اگست۲۰۰۵

فہرست مضامین

اُمت کا عروج و زوال البقرہ کی روشنی میں (آخری قسط)

خرم مراد | اگست۲۰۰۵ | فہم قرآن

Responsive image Responsive image

ترجمہ: مسلم سجاد

غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ البقرہ کو کچھ متعین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جن کے اپنے موضوع ہیں لیکن ایک دوسرے سے متعلق ہیں۔ ان حصوں کو مزید ذیلی حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ یہ تقسیم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں بتائی گئی ہے‘ لیکن غوروفکر اور تفہیم کو بہت آسان کردیتی ہے۔ میری فہم کے مطابق سورت کے ایسے سات حصے ہیں:

حصہ اوّل: آیات ۱ تا ۳۹ (۳۹ آیات)۔ ہدایت کی بنیادیں۔

حصہ دوم: آیات ۴۰ تا ۱۲۳ (۸۴ آیات)۔ بنی اسرائیل‘ ایک مسلم اُمّت زوال کی کیفیت میں‘ عہدشکنی اور قلب و عمل کے امراض۔

حصہ سوم: آیات ۱۲۴ تا ۱۵۲ (۲۹ آیات)۔ پیغمبرانہ مشن اُمّت مُسلمہ کے سپرد کرنا۔

حصہ چہارم: آیات ۱۵۳ تا ۱۷۷ (۲۵ آیات)۔ کلیدی انفرادی خصائص‘ دین اور شریعت کے بنیادی اصول۔

حصہ پنجم: آیات ۱۷۸ تا ۲۴۲ (۶۵ آیات)۔ اجتماعی زندگی کے اصول‘ قوانین اور ادارے (عبادت‘ جان و مال اور خاندان کا تقدس)۔

حصہ ششم: آیات ۲۴۳ تا ۲۸۳ (۴۱ آیات)۔ مشن کی تکمیل کی کلید: جہاد اور انفاق۔

حصہ ہفتم: آیات ۲۸۴ تا ۲۸۶ (۳ آیات) ۔اخلاقی اور روحانی ذرائع۔

ھدایت کی بنیادیں (آیات:  ۱- ۳۹)

ان آیات میں ان لوگوں کی صفات بیان کی گئی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے فائدہ اٹھاتے ہیں‘ اور ان کی بھی جویہ فائدہ نہیں اٹھاتے۔

یہ بڑی اہم بات ہے کہ سورت کا آغاز اس اعلان سے ہوتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اس کی سند کے ساتھ ہے۔ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَارَیْبَ فِیْہِ ،یہ اللہ کی کتاب ہے اس میں کوئی شبہ نہیں (آیت: ۱)۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ اعلان پورے قرآن میں بہت سی سورتوں کے آغاز اور درمیان میں اکثر دہرایا گیا ہے۔ اس طرح قاری کامل احترام‘ ذوق طلب اور سمجھنے اور سرِتسلیم خم کرنے کے جذبے کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ کتاب کس مقصد سے نازل کی گئی ہے؟ ہدایت دینے کے لیے۔ کس کو ہدایت دینی ہے اور کس بات کی ہدایت دینی ہے؟ ہدایت ان کے لیے جو مُتّقین ہیں‘ جن میں نیکی ‘ خدا کا شعور‘ یعنی تقویٰ کی صفت پائی جاتی ہے‘ یا ان کے لیے ہدایت جو مُتّقین بننا چاہتے ہیں۔

مُتّقین کی صفات کچھ تفصیل سے بیان کی گئی ہیں (آیت ۲ تا ۵)۔ یہ ہم کو یہاں روک نہ لیں‘ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ وہ بنیادیں ہیں جن پر آگے قرآن مُتّقین کا تفصیلی بیان تعمیر کرتا ہے۔

ھُدًی لِلمُتّقینکا مطلب عام طور یہ سمجھا جاتا ہے کہ صرف وہی لوگ جو تقویٰ اور اس سے پیدا ہونے والی صفات رکھتے ہیں قرآنی ہدایت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اگر اسے ایک لازمی پیشگی شرط سمجھا جائے تو ان صفات کو ان کے اصل لغوی مفہوم میں سمجھنا چاہیے نہ کہ مکمل قرآنی مفہوم میں۔ ورنہ تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہدایت پانے کے لیے آدمی کو پہلے ہی ہدایت یافتہ ہونا چاہیے۔ ایک مفہوم میں یہ معانی بھی درست ہیں۔ اس لیے کہ تقویٰ اختیار کرنے کے امکانات لامحدود ہیں۔ ابتدا سے ترقی یافتہ اور اعلیٰ مراحل تک جانے کے لیے کسی نہ کسی درجے میں تقویٰ موجود ہونا چاہیے۔

وہ لوگ جنھوں نے ہدایت پائی ہے‘ اللہ ان کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے‘ اور انھیں ان کے حصے کا تقویٰ عنایت کرتا ہے۔ (محمد ۴۷:۱۷)

مگر ایک بامعنی اور بہتر مفہوم یہ ہے کہ قرآن کی ہدایت افراد اور افراد کے گروہوں یا قوموں کو مُتّقین بننے کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ اسی طرح جیسے کہ ہم کہتے ہیں یہ ایم اے کا کورس ہے تو ہمارا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس کورس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایم اے ہونا پیشگی شرط ہے۔ ہمارا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ کورس ایک آدمی کو ایم اے تک پہنچا دے گا۔ پس ابتدائی آیات (۱-۵) بیان کرتی ہیں کہ قرآن کس طرح افراد اور قوموں کو مُتّقین بنانے کے لیے آیا ہے۔   صراطِ مستقیم بھی تقویٰ کی زندگی ہے۔ آگے ہم دیکھیں گے کہ تقویٰ کی زندگی اور اس دنیا میں اور آخرت میں اس کے خوش گوار نتائج قرآن کا مستقل موضوع ہیں۔

اصل لغوی مفہوم میں پیشگی شرط کے طور پر تقویٰ سے مراد صحیح اور غلط کے درمیان تمیز کرنے کی صلاحیت‘ اور وہ باطنی طاقت ہے جس سے آدمی صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط تسلیم کرے اور جس بات کو غلط تسلیم کرے اس سے اپنے آپ کو بچانے پر قادر ہو۔

پھر ان لوگوںکا بیان ہے جو اللہ کی ہدایت سے ہرگز فیض یاب نہ ہوں گے۔

اس میں سب سے پہلے وہ لوگ ہیں جو اپنی مرضی سے قرآن کو اللہ کا کلام ماننے سے انکار کرنے پر مُصر ہیں۔ نتیجتاً ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے (آیات: ۶-۷)۔ پھر وہ لوگ ہیں جو بظاہر ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں مگر درحقیقت ایمان نہیں رکھتے (آیات: ۸-۲۰)۔ ان کی کئی قسمیں ہیں۔ ایک سرے پر وہ لوگ ہیں جو دشمن ہیں اور مذاق اڑاتے ہیں‘ فساد پھیلاتے ہیں اور انھوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی کا سودا کرلیا ہے (آیت:۱۶)۔ یہ اپنی مرضی سے منافق ہیں: اندھے بہرے اور گونگے‘ یہ لَوٹنے والے نہیں ہیں (آیت: ۱۸)۔ دوسرے سرے پر وہ لوگ ہیں جو ایمان تو رکھتے ہیں لیکن ایمان جب آزمایش اور قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہے تو ثابت قدم نہیں رہتے۔ یہ ایمان اور ارادے کے ضعف کی وجہ سے منافق ہیں: جب روشنی ہوتی ہے تو چلتے ہیں اور جب ان کے گرد تاریکی چھا جاتی ہے تو وہ ٹھیر جاتے ہیں۔ (آیت: ۲۰)

