بھارت اور امریکا کی عالمی اور علاقائی سطح پر اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ کو مستحکم کرنے کے لیے گذشتہ دس سال سے جاری تجارتی تعاون کے بعد انفارمیشن ٹکنالوجی کے میدان میں بڑے پیمانے پر بھارت امریکا تعاون‘ اور پھر امریکا میں بھارت کی ہم نوا سیاسی لابی کا شب وروز کام بالآخر اس پر منتج ہوا کہ اکیسویں صدی میں امریکا کے عالمی قیادت کے قیام اور استحکام کے لیے مشرق وسطیٰ میں اسرائیل‘ اور ایشیا میں بھارت کو مرکزی اہمیت حاصل ہو گی۔ جہاں تک اسرائیل کا تعلق ہے اس کے قیام ہی سے امریکا نہ صرف اسے باقی رکھنے اور مضبوط ترکرنے کے لیے اپنی ساری مالی‘ فوجی اور سیاسی قوت استعمال کر رہا ہے بلکہ مشرق وسطیٰ کو مستقلاً اپنی گرفت میں رکھنے کے لیے اسرائیل کو اہم ترین آلۂ کار بنایا ہے۔ اسی پس منظر میں اسرائیل کو نیوکلیئر پاور بنایا گیا اور علاقے میں کسی دوسرے ملک کو اس کا توڑ کرنے کے لائق نہ بننے دیا گیا۔ عراق کے نیوکلیئر پروگرام پر اسرائیلی حملہ اور بالآخر عراق کو ایک فوجی قوت کی حیثیت سے ختم کر دینا اسی پالیسی کا حصہ تھا۔ ایران پر موجودہ دبائو بھی اس کا حصہ ہے اور پاکستان کی نیوکلیئر صلاحیت کو درپیش خطرات بھی اسی پس منظر میں سمجھے جا سکتے ہیں۔
یہ کھلا کھلا تضاد ہے کہ ۱۹۷۴ء میں بھارت کے پہلے ایٹمی تجربے اور پھر ۱۹۹۸ء میں بھارت کے ایٹمی دھماکے امریکا اور مغربی اقوام کے لیے کوئی خطرہ نہ سمجھے گئے اور بڑا ہی نرم ردعمل سامنے آیا لیکن جیسے ہی پاکستان نے اپنے دفاع کو مستحکم کرنے کے لیے جوابی دھماکے کیے تو امریکا اور ساری مغربی دنیا اس کے خلاف صف آرا ہوگئی۔ یہ وہ پس منظر ہے جس میں بھارت امریکا گٹھ جوڑ نے گذشتہ تین سالوں میں جو شکل اختیار کی ہے اس کا سمجھنا غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کا تعلق پاکستان کے دفاع، سلامتی اور علاقائی کردار سے ہے۔ نیز اس کا بڑا گہرا تعلق ایشیا اور عالمی افق پر چین کے کردار سے ہے ۔یہ مسئلہ صرف پاکستان اور چین کا ہی نہیں بلکہ پورے شرق اوسط اور مسلم امہ کے مستقبل سے متعلق ہے۔ اس لیے اس کی حقیقت کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
اس نئی صف بندی اور گٹھ جوڑ کے نقش و نگار کو جن عناصر نے موجودہ شکل دی ہے ان میں بھارت میں امریکا کے سابق سفیر (جو اس وقت نیشنل سیکورٹی کونسل میں اہم ذمہ داری ادا کر رہے ہیں) اسرائیل کی حکومت ‘ امریکا میں اسرائیلی لابی، امریکا میں پائے جانے والے مرکزی اہمیت کے تھنک ٹینکس اور امریکا میں بھارت کے دانشوروں اور تارکین وطن کی وہ تنظیمیں ہیں جو پالیسی سازی کو متاثر کرنے کا کام کر رہی ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان‘ مسلم ممالک کی حکومتیں اور وہ پاکستانی اور مسلمان جو امریکا میں ہیں وقت کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی مؤثر کارروائی نہیں کرسکے۔
گذشتہ تین سالوں میں‘ خصوصیت سے ۱۱/۹ کے بعد‘ بھارت اور اسرائیل‘ اور بھارت اور امریکا کا تعاون معاشی میدان سے بڑھ کر فوجی اور آئندہ کے لیے دفاعی اہمیت رکھنے والے سازوسامان کی مشترک پیداوار سے متعلق ہوگیا ہے۔ نیز اس میں سب سے زیادہ اہم چیز ہائی ٹیک (Hi-tech) میدان میں ٹکنالوجی کی منتقلی اور مشترک پیداوار کے منصوبے ہیں جن کا کوئی وجود پچھلے پچاس سال میں نہیں تھا۔ اس میدان میں نہایت ہی حساس چیزوں کے بارے میں بھی تعاون شروع ہو گیا ہے جن کا تعلق ہائی ٹیک کمپیوٹر‘ نیوکلیئر ٹکنالوجی اور میزائیل ٹکنالوجی سے ہے جن میں PAC-II اور PAC-III سب سے زیادہ اہم ہیں۔ اس عمل کا ایک متعین شکل میں آغاز بھارت کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے دور میں ہوگیا تھا لیکن سب سے زیادہ ٹھوس اور دُوررس پیش رفت گذشتہ ایک سال میں ہوئی ہے۔ امریکا اور بھارت کے اس نئے گٹھ جوڑ کے نمایاں پہلو یہ ہیں:
۱- بھارت کو امریکا ایک علاقائی طاقت ہی نہیں بلکہ ایک عالمی طاقت کی حیثیت سے نہ صرف تسلیم کرتا ہے بلکہ اسے اس کردار کو ادا کرنے کے لائق بنانے میں اس کا مضبوط ترین ممد اور معاون ہو گا۔ اس میں خاص طور پر یہ پہلو سامنے رہے کہ امریکا یہ چاہتا ہے کہ چین کے عالمی کردار کو محدود (contain) کرنے کے لیے اس علاقے میں بھارت کلیدی کردار ادا کرے۔اس کے لیے امریکا اس کی پشتی بانی کرے اور اسے اس لائق بنائے کہ وہ چین کاراستہ روک سکے۔
۲۔ اس مقصد کے لیے جو معاہدہ بھارت کے وزیر دفاع اور امریکا کے ڈیفنس سیکرٹری کے درمیان ۲۸ جون ۲۰۰۵ء کو ہوا ہے جسے ۱۰ سال کا دفاعی معاہدہ قرار دیا گیا ہے وہ بڑا اہم ہے۔ اس میں تین امور میں زیادہ توجہ کے لائق ہیں۔
۱- امریکا کی طرف سے بھارت کو فوجی سازوسامان کی فراہمی جس میں امریکا کا جدید اسلحہ اور سازوسامان بھی شامل ہے۔ پاکستان کو تو اب متروک ایف-۱۶ دینے کی بات ہو رہی ہے لیکن بھارت کو ایف-۱۶ ہی نہیں بلکہ ایف-۱۸ اور پٹریاٹ میزائل کی بھی اعلیٰ ترین شکل دی جارہی ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کی نیوکلیئر سدجارحیت غیر مؤثر کی جا سکتی ہے۔
۲- دوسرا پہلو یہ ہے کہ صرف اعلیٰ ترین اور تباہ کن ترین فوجی سازوسامان ہی بھارت کو نہیں دیا جا رہا ہے بلکہ بھارت کے ساتھ اس کی مشترک پیداوار کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے جس کے معنیٰ یہ ہوں گے ٹکنالوجی عملاً منتقل ہوگی اور بھارت اس پوزیشن میں آجائے گا کہ آیندہ یہ اور اس نوعیت کا اسلحہ اور فوجی سازوسامان خود تیار کر سکے اور اس طرح اس کا امریکا پر انحصار باقی نہ رہے۔ یہ سبق بھارت نے پاکستان کے اس تلخ تجربے سے سیکھا ہے جو ایف-۱۶ لینے کے بعد امریکا کی پابندیاں لگنے کے نتیجے میں پاکستان کو بھگتنا پڑیں اور آج پاکستان وہی غلطی کرنے پر تلا ہوا ہے۔
۳- تیسرا اور نہایت اہم پہلو یہ ہے کہ بھارت نے اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس معاہدے کے ذریعے یہ تسلیم کیا ہے کہ بھارتی فوجیں امریکی کمانڈ میں دنیا کے کسی بھی حصے میں ’’مشترک مفاد‘‘ کے لیے کام کرنے کو تیار ہوں گی۔ یہ ایک طرف اقوام متحدہ کے نظام پر عدم اعتماد کا اظہار ہے کہ ایک خودمختار ملک کے لیے جائز صورت یہی تصور کی جاتی ہے کہ وہ ایسی بین الاقوامی فوجی مہم جوئی میں شرکت کرے جو اقوام متحدہ کی کمانڈ میں ہوں۔
۴- نیوکلیئر میدان میںبھارت اور امریکا کے کھلے کھلے تعاون کو ۱۰ سالہ معاہدے میں ایک شق کے طور پر درج کیا گیا ہے اور اب بش من موہن ملاقات کے اعلامیے میں بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس کے صاف معنی ہیں کہ امریکا نے بھارت کو این پی ٹی پر دستخط کیے بغیر ہی نیوکلیئر طاقت تسلیم کرلیا ہے اور اس سلسلے میں ہر طرح سے بھارت سے تعاون کر رہا ہے‘ جب کہ پاکستان کو نان ناٹو حلیف قرار دیا گیا ہے اور اپناگندا کام (dirty work) پاکستان سے کروایا جا رہا ہے اور اس کے باوجود اسے نیوکلیئر بلیک میل کا نشانہ بنایاجا رہا ہے۔ پاکستان کی موجودہ قیادت اس واضح اور بیّن فرق کو سمجھنے اور اس پر مؤثر ردعمل اختیار کرنے سے اجتناب کرتی ہے تو پاکستان کی سلامتی کے لیے اس سے بڑا خطرہ اور کوئی نہیں۔
امریکا اس اصول سے مسلسل انحراف کر رہا ہے اور عراق پر حالیہ حملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکا اقوام متحدہ اور عالمی قانون کو نظرانداز کرکے پہلکاری کرتے ہوئے خود فوجی کارروائی کرسکتا ہے۔ بھارت اور امریکا کے اس معاہدے کی رو سے اقوام متحدہ کی قیادت اور اجازت کے بغیر بھارت اور امریکا جس چیز کو اپنا مشترک مفاد سمجھیں اس کے لیے امریکی کمانڈ میں بھارتی فوجیں سرگرم عمل ہو سکتی ہیں۔ یہ بھارت کی خارجہ پالیسی میں بڑی جوہری تبدیلی ہے۔
اس معاہدے اور اس کے مضمرات پر پاکستان ہی نہیں، چین اور تمام اسلامی ممالک میں بالخصوص اور دنیا کے ان تمام ممالک میں بالعموم جو دنیا کو امریکا کی بالادستی سے محفو ظ رکھنا چاہتے ہیں اور جن کا مقصد یہ ہے کہ عالمی امن ایک عالمی منصفانہ نظام کے تحت قائم ہو، گہرا غور وفکر ہونا چاہیے اور خارجہ پالیسی پر نظرثانی کے باب میں ضروری مشورے ہونے چاہییں۔ ان تمام ممالک کے لیے ضروری ہے کہ اپنی خارجہ پالیسی کا جائزہ لیں اور ایسے متبادل انتظامات کی فکر کریں جن سے وہ اپنی آزادی، سلامتی اور حاکمیت کا مؤثر دفاع کر سکیں اور امریکا، بھارت اور اسرائیل کے اس گٹھ جوڑ سے جو خطرہ دنیا کی اقوام کو لاحق ہے اس کا مقابلہ کر سکیں۔