بسم اللہ الرحمن الرحیم
تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ تاریخ سے سبق کم ہی لیا جاتا ہے اور ہر دور میں مغرور اور خودسر حکمران وہی غلطیاں دہراتے چلے جاتے ہیں‘ جن کے سبب ان کے پیش رو عبرت کا نشان بنے تھے۔ یہ مقولہ کہ ’’جب روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجانے میں مشغول تھا‘‘ضرور ضرب المثل بن گیا چنانچہ ہر دور کے نیرو اپنی اپنی دل چسپی کے شغل میں منہمک نظر آتے ہیں اور جلتے در و دیوار انھیں اپنے خوابِ غفلت سے بیدار کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ ہماری اپنی خودپسند قیادت کا معاملہ بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔
مشرقی پاکستان میں جب آئینی اداروں کے کردار کو تسلیم کرنے سے انکار کے نتیجے میں محرومی اور بے چینی کا لاوا پک رہا تھا‘ تو اس وقت کا فوجی حکمران اسے ’’چند شرپسندوں کی بغاوت‘‘ قرار دے کر اعلان کر رہا تھا کہ ’’میں ہتھیاروں کی زبان استعمال کرکے سب کو سرنگوں کر لوں گا‘‘۔ جن اہلِ دانش نے اس کو مشورہ دیا کہ ہتھیاروں کی زبان نہیں‘ دلیل کا ہتھیار استعمال کرو تو اس نے اسے کمزوری اور بزدلی قرار دے کر رد کر دیا اور پھر اسی سال ۱۶ دسمبر کو قائداعظم کے پاکستان کے دوٹکڑے ہوگئے۔ آج ایک دوسرا فوجی حکمران پھر طاقت کی زبان استعمال کرنے کی باتیں کر رہا ہے اور ’’شرپسندوں کو سخت کارروائی کا انتباہ‘‘ دے رہا ہے‘ اور جو سیاسی قیادت جو حالات کی نزاکت کو محسوس کرتی ہے اور مسئلے کا سیاسی حل نکالنا چاہتی ہے افسوس ہے کہ وہ کمزوری‘ غفلت اور وقت گزاری کی مرتکب ہو رہی ہے۔ پارلیمنٹ موجود ہے مگر اسے اس مسئلے پر بحث کرنے اور اس کا حل نکالنے کی اجازت نہیں۔ ایک پارلیمانی کمیٹی نے تین چار مہینے کی تگ و دو اور تمام متعلقہ عناصر سے کامیاب مذاکرات کے ذریعے مسئلے کے حل کی کچھ واضح راہیں تلاش کیں‘ مگر اس کا کام بھی معرضِ خطر میں ہے___ آخر اس دلدل سے نکلنے کی کیا راہ ہے؟مستقبل پر بات کرنے سے پہلے صحیح صورت حال‘ اصل مسائل اور ان کے حل کے نقشۂ راہ پر مختصر گفتگو ہوجائے تو پھر شاید سنگ ہاے راہ سے نجات کا راستہ بھی نکالا جا سکے۔
بلوچستان پاکستان کے رقبے کا ۴۵ فی صد اور آبادی کے تقریباً ۶ فی صد پر مشتمل ہے۔ تقریباً ۹۰۰ کلومیٹر کا ساحلی علاقہ اور ایران اور افغانستان سے سیکڑوں کلومیٹر کی مشترک سرحد ہے۔ تیل‘ گیس‘ کوئلے اور دوسری قیمتی معدنیات سے مالا مال ہونے کے باوجود اس وقت یہ ملک کا غریب ترین صوبہ ہے۔ بلوچ اور پشتون‘ آبادی کا تقریباً ۸۸ فی صد ہیں اور آپس میں برابر برابر ہیں‘ جب کہ باقی ۱۲ فی صد وہ آبادکار (settlers) ہیں جو آہستہ آہستہ اس سرزمین کا حصہ بن چکے ہیں۔ قبائلی نظام اب بھی مضبوط ہے اور اس کی روایات معاشرے کی شناخت ہیں۔ معاشی ڈھانچا نہ ہونے کے برابر ہے اور آبادی کے دُور دراز علاقوں تک پھیلے ہونے کی وجہ سے مواصلات اور سہولتوں کی فراہمی کا کام مشکل اور نسبتاً مہنگا ہے۔ جو سہولت دوسرے صوبوں میں مثال کے طور پر ایک کروڑ روپے کے خرچ سے میسر آسکتی ہے صوبہ بلوچستان میں تین سے چار گنا زیادہ اخراجات درکار ہیں۔ اس بنیادی حقیقت کو کسی حکومت نے محسوس نہیں کیا۔ اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ وسائل کی فراہمی کا کام کبھی بھی اس صوبے کے لیے انصاف اور ضروریات کی بنیاد پر نہ ہوسکا۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں‘ دیہی علاقے میں غربت پاکستان کی اوسط غربت سے تقریباً دگنی ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ وہ گیس جو سوئی سے نکل کر کراچی سے پشاور تک روشنی اور حرارت فراہم کر رہی ہے خود سوئی کی ۹۹ فی صد آبادی اور بلوچستان کی ۹۵ فی صد آبادی اس کی روشنی اور تمازت سے محروم ہے۔
موجودہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس صوبے کے لیے کئی بڑے منصوبے (mega projects) اور ڈھائی ہزار کے قریب دوسرے ترقیاتی منصوبے زیرتکمیل ہیں اور چھے سال میں ۱۲۰ارب روپے اس کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ میرانی ڈیم‘ گوادر پورٹ اور مکران ہائی وے پر کام اس کا کارنامہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس کے باوجود بلوچستان میں نفرت اور بے چینی کی لہریں کیوں اٹھ رہی ہیں؟ عالم یہ ہے کہ ۲۰۰۳ء اور ۲۰۰۴ء کے دو سال میں ۱۵۲۹ راکٹ فائر کیے گئے ہیں‘ ۱۱۳ بم دھماکے ہوئے ہیں‘ تین چینی انجینیرہلاک ہوئے ہیں اور اس کے علاوہ ۱۰۰ سے زیادہ افراد اب تک جاں بحق ہوچکے ہیں اور کئی سو زخمی۔بگتی علاقے کا محاصرہ ہے‘ ڈاکٹر شازیہ کا المناک واقعہ رونما ہوا ہے اور جب سوئی گیس کی رسد متاثر ہوتی ہے‘ اور یہ بار بارہوئی ہے تو ملک کو روزانہ نقصان ۱۵ سے ۲۰ کروڑ روپے کا ہوتا ہے۔ انسانی جانوں کا ضیاع سب سے بڑا المیہ ہے جس کی کوئی قیمت نہیں ہوسکتی۔
یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ کیا یہ محض چند سرداروں کی سرکشی شرارت ہے جو اپنے ذاتی فائدے کی خاطر صوبے کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں؟ کیا اس میں بیرونی ہاتھ ہے کہ بھارت کے اپنے عزائم ہیں اور وہ گوادر بندرگاہ کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ امریکا کی اپنی سوچ ہے اور بلوچستان میں چین کے عمل دخل پر وہ مضطرب ہے۔ گوادر ہو یا سینڈک‘ ہر جگہ اسے چینیوں کا کردار نظرآتا ہے۔ ایران کے حوالے سے امریکا کے خفیہ اداروں کا کردار اور بلوچستان کی سرزمین سے خلق کے مجاہدین کے احیا کے اشارے مل رہے ہیں جن کو قوم پرست کہا جاتا ہے‘ ان کے اپنے اہداف ہیں اور ہوسکتے ہیں۔ ان سب نظریات اور تصورات میں کچھ نہ کچھ صداقت بھی ہوسکتی ہے لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ مخالف قوتیں حالات کو اسی وقت استعمال کر سکتی ہیں جب ان کے لیے حالات سازگار ہوں اور بگاڑ موجود ہو اور مسائل کو بروقت اور صحیح طریقے پر حل کرنے کی کوشش نہ کی جائے اور یہ سمجھ لیا جائے کہ بس قوت کے ذریعے سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔
مجھے پچھلے سال بلوچستان کے حالات کا زیادہ گہرائی سے مطالعہ کرنے اور صوبے کے چند اہم مقامات کا تفصیلی دورہ کرنے‘ بچشم سر حالات کا مشاہدہ کرنے اور درجنوں ذمہ دار افراد سے حقائق کو جاننے اور مسائل کو سمجھنے کا موقع ملا۔ جہاں مجھے یقین ہے کہ آج بھی تمام معاملات سیاسی عمل اور افہام و تفہیم کے ذریعے حل ہوسکتے ہیں‘ وہیں میرا یہ احساس اور بھی قوی ہوگیا ہے کہ کچھ برسرِاقتدار قوتیں مسائل کو حل کرنے میں کوئی دل چسپی نہیں رکھتیں بلکہ انھیں مزید الجھانے اور بگاڑنے کے درپے ہیں۔ اس کی نمایاں ترین مثال وہ پارلیمانی کمیٹی ہے جس کا اعلان چودھری شجاعت حسین نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے مختصر دور میں کیا تھا اور جو اس حیثیت سے ایک منفرد کمیٹی تھی کہ اس میں پارلیمنٹ کی تمام سیاسی جماعتیں شریک تھیں بشمول قوم پرست جماعتیں‘ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس میں برسرِاقتدار جماعتیں اور اس کے حلیفوں کے نمایندوں کی تعداد ۱۶ تھی‘ جب کہ حزب اختلاف سے متعلق نمایندوں کی تعداد ۲۲ تھی۔ یہ کمیٹی ۷ اکتوبر ۲۰۰۴ء کو قائم ہوئی اور اسے ۹۰ دن میں اپنا کام مکمل کرلینا تھا۔
اِس پارلیمانی کمیٹی نے مزید دو کمیٹیاں قائم کیں: ایک سینیٹر وسیم سجاد کی سربراہی میں جس کا کام دستوری معاملات پر سفارشیں پیش کرنا تھا اور دوسری سینیٹر مشاہد حسین سید کی سربراہی میں جسے سیاسی اور معاشی معاملات پر سفارشات مرتب کرنا تھا۔ مجھے دوسری کمیٹی میں کام کرنے کا موقع ملا اور مجھے خوشی ہے کہ اس کمیٹی نے کھلے دل سے اور صرف ملک کے مفاد میں اپنی پوری کارروائی کی اور جماعتی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر‘ ملک کے مفاد اور انصاف کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر اپنی متفقہ سفارشات مرتب کیں جن کو ۵ جنوری ۲۰۰۵ء کو آخری شکل دے دی گئی لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ سفارشات آج تک پارلیمنٹ کے سامنے باضابطہ طور پر نہیں آسکی ہیں‘ ان پر عمل درآمد کی بات تو دُور کی چیز ہے۔ اس عرصے میں (مارچ ۲۰۰۵ئ) کے سنگین واقعات رونما ہوئے جن کے نتیجے میں حالات مزید بگڑ گئے اور اس وقت طوفان کچھ تھما ہوا ہے مگر لاوہ پک رہا ہے اور حکمران اپنی ’’راج ہٹ‘‘ پر نازاں اور کمیٹی کا ارکان اس تغافل پر نالاں ہیں۔
یہ کہنا محال ہے کہ کمیٹی اپنی رپورٹ کب اور کس طرح پیش کرپاتی ہے لیکن ہماری نگاہ میں وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری پر اس نقطۂ نظر اور ان سفارشات کے جوہر کو بیان کر دیں جو کمیٹی کی اکثریت کی سوچ کی نمایندگی کرتی ہیں اور جس کو ایک متعین شکل دینے میں دوسرے ارکان کے ساتھ راقم نے بھی ایک واضح کردار ادا کیا ہے۔ ہمیں اس بات کو بھی ریکارڈ پر لانے میں کوئی تردد نہیں کہ سینیٹر مشاہد حسین سید اور خود چودھری شجاعت حسین کا رویہ مثبت رہا‘ البتہ ہمارے بار بار کے اصرار کے باوجود‘ وہ معاملات کو آگے بڑھانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے ہیں‘ معلوم نہیں کیوں؟
۱- مسئلے کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں۔ مسئلہ سیاسی ہے اور اس کا حل بھی سیاسی ہی ہوسکتا ہے۔
۲- مسئلے کے حل کے لیے تمام متعلقہ عناصر کو افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کرنا ہوگا اور کوشش کرنا ہوگی کہ مکمل اتفاق راے اور بصورت دیگر اکثریت کے مشورے سے معاملات کو طے کیا جائے۔
۳- یہ اصول تسلیم کیا جانا چاہیے کہ محض ’’مضبوط مرکز‘‘ کا فلسفہ غلط اور انصاف کے اصولوں کے منافی ہے۔ ’’مضبوط مرکز‘‘ اسی وقت ممکن ہے جب صوبے مضبوط ہوں اور کامل ہم آہنگی سے ایک دوسرے کے لیے مضبوطی کا ذریعہ اور وسیلہ بنیں۔ اب توجہ کے اصل محور کو مرکز سے صوبوں کی مضبوطی سے اس انداز سے منتقل ہونا چاہیے کہ مضبوط صوبے مضبوط مرکز کی راہ ہموار کریں۔ مرکز اور صوبوں میں dichotomy کی جگہ مفاہمت‘ ہم آہنگی اور mutuality کا رشتہ ہونا چاہیے۔ ۱۹۷۳ء کے دستور کا بھی یہی تقاضا تھا جسے پورا نہیں کیا گیا۔
۴- چوتھا بنیادی اصول یہ ہے کہ جس طرح زنجیر کی مضبوطی کا انحصار اس کی کمزور ترین کڑی پر ہوتا ہے‘ اسی طرح ملک کی مضبوطی کے لیے بھی ضروری ہے کہ کمزور اور غریب طبقے کو اتنا مضبوط کیا جائے اور اس سطح پر لایا جائے کہ سب برابر کی مضبوطی اور خوش حالی کے مقام پرآجائیں۔ دوسرے الفاظ میں سب انصاف کے حصول کمزور کو مضبوط بنانے کی پالیسی پر عمل آرا ہوں۔ انصاف نام ہی توازن اور برابری کا ہے اور یہی چیز آج تک ہماری معاشی منصوبہ بندی اور سیاسی پالیسی میں مفقود رہی ہے۔
۵- اس پورے عمل میں اصل اہمیت افراد‘ علاقے‘ صوبے اور پوری قوم کے حقوق کا تحفظ اور سیاسی اور معاشی عمل میں تمام عاملین کی بھرپور شرکت اور کارفرمائی کو حاصل ہے۔ فردِواحد کی حکومت یا محض ایک خاص گروہ اور مقتدر گروہ کے ہاتھوں میں قوت اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت کا ارتکاز خرابی کی جڑ ہے۔ مسئلہ معاشی ہے مگر اس سے بھی زیادہ صوبوں کے اپنے وسائل پر اختیار اور سیاسی اور معاشی فیصلوں میں شرکت اور ترجیحات کے تعین کی قدرت کا ہے۔ منہ بند کرنے کے لیے کچھ گرانٹس یا مراعات کے دے دینے سے مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ ملکیت‘ اختیار اور اقتدار اور فیصلوں میں شرکت کے انتظام کو ازسرِنو مرتب کرنا اصل ضرورت ہے۔
۶- اس سلسلے میں فوج کا کردار بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ فوج کے لیے ضروری ہے کہ وہ صرف اور صرف دفاع وطن کی ذمہ داری سول حکمرانی کے تحت انجام دے۔ ساری خرابیوں کی جڑ سیاسی اور اجتماعی معاملات فوج کی مداخلت اور ایک مقتدر سیاسی قوت بن جانا ہے۔ چھائونیوں کی ضرورت اگر ملک کے دفاع اور سلامتی کے لیے ہے تو وہ مسئلہ میرٹ پر طے ہونا چاہیے لیکن اگر لوگوں کو یہ خطرہ ہو کہ یہ چھائونیاں سول نظام کو اپنے قابو میں کرنے کے لیے ہیں تو پھر اس کے نتیجے میں سول عناصر اور فوجی قوت کے درمیان کش مکش ناگزیر ہوجاتی ہے۔ فوج کے سوچنے کا انداز (mind-set) سول نظام سے بہت مختلف ہے اور دونوں کا اپنے اپنے حدود میں رہ کر تعاون ہی ملک کے نظام کی صحت کی ضمانت ہوسکتا ہے۔ تحکمانہ انداز بگاڑ پیدا کرتا ہے‘ اس سے خیر رونما نہیں ہوسکتا‘ اس کا اندازہ اس سے کیجیے کہ کمیٹی فوجی چھائونیوں کے قیام کے بارے میں احتیاط کا مشورہ دے رہی ہے مگر فوج کے ترجمان کیا زبان استعمال کر رہے ہیں‘ جب کہ ۲۷ جنوری ۲۰۰۵ء کے ڈان میں فوج کے ایک کرنل صاحب کا سوئی میں فوجی چھائونی کے بارے میں اس طرح کا اعلان اصلاح احوال کا ذریعہ کیسے بن سکتا ہے؟
