تحریکاتِ اسلامی کا نصب العین معاشرتی تبدیلی اور انقلاب کا برپا کرنا ہے ۔ اس نصب العین کے حصول کا ایک اہم ذریعہ تعلیم ہے۔ اس لیے منصب رسالت پر فائز کرتے وقت داعی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے معلمانہ کردار سے آگا ہ کیا گیا تھا اور اولین ہدایت یہ دی گئی تھی کہ:
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ o خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ o اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ o الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ o عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ o (العلق ۹۶:۱-۵) (اے نبیؐ) پڑھو اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا، جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو، اور تمھارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا ، انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔
ان اولین نازل ہونے والی پانچ مختصر آیات میں ربِّ کریم نے جہاں اُمیّون میں سے منتخب کیے جانے والے سراجاً منیراً صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ تلقین کی کہ وہ اپنے رب کے نام سے تلاوت آیات کریں، وہیں یہ بات بھی سمجھا دی کہ یہ وہ علم نہیں ہے جو انسانی عقل تشکیل کرتی ہے۔ یہ وہ علم ہے جو وحیِ الٰہی کے ذریعے انھیں دیا جارہا ہے اور ان کے ذریعے ان تمام انسانوں تک اسے پہنچانے کا آغاز کیا جا رہا ہے، جنھیں آغاز میں خالق کائنات نے جمے ہوئے خون کی ایک پھٹکی سے پیدا کیا اور پھر شعور و آگہی سے نوازا ۔ ایک اور مقام پر تعلیم کی اس بنیادی اہمیت کو یوں بیان کیا گیا کہ وہ جو علم رکھتے ہیں اور وہ جو علم نہیںرکھتے، وہ برابر نہیں ہو سکتے ہیں:
قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ ط (الزمر ۳۹:۹) اِن سے پوچھو، کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہوسکتے ہیں؟
مزیدیہ بات بھی فرما دی گئی کہ جو لوگ علم رکھتے ہیں، وہ ایسے عباد(بندے) ہیں جو اپنے رب کے شاکر بندے ہونے کے ساتھ اپنے رب کاخَشیَہ یا تقویٰ اختیار کرتے ہیں: اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا ط (الفاطر۳۵:۲۸) ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں‘‘۔جو شعوری طور پر اس کی بندگی اختیار کرتے ہیں اور بندگیِ رب کے پیغام کو ہمہ وقت اپنی بنیادی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ادا کرتے ہیں ۔ داعیِ اعظمؐ نے خود اپنے بارے میں یہی بات فرمائی کہ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے (اِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا - مشکٰوۃ)۔ چنانچہ پہلے دن سے دعوتِ دین کی اشاعت کے لیے مکہ مکرمہ میں دارِ ارقم اور مدینہ منورہ میں صُفہ کے تعلیمی اور تربیتی ادارے قائم فرمائے ۔
گویا تحریکاتِ اسلامی کے لیے مکہ اور مدینہ ہر دو مقامات سے جو راہ نما اسوہ ملتا ہے، وہ اداراتی بنیاد پر تعلیم کی اشاعت ہے، یعنی یہ معاملہ محض انفرادی طور پر کرنے کا نہیں ہے۔اس لیے تحریکاتِ اسلامی کی ایک اہم ترجیح، تعلیم بطور ایک ادارہ ہونی چاہیے۔ چنانچہ توقع کی جاتی ہے کہ اس غرض سے تحریکاتِ اسلامی اپنے کارکنوں کی علمی تربیت کے لیے مطالعاتی حلقہ جات، اُسرے ، تربیت و تعلیم گاہوں ، خصوصی خطابات اور دیگر سرگرمیوں کا اہتمام کریں گی، تاکہ کارکنوں کے علم میں اضافے کے ذریعے ان میں خشیت اور تقویٰ پیدا ہو اور ضروری استعداد و آگہی کے ساتھ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے سکیں ۔
دعوت کے تناظر میںتحریکاتِ اسلامی کا د ائرۂ عمل ہمارے ہاں مروّجہ روایتی تصور تبلیغ سے بہت مختلف ہے ۔وہ علم کو اس کی ایک جہت تک محدود تصور نہیں کرتیں۔جہاں جہاں ان کے تصور میں نکھار ہے، وہاں اسلامی تحریکیں علم کے وسیع تر تصور کو پیش نظر رکھتی ہیں۔ اس ضمن میں معاملہ فرد کی اصلاح کا ہو یا فکر کی تطہیر کا، معاشرے کی تشکیلِ نو کا ہو یا سیاست کی تدوینِ جدیدکا ، ثقافت و تہذیب کے تصور کا تزکیہ ہو یا مذہبی منافرت دُور کرنے کا، مسلکی اختلافات میں اعتدال کی راہ تلاش کرنی ہو یا ملکی اور عالمی معیشت کا تنقیدی جائزہ لینے کا، اور نئے اسلامی عالمی نظام معیشت کا تعارف کا معاملہ ہو، اسلامی تحریکات ان اُمور سے آنکھیں بند نہیں کرسکتیں۔ اسی طرح گھرمیں اہل خانہ کے درمیان محبت و رحمت کے تعلق کی پرورش سے لے کر معاشرے سے تضادات دُور کرنے تک یا افراد ،خاندان اور معاشرے میں برداشت ، قبولیت (acceptability) اور تعاون کی مضبوط بنیادیں استوار کرنے کے کام ہوں، تحریکاتِ اسلامی کا تصور دعوت و ابلاغ ان تمام اور دیگر ممکنہ انسانی مسائل کا احاطہ کرتا ہے۔ تعلیم و تعلم کے ذریعے وہ اپنے اصلاحی اور انقلابی عمل کو اس کے منطقی انجام تک پہچانا چاہتی ہیں۔
عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو نہ صرف تحریکاتِ اسلامی بلکہ معاشرتی تبدیلی کی جو حکمتِ عملی بھی وضع کی جاتی ہے ، اس میں تعلیم بنیادی کردار ادا کرتی ہے ۔ سامراجی طاقتیں چاہتی ہیں کہ سیاسی طور پر غلامی و بے اختیاری کے شکنجے میں کسی گئی اقوام کو محکومیت کے زنجیروں میں اس طرح جکڑے رکھیں کہ وہ زنجیروں کو ’زیور‘ سمجھنا شروع کر دیں۔ اس خود سپردگی کو ’حسن و دانش‘ باور کرانے کے لیے مؤثر ترین ہتھیار کو وہ تعلیم ہی کا نظام سمجھتی ہیں اور اسی کو ذریعہ بناتی ہیں۔ برعظیم پاک و ہند ، انڈونیشیا ، ملایشیا، الجزائر، تیونس ، مصر، شام ، سوڈان، فلپائن، غرض کہ جہاں جہاں یہ مغربی سامراج گیا، اس نے تعلیم کے ذریعے ہی معاشرتی تبدیلی پیدا کی اور سیاسی غلامی کو گہرا کیا۔
پاکستان کے پس منظر میں تحریکِ اسلامی سے وابستہ افراد کی اگر مناسب تعلیمی منصوبہ بندی کی جائے تو دستورِ پاکستان کی روشنی میں بغیر کسی غیرجمہوری ذریعے کے،معاشرتی انقلاب کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے جو کلی انقلاب کے لیے ممد و معاون ہو گی۔ یہ تعلیمی معاشرتی انقلاب تحریک کی حکمت و دعوت اور طریق کار سے پوری مناسبت رکھتا ہے ، اور قلیل المیعاد اور طویل المیعاد منصوبہ بندی کے ذریعے تحریک کے نصب العین کے حصول کا ذریعہ فراہم کرسکتا ہے ۔
یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ اسکول، کالج اور یونی ورسٹی وہ مراکز ہیں، جہاں سے وہ افراد کار فراہم ہوتے ہیں جو سامراج کی چھوڑی ہوئی روایت کا حصہ بن جائیں تو نوکر شاہی میں بابو بن کر خوش و خرم رہتے ہیں ۔یہی افراد کار اگر اُس تعلیم سے گزریں جو سیر ت وکردار کی تعمیر اور عقل ود انش کی تہذیب کے ذریعے انھیں اپنے دین و روایات پر فخر کرنا سکھائے اور اسلام کو زندگی کا مقصد اور مشن بنانے کا داعیہ پیدا کرے، تو یہ افراد کار دنیا کے بڑے سے بڑے طاغوتی نظام کو اپنی حکمت عملی سے ایک عادلانہ معاشرے میں تبدیل کرنے میں کردار ادا کر سکتے ہیں ۔
تحریکِ اسلامی کویہ امتیاز حاصل ہے کہ آج پاکستان کے تمام صوبوں میں ایسے تعلیمی ادارے موجود ہیں جو اس کی فکر سے نظری اتفاق رکھتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس زمینی حقیقت سے ذہانت اور حکمت کے ساتھ فائدہ اٹھایا جائے اورایک جامع حکمت عملی اس موجود سہولت کو ایک قیمتی افرادی اثاثے میں تبدیل کر دے اور یہ افرادی اثاثہ تحریک اسلامی کے نصب العین کے حصول کا ذریعہ بن جائے۔
تعلیم وتربیت معاشرتی تبدیلی کی شاہراہ ہے، لیکن یہ اسی وقت صحیح نتائج پیدا کر سکتی ہے جب نہ صرف نصاب ، تدریسی کتب ، ادارے کا ماحول بلکہ معلمین و معلمات کاذاتی کردار سیرت اور اخلاق کی اعلیٰ مثال پیش کرتا ہو۔انبیاےکرام کا مقصدمحض کتاب کا پہنچا دینا نہیں تھا، ان کا اصل کارنامہ وہ اسوۂ حسنہ پیش کرنا تھا، جو ان کی تعلیمات کا مرقع اور ہر پیروکار کے لیے قابلِ عمل مثال ہو۔ اسی بنا پر داعی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرمایا گیا:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا o (احزاب ۳۳:۲۱) درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے ، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔
یہ اسی وقت ممکن ہے جب تعلیمی ادارے نظریاتی تربیت گاہوں میں تبدیل ہو جائیں۔ ملک گیر پیمانے پر ان کا نصاب ، اساتذہ کی صلاحیت ، تجربہ و کردار و سیرت اور نصابی کتب اور راہ نما کتب کے انتخاب میں بنیاد محض تعلیمی کمال نہ ہو بلکہ تربیتِ اخلاق ہو۔ اسی راستے پر چلتے ہوئے ان تعلیمی اداروں سے روشن دماغ قائد ، اخلاقِ حسنہ کے نمونے ، جرأت و خود اعتمادی کے امین، حلم و بُردباری اوربرداشت (tolerance ) اور استقامت کے نمایندے ،روحانی بالیدگی اور باہمی رحمت و مودت کے علَم بردار نوجوان پیدا ہو سکیں گے۔
یہ کام نہ تو مشکل ہے اور نہ کوئی خام خیالی۔ آج بھی جہاں کہیں صحیح اخلاقی تربیت، سائنسی علوم کی اعلیٰ تعلیم ، صبر و استقامت اور سچائی اور خود داری کی تربیت د ی جائے گی، وہاں سے ایسے افراد پیدا ہوں گے جو عصر حاضر کے نام نہاد سامراجی اجارہ دارقوتوں کا ایمان و اعتماد کے ساتھ مقابلہ کر سکیں گے۔
اسلام کی شورائی اور جمہوری اقدارکے ساتھ، خودانحصاری ، سچائی ، امانت، دیانت اور للہیت رکھنے والی شخصیت پیدا کرنے کے لیے تعلیم ہی کے ذریعے اپنے نصب العین کے واضح شعور کے ساتھ ایک جامع حکمت عملی اور صبر وتوکل کے سہارے یہ کام کرنا ہو گا ۔ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ مدینہ کا راستہ مکہ اور حبشہ سے ہو کر گزرتا ہے۔ مکہ کا صبر آزما دور اور حبشہ کی غریب الوطنی وہ مراحل ہیں جن سے گزرے بغیر عدل واحسان پر مبنی معاشرہ قائم نہیں ہو سکتا ۔ وہ چاہے مٹھی بھر افراد ہو ں لیکن ان مراحل سے گزر چکے ہوں تو وہ وقت کے جباروں کا فکری اور عملی سطح پر مقابلہ کرسکتے ہیں، جب کہ افراد کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہو، لیکن ان تمام مراحل سے نہ گزراہو تو وہ سمندر کے جھاگ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔
الحمدللہ، آج تحریک اسلامی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ تعلیم کے شعبے میں اس سے وابستہ افراد کے تعلیمی ادارے تقریباً پورے ملک میں کام کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے قابلِ غور سوال یہ ہے کہ کیا وہ ایسی معیاری اخلاقی تعلیم دینے میں کامیاب ہوئے ہیں،جو نئی نسل میں ذہنی انقلاب برپا کر دے اور انھیں مستقبل کی تعمیری اور اصلاحی قیادت کے لیے تیار کر دے؟
اس تعلیمی جہاد کے ساتھ دوسرا لازمی میدان وہ ہے، جسے قرآن کریم نے حکمتِ دعوت و ابلاغ سے تعبیر کیا ہے جو ہدایتِ الٰہی کو آسان اور ہر خاص و عام کے لیے قابل فہم بنا کر پیش کرنا ہے۔ آج ہم جسے ابلاغِ عامہ کہتے ہیں، یہ چاہے طبع شدہ الفاظ کی شکل میں ہو یا برقی پیغامات کی شکل میں، اس کا بنیادی مقصد مطلوبہ پیغام کو جاذبِ نظر بنا کر دل و دماغ میں اتار دینا ہے ۔ غالباً اسی بنا پر قرآن کریم کی آیات میں اثر انگیزی اور معرفت کو اس طرح سمو دیا گیا ہے کہ ہر آیت جامع اور مختصر ہونے کے ساتھ ساتھ لامتناہی مفہوم کی امین ہے، اور ایک طائرانہ نظر سے دیکھنے والے اور ایک تفقہ والی نگاہ رکھنے والے ، ہر دو کے لیے معانی و مفہوم کے خزانے فراہم کردیتی ہے۔
اس دور کا المیہ یہ ہے کہ کہ آج اولین تعلیم گاہ آغوشِ مادر اور اسکول اور مدرسے کے کردار کو برقی ابلا غ عامہ نے فنی مہارت کے ساتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ دُکھ کی بات یہ ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے افراد بھی اس مجرمانہ تہذیبی ڈاکے پر بے چین نظر نہیں آتے۔
تحریکِ اسلامی کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ اولاً اس اہم معاشرتی اور تہذیبی مسئلے سے قوم کو دلائل اور شواہد کی بنیاد پر آگاہ کرے ۔ ماں کی تربیت اورخاندان کی مرکزیت و عظمت کی تجدید اور حیاتِ نو کے لیے منظم جدوجہد کرے۔ ساتھ ہی اپنی دعوت کو پہنچانے کے لیے اس مؤثر ذریعے کو اخلاق کی پابندیوں اور تہذیبی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اختیار کرے۔ تعلیم گاہوں سے وہ نوجوان نکلیں جو نہ صرف سیرت و کردار بلکہ عصر حاضرکے مسائل سے آگاہی کے ساتھ ساتھ ایک تنقیدی نگاہ کے ساتھ مغرب کی لادینی فکر کا رد ، عقلی دلائل سے اور اسلام کے جامع نظامِ عدلِ اجتماعی کی وضاحت اپنے علم و تجربے کی مدد سے کر سکیں ۔
اس حوالے سے اس بات کی فوری ضرورت ہے کہ صحافیوں، ابلاغِ عامہ سے وابستہ ماہرین اور مصنّفین کے لیے ایک مستقل ادارہ ایسا قائم کیا جائے، جہاں تبادلۂ خیالات ،علمی تحقیق اور نوجوان نسل کی تربیت اس طر ح ہوسکے کہ نہ صرف ابلاغِ عامہ اور اجتماعی ابلاغ( Mass Communication) کی اعلیٰ ترین تربیت ہو، بلکہ انھیں اسلام کے نظام عدل اور پاکستان کی نظریاتی اساس و تاریخ پر پورا عبور حاصل ہو۔ یہی نوجوان تحریک کے نصب العین کے حصول کے لیے افرادی سرمایہ فراہم کریں گے اور تحریک کی تحریکیت کو قائم رکھنے میں مددگار ثابت ہوںگے ۔ ہر تحریک اسی وقت تک اپنا وزن اور اثر رکھتی ہے جب تک اس میں نیاخون ، فکری یک جہتی، اجتہادی صلاحیت اور نظم و ضبط قائم رکھنے کی صلاحیت موجود ہو۔ نیا خون اگر تحریکی فکر میں سطحی معلومات کے ساتھ شامل ہوگا، تو جلد یا بدیر جذبات کا شکار ہوجائے گا، اور اگر وہ تحریکی فکر کے رنگ میں رنگ گیا تو صبر و استقامت اور کامیابی کی علامت بن جائے گا۔
تعلیمی اور ابلاغی جہاد کا آغاز کرنے کے لیے وسائل اور خام مواد پہلے سے موجود ہے ۔ تحریکی فکر سے وابستہ افراد کے بہت سے ادارے اس میدان میں کام کر رہے ہیں، لیکن تاحال ایسی کوئی تنظیمی شکل اور انتظام موجود نہیں ہے جس کے ذریعے ایک فطری انداز میںانھیں باہمی تعارف و راہ نمائی فراہم کی جا سکے۔ یہ کام ان کی آزادی کو متاثر کیے بغیر سر انجام دیا جانا چاہیے۔ علمی، نصابی اور تربیتی حوالے سے ایسے راہ نما خطوط (Guide lines) باہمی مشورے سے باآسانی تیار کیے جاسکتے ہیں ، جن کی پابندی کا اہتمام سب ادارے بہ حسن وخوبی کر سکیں۔
تعلیمی اداروں کی صوبائی اور مرکزی سطح پر اداراتی تنظیم سے ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ وہ کسی ایک مرکزی نظم کے تحت آجائیں اور اپنی ترقی ، خودمختاری اور تنوع سے محروم ہو جائیں۔ قطعاً ایسا نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ان میں نصب العین اور حکمت عملی پر اتفاق ہو، وژن اور منزل واضح ہو او ر ہر طالب علم اتالیق کی نگرانی و سرپرستی میں اپنی شخصیت اور فکرکی صورت گری کر سکے، اور ایک مشاورتی عمل کے نتیجے میں اپنے مستقبل کانقشہ ذہن میں لے کر تعلیمی ادارے سے نکلے ۔ جس سے معلوم ہوسکے کہ طالب علم کو تعلیم مکمل کرنے کے بعد زندگی کے کس شعبے میںممتاز مقام حاصل کرنا ہے۔تجارت میں ، سرکاری ملازمت میں ، قانون نافذ کرنے والے اداروں میں، عدلیہ اور دفاع کے نظام میں یا ذاتی کاروبار کرناہے، ہنریا جو شعبہ بھی اسے پسند ہے ا س میں کس مقام تک اور کتنے وقت میں وہاں پہنچنا ہے ۔ جب تک یہ عملی زندگی کا منصوبہ، تعلیمی مراحل کے دوران میں واضح نہیں ہوگا، تعلیم مکمل ہونے کے بعد بھی وہ اپنے اہداف حاصل نہیں کر سکے گا۔
