اگست۲۰۰۵

فہرست مضامین

مصر کے ذہین افراد کی بیرونِ ملک منتقلی

محمدجمال عرفۃ | اگست۲۰۰۵ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

ترجمہ: محمد ظہیرالدین بھٹی

عرب اور مسلم ممالک کے ذہین ترین افراد‘ ماہرین معاشیات‘ ماہرین ٹکنالوجی اور سائنس دان اعلیٰ فنی تعلیم حاصل کرنے کے بعد امریکا‘ یورپ اور دیگر ممالک میں منتقل ہوجاتے ہیں۔ یوں اُمت مسلمہ اپنے ذہین ترین افراد کی ذہانت و مہارت سے محروم رہ جاتی ہے۔ ذیل میں ہم گذشتہ چند برسوں کے دوران مسلم ماہرین کی ترقی یافتہ ممالک منتقلی و قیام کا جائزہ لیتے ہیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق مصر سے تقریباً ۲۰ لاکھ سے زائد سائنس دان باہر منتقل ہوچکے ہیں۔ ان میں سے ۶۲۰ سائنس دان انتہائی نایاب سائنسی شاخوں کے ماہر ہیں۔ ۹۴ سائنس دان نیوکلیائی انجینیرنگ میں ممتاز و منفرد درجہ رکھتے ہیں۔ ۲۶ سائنس دان ایٹمی فزکس کے ماہر ہیں‘ جب کہ ۷۲ سائنس دان لیزر ٹکنالوجی میں سرفہرست ہیں۔ ۹۳ سائنس دان الیکٹرانک اور مائیکرو پروسیسنگ میں نمایاں ہیں‘ جب کہ ۴۸ پولیمرکیمسٹری کے ماہرین ہیں۔ مزیدبرآں ۲۵ علوم فلکیات و فضائیات پر دسترس رکھتے ہیں‘ ۲۲ علوم ارضیات اور زلزلوں وغیرہ کے امور میں‘ جب کہ ۲۴۰ سائنس دان دیگر مہارتوں میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔

مصر سے ہر سال ایم اے اور ڈاکٹریٹ کے لیے طلبہ کی ایک بڑی تعداد بیرون ملک جاتی ہے۔ یہ لوگ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد واپس آنے سے انکار کردیتے ہیں‘ حالانکہ ایک شخص پر حکومت تقریباً ایک لاکھ ڈالر خرچ کرتی ہے۔ بیرون ملک کام کرنے والے مصری ماہرین کی زیادہ تر تعداد امریکا‘ کینیڈا‘ یورپ اور آسٹریلیا میں کام کر رہی ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں ماہرین کی بیرون ملک منتقلی کا ایک اہم سبب حکومتِ مصر کی ناقص منصوبہ بندی اور ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری ہے۔ بیرونی ممالک جانے کے اس عمل کا آغاز ۱۹۶۷ء میں شکستِ مصر کے بعد ہوا۔ ترکِ وطن کا ایک اور اہم سبب مصر میں سیاسی پابندیاں اور آمریت ہے۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر دسوقی ۱۹۶۱ء میں ڈاکٹریٹ کے لیے امریکی یونی ورسٹی سیٹن فورڈ گئے۔ جب وہ ۱۹۶۶ء میں واپسی کے لیے تیاری کر رہے تھے تو ان کا بے گناہ نصف خاندان مصری جیلوں میں پڑا تھا۔ انھوں نے بارہا وطن واپس آنے کا ارادہ کیا لیکن پورا مصر زندان بنا ہوا تھا۔ بالآخر جب انورالسادات نے قدرے آزادی کا ماحول پیدا کیا تو ڈاکٹر دسوقی نے مصرواپسی کا فیصلہ کیا۔

ماہرین کی بیرون ملک منتقلی اور مستقل قیام کی اس تعداد میں ہرسال اضافہ ہو رہا ہے۔ یادرہے کہ مصر سے باہر رہنے والے ۸ لاکھ ۲۴ ہزار ماہرین میں سے ۸۲۲ جدید ٹکنالوجی کے زبردست ماہر ہیں جو کہ سب کے سب امریکا میں رہ رہے ہیں اور تقریباً اتنی ہی تعداد میں ترقی یافتہ یورپی ممالک میں مستقلاً رہایش پذیر ہیں۔ ان میں ۲ ہزار ۴ سو ۵۵ ایٹمی شعاعوں کے ذریعے علاج کے ماہر‘ دل کے آپریشن و معالجے کے ماہر‘ انجینیرنگ بالخصوص نیوکلیائی انجینیرنگ ‘نیز انسانی علوم کے ماہرین ہیں۔ زراعت و معیشت کے اعلیٰ ترین ماہرین بھی ان میں شامل ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق ممتاز ترین ماہرین میں سے ۳ لاکھ ۱۸ ہزار ریاست ہاے متحدہ امریکا میں‘ جب کہ ایک لاکھ ۱۰ ہزار کینیڈا میں‘ ۷۰ ہزار آسٹریلیا میں اور ۳ لاکھ ۳۶ ہزار مختلف یورپی ممالک میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

