قرآن کریم روشنی کا منبع ہے، ایسی روشنی جو انسانی زندگی کو جہالت اور حیوانیت کی ظلمت سے باہر نکلنے میں مدددیتی اور ہدایت کے طالبین کو صراطِ مستقیم دکھاتی ہے۔ قرآنِ کریم کے پیغام کو سمجھنے اور اس کے نُور سے دلوں کی دنیا منور کرنے اور معاشرتی ظلمتوں کو عدل و شائستگی کی راہوں پر استوار کرنے کے لیے ہزاروں اہلِ علم و تقویٰ نے کئی اسالیب اختیار کیے۔ زیرنظر کتاب بھی اسی نوعیت کی منفرد کاوش ہے۔
مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم و مغفور نے سورئہ فاتحہ سے المائدہ تک، قرآنی سورتوں کا ایک گروپ متعین کیا تھا، جس میں خاص نوعیت کے موضوعات اپنی معنویت، استدلال اور پیغام کے ساتھ موجود ہیں۔اس ذیل میں محترم خرم مراد نے (جن کی رحلت کو گذشتہ دسمبر میں ۲۰برس گزر گئے) سورئہ بقرہ کے مرکزی مضامین کو ایک ترتیب کے ساتھ مرتب کیا تھا، جب کہ عبدالرشید صدیقی صاحب نے سورۂ آل عمران، النساء، المائدہ کے نکات کی اسی انداز سے تدوین کی ہے۔ اس مقصد کے لیے فاضل مرتبین نے جید مفسرین کی تحقیقات اور بیانات کو خوب صورتی سے مرتب کیا ہے۔ انھوں نے خاص طور پر مغرب کی غیر مسلم دنیا کو پیش نظر رکھا ہے، تاکہ وہ قرآن کا پیغام سمجھ سکیں۔ واقعہ یہ ہے کہ قرآنی نُور کی یہ کرنیں صرف غیرمسلموں کے لیے نہیں بلکہ خود مسلمانوں کے لیے بھی اتنی ہی ضروری ہیں کہ وہ انھیں پڑھیں، سمجھیں اور عمل میں ڈھالیں۔
آج، رفتہ رفتہ قومی زبانیں بے اثر بنائی جارہی ہیں اور نئی نسل کو انگریزی کی غلامی میں دیا جارہا ہے۔ اس فضا میں زیرتبصرہ کتاب کے ذریعے نسلِ نو کا رشتہ قرآن سے جوڑنے میں مدد مل سکتی ہے۔ فائونڈیشن اس خوب صورت کتاب کی اشاعت پر مبارک باد کی مستحق ہے۔ (سلیم منصور خالد)
سیرت خاتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسا موضوع ہے ، جس پر جتنا بھی لکھا جائے کم ہے۔ آپؐ کی حیات مبارکہ کے ہر پہلو کا احاطہ کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔ دارالسلام کے روح رواں عبدالمالک مجاہد صاحب نے سیرت انسائی کلو پیڈیا کے تصور کو اپنی روایات کو قائم رکھتے ہوئے گیارہ مفصل جلدوں میں طبع کیا ہے، جو اعلیٰ طباعتی معیار ، عمدہ پیش کش، پاے دار کاغذ اور رنگا رنگ نقشوں اور تصاویر سے مزین ہے۔ جس پر جناب مجاہد اور ان کی ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے۔
پہلی جلد کا آغاز سیرت نگاری پر ایک مفصل مقدمے سے ہوتا ہے، جسے پروفیسر محمد یحییٰ صاحب نے تحریر کیا ہے۔ یہ جلد چھے ابواب پر مشتمل ہے۔ اس میں جزیرہ نماے عرب کے جغرافیہ، تاریخی پس منظر ، وہاں پائی جانے والی اقوام و قبائل ، ماضی کی حکومتوں ، بیرونی حملوں ، تولیت کعبہ اور عرب جاہلیہ کے مذہب اور شرک ، تجارت و ثقافت اور ہمسایہ سلطنتوں میں پائے جانے والے مذاہب کا تذکرہ ہے ۔
دیگر جلدوں میں جملہ موضوعات کو محنت سے لکھا اور پیش کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر: رسولِ کریمؐ کے خاندان اور ولادت سے لے کر حجۃ الوداع اور آپؐ کے سفر آخرت اور اُمہات المومنینؓ اور آپؐ کی اولاد کے بارے میں معلومات شامل ہیں۔ آخری اور گیارھویں جلد نبی کریمؐ کی حیاتِ مبارکہ ، اخلاق ، خصوصیات، معجزات، ادعیہ اورمناقب ِ نبویؐ پر روشنی ڈالتی ہے۔
ان تمام موضوعات پر عموماً قرآن و حدیث کی روشنی میں گفتگو کی گئی ہے اور کئی مقامات پر معروف تاریخی کتب سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ ہر موضوع پر ایک باب قائم کیا گیاہے، جس کے بارے میں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ مر تبین میں سے کس نے انفرادی یا اجتماعی طور پر تحریر کیاہے ۔ تمام جلدوں میں زبان وبیان میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ اس سے نظر ثانی کرنے والے محققین کی محنت کا پتا چلتا ہے ۔ پہلی جلد میں مقدمہ بہت معلومات افزا ہے، لیکن غیر ضروری طور پر صرف ایک سیرت نگار مولانا شبلی نعمانی پر تنقید (صفحہ ۹۱تا ۱۰۸) مناسب نہیں ہے۔ البتہ اگر اسی طرح دیگر سیرت نگاروں کے کام کا جائزہ بھی لیا جاتا تو مناسب ہوتا ۔
جلد پنجم میں مکہ کے قبائلی نظام کو مکہ کی جمہوریت نما قبائلی حکومت (ص۳۴ ) کہنا جدتِ اظہار تو ہو سکتا ہے لیکن حقیقت نہیں کہا جا سکتا ۔ ایک خالص قبائلی نظام اور مغربی لادینی جمہوری نظام میں کافی بنیادی فرق پایا جاتا ہے۔ اسلامی ریاست اور اس سے متعلقہ اہم موضوعات میں بھی تشنگی پائی جاتی ہے۔ قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں جو موضوعات قائم کیے گئے ہیں ان میں مسلم علما کی تحقیق سے بھی استفادہ کیا جاتا تو مناسب ہوتا۔ دراصل ’انسائی کلوپیڈیا‘ کا لفظ اصطلاح، تاثر اور تقاضا گہرائی اور تحقیق کا مطالبہ کرتا ہے۔ ’دائرۃ المعارف‘(انسائی کلوپیڈیا) کے لیے ایک اعلیٰ تحقیقی منصوبے کے ساتھ عالمی سطح پر محققین کا اپنے تخصص کے دائرے میں مضامین لکھنا بنیادی ضرورت ہے ۔ اس لیے ہماری تجویز ہے کہ اسے بلند معیار بنانے کے لیے ہر موضوع کے ماہرین کو عالمی سطح پر دعوت دی جائے اور پھر ایک اعلیٰ مجلس ان مضامین کے جائزے اور نظرثانی کے بعد مذکورہ دائرۃ المعارف میں طبع کرنے کا مشورہ دے ۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
یہ ۲۰۱۱ء کے سفرِ حج کی دل چسپ اور دل گداز رُوداد ہے۔ جب مصنف کو اپنے دیرینہ خوابوں کی تعبیر ملی۔ سردیوں کی ایک صبح ریڈیو کی ایک خبر نے سعیداکرم کو چونکا دیا: ’’رواں سال کے لیے حج پالیسی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ پہلے آیئے پہلے پایئے کی بنیاد پر ۷؍اپریل تک درخواستیں وصول کی جائیں گی‘‘۔ اس خبر نے انھیں پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیا۔
حج اور عمرے کے سفرناموں میں اکثر زائرین مسائل اور رکاوٹوں کا ذکر کرتے ہیں۔ تاہم، سعیداکرم نے یہ سفر صبر، شکر، عاجزی اور انکسار کے ساتھ مکمل کیا، حرفِ شکایت زبان پر لانے سے اجتناب کیا۔ ہرجگہ انھوں نے ایک خاص کیفیت محسوس کی۔ جن دنوں مکہ میں تھے، باپ بیٹا اُن گلیوں اور بازاروں میں نکل جاتے جہاں گمان ہوتا کہ یہاں سے ہمارے پیارے نبیؐ بچپن میں اپنے دادا کی انگلی پکڑے گزرے ہوں گے۔
سفر نامے میں ایسا سوزو گداز ہے کہ پڑھتے پڑھتے کئی مقامات پر قاری کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ کتاب خوب صورت چھپی ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
جناب محمد اسحاق بھٹی، صاحب ِ علم و فضل تھے۔ انھیں برعظیم پاک و ہند کے قدیم علما کے احوال و تذکار میں دسترس حاصل تھی۔ وہ ایک صحافی، محقق، مترجم اور مؤرخ اور خوش گوار طبیعت کے مالک دانش ور تھے۔ ان کی یادداشت مضبوط اور مشاہدہ گہرا تھا۔ ادبی چاشنی کے لیے بسااوقات زیب داستان کا پھول بھی ٹانک لیتے تھے، مگر مجموعی طور پر ایک خوش کلام انسان تھے۔
زیر نظر کتاب میں انھوں نے ۲۴شخصیات کے بارے میں یادوں کے گلدستے سے گلاب چُنے ہیں۔ یہ نثرپارے دل چسپ پیراے میں، سادہ، شُستہ، رواں اور معلومات افزا شخصی احوال پر مبنی ہیں، کہ ایک کے بعد ایک پڑھتے ہوئے قاری کھنچتا ہی چلا جاتا ہے۔ بھٹی صاحب مسلکاً سلفی تھے مگر خوش مزاجی میں بریلوی تھے۔ اس کتاب میں شامل ہر مضمون قاری کی تشنہ لبی کو سیراب کرتا ہے۔ ایم ایم شریف، بشیراحمد ڈار اور اسماعیل ضیا پر مضامین، زندگی کا خوش رنگ تاثر ثبت کرتے ہیں۔ پروفیسر محمد سرور جامعی پر مضمون (۱۴۴-۱۷۲) تہذیب و شائستگی کی تصویر پیش کرتا ہے۔
پروفیسر سرورصاحب، مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے ناقد تھے۔اسحاق بھٹی صاحب نے پاکستان کے بزرگ صحافی کلیم اختر ( سرور صاحب کے بھانجے) کے حوالے سے یہ واقعہ نقل کیا ہے: ’’۱۹۶۴ء میں ایک روز ڈائرکٹر جنرل انٹیلی جینس این اے رضوی، لاہور میں سرور صاحب کے گھر آئے۔ میں بھی وہاں موجود تھا۔ رضوی صاحب نے ان سے کہا:ایوب خاں کے مقابلے میں فاطمہ جناح صدارتی اُمیدوار ہیں اور مولانا مودودی، فاطمہ جناح کی حمایت کر رہے ہیں۔ آپ سے گزارش ہے کہ مولانا مودودی کے خلاف مضمون لکھیے‘‘۔ تب سرور صاحب حکومت کے تحت ادارہ تحقیقاتِ اسلامی سے منسلک تھے۔ یہ بات سن کر سرور صاحب طیش میں آگئے اور بولے: ’’آپ سے کس نے یہ کہا ہے کہ میں مولانا مودودی کی ذات کے خلاف ہوں، اور وہ جو کچھ کہیں یا کریں، اس کی مخالفت کروں۔ دوسری بات یہ کہ میں کسی کے کہنے پر، کسی کی مخالفت یا موافقت میں مضمون لکھتا ہوں۔ پھر یہ کہ آپ کو مجھ سے یہ کہنے کی جرأت کیسے ہوئی کہ میں کسی خاص مسئلے میں جو آپ کے نزدیک پسندیدہ نہیں، مولانا مودودی کے خلاف لکھوں۔ اگر آپ اس لیے کہہ رہے ہیں کہ میں ادارہ تحقیقاتِ اسلامی میں ملازم ہوں تو میں آج ہی اس سے مستعفی ہوتا ہوں‘‘۔ اور انھوں نے اسی وقت ملازمت سے استعفا بھیج دیا اور پھر ادارہ تحقیقاتِ اسلامی کے دفتر اسلام آباد نہیں گئے۔ یوں اچھی خاصی ملازمت چھوڑ دی، مگر اپنے ضمیر اور اصول کی قربانی نہیں دی اور دربار سرکار کی خواہش کے مطابق مولانا مودودی کے خلاف نہیں لکھا‘‘ (ص ۱۵۹-۱۶۰)۔ اس واقعے سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ حکمران طبقہ کس طرح مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے خلاف سرکاری سطح پر پروپیگنڈا کے لیے وسائل اور اختیارات کو استعمال کرتا رہا ہے۔
کتاب میں جن شخصیات کے نام شامل ہیں، ان میں: میاںالحمدللہ، مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاری، شیخ قمرالدین [ناشر تفہیم القرآن]، حاجی محمد اسحاق، مولانا عبیداللہ احرار، حکیم عبدالسلام ہزاروی، مولانا محمد ابراہیم، مفتی عتیق الرحمٰن ، مولانا سعید احمد اکبرآبادی، میرعلی احمد تالپور، سیّد صباح الدین عبدالرحمٰن، عبدالمجید مالواڈا، حکیم عنایت اللہ سوہدروی، محمد رفیق زبیدی، مشفق خواجہ، مولانا مجاہد الحسینی، فاروق الرحمٰن یزدانی، ابوجی، مولانا سیّد محمد دائود غزنوی اور مریم جمیلہ۔
یہ کتاب تاریخ، شخصیت اور اسلامی تہذیب کے مختلف نقوش کو واضح اور تعلیم و تربیت کا عکس نمایاں کرتی ہے۔ اشاعت و پیش کش خوب صورت ہے۔ (س م خ )
تحریکِ اسلامی کے رہنما کی حیثیت سے مصنف نے افریقہ میں ایک مدت تک دینی، تربیتی اور رفاہی خدمات انجام دی ہیں۔ زیرنظر کتاب میں انھوں نے کینیا اور جنوبی افریقہ کے دورے کے تاثرات ، مشاہدات اور معلومات کو رواں دواں پیراے میں بیان کیا ہے۔ ان کے یہ سفر بنیادی طور پر دینی اوردعوتی جہت رکھتے ہیں۔ اس لیے ایک ایسا قاری جو تحریک اسلامی سے باقاعدہ تنظیمی وابستگی نہیں رکھتا،وہ بھی ان امور اور مسائل ومعاملات سے متعارف ہوتا ہے اور رہنمائی کے قیمتی پہلوئوں سے استفادہ کرتا ہے۔
حافظ محمد ادریس صاحب اپنے سفر نامے میں ذاتی مشاہدات وتاثرات کوبیان کرتے ہوئے اپنے مخاطبین اورمیز بانوں سے بھی متعارف کراتے ہیں۔ اس طرح ان کا سفر نامہ ایک فرد کی سیر بینی سے بڑھ کر پڑھنے والوں کا سفر نامہ بن جاتا ہے۔ اس ذیل میں یہ ان کا چوتھا سفر نامہ ہے۔(س م خ)
اس کتاب میں محترم مصنف نے عہدعباسی (۷۵۰ء تا ۱۲۵۸ء ) کے ۱۷ خلفا کے کتب خانوں کا جائزہ لیا ہے۔ اس پانچ سو آٹھ سالہ دورِ حکومت میں علماے اسلام نے مختلف علوم وفنون میں ترقی کے ساتھ ساتھ دیگر زبانوں کی علمی کتابوں کے عربی زبان میں ترجمے بھی کیے۔ زندگی کے مختلف شعبوں کے سرکردہ افراد نے مطابق علوم وفنون کی مختلف شاخوں میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ فاضل مؤلف نے وسیع مطالعے سے ان علمی خدمات کی تفصیلات پیش کی ہیں، اور عباسی دور کے علما، حکما، مفسرین ،محدثین ، امرا اور زندگی کے دوسرے شعبوں سے متعلق افراد اور اداروں کے کتب خانوں کا تعارف کرایا ہے۔ مزید یہ کہ کتاب سازی کے مباحث ، فن کتابیات کی اصطلاحات، کٹیلاگ سازی ، علوم کی درجہ بندی ، اور رموز اِملا کے تاریخی ارتقا، کاغذ سازی، سامانِ کتابت پر مستند معلومات فراہم کی ہیں۔ اس سلسلے میں مصنف نے نقل نویسی ، قلم، دوات، روشنائی اور نقل نویسوں کے لیے فراہم کردہ سہولتوں کی تفصیلات بھی پیش کی ہیں۔
یہ کتاب عہد عباسی میں مسلمانوں کی علمی ، ادبی دینی اور تہذیب وثقافت پر ایک طرح سے انسائی کلو پیڈیا کا سا مقام رکھتی ہے۔ (ظفر حجازی )
o نوادراتِ سیّد مودودیؒ، مرتبہ : اختر حجازی۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی ،منصورہ لاہور۔ صفحات: ۳۳۶۔ قیمت: ۳۲۵۔ [اس کتاب کے ص ۸۷ سے ۲۲۸ تک، دو مختلف اداروں سے شائع ہونے والی مولانا مودودی کی کتب کو شامل کرکے چند ایسے مضامین کو ساتھ جمع کر دیا ہے، جو بار بار شائع ہوئے یا حال میں طبع ہوئے ہیں۔ یوں اس کتاب سازی کو ’نوادرات‘ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ مولانا مودودی سے منسوب کتب میں حددرجہ احتیاط اور سنجیدگی کا اہتمام کرنے اور اہتمام کرانے کی ضرورت ہے۔ ]