیشہ اختیار کریں۔
۲- خواتین اساتذہ میں کام کو منظم کرنے کی بڑی اشد ضرورت ہے۔ یہ پڑھا لکھا‘ اثرونفوذ رکھنے والا اور جلد تحریک سے وابستہ ہوجانے والا طبقہ ہے۔ عموماً اساتذہ برادری ہماری ترجیحات میں بہت پیچھے ہے۔ حالانکہ ان میں بہت کم وقت میں کام بہت زیادہ نتیجہ دے سکتا ہے۔
۳- ایسے تعلیمی اداروں کا قیام جنھیں خواتین چلائیں بہت ضروری ہے۔ اس سے نہ صرف خواندگی میں اضافہ ہوگا‘ دعوتی کام بھی ہوگا اور معاشی وسائل بھی ہاتھ آئیں گے۔
۴- سلائی کڑھائی‘ ٹیوشن‘ کچن‘ بیوٹیشن اور نرسنگ کے ادارے بھی بنائے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح دیگر شعبہ جات جن میں خواتین حجاب کی حدود میں رہتے ہوئے کوئی مفید کام سرانجام دے سکیں‘ قائم کیے جا سکتے ہیں۔ اگر کوئی ادارہ بنانا ممکن نہ ہو تو یہ کام گھروں کے اندر رہ کر بھی کیا جا سکتا ہے۔ گھروںکے اندر رہ کر بہت سے ایسے کام کیے جاسکتے ہیں جن سے کچھ آمدنی بھی ہو۔ کمپیوٹر پر کمپوزنگ اور دیگر کام تو مرد بھی گھر پر کر رہے ہیں۔
۵- قرآن و سنت کی تعلیم کے ادارے‘ مثلاً قرآن انسٹی ٹیوٹ وغیرہ بھی بڑی تعداد میں قائم ہونا چاہییں۔ جہاں مروجہ نصاب اور نظام کے علاوہ مختصر کورس بھی کروائے جا سکتے ہیں۔
۶- اپنے اپنے گھروں میں بچوں کی قرآن کلاسیں جو بے شک صرف ترجمے یا ناظرہ تک ہی محدود ہوں شروع کی جا سکتی ہیں۔ والدین کی اس وقت بڑی ضرورت بچوں اور بچیوں کو ناظرہ قرآن پڑھانا ہے۔ اس کے لیے ہماری تحریکی خواتین کو آگے آنا چاہیے۔ اس سے تحریکی مقاصد بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
میڈیا: ۱- خواتین کے رسالوں کا کردار قابلِ تحسین ہے۔ لیکن ہزارہا رسائل اور چینلوں کے مقابلے میں یہ چند رسائل کیا کردار ادا کریں گے؟ اور حال بھی یہ ہے کہ صرف چند ہی خواتین اہلِ قلم ہیں۔ ادب‘ طنزو مزاح‘ افسانہ نگاری‘ ناول نگاری‘ شاعری وغیرہ ہرچیز میں خواتین کا حصہ موجودہ میڈیا یلغار کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ ہماری خواتین اگر گھروں میں بیٹھ کر صرف اس محاذ کو ہی سنبھال لیں تو بہت بڑی بات ہے۔
۲- تنظیمی سطح پر ایک بہت بڑی مہم کی ضرورت ہے کہ ہماری پڑھی لکھی خواتین خوب مطالعہ کرنے کے بعد میڈیا کے محاذ پر ڈٹ جائیں۔ مسلم تہذیب اور شناخت کے حوالے سے لکھے ہوئے مضامین‘ افسانے‘ ڈرامے اور ناول‘ نیز شاعری اگر ہم پوری قوت سے پیش کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم بے حیائی کی لہر کو حیا کی فطری قوت میں نہ تبدیل کردیں۔
حجاب کی تحریک: ۱- اپنی شناخت کوقائم رکھنے کے لیے اس تحریک کو زندہ رکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہ ہماری شناخت ہی نہیں ہماری تہذیب اور کلچر کی اساس بھی ہے۔ حجاب کی اہمیت‘ فرضیت اور شعور کو اجاگر کرنا بہت ضروری ہے۔ صرف حجاب کو عنوان بناکر مختلف سیمی نار منعقد کرانا‘ مقابلے (تقریری‘ تحریری‘ شاعری) منعقد کروانا اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے لوگوں کو اس کی افادیت سے آگاہ کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ حجاب مخالف قوتوں کے پروپیگنڈے کا بھی دلائل سے جواب آنا چاہیے۔
۲- جماعت کے اپنے اداروں‘ ہسپتالوں اور کاروباری دفاتر میں حجاب کو رائج کرنا بہت ضروری ہے۔ بالخصوص تعلیمی اداروں میں اس کا مکمل اہتمام ہونا چاہیے۔