ہم یہاں آئے ہیں اور ہم نے پاکستان آرمی کو الاٹ شدہ ۴۰۰ ایکڑ زمین پر قبضہ حاصل (WE HAVE TAKEN OVER) کر لیا ہے۔ ہم یہاں جلد ہی ایک چھائونی تعمیر کریں گے جو اس علاقے کی ضرورت ہے۔ آج آپ کو یہاں صرف ریت کے ٹیلے نظر آئیں گے لیکن ایک بہت ہی مختصر مدت میں چھائونی کی تعمیر کی جائے گی اور ریت کے تودے سرسبز زمین میں تبدیل ہوجائیں گے۔
یہ وہی منطق ہے جس کا اظہار برطانوی سامراج کی افواج اور حکمران کیا کرتے تھے کہ ہم نے مقبوضہ علاقوں کو ترقی سے ہمکنار کر دیا ہے۔ ترقی بلاشبہہ مطلوب ہے مگر اس انداز میںکہ رشتہ ْحاکم اور محکوم کا نہ ہو بلکہ سب کے فیصلے سے اور سب کی شراکت سے معاملات طے ہوں۔ وسائل پر اختیار بھی آزادی کا لازمی حصہ ہے۔ محض سبزہ اُگانا اور روٹی دینا ترقی کا معیار نہیں۔
ان اصولوں کی روشنی میں کمیٹی کے ارکان کی اکثریت نے جو تجاویز دی ہیں‘ ان میں چند اہم یہ ہیں۔ اوّل: حقیقی صوبائی خودمختاری کے تقاضے پورا کرتے ہوئے دستور میں مرقوم مشترک فہرست (concurrent list) کے ۴۶موضوعات میں سے ۲۹ کو فی الفور صوبوں کے سپرد کردیا جائے‘ باقی ۱۷ اگلے پانچ سال کے اندر اندر منتقل کر دیے جائیں۔ دستور کی مرکزی فہرست کے دوسرے حصے میں جو موضوعات ہیں وہ آیندہ کے لیے مشترک فہرست میں شامل کر دیے جائیں۔ نیز مشترک معاملات کی کونسل (Council of Common Interest) کو ایک مؤثر ادارہ بنایا جائے اور اس کی شش ماہی نشستوں کو دستوری طور پر لازم قرار دیا جائے۔ اس کا اپنا سیکرٹیریٹ ہو تاکہ یہ دوسروں کی مہربانی پر زندہ نہ رہے۔
دوم: سیاسی فضا کو خوش گوار بنانے کے لیے ہر طرح کے عسکری تشدد کا راستہ بند کیا جائے‘ مذاکرات سے معاملات طے کیے جائیں‘ اور جو سیاسی کارکن گرفتار ہیں‘ ریاستی اور سیاسی ان کی رہائی کا اہتمام کیا جائے۔
سوم: صوبے کو اپنے وسائل پر اختیار دیا جائے اور مرکز سے جو وسائل منتقل ہوتے ہیں‘ ان میں انصاف اور ضرورت کو ملحوظ رکھا جائے۔ اس سلسلے میں گیس اور معدنیات کی رائلٹی کو نئے فارمولے کی روشنی میں انصاف کے مطابق مقرر کیا جائے۔
چہارم: معاشی ترقی کے ثمرات کو علاقے کے عوام تک پہنچانے کا بندوبست ہو۔ اس کے لیے تجویز کیا گیا ہے کہ معدنی وسائل کو دریافت کرنے اور ترقی دینے والی کمپنیوں کے لیے لازم کیا جائے کہ وہ اپنی کل سرمایہ کاری (investment) کا کم ازکم پانچ فی صد علاقے کے لوگوں کی تعلیم‘ صحت اور دوسری سہولتوں کی فراہمی کے لیے استعمال کیا جائے‘ نیز معدنیات کی ترقی کے بعد ان کمپنیاں کے نفع کا ۱۵ فی صد اس علاقے کی ترقی کے لیے صرف کیا جائے۔
پنجم: نیز صوبے میں تعلیم‘ صحت‘ پانی کی فراہمی‘ بجلی اور گیس کی فراہمی وغیرہ کا خصوصی اہتمام کیا جائے اور ملازمتوں پر مقامی آبادی اور صوبے کے لوگوں کو ترجیح دی جائے‘ اور یہ سب کام میرٹ کی بنیاد پر انجام دینے کے لیے مقامی آبادی کی تعلیم‘ پیشہ ورانہ تربیت اور ہنر سکھانے کا انتظام کیا جائے۔
ششم: فرنیٹر کور اور کوسٹل گارڈ کو صرف ساحلی علاقوں اور سرحدوں کی حفاظت کے لیے مختص کیا جائے اور ان کا سول کردار ختم کیا جائے۔ نیز اسمگلنگ روکنے کے نام پر جو ۵۰۰سے زیادہ چوکیاں قائم کر دی گئی ہیں‘ ان کو ختم کیا جائے۔ اسمگلنگ روکنے کا کام فرنٹیرکانسٹیبلری اور کوسٹل گارڈ سے نہ لیا جائے بلکہ یہ ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کی ذمہ داری ہو۔ اسی طرح فوجی چھائونیوں کا معاملہ سیاسی بحث و مناقشے کا حصہ نہ ہو اور صرف دفاعی مقاصد کو پیش نظر رکھ کر میرٹ پر فیصلہ کیا جائے۔ فی الحال ان کے قیام کو ملتوی کر دیا جائے تاکہ بہتر فضا میں صحیح فیصلے ہوسکیں۔