تحریک اسلامی کی کامیابی کا راز اس منصوبہ بندی میں ہے، جو زمینی حقائق کے پیش نظر، مطلوبہ اہداف کا حصول ایک مقررہ وقت کی میعاد میں کر سکے ۔ یہ تعلیمی حکمت عملی نابغہ (genius) افرادپیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ اس لیے اس کی اہمیت کے پیش نظر ترجیحات کی فہرست میں اسے سب سے اول ہونا چاہیے ۔ ابلاغِ عامہ کو ہم نے اس بنا پر اس کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے کہ تعلیمی مقاصد ابلاغ کی مناسب حکمت عملی کے بغیرحاصل نہیں ہو سکتے ۔
اس مہم میں نہ کسی بڑی مالی امداد کی ضرورت ہے اور نہ نئے سرے سے پہیہ ایجاد کرنے کی حاجت ہے ۔ صرف ترجیحات کی ترتیب پر غور اور موجودہ آزاد اداروں کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے ان کی فکری تنظیم بندی ، اہداف پر یکسوئی اور اساتذہ کی تربیتی حکمت ِ کار، نصابی کتب اور نصاب پر نظر ثانی کرنا ہے۔ پھر ان تمام مصادر کو اس طرح استعمال کرنا ہے، جو تحریک کے نصب العین سے مطابقت رکھتے ہوں ۔ تحریک کا نصب العین، در حقیقت پاکستان کا نصب العین ہے۔ اس لیے نصب العین کے اس اتحاد کی بنا پر تحریک کو اپنے کام کے لیے مکمل اخلاقی جواز حاصل ہے شرط صرف یہ ہے کہ اس کام کو ذمہ داری سے کیا جائے، تاکہ یہ محض رسمیت (formality) کا شکار نہ ہو اور اپنی اصل روح کے ساتھ ملک گیر بنیادوں پر زیر عمل لایا جاسکے ۔ ہر اس انسانی کوشش اور سعی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جو خلوصِ نیت سے اور کسی دنیاوی اجر ، تمغے اور اعزاز کے حصول کی طمع کے بغیر صرف اللہ کی رضا کے لیے کی جائے گی تووہ اس میں کامیابی دے گا ۔ یہ ابدی اصول ہے۔ اس میں کسی قوم اور زمانے کی قید نہیں۔تعلیمی حکمت عملی ہی کامیابی کا راستہ اور اسوۂ حسنہ کی پیروی ہے۔
قرآن کریم نے بے شمار مقامات پر اس بات کو دہرایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقررکردہ انبیاے کرام ؑ اپنی دعوتی سرگرمی میں دن رات تمام قوتوں کے ساتھ مصروف رہنے کے باوجود، لوگوں سے کسی اجر کی توقع نہیں رکھتے تھے۔تحریک اسلامی سے وابستہ افراد کی دعوتی سرگرمی بھی اگر خلوصِ نیت کے ساتھ اللہ کی رضا کے لیے ہے، تو وہ خود اپنے فضل و کرم سے تحریک کے لیے مشکلات کو دور کرے گا ، آسانیاں پیدا کرے گا،لیکن اگر نیت محض شہرت یا مادی ہدف ہو تو پھر ممکن ہے کہ دنیاوی ہدف تو حاصل ہو جائے، لیکن آخرت کا معاملہ مشکوک ہو جائے گا ۔ دوسری جانب اگر تمام تر کوشش ، خلوصِ نیت سے رضاے الٰہی کے لیے ہے، تو پھر چاہے فور ی نتائج حاصل نہ ہوں لیکن وہ جو پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کرنے کی قوت رکھتا ہے، اس کا فرمان ہے: وَلَا تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَo (اٰل عمرٰن۳:۱۳۹) ’’ دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘۔
تحریکِ اسلامی سے وابستہ کسی قائد یا کارکن کے لیے ذہن میں اس تذبذب کا پیدا ہونا کہ: اللہ کی مدد کب آئے گی؟ ہم کب تک یونہی جدو جہد کرتے رہیں گے؟ اسلامی تبدیلی اور انقلاب آکیوں نہیں جاتا؟ ایک عاجلانہ نفسیات کا پتا دیتا ہے۔ تحریکی نفسیات اُخروی زندگی کی کامیابی سے منسوب ہوتی ہے، جس میں یہاں کی ہر ناکامی اس کے جوش اور ولولے میں غیر محدود عزم و ارادے کا اضافہ کرتی ہے۔تحریکی نقطۂ نظر کی اصل کامیابی رضاے الٰہی کا حصول ہے اور اِس دنیا میں کامیابی اس کی طرف سے اضافی انعام ہے ۔
