بڑی سیدھی سی بات ہے کہ اگر دنیا میں امن وسکون قائم کرناہے اور اسے ظلم و فساد سے پاک کرنا ہے تو عدل و انصاف کا دامن پکڑ لیا جائے۔ جس کے پاس جتنی زیادہ طاقت ہے ‘اتنا ہی زیادہ عدل کا علم بردار ہو‘ دنیا میں اتنا ہی زیادہ عدل قائم ہوگا۔ حق دار کو حق ملے گا اور کمزور سے اس کا حق چھیننے والا کوئی نہ ہوگا۔ مسلمانوں کو عدل کی تعلیم دی گئی ہے۔ کہا گیا ہے کہ یہ تقویٰ سے قریب تر ہے۔ یہ بھی ہدایت ہے کہ عدل کرنے سے اپنے آپ کو یا اپنے لوگوں کو نقصان پہنچتا ہو تب بھی عدل کرو۔ جب مسلمان صحراے عرب سے نکلے اور ساری دنیا پر چھاتے چلے گئے تو اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ مسلمانوں کے پاس اسلحہ و طاقت زیادہ تھی بلکہ اصل وجہ یہ تھی کہ جہاں وہ پہنچتے تھے لوگ جانتے تھے کہ عدل قائم کرنے والے آگئے ہیں۔ چنانچہ عوام اپنے ظالم حکمرانوں سے نجات پانے کے لیے عدل کے ان علم برداروں کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کر دیتے تھے۔
آج امریکا دنیا کی واحد سوپر پاور ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ۲۱ویں صدی اس کی صدی ہو۔ اس کے پاس بے اندازہ عسکری و مادی قوت ہے جس کا وہ بے محابا اظہار کر رہا ہے۔ دوسرے ممالک کے امور میں عدمِ مداخلت اور کسی ملک کی سرحدات پار نہ کرنے کے اصولوں کی اس نے دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ پیش بندی کے طور پر حملے جیسے لغو کلیے کو پالیسی بنایا گیا ہے۔ گذشتہ چند برسوں میں اس سطح ارض پر امریکا نے ظلم کی جو داستانیں رقم کی ہیں تاریخ انسانی اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
اس ظلم و زیادتی کا ہدف مسلمان ہیں۔ نائن الیون کے حملوں کا الزام ایک مسلمان گروہ پر رکھ کر‘ گویا اس نے پوری مسلم دنیا کے وسائل پر عملاً قبضہ کرنے کا کھلا لائسنس حاصل کرلیا ہے‘افغانستان اور عراق کی طرح بلاواسطہ یا پاکستان کی طرح بالواسطہ۔ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا ایک بے بنیاد فلسفہ تراشا گیا ہے اور کیونکہ ایک بڑی طاقت اس کے پیچھے ہے‘ اس لیے لَے میں لَے ملانے والوں کی کمی نہیں ہے اور ہمارے حکمران اور مخصوص قسم کے دانش ور بھی فرنٹ لائن اسٹیٹ بننے یا بنائے جانے پر فخر سے سینہ پھلاتے ہیں اور چند ڈالروں کے عوض اپنی غیرت و حمیت خوشی خوشی فروخت کرتے ہیں۔
توپ و تفنگ سے دل نہیں جیتے جاسکتے‘ خواہ علاقوں پر قبضے کر لیے جائیں___ اس روشن حقیقت پر تاریخ شاہد ہے۔ واحد بڑی طاقت کے لیے آج سب سے زیادہ پریشانی کا مسئلہ یہ ہے کہ دنیا میں اس سے نفرت بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کے پالیسی سازوں‘ دانش وروں‘ تھنک ٹینکوں اور میڈیا کے بڑوں کو دیوار پر لکھی یہ کھلی حقیقت نظر نہیں آرہی کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا نے عدل کا دامن چھوڑ دیا ہے اور ظلم و ناانصافی کا وطیرا اپنا لیا ہے۔ اب وہ لاکھوں کروڑوں ڈالر اس پر خرچ کرنے کو تیار ہیں بلکہ کر رہے ہیں کہ اپنے ظلم کے بداثرات ظلم کا شکار لوگوں کے ذہنوں سے مٹائیں اور یہ مظلوم‘ امریکا کو اپنا خیرخواہ اور دوست بھی سمجھیں۔ یہ ممکن نہیں ہے۔ لیکن چونکہ امریکا بڑی طاقت ہے‘ سکہ رائج الوقت ہے‘ اس کے پاس ڈالر بھی ہیں‘ اسلحہ بھی‘ اس لیے وہ اپنی ناکام کوششیں ترک کرنے پر بھی آمادہ نہیں بلکہ نت نئے طریقے اپناکر مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے اور اپنے دستیاب ذرائع و وسائل سب اسی کام پر لگا رہا ہے۔
ہمارے لیے یہ بڑی آسانی ہے کہ امریکا اپنے جائزے‘ منصوبے‘ کامیابیاں‘ ناکامیاں خود ہی شائع کرتا رہتا ہے۔ اگر امریکا اس سب کو خفیہ رکھ کر کرتا تو ہمارے لیے پوری اسکیم معلوم کرنا مشکل ہوجاتا۔ اس لیے کہ پھر اس میں محنت اور وسائل صرف ہوتے۔ اب بھی جتنا وہ اپنے بارے میں کھلے عام بتا رہا ہے وہ تک جاننے کا ہمارا کوئی نظام نہیں ہے۔ کوئی بات اتفاقاً کسی کی نظر پڑے اور وہ دوسروں کو اس سے آگاہ کر دے‘ یہی نظام ہمارا ہمیشہ سے ہے اور نائن الیون سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔
امریکا کے رسالے US Newsکی ایک ٹیم نے چار ماہ انٹرویو کر کے اور درجنوں اندرونی رپورٹوں اور یادداشتوں کا مطالعہ کر کے ایک جائزہ مرتب کیا ہے کہ امریکا دل جیتنے یا دنیا کے حالات کو اپنے لیے سازگار بنانے کے لیے کیا کیا کر رہا ہے۔ ہم اس سے کچھ جھلکیاں پیش کررہے ہیں۔ یہ کوئی رازکی باتیں نہیں ہیں۔ ہم پاکستان میں ان پر عمل ہوتا ہوا خوددیکھ رہے ہیں۔ ہم خبر نہ رکھیں‘ ساری مسلم دنیا میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ معلوم نہیں اس میں امریکا کی کیا حکمت ہے کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے‘ ڈنکے کی چوٹ پر کر رہا ہے‘ شرم و لحاظ کے بغیر کر رہا ہے‘ بتاکر اور جتاکر کر رہا ہے (غالباً اسے ہمارے خوابِ غفلت پر بھرپور اعتماد ہے‘ اس لیے کہ اسے ان کاموں کے لیے نفری بھی ماشاء اللہ کلمہ گو ہی فراہم کر رہے ہیں)۔ یو ایس نیوز کے مطابق:٭
جولائی ۲۰۰۳ء میں دہشت گردی کے خلاف نظریات کی جنگ کے کارفرما عناصر واشنگٹن کی نیشنل ڈیفنس یونی ورسٹی میں جمع ہوئے۔ اس میں وائٹ ہائوس‘ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور پینٹاگون کے نمایندوں کے ساتھ ماہرین نفسیات بھی جمع تھے۔ مسئلہ زیرغور یہ تھا کہ صدام حسین پر فتح امریکا دشمن لہر پر قابو نہیںپاسکی ہے (یعنی توقع یہ تھی!)۔ حکومت کے ماہرین اطلاعات کو یہ اعصاب شکن سوال درپیش تھا کہ مسلم دنیا میں امریکا کا امیج کیسے بہتر کیا جائے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا سب سے نازک اور اہم محاذ دل ودماغ جیتنا ہے‘ لیکن اس کے لیے کوئی قومی حکمت عملی نہ تھی‘ کوئی ایک اس کا انچارج نہ تھا اور وسائل کی سخت قلت درپیش تھی۔
روس سے سرد جنگ کے زمانے میں پروپیگنڈے کا جو پورا نظام بنایا گیا تھا وہ کمیونزم کے زوال کے بعد لپیٹ دیا گیا تھا۔ نائن الیون کے حملوں کے بعد امریکا نے اسی طرح کی سیاسی جنگ شروع کی جس کی مثال سرد جنگ کے زمانۂ عروج میں ملتی ہے۔ آج واشنگٹن لاکھوں کروڑوں ڈالر اس مہم پر صرف کر رہا ہے کہ نہ صرف مسلم معاشرے بلکہ خود اسلام پر اثرانداز ہو۔ امریکی افسران مذہبی جنگ میں اپنے کو شامل کرنے سے کتنا ہی بچائیں‘ لیکن وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ جب ایک ارب سے زائد پیروکار رکھنے والے سیاست زدہ مذہب کے مستقبل کے لیے اعتدال پسند اور انتہاپسند طاقت آزمائی کر رہے ہوں تو وہ میدان سے باہر بیٹھ کر تماشا نہیں دیکھ سکتے۔ اسی لیے ایک غیرمعمولی اور روز افزوںکوشش اسلام میں اصلاح (اسلامک ریفارمیشن) کی کی جارہی ہے۔
وائٹ ہائوس نے ایک نئی خفیہ حکمت عملی Muslim World Outreach (مسلم دنیا تک رسائی) منظور کی ہے جس میں پہلی دفعہ یہ کہا گیا ہے کہ اسلام کے داخلی دائرے میں جو کچھ واقع ہو رہا ہے‘ اس کا تعلق امریکا کی قومی سلامتی سے ہے۔ اس لیے اس پر اثرانداز ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ مسلم دنیا میں امریکا کا نام لینا ’radio active‘ یعنی نقصان دہ ہے۔ اس لیے حکمت عملی میں تجویز کیا گیا ہے کہ اعتدال پسند مسلم اقوام مؤسسات (فائونڈیشن) اور اصلاحی تنظیموں کے ذریعے جمہوریت‘ خواتین کے حقوق اور رواداری جیسی اقدار کو پروان چڑھایا جائے۔ کم از کم دو درجن ممالک میں واشنگٹن نے اسلامی ریڈیو ٹی وی شو‘ اسلامی اسکولوں کے نصابات‘ مسلمان تھنک ٹینک اور دوسرے پروگراموں کی جو اعتدال پسند اسلام کو فروغ دیتے ہیں‘ نہایت خاموشی سے مالی مدد فراہم کی ہے۔ وفاقی خزانے سے مساجد کی بحالی‘ قدیم قرآنی نسخوں کے تحفظ‘ یہاں تک کہ اسلامی اسکولوں کی تعمیر جیسے کام کیے جا رہے ہیں۔ سی آئی اے اپنی ان خفیہ کارروائیوں کا احیا کر رہی ہے جن کی مدد سے کبھی اس نے سرد جنگ جیتی تھی‘ لیکن اب اس کا ہدف اسلامی میڈیا‘مذہبی رہنما اور سیاسی پارٹیاں ہیں۔ سی آئی اے کو اپنے کام کے لیے خطیر رقوم فراہم کی جارہی ہیں۔ اس کی ایک کارگزاری امریکا دشمن رہنمائوںکو برا بنانے کے لیے خفیہ مہمیں چلانا ہے۔
قومی سلامتی کونسل کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ اسلامی پروپیگنڈے اور سیاسی سرگرمیوں کے مقابلے کی تدابیر بتانے والے تقریباً ۱۰۰ تحقیقی مقالے تیار کیے گئے لیکن ان پر عمل نہیں کیا گیا۔ حکومت اس کام کے لیے ایک نیا عہدہ ڈپٹی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر بنانے والی ہے۔ لبنان میں شام دشمن مظاہرے اور مشرق وسطیٰ میں کامیاب الیکشن کا سلسلہ دل و دماغ کی جنگ کے لیے امیدافزا علامات ہیں لیکن کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ مسائل کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ صورت حال بہتر نہیں بدتر ہو رہی ہے۔
امریکا دشمنی کے احساسات مسلم دنیا میں معاشرے کے ہر طبقے میں سرایت کیے ہوئے ہیں۔ یہ افواہیں کہ امریکی فوجی مرنے والے عراقیوں کے جسم سے اعضا نکال لیتے ہیں‘ یا یہ کہ امریکا نے مسلمانوں کو ہلاک کرنے کے لیے سونامی طوفان برپا کیا‘ عرب میڈیا میں آتی ہیں۔ جہادی تحریک سے وابستہ کرنے کے لیے جہادی ویڈیو اور سی ڈی عرب دارالحکومتوں کی گلیوں میں خوب فروخت ہوتی ہیں۔ علاقے کے مؤثر رہنما یہ یقین رکھتے ہیں کہ امریکا عرب دنیا یا پھر خود اسلام کے ساتھ برسرِجنگ ہیں۔
نائن الیون کے حملوں کے بعد امریکا نے محسوس کیا کہ اپنی تمام تر قدامت پسندی کے باوجود طالبان پروپیگنڈے کی جنگ میں کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں۔ بیشتر مسلم دنیا نے یہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا کہ ان حملوں کے پیچھے عربوں کا ہاتھ ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے واشنگٹن‘ لندن اور اسلام آباد میں کوالیشن انفارمیشن سنٹر کھولے گئے لیکن الجزیرہ کی خبروں کا جواب دینے کے بعد اس کا وقت نہیں بچتا تھا کہ اسلامی دہشت گردی کوجڑ سے اکھاڑنے کی کسی حکمت عملی پر عمل کیا جائے۔ وائٹ ہائوس نے یہ نتیجہ نکالا کہ یہ کام دراصل سی آئی اے کا ہے۔ قومی سلامتی کے حوالے سے ایک خفیہ ہدایت میں صدربش نے سی آئی اے کو دنیا بھر میں القاعدہ کا مقابلہ کرنے کے لیے بلینک چیک دیا۔ فوج نے فضائی ٹی وی ریڈیو اسٹیشن قائم کیے‘ کروڑوں دو ورقے ملکوں پر برسائے گئے اور ذہنوں کو موڑنے کے لیے کامک بکس کے ساتھ بڑی بڑی پتنگیں بھی تقسیم کیں۔ دراصل ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ انقلابی اسلام کی عالمی تحریک کا مقابلہ کیسے کریں؟
لاکھوں مسلمانوںکے لیے صدام کو اکھاڑ پھینکنے سے اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ امریکا کے بدترین دشمن اس کی جو استعماری تصویر پیش کرتے ہیں وہ درست ہے۔ امریکا تیل سے مالا مال ایک عرب ملک پر حملہ کرتا اور قبضہ کرتا ہے۔ فلسطینیوں کی قیمت پر اسرائیل کی حمایت کرتا ہے۔ جمہوریت کی باتیں کرتا ہے مگر مصر تا پاکستان آمروں پر انحصار کرتا ہے۔ ایک امریکی عرب رسالے میں یہ لکھا گیا کہ اگر امریکا پبلک ریلشنگ کے لیے پیغمبرمحمدؐ کو بھی لے آئے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ لوگ امریکا کے فلمی ستاروں سے نفرت نہیں کرتے بلکہ امریکا ان کے ساتھ جو کچھ کر رہا ہے اس سے نفرت کرتے ہیں۔
وائٹ ہائوس میں شکایات جمع ہوگئیں کہ دل و دماغ جیتنے کے لیے کوئی حکمت عملی نہیں ہے اور مناسب وسائل نہیں دیے جارہے۔ یہ کام قومی سلامتی کونسل پر آپڑا کہ وہ اس کے لیے تدابیر کرے۔ کونسل نے کچھ تدابیر اختیار کیں لیکن ان پر مناسب طرح عمل نہ ہوسکا۔ پالیسی ساز ہدف تک پر متفق نہ تھے: عالمی سطح پر دہشت گردی یا اسلامی انتہاپسندی یا اس کے اسباب‘ یعنی سعودی رقوم‘ امریکی پالیسیوں کے بارے میں غلط فہمی یا کچھ اور۔ بہرحال کانگریس اور پریس کی طرف سے تنقید نے یہ ضرور کیا کہ ان کاموں کے لیے فنڈ ملنے لگے۔ انتظامیہ نے غیرملکی نشریات کے دائرے میں کچھ بڑے کام کیے: ۲۰۰۲ء میں ریڈیو ساوا جو ایک پاپ میوزک اسٹیشن تھا اور ۲۰۰۴ء میں الحرہ سیٹلائٹ ٹی وی نیوز نیٹ ورک۔
گذشتہ موسم گرما میں Muslim World Outreach نے نئی شکل اختیار کرلی جس میں دہشت گردی (کے خلاف جنگ) کے لیے رقوم کی فراہمی اور نظریات کی جنگ جیتنا شامل تھا۔ یہ تسلیم کیا گیا کہ امریکا نے اعتدال پسندوں کے ہاتھ مضبوط کرنے میں بہت زیادہ کوتاہی کی ہے۔ اس دستاویز میں ایک قدم آگے بڑھ کر یہ بات کہی گئی ہے کہ امریکا اور اس کے حلیفوں کا قومی سلامتی کا مفاد صرف اس سے متعلق نہیں ہے کہ مسلم دنیا میں کیا ہو رہا ہے بلکہ اس سے بھی ہے کہ خود اسلام کے اندر کیا ہو رہا ہے۔ مگر ایک پریشانی یہ ہے کہ امریکی اپنے بنیادی عقیدے کے مطابق مذہبی آزادی میں رکاوٹ نہیں ڈالتے۔ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ کیا ہمیں اس بحث میں حصہ لینے کا اختیار بھی ہے؟ جواب یہ ہے کہ خاموشی سے کرو۔ آپ رقم فراہم کرتے ہیں اور اعتدال پسند مسلمانوں کے لیے منظم ہونے‘ شائع کرنے‘ نشر کرنے اور ترجمہ کرنے کے لیے مدد دیتے ہیں۔
اس حکمت عملی پر غور کے دوران سعودی عرب کا کردار زیربحث آتا ہے۔ اندازہ ہے کہ سعودیوں نے اپنے بنیاد پرست فرقے وہابیت کو عالمی سطح پر فروغ دینے کے لیے ۱۹۷۵ء سے اب تک ۷۵ ارب ڈالر صرف کیے ہیں۔ سعودی مالی مدد سے چلنے والے خیراتی ادارے ۲۰ ملکوں میں جہادی تحریکوں کی پشت پناہی کرتے ہوئے پائے گئے۔ ایک افسر نے پیشنگوئی کی کہ تبدیلی سعودی عرب میں نہیں‘ سعودی عرب کے چاروں طرف سے آئے گی۔
حکمت عملی کے جس دوسرے پہلو پر عمل کیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ ان اہم انقلابی مسلمان لیڈروں سے معاملات درست کیے جائیں جو تشدد کے مخالف ہیں۔ اس فہرست میں سب سے پہلے اخوان المسلمون ہے۔ سی آئی اے کے ایک افسر نے کہا کہ اخوان مسئلے کا نہیں‘ مسئلے کے حل کا حصہ ہیں۔ امریکا کے خفیہ سفارت کار اخوان ہی سے نہیں پاکستان میں دیوبندی لیڈروں سے بھی ملتے ہیں جنھوں نے طالبان کو تعلیم دی اور القاعدہ کے پیروکاروں کی فوج متحرک کی۔
سی آئی اے کے اہل کار امریکا دشمن خطیبوں اور بھرتی کرنے والے جنگجووں کو بے اثر کرنے کے لیے خوب ڈالر بہا رہے ہیں۔ اگر آپ سڑک کے ایک طرف مُلاعمرپائیں تو دوسری طرف اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ملابریڈلے کو کھڑا کر دیں۔ زیادہ سنگین معاملات میں بھرتی کرنے والوں کو پکڑا جاتا ہے اور تفتیش سے گزارا جاتا ہے۔ سی آئی اے نے بوگس جہادی ویب سائٹ بھی شروع کی ہے اور عرب میڈیا کو اپنا ہدف بنایا ہے لیکن یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ تدبیر اُلٹی پڑ جائے اور انٹرنیٹ پر کوئی جوابی کارٹون یا لطیفہ امریکی میڈیا تک پہنچے۔
دل و دماغ جیتنے کی اس جنگ میں سی آئی اے تنہا نہیں ہے۔ نائن الیون کے بعد پبلک ڈپلومیسی کا بجٹ ۴۰ فی صد اضافے کے بعد ۳ئ۱ ارب ڈالرہوگیا ہے‘ اور مزید آرہا ہے۔ نظریات کی موجودہ جنگ میں سی آئی اے کو اصل مدد اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے نہیں بلکہ یو ایس ایڈ سے مل رہی ہے۔ نائن الیون کے بعد بیرونی امداد کے اس ادارے کا خرچ تین گنا بڑھ کر ۲۱ ارب ڈالر ہوگیاہے اور اس کا نصف مسلم دنیا پر خرچ ہو رہا ہے۔ زیادہ امداد اسلامی گروپوں کو جا رہی ہے۔ ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکی ٹیکس دہندہ کی فراہم کردہ یہ امداد کم از کم ۲۴ملکوں میں طرح طرح کے اسلامی گروپوں پر خرچ ہو رہی ہے: ۹ممالک میں مسلم مقدس مقامات کی بحالی (بشمول ترکمانستان‘ پاکستان اور مصر میں تاریخی مساجد)‘ کرغیزستان میں ایک خانقاہ کی تعمیر‘ ازبکستان میں اسلامی مخطوطات (بشمول ۱۱ویں صدی کے ۲۰ قرآن) کا تحفظ [اس بے ضرر اسلام کے لیے تو ہمارے روشن خیال حکمران بھی بسروچشم تیارہیں]۔ بنگلہ دیش میں یو ایس ایڈ ائمہ مساجد کو ترقی کے مسائل پر تربیت دے رہی ہے۔ مڈغاسکر میں ایک بین المساجد سپورٹس ٹورنامنٹ اسپانسر کیا گیا۔ اس کے علاوہ نصف درجن ممالک میں کتابوں کے تراجم سے لے کر ریڈیو‘ ٹی وی ڈراموں تک میں امداد دی جارہی ہے۔
یہ امداد بہت واضح طور پر سب سے بڑے ۲۴ کروڑ آبادی والے مسلمان ملک انڈونیشیا میں دی جارہی ہے۔ اعتدال پسند اسلام کا گڑھ ہونے کے باوجود اس نے جماعت اسلامیہ کو وجود دیا جس نے ۲۰۰۲ء کے بالی کے بم دھماکے میں ۲۰۲ افراد ہلاک کیے۔ یو ایس ایڈ پس پردہ رہ کر ۳۰مسلم انجمنوں کو مدد پہنچاتی ہے۔ بعض پروگرام: میڈیا کی تیاری‘ اسلامی مبلغوں کی ورکشاپ‘ دیہاتی اکیڈمیوں اور اسلامی یونی ورسٹیوں کے نصابات کی اصلاح‘ اسلام اور رواداری پر ایک ٹاک شو ۴۰ شہروں سے ریلے‘ اور ۱۰۰ اخباروں میں ہفتہ وار کالم۔ اس کے علاوہ ایسے اسلامی تھنک ٹینک بھی امداد پارہے ہیں جو جمہوریت اور حقوقِ انسانی کے مطابق اسلام کو سامنے لاتے ہیں۔
یہ عطیات خفیہ نہیں ہیں لیکن انھیں سلیقے سے دیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ امریکا سے تعلق کا انکشاف ان پروگراموں کا اختتام اور اس میں کام کرنے والوں کے لیے خطرے کا باعث ہے۔ [مسئلہ تو دل ودماغ جینے کا ہے اور یہاں یہ تسلیم کیا جا رہا ہے کہ امریکا کا نام بھی آجائے تو خیر نہیں‘ تو پھر دل و دماغ کیسے جیتے جارہے ہیں! امریکا ہی سمجھے تو سمجھے]۔
اگر یو ایس ایڈ‘ یعنی امریکا کسی کام کا کریڈٹ لینا چاہے تب بھی امریکا دشمن جذبات اسے مشکل بنا دیتے ہیں۔ ایک موقع پر قاہرہ میں سرکاری اہل کار خوشی خوشی بتا رہے تھے کہ ان کے اوپیرا ہائوس کی تعمیر میں جاپانیوں نے مدد دی ہے۔ لیکن وہ اس بات کو نہیں بتانا چاہتے تھے کہ مصر دوارب ڈالر سالانہ امریکی امداد لینے والا ملک ہے۔ قاہرہ کے پانی بجلی نظام میں امریکا نے مدد دی ہے۔ ایک قدیم مسجد (۶۴۲ ہجری) کو بچانے میں مدد دی ہے لیکن وہ یوایس ایڈ کے علامتی لال‘ نیلے اور سفید رنگ کو نمایاں کرنے سے محترز تھے۔
ایک بہت بڑا مسئلہ روایتی اسلامی اسکولوں‘ یعنی مدرسوں کا ہے۔ نائن الیون کمیشن نے ان کو پُرتشدد انتہا پسندی کے incubator (انڈوں سے بچے نکالنے کی جگہ!)قرار دیا ہے۔ ورلڈ بنک کے مطالعے کے مطابق پاکستان میں ان مدرسوںکے ۵ لاکھ طلبہ ہیں۔امریکی کہتے ہیں: we are in the madrasa business۔
گذشتہ برس یوگنڈا میں سفارت خانے نے اعلان کیا کہ ہم تین اسلامی اسکول تعمیر کرنے میں مد ددے رہے ہیں۔ فوجی معلوم کرتے ہیں کہ جنگجو کہاں مدرسہ کھولنے والے ہیں‘ پھر وہ وہاں اس سے پہلے پبلک اسکول اور دوسرے انفراسٹرکچر کے لیے مدد دیتے ہیں۔ امریکی حکام خاموشی سے مدرسے کے اساتذہ کی سائنس‘ سوکس اور صحت کی تدریس کی تربیت میں مدد رہے ہیں۔ سب سے بڑا پروگرام پاکستان میں روبہ عمل ہے جہاں حساسیت اتنی زیادہ ہے کہ امریکی امداد کا الزام اس بات کے لیے کافی ہے کہ والدین بچوں کو مدرسوں سے اٹھا لیں۔ ایجنسی پاکستان کی وفاقی وزارت تعلیم اور نجی فائونڈیشنوں کے ذریعے ایک ماڈل پروگرام پر عمل کر رہی ہے جس کے تحت ایک ہزار اسکول قائم ہوں گے۔
امریکا کے اعلیٰ افسران سمجھتے ہیں کہ انقلابی اسلام کی سیاست زدہ شکل امریکا کی سب سے بڑی نظریاتی دشمن ہے۔ امریکا اور اس کے حلیف خاموش کھڑے نہیں رہ سکتے۔ اس کام پر زیادہ توجہ کے اچھے نتائج سامنے آرہے ہیں‘ مثلاً انڈونیشیا میں امریکی افواج کی طرف سے سونامی امداد کے بعد ایک سروے میں معلوم ہوا کہ امریکا کو ناپسند کرنے والوں کی شرح ۸۳ فی صد سے گر کر ۵۴ فی صد رہ گئی ہے۔ اسامہ بن لادن کی حمایت نصف رہ گئی ہے۔ یہ تصور کرنا حماقت ہوگا کہ آگے راستہ آسان ہے۔ اطلاعاتی جنگ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت جو اخراجات کیے جارہے ہیں وہ ناکافی ہیں۔
پٹیسریاہریشا‘ اسسٹنٹ سیکرٹری نے کہا کہ وہ یونانی بادشاہ sisyphusکی طرح ہے جس کو یہ سزا دی گئی تھی کہ وہ شہتیر کو پہاڑی پر لے جائے اور وہ پھر واپس آجاتا تھا۔ وہ کہتی ہے: ’’آپ کبھی فتح کا اعلان نہیں کریں گے کہ تاریخ کا اختتام ہوا‘ اب گھر چلے جائیں۔ شہتیر کو اُوپر اُوپر لیتے جائیں‘‘۔
دل و دماغ جیتنے کی اس پوری کارروائی پرہنسی آتی ہے۔ اس طرح بھی عقل ماری جاتی ہے‘ العیاذ باللہ! اگر امریکا جمہوری اقدار اور رواداری کے اپنے دعوئوں میں سچا ہوجائے‘ دوغلی پالیسی ترک کر دے‘ مسلم ممالک میں جمہوریت کو پنپنے دے‘ روڑے نہ اٹکائے‘ حسب مرضی نتائج کے لیے ڈالر نہ پھونکے‘ نتائج کو ملیامیٹ کرنے کے لیے فوج کی ننگی طاقت کو تھپکی نہ دے تو ۵۰ فی صد نفرت تو کم ہوجائے گی۔
اسلام اور مسلمانوں کو رواداری کا مخالف قرار دیا جاتا ہے‘ لیکن ہم اسے سمجھنے سے قاصر ہیں۔ آپ ہماری گردن پر پائوں رکھ دیں‘ سینے میں گولیاں اتار دیں‘ مسلمان خواتین کی عزتیں لوٹیں‘ (وہ کچھ کریں جس کی علامت آج ابوغریب اور گوانتاناموبے ہیں) اور ہم پھر بھی آپ کو خوش آمدید کہیں‘ سر آنکھوں پر بٹھائیں‘ یہ کیسی رواداری کی توقع ہے‘ (یہ تو غیرت کی موت ہے جس کا مظاہرہ ہمارے حکمران آپ کے سامنے کرتے رہتے ہیں)۔ کوئی غیرت مند مسلمان اسے خاموشی سے کیسے برداشت کرے (دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ خود امریکی قوم سے کوئی یہ سلوک کرے تو آپ پر کیا گزرے گی۔ ایک نائن الیون نے ہی آپ کے ہوش و حواس گم کر دیے ہیں‘ ہم کتنے نائن الیون روز سہتے ہیں)۔ اس رواداری کی توقع نہ کریں‘ لیکن حقیقی رواداری میں آپ اپنے کو مسلمانوں سے بڑھ کر نہ پائیں گے۔ اپنی افواج مسلم ممالک سے واپس بلالیں‘ ماضی کی ظلم پر برسرعام معافی مانگیں (ہم معاف کرنے میں بڑے فراخ دل ہیں لیکن کیا آپ کا اتنا بڑا دل ہے)۔ رہ گیا عورتوں کا مسئلہ‘ اس میں آپ رواداری برت لیں‘ ہم اپنے مذہب کے مطابق جو کچھ کرتے ہیں‘ اس میں رکاوٹ نہ ڈالیں‘ ہمارے اسکارف سے نہ بھڑکیں‘ اپنی غیررواداری کی روش ترک کردیں۔ یہ دل و دماغ جیتنے کا آسان نسخہ ہے جس میں خرچ نہیں‘ بچت ہی بچت ہے‘ اور انسانیت کے لیے سکون و فلاح بھی ہے۔ آپ نے تو دل جیتنے جیسے اچھے کام کی کوشش میں دنیا کو جہنم بنا دیا ہے۔
کیا امریکا میں کوئی تھنک ٹینک ‘ کوئی میڈیا کے بڑے‘ کوئی دانش ور‘ کوئی رجل رشید نہیں جو ان کو بتائے کہ دل جیتنے کے لیے دل بدلنا ضروری ہے۔ موجودہ دل و دماغ سے وہ دل و دماغ نہیں جیت سکتے‘ اور نہ امریکا دشمنی کی لہر کم کر سکتے ہیں‘ یہ بڑھتی ہی جائے گی۔