ہفتم: گوادر پورٹ کی اتھارٹی کو فوری طور پر کراچی سے گوادر میں منتقل کیا جائے۔ اس میںصوبے کو مناسب نمایندگی دی جائے‘ اس کی ترقی کے پورے پروگرام میں صوبے کی ضرورتوں کو ملحوظ رکھا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ علاقے کے لوگوں کو ان کا حق ملے‘ زمینوں پر باہر والے قبضہ کر کے علاقے کی شناخت کو تبدیل نہ کر دیں اور جو متاثرین ہیں ان کو قریب ترین علاقے میںآباد کیا جائے۔ نیز اراضی کے بڑے بڑے قطعے جس طرح فوج‘ نیوی اور دوسرے بااثر افراد اور اداروں نے ہتھیا لیے ہیں ان کو سختی سے روکا جائے اور انصاف پر مبنی شفاف انداز میں پورے علاقے کا ماسٹر پلان ازسرِنو تیار کیا جائے۔
ہشتم: بلوچستان میں بلوچوں اور پشتونوں کے درمیان توازن اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ صوبے کے تمام علاقوں اور باسیوں کی منصفانہ اور متوازن ترقی کے تقاضے بہرصورت پورے ہونے چاہییں۔ خصوصیت سے خشک سالی کی بنا پر جو علاقے گذشتہ آٹھ برس سے متاثر ہیں ان کی ترقی اور تلافی کا اہتمام کیا جائے۔
نہم: بلوچستان میں نظم و نسق کے روایتی انتظام کو جس میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت مقامی لیوی کو حاصل ہے‘ برقرار رکھا جائے اور اس کی ترقی کا اہتمام کیا جائے نہ کہ اس کو ختم کرکے پولیس کے نظام کو ان پر مسلط کیا جائے جو اس علاقے میں بھی ناکام ہے جہاں اس وقت اسے قدرت حاصل ہے۔
ہمارا مقصد کمیٹی کی مکمل سوچ کا احاطہ اور اس کی تمام سفارشات کا بیان نہیں۔ ہم سوچ کے اس رخ کو سامنے لانا چاہتے ہیں جو پارلیمنٹ کی اس کمیٹی نے پیش کیا ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے بلوچستان ہی نہیں‘ تمام صوبوں اور ملک کے سب علاقوں اور متاثرہ افراد کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ یہ سب صرف اسی وقت ممکن ہے جب اصل فیصلے پارلیمنٹ میں ہوں‘ عوام کے مشورے سے ہوں۔ مکالمے کے ذریعے سیاسی معاملات کو طے کیا جائے۔ مخصوص مفادات اور فوجی اور سول مقتدرہ (military - civil establishment) کی گرفت کو ختم کیا جائے‘ اور عوام اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے جمہوری اداروں کے ذریعے اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں۔
صوبائی قیادت کی بھی بڑی ذمہ داری ہے۔ بلوچستان کی صوبائی قیادتیں بھی حالات کے بگاڑ کے سلسلے میں ایک حد تک ذمہ دار رہی ہیں لیکن زیادہ ذمہ داری مرکزی قیادت اور خصوصیت سے حکمران طبقے پر عائد ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ شاید یہی وہ طبقہ ہے جو پارلیمانی کمیٹی کے کام کے آگے بڑھنے کی راہ میں حائل ہے۔ مسئلے کا حل پارلیمنٹ‘ سیاسی جماعتوں اور عوام کے اپنے کردار کو مؤثر بنانے میں ہے‘ بقول اقبال ؎
ہفت کشور جس سے ہو تسخیر بے تیغ و تفنگ
ُتو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے