صوبہ سرحد میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت نے ڈھائی سال کے صبرآزما مذاکرات اور افہام و تفہیم کے ذریعے اپنے اسلامی اصلاحی پروگرام کو نافذ کرنے کی مساعی کے باب میں مرکزی حکومت کے معاندانہ رویے اور اپوزیشن جماعتوں کے عدمِ تعاون سے تنگ آکر ۱۱جولائی ۲۰۰۵ء کو اسمبلی میں جیسے ہی حِسبہ بل پیش کیا‘ یوں محسوس ہوا جیسے پورے ملک میں ایک بھونچال سا آگیا اور ایسا معلوم ہوا کہ بھڑوں کے چھتے سے سارے سورما نکل کر بیک وقت حملہ آور ہوگئے ہیں۔
مرکزی حکومت کے کارپردازوں سے لے کر صوبے کے گورنر تک‘ جن کا عہدہ ان کو پارٹی وفاداری سے بلند ہوکر صرف دستوری گورنر کا کردار ادا کرنے کا پابند کرتا ہے‘ حِسبہ بل کی مذمت میں یک زبان و یک جان ہوگئے ہیں۔ سرکاری اہل کار اور لبرل سیکولر نظام کے علم بردار سب بڑی دیدہ دلیری سے اسے دستور کے خلاف‘ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات سے متصادم‘ حقوقِ انسانی پر ضرب کاری‘ متوازی نظام کے قیام کا ذریعہ اور فسطائیت اور طالبانائیزیشن کا پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ملک کے سرکاری میڈیا سے لے کر تمام نام نہاد لبرل اور سیکولر قوتیں بشمول انسانی حقوق کے دفاع کی دعوے دار این جی اوز‘ اس کے خلاف صف آرا ہوگئی ہیں اور عالمی میڈیا بھی انھی کی لَے میں لَے ملا رہا ہے۔
الحمدللہ صوبہ سرحد کے عوام اور ان کی منتخب مجلس عمل کی حکومت نے اس ہمہ جہتی مخالفانہ یلغار کا سینہ سپر ہوکر مقابلہ کیا اور اپنے دستوری حق اور دینی ذمہ داری کو جرأت اور حکمت کے ساتھ ادا کیا۔ اسمبلی نے چار دن کی طویل بحث کے بعد ۱۴ جولائی کو ۳۴ کے مقابلے میں ۶۸ووٹوں کی دوتہائی اکثریت سے حِسبہ بل کو منظورکرلیا ہے اور دستور کے مطابق گورنر کو توثیق کے لیے بھیج دیا ہے جو پابند ہیں کہ ۳۰دن کے اندر اندر اس کی توثیق کر دیں یا اپنے اعتراضات کے ساتھ اسمبلی کو واپس کر دیں۔ اسمبلی مجاز ہے کہ بل پر دوبارہ غور کرنے کے بعد جس شکل میں چاہے اسے منظور کرکے دوبارہ گورنر کو بھجوا دے اور اس صورت میں گورنر کو بل پر اپنے دستخط ثبت کرنا ہوں گے۔
مرکزی حکومت کے نمایندوں نے اسمبلی کو تحلیل کرنے اور صوبے کی حکومت کو برطرف کرنے کی دھمکیاں دے کر سمجھا تھا کہ مجلس عمل کی حکومت خوفزدہ ہوجائے گی لیکن مجلس عمل نے بجاطور پر مرکزی وزرا اور گورنر کی گیدڑ بھبھکیوں کو کوئی وقعت نہ دی اور اپوزیشن جماعتوں کو اپنے نقطۂ نظر کے بیان کا پورا موقع دے کر بل کو خالص جمہوری انداز میں منظور کیا‘ جو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں حکومت کے سرکاری بلوں کو بل ڈوز کرنے کی روش سے بڑی مختلف مثال تھی۔ صوبائی حکومت نے بل کو دستور کے مطابق منظور کر کے بال کو مرکزی حکومت اور اس کے نمایندہ گورنر کی کورٹ میں پھینک دیا۔ اب مرکزی حکومت نے نہایت عجلت کے ساتھ ۲۴ گھنٹے کے غوروفکر کی زحمت بھی گوارا کیے بغیر دستور کی دفعہ ۱۸۶ کے تحت سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے کہ اس ’’قانونی مسئلہ‘‘ پر اپنی رائے دے۔ اس بارے میں اس نے آٹھ سوال اٹھائے ہیں۔ دستور کے تحت صدر کا یہ حق ہے کہ کسی بھی قانونی سوال کو عدالت عالیہ کے مشورے کے لیے بھیج دے لیکن اس کی حیثیت مجوزہ قانون کو عدالت میں چیلنج کرنے کے مترادف نہیں اس لیے کہ ابھی یہ بل اسمبلی نے صرف منظور کیا ہے اور اسے قانون کا درجہ حاصل نہیں ہوا۔
حِسبہ بل پر جو اعتراضات اٹھائے گئے ہیں ان کے مضمرات بڑے سنگین ہیں۔ ان میں سے کچھ کی طرف ہم اس مضمون میں اشارہ کریں گے۔
اس وقت مرکزی حکومت اور کچھ اپوزیشن جماعتوں نے اس بل پر جس طرح حملہ کیا ہے اور جن بحثوں کو وہ آگے بڑھا رہے ہیں‘ ان سے جو مرکزی نقطۂ نظر سامنے آتا ہے‘ وہ یہ ہے کہ اصل ہدف حِسبہ بل نہیں‘ اسلام اور شریعت اسلامی کا نفاذ ہے۔ اسلامی نظام کے قیام کے خالی خولی اعلانات تو بار بار ہوئے ہیں لیکن حِسبہ بل ایک ایسے حقیقی تنفیذی ادارے کے قیام کی کوشش ہے جس کے ذریعے کم از کم ایک صوبے میں نفاذ شریعت کے عمل کا آغاز ہوسکتا ہے۔ ہماری نگاہ میں تو یہ بل اسی منزل کی طرف ایک ابتدائی لیکن عملی اہمیت کا حامل اقدام ہے اور یہی وجہ ہے کہ مخالفین کی نگاہ میں یہ بڑی خطرناک پہلکاری (initiative) ہے کیوں کہ اگر مجلس عمل کی حکومت نفاذ شریعت کی طرف مؤثر انداز میں عملی پیش قدمی شروع کردیتی ہے تو ان کی ’’روشن خیال اعتدال پسندی‘‘ کا سارا قلعہ دھڑام سے زمین پر آگرے گا۔ اب تو یہ بات مغربی پریس نے برملا کہہ دی ہے کہ enlightened moderation (روشن خیال اعتدال پسندی) کی اصطلاح امریکا کے سابق وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے جنرل پرویز مشرف کے کان میں پھونکی تھی اور مقصد مسلمانوں کو اعتدال پسند اور انتہا پسند اور لبرل اور بنیاد پرست گروہوں میں بانٹنا تھا۔ اسلام اور سیکولرزم کے درمیان جنگ اب کھل کر سامنے آگئی ہے اور ساری سیکولر قوتیں یک جان و یک زبان ہوگئی ہیں۔ اب ہرجماعت اور ہرفرد اپنے اصل رنگ میں قوم کے سامنے آگیا ہے۔
حِسبہ بل کی حقیقت اور اس پر اعتراضات کی قدروقیمت پر کسی گفتگو سے قبل چند حقائق کا مختصر اعادہ ضروری ہے۔
سب سے پہلی قابلِ توجہ بات مرکزی حکومت کا صوبہ سرحد کی حکومت اور صوبے کے اصلاحی پروگراموں کے بارے میں معاندانہ رویہ ہے جو روز بروز مزید نمایاں ہوتا جارہا ہے۔ صوبے کے معاملات میں مرکز کی مداخلت صوبائی خودمختاری کے لیے بھی بڑا خطرہ ہے اور مرکز اور صوبے کے درمیان خوش گوار تعلقات اور ہم آہنگی پر بھی ضرب کاری کی حیثیت رکھتی ہے۔ مرکز‘ صوبے کے گورنر کے ادارے کو صوبے کی حکومت کو ہراساں کرنے کے لیے بڑی عاقبت نااندیشی کے ساتھ استعمال کر رہا ہے۔ مرکزی حکومت حساس قبائلی علاقوں میں امریکا کی خوش نودی اور حکم برآوری کے لیے فوج کشی میں مصروف ہے جس میں علاقے کے کورکمانڈر کے اعتراف کے مطابق ۲۵۱ فوجی کام آچکے ہیں اور ۵۵۰ زخمی ہوئے ہیں۔ صوبے کی انتظامی مشینری پر مرکز اپنی گرفت مضبوط کیے ہوئے ہے اور اس کا ثبوت صوبائی چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کا صوبے کی حکومت کے مشورے کے بغیر تبادلہ اور نئی ٹیم کا تقرر ہے۔ این ایف سی ایوارڈ نہ دے کر‘ صوبے کی مالیاتی ناکہ بندی بھی کی ہوئی ہے۔ بجلی کی رائلٹی سے لے کر طوفانی بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں تک کے موقع پر صوبے کو امدادی کارروائیوں کے لیے اس کے مبنی برحق وسائل سے محروم رکھنا بھی اس میں شامل ہے۔
