مضامین کی فہرست


جنوری ۲۰۱۷

تحریکاتِ اسلامی کا نصب العین معاشرتی تبدیلی اور انقلاب کا برپا کرنا ہے ۔ اس نصب العین کے حصول کا ایک اہم ذریعہ تعلیم ہے۔ اس لیے منصب رسالت پر فائز کرتے وقت داعی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے معلمانہ کردار سے آگا ہ کیا گیا تھا اور اولین ہدایت یہ دی گئی تھی کہ:

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ o خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ o اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ o الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ o عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ o (العلق ۹۶:۱-۵) (اے نبیؐ) پڑھو اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا، جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو، اور تمھارا رب بڑا کریم ہے  جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا ، انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔

ان اولین نازل ہونے والی پانچ مختصر آیات میں ربِّ کریم نے جہاں اُمیّون میں سے منتخب کیے جانے والے سراجاً منیراً  صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ تلقین کی کہ وہ اپنے رب کے نام سے تلاوت آیات کریں، وہیں یہ بات بھی سمجھا دی کہ یہ وہ علم نہیں ہے جو انسانی عقل تشکیل کرتی ہے۔ یہ وہ علم ہے جو وحیِ الٰہی کے ذریعے انھیں دیا جارہا ہے اور ان کے ذریعے ان تمام انسانوں تک اسے پہنچانے کا آغاز کیا جا رہا ہے، جنھیں آغاز میں خالق کائنات نے جمے ہوئے خون کی ایک پھٹکی سے پیدا کیا اور پھر شعور و آگہی سے نوازا ۔ ایک اور مقام پر تعلیم کی اس بنیادی اہمیت کو یوں بیان کیا گیا کہ وہ جو علم رکھتے ہیں اور وہ جو علم نہیںرکھتے، وہ برابر نہیں ہو سکتے ہیں:

قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ ط (الزمر ۳۹:۹) اِن سے پوچھو، کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہوسکتے ہیں؟

مزیدیہ بات بھی فرما دی گئی کہ جو لوگ علم رکھتے ہیں، وہ ایسے عباد(بندے) ہیں جو اپنے رب کے شاکر بندے ہونے کے ساتھ اپنے رب کاخَشیَہ یا تقویٰ اختیار کرتے ہیں:  اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ  مِنْ عِبَادِہِ  الْعُلَمٰٓؤُا ط (الفاطر۳۵:۲۸) ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں‘‘۔جو شعوری طور پر اس کی بندگی اختیار کرتے ہیں اور بندگیِ رب کے پیغام کو ہمہ وقت اپنی بنیادی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ادا کرتے ہیں ۔    داعیِ اعظمؐ نے خود اپنے بارے میں یہی بات فرمائی کہ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے (اِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا -  مشکٰوۃ)۔ چنانچہ پہلے دن سے دعوتِ دین کی اشاعت کے لیے مکہ مکرمہ میں دارِ ارقم اور مدینہ منورہ میں صُفہ کے تعلیمی اور تربیتی ادارے قائم فرمائے ۔

 گویا تحریکاتِ اسلامی کے لیے مکہ اور مدینہ ہر دو مقامات سے جو راہ نما اسوہ ملتا ہے،    وہ اداراتی بنیاد پر تعلیم کی اشاعت ہے، یعنی یہ معاملہ محض انفرادی طور پر کرنے کا نہیں ہے۔اس لیے تحریکاتِ اسلامی کی ایک اہم ترجیح، تعلیم بطور ایک ادارہ ہونی چاہیے۔ چنانچہ توقع کی جاتی ہے کہ اس غرض سے تحریکاتِ اسلامی اپنے کارکنوں کی علمی تربیت کے لیے مطالعاتی حلقہ جات،  اُسرے ، تربیت و تعلیم گاہوں ، خصوصی خطابات اور دیگر سرگرمیوں کا اہتمام کریں گی، تاکہ کارکنوں کے علم میں اضافے کے ذریعے ان میں خشیت اور تقویٰ پیدا ہو اور ضروری استعداد و آگہی کے ساتھ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے سکیں ۔

 دعوت کے تناظر میںتحریکاتِ اسلامی کا د ائرۂ عمل ہمارے ہاں مروّجہ روایتی تصور تبلیغ سے بہت مختلف ہے ۔وہ علم کو اس کی ایک جہت تک محدود تصور نہیں کرتیں۔جہاں جہاں ان کے   تصور میں نکھار ہے، وہاں اسلامی تحریکیں علم کے وسیع تر تصور کو پیش نظر رکھتی ہیں۔ اس ضمن میں معاملہ فرد کی اصلاح کا ہو یا فکر کی تطہیر کا، معاشرے کی تشکیلِ نو کا ہو یا سیاست کی تدوینِ جدیدکا ، ثقافت و تہذیب کے تصور کا تزکیہ ہو یا مذہبی منافرت دُور کرنے کا، مسلکی اختلافات میں اعتدال کی راہ تلاش کرنی ہو یا ملکی اور عالمی معیشت کا تنقیدی جائزہ لینے کا، اور نئے اسلامی عالمی نظام معیشت کا تعارف کا معاملہ ہو، اسلامی تحریکات ان اُمور سے آنکھیں بند نہیں کرسکتیں۔ اسی طرح گھرمیں اہل خانہ کے درمیان محبت و رحمت کے تعلق کی پرورش سے لے کر معاشرے سے تضادات دُور کرنے تک یا افراد ،خاندان اور معاشرے میں برداشت ، قبولیت (acceptability) اور تعاون کی مضبوط بنیادیں استوار کرنے کے کام ہوں، تحریکاتِ اسلامی کا تصور دعوت و ابلاغ ان تمام اور دیگر ممکنہ انسانی مسائل کا احاطہ کرتا ہے۔ تعلیم و تعلم کے ذریعے وہ اپنے اصلاحی اور انقلابی عمل کو اس کے منطقی انجام تک پہچانا چاہتی ہیں۔

عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو نہ صرف تحریکاتِ اسلامی بلکہ معاشرتی تبدیلی کی جو حکمتِ عملی بھی وضع کی جاتی ہے ، اس میں تعلیم بنیادی کردار ادا کرتی ہے ۔ سامراجی طاقتیں چاہتی ہیں کہ سیاسی طور پر غلامی و بے اختیاری کے شکنجے میں کسی گئی اقوام کو محکومیت کے زنجیروں میں اس طرح جکڑے رکھیں کہ وہ زنجیروں کو ’زیور‘ سمجھنا شروع کر دیں۔ اس خود سپردگی کو ’حسن و دانش‘  باور کرانے کے لیے مؤثر ترین ہتھیار کو وہ تعلیم ہی کا نظام سمجھتی ہیں اور اسی کو ذریعہ بناتی ہیں۔  برعظیم پاک و ہند ، انڈونیشیا ، ملایشیا، الجزائر، تیونس ، مصر، شام ، سوڈان، فلپائن، غرض کہ جہاں جہاں یہ مغربی سامراج گیا، اس نے تعلیم کے ذریعے ہی معاشرتی تبدیلی پیدا کی اور سیاسی غلامی کو گہرا کیا۔

تعلیمی منصوبہ بندی اور تقاضے

پاکستان کے پس منظر میں تحریکِ اسلامی سے وابستہ افراد کی اگر مناسب تعلیمی منصوبہ بندی کی جائے تو دستورِ پاکستان کی روشنی میں بغیر کسی غیرجمہوری ذریعے کے،معاشرتی انقلاب کی راہ   ہموار کی جاسکتی ہے جو کلی انقلاب کے لیے ممد و معاون ہو گی۔ یہ تعلیمی معاشرتی انقلاب تحریک کی حکمت و دعوت اور طریق کار سے پوری مناسبت رکھتا ہے ، اور قلیل المیعاد اور طویل المیعاد   منصوبہ بندی کے ذریعے تحریک کے نصب العین کے حصول کا ذریعہ فراہم کرسکتا ہے ۔

یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ اسکول، کالج اور یونی ورسٹی وہ مراکز ہیں، جہاں سے  وہ افراد کار فراہم ہوتے ہیں جو سامراج کی چھوڑی ہوئی روایت کا حصہ بن جائیں تو نوکر شاہی میں  بابو بن کر خوش و خرم رہتے ہیں ۔یہی افراد کار اگر اُس تعلیم سے گزریں جو سیر ت وکردار کی تعمیر اور عقل ود انش کی تہذیب کے ذریعے انھیں اپنے دین و روایات پر فخر کرنا سکھائے اور اسلام کو زندگی کا مقصد اور مشن بنانے کا داعیہ پیدا کرے، تو یہ افراد کار دنیا کے بڑے سے بڑے طاغوتی نظام کو اپنی حکمت عملی سے ایک عادلانہ معاشرے میں تبدیل کرنے میں کردار ادا کر سکتے ہیں ۔

 تحریکِ اسلامی کویہ امتیاز حاصل ہے کہ آج پاکستان کے تمام صوبوں میں ایسے تعلیمی ادارے موجود ہیں جو اس کی فکر سے نظری اتفاق رکھتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس  زمینی حقیقت سے ذہانت اور حکمت کے ساتھ فائدہ اٹھایا جائے اورایک جامع حکمت عملی اس موجود سہولت کو ایک قیمتی افرادی اثاثے میں تبدیل کر دے اور یہ افرادی اثاثہ تحریک اسلامی کے  نصب العین کے حصول کا ذریعہ بن جائے۔

تعلیم وتربیت معاشرتی تبدیلی کی شاہراہ ہے، لیکن یہ اسی وقت صحیح نتائج پیدا کر سکتی ہے جب نہ صرف نصاب ، تدریسی کتب ، ادارے کا ماحول بلکہ معلمین و معلمات کاذاتی کردار سیرت اور اخلاق کی اعلیٰ مثال پیش کرتا ہو۔انبیاےکرام کا مقصدمحض کتاب کا پہنچا دینا نہیں تھا، ان کا اصل کارنامہ وہ اسوۂ حسنہ پیش کرنا تھا، جو ان کی تعلیمات کا مرقع اور ہر پیروکار کے لیے قابلِ عمل مثال ہو۔ اسی بنا پر داعی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم  کے بارے میں فرمایا گیا:

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا o (احزاب ۳۳:۲۱) درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے ، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔

 یہ اسی وقت ممکن ہے جب تعلیمی ادارے نظریاتی تربیت گاہوں میں تبدیل ہو جائیں۔ ملک گیر پیمانے پر ان کا نصاب ، اساتذہ کی صلاحیت ، تجربہ و کردار و سیرت اور نصابی کتب اور راہ نما کتب کے انتخاب میں بنیاد محض تعلیمی کمال نہ ہو بلکہ تربیتِ اخلاق ہو۔ اسی راستے پر چلتے ہوئے ان تعلیمی اداروں سے روشن دماغ قائد ، اخلاقِ حسنہ کے نمونے ، جرأت و خود اعتمادی کے امین،  حلم و بُردباری اوربرداشت  (tolerance ) اور استقامت کے نمایندے ،روحانی بالیدگی اور باہمی رحمت و مودت کے علَم بردار نوجوان پیدا ہو سکیں گے۔

یہ کام نہ تو مشکل ہے اور نہ کوئی خام خیالی۔ آج بھی جہاں کہیں صحیح اخلاقی تربیت، سائنسی علوم کی اعلیٰ تعلیم ، صبر و استقامت اور سچائی اور خود داری کی تربیت د ی جائے گی، وہاں سے ایسے افراد پیدا ہوں گے جو عصر حاضر کے نام نہاد سامراجی اجارہ دارقوتوں کا ایمان و اعتماد کے ساتھ مقابلہ کر سکیں گے۔

اسلام کی شورائی اور جمہوری اقدارکے ساتھ، خودانحصاری ، سچائی ، امانت، دیانت اور للہیت رکھنے والی شخصیت پیدا کرنے کے لیے تعلیم ہی کے ذریعے اپنے نصب العین کے واضح شعور کے ساتھ ایک جامع حکمت عملی اور صبر وتوکل کے سہارے یہ کام کرنا ہو گا ۔ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ مدینہ کا راستہ مکہ اور حبشہ سے ہو کر گزرتا ہے۔ مکہ کا صبر آزما دور اور حبشہ کی غریب الوطنی وہ مراحل ہیں جن سے گزرے بغیر عدل واحسان پر مبنی معاشرہ قائم نہیں ہو سکتا ۔ وہ چاہے مٹھی بھر افراد ہو ں لیکن ان مراحل سے گزر چکے ہوں تو وہ وقت کے جباروں کا فکری اور عملی سطح پر مقابلہ کرسکتے ہیں، جب کہ افراد کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہو، لیکن ان تمام مراحل سے نہ گزراہو تو وہ سمندر کے جھاگ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔

الحمدللہ، آج تحریک اسلامی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ تعلیم کے شعبے میں اس سے وابستہ افراد کے تعلیمی ادارے تقریباً پورے ملک میں کام کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے قابلِ غور سوال یہ ہے کہ کیا وہ ایسی معیاری اخلاقی تعلیم دینے میں کامیاب ہوئے ہیں،جو نئی نسل میں ذہنی انقلاب برپا کر دے اور انھیں مستقبل کی تعمیری اور اصلاحی قیادت کے لیے تیار کر دے؟

حکمتِ دعوت اور ابلاغ

 اس تعلیمی جہاد کے ساتھ دوسرا لازمی میدان وہ ہے، جسے قرآن کریم نے حکمتِ دعوت و ابلاغ سے تعبیر کیا ہے جو ہدایتِ الٰہی کو آسان اور ہر خاص و عام کے لیے قابل فہم بنا کر پیش کرنا ہے۔    آج ہم جسے ابلاغِ عامہ کہتے ہیں، یہ چاہے طبع شدہ الفاظ کی شکل میں ہو یا برقی پیغامات کی شکل میں،  اس کا بنیادی مقصد مطلوبہ پیغام کو جاذبِ نظر بنا کر دل و دماغ میں اتار دینا ہے ۔ غالباً اسی بنا پر قرآن کریم کی آیات میں اثر انگیزی اور معرفت کو اس طرح سمو دیا گیا ہے کہ ہر آیت جامع اور مختصر ہونے کے ساتھ ساتھ لامتناہی مفہوم کی امین ہے، اور ایک طائرانہ نظر سے دیکھنے والے اور ایک تفقہ والی نگاہ رکھنے والے ، ہر دو کے لیے معانی و مفہوم کے خزانے فراہم کردیتی ہے۔

 اس دور کا المیہ یہ ہے کہ کہ آج اولین تعلیم گاہ آغوشِ مادر اور اسکول اور مدرسے کے کردار کو برقی ابلا غ عامہ نے فنی مہارت کے ساتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ دُکھ کی بات یہ ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے افراد بھی اس مجرمانہ تہذیبی ڈاکے پر بے چین نظر نہیں آتے۔

تحریکِ اسلامی کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ اولاً اس اہم معاشرتی اور تہذیبی مسئلے سے قوم کو دلائل اور شواہد کی بنیاد پر آگاہ کرے ۔ ماں کی تربیت اورخاندان کی مرکزیت و عظمت کی تجدید اور حیاتِ نو کے لیے منظم جدوجہد کرے۔ ساتھ ہی اپنی دعوت کو پہنچانے کے لیے اس مؤثر ذریعے کو اخلاق کی پابندیوں اور تہذیبی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اختیار کرے۔ تعلیم گاہوں سے وہ نوجوان نکلیں جو نہ صرف سیرت و کردار بلکہ عصر حاضرکے مسائل سے آگاہی کے ساتھ ساتھ ایک تنقیدی نگاہ کے ساتھ مغرب کی لادینی فکر کا رد ، عقلی دلائل سے اور اسلام کے جامع نظامِ عدلِ اجتماعی کی وضاحت اپنے علم و تجربے کی مدد سے کر سکیں ۔

 اس حوالے سے اس بات کی فوری ضرورت ہے کہ صحافیوں، ابلاغِ عامہ سے وابستہ ماہرین اور مصنّفین کے لیے ایک مستقل ادارہ ایسا قائم کیا جائے، جہاں تبادلۂ خیالات ،علمی تحقیق  اور نوجوان نسل کی تربیت اس طر ح ہوسکے کہ نہ صرف ابلاغِ عامہ اور اجتماعی ابلاغ( Mass Communication) کی اعلیٰ ترین تربیت ہو، بلکہ انھیں اسلام کے نظام عدل اور پاکستان کی نظریاتی اساس و تاریخ پر پورا عبور حاصل ہو۔ یہی نوجوان تحریک کے نصب العین کے حصول کے لیے افرادی سرمایہ فراہم کریں گے اور تحریک کی تحریکیت کو قائم رکھنے میں مددگار ثابت ہوںگے ۔ ہر تحریک اسی وقت تک اپنا وزن اور اثر رکھتی ہے جب تک اس میں نیاخون ، فکری یک جہتی، اجتہادی صلاحیت اور نظم و ضبط قائم رکھنے کی صلاحیت موجود ہو۔ نیا خون اگر تحریکی فکر میں سطحی معلومات کے ساتھ شامل ہوگا، تو جلد یا بدیر جذبات کا شکار ہوجائے گا، اور اگر وہ تحریکی فکر کے رنگ میں رنگ گیا تو صبر و استقامت اور کامیابی کی علامت بن جائے گا۔

اداراتی نظم کی ضرورت

 تعلیمی اور ابلاغی جہاد کا آغاز کرنے کے لیے وسائل اور خام مواد پہلے سے موجود ہے ۔ تحریکی فکر سے وابستہ افراد کے بہت سے ادارے اس میدان میں کام کر رہے ہیں، لیکن تاحال ایسی کوئی تنظیمی شکل اور انتظام موجود نہیں ہے جس کے ذریعے ایک فطری انداز میںانھیں باہمی تعارف و راہ نمائی فراہم کی جا سکے۔ یہ کام ان کی آزادی کو متاثر کیے بغیر سر انجام دیا جانا چاہیے۔ علمی، نصابی اور تربیتی حوالے سے ایسے راہ نما خطوط (Guide lines) باہمی مشورے سے باآسانی تیار کیے جاسکتے ہیں ، جن کی پابندی کا اہتمام سب ادارے بہ حسن وخوبی کر سکیں۔

تعلیمی اداروں کی صوبائی اور مرکزی سطح پر اداراتی تنظیم سے ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ وہ کسی ایک مرکزی نظم کے تحت آجائیں اور اپنی ترقی ، خودمختاری اور تنوع سے محروم ہو جائیں۔ قطعاً ایسا نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ان میں نصب العین اور حکمت عملی پر اتفاق ہو، وژن اور منزل واضح ہو او ر ہر طالب علم اتالیق کی نگرانی و سرپرستی میں اپنی شخصیت اور فکرکی صورت گری کر سکے، اور ایک مشاورتی عمل کے نتیجے میں اپنے مستقبل کانقشہ ذہن میں لے کر تعلیمی ادارے سے نکلے ۔ جس سے معلوم ہوسکے کہ طالب علم کو تعلیم مکمل کرنے کے بعد زندگی کے کس شعبے میںممتاز مقام حاصل کرنا ہے۔تجارت میں ، سرکاری ملازمت میں ، قانون نافذ کرنے والے اداروں میں، عدلیہ اور دفاع کے نظام میں یا ذاتی کاروبار کرناہے، ہنریا جو شعبہ بھی اسے پسند ہے ا س میں کس مقام تک اور کتنے وقت میں وہاں پہنچنا ہے ۔ جب تک یہ عملی زندگی کا منصوبہ، تعلیمی مراحل کے دوران میں واضح نہیں ہوگا، تعلیم مکمل ہونے کے بعد بھی وہ اپنے  اہداف حاصل نہیں کر سکے گا۔

تحریک اسلامی کی کامیابی کا راز اس منصوبہ بندی میں ہے، جو زمینی حقائق کے پیش نظر، مطلوبہ اہداف کا حصول ایک مقررہ وقت کی میعاد میں کر سکے ۔ یہ تعلیمی حکمت عملی نابغہ (genius) افرادپیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ اس لیے اس کی اہمیت کے پیش نظر ترجیحات کی فہرست میں اسے سب سے اول ہونا چاہیے ۔ ابلاغِ عامہ کو ہم نے اس بنا پر اس کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے کہ تعلیمی مقاصد ابلاغ کی مناسب حکمت عملی کے بغیرحاصل نہیں ہو سکتے ۔

اس مہم میں نہ کسی بڑی مالی امداد کی ضرورت ہے اور نہ نئے سرے سے پہیہ ایجاد کرنے کی حاجت ہے ۔ صرف ترجیحات کی ترتیب پر غور اور موجودہ آزاد اداروں کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے ان کی فکری تنظیم بندی ، اہداف پر یکسوئی اور اساتذہ کی تربیتی حکمت ِ کار، نصابی کتب اور نصاب پر نظر ثانی کرنا ہے۔ پھر ان تمام مصادر کو اس طرح استعمال کرنا ہے، جو تحریک کے    نصب العین سے مطابقت رکھتے ہوں ۔ تحریک کا نصب العین، در حقیقت پاکستان کا نصب العین ہے۔ اس لیے نصب العین کے اس اتحاد کی بنا پر تحریک کو اپنے کام کے لیے مکمل اخلاقی جواز حاصل ہے شرط صرف یہ ہے کہ اس کام کو ذمہ داری سے کیا جائے، تاکہ یہ محض رسمیت (formality) کا شکار نہ ہو اور اپنی اصل روح کے ساتھ ملک گیر بنیادوں پر زیر عمل لایا جاسکے ۔ ہر اس انسانی کوشش اور سعی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جو خلوصِ نیت سے اور کسی دنیاوی اجر ، تمغے اور اعزاز کے حصول کی طمع کے بغیر صرف اللہ کی رضا کے لیے کی جائے گی تووہ اس میں کامیابی دے گا ۔ یہ ابدی اصول ہے۔ اس میں کسی قوم اور زمانے کی قید نہیں۔تعلیمی حکمت عملی ہی کامیابی کا راستہ اور اسوۂ حسنہ کی پیروی ہے۔

قرآن کریم نے بے شمار مقامات پر اس بات کو دہرایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقررکردہ  انبیاے کرام ؑ اپنی دعوتی سرگرمی میں دن رات تمام قوتوں کے ساتھ مصروف رہنے کے باوجود، لوگوں سے کسی اجر کی توقع نہیں رکھتے تھے۔تحریک اسلامی سے وابستہ افراد کی دعوتی سرگرمی بھی اگر خلوصِ نیت کے ساتھ اللہ کی رضا کے لیے ہے، تو وہ خود اپنے فضل و کرم سے تحریک کے لیے مشکلات کو دور کرے گا ، آسانیاں پیدا کرے گا،لیکن اگر نیت محض شہرت یا مادی ہدف ہو تو پھر ممکن ہے کہ دنیاوی ہدف تو حاصل ہو جائے، لیکن آخرت کا معاملہ مشکوک ہو جائے گا ۔ دوسری جانب اگر تمام تر کوشش ، خلوصِ نیت سے رضاے الٰہی کے لیے ہے، تو پھر چاہے فور ی نتائج حاصل نہ ہوں لیکن وہ جو پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کرنے کی قوت رکھتا ہے، اس کا فرمان ہے: وَلَا تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ  مُّؤْمِنِیْنَo (اٰل  عمرٰن۳:۱۳۹) ’’ دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘۔

 تحریکِ اسلامی سے وابستہ کسی قائد یا کارکن کے لیے ذہن میں اس تذبذب کا پیدا ہونا کہ: اللہ کی مدد کب آئے گی؟ ہم کب تک یونہی جدو جہد کرتے رہیں گے؟ اسلامی تبدیلی اور انقلاب آکیوں نہیں جاتا؟ ایک عاجلانہ نفسیات کا پتا دیتا ہے۔ تحریکی نفسیات اُخروی زندگی کی کامیابی سے منسوب ہوتی ہے، جس میں یہاں کی ہر ناکامی اس کے جوش اور ولولے میں غیر محدود   عزم و ارادے کا اضافہ کرتی ہے۔تحریکی نقطۂ نظر کی اصل کامیابی رضاے الٰہی کا حصول ہے اور اِس دنیا میں کامیابی اس کی طرف سے اضافی انعام ہے ۔

علوم کی تدوینِ جدید

 تعلیمی حکمتِ عملی کا ایک اہم مقصد اور ہدف علوم کی تدوینِ جدید ہے ۔ علوم چاہے معاشرتی علوم ہوں یااطلاقی (applied) جب تک ان کے بنیادی تصورات کودرست نہ کیاجائے، وہ ذہن اور معاشرہ پیدا نہیں کر سکتے، جو صرف اللہ کو رب مانتا ہو اور اصلاحِ احوال پر منتج ہو۔ غورو فکر اس بات پر ہونا چاہیے کہ ہم نے اب تک کن علوم کو اسلامی بنیادوں پر نئے سرے سے مدون کیا ہے اور بقیہ علوم کی اسلامی تشکیل جدید کا بنیادی کام کتنے عرصہ میں کر لیا جائے گا ۔ یہ وہی عمل ہے جس کے لیے قائد تحریک اسلامی نے خود بیش قیمت کام کیا۔ زندگی کے مختلف شعبوں کے لیے فکر اسلامی کی روشنی اور تشکیلِ نو کے خطوط کی نشان دہی کی اور فکر کو ایک نئے رخ سے آشنا کیا ۔  علومِ اسلامی کی تشکیلِ نو کے لیے واضح خطوطِ کار بھی متعین کیے ، اس کام کو مختلف میدانوں میں کرکے دکھایا اور نئے چراغ روشن کیے ۔ اس کے لیے ملک اور ملک سے باہر اداروں کے قیام کی فکر بھی کی لیکن اس کام کو جاری رکھنے اور نئی رفعتوں سے روشناس کرانے کے لیے کیا کیا جارہا ہے ؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے اور جو کمی کوتاہی ہے اس کی تلافی کی فکر بلا تاخیر کرنا چاہیے ۔

اس وقت وطنِ عزیز میں مروجہ تعلیمی نظام کی بنیاد، زندگی میں تقسیم کے اصول پر ہے۔ چنانچہ اس طرح جو ذہن پیدا ہوتا ہے وہ انسانی زندگی کو دنیاوی اور روحانی خانوں میں تقسیم کرتا ہے۔ ایک کا تعلق اس کے ذاتی روحانی سکون سے ہے اور دوسرے کا تعلق مادی ترقی ، قوت اور دولت سے ۔ اسلام اس تقسیم کو شرک سے تعبیر کرتا ہے اور تمام علوم کو وحیِ الٰہی کی روشنی میں مادی اور تجرباتی معیار کی جگہ ابدی اخلاقی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنا چاہتا ہے۔ معاشرے میں عدلِ اجتماعی کے قیام کے لیے تمام اطلاقی علوم (Applied Sciences) کی تدوینِ جدید کے ذریعے ایک ہمہ گیر فکری انقلاب کو ضروری قرار دیتا ہے ۔ اسلام رنگ و نسل، جنس اور زبان کی قید سے بلند ہو کر معاشرے کے ہر فرد پر کم از کم اتنی تعلیم کا حصول فرض قرار دیتا ہے، جس سے وہ شعوری طور پر ہرعمل کے اخلاقی یا غیر اخلاقی ہونے کا فیصلہ کر سکے اور حلال و حرام میں تمیز کے قابل ہو ، اسے طہارت اور نجاست کا فرق معلوم ہو۔ یہ طہارت محض جسمانی نہیں، فکری بھی ہے اور معاملات کی بھی ۔

خدمتِ خلق کا وسیع تر معاشرتی تناظر

تعلیم کے ذریعے معاشرتی اصلاح اور انقلاب کے عمل میں قرآن کریم، اللہ کے بندوں کی معاشی،معاشرتی،سیاسی، ثقافتی ضروریات کو پورا کرنا بھی ایک فرض قرار دیتا ہے ۔ جس طرح انسانوںپر اللہ کا حق ہے کہ رب العالمین کو وحدہٗ لا شریک مانتے ہوئے اپنا سر اطاعت اس کے سامنے جھکا دیا جائے، اسی طرح اللہ کے بندوں کا حق یہ ہے کہ ہر ضرورت مند ، مسکین ، فقیر، غریب کی اس حد تک امداد ہو جائے کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکے۔ یہی زکوٰۃ کا فلسفہ ہے اور اسی بنا پر صدقات ہوں یا انفاق، ان کے بارے میں فرما دیا گیا کہ جو کچھ ایک فرد کی اپنی ضروریات سے زائد ہو، وہ اسے اللہ کی خوشنودی کے لیے ضرورت مندوں پر خرچ کردے، تاکہ اس مال کے بدلے اسے ۷۰گنا یا اس سے بھی زیادہ اجر آخرت میں مل جائے۔

اسلام خدمت خلق اور حقوق العباد کو ایک وسیع تر معاشرتی تناظر میں دیکھتا ہے ۔خصوصاً اسلامی تحریکات، بنیادی دعوتی مقصد کے حصول کے لیے اس پہلو کو اپنی سرگرمیوں میں خصوصی ترجیحی مقام دیں ۔ اس حوالے سے سب سےپہلے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اللہ کے بندوں کو طبی سہولیات فراہم کرنے کی طرف توجہ کی جائے ۔

یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ ’الخدمت‘ کے زیر انتظام شفا خانے اور طبی مراکز ملک کے بعض حصوں میں خدمت ِ خلق کے لیے موجود ہیں ۔یہاں پھر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کو مریضوں کی فکری اور روحانی صحت کے لیے بھی استعمال کیا جارہا ہے ؟ ملک گیر منصوبہ بندی کے ذریعےہر مریض کے احوال کا تجزیہ اور حاصل شدہ معلومات کی بنا پر اس تک دعوتی معلومات  پہنچانے کے لیے کاوشوں کا میدان کھلا ہے؟ یہی شکل تعلیم گاہوں میں اختیار کی جانی چاہیے، کہ والدین کے ساتھ کس درجے کا رابطہ رکھا گیا ہے؟ تعلیم اور خدمت خلق دراصل دعوت کے وسیلے ہیں۔ ان کا مقصد نہ صرف اللہ کے بندوں کی جسمانی صحت ہے بلکہ ان کی اخلاقی و روحانی ترقی اور فکری اصلاح بھی اس کا ایک اہم مقصد ہے ۔

طبی سہولیات مختلف شکلوںمیں فراہم کی جاسکتی ہیں ۔ بہترین شکل تو مفت طبی امداد کے مراکز کا قیام ہے۔ تاہم، کام کے آغاز کے لیے ایسے علاقوں میں جہاں دور دور تک ہسپتال کا وجود نہیں ہے، مقامی افراد سے مشورہ کر کے بآسانی انتظام کیا جا سکتا ہے کہ کوئی صاحبِ خیر اپنے گھر کا کوئی ایک کمرہ جس کا دروازہ باہر کھلتا ہو ،اس میں طبی معائنے کی میز رکھنے اور طبیب کے بیٹھنے کی جگہ نکل سکتی ہو،رضاکارانہ طور پر استعمال کر نے کی اجازت دے سکتا ہے۔ اس طرح بغیر کسی مالی بوجھ کے جگہ کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ ایسے ہی ایک دو مستند ڈاکٹروں سے رضاکارانہ طور پر ہفتہ میں ایک یا دو دن کا وقت مانگا جا سکتا ہے۔ علاقے کے میڈیکل اسٹوروں سے بات کی جاسکتی ہے۔ ایسے افراد جو قیمتی ادویات نہیں خرید سکتے،خصوصی رعایت کرکے اور بعض ادویات اس طبی مرکز کو عطیے کے طور پر بھی دینے کی تدبیر کریں ۔ یہ سارا کام قیاسی نہیں ہے بلکہ ذاتی تجربے پر مبنی ہے ۔ تعلیم کے میدان میں گھر، اسکول اور بیٹھک سکول کا تجربہ بھی اس سلسلے میں مشعلِ راہ بن سکتا ہے۔

طبی امدا د کے لیے سوزوکی کیری میں ایک پورا سفری شفاخانہ بنایا جا سکتا ہے، جو مقررہ دنوں میں کم آمدنی والوں کی بستیوں میں جا کر دو یا تین گھنٹے صرف کرے اور خصوصاً بچوں میں امراض کے تدارک کے لیے عوام کو تعلیم و تربیت دے اور ساتھ ہی بچوں کے مفت معائنے کے بعد انھیں ادویات بھی تجویز کرے ۔ ایسے معاملات، جن میں علاج کے لیے ہسپتا ل میں داخلہ ضروری ہو، انھیں کسی قریب کے ہسپتال تک پہنچایا جائے اور ادویات کے حصول میں ان کی امداد کی جائے۔

ملکی یونی ورسٹیوں میں تعلیم پانے والے طلبہ وطالبات کو رضاکارانہ طور پر الگ الگ وفود کی شکل میں قریبی ہسپتالوں کا دورہ کرایا جائے اور طلبہ مردوں کے وارڈ میں اورطالبات خواتین کے وارڈ میں جا کر ان کی عیادت کریں اور انھیں کوئی تحفہ دیں، چاہے وہ کوئی پھل یا ایک پھول ہی کیوں نہ ہو۔اس معمولی عملِ خیر کے نتیجے میںطلبہ وطالبات کو زندگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملے گا۔ جب وہ اپنی جیب سے پھل خرید کر مریضوں میں تقسیم کریں گے توجذبۂ انفاق پیدا ہو گا اور باہمی اخوت کو تقویت ملے گی ۔ اس پوری مشق کا مقصد طلبہ اور طالبات کو عملی دعوت سے روشناس کرانا اور خدمتِ خلق کے ذریعے متحرک کرنا ہے ۔ تعلیم بالغاں بھی کرنے کا ایک اہم کام ہے ۔ مناسب منصوبہ بندی کی جائے تو رضاکارانہ طور پر طلبہ کے ذریعے خصوصاً گرمیوں کی تعطیلات میں تعلیم بالغاں کے مراکز قائم کیے جاسکتے ہیں ۔

ملک میں معاشی عدم استحکام نے ہر شخص کو کرب ناک معاشی دوڑمیں لگا دیا ہے ۔ معاشی ضروریات کو تسلیم کرتے ہوئے تحریک ایسے اداروں کے قیام کی حوصلہ افزائی کر سکتی ہے جو چھوٹے کاروباروں کے لیے غربت اور بے روزگاری میں کمی لاسکیں، اور جو لوگ اس طرح ان کے رابطے میں آئیں، ان کی فکری تربیت کے ذریعے تحریک کی قوت میں اضافہ کر سکتے ہیں ۔

اداروں کی تعمیرِنو

 ہمارے ابلاغِ عامہ کے اداروں نے گذشتہ ۲۰سال کے عرصے میں جس طرح قوم کو بداخلاقی ، بد اطواری اور بد معاملگی کی تعلیم دی ہے، اس سے قوم کو نجات دلانے کے لیے تعمیری اور مثبت کام کی ضرورت ہے، محض تنقید اور احتجاج سے کام نہیں چل سکتا۔ بغیر کسی مزید تاخیر کے  دعوتِ دین کے حوالے سے یہ چیز اب واجب کا مقام رکھتی ہے کہ تحریک سے وابستہ افراد کم از کم ایک میڈیا ہاؤس قائم کریں ، جو تعلیمی ، اصلاحی اور معاشرتی موضوعات پر ایسے پروگرام بنائے،   جو فنی طور پر اعلیٰ معیار کے ہوں اور تحریک کی دعوت کو پیش کرتے ہوں۔

جب تک ابلاغِ عامہ کے ہم خیال ادارے نہیں قائم ہوتے، کم ازکم جو روایتی ادارے موجود ہیں انھیں شعوری طور پر توسیعِ دعوت ، تعمیر فکر و کردار کے لیے استعمال کیا جائے۔ اس غرض کے لیے خصوصی تربیتی پروگراموں کا ایک سلسلہ شروع کرنا ہو گا ۔اس کے لیے مساجد اور کمیونٹی کے مراکز [چوپال] کو استعمال کرنا ہو گاکہ عوام میں مسائل کا شعور اور ان کے حل کے لیے آگاہی پیدا ہوسکے۔ مفت مشاورت فراہم کرنے والے مراکز ہرگاؤں اور شہر میں قائم کیے جائیں، جن میں مقررہ اوقات میں رضاکارلوگوں کے مسائل سنیں اور انھیں قرآن و سنت کی روشنی میں حل سے آگاہ کریں۔

موجودہ معاشرتی مسائل کچھ اس رُخ سے اُلجھتے جارہے ہیں کہ خاندان میں معمولی معمولی اختلاف کے نتیجے میں طلاق کو ایک کھیل بنا لیا گیا ہے ۔ قرآن و سنتِ رسولؐ کی روشنی میں جو چیزسخت ناپسندیدہ ہے اسے ڈراموں ، فلموں اور ٹی وی شوز میں مضحکہ خیز شکل دے کر لوگوں کو دین سے  دُور کیا جار ہاہے ۔نہ صرف طلاق بلکہ سگریٹ نوشی نے بھی صحت کے مسائل کھڑے کر دیے ہیں۔ اس نوعیت کے معاشرتی مسائل کا مقابلہ کرنے کے لیے عوام کی آگاہی کے لیے وقتاً فوقتاً کسی ایک مسئلے پر ملک گیر مہم چلانے کی ضرورت ہے ۔ جس میں علمی بحث بھی ہو، اور جمہوری ذرائع سے عوام کی تعلیم بھی ۔ جب تک ہم مقامی مسائل کو سمجھنے کے بعدحل پیش نہیں کریں گے،ہماری دعوت نامکمل رہے گی اور تحریک کی متوقع دعوتی کا میابی کی منزل قریب نہیں آسکے گی۔

 مختلف شعبہ ہاے زندگی سے وابستہ افراد کے لیے ایسی تنظیمیں قائم کرنی ہوں گی، جن میں ماہرین فن اپنی پیشہ ورانہ ضرورت کے طور پر ان اداروں سے وابستہ ہوں اور معاشرتی تعلیم و انقلاب کے عمل میں ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں ۔ اس حوالے سے پہلے سے قائم شدہ تنظیموں کا جائزہ اور ان کے کام کی رفتار ، اہداف کا تعین اور حکمتِ عملی پر غور کرنا ہو گا کہ انھیں کس طرح مزید مؤثر بنایا جائے۔ مختلف پیشہ ورانہ تنظیموں کا مقصد بھی غیر سیاسی انداز میں تربیت اور اصلاحِ اخلاق ہو نا چاہیے تاکہ خلوص اور بے غرضی کا احساس ان اداروں سے وابستہ افراد میں راسخ کیا جاسکے ۔ دعوت کے کام کے غیر سیاسی پہلو سے قطعاً یہ مراد نہیں کہ سیاسی کام دعوتی کام سے مختلف ہے ۔

خواتین کی فکری تطہیر و تنظیم

تعلیمی اور معاشرتی انقلاب اور اصلاح کے کام کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ خواتین کے مسائل کے، صحیح شعور کے ساتھ، قرآن و سنت کی روشنی میں ایسے حل تجویز کیے جائیں جو جدید تعلیم یافتہ خواتین کو مطمئن کر سکیں ۔ بیرونی امداد پر چلنے والے بے شمار رفاہی اداروں نے حقوق نسواں کے نام پرخواتین میں اشتعال اور اسلام سے دُوری پیدا کرنے کو اپنا نصب العین بنا لیا ہے۔ تحریک اسلامی کو ان موضوعات پر اپنا موقف اور زیادہ واضح انداز سے پیش کرنا ہو گااور بلاکسی معذرت کے اسلامی تعلیمات کو جدید زبان میں اس طرح پیش کرنا ہو گا کہ عقلی دلائل اور تاریخی شواہد کی بنیاد پر اسلام کے صحیح خدوخال کا فہم عام کیا جاسکے۔ موجودہ صورتِ حال میں خواتین میں ملک گیر بنیادوں پر ایک واضح تبدیلی کا آغاز ہو چکا ہے ۔ ایک جانب بہت سی وہ خواتین ہیں، جو کل تک اسلام کے بارے میں مخصوص پروپیگنڈے کے زیراثر ہچکچاہٹ کا شکار تھیں، اب اسلام سے قریب آئی ہیں۔ دوسری طرف این جی اوز کلچر نے بہت سی نوجوان خواتین کو اسلام سے دُور بھی کیا ہے ۔ اس پہلو سے بھی مناسب حکمت عملی کے ساتھ اس طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ خواتین کی فکری تطہیر اور تنظیم غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

قُلْ اُوحِیَ اِلیَّ اَنَّہٗ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوْٓا اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا o یَّھْدِیْٓ اِلَی الرُّشْدِ فَاٰمَنَّا بِہٖ ط وَلَنْ نُّشْرِکَ بِرَبِّنَآ اَحَدًا o (الجن۷۲ :۱-۲) اے نبیؐ ، کہو، میری طرف وحی بھیجی گئی ہے کہ   ِجنوں کے ایک گروہ نے غور سے سنا پھر (جاکر اپنی قوم کے لوگوں سے) کہا: ’’ہم نے ایک بڑا عجیب قرآن سنا ہے جو      راہِ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اس لیے ہم اُس پر ایمان لے آئے ہیں اور  اب ہم ہرگز اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے‘‘۔

سورۂ جِن کے متعلق جہاں تک مَیں تحقیق کرسکا ہوں یہ سورت غالباً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفرِطائف کے بعد نازل ہوئی ہے۔ حضوؐر کا سفرِ طائف سنہ ۱۰ نبویؐ میں ہوا تھا، یعنی ہجرت سے تین سال پہلے۔ سورئہ قٓ میں یہ آتا ہے کہ یہ پہلا موقع تھا کہ جنوں نے نبی کریمؐ کی زبان سے کلامِ مجید سنا۔ اہلِ طائف کے ظلم و ستم کے رویے کی وجہ سے جب حضوؐر واپس ہوئے تو راستے میں ایک مقام پر جہاں نخلستان تھا ٹھیرے تھے۔وہاں آپؐ رات کی نماز اور فجر کی نماز میں تلاوتِ قرآن فرما رہے تھے تو جنوں کا ایک گروہ وہاں سے گزرا اور آپؐ کی آواز سن کر وہ ٹھیرا اور غور سے قرآنِ مجید کو سنتا رہا۔ تفاسیر اور احادیث کی کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ طائف کے سفر سے واپسی کے موقع پر پیش آیا تھا۔ انھی کتابوں میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے اور اس قصے میں ایک روایت یہ بھی ملتی ہے کہ جنوں نے حضوؐر سے قرآنِ مجید سنا۔ بعد میں یہ واقعات بہ کثرت احادیث میں ملتے ہیں لیکن سفرِطائف سے پہلے کوئی روایت نہیں ملتی۔ اس لیے غالباً یہ سورہ سفرِطائف کے بعد نازل ہوئی ہے۔

یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس طرح معلوم ہوئی؟ اس سفر میں آپؐ نے جنوں کو نہیں دیکھا نہ آپ کو یہ محسوس ہوا کہ جن سن رہے ہیں۔ بعد میں بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جِن انسانی شکل میں بھی حضوؐر کے پاس آئے تھے۔ لیکن اس موقعے پر آپ نے جنوں کو نہیں دیکھا تھا بلکہ وحی کے ذریعے آپ کو اطلاع دی گئی تھی کہ جنوں نے آپؐ کی زبان سے قرآنِ مجید سنا ہے۔

اس چیز کو بیان کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ اہلِ عرب جنوں کے بہت زیادہ معتقد تھے۔ وہ جنوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ ان کے نزدیک زمین کا ہرخطہ جنوں سے بسا ہوا تھا۔ ایک ایک خطے کا مالک گویا ایک جن تھا۔ سفر میں اگر کہیں جاتے تھے اور جس وادی میں ٹھیرتے تھے اور اگر وہاں رات گزارنی ہو تو وہ کہتے تھے کہ اعوذ بہ رب ھذا الوادی،میں پناہ مانگتا ہوں اس وادی کے مالک کی۔ یعنی ان کے نزدیک ہروادی کا مالک کوئی جن ہوتا ہے اور اس کی پناہ مانگا کرتے تھے۔ ان کا یہ خیال تھا کہ بیماری اور تندرستی اور بہت سی مصیبتیں جنوں کی وجہ سے حاوی ہوتی ہیں۔ ان کے خیال میں جن ہی ایمان کی خبریں پہنچاتے تھے، حتیٰ کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر کوئی شاعر اعلیٰ درجے کا کلام کہتا ہے تو گویا کہ اس کے قبضے میں ایک جِن ہے جو اس کو آکر یہ کلام سناتا ہے۔ اگر کوئی شاعر اعلیٰ درجے کا شاعر ہے اور بہترین کلام کہتا ہے اور اس کے بعد ایک مدت تک وہ شعر نہیں کہہ سکا، یا اس نے کوئی ایسا شعر کہہ دیا جو اس کے مرتبے سے گرا ہوا ہوتا تو کہتے تھے کہ اس کا جِن فرار ہوگیا ہے۔ اس نے اپنا جِن چھوڑ دیا ہے جس کی وجہ سے اس پر شعر کا نزول نہیں ہوتا ہے، یا اس کی شعر کہنے کی قابلیت اس سے نکل گئی ہے۔ یہ ان کے تصورات تھے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مبعوث ہوئے اور آپؐ نے اپنے آپ کو اللہ کے آخری نبی کی حیثیت سے پیش کیا اور قرآنِ مجید سنانا شروع کیا تو قرآنِ مجید کی بہترین بلاغت و فصاحت اور  اس کے اعلیٰ درجے کے مضامین کو سن کر قریش کے بہت سے لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ یہ بھی  جِن القا کرتے ہیں۔ وہ جنوں کو خدا کی اولاد قرار دیتے تھے۔ اس لیے حضوؐر کے بارے میں ان کا یہ کہنا تھا کہ اگر یہ ہمارے خدائوں کی اسی طرح توہین کرتے رہے تو ہمارے دیوتا اور معبود اِن کا  تختہ اُلٹ دیں گے ۔ ان کی یہ بات کہ قرآنِ مجید کو جِن القا کرتے ہیں اگرچہ اس بات کی تردید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھل کر کرتے تھے، تاہم ایک طرف وہ جنوں کو خدائی میں شریک قرار دے رہے تھے اور انھیں خدا کی اولاد بھی قرار دیتے تھے ، اور دوسری طرف وہ شرک کی بھرپور تردید رسولؐ اللہ کی زبان سے سنتے تھے۔ اس پر ان کے معقول آدمی یہ کہتے تھے کہ اگر یہ کلام جِن لاتے ہیں تو وہ اپنی ہی تردید کیسے کرسکتے ہیں؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ جِن اپنے ہی خلاف تردید کرنا شروع کردیں؟ تاہم، عام لوگوں کے لیے یہ بہت بڑا دھوکا اور فریب تھا کہ جِن یہ کلام لے کر آتے ہیں۔

اس وجہ سے یہ کہا گیا ہے کہ وہ جِن جن کے متعلق تم سمجھتے ہو کہ قرآن بھی نازل کرتے ہیں، یہ جِن اس قرآن کو سن کر خود اس پر ایمان لے آئے۔ پھر آگے چل کر ان جنوں کے بارے میں بیان کیا گیا ہے کہ انھوں نے آپس میں کیا گفتگو کی۔ اس سے خود بخود اس بات کی تردید ہوگئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جِن قرآن لے کر آتے ہیں۔ جِن خود اس کلام کو کیسے نازل کرسکتے ہیں، جب کہ وہ اس پر ایمان لائے ہیں۔ پھر انھوں نے اس بات کا اقرار بھی کیا کہ ہم اس کے منکر نہیں ہیں اور ہم آخرت پر ایمان لے آئے ہیں۔

یہ ساری چیزیں اس وجہ سے سنائی گئی ہیں کہ کفارِ مکہ کے اس غلط عقیدے کی تردید ہوجائے اور انھیں یہ معلوم ہوجائے کہ جِن بھی اسی طرح سے مخلوق ہیں جیسے انسان ہیں۔ ان کے اندر بھی کافر اور مومن ہیں۔ ان کے اندر بھی راہِ راست پر چلنے والے اور گمراہ جِن ہیں اور یہ بھی اسی طرح سے قرآنِ مجید کے مخاطب ہیں جس طرح انسان ہیں اور قرآنِ مجید سن کر جس طرح انسان ایمان لائے ہیں اسی طرح سے بعض جِن بھی ایمان لاتے ہیں۔

اس لیے فرمایا گیا کہ:

قُلْ اُوحِیَ اِلَیَّ اَنَّہٗ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ (۷۲:۱) اے نبیؐ، ان لوگوں کو خبر دو کہ مجھے وحی کے ذریعے اطلاع دی گئی ہے کہ جنوں میں سے ایک گروہ نے اس قرآن کو کان لگا کر سنا۔

سمعنا کے معنی توجہ سے سننا ہے۔ ایک سننا ہوتا ہے اور ایک غور سے سننا، یا کان لگا کر سننا، یا یہ کہ سن گن لینا۔ اس کے لیے سمعنا کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ فرمایا جا رہا ہے کہ جنوںمیں سے ایک گروہ نے قرآنِ مجید کو کان لگا کر سنا اور پھر اپنے گروہ میں واپس جاکر انھیں یہ خبر دی کہ اِنَّاسَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا، ہم ایک عجیب چیز سن کر آئے ہیں جو تم نہیں جانتے۔ یَّھْدِیْٓ اِلَی الرُّشْدِ، یہ ایسی چیز ہے جو راہِ راست کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ فَاٰمَنَّا بِہٖ ،اور ہم اس پر ایمان لے آئے۔ وَلَنْ نُّشْرِکَ بِرَبِّنَآ اَحَدًا،اور اب ہم اپنے رب کے ساتھ ہرگز کسی کو شریک نہیں کریں گے۔

’قرآن‘ کا لفظ یہاں پڑھی جانے والی کتاب کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ یہاں  قرآنِ مجید کے معنی کے لحاظ سے یہ لفظ استعمال نہیں ہوا بلکہ ایک ایسی چیز مراد ہے جو پڑھی جارہی ہو۔

معلوم ہوا کہ انسان تو جنوں کو خدا کی اولاد بنا رہے تھے لیکن جِن خود کسی اور کو خدا بنارہے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور مخلوق کو شریک نہ کرنا، اس سے خودبخود کفار اور تمام مشرکین مکہ کے عقیدۂ شرک کی تردید ہوگئی کہ جن کو تم معبود اور خدا کی خدائی میں شریک اور خدا کی اولاد قرار دے رہے تھے وہ خود کسی دوسری ہستی کو خدا بنائے بیٹھے ہیں اور اس پر ایمان لاچکے ہیں۔

وَّاَنَّہٗ تَعٰلٰی جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَۃً وَّلاَ وَلَدًاo  (۷۲:۳) اور یہ کہ ’’ہمارے رب کی شان بہت اعلیٰ و ارفع ہے، اُس نے کسی کو بیوی یا بیٹا نہیں بنایا ہے‘‘۔

یہاں پھر کفارِ مکہ کے اس عقیدے کی تردید آگئی کہ جِن خود اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نہ کوئی بیوی ہے اور نہ کوئی اولاد۔ تم ان کا نسب خدا سے ملاتے ہو، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔

وَّاَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ سَفِیْہُنَا عَلَی اللّٰہِ شَطَطًاo  (۷۲:۴) اور یہ کہ ’’ہمارے نادان لوگ اللہ کے بارے میں بہت خلافِ حق باتیں کہتے رہے ہیں‘‘۔

سَفِیْہُنَاکا لفظ اگر واحد کے طور پر آئے تو اس کا مطلب شیطان ہے۔ اگر یہ لفظ اسمِ جنس کے طور پر استعمال کیا گیا ہے تو اس کا مطلب ہوگا کہ ہم میں سے جو جو بھی بے وقوف، احمق اور نادان ہے، اور جو اللہ تعالیٰ کی طرف غلط باتوں کو منسوب کرتا ہے اور خلافِ حق بات کرتا ہے۔ یہ دونوں ہی باتیں صحیح ہیں۔ اس لیے کہ جنوں کا وہ گروہ جو انھیں گمراہ کرتا ہے یا ابلیس جس نے انسانوں کو گمراہ کیا اور اس نے جنوں کو بھی گمراہ کیا ہے۔ وہ اللہ کی طرف غلط باتیں منسوب کرتا ہے،  ہم اس سے پناہ مانگتے ہیں۔

وَّاَنَّا ظَنَنَّآ اَنْ لَّنْ تَقُوْلَ الْاِنْسُ وَالْجِنُ عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا o  (۷۲:۵)اور یہ کہ ’’ہم نے سمجھا تھا کہ انسان اور جِن کبھی خدا کے بارے میں جھوٹ نہیں بول سکتے‘‘۔

یعنی ایمان لانے کے واقعے سے پہلے جن گمراہیوں میں جِن مبتلا تھے اس کی توجیہہ وہ یہ کرتے ہیں کہ اب تک جن غلط فہمیوں میں جِن مبتلا ہوئے یا گمراہیوں میں پھنسے ہمارا یہ گمان تھا کہ انسان اور جِن اتنی جرأت نہیں کرسکتے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں غلط بات بیان کریں اور منسوب کریں۔ ہم نے یہ خیال کیا کہ ہمارا رب جواتنی بلند تر ہستی ہے، اور جس کی اتنی بلندشان ہے، اور اتنی زبردست اس کی سلطنت ہے اگر کوئی انسان یا جِن اس کی طرف غلط بات منسوب کرے یا جھوٹ بولے گا تو اللہ تعالیٰ کی مار اس پر پڑے گی اور اس کو عذاب ہوگا۔ اس وجہ سے ہم نے یہ خیال کیا کہ اگر یہ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں اور پھر ان کی گرفت نہیں ہوتی تو ضرور یہ باتیں سچ ہوں گی۔ اس غلط فہمی میں آکر ہم نے یہ غلط باتیں مان لیں۔ اب ان کا یہ کہنا تھا کہ  قرآنِ مجید کو سن کر ہماری یہ غلط فہمیاں رفع ہوگئیں، اور یہ پتا چل گیا کہ یہ کس قسم کی غلط فہمیاں ہیں۔ اس لیے ہم اس قرآن پر ایمان لے آئے ورنہ پہلے ہم اس غلط فہمی میں پڑے ہوئے تھے یا ہمارا یہ خیال تھا کہ انسان اور جِن یہ جرأت نہیں کرسکتے کہ خدا کی طرف غلط باتوں کو منسوب کریں۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان کے ایک قول پر اضافہ کرتا ہے۔ یہ گویا جملۂ معترضہ ہے جو ان کے کلام کے بیچ میں آگیا ہے۔

وَاَنَّہٗ کَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ یَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوْھُمْ رَہَقًا o وَّاَنَّھُمْ ظَنُّوْا کَمَا ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ یَّبْعَثَ اللّٰہُ اَحَدًاo  (۷۲:۶-۷) اور یہ کہ ’’انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے کچھ لوگو ں کی پناہ مانگا کرتے تھے، اِس طرح انھوں نے جنوں کا غرور اور زیادہ بڑھا دیا‘‘۔ اور یہ کہ ’’انسانوں نے بھی وہی گمان کیا جیسا تمھارا گمان تھا کہ اللہ کسی کو مرنے کے بعد دوبارہ نہ اُٹھائے گا‘‘۔

اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے اس بات کو ادا کیا جا رہا ہے کہ میری طرف  یہ بات وحی کی گئی ہے کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ کچھ جنوں کی پناہ لیا کرتے تھے جس وجہ سے جنوں کا تکبر کچھ اور بڑھ گیا، اور انھوں نے بھی یہ سمجھا اور جیساکہ تم لوگ سمجھتے ہو کہ اللہ تعالیٰ مرنے والے کو کبھی دوبارہ زندہ کرکے نہیں اُٹھائے گا۔

یہاں قرآنِ مجید نے جنوں کی غلط فہمی اور گمراہی کی ایک وجہ بیان کی ہے۔ ایک وجہ تو جنوں نے اپنی گمراہی کی یہ بیان کی ہے کہ ہم یہ سمجھتے تھے کہ جِن اور انسان اتنی بڑی جسارت نہیں کرسکتے کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں غلط بات منسوب کریں۔ یہاں اللہ تعالیٰ جنوں کی گمراہی کی ایک اور وجہ مزید بیان کرتا ہے کہ انسان جنوں کی پناہ لیا کرتے تھے۔ اس وجہ سے جنوں کا تکبر اور بڑھ گیا، یعنی جنوں کا دماغ اور خراب ہوگیا۔ انھوں نے یہ سمجھا کہ ہم تو ایسی بڑی ہستی ہیں کہ وہ انسان جو زمین پر خلیفہ بنائے گئے تھے وہ ہماری پناہ مانگنے لگے ہیں۔ اس وجہ سے ان کی سرکشی بھی بڑھی اور ان کے دماغ بھی خراب ہونے لگے۔

اس جگہ ایک اور بات کو بھی نگاہ میں رکھیے۔ ہمارے ہاں ایک مدت سے یہ کہا جاتا ہے کہ جِن کوئی الگ مخلوق نہیں ہیں بلکہ انسان ہی جِن ہیں۔ انسانوں میں سے جو لوگ پہاڑوں، صحرائوں اور غاروں میں رہنے والے ہیں، ان کا نام جِن ہے۔ پچھلی صدی کے آخر سے یہ خیال پیش کیا گیا تھا اور اب تک اسے مسلسل لکھا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے اور اب یہ ایک تھیوری بنادی گئی ہے کہ پہاڑی، صحرائی اور دیہاتی مخلوق جِن تھی۔ یہاں صاف طور پر قرآن جِن اور انسان کو دو الگ مخلوق کہہ رہا ہے، اور یہ بھی کہہ رہا ہے کہ انسانوں نے جنوں کی پناہ مانگنا شروع کردی جس کی وجہ سے ان کا دماغ خراب ہوگیا اور وہ سمجھنے لگے کہ ہمارا بھی کوئی مقام ہے اور ہم کوئی بڑی ہستی ہیں۔ اب کوئی ان احمقوں سے پوچھے جو یہ باتیں کرتے ہیں کہ کب انسانوں نے دیہاتی اور کوہستانی لوگوں سے پناہ مانگی ہے اور کب ان کی عبادت کی ہے۔ کب انھیں خدائی میں شریک قرار دیا ہے۔ اس پوری سورت کو دیکھ لیجیے۔ جنوں کے متعلق قرآنِ مجید جو چیزیں بیان کر رہا ہے وہ کسی بھی طرح سے انسانوں پر چسپاں نہیں ہوتی ہیں بلکہ ایک ایسی مخلوق پر چسپاں ہوتی ہیں جو انسانوں سے بالکل الگ ہے اور جس کے متعلق انسانوں کے اندر عجیب عجیب تصورات اور عقائد پائے جاتے ہیں۔

وَّاَنَّھُمْ ظَنُّوْا کَمَا ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ یَّبْعَثَ اللّٰہُ اَحَدًاo  (۷۲:۷) اور یہ کہ ’’انسانوں نے بھی وہی گمان کیا جیسا تمھارا گمان تھا کہ اللہ کسی کو مرنے کے بعد دوبارہ نہ اُٹھائے گا‘‘۔

یہاں ’تم‘ کا خطاب کفارِ مکہ اور تمام انسانوں اور جنوں کی طرف ہے کہ تم نے جس طرح سے یہ خیال کیا کہ اللہ تعالیٰ کبھی مُردوں کو زندہ کرکے نہیں اُٹھائے گا، اسی طرح سے جِن بھی یہ سمجھتے تھے کہ مرنے کے بعد نہیں اُٹھنا ہے۔

اس سے پہلے بارہا میں نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ انسان کی گمراہی کی بنیادی وجوہ میں سے، بلکہ بہت بڑی وجوہ میں سے ایک وجہ یہ ہے۔ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ نہیں اُٹھنا ہے اور اپنے خدا کو کوئی جواب نہیں دینا ہے، تو وہ اور دنیادار ہوجاتا ہے اور اس کے نزدیک ہدایت اور ضلالت کے درمیان کوئی خاص فرق باقی نہیں رہتا۔ ہدایت اور ضلالت دونوں کا عقیدہ ہو کہ مرکر مٹی نہیں ہونا ہے تو کوئی نتیجہ نکلتا ہے۔ اس کے بغیر کوئی نتیجہ نکلنا ممکن نہیں ہے۔   اس لیے آدمی اس معاملے میں serious ہی نہیں رہتا کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے۔ چونکہ     وہ منکرین آخرت تھے اس لیے انکارِ آخرت نے انھیں بنیادی طور پر گمراہی میں ڈال دیا تھا۔ یہ اس بات سے بے پروا ہوگئے تھے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے۔ اس وجہ سے غیرذمہ دارانہ طریقے سے انھوں نے غیرذمہ دارانہ اور بے بنیاد عقیدے گھڑ لیے تھے۔ وہ جس طرح اپنے متعلق یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم یہ کچھ ہیں، اسی طرح وہ حقیقت کے متعلق بھی یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ وہ یہ کچھ ہے۔

وَّاَنَّھُمْ ظَنُّوْا کَمَا ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ یَّبْعَثَ اللّٰہُ اَحَدًاo  (۷۲:۷)، اس فقرے کے  دو معنی ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ’’اللہ کسی کو مرنے کے بعد دوبارہ نہ اُٹھائے گا‘‘۔ دوسرے یہ کہ ’’انسانوں نے بھی وہی گمان کیا جیسا تمھارا گمان تھا کہ اللہ کسی کو رسول بناکر نہ بھیجے گا‘‘۔ چونکہ الفاظ جامع ہیں اس لیے ان کا یہ مطلب لیا جاسکتا ہے کہ انسانوں کی طرح جنوں میں بھی رسالت اور آخرت دونوں کا انکار پایا جاتا تھا۔ آگے کے مضمون کی مناسبت سے بعد والا مضمون زیادہ قابلِ ترجیح ہے۔ اسی لیے آسمان پر سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔ اس کے بعد پھر جنوں کا کلام شروع ہوتا ہے۔ یہ چونکہ جملۂ معترضہ تھا اس لیے اس کی وضاحت کی گئی ہے۔

وَّاَنَّا لَمَسْنَا السَّمَآئَ فَوَجَدْنٰھَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِیْدًا وَّشُہُبًاo  (۷۲:۸) اور یہ کہ ’’ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو دیکھا کہ وہ پہرے داروں سے پٹاپڑا ہے اور شہابوں کی بارش ہورہی ہے‘‘۔

اب وہ یہ بتا رہے ہیں کہ جنوں میں یہ جستجو کیوں پیدا ہوئی تھی اور کیا واقعہ پیش آیا ہے جس کی وجہ سے ہم تلاش میں نکلے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم جب عالمِ بالا کی طرف گئے اور وہاں ہم نے سن گن لینے اور حالات معلوم کرنے کی کوشش کی تو ہم نے دیکھا کہ عالمِ بالا تمام طرف سے نگرانی میں ہے۔ بہت زبردست پہرے دار لگے ہوئے ہیں جو اس کی حفاظت کر رہے ہیں اور کسی کو بھی آگے نہیں جانے دے رہے کہ کوئی سن گن ہی لے لے، اور بے تحاشا شہاب ثاقب ہیں جن کی بارش ہورہی ہے تاکہ کوئی چیز اُوپر نہ جاسکے۔

وَّاَنَّا کُنَّا نَقْعُدُ مِنْھَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ ط فَمَنْ یَّسْتَمِعِ الْاٰنَ یَجِدْ لَہٗ شِھَابًا رَّصَدًاo  (۷۲:۹) اور یہ کہ ’’پہلے ہم سن گن لینے کے لیے آسمان میں بیٹھنے کی جگہ پالیتے تھے ، مگر اب جو چوری چھپے سننے کی کوشش کرتا ہے وہ اپنے لیے گھات میں ایک شہابِ ثاقب لگا ہوا پاتا ہے‘‘۔

ہم عالمِ بالا میں سن گن لینے کے لیے پہلے گھات لگایا کرتے تھے اور کہیں چھپ چھپا کر عالمِ بالا کی خبریں لایا کرتے تھے ، مگر اب حالت یہ ہے کہ جو کوئی بھی اس کی کوشش کرتا ہے تو ایک شہابِ ثاقب اس کی گھات میں لگا ہوتا ہے تاکہ اسے ماربھگائے۔

وَّاَنَّا لَا نَدْرِیْٓ اَشَرٌّ اُرِیْدَ بِمَنْ فِی الْاَرْضِ اَمْ اَرَادَ بِھِمْ رَبُّھُمْ رَشَدًاo (۷۲:۱۰)اور یہ کہ ’’ہماری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ آیا زمین والوں کے ساتھ کوئی بُرا معاملہ کرنے کا ارادہ کیاگیا ہے یا اُن کا رب انھیں راہِ راست دکھانا چاہتا ہے‘‘۔

یہ چیز تھی جس کی وجہ سے جِن تلاش میں نکلے تھے۔ وہ اس تحقیق میں نکلے تھے کہ کیا واقعہ پیش آیا ہے۔

یعنی وہ یہ بتا رہے ہیں کہ پہلے ہمارا قاعدہ یہ تھا کہ ہم عالم بالا میں جاتے تھے وہاں پر   سُن گن لینے کی کوشش کرتے تھے۔ پھر جب کوئی خبریں ہمارے ہاتھ لگتی تھیں تو ہم اپنے اولیا کو سنایا کرتے تھے اور پھر وہ ان سے اپنی فال گیری کا ڈھونگ رچاتے تھے، خبریں دیتے تھے اور سفلی اعمال کرنے والوں کو خبریں دیتے تھے۔ لیکن اب ہر طرف زبردست پہرے لگے ہوئے تھے اور کوئی کسی بھی قسم کی سُن گن لینے نہیں دے رہا تھا۔ اسی وجہ سے اب ہمیں پریشانی ہوئی کہ کیا واقعہ ہونے والا ہے؟ یہ زبردست تیاریاں آخر کس چیز کی ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ پہلے اس طرح کا کوئی موقع نہ تھا کہ ہمیں مار مار کر بھگا دیا جاتا بلکہ اب قریب بھی پھٹکنے نہیں دیا جا رہا ہے؟ ہمیں یہ فکر ہوئی کہ زمین پر کوئی بڑی آفت آنے والی ہے یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لیے کسی بھلائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس وجہ سے وہ یہ جاننے کے لیے نکلے کہ زمین میں کیا بڑا واقعہ پیش آنے والا ہے۔ جب وہ وہاں سے گزر رہے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآنِ مجید پڑھ رہے تھے اور قرآنِ مجید کو سن کر انھیں یہ معلوم ہوا کہ یہ کس قسم کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔

آگے چل کر بھی اس بات کی تائید کی گئی ہے اور اس مقام پر بھی اللہ تعالیٰ نے یہ بات لوگوں کو سمجھائی ہے کہ اس قرآن کے متعلق تم یہ گمان کرتے ہو کہ شیاطین اس کو القا کرتے ہیں اور شیاطین کا اس میں دخل ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ شیاطین کو اس کے قریب پھٹکنے تک کی اجازت نہیں ہے۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے نبی ؑ تک اپنا کلام بھیجنے کا آغاز کرتا ہے تو اتنے سخت انتظامات کیے جاتے ہیں کہ وہ اس کے قریب تک نہیں پھٹک سکتے۔ انھیں مار مار کر بھگا دیا جاتا ہے تاکہ ان کے  کان میں بھی یہ آواز نہ پڑنے پائے کہ رسولؐ کی طرف کیا خبر بھیجی جارہی ہے۔ اگر وہ اس کو ذرہ برابر بھی سن لیں تو پہلے سے جاکر لوگوں کو خبردار کردیں کہ اب یہ آیت اُترنے والی ہے، اب یہ خبر تمھیں سنائی جانے والی ہے۔ اس طرح کی شرارت وہ تب کرتے جب اس کے لیے اتنے زبردست انتظامات نہ کیے جاتے۔

اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی نبی ؑ کو مقرر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اور نبی ؑ کے درمیان پیغام پہنچانے کے لیے اتنے زبردست انتظامات کیے جاتے ہیں کہ کسی قسم کی کہیں کوئی  خلل اندازی نہیں ہوسکتی۔

اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنا کلام بھیجا ہے تاکہ یہ اپنی صحیح جگہ پر جائے۔ نہ کسی کو یہ پتا چلنے پائے کہ نبی کو کیا خبر آنے والی ہے، نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ کون وحی لارہا ہے، اور نہ کوئی اس میں کسی قسم کی دراندازی کرسکے اور کوئی لفظ بڑھا سکے یا گھٹا سکے یا کسی مضمون کا اضافہ یا کمی کرسکے۔    اس طرح اللہ تعالیٰ نہایت محفوظ طریقے سے نبی تک اپنا کلام پہنچاتا ہے۔

وَّاَنَّا مِنَّا الصّٰلِحُوْنَ وَمِنَّا دُوْنَ ذٰلِکَ ط کُنَّا طَرَآئِقَ قِدَدًاo   (۷۲:۱۱) اور یہ کہ ’’ہم میں سے کچھ لوگ صالح ہیں اور کچھ اس سے فروتر ہیں، ہم مختلف طریقوں میں بٹے ہوئے ہیں‘‘۔

یہاں جنوں کی زبان سے یہ حقیقت لوگوں کو بتائی جارہی ہے کہ سارے کے سارے جِن باکمال ، اولیا یا نیک ہستیاں نہیں ہیں، بلکہ جن بھی اسی طرح سے مخلوق ہیں جیساکہ انسان ہیں۔ ان میں بھلے بھی ہیں اور بُرے بھی، نیک بھی ہیں اور بد بھی،ایمان دار بھی ہیں اور بے ایمان بھی۔ ہرطرح کی مخلوق ہے۔ جِن یہ خود بتا رہے ہیں کہ ہم میں سے کچھ صالح تھے اور کچھ بُرے تھے۔ اس طرح سے ہم مختلف طریقوں میں بٹے ہوئے تھے۔

وَّاَنَّا ظَنَنَّآ اَنْ لَّنْ نُعْجِزَ اللّٰہَ فِی الْاَرْضِ وَلَنْ نُّعْجِزَہٗ ہَرَبًاo  (۷۲:۱۲) اور یہ کہ ’’ہم سمجھتے تھے کہ نہ زمین میں ہم اللہ کو عاجز کرسکتے ہیں اور نہ بھاگ کر اسے ہرا سکتے ہیں‘‘۔

مطلب یہ ہے کہ ہمارے اسی خیال نے ہمیں نجات کی راہ دکھا دی۔ ہم چونکہ اللہ سے  بے خوف نہ تھے اور ہمیں یقین تھا کہ اگر ہم نے اس کی نافرمانی کی تو اس کی گرفت سے کسی طرح بچ نہ سکیں گے، اس لیے جب وہ کلام ہم نے سنا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے راہِ راست بتانے آیا تھا تو ہم یہ جرأت نہ کرسکے کہ حق معلوم ہوجانے کے بعد بھی انھی عقائد پر جمے رہتے جو ہمارے نادان لوگوں نے ہم میں پھیلا رکھے تھے۔

(ریکارڈنگ: حفیظ الرحمٰن احسن، تدوین: ارشاد  الرحمٰن ، امجد عباسی)

انسانی زندگی، عناصر کے اعتدال کا نام ہے۔ خود نظامِ عالم اسی اعتدال پر قائم ہے،  جس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت تمام تکوینی امور میں توازن و اعتدال سے مکمل کار فرما نظر آتی ہے۔ قرآن حکیم نے اپنے خاص اسلوب میں مثالیں دے کر اور انداز بدل بدل کر اس جانب بار بار متوجہ  کیا ہے۔ ایک مقام پر تو بہت واضح الفاظ میں فرمایا:

تم رحمٰن کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطی نہ پائو گے۔ پھر پلٹ کر دیکھو، کہیں تمھیں کوئی خلل نظر آتا ہے؟ بار بار نگاہ دوڑائو۔ تمھاری نگاہ تھک کر نامراد پلٹ آئے گی۔(الملک ۶۷:۳-۴)

اسلام یہی حکم عملی زندگی کی تمام تشریعی ہدایات میں بھی عطا فرماتا ہے۔ اسلام اعتدال اور میانہ روی کو زندگی کا حسن قرار دیتا ہے، تاکہ انسانی اعمال اسی اعتدال سے مزین ہو کر معاشرے کی تعمیر اور آخرت کی کام یابی کے موجب بنیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حسنِ اعتدال کی وضاحت اپنے احوال اور اپنے افعال سے فرمائی ہے۔

مشہور واقعہ ہے کہ تین حضرات ازواجِ مطہراتؓ کے پاس آئے اور آپؐ کے معمولاتِ عبادت کے بارے میں معلوم کیا۔ جب اس کی تفصیلات ان کے سامنے رکھی گئیں تو انھوں نے اسے کم جانا اور کہا کہ کہاں ہم اور کہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم۔ اللہ تعالیٰ نے تو آپؐ کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کردیے ہیں۔ پھر ان میں سے ایک نے کہا: ’’میں تو رات بھر نماز میں مصروف رہا کروں گا‘‘۔ دوسرے نے کہا: ’’میں تمام عمر روزے سے رہوں گا، اور کبھی روزہ ترک نہیں کروں گا‘‘، اور تیسرا شخص بولا:’’ میں کبھی شادی نہیں کروں گا‘‘۔ یہ سب آپؐ کے علم میں آیا توآپؐ  نے ان تینوں صحابہؓ کے بارے میں فرمایا:

لوگوں کو کیا ہوگیا کہ ایسی باتیں کر رہے ہیں۔ میں تو نماز بھی پڑھتا ہوں، سوتا بھی ہوں، روزہ بھی رکھتا ہوں، روزے کا ناغہ بھی کرتا ہوں اور شادی بھی کرتا ہوں۔ جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں۔( مسلم، ج۲، ص ۳۲۸، رقم: ۱۴۰۱)

اس واقعے میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے طریقے اور سنت کی وضاحت بھی فرمائی ہے، اور راہِ اعتدال کی عملی تشریح بھی، اور اس کے ساتھ ساتھ اس سلسلے میں جادئہ اعتدال سے ہٹنے والوں کو تنبیہ بھی فرمائی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس بارے میں اس قدر سختی فرمائی ہے: ’’اپنے افعال اور اقوال میں حد سے تجاوز کرنے والے ہلاک ہوگئے‘‘۔( مسلم، ج۴، رقم:۲۶۷۰)

انسانی زندگی دو حوالوں سے عبارت ہے: ایک اس کا جسمانی وجود، اور دوسری اس کی روحانی قوت۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کی راہ نمائی ان دونوں حوالوں سے فرمائی ہے، اور حیات انسانی کے ان دونوں شعبوں میں ایسی تعلیمات عطا فرمائی ہیں، جن پر عمل پیرا ہو کر انسان اپنی روحانی تربیت بھی کرسکتا ہے، اور جسمانی و بدنی تنظیم بھی۔ اس تربیت کے لیے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے ایسے آداب تلقین فرمائے گئے ہیں، جو اٹھنے بیٹھنے، سونے جاگنے، کمانے کھانے اور رہن سہن کے ہر پہلو سے متعلق مکمل احاطہ فرماتے ہیں۔ ان تعلیمات کا خلاصہ یہی ہے کہ   جب انسان مزاج کے اعتبار سے اعتدال پر قائم ہو جاتا ہے، پھر نہ تو وہ رہبانیت کی طرف جھکائو رکھتا ہے اور نہ خالص مادیت اس کی انسانی تگ و دو کا حاصل اور مقصد حیات ٹھیرتی ہے۔ اسی لیے قرآن حکیم روزِ محشر کفار کی پشیمانی کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچتا ہے :

کافر بار بار تمنا کریں گے کہ کاش وہ بھی مسلمان ہوتے۔ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیجیے کہ وہ (خوب) کھالیں اور فائدہ اٹھالیں اور خیالی منصوبے ان کو غفلت میں ڈالے رکھیں۔ بہت جلد ان کو (حقیقت) معلوم ہو جائے گی۔(الحجر۱۵: ۲، ۳)

 اسلام کی تعلیمات تو اس قدر واضح ہیں کہ اس مسئلے پر دنیا کا کوئی نظام اور مذہب ایسی دوٹوک ہدایات اپنے دامن میں نہیں رکھتا۔ قرآن کریم میں ہے:

اور جو کچھ اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر حاصل کر اور دنیا سے اپنا حصہ فراموش نہ کر، اور احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے، اور ملک میں فساد کا خواہاں نہ بن۔ یقینا اللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا۔ ( القصص۲۸: ۷۷)

زندہ رہنے کے لیے کھانے کا اصول

قرآن حکیم میں ایک مقام پر فرماتا ہے:

اور جو کافر ہیں وہ ( دنیا میں کچھ ) فائدہ اٹھارہے ہیں اور وہ اس طرح کھاتے ہیں جس طرح چوپائے کھاتے ہیں اور جہنم ہی ان کا ٹھکانا ہے۔( محمد۴۷: ۱۲)

اسلام نے کھانے پینے میں خاص طور پر احتیاط کی تعلیم دی ہے اور ’خوردن براے زیستن‘ (زندہ رہنے کے لیے کھانا) کا اصول عطا فرمایا ہے۔ کھانا پینا انسانی ضرورت ہے، لیکن ضرورت کو مقصد کا درجہ نہیں دیا جاسکتا، اور اگر یہ غلطی کر لی جائے تو پھر انسان کا حیوانیت کے درجے سے بلند ہونا ممکن نہیں رہتا: ’’اور ہم تمھیںضرور آزمائیں گے، کچھ خوف اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے اور آپؐ  صبر کرنے والوں کو خوش خبری سنا دیجیے‘‘۔ (البقرہ۲: ۱۵۵)

اس بنا پر رزق میں کمی، کاروباری نقصان، ملازمت میں ترقی کا نہ ہونا، بیماریاں، اپنے پیاروں کا اُٹھ جانا سب کچھ اللہ ہی کی جانب سے ہے، اور محض آزمایش ہے۔ یہ نہ سزا ہے، نہ پکڑ ہے، نہ ہمارے اچھے ہونے کی علامت ہے، نہ برے ہونے کی۔ ہمارے اچھے یا بُرے ہونے کا فیصلہ تو اس آزمایش کے بعد ہوگا۔ یہ تو دنیا میں آنے والے ہر شخص کے لیے مقدر کردیا گیا ہے۔  اس لیے انعام کے وقت شکر اور کسی مشکل کے وقت صبر ہی انسان کو کام یاب بناتا ہے، اور اُخروی زندگی میں سرخ رو کرتا ہے۔ (سیّد عزیز الرحمٰن: قرآن کیا کہتا ہے؟ کراچی، زوار اکیڈمی، ۲۰۱۳ء، ص ۳۲)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لیے کھانے پینے میں احتیاط کی بھی تعلیم دی ہے اور ’زیستن براے خوردن‘ کے رویے کی بھی ممانعت فرمائی ہے۔ ایک روایت میں آپؐ نے فرمایا:’’جو لوگ دنیا میں سب سے زیادہ شکم سیرہیں، روزِ آخرت وہی سب سے زیادہ بھوکے ہوں گے‘‘۔ (بزار)

اس طرح اب یہ بات پوری طرح پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ کثرتِ طعام انسان کے لذت کام و دہن کا بہانہ تو ہے، عملی طور پر چوں کہ یہ غیر فطری ہے، اسی لیے انسانی صحت کے لیے سخت مضر ہے۔ اسی تناظر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان دیکھیے:

 انسان کو تو اتنا کھانا کافی ہے، جو اس کی پشت کو سیدھا رکھ سکے۔ اور اگر وہ اس سے زیادہ کھانا ہی چاہتا ہے تو پیٹ کا ایک حصہ کھانے کے لیے، ایک حصہ پینے کے لیے اور ایک حصہ سانس لینے کے لیے (خالی) رکھے۔(ابن ماجہ، ج۴، رقم: ۳۳۴۹)

گویا یہ ایسا برتن ہے، جس کا بھرنا اچھی علامت نہیں۔ اس بات کی وضاحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور واقعے میں تمثیلی انداز میں بھی فرمائی ہے۔ روایت میں آتا ہے کہ ایک کافر ایک بار رسول اکرمؐ کا مہمان ہوا تو آپؐ نے ایک بکری دوہنے کا حکم دیا۔ دودھ نکالا گیا تو مہمان اسے پی گیا۔ پھر دوسری بکری لائی گئی اور اس کا بھی دودھ کافر مہمان پی گیا، پھر بھی اسے شکم سیری نہ ہوئی۔ یہاں تک کہ سات بکریوں کا دودھ اکیلے اس کی خوراک بن گیا۔ صبح کو وہ مسلمان ہوگیا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دودھ دوہنے کا حکم دیا، چناںچہ ایک بکری کا دودھ تو وہ شخص پی گیا لیکن دوسری بکری کا دودھ ختم نہ کرسکا۔ اس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مومن ایک معدے میں نوش کرتا ہے، جب کہ کافر سات معدوں میں پیتا ہے۔ (مسلم، ج۳، رقم: ۲۰۶۱)

اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابرؓ کی ایک اور روایت میں فرمایا:

 اے لوگو! اللہ سے ڈرو اور طلبِ (رزق) میں اعتدال سے کام لو۔ کوئی شخص اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک وہ اپنا رزق پورا پورا وصول نہ کرلے، اور اگر کبھی رزق کے حصول میں دیر ہو جائے تو بھی اللہ سے ڈرو۔ کوشش میں اعتدال سے کام لو، جو رزق حلال ہو اسے لے لو اور جو حرام ہو اسے چھوڑ دو۔ (ابن ماجہ، ج۳، رقم:۲۱۴۴)

یعنی طلب رزقِ حلال عبادت ہے، مگر ضرورت کی حد تک۔ اگر اسے مقصد حیات بنا لیا جائے، اور زندہ رہنے کا واحد جواز کمانے اور ہر طرح کمانے میں تلاش کیا جائے تو یہ عمل انسان کو جادئہ اعتدال سے ہٹانے کا باعث بن سکتا ہے۔

اس لیے اسلام دونوں جانب سے اعتدال کی تلقین کرتا ہے، ایک طرف تو وہ کہتا ہے:

رزق حلال میں لگنا اور اس کی تگ و دو کرنا یہ (نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج جیسے) فرائض کے بعد ایک فریضہ ہے۔( طبرانی، ج۱۰، ص ۷۴)

اگر یہ فرض ادا نہیں ہوگا تو اتنا ہی گناہ ہوگا، جتنا نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ چھوڑنے کا گناہ ہوگا۔ کیوں؟ اس لیے کہ انسان کی ضرورتیں انسان کی پیدایش کے فوراً بعد ہی اس کے ساتھ منسلک کردی گئی ہیں کہ ان کو بہ ہر صورت پورا کرنا ہے۔ اگر آپ ان ضرورتوں کی تکمیل حلال طریقے سے نہیں کریں گے تو حرام طریقے سے کریں گے، لیکن حرام طریقے سے کرنے سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے، تو یقینا پھر ہمیں حلال طریقے کی طرف جانا چاہیے۔ جب حلال طریقے کی طرف جانا ہمارے لیے لازمی ہے تو یقینا یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی پابندی کی جائے گی تو اس میں ہمیں ان شاء اللہ ثواب ملے گا (قرآن کیا کہتا ہے؟، ص ۲۴- ۲۵)۔ دوسری جانب اسلام کمانے میں اعتدال کی تلقین فرماتا ہے، جس کی مثالیں پیش کی جاچکی ہیں۔

اس کائنات میں ایسے نظریات اور خیالات بھی موجود ہیں، جو فطرت کے خلاف عمل ہی کو کام یابی کا ذریعہ تصور کرتے ہیں۔یہ جسم کے مطالبات کو کچل کر راحت تلاش کرتے ہیں اور روح کو جسم کے مقابل رکھ کر سوچتے ہیں۔ یہی وہ رخنہ ہے، جس سے ’رہبانیت‘ انسانی زندگی میں داخل ہوتی ہے۔ اسلام سے اس تصور کا دور کا بھی علاقہ نہیں۔

’رہبانیت‘ انسانی فطرت سے بے اعتنائی اور اس سے جنگ کا نام ہے۔ جو صلاحیت     اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدایش کا حصہ بنادی ہے، اس سے لڑنا کیسے مفید ہوسکتا ہے؟ اسی لیے اسلام انسانی فطرت سے لڑنے کے بجاے اس کا حق ادا کرنے اور اس راستے میں اعتدال سے کام لینے کی تلقین کرتا ہے۔ اسی لیے قرآن کہتا ہے کہ رہبانیت عیسائیت کی اپنی اختیار کردہ راہ ہے، فرمایا:

اور رہبانیت انھوں نے خود ایجاد کی تھی، ہم نے ان پر واجب نہیں کی تھی، لیکن انھوں نے رضاے الٰہی کے لیے اس کو اختیار کیا تھا۔ سو، انھوں نے اس کی پوری رعایت نہ کی۔ پھر بھی ہم نے ان میں سے ایمان داروں کو اُن کا اجر دیا اور اُن میں سے اکثر نافرمان ہیں۔(الحدید۵۷: ۲۷)

’رہبانیت‘ نے برائیوں کے سوا معاشرے کو کچھ نہیں دیا۔ دونوں مقام پر نامکمل انسان انسانی فطرت سے جنگ کرتے اور معاشرے کو برائیوں میں مبتلا کرتے نظر آتے ہیں۔ (ایضاً،ص ۲۶)

اسراف و تبذیر

کمانے کے بعد خرچ کرنے کا مرحلہ آتا ہے۔ ہر مذہب، مسلک اور نظام میں کمانے کے کچھ نہ کچھ آداب مقرر ہیں۔ اپنے آپ کو آسمانی ہدایت سے یک سر آزاد قرار دینے والے معاشرے بھی اس سلسلے میں ایک ریاستی نظام پر یقین ضرور رکھتے ہیں، اور اسی کے دائرے میں رہتے ہوئے دولت کمانے اور مادیت کی تگ و دو میں مصروفِ عمل رہتے ہیں۔ تاہم، کمانے کے بعد خرچ کیسے کیا جائے؟ اس بارے میں اسلام کے علاوہ تمام مذاہب اور تمام نظام ہاے حیات خاموش ہیں۔

اسلام نے اس حوالے سے مکمل وضاحت کے ساتھ ایک نظام قائم کیا ہے، جس کی بنیاد ان دو اصطلاحات پر ہے: اسراف اور تبذیر۔

  • اسراف: ’اسراف‘ کی تعریف راغب اصفہانی اس طرح کرتے ہیں:

السَّرْفُ تَجَاوُزُ الْحَدِّ فِیْ کُلِّ فِعْلٍ یَفْعَلُہٗ الْاِنْسَانُ (المفردات، ص۲۳) لغت میں ہر انسانی فعل میں حد سے تجاوز کرنے کو اسراف کہتے ہیں۔

اور سفیان بن عیینہ اسراف کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:

 اللہ کی اطاعت کے کاموں کے علاوہ جو کچھ بھی تم خرچ کروگے وہ اسراف ہے، خواہ وہ تھوڑاہی کیوں نہ ہو۔ (موسوعۃ نضرۃ النعیم، ص۳۸۸۴)

اسی طرح مناوی سے اسراف کی اصطلاحی تعریف اس طرح منقول ہے: الْاِسْرَافُ ھُوَالْاِبْعَادُ فِیْ مُجَاوَزَۃِ الْحَدّ ( نضرۃ النعیم، ص ۳۸۸۵) ’’اسراف حد سے تجاوز کرنے کو کہتے ہیں‘‘۔

جرجانی نے اسراف کی یہ تعریف کی ہے: ھُوَ اَنْ یَاْکُلَ الرَّجُلُ مَالَایَحِلُّ لَہٗ اَوْ یَاْکُلُ مِمَّا یَحِلُّ لَہٗ فَوْقَ الْاِعْتِدَالِ وَمِقْدَارِ الْحَاجَۃِ ( ایضاً) ’’اسراف یہ ہے کہ انسان وہ کچھ کھائے جو اس کے لیے حلال نہیں، یا حلال تو ہے مگر وہ اعتدال اور ضرورت سے زیادہ کھائے‘‘۔

  • تبذیر: اس سلسلے کی دوسری اصطلاح ’تبذیر‘ ہے۔ ’تبذیر‘ لغت میں کسی چیز کو پھینکنے   اور منتشر کرنے کو کہتے ہیں۔ (نضرۃ النعیم، ص۴۱۱۳)

’تبذیر‘ کی اصطلاحی تعریف امام شافعی سے اس طرح منقول ہے: التَّبْذِیْرُ اِنْفَاقُ الْمَالِ فِیْ غَیْرِ حَقِّہٖ، وَلَا تَبْذِیْرَ فِیْ عَمَلِ الْخَیْرِ (تفسیر قرطبی، ج۱، ص۲۴۷) تبذیر ناجائز کام میں خرچ کرنے کو کہتے ہیں۔ نیک کام میں تبذیر نہیں ہوتی۔

 قرطبی کہتے ہیں: ھُوَ النَّفْقَۃُ فِیْ غَیْرِ وُجُوْہِ الْبِّرِ الَّتِیْ یَتَقَرَّبُ بِھَا اِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی (نضرۃ النعیم، ص۴۱۱۴) ’’تبذیر سے مراد نیک کاموں کے سواکسی ایسے کام میں خرچ کرنا ہے جس سے مقصد اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا نہ ہو‘‘۔

مجاہد کہتے ہیں کہ اگر انسان اپنا سارا مال حق کے راستے میں خرچ کردے تو یہ تبذیر نہیں اور اگر وہ گناہ کے کام میں ایک مد، یعنی ایک سیر غلہ بھی خرچ کرے تو یہ تبذیر ہے۔ (صفوۃ التفاسیر، ج۲، ص ۱۳۹)

قتادہ کہتے ہیں کہ تبذیر اللہ کی نافرمانی اور ناحق اور فساد کے لیے خرچ کرنے کا نام ہے۔(ایضاً)

اسراف و تبذیر میں باہمی فرق واضح کرتے ہوئے کفوی کہتے ہیں:

اسراف تو کسی جائز کام میںضرورت سے زیادہ خرچ کرنے کو کہتے ہیں اور تبذیر ناجائز کام میں خرچ کرنے کو کہتے ہیں۔ (نضرۃ النعیم،ص۴۱۱۴)

اسراف کی وضاحت کے حوالے سے ایک نہایت اہم روایت ذخیرئہ حدیث میں ہمیں اور ملتی ہے۔ عمرو بن شعیب اپنے باپ اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا:’’ میںمحتاج ہوں، میرے پاس کچھ نہیں ہے او رمیں ایک یتیم کا سرپرست ہوں‘‘۔ آپ نے فرمایا:

کُلْ مِنْ مَالِ یَتِیْمِکَ غَیْرَ مُسْرِفٍ وَلَا مُبَاذِرٍ وَلَامُتَأَثِلٍّ (ابوداؤد، ج۳، ص۳۶، رقم: ۲۸۷۲) اپنے یتیم کے مال میں سے کھا، اسراف اور فضول خرچی اور اس کے مال سے پونجی بنائے بغیر۔

یہاں سبق آموز بات یہ ہے کہ یتیم کی کفالت جہاں اسلام میں ایک نہایت اہم فریضہ اور باعث اجر کام ہے، وہیں اس سلسلے میں بھی فضول خرچی، یعنی اسراف سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ گویا اعتدال اور توازن کا دامن ہر صورت میں تھامنا ضروری ہے۔

سادگی اور معاشرتی وحدت

آپؐ کی ذات بابرکات نے اس سلسلے میں بھی اپنی امت کے لیے بہترین نمونۂ عمل چھوڑا ہے۔ آپؐ نے ہمیشہ سادہ زندگی بسر کی اور فقر وفاقے کی حالت میں نہایت صبر وشکر سے اپنے فرائض منصبی ادا کیے، باوجود اس کے کہ آپؐ کو تمام سہولتیں میسر آسکتی تھیں۔ یوں آپؐ کا فقر اختیاری تھا۔ ابن عباسؓ کہتے ہیں:

کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ یَــبِیْتُ اللَّیَالِیْ الْمُتَتَابِعَۃِ طَاوِیًا وَاَھْلُہٗ لَا یَجِدُوْنَ عَشَاءً وَکَانَ اَکْـثَرُ خُبْزِھِمْ خُبْزَالشَّعِیْرِ (ترمذی، ج۴، رقم: ۲۳۶۷) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپؐ کے گھر والے کئی کئی رات خالی پیٹ سوتے تھے، گھر میں رات کو کھانے کے لیے کچھ نہیں ہوتا تھا۔ اور ان لوگوں کی خوراک اکثر جو کی روٹی ہوتی تھی۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے قیام کے دوران وفات تک کبھی دو وقت سیر ہوکر روٹی نہیں کھائی۔ (الشفا،ج۱،ص۸۲)

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جوڑا کبھی تہہ کرکے نہیں رکھا گیا، کیوںکہ آپؐ کا دوسرا جوڑا ہوتا ہی نہ تھا جو تہہ کرکے رکھا جاتا۔ (ایضاً)

آپؐ نے معاشرتی اُونچ نیچ ختم کرنے پر بھی زور دیا ہے، اور مساوات واعتدال کا درس دیا ہے۔ جاہ ومال کی غیر ضروری نمایش کاواحد مقصد اپنی برتری کااظہار ہوتاہے۔ اس قسم کی منفی سوچ معاشرے کی وحدت اور اجتماعیت کو ختم کرکے اتحاد واتفاق پرمبنی معاشرے کی تباہی کا سبب بن جاتی ہے۔ اس لیے آپؐ نے آرایش پرتو پابندی عائد نہیں کی، لیکن نمایش کو قطعاً ممنوع قرار دیا ہے تاکہ معاشرتی وقار نمایش پسندوں کا شکار نہ ہوسکے۔ چناںچہ عبادت وریاضت، کھانے پینے، سونے جاگنے، اٹھنے بیٹھنے، ملنے جلنے اور رہنے سہنے سے لے کر لباس ومکان تک ہر مقام پرـ  آپ ؐکے ارشادات اعتدال کا درس دیتے نظر آتے ہیں۔ اگرہرمعاملے میں اعتدال ومیانہ روی کو اختیار کرلیا جائے تو معاشرتی وحدت اور مساوات خود بہ خود قائم ہوسکتی ہے ۔

انسا ن نمایش کی ابتدا عموماً اپنے لباس سے کرتاہے۔ آپؐ نے اس بارے میں اعتدال پر مبنی ہدایات فرمائیں ۔ آپؐ نے جہاں ایک طرف غربا وفقرا کو ان کے لباس سے قطعِ نظر ان کے باطنی حالات کے پیش نظر قبولیت کی سند عطا فرمائی، وہیں مال دار افراد کو بھی حیثیت کے مطابق زندگی بسر کرنے کاحکم دیا، تاکہ افراط وتفریط کے مابین توازن قائم ہو سکے اور اعتدال کاقیام عمل میں آسکے۔ چناںچہ آپؐ نے فرمایا:’’کتنے ہی پراگندا حال چیتھڑوں میں ملبوس انسان ایسے ہوتے ہیں کہ اگر وہ اﷲ کی قسم کھالیں تو اﷲتعالیٰ اس کو پورا کرتے ہیں‘‘۔ (ترمذی، ج ۵ ، رقم: ۳۸۸۰)

آپؐ نے خود کس حالت میں زندگی بسر کی ؟ حضرت عائشہ رضی اﷲعنہا کی گواہی    ملاحظہ ہو۔ حضرت ابو دردا اور حضرت ابوہریرہ رضی اﷲعنہما سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ رضی اﷲعنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو انھوں نے پیوند لگی ہوئی چادر اور ایک یمن کی بنی ہوئی لنگی پیش کی، اورخدا کی قسم کھا کر کہا کہ اﷲ کے رسولؐ نے انھی دوکپڑوں میں اپنی جان، جانِ آفریں کے سپرد کی تھی۔ (بخاری، ج۴، ص ۲۱ ۔ابن ماجہ، ج۴، ص ۴۸۷، رقم: ۳۵۵۰)

دوسری جانب آپؐ نے مال دار افراد کو تلقین کی :’’اگر کوئی شخص خوش حال ہے تو کیا حرج ہے کہ اگر وہ کام کاج کے دو کپڑوں کے علاوہ جمعہ کے دن کے لیے بھی دو کپڑے رکھے‘‘۔ (ابوداؤد، ج۴، رقم: ۱۰۷۸)

اسی طرح ایک شخص کو میلے کچلے لباس میں دیکھا تو فرمایا کہ اس سے اتنا نہیں ہوتاکہ کپڑے دھولیا کرے۔ (ابوداؤد، ج۴، رقم :۴۰۶۲ )

ایک شخص آپؐ کی خدمت میں حاضرہوا۔ اس کے بدن پرپھٹا پرانا لباس تھا۔ آپؐ نے اس سے پوچھا کہ کیا تمھارے پاس مال ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپؐ نے فرمایا : کس قسم کا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ اﷲنے مجھے ہر قسم کے مال سے نواز رکھا ہے۔ آپؐ  نے فرمایا :’’جب اﷲ نے تجھے مال دے رکھا ہے تو اﷲ کی نعمت اور سخاوت کااثر بھی ظاہر کر‘‘۔ (ابوداؤد، ج۴، رقم: ۴۰۶۳)

تاہم، اسلام نے خوش پوشاکی کی حد سے گزر کر اسراف کی حدود میں داخل ہوجانے والی آرایش کی سختی سے ممانعت کی ہے جو دراصل نمایش اور دکھلاوے کی خاطر کی جاتی ہے، کیوںکہ یہ   راہِ اعتدال سے ہٹ کر ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے:’’جس نے دنیا میں شہرت کا لباس زیب تن کیا اﷲتعالیٰ اسے قیامت کے دن ذلت کا لباس پہنائے گااور اس میں آگ بھڑکائے گا‘‘۔ (ابن ماجہ، رقم: ۳۶۰۷)

زیورات خواتین کی فطری خواہش ہے ۔ آپؐ نے اس فطری تقاضے پرپابندی عائد نہیں کی، البتہ افراط سے وہاں بھی منع فرمایا۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی بہن سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ اے عورتو! کیا زیور بنانے کے لیے تمھارے لیے چاندی کافی نہیں ہے؟ خبر دار ! جو عورت بھی سونے کا زیور بنائے گی اور اس کے ذریعے زینت کا اظہار کرے گی اسے اسی زیور سے عذاب دیا جائے گا‘‘۔(ابوداؤد، ج۴، رقم: ۴۲۳۷)

یہ وعید ان عورتوں کے لیے ہے جو زیورات کی دیوانی ہوتی ہیں اور جور نگ و نُور کے سیلاب میں کھو کر فرائض اورحقوق سے غافل ہوجاتی ہیں ۔

مال دار حضرات کاسب سے زیادہ زور تعمیرات میں صرف ہوتا ہے، اور اس موقعے پرعموماً حد اعتدال کوبرقرار نہیں ر کھا جاتا۔ اس کا ایک مقصد نمایش کے علاوہ عیش کو شی اور آرام طلبی ہوتا ہے۔ آپ صلی اﷲعلیہ وسلم نے اس پہلو کو بھی تشنہ نہیں چھوڑا۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو  یمن کی جانب گو رنر بناکر روانہ فرمایا تو یہ نصیحت بھی کی :’’عیش کوشی سے دور رہنا، کیونکہ اللہ کے بندے آرام طلب نہیں ہوتے‘‘۔ (احمد، ج۵، ص ۲۴۴)

یہی وجہ تھی کہ آپؐ نے سونے اورچاندی کے برتنوں میں کھانا پینا حرام فرمادیا اور مردوں کے لیے حریر وریشم کے استعمال کو ممنوع قرار دیا۔

اس پوری بحث کو ایک حدیث میں یوں مختصراً بیان کیا گیا ہے ۔آپؐ نے فرمایا:’’ میری امت میں ایسے لوگ آئیں گے جو رنگ برنگ کے کھانے کھائیں گے، انواع واقسام کے مشروبات استعمال کریں گے، اورطرح طرح کے لباس زیب تن کریں گے، اور منہ پھاڑ پھاڑ کر باتیں بنائیں گے۔ یہی لوگ میری امت کے بدترین افراد ہوں گے‘‘۔ (المعجم الکبیر، ج۱، ص ۱۰۷ )

خود آپؐ نے عملی طور پر اسلامی حکومت کے قیام کے بعد مساوات کا وہ عظیم الشان نمونہ پیش فرمایا کہ تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے آج بھی قاصر ہے۔ آپؐ  کے اور صحابہ کرامؓ کے مابین لباس کے اعتبار سے بھی کوئی فرق نہ تھا۔ اسی طرح آپؐ کی نشست بھی ایسی عام اور کسی امتیاز کے بغیر ہوتی تھی کہ باہر سے آنے والے شخص کو آپؐ کے بارے میں پوچھنا پڑتاتھا۔ صحابہ کرامؓ نے آپؐ کے بیٹھنے کے لیے ایک چبوترا بنانا چاہا تو آپؐ  نے اس کو بھی پسند نہ فرمایا۔ (سیّدعزیز الرحمٰن، ’تعلیمات نبویؐ اور آج کے زندہ مسائل‘، القلم، فرحان ٹیرس، کراچی، مئی ۲۰۰۵ء)

دین میں بـے اعتدالی

اعتدال اور توازن کا حکم صرف کھانے پینے، کمانے اور معاشرتی امور تک محدد نہیں ہے۔ یہ حکم انسانی زندگی کے ہر ہر پہلو سے تعلق رکھتا ہے۔ چناںچہ دین کے معاملے میں بھی غلو سے بچنے کا حکم بہ راہ راست قرآن کریم میں دیا گیا، اور یہاں غلو سے مراد بھی حد سے بڑھنا ہے۔ دین کے معاملے میں غلو اور حدود سے تجاوز کرنا سخت ناپسندیدہ ہے۔ قرآنِ کریم میں فرمایا گیا: لَاتَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ (النساء۴:۱۷۱)’’تم اپنے دین کے معاملے میں غلو نہ کرو‘‘۔

اس غلو کا نتیجہ بھی شدت پسندی کی صورت میں نکلتا ہے، اور جو لوگ غلو سے دوچار ہوجاتے ہیں وہ پھر اعتدال سے دُور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس لیے اس سے بھی منع فرمایا: ’’تم دین میں غلو سے بچو، کیوںکہ، پچھلی امتیں دین میں غلو کی وجہ سے ہلاک ہوگئیں‘‘۔ (ابوداؤد، ج۴،رقم: ۴۹۰۴)

اسی طرح شدت پسندی بھی عدم توازن کی علامت ہے۔ اعتدال اور توازن پر کار بند شخص کسی حوالے سے شدت پسند نہیں ہوسکتا۔ قرآن و سنت کی پوری تعلیمات اور اسوئہ حسنہ کا پیغام   اسی کے گرد گھومتا ہے۔ اسی بنا پر اسلام نے دین کے معاملے میں بھی اس سے بچنے کی تاکید کی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

تم اپنے آپ پر سختی نہ کرو ورنہ تمھارے اُوپر سختی کی جائے گی، کیوںکہ ایک قوم نے اپنے آپ پر سختی کی، پھر اللہ نے بھی ان پر سختی کی۔ ان ہی لوگوں کے باقیات ہیں جو گرجوں اور خانقاہوں میں نظر آتی ہیں۔ (ابوداؤد، ج۴، رقم: ۴۹۰۴)

یہ حقیقت ہے کہ حُسنِ اعتدال اور توازن ہی حیات انسانی کا حسن ہے، اور اسی کے ذریعے ہماری دنیاوی زندگی کامیابی سے بسر ہوسکتی ہے، جس پر ہماری اخروی دائمی زندگی کا مدار اور انحصار ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے، اور اس پر عمل کی توفیق ارزانی فرمائے۔ آمین!

’معاشرہ‘ افراد کے مجموعے کا نام ہے۔ فرد کی مثال اس ’مرکزہ‘ (Nucleus) کی ہے،  جس کے ارد گرد خلیے جمع ہوتے ہیں اور پھر ایک وجود تشکیل پاتا ہے۔ یہ مرکزہ جس نوعیت کا ہوتا ہے، اُس کو وجود میں لانے کے پیچھے جو نظریہ، مقصد اور ارادہ کار فرما ہوتا ہے، معاشرہ بھی اسی نوعیت کا وجود میں آتا ہے۔ ایک پودے کے مرکزہ سے پودا ہی پیدا ہوتا ہے اور برگ وبار لاتا ہے۔    کسی جانور کے خلیے کے مرکزہ سے جانور ہی جنم لیتا ہے اور انسان کے مرکزہ سے انسان ہی  صورت پذیر ہوتا ہے۔ اسی طرح کسی معاشرے کے مرکزوں (افراد ) سے ویسا ہی معاشرہ وجود میں آئے گا، جس نوعیت کے وہ مرکزے ہوں گے۔ پھر جس طرح کسی پودے اور درخت کی پیدایش او ر نشو ونما کا انحصار مخصوص طریقِ کاشت ، زمین کی خاصیت اور آب و ہوا کی نوعیت پر  ہوتا ہے، اسی طرح کسی جانور اور انسان کو وجود میں لانے کے لیے مخصوص مرکزوں اور خلیوں، مخصوص تخلیقی عمل، خصوصی ماحول، خاص قسم کی غذا اور دوسرے منفرد عوامل درکار ہوتے ہیں۔

ایک فرد جس ماحول میں پرورش پاتا ہے، اس کی فکری صلاحیتیں ، خالقــ کائنات اور کائنات میں انسان کا مقام متعین کرنے والے جس فلسفے اور نظریے کے تحت نشوونما پاتی ہیں، اُس کی سیرت جس اخلاقی سانچے میں ڈھلتی ہے اور وہ زندگی کے جس مقصد کو اپنا کر اپنا منہاج ـــعمل متعین کرتا ہے اس سے تشکیل پانے والا معاشرہ اسی ماحول، اسی فلسفے اور نظریے ، اسی سیرت وکردار، انھی اخلاقی اصولوں اور اسی منہاج عمل کا حامل ہو گا۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ افراد کے افکار و نظریات، مقصد زندگی اور اخلاقی اصول تو کچھ اور ہوں، مگر ان کے مجموعے سے جو معاشرہ صورت پذیر ہو، وہ بالکل بر عکس ہو۔

معاشرے پر افکار و نظریات کے اثرات

افراد کے افکارونظریات اور سیرت و کردار کے سانچے میں معاشرہ کس طرح ڈھل جاتا ہے اُس کا جائزہ اس مختصر مقالے میں ممکن نہیں۔ اس لیے ہم صرف دورِ حاضر کو سامنے رکھتے ہیں۔

جدید عمرانیات میں انسان کو معاشرتی حیوان (Social Animal) قرار دیا گیا ہے۔ اس تصور کی بنیاد پر دو قسم کے معاشرے وجود میں آئے ہیں۔ ایک وہ جس میں انسان جانور ہی کی طرح آزاد ہے کہ جو روش چاہے اختیار کرے، جس کھیت اور چراگاہ میں چاہے منہ مارے ، اُسے کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ اس لیے کہ وہ بنیادی طور پر جانور ہے اور یہ اس کی جبلّت کا تقاضا ہے___مگر چونکہ وہ عام جانوروں سے ذرا زیادہ مہذّب ، شائستہ اورصاحب عقل ودانش ہے اور اس کے لیے معاشرتی زندگی بسر کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس لیے کچھ حدود مقرر کر دی گئی ہیں کہ بس وہ کسی کھیت میں منہ مارتے وقت، اپنے نفس کی کوئی خواہش پوری کرتے وقت اس بات کا خیال رکھے کہ یہ سارے کام دوسرے متعلقہ معاشرتی جانور کی رضا مندی سے ہوں۔ یہ رضا مندی اُسے حاصل ہو جائے تو پھر کوئی بدی بدی نہیں، کوئی لاقانونیت لاقانونیت نہیںہے ۔ کسی کی حق تلفی حق تلفی نہیں، کسی کی بے آبروئی بے آبروئی نہیں، اور کسی کی عصمت وناموس عصمت و ناموس نہیں ۔ وہ فریق ثانی کی رضا کے ساتھ ہر غیر اخلاقی فعل ، ہر ظلم اور ہر جرم کر سکتا ہے۔ دوسرے معاشرتی جانوروں کو لوٹ کھسوٹ کر اپنا گھر بھر سکتا ہے۔ کسی کی ناموس کو اپنے گھر میں ڈال سکتا ہے یا گھر میں ڈالے بغیر اس سے کھیل سکتا اور نفس کی آگ بجھا سکتا ہے۔ البتہ وہ یہ باتیں اگر جبراً کرتا ہے تو یہ جرم ہے اور بری بات۔

یہ نقطۂ نظر اُس ریاست کی قانون سازی میں پوری طرح کار فرما ہوتا ہے، جسے یہ ’معاشرتی جانور‘ قائم کرتے ہیں۔ اس طرح یہ حیوانی آزادی محض افراد تک محدود نہیں رہتی بلکہ اجتماعی صورت اختیار کر لیتی ہے اور ہر ادارے میں ان کی حیوانیت رقصاں دیکھی جا سکتی ہے۔ جب اس جانور کا سابقہ اپنے معاشرے سے باہر دوسرے معاشروں سے پڑتا ہے تو اس کی حیوانیت ، اس کے شائستہ فلسفے اور ترقی پسندانہ قوانین اور ضابطے سب دھرے رہ جاتے ہیں۔ پھر وہ درندہ بن کر نمودار ہوتا ہے جو اپنے سے کمزور ’جانوروں ‘ کو چیرتا پھاڑتا، اُن کے حقوق غصب کرتا، اُن کی زمینوں پر قبضہ کرتا اور انھیں اپنا غلام بناتا ہے اور اس راہ میں وہ کسی حد اور رکاوٹ کا قائل نہیں رہتا۔

پھر ایک دوسرا معاشرہ وہ ہے، جس میں ’معاشرتی جانوروں ‘ کا ایک چھوٹا سا چالاک اور ہنرمند گروہ اپنے عام ہم جنسوں یا اُن کے ایک خاص طبقے کے نام پر معاشرے کی باگ ڈور سنبھال لیتا ہے اور پھر ان کے ساتھ جانوروں کا سا سلوک کرتا ہے۔ انھیں اُسی طرح لاٹھی سے ہانکتا ہے ،  اس ظالمانہ سلوک میں مرد اور عورت میں کوئی امتیاز نہیں کرتا۔

ایسے معاشرے پوری کوشش کرتے ہیں کہ معاشرتی جانوروں میں آزادانہ سوچنے سمجھنے اور بولنے کی جو صلاحیتیں پائی جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انھیں انتخاب اور ارادے کی جو آزادی بخشی ہے، اُن سے وہ کام نہ لینے پائیں، بلکہ سوچ کا جو سانچا وہ مہیا کریں اُس میںیہ صلاحیتیں ڈھل جائیں اور اُن کی خودی موت کے گھاٹ اتر جائے اور وہ عام جانوروں کی طرح انتخاب اور ارادے کی قوت اور آزادی سے محروم ہو جائیں۔ ایسے نظریے کی بنیاد پر جو معاشرہ وجود میں آتا ہے اُس کا فلسفہ یہ ہے کہ یہ جانور اپنے کسی پیدا کرنے والے کے آگے جواب دہ نہیں ۔ اُن کی زندگی بس اسی دنیا تک محدود ہے اور ان کاکام بجز اس کے کچھ نہیں کہ ذرا عام جانوروں کی نسبت مہذب انداز میں رہیں سہیں، چریں چگیں، نسل بڑھائیں اور مر جائیں۔

اسلام کا تصورِ انسان

 اسلام کا تصوّر انسان کے بارے میں اس سے بالکل مختلف ہے۔ اس کے نزدیک وہ خدا کی افضل ترین (Most Exalted) مخلوق ہے:

وَّ ھُوَ فَضَّلَکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَo (الاعراف۷:۱۴۰) وہ اللہ ہی ہے جس نے تمھیں دنیا بھر کی قوموں پر فضیلت بخشی ہے۔

جس کو اس نے بہترین ساخت کے ساتھ پیدا کیا ہے:

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍo(التین۹۵:۴) ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔

اسے زبر دست فکری و عملی قوتیں اور صلاحیتیںعطا کی ہیں :

ھُوَ الَّذِیْٓ اَنْشَاَکُمْ وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْئِدَۃَ ط (الملک۶۷ :۲۳) اللہ ہی ہے جس نے تمھیں پیدا کیا، تم کو سننے اور دیکھنے کی طاقتیں دیں اور سوچنے سمجھنے والے دل دیے۔

اور زمین میں اپنا نائب (vicegerent) بنایا ہے۔

پھر اس افضل ترین ، بہترین ساخت اور اعلیٰ صلاحیتیں رکھنے والی مخلوق کو بے مقصد نہیں پیدا کیا کہ کھائے پیئے،چند روزہ زندگی کے مزے لوٹے اور مر جائے۔ نہیں، وہ آزمایش کے لیے پیدا کی گئی ہے اور اس مقصد کے لیے اسے حق وباطل ، نیکی اور بدی کی راہ کو منتخب کرنے اور اس پر چلنے کی پوری آزادی بخشی گئی ہے:

اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ صلے نَّبْتَلِیْہِ فَجَعَلْنٰہُ سَمِیْعًام بَصِیْرًا o اِنَّا ہَدَیْنٰـہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا o (الدھر۷۶:۲-۳) ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس غرض کے لیے ہم نے اُسے سننے اور دیکھنے والا بنایا۔ ہم نے اُسے راستہ دکھا دیا، خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا۔

بے شک اس افضل ترین مخلوق ___ انسان ___ کے ساتھ ایک حیوان بھی ہے ۔ اس کے بغیر انسان کی انسانیت کی تکمیل ہی نہیں ہو سکتی تھی۔ تا ہم، انسانی جسم کی پوری مشینری میں اسے بالکل ناگزیر حیثیت دی گئی اور اسے کنٹرول کرنے کے لیے انسان کو بدی اور نیکی کا احساس اور اُن میں امتیاز کرنے کے لیے ضمیر کی قوت اور علم (وحی الٰہی)کی روشنی بخشی ۔ اِس حیوان کے حدود عمل بھی متعین کر دیے کہ ان کے دائرے میں رہ کر اپنا تخلیقی فریضہ سر انجام دے۔ اس حیوان کا انسان پر بس اتنا حق ہے کہ وہ اسے زندہ رہنے کا اس قدر سامان فراہم کرتا رہے کہ اس کی یہ زندگی انسان کو اپنے فرائض ادا کرنے کے قابل بنائے رکھے اور اتنا نہ پالے پوسے کہ وہ اسے اللہ کے مقابلے میں بغاوت اور سر کشی پر آمادہ کر دے ۔ گویا اسلام انسان کے حیوان کو نہیں انسان کو اہمیت دیتا ہے اور اس انسان کی بقا اور ترقی اور اچھے انجام کو اُس کا اصل مقصدِ تخلیق قرار دیتا ہے۔

یہ سارا اہتمام انفرادی طور پر کیا گیا ہے، یعنی پورے معاشرے یا کسی خاص طبقے کو اجتماعی طور پر نہیں ، ہر شخص کو فرداً فرداً اگر دانا گیا ہے اور آخرت میں بھی ہر شخص اس کی بار گاہ میں اسی طرح فرداً فرداً حاضر ہو گا جس طرح وہ فرداًا فرداً دنیا میں آیا تھا:

وَ لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰی کَمَا خَلَقْنٰکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ (انعام ۶:۹۴) اب تم ویسے ہی تنِ تنہا ہمارے سامنے حاضر ہوگئے جیسا ہم نے تمھیں پہلی مرتبہ اکیلا پیدا کیا تھا۔

اور پھر اُس سے دنیوی زندگی کے شب و روز کے ایک ایک لمحے کا حساب لیا جائے گا اور اُسے پوری پوری جزا اور سزا دی جائے گی۔

وَاَنَّ سَعْیَہُ سَوْفَ یُرٰی o ثُمَّ یُجْزٰیہُ الْجَزَآئَ الْاَوْفٰی o (النجم۵۳: ۴۰- ۴۱) اور یہ کہ اس کی سعی عن قریب دیکھی جائے گی اُس کی پوری جزا اسے دی جائے گی۔

وہاں ہر فرد کو اپنا بوجھ اُٹھانا ہوگا اور دنیا کی زندگی میں اس نے جیسی کچھ جدوجہد آخرت کی زندگی کے لیے کی تھی اس کا ویسا ہی پھل اسے مل جائے گا۔

اَلَّا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی o وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی o (النجم ۵۳: ۳۸-۳۹)  یہ کہ کوئی بوجھ اُٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا، اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اس نے سعی کی۔

اور اس کا یہ عُذر قابلِ سماعت نہ ہوگا کہ وہ معاشرے کے مقابلے میں بے بس تھا اور اُسے دنیوی رہنمائوں اور مذہبی پیشوائوں نے غلط اور سرکشی کے راستے پر چلنے پر مجبور کر دیا تھا۔

اس طرح اسلام انسان کا مقام ومرتبہ متعین کرنے کے ساتھ ساتھ فرد اور معاشرے کا مقام اور حیثیت بھی متعین کر دیتا ہے، یعنی فرد معاشرے کی تخلیق نہیں بلکہ بہت سے افراد مل کر معاشرے کی تخلیق کرتے ہیں۔ یہ افراد جن افکارونظریات اورعقائدو اخلاق کے سانچے میں ڈھلے ہوں گے معاشرہ بھی ان ہی افکار و نظریات اور عقائد و اخلاق پر مبنی ہوگا۔اور چوںکہ قیامت کے روز ہر فرد انفرادی طور پر اپنے اعمال وافعال کا جواب دہ ہے، اس لیے معاشرے کو یہ حق نہیں ہے کہ افراد کو ان کے افکار ونظریات اور عقائد واخلاق کے مطابق زندگی  بسر نہ کرنے دے اور انھیں اپنی مرضی کی لاٹھی سے جانوروں کی طرح ہانکتا پھرے۔ انسان جانور نہیں اشرف المخلوقات ہے۔

اسلامی معاشرے کی اساس

اسلام کے نقطۂ نظر سے انسان کے اس مقام اور اس کی انفرادی حیثیت کو مدّ نظر رکھیے کہ اسلام کس قسم کا معاشرہ وجود میں لانا چاہتا ہے۔ اسلامی معاشرہ دنیا کے تمام معاشروں سے بالکل جداگانہ رنگ رکھتا ہے۔ یہ نہ تو نسل ونسب پر مبنی ہے اور نہ زبان اور وطن پر بلکہ یہ تہذیبی اور نظریاتی بنیادوں پر تشکیل پاتا ہے ۔ اس کی تشکیل بھی وہی لوگ کر سکتے ہیں اور اسے راست بنیادوں پر قائم بھی وہی رکھ سکتے ہیں جو ان بنیادوں کو نہ صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ اپنی انفرادی زندگی کو ان پر ٹھیک ٹھیک استوار بھی کرتے ہیں خواہ وہ کسی سر زمین سے تعلق رکھتے ہوں اور نسل ونسب کا رنگ ، زبان اور وطنی قومیت وغیرہ کی کوئی قدر مشترک اُن کے درمیان نہ ہو۔

اسلامی معاشرے کا کلمۂ جامعہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللہِ ہے ۔ یہ وہ پاک کلمہ ہے جس پر ایمان لانے کے بعد ایک شخص اسلامی معاشرے کو تشکیل دینے والی اکائی بن جاتا ہے۔ یہی مختصر سا بول اسلامی معاشرے کو وہ تہذیبی و نظریاتی بنیادیں فراہم کرتا ہے جس پر اس کی عظیم اور دلکش عمارت کھڑی کی گئی ہے۔ اسی کلمے کو ادا کرنے کے بعد ایک شخص یہ تسلیم کر لیتا ہے کہ اس کا اور اس کے گردوپیش پھیلی ہوئی ساری کائنات کا خالق ، مالک، آقا اور حکمران اللہ تعالیٰ ہے جس نے اپنے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے نوعِ انسان کو وہ نظامِ فکر وعمل بخشا ہے جو زندگی کے ہر ایک شعبے پر حاوی ہے اور جسے اپنائے بغیر انسان نہ دنیا کی زندگی چین اور اطمینان سے بسر کر سکتا ہے اور نہ آخرت میں نجات پا سکتا ہے۔

یہ نظامِ فکر وعمل افراط وتفریط سے پاک ہے۔ انسان کے لیے دو انتہائوں سے ہٹ کر متوسط راہ متعین کرتاہے ۔ اس طرح اسلامی معاشرہ ایک متوازن معاشرہ ہے۔ عبادت ہو یا سیاست، معاشرت ومعیشت ہو یا کوئی اور شعبۂ زندگی ، اس کے احکام اور تعلیمات ہر معاملے میں اعتدال پسندانہ ہیں۔ پھر یہ ایک غیر طبقاتی معاشرہ ہے جس میں کالے گورے، عربی وعجمی ، امیر وغریب، آقا و غلام کے درمیان کوئی امتیاز نہیں۔ نہ یہاں پیدایش یا پیشے کے اعتبار سے کوئی شخص شریف یا رذیل ہے۔ سب انسان برابر ہیں ۔

اسلامی معاشرہ بے مقصد معاشرہ نہیں۔ یہ انسان کو دنیا میں نیکی، راست روی اور حق پرستی کی زندگی بسر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ امت مسلمہ کا مقصد وجود یہ ہے کہ عالم ِ انسانیت کے سامنے اپنے عمل سے گواہی دے کہ اسلام زندگی کا جو نظام دیتاہے وہی دنیا وآخرت میں فلاح وکامرانی کا بہترین نظام ہے:

وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ(البقرہ ۲:۱۴۳) اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمت ِ وسط‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو۔

اس لحاظ سے یہ ایک مثالی معاشرہ ہے اور ساری دنیا کے لیے بہترین نمونۂ اتباع۔

اسلامی معاشرہ: تربیت کی بنیادیں

ایسا مثالی معاشرہ، مثالی اور کامل المعیار افراد ہی وجود میں لا سکتے ہیں۔ اسی لیے اسلام افراد کی فکری وعملی تربیت کو بنیادی اہمیت دیتا ہے۔ وہ انھیں قانون کی لاٹھی سے ہانکنے یا اجتماعی قوت کے ذریعے اپنا نظام مسلّط کرنے کے بجاے اُن کے فکرو نظر میں انقلاب برپا کرتا ہے۔ ان کے سوچنے سمجھنے کے زاویے بدلتا ہے۔ زندگی اور کائنات اور خدا کے بارے میں اُن کے غلط تصور کو بدل ڈالتا ہے۔ ان کی پسند اور ناپسند کا معیار بدلتا ہے۔ ان کی دل چسپیوں کے مرکز اور دائرے تبدیل کرتا ہے۔ غرض وہ تمام تبدیلیاں جو دوسری نظریاتی اور تہذیبی قوتیں جبر وتشدّد کے ہتھیاروں سے لاتی ہیں، وہ اسلام دل ونگاہ کی تبدیلی سے لاتا ہے۔ اس تبدیلی کے بعد ان کی سیرت وکردار کو تربیت کے مخصوص سانچے میں ڈھال دیتا ہے۔ وہ قانون نافذ کرتا بھی ہے تو ایسی فضا اور ماحول پیدا کرنے کے لیے جس میں افراد کو اُس تربیت میں مزید مدد مل سکے اور اس تربیت کے منافی اور ناساز گار ماحول جنم نہ لے سکے۔

اسلام کی اس تربیت کے چند بنیادی اور اہم رُخ حسب ذیل ہیں:

  •  اسلامی نظریۂ حیات کی برتری: یہ تربیت ایک مسلمان فرد میں اسلامی نظریۂ حیات کی برتری اور اس کے بر حق ہونے کاپختہ وکامل یقین پیدا کرتی ہے تاکہ وہ دنیا کے دوسرے نظریات سے مرعوب نہ ہونے پائے۔ یہ نظریات زمانے میں کتنے ہی رائج اور غالب وطاقت ور کیوں نہ ہوں، اُن کے باطل ہونے پر اُس کا ایمان ہو۔ ان کے پھیلائے ہوئے فکری ونظریاتی اور مادی جال کو تارِ عنکبوت سمجھے جو حقیقت وصداقت اور ایمان کی قوت کے آگے نہیں ٹھیر سکتا ۔ حالات چاہے کیسے ہی رُوح فرسا اور مایوس کن ہوں اور دنیا کا دھارا چاہے کتنے ہی مخالف رُخ پر جا رہا ہو، اس کا دل یقین کے اس نور سے منور رہے کہ حق وہی ہے جس پر وہ ایمان لایا ہے۔
  •   قول و فعل کی ہم آہنگی: یہ تربیت نظریے پر ایمانِ کامل اور پختہ یقین پیدا کرنے کے ساتھ اُس کی زندگی کو عمل کے رنگ میں اس طرح رنگتی ہے کہ وہ پکار پکار کر شہادت دیتی ہے کہ اس کا واقعی اس نظریۂ حیات کے برحق ہونے پر ایمان ہے۔ قول وعمل کی ہم آہنگی ہی وہ قوت ہے جو حق کی تلاش میں سرگرداں اور حق کی خواہاں دنیا کو متاثر کرتی ہے۔ قول وعمل کا تضاد منافقت کی علامت ہوتی ہے اور نفاق وہ روگ ہے جو کسی معاشرے کو تباہ کر کے رکھ دیتا ہے۔ اس لیے اسلام کے تربیتی پروگرام میں قول وعمل میں مطابقت پر بہت زور دیا جاتا ہے۔
  •  مضبوط کردار: مقصد سے محبت اور عزم راسخ مضبوط کردار پیدا کرتے ہیں تا کہ وہ حق کے سوا ہر چیز کو ٹھکرا دے۔ اپنے موقف پر پہاڑ کی طرح جما رہے۔ اصولوں پر نہ مصالحت کرے اور نہ مداہنت پر آمادہ ہو۔ نہ لوگوں کی خواہشات کا اتباع کرے ۔ حق میں کسی کو شریک   نہ بنائے ۔ مزاحم قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرے اور باطل کے دبائو میں نہ آئے۔
  •  خدا خوفی: خدا پرستی اللہ کے ساتھ گہرا لگائو پیدا کرتی ہے ۔ دل ودماغ میں یہ بات راسخ کر دیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طاقت سب طاقتوں سے بالا اور زبر دست ہے ۔ مسلمان کو چاہیے کہ اس کے سوا کسی سے خوف نہ کھائے اور ہر غیر اللہ سے کٹ کر اُسی کا ہو جائے ۔ اُسی پر توکل اور بھروسا کرے۔ اُس کی راہ میں آنے والی مشکلات ومصائب کا مقابلہ صبرو استقامت سے کرے۔ خداپرستی اُس کے شب وروز کو خداخوفی ، تقویٰ ، امانت ودیانت ، عدل واحسان ، عہد وپیمان کا پاس، راست بازی ، پاکیزگی سیرت ، طہارت ِ کردار اور اخلاقِ فاضلہ کے سانچے میں ڈھالتی ہے۔ معاشرے کو بگاڑنے والے اسباب وعوامل کے خلاف اُ س کے دل میں نفرت کے نہ مرنے والے بیج بو دیتی ہے۔ توحید ، رسالت اور آخرت کے بنیادی عقائد سے دنیا اور آخرت میں جو اخلاقی نتائج رُو نما ہوتے ہیں، خداخوفی ان کا احساس قلب وذہن میں اتنا گہرا بٹھاتی ہے کہ جب بھی انسان کو ئی کام کرنے کا ارادہ کرتا ہے، اُس کے نتائج وعواقب اس کے لوحِ ذہن پر ابھر آتے ہیں۔ اور اگر  وہ نتائج برے ہوں تو اس کا یہ احساس فورًا اُس کے قدم روک دیتا ہے۔
  •  اجتماعیت: جماعتی شعور اور نظم وضبط پیدا کرتی ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کی محبت اور بے چون وچرا اطاعت کا سبق سکھاتی ہے۔
  •  حق گوئی و بے باکی : حق گو، بے باک اور بے خوف بناتی ہے تا کہ مسلمان، معاشرے کو سیدھے راستے پر گامزن رکھنے میں ساعی ہوں اور غلط راہوں پر جانے سے روکیں ۔ مسلمانوں کی سب سے بڑی ذمہ داری یہی ہے کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے علَم بر دار بن کر رہیں۔ انھیں برپا ہی اسی لیے کیا گیا ہے:

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ  وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّہِ ط (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۱۰) اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

اس فرض کو انجام نہ دینے سے ایمان تک مشتبہ ہو جاتا ہے۔ نبی کریم ؐ نے فرمایا:

 جو شخص کسی منکر کو دیکھے اس کو چاہیے کہ وہ اُسے ہاتھ سے روک دے۔ لیکن اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو اُس کے خلاف آواز بلند کرے۔ اور اگر اس کی ہمت بھی نہ ہو تو پھر کم ازکم اپنے دل میں اُسے بُرا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔(   مسلم)

 ایک اور حدیث پاک میں ہے: ’’اس میں رائی کے دانے برابر بھی ایمان نہیں ہے ‘‘۔

 یعنی منکر کو اگر کوئی مسلمان دل میں بھی بُرا نہیں سمجھتا، اس سے ساز گاری پیدا کر لیتاہے، یا اس کے ساتھ غیر جانب دارانہ رویہ اختیار کرتا ہے تو اسے اپنے ایمان کی خیر منانی چاہیے۔

  •  اخلاص:  خدا خوفی اس قدر اخلاص پیدا کرتی ہے کہ وہ نیکی کا جو کام بھی کرتا ہے محض اللہ کی خاطر اور خوش نودی کے لیے کرتا ہے۔

اسلامی معاشرے کی انفرادیت

یہ ہے وہ تربیت جو اسلام اپنے حلقہ بگوش افراد کی کرتا ہے جن کے جماعتی زندگی بسر کرنے سے اسلامی معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکّی زندگی کے ۱۳برسوں میں جو افراد تیار کیے انھیں انھی خطوط پر تربیت دی اور ان کا تزکیۂ کردار کیا اور پھر جب ان افراد نے مدینہ کی زندگی میں باقاعدہ ایک معاشرے کی صورت اختیار کر لی اور ایک اسلامی ریاست قائم ہوگئی، اور یَدْخُلُوْنَ فِی دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا کا سماں بندھنے لگا، تب بھی دورِ امن ہوتا یا زمانۂ جنگ ، حضور ِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کی تربیت باقاعدہ کرتے رہتے تھے۔ مدینہ کی زندگی میں اسلامی تہذیب وتمدّن ، عبادات ، معاشی زندگی اور سیاسی نظام کے احکامات دیے اور قوانین نافذ کیے گئے، لیکن ان احکامات اور قوانین کو نافذ کرنے سے پہلے افراد کو ذہنی طور پر تیار کیا گیا تا کہ وہ انھیں اپنی دنیا اور آخرت کی زندگی سنوارنے کا موجب سمجھتے ہوئے پوری خوش دلی اور ذہنی ہم آہنگی کے ساتھ قبول کریں۔ حضوؐر کی حیات مبارکہ میں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ملتا کہ کسی قانون یا حکم کو  بہ جبر نافذ کیا گیاہو بلکہ کیفیت یہ تھی کہ اہل ایمان اشارۂ اَبرو کے منتظر رہتے تھے کہ حضوؐر کوئی حکم فرمائیں اور وہ اس کی پیروی کر کے دنیا اور آخرت کی سعادت سمیٹیں۔

اس تربیت سے جس قسم کے افراد تیار ہوئے ، دنیا کا کوئی معاشرہ اور غیر مسلم تاریخ کا کوئی دور ان کی نظیر پیش نہیں کر سکتا ۔ تصور کیجیے جس معاشرے کے افراد صرف ایک اللہ کی غلا می اور ایک رسول کی قیادت تسلیم کرتے ہوں، پاک دل و پاک باز ہوں، اخلاقِ فاضلہ سے جن کی زندگیاں مزین ہوں، جو ایک دوسرے کی جان ومال اور آبرو کا احترام ہی نہ کرتے ہوں محافظ بھی ہوں ۔ جھوٹی تہمتیں نہ باندھیں ، جادو اور توہمات کے اسیر نہ ہوں، علم وروشنی سے جن کے قلب وذہن تابندہ ہوں ، جو امانت دار ہوں ، عہد وپیمان کے پابند ہوں ، انصاف پسند ہوں، جن کا دامن شراب خوری ، زنا ، ڈاکا زنی، چوری ، جھوٹ ، منافقت ، حرص و طمع اور دوسرے اخلاقی ذمائم سے پاک ہوں ۔ فحش گوئی اور فحاشی سے دور بھاگتے ہوں ۔ یتیموں اور کمزوروں کے حقوق غصب نہ کرتے ہوں۔ ایک دوسرے کے معاون اور مدد گارہوں۔ صدقہ وخیرات اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے سے مسابقت کرتے ہوں۔ نوعِ انسانی کے غم خوار اور ہمدرد ہوں اور آپس میں بھائی بھائی، اہل حق کے لیے نرم خُو ہوں اور باطل پرستوں کے لیے سخت فرض شناس اور ذمہ دار ہوں۔ صداقت شعار، وفاشعار ، حق پرست ، حق گو، نڈر ہوں۔ ایک اللہ کے سوا کسی کے آگے نہ جھکتے ہوں، نہ خوف کھاتے ہوں۔ ایسے افراد سے جو معاشرہ وجود میں آئے گا اس کی کیا کیفیت ہو گی؟

ایسا ہی معاشرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار فرمایا تھا۔ اسلام سے پہلے عرب جاہل ، ان گڑھ اور اَن پڑھ تھے ۔لیکن جب اس جاہلی معاشرے کی جگہ اسلامی تربیت یافتہ افراد پر مشتمل اسلامی معاشرے نے لی تو یہی لوگ ایسے عظیم عالم، جج، جرنیل، سیاست دان اور قانون دان بن کر اُٹھے کہ جس طرف نکل گئے انھوں نے زمانے کا رخ موڑ دیا۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی کا دھارا  نئی شان و شوکت سے نئی راہ پر بہنے لگا۔ پہلے ہرطرف جہالت و وحشت کی تاریک رات طاری تھی، یہ حق کا پیغام لیے جہاں پہنچے صبحِ روشن نمودار ہو گئی۔

اسلامی معاشرے کا انحطاط

یہ اسی تربیت اسلامی کا اثر تھا کہ اسلامی معاشرہ صدیوں تک دنیا کے تمام معاشروں پر چھایا رہا۔ یورپ نے علم وتہذیب کی روشنی اس سے لی اور اپنی تاریک راہوں کر منور کیا۔ جب تک افراد کی تربیت ِ اسلامی کا اہتمام اسلامی معاشرے میں ہوتا رہا، دنیا کی علمی ، تہذیبی اور سیاسی قیادت اس کے ہاتھ میں رہی ۔ لیکن جب یہ اہتمام پہلے کمزور پڑا اور پھر آہستہ آہستہ ختم ہو گیا تو دوسری نظریاتی اور تہذیبی قوتیں اس پر حملہ آور ہو گئیں۔ یہاں تک کہ اسلامی قلعے کی جو فصیلیں تربیت اسلامی نے تعمیر کی تھیں وہ ایک ایک کر کے منہدم ہوتی چلی گئیں۔ مسلمانوں کی گود میں پلنے والے تربیت اسلام سے عاری ایسے نوجوان بہ کثرت پیدا ہونے لگے جو ان بیرونی تہذیبی طاقت وروں سے متاثر تھے۔ دشمن باہر سے حملہ آور تھا اور یہ اندر سے نقب لگا رہے تھے اور باقی معاشرے پر سحرزدگی کا عالم تھا کہ وہ خود اس اسلامی تربیت سے تہی دامن ہو چکا تھا، جس نے اسے شعور ِ وجود بخشا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان ملک نہ صرف سیاسی طور پر اُن حملہ آوروں کے غلام بن گئے بلکہ وہ ان کی تہذیبی یلغار کے آگے بہہ نکلے۔

آج عالمِ اسلام جن حالات سے دوچار ہے وہ صحیح اسلامی تربیت کے فقدان ہی کا نتیجہ ہے۔ اسلامی معاشروں میں ساری کمزوریاں اسی راہ سے آئی ہیں۔ امام مالک بن انس کا قول ہے کہ   اس امت کے پہلے حصے کی اصلاح جس چیز کی بدولت ہوئی ، اُسی کے ذریعے آخری حصے کی بھی اصلاح ہوگی ۔ ہم اپنے ملّی واسلامی تشخص کی باز یافت کی جو جدوجہد کر رہے ہیں، اس میں اُسی وقت کامیاب ہوں گے جب ہمارے معاشرے اپنے افراد کی تربیتِ اسلامی انھی خطوط پر کریں جن پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اوّلین اسلامی معاشرے کے افراد کی تربیت کی تھی۔

ترجمہ: حافظ محمد ادریس

مجھے مرشدعام امام حسن البنا شہیدؒ کے ساتھ مختلف دیہات و قصبات میں دورے کرنے کے کافی مواقع ملے۔ ہمارے ہاں سطح مرتفع کے علاقے میں امام کے وہ دورے اب تک لوگوں کو یاد ہیں۔ اسی طرح میں نے قبائلی اور ساحلی علاقوں میں بھی امام شہید کے ساتھ طویل دورے کیے۔ ان دوروں کے دوران میں بہت سے ایمان افروز واقعات و مشاہدات کا تجربہ ہوا، مختلف شخصیات اور خاندانوں سے تعارف ہوا۔

ان مخلص اور جواں ہمت لوگوں کا جماعت پر یہ حق ہے کہ اُنھیں ہمیشہ یاد رکھیں۔ اُنھوں نے اپنا تن من دھن اس راہ میں قربان کر دیا۔ جماعت نے اُنھیں شعوروجذبہ دیا اور اُن کے خفتہ ایمان کو بیدار کیا۔ جماعت کی تاریخ پر قلم اُٹھانے والا مؤرخ کبھی ان کو فراموش نہیں کرسکتا۔ بہت سے گم نام ساتھیوں کی بدولت تحریک کا نام زندہ و درخشاں ہے۔ اُنھوں نے جس ذات کے لیے قربانیاں پیش کیں وہ علیم و خبیر ہے اور اُن کا اجرمحفوظ ہے۔ جس زمین پر اُنھوں نے عہدِ وفا باندھا، وہ بھی اُن کے حق میں خیر کی گواہی دے گی۔

۲۰ویں صدی کے تیسرے عشرے [۱۹۲۸ء] میں الاخوان المسلمون کی بنیاد پڑی۔ چوتھے عشرے میں اُس نے تناور درخت کی صورت اختیار کرلی، اور امام حسن البنا شہید کی شخصیت مصر کے ماحول پر چھا گئی تھی۔ دیگر سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کے دوروں کا رنگ ان سے بالکل مختلف ہوتا تھا۔ اُن کے ہاں نمود و نمایش اصل چیز تھی۔ پوسٹر اور بینر لگتے، آرایشی محرابیں آراستہ کی جاتیں، جلسہ گاہ کو سجایا جاتا، بجلی کے قمقمے روشن ہوتے، سرخ قالین بچھتے، نعرے لگتے، سپاس نامے پیش کیے جاتے اور تصویریں اُتاری جاتیں۔ اس کے برعکس امام شہید کی آمد پر ہرچیز میں سادگی اور خلوص نظر آتا تھا۔ نہ تکلف، نہ تصنّع، استقبال کے لیے آنے والے محبت میں ڈوب جاتے۔ سامعین گوش برآواز ہوتے۔ بات دل سے نکلتی اور دل میں اُترتی چلی جاتی۔ لوگ زمین پر بیٹھتے  مگر اُن کی سوچ آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہوتی۔ امام حسن البنا ہرسطح پر اور ہرقسم کی فضول خرچی کے سخت خلاف تھے۔ تحریکِ اسلامی کا یہی رنگ اسے ہرمیدان میں دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔

  •  صحراکی ایک یادگار رات: امام شہید جب کبھی ہمارے علاقے کا دورہ کرنے کا ارادہ کرتے تو مجھے ٹیلی گرام بھیج دیتے تھے۔ میں حسب ِ پروگرام کبھی جیزہ میں اور کبھی بنی سویف میں آپ کا استقبال کرتا اور پھر ہربستی میں امام کا ہم سفر رہتا تھا۔ انھی سفروں کے دوران ایک مرتبہ   ہم ایک گائوں حجازہ گئے۔ وہیں پر ہم نے رات گزاری۔ اس بستی کے لوگوں نے جس محبت کے ساتھ ہمارا استقبال کیا وہ کبھی بھول نہیں سکتا۔ اُن کے دل پیار و محبت سے لبریز اور چہرے خلوص و وفا کے ترجمان تھے، نہ کوئی ریا نہ کوئی تصنّع۔

چاندنی رات تھی اور وہ لوگ صحرا میں ریت پر چٹائیاں بچھائے ہمارے منتظر تھے۔ ماحول پُرسکون اور فضا خاموش تھی۔ رات کا سکون اُتر آیا اور رات خُنکی میں ڈوب گئی تھی۔ پورا گائوں صحرا میں نکل آیا تھا۔ جس طرح مہمان تکلف و نمایش سے پاک تھے، اسی طرح میزبان بھی اپنے دل کی گہرائیوں سے مہرووفا کے پھول نچھاور کر رہے تھے۔

اس ایمان افروز ماحول اور رات کے سکوت میں امام شہید کا خطاب بھی ماحول کے عین مطابق تھا۔ امام کی زبان سے نکلنے والا ہرلفظ لوگوں کے دلوں میں اُتر رہا تھا۔ دیہاتی ماحول کی مناسبت سے اُنھوں نے نہایت سادہ اور عام فہم انداز میں دعوت پیش کی۔ لوگوں نے بار بار پُرجوش نعروں اور گرم آنسوئوں سے اپنے دلی جذبات کا اظہار کیا۔ خطاب ختم ہوا تو ہرشخص امام کے گرد پروانہ وار جمع تھا۔ اُنھیں آج کی رات بہت کچھ مل گیا تھا۔

لوگوں کو رخصت کر کے ہم اس سادہ کمرے میں آئے جہاں ہمارا قیام تھا۔ مٹی گارے کا  یہ کمرہ ہمیں بہت بھلا لگا۔ اس میں خلوص کی خوشبو اور محبت کی چاشنی تھی۔ نہ یہاں صوفے اور کرسیاں تھیں، نہ قالین اور فانوس۔ پھر بھی وہ کمرہ آج تک میری آنکھوں میں رچا ہوا تھا۔

ساتھیوں نے رات کے کھانے کا دسترخوان بچھایا۔ برتن صاف، اُجلے اور نہایت خوب صورت تھے۔ دیہاتی لوگوں کی عام غذا پر مشتمل یہ سادہ طعام بڑا لذیذ تھا۔ وہ رات کیوں کر بھلائی جاسکتی ہے۔ قرآنِ مجید نے حضوؐر اور آپؐ کے پیروکاروں کا منصب یوں متعین کیا ہے:

تم ان سے کہہ دو کہ میرا راستہ تو یہ ہے کہ مَیں لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتا ہوں۔ میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے پیروکار بھی۔ اور اللہ پاک ہے اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں۔(یوسف ۱۲:۱۰۸)

  •  اسکندریہ کا سفر: امام شہید نے ایک روز مجھے اپنے ساتھ اسکندریہ جانے کی دعوت دی۔ مَیں نے اسے اپنی خوش قسمتی سمجھا کہ حسن البنا کی رفاقت میں ایک اور سفر کا موقع ملا۔ ریلوے اسٹیشن سے ہم ایک گاڑی میں سوار ہوئے۔ جب ہم اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے تو مختصر گفتگو کے بعد مرشدعام نے اپنے چھوٹے سے سفری بیگ میں سے قرآنِ مجید کاایک نسخہ نکالا اور تلاوت میں مصروف ہوگئے۔ امام حسن البنا کا تقریباً یہ مستقل معمول تھا کہ سفر میں قرآنِ کریم ساتھ رکھتے، اور سفروحضر میں روزانہ قرآنِ مجید کی تلاوت میں خاصا وقت گزارتے تھے۔ اخوان کے اکثر ساتھیوں نے بھی امام شہید کا یہ طرزِ عمل اپنا لیا ہے، اور مَیں بھی اس پر باقاعدگی سے کاربند ہوں۔

خدیو اسماعیل ریلوے اسٹیشن پر ہم گاڑی سے اُترے اور عوامی معیار کے ایک چھوٹے سے ہوٹل میں قیام کیا۔ ہوٹل میں پہنچ کر سب سے پہلے نمازِ ظہر ادا کی۔ نماز کے بعد مرشدمحترم نے کھانے کی خواہش ظاہر کی۔ ہوٹل میں قیام کا انتظام تو تھا، مگر طعام کا اہتمام نہیں تھا۔ میں نے عرض کیا: آپ کھانے میں کیا چیز پسند کریں گے؟‘‘ آپ نے جواب دیا: ’’بس روٹی، پنیر اور انگور لے آئیں‘‘۔ چنانچہ یہ طعام لایا اور ہم نے تناول کیا۔ کھانے کے بعد مختصر وقت کے لیے ہم نے قیلولہ کیا اور عصر کی اذان کے وقت جاگ اُٹھے۔ نمازِ عصر ادا کر کے ہم ٹرام میں سوار ہوئے اور قباری پہنچے۔ یہاں پروگرام کے مطابق امام حسن البنا شہید کو نمازِ مغرب کے بعد درسِ قرآن دینا تھا۔ ہم ٹھیک وقت پر جاے مقررہ پر پہنچ گئے۔ امام مسجد نے مرشدعام کو خطاب کی دعوت دی۔ امام حسن البنا نے نہایت ایمان افروز خطاب فرمایا جس کے بعد لوگوں سے اجازت لے کر ہم واپس چل دیے۔

اس سفر کے دوران میں ایک واقعہ رُونما ہوا جو بظاہر چھوٹا سا ہے، مگر اپنی اہمیت کے لحاظ سے اس قابل ہے کہ اس کا ذکر کیا جائے۔ ٹرام وے پر لوگ سوار ہوجایا کرتے تھے اور کنڈکٹر   اُن سے کرایہ وصول کر کے اُن کے اسٹیشن کا ٹکٹ جاری کر دیتا تھا۔ اس سفر کے دوران نہ کنڈکٹر ہمارے پاس آیا اور نہ ہم نے ٹکٹ حاصل کیا۔

اُترنے سے پہلے امام شہید نے مجھ سے پوچھا: ’’آپ نے ٹکٹ لے لیے ہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا: ’’کنڈکٹر ہمارے پاس آیا ہی نہیں‘‘۔ آپ نے کہا: ’’اگر وہ نہیں آیا تو ہماری ذمے داری ہے کہ ہم اسے آواز دیں اور ٹکٹ حاصل کریں‘‘۔میں نے عرض کیا: ’’ممکن ہے اُس نے آپ کو پہچان لیا ہو اور کرایہ وصول نہ کرنا چاہتا ہو‘‘۔ آپ نے کہا: ’’بھائی، اسے اس بات کا کیا حق ہے؟ یہ ٹرام اس کی ذاتی ملکیت تو نہیں، یہ تو اس کمپنی کا مال ہے جو اسے چلاتی ہے۔ اگر کوئی شخص کسی کو فائدہ پہنچانا چاہے یا اُس کی اعانت کا ارادہ کرے تو اُسے اپنی جیب سے خرچ کرنا چاہیے، نہ کہ دوسروں کے مال پر ڈاکا ڈال کر یہ کام کرے‘‘۔

مَیں نے کنڈکٹر کو آواز دی۔ وہ آیا تو مَیں نے اُس سے ٹکٹ مانگا۔ اُس نے کہا: ’’جناب، مَیں نے آپ کو دیکھ لیا تھا۔ آپ ٹکٹ نہ لیں۔ یہ ایک غیرملکی کمپنی ہے‘‘۔ امام بھی یہ بات سن رہے تھے۔ وہ مسکرائے اور فرمایا: ’’ملکی ہویا غیرملکی، کسی کو اُس کے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ آپ کو ہدایت اور اجر دے۔دو ٹکٹوں کے پیسے لیں اور ٹکٹ دیں‘‘۔ میں نے اُسے کرایہ دیا اور اس نے ہمیں ٹکٹ دے دیے۔ امام شہید کرایہ ادا کرنے کے بعد ہمیشہ ٹکٹ کا مطالبہ بھی کیا کرتے تھے۔

اس عظیم شخص کی تربیت میں میرے چند سال گزرے۔ اسی تربیت نے مجھے انسانیت سے روشناس کرایا۔ اس عظیم مربی کا قلب ِ سلیم سرچشمۂ رُشد و ہدایت تھا۔ اُنھوں نے اپنے طرزِعمل سے یہ بات سکھائی کہ بنی نوع انسان کے درمیان عدل و انصاف قائم کرنا اسلام کا بنیادی تقاضا ہے۔ کسی کا دین اور شہریت کچھ بھی ہوں بحیثیت انسان اس کا یہ حق ہے کہ اس کے ساتھ عدل کرے۔

قرآنِ مجید کی اس آیت کی زندہ تصویر حسن البنا کی زندگی میں دیکھی جاسکتی تھی:

اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُس سے پوری طرح باخبر ہے۔ (المائدہ ۵:۸)

ایک دل چسپ سفر کی رُوداد

ہمیں ایک مرتبہ برادر گرامی العیلی مرحوم نے دعوتِ خطاب دی۔ اُنھوں نے اپنے  دعوت نامے میں لکھا تھا: مغرب اور عشاء کی نماز کے درمیان ایک مسجد میں عوام کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کریں اور پھر رات کا کھانا اور قیام وہیں کریں‘‘۔ یہ پروگرام ضلع منیا کے ایک گائوں میں منعقد ہونا تھا۔ امام شہید نے دعوت قبول کرلی اور مجھے ساتھ لے کر سفر پر روانہ ہوئے۔

ہمارے  میزبان ریلوے اسٹیشن پر استقبال کرنے کے بعد ہمیں سیدھے مسجد لے گئے۔ نمازِ مغرب پڑھ کر امام شہید نے سوز وگداز سے بھرپور تقریر فرمائی، عنوان تھا: ’’اطاعت الٰہی اور حرام سے پرہیز‘‘۔ اسی تقریر میں امام شہید نے دعوتِ اسلامی کے احیا اور اس سے دل لگانے کی ضرورت و اہمیت بیان کی۔ اُنھوں نے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات راسخ کر دی کہ کامیابی کا راستہ ایک ہی ہے، دُنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، اور وہ ہے کلمۂ حق کی سربلندی اور سچائی کا راستہ۔

جوں ہی تقریر ختم ہوئی تو لوگ امام شہید سے ملنے کے لیے لپکے۔ ہرشخص مہمانِ گرامی کے لیے سراپا احترام بنا اُن سے ہاتھ ملانے اور گلے ملنے کے لیے بے تابی سے اپنی باری کا انتظار کرنے لگا۔ لوگوں کے جذبات، احترام و محبت اُن کے چہروں سے بالکل عیاں تھے۔ لوگ امام کے ہاتھ اور پیشانی چوم رہے تھے اور تحریک کی کامیابی کے لیے دعائیں دے رہے تھے۔ یہاں  نمازِ عشا ء کے بعد رات بسر کرنے ہم اپنے میزبان کے ساتھ ’آرام گاہ‘ چلے گئے۔

جس ’آرام گاہ‘ میں ہمارا قیام تھا وہ اس قصبے کی بلدیہ کے زیرتصرف تھی۔ہمارے میزبان نے ہمیں بتایا تھا کہ بلدیہ کا چیئرمین ’آرام گاہ‘ میں ہم سے ملاقات کرے گا، مگر موصوف کا یہاں دُور دُور تک پتا نہ تھا۔ اس ’آرام گاہ‘ میں سونے کے کمرے میں داخل ہوئے، جہاں دو چارپائیاں پڑی تھیں۔ ہمارے ساتھی نے ہم سے اجازت چاہی کہ میں چیئرمین کو امام کی آمد کی اطلاع کر آتا ہوں۔ چنانچہ وہ چلا گیا اور ہم آدھی رات تک اس کے انتظار میں بیٹھے رہے۔ انتظار کی یہ طویل گھڑیاں بڑی بوجھل تھیں۔

امام شہید نے بڑے پُرسوز لہجے میں قرآنِ مجید کی تلاوت شروع کر دی۔ وہ تلاوت کے وقت اس کے الفاظ و معانی میں ڈوب جایا کرتے تھے۔ پھر مسلمانوں کی حالت ِ زار پر حسرت اور تاسف سے شعر پڑھنے لگے۔ ان اشعار میں اُمت مسلمہ کی دین سے دُوری اور داعیانِ حق سے بے رُخی کا مضمون بڑے اثرانگیز اور دردناک انداز میں سمو دیا گیا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں امام شہید نے میری دلی کیفیت کا اندازہ کر کے محسوس کیا کہ ان کا ساتھی یاس و حُزن کا شکار ہوکر کہیں حوصلہ نہ ہار بیٹھے، تو اُنھوں نے اپنا رُخ بدلا اور اُمید و رجا کا دروازہ کھول دیا۔

اب قرآنِ مجید کی وہ آیات پڑھنے لگے، جن میں فتح و نصرت کی نوید سنائی گئی ہے اور جن میں اہلِ حق کی کامیابیوں کے تذکرے ہیں۔ اسی مناسبت سے اُنھوں نے ایسے اشعار منتخب کیے جو بزدلوں کو بہادری کا راستہ بتانے اور نااُمیدو مایوس دلوں کو روشنی کی کرن دکھانے والے تھے۔   اسی دوران میں ہمارے دوست، چیئرمین صاحب سے مل کر واپس آئے تو معذرت کرتے ہوئے کہنے لگے کہ: ’’میں نے رئیس بلدیہ کو دریا کے کنارے ایک کلب میں دیکھا ہے، جہاں وہ علاقے کے بڑے سرکاری افسر کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف ہیں۔ میں نے اُنھیں آپ کی آمد کی اطلاع دی ہے، مگر اُنھوں نے سلام بھیجتے ہوئے حاضری سے معذوری ظاہر کی ہے‘‘۔

ہمارے میزبان خود بھی بہت نادم اور مغموم تھے مگر بے چارے کیا کرسکتے تھے۔ ہمیں اطلاع دے کر وہ فوراً اپنے گھر گئے اور ہمارے لیے کھانا لائے۔ ہم نے شوق سے کھانا کھایا اور اپنے میزبان دوست کا شکریہ ادا کیا۔ رات تو گزر گئی، مگر اپنے پیچھے عبرت اور سبق کی یادیں چھوڑ گئی۔ یہ تو بس ایک رات تھی۔ ایسی ہی کئی راتیں دیگر دیہات و قصبات میں اس سے ملتے جلتے حالات میں مجھے امام شہید کی پُرکشش رفاقت میں گزارنے کے مواقع ملے۔

اللہ تعالیٰ نے بعض لوگوں کا حال قرآنِ مجید میں یوں بیان کیا ہے:

جب یہ اہلِ ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اور جب علیحدگی میں اپنے شیطانوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اصل میں ہم تو تمھارے ساتھ ہیں اور ان لوگوں سے محض مذاق کر رہے ہیں۔ اللہ ان سے مذاق کر رہا ہے اور وہ اُن کی رسّی دراز کیے جاتا ہے۔ یہ اپنی سرکشی میں اندھوں کی طرح بھٹکتے چلے جاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی ہے مگر یہ سودا اُن کے لیے نفع بخش نہیں ہے اور یہ ہرگز صحیح راستے پر نہیں ہیں۔ (البقرہ ۲:۱۴-۱۶)

  •   بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے:  امام شہید کی جس سفری رُوداد کا ابھی تذکرہ   ہوا ہے، وہ اخوان کے قیام کے چند سال بعد کا واقعہ ہے۔ آپ نے دیکھا کہ اس بستی کے   اصحابِ اقتدار نے امام سے ملاقات اور اُن کی مہمان نوازی سے پہلوتہی کی۔ اخوان کا قافلہ کٹھن گھاٹیوں کو عبور کرتا منزل کی جانب بڑھتا چلا گیا۔ ۱۲فروری ۱۹۴۹ء کو امام شہید کر دیے گئے، مگر تحریک کا کام مسلسل پھیلتا رہا۔ استعماری طاقتوں کے آلۂ کار شاہ فاروق برسرِاقتدار تھے، جن سے نجات حاصل کرنے کے لیے جولائی ۱۹۵۲ء کا فوجی انقلاب اخوان کے تعاون سے آیا تھا۔ اگر اخوان کے اثرات اور خیرخواہی انقلاب کے پشت پناہ نہ ہوتے تو یہ انقلاب کبھی کامیاب نہ ہوسکتا تھا۔

عوام الناس شاہ فاروق کی بدکرداری اور ظلم و ستم سے تنگ تھے۔ اُن کی نظریں اخوان کی جانب اُٹھتی تھیں۔ انقلاب آیا تو اس کے آغاز میں پوری مصری قوم نے چین کا سانس لیا اور اخوان کی تعریف و تحسین کا چرچا ہونے لگا۔ اُس وقت جناب حسن الہضیبی اخوان کے مرشدعام تھے۔ ضلع منیا کے ایک قصبے میں مرشدعام دوم کسی پروگرام میں شرکت کے لیے تشریف لے گئے۔ اب صورتِ حال اور پوری فضا بدل چکی تھی۔

اس علاقے کی ایک معروف سیاسی شخصیت جو کئی مرتبہ انتخابی معرکوں میں کامیابی حاصل کرچکی تھی اور اپنی اخوان دشمنی کے لیے پورے علاقے میں شہرت رکھتی تھی، مرشدعام کی خدمت میں حاضر تھی۔اس سیاسی رہنما نے بڑی لجاجت اور اصرار کے ساتھ مرشدعام سے درخواست کی کہ: میرے گھر میں چند لمحات کے لیے قدم رنجا فرما کر عزت افزائی کریں۔

شیخ الہضیبی خاموش طبع انسان تھے۔ اُنھوں نے فرمایا: ’’ہم جب کسی علاقے میں جاتے ہیں تو ہمارے پروگرام ہمارے مقامی ذمہ داران ترتیب دیتے ہیں۔ آپ اُن سے بات کریں‘‘۔

یوں میں نے دیکھا کہ ۲۰ سال قبل جو لوگ اخوان کے رہنمائوں سے ملنے میں اپنی سُبکی محسوس کرتے تھے، اب دست بستہ مرشدعام کی خدمت میں حاضریاں دینے لگے تھے۔ پروگرام طے ہوا تو مرشدعام پانچ دس منٹ کے لیے اس ’نواب‘ کے محل پر تشریف لے گئے اور چائے کا ایک کپ پی کر واپس چلے آئے۔ علاقے کے سبھی سیاسی لیڈر، مذہبی عمائدین، علما و مشائخ اور جاگیردار دست بستہ امام کے استقبال کے لیے کھڑے تھے۔ عوام الناس کی ایک بڑی تعداد بھی اس موقعے پر وہاں موجود تھی۔ نعرے لگے، ہوائی فائرنگ ہوئی، آتش بازی ہوئی اور نواب خوش ہوگیا کہ اُس کی عزت و وقار میں اضافہ ہوا ہے۔ دراصل یہ چڑھتے سورج کے پُجاری سمجھ رہے تھے کہ اب اقتدار الاخوان کے ہاتھ میں ہے۔ یہ ہمیشہ اپنا قبلہ اقتدار کی جانب دُرست کرتے رہتے ہیں۔

حالات نے دوسرا رُخ اختیار کرلیا اور اخوان ابتلا کے سخت ترین دور سے دوچار ہوگئے، مگر اس واقعے کو یاد کر کے میں سوچتا ہوںکہ کس طرح کمزور اور بے سہارا لوگوں کو اللہ تعالیٰ قوت اور ہمت عطا کرتاہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے:

ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں کمزور بنا دیے گئے تھے اور اُنھیں رہنمائی کے منصب پر فائز کردیں اور انھی کو وارث بنائیں اور زمین میں ان کو اقتدار بخشیں اور اُن سے فرعون و ہامان اور اُن کے لشکروں کو وہی کچھ دکھلا دیں جس کا اُنھیں ڈر تھا۔(القصص ۲۸:۵-۶)

                                                                   

ترجمہ:اِرشاد الرحمٰن

انسانی حُریت اور آزادی وہ حقیقت ہے جو بعض اوقات انسان کی گمراہی کا باعث بھی بن جاتی ہے۔ حُریت فکر اور آزادی کی آڑ میں ہی ملحدین مختلف اعتراضات مدلل انداز میں اُٹھاتے ہیں تاکہ دین کے خلاف دلیل اور حجت قائم کر سکیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ:

                                جب اللہ نے میرے افعال کو میرا اُوپر مقدر طے کر دیا ہے تو پھر وہ حساب کیوںکر لے سکتا ہے؟

                                جب دنیا میں ہر چیز اللہ کی مشیت سے چل رہی ہے تو پھر میرا قصور کیا ہے؟

عملاً تو یہ سوال ایک گتھی کو سامنے لا رکھتا ہے۔ اسی لیے تو نبی کریمؐ نے اپنے صحابہؓ کو تلقین فرمائی تھی کہ اس بحث میں نہ پڑیں۔ فرمایا:’’جب تقدیر کا ذکر آ جائے تو اُس پر بات کرنے سے رک جائو‘‘۔چونکہ یہ ایسا فلسفیانہ عقدہ تھا جس کی بنا پر انسان بے یقینی اور بے ایمانی کے گڑھے میں لڑھک سکتا تھا، لہٰذا آپؐ نے عمیق عقلی دلائل پر قلبی ایمان کو فوقیت اور ترجیح دی۔

کائنات کے اندر ارض و سماوات اور ستاروں پر نظر ڈالیں تو دکھائی دیتا ہے کہ یہ سب ایک مضبوط و محکم سلسلے میں بندھے ہوئے ہیں۔ کائنات کی ہر شے ایک محکم نظام کے تحت چل رہی ہے۔ سورج کا طلوع و غروب ہی بطورِ مثال ملاحظہ کر لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ ایک قانون کے مطابق حرکت کرتا ہے۔ اسی طرح دیگر اشیاے کائنات بھی ایک قانون اور ضابطے کے مطابق چلتی ہیں۔ صرف واحد انسان ہے جو اپنی طبیعت اور حالات و ظروف کے مطابق آزادی، جذبات اور خواہشات کا مالک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کائنات سے متصادم رہتا ہے۔ لیکن یہ ناممکن ہے کہ کسی لمحے کوئی انسان اس بات سے آگاہ ہو سکے کہ اُس کا انجام کب اور کیا ہے؟

اپنے ماحول کی رکاوٹیں اور مزاحمتوں کے باوجود انسان کی حریت ایک حقیقت ہے، کوئی وہم نہیں۔ انسان اپنے دائرۂ ضمیر میں مطلقاً آزاد ہے۔ البتہ اس کے نفاذ و اطلاق میں، یعنی    دائرۂ فعل و عمل میں اس کی آزادی مطلق نہیں بلکہ منسوب ہے۔ یہ اس کے ماحول کے حدود و مزاحمتوں کے مطابق ہوتی ہے۔

اب رہی بات اللہ اور انسان کے مابین تعلق کے حوالے سے اس ازلی راز کی، یعنی مطلق ارادۂ الٰہیہ کے ساتھ انسان کی آزادی کے معاملے کی بات۔

قرآن کہتا ہے کہ انسان کی آزادی اللہ کی مشیت، رغبت اور مراد کے ساتھ وابستہ ہے۔ انسانی آزادی نہ خالق کی طرف سے جبری ہے اور نہ مخلوق کی طرف سے۔ قرآنِ کریم بڑی وضاحت سے کہتا ہے:

وَ لَوْشَآئَ رَبُّکَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ کُلُّھُمْ جَمِیْعًا ط اَفَاَنْتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ o (یونس۱۰:۹۹) اگر تیرے رب کی مشیت یہ ہوتی (کہ زمین میں سب مومن و فرماں بردار ہی ہوں) تو سارے اہل زمین ایمان لے آئے ہوتے۔ پھر کیا تُو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہو جائیں؟۔

اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کرنے سے انکار کیا ہے، حالانکہ یہ اُس کے بس میں تھا، مگر اُس نے انسان کو خودمختار رکھنے کا فیصلہ کیا :

وَ قُلِ الْـحَقُّ مِنْ رَّبِّکُمْ قف فَمَنْ شَآئَ فَلْیُؤْمِنْ وَّمَنْ شَآئَ فَلْیَکْفُرْ لا (الکھف ۱۸:۲۹) صاف کہہ دو کہ یہ حق ہے تمھارے رب کی طرف سے، اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کر دے۔

لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ لا قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ ج (البقرہ۲:۲۵۶) دین کے معاملے میں کوئی زورزبردستی نہیں ہے۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔

وَ لَوْشِئْنَا لَاٰتَیْنَا کُلَّ نَفْسٍ ھُدٰھَا (السجدۃ۳۲:۱۳) اگر ہم چاہتے تو پہلے ہی ہرنفس کو اس کی ہدایت دے دیتے۔

وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَہَدَیْنٰہُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمٰی عَلَی الْہُدٰی (حٰمٓ السجدہ۴۱:۱۷) رہے ثمود، تو اُن کے سامنے ہم نے راہِ راست پیش کی مگر انھوں نے راستہ دیکھنے کے بجاے اندھا بنارہنا ہی پسند کیا۔

اگر ہم ہدایت کے مقابلے میں اندھا پن (گمراہی) اختیار کرنا چاہیں تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کی آزادی دے رکھی ہے۔ اس کی مشیت اسی طریقے سے تو پوری ہوتی ہے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اللہ نے اس سے بھی زیادہ آزادی اور اختیار دے رکھا ہے۔ یعنی ان دونوں راستوں میں سے کسی ایک راستے کے انتخاب کا اختیار دے رکھا ہے۔ اللہ نے یہ امانت جو کہ حریت بھی ہے اور مسئولیت بھی، ہمارے اوپر پیش کی تاکہ ہم اس امانت کو قبول کریں یا اُس کو اٹھانے سے انکار کردیں۔ یہ ہمارا اختیار اور مرضی تھی اور اسی امانت کو اٹھانے سے آسمان و زمین اور پہاڑوں نے انکار کر دیا تھا مگر انسان نے اُس امانت کو اٹھا لیا۔ اس لیے کہ انسان جاہل بھی ہے اور اپنے اُوپر ظلم کرنے والا بھی۔ اس بارِامانت کا تذکرہ یوں ہوا ہے:

اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَہَا وَاَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْاِنْسَانُ ط اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًا o (احزاب ۳۳:۷۲) ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اُسے اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور اُس سے ڈر گئے، مگر انسان نے اُسے اٹھا لیا، بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے۔

انسان اس امانت (ذمہ داری) کے بوجھ اور اس کی ہولناکیوں سے ناآشنا تھا۔ اُسے اس ذمہ داری کو اٹھانے کے بعد جن آزمایشوں کا سامنا کرنا تھا وہ اُن سے آگاہ نہیں تھا۔ اُسے معلوم نہیں تھا کہ یہ ذمہ داری اٹھا کر وہ اپنے اور دوسروں کے ساتھ کیا کیا ظلم و ستم کرے گا، مگر اللہ کو اس بہت بڑی آزمایش کی ہر چیز معلوم تھی ___اُسے معلوم تھا کہ یہی آزمایش، امتحان اور تجربہ انسان کا تزکیہ و تربیت اور تطہیر کرے گا۔ اسی لیے تو فرشتوں سے فرمایا تھا کہ میں جو جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔

اس آزادی کی بنا پر جس کو انسان نے اپنے اختیار و ارادے سے قبول کیا تھا، انسان کے اوپر جواب دہی اور محاسبہ بھی عائد ہو گیا۔ اسی لیے قرآنِ مجید نے حتمی و قطعی انداز میں اشارہ کیا ہے:

کُلُّ امْرِی ءٍ  م بِمَا کَسَبَ رَہِیْنٌo (الطور ۵۲:۲۱)ہر شخص اپنے کسب کے عوض رہن ہے۔

وَ کُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰہُ طٰٓئِرَہٗ فِیْ عُنُقِہٖ ط (بنی اسرائیل ۱۷:۱۳)ہر انسان کا شگون ہم نے اس کے اپنے گلے میں لٹکا رکھا ہے۔

قُلْ لَّا تُسْئَلُوْنَ عَمَّآ اَجْرَمْنَا وَ لَا نُسْئَلُ عَمَّا تَعْمَلُوْنَo (السبا۳۴:۲۵) اِن سے کہو، ’’جو قصور ہم نے کیا ہو اس کی کوئی بازپرس تم سے نہ ہو گی اور جو کچھ تم کررہے ہو اس کی کوئی جواب طلبی ہم سے نہیں کی جائے گی‘‘۔

وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی ط (بنی اسرائیل ۱۷:۱۵) کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔

گویا کوئی شخص کسی دوسرے کا خمیازہ نہیں بھگت سکتا، یا اُس کا گناہ اپنے سر نہیں لے سکتا۔ ہر شخص کا عمل اُس کے اپنے لیے ہے اور اُس کا بار بھی اُسی کے اُوپر ہے۔

اس حریت کے تقاضے کے طور پر اللہ تعالیٰ نے انسان کے ضمیر، اس کی نیت، اور اُس کے دل کی پوشیدہ بات کو ایک قابل احترام اور مقدس دائرہ قرار دے دیا کہ اُس کے اندر جبر اور قہر (مجبوری اور زبردستی) داخل نہیں ہو سکتی۔ اللہ نے تو اپنے آپ سے یہ عہد کر رکھا ہے کہ انسانی ضمیر کا یہ دائرہ قابلِ حُرمت رہے گا، اُس میں اللہ کا لشکر داخل نہیں ہو گا۔

گویا نیت اپنے آغاز اور ابتدا ہی سے مکمل آزاد ہے۔ ہم میں سے ہر شخص جو چاہے اپنے من میں نیت کر سکتا ہے، مضمر رکھ سکتا ہے، مخفی رکھ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا دخل تو اُس لمحے شروع ہوتا ہے جب نیت و ارادہ فعل کے دائرے میں آتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ ہر انسان کو اُس کی نیت کی رُو سے، اُس کے ضمیر کی رُو سے اور اُس کے دل اور من کی چاہت اور مرضی کی رُو سے اُس کے لیے آسانیاں اور سہولتیں دیتا ہے۔ اور یہ عین عدل ہے۔ اسی طرح تو کسی فاعل کا فعل اُس کا اپنا قرار پاسکتا ہے:

فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی o وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی o فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْیُسْرٰی o وَاَمَّا مَنْم بَخِلَ وَاسْتَغْنٰیo وَکَذَّبَ بِالْحُسْنٰی o فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْعُسْرٰی o (اللیل ۹۲:۵-۱۰) تو جس نے (راہِ خدا میں) مال دیا اور (خدا کی نافرمانی سے) پرہیز کیا، اور بھلائی کو سچ مانا، اس کو ہم آسان راستے کے لیے سہولت دیں گے۔ اور جس نے بخل کیا اور (اپنے خدا سے) بے نیازی برتی اور بھلائی کو جھٹلایا، اس کو ہم سخت راستے کے لیے سہولت دیں گے ۔

یہاں اللہ تعالیٰ کا ایک وعدہ یہ بھی ہے کہ وہ دلوں کے ارادوں کے مطابق افعال کے لیے آسانیاں پیدا کرے گا، لہٰذا بَد اور بُرا شخص اپنی برائی کے لیے آسانیاں پائے گا اور نیک و صالح اپنی خیر اور بھلائی کے لیے آسانیاں پائے گا۔_اللہ تعالیٰ جس انسان کے اندر ہدایت کی طلب دیکھتا ہے اُسے ہدایت عطا فرما دیتا ہے، اور جس کے اندر اُسے ضلالت کا علم ہوتا ہے اُس کو شیطانوں کے لیے چھوڑ دیتا ہے کہ وہ اُس کو گمراہ کرتے رہیں:

فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِہِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْہِمْ وَاَثَابَہُمْ فَتْحًا قَرِیْبًاo (الفتح ۴۸:۱۸)  ان کے دلوںکا حال اُس کو معلوم تھا، اس لیے اُس نے ان پر سکینت نازل فرمائی، ان کو انعام میں قریبی فتح بخشی۔

وَ لَوْ عَلِمَ اللّٰہُ فِیْھِمْ خَیْرًا لَّاَسْمَعَھُمْ ط (انفال۸:۲۳) اگر اللہ کو معلوم ہوتا کہ اِن میں کچھ بھی بھلائی ہے تو وہ ضرور اِنھیں سننے کی توفیق دیتا۔

فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ ط (الصف۶۱:۵) پھر جب انھوں نے ٹیڑھ اختیار کی تو اللہ نے بھی اُن کے دل ٹیڑھے کر دیے۔

چونکہ اللہ تعالیٰ ہر شے کا علم پہلے ہی سے رکھتا ہے، اور اُس نے ہر شے کو اپنے علم میں گھیر رکھا ہے، اسی لیے ہم دیکھتے ہیںکہ جن کا انجام بُرا ہوا اُن کے بارے میں اللہ فرماتا ہے:

حَقَّ عَلَیْہِمُ الْقَوْلُ (حٰم سجدہ۴۱:۲۵)آخر اُن پر بھی فیصلہ عذاب چسپاں ہو کر رہا۔

وَ مِنْھُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَیْہِ الضَّلٰلَۃُ ط (النحل۱۶:۳۶) اور ان میں سے کسی پر ضلالت مسلط ہو گئی۔

حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّیْ لَاَمْلَئَــنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَo (السجدہ ۳۲:۱۳) مگر میری وہ بات پوری ہو گئی جو میں نے کہی تھی کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں، سب سے بھر دوںگا۔

اللہ کو انسان کے بارے میں علم تھا کہ یہ زمین میں فساد برپا کرے گا، اپنے اُوپر بھی ظلم ڈھائے گا اور دوسروں پر بھی ستم توڑے گا، اسی بناپر مختلف درجات کی سزا کا مستحق ٹھیرے گا۔

یہ سب کچھ اللہ کے علمِ سابق میں تھا اور ہے۔ لہٰذا جو کچھ انسان کے ساتھ ہو گا وہ کوئی جبر اور زبردستی نہیں۔ اس بات کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک باپ اپنے کسی بیٹے کے اندر علم اور تحصیل علم سے محبت کی علامات دیکھتا ہے تو وہ اُس کو سہولیات اور وسائل فراہم کرتا ہے۔ اگر اُسے اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرونِ ملک بھی جانا پڑے تو اُس کے لیے وسائل کا بندوبست کرتا ہے۔ اس کے برعکس ایک بیٹے کو دنگافساد، بدچلنی اور بری مجلسوں کا رِسیا دیکھتا ہے تو اُس کے لیے اندرونِ ملک بھی محدودتعلیم پر اکتفا کرتا ہے۔ اب اگر باپ ان دونوں کے ساتھ الٹ کرے تو وہ یقیناً ظالم ہو گا اور یوں وہ ان کی رغبت اور مزاج کے خلاف اُن کو مجبور کرے گا۔

اسی طرح ان ظاہری علامات میں جبرواِکراہ کا کوئی دخل نہیں۔ یہ تو پہلے سے حاصل شدہ علم ہے۔ جیسے باپ اپنے فسادی طبع بیٹے کے بارے میں پہلے سے جانتا تھا کہ وہ کھیل کود اور تضیع اوقات کی طرف مائل ہو جائے گا۔ اب بیٹے کا کھیل کود کی طرف مائل ہو جانا اور کتب کو نظرانداز کر دینا باپ کی طرف سے مسلط کردہ زبردستی نہیں ہے، بلکہ یہ تو بیٹے کی طبع اور مزاج تھا جس کا پہلے سے باپ کو علم تھا۔ اور جب تجربہ کیا جاتا ہے تو دل کا حال کھل کرسامنے آ جاتا ہے۔

اسی بنا پر قیامت کے روز عدل و صدق کے ساتھ سزا عائد ہوگی۔ پھر انسان کو اپنے دل کی وہ باتیں معلوم ہو جائیں گی  جن کو وہ نہیں جانتا تھا:

عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ وَاَخَّرَتْo (الانفطار۸۲:۵)اُس وقت ہر شخص کو اس کا اگلا پچھلا سب کیا دھرا معلوم ہو جائے گا۔

خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ط   (الملک۶۷:۲) اُس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔

یعنی کوئی شخص اپنے اعمال و افعال کا کوئی عذر پیش کرنے کے قابل نہ رہے کہ وہ حساب کے وقت کہتا پھرے کہ میں نے تو تربیت، سوسائٹی، ماحول اور رسوم و رواج وغیرہ کی تاثیر کے تحت ایساکیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس موضوع پر قرآنِ مجید میں دوٹوک فرمایا ہے:

لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللہُ بِاللَّغْوِ فِیْٓ اَیْمَانِکُمْ وَلٰکِنْ یُّؤَاخِذُکُمْ بِمَا کَسَبَتْ قُلُوْبُکُمْ ط (البقرہ۲:۲۲۵) جو بے معنی قسمیں تم بلا ارادہ کھا لیا کرتے ہو، اُن پر اللہ گرفت نہیں کرتا، مگر جو قسمیں تم سچے دل سے کھاتے ہو، اُن کی بازپرس وہ ضرور کرے گا۔

وَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ فِیْمَآ اَخْطَاْتُمْ بِہٖ لا وَلٰکِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُکُمْ ط (الاحزاب۳۳:۵)نادانستہ جو بات تم کہو اُس کے لیے تم پر کوئی گرفت نہیں ہے، لیکن اس بات پر ضرور گرفت ہے جس کا تم دل سے ارادہ کرو۔

اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں کلام کیا ہے جو ایمان لانے کے بعد دوبارہ کفر کی طرف پلٹ گئے، انھیں شدید ترین عذاب کی دھمکی سنائی ہے اور ساتھ ہی اُن لوگوں کو اِن میں سے مستثنا کر لیا ہے جو:

اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَ قَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّم بِالْاِیْمَانِ (النحل۱۶:۱۰۶) مگر وہ شخص (عذاب سے بچ گیا)جس کو کفر پر مجبور تو کیا گیا مگر اُس کا دل مطمئن رہا۔

یعنی وہ شخص جس نے تعذیب و تشدد کے تحت زبان سے کفر کا اظہار کر دیا مگر اُس کا دل بدستور مومن رہا۔ مطلب یہ ہوا کہ دل میں قرار پکڑنے والی کیفیت محاسبے کا درجۂ اوّل میں موضوع ہے۔ وہ چیز قابلِ محاسبہ نہیں جو فعل کے سٹیج پر آ گئی ہے، بلکہ دل میں مخفی اور پوشیدہ کیفیت محلِ ابتلا اور محلِ محاسبہ ہے:

یَوْمَ تُبْلَی السَّرَآئِرُo (الطارق۸۶:۹) جس روز پوشیدہ اَسرار کی جانچ پڑتال ہو گی۔

سریرہ حالات و ظروف اور معاشرہ و ماحول اور تربیت سے آگے کا سربستہ راز ہے۔ یہی ابتداے مطلق ہے۔ وہ ابتدا، جسے اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی حدود و قیود سے آزادی دے رکھی ہے۔

یہی انسان کی رو ح ہے، اور یہ انسان کی حقیقت کو بعینہٖ اسی طرح منکشف کرتی ہے جس طرح انسان کی انگلیوں کے نشانات اُس کی انفرادیت کو واضح کرتے ہیں۔ انسان کی روح میں  اللہ کی طرف سے حریت رکھی گئی ہے کیونکہ یہ اللہ کا نفخہ (پھونک) ہے:

فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَ نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِیْنَo (الحجر ۱۵:۲۹) جب میں اُسے پورابناچکوں اور اس میں اپنی رُوح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا۔

چونکہ یہ انسان کے اندر اللہ کے نور کا ایک قبس (چنگاری) ہے اور اللہ نے انسان کو ارادے کی آزادی سے بھی عزت بخش رکھی ہے، لہٰذا وہ اس آزادی پر قابلِ محاسبہ ہے۔ اور یہ عطاے الٰہی کی بھی انتہا ہے اور عدل کی بھی۔

یہاں گہرے مفہوم والی آیات کی روشنی میں اللہ اور روح کے درمیان امتزاج سامنے آتا ہے:

فَلَمْ تَقْتُلُوْھُمْ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ قَتَلَھُمْ ص وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی ج (الانفال۸:۱۷) پس حقیقت یہ ہے کہ تم نے انھیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو قتل کیا اور اے نبیؐ، تو نے نہیں پھینکا بلکہ اللہ نے پھینکا ۔

یعنی جب آپؐ کے ہاتھ سے آپؐ  کو نصرت مل رہی تھی عین اُسی وقت اللہ کے ہاتھ سے نصرت عطا ہو رہی تھی۔ لہٰذا لمحۂ نصرت میں آپؐ کا دست مبارک اللہ ہی کا دست قدرت تھا، آپؐ  کا پھینکنا اللہ ہی کا پھینکنا تھا، آپؐ  کی مشیت اللہ ہی کی مشیت تھی۔

یہاں یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ پھر نیت ایک دوسری مقدرت (قدرت)کیوں نہیں ہے؟

اس کا جواب بھی قرآن کے اندر ہی سے ملتا ہے:

فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ لا فَزَادَھُمُ اللّٰہُ مَرَضًا ج (البقرہ۲:۱۰) ان کے دلوں میں ایک بیماری ہے جسے اللہ نے اور زیادہ بڑھا دیا۔

کَذٰلِکَ یُضِلُّ اللّٰہُ مَنْ ہُوَ مُسْرِفٌ مُّرْتَابُ o (المؤمن۴۰:۳۴) اسی طرح اللہ اُن سب لوگوں کو گمراہی میں ڈال دیتا ہے جو حد سے گزرنے والے اور شکی ہوتے ہیں۔

وَالَّذِیْنَ اہْتَدَوْا زَادَہُمْ ہُدًی (محمد۴۷:۱۷)وہ لوگ جنھوں نے ہدایت پائی ہے، اللہ اُن کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے۔

فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ ط(الصف ۶۱:۵)پھر جب انھوں نے ٹیڑھ اختیار کی تو اللہ نے بھی ان کے دل ٹیڑھے کر دیے۔

سَاَصْرِفُ عَنْ اٰیٰــتِیَ الَّذِیْنَ یَتَکَبَّرُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّط (اعراف ۷:۱۴۶) میں اپنی نشانیوں سے اُن لوگوں کی نگاہیں پھیر دوں گا جو بغیر کسی حق کے زمین میں بڑے بنتے ہیں۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ نیت اور ارادے کی ابتدا اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ سے انسان کے لیے چھوڑ رکھی ہے۔ اللہ کی قضا اور قدر اس کے بعدآتی ہے اور پھر انسان کے دل میں مرض ہو تو اُسے بڑھا دیتی ہے اور اگر اُس کے دل کی گہرائیوں میں ہدایت کے لیے میلان و رجحان ہو تو ہدایت سے انسان بہرہ مند ہو جاتا ہے۔ اگر تکبر وغرور اُس کے اندر پیدا ہو جائے تو ہدایت سے پلٹ کر ضلالت کی طرف چلا جاتا ہے۔

ضمیر کا علاقہ و دائرہ ہمیشہ انسان کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ جو چاہے جی میں لے آئے اور قضاے الٰہی اس کے بعد نازل ہوتی اور اپنافیصلہ نافذ کرتی ہے۔ کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی انسان پر برائی اور ظلم کا ارادہ و نیت ٹھونس دے:

وَاِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً قَالُوْا وَجَدْنَا عَلَیْہَآ اٰبَآئَ نَا وَاللّٰہُ اَمَرَنَا بِہَا ط قُلْ اِنَّ اللّٰہَ لَایَاْمُرُ بِالْفَحْشَآئِ ط اَتَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَo (اعراف۷:۲۸) یہ لوگ جب کوئی شرم ناک کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہم نے اپنے باپ دادا کو اِسی طریقے پر پایا ہے اور اللہ ہی نے ہمیں ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔ان سے کہو، اللہ بے حیائی کا حکم کبھی نہیں دیا کرتا۔ کیا تم اللہ کا نام لے کر وہ باتیں کہتے ہو جن کے متعلق تمھیں علم نہیں ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے ہیں؟ ۔

یہ بات اس چیز کی دلیل ہے کہ خلقِ اول کا قانون یہ ہے کہ روح ہمیشہ ایک مقدس و محترم حرم رہے گا جس میں زبردستی کا دخل نہیں ہو گا، نہ اللہ تعالیٰ ہی اور نہ اُس کے لشکر اور انبیا و رسل ہی اس حرم پر کوئی زبردستی کریں گے۔

۱۹۳۵ء میں مہاراشٹر (بھارت) کے ضلع ناسک میں خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر بی آر امبیدکر    نے اعلان کیا تھا کہ: ’’میں ہندو گھر میں پیدا ہوا ہوں، مگر ہندو کی حیثیت سے مرنا نہیں چاہتا‘‘۔    پھر ۳۱مئی ۱۹۳۶ء کو ممبئی میں مہار کانفرنس کا انعقاد کیا، جہاں انھوں نے اپنی ہم نسل دلت [شودر] برادری کے ہزاروں شرکا سے خطاب کرتے ہوئے، ہندو مذہب سے عملاً بغاوت کا اعلان کیا۔ یہاں اس تقریر Why Go for Conversion? کا اُردو ترجمہ پیش ہے۔ اس خطبے میں ڈاکٹر امبیدکر نے شرفِ انسانی کے خلاف ہندو قوم پرستانہ رویوں کو بڑی خوبی سے بیان کیا ہے۔ گذشتہ دنوں صوبہ سندھ اسمبلی نے یہ قانون بنایا ہے کہ : ’’۱۸سال سے کم عمر ہندو مذہب تبدیل نہیں کرسکیں گے‘‘۔ مراد یہ ہے کہ صوبہ سندھ میں اگر کوئی ہندو اپنا مذہب چھوڑنا چاہے تو، اس کے بچے یا پھر کوئی جواں عمر مذکورہ سن و سال تک پہنچنے سے پہلے مذہب تبدیل نہ کرسکے گا۔ اس متنازعہ اور بے جواز فیصلے کے پس منظر میں یہ مضمون پڑھنا مفید ہوگا۔ (س    م    خ)

 تبدیلیِ مذہب کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے اور نہ یہ تفریح طبع کا موضوع ہے۔ میرے نزدیک تبدیلیِ مذہب کا مقصد یہ ہے کہ انسان کی زندگی کیسے کامیاب بنائی جائے؟ جس طرح بحری سفر شروع کرنے سے پہلے ایک ملاح اپنی کشتی اور ساری تیاریاں کرتا ہے، اسی طرح ہمیں [یعنی چھوٹی ذات کے ہندوئوں کو] بھی تبدیلیِ مذہب  کے لیے تیاری کرنی ہوگی۔ اس لیے جب تک مجھے یہ معلوم نہ ہوجائے کہ کتنے لوگ ہندوازم کے دائرے کو ترک کرنے کے لیے تیار ہیں، مَیں تبدیلیِ مذہب کے لیے کوئی بڑی تحریک شروع نہیں کرسکتا۔

عام آدمی کے لیے تبدیلیِ مذہب کا عنوان بڑا اہم ہے، لیکن اسے سمجھنا مشکل ہے۔

طبقاتی کش مکش

دراصل تبدیلیِ مذہب کے دو پہلو ہیں: سماجی و مذہبی اور مادّی و روحانی۔ اب مسئلے کا جو   پہلو بھی ہو، یا سوچ بچار کا جو کچھ بھی طریقہ ہو، ’چھوت چھات‘ (untouchability) کی   شروعات اور اس سے پیداشدہ صورتِ حال اور اس پر عمل درآمد کے طریقوں کا سمجھنا ضروری ہے۔ اس تفہیم (understanding) کے بغیر آپ مذہبی تبدیلی کے میرے اعلان کے حقیقی معانی کو  نہیں سمجھ سکتے۔ ’چھوت چھات‘ کا صحیح فہم اور حقیقی زندگی میں اس کے عملی اظہار کا ٹھیک ٹھیک اندازہ کرنے کے لیے مَیں آپ کو اُن مظالم کی داستانوں کی یاد دلائوں گا، جو آپ پر ہوتے رہے ہیں، لیکن آپ میں سے کم ہی نے یہ محسوس کیا ہوگا کہ یہ سب کیوں ہوتا چلا آیا ہے؟ اس ظلم کا سرچشمہ (root) کیا ہے؟ بہرحال، میرے نزدیک یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اسے سمجھیں۔

’چھوت چھات‘ کا یہ جھگڑا کوئی دو افراد کے درمیان پیداشدہ تنازع نہیں ہے، بلکہ یہ مسئلہ طبقاتی کش مکش کا معاملہ ہے۔ یہ اعلیٰ ذات والے ہندوئوں اور اچھوتوں کے درمیان ایک کش مکش ہے۔ یہ کسی ایک آدمی سے بے انصافی کا بھی سوال نہیں ہے، بلکہ یہ ایک طبقے کا دوسرے طبقے کے ساتھ صریحاً غیرمنصفانہ رویّہ اپنانے کا مسئلہ ہے۔ یہ طبقاتی کش مکش سماجی مقام سے تعلق رکھتی ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ ایک طبقہ دوسرے طبقے سے کس طرح کے تعلقات بنائے رکھتا ہے، اور یہ کش مکش اُسی لمحے شروع ہوجاتی ہے، جب آپ دوسروں کی طرح اپنے لیے برابری کے سلوک کا مطالبہ کرتے ہیں۔

  •  غلاموں کے لیے تبدیلی نہیں: اُونچی ذات والوں کے غصے کا سبب بہت سادہ سی بات ہے۔ آپ کی جانب سے مساویانہ برتائو کا مطالبہ انھیں بے عزتی (insult) کا احساس دلاتا ہے۔ چھوت چھات کم عرصے کی یا عارضی زمانے کی بات نہیں ہے، یہ ہمارے معاشرے کی مستقل بیماری ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ اس صورتِ حال کی اصلاح کے لیے ہندوئوں اور اچھوتوں میں مستقل کش مکش رہے گی۔

یہ کش مکش ازلی ہے۔ اس لیے وہ مذہب، جس نے تمھیں معاشرے کے سب سے نچلے طبقے میں رکھا ہے، وہ اُونچی ذات کے ہندوئوں کے نزدیک اَزلی اور ابدی (eternal) ہے۔ ان کے عقیدے کے مطابق وقت اور حالات کے لحاظ سے ذات پات کے اس نظام میں کوئی تبدیلی ممکن ہی نہیں ہے۔ آج تم سیڑھی (ladder) کے سب سے نچلے پاے دان پر کھڑے ہو، تم ہمیشہ اسی پاے دان پر کھڑے رہو گے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہندوئوں اور اچھوتوں کی کش مکش ہمیشہ جاری رہے گی۔ سوال یہ ہے کہ تم اس کش مکش سے کس طرح زندہ بچ کر نکل سکو گے؟

اگر تم اس سوال پر غور نہ کروگے تو اس سے نجات مشکل ہے۔ وہ لوگ جو ہندوؤں کے بے دام غلام بن کر رہنا چاہتے ہیں، خود اُن کے احکام کے پابند رہنا چاہتے ہیں،اُنھیں تو اس مسئلے پر غور کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ لیکن آپ میں سے جو عزت کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں، جو  عزتِ نفس (self respect) رکھتے ہیں اور مساوات (equality) کے طالب ہیں، اُنھیں اس بات پر ضرور سوچنا ہوگا کہ ہم اس کش مکش سے کیسے نکلیں؟ میرے لیے اس سوال کا جواب دینا کچھ مشکل نہیں ہے۔ سب لوگ اس بات پر متفق ہوں گے کہ فاتح وہ ہوتا ہے جس کے پاس قوت ہوتی ہے، جس کے پاس طاقت نہیں اُسے کامیابی کی توقع بھی نہیں رکھنی چاہیے۔ یہ بات تجربے سے ثابت ہوچکی ہے۔ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے مجھے مثال دینے کی ضرورت نہیں ہے۔

قوت حاصل کرو

آپ کو جس سوال پر غور کرنا چاہیے، وہ یہ ہے کہ کیا اس کش مکش سے کامیاب نکلنے اور زندگی پانے کے لیے آپ کے پاس کافی قوت ہے؟ آدمی کے پاس تین قسم کی طاقتیں ہوتی ہیں: ۱- افرادی قوت (manpower)، ۲- مالی قوت (finance)، ۳- ذہنی قوت (mental strength)۔

ذرا سوچیے! ان میں سے کون سی قوت آپ کے پاس موجود ہے؟ جہاں تک افرادی قوت کا سوال ہے، یہ بات واضح رہے کہ تم اقلیت میں ہو۔ ممبئی ریذیڈنسی میں تم پوری آبادی کا آٹھواں حصہ ہو اور وہ بھی غیرمنظم۔ پھر خود تمھارے اپنے درمیان بھی ذاتیں ہیں، جو تمھیں منظم نہیں ہونے دیتیں۔ آپ مجتمع بھی نہیں ہوتے اور گائوں میں منتشر ہیں۔ ان حالات میں یہ چھوٹی سی آبادی اچھوتوں کی طرف سے لڑنے کے لیے کسی کام کی نہیں۔ مالی قوت کا بھی یہی حال ہے۔ یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ آپ کے پاس افرادی طاقت تو کچھ ہے بھی، لیکن مالی قوت تو بالکل ہی نہیں ہے۔ آپ کے پاس نہ تجارت ہے، نہ کاروبار اور نہ نوکری اور نہ زمین ہے۔ اُونچی ذات والوں کے پھینکے ہوئے روٹی کے ٹکڑے آپ کی روزی ہیں۔ آپ کے پاس کھانا تک نہیں، نہ کپڑے ہیں۔ آپ کیا مالی قوت رکھ سکتے ہیں؟ عدالتوں سے انصاف تک نہیں مانگ سکتے۔ ہندوئوں کے ہاتھوں ہزاروں اچھوت، ظلم اور بے عزتی برداشت کرتے ہیں، مگر حرفِ شکایت زبان پر نہیں لاسکتے، کیوں کہ اُن کے پاس عدالتی اخراجات کے لیے پیسہ نہیں ہوتا۔

اب رہی ذہنی قوت، تو اس کا معاملہ اور بھی زیادہ خراب ہے۔ ظلم و زیادتی اور بے عزتی سہتے سہتے آپ لوگوں میں سے عزتِ نفس اور بغاوت کا احساس ہی مٹ گیا ہے۔ اعتماد کوپروان چڑھانے، قوت کے حصول اور اُبھرنے کی خواہش ہی مرچکی ہے۔ آپ سب بے یارومددگار کمزور اور خزاں رسیدہ ہوکر رہ گئے ہیں۔ اب آپ کے چاروں طرف صرف شکست خوردگی، پسپائی اور مایوسی کا ماحول ہے۔ آپ کے ذہنوں میں اس خیال کی ذرّہ برابر رمق بھی نہیں کہ آپ کچھ کرسکتے ہیں۔

مسلمانوں کی مثال

جو کچھ میں نے کہا، اگر یہ درست ہے تو آپ کو اس نتیجے سے بھی متفق ہونا پڑے گا، جو ان حالات سے خود بخود پیدا ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ اپنی ہی قوت پر اعتماد کریں تو آپ ہندو اکثریت کی زیادتیوں کا کبھی مقابلہ نہیں کرسکتے۔ مجھے اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ آپ مظلوم اس لیے ہیں کہ آپ میں قوت کی کمی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ تنہا آپ اقلیت میں ہیں۔ اس معاشرے میں مسلمان بھی اقلیت ہیں۔ مہرمنگوں کی طرح ہر گائوں میں اُن کے بھی دوچار گھر ہوتے ہیں، لیکن انھیں کوئی نہیں ستاتا، جب کہ آپ ہمیشہ ظلم کا شکار رہتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟… یہ ایک بڑا اہم سوال ہے اور آپ کو اس کا مناسب جواب ڈھونڈنا ہے۔

میری راے میں اس سوال کا ایک ہی جواب ہے اور وہ یہ ہے کہ ہندو محسوس کرتے ہیں کہ ہندستان کے سارے مسلمانوں کی قوت ان چند گھروں کے پیچھے ہے جو کسی گائوں میں رہتے ہیں، اس لیے وہ انھیں چھو نہیں سکتے۔ وہ دو چار گھر ہی آزاد اور بے خوف زندگی گزارتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر اُن پر ظلم ہوا تو پنجاب سے مدراس تک ساری مسلمان برادری اُن کے تحفظ کے لیے اُٹھ کھڑی ہوگی۔ اِس کے برخلاف ہندوئوں کو یقین ہے کہ آپ کی مدد کے لیے کوئی نہیں آئے گا۔ آپ کی کوئی مدد نہیں کرے گا۔ آپ کی کوئی مالی امداد نہ ہوگی۔ تحصیل دار اور پولیس اُونچی ذات کے ہندو ہوتے ہیں اور آپ میں اور اُونچی ذات والوں میں جھگڑا ہو تو وہ اپنے فرض سے وفاداری کے بجاے اپنی قوم کے لوگوں سے زیادہ وفاداری دکھاتے ہیں۔ آپ بے سہارا ہیں۔ اس لیے اُونچی ذات والے ہندو آپ پر ظلم کرتے ہیں۔

اس بحث سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں: l پہلی یہ کہ آپ قوت کے بغیر ظلم کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ l   دوسری یہ کہ آپ میں ظلم سے ٹکرانے کی قوت نہیں ہے۔

ان دو نتائج سے لازمی طور پر ایک اور بات سامنے آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ: lظلم سے ٹکرانے کی یہ قوت باہر سے حاصل کرنی ہوگی۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ قوت آپ کہاںسے حاصل کریں گے؟ تعصب سے بالا رہ کر آپ اس سوال پر غور کریں۔ اس سے آپ کو ایک چیز کا احساس ہوگا کہ جب تک آپ کسی دوسرے معاشرے سے قریبی تعلقات استوار نہ کریں گے، جب تک آپ کسی دوسرے مذہب میں شامل نہ ہوجائیں گے، اس وقت تک آپ باہر سے قوت حاصل نہیں کرسکتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو اپنے موجودہ مذہب کو چھوڑنا ہوگا اور کسی دوسرے معاشرے میں داخل ہونا پڑے گا۔ اس کے بغیر آپ اُس معاشرے سے قوت حاصل نہیں کرسکتے اور جب تک آپ میں یہ قوت نہ ہو، آپ اور آپ کی آیندہ نسلیں اس حالت ِ زار میں زندگی گزارنے پر مجبور رہیں گی۔

تبدیلی مذہب کا رُوحانی پہلو

اب تک، ہم نے تبدیلیِ مذہب کے مادی فوائد پر غور کیا ہے۔ اب میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہماری روحانی صحت کے لیے بھی تبدیلیِ مذہب کیوں ضروری اور خوش بختی ہے؟ مذہب کیا ہے اور وہ کیوں ضروری ہے؟

’’جو لوگوںپر حکم چلائے وہ مذہب ہے‘‘.... یہ مذہب کی سچی تعریف ہے۔ ہندو معاشرے میں ایک فرد کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہندو مذہب، طبقاتی تقسیم کے تصور پر مبنی ہے۔ ہندو مذہب یہ تعلیم نہیں دیتا کہ ایک فرد دوسرے فرد سے کس طرح کا تعلق واسطہ رکھے، بلکہ اُس کا سارا نظام طبقاتی تصورات پر قائم ہے اور ایسا مذہب جو فرد کو انفرادیت نہ دے سکے، وہ میرے لیے قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔

فرد کی ترقی کے لیے تین عوامل اہم تر ہیں اور وہ ہیں: ہمدردی، مساوات اور آزادی۔

کیا آپ تجربے کی بنیاد پر بتا سکتے ہیں کہ اِن تینوں عوامل میں سے آپ کو ہندومت میں کیا کیا حاصل ہے؟

  •  ہندو مت میں کوئی مساوات نہیں: عدم مساوات کی یہاں سے زیادہ زندہ مثال دنیا کے کسی دوسرے معاشرے میں کہیں بھی نہیں مل سکتی۔انسانیت کی تاریخ میں ایسی عدم مساوات کبھی اور کہیں نہیں رہی ہے جو چھوت چھات سے زیادہ شدید تر ہو۔ میرا خیال ہے کہ آپ اس حال میں اس لیے پہنچے ہیں کہ آپ ہندومت میں برابر شامل رہے۔ آپ میں سے جو لوگ بھی مسلمان ہوگئے ہیں، اُن سے ہندو بھی اچھوتوں جیسا غیرمساویانہ سلوک نہیں کرتے۔ یہی بات اُن لوگوں کے بارے میں بھی صحیح ہے جو عیسائی ہوگئے ہیں۔

یہ ایک تسلیم شدہ بات ہے کہ خدا کا وجود ہمہ گیر ہے، مگر شاید یہ مذہب کا اصول نہیں، کیونکہ مذہب بہرحال انسانی حوالے سے براہِ راست تعلق رکھتا ہے۔ ہندوئوں کا شمار اُن ظالم لوگوں میں  کیا جاسکتا ہے جن کے قول و عمل میں قطبین کی دُوری ہے، جن کی زبان پر رام رام ہے اور بغل میں چھری ہے۔ وہ بنتے تو مقدس ولی ہیں مگر ان کا عمل قصابوں جیسا ہے۔

گویا ہم صرف ہندوئوں کی نظر ہی میں ذلیل نہیں بلکہ ہم سارے ملک میں سب سے زیادہ نیچ ہیں۔ اگر آپ اس شرم ناک حالت سے نکلنا چاہتے ہیں، یا اس گندگی (filth)سے پاک ہونا چاہتے ہیں اور زندگی کو نفاست سے گزارنا چاہتے ہیں تواس کا صرف ایک طریقہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ آپ ہندو مذہب اور معاشرے کے اس بندھن کو توڑ ڈالیں جس میں صدیوں سے بندھے ہوئے ہیں۔ آپ کسی چیز کا مزا تو بدل سکتے ہیں مگر زہر، امرت نہیں بن سکتا۔ ہندو مذہب میں قائم شد ہ ذات پات کے نظام کو مٹانے کی بات ایسی ہی ہے جیسے زہر کو امرت بنانے کی بات ہو۔

مختصراً بات یہ ہے کہ جب تک ہم ایک ایسے مذہب سے بندھے رہیں گے جو ایک انسان کو دوسرے سے اس طرح کے ربط کی تعلیم دیتا ہے جیسے جذام زدہ (Leper) سے، تو اس وقت تک اُونچ نیچ اور ذات پات کا تصور جو ہمارے ذہنوں میں رچا بسا ہے مٹ نہیں سکتا۔ ذات پات مٹانے اور چھوت چھات ختم کرنے کے لیے صرف مذہب کی تبدیلی کا تریاق (antidot) ہی کام آئے گا۔

  •  آپ ہندو نہیں ہیں: اچھا، تبدیلیِ مذہب میں کون سی ایسی بات ہے جو عجیب ہو؟     سچ پوچھیں تو آج بھی اُونچی ذات کے ہندوئوں سے آپ کے کیا سماجی تعلقات ہیں؟ آپ ہندوئوں سے اتنے ہی الگ تھلگ ہیں جیسے مسلمان یا عیسائی ہیں۔ ایسا ہی اُن سے آپ کا رشتہ بھی ہے۔ آپ کا معاشرہ اور ہندو معاشرہ دو الگ الگ گروہ ہیں۔ آپ کی تبدیلیِ مذہب سے یہ کوئی نہیں  کہہ سکتا کہ معاشرے میں انتشار پیدا ہوجائے گا۔ آپ ہندوئوں سے تب بھی اتنے ہی علیحدہ رہیں گے، جتنے آج ہیں۔ اس لیے اُن تعلقات کے حوالے سے تبدیلیِ مذہب اور نئے مذہب میں جانے سے لوگ ڈرتے کیوں ہیں؟ کم سے کم میری سمجھ میں تو اس خوف کا کوئی سبب نہیں آتا۔

اصلاح نہیں صرف انقلاب!

تبدیلیِ مذہب بظاہر ایسا ہی ہے جیسے کوئی نام بدل دے۔ تبدیلیِ مذہب کے ساتھ نام کی تبدیلی تو آپ کے لیے اور بھی زیادہ مفید ہوگی۔ اپنے کو مسلمان، عیسائی، بدھ، یا سکھ کہنا صرف  تبدیلیِ مذہب نہیں ہے بلکہ اس سے نام بھی بدلتا ہے۔ تبدیلیِ مذہب کی اس تحریک پر مختلف لوگوں نے اعتراض کیے ہیں۔ آیئے، اِن اعتراضات کی حقیقت پر غور کریں:

یہ بات تو کوئی پیدایشی احمق ہی کہہ سکتا ہے کہ ہمیں اپنے مذہب [ہندومت] سے اس لیے چمٹے رہنا چاہیے کہ یہ ہمارے بزرگوںکا مذہب ہے۔ اس تجویز کو کوئی عقل مند تسلیم نہ کرے گا۔ ایسے لوگ جو یہ نکتہ اُٹھاتے ہیں وہ شاید تاریخ پر نظر نہیں رکھتے۔

قدیم آریائی مذہب ’ویدک دھرم‘ کہلاتا تھا اور اُس کی تین خصوصیات تھیں: l گائے کا گوشت کھانا lشراب پینا اور l ناچنا گانا۔ اس دھرم پر ہزاروں لوگ عمل کرتے تھے بلکہ بعض لوگ تو آج بھی اس مذہب میں لوٹ جانے کا خواب دیکھتے ہیں۔ اگر پرانے مذہب ہی سے چمٹے رہنا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ بھارت کے لوگوں نے پہلے ہندومت کو چھوڑ کر بدھ مت کیوں قبول کیا تھا؟… سچ یہ ہے کہ ہندومت ہمارے آباواجداد کا مذہب نہیں ہے ۔ یہ تو ایک طرح کی غلامی ہے جو اُن پر تھوپ دی گئی تھی۔

ہندو معاشرے کا سُدھار (reform) نہ ہمارا مقصد ہے اور نہ ہمارا دائرۂ عمل۔ ہمارا مقصد تو حصولِ آزادی ہے، ہمیں اور کچھ نہیں چاہیے۔ اگر تبدیلیِ مذہب سے ہمیں آزادی مل سکتی ہے تو پھر ہم ہندو معاشرے کے سُدھارنے کا کام اپنے ذمے کیوں لیں؟ ہم اپنی قوت اور استعداد اس کام میں کیوں لگائیں؟ کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہیے کہ ہماری تحریک کا مقصد ہندو معاشرے کی اصلاح ہے۔ نہیں، ہرگز نہیں، بلکہ ہماری تحریک کا مقصد اچھوتوں کے لیے سماجی آزادی کا حصول ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ یہ مطلوبہ آزادی تبدیلیِ مذہب کے بغیر کسی طور پر ممکن نہیں ہے۔

  •  یوں ذات پات ختم نہ ہوگی: مجھے تسلیم ہے کہ اچھوتوں کو بھی مساوات کی ضرورت ہے اور یہ مساوات حاصل کرنا بھی ہمارا مقصود ہے۔ لیکن یہ کہنا صحیح نہیں  ہے کہ: ’’یہ مساوات ہندو رہتے ہوئے ہی حاصل ہوسکتی ہے، ہندوازم سے باہر رہ کر نہیں‘‘۔ دراصل مساوات حاصل کرنے کے دو طریقے ہیں:
  •  ایک: ہندو مذہب کے دائرے میں رہتے ہوئے۔
  • دوسرے: مذہب کی تبدیلی کے ذریعے اور ہندو مذہب کے حصار سے باہر نکل کر۔

اگر ہندومت کے حصار میں رہتے ہوئے مساوات حاصل کرنی ہو تو محض اچھوت ہونے یا نہ ہونے کا احساس قطعاً فائدہ مند نہ ہوگا۔ مساوات تو تبھی حاصل ہوسکتی ہے جب ساتھ مل جل کر کھانا پینا اور شادیاں ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چترورن [برہمن، کھشتری، ویش، شودر] ختم کر دیا جائے اور برہمنی مذہب کا خاتمہ ہوجائے۔ کیا یہ ممکن ہے؟ اگر نہیں تو کیا یہ عقل مندی ہوگی کہ ہم ہندومت میں رہتے ہوئے مساوات کی توقع کریں؟ کیا اس حصار میں رہتے ہوئے آپ مساوات کے حصول کی کوششوں میں کامیاب ہوسکتے ہیں؟ بے شک نہیں! اس لیے تبدیلیِ مذہب کا راستہ ہی سب سے زیادہ مؤثر اور مفید ہے۔ ہندو معاشرہ بھی مسلمانوں اور عیسائیوں کے ساتھ مساوات کا سلوک کرتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ سماجی مساوات تبدیلیِ مذہب کے ذریعے زیادہ بہتر طریقے پر حاصل ہوسکتی ہے۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو پھر ہم تبدیلیِ مذہب کے سادہ اور فطری طریقے کو کیوں نہ اپنائیں؟

  •  مذہب کی تبدیلی سب سے آسان راستہ: میری راے میں، اس تبدیلیِ مذہب سے اُچھوتوں اور ہندوئوں دونوں کو خوشی ملے گی۔ جب تک آپ ہندو رہیں گے ، سماجی تعلقات کی استواری اور کھانے پینے اور اُونچی ذات کے درمیان شادیوں کے لیے لڑتے رہیں گے، اور جب تک یہ کش مکش جاری رہے گی آپ کے اور اُونچی ذات کے ہندوئوں کے درمیان دشمنی جاری رہے گی۔ تبدیلیِ مذہب سے ان تمام جھگڑوں کی بنیاد ختم ہوجائے گی… اس طرح تبدیلیِ مذہب سے اگر مساوات اور برابری مل سکے اور ہندوئوں اور اُچھوتوں کے درمیان قربت لائی جاسکے تو مساوات حاصل کرنے کے اس سادہ اور آسان طریقے کو برسرِکار کیوں نہ لائیں۔ اس زاویۂ نظر سے دیکھیں تو محسوس ہوگا کہ یہ تبدیلیِ مذہب ہی حصولِ آزادی کا واحد درست راستہ ہے، جس سے سچ مچ کی برابری مل سکے گی۔ یہ نہ بُزدلی ہے نہ [حقائقِ زندگی] سے فرار۔
  •  دیگر مذاہب میں ذات برادری کا فرق: مسلمانوں اور عیسائیوں میں بھی ذاتیں ہیں، لیکن یہ خیال کرنا کہ ان میں اور ہندوئوں کے ذات پات نظام میں یکسانیت ہے، سراسر کم فہمی پر مبنی خیال ہوگا۔ ہندوئوں کے ذات پات کے نظام اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے ہاں ذات کے خیال رکھنے میں بہت زیادہ فرق ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اگرچہ عیسائیوں اور مسلمانوں کی سماجی زندگی میں ذات کا احساس پایا جاتا ہے مگر وہ اُن کی سماجی زندگی کا خاص امتیاز نہیں ہے۔

ہندوئوں کے ذات پات کے نظام اور مسلمانوں کے سماجی نظام میں ایک اور فرق ہے، اور وہ یہ کہ ہندوئوں کے ذات پات کی بنیاد مذہب میں ہے۔ دوسرے مذاہب ذات کے فرق کو مذہبی حیثیت نہیں دیتے۔ چنانچہ ہندو ذات پات کو ختم کریں تو اُن کا دین ہی ختم ہوجائے گا ۔ مسلم اور عیسائی اپنے ہاں دَر آنے والے ذات پات کا فرق مٹائیں تو انھیں بڑے پیمانے پر مذہبی حمایت ملے گی اور ان کا مذہب تباہی سے دوچار نہ ہوگا۔

تبدیلیِ مذہب کا  حاصل؟

بعض احباب مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ: ’’تنہا تبدیلیِ مذہب سے کیا حاصل ہوگا؟‘‘ تو مجھے تعجب ہوتا ہے۔ آج کے اکثر سکھ، مسلمان اور عیسائی پہلے ہندو ہی تھے اور ان کی غالب اکثریت شودروں اور اچھوتوں میں سے تھی۔ کیا ان احباب کا کہنا یہ ہے کہ جن لوگوں نے ہندو مذہب کو چھوڑا اور اسلام، عیسائیت یا سکھ مت قبول کیا، تو انھوں نے کوئی ترقی نہ کی؟، اور اگر یہ بات سچ نہیں ہے اور یہ تسلیم کیا جائے کہ تبدیلیِ مذہب نے ان کے حالات میں واضح سُدھار پیدا کیا ہے، تو یہ کہنا کہ اچھوت تبدیلیِ مذہب سے اس ترقی سے فیض یاب نہ ہوں گے، ایک بے معنی سی بات ہے۔

اس مسئلے پر بہت گہرا غور کرنے کے بعد ہرشخص یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوگا کہ اچھوتوں کے لیے تبدیلیِ مذہب ایسی ہی ضروری ہے، جیسے بھارت کے لیے آزادی کا حصول ضروری ہے۔  دونوں کے مقاصد میں شمہ برابر بھی فرق نہیں ہے۔ دونوں کا آخری مقصد حصولِ آزادی ہے، اور اگر آزادی،  انسانی زندگی کے لیے لازم ہے تو ایسی تبدیلیِ مذہب جو انھیں حقیقی آزادی سے روشناس کرائے کبھی بے سُود نہیں کہی جاسکتی۔

اقتصادی اور معاشرتی ترقی

یہاں اس سوا ل پر بحث بھی ضروری سمجھتا ہو ں کہ اوّلیت کس چیز کو حاصل ہے۔ معاشی ترقی کو یا تبدیلیِ مذہب کو؟ مجھے اس تجویز سے اتفاق نہیں ہے کہ اوّلیت معاشی ترقی کو حاصل ہے۔

چھوت چھات آ پ کی معاشی ترقی کی راہ میں ایک مستقل رکاوٹ ہے۔ جب تک یہ نہ ہٹ جائے آپ کی راہ محفوظ نہیں رہ سکتی اور تبدیلیِ مذہب کے بغیر یہ رکاوٹ ہٹ نہیں سکتی۔

