اگست۲۰۰۵

فہرست مضامین

ایران میں اسلامی انقلاب کی تجدید

سلیم منصور خالد | اگست۲۰۰۵ | شذرات

Responsive image Responsive image

ربع صدی قبل‘ ۱۹۷۹ء کے ایرانی انقلاب کو بیسویں صدی میں تاریخ کا رخ موڑنے والے واقعات میں شمار کیا جاتاہے۔ اس میں ایک قوم نے بے نظیر قربانیاں دے کر اس امر کا اظہار کیا کہ وہ اپنی زندگی ___انفرادی اور اجتماعی‘ ہر دائرے میں ___ اپنا نظریۂ حیات اسلا م کی روشنی میں تشکیل کریں گے اور ریاست کا نظم اس کا ذریعہ ہوگا۔ یہ دنیا کے اس رائج الوقت نظام کے خلاف اعلانِ بغاوت تھا جہاں مذہب کو ایک خانے میں محدود کرکے‘ زندگی کے تمام معاملات وحی الٰہی سے بے نیاز ہوکر‘ محض عقل و خرد کی روشنی میں انجام دیے جا رہے تھے۔

یہ انقلاب‘ ہر انقلاب کی طرح‘ مدوجزر سے گزرتا رہا۔ یہ کتابی نہیں‘ بلکہ عملی انقلاب تھا۔ اسی لیے اس نے بے شمار مسائل اور چیلنجوں کا سامنا کیا۔ مخالفوں نے اسے ناکام کرنے کی ہر تدبیر کی۔ ایرانی عوام ہر طرح کی آزمایش سے گزرے‘ لیکن دین اور جمہوریت ان کے اجتماعی خمیر میں گندھی ہوئی ہے۔ طویل عراق ایران جنگ‘ معاشی بحران اور عالمی پابندیوں کے باوجود انھوں نے اس کا دامن نہ چھوڑا اور انتخابات بروقت منعقد ہوتے رہے۔ صدر خاتمی کا انتخاب اپنے مضمرات و اثرات رکھتا تھا اور اب ۲۰۰۵ء میں محمود احمدی نژاد کی کامیابی بھی اپنے دامن میں بہت سے سبق رکھتی ہے۔

بنیادی طور پر اسے انقلاب ۱۹۷۹ء کی تجدید کہا جاسکتا ہے۔ ایک دفعہ پھر ایرانی عوام نے واضح اور فیصلہ کن انداز سے ثابت کر دیا ہے کہ وہ انقلاب کی منزل اور اہداف کے حصول کے لیے یکسو ہیں۔

ایران میں ایک انقلاب ڈاکٹر مصدق کا انقلاب بھی تھا۔ لیکن امریکا نے ۱۹۵۳ء میں اسے سازشوں کے ذریعے ناکام کر دیا اور شاہ کو پھر لا بٹھایا۔ موجودہ صدارتی انتخابات میں بھی امریکا کی منصوبہ بندی یہی تھی کہ اپنا اثرورسوخ‘ اپنے میڈیا کی طاقت‘ اپنے ڈالر اور اپنے ’طاقت ور‘ صدر کے بیانات کے ذریعے ایران میں ایسی تبدیلیوں کا آغاز کردے جو بالآخر ایران کے اسلامی انقلاب کے مقاصد کو ناکام بنادے۔ امریکی ذرائع نے ترقی‘ ترقی پسندی‘ روشن خیالی اور جدت پسندی کے  خوش نما نعروں کے ساتھ ہاشمی رفسنجانی اور ڈاکٹرکروبی کے دوماڈل آگے بڑھائے۔ اس صورت حال میں انقلاب کے محافظوں نے مکمل تیاری اور کمال درجے کی ہوش مندی کے ساتھ راستہ بنایا اور الحمدللہ بازی پلٹ کر رکھ دی۔ دوسرے مرحلے میں محمود احمدی نژاد کی ۷۰لاکھ ووٹوں کی اکثریت سے کامیابی نے امریکا کا منصوبہ خاک میں ملا دیا۔ اب اسے الیکشن فراڈ نظر آنے لگے۔

اسلامی قوتوں کی اس کامیابی کے بعد امریکا اور مغرب یہ تصویر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ احمدی نژاد ایک عام سا ہنگامہ پرور لیڈر ہے۔ حالانکہ وہ ایک پڑھے لکھے فرد ہیں‘ پی ایچ ڈی ہیں‘ اپنے میدان کار کے ماہر ہیں۔ لوہار کے بیٹے ضرور ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ سنار کی سو چوٹوں کا اپنی ایک ہی چوٹ کے مقابلہ کرنے کی روایت کو بھول گئے ہیں۔ڈاکٹر محمود احمدی نژاد تہران کے میئر کی حیثیت سے اپنی صلاحیتیں تسلیم کروا چکے ہیں۔ ان کے رویے اور بودوباش میں اسلامی روایات کا عکس ہے۔ یقینا ان کی مقبولیت میں ان امور کا بھی دخل ہے۔

ایران کے حالیہ انتخابات کا نتیجہ پوری اُمت مسلمہ اور خصوصاً احیاے دین اور اصلاحِ قیادت کی جدوجہد کرنے والی تحریکوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے اور غوروفکر کے لیے بعض نکات سامنے لاتا ہے۔

امام خمینی کے انقلاب کا ہدف ایک بے رحم سیکولر استبداد سے نجات اور جدیدیت کے نام پر امریکا کا کھلونا بننے سے انکار تھا‘ جب کہ حالیہ انتخابات میں عوام کے سامنے دو ایشوز تھے۔

اوّل: امریکا اور مغرب سے تعلقات درست کرنے کی طرف قدم ضرور اٹھائے جائیں‘ لیکن یہ احتیاط ملحوظ رہے کہ دروازے اس طرح نہ کھول دیے جائیں کہ اپنا اقتداراعلیٰ باقی نہ رہے۔

دوم: ۱۹۷۹ء کے انقلاب کے بعد متعدد خارجی اور داخلی محرکات کے نتیجے میں مالیاتی توازن بہتر ہونے کے بجاے بگڑ گیا۔ مزید یہ کہ ایک مفاد پرست طبقہ وجود میں آگیا‘ افراطِ زر میں بے حد اضافہ ہوا‘ اور بے روزگاری بہت زیادہ بڑھ گئی۔ انقلاب کے وقت تیل کی قیمت تقریباً ۲۰ڈالر فی بیرل تھی‘ اور اب ۶۰ ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ اس سے عامۃ الناس کے احوال میں جو بہتری آنا چاہیے تھی نہیں آئی‘ بلکہ مفاد پرست طبقہ ہی خوش حال تر ہوگیا۔ موجودہ انتخابی معرکے میں رفسنجانی اس طبقے کی علامت تھے۔ موجودہ انتخابی نتائج دراصل اس عدم توازن کے خلاف ایک بھرپور احتجاج ہے۔ نئے صدر اس بات کو سمجھتے ہیں کہ غریب افراد نے ان کو ووٹ اسی لیے دیے ہیں کہ وہ ان کے مسائل حل کریں‘ سماجی انصاف قائم کریں اور معاشی عدم توازن کو دُور کرنے میں فیصلہ کن کردار    ادا کریں۔

گویا کہ ۲۰۰۵ء کا صدارتی انتخاب ایران کے اسلامی انقلاب کی تجدید نو کے لیے ایک ریفرنڈم کی حیثیت رکھتا ہے اور اس طرف بھی اشارہ کر رہا ہے کہ جس طرح امام خمینی اور مہدی بازرگان نے قدیم و جدید کے سنگھم کی کیفیت پیدا کر دی تھی‘ اسی طرح رہبر اعلیٰ خمینی ثانی اور ڈاکٹر محمود احمدی نژاد مل کر انقلاب کی اصل روح کے مطابق تعمیرنو کا کام سرانجام دے کر ایران کے مسائل کے حل اور امت مسلمہ کے روشن مستقبل کے حصول کے لیے نئے چراغ جلائیں گے۔ جہاں یہ ایک بڑی کامیابی ہے وہیں دراصل ایک چیلنج بھی ہے کہ ایرانی قیادت عوام کی حمایت سے انقلاب کے مقاصد کی تکمیل کرے جس میں وہ:

۱- مغرب کی گمراہی کے جواب میں‘ نظریاتی طور پر درست مؤقف پیش کرے۔

۲- مغربی نیوکلیئر اجارہ داری کے جواب میں خود انحصاری پر مبنی نیوکلیئر پروگرام پر عمل جاری رکھے۔

۳-  ملک کے عوام کے معاشی مسائل بہتر نظم اور مؤثر حکمتِ عملی سے حل کرے۔

۴- اسلامی تعمیرنو کا کام شخصی آزادی اور جمہوری روایات کے ساتھ عوامی تائید اور شراکت سے انجام دے۔

ایرانی انقلاب تو آیا ہی ایمانی جذبے سے سرشارمستضعفین کے نام پر تھا۔ لیکن گذشتہ ۲۵برس میں بہت کچھ کیے جانے کے باوجود‘ بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔ احمدی نژاد نے تہران کے میئر کی حیثیت سے جو تجربات حاصل کیے ہیں انھیں اب پورے ملک میں آزمانے کا موقع ہے۔ ساری دنیا کی نظریں ان پر لگی ہیں‘ اور امید ہے کہ اگست میں حلف اٹھا لینے کے بعد‘ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر وہ اپنے کام میں لگ جائیں گے‘ اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے۔