مرکز کا یہ معاندانہ رویہ دستور کی کھلی خلاف ورزی ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی اعتبار سے فضا کو مکدر کرنے کا ذریعہ ہے اور صوبے کی حکومت اپنے محدود وسائل اور دستوری‘ قانونی اور انتظامی تحدیدات کے باوجود اپنے نظریاتی‘ معاشی‘ اخلاقی اور اصلاحی پروگرام پر جو عمل کرنا چاہتی ہے‘ اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ کش مکش حِسبہ بل کے سلسلے میں اس مقام پرآگئی ہے جس کے بڑے دُوررس نتائج ہوسکتے ہیں۔ صوبے کی جو اپوزیشن جماعتیں اپنے مخصوص سیاسی یا جذباتی تعصبات کی وجہ سے مرکز میں برسرِاقتدار عناصر کے اس کھیل کو نہیں سمجھ رہی ہیں اور ان کے جال میں پھنس گئی ہیں‘وہ بڑی بھیانک غلطی کی مرتکب ہو رہی ہیں۔
دوسری طرف صوبے کی حکومت پورے معاملے کو بہت صبروتحمل اور بردباری کے ساتھ لے کر چل رہی ہے۔ صوبے کی شریعت کونسل نے جس میں تمام مکاتب فکر (بشمول اہل تشیع) کے علما اوردانش ور شریک تھے‘ نفاذ شریعت کے لیے جو نقشۂ راہ مرتب کیا تھا‘ اس میں شریعت بل‘ حِسبہ بل‘ تعلیمی اصلاحات‘ معاشی اصلاحات اور سماجی اور معاشرتی اصلاحات کا ایک جامع پروگرام تھا۔ یہ کام صوبے کی شریعت کونسل نے حکومت کے قیام کے پہلے سال کے اندر اندر کرلیا تھا۔ شریعت بل اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کرلیا تھا اور بجٹ سازی‘ تعلیمی پالیسی‘ بنک کاری کے نظام کی تبدیلی اور چند دوسرے دائروں میں ضروری اصلاحات کے ساتھ حِسبہ بل جو دراصل عام آدمی کے لیے انصاف کے حصول اور سیاسی‘ معاشی‘ انتظامی اور دوسرے میدانوں میں رائج ظلم و استحصال کے تدارک کی ایک جامع کوشش ہے‘ متحدہ مجلس عمل کے پروگرام کا اہم حصہ تھا۔ حکومت کی کوشش تھی کہ اس پر زیادہ سے زیادہ اتفاق راے پیدا کیا جائے اور اس وجہ سے اس پر ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصے تک مذاکرات اور افہام و تفہیم کے ذریعے متفق علیہ راہ نکالنے کی کوشش کرتی رہی لیکن جب یہ واضح ہوگیا کہ دوسری طرف سے تعاون کی راہوں کو مسدود کر دیا گیا ہے تو پھر اس نے سارے خطرات اور مشکلات کو جانتے بوجھتے ہوئے‘ محض اللہ اور عوام سے اپنے عہد کو ایفا کرنے کے لیے اسمبلی کے ذریعے اس قانون کو بنانے اور اس کے مطابق عمل کرنے کا تہیہ کرلیا۔
حِسبہ بل کا مسودہ ابتدا ہی میں گورنر کو اس لیے بھیجا گیا تھا کہ اس پر افہام و تفہیم کا عمل شروع ہو۔ گورنر نے بات چیت کرنے کے بجاے اسے نو تشکیل شدہ اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیج دیا جسے خاص سیاسی مقاصدکے لیے تشکیل دیا گیا تھا اور جس پر اس کے قیام کے وقت ہی تمام اہم دینی عناصر نے شدید عدم اطمینان کا اظہار کر دیا تھا۔ کونسل دستور کی دفعہ (۲) ۲۳۰ کے تحت پابند ہے کہ اگر صدر‘ گورنر‘ مرکزی یا صوبائی اسمبلی اسے کوئی مسئلہ اظہار راے کے لیے بھیجتی ہے تو وہ ۱۵ دن کے اندر اندر اس پر اپنی رائے دے۔ گورنر سرحد نے کونسل کو حِسبہ بل ۱۴ اکتوبر ۲۰۰۳ء کو بھیجا ہے اور کونسل نے ۱۱ مہینے کے بعد ۴ستمبر ۲۰۰۴ء کو گورنر سرحد اور وزیراعلیٰ سرحد کو اپنی رائے بھیجی‘ اور جیساکہ ہم ثابت کریں گے کہ اس میں ایک نکتہ بھی ان terms of reference کے مطابق نہیں تھا جو دستور کے تحت اس کونسل کے لیے مقرر کیا گیا ہے بلکہ ایک سابق جج صاحب نے اپنی ساری قانونی مہارت کے ذریعے اِدھر اُدھر کی باتوں کو نمبروار داخل دفترکرنے کا کارنامہ سرانجام دیا اور کونسل نے اسے کسی تبدیلی کے بغیر آگے بڑھا دیا۔
صوبہ سرحد کی حکومت نے مرکز میں برسرِاقتدار جماعت کے ذمہ داروں سے بات چیت کی اور ۵جولائی کی نشست میں اس کی تین اہم ترین شخصیات تک نے جن میں حکمران پاکستان مسلم لیگ کے صدر چودھری شجاعت حسین اور سیکرٹری جنرل سید مشاہد حسین شامل تھے‘ اپنے اس استعجاب کا اظہار کیا کہ اس مجوزہ بل کی اتنی مخالفت کیوں ہو رہی ہے حالانکہ اس میں دو چار چھوٹی چھوٹی باتوں کے علاوہ کوئی بات قابلِ گرفت نظر نہیں آتی۔ بلکہ ایک صاحب نے تو یہاں تک کہا کہ خرابی آپ کے بل میں نہیں‘ آپ کے انداز اظہار (failure to communicate) میں ہے۔ اسی طرح صوبائی حکومت نے صوبے کی اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کو اعتماد میں لیا اور کہا کہ اگر کوئی معقول تجویز ہے تو آیئے‘ اس پر بیٹھ کر بات کرلیں لیکن دونوں محاذوں پر بالآخر مایوسی ہوئی اور غالباً اس کی وجہ دلیل کی بنیاد پر اختلاف نہیں بلکہ وہ خوف ہے جو امریکا اور مغربی اقوام کے اسلام کو ہوّا اور اصل خطرہ بناکر پیش کرنے کی مہم کا اثر ہے اور جس کا مظہر یہ مضحکہ خیز واویلا ہے کہ صوبہ سرحد ’’طالبانائیزیشن‘‘ کی زد میں ہے۔ حالانکہ جیساکہ ہم ثابت کریں گے اس بل کا کوئی تعلق افغانستان کے تجربات سے نہیں بلکہ اس کا حرف حرف دستور کے مطابق اور مسلمانوں کی ۱۴۰۰ سالہ تاریخ سے ہم آہنگ ہے اور پاکستان کے دوسرے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کمیٹی کی سفارشات‘ دستور ۱۹۷۳ء کے ریاست کے لیے رہنما اصول اور خود اسلامی نظریاتی کونسل کی اس مکمل رپورٹ کی سفارشات کے مطابق ہے جو ۱۹۹۶ء میں اس نے پیش کی تھی۔ آج جن باتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ان میں سے ہر ایک ملک کے قانونی نظام کا حصہ ہے اور ایک نہیں دسیوں قوانین میں وہی تمام دفعات من و عن موجود ہیں‘ مگر بھلا ہو تعصب کا کہ ؎
تمھاری زلف میں پہنچی تو حُسن کہلائی
وہ تیرگی جو مرے نامۂ سیاہ میں تھی
حِسبہ کی فکری اھمیت اور تاریخی روایت