تعلیمی حکمتِ عملی کا ایک اہم مقصد اور ہدف علوم کی تدوینِ جدید ہے ۔ علوم چاہے معاشرتی علوم ہوں یااطلاقی (applied) جب تک ان کے بنیادی تصورات کودرست نہ کیاجائے، وہ ذہن اور معاشرہ پیدا نہیں کر سکتے، جو صرف اللہ کو رب مانتا ہو اور اصلاحِ احوال پر منتج ہو۔ غورو فکر اس بات پر ہونا چاہیے کہ ہم نے اب تک کن علوم کو اسلامی بنیادوں پر نئے سرے سے مدون کیا ہے اور بقیہ علوم کی اسلامی تشکیل جدید کا بنیادی کام کتنے عرصہ میں کر لیا جائے گا ۔ یہ وہی عمل ہے جس کے لیے قائد تحریک اسلامی نے خود بیش قیمت کام کیا۔ زندگی کے مختلف شعبوں کے لیے فکر اسلامی کی روشنی اور تشکیلِ نو کے خطوط کی نشان دہی کی اور فکر کو ایک نئے رخ سے آشنا کیا ۔ علومِ اسلامی کی تشکیلِ نو کے لیے واضح خطوطِ کار بھی متعین کیے ، اس کام کو مختلف میدانوں میں کرکے دکھایا اور نئے چراغ روشن کیے ۔ اس کے لیے ملک اور ملک سے باہر اداروں کے قیام کی فکر بھی کی لیکن اس کام کو جاری رکھنے اور نئی رفعتوں سے روشناس کرانے کے لیے کیا کیا جارہا ہے ؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے اور جو کمی کوتاہی ہے اس کی تلافی کی فکر بلا تاخیر کرنا چاہیے ۔
اس وقت وطنِ عزیز میں مروجہ تعلیمی نظام کی بنیاد، زندگی میں تقسیم کے اصول پر ہے۔ چنانچہ اس طرح جو ذہن پیدا ہوتا ہے وہ انسانی زندگی کو دنیاوی اور روحانی خانوں میں تقسیم کرتا ہے۔ ایک کا تعلق اس کے ذاتی روحانی سکون سے ہے اور دوسرے کا تعلق مادی ترقی ، قوت اور دولت سے ۔ اسلام اس تقسیم کو شرک سے تعبیر کرتا ہے اور تمام علوم کو وحیِ الٰہی کی روشنی میں مادی اور تجرباتی معیار کی جگہ ابدی اخلاقی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنا چاہتا ہے۔ معاشرے میں عدلِ اجتماعی کے قیام کے لیے تمام اطلاقی علوم (Applied Sciences) کی تدوینِ جدید کے ذریعے ایک ہمہ گیر فکری انقلاب کو ضروری قرار دیتا ہے ۔ اسلام رنگ و نسل، جنس اور زبان کی قید سے بلند ہو کر معاشرے کے ہر فرد پر کم از کم اتنی تعلیم کا حصول فرض قرار دیتا ہے، جس سے وہ شعوری طور پر ہرعمل کے اخلاقی یا غیر اخلاقی ہونے کا فیصلہ کر سکے اور حلال و حرام میں تمیز کے قابل ہو ، اسے طہارت اور نجاست کا فرق معلوم ہو۔ یہ طہارت محض جسمانی نہیں، فکری بھی ہے اور معاملات کی بھی ۔
تعلیم کے ذریعے معاشرتی اصلاح اور انقلاب کے عمل میں قرآن کریم، اللہ کے بندوں کی معاشی،معاشرتی،سیاسی، ثقافتی ضروریات کو پورا کرنا بھی ایک فرض قرار دیتا ہے ۔ جس طرح انسانوںپر اللہ کا حق ہے کہ رب العالمین کو وحدہٗ لا شریک مانتے ہوئے اپنا سر اطاعت اس کے سامنے جھکا دیا جائے، اسی طرح اللہ کے بندوں کا حق یہ ہے کہ ہر ضرورت مند ، مسکین ، فقیر، غریب کی اس حد تک امداد ہو جائے کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکے۔ یہی زکوٰۃ کا فلسفہ ہے اور اسی بنا پر صدقات ہوں یا انفاق، ان کے بارے میں فرما دیا گیا کہ جو کچھ ایک فرد کی اپنی ضروریات سے زائد ہو، وہ اسے اللہ کی خوشنودی کے لیے ضرورت مندوں پر خرچ کردے، تاکہ اس مال کے بدلے اسے ۷۰گنا یا اس سے بھی زیادہ اجر آخرت میں مل جائے۔
اسلام خدمت خلق اور حقوق العباد کو ایک وسیع تر معاشرتی تناظر میں دیکھتا ہے ۔خصوصاً اسلامی تحریکات، بنیادی دعوتی مقصد کے حصول کے لیے اس پہلو کو اپنی سرگرمیوں میں خصوصی ترجیحی مقام دیں ۔ اس حوالے سے سب سےپہلے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اللہ کے بندوں کو طبی سہولیات فراہم کرنے کی طرف توجہ کی جائے ۔
یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ ’الخدمت‘ کے زیر انتظام شفا خانے اور طبی مراکز ملک کے بعض حصوں میں خدمت ِ خلق کے لیے موجود ہیں ۔یہاں پھر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کو مریضوں کی فکری اور روحانی صحت کے لیے بھی استعمال کیا جارہا ہے ؟ ملک گیر منصوبہ بندی کے ذریعےہر مریض کے احوال کا تجزیہ اور حاصل شدہ معلومات کی بنا پر اس تک دعوتی معلومات پہنچانے کے لیے کاوشوں کا میدان کھلا ہے؟ یہی شکل تعلیم گاہوں میں اختیار کی جانی چاہیے، کہ والدین کے ساتھ کس درجے کا رابطہ رکھا گیا ہے؟ تعلیم اور خدمت خلق دراصل دعوت کے وسیلے ہیں۔ ان کا مقصد نہ صرف اللہ کے بندوں کی جسمانی صحت ہے بلکہ ان کی اخلاقی و روحانی ترقی اور فکری اصلاح بھی اس کا ایک اہم مقصد ہے ۔
طبی سہولیات مختلف شکلوںمیں فراہم کی جاسکتی ہیں ۔ بہترین شکل تو مفت طبی امداد کے مراکز کا قیام ہے۔ تاہم، کام کے آغاز کے لیے ایسے علاقوں میں جہاں دور دور تک ہسپتال کا وجود نہیں ہے، مقامی افراد سے مشورہ کر کے بآسانی انتظام کیا جا سکتا ہے کہ کوئی صاحبِ خیر اپنے گھر کا کوئی ایک کمرہ جس کا دروازہ باہر کھلتا ہو ،اس میں طبی معائنے کی میز رکھنے اور طبیب کے بیٹھنے کی جگہ نکل سکتی ہو،رضاکارانہ طور پر استعمال کر نے کی اجازت دے سکتا ہے۔ اس طرح بغیر کسی مالی بوجھ کے جگہ کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ ایسے ہی ایک دو مستند ڈاکٹروں سے رضاکارانہ طور پر ہفتہ میں ایک یا دو دن کا وقت مانگا جا سکتا ہے۔ علاقے کے میڈیکل اسٹوروں سے بات کی جاسکتی ہے۔ ایسے افراد جو قیمتی ادویات نہیں خرید سکتے،خصوصی رعایت کرکے اور بعض ادویات اس طبی مرکز کو عطیے کے طور پر بھی دینے کی تدبیر کریں ۔ یہ سارا کام قیاسی نہیں ہے بلکہ ذاتی تجربے پر مبنی ہے ۔ تعلیم کے میدان میں گھر، اسکول اور بیٹھک سکول کا تجربہ بھی اس سلسلے میں مشعلِ راہ بن سکتا ہے۔
طبی امدا د کے لیے سوزوکی کیری میں ایک پورا سفری شفاخانہ بنایا جا سکتا ہے، جو مقررہ دنوں میں کم آمدنی والوں کی بستیوں میں جا کر دو یا تین گھنٹے صرف کرے اور خصوصاً بچوں میں امراض کے تدارک کے لیے عوام کو تعلیم و تربیت دے اور ساتھ ہی بچوں کے مفت معائنے کے بعد انھیں ادویات بھی تجویز کرے ۔ ایسے معاملات، جن میں علاج کے لیے ہسپتا ل میں داخلہ ضروری ہو، انھیں کسی قریب کے ہسپتال تک پہنچایا جائے اور ادویات کے حصول میں ان کی امداد کی جائے۔
ملکی یونی ورسٹیوں میں تعلیم پانے والے طلبہ وطالبات کو رضاکارانہ طور پر الگ الگ وفود کی شکل میں قریبی ہسپتالوں کا دورہ کرایا جائے اور طلبہ مردوں کے وارڈ میں اورطالبات خواتین کے وارڈ میں جا کر ان کی عیادت کریں اور انھیں کوئی تحفہ دیں، چاہے وہ کوئی پھل یا ایک پھول ہی کیوں نہ ہو۔اس معمولی عملِ خیر کے نتیجے میںطلبہ وطالبات کو زندگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملے گا۔ جب وہ اپنی جیب سے پھل خرید کر مریضوں میں تقسیم کریں گے توجذبۂ انفاق پیدا ہو گا اور باہمی اخوت کو تقویت ملے گی ۔ اس پوری مشق کا مقصد طلبہ اور طالبات کو عملی دعوت سے روشناس کرانا اور خدمتِ خلق کے ذریعے متحرک کرنا ہے ۔ تعلیم بالغاں بھی کرنے کا ایک اہم کام ہے ۔ مناسب منصوبہ بندی کی جائے تو رضاکارانہ طور پر طلبہ کے ذریعے خصوصاً گرمیوں کی تعطیلات میں تعلیم بالغاں کے مراکز قائم کیے جاسکتے ہیں ۔
ملک میں معاشی عدم استحکام نے ہر شخص کو کرب ناک معاشی دوڑمیں لگا دیا ہے ۔ معاشی ضروریات کو تسلیم کرتے ہوئے تحریک ایسے اداروں کے قیام کی حوصلہ افزائی کر سکتی ہے جو چھوٹے کاروباروں کے لیے غربت اور بے روزگاری میں کمی لاسکیں، اور جو لوگ اس طرح ان کے رابطے میں آئیں، ان کی فکری تربیت کے ذریعے تحریک کی قوت میں اضافہ کر سکتے ہیں ۔
ہمارے ابلاغِ عامہ کے اداروں نے گذشتہ ۲۰سال کے عرصے میں جس طرح قوم کو بداخلاقی ، بد اطواری اور بد معاملگی کی تعلیم دی ہے، اس سے قوم کو نجات دلانے کے لیے تعمیری اور مثبت کام کی ضرورت ہے، محض تنقید اور احتجاج سے کام نہیں چل سکتا۔ بغیر کسی مزید تاخیر کے دعوتِ دین کے حوالے سے یہ چیز اب واجب کا مقام رکھتی ہے کہ تحریک سے وابستہ افراد کم از کم ایک میڈیا ہاؤس قائم کریں ، جو تعلیمی ، اصلاحی اور معاشرتی موضوعات پر ایسے پروگرام بنائے، جو فنی طور پر اعلیٰ معیار کے ہوں اور تحریک کی دعوت کو پیش کرتے ہوں۔
جب تک ابلاغِ عامہ کے ہم خیال ادارے نہیں قائم ہوتے، کم ازکم جو روایتی ادارے موجود ہیں انھیں شعوری طور پر توسیعِ دعوت ، تعمیر فکر و کردار کے لیے استعمال کیا جائے۔ اس غرض کے لیے خصوصی تربیتی پروگراموں کا ایک سلسلہ شروع کرنا ہو گا ۔اس کے لیے مساجد اور کمیونٹی کے مراکز [چوپال] کو استعمال کرنا ہو گاکہ عوام میں مسائل کا شعور اور ان کے حل کے لیے آگاہی پیدا ہوسکے۔ مفت مشاورت فراہم کرنے والے مراکز ہرگاؤں اور شہر میں قائم کیے جائیں، جن میں مقررہ اوقات میں رضاکارلوگوں کے مسائل سنیں اور انھیں قرآن و سنت کی روشنی میں حل سے آگاہ کریں۔
موجودہ معاشرتی مسائل کچھ اس رُخ سے اُلجھتے جارہے ہیں کہ خاندان میں معمولی معمولی اختلاف کے نتیجے میں طلاق کو ایک کھیل بنا لیا گیا ہے ۔ قرآن و سنتِ رسولؐ کی روشنی میں جو چیزسخت ناپسندیدہ ہے اسے ڈراموں ، فلموں اور ٹی وی شوز میں مضحکہ خیز شکل دے کر لوگوں کو دین سے دُور کیا جار ہاہے ۔نہ صرف طلاق بلکہ سگریٹ نوشی نے بھی صحت کے مسائل کھڑے کر دیے ہیں۔ اس نوعیت کے معاشرتی مسائل کا مقابلہ کرنے کے لیے عوام کی آگاہی کے لیے وقتاً فوقتاً کسی ایک مسئلے پر ملک گیر مہم چلانے کی ضرورت ہے ۔ جس میں علمی بحث بھی ہو، اور جمہوری ذرائع سے عوام کی تعلیم بھی ۔ جب تک ہم مقامی مسائل کو سمجھنے کے بعدحل پیش نہیں کریں گے،ہماری دعوت نامکمل رہے گی اور تحریک کی متوقع دعوتی کا میابی کی منزل قریب نہیں آسکے گی۔
مختلف شعبہ ہاے زندگی سے وابستہ افراد کے لیے ایسی تنظیمیں قائم کرنی ہوں گی، جن میں ماہرین فن اپنی پیشہ ورانہ ضرورت کے طور پر ان اداروں سے وابستہ ہوں اور معاشرتی تعلیم و انقلاب کے عمل میں ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں ۔ اس حوالے سے پہلے سے قائم شدہ تنظیموں کا جائزہ اور ان کے کام کی رفتار ، اہداف کا تعین اور حکمتِ عملی پر غور کرنا ہو گا کہ انھیں کس طرح مزید مؤثر بنایا جائے۔ مختلف پیشہ ورانہ تنظیموں کا مقصد بھی غیر سیاسی انداز میں تربیت اور اصلاحِ اخلاق ہو نا چاہیے تاکہ خلوص اور بے غرضی کا احساس ان اداروں سے وابستہ افراد میں راسخ کیا جاسکے ۔ دعوت کے کام کے غیر سیاسی پہلو سے قطعاً یہ مراد نہیں کہ سیاسی کام دعوتی کام سے مختلف ہے ۔
تعلیمی اور معاشرتی انقلاب اور اصلاح کے کام کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ خواتین کے مسائل کے، صحیح شعور کے ساتھ، قرآن و سنت کی روشنی میں ایسے حل تجویز کیے جائیں جو جدید تعلیم یافتہ خواتین کو مطمئن کر سکیں ۔ بیرونی امداد پر چلنے والے بے شمار رفاہی اداروں نے حقوق نسواں کے نام پرخواتین میں اشتعال اور اسلام سے دُوری پیدا کرنے کو اپنا نصب العین بنا لیا ہے۔ تحریک اسلامی کو ان موضوعات پر اپنا موقف اور زیادہ واضح انداز سے پیش کرنا ہو گااور بلاکسی معذرت کے اسلامی تعلیمات کو جدید زبان میں اس طرح پیش کرنا ہو گا کہ عقلی دلائل اور تاریخی شواہد کی بنیاد پر اسلام کے صحیح خدوخال کا فہم عام کیا جاسکے۔ موجودہ صورتِ حال میں خواتین میں ملک گیر بنیادوں پر ایک واضح تبدیلی کا آغاز ہو چکا ہے ۔ ایک جانب بہت سی وہ خواتین ہیں، جو کل تک اسلام کے بارے میں مخصوص پروپیگنڈے کے زیراثر ہچکچاہٹ کا شکار تھیں، اب اسلام سے قریب آئی ہیں۔ دوسری طرف این جی اوز کلچر نے بہت سی نوجوان خواتین کو اسلام سے دُور بھی کیا ہے ۔ اس پہلو سے بھی مناسب حکمت عملی کے ساتھ اس طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ خواتین کی فکری تطہیر اور تنظیم غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے ۔