اپریل۲۰۰۵

فہرست مضامین

ملّت اسلامیہ کا تابناک مستقبل اور ہماری ذمہ داری

پروