جنوری ۲۰۱۷

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| جنوری ۲۰۱۷ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

خطبہ میں حضرت فاطمہؓ کا نام ہی کیوں؟

سوال :  جمعہ اور عیدین کے خطبات میں جہاں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کے نام لیے جاتے ہیں، دوسری صاحب زادیوں کے نام کیوں نہیں لیے جاتے؟ حالاں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی چار صاحب زادیاں ہیں؟

جواب: جمعہ اور عیدین کے خطبوں میں حضرت فاطمہؓ اور حسنؓ و حسینؓ پر صلوٰۃ و سلام کا طریقہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے دور سے شروع ہوا۔ اس کا تاریخی پس منظر، یزید کی حکومت کی طرف سے آلِ رسولؐ کے ساتھ وہ زیادتیاں ہیں، جو تاریخ کا سب سے زیادہ جذباتی، ہیجانی اور المناک مسئلہ ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے اپنے دور میں اس کی تلافی کے لیے یہ طریقہ تجویز فرمایا کہ خطبوں میں ان برگزیدہ ہستیوں پر صلوٰۃ و سلام بھیجا جانے لگا، جب کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری صاحب زادیوں یا ان کی اولاد کے ساتھ ایسا کوئی المناک سلوک نہیں ہوا تھا۔ اس لیے یہ سلسلہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے بعد آج تک رائج ہے۔ ورنہ یقینا جس طرح آپؐ کی صاحب زادی حضرت فاطمہؓ ہیں، اسی طرح دوسری بیٹیاں بھی قابلِ احترام ہیں۔ ان میں اگر درجات کا کوئی فرق ہوسکتا ہے یا کیا گیا تو اس کی بنیاد اعمالِ صالحہ اور اخلاص، تقویٰ کے سوا اور کوئی نہیں ہے اور نہ ہوسکتی ہے۔ یہ سب برگزیدہ ہستیاں ہیں اور اللہ کےیہاں سبھی کے بلند درجات ہیں۔ خصوصیت کے ساتھ خطباتِ جمعہ اور عیدین میں ان پر درود و سلام بھیجنے کی اس کے سوا کوئی اور وجہ میرے علم میں نہیں ہے ۔ بہتر یہ ہے کہ خطیب، حضرت فاطمہؓ کے بعد وَعَلٰی سَائِرِ بَنَاتِ النَّبِیِّ کہے کہ ہمارے لیے رسولؐ کی ساری بیٹیاں یکساں قابلِ احترام ہیں۔(مولانا محمد یوسف اصلاحی)


عورت اور میراث

س :  قرآنِ کریم کا حکم ہے کہ وراثت میں عورت کا بھی حصہ ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں عورت کو حصہ نہیں دیا جاتا۔ اسلام جاننے والے بھی اور نہ جاننے والے بھی اکثروبیش تر اس ظلم میں برابر کے شریک دکھائی دیتے ہیں۔ اس مسئلے کے بارے میں رہنمائی کیجیے، تاکہ سب کو واقفیت ہوجائے؟

ج: یہ انتہائی افسوس ناک منظر ہے۔ عورت کا حصہ خواہ وہ ماں ہو یا بیٹی یا بیوی یا کوئی بہن، قرآن نے صاف صاف بیان کیا ہے اور اس کا یہ حصہ ادا نہ کرنا صرف بے انصافی اور ظلم ہی نہیں ہے بلکہ قرآن کے خلاف اعلانِ بغاوت ہے۔ ایسے لوگ اگر صرف عملاً یہ غلطی کر رہے ہیں تب بھی سخت ترین گناہ میں مبتلا ہیں۔ عورتوں کا جو حصہ وہ کھا رہے ہیں بالکل کھلا حرام کھا رہے ہیں اور  حرام کھانے والے کی کوئی عبادت اور کوئی عمل اللہ تعالیٰ قبول نہیں کرتا۔ اور اگر خدانخواستہ وہ ذہنی   طور پر بھی اس گناہ پر مطمئن ہیں اور قرآن کے اس حکم ہی کا انکار کرتے ہیں، تب تو ان کا دین و ایمان بھی محفوظ نہیں ہے۔

