جنوری ۲۰۱۷

فہرست مضامین

یہ اسیرانِ اُمت، یہ گمنام ہیرو!

ایس احمد پیرزادہ | جنوری ۲۰۱۷ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

۶۵برس کی عمر کا محمد لطیف خان ضلع راجوری کے ایک دُور دراز علاقے کا رہنا والا شخص ہے۔ اس کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ ۱۰ کنال اراضی اور ایک مکان اُن کی ملکیت ہے۔  مال مویشیوں کو پہاڑوں پر گھاس چارا کھلا کر اپنی کمائی کا ذریعہ بناتے اور اس طرح گھر کی گزربسر کرتے آرہے تھے۔ محمد لطیف اپنے بچوں کی پڑھائی کے بارے میں لاپروا نہیں تھے۔ اُن کا بڑا بیٹا لکھنؤ یونی ورسٹی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کررہا تھا۔ ایک بیٹا اور تین بیٹیاں گجرات کے دینی مدارس میں قرآن حفظ کررہے تھے۔ ۲۰۰۶ء میں اس گھر پر آزمایشوں کا سلسلہ اُس وقت شروع ہوگیا، جب محمد لطیف خان کے بڑے بیٹے محمد اسلم خان کو دہلی پولیس کے خصوصی سیل نے لکھنؤ سے گرفتار کرلیا۔ اُنھیں ’دہشت گردی‘ کے متعدد واقعات میں ملوث قرار دے کر تہاڑ جیل میں بند کردیا گیا۔

دہلی میں اُن کے مقدمے کی شنوائی کچھوے کی چال چلتی رہی، تاریخ پہ تاریخ اور یوں برسوں بیت گئے۔ محمد لطیف جس نے کبھی ریاست کشمیر سے باہر قدم نہیں رکھا تھا۔ انھیں اپنے بیٹے تک پہنچنے اور اُن کا مقدمہ لڑنے میں کافی سختیاں جھیلنا پڑیں۔ابھی وہ دلی میں اپنے بڑے بیٹے کی رہائی کے لیے دوڑ دھوپ کرہی رہے تھے کہ اُن کا دوسرا بیٹا گجرات میں گرفتار کرلیا گیا ہے، جسے  کئی برسوں سے جیل کی کال کوٹھڑیوں میں تڑپا یا جا رہا ہے اور انجام کا کچھ پتا نہیں۔

محمد اسلم جو تہاڑ جیل میں نظر بند تھا اور دلی میں اُن کا مقدمہ چل رہا تھا، اسے دہلی کی عدالت نے دو برس قبل تمام الزامات سے نہ صرف باعزت بری کردیا بلکہ یہ بھی حکم دیا کہ ’’جن پولیس افسروں نے اس نوجوان کو بے بنیاد الزامات کے تحت گرفتار کیا ہے اُن کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے‘‘۔ بھارتی عدالتی احکامات کی پاس داری کا حال یہ ہے کہ جس دن محمد اسلم کو عدالت نے باعزت بری کردیا اُسی رات اُنھیں رہا کرنے کے بجاے ممبئی پہنچایا گیا، جہاں کسی اور مقدمے میں اُن کا نام پہلے ہی سے درج کیا جاچکا تھا۔ محمد لطیف کا رابطہ یہاں سے ہی اپنے بیٹے کے ساتھ کٹ گیا ، کیونکہ اُن کی رسائی صرف دلی تک تھی۔ دلی سے آگے جانے کے لیے نہ اُن کی مالی حالت اُنھیں اجازت دے رہی تھی اور نہ اُن کے پاس وہاں جانے کے لیے ضروری واقفیت تھی۔ اس لیے اُنھوں نے مجبوراً اپنے بیٹے کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا اور گھر واپس لوٹ آئے۔

