سہ ماہی اسلامائزیشن مدیراعلیٰ ظفراقبال خاں اور مدیرمعاون محمد طارق نعیم اسدی کی کاوشوں سے شائع ہونے والا اپنی نوعیت کا ایک منفرد جریدہ ہے‘ جس کا ہر شمارہ اپنی جگہ ایک مستقل کتاب کی حیثیت رکھتا ہے۔ مرتبین کے نزدیک: ’’عصرِحاضر میں ملّت اسلامیہ کا کوئی ایسا گوشہ باقی نہیں رہا‘ جسے عجمیت نے متاثر نہ کیا ہو‘‘ (۱:۲)۔ کلمۂ طیبہ لا الٰہ الا اللہ کے اصل مفہوم میں عجمی تشریحات اور تاویلات سے اسلام کے چشمۂ صافی میں طرح طرح کے شرک شامل ہوگئے ہیں‘ جنھیں اس سے علیحدہ کرنا توحید کے اثبات کے لیے ضروری ہے۔ یہ چاروں شمارے‘ اسی سعی کا ایک بھرپور اور پُرجوش اظہار ہیں۔
پہلے شمارے میں ظفراقبال خاں نے ’’مقامِ توحید کی اسلامی تعبیر‘‘ کے عنوان سے گویا اس پورے منصوبے کا تعارف کرایا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد باقر خاکوانی نے ’’کلمۂ طیبہ میں لفظ ’اِلٰہ‘ کا عام فہم معنی‘‘ کے عنوان کے تحت قرآن وحدیث میں ’اِلٰہ‘ کی اصطلاح کی تشریح کی ہے: وہ ذات‘ جس کا حکم مانا جائے‘ حکومت میں‘ عدالتی معاملات میں‘ حصولِ رزق اور معاشی اُمور‘ نیز تمام معاشرتی اور سماجی دائروں میں۔ محمد سعود کا مضمون اسلام میں توحید اور عبادت کے تصور پر ہے۔
مجلے کی دوسری جلد کا عنوان ہی ’’مقامِ توحید کی عجمی تعبیر‘‘ ہے۔ یہ پورا شمارہ ہی ظفراقبال خاں کا تحریر کردہ ہے جس میں انھوں نے بنیادی طور پر صوفیا وجودیہ کے قافلہ سالار‘ ہسپانوی مفکر ابن عربی پر تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بعد کے سارے مسلم فلاسفر اور صوفیا نے ’’وحدۃ الوجود‘‘ ہی کو توحید کی اصل تشریح سمجھا ہے‘ لیکن یہ نظریہ ابن عربی سے کہیں زیادہ قدیم ہے۔ انھوں نے بڑی تفصیل سے قدیم ہندومت‘ بدھ مت‘ جین مت‘ سکھ مت‘ نیز یہودیت اور عیسائیت میں ’’توحید‘‘ (بمعنی شرک) کے شواہد پیش کیے ہیں۔ ان کے خیال میں مسلم فلاسفہ میں یہ ’’توحید‘‘ وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کی اصطلاحوں کے ذریعے داخل ہوئی۔ اور سبھی صوفیا اس کمند کے اسیرہوگئے۔ ان میں دیوبندی‘ بریلوی اور اہل حدیث کے مسالک کی کوئی قید نہیں۔ مجدد الف ثانی نے اگرچہ ابن عربی کی اس ’’توحید‘‘ (وحدت الوجود) پر سخت تنقید کی مگر ’’وحدۃ الوجود‘‘ اور وحدۃ الشہود کے درمیان صرف لفظی فرق ہے (۲:۱۱)۔ وہ سرسید‘ محمد اقبال اور دوسرے روایتی عصری علما کو بھی اسی فکری مرض میں مبتلا پاتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ’’خطباتِ مدارس میں اقبال نے واشگاف انداز میں سریان [اللہ تعالیٰ کی ذات ساری کائنات میں جاری و ساری ہے] کی حمایت کی ہے… اقبال اور ابن عربی کی الٰہیات میں کسی قسم کا فرق نہیں‘‘۔ (۲:۲۱۷)
یوں محسوس ہوتا ہے کہ فاضل مصنف اپنے نقطۂ نظر کو ثابت کرنے کے جوش میں یہ بات فراموش کر دیتے ہیں کہ ہر صاحبِ فکر اپنی سوچ میں مختلف ادوار سے گزرتا ہے۔ شیخ مجدد خود اعتراف کرتے ہیں کہ اُن کا مسلک ابتدا میں ’’وجودی‘‘ تھا مگر وہ جلد ہی اس تنگ کوچے سے نکل آئے۔ ایک مخصوص مرحلے پر مسالک کو یہ ’’محسوس‘‘ ہوتاہے گویا سارا وجود ایک ہی ہے ‘اور خالق و مخلوق میں کوئی دُوئی نہیں‘ مگر یہ حقیقت نہیں ہے‘ محض ایک ’’شہود‘‘ ہے۔ دراصل خالق‘ خالق ہے اور مخلوق‘ مخلوق۔ دونوں میں اس کے علاوہ کوئی اور رشتہ نہیں۔ اقبال کی فکر کے بھی کئی درجات اور مرحلے ہیں۔ کبھی وہ ہندستان کو ’’سارے جہاں سے اچھا‘‘ اور خود کو اس گلستان کی بلبلوں میں شمار کرتے تھے اور پھر وہ ’’مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا‘‘ کے مدعی ہوئے۔ اگر ان کی ابتدائی نظموں میں ’’وحدت الوجود‘‘ کی جھلک نظر آتی ہے‘ تو دیانت کا تقاضا ہے کہ اُن کی بعد کی فکر کے نمونے بھی دیکھے جاتے۔ سرسیداحمد اور محمد اقبال کی فکر کو بایزید بسطامی کی سطحیات اور فلاطینوس کے ساتھ جوڑنا مناسب نہیں۔
اسلامائزیشن کے تیسرے شمارے کا عنوان ہے: ’’فلسفۂ توحید اور ذرائعِ علم کی عجمی تشکیل‘‘۔ اس میں فکر کے منہاج‘ استخراج‘ استقرا‘ وجدان و سریت‘ علمِ وحی‘ اللہ کی موجودگی کا اثبات جیسے عنوانات سے طویل بحثیں ہیں‘ جہاں کہیں کہیں تضادات بھی محسوس ہوتے ہیں‘ مثلاً شاہ ولی اللہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کی علمی تحقیق سے ’’وحدۃ الوجود‘‘ کی پوری عمارت منہدم ہوجاتی ہے (ص ۱۷۹)۔ لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ صوفیا کے خاندان سے وابستگی کی بنا پر وہ اس نظریے کا کلیتاً رد نہ کرسکے۔(ص ۲۲۵)
’’فلسفۂ توحید اور وحدۃ الوجود کا تحقیقی مطالعہ‘‘ یہ عنوان ہے اس مجلے کے چوتھے شمارے کا۔ پہلے طویل باب میں فلسفۂ وحدۃ الوجود کی مختصر تشریح کے بعد فاضل مصنف نے دعویٰ کیا ہے کہ مسلمانوں کے اکثر مکاتبِ فکر میں توحید کے بنیادی عقیدے کا ماخذ ’’حقیقتِ محمدیہ‘‘ ہے‘ جو وحدۃ الوجود کی بنیادی اینٹ ہے (ص ۲)۔ مجدد اور ابن عربی کا اختلاف محض ’’نزاعِ لفظی‘‘ ہے (ص ۳۷)۔ مولانا محمد قاسم نانوتوی‘ امداد اللہ مہاجر مکی‘ عبدالحی لکھنوی‘ علامہ سعید احمد کاظمی‘ ڈاکٹر طاہرالقادری‘ اشرف علی تھانوی‘ میرولی الدین‘ ثنا اللہ امرتسری‘ وحیدالزماں خان‘ صدیق حسن خاں‘ محدث عبداللہ روپڑی‘ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی‘ سید سلیمان ندوی‘ حفظ الرحمن سیوہاروی‘ ڈاکٹر برنیئیر‘ ڈاکٹر تاراچند‘ عبدالحمید سواتی‘ حسرت موہانی‘ علی عباس جلالپوری‘ خواجہ غلام فرید‘ فریدالدین گنج شکر‘ شاہ عبدالرحیم محدث دہلوی‘ سلطان باہو‘ مرزا غلام احمد قادیانی اور یونس خان کے خیالات دربارئہ وحدت الوجود (اسی ترتیب سے) کسی کو جاننے کا شوق ہو تو محترم ظفراقبال خاں نے بڑی محنت سے اس کے لیے آسانی پیداکردی ہے۔
اگرچہ اسلامائزیشن کے ان چار شماروں میں اکثر مقامات پر مباحث کی تکرار نظرآتی ہے‘ لوازمے اپنی مقدار کی فراوانی کے باوصف‘ بعض دفعہ محسوس ہوتا ہے کہ ترتیب کے ساتھ پیش نہیں کیے گئے‘ زبان کی طرف بھی بعض جگہ احتیاط کی جاتی تو اچھا تھا کہ سلف سے اختلاف کے باوجود ان کا ادب بہرحال مستحسن ہے‘ تاہم اُردو زبان میں وحدت الوجود کے مسئلے پر اس فراوانی کے ساتھ گفتگو یقینا ظفراقبال خاں اور محمد طارق نعیم اسدی کا منفرد کارنامہ ہے اور اس عرق ریزی کے لیے وہ یقینا مبارک باد کے مستحق ہیں۔ (پروفیسر عبدالقدیر سلیم)
برعظیم ہند میں جب تک مسلمانوں کی حکومت رہی یہاں شرعی قوانین نافذالعمل رہے۔ مسلمان حکمرانوں کی عیش پرستی اور نااہلی کے سبب جب برطانوی سامراج نے ہندستان میں قدم جمائے تو اس کے باوجود ۱۸۶۰ء تک یہاں اسلامی قانون ہی کی عمل داری رہی۔ لارڈ میکالے کمیشن کی رپورٹ پر غیرملکی حکمرانوں کے قوانین نافذ ہونے کے بعد بھی مسلمان اسلام ہی کے قانون کو جو صدیوں سے ان کے دل و دماغ پر نقش تھا اور ہے‘ لائق اطاعت سمجھتے رہے ہیں۔ انھوں نے انگریزوں سے آزادی حاصل کر کے ہندوئوں سے علیحدہ اسلامی مملکت اسی لیے قائم کی کہ یہاں اسلام کے عادلانہ قانون کی حکمرانی ہو۔
قرارداد مقاصد منظور ہونے کے بعد اس نوزائیدہ اسلامی ملک کی بیوروکریسی اور فوجی آمریت کی خوے غلامی قوانین شرعیہ کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئی۔ اس کے خلاف پاکستان کے عوام کا مسلسل مطالبہ‘ اسلامی مکاتب فکر کی تمام دینی اور سیاسی جماعتوں کی جدوجہد اور وکلا کی قانونی جنگ اور اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں نے حکمرانوں کو مجبور کیا کہ وہ اسلامی دستورسازی اور اسلامی قانون سازی کریں۔ چنانچہ ۱۹۷۳ء کے آخری آئین کی تشکیل کے بعد ۱۰فروری ۱۹۷۹ء میں قوانین حدود کا نفاذ ہوا جس کی رو سے زنا‘ قذف‘ چوری اور شراب کے جرائم کے ارتکاب پر حد کی مقرر کردہ سزائیں لاگو کردی گئیں۔ ان تمام قوانین کا میاں مسعود احمد بھٹہ ایڈوکیٹ نے زیرتبصرہ تالیف میں بڑی محنت اور کاوش سے احاطہ کیا ہے۔ میں نے کتاب سے متعلقہ متعدد مقامات کو دیکھا ہے۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ مؤلف موصوف نے قرآن اور سنت کو اس کتاب قوانین الحدود کی بنیاد بنایا ہے۔ قانون کی تعبیر اور تشریح کے لیے بلاتفریق مسلک فقہاے اُمت کی مستند کتابوں میں انھیں جہاں بھی مواد ملا ہے اس کا جابجا حوالہ دیا ہے۔ عصرِحاضر کے ممتاز علما کے متعلقہ قوانین کے بارے میں ریسرچ سے بھی استفادہ کیا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کے حوالے نہایت ضروری تھے جو انھوں نے کتاب کے حاشیوں میں صحیح طریقے سے درج کیے ہیں۔ جس کی وجہ سے کتاب کی افادیت میں قابلِ قدر اضافہ ہوا ہے۔
اس کتاب کو اُردو میں لکھ کر فاضل مؤلف نے یہ ثابت کیا ہے کہ ہماری قومی زبان میں نہ صرف قانون بلکہ اس کے مفہوم اور تشریحات کو بہتر طور پر ادا کرنے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ اردو کو سرکاری اور عدالتی زبان بنانے کے لیے آئین کی دفعہ ۲۵۱ کو نظرانداز کرنے میں حکومت کی سہل انگاری اور عدلیہ کا تغافل شامل ہے جس کی الگ دل خراش داستان ہے جس پر مصنف نے بجاطور پر ماتم کیا ہے۔
نقدونظر کا تقاضا ہے کہ چند ان امور کی بھی نشان دہی کی جائے جو ہمارے خیال میں اصلاح طلب ہیں۔ مولف نے حدسرقہ ساقط ہونے کے بارے میں لکھا ہے: ’’ہمارا نظریہ تو یہ ہے کہ نالش کے ’’فیصلہ‘‘ سے قبل تک مال مسروقہ کی واپسی حد کو باطل قرار دیتی ہے‘‘۔ لیکن اس کے بعد انھوں نے حدیث صفوانؓ بیان کی ہے جس کی نالش پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سرقہ کے لیے ’’قطع ید‘‘ کا حکم دیا تھا۔ جس پر حضرت صفوانؓ نے کہا کہ وہ مسروقہ چادر سارق کو بطور خیرات دیے دیتے ہیں‘‘۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ معاملہ میرے پاس ’’فیصلہ‘‘ آنے سے پہلے کیوں نہ کیا تھا‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے بعد اسے اپنے نظریے کے طور پر بیان نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ حکم واجب التعمیل فیصلہ بن جاتا ہے۔ یہ سنن نسائی کی حدیث ہے۔ اس کے فن کا پوری طرح جائزہ لینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفوانؓ سے یہ فرمایا کہ انھوں نے خیرات یا معافی کا معاملہ عدالت میں مقدمہ پیش ہونے سے قبل کیوں نہ کرلیا تھا۔ اس کا مطلب ایسا معاملہ فیصلہ کرنے سے قبل کا نہیں بلکہ عدالت کی نوٹس میں لانے سے قبل ہونا چاہیے۔ اصول قانون (science of jurisprodence) سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں امام شافعیؒ کا الرسالہ مستند تحقیقی کام ہے۔ اس علم کا آغاز یورپ میں اٹھارھویں صدی میں ہوا ہے۔
فاضل مؤلف نے شریعت ایکٹ سال ۱۹۹۰ء کا جو حوالہ دیا ہے وہ دراصل غیرشرعی ایکٹ تھا جسے راقم نے فیڈرل شریعت کورٹ میں چیلنج کر کے سال ۱۹۹۲ء میں قرآن و سنت سے ہم آہنگ کرایا ہے۔
نفاذِحد کا جائزہ لیتے ہوئے مؤلف موصوف نے سال ۱۹۷۳ء کی دفعہ ۲ کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس میں اسلام کے ساتھ لفظ ’’مذہب‘‘ استعمال کرنے سے اسلام کی دینی حیثیت متروک ہوگئی ہے۔ دفعہ (۲) سال ۱۹۷۳ء کے آئین سے پہلے دساتیر میں موجود نہیں تھی۔ سال ۱۹۷۲ء میں راقم نے لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی آئینی کمیٹی کے صدر کی حیثیت سے آئین ساز اسمبلی کو اور بطور خاص علما حضرات کو اپنی آئینی سفارشات میں یہ تجویز پیش کی تھی جن میں سے یہ ایک ایسی تجویز کو آئین کی دفعہ (۲) بنا دیا گیا ہے۔ Islam shall be the state religion of Pakistan انگریزی میں لفظ "religion"دین کے معنی میں استعمال ہوتا ہے (ملاحظہ ہو المورد قاموس انکلیزی)۔ لغوی معنی سے قطع نظر اصطلاحی طور پر دین اور مذہب ہم معنی لفظ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ اصل مقصد یہ ہے کہ ریاست جو عدلیہ‘ مقننہ اور انتظامیہ پر مشتمل ہے ان تینوں کا ’’دین‘‘ یا ’’مذہب‘‘ اسلام ہوگا۔ اس لیے یہ تینوں اسلام کے احکام اور قوانین کے پابند ہیں۔
کتاب کے بعض الفاظ سہوِ کتابت معلوم ہوتے ہیں جیسے مستشرقین (Orientalists) کو ’’مستشرکین‘‘ لکھا گیا ہے۔ ثقہ کے لیے سقاہت کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ آخری بات یہ ہے کہ موضوعی کتابیات حروفِ تہجی کے حساب سے ہوتی تو وکلا اور عدلیہ کے لیے باعث سہولت ہوتا۔ (محمد اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ)
فاضل مصنف نے مقدمے میں کہا ہے کہ اگرچہ مسلمانوں میں اسلامی تعلیمات کی سچی پیروی کا جذبہ پایا جاتا ہے‘ مگر غفلت‘ بے توجہی اور لاپروائی کی بناپر بہت سے لوگ متعدد کمزوریوں اور تناقضات میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ پتا نہیں‘ انھیں اس کا احساس بھی ہوتا ہے یا نہیں۔ (ص ۱۴)
زیرنظر کتاب میں اس ’’احساس‘‘ کو اُجاگر کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ مصنف نے عمل کے خواہاں لوگوں کے لیے قرآن و سنت سے اخذ کردہ اس مکمل اور جامع مطالعے کو نو ابواب میں پیش کیا ہے: ۱- مسلمانوں کا تعلق اپنے رب سے‘ ۲- اپنے نفس سے‘ ۳- اپنے والدین سے‘ ۴- اپنی بیوی سے‘ ۵- اپنی اولاد سے‘ ۶- اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں سے‘ ۷- اپنے پڑوسیوں سے‘ ۸- اپنے بھائیوں اور دوستوں سے‘ ۹- اپنے معاشرے سے۔
مصنف نے اخلاقیات‘ عبادات و معاملات‘ حقوق و فرائض اور تہذیب و تمدن کے متعلق اسلامی تعلیمات کو تفصیل سے یک جا کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مغربی تہذیب کے ’’چنگیز سے تاریک تر‘‘ اندروں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
کتاب کا عربی سے اردو ترجمہ ایسے رواں انداز میں کیا گیا ہے کہ اس پر ترجمے کا گماں نہیں ہوتا۔ اپنے موضوع پر یہ منفرد مجموعہ‘ ہر مسلمان کی تعلیم و تربیت اور تزکیہ بالخصوص داعیانِ دین کی بنیادی ضرورت ہے۔(حمید اللّٰہ خٹک)
آسان طریقے سے عربی سکھانے کا دعویٰ کرنے والی بہت سی کتابیں موجود ہیں لیکن ہر ایک کا اسلوب جداگانہ ہے۔ زیرتبصرہ کتاب اس لحاظ سے نہایت قابلِ قدر ہے کہ اس کے مؤلفین میں مولانا مسعود عالم ندویؒ شامل ہیں۔ مسعود عالم ندویؒ کی عربی زبان و ادب کے لیے خدمات نہایت ہی قابلِ قدر ہیں۔ انھی کے شاگردوں: محمد عاصم الحدادؒ اور مولانا خلیل احمد حامدیؒ نے مولانا مودودیؒ کی فکر کو عربی زبان میں منتقل کیا۔ طویل مدت کے بعد‘ اب دونوں حصوں کو ملا کر خوب صورت اور دیدہ زیب انداز میں شائع کیا گیا ہے۔ کتاب کے مقدمے میں مولانا مسعود عالم ندویؒ نے ’’عربی زبان اور اس کی تعلیم کا صحیح طریقہ‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے کہ کسی زبان کو سیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے لیے مقدور بھر کسی دوسری زبان کا سہارا نہ لیا جائے‘ اور اہلِ ایمان کی مرتب کردہ ریڈروں سے مدد لی جائے‘‘۔
مقدمے میں مولانا نے عربی ڈکشنری کے حوالے سے لکھی گئی ڈکشنریوں کابے لاگ تجزیہ کر کے بتایا ہے کہ کون سی کتب پر انحصار کیاجاسکتا ہے اور کون سی کتب قابلِ اعتماد نہیں ہیں۔
کتاب میں اس بات کا اہتمام کیا گیا ہے جو قاعدہ بیان کیا جائے‘ اسی کی مشق کروائی جائے اور اس سے پہلی مشقوں میں اس سے متعلقہ کوئی جملہ شامل نہ کیا جائے۔ ہر باب میں متعلقہ موضوع کے حوالے سے تمرنیات (مشقیں) شامل کی گئی ہیں جن میں طالب علم اردو میں ترجمہ کرے اور الفاظ و جملوں پر اعراب لگائے تاکہ الفاظ کی صحیح ادایگی ہو اور معانی و مفہوم واضح ہوسکے۔ اسی طرح اُردو سے عربی ترجمہ کرنے کے قابل ہوسکے۔
گویا مولانا مسعود عالم ندویؒ نے عربی زبان کی تدریس کو جدید اور عملی انداز میں پیش کرکے طالب علم اور عربی سیکھنے والے افراد کے لیے نہایت مؤثر‘ عام فہم اورآسان بنا دیا ہے۔ وہ ادارے جو عربی زبان سکھانے کا اہتمام کرتے ہیں‘ یا عربی زبان کی ترویج کرنا چاہتے ہیں بالخصوص مدارس دینیہ اور عربی زبان و ادب کے طلبہ کے لیے یہ کتاب ان شاء اللہ العزیز بہترین زادِ راہ ثابت ہوگی۔ (میاں محمد اکرم)