اگست۲۰۰۵

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| اگست۲۰۰۵ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

احمد علی محمودی ‘حاصل پور

’’استغفار کو اپنا شعار بنا لیجیے‘‘ (جولائی ۲۰۰۵ئ) مختصر مگر انتہائی جامع ہے۔ قرآنی آیات کے ترجمے نے اس مضمون کو چارچاند لگا دیے ہیں۔ انفرادی و اجتماعی مسائل کے حل کے لیے یہ ایک بہت ہی عمدہ نسخہ ہے۔ استغفار ہی ہمارے تمام دکھوں کا مداوا ہے۔ ملک میں دین کے لیے کام کرنے والی تمام جماعتوں کو اس طرف  کھلی دعوت دینا چاہیے بلکہ دینی و سیاسی جماعتوں کو استغفار کو اپنے پروگرام میں شامل کرنا چاہیے۔


نبیل شوکت وڑائچ  ‘امارات

’’کشمیر کا مستقل حل‘‘ (جون ۲۰۰۵ئ) میں بنیادی نکتہ، ’’استعماری چالیں‘‘ ہیں۔ ’’شذرات‘‘ میں بھی امریکی استعمار اور اس کی پالیسیوں کو ہدفِ تنقید بنایا گیا ہے۔ عنوان ہی ’’امریکا سے نفرت‘‘ ہے۔ پانچواں مضمون ’’مہذب قوموں کے کارنامے‘‘ کا مرکزی نکتہ بھی امریکی و برطانوی استعمار کے کارناموں کو طشت ازبام کرنا ہے۔ درمیان میں ایک عنوان ’’امنِ عالم…‘‘ کے حوالے سے ہے جس کا آخری پیراگراف بھی امریکی دہشت گردی کو اپنا نشانہ بنا رہا ہے۔ پھر آخری دو عنوان: ’’روشن خیال تعلیم‘‘ اور ’’عراق: امریکا کے لیے دلدل‘‘ تو ظاہر ہے ‘ ہیں ہی استعماری سازشوں کو بے نقاب کرنے اور تعلیم اور عراق کے حوالے سے امریکی حکمتِ عملی کو سب کے سامنے لانے کے لیے۔ لہٰذا ان کا مرکزی خیال بھی استعمار ہی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ استعمار دشمنی‘ ہمارے ایجنڈے کا اوّلین نکتہ ہے اور وقت کا اہم ترین تقاضا بھی ہے۔ لیکن کیا ہماری ساری دعوت صرف اسی نکتے کے گرد گھومتی ہے؟ کیا دیگر اہم موضوعات و عنوانات کو یکسر نظرانداز کر کے‘ پورے شمارے کا ۸۰ یا ۹۰ فی صد حصہ صرف ایک نکتے (جو کہ یقینا اہم ہے) پر مرکوز کر دینا‘ درست طرزِ عمل ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔

آخری بات یہ کہ بے شک ترجمان القرآن ایک علمی رسالہ ہے لیکن اسے پڑھنے والے تمام لوگ دانش ور نہیں ہیں۔ ایسے مضامین ضرور شاملِ اشاعت کیے جائیں‘ جن کی وجہ سے عام آدمی ترجمان کو پڑھنے میں آسانی محسوس کرے‘ مباداکہ یہ صرف پالیسی ساز لوگوں یا اداروں کا رسالہ بن جائے۔ (میں پالیسی سازی کی نفی نہیں کر رہا)۔

جرمنی سے:

یہاں کے حالات بظاہر دن بدن خراب ہو رہے ہیں‘ مساجد کے ارد گرد دائرہ تنگ کیاجا رہا ہے۔ مستقبل قریب میں مساجد میں کھل کر اسلام کے بارے میں بات کرنا شاید مشکل ہوجائے گا۔ مساجد کے ذمہ داران کے ٹیلی فون‘ فیکس‘ ای میل وغیرہ سب چیک کیے جاتے ہیں کہ کہیں کسی دہشت گرد تنظیم سے رابطہ تو نہیں۔ حسابات بھی چیک کیے جارہے ہیں۔

ایک مسجد کے ترک امام جو بڑے معتدل ہیں‘ انھوں نے اپنی تقریر میں عراق اور فلسطین میں مارے جانے والے مسلمانوں کو انجانے میں شہید کہہ دیا اور اس کے ساتھ ایک دوسرے وعظ میں غیرمسلموں کے جہنم میں جانے کا کہہ دیا۔ اس پر پارلیمنٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ شخص اس معاشرے میں نفرت پھیلا رہا ہے‘ اس لیے اس کو باہر نکال دیا جائے۔ عدالت میں اپیل کا حق دیا گیا لیکن ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ امام صاحب ۳۰سال سے برلن میں ہیں۔


سید وقاص جعفری  ‘لاہور

رسائل و مسائل (جولائی ۲۰۰۵ئ) میں غزالی اسکولز اور زکوٰۃ فنڈ کے حوالے سے ایک استفسار کے سلسلے میں گزارش ہے کہ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ میں گذشتہ کئی سالوں سے زکوٰۃ کا علیحدہ حساب کتاب رکھاجارہا ہے۔ زکوٰۃ کی یہ رقم اُن چھے ہزار نادار و مستحق طلبہ و طالبات کو وظائف اور تعلیمی سہولیات کی صورت میں دی جاتی ہے جو یہاں زیرتعلیم ہیں۔ معاون حضرات کو ان کے عطیہ زکوٰۃ کے جواب میںاسپانسرڈ بچوں کے کوائف سے مطلع بھی کیاجاتا ہے البتہ یہ اور بات ہے کہ کچھ معاونین ہمیں زکوٰۃ کی تخصیص کے بغیر رقوم ارسال کردیتے ہیں جنھیں ٹرسٹ اپنے جنرل اکائونٹ میں استعمال کرتا ہے۔ کسی خاص مقام پر مخصوص فرد کے ذاتی رویے یا غیرمناسب حکمت عملی کے لیے ادارے کو جواب دہ ٹھیرانا درست نہیں۔


قیصرمختار  ‘ملتان

’’رزق حلال کا کلچر‘‘ (جولائی ۲۰۰۵ئ) پڑھا تو خیال آیا ہمیں خود اپنے دامن کو بھی دیکھنا چاہیے کہ اجتماعی امانتوں پر تصرف کرتے ہوئے کوئی دھبہ نہ لگے۔ کیا ہم اپنے اپنے دائرے میں اس میں محتاط ہیں؟


عزیر ہاشمی  ‘سرگودھا

’’بلوچستان ‘ سلگتے مسائل‘ غافل قیادت‘‘ (جولائی ۲۰۰۵ئ) مختصر‘ جامع اور بروقت ہیں۔ لیکن بلوچستان کے مسئلے کا حل دوسرے بہت سے مسائل کی طرح‘ تدابیر اور کاغذ پر لکھی رہ جانے والی سفارشات سے زیادہ رویے اور فکر میں تبدیلی کا مطالبہ کرتا ہے۔ کاش ہم سب پاکستانی کی طرح سوچیں اور عمل کریں۔