اس کے بعد یہ سورت ساری انسانیت کو قران کے مرکزی پیغام کی طرف بلاتی ہے: صرف اللہ کی عبادت کرو‘ کسی کو اس کے برابر یا شریک نہ بنائو (آیات :۲۱-۲۲)۔ اس پیغام کو مستند بنانے کے لیے یہ قرآن کے من جانب اللہ ہونے کو اور اس طرح رسولؐ کی حقانیت کو ثابت کرتی ہے (آیات ۲۳-۲۵)۔ ان دونوں کا رشتہ زندگی کے مقصد اور معانی کے ساتھ جوڑنے کے لیے یہ زندگی بعد موت کی حقیقت کو واضح کرتی ہے (آیات: ۲۸-۲۹)۔ درمیان میں ان لوگوں کی فکر اور اخلاق کے امراض بیان کیے جاتے ہیں جو قرآن سننے کے باوجود گم کردہ راہ ہیں۔ وہ قرآن خصوصاً اس کی مثالوں پر سوال اٹھاتے ہیں‘ شبہ ظاہر کرتے ہیں اور جھگڑتے ہیں: وہ عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑتے ہیں‘ اللہ نے جسے جوڑنے کا حکم دیا ہے ‘ اسے کاٹتے ہیں‘ اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں۔ (آیت: ۲۷)

اس طرح ہم ان آیات (۲۱ تا ۲۹) میں قرآن کے مکمل پیغام کا رواں خلاصہ پاتے ہیں۔

آیات ۳۰ تا ۳۹ میں تخلیق انسانی کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ اس سے قرآن کا تصورِ جہاں‘ عالمی نظریہ(world view) اور فطرتِ انسانی کا اس کا تصور واضح ہوتا ہے۔ انسان کو علم اور ارادے کی آزادی دی گئی ہے۔ وہ زمین پر اللہ کا خلیفہ ہے۔ اس لیے اس کو اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حدود اور ہدایات کے اندر زندگی گزارنا چاہیے۔ ایسا کرنے کے لیے اسے خیر اور شر کے درمیان انتخاب کرنے کی مسلسل کش مکش کا سامنا ہے۔ وہ اخلاقی طور پر ذمہ دار اور ایک آزاد ہستی ہے‘ اس لیے اس سے اس کش مکش میں گناہ کرنے کا امکان ہے۔ خیروشر کی اس کش مکش کا مقابلہ کرنے کے لیے اور اپنے گناہوں پر قابو پانے کے لیے اس کو اللہ کی طرف سے دو نعمتیں دی گئی ہیں۔ اوّل: توبہ قبول کرنے کا وعدہ‘ یعنی جب بھی گناہ کرنے والا اس کی طرف پلٹ کر آئے اسے معاف کرنے کا وعدہ‘ جیسے اس نے حضرت آدم ؑکو معاف کیا (آیت: ۳۷)۔ دوم: اللہ کی طرف سے ہدایت بھیجنے کا وعدہ‘ جیساکہ اس نے حضرت آدم ؑکو بتایا تھا۔ (آیت: ۳۸)

ایک مسلم اُمّت کے زوال کی کیفیت (آیات: ۴۰ -۱۲۳)

ان لوگوں کے بیان کے فوراً بعد جو قرآن کی ہدایت سے فائدہ اٹھائیں یا نہ اٹھائیں‘ پوری انسانیت کو خالق و مالک‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت کی دعوت دے کر اور پھر تخلیق انسانی کے واقعے کو بیان کرکے قرآنی تصورِ جہاں‘ انسانی نفسیات اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور معافی پر انسان کے مکمل انحصار (آیات: ۳۰-۳۹) کا ذکر کرتے ہوئے البقرہ کا رخ ۸۴ طویل آیات میں‘ جو ایک تہائی سورت کے برابر ہیں‘ اپنے وقت کی یہودی قوم‘ بنی اسرائیل کی طرف مڑجاتا ہے۔ وہ اُنھیں     اللہ تعالیٰ کے بے پایاں انعامات کی یاد دلاتا ہے اور ان کی ناشکری‘ احکامات سے اُن کی سرتابی اور ان کے قلب اور ایمان و عمل کے بڑے بڑے امراض کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ مختصراً‘ یہ اللہ تعالیٰ سے عہدشکنی کی ایک طویل داستان ہے۔ قرآن ایسا کیوں کرتا ہے؟ وہ بالکل آغاز ہی میں اتنے اہم موقع پر کیوں بنی اسرائیل سے اتنی تفصیل سے بحث کرتا ہے؟ سب سے پہلے ہم اس اہم سوال پر غور کرتے ہیں۔

کیا یہ مدینے میں یہودیوں کی موجودگی کی وجہ سے ہے؟ یقینا مدینے میں یہودی موجود تھے۔ انھیں اسلام کی طرف دعوت دی جانی تھی اور قرآن کو ان کی جہالت سے‘ اور رسولؐ اللہ اور ان کے پیغام کے ساتھ ان کا جو رویہ تھا‘ اس سے بحث کرنا تھی۔ اس لیے یقینا یہ ان آیات کی ایک وجہ یا شانِ نزول تھی۔ لیکن یہ اس حصے کے طول‘ اس کے موضوعات اور اُس کے سیاق کی توجیہہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔

کیا یہ جیساکہ بہت سے مستشرقین کا خیال ہے‘ رسولؐ اللہ کو تسلیم کرنے سے یہودیوں کے شدید انکار اور شدید مخالفت پر مایوسی اور غصے کی وجہ سے ہے؟ اس مؤقف کی تائید میں کوئی تاریخی گواہی یا روایت نہیں ملتی۔ قرآن اس طرح کا کلام نہیں ہے جس کا مقصد اپنے دشمنوں کے خلاف غصہ نکالنا ہواور پھر اس کو بالکل آغاز ہی میں رکھ دے‘ تاکہ آنے والے سب زمانوں میں اس کے تمام قارئین اس کا مشاہدہ کریں۔ یہاں اس طرح کا غصہ اور مذمت نہیں ہے جس طرح کا ہم بائبل میں پاتے ہیں۔ رسولؐ اللہ یہودیوں سے معاملہ کرنے میں بہت آگے تک گئے‘ اور پوری تاریخ میں مسلمانوں نے ان سے ہمیشہ بہت اچھا سلوک کیا۔

اس کا اصل مقصد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے یہودیوں کی مذمت کرنا معلوم نہیں ہوتا‘ بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ دراصل تمام زمانوں کے مسلمانوں کے لیے آئینہ فراہم کیا گیا ہے‘ تاکہ وہ اسے اپنے سامنے رکھ کر اپنے حالات اور تقدیر کا صحیح عکس دیکھ سکیں۔ قرآن کا بیان    بنی اسرائیل کی اپنے مشن کو پورا کرنے میں ناکامی کے بارے میں فیصلہ بھی صادر کرتا ہے اور اس طرح اللہ کے مشن کو جاری رکھنے کے لیے محمد رسولؐ اللہ کی قیادت میں ایک نئی مسلم اُمّت کو ان کی جگہ دینے کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے۔

قرآن میں تاریخ کا بیان تاریخ کی خاطر نہیں ہے۔ مخصوص اقوام کے نام دیے گئے ہیں لیکن یہ نام محض عنوانات ہیں۔ ان کے حالات کا تذکرہ دراصل یہ بتانے کے لیے ہے کہ ان اقوام کے ساتھ کیا گزری اور کیوں گزری۔ ان سے دوسرے لوگوں کو سبق سیکھنا چاہیے۔

مسلمان ایک نئی ظہور پذیر اُمّت تھے جو اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے امین اور انبیاے کرام‘ خصوصاً آخری نبی ؐ کے مشن کے علم بردار کی حیثیت سے مقرر کیے گئے تھے جیسا کہ اس سے پہلے   بنی اسرائیل تھے۔ ان کی تاریخ کو ابھی ظاہر ہونا تھا اور مستقبل کی تاریخ کے بارے میں کوئی پیش گوئی‘ مثال‘ سبق یا تنبیہ نہیں ہوسکتی تھی۔ عاد و ثمود کے لوگ مسلمان نہیں تھے لیکن بنی اسرائیل نے تو مسلمانوں کی طرح توحید کا پیغام قبول کیا تھا۔ وہ مسلمانوں کی طرح اس پیغام کی گواہی کے مشن پر سرفراز کیے گئے تھے۔ درحقیقت وہ اپنے وقت کی مسلم اُمّت تھے لیکن زوال کی حالت میں۔ اس لیے ان کی تاریخ اور رویّے مطالعے کے لیے بہترین موضوع تھے جو مسلمانوں کے سامنے شروع ہی میں رکھے جاتے۔ وہ اس آئینے میں وہ سب کچھ دیکھ سکتے تھے جو ان کے ساتھ پیش آسکتا تھا۔ مقصد یہودیوں کو موردالزام ٹھیرانا نہیں‘ بلکہ مسلمانوں کو تنبیہ کرنا ہے کہ ان کے نقشِ قدم پر نہ چلیں۔ یہ آئینہ مسلمانوں کو دکھاتا ہے کہ کیا‘ کہاں اور کیوں غلطی ہوسکتی ہے اور اس کے نتائج کیا ہوتے ہیں۔ جیساکہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: تم بنی اسرائیل کے راستوں پر چلو گے‘ قدم بہ قدم۔ (مسلم)

اس لیے اگرچہ خطاب بنی اسرائیل سے ہے‘ اصل مخاطب مسلمان ہیں جو حامل قرآن اور اس کے امین ہیں۔ اس روشنی میں پڑھیے‘ کُل کی کُل ۸۴ آیات زندہ ہوکر سامنے آجاتی ہیں۔ وہ ابھی اور اسی وقت ہم مسلمانوں کے لیے پُرمعانی ہوجاتی ہیں۔ ہمیں نظرآتا ہے کہ اسرائیلی تاریخ کے مخصوص واقعات‘ مثلاً سنہرا بچھڑا ہمارے ماضی اور حال کے واقعات ہیں۔

اگر ہم اس حصے کا زیادہ غور سے مطالعہ کریں تو اسے باہم مربوط تین ذیلی حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ اس طرح تو ہم اسے بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔

پہلا ذیلی حصہ (آیات ۴۰- ۴۶) بنی اسرائیل سے ایک عام دعوتی خطاب ہے۔ یہ حصہ اس بارے میں نہایت قیمتی ہدایت فراہم کرتا ہے کہ ایک زوال پذیر مسلم اُمّت کے سامنے دعوت  کس طرح پیش کی جائے۔ یہ بتاتا ہے کہ موضوعات کیا ہوں‘ انداز کیا ہو‘ ترجیحات کیا ہوں‘ اور کن امور پر زور دیا جائے۔یہ ایسی اُمّت کے احیا کے طریقے اور پروگرام کے لیے نشاناتِ راہ بھی فراہم کرتا ہے۔ یہ کھول کھول کر بتاتا ہے کہ دعوت و اصلاح کے کام میں کس حکمت کو اختیار کیا جائے۔ دیکھیے کہ بنی اسرائیل پر کسی بڑے حملے کے بغیر‘ ان کی بڑی بڑی کمزوریاں واضح ہو جاتی ہیں۔

قرآن سب سے پہلے اس نعمت کو یاد دلاتا ہے جو اللہ نے ہدایت کی صورت میں انھیں عطا کی اور انھیں اُبھارتا ہے کہ وہ اس کے لیے اللہ کے شکرگزار ہوں۔ پھر وہ انھیں پُرزور طریقے پر دعوت دیتا ہے کہ اس ہدایت کے حوالے سے اللہ سے اپنے عہد کو پورا کریں۔ ہماری اُمّت کے احیا کے لیے بھی اگر کوئی تحریک ہو تو یہ یاددہانی اور دعوت اس کا آغاز اور حقیقی بنیادی پتھرہونا چاہیے۔ پھر وہ ان کو دعوت دیتا ہے کہ اپنے مسلمان ہونے کے دعوے کی بنا پر ‘انھیں ایمان کا راستہ اختیار کرنے والوں کا ہراول دستہ ہونا چاہیے۔ یہ ایمان‘ آخری رسولؐ اور جو کتاب انھیں دی گئی ہے اسے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے پر مرکوز ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ ایمان کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو‘ نفاق کو بھی جڑ سے اُکھاڑ پھینکو‘ اس لیے کہ نفاق ایمان کے لیے سرطان کی طرح ہے۔ لیکن دیکھیے کہ منافقوں سے الزامی انداز :تم منافق ہو‘ کے بجاے کیا       تم …؟کا استفہامی انداز اختیار کیا گیا ہے۔ آخر میں‘ عہد پورا کرنے کے عظیم کام کو انجام دینے کے لیے جس استقامت کی ضرورت ہے‘ اس کے راز کی طرف اشارہ کیا گیا ہے‘ یعنی صبر اور صلوٰۃ۔ دونوں صرف اس صورت میں حاصل کیے جا سکتے ہیں کہ اللہ سے روزِ قیامت ملاقات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے۔

زیادہ گہرا غوروفکر کیا جائے تو اس خطاب کی‘ اُس خطاب سے جو پوری سورۃ البقرہ میں  مسلم اُمّہ سے کیا گیا ہے‘ غیرمعمولی مماثلت نظرآئے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ ان سات آیات میں بعد کے تفصیلی بیان کا خلاصہ آگیا ہے۔

دوسرا ذیلی حصہ‘ جو ۴۷ تا ۷۴ آیات پر مشتمل ہے‘ بنی اسرائیل کو ان کی تاریخ کے اہم نشاناتِ منزل اور ان مواقع پر ان کے رویوںکو یاد دلاتا ہے۔ ہر واقعہ محض ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ ایک اہم سبق ہے جو ان کی زندگی کے کسی اہم پہلو سے بحث کرتا ہے۔ غوروفکر کیا جائے تو ہر واقعہ اپنے سبق‘ اپنے قیمتی معانی‘ فکروعمل کے کسی اہم مرض یا کسی انحراف پر روشنی ڈالتا ہے جس کی وہ علامت ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ ان واقعات کو منتشر طور پر بیان نہیں کیا گیا ہے‘ بلکہ مربوط کر کے بامعنی ترتیب سے بیان کیا گیا ہے۔

مثال کے طور پر سنہرے بچھڑے کا واقعہ اس دنیا کی اشیا سے محبت کو پرستش کے لائق قرار دینے کی علامت ہے (آیت:۵۱)۔ یہ واقعہ فرعون سے بنی اسرائیل کے نجات پانے کی بہت بڑی نعمت کے معاً بعد پیش آیا۔ کتاب کا ملنا اور عہدوپیمان ابھی نہیں ہوئے تھے۔ یہ محبت جب اللہ سے محبت کے مقابلے پر آئے اور اس پر غالب ہوجائے تو زوال کی بنیادی وجہ ہوتی ہے۔ من و سلویٰ کا انکار‘ اللہ سے اپنے عہد کو پورا کرنے کے لیے جہاد کی زندگی سے انکار کی علامت تھا جس میں پُرآسایش‘ آرام دہ اور جمی جمائی زندگی کے بجاے سختیاں اور قربانیاں ہوتیں۔

ترکِ جہاد سے بالآخر ذلّت و مسکنت مسلّط ہو جاتی ہے (آیت: ۶۱)۔ اسی طرح اصحاب سبت نے اللہ کے ساتھ جو چالیں چلیں (آیت:۶۵)‘ اور گائے کی قربانی کے معاملے میں جس طرح بال کی کھال نکالنے کا اور حجت بازی کا مظاہرہ کیا‘ اس کو کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ یہ شریعت اور اطاعت کو ترک کرنے کے مترادف ہے۔ جب شریعت ایک بے وقعت چیز ہوجائے‘ جس کی پیروی کرنے کے بجاے اس سے کسی طرح بچنے کی فکر کی جائے‘ تو انسان کے اندر کا متحرک وجود جمود کا شکار ہوتا ہے اور دل پتھر سے زیادہ سخت ہوجاتے ہیں۔ (آیت:۷۴)

یہ دیکھنا بالکل مشکل نہ ہونا چاہیے کہ ہماری اُمّت کے شریعت اور جہاد کو اسی طرح ترک کرنے سے غیرملکی اقوام (خواہ وہ منگول ہوں یا مغرب) کی غلامی اور دلوں کے پتھر ہوجانے کی کیفیت سامنے آتی ہے۔

تیسرا ذیلی حصہ جو ۷۵ تا ۱۲۳ آیات پر مشتمل ہے‘ بنی اسرائیل کی تاریخ سے آگے بڑھ کر ان کے قلب و ذہن‘ ایمان و عمل اور طریقوں اور رویوں کی موجودہ کیفیت کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ خاص طور پر جو بات بیان کی گئی ہے وہ ان کا اللہ کے آخری رسولؐ کا انکار اور مخالفت ہے۔ مگر بتایا گیا ہے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے‘ اسی طرح کے رویوں کی طویل تاریخ کا تسلسل ہے۔

اب آپ ہر الزام کو‘ چارج شیٹ کے ہر نکتے کو‘ الگ الگ لیں اوران پر غور کریں۔ آپ اُمّت مُسلمہ کے زوال وا حیا میں نہ صرف ان کا کلیدی کردار پائیں گے‘ بلکہ گذشتہ زمانوں میں مسلم اُمّت کی جو حالتیں رہی ہیں ان سے بہت زیادہ مشابہت بھی پائیں گے۔ بنی اسرائیل نے حق کو جاننے اور قبول کرنے سے جان بوجھ کر انکار کیا۔ اسی طرح مسلمانوں نے بھی کیا۔ یہود‘ خدا کی کتاب کے معانی اور پیغام سے مکمل طور پر انجان بن گئے اور اس کے بجاے خیالی دنیا میں رہنے لگے (آیت:۷۸)۔ یہی حال مسلمانوں کا ہوا۔ ان کے فاضل علما نے مقدس کتاب کے متن کو اس طرح توڑا مروڑا کہ مفیدِ مطلب معانی نکلیں اور انھیں اس دنیا کے انعام ملیں۔ مسلمان بھی ایسا ہی کرتے ہیں (آیت:۷۹)۔ ان کے اندر فرقہ پرستی خوب پھولی پھلی۔ ایمان اور عمل صالح کے بجائے انھوں نے مذہبی لیبلوں کو اہمیت دی۔ وہ کتاب کے بعض حصوں پر ایمان لاتے تھے اور جو اُن کے مفیدِمطلب نہ ہو اسے ایک طرف رکھ دیتے تھے۔ مسلمان بھی اس سے مختلف نہیں۔ ہم جتنا بھی آگے بڑھیں اور دیکھیں‘ہر پہلو سے اسی طرح کی مشابہت دیکھیں گے۔

یہ پورا بیان آخر میں ہمیں اس آخری فیصلے تک لاتا ہے:

جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے‘ وہ اسے اُس طرح پڑھتے ہیں جیساکہ پڑھنے کا حق ہے۔ وہ اس (قرآن) پر سچے دل سے ایمان لے آتے ہیں۔ اور جو اس کے ساتھ کفر کا رویہ کریں‘ وہی اصل میں نقصان اٹھانے والے ہیں۔ (آیت: ۱۲۱)

اُمّت مسلمہ کو پیغمبرانہ مشن سونپنا (آیات: ۱۲۴-۱۵۲)

مسلمانوں کو فریضہ رسالتؐ سپرد کرنے سے پہلے (آیت ۱۴۳) حضرت ابراہیم ؑ کی مقدس تاریخ اور اللہ کی مکمل اور خالص اطاعت میں گزاری ہوئی ان کی خدا پرستانہ زندگی بیان کی گئی (آیات: ۱۲۳- ۱۳۳)۔ حضرت ابراہیم ؑکو کعبۃ اللہ کا متولّی اور انسانیت کا امام اس لیے مقررکیا گیا کہ انھیں جس آزمایش سے بھی گزارا گیا وہ اس سے سرخ رُو نکلے۔ ان کو یہ اعزاز وراثت میں نہیں ملے اور نہ کسی کو ملیں گے۔ (آیات: ۱۲۴- ۱۲۵)

نئی اُمّت‘ حضرت ابراہیم ؑ کی اس دعا کی تکمیل ہے جو آپ نے بیت اللہ کی تعمیر کرتے ہوئے کی تھی: اے اللہ! ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا جو تیری مُسلم ہو (آیت:۱۲۸)۔ مسلمان‘ حضرت ابراہیم ؑکے ورثے اور مشن کے بھی وارث ہیں‘ جو توحید اور خدا پرستی کی بہترین روایات کا نمونہ ہے۔ یہ بات زور دے کر کہی گئی ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ سے جو وعدہ کیا گیا تھا وہ کوئی ایسا لقب نہیں تھا جو نسل در نسل ورثے میںمنتقل ہوتا۔ اسرائیل نے اس ورثے پر اپنے حق کو ساقط کر دیا‘ اس لیے کہ انھوں نے حضرت ابراہیم ؑکے برخلاف اللہ سے بے وفائی کی‘ انھیں حضرت یعقوب ؑنے جو مشن اپنے بستر مرگ پر سونپا تھا وہ اسے پورا کرنے میں ناکام رہے۔ (آیت:۱۳۳)

اس اصول پر بہت زور دیا گیا ہے کہ مذہبی لیبل کسی مصرف کے نہ ہوں گے۔ اصل قدروقیمت ایمان‘ اللہ کے آگے اپنے آپ کو ڈال دینے اور صرف اسی سے پُرخلوص وابستگی کی ہوگی۔ ہر قوم کو اس کے ایمان اور اعمال کے مطابق جانچا جائے گا۔ یہ پورا بیان اس ذمہ داری کو بنی اسرائیل سے لے کر اُمّت مُسلمہ کو منتقل کرنے کے سیاق کو واضح کرتا ہے۔

نماز کی سمت‘ یعنی بیت المقدس سے کعبے کی طرف قبلے کی منتقلی (آیات: ۱۴۴-۱۵۰)  دراصل اُمّت مُسلمہ کی طرف فریضہ رسالتؐ کی منتقلی کی علامت ہے۔ جس طرح بنی اسرائیل کو اللہ کی ہدایت اور کتاب کی نعمت کو اللہ کے خاص عطیے کے طور پر یاد دلایا گیا تھا‘ اسی طرح اختتام پر مسلمانوں کو بھی یاد دلایا گیا ہے:

تم مجھے یاد رکھو‘ میں تمھیں یاد رکھوں گا‘ اور میرا شکر ادا کرو‘ کفرانِ نعمت نہ کرنا۔ (آیت:۱۵۲)

دیکھیے‘ بنی اسرائیل کو اسی طرح کی دعوت دی گئی تھی۔

کلیدی انفرادی خصائص اور دین کے بنیادی اصول (آیات: ۱۵۳ -۱۷۷)

۱۵۳ سے ۱۶۲ آیات ان کلیدی انفرادی صفات کی نشان دہی کرتی ہیں جو عہد پورا کرنے کے لیے مطلوب ہیں۔ یہ صرف اس مفہوم میں انفرادی ہیں کہ یہ ایک فرد کے باطنی وجود میں پیدا کی جاسکتی ہیں‘ لیکن عملاً یہ سب اجتماعی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور مؤثر انداز سے اجتماعیت پیدا کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر نماز‘ جماعت کے ساتھ ہے۔ اسی طرح روزہ‘ حج اور جہاد۔

سب سے اہم صفت یہ ہے کہ آپ کو ہر وقت اللہ تعالیٰ کا شعور رہے‘ گویا آپ اس کے حاضروناظر ہوتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں‘ آپ کو ہرچیز ایسے نظر آتی ہے جیسے اس کی طرف سے ہے اور اس کی وجہ سے ہے۔ آپ کو ہمیشہ یاد رہتا ہے کہ آپ فیصلے کے دن اس سے ملاقات کریں گے۔ مختصراً یہ کہ آپ ہر لمحے اور ہر موقعے پر جتنی کثرت سے اور جتنا زیادہ اسے یاد کرسکتے ہیں‘ کرتے رہیں۔ یہ بات آیت ۱۵۲ میں وضاحت سے بیان کر دی گئی ہے۔ یہ کیفیت حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے ذکر کو زندگی کا حصہ بنا لینا چاہیے۔ نماز اسی مقصد کے لیے فرض کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آیت ۱۵۲ کے بعد فوراً ہی یہ ہدایت دی گئی کہ صبر اور نماز سے مدد لو (آیت: ۱۵۳)۔

صبر کا ذکر پہلے کیا گیا ہے۔ یہ اس لیے کہ نماز‘ انفرادی ہو یا اجتماعی‘ صبر کے بغیر نہ ادا کی جاسکتی ہے نہ قائم کی جا سکتی ہے۔ یہ نماز ہی ہے جو عزم‘ استقلال اور تحمل‘ یعنی صبر کی صفت کو پیدا کرتی ہے‘ ترقی دیتی ہے‘ تقویت دیتی ہے اور برقرار رکھتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں ایک منطقی عمل میں باہم مربوط ہیں۔ دونوں (یعنی صبر اور نماز) فرد کو اور جماعت کو اللہ سے قریب تر لاتے ہیں۔ نماز‘ فرد اور جماعت دونوں ہی کی زندگیوں اور دلوں کو اللہ کے ذکر سے بھر دیتی ہے۔ اللہ ان لوگوں سے قریب ہے جو صبر کی صفت رکھتے ہیں جیسا کہ آیت ۱۵۳ میں وعدہ کیا گیا ہے: اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

دیکھیے کہ ایسی ہی ہدایت بنی اسرائیل کو دی گئی تھی۔ (آیت:۴۵)

صبر کی اہمیت اس حقیقت کا اظہار ہے کہ عہد پورا کرنے کے لیے قربانیاں مطلوب ہوں گی۔ ان قربانیوں کی کچھ تفصیل دی گئی ہے (آیت:۱۵۵)۔ آخری قربانی جو مطلوب ہے وہ جان کی قربانی ہے۔

آزمایشوں اور قربانیوں کے موقع پر ثابت قدم رہنے کے لیے صبر کی کلید اللہ کا ذکر ہے: یہ ایمان رکھنا کہ ہم کُل کے کُل اسی سے وابستہ ہیں‘۱ سی کی طرف پلٹ کر جائیں گے اور اُسی کو اپنے اعمال کا حساب دیں گے۔ نماز یہی احساسات پیدا کرتی اور پرورش کرتی ہے۔

صفا اور مروہ کے بارے میں آیت ۱۵۸ غیرمتعلق نہیں ہے‘ اگرچہ کہ ایسا محسوس ضرور ہوتا ہے۔ اسے یہاں اس لیے رکھا گیا ہے کہ کعبے کے قریب یہ دو پہاڑیاں صفا اور مروہ صبر‘ اُمید اور اللہ تعالیٰ پر اعتماد کی ایک عظیم اور جذبہ انگیز داستان کی علامت ہیں۔ یہ ایک بڑی قربانی کی کہانی بھی ہے‘ یعنی حضرت ہاجرہ اور اسماعیل کی کہانی۔ جب کوئی ایک پہاڑی سے دوسری پہاڑی کی طرف چلتا ہے تو اسے یاد آتا ہے کہ کس طرح تن تنہا ایک عورت نے ایک شیرخوار بچے کے ساتھ مکہ میں رہنا منظور کیا‘ کس طرح اس نے اُمید اور اعتماد کے ساتھ کوشش کی‘ اور کس طرح اللہ نے ایک ایسی وادی میں پانی کا چشمہ جاری کر دیا جہاں پانی کا نام و نشان تک نہ تھا۔

آخر میں قرآن کے ساتھ عہد توڑنے کے سنگین نتائج بتائے گئے ہیں: اللہ کی طرف سے‘ اس کے فرشتوں کی طرف سے‘ اور تمام انسانوں کی طرف سے لعنت‘ اور آخرت میں دائمی عذاب (آیت: ۱۵۹-۱۶۲)۔ یہ کھری کھری تنبیہ پوری بات کو اپنے سیاق میں واضح کر دیتی ہے۔ اُمّت کو جو مشن سونپا گیا ہے اس کو پورا کرنے کے لیے اللہ کا ذکر‘ نماز‘ قربانی اور صبر سب ضروری ہیں۔ ہر شخص کو یہ مشن پورا کرنے کی اپنی پوری کوشش کرنی چاہیے۔ (آیات: ۱۶۳-۱۷۷)

آیات ۱۶۳ تا ۱۷۷ میں دین اور شریعت کی اہم بنیادوں کا بیان ہے‘ یعنی اللہ پر ایمان جو ایک ہے‘ یعنی توحید۔ اس کے ساتھ ہی کائنات میں اس کی نشانیاں جو یہ ایمان پیدا کرتی اور اسے مضبوط کرتی ہیں (آیات: ۱۶۳-۱۶۴)۔ اللہ تعالیٰ سے مضبوطی سے جڑے رہنا دین اور صراط مستقیم پر رہنمائی کی اصل اور بنیاد (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۱)‘ جہاد کا کلیدی ذریعہ (الحج ۲۲:۷۸) ‘اور وہ حق ہے جس کی گواہی دینا ہے۔

توحید کے فوراً بعد قرآن‘ اللہ سے محبت کا ذکر کرتا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ تم اللہ سے اس سے زیادہ محبت کرو جتنا کسی بھی دوسری چیز سے کرتے ہو۔ اس طرح قرآن ذکر اور صبر کے بعد اللہ سے محبت کو سب سے اہم صفت کے طور پر بیان کرتا ہے‘ اس لیے کہ ایسی محبت ہی ایمان کو حقیقی اور بامعنی بناتی ہے (آیت: ۱۶۵)۔ محبت ہی ایمان کو شخصیت کا حصہ بناتی ہے اور اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے طاقت فراہم کرتی ہے۔

ایمان کا تقاضا بھی یہی ہے کہ تمام دوسرے رہنمائوں کے بجاے اللہ کے رسولؐ کی پیروی اور اطاعت کی جائے (آیت:۱۶۶-۱۶۷)۔ محبت بھی یہی تقاضاکرتی ہے کہ ’’محبوب‘‘ کے احکام کو بجا لایا جائے۔

اس کے بعد شریعت کے کچھ اہم اصول بیان کیے گئے ہیں۔ اوّل: دنیا کی تمام اچھی چیزیں مباح ہیں سوائے ان کے جو منع کی گئی ہیں (آیت:۱۶۸)۔ بنیادی طور پر یہ اہم اصول صرف کھانے پینے کے بارے میں نہیں ہے بلکہ زندگی کے تمام دائروں کی تمام باتوں کے لیے ہے۔دوم: اشیا کو ممنوع قرار دینے کا اختیار صرف اللہ کے پاس ہے‘ کسی اور کے پاس نہیں ہے (آیت:۱۶۹)۔ سوم: جو چیزیں ممنوع ہیں انھیں اللہ نے بیان کر دیا ہے‘ باقی سب جائز ہیں (آیت: ۱۷۳)۔ چہارم: سنگین انسانی ضرورت کے موقع پر ممنوعات میں گنجایش دی جاسکتی ہے (آیت: ۱۷۳)۔پنجم: اخلاقی پابندیاں زیادہ اہم ہیں۔ اگر وہ دوسرے انسانوں سے حقوق سے متعلق ہیں تو ان میں رعایت نہیں۔ مثال کے طور پر عہد توڑنے کا جرم کوئی حرام چیز کے کھانے کے مقابلے میں زیادہ بڑا گناہ ہے۔(آیت: ۱۷۴)

بہرحال زندگی میںہر طرح کی اطاعت کی بنیاد تقویٰ ہی ہے۔ آیت۱۷۷ تقویٰ کی جامع تعریف بیان کرتی ہے۔ یہ آیت ۲ تا ۵ کی توسیع ہے اور آنے والے حصے کی تمہید ہے۔ اس لیے تقویٰ‘ جیساکہ یہاں تعریف کی گئی ہے‘ جو کچھ آگے بیان کیا جا رہا ہے اس کی بنیاد اور محرّک ہے۔ یہاں ایمان اور انفاق‘ یعنی خرچ کرنے کی مزید تفصیل دی گئی ہے۔ وعدوں اور معاہدوں کی پابندی اور ہر طرح کے حالات میں صبر بنیادی صفات ہیں۔

اجتماعی زندگی: اصول اور ادارے (آیات: ۱۷۸- ۲۴۲)

اجتماعی زندگی‘ دو وجوہ سے بنیادی اہمیت رکھتی ہے‘ اوّل: انفرادی صفات کی مضبوطی اور نَمُو کے لیے مناسب زمین اور ماحول فراہم کرنے کے لیے۔ دوم: اُمّہ کے مشن کو پورا کرنے کے لیے اجتماعی طاقت فراہم کرنے کے لیے۔ قلوب کی طرح‘ اجتماعی زندگی بھی تقویٰ کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہونی چاہیے۔ اس لیے اس حصے میں قرآن ان قوانین‘ اصول اور تعلیمات کو بیان کرتاہے جن سے تقویٰ کو نشوونما ملتی ہے۔

معاشرے میں نظم و ضبط اور ہم آہنگی کے لیے جان و مال کا تحفظ جڑواں بنیادیں ہیں۔ آیات ۱۷۸ سے ۱۸۲ تک انھیں بیان کیا گیا ہے۔ ان کے فوراً بعد رمضان میں روزوں کے احکام دیے گئے ہیں تاکہ تقویٰ یا انفرادی ضبط نفس حاصل ہو اور اللہ نے ’دوسروں‘ کے ساتھ انسانی تعلقات کی جو حدود مقرر کی ہیں ان سے آگے بڑھنے‘ یا ان کو توڑنے سے آدمی اپنے آپ کو روکے (آیات: ۱۸۳-۱۸۷)۔ کھانے پینے اور جنسی تعلقات سے بچنا مقصد نہیں ہے‘ مقصود وہ باطنی قوت پیدا کرنا ہے جو انسان کو اس قابل بنائے کہ وہ دوسروں کی جان‘ مال یا آبرو پر ہاتھ نہ ڈالے۔ اسی لیے حکم ہے: ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھائو۔ (آیت: ۱۸۸)

حج کو جہاد سے جوڑا گیا ہے (آیات: ۱۹۶-۲۱۸)۔ دونوں کی نوعیت ایک ہے۔ دونوں تقاضا کرتے ہیں کہ ہم قربانیاں دیں‘ اپنے گھر‘ اعزہ اور چیزوں کو چھوڑیں‘ منزل تک پہنچنے کے لیے سفر کریں اور اپنا مال و دولت خرچ کریں۔ جہاد پر خرچ کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ معاشرے کی زندگی‘ توانائی اور بقا کے لیے اور اپنے مشن کی تکمیل کے لیے جہاد کی کلیدی حیثیت ہے۔ اس لیے معاشرے کو تباہی اور زوال سے محفوظ رکھنے کے لیے جہاد پر خرچ کرنا ضروری ہے (آیت:۱۹۵)۔ یہاں لڑنے کی صرف اجازت دی گئی ہے‘ جب کہ جہاد کا مقصد آیات ۱۹۰ تا ۱۹۲ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کے معاً بعد حج اور اس کے نمایاں پہلوئوں کے بارے میں اہم ہدایات دی جاتی ہیں۔ (آیات: ۱۹۶-۲۰۳)

اس کے ساتھ ہی جہاد کا مقصد زیادہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ انسانیت کو ان بدعنوان رہنمائوں سے بچانے کے لیے ضروری ہے جنھیں سیاسی طاقت حاصل ہے‘ جو ہٹ دھرم ہیں اور اپنی اصلاح کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ زمین میں فساد‘ بدعنوانی اور قتل و غارت پھیلاتے ہیں اور عوام کو پریشانی میں مبتلا کرتے ہیں۔ (آیات: ۲۰۴-۲۰۶)

جہاد کی ضرورت اور نوعیت اور اس کے تقاضے بیان کیے گئے ہیں۔ جہاد کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے آپ کو کُل کا کُل اللہ کے آگے پیش کر دیں (آیات:۲۰۷-۲۰۸)۔ جہاد بڑی سختی سے ہماری جانچ کرے گا اور غیرمعمولی قربانیوں کا تقاضا کرے گا۔ قربانیاں دیے بغیر‘ جیسی کہ اس سے پہلے مسلم اُمّتوں نے دیں‘ ہم ہرگز بھی جنت میں داخل نہیں ہوسکیں گے۔ (آیت: ۲۱۴)

خون بہانا یقینا ناپسندیدہ ہے‘ لیکن عقیدے اور ضمیر کے لیے جبر اس سے زیادہ بڑی برائی ہے (آیات:۲۱۶-۲۱۷)۔ اس کے بعد اس سورت میں شراب اور جوئے کا ذکر ہے (آیت: ۲۱۹)۔ شراب نوشی سے دنیاوی ذمہ داریوں اور محنت سے فرار کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ جوا لالچ اور بغیر محنت مال حاصل کرنے کی خواہش بڑھاتا ہے۔ دونوں بذات خود برائی ہیں‘ لیکن انھیں یہاں اس لیے بیان کیا گیا کہ یہ جہاد کے راستے کی رکاوٹ ہیں۔