۳- تحریکی گھرانوں میں یقینی بنایا جائے کہ پردے کی پابندی کی جائے بالخصوص شادی بیاہ کی رسموں اور غمی و خوشی کے مواقع پر اس کا خصوصی خیال رکھا جانا چاہیے۔
۴- عام تعلیمی اداروں‘ بالخصوص سرکاری تعلیمی اداروں کے ذمہ داران کو مسلسل کوشش سے اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ نقاب کو بطور پالیسی کے نافذ کریں۔
قرآن ہماری بنیاد ہے۔ یہیں سے ہی ہمیں روشنی مل سکتی ہے۔ یہ اللہ کا اپنا کلام ہے اور اس کے اندر دلوں کو بدلنے کی بڑی تاثیر ہے۔ دروس قرآن میں خواتین کا بڑی تعداد میں شریک ہونا اس بات کاثبوت ہے کہ اُن میں قرآن کی دعوت کو قرآن کی زبان میں سننے کی طلب بہت ہے۔ مختلف گھروں کے اندر دروس کا انعقاد اور بالخصوص رسم و رواج کے مواقع کو دعوتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا بہت ضروری ہے۔ ہمیں اس دعوتی میدان کو نہیں چھوڑنا چاہیے۔ ناظرہ قرآن‘ ترجمہ قرآن اور دینی حوالے سے مختلف قسم کی کلاسوں کا اہتمام ہمارے ہدف میں رہنا چاہیے۔
تحریکی خاندانوں کے آپس میں میل جول کے لیے مختلف قسم کی تقریبات کا انعقاد بھی کیا جاسکتا ہے۔ کبھی کوئی پروگرام ایسا بھی کیا جا سکتا ہے کہ عیدملن پارٹی میں ارکان جماعت کے اہلِ خانہ شریک ہوں۔ یہ سارے کام حجاب کی حدود کے اندر رہتے ہوئے کیے جائیں۔
۱- بیوائوں اور یتیم بچیوں کی کفالت کا انتظام کرنا۔
۲- سستے بازار‘ مفت یونی فارم‘کتب وغیرہ فراہم کرنا‘ نیز مستحق طالبات کے لیے وظائف کا اہتمام کرنا۔
۳- بے سہارا خواتین کے لیے ’’پناہ‘‘ جیسے اداروں کا قیام۔
۴- غریب بچیوں کے لیے جہیز فراہم کرنا۔
۵- لڑکیوں بالخصوص تحریکی گھرانوں کی لڑکیوں کی شادی کے انتظام میں معاونت کرنا۔
۶-شہدا کے گھرانوں کی خواتین اور بچیوں سے رابطہ اور امداد کا انتظام کرنا۔
۷- میٹرک پاس بچیوں کے لیے کسی ہنر یا ملازمت کا انتظام کرنا۔
۸- خواتین کی امداد کا ایسا شعبہ قائم کرنا جس سے خواتین گھر میں بیٹھ کر کوئی کام کریں اور اُن کی مالی مدد ہوجائے۔
۹- ملازمت پیشہ خواتین کے مسائل کے حل کے لیے مردانہ نظم کی معاونت سے کوشش کرنا۔ اگر اس طرح کا کوئی شعبہ خواتین ممبرانِ اسمبلی کی سربراہی میں مستقل کام کرے تو زیادہ بہتر ہے۔
۱۰- مظلوم خواتین کی داد رسی کے لیے بھی خواتین ممبران اسمبلی کی قیادت میں ایک مستقل شعبے کا قیام عمل میں لانا چاہیے۔
۱۱- خواتین ممبران اسمبلی کو خواتین کے لیے الگ تعلیمی ادارے‘ تفریحی مقامات‘ ہسپتالوں میں مناسب سہولیات کی فراہمی‘ جیلوں میں قید خواتین کی مدد‘ مناسب سفری سہولیات‘ بیوائوں اور یتیم بچیوں کی مدد اور ثقافت کے نام پر بے حیائی پھیلانے کے تمام اقدامات کو اپنا موضوع بنانا چاہیے۔ نیز ملازمت پیشہ خواتین کے لیے مناسب قانون سازی کی طرف بھی قدم آگے بڑھانا چاہیے۔
۱۲- عالمی سطح پر مسلم خواتین کے حوالے سے پھیلائی گئی غلط فہمیوں اور خواتین کی عزت و حرمت کے خلاف کیے جانے والے تمام اقدامات کا بروقت محاکمہ کرنا۔ نیز اسلامی تہذیب وثقافت کی فطری اقدار کو پیش کرنے کے لیے مختلف سیمی نار منعقد کرانا۔پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں درست نقطۂ نظر پیش کرنے کو یقینی بنانا‘ اسی حوالے سے اسمبلیوں میں قراردادیں پاس کرانا بھی بہت ضروری ہے۔