مصری ایٹمی سائنس دانوں کی ایک کثیر تعداد عراق میں بھی کام کر رہی تھی۔ صدام حکومت نے اقوام متحدہ کے چھان بین کرنے والے عملے کو ۵۰۰ ایسے مصری ایٹمی سائنس دانوں کی فہرست پیش کی تھی جو عراق میں کام کر رہے تھے‘ جب کہ اس تفتیشی عملے نے ۱۵۰۰ مصری ایٹمی سائنس دانوں کی فہرست مرتب کی تھی جو عراقی ایٹمی پروگرام میں کام کر رہے ہیں۔ مصری ارکانِ پارلیمنٹ نے عراق میں کام کرنے والے مصری سائنس دانوں کے بارے میں اپنی تفتیش کا اظہار کیا تھا۔ چنانچہ عراق پر امریکی قبضے سے قبل مصری پارلیمان کے سات ارکان نے ایک بیان میں حکومت مصر سے ان سائنس دانوں کی حفاظت کا مطالبہ کیا تھا۔ چنانچہ امریکی اور برطانوی سفارت کاروں نے عراق میں کام کرنے والے مصری ایٹمی سائنس دانوں کے بارے میں معلومات جمع کیں۔

متعدد مصری سائنس دانوں کو موت کے گھاٹ بھی اتارا گیاہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی انٹیلی جنس موساد عرب ایٹمی سائنس دانوں کو اغوا کرنے کے بعد قتل کردیتی ہے۔ ۱۹۸۰ء میں مصر کے ایک عظیم ایٹمی سائنس دان یحییٰ المشد کو اسرائیلی انٹیلی جنس کے افراد نے پیرس میں شہید کردیا۔ ایک اور سائنس دان سمیرہ موسیٰ کو بھی ایک یورپی دارالحکومت میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ عراق پر امریکی قبضے کے بعد مسلم سائنس دانوں کے قتل کے واقعات میں تیزی آئی ہے۔ عراق کے ایٹمی سائنس دانوں کو چُن چُن کر قتل کیا گیا‘ جب کہ کئی ایک کو بھاری مالی پیش کش کرکے امریکا لے جایا گیا ہے۔

عرب لیگ نے فروری ۲۰۰۱ء میں اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ عرب ماہرین کی  بیرونِ ملک منتقلی سے عربوں کو ۲۰۰ ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ دوسری جانب اسرائیل‘ امریکی اور یورپی سائنس دانوں کو بھاری معاوضہ دے کر اسرائیل میں کام کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔

قاہرہ یونی ورسٹی کے شعبۂ سیاسیات کے سربراہ نے بتایا ہے کہ مصر ۱۹۵۶ء اور ۱۹۷۳ء کے مابین تقریباً ۳ لاکھ ۵ ہزار مصری ذہانتوں سے محروم ہوا ہے۔ ان سب ماہرین نے امریکا اور کینیڈا میں سکونت اختیار کر رکھی ہے۔ ۱۹۷۶ء میں امریکی کانگرس نے ایک خفیہ امریکی پالیسی پر بحث کی جس کا مقصد مصر اور بھارت جیسے ممالک سے ذہین ترین افراد کو امریکا منتقل کرنا تھا۔

ایک اور رپورٹ کے مطابق مغربی ممالک ۴ لاکھ ۵۰ ہزار سے زیادہ اعلیٰ تعلیم یافتہ عربوں کی خدمات سے استفادہ کر رہے ہیں۔ا علیٰ تعلیم یافتہ مسلمان ماہرین کی بیرونِ ملک منتقلی کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ مسلم ممالک کو ایسے اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے جس سے اس رجحان کی حوصلہ شکنی ہو۔ اس سلسلے میں مسلم ممالک کو جامع منصوبہ بندی کرنا ہوگی اور مسلم سائنس دانوں کی اپنے ممالک میں کام کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کرنا ہوگی۔ انھیں مناسب سہولیات فراہم کرنا ہوں گی اور انھیں جانی و مالی تحفظ فراہم کرنا ہوگا تاکہ مسلم ممالک ان ماہرین کی ذہانت اور مہارت سے بھرپور استفادہ کرسکیں۔ محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ پاکستانی حکام نے جو رویہ اختیار کیا ہے وہ مسلم سائنس دانوں کے لیے انتہائی روح فرسا اور مایوس کُن ہے۔ (المجتمع، شمارہ ۱۶۴۸‘ ۲۹ اپریل ۲۰۰۵ئ)