اس کے بعد کلام کا رخ معاشرے کے مظلوم طبقات‘ بچوں اور خواتین کی طرف مڑجاتا ہے۔ عائلی زندگی کے بارے میں تعلیمات اور ضابطے بہت تفصیل سے دیے گئے ہیں (آیات: ۲۲۰-۲۴۲)۔ اس لیے کہ یہ معاشرے اور تمدن کی بنیادی اساس ہے۔ خاندان اجتماعی یک جہتی برقرار رکھتا ہے اور یہ یقینی بناتا ہے کہ مقاصد‘ اقدار اور روایات ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوں۔ مضبوطی سے جڑی ہوئی ایک منصفانہ عائلی زندگی معاشرے کو جہاد کے لیے تیار ہی نہیں کرتی‘ جہاد کے مقصد کو بھی پورا کرتی ہے‘ یعنی افراد کے درمیان انصاف کا قیام۔

جھاد اور انفاق۔ مشن کی تکمیل کے ذرائع (آیات: ۲۴۳-۲۸۳)

قوموں اور معاشروں کو کیا چیززندہ‘ مضبوط اور کامیاب بناتی ہے؟ آخری حصہ اس اہم سوال کے بارے میں تفصیل سے بحث کرتا ہے۔ یہ سوال سورت کے مرکزی موضوع‘ یعنی اُمّت کے مشن کے حوالے سے نہایت اہم ہے۔ آغاز میں‘ عمومی اصولوں پر بحث کی گئی ہے۔اوّل‘ اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ کسی مقصد اور مشن کا ہونا ہی جہاد کی زندگی کا تقاضا کرتا ہے۔ مقصد اور مشن کے لیے جدوجہد اور سرگرم کوشش جہاد ہے۔ جہاد کا تقاضا ہے کہ قربانیاں دی جائیں۔ خاص طور پر مال اور جان اللہ کے راستے میں قربان کیے جائیں۔ یوں جہاد اور انفاق‘ اُمّت کے عروج و زوال اور زندگی اور موت میں کلیدی اور فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ دونوں کا تقاضا ہے کہ لوگ موت سے بے خوف ہوجائیں۔ حوصلے‘ صبر اور نظم و ضبط سے کام لیں اور دنیوی چیزوں خاص طور پر مال کی محبت پر قابو پائیں۔ ان موضوعات کو آیات ۲۴۳ سے ۲۸۳ تک مسحورکن تصورات اور جذبہ انگیز کلام کے ذریعے سامنے لایا گیا ہے۔

موت کا خوف اور اس دنیا کی چیزوں کی بہت زیادہ محبت کسی معاشرے کی توانائی کو چوس لیتی ہیں اور تباہ کر دیتی ہیں۔ اگر لوگ موت سے ڈرتے ہیں تو موت ہی ان کے معاشرے کا مقدر ہوجاتی ہے۔ جو موت سے نہیں ڈرتے‘ زندگی ان کی تقدیر بن جاتی ہے۔ اسی بات کو آیت ۲۴۳ میں بنی اسرائیل کی تاریخ کے واقعے کے حوالے سے واضح کیا گیا ہے۔ قرآن پکارتا ہے: اللہ کی راہ میں جہاد کرو اور جو کچھ دے سکتے ہو‘ دو۔ اللہ تعالیٰ تمھارے انفاق کو اپنے لیے قرض تصور کرے گا اور کئی گُنا بڑھا کر واپس کرے گا۔ (آیات: ۲۴۴-۲۴۵)

یہ امرِواقعہ کہ زوال اور بے حسی میں مبتلا معاشرے بھی زندہ ہو سکتے ہیں اور زندہ رکھے جاسکتے ہیں‘ تین واقعات کی مثالوں سے بتایا گیا ہے:

۱- دائود اور جالوت کا واقعہ (آیات: ۲۴۶-۲۵۱)۔ ۲- ایک مردہ بستی کا دوبارہ جی اٹھنا (آیت: ۲۵۹) ۳- اس بارے میں حضرت ابراہیم ؑکی پریشانی کے جواب کا واقعہ۔ (آیت:۲۶۰)

صبر اور نظم و ضبط کے ساتھ (روزے اور جہاد کا جو ذکر پہلے آیا ہے اسے بھی سامنے رکھیے)۔ وہ لوگ جو تعداد میں کم ہوں‘ اور وسائل اور طاقت بھی کم رکھتے ہوں بہت زیادہ طاقت اور وسائل رکھنے والوں پر فتح حاصل کرسکتے ہیں جس طرح بنی اسرائیل حضرت دائود ؑ کی قیادت میں جالوت کے خلاف کامیاب ہوئے۔ (آیات: ۲۴۶-۲۵۳)

انفاق‘ یعنی اپنے اموال‘ اشیا یا جس چیز کی بھی ضرورت ہو‘ اللہ کے لیے دے دینے کے مختلف پہلو آیت ۲۶۱ سے ۲۷۴ تک کے طویل حصے میں بیان کیے گئے ہیں۔ سود کی ممانعت اور مالی معاملات کو تنازعوں سے بچانے کے لیے اقدامات مال و دولت کے بارے میں عمومی رویّے سے متعلق ہیں۔ (آیات: ۲۷۴-۲۸۳)

ان کے درمیان آیت الکرسی رکھی گئی ہے‘ جیسے جواہر اور موتیوں کے نیکلس کے وسط میں جڑا نگینہ۔ اس آیت میں وہ سب کچھ ہے جو اللہ پر ایمان کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے اور جوجہاد اور انفاق دونوں کو طاقت بخشتی ہے۔ آپ کو نہ اپنے دشمنوں کی طاقت اور دولت سے خوف کھانے کی ضرورت ہے اور نہ زندگی کھونے یا غریب ہونے سے ڈرنے کی‘ اس لیے کہ اللہ حّی و قیوم ہے‘ ہمیشہ رہنے والا ہے‘ ہر زندگی کا سرچشمہ ہے‘ خود قائم ہے اور سب کو قائم رکھنے والا ہے۔ اس کا علم اور طاقت زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اس پر محیط ہے۔

آخری نتیجہ (آیات: ۲۸۴-۲۸۶)

وہ کون سے خصائص ہیں جو افراد اور گروہوں کو وہ ضروری قوت فراہم کرتے ہیں کہ وہ اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی کا بوجھ ہنسی خوشی اٹھائیں اور جو مشن اللہ نے ان کے سپرد کیا ہے اسے پورا کریں؟

آخری تین آیات ان کو اختصار سے بیان کرتی ہیں۔ یہاں وہ ضروری اخلاقی اور روحانی سرچشمے بتا دیے گئے ہیں جن کے بغیر یہ عظیم کام مکمل نہیں کیا جا سکتا۔ یہی سرچشمے ہمیں اس قابل بناتے ہیں کہ سورۃ البقرہ کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے جس باطنی قوت‘ وابستگی‘ عزم ‘ حوصلہ اور صبر کی ضرورت ہے وہ ہمارے اندر پیدا ہوں۔

سب سے اہم صفت اور دوسری تمام صفتوں کا سرچشمہ ایمان ہے۔ ایمان محض زبانی اقرار نہیں ہے‘ یہ اللہ کو زندگی کی تمام امیدوں اور اندیشوں کا مرکز بنانا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے خالق‘ مالک اور آقا ہونے کی حیثیت سے گہرا مضبوط اور ہمہ جہت تعلق رکھا جائے۔ اس تعلق کو مضبوط ر کھنے سے وہ طاقت اور ذرائع فراہم ہوتے ہیں جو صراط مستقیم پر چلنے کے لیے (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰) ‘نیز اس کی راہ میں جہاد کے لیے (الحج ۲۲:۷۸) ضروری ہیں۔

ان تین آیات میں ہمیں اس تعلق کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ یہ بہت خوب صورت اور جذبہ اُبھارنے والی ہیں۔ ان کو یاد کرنا اور لوح قلب پر کندہ کرنا آسان ہے۔ آیئے دیکھیں کہ یہ ہمیں کیا تعلیم دیتی ہیں۔

اوّل: یہ کہا گیا ہے کہ یہ بات یاد رکھو کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ کا ہے۔ یہ چند الفاظ اگر پوری طرح جذب کر لیے جائیں تو یہ کائنات کی ہر چیز‘ حتیٰ کہ خود ہماری ذات کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات‘ رویوں اور نقطۂ نظر کو بالکل تبدیل کر دیتے ہیں۔ ہمیں اپنے اندر جس باطنی قوت کی ضرورت ہے اسے پیدا کرنے اور برقرار رکھنے کے لیے یہ کافی ہیں۔ اس میں یہ مطالب پوشیدہ ہیں:

۱- ہم امین ہیں‘ مالک نہیں۔ اللہ ہر چیز کا مالک ہے۔ ہماری جانیں‘ ہمارے جسم‘ ہماری املاک اور تعلقات اس کے ہیں‘ ہمارے نہیں۔ یہ ذہن میں رکھیں تو ہمیں وہ طاقت مل جاتی ہے کہ ہم اس کے ہوجائیں اور ایسی زندگی گزاریں اور رویے اختیار کریں جیسے کہ ہم صرف اسی کے ہیں۔

۲- مالک نہ ہونے اور امین ہونے کی حیثیت سے ہمیں ہر چیز اس کی مرضی کے مطابق استعمال کرنا چاہیے۔ اس سے ہمیں ہر معاملے میں اس کی اطاعت کی طاقت فراہم ہوتی ہے۔

۳- ہمیں زندگی میں جو کچھ ملتا ہے یا جو کچھ ہم کرپاتے ہیں‘ اس کی طرف سے ہے‘ اس کی وجہ سے ہے۔ یہ احساس ہو تو ہم ہمیشہ اس کے شکرگزار رہتے ہیں۔

۴- یہ احساس ہم کو تمام مخالفتوں اور آزمایشوں کا سامنا کرنے کے لیے صبر دیتا ہے۔

۵- یہ تمام اشیا اور معاملات ہماری امانت میں دیے گئے ہیں‘ امین ہونے کی حیثیت سے یقینا ہم سے ہمارے اچھے اور بُرے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ ہم اپنے دل کے  عمیق ترین گوشے میں جو کچھ چھپائیں ہمیں اس کا بھی جواب دینا ہے۔ یہ احساس ہو تو ہماری نگاہیں ہمیشہ یومِ آخرت پر ہوتی ہیں اور ہم اس وقت کے لیے تیاری کرتے ہیں جب ہم اللہ کے سامنے کھڑے ہوں گے۔

۶- صرف وہی‘ کوئی اور نہیں‘ ہماری غلطیوں اور گناہوں کو معاف کرنے یا ان پر سزا دینے کی طاقت رکھتا ہے۔ یہ احساس ہمیں اپنے جیسے انسانوں کے فیصلوں سے بے خوف کر دیتا ہے۔

۷- اگر ہماری آخری تقدیر کا فیصلہ اسی کے فیصلے سے ہونا ہے تو ہم اپنی تمام اُمیدیں اور خوف اللہ کے ساتھ وابستہ کر لیتے ہیں‘ اور جب ہم کسی امتحان میں ناکام ہوتے ہیں یا کسی گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں تو اسی کی طرف مغفرت کے لیے رجوع کرتے ہیں۔

یہ تمام باتیں آپ کو ان تین آیات میں ملیں گی۔

دوم: ایمان کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ جو کچھ وحی کیا گیا ہے اس پر‘ اللہ پر‘ اس کے فرشتوں پر‘ اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان۔

سوم: ایمان کو ٹھوس شکل دے دی گئی ہے۔ اب یہ ایک مابعد الطبیعیاتی معاملہ نہیں ہے۔ ایمان کا مطلب ایک عہد اور وعدہ ہے اللہ اور رسولؐ کی سننے اور اُن کی اطاعت کرنے کا۔

چہارم: اپنے عہد کے مطابق زندگی گزارنے کے عظیم کام کی ذمہ داری‘ اور دوسری طرف گناہ کی طرف انسان کے رجحان کی وجہ سے ہمیں یہ سکھایا گیا ہے کہ اپنی ہر طرح کی غلطیوں اور کوتاہیوں کے لیے خاص طور پر‘ اور عموماً بھی‘ اللہ کی طرف پلٹتے رہیں اور اس سے بخشش مانگتے رہیں۔ اس سے ہمارے بوجھ ہلکے ہوجاتے ہیں اور ہم ذاتی اصلاح‘ ذاتی جائزے اور چوکنے رہنے کی کیفیت میں رہتے ہیں۔

تسلی‘ سکون اور حمایت و تائید کے مزید خزانے ہمیں آخری آیت (۲۸۶) میں دیے گئے ہیں:

۱-  نہایت اہم بیان‘ جو ایک وعدہ بھی ہے ‘ کہ شریعت کی پیروی کرنے میں جہاد کی کوشش میں یا قربانیاں دینے میں‘ اللہ تعالیٰ ہم پر کوئی ایسا بوجھ نہیں ڈالے گا یا ہمیں ایسی آزمایش میں مبتلا نہیں کرے گا جو ہماری برداشت سے باہر ہو۔ اس طرح ہم ان تمام وسوسوں سے بَری ہوجاتے ہیں جو ہمارے دل کی گہرائیوں میں گزرتے ہیں‘ جب تک ہم خود ہی اپنے ارادے سے ان کو پیدا نہ کریں۔

۲- جو کچھ ہم ایک فرد کی حیثیت سے کریں گے اس پر‘ نہ کہ دوسروں کے کسی کام پر‘ ہمارا حساب اور فیصلہ ہوگا۔

۳- شریعت کے احکام‘ یا جن آزمایشوں سے ہمارا امتحان لیا جائے ایسی نہیں ہوں گی جن پر عمل کرنا ہماری طاقت سے باہر ہو۔

۴- ہمیں تعلیم دی گئی ہے کہ ہم اللہ کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے جو کچھ کریں ہمیشہ اس پر معافی‘ رحم اور بخشش کی درخواست کیا کریں۔ اللہ پر یہ بھروسا ذہن سے یہ خیال نکال دیتا ہے کہ ہم خود اپنے برتے پر کچھ کرتے ہیں۔

آخری بات یہ کہ ہمیں تعلیم دی گئی ہے کہ فتح کے لیے ہاتھ دراز کریں۔ اس سے اُمّت کو جو مشن سپرد کیا گیا ہے اُس میں جہاد کی مرکزیت کی طرف اشارہ ملتا ہے۔

یہ تمام تعلیمات ایک مختصر دعا کی شکل میں دی گئی ہیں۔ اللہ ہمیں جو کچھ مانگنے کی تعلیم دے رہا ہے یقینا وہ عطا بھی کرے گا۔ کسی شک و شبہے کے بغیر‘ یہ اللہ کے وعدے ہیں۔


(نوٹ: اس مطالعے کے کچھ صفحات ابھی باقی ہیں‘ تاہم اس کو مختصر کتاب کی شکل میں البقرہ کی کلید کے نام سے منشورات (منصورہ‘ لاہور) شائع کررہا ہے۔ شائقین مکمل مطالعے کے لیے اسے حاصل کرسکتے ہیں۔ ادارہ)