 ۸جولائی۲۰۱۶ء کو برہان مظفر وانی اور اُن کے ساتھیوں کی شہادت کے بعد وادی جموں و کشمیر میں محکوموں اور مجبوروں کے جذبات اُبل پڑے۔ ابتر حالات نے ریاست کی پوری آبادی کو بیرونی دنیا سے کاٹ کر رکھ دیا تھا۔ کہاں کیا ہوا؟کس کی زندگی کہاںداؤ پر لگ گئی؟ اِس کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم ہی نہیں ہورہا تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ جمہوریت کے دعوے داروں نے انٹرنیٹ اور دیگر ذرائع ابلاغ تک بھی کشمیریوں کی رسائی کو قریب قریب ناممکن بنادیا تھا ۔اس کے علاوہ اُن دنوں یہاں ہونے والی قتل غارت گری نے بھی عام باشندوں کو کشمیر کی حدود سے باہر کی دنیا سے لاتعلق کر رکھا تھا۔یہاں کشمیر میں نوجوانوں کے سینے گولیوں سے چھلنی کیے جارہے تھے، بچوں اورعورتوں کو چھرّوں کی بوچھاڑ سے اندھا کیا جارہا تھا اور وہاں محمد اسلم خان کو ممبئی کی عدالت میں جرم بے گناہی کی سزا سنائی جارہی تھی۔ ریاست جموں وکشمیر سے تعلق رکھنے والے اس گمنام نوجوان کو ممبئی کی ایک عدالت نے دیگر چار لوگوں کے ساتھ برہان مظفر وانی کی شہادت کے صرف تین دن بعد فرضی الزامات کے تحت عمرقید کی سزا سنادی ہے۔اُن کی سزا کے بارے میں ریاست جموں و کشمیر میں، اس کے والدین کے علاوہ شاید ہی کسی کو پتا ہوگا۔ اور وہ بھی اس طرح کہ اُن کے والدین پر اُس وقت غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، جب کسی انجان فرد نے اُنھیں فون کرکے اطلاع دی کہ : ’’آپ کے بیٹے کو عمر قید کی سزا ہوگئی ہے‘‘۔

چند ہفتے قبل جس وقت محمد لطیف خان سے میری ملاقات ہوئی تو اُنھیں یہ تک معلوم نہیں تھا کہ اُن کے بیٹے کو کس مقدمے میںعمر قید کی سزا سنائی گئی اور آج اُنھیں کہاں رکھا گیا ہے؟ اُنھیں ممبئی سے کسی وکیل نے صرف یہ اطلاع دی تھی کہ :’’آپ کے بیٹے کو عمر قید کی سزا ہوئی ہے اور اگر آپ اس سزا کے خلاف اپیل کرنا چاہتے ہیں، تو فوراً ممبئی پہنچ جائیں‘‘۔ میں نے محمد لطیف سے وکیل کا نمبر لیا اور اُن سے بات کی تو معلوم ہوا کہ محمد اسلم اس وقت امرا وتی جیل میں مقید ہیں اور اُنھیں عمر قید کی سزا سنائی جاچکی ہے۔ میں نے سوال کیا: ’’کن الزامات کے تحت سنائی گئی؟‘‘ یہ وکیل صاحب نے مجھے فون پر بتانا مناسب نہیں سمجھا بلکہ کہا:’’آپ لوگوں کو ممبئی آکر ہی مقدمے کے بارے میں پوری تفصیل بتا دی جائے گی‘‘۔ شاید وکیل صاحب اپنے اخراجات ادا ہونے تک مقدمے کی تمام تر تفصیلات بتانا نہیں چاہتے تھے۔

محمد لطیف خان کی درد بھری داستان کا ایک اور تڑپانے والا پہلو بھی ہے۔ اپنے دونوں بیٹوں کی رہائی کے لیے دوڑ دھوپ کرنے کے لیے اُنھوں نے لوگوں سے بہت قرضہ لیاہے، سختیاں جھیلیںہیں، مصائب سہے لیکن کبھی بھی تحریک حق خود ارادیت سے بددل نہیںہوئے۔ اُنھوں نے لوگوں سے قرضہ وصول کرنے کے عوض اپنی دس کنال پر مشتمل کل اراضی گروی رکھی، جس مکان میں رہایش پذیر ہیں وہ بھی قرض داروں کے یہاں گروی ہے۔ اب اُن کی مالی حالت اس قدر پتلی ہوچکی ہے کہ وہ ممبئی جاکر اپنے بیٹے سے ملاقات کرنے کا خواب بھی دیکھنا بھول چکے ہیں۔بقول اُن کے: ’’میں جب دلی اپنے بیٹے کی ملاقات کے لیے جاتا، تو کئی دن تک فاقہ کشی کا شکار رہتا تھا اور فٹ پاتھوں پر سرد و گرم راتیں بسر کرتا تھا‘‘۔ بیٹے کے مقدمے کو دوبارہ کھولنے اور اس کی بے گناہی کو ثابت کرنے کے لیے ضروری قانونی چارہ جوئی کرنے کی نہ اُن میں سکت ہے اور نہ مالی لحاظ سے اس قدر بہتر ی پوزیشن میںہیں کہ وکیل کی فیس اور ممبئی جانے کے اخراجات اُٹھاسکیں۔ ۱۰سال سے اُن کا اسکالر بیٹا جیل کی کال کوٹھڑیوں میں سڑ رہا ہے۔ اُن کی پوری زمین اور مکان قرض داروں کے پاس گروی ہے۔ دوسرے بیٹے پر سزا کی تلوار لٹک رہی ہے۔ اس کے باوجود جب اُن سے بات کرتے ہیں تو صبر و استقامت سے لبریز ہمالیہ جیسی شخصیت اُن کے بوڑھے وجود میں نظر آتی ہے۔