ضرورت ہے کہ باشعور اور دردمند، دین سے واقف نوجوان پوری قوت اور جوش و جذبے کے ساتھ مسلمانوں تک اللہ کی کتاب کا یہ حکم پہنچائیں کہ مال کا اصل مالک اللہ ہے۔ اس نے جس کا جو حق رکھا ہے وہ اٹل ہے، کسی بندے کو یہ اختیار نہیں کہ وہ ذرا برابر بھی اس میں دخل دے۔ لڑکیوں کے یہ حقوق صاف صاف قرآن میں لکھے ہوئے ہیں۔ مسلمان کا کام صرف یہ ہے کہ وہ ان کو مانے اور ان پر عمل کرے۔

اس سلسلے میں خواتین کو بھی کسی جھجک کے بغیر سنجیدہ اور مؤثر کوشش کرنا چاہیے۔ قرآن و سنت سے میراث کے واضح احکام کھول کھول کر بیان کرنے کا ہرہرموقعے پر اہتمام کرنا چاہیے۔ جو خواتین قلم سے  کام لے سکتی ہوں، وہ میراث کے احکام پر قلم سے کام لیں اور میراث کے قوانین کو واضح کریں۔ میراث سے متعلقہ قوانین کی خلاف ورزی پر اللہ تعالیٰ نے جو سخت سزائیں اور وعیدیں سنائی ہیں ان کو پورے زورِ بیان کے ساتھ واضح کریں اور خاندانی زندگی میں جم کر اپنے حقوق کے لیے لڑیں، اور وصول کریں۔ اگر انھیں مال کی ضرورت نہ ہو، تب بھی موجودہ حالات میں لازماً اپنے حقوق اور حصے حاصل کریں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے قانون کو نافذ کرنے اور اللہ کے دین کو قائم کرنے کی کوششوں ہی کا ایک حصہ ہے۔ یہ وقت کا جہاد ہے، عورت کو صرف دنیوی مال ہی اس کوشش سے میسر نہ آئے گا بلکہ اللہ کے دین کو قائم کرنے اور اس کے قانون کو مسلمان معاشرے میں دوبارہ رائج کرنے کا غیرمعمولی اجروصلہ بھی ملے گا۔ اس طرح ان کی یہ کوشش و کاوش اللہ کی رضا کا باعث ہوگی۔ پھر اگر ان کو مال کی ضرورت نہ ہو تو جس کو چاہیں وہ اپنی خوشی سے دے دیں، لیکن اللہ کے قانون کو رائج کرنے کے لیے اپنا حق اور حصہ ضرور وصول کریں۔(مولانا محمد یوسف اصلاحی)


خلع اور نان نفقہ

س : میری بیوی تقریباً سات ماہ سے اپنے گھر پر ہے اور خلع مانگ رہی ہے۔ سات ہزار ماہانہ خرچ مانگ رہی ہے، جب کہ وہ اپنی مرضی سے گھر پر ہے۔ میں کئی دفعہ لینے گیا لیکن اس نے آنے سے انکار کر دیا۔ کیا ایسی عورت کو ماہانہ خرچ دینا لازم ہے، نیز ایسی عورت جو خود خلع لے رہی ہو، اسے حق مہر دینا چاہیے؟ میں نے اور میرے گھر والوں نے جو زیور (سونا) شادی میں دیا تھا، وہ بھی مجھے بغیر بتائے اپنے ساتھ لے گئی ہے۔ کیا اسے یہ واپس کرنا چاہیے، جب کہ میں اس کا جہیز اس کو واپس کررہاہوں؟

ج:مذکورہ صورت میں اگربیوی اپنی مرضی سے بغیر کسی شرعی وجہ کے میکے میں بیٹھی ہوئی ہے، اور آپ کے بار بار بلانے کے باوجود واپس نہیں آرہی ہے، تو ایسی صورت میں وہ نان و نفقہ کی حق دار نہیں ہے اور آپ پر اس کی ادایگی لازم نہیں ہے۔

