اگست۲۰۰۵

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| اگست۲۰۰۵ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

طبی اخلاقیات اور دوا ساز کمپنیاں

سوال: میں ایک دواساز کمپنی میں میڈیکل نمایندہ ہوں۔ ہماری دوا ساز کمپنیاں ڈاکٹروں سے اپنی ادویات لکھوانے کے لیے ان کو نقد رقوم یا قیمتی اشیا تحائف کے طور پر مہیا کرتی ہیں جس کے بدلے ڈاکٹر ان کمپنیوں کی ادویات لکھتے ہیں جس سے مارکیٹ میں ان ادویات کی طلب بڑھتی ہے اور کمپنیوں کو بہت سا منافع حاصل ہوتا ہے۔ یہ ان کمپنیوں کی حالت ہے جو چھوٹی نیشنل کمپنیاں سمجھی جاتی ہیں۔ اس کے برعکس جو بڑی نیشنل یا ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں اگرچہ وہ ڈاکٹر صاحبان کو رقم مہیا نہیں کرتی ہیں لیکن اکثر اوقات ڈاکٹروں کو تحائف‘ پنج ستارہ ہوٹلوں میں کھانے اور اپنے خرچ پر ان کو بیرون ملک کے دورے کراتی ہیں جس سے ان کا کام ہوتا رہتا ہے۔ نمایندے کو کمپنی پالیسی کے مطابق کام کرنا پڑتا ہے اور وہ اس سارے عمل میں شریک ہوتا ہے۔

۱- ڈاکٹروں سے اپنی کمپنی کی ادویات لکھوانے کے لیے نقد رقوم یا بڑے تحائف دینا جائز ہے یا یہ رشوت کے زمرے میں آتا ہے؟

۲- بعض ڈاکٹر صاحبان ان رقوم یا تحائف کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ کیایہ واقعی ان کا حق ہے؟

۳- اگر یہ طریقۂ کار ناجائز ہے تو کیا میڈیکل نمایندہ اور کمپنی دونوں برابر کے شریک اور گناہ گار ہیں۔

۴- کیا بڑی نیشنل یا ملٹی نیشنل کمپنیوں کا طریقہ کار جائز ہے؟

۵- اگر متبادل روزگار نہ ہو‘ اور اگر ہو بھی تو اس سے گھریلو اخراجات پورے نہ ہوتے ہوں تو کیا اس کی اجازت دی جاسکتی ہے۔

جواب: اسلامی نظامِ حیات کا ایک امتیاز زندگی کے مختلف شعبوں میں پیش آنے والے جدید مسائل کا اخلاقی حل فراہم کرنا ہے۔ طبی اخلاقیات اس حیثیت سے اسلامی نظام حیات کا ایک اہم شعبہ ہے۔ جس طرح عبادت اللہ تعالیٰ کا حق ہے‘ عیادت اس کے بندوں کا حق ہے۔ ایک فرد کی جان بچانا تمام انسانوں کی جان بچانے کی طرح ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ وہ واحد ہستی ہے جو بندوں کو امراض سے شفا دیتی ہے‘ اس نیک کام میں معاونت بہترین اجر کے حصول کا ایک ذریعہ ہے۔

طبی امداد‘ مریضوں کی دیکھ بھال‘ مرض کی تشخیص کرنا اور اس کا علاج تجویز کرنا ایک طرح کی خدمت خلق اور اسلامی اخلاقیات کی عملی تطبیق ہے۔ ایک طبیب ہو یا جراح‘ اس کا بنیادی اخلاقی فریضہ مریض کو ہمدردانہ‘ مخلصانہ اور مصلحانہ مشورہ دینا اور اگر ضرورت پڑے تو جراحت کے ذریعے صحت یاب ہونے میں امداد فراہم کرنا ہے۔ اس لیے مناسب دوا کا تجویز کرنا اور مناسب دوا کا ایجاد کرنا اور فراہم کرنا اگر خدمت خلق کے جذبے کے ساتھ ہو تو اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑے اجر کا باعث بن سکتا ہے۔ لیکن اگر یہی عمل دوسروں کو استعمال کرتے ہوئے اپنی دنیا بنانے اور ان کی تکلیف کے سہارے اپنے لیے عیش و آرام کے سامان پیدا کرنے کا سبب ہو تو اللہ تعالیٰ کے حضور سخت جواب دہی کا باعث بن سکتا ہے۔

ایک طبیب سے اخلاقی طور پر یہ امید کی جاتی ہے کہ دوا تشخیص کرتے وقت نہ صرف دوا کی اثرانگیزی بلکہ مریض کی مالی حیثیت کا خیال رکھتے ہوئے جو دوا کم قیمت ہو لیکن ضروری اجزا اس میں پائے جاتے ہوں‘ تجویز کرے۔ اگر ایک ڈاکٹر محض اس بنا پر ایک مہنگی دوا تجویز کرتا ہے کہ اس کی وجہ سے کسی دوا ساز کمپنی کو فائدہ ہوگا‘ جب کہ انھی اجزا کی اتنی ہی مؤثر دوا مقابلتاً کم قیمت پر بازار میں موجود ہو تو یہ ایک حیثیت سے جھوٹی شہادت کی تعریف میں آئے گا۔ہاں‘ اگر ایک زیادہ قیمت والی دوا میں کیمیاوی اجزا زیادہ بہتر معیار کے ہوں اور دوسری دوا جو چاہے اُس سے ملتی جلتی ہو لیکن اس کے اجزا میں جلد اثر کرنے کی صلاحیت کم پائی جاتی ہو تو ایک ڈاکٹراپنی فنی رائے کی بنا پر مہنگی دوا بھی تجویزکرسکتا ہے۔

دراصل ان تمام معاملات کا انحصار ڈاکٹر کے ایمان و خلوص کے ساتھ ہے۔ اگر وہ صاحبِ ایمان ہے اور مریض کے لیے اخلاص رکھتا ہے تو بعض اوقات مہنگی اور بعض اوقات سستی قیمت کی دوا تجویز کرے گا جس کی بنیاد مریض کا مفاد ہوگا‘ نہ کہ دواساز کمپنی کا مفاد نہیں۔ اگر صرف دواساز کمپنی کے مفاد کے لیے کوئی دوا تجویز کی جائے گی تو یہ نہ صرف طبی اخلاقیات کی صریح خلاف ورزی ہوگی بلکہ جیسا کہ عرض کیا گیا شہادت زور‘ یعنی جھوٹی شہادت شمار ہوگی۔

بالعموم دوا ساز کمپنیاںاپنے تعارف یا اپنی دوا کے تعارف کے لیے بعض چیزیں بطور promotional کے دیتی ہیں‘ مثلاً بال پن‘ نسخہ لکھنے کے لیے لیٹرپیڈ‘ دیوار پر لٹکانے کے لیے صحت مند غذا وغیرہ کے حوالے سے چارٹ۔ اگر ان چیزوں کی بنا پر بھی کوئی صرف ایک کمپنی کی ادویات تجویز کرتا ہے تو یہ بھی ایک غیراخلاقی حرکت شمار ہوگی۔ لیکن اگر قلم یا کاغذ کا استعمال کرنے کے باوجود ایک ڈاکٹر دوا تجویز کرتے وقت ان تحائف کو مدنظر نہیں رکھتا اور جو دوا وہ زیادہ مفید سمجھتا ہے تجویز کرتا ہے تو ان اشیا کے استعمال میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی۔ہاں‘ اگر بعض دوا ساز کمپنیاں اس نیت سے کسی ڈاکٹر کو بیرون ملک یا اندرون ملک سیروتفریح کے لیے ہوائی جہاز کا ٹکٹ دیتی ہیں کہ اس احسان کے نتیجے میں وہ ڈاکٹر ان کی مہنگی ادویات مریض کو تجویز کرتا ہے تو یہ ایک غیر اسلامی اقدام ہوگا۔

اس سے ایک صورت استثنا معلوم ہوتی ہے اور وہ یہ کہ ہر تجارتی ادارے کے مستقبل کا تعلق تحقیق کے ساتھ ہوتا ہے۔ اگر کوئی دواساز کمپنی کسی مرض کا علاج دریافت کرنے کے لیے جس کا فائدہ عام انسانوں کو پہنچے گا‘ اپنے سالانہ بجٹ میں سے ۵ فی صد اس غرض سے رکھتی ہے کہ طبی تحقیقاتی کانفرنسوں‘ طب کے طلبہ کے وظائف یا ایسے طبی اداروں کی امداد کی جائے جو اس کے مرض پر تحقیق کر رہے ہوں تو چونکہ اس کا مقصد علمی اور سائنسی تحقیق کے نتیجے میں مصلحت عامہ یا عمومی انسانی فلاح و فائدہ ہے‘ لہٰذا اسے ناجائز نہیں کہا جاسکتا۔

اگر کسی ڈاکٹر کو انفرادی حیثیت میں کار‘ ریفریجریٹر‘ سفر کرنے کے لیے ٹکٹ یا کوئی اور favour اس لیے کی جائے کہ وہ ڈاکٹر صرف اُس کمپنی کی تیار کردہ ادویہ تجویز کرے تو یہ اسلامی اصول عدل کی صریح خلاف ورزی بھی ہوگی۔

کسی دوا سازکمپنی میں جو اپنی شہرت کے لیے اشتہارات طبع کرتی ہو ‘ ڈاکٹروں کو promotional اشیا فراہم کرتی ہو‘ ملازمت کرنا محض اس کے اس فعل کی بنا پر حرام نہیں کہا جاسکتا۔ کیونکہ جو شخص وہاں ملازمت اختیار کرتا ہے وہ محض اپنی فنی خدمت کا معاوضہ لیتا ہے‘اُس کا کوئی دخل کمپنی کی promotional پالیسی میں نہیں ہوتا۔ دوا ساز کمپنیوں کا ڈاکٹروں کے فیصلے پر اثرانداز ہونا ایک غیر اسلامی فعل ہے اور اس کی اصلاح کے لیے طبی اخلاقی ضابطے کی سختی سے پابندی کروانے کے لیے صارفین اور طبی اداروں کی طرف سے ان پر دبائو ڈال کر اس غلط روایت کا خاتمہ کرنا چاہیے۔

اگر ایک کمپنی کے نمایندے کو یہ بات تحقیق سے معلوم ہو کہ دوا کے بارے میں کمپنی کے دعوے غلط اور سائنسی تحقیق کی بنا پر وہ نہیں ہیں جو وہ کرتی ہے تو ایسی ادویہ کی فروخت یا اس کے ساتھ تعاون ایک غلط کام میں تعاون ہے۔ اس کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ خود کو ایسے کام سے بچائے جس میں جھوٹ‘ دھوکادہی اور دیانت کے منافی کام کیا جا رہا ہو۔ برائی میں شرکت اور برائی کے کرنے میں کوئی فرق نہیں کیاجاسکتا۔ لیکن اگر علمی تحقیق سے ثابت ہو کہ جو دوا وہ فروخت کر رہا ہے وہ وہی صفات رکھتی ہے جس کا دعویٰ کیا گیا ہے تو یہ ایک بھلائی کا کام شمار ہوگا کیونکہ اس طرح   اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو مرض سے شفا ملتی ہے۔

جہاں تک متبادل روزگار ملنے تک کسی ایسے ادارے میں کام کرنے کا سوال ہے‘ قرآن وسنت نے صرف ضرورت کی حد تک‘ یعنی کم سے کم وقت میں پوری جدوجہد کے ساتھ متبادل روزگار ملنے تک‘ کسی ایسے کام کی اجازت دی ہے جو عام حالات میں مناسب نہ ہو‘ مثلاً بنک کی ملازمت جو ظاہری طور پر سودی کاروبار کا حصہ ہے لیکن اگر بنک سودی کاروبار نہ کر رہے ہوں اور اسلامی اصولوں پر کام کر یں تو وہاں ملازمت کرنا جائز ہوگا۔ واللّٰہ اعلم بالصواب(ڈاکٹر انیس احمد)