ہر قوم کے لیے زندگی کا اجتماعی نظام کسی نہ کسی اصول اور نظریے پر مبنی ہوتا ہے۔ ایک تصور یہ ہے کہ مذہب ایک افیون ہے اور انسان کی زندگی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کسی اخلاقی ضابطے‘ کسی الہامی ہدایت اور ابدی اقدار کے کسی نظام کی ضرورت نہیں۔ اور اگر کچھ لوگ بضد ہیں کہ مذہب سے رشتہ باقی رہنا چاہیے تو پھر مذہب کا دائرہ صرف فرد کی ذاتی اور نجی زندگی اور زیادہ سے زیادہ مسجد اور گھر تک محدود ہونا چاہیے۔ اجتماعی زندگی کا نظام و نقشہ دنیوی علوم اور تجربات‘ ذاتی خواہشات اور مفادات اور قومی روایات اور تصورات کے مطابق بننا چاہیے۔ اگر ہمارا نظریۂ حیات یہی ہے تو پھر اس میں حِسبہ کے اس تصور کی کوئی گنجایش نہیں جو اسلام نے پیش کیا ہے اور جو مسلمانوں کی تاریخ کا تابندہ ادارہ اور روایت رہا ہے۔ لیکن اگر ہمارا نظریہ یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمان کے معنی ہی یہ ہیں کہ فرد اور جماعت‘ ہر کوئی ذاتی اور اجتماعی‘ ہر اعتبار سے اللہ کی بندگی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ مبارکہ کی پیروی میں اپنی دنیوی اور اُخروی نجات دیکھتا ہے تو پھر ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ان حدود کا پابند اور ان اقدار کا حامل ہونا چاہیے جو اسلامی زندگی کا طرۂ امتیاز ہیں۔ پھر انسان کی زندگی کا ہر لمحہ اس فکر میں گزرتا ہے کہ وہ اللہ کی اطاعت اور حقوق العباد ادا کرنے کی راہ میں گامزن ہے یا ان سے غفلت برت کر اطاعت الٰہی سے انحراف اور بغاوت کا مرتکب ہورہا ہے۔ پھر ہرلمحہ وہ اپنا احتساب کرتا ہے اور ہر قدم شعور اور منزلِ مطلوب کی طرف پیش قدمی کے جذبے سے اٹھاتا ہے۔ پھر وہ خود بھی نیکیوں کے حصول اور برائیوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے گردونواح میں بھی معروف کے فروغ اور منکرسے نجات کے لیے سرگرم ہوجاتا ہے۔ حِسبہ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اسی احساس کو مرتب اور منظم کرکے اداراتی حیثیت دینے کا نام ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز اور روزے کو بھی احتساب کے ساتھ ادا کرنے کی تلقین کی ہے اور پوری زندگی کھلی آنکھوں اور جائزہ نفس کے ساتھ گزارنے کا حکم دیا ہے (حاسبوا قبل ان تحاسبوا) ۔ گویااپنا جائزہ خود لے لو‘ اپنا حساب کتاب خود ہرلمحہ کرتے رہو قبل اس کے کہ تمھارا حساب لیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہرمسلمان مرد اور عورت اور مسلمانوں کے اجتماعی نظام___ اُمت بحیثیت مجموعی اور اسلامی ریاست جو مسلمانوں کی اجتماعی قوت اور امامت کی مظہر ہے‘ دونوں کی ذمہ داری ہے کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو اپنی زندگی کا شعار بنائیں۔ اہلِ ایمان اور کفار‘ منافقین اور فساق میں فرق ہی معروف اور منکر کے بارے میں ان کے رویے کا ہے۔ قرآن دونوں راستوں کو بالکل دو اور دو چار کی طرح واضح کر دیتا ہے:
اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَالْمُنٰفِقٰتُ بَعْضُہُمْ مِّنْم بَعْضٍم یَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْکَرِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ وَیَقْبِضُوْنَ اَیْدِیَہُمْط نَسُوا اللّٰہَ فَنَسِیَہُمْ ط اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ (التوبۃ ۹:۶۷)
منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک دوسرے کے ہم رنگ ہیں۔ برائی کا حکم دیتے ہیں اور بھلائی سے منع کرتے ہیں اور اپنے ہاتھ خیر سے روکے رکھتے ہیں۔ یہ اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے بھی انھیں بھلا دیا۔ یقینا یہ منافق ہی فاسق ہیں۔
وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍم یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَیُطِیْعُوْنَ
اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ ط اُولٰٓئِکَ سَیَرْحَمُہُمُ اللّٰہُ ط اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ o (التوبۃ ۹:۷۱)
مومن مرد اور مومن عورتیں یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں‘ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں‘ نماز قائم کرتے ہیں‘زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہوکر رہے گی۔ یقینا اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے۔
اور یہ ذمہ داری جس طرح ہر فرد___ مسلمان مرد اور عورت کی ہے اسی طرح یہ ذمہ داری پوری اُمت اور جب اہلِ ایمان کو زمین پر اقتدار حاصل ہو تو حکومت اور اس کی اجتماعی قوت کی ہے۔
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰)
اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو‘ بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌیَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۴)
تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں‘ بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں‘ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِط وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِo (حج ۲۲:۴۱)
یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میںاقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے‘ زکوٰۃ دیں گے‘ نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
نظام حِسبہ اسی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری کو ادا کرنے کی ایک منظم کوشش کا نام ہے۔ یہ انتظام دور رسالت مآبؐ سے شروع ہو کر اسلامی تاریخ کے ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس فرض کو انجام دیا اور اُمت کو مختلف انداز میں اور اپنے نمایندوں کو مختلف میدانوں میں اسی کام کو انجام دینے کے لیے مامور فرمایا۔ دور خلافت راشدہ میں ہرخلیفہ نے اسے انجام دیا‘ ہر ولایت کا گورنر اس پر مامور تھا اور پھر جیسے جیسے زندگی کے کاروبار نے وسعت اور تنوع اختیار کیا تو مختلف دائرہ کار کے افراد اور اداروں کا قیام عمل میں آیا۔
پہلی ہی صدی میں بازاروں میںنگراں (عمال السوق) مقرر ہوئے۔ قاضی اور کوتوال (شرطیٰ) کے ادارے وجود میں آئے اور پھر باقاعدہ حِسبہ کا نظام قائم ہوا جو ۱۳۰۰سال تک پوری اسلامی قلمرو میں مختلف شکلوں میں اور مختلف ناموں سے کارفرما رہا۔ امام غزالیؒ نے احیاء العلوم میں اس کے اخلاقی‘ معاشرتی اور معاشی ہر پہلو پر کلام کیا ہے۔ الماوردی نے الاحکام السلطانیہ میں ایک پورا باب اس نظام پر قائم کیا ہے اور سیاسی‘ معاشی اور انتظامی پہلوئوں کو اجاگر کیا ہے۔ ابن خلدون نے مقدمے میں اسے ایک بنیادی اجتماعی ادارے کے طور پر پیش کیا ہے۔ ابن تیمیہ نے الرسالہ فی الحسبۃ مرتب کیا جس میں اس کا تصوراتی ہیولہ (conceptual framework) مرتب کیا ہے۔ ابن حزم نے الفصل فی الملل میں اس پر مبسوط بحث کی ہے۔ غرض ہر دور میں اور ہر علاقے میں عملاً اس ادارے کی کارفرمائی دیکھی جاسکتی ہے اور اہلِ علم نے اپنے اپنے حالات کے مطابق اس پر بحثیں کی ہیں۔ بنواُمیہ‘ بنوعباس‘ دولت عثمانیہ‘ صفوی دور‘ تغلق سلطنت اور خصوصیت سے مغلیہ دور میں اورنگ زیب عالم گیر کی حکومت میں‘ حِسبہ کا ادارہ موجود رہا ہے۔ مصر‘ شام‘ ایران‘ بلادِ غرب‘ ماوراء النہر کے علاقے‘ ہر جگہ یہ ادارہ کسی نہ کسی شکل میں اور ناموں کی کچھ تبدیلی کے ساتھ تھا___ آج یہ متحدہ مجلس عمل کی اختراع نہیں۔ یہ ہمارے فکری نظام اور ہماری تاریخی روایت کا حصہ ہے اور اپنے حالات کے مطابق ہم اس نظام اور ادارے کے احیا کی ایک حقیر کوشش کر رہے ہیں۔
آیئے اب ان اعتراضات کا جائزہ لیں جو اس توقع اور یقین کے ساتھ شب و روز دھواں دھار انداز میں پیش کیے جا رہے ہیں کہ غلط سے غلط بات اگر بار بار کہی جائے تو لوگ اسے سچ سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ ہٹلر کے وزیر گوئبلز کی حکمت عملی ہے جس پر حِسبہ بل کے معترضین عمل پیرا ہیں۔
جس میں مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی حلقہ ہاے عمل میں اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق‘جس طرح قرآن پاک اور سنت میں ان کا تعین کیا گیا ہے‘ ترتیب دے سکیں۔
اسی بات کا اعادہ مزید وضاحت کے ساتھ دستور کی دفعہ ۳۱ میں کیا گیا ہے۔ دفعہ ۳۷ (جی) میں اخلاقی اور معاشرتی خرابیوں کے سدباب کا ہدف دیا گیا ہے اور دفعہ ۳۸ (ایف) میں ربا کے جتنی جلد ممکن ہو مکمل خاتمے (elimination) کو پالیسی کا مقصد قرار دیا گیا ہے۔
دفعہ ۲۲۷ سے ۲۳۰ تک (اسلامی دفعات )بھی اجتماعی زندگی کو مکمل طور پر قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کی دعوت دے رہی ہیں۔ حِسبہ بل دستور کے انھی اہداف کو حاصل کرنے کی طرف ایک قدم ہے۔
کہا گیا ہے کہ یہ بنیادی حقوق سے متصادم ہے اور دستور کی دفعہ ۱۹ اور ۲۰ کا ذکر کیا گیا ہے۔ مگر ان دونوں دفعات میں جہاں بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی وہیں یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ:
اسلام کی عظمت یا پاکستان یا اس کے کسی حصہ کی سالمیت‘ سلامتی یا دفاع‘ غیر ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات‘ امن عامہ‘ تہذیب یا اخلاق کے مفاد سے مشروط ہے۔
حِسبہ بل میں انھی اقدار کا تحفظ کیا گیا ہے جن کا ذکر دستور کی اس دفعہ میں ہے۔ اسی طرح دفعہ ۲۰ میںبھی: قانون‘ امن عامہ اور اخلاقیات سے مشروط ہونے کی وضاحت موجود ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے جواب (ستمبر۲۰۰۴ء )میں ایک دور کی کوڑی یہ بھی لائی گئی ہے کہ یہ دستور کی دفعہ ۱۷۵ (سی)سے متصادم ہے حالانکہ اس دفعہ میں عدلیہ کے انتظامیہ سے الگ ہونے کی بات کی گئی ہے (جس پر آج تک عمل نہیں ہوا)۔ حِسبہ کا نظام بنیادی طور پر ایک انتظامی ادارہ ہے‘ جو پوری انتظامی مشینری بشمول عدلیہ کے تعاون سے کام کرے گا اور عدلیہ کا پورا نظام اس کے دائرہ اختیار سے باہر ہوگا دفعہ ۲ (۳)۔
۱- تعلیم و تلقین
۲- انتظامی اعتبار سے نگرانی اور حکومت کی مشینری کے ذریعے بشمول پولیس اور انتظامی محکمے متعلقہ قوانین کے تحت اور متعلقہ اداروں کے ذریعے اقدام کرنا۔
۳- لوگوں کی شکایت پر یا ازخود تفتیش اور اس کے نتیجے میں خرابی کے تعین اور اس کی اصلاح کی کوشش ___ بذریعہ قانون۔
۴- عدلیہ اور صوبائی اسمبلی کے سوا حکومتی مشینری پر نگاہ‘ اور اختیارات کے غلط استعمال یا حق دار کو حق نہ ملنے کی صورت میں حق دار کی داد رسی ___ جس کا طریقہ متعلقہ مجاز ادارے کو اس کی غلطی پر متنبہ کرنا ہے۔ یہ خود نافذ نہیں کرسکتا بلکہ قوم کے اجتماعی ضمیر کی حیثیت سے خرابیوں پر گرفت اور اصلاح کا کام ملکی قوانین کے مطابق انجام دے گا یا انجام دیے جانے کی ہدایات جاری کرے گا‘ جو دنیا بھر میں محتسب یا انتظامی ٹریبونلوں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ صوبائی حِسبہ کا نظام دستور کے تحت خصوصی طور پر صرف (exclusively) صوبائی اسمبلی کی ذمہ داری ہے۔ دستور کی فیڈرل لسٹ میں صرف وفاقی محتسب کا ذکر ہے۔ مشترک لسٹ (concurrent list)میں محتسب کے ادارے کا ذکر موجود نہیں۔ اس لیے یہ صوبے کا خصوصی دائرہ اختیار (exclusive jurisdiction) ہے اور اس میں مرکز کی مداخلت صوبائی خودمختاری پر ایک ضرب کاری ہے جس کے بڑے دُوررس اثرات ہوسکتے ہیں۔
۱- پبلک مقامات پر اسلام کی اخلاقی اقدار کی پابندی کروانا۔
۲- تبذیر یا اسراف کی حوصلہ شکنی‘ خصوصاً شادیوں اور اس طرح کی دیگر خاندانی تقریبات کے موقع پر۔
۳- جہیز دینے میں اسلامی حدود کی پابندی کروانا۔
۴- گداگری کی حوصلہ شکنی کرنا۔
۵- افطار اور تراویح کے وقت اسلامی شعائر کے احترام اور ادب وآداب کی پابندی کروانا۔
۶- عیدین کی نمازوں کے وقت عیدگاہوں یا ایسی مساجد کے آس پاس جہاں عیدین اور جمعہ کی نماز ہو رہی ہو‘ کھیل تماشے اور تجارتی لین دین کی حوصلہ شکنی کرنا۔
۷- جمعہ اور عیدین کی نمازوں کی ادایگی اور انتظام میں غفلت کا سدباب کروانا۔
۸- کم عمر بچوں کو ملازم رکھنے کی حوصلہ شکنی کرنا۔
۹- غیرمتنازعہ حقوق کی ادایگی میں تاخیر کو روکنا اور مناسب داد رسی کرنا۔
۱۰- جانوروں پر ظلم روکنا۔
۱۱- مساجد کی دیکھ بھال میں غفلت کا سدباب کروانا۔
۱۲- اذان‘ فرض نمازوں کے اوقات اور اسلامی شعائر کے احترام و آداب کی پابندی کروانا۔
۱۳- لائوڈ اسپیکر کے غلط استعمال اور مساجد میں فرقہ ورانہ تقاریر سے روکنا۔
۱۴- غیر اسلامی معاشرتی رسم و رواج کی حوصلہ شکنی کرنا۔
۱۵- غیرشرعی تعویذ نویسی‘ گنڈے‘ دست شناسی اور جادوگری کا سدباب کرنا۔
۱۶- اقلیتی حقوق کا تحفظ خصوصاً ان کے مذہبی مقامات کا اور ان مقامات کا جہاں مذہبی رسومات ادا کی جا رہی ہوں‘ تقدس ملحوظ رکھنا۔
۱۷- غیر اسلامی رسومات جن سے خواتین کے حقوق متاثر ہوں خصوصاً غیرت کے نام پر قتل کے خلاف اقدام اٹھانا‘ میراث میں خواتین کو محروم رکھنے کا سدباب‘ رسم سورہ کا تدارک کرنا اور خواتین کے شرعی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانا۔
۱۸- ناپ تول کی نگرانی اور ملاوٹ کا تدارک کرنا۔
۱۹- مصنوعی گرانی کا سدباب کرنا۔
۲۰- سرکاری محکمہ جات میں رشوت ستانی کا تدارک کرنا۔
اگر ان اصلاحات پر قومی سطح پر عمل شروع ہو جائے تو اس سے انسانی حقوق کی حفاظت ہوگی یا ان کی پامالی___ اور معاشرے میں ظلم اور فساد میں کمی ہوگی یا اضافہ؟
۲- ریاستی پالیسی کے راہنما اصول درج ذیل ہوں گے:
(۱) ریاست اپنی سرگرمیوں اور پالیسیوں میں قرارداد مقاصد میں بیان کردہ اصولوں سے رہنمائی لے گی۔
(۲) حکومتی سرگرمیوں کے مختلف دائروں میں اقدامات خصوصاً وہ جو ذیل میں درج کیے گئے ہیں‘ کیے جائیں گے تاکہ مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ اپنی زندگیاں انفرادی اور اجتماعی طور پر قرآن پاک اور سنت کے مطابق مرتب کرسکیں۔
(ا) ان کے لیے سہولتیں فراہم کی جائیں گی تاکہ وہ سمجھیں کہ قرآن پاک اور سنت کے مطابق زندگی کا کیا مطلب ہے‘ اور مسلمانوں کے لیے قرآن پاک کی تدریس کو لازمی کیا جائے گا۔
(ب) شراب نوشی‘ جوے اور قحبہ گری کی ان کی تمام مختلف شکلوں میں ممانعت کی جائے گی۔
(ج) ربا کا خاتمہ ‘ جتنی جلدی اس کا کیا جانا ممکن ہو۔
(د) اسلام کے اخلاقی معیارات کو فروغ دینا اور برقرار رکھنا۔
(ح) زکوٰۃ ‘ اوقاف اور مساجد کا مناسب نظم۔
(۳) عوام کو اسلامی تعلیمات سے آگاہ کرنے کے لیے اور امربالمعروف ونہی عن المنکر کے لیے ایک تنظیم قائم کی جائے گی۔
(ماخذ: Constitutional Foundations of Pakistan ‘ڈاکٹر صفدر محمود‘ ص ۲۴)
اسلامی نظریاتی کونسل کے ۲۰۰۴ء کے تبصرے کا بار بار ذکر ہے۔ ہم اس پر گفتگو ذرا بعد میں کریں گے‘ پہلے یہ دیکھ لیجیے کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے دسمبر ۱۹۹۶ء میں اپنی مکمل سفارشات جو پارلیمنٹ کو دی تھیں ان میں حِسبہ کے قانون اور ادارے کی سفارش ہے اور مرکز ہی نہیں‘ صوبے کی سطح کے لیے ہے اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے ہے جس کے بارے میں اب وہ یہ ارشاد فرما رہے ہیں کہ معروف اور منکر کی وضاحت نہیں ہے اور اس سے قرآن و سنت کی تشریح مزید خلفشار کا باعث ہوگی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے:
اس حقیقت کے پیش نظر کہ ادارہ حِسبہ کا بنیادی مقصد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے متعلق اُمت‘ نیز ریاست کی اجتماعی اور مشترکہ ذمہ داری پوری کرنا ہے اور اس کردار کو سامنے رکھتے ہوئے جو حِسبہ کے ادارے نے اسلامی ادوار میں ادا کیا ہے‘ ضروری ہوگا کہ پاکستان میں اگر موجودہ دور میں یہ ادارہ قائم کیا جائے تو اس کے مندرجہ ذیل فرائض متعین کیے جائیں:
۱- ایسی برائیوں اور بدکاریوں کی روک تھام جو عام تعزیری قانون اور فوجداری ضابطے کے تحت قابلِ دست اندازی نہ ہوں۔
۲- تاجروں اور بازاروں‘ مارکیٹوں میں تجارتی سرگرمیوں میں مشغول افراد سے اسلامی ضابطہ اخلاق کی پابندی کروانا۔
۳- ایسی عبادتوں کی ادایگی کی نگرانی جو اجتماعی طور پر ادا کی جاتی ہیں‘ جیسے عید اور جمعہ کی نمازیں۔
۴- ایسے اعمال و اقدامات کی روک تھام جو ایسی بدکاریوں اور برائیوں کی نشوونما کا سبب بنیں جن کی شریعت نے حوصلہ شکنی کی ہے۔
۵- کاروباری معاملات میں روزانہ وقو ع پذیر ہونے والے افعال بد مثلاً ملاوٹ‘ دھوکادہی اور فریب کاری کے واقعات کی روک تھام۔
۶- لوگوں کو اس امر سے روکنا کہ وہ اپنے زیرولایت افراد‘ ملازموں‘ جانوروں اور دیگر کمزوروں کے ساتھ ظالمانہ برتائو کریں۔
پاکستان میں حِسبہ کا ادارہ
کام میں پیچیدگی اور بے فائدہ تکرار سے بچنے کے لیے تجویز کیا گیا ہے کہ محتسب (ombudsman) اور ان کے سیکرٹریٹ کا موجودہ اُردو نام فی الوقت برقرار رکھا جائے اور حِسبہ کا ایک خودمختار اور الگ ادارہ قائم کیا جائے تاکہ وہ ایسے امور یا معمولی جرائم کی نگرانی کرسکے جن کی طرف اب تک کوئی توجہ نہیں کی گئی۔
قومی سطح پر جناب صدرمملکت کی جانب سے ایک وفاقی حِسبہ اتھارٹی قائم کی جانی چاہیے تاکہ وہ پاکستان میں حِسبہ کے کام کی نگرانی اور اس میں مطابقت و ہم آہنگی پیدا کرنے کے عمل کی ذمہ داری پوری کر سکے۔ اس اتھارٹی کی سربراہی کسی ایسے ممتاز اور مستند عالم دین کو جو سپریم کورٹ کے شریعہ بنچ کا رکن بننے کی اہلیت کا حامل ہو یا کسی سینیرجج کے سپرد کی جانی چاہیے اور اس میں ممتاز علما نیز وفاقی حکومت کے سینیرافسران شامل ہونے چاہییں۔
صوبائی سطح پر گورنر ہر صوبے میں وفاقی حِسبہ اتھارٹی کے مشورے سے ایک ’’حِسبہ بورڈ‘‘ قائم کرے گا تاکہ صوبے میں حِسبہ کے فرائض کی نگرانی اور ان میں تطبیق و ہم آہنگی کا عمل بروے کار لایا جاسکے‘ نیز صوبائی حکومت اور اس کی مختلف ایجنسیوں سے رابطہ استوار رکھا جاسکے۔
صوبائی بورڈ کی سربراہی کسی ایسے مستند عالم دین کے سپرد کی جائے جو وفاقی شرعی عدالت کا جج بننے کا اہل ہو اور اس میں سینیرعلما شامل کیے جائیں۔ اس طرح ہر ضلع میں ایک حِسبہ کونسل قائم کی جائے جس کے سربراہ ایک ممتاز شہری ہوں۔ انھیں ’’مہتمم حِسبہ‘‘ کہاجائے گا۔ حِسبہ کونسل ضلعی سطح پر اسلام کے معاشرتی اور اخلاقی ضابطے کے پیروکاروں کے اعمال کی نگرانی کرے گی اور گاہ بگاہ ’’معروف‘‘ کی اطاعت اور ’’منکر‘‘ کی روک تھام سے متعلق صورت حال کا جائزہ لیتی رہے گی۔ اسی طرح یہ ’’تحصیل حِسبہ کمیٹی‘‘ قائم کرسکے گی۔ صوبائی حکومت ضلعی حِسبہ کونسل کے مشورے سے ایک علاقے یا آبادی میں مناسب تعداد میں ’’ناظر حِسبہ‘‘ مقرر کرے گی۔ ناظرحِسبہ کی مدد کے لیے ضروری عملہ مقرر کیا جائے گا جس میں کچھ مسلح افراد بھی شامل ہوں گے جنھیں ’’حِسبہ فورس‘‘ کہاجائے گا۔ ناظر حِسبہ اور اس کے عملے کو ’’پبلک آفیسرز‘‘ تصور کیا جائے گا۔ ناظرحِسبہ مجسٹریٹ درجہ سوم کے اختیارات استعمال کرے گا۔ ناظرحِسبہ پاکستان کے کسی شہری کی شکایت پر کسی پبلک عہدہ دار کی اطلاع یا اپنے علم کی بنا پر دیگر چیزوں کے علاوہ مندرجہ ذیل معاملات کی نسبت اپنے قانونی اختیارات استعمال کرسکے گا۔
پہلا اعتراض یہ ہے کہ مجوزہ صورت میں ادارہ حِسبہ کا قیام مقاصد شریعت کی تکمیل کے بجاے امربالمعروف ونہی عن المنکر کے بارے میں قرآن و سنت کے احکام کو متنازعہ بنانے کا باعث بن سکتا ہے اور مسائل کو حل کرنے کے بجاے مفاسد کا دروازہ کھول سکتا ہے۔ اس کے لیے کوئی شرعی یا عقلی دلیل نہیں دی گئی۔ دستور کی دفعہ ۲۲۷ (۱) کی تشریح میں واضح کر دیا گیا ہے کہ ہر مکتب فکر کے لیے قرآن و سنت کے بارے میں وہی تعبیر معتبر ہوگی جو اس کی نگاہ میں معتبر ہے۔ اس کے بعد معروف اور منکر کے متنازعہ بن جانے کاکیا خطرہ ہے۔
واضح رہے کہ حِسبہ بل میں خصوصیت سے ’’غیرمتنازعہ حقوق‘‘ کی تنفیذ کی بات کی گئی ہے۔ رہا مسئلہ سیاسی اغراض و مقاصد کے لیے استعمال کا‘ تو اس کی واضح ترین مثال اسلامی نظریاتی کونسل کا حِسبہ بل پر موجودہ تبصرہ ہے جس میں وہ کسی دلیل کے بغیرکونسل کے ۱۹۹۶ء کے مؤقف کی تردید کررہے ہیں ___ اور اس طرح اگر موجودہ حکومت کی آواز سے ان کی آواز مل جاتی ہے تو اسے ’’توارد‘‘ ہی سمجھا جانا چاہیے جس پر سیاست کا کوئی سایہ نہیں پڑا۔
دوسرا اعتراض کونسل کے خیال میں امورحِسبہ میں ایسے امور کا اضافہ ہے جو معروف نہیں ہیں۔ لیکن کوئی نشان دہی نہیں کی گئی کہ وہ کون سی چیزیں ہیں اور کس شرعی دلیل کی بناپر وہ اس دائرے سے باہر رہنی چاہییں۔
ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ دوسرے قوانین موجود ہیں‘ ان سے فائدہ اٹھایا جائے اور نیا ادارہ نہ قائم کیا جائے۔ یہ محض ایک انتظامی مشورہ ہے جس کا شریعت سے ہم آہنگی اور تصادم سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا کام ان اداراتی یا انتظامی امور پر راے زنی نہیں‘ اس کا کام صرف یہ ہے کہ کسی قانون یا تجویز کے بارے میں یہ بتائے کہ آیا وہ شریعت سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں؟ ان کے تمام اعتراضات میں سے ایک بھی ایسا نہیں جس میں شریعت کے کس حکم یا نص کی ادنیٰ سی خلاف ورزی کی بھی نشان دہی کی گئی ہو۔ جج صاحب نے اپنے زعم میں تمام امور پر عالمانہ رائے دی تھی لیکن اگر کوئی بات اس تبصرے میں نہیں ہے تو وہ شریعت سے مطابقت یا عدمِ مطابقت کے بارے میں کوئی مبنی بر دلیل بات ہے۔ یہاں ہم یہ بھی وضاحت کردیں کہ ۱۹۹۶ء کی تجاویز میں اسلامی نظریاتی کونسل نے مرکز اور صوبوں دونوں مقام پر موجود محتسب کے ادارے کے ساتھ حِسبہ کے ادارے کا مشورہ دیا تھا۔ جہاں تک صوبہ سرحد کا تعلق ہے وہاں پہلے سے محتسب بھی موجود نہیں اور وہ حِسبہ کی شکل میں ایک جامع ادارہ قائم کرنا چاہ رہے ہیں۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ کونسل اور اس کی سفارشات مرتب کرنے والے جج صاحب کے مبلغ علم کی کیا داددیں جب وہ فرماتے ہیں کہ فقہ جعفریہ میں حِسبہ کے احکام موجود نہیں ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی ۱۹۹۶ء کی سفارشات سنّی اور شیعہ علما نے مرتب کی تھیں۔ صفوی اور اسماعیلی دور میں حِسبہ کا ادارہ اُسی طرح قائم تھا جس طرح دولت عثمانیہ اور تغلق بادشاہوں کے دور میں تھا۔ ایران اور یمن میں بھی یہ اسی طرح موجود تھا جس طرح شام‘ عراق‘ ترکیہ اور ماوراء النہر میں۔ بلادمغرب اور مصر کے ہر دور میں موجود تھا۔ جس طرح امام غزالی اور امام ابن تیمیہ نے حِسبہ کا دفاع کیا ہے اسی طرح نظام الملک طوسی نے سیاست نامہ میں کیا ہے۔ نظریاتی کونسل اس دعوے کے لیے کیا دلیل اور تاریخی شواہد اپنے پاس رکھتی ہے؟صوبہ سرحد کی شریعت کونسل میں سنی علما کے ساتھ اہلِ تشیع کے نمایندے بھی شریک تھے جنھوں نے حِسبہ بل کا مسودہ مرتب کیا ہے۔ فاعتبروا یااُولی الابصار۔
کونسل کا ایک اور اعتراض محتسب کے تقرر کے لیے گورنر کو وزیراعلیٰ کے مشورے کا پابند بنانے پر ہے جسے قرارداد مقاصد اور دستور کی دفعہ ۱۷۵ (۳)سے متصادم قرار دیا گیا ہے۔ اس سے زیادہ مضحکہ خیز اعتراض کا اور وہ بھی ایک جج کی طرف سے جسے نظریاتی کونسل کی تائید حاصل ہے‘ تصور کرنا محال ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ دستور کی دفعہ ۱۰۵ کے تحت گورنر اپنے صواب دیدی معاملات کو چھوڑ کر وزیراعلیٰ کے مشورے کا پابند ہے جو پارلیمانی نظام کا بنیادی اصول ہے۔ اگر حِسبہ بل میں یہ لکھا ہوا نہ ہو تب بھی تودفعہ ۱۰۵ کے تحت گورنر وزیراعلیٰ کے مشورے کا پابند ہوگا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان تینوں صوبوں میں جہاں محتسب کا قانون موجود ہے‘ گورنر تقرر کرتا ہے مگر دفعہ ۱۰۵ کے تحت وزیراعلیٰ کے مشورے کا پابند ہے۔ اگر وہ عدلیہ کی انتظامیہ سے علیحدگی کو متاثر نہیں کرتا تو یہاں کیسے کرے گا؟ پھر جج صاحب بھول جاتے ہیں کہ عدلیہ کے تمام ججوں کا تقرر کسی آزاد عدالتی طریقے سے نہیں ہوتا بلکہ دستور کے تحت صدر‘ وزیراعظم کے مشورے سے کرتا ہے۔ چیف جسٹس کا تقرر صدر کرتا ہے اور اس تقرری میں وہ سینیارٹی کا پابند نہیں۔ دوسرے ججوں کے تقرر میںچیف جسٹس کا مشورہ ضرور شامل ہے مگر سب کو علم ہے کہ ججوں کا تقرر کس طرح ہوا ہے۔ امریکا میں ججوں کا تقرر صدر کی تجویز پر ہوتا ہے اور سینیٹ جو خود ایک سیاسی ادارہ ہے اس کی توثیق کرتا ہے۔ اگر یہ سب عدلیہ کو انتظامیہ کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑتے تو پھر حِسبہ بل میں وزیراعلیٰ کا مشورہ ہی کیوں سیاسی دراندازی قرار پاتا ہے___؟
کونسل کے بیشتر اعتراضات انتظامی نوعیت کے ہیں۔ ان میں سے چند سے حِسبہ بل پر نظرثانی کے موقع پر فائدہ اٹھایا بھی گیا ہے اور مزید استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ محتسب کی برطرفی اور میعاد ملازمت میں توسیع کے بارے میں کونسل کے مشوروں پر غور ہونا چاہیے لیکن ہم پورے ادب سے عرض کریں گے کہ یہ سب سفارشات انتظامی نوعیت کی ہیں‘ جب کہ اسلامی نظریاتی کونسل کا کام دستور کی دفعہ ۲۲۹ (بی) اور ۲۳۰ کے تحت صرف اتنا ہے کہ یہ مشورہ دے کہ:
اور یہ رائے بھی محض کسی ضمنی تبصرے (obitor dicta) کے انداز میں نہیں دی جاسکتی۔ ہر دعوے یا اعتراض کے حق میں قرآن وسنت سے دلائل و شواہد لانا ہوں گے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ۱۱نکات پر مشتمل اس رائے میں قرآن و سنت سے ایک بھی دلیل نہیں دی گئی ہے‘ نہ صراحتاً اور نہ اشارتاً۔ کونسل کے اس رویے کو علمی کہا جائے‘ شرعی کہا جائے یا سیاسی؟ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے۔
حقوق انسانی کے نام نہاد علم بردار بھی اس جنگ میں بڑے طمطراق سے کود گئے ہیں اور چلّا چلّا کر کہہ رہے ہیں کہ فرد کی آزادی خطرے میں ہے اور اخلاقی اقدار کی پاسداری کے نام پر لوگوں کے حقوق پر ڈاکا ڈالا جا رہا ہے۔ ہم اس سے پہلے دستور کی دفعات کے حوالے سے بتاچکے ہیں کہ بنیادی حقوق کے تمام امور اخلاق‘ شائستگی اور ملک کی سلامتی سے مشروط ہیں۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ حقوقِ انسانی کی ساری دُہائی ظالموں اور مجرموں کے حقوق ہی کے لیے کیوں دی جاتی ہے۔ کیا اس مظلوم انسان کے کچھ حقوق نہیں جو چوروں‘ ڈاکوئوں اور زانیوں کی چیرہ دستیوں کا نشانہ بن رہا ہے۔ حِسبہ بل کمزوروں کو طاقت وروں کی گرفت سے نکالنے کے لیے ہے اور اُن تک انصاف پہنچانے کے لیے ہے جو نہ انصاف کو خرید سکتے ہیں اور نہ ان کی رسائی اُونچے ایوانوں تک ہے۔ آج بعداز خرابیِ بسیار اخلاقی‘ سماجی اور معاشرتی امور کو قانون کی دسترس میں لانے کی کوشش ساری دنیا میں کی جا رہی ہے۔ امریکا کی کانگریس میں جہاں اور بہت سی کمیٹیاں ہیں جو اپنے اپنے دائرہ کار میں احتساب کا کام انجام دیتی ہیں‘ وہیں ایک اخلاقیات کمیٹی (Ethics Committee) بھی ہے جو ممبران کے اخلاقی رویے پر نگاہ رکھتی ہے۔ آج کرپشن ایک عالمی مسئلہ بن گیا ہے‘ اس کے نتیجے میں اخلاقی امور کو احتساب کے باب میں مرکزی حیثیت دی جا رہی ہے۔ بڑی بڑی کمپنیاں جس طرح بدعنوانی کا مظاہرہ کررہی ہیں‘ اس کے نتیجے میں تجارتی اخلاقیات (business ethics) اب تعلیم اور قانون دونوں کے سلسلے میں ایک متعلقہ موضوع بن گئی ہے۔ اور اب تو اکائونٹنٹس اور آڈیٹرز کے لیے بھی نئے اخلاقی ضابطوں اور قوانین کی باتیں ہورہی ہیں۔
آج دنیا کے ۱۲۰ ممالک میں کسی نہ کسی شکل میں محتسب (Ombudsman) کا ادارہ کام کر رہا ہے۔ یہ صرف انتظامی زیادتیوں کے تدارک ہی کے لیے مصروف عمل نہیں بلکہ سماجی اور اخلاقی امور بھی اس کے دائرے میں آرہے ہیں مثلاً کینیڈا میں Federal Correctional Investigator کا قیام بحیثیت محتسب ہوا ہے جس کا دائرہ کار بہت وسیع ہے۔ واشنگٹن ڈی سی میں Federal Students Aid Ombudsman قائم کیا گیا ہے۔ اسی طرح تعلیم‘ صحت‘ بچوں کے تحفظ‘ کمیونٹی کے مسائل اور فیملی کے معاملات تک کے بارے میں محتسب کے مخصوص ادارے قائم کیے جارہے ہیں۔ بلاشبہہ اجتماعی خرابیوں کے تدارک کے لیے وہ راستہ اختیار نہیں کیا جانا چاہیے جو فرد کی آزادی‘ عزتِ نفس‘ چادر اور چاردیواری کی حرمت کو پامال کرنے والا ہو۔ بے جا تجسس اور عیب جوئی (witch-hunting ) ایک دوسری برائی اور انتہا ہوگی۔ توازن کا راستہ ہی معقولیت کا راستہ ہے لیکن محض یہ بات کہ اسلامی اخلاقی اقدار کا تحفظ بھی محتسب کے دائرے میں آتا ہے‘ فرد کی آزادی کے لیے خطرہ سمجھ لینا صحیح نہیں۔ آزادی کے ساتھ ذمہ داری لازم و ملزوم ہیں۔ نہ ایک انتہا درست ہے اور نہ دوسری۔ محتسب کا نظام بھی اسی وقت کامیاب ہوسکتا ہے جب وہ ان تمام نزاکتوں کو پوری طرح ملحوظ رکھے‘ اور کوئی وجہ نہیں کہ اسلامی اقدار کی حفاظت اور ترویج کے لیے جو نظام قائم کیا جائے‘ وہ ان حدود کا خیال نہ رکھے۔
ایک حلقے کی طرف سے حِسبہ بل کی ان دفعات کو نشانۂ تنقید بنایا جا رہا ہے جن میں محتسب کو توہینِ عدالت (contempt of court) کے سلسلے میں وہی اختیارات دیے گئے ہیں جو عدالتوں کو حاصل ہیں۔ خود اپنے لیے قواعد و ضوابط بنانے پر بھی تیوریوں پر بل پڑ رہے ہیں۔ تضادات دُور کرنے کے حق پر بھی انگشت نمائی ہے۔ محتسب کے احتساب سے بالا ہونے کا دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے۔ راقم خود توہینِ عدالت کے پورے تصور کے سلسلے میں متفکر رہا ہے لیکن جو بات مضحکہ خیز ہے‘ وہ یہ ہے کہ جس نظام قانون کے تحت ہم زندگی گزار رہے ہیں یہ تمام چیزیں اس کا جانا بوجھا حصہ ہیں۔ اگر تمام مقامات پر نظرثانی کی جائے تو ایک قابلِ فہم بات ہے لیکن ایک حق ایک جگہ آپ دے رہے ہیں اور اس سے فسطائیت رونما نہیں ہوتی اور استبداد کا کوئی خدشہ وہاں نظر نہیں آتا لیکن اگر اسی نوعیت کا کوئی انتظام حِسبہ بل میں موجود ہے تو اس میں سارے کیڑے نکالے جا رہے ہیں‘ مثلاً وفاقی محتسب کے قانون مجریہ ۱۹۸۳ء کو لے لیجیے۔ اس میں دفعہ ۱۴ میں وہ تمام اختیارات ہیں جن کا تعلق معلومات حاصل کرنے اور گواہوں کی طلب اور جرح کے بارے میں ہے۔ دفعہ ۱۵ مکان کی تلاش (search of premises) کے بارے میں اور دفعہ ۱۶ توہین پر سزا کا اختیار (power to punish for contempt) سے متعلق ہے۔ دفعہ ۲۹ میں دائرہ اختیار پر پابندی (Bar of Jurisdiction) ہے جس کی رو سے کسی عدالت یا مجاز ادارے کو یہ اختیار نہیں ہوگا کہ وہ حکم نامہ کے تحت محتسب کے کیے گئے کسی اقدام کے خلاف حکم امتناعی (stay order) جاری کرے یا کوئی اقدام کرے۔
دفعہ ۳۷ میں order to override other laws کی شق موجود ہے۔ The Punjab Office Ombudsman ۱۹۹۷ء میں بھی یہی ساری شقیں (۱۵‘ ۱۶‘ ۱۷‘ ۱۸‘ ۲۹‘ ۳۷‘ ۳۸) موجود ہیں۔
بلوچستان اور سندھ کے قوانین بھی اس سے مختلف نہیں۔ یہ تو محتسب کا معاملہ ہے۔ ملکی قوانین میں تو بنک کاری ٹریبونل اور لیبر ٹریبونل تک میں یہ ساری دفعات کم و بیش انھی الفاظ میں موجود ہیں۔ پارلیمنٹ ہی کو نہیں اس کی کمیٹیوں کو بھی توہین پر سزا کے اختیارات حاصل ہیں۔ دسیوں قوانین ہر سال منظور کیے جارہے ہیں جن میں عدالتوں کے دائرہ اختیار سے استثنا (Exclusion of Jurisdiction of Courts) یا دائرہ اختیار کو نظرانداز کرنے (Overriding Jurisdiction) کی دفعات موجود ہیں حتیٰ کہ صدر کے لیے دو عہدوں کا جو غیرقانونی بل منظور کیا گیا ہے‘ اس تک میں موجود ہے کہ وہ دو عہدے رکھ سکتے ہیں اور دستور‘ قانون اور عدالت کے کسی فیصلے کا اس پر اطلاق نہیں ہوگا (Act No. VII of 2004)۔ دستور کی دفعہ ۲۷۰ اے اے میں صدر اپنے تمام احکامات کو اس طرح عدالتوں سے محفوظ کرتے ہیں کہ اسے کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ان درجنوں نہیں سیکڑوں قوانین سے فسطائیت نہیں آتی اور استبداد کے دروازے نہیں کھلتے تو ایک حِسبہ بل ہی کے ذریعے یہ قیامت کیسے ٹوٹ پڑے گی؟
ہم نے حِسبہ بل پر کیے جانے والے اعتراضات کا جو جائزہ لیا ہے اس سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ یہ مخالفت دلائل کی قوت سے محروم ہے‘ نیز ملک کے دستور‘ قانونی نظام اور دوسرے متعلقہ اداروں کے بارے میں پائے والے قوانین اور ضابطوں میں اور اس قانون میں کوئی تناقض نہیں۔ بلاشبہہ اسے بہتر بنایا جا سکتا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ صوبہ سرحد کی حکومت اور اسمبلی اس سے غافل نہیں ہوگی لیکن یک طرفہ طور پر اور سارے حقائق اور شواہد کو نظرانداز کر کے صرف اس بل کو نشانۂ تنقید بنانا حق و انصاف کے منافی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ سیکولر لابی اور مرکزی حکومت حِسبہ بل کے نام پر اسلامی اصلاحی پروگرام کی طرف پیش رفت کو روکنا چاہتے ہیں۔ نیز مرکزی حکومت صوبہ سرحد میں اپنے چہیتے افراد اور جماعتوں کی شکست کا بدلہ لینا چاہتی ہے۔ ہم صاف الفاظ میں کہنا چاہتے ہیں کہ دستور اور قانون سے یہ کھیل کھیلنا ان حضرات کو ان شاء اللہ بہت مہنگا پڑے گا اور متحدہ مجلس عمل اپنے اصولوں پر ہرگز سمجھوتا نہیں کرے گی اور اس قانونی جنگ اور سیاسی یلغار کا بھرپور مقابلہ کرے گی۔ ہمیں یقین ہے کہ ان شاء اللہ اسے کامیابی ہوگی اس لیے کہ حق اس کے ساتھ ہے ۔