اگر آپ اس سے مہر واپس لے کر خلع دے رہے ہیں یا اگر اس نے اپنا مہر وصول نہیں کیا اور اب وہ اپنا مہر معاف کر کے خلع لے رہی ہے تو اس صورت میں آپ پر مہر کی ادایگی لازم نہیں ہوگی، لیکن اگر آپ اس سے مہر معاف کروائیں یا اس کے مہر وصول کیے بغیر طلاق دیتے ہیں تو آپ پر مہر کی ادایگی لازم ہوگی۔

شوہر اور اس کے والدین کی طرف سے دلہن کو جو زیور دیا جاتا ہے، اس کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ اگر یہ زیور مہر کا حصہ ہو، یا مہر کے طور پر دیا گیا ہو، یا لڑکی کو ہبہ (تحفہ) کر کے اسے واضح طور پر مالک بنا دیا گیا ہو، یا مالک بنانے پر واضح قرینہ موجود ہو، تو ان تمام صورتوں میں یہ زیور لڑکی کی ملکیت کہلائے گا۔ لڑکے والے اس زیور کی واپسی کا مطالبہ نہیں کرسکتے۔ اگر یہ زیور مہر کا حصہ نہ ہو اور مہر کے طور پر بھی نہ دیا گیا ہو، یا لڑکی کو ہبہ کرکے اسے واضح طور پر مالک بنا کر نہ دیا گیا ہو اور مالک بنانے پر واضح قرینہ بھی موجود نہ ہو تو ان صورتوں میں اس مسئلے کا مدار ’عرف‘ پر ہوگا، یعنی کہ اگر یہ زیور لڑکی کو مالک بنا کر دینے کا عرف اور رواج ہو تو یہ زیور لڑکی کی ملکیت ہوگا، اور اگر لڑکی کو مالک بنا کر دینے کا عرف اور رواج نہ ہو بلکہ صرف استعمال کے لیے دیا جاتا ہو تو لڑکی اس زیور کی مالک نہیں کہلائے گی بلکہ لڑکے والے اس کے مالک کہلائیں گے ، اور وہ اس زیور کی واپسی کا مطالبہ کرسکتے ہیں اور لڑکی والوں پر یہ زیور واپس کرنا لازم ہے۔(مولانا محمد حسان  اشرف   عثمانی)


معاش کی ذمہ داری کس پر؟

س : اکثر دیہات اور محنت کش طبقوں میں عورتوں کے ساتھ ظلم کیا جا رہا ہے کہ وہ زندگی کے تمام شعبوں میں مرد کے ساتھ برابر کام کرتی ہے۔ کیا یہ ظلم نہیں ہے جب کہ قرآن نے عورت کو گھر کا اندرونی کام کرنے کا حکم دیا ہے؟

ج:اسلام نے معاش کی ذمہ داری اصولاً مرد پر ڈالی ہے اور گھر کی دیکھ بھال کا ذمہ دار عورت کو قرار دیا ہے۔ اگر کسی جگہ کے رواج کے مطابق عورتیں کچھ محنت مزدوری کا کام اپنی خوشی سے کرتی ہیں اور اپنے منصبی فرائض بھی انجام دیتی ہیں، تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ لیکن اگر مرد اس کو مجبور کررہا ہے اور منصبی فرائض کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ یہ ذمہ داری بھی اس پر عائد کرتا ہے کہ وہ ضرور کماکر بھی لائے اور باہر کے کام بھی وہی کرے، تو ایسا کرنا مرد کے لیے صحیح بھی نہیں ہے اور اس کی مردانگی اور مردانہ حیثیت کے بھی خلاف ہے۔

صحیح بات یہ ہے کہ معاش کی ذمہ داریاں وہ خود سنبھالے اور عورت کو موقع دے کہ وہ پوری تن دہی اور آزادی کے ساتھ اپنے حصے کی ذمہ داریاں بہ حسن و خوبی انجام دے۔(محمد یوسف اصلاحی)