اس لیے اگر آپ خوش نیتی سے یہ چاہتے ہیں کہ آپ کی لیاقت اور صلاحیتوں کی قدر ہو، آپ کی تعلیم آپ کے لیے مفید ثابت ہو، تو آپ چھوت چھات کے بندھنوں سے آزاد ہوجایئے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ آپ اپنا مذہب بدل دیجیے۔

پھر بھی اُن لوگوں کے لیے جنھیں حصارِ وطن کی ضرورت ہے، تو مَیں انھیں یقین دلاتا ہوں کہ اُن کے تبدیلیِ مذہب سے اُن کے حقِ وطن پر آنچ نہ آئے گی۔ اس سلسلے میں ۱۸۵۰ء کے ایکٹ کا حوالہ دے سکتا ہوں۔ اس ایکٹ کے تحت کسی شخص کا حقِ جایداد یا اس کے ورثا کا حقِ جایداد اُس کی تبدیلیِ مذہب سے متاثر نہیں ہوتا۔

  • سیاسی حقوق: دوسرا شبہہ سیاسی حقوق کے بارے میں ہوسکتا ہے۔ بعض لوگ اس خوف کا اظہار کرتے ہیں کہ اگر ہم نے تبدیلیِ مذہب اختیار کی تو ہمارے سیاسی حقوق کا کیا ہوگا؟

میرا احساس یہ ہے کہ ہمیں سیاسی حقوق پر بہت زیادہ منحصر نہیں رہنا چاہیے۔ یہ سیاسی تحفظات اس شرط پر کبھی نہیں دیے جاتے کہ یہ مستقل رہیں گے۔ یہ تحفظات کبھی نہ کبھی ختم ضرور ہوں گے۔

وہ لوگ جو سیاسی تحفظات پر سب سے زیادہ انحصار کرتے ہیں یہ بھی سوچیں کہ یہ تحفظات ختم ہوجائیں گے تو کیا ہوگا؟ اُس وقت ہمیں صرف اپنی معاشرتی قوت پر منحصر رہنا پڑے گا۔ مَیں یہ بات عرض کر چکا ہوں کہ ہمیں وہ معاشرتی قوت حاصل نہیں۔ اِس لیے مَیں شروع میں یہ بات کہہ چکا ہوں کہ یہ قوت تبدیلیِ مذہب کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی۔

ان حالات میں ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ مستقل طور پر کیا چیز مفید ہے؟

میری راے میں تبدیلیِ مذہب  واحد راستۂ نجات ہے۔ اگر اس مقصد کے لیے سیاسی تحفظات کی قربانی بھی دینی پڑے تو برداشت کرنا چاہیے۔ ویسے تبدیلیِ مذہب سے سیاسی تحفظات پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ تم جس گروہ میں بھی شامل ہوجائو گے تمھارے تحفظات تمھارے ساتھ رہیں گے۔ اس کے بارے میں مجھے کوئی شک نہیں ہے۔ اگر تم مسلمان ہوجاتے ہو تو تمھیں مسلمان کی حیثیت سے سماجی حقوق مل جائیں گے۔ اگر تم عیسائی ہوجاتے ہو تو تمھیں عیسائی کی حیثیت سے سیاسی حقوق مل کر رہیں گے۔ اس بارے میں کسی خوف کی ضرورت نہیں۔

اس کے برخلاف اگر ہم ہندو رہتے ہیں اور تبدیلیِ مذہب نہیں کرتے تو کیا ہمارے سیاسی حقوق محفوظ رہیں گے؟ اِس بات کو ذرا احتیاط سے سوچیے۔ فرض کیجیے کہ ہندو ایک قانون پاس کرلیتے ہیں کہ چھوت چھات غیرقانونی ہے اور جو اس پر عمل کرے گا سزا یاب ہوگا۔ تب وہ آپ سے کہہ سکتے ہیں: ’’ہم نے چھوت چھات ختم کر دی۔ اب تم اچھوت نہیں رہے‘‘۔

اس نقطۂ نظر سے دیکھیے تو تبدیلیِ مذہب ہی ایسا راستہ ہے جس سے سیاسی تحفظات میں اڑچن پڑنے کے بجاے مضبوطی آتی ہے۔ اگر آپ ہندو رہتے ہیں تو ضرور آپ کے سیاسی تحفظات خطرے میں ہیں، اگر آپ انھیں محفوظ کرنا چاہتے ہیں تو اس مذہب کو چھوڑ دیجیے۔ تبدیلیِ مذہب سے آپ کے سیاسی تحفظات میں استحکام آجائے گا۔

ہندومت یوں بھی میرے شعور کو اپیل نہیں کرتا۔ یہ میری عزتِ نفس کو اپیل نہیں کرتا۔ اس لیے آپ کے تبدیلیِ مذہب سے جہاں آپ کو مادی فوائد حاصل ہوں گے، وہیں روحانی فیض بھی پہنچے گا۔ بعض لوگ مادی مفاد کے لیے تبدیلیِ مذہب کا مضحکہ اُڑاتے ہیں۔ میں ان حضرات کو احمق (stupid) سمجھنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا۔

  •   مذہب کی تبدیلی میں مسرت ہے! میں آپ سے خاص طور سے عرض کرتا ہوں کہ مذہب لوگوں کے لیے ہوتا ہے لوگ مذہب کے لیے نہیں ہوتے۔ اس لیے انسانوں جیسا سلوک حاصل کرنے کے لیے آپ تبدیلیِ مذہب کرلیجیے:
  •  تبدیلیِ مذہب کر لیجیے تاکہ آپ منظم ہوسکیں۔
  • تبدیلیِ مذہب کر لیجیے تاکہ آپ طاقت ور بن جائیں۔
  • تبدیلیِ مذہب کر لیجیے تاکہ آپ کو مساوات ملے۔
  • تبدیلیِ مذہب کرلیجیے تاکہ آپ کی گھریلو زندگی مسرتوں سے بھر جائے۔

میں ایسے شخص کو لیڈر سمجھتا ہوں جو حمایت یا مخالفت کے خوف سے آزاد ہوکر لوگوں کو صاف صاف بتائے کہ اُن کے لیے کیا چیز مفید اور کیا چیز نقصان دہ ہے۔ یہ بتانا میرا فرض ہے کہ آپ کے لیے کیا بات مفید رہے گی۔ اب آپ اسے پسند کریں یا نہ کریں، مجھے اپنا فرض ادا کرنا ہے اور وہ مَیں نے ادا کر دیا۔

اب یہ آپ کا کام ہے کہ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور ادا کریں۔

۱۱نومبر ۲۰۰۹ءکی دوپہر ،شعبۂ اُردو ،کشمیر یونی ورسٹی سے کلاسیں لینے کے بعد نمازِظہر کے لیے یونی ورسٹی کی جامع مسجد میں جاکر وضو کے لیے پانی سے ہاتھ بھگوئے ہی تھے کہ یہ خبر  گوش گزارہوئی :’’محسنِ ملّت سیّد علی شاہ گیلانی، کشمیر یونی ورسٹی پہنچے ہیںاوربابِ سرسیّد سے اندرآنے کے لیے کھڑے ہیں‘‘۔ شوقِ دیدار تھا،اس لیے تیزی سے وضوکیا اورسرسیّد گیٹ کی طرف تیز تیز چل پڑا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایسے مخلص قائد تک پہنچنے کے لیے یونی ورسٹی کے طلبہ برق رفتاری سے جارہے تھے۔ طالبات بھی تیزقدموں سے اپنے مُرشد کے دیدارکے لیے جوق درجوق آرہی تھیں۔جوں ہی میںگیٹ پرپہنچا توخوشی اورمسرت کی جگہ حیرت نے لے لی۔ کیمپس میں تعینات پولیس عملے نے سرسیّد گیٹ پرتالا چڑھا رکھاتھا اورقائدانقلاب گیٹ کے دوسری جانب کھڑے تھے۔ اُس روز یونی ورسٹی کا سرسیّد گیٹ بھی لائن آف کنٹرول لگ رہاتھا۔

پولیس سے استفسارکرنے پرمعلوم ہواکہ: ’’یونی ورسٹی انتظامیہ نے گیلانی صاحب کے داخلے پرپابندی لگادی ہے‘‘۔ غم وغصہ فطری تھا۔وہ شخص جوبے لوث قربانیوں کی علامت ہے۔     وہ عظیم ہستی جس نے ہمارے کل کے لیے اپنے آج کوقربان کیا ،غیرت جس کی پہچان ہے، اُس   بزرگ ہستی کو نفس کے غلام اپنی ہی مادرعلمی میںآنے سے کیسے روک سکتے ہیں؟ وہ ہستی کہ جن کے لیے صرف کشمیرہی نہیں بلکہ برعظیم پاک و ہند کے کروڑوں دل دھڑکتے ہیں۔ جو نہ جھکا،نہ بکا، نہ ۸۰برس سے زیادہ عمرمیں تھکا،بلکہ ڈنکے کی چوٹ پر کشمیر کے جائز حق کے لیے ہمالہ کی طرح  ڈٹا ہوا ہے۔ اُسے قوم کے مستقبل سے ملنے سے روکاجارہا تھا۔ آخرکار صبرکاپیمانہ لبریزہوا اورطلبہ کے غصّے کو دیکھ کر پولیس ہٹ گئی۔ طلبہ نے آگے بڑھ کر بابِ سرسید کوبزورِبازو اس شدت سے ہلایا کہ تالا ٹوٹا اور قائدانقلاب سیّد علی شاہ گیلانی کیمپس میںداخل ہوگئے۔ قائد کے قدموں نے جیسے ہی بابِ سرسیّد عبور کیا، طلبہ کے مضطرب اور پریشان چہروں پرخوشی کی لہردوڑ گئی۔ کوئی ان کے ہاتھوں کوچُوم رہاتھا اورکوئی ان شانوںپر بازو ڈال کے گلے مل رہاتھا، جنھوں نے کئی عشروں سےملّت مظلوم کا بوجھ اُٹھا رکھا ہے۔

’کون کرے گا ترجمانی،سیّدعلی شاہ گیلانی‘کے فلک شگاف نعروں سے کیمپس گونج اُٹھا اور چانکیائی سیاست کے آلۂ کارسہم کررہ گئے۔طلبہ وطالبات کاسیل رواںتھا،جو قائد کے استقبال میں سڑک کے دونوںاطراف آزادی کے حق میں اور بھارت کے جبری تسلط کے خلاف پُرجوش نعرے بازی میںمصروف تھا۔نمازِظہر ادا ہوچکی تھی، اس لیے استقبال میںموجودطلبہ نے مسجد کے باہرہی کھلے لان میں محسنِ ملّت کی امامت میںنمازظہراداکی۔نماز اداہوتے ہی جلوس کی صورت میںاقبال لائبریری کے سامنے پہنچے تو طلبہ کے اصرار پہ گیلانی صاحب نے خطاب فرمایا۔ تب سے اس جگہ کو ’گیلانی اسکوائر‘ (Geelani Square) کہا جانے لگا۔جہاں انھوں نے حق خود ارادیت، اسلام، انسانیت اورحصولِ تعلیم پرزور دیا۔

تقریرکے دوران جناب سیّد علی گیلانی نے ریاستی حکومت کی اُردوزبان سے بے توجہی کی طرف متوجہ کرتے ہوئے اقبال لائبریری کی بلندوبالا عمارت پریونی ورسٹی مونوگرام کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:’’میرے بیٹو اور بیٹیو! یہ مونوگرام تین زبانوں میں ہے: عربی ،انگریزی اور دیوناگری، مگراس میں اُردو شامل نہیں ہے، حالاںکہ اُردوریاست میںسرکاری زبان ہے۔ یہ کیسا سنگین مذاق ہے کہ سرکاری دفاتر میںاس زبان کے لیے کوئی جگہ نہیں۔سائنس اور ٹکنالوجی وقت کی ضرورت ہے۔ اس سے لاتعلقی کسی بھی درجے میںقابل قبول نہیں، لیکن ہماری تہذیب ہمارے دینی اُمور کی تشریح،تعمیراخلاق کے اسباق اورہماری تاریخ اُردوزبان ہی میں محفوظ ہیں،مگر غاصب قوتوں کے ریاستی آلۂ کاراُردوزبان کے ساتھ سوتیلی ماں کاسلوک کررہے ہیں۔ اُردوزبان کے ساتھ ان سامراجی قوتوں کایہ رویہ کوئی حیران کن عمل نہیں ہے۔جولوگ اسلاف کے مدفن بیچ کھائیں، اپنے عہدوں کاناجائز فائدہ اُٹھاکر رشوت کے ’کاروبار‘کوفروغ دیں، سبزباغ دکھاکر ریاست کے عوام کااستحصال کریں، ان کے لیے تو اُردو بس ایک زبان ہے۔لیکن وہ یہ بھول رہے ہیںکہ    میرؔ کی جگرسوزی، غالبؔ کی رعنائی کلام،سرسیّدکی مساعیِ جلیلہ ، اقبال کاپیغام حُریت و عمل،جوشؔ کا ولولہ انقلاب، فیض کی انقلابی رومانویت اورمولاناسیدابوالاعلیٰ مودودی کا حُسنِ کلام، اُردوزبان کی پشت پرہیں۔یہ زبان سازشوں کی نذرہوگی اورنہ اسے مٹانا آسان ہے‘‘۔

خیال رہے کہ سروسز سلیکشن بورڈ کشمیر(ایس ایس بی) کا اُردو زبان کے حوالے سے مخالفانہ فیصلہ افسوس ناک اور قابلِ مذمت ہےجو اسی استحصالی ذہنیت کی عکاسی ہے۔ ریاست کے محبان اُردوکی کارروائی اور سیّد علی شاہ گیلانی کے بیان نے ایس ایس بی کے اس گمراہ کن اورظالمانہ فیصلے کوردکر دیا۔ ریاستی ادارے گاہے گاہے اُردوزبان کی دُکھتی رگ پرہاتھ ڈالتے رہتے ہیں۔ اُردوزبان کی ترویج وترقی کے لیے متعدد انجمنیں بھی کام کررہی ہیں،لیکن افسوس کہ ان کاوزن یہ لوگ محسوس نہیںکرتے۔ ان انجمنوں کاکام صرف سیمی ناراور مشاعروں کا انعقاد رہ گیاہے اور   قومی اداروںسے اس کے عوض بھاری رقمیں بٹور کر لذت کام ودہن حاصل کرناہے ۔یہ لوگ اُردو سے فائدہ تواُٹھاتے ہیں،لیکن اُردو کی حقیقی ترقی کے لیے جدوجہد نہیں کرتے۔ ’محبان اُردو، کی روش یہ ہونی چاہیے کہ وہ ہرممکن طریقے سے تعلیمی اداروں میں اُردو کی تدریس کویقینی بنائیں۔ معاشرے میں اُردو کی تعلیم کے لیے بیداری مہم کو بھرپور تحریک کی شکل دی جائے۔ نئی نسل کے والدین کو حق کی گواہی کے لیے تیار کیا جائے، تاکہ وہ اپنے بچوںکواُردوکی تعلیم لازمی طورپردیں۔ دستوری طورپرہی اُردوکوریاست جموںوکشمیر میںصحیح مقام مل سکتاہے۔ اہل علم کو اس مقصد کے لیے سرجوڑ کر بیٹھناچاہیے، تاکہ اُردو کے حق کوبحال کرنے کے لیے فی الفور سنجیدہ کوششوں کاآغاز کیاجاسکے اورلائحۂ عمل تیارکرکے، اخلاص کے ساتھ اُردو کے حق کی بحالی کی تحریک کو آگے بڑھایا جاسکے۔ بلاتفریق مذہب وملت مقصدکے حصول کے لیے احتجاج کی تمام مثبت صورت اختیارکی جائے۔

اُردوغیرمنقسم ہندستان کی واحدایسی زبان تھی جس میںقانون، فلسفہ،سماجی علوم، سائنس کے مضامین میںاعلیٰ تعلیم دی جاتی تھی۔آج دنیابھر میںاُردو کی نئی نئی بستیاںآبادہورہی ہیں۔ یونیسکو کے ایک جائزے کے مطابق اُردو دنیامیں بولی جانے والی دوسری اورپڑھی جانے والی تیسری زبان ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اُردوکے تحفظ اورفروغ کی ضرورت اوراس کے آئینی حق کے بارے میںحکومتیںغیرسنجیدہ ہیں۔ریاست جموںوکشمیرمیںاُردو کی آئینی حیثیت ایک عرصے سے محض خوش فہمی کا سامان ہے اوربعض کے لیے واویلا مچانے کابہانہ۔

بات سیّد علی گیلانی کی یونی ورسٹی آمد کی ہورہی تھی۔پُرسوزاورمؤثر خطاب کے بعد موصوف اپنی کار میں بیٹھ کر اقبال لائبریری کے گیٹ تک گئے۔منظرقابل دیدتھا۔یہ پہلا موقع تھا کہ یونی ورسٹی کی تاریخ میں جب کسی لیڈر کی گاڑی لائبریری کے گیٹ تک گئی ہو، جب کہ طلبہ واسکالرز اور لائبریری کا عملہ سڑک کے دونوں اطراف ہاتھ اُٹھائے بآواز بلند ہردل عزیز قائد کے حق میں قصیدے گارہا تھا۔ پُرجوش منظر،آبدیدہ چشم،ایساسماں کہ قلم عکس بندی سے قاصر ہے!

گیلانی صاحب لائبریری میں داخل ہوئے۔ لائبریرین سے مختصر گفتگو کے بعد اپنی تصانیف لائبریری کو پیش کیں۔ طلبہ کا جمِ غفیرلائبریری کے باہرلان میں قائد کا منتظر تھا۔ جیسے ہی وہ باہرآئے تو نعرۂ تکبیر کی صدائیں دوبارہ گونجنے لگیں۔گاڑی کوہرطرف سے گھیرا لیا گیا۔ قائد گاڑی کے اندرسے قوم کے بیٹوں اور بیٹیوں کوالوداع کررہے تھے۔ بڑی مشکل سے رومی گیٹ تک گاڑی پہنچی۔   باہر ستم گر خاکی وردی میں ملبوس گاڑی میںمنتظر تھے، اورگیلانی صاحب کوپکڑ کے حسبِ روایت   جرمِ بے گناہی میں نامعلوم جگہ پر حبسِ بے جا میں ڈال دیا۔

گیلانی صاحب ایک کثیرالجہات شخصیت ہیں۔تحریک اسلامی کے صف اول کے رہنما، برعظیم کے مؤثر خطیب وشعلہ بیان مقرر، قائد بے بدل ،تاریخ کشمیر کے امین اورمجاہد ملت۔ علاوہ ازیں موصوف فارسی واُردوادب کے شناسابھی ہیں۔ فارسی واُردو اشعار ازبر ہیں۔ان کے کلام کی چاشنی اور اُردوزبان کی حلاوت سامعین کے دلوں کومحظوظ کرتی ہے۔

انھوں نے اپنی کتابوںمیں اُردوادب کی مختلف اصناف کو   محفوظ کیا ہے جن میں آپ بیتی، خاکہ، سوانح حیات،خودنوشت سوانح حیات، انشائیہ ،مضمون ،مکتوب نگاری اورسفرنامہ شامل ہیں۔ ادب فنون لطیفہ کی اہم ترین شاخ ہے۔ حُسنِ خیال، موادکی ترتیب اورالفاظ کے موزوںوحسین استعمال کے ذریعے ادب وجود میں آتا ہے۔ غیرافسانوی ادب کی بنیادحقیقت پسندی پررکھی جاتی ہے۔   دنیا کی حقیقتوں، مسائل، تجربات، مشاہدات اوراحساسات کوکہانی کے رنگ کے بغیرپیش کرنا غیرافسانوی ادب کی علامت ہے اورسیّد علی گیلانی کی تحریرات بھی انھی اصولوں پر پورااُترتی ہیں۔

۶۵برس کی عمر کا محمد لطیف خان ضلع راجوری کے ایک دُور دراز علاقے کا رہنا والا شخص ہے۔ اس کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ ۱۰ کنال اراضی اور ایک مکان اُن کی ملکیت ہے۔  مال مویشیوں کو پہاڑوں پر گھاس چارا کھلا کر اپنی کمائی کا ذریعہ بناتے اور اس طرح گھر کی گزربسر کرتے آرہے تھے۔ محمد لطیف اپنے بچوں کی پڑھائی کے بارے میں لاپروا نہیں تھے۔ اُن کا بڑا بیٹا لکھنؤ یونی ورسٹی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کررہا تھا۔ ایک بیٹا اور تین بیٹیاں گجرات کے دینی مدارس میں قرآن حفظ کررہے تھے۔ ۲۰۰۶ء میں اس گھر پر آزمایشوں کا سلسلہ اُس وقت شروع ہوگیا، جب محمد لطیف خان کے بڑے بیٹے محمد اسلم خان کو دہلی پولیس کے خصوصی سیل نے لکھنؤ سے گرفتار کرلیا۔ اُنھیں ’دہشت گردی‘ کے متعدد واقعات میں ملوث قرار دے کر تہاڑ جیل میں بند کردیا گیا۔

دہلی میں اُن کے مقدمے کی شنوائی کچھوے کی چال چلتی رہی، تاریخ پہ تاریخ اور یوں برسوں بیت گئے۔ محمد لطیف جس نے کبھی ریاست کشمیر سے باہر قدم نہیں رکھا تھا۔ انھیں اپنے بیٹے تک پہنچنے اور اُن کا مقدمہ لڑنے میں کافی سختیاں جھیلنا پڑیں۔ابھی وہ دلی میں اپنے بڑے بیٹے کی رہائی کے لیے دوڑ دھوپ کرہی رہے تھے کہ اُن کا دوسرا بیٹا گجرات میں گرفتار کرلیا گیا ہے، جسے  کئی برسوں سے جیل کی کال کوٹھڑیوں میں تڑپا یا جا رہا ہے اور انجام کا کچھ پتا نہیں۔

محمد اسلم جو تہاڑ جیل میں نظر بند تھا اور دلی میں اُن کا مقدمہ چل رہا تھا، اسے دہلی کی عدالت نے دو برس قبل تمام الزامات سے نہ صرف باعزت بری کردیا بلکہ یہ بھی حکم دیا کہ ’’جن پولیس افسروں نے اس نوجوان کو بے بنیاد الزامات کے تحت گرفتار کیا ہے اُن کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے‘‘۔ بھارتی عدالتی احکامات کی پاس داری کا حال یہ ہے کہ جس دن محمد اسلم کو عدالت نے باعزت بری کردیا اُسی رات اُنھیں رہا کرنے کے بجاے ممبئی پہنچایا گیا، جہاں کسی اور مقدمے میں اُن کا نام پہلے ہی سے درج کیا جاچکا تھا۔ محمد لطیف کا رابطہ یہاں سے ہی اپنے بیٹے کے ساتھ کٹ گیا ، کیونکہ اُن کی رسائی صرف دلی تک تھی۔ دلی سے آگے جانے کے لیے نہ اُن کی مالی حالت اُنھیں اجازت دے رہی تھی اور نہ اُن کے پاس وہاں جانے کے لیے ضروری واقفیت تھی۔ اس لیے اُنھوں نے مجبوراً اپنے بیٹے کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا اور گھر واپس لوٹ آئے۔

 ۸جولائی۲۰۱۶ء کو برہان مظفر وانی اور اُن کے ساتھیوں کی شہادت کے بعد وادی جموں و کشمیر میں محکوموں اور مجبوروں کے جذبات اُبل پڑے۔ ابتر حالات نے ریاست کی پوری آبادی کو بیرونی دنیا سے کاٹ کر رکھ دیا تھا۔ کہاں کیا ہوا؟کس کی زندگی کہاںداؤ پر لگ گئی؟ اِس کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم ہی نہیں ہورہا تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ جمہوریت کے دعوے داروں نے انٹرنیٹ اور دیگر ذرائع ابلاغ تک بھی کشمیریوں کی رسائی کو قریب قریب ناممکن بنادیا تھا ۔اس کے علاوہ اُن دنوں یہاں ہونے والی قتل غارت گری نے بھی عام باشندوں کو کشمیر کی حدود سے باہر کی دنیا سے لاتعلق کر رکھا تھا۔یہاں کشمیر میں نوجوانوں کے سینے گولیوں سے چھلنی کیے جارہے تھے، بچوں اورعورتوں کو چھرّوں کی بوچھاڑ سے اندھا کیا جارہا تھا اور وہاں محمد اسلم خان کو ممبئی کی عدالت میں جرم بے گناہی کی سزا سنائی جارہی تھی۔ ریاست جموں وکشمیر سے تعلق رکھنے والے اس گمنام نوجوان کو ممبئی کی ایک عدالت نے دیگر چار لوگوں کے ساتھ برہان مظفر وانی کی شہادت کے صرف تین دن بعد فرضی الزامات کے تحت عمرقید کی سزا سنادی ہے۔اُن کی سزا کے بارے میں ریاست جموں و کشمیر میں، اس کے والدین کے علاوہ شاید ہی کسی کو پتا ہوگا۔ اور وہ بھی اس طرح کہ اُن کے والدین پر اُس وقت غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، جب کسی انجان فرد نے اُنھیں فون کرکے اطلاع دی کہ : ’’آپ کے بیٹے کو عمر قید کی سزا ہوگئی ہے‘‘۔

چند ہفتے قبل جس وقت محمد لطیف خان سے میری ملاقات ہوئی تو اُنھیں یہ تک معلوم نہیں تھا کہ اُن کے بیٹے کو کس مقدمے میںعمر قید کی سزا سنائی گئی اور آج اُنھیں کہاں رکھا گیا ہے؟ اُنھیں ممبئی سے کسی وکیل نے صرف یہ اطلاع دی تھی کہ :’’آپ کے بیٹے کو عمر قید کی سزا ہوئی ہے اور اگر آپ اس سزا کے خلاف اپیل کرنا چاہتے ہیں، تو فوراً ممبئی پہنچ جائیں‘‘۔ میں نے محمد لطیف سے وکیل کا نمبر لیا اور اُن سے بات کی تو معلوم ہوا کہ محمد اسلم اس وقت امرا وتی جیل میں مقید ہیں اور اُنھیں عمر قید کی سزا سنائی جاچکی ہے۔ میں نے سوال کیا: ’’کن الزامات کے تحت سنائی گئی؟‘‘ یہ وکیل صاحب نے مجھے فون پر بتانا مناسب نہیں سمجھا بلکہ کہا:’’آپ لوگوں کو ممبئی آکر ہی مقدمے کے بارے میں پوری تفصیل بتا دی جائے گی‘‘۔ شاید وکیل صاحب اپنے اخراجات ادا ہونے تک مقدمے کی تمام تر تفصیلات بتانا نہیں چاہتے تھے۔

محمد لطیف خان کی درد بھری داستان کا ایک اور تڑپانے والا پہلو بھی ہے۔ اپنے دونوں بیٹوں کی رہائی کے لیے دوڑ دھوپ کرنے کے لیے اُنھوں نے لوگوں سے بہت قرضہ لیاہے، سختیاں جھیلیںہیں، مصائب سہے لیکن کبھی بھی تحریک حق خود ارادیت سے بددل نہیںہوئے۔ اُنھوں نے لوگوں سے قرضہ وصول کرنے کے عوض اپنی دس کنال پر مشتمل کل اراضی گروی رکھی، جس مکان میں رہایش پذیر ہیں وہ بھی قرض داروں کے یہاں گروی ہے۔ اب اُن کی مالی حالت اس قدر پتلی ہوچکی ہے کہ وہ ممبئی جاکر اپنے بیٹے سے ملاقات کرنے کا خواب بھی دیکھنا بھول چکے ہیں۔بقول اُن کے: ’’میں جب دلی اپنے بیٹے کی ملاقات کے لیے جاتا، تو کئی دن تک فاقہ کشی کا شکار رہتا تھا اور فٹ پاتھوں پر سرد و گرم راتیں بسر کرتا تھا‘‘۔ بیٹے کے مقدمے کو دوبارہ کھولنے اور اس کی بے گناہی کو ثابت کرنے کے لیے ضروری قانونی چارہ جوئی کرنے کی نہ اُن میں سکت ہے اور نہ مالی لحاظ سے اس قدر بہتر ی پوزیشن میںہیں کہ وکیل کی فیس اور ممبئی جانے کے اخراجات اُٹھاسکیں۔ ۱۰سال سے اُن کا اسکالر بیٹا جیل کی کال کوٹھڑیوں میں سڑ رہا ہے۔ اُن کی پوری زمین اور مکان قرض داروں کے پاس گروی ہے۔ دوسرے بیٹے پر سزا کی تلوار لٹک رہی ہے۔ اس کے باوجود جب اُن سے بات کرتے ہیں تو صبر و استقامت سے لبریز ہمالیہ جیسی شخصیت اُن کے بوڑھے وجود میں نظر آتی ہے۔

یہ صرف محمد لطیف کی ہی داستانِ اَلم نہیں ہے بلکہ یہ بیرون ریاست درجنوں کشمیری قیدیوں کی داستانِ غم کا صرف ایک ورق ہے۔ ورنہ دل دہلانے والی سیکڑوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔

  • کشمیر یونی ورسٹی کے نوجوان اسکالر محمد رفیق شاہ گذشتہ قریباً ۱۰برس سے تہاڑ جیل میں پابند سلاسل ہیں۔ اُن کے مقدمے کی سماعت بھی کچھوے کی چال کی طرح ہو رہی ہے۔ اُن کی زندہ دل والدۂ محترمہ بڑی ہی دلیری کے ساتھ حالا ت کا مقابلہ کرکے اپنے اکلوتے بیٹے کی رہائی کے لیے کوششیں کرتے کرتے تھک چکی ہیں، لیکن انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
  • ٹنگ مرگ کے ایک اور قیدی محمد مظفر ڈار کے بھائی سے معلوم ہوا کہ ’نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی آف انڈیا‘ (NIA)نے اُن کے خلاف چار سو گواہوں کی فہرست عدالت میں پیش کی ہے اور این آئی اے دلی کے وکلا پر اُن کا مقدمہ نہ لڑنے کے لیے دباؤ بھی ڈال رہی ہے، جس کے نتیجے میں ایک معروف وکیل نے ڈھائی لاکھ روپے فیس وصول کرنے بعد اُن کا مقدمہ چھوڑ دیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ محمد مظفر ڈار جنھیں ڈھائی برس قبل این آئی اے نے سرینگر سے تہاڑ منتقل کرکے اُنھیں وہاں کسی مقدمے میں ملوث کیا اور اُن کے خلاف چار سو گواہوں کی فہرست تیار کی ، وہ گواہ کب تک اپنا بیان درج کرائیں گے اور پھر عدالت فیصلہ کب سنائی گئی؟ حد تو یہ ہے کہ ایک ایسا گواہ بھی فہرست میں شامل رکھا گیا ہے، جو امریکا میں مقیم ہے اور شاید ہی وہ کبھی ہندستان آکر گواہی کے لیے عدالت کے سامنے پیش ہو۔ ہندستان کے عدالتی نظام میں محمد مظفر ڈار کو اپنے مقدمے کا فیصلہ سننے کے لیے کئی زندگیاں درکار ہوں گی ۔ اُن کے بھائی کے بقول جیل میں وہ کئی امراض کا شکار ہوچکے ہیں، کمر درد نے اُن کا بُراحال کردیا ہے۔
  • تحریک حریت سے وابستہ غلام محمد بٹ ساکن زکورہ، مشتاق احمد ساکن کنیل ون اسلام آباد، طالب لالی وغیرہ بھی کئی برسوں سے تہاڑ جیل میں قید و بند کی زندگی بسر کررہے ہیں اور انصاف کے ناقص نظام کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔اُن کا نہ یہاں کوئی پُرسان حال ہے اور نہ عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں ہی اُن کی رہائی اورضروری قانونی امداد فراہم کرنے کے لیے اپنا کوئی کردار نبھا رہی ہیں۔ انسانی حقوق کی یہ تنظیمیں پریس بیانات اور رپوٹیں مشتہر کرنے تک ہی محدود ہیں اور کشمیری قیدیوں کے حوالے سے انھوں نے ان دونوں چیزوں سے بھی جیسے توبہ ہی کررکھی ہے۔

یہ صرف چند مثالیں ہیں، ورنہ ہزاروں کشمیری بیرون ریاست جیلوں میں نہ صرف جسمانی سختیاں جھیل رہے ہیں بلکہ نسلی تعصب کا شکار بھی بنائے جارہے ہیں۔ جیل حکام بھی اُن کے ساتھ دوسرے ملک کے شہریوں جیسا سلوک کرتے ہیں۔ ہندستان کی جیلوں میں قاتلوں، چوروں اور لٹیروںکی عزت وتکریم کی جاتی ہے، اُنھیں ہر طرح کی سہولت فراہم کی جاتی ہے لیکن کشمیر کے پڑھے لکھے سیاسی قیدیوں کی تذلیل ہی نہیں بلکہ اُنھیں ہر حیثیت سے ذہنی طور پر اپاہج اور مریض بنانے کے لیے کام ہورہا ہے۔اُن کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیا گیا ہے۔بے بنیاد مقدمات میں پھنسانا اور پھر قانون کے نام پر اُن کے ساتھ مذاق کرنا کشمیر سے باہر قانونی اداروں کا وتیرا بن چکا ہے۔

ظلم و جبر کی چکیوں میں پسنے والے ان مظلوم کشمیری نوجوانوں کو اپنے لواحقین سے کھل کر ملاقات کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی ہے۔گذشتہ تین ماہ سے مزید ۱۵ہزار سے زائد کشمیریوں کو جیلوں میں ٹھونس دیا گیا ہے۔آج تک ہمارے ان اسیرانِ ملّت نے کبھی بھی اپنی قوم سے کوئی شکایت نہیں کی، بلکہ یہ لوگ تحریک حق خودارادیت کے لیے اپنی جوانیاں قربان کررہے ہیں، اپنی راتوں کی نیند اور دن کا سکون غارت کررہے ہیں۔ صبر کے پیکر یہ نوجوان ہمارے ہیرو ہیں ۔ یہ ہماری تحریک کا اثاثہ ہیں۔ ان کی قربانیوں کو ہمیں ہر سطح پر اور ہرحال میں یاد رکھنا ہوگا اور اِن قربانیوں کے تئیں ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا ہوگا۔

بظاہر سمجھا جاتا ہے کہ خطۂ پیرپنجال اور وادیِ چناب شاید تحریک میں پیچھے ہے، لیکن جموں کے ان مسلم اکثریتی علاقوں میں محمد لطیف خان اور اُن کے بیٹے محمد اسلم جیسے قربانی کے مجسمے بھی رہتے ہیں۔ وہ خاموشی کے ساتھ سیاسی حقوق کی باز یابی کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔ اُن کی یہ قربانیاں نہ لیڈروں کی نظر میں آتی ہیں اور نہ اخبارات کی زینت بنتی ہیں۔ محمد اسلم اور اُن کا پورا گھرانہ اور جیلوں میں مقید ہزاروں کشمیری قیدیوں کی مثال اُن پتھروں کی ہے جو کسی عمارت کو مضبوط بنیاد فراہم کرنے کے لیے زمین کے اندر اپنا وجود ختم کردیتے ہیں۔

 یہ نوجوان اپنی زندگی کے قیمتی سال بھارتی تعذیب خانوں میں کاٹ کر تحریک کو بنیاد فراہم کررہے ہیں۔ ان اسیران کے تئیں ملّت کی ذمہ داری ہے کہ اسیران کو قانونی امداد فراہم کرے، اُن کے لواحقین کا خاص خیال رکھے، محمد لطیف خان جیسے لوگوں کے درد کو سمجھے۔ یہ ان مقید افراد پر کوئی احسان نہیں ہوگا بلکہ اپنے اُس فرض کو ادا کرنا ہے جو قرآن مقدس میں اللہ تعالیٰ نے وفی الرقاب کی صورت میں اُن کے لیے مختص کررکھا ہے۔

خطبہ میں حضرت فاطمہؓ کا نام ہی کیوں؟

سوال :  جمعہ اور عیدین کے خطبات میں جہاں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کے نام لیے جاتے ہیں، دوسری صاحب زادیوں کے نام کیوں نہیں لیے جاتے؟ حالاں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی چار صاحب زادیاں ہیں؟

جواب: جمعہ اور عیدین کے خطبوں میں حضرت فاطمہؓ اور حسنؓ و حسینؓ پر صلوٰۃ و سلام کا طریقہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے دور سے شروع ہوا۔ اس کا تاریخی پس منظر، یزید کی حکومت کی طرف سے آلِ رسولؐ کے ساتھ وہ زیادتیاں ہیں، جو تاریخ کا سب سے زیادہ جذباتی، ہیجانی اور المناک مسئلہ ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے اپنے دور میں اس کی تلافی کے لیے یہ طریقہ تجویز فرمایا کہ خطبوں میں ان برگزیدہ ہستیوں پر صلوٰۃ و سلام بھیجا جانے لگا، جب کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری صاحب زادیوں یا ان کی اولاد کے ساتھ ایسا کوئی المناک سلوک نہیں ہوا تھا۔ اس لیے یہ سلسلہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے بعد آج تک رائج ہے۔ ورنہ یقینا جس طرح آپؐ کی صاحب زادی حضرت فاطمہؓ ہیں، اسی طرح دوسری بیٹیاں بھی قابلِ احترام ہیں۔ ان میں اگر درجات کا کوئی فرق ہوسکتا ہے یا کیا گیا تو اس کی بنیاد اعمالِ صالحہ اور اخلاص، تقویٰ کے سوا اور کوئی نہیں ہے اور نہ ہوسکتی ہے۔ یہ سب برگزیدہ ہستیاں ہیں اور اللہ کےیہاں سبھی کے بلند درجات ہیں۔ خصوصیت کے ساتھ خطباتِ جمعہ اور عیدین میں ان پر درود و سلام بھیجنے کی اس کے سوا کوئی اور وجہ میرے علم میں نہیں ہے ۔ بہتر یہ ہے کہ خطیب، حضرت فاطمہؓ کے بعد وَعَلٰی سَائِرِ بَنَاتِ النَّبِیِّ کہے کہ ہمارے لیے رسولؐ کی ساری بیٹیاں یکساں قابلِ احترام ہیں۔(مولانا محمد یوسف اصلاحی)


عورت اور میراث

س :  قرآنِ کریم کا حکم ہے کہ وراثت میں عورت کا بھی حصہ ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں عورت کو حصہ نہیں دیا جاتا۔ اسلام جاننے والے بھی اور نہ جاننے والے بھی اکثروبیش تر اس ظلم میں برابر کے شریک دکھائی دیتے ہیں۔ اس مسئلے کے بارے میں رہنمائی کیجیے، تاکہ سب کو واقفیت ہوجائے؟

ج: یہ انتہائی افسوس ناک منظر ہے۔ عورت کا حصہ خواہ وہ ماں ہو یا بیٹی یا بیوی یا کوئی بہن، قرآن نے صاف صاف بیان کیا ہے اور اس کا یہ حصہ ادا نہ کرنا صرف بے انصافی اور ظلم ہی نہیں ہے بلکہ قرآن کے خلاف اعلانِ بغاوت ہے۔ ایسے لوگ اگر صرف عملاً یہ غلطی کر رہے ہیں تب بھی سخت ترین گناہ میں مبتلا ہیں۔ عورتوں کا جو حصہ وہ کھا رہے ہیں بالکل کھلا حرام کھا رہے ہیں اور  حرام کھانے والے کی کوئی عبادت اور کوئی عمل اللہ تعالیٰ قبول نہیں کرتا۔ اور اگر خدانخواستہ وہ ذہنی   طور پر بھی اس گناہ پر مطمئن ہیں اور قرآن کے اس حکم ہی کا انکار کرتے ہیں، تب تو ان کا دین و ایمان بھی محفوظ نہیں ہے۔

ضرورت ہے کہ باشعور اور دردمند، دین سے واقف نوجوان پوری قوت اور جوش و جذبے کے ساتھ مسلمانوں تک اللہ کی کتاب کا یہ حکم پہنچائیں کہ مال کا اصل مالک اللہ ہے۔ اس نے جس کا جو حق رکھا ہے وہ اٹل ہے، کسی بندے کو یہ اختیار نہیں کہ وہ ذرا برابر بھی اس میں دخل دے۔ لڑکیوں کے یہ حقوق صاف صاف قرآن میں لکھے ہوئے ہیں۔ مسلمان کا کام صرف یہ ہے کہ وہ ان کو مانے اور ان پر عمل کرے۔

اس سلسلے میں خواتین کو بھی کسی جھجک کے بغیر سنجیدہ اور مؤثر کوشش کرنا چاہیے۔ قرآن و سنت سے میراث کے واضح احکام کھول کھول کر بیان کرنے کا ہرہرموقعے پر اہتمام کرنا چاہیے۔ جو خواتین قلم سے  کام لے سکتی ہوں، وہ میراث کے احکام پر قلم سے کام لیں اور میراث کے قوانین کو واضح کریں۔ میراث سے متعلقہ قوانین کی خلاف ورزی پر اللہ تعالیٰ نے جو سخت سزائیں اور وعیدیں سنائی ہیں ان کو پورے زورِ بیان کے ساتھ واضح کریں اور خاندانی زندگی میں جم کر اپنے حقوق کے لیے لڑیں، اور وصول کریں۔ اگر انھیں مال کی ضرورت نہ ہو، تب بھی موجودہ حالات میں لازماً اپنے حقوق اور حصے حاصل کریں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے قانون کو نافذ کرنے اور اللہ کے دین کو قائم کرنے کی کوششوں ہی کا ایک حصہ ہے۔ یہ وقت کا جہاد ہے، عورت کو صرف دنیوی مال ہی اس کوشش سے میسر نہ آئے گا بلکہ اللہ کے دین کو قائم کرنے اور اس کے قانون کو مسلمان معاشرے میں دوبارہ رائج کرنے کا غیرمعمولی اجروصلہ بھی ملے گا۔ اس طرح ان کی یہ کوشش و کاوش اللہ کی رضا کا باعث ہوگی۔ پھر اگر ان کو مال کی ضرورت نہ ہو تو جس کو چاہیں وہ اپنی خوشی سے دے دیں، لیکن اللہ کے قانون کو رائج کرنے کے لیے اپنا حق اور حصہ ضرور وصول کریں۔(مولانا محمد یوسف اصلاحی)


خلع اور نان نفقہ

س : میری بیوی تقریباً سات ماہ سے اپنے گھر پر ہے اور خلع مانگ رہی ہے۔ سات ہزار ماہانہ خرچ مانگ رہی ہے، جب کہ وہ اپنی مرضی سے گھر پر ہے۔ میں کئی دفعہ لینے گیا لیکن اس نے آنے سے انکار کر دیا۔ کیا ایسی عورت کو ماہانہ خرچ دینا لازم ہے، نیز ایسی عورت جو خود خلع لے رہی ہو، اسے حق مہر دینا چاہیے؟ میں نے اور میرے گھر والوں نے جو زیور (سونا) شادی میں دیا تھا، وہ بھی مجھے بغیر بتائے اپنے ساتھ لے گئی ہے۔ کیا اسے یہ واپس کرنا چاہیے، جب کہ میں اس کا جہیز اس کو واپس کررہاہوں؟

ج:مذکورہ صورت میں اگربیوی اپنی مرضی سے بغیر کسی شرعی وجہ کے میکے میں بیٹھی ہوئی ہے، اور آپ کے بار بار بلانے کے باوجود واپس نہیں آرہی ہے، تو ایسی صورت میں وہ نان و نفقہ کی حق دار نہیں ہے اور آپ پر اس کی ادایگی لازم نہیں ہے۔

اگر آپ اس سے مہر واپس لے کر خلع دے رہے ہیں یا اگر اس نے اپنا مہر وصول نہیں کیا اور اب وہ اپنا مہر معاف کر کے خلع لے رہی ہے تو اس صورت میں آپ پر مہر کی ادایگی لازم نہیں ہوگی، لیکن اگر آپ اس سے مہر معاف کروائیں یا اس کے مہر وصول کیے بغیر طلاق دیتے ہیں تو آپ پر مہر کی ادایگی لازم ہوگی۔

شوہر اور اس کے والدین کی طرف سے دلہن کو جو زیور دیا جاتا ہے، اس کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ اگر یہ زیور مہر کا حصہ ہو، یا مہر کے طور پر دیا گیا ہو، یا لڑکی کو ہبہ (تحفہ) کر کے اسے واضح طور پر مالک بنا دیا گیا ہو، یا مالک بنانے پر واضح قرینہ موجود ہو، تو ان تمام صورتوں میں یہ زیور لڑکی کی ملکیت کہلائے گا۔ لڑکے والے اس زیور کی واپسی کا مطالبہ نہیں کرسکتے۔ اگر یہ زیور مہر کا حصہ نہ ہو اور مہر کے طور پر بھی نہ دیا گیا ہو، یا لڑکی کو ہبہ کرکے اسے واضح طور پر مالک بنا کر نہ دیا گیا ہو اور مالک بنانے پر واضح قرینہ بھی موجود نہ ہو تو ان صورتوں میں اس مسئلے کا مدار ’عرف‘ پر ہوگا، یعنی کہ اگر یہ زیور لڑکی کو مالک بنا کر دینے کا عرف اور رواج ہو تو یہ زیور لڑکی کی ملکیت ہوگا، اور اگر لڑکی کو مالک بنا کر دینے کا عرف اور رواج نہ ہو بلکہ صرف استعمال کے لیے دیا جاتا ہو تو لڑکی اس زیور کی مالک نہیں کہلائے گی بلکہ لڑکے والے اس کے مالک کہلائیں گے ، اور وہ اس زیور کی واپسی کا مطالبہ کرسکتے ہیں اور لڑکی والوں پر یہ زیور واپس کرنا لازم ہے۔(مولانا محمد حسان  اشرف   عثمانی)


معاش کی ذمہ داری کس پر؟

س : اکثر دیہات اور محنت کش طبقوں میں عورتوں کے ساتھ ظلم کیا جا رہا ہے کہ وہ زندگی کے تمام شعبوں میں مرد کے ساتھ برابر کام کرتی ہے۔ کیا یہ ظلم نہیں ہے جب کہ قرآن نے عورت کو گھر کا اندرونی کام کرنے کا حکم دیا ہے؟

ج:اسلام نے معاش کی ذمہ داری اصولاً مرد پر ڈالی ہے اور گھر کی دیکھ بھال کا ذمہ دار عورت کو قرار دیا ہے۔ اگر کسی جگہ کے رواج کے مطابق عورتیں کچھ محنت مزدوری کا کام اپنی خوشی سے کرتی ہیں اور اپنے منصبی فرائض بھی انجام دیتی ہیں، تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ لیکن اگر مرد اس کو مجبور کررہا ہے اور منصبی فرائض کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ یہ ذمہ داری بھی اس پر عائد کرتا ہے کہ وہ ضرور کماکر بھی لائے اور باہر کے کام بھی وہی کرے، تو ایسا کرنا مرد کے لیے صحیح بھی نہیں ہے اور اس کی مردانگی اور مردانہ حیثیت کے بھی خلاف ہے۔

صحیح بات یہ ہے کہ معاش کی ذمہ داریاں وہ خود سنبھالے اور عورت کو موقع دے کہ وہ پوری تن دہی اور آزادی کے ساتھ اپنے حصے کی ذمہ داریاں بہ حسن و خوبی انجام دے۔(محمد یوسف اصلاحی)

Treasures of the Quran[قرآنی جواہرات]، مرتبہ: خرم مراد، عبدالرشید صدیقی۔ ناشر: دی اسلامک فائونڈیشن، لسٹر، برطانیہ۔ publications@islamic-foundation.com صفحات: ۲۰۰۔ قیمت: ۱۴ء۹۵ ؍امریکی ڈالر۔  ۔

قرآن کریم روشنی کا منبع ہے، ایسی روشنی جو انسانی زندگی کو جہالت اور حیوانیت کی ظلمت سے باہر نکلنے میں مدددیتی اور ہدایت کے طالبین کو صراطِ مستقیم دکھاتی ہے۔ قرآنِ کریم کے پیغام کو سمجھنے اور اس کے نُور سے دلوں کی دنیا منور کرنے اور معاشرتی ظلمتوں کو عدل و شائستگی کی راہوں پر استوار کرنے کے لیے ہزاروں اہلِ علم و تقویٰ نے کئی اسالیب اختیار کیے۔ زیرنظر کتاب بھی اسی نوعیت کی منفرد کاوش ہے۔

مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم و مغفور نے سورئہ فاتحہ سے المائدہ تک، قرآنی سورتوں کا ایک گروپ متعین کیا تھا، جس میں خاص نوعیت کے موضوعات اپنی معنویت، استدلال اور پیغام کے ساتھ موجود ہیں۔اس ذیل میں محترم خرم مراد نے (جن کی رحلت کو گذشتہ دسمبر میں ۲۰برس گزر گئے) سورئہ بقرہ کے مرکزی مضامین کو ایک ترتیب کے ساتھ مرتب کیا تھا، جب کہ عبدالرشید صدیقی صاحب نے سورۂ آل عمران، النساء، المائدہ کے نکات کی اسی انداز سے تدوین کی ہے۔ اس مقصد کے لیے فاضل مرتبین نے جید مفسرین کی تحقیقات اور بیانات کو خوب صورتی سے مرتب کیا ہے۔ انھوں نے خاص طور پر مغرب کی غیر مسلم دنیا کو پیش نظر رکھا ہے، تاکہ وہ قرآن کا پیغام سمجھ سکیں۔ واقعہ یہ ہے کہ قرآنی نُور کی یہ کرنیں صرف غیرمسلموں کے لیے نہیں بلکہ خود مسلمانوں کے لیے بھی اتنی ہی ضروری ہیں کہ وہ انھیں پڑھیں، سمجھیں اور عمل میں ڈھالیں۔

آج، رفتہ رفتہ قومی زبانیں بے اثر بنائی جارہی ہیں اور نئی نسل کو انگریزی کی غلامی میں دیا جارہا ہے۔ اس فضا میں زیرتبصرہ کتاب کے ذریعے نسلِ نو کا رشتہ قرآن سے جوڑنے میں مدد مل سکتی ہے۔ فائونڈیشن اس خوب صورت کتاب کی اشاعت پر مبارک باد کی مستحق ہے۔ (سلیم    منصور خالد)


سیرت انسائی کلو پیڈیا ، زیر نگرانی عبد المالک مجاہد، مرتبین : محسن فارانی ، حافظ ابراہیم طاہر کیلانی، مولانا تنویر احمد ، حافظ عبداللہ ، ناصر مدنی، حافظ اقبال صدیق ، حافظ ابو بکر خواجہ۔، ناشر: ریسرچ سنٹر دارالسلام ریاض، ۳۶-لوئر مال لاہور، (گیارہ جلدیں) ۔ قیمت: ۱۸ ؍ہزار ایک سو ۵۰ روپے۔

سیرت خاتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسا موضوع ہے ، جس پر جتنا بھی لکھا جائے کم ہے۔ آپؐ کی حیات مبارکہ کے ہر پہلو کا احاطہ کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔ دارالسلام کے روح رواں عبدالمالک مجاہد صاحب نے سیرت انسائی کلو پیڈیا کے تصور کو اپنی روایات کو قائم رکھتے ہوئے گیارہ مفصل جلدوں میں طبع کیا ہے، جو اعلیٰ طباعتی معیار ، عمدہ پیش کش، پاے دار کاغذ اور رنگا رنگ نقشوں اور تصاویر سے مزین ہے۔ جس پر جناب مجاہد اور ان کی ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے۔ 

پہلی جلد کا آغاز سیرت نگاری پر ایک مفصل مقدمے سے ہوتا ہے، جسے پروفیسر محمد یحییٰ صاحب نے تحریر کیا ہے۔ یہ جلد چھے ابواب پر مشتمل ہے۔ اس میں جزیرہ نماے عرب کے جغرافیہ، تاریخی پس منظر ، وہاں پائی جانے والی اقوام و قبائل ، ماضی کی حکومتوں ، بیرونی حملوں ، تولیت کعبہ اور عرب جاہلیہ کے مذہب اور شرک ، تجارت و ثقافت اور ہمسایہ سلطنتوں میں پائے جانے والے مذاہب کا تذکرہ ہے ۔

دیگر جلدوں میں جملہ موضوعات کو محنت سے لکھا اور پیش کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر: رسولِ کریمؐ کے خاندان اور ولادت سے لے کر حجۃ الوداع اور آپؐ کے سفر آخرت اور اُمہات المومنینؓ اور آپؐ کی اولاد کے بارے میں معلومات شامل ہیں۔ آخری اور گیارھویں جلد نبی کریمؐ کی حیاتِ مبارکہ ، اخلاق ، خصوصیات، معجزات، ادعیہ اورمناقب ِ نبویؐ پر روشنی ڈالتی ہے۔

ان تمام موضوعات پر عموماً قرآن و حدیث کی روشنی میں گفتگو کی گئی ہے اور کئی مقامات پر  معروف تاریخی کتب سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ ہر موضوع پر ایک باب قائم کیا گیاہے، جس کے بارے میں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ مر تبین میں سے کس نے انفرادی یا اجتماعی طور پر تحریر کیاہے ۔ تمام جلدوں میں زبان وبیان میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ اس سے نظر ثانی کرنے والے محققین کی محنت کا پتا چلتا ہے ۔ پہلی جلد میں مقدمہ بہت معلومات افزا ہے، لیکن غیر ضروری طور پر صرف ایک سیرت نگار مولانا شبلی نعمانی پر تنقید (صفحہ ۹۱تا ۱۰۸) مناسب نہیں ہے۔ البتہ اگر اسی طرح دیگر سیرت نگاروں کے کام کا جائزہ بھی لیا جاتا تو مناسب ہوتا ۔

جلد پنجم میں مکہ کے قبائلی نظام کو مکہ کی جمہوریت نما قبائلی حکومت (ص۳۴ ) کہنا جدتِ اظہار تو ہو سکتا ہے لیکن حقیقت نہیں کہا جا سکتا ۔ ایک خالص قبائلی نظام اور مغربی لادینی جمہوری نظام میں کافی بنیادی فرق پایا جاتا ہے۔ اسلامی ریاست اور اس سے متعلقہ اہم موضوعات میں بھی تشنگی پائی جاتی ہے۔ قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں جو موضوعات قائم کیے گئے ہیں ان میں مسلم علما کی تحقیق سے بھی استفادہ کیا جاتا تو مناسب ہوتا۔ دراصل ’انسائی کلوپیڈیا‘ کا لفظ اصطلاح، تاثر اور تقاضا گہرائی اور تحقیق کا مطالبہ کرتا ہے۔ ’دائرۃ المعارف‘(انسائی کلوپیڈیا) کے لیے ایک اعلیٰ تحقیقی منصوبے کے ساتھ عالمی سطح پر محققین کا اپنے تخصص کے دائرے میں مضامین لکھنا بنیادی ضرورت ہے ۔ اس لیے ہماری تجویز ہے کہ اسے بلند معیار بنانے کے لیے ہر موضوع کے ماہرین کو عالمی سطح پر دعوت دی جائے اور پھر ایک اعلیٰ مجلس ان مضامین کے جائزے اور نظرثانی کے بعد مذکورہ دائرۃ المعارف میں طبع کرنے کا مشورہ دے ۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


تکبیر حرم، سعید اکرم۔ ناشر: دارالنوادر، الحمدمارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۱۴۴۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

یہ ۲۰۱۱ء کے سفرِ حج کی دل چسپ اور دل گداز رُوداد ہے۔ جب مصنف کو اپنے دیرینہ خوابوں کی تعبیر ملی۔ سردیوں کی ایک صبح ریڈیو کی ایک خبر نے سعیداکرم کو چونکا دیا: ’’رواں سال کے لیے حج پالیسی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ پہلے آیئے پہلے پایئے کی بنیاد پر ۷؍اپریل تک درخواستیں وصول کی جائیں گی‘‘۔ اس خبر نے انھیں پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیا۔

حج اور عمرے کے سفرناموں میں اکثر زائرین مسائل اور رکاوٹوں کا ذکر کرتے ہیں۔ تاہم، سعیداکرم نے یہ سفر صبر، شکر، عاجزی اور انکسار کے ساتھ مکمل کیا، حرفِ شکایت زبان پر لانے سے اجتناب کیا۔ ہرجگہ انھوں نے ایک خاص کیفیت محسوس کی۔ جن دنوں مکہ میں تھے، باپ بیٹا اُن گلیوں اور بازاروں میں نکل جاتے جہاں گمان ہوتا کہ یہاں سے ہمارے پیارے نبیؐ بچپن میں اپنے دادا کی انگلی پکڑے گزرے ہوں گے۔

سفر نامے میں ایسا سوزو گداز ہے کہ پڑھتے پڑھتے کئی مقامات پر قاری کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ کتاب خوب صورت چھپی ہے۔(رفیع   الدین   ہاشمی)


محفل دانش منداں، محمد اسحاق بھٹی۔ ناشر: محمداسحاق بھٹی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، جناح اسٹریٹ، اسلامیہ کالونی، ساندہ، لاہور۔ فون: ۴۷۶۸۹۱۸-۰۳۰۱۔ صفحات: ۳۲۰۔ قیمت: ۶۰۰روپے۔

جناب محمد اسحاق بھٹی، صاحب ِ علم و فضل تھے۔ انھیں برعظیم پاک و ہند کے قدیم علما کے احوال و تذکار میں دسترس حاصل تھی۔ وہ ایک صحافی، محقق، مترجم اور مؤرخ اور خوش گوار طبیعت کے مالک دانش ور تھے۔ ان کی یادداشت مضبوط اور مشاہدہ گہرا تھا۔ ادبی چاشنی کے لیے بسااوقات زیب داستان کا پھول بھی ٹانک لیتے تھے، مگر مجموعی طور پر ایک خوش کلام انسان تھے۔

زیر نظر کتاب میں انھوں نے ۲۴شخصیات کے بارے میں یادوں کے گلدستے سے گلاب چُنے ہیں۔ یہ نثرپارے دل چسپ پیراے میں، سادہ، شُستہ، رواں اور معلومات افزا شخصی احوال پر مبنی ہیں، کہ ایک کے بعد ایک پڑھتے ہوئے قاری کھنچتا ہی چلا جاتا ہے۔ بھٹی صاحب مسلکاً سلفی تھے مگر خوش مزاجی میں بریلوی تھے۔ اس کتاب میں شامل ہر مضمون قاری کی تشنہ لبی کو سیراب کرتا ہے۔ ایم ایم شریف، بشیراحمد ڈار اور اسماعیل ضیا پر مضامین، زندگی کا خوش رنگ تاثر ثبت کرتے ہیں۔ پروفیسر محمد سرور جامعی پر مضمون (۱۴۴-۱۷۲) تہذیب و شائستگی کی تصویر پیش کرتا ہے۔

پروفیسر سرورصاحب، مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے ناقد تھے۔اسحاق بھٹی صاحب نے پاکستان کے بزرگ صحافی کلیم اختر ( سرور صاحب کے بھانجے) کے حوالے سے یہ واقعہ نقل کیا ہے: ’’۱۹۶۴ء میں ایک روز ڈائرکٹر جنرل انٹیلی جینس این اے رضوی، لاہور میں سرور صاحب کے گھر  آئے۔ میں بھی وہاں موجود تھا۔ رضوی صاحب نے ان سے کہا:ایوب خاں کے مقابلے میں  فاطمہ جناح صدارتی اُمیدوار ہیں اور مولانا مودودی، فاطمہ جناح کی حمایت کر رہے ہیں۔ آپ سے  گزارش ہے کہ مولانا مودودی کے خلاف مضمون لکھیے‘‘۔ تب سرور صاحب حکومت کے تحت ادارہ تحقیقاتِ اسلامی سے منسلک تھے۔ یہ بات سن کر سرور صاحب طیش میں آگئے اور بولے: ’’آپ سے کس نے یہ کہا ہے کہ میں مولانا مودودی کی ذات کے خلاف ہوں، اور وہ جو کچھ کہیں یا کریں، اس کی مخالفت کروں۔ دوسری بات یہ کہ میں کسی کے کہنے پر، کسی کی مخالفت یا موافقت میں مضمون لکھتا ہوں۔ پھر یہ کہ آپ کو مجھ سے یہ کہنے کی جرأت کیسے ہوئی کہ میں کسی خاص مسئلے میں جو آپ کے نزدیک پسندیدہ نہیں، مولانا مودودی کے خلاف لکھوں۔ اگر آپ اس لیے کہہ رہے ہیں کہ میں ادارہ تحقیقاتِ اسلامی میں ملازم ہوں تو میں آج ہی اس سے مستعفی ہوتا ہوں‘‘۔ اور انھوں نے اسی وقت ملازمت سے استعفا بھیج دیا اور پھر ادارہ تحقیقاتِ اسلامی کے دفتر اسلام آباد نہیں گئے۔   یوں اچھی خاصی ملازمت چھوڑ دی، مگر اپنے ضمیر اور اصول کی قربانی نہیں دی اور دربار سرکار کی خواہش کے مطابق مولانا مودودی کے خلاف نہیں لکھا‘‘ (ص ۱۵۹-۱۶۰)۔ اس واقعے سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ حکمران طبقہ کس طرح مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے خلاف سرکاری سطح پر پروپیگنڈا کے لیے وسائل اور اختیارات کو استعمال کرتا رہا ہے۔

کتاب میں جن شخصیات کے نام شامل ہیں، ان میں: میاںالحمدللہ، مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاری، شیخ قمرالدین [ناشر تفہیم القرآن]، حاجی محمد اسحاق، مولانا عبیداللہ احرار، حکیم عبدالسلام ہزاروی، مولانا محمد ابراہیم، مفتی عتیق الرحمٰن ، مولانا سعید احمد اکبرآبادی، میرعلی احمد تالپور، سیّد صباح الدین عبدالرحمٰن، عبدالمجید مالواڈا، حکیم عنایت اللہ سوہدروی، محمد رفیق زبیدی، مشفق خواجہ، مولانا مجاہد الحسینی، فاروق الرحمٰن یزدانی، ابوجی، مولانا سیّد محمد دائود غزنوی اور مریم جمیلہ۔

یہ کتاب تاریخ، شخصیت اور اسلامی تہذیب کے مختلف نقوش کو واضح اور تعلیم و تربیت کا عکس نمایاں کرتی ہے۔ اشاعت و پیش کش خوب صورت ہے۔ (س     م   خ )


بلالی دنیا میں شمع اسلام، حافظ محمد ادریس ،۔ناشر: ادارہ معارف اسلامی منصورہ ،لاہور۔ صفحات : ۲۰۸۔ قیمت:۲۲۵۔

تحریکِ اسلامی کے رہنما کی حیثیت سے مصنف نے افریقہ میں ایک مدت تک دینی، تربیتی اور رفاہی خدمات انجام دی ہیں۔ زیرنظر کتاب میں انھوں نے کینیا اور جنوبی افریقہ کے دورے کے تاثرات ، مشاہدات اور معلومات کو رواں دواں پیراے میں بیان کیا ہے۔ ان کے یہ سفر بنیادی طور پر دینی اوردعوتی جہت رکھتے ہیں۔ اس لیے ایک ایسا قاری جو تحریک اسلامی سے باقاعدہ تنظیمی وابستگی نہیں رکھتا،وہ بھی ان امور اور مسائل ومعاملات سے متعارف ہوتا ہے اور رہنمائی کے قیمتی پہلوئوں سے استفادہ کرتا ہے۔

حافظ محمد ادریس صاحب اپنے سفر نامے میں ذاتی مشاہدات وتاثرات کوبیان کرتے ہوئے اپنے مخاطبین اورمیز بانوں سے بھی متعارف کراتے ہیں۔ اس طرح ان کا سفر نامہ ایک فرد کی سیر بینی سے بڑھ کر پڑھنے والوں کا سفر نامہ بن جاتا ہے۔ اس ذیل میں یہ ان کا چوتھا سفر نامہ ہے۔(س م خ)


اسلامی قلم رو میں اِ قرأ اور عَلّم بالقلم کے ثقافتی جلوے (عہد عباسی ) ،جلد اول، جلددوم ، مصنف : مولانا ڈاکٹر محمد عبدالحلیم چشتی۔ ناشر: مکتبہ الکوثر ، بلاک بی ، سیکٹر ۱۱، مکان نمبر ۱۲۱، جامعۃ الرشید ، احسن آباد، کراچی۔ صفحات (علی الترتیب: ۵۸۵، ۴۲۱)۔ قیمت: درج نہیں۔

اس کتاب میں محترم مصنف نے عہدعباسی (۷۵۰ء تا ۱۲۵۸ء ) کے ۱۷ خلفا کے کتب خانوں کا جائزہ لیا ہے۔ اس پانچ سو آٹھ سالہ دورِ حکومت میں علماے اسلام نے مختلف علوم وفنون میں ترقی کے ساتھ ساتھ دیگر زبانوں کی علمی کتابوں کے عربی زبان میں ترجمے بھی کیے۔ زندگی کے مختلف شعبوں کے سرکردہ افراد نے مطابق علوم وفنون کی مختلف شاخوں میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ فاضل مؤلف نے وسیع مطالعے سے ان علمی خدمات کی تفصیلات پیش کی ہیں، اور عباسی دور کے علما، حکما، مفسرین ،محدثین ، امرا اور زندگی کے دوسرے شعبوں سے متعلق افراد اور اداروں کے کتب خانوں کا تعارف کرایا ہے۔ مزید یہ کہ کتاب سازی کے مباحث ، فن کتابیات کی اصطلاحات، کٹیلاگ سازی ، علوم کی درجہ بندی ، اور رموز اِملا کے تاریخی ارتقا، کاغذ سازی، سامانِ کتابت پر مستند معلومات فراہم کی ہیں۔ اس سلسلے میں مصنف نے نقل نویسی ، قلم، دوات، روشنائی اور نقل نویسوں کے لیے فراہم کردہ سہولتوں کی تفصیلات بھی پیش کی ہیں۔

یہ کتاب عہد عباسی میں مسلمانوں کی علمی ، ادبی دینی اور تہذیب وثقافت پر ایک طرح سے انسائی کلو پیڈیا کا سا مقام رکھتی ہے۔ (ظفر حجازی )


تعارف کتب

o نوادراتِ سیّد مودودیؒ، مرتبہ : اختر حجازی۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی ،منصورہ لاہور۔ صفحات: ۳۳۶۔ قیمت: ۳۲۵۔ [اس کتاب کے ص ۸۷ سے ۲۲۸ تک، دو مختلف اداروں سے شائع ہونے والی مولانا مودودی کی کتب کو شامل کرکے چند ایسے مضامین کو ساتھ جمع کر دیا ہے، جو بار بار شائع ہوئے یا حال میں طبع ہوئے ہیں۔ یوں اس کتاب سازی کو ’نوادرات‘ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ مولانا مودودی سے منسوب کتب میں حددرجہ احتیاط اور سنجیدگی کا اہتمام کرنے اور اہتمام کرانے کی ضرورت ہے۔ ]

راجا محمد عاصم ، موہری شریف، گجرات

’نبی کریمؐ بحیثیت مدبّر اور ماہرِ سیاست‘از سیّدابوالاعلیٰ مودودی اور ’معلمِ اخلاق‘ از محمد عنایت اللہ سبحانی (دسمبر ۲۰۱۶ء) میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے سیرت کا جو کردار پیش کیا گیا ہے، اس میں ہمارے لیے اخلاقی، معاشرتی اور سیاسی لحاظ سے بہترین سبق ہے۔ جس پر عمل کر کے ہم اپنی زندگی میں دنیا اور آخرت کے لیے آسانیاں پیدا کرسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کو اَجرعظیم عطا فرمائے۔ آمین!


حاجی انوارا للّٰہ   ، مدین، سوات

مولانا مودودی کا مضمون ’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت مدبّر اور ماہرِ سیاست‘ (دسمبر ۲۰۱۶ء) ایک بہترین مضمون ہے۔ ہم آج قومی سیاست اور سیاست دانوں پر نظر دوڑاتے ہیں تو اس منارئہ نور سے کچھ بھی نسبت دکھائی نہیں دیتی۔ اللہ تعالیٰ ترجمان کے منتظمین کو اس خدمت پر اجرِعظیم عطا فرمائے، آمین!


عبدالجبار  بھٹی ،پتوکی

’جمہوریت کو خطرہ ___ مگر کس سے؟‘ (دسمبر ۲۰۱۶ء) میں ملکی حالات کی ایک واضح تصویر  پیش گئی ہے۔ ’کلامِ نبویؐ کی روشنی‘ کے سلسلے میں گزارش ہے کہ احادیث مبارکہ کا عربی متن ضرور ساتھ دینا چاہیے۔ اِس سے کتنے اَحباب ،کارکنان جماعت اَور اہل علم حضرات احادیث مبارکہ کا متن یاد کرلیں گے۔ ’سفرِ چین :چند مشاہدات‘ میں گوادر بندرگاہ کی خوبیاں پڑھ کر حیرت ہوئی کہ خدا نے وطن عزیز کو  کیسی کیسی نعمتوں سے نوازا ہے ،لیکن ہم لوگ نہ خدا کی امانتوں کی حفاظت کرسکے اَور نہ اُس کی نعمتوں ہی کی قدر کرسکے ۔


دانش یار   ،لاہور

’اشارات‘ میں ملّت پاکستان کے لیے عقل و دانش اور غوروفکر کا جو سامان مہیا کیا گیا ہے اس نے ہماری مرکز سے ضلعی قیادت تک کے لیے بہت سا لوازمہ بیان و تقریر فراہم کر دیا ہے۔ چاہیے یہ کہ سینیٹ، قومی اسمبلی، عدلیہ کے فاضل جج صاحبان اور وکلا کو مطالعے کے لیے اسے بھیجا جائے۔


عمران ظہور غازی ،لاہور

’جمہوریت کو خطرہ؟‘ میں جناب مدیر ترجمان نے وطن عزیز کے حالات کا جائزہ پیش کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ مسلم قوم واضح سمت اور راہ کھو دینے کے باعث کتنے ہی حصوں میں بٹ گئی ہے۔


غلام قادر پرہاڑ  ، محمود کوٹ، مظفرگڑھ

قاضی رحمت اللہ کے مضمون ’اللہ کی بُرہان‘ (ستمبر ۲۰۱۶ء) میں سیّد مودودیؒ کی زندگی کے کئی سبق آموز واقعات سپردِقلم کیے گئےہیں۔ان میں راولپنڈی اسٹیشن کے قلی کی کیسی خوب صورت مثال پیش کی گئی ہے۔    اسی سے ملتاجلتا واقعہ عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے بیٹے کا ہے جو ایک دن مزدوری کرتا اور ایک دن اللہ کی عبادت کرتا تھا۔اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس سے سبق سیکھنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!


نزہت اسلام ، ای میل

خرم جاہ مراد کے مضمون ’خانۂ کعبہ اور مسجد حرام‘ (اگست ۲۰۱۶ء) کی اہمیت اور دل چسپی وہی شخص  جان سکتا ہے جو ابھی ابھی حج، عمرہ اور مسجدالحرام کی زیارت سے لوٹا ہو۔ مطاف کے گردا گرد بے شمار ستونوں اور گول گنبد والے برآمدوں کے بارے میں ہمارا خیال تھا کہ شاید شاہ عبدالعزیز کے زمانے کی تعمیر ہے۔ اس مضمون سے معلوم ہوا کہ یہ ۹۸۰ھ میں تعمیر ہوئے اور ترکی کے حکمران سلیم کی یادگار ہیں۔