ہم اس موقع پر خود متحدہ مجلس عمل کی قیادت اور کارکنوں سے بھی یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ حِسبہ بل پر بحث کے باعث ایک بنیادی سیاسی کش مکش صوبہ سرحد ہی نہیں‘ پورے ملک میں مرکزی اہمیت اختیار کرچکی ہے جو پاکستان کی شناخت‘ اس کے حقیقی نظریاتی وجود اور مسلمانوں کی اجتماعی زندگی اور اسلام کی اقدار اور نظامِ حیات کو قائم کرنے میں ریاست کے کردار سے متعلق ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے مؤقف کو دلیل کی قوت سے ثابت کریں اور جو افراد کنفیوژن کا شکار ہورہے ہیں‘ ان کو اپنے مؤقف کی صداقت کا قائل کریں۔ یہ دعوتی چیلنج ہمارے اور اس ملک کے مستقبل کے لیے بڑا فیصلہ کن ہے۔
ابھی حِسبہ بل کو نہ معلوم کتنے مرحلوں سے گزرنا ہوگا اور یہ جنگ نہ معلوم کیا کیا رخ اختیار کرتی ہے‘ ہمیں اس کے لیے تیار ہونا چاہیے۔ یہ جنگ علمی اور فکری جنگ بھی ہے‘ اور عملی اور سیاسی بھی___ اور صاف نظر آرہا ہے کہ دستوری اور قانونی بھی۔ ہر میدان میں اور ہر محاذ پر ہمیں اپنا فرض ادا کرنا چاہیے۔
دوسری بات جو ہماری نگاہ میں پہلی سے بھی زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے کہ اگر اللہ کی مدد اور عوام کی تائید سے ہم حِسبہ بل کو کتابِ قانون کا حصہ بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں‘ اور ان شاء اللہ ہم ضرور ہوں گے ‘تو پھر ہماری اصل آزمایش کا دور شروع ہوگا۔ اس بل کے قانون بن جانے کے بعد اس ادارے کاصحیح خطوط پر وجود میں آنا اور اس کے نتیجے میں صوبہ سرحد کے عوام کی زندگی میں مثبت تبدیلی کا نظر آنا بے حد ضروری ہے۔ یہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب ہم مندرجہ ذیل اہداف کے حصول کے لیے پوری دیانت سے کام کریں۔
۱- اس کام کے لیے صوبائی‘ ضلعی اور تحصیل کی سطح پرعلمی‘ اخلاقی اور عوامی شہرت کے اعتبار سے بہترین افراد کا انتخاب صرف میرٹ کی بنیاد پر ہو‘ جو ایمان‘ علم ‘تقویٰ اور خدمتِ خلق کے جذبے سے اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے سرگرم ہوجائیں۔ صحیح افراد کا انتخاب ہمارا پہلا بڑا چیلنج ہوگا اور دراصل ہمارا امتحان بھی۔
۲- پوری محنت کے ساتھ صوبائی‘ ضلعی اور بالآخرتحصیل کی سطح تک کام کرنے کے لیے مفصل قواعد و ضوابط (Rules of Business)کی تیاری۔ یہ اس ادارے کے صحیح خطوط پر وجود میں لانے اور عوام کو اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لائق بنانے کے لیے ضروری ہے۔
۳- ایک چیز جس کا تجربہ حالیہ بحث کے دوران بھی ہوا ہے‘ وہ یہ ہے کہ ہمارے اپنے کام میں پیشہ ور انداز کے اضافے کی ضرورت ہے۔ خلوص اولین ضرورت ہے لیکن خلوص کے ساتھ زمینی حقائق اور حالات کا ادراک اور انسانی زندگی کی پیچیدگیوں کو سامنے رکھتے ہوئے تجربات کی روشنی میں قابلِ عمل حل تلاش کرنے ہی سے حالات بدل سکتے ہیں۔ اس کام میں اعتماد کے ساتھ مشورہ اور جماعتی سوچ سے بالا ہوکر اور پوری قوم کو ساتھ لے کر چلنے کے جذبے کے ساتھ ہی کام صحیح معنی میں ثمرآور ہوسکتا ہے۔ یہ سارا کام دیانت اور للہیت کے ساتھ قاعدے اور قانون کے مطابق اور بہترین معیار کی مہارت کے ساتھ انجام دینا ہماری اولین ذمہ داری ہے۔
۴- حِسبہ کے اصل اسلامی تصور کو اس کی تفصیلات کے ساتھ اور اس کی اصل روح کے ساتھ سمجھنا اور اس سے بھی بڑھ کر دوسروں کو سمجھانا نہایت ضروری ہے۔ ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ ہم اپنے اچھے اچھے منصوبوں کو بھی مناسب انداز میں اور بروقت ٹھیک طور پر نمایاں نہیں کرپائے۔ اگر تجارت کی زبان استعمال کی جائے تو مارکیٹ میں کامیابی کے لیے مال کا اچھا ہونا ہی کافی نہیں‘ برانڈ‘ پیکنگ‘ مارکیٹنگ اور تشہیر و ابلاغ سب اہم ہیں اور کسی ایک کا غیرمعیاری ہونا یا اس میں کوئی کسر رہ جانا‘ باقی سب کو متاثر کرتا ہے۔
ضروری ہے کہ ہمارے کارکن اور قائدین‘ سب ان تمام امور کا خیال رکھیں۔ اسلام نے جو تعلیم ہمیں دی ہے‘ اس میں اللہ سے وفاداری کے ساتھ انسانوں کے ساتھ انصاف اور مجبوروں اور کمزوروں کا ہم دم اور ہم ساز بننا مطلوب ہے۔ ایک مسلمان کی بنیادی حیثیت اللہ کے خلیفہ اور اسلام کے داعی کی ہے۔ اور داعی ایک ڈاکٹر کے مانند ہوتا ہے جس کی ساری لڑائی مرض سے ہوتی ہے تاکہ مریض کو بچاسکے۔ ہمارا رویہ اپنے مخالفین کے ساتھ بھی داعیانہ ہونا چاہیے اور ان کو بھی جیتنا ہمارا اصل ہدف ہے۔ اس لیے ہمیں انصاف کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے اور جس کا جو حق ہے‘ خواہ اس کا تعلق کسی بھی گروہ اور جماعت سے ہو‘ اسے اس تک پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے۔ حِسبہ کی ذمہ داری خود احتسابی اور اجتماعی احتساب دونوں کے بغیر ٹھیک ٹھیک ادا نہیں ہوسکتی۔ ہم نے اس میدان میں قدم رکھ کر بہت بڑی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ اب ہم سب کا امتحان ہے۔
آیئے‘ اللہ پر بھروسا کرکے‘ خلوص‘ محنت اور مسلسل جدوجہد کے ذریعے اس امتحان میں کامیابی کے لیے جدوجہد کریں کہ ہماری اصل منزل تو عوام کی خدمت اور انسانوں کے درمیان انصاف کے قیام کے ذریعے اپنے رب کی رضا کا حصول اور آخرت کی کامیابی ہے۔ اگر ہماری نگاہ اپنی اصل منزل پر ٹھیک ٹھیک جمی رہے تو ان شاء اللہ اس امتحان میں بھی ہم کامیاب ہوں گے۔وماتوفیقی الا باللّٰہ۔
نوٹ: حِسبہ کے نظری‘ عملی‘ تاریخی اور انتظامی پہلوئوں پر درجنوں کتابیں موجود ہیں۔ لیڈن‘ ہالینڈ سے شائع ہونے والی مستشرقین کی انسائیکلوپیڈیا آف اسلام ‘ پنجاب یونی ورسٹی سے شائع ہونے والی اُردو دائرہ معارف اسلامیہاور ترکی سے شائع ہونے والی تازہ ترین انسائیکلوپیڈیا آف اسلام میں اس موضوع پر مبسوط مقالے دیکھے جاسکتے ہیں۔
اس ادارے کی تاریخ اور تصور کی وسعت کو سمجھنے کے لیے مندرجہ ذیل کتب کا مطالعہ مفید ہوگا۔
۱- احیاء العلوم ، غزالی‘ جلد دوم
۲- الفصل فی الملل، ابن حزم‘ جلدچہارم
۳- الرسالہ فی الحسبہ‘ ابن تیمیہ
۴- الحسبۃ والمحتسب فی الاسلام از زیادۃ‘ مطبوعہ مصر‘ ۱۹۶۳ء
۵- اسلامی ریاست میں محتسب کا کردار از ڈاکٹر ایم ایس ناز‘ ادارہ تحقیقات اسلامی‘ بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی‘ اسلام آباد‘ ۱۹۹۹ء
6. The Financial and Administration Organization and Development in Othman Egypt, 1517-1798 by Stanford J. Shaw, 1962.
7. The Social Structure of Islam by R. Levy, Cambridge, 1957.
8. The Administration of Justice in Medieval India by M.B. Ahmad, 1941.
9. Administration of Justice in Delhi Sultanate by M.B. Hew.
(کتابچہ دستیاب ہے‘ منشورات‘ منصورہ‘ لاہور۔ قیمت: ۶ روپے)