یہ صرف محمد لطیف کی ہی داستانِ اَلم نہیں ہے بلکہ یہ بیرون ریاست درجنوں کشمیری قیدیوں کی داستانِ غم کا صرف ایک ورق ہے۔ ورنہ دل دہلانے والی سیکڑوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔

  • کشمیر یونی ورسٹی کے نوجوان اسکالر محمد رفیق شاہ گذشتہ قریباً ۱۰برس سے تہاڑ جیل میں پابند سلاسل ہیں۔ اُن کے مقدمے کی سماعت بھی کچھوے کی چال کی طرح ہو رہی ہے۔ اُن کی زندہ دل والدۂ محترمہ بڑی ہی دلیری کے ساتھ حالا ت کا مقابلہ کرکے اپنے اکلوتے بیٹے کی رہائی کے لیے کوششیں کرتے کرتے تھک چکی ہیں، لیکن انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
  • ٹنگ مرگ کے ایک اور قیدی محمد مظفر ڈار کے بھائی سے معلوم ہوا کہ ’نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی آف انڈیا‘ (NIA)نے اُن کے خلاف چار سو گواہوں کی فہرست عدالت میں پیش کی ہے اور این آئی اے دلی کے وکلا پر اُن کا مقدمہ نہ لڑنے کے لیے دباؤ بھی ڈال رہی ہے، جس کے نتیجے میں ایک معروف وکیل نے ڈھائی لاکھ روپے فیس وصول کرنے بعد اُن کا مقدمہ چھوڑ دیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ محمد مظفر ڈار جنھیں ڈھائی برس قبل این آئی اے نے سرینگر سے تہاڑ منتقل کرکے اُنھیں وہاں کسی مقدمے میں ملوث کیا اور اُن کے خلاف چار سو گواہوں کی فہرست تیار کی ، وہ گواہ کب تک اپنا بیان درج کرائیں گے اور پھر عدالت فیصلہ کب سنائی گئی؟ حد تو یہ ہے کہ ایک ایسا گواہ بھی فہرست میں شامل رکھا گیا ہے، جو امریکا میں مقیم ہے اور شاید ہی وہ کبھی ہندستان آکر گواہی کے لیے عدالت کے سامنے پیش ہو۔ ہندستان کے عدالتی نظام میں محمد مظفر ڈار کو اپنے مقدمے کا فیصلہ سننے کے لیے کئی زندگیاں درکار ہوں گی ۔ اُن کے بھائی کے بقول جیل میں وہ کئی امراض کا شکار ہوچکے ہیں، کمر درد نے اُن کا بُراحال کردیا ہے۔
  • تحریک حریت سے وابستہ غلام محمد بٹ ساکن زکورہ، مشتاق احمد ساکن کنیل ون اسلام آباد، طالب لالی وغیرہ بھی کئی برسوں سے تہاڑ جیل میں قید و بند کی زندگی بسر کررہے ہیں اور انصاف کے ناقص نظام کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔اُن کا نہ یہاں کوئی پُرسان حال ہے اور نہ عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں ہی اُن کی رہائی اورضروری قانونی امداد فراہم کرنے کے لیے اپنا کوئی کردار نبھا رہی ہیں۔ انسانی حقوق کی یہ تنظیمیں پریس بیانات اور رپوٹیں مشتہر کرنے تک ہی محدود ہیں اور کشمیری قیدیوں کے حوالے سے انھوں نے ان دونوں چیزوں سے بھی جیسے توبہ ہی کررکھی ہے۔

یہ صرف چند مثالیں ہیں، ورنہ ہزاروں کشمیری بیرون ریاست جیلوں میں نہ صرف جسمانی سختیاں جھیل رہے ہیں بلکہ نسلی تعصب کا شکار بھی بنائے جارہے ہیں۔ جیل حکام بھی اُن کے ساتھ دوسرے ملک کے شہریوں جیسا سلوک کرتے ہیں۔ ہندستان کی جیلوں میں قاتلوں، چوروں اور لٹیروںکی عزت وتکریم کی جاتی ہے، اُنھیں ہر طرح کی سہولت فراہم کی جاتی ہے لیکن کشمیر کے پڑھے لکھے سیاسی قیدیوں کی تذلیل ہی نہیں بلکہ اُنھیں ہر حیثیت سے ذہنی طور پر اپاہج اور مریض بنانے کے لیے کام ہورہا ہے۔اُن کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیا گیا ہے۔بے بنیاد مقدمات میں پھنسانا اور پھر قانون کے نام پر اُن کے ساتھ مذاق کرنا کشمیر سے باہر قانونی اداروں کا وتیرا بن چکا ہے۔

ظلم و جبر کی چکیوں میں پسنے والے ان مظلوم کشمیری نوجوانوں کو اپنے لواحقین سے کھل کر ملاقات کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی ہے۔گذشتہ تین ماہ سے مزید ۱۵ہزار سے زائد کشمیریوں کو جیلوں میں ٹھونس دیا گیا ہے۔آج تک ہمارے ان اسیرانِ ملّت نے کبھی بھی اپنی قوم سے کوئی شکایت نہیں کی، بلکہ یہ لوگ تحریک حق خودارادیت کے لیے اپنی جوانیاں قربان کررہے ہیں، اپنی راتوں کی نیند اور دن کا سکون غارت کررہے ہیں۔ صبر کے پیکر یہ نوجوان ہمارے ہیرو ہیں ۔ یہ ہماری تحریک کا اثاثہ ہیں۔ ان کی قربانیوں کو ہمیں ہر سطح پر اور ہرحال میں یاد رکھنا ہوگا اور اِن قربانیوں کے تئیں ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا ہوگا۔

بظاہر سمجھا جاتا ہے کہ خطۂ پیرپنجال اور وادیِ چناب شاید تحریک میں پیچھے ہے، لیکن جموں کے ان مسلم اکثریتی علاقوں میں محمد لطیف خان اور اُن کے بیٹے محمد اسلم جیسے قربانی کے مجسمے بھی رہتے ہیں۔ وہ خاموشی کے ساتھ سیاسی حقوق کی باز یابی کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔ اُن کی یہ قربانیاں نہ لیڈروں کی نظر میں آتی ہیں اور نہ اخبارات کی زینت بنتی ہیں۔ محمد اسلم اور اُن کا پورا گھرانہ اور جیلوں میں مقید ہزاروں کشمیری قیدیوں کی مثال اُن پتھروں کی ہے جو کسی عمارت کو مضبوط بنیاد فراہم کرنے کے لیے زمین کے اندر اپنا وجود ختم کردیتے ہیں۔

 یہ نوجوان اپنی زندگی کے قیمتی سال بھارتی تعذیب خانوں میں کاٹ کر تحریک کو بنیاد فراہم کررہے ہیں۔ ان اسیران کے تئیں ملّت کی ذمہ داری ہے کہ اسیران کو قانونی امداد فراہم کرے، اُن کے لواحقین کا خاص خیال رکھے، محمد لطیف خان جیسے لوگوں کے درد کو سمجھے۔ یہ ان مقید افراد پر کوئی احسان نہیں ہوگا بلکہ اپنے اُس فرض کو ادا کرنا ہے جو قرآن مقدس میں اللہ تعالیٰ نے وفی الرقاب کی صورت میں اُن کے لیے مختص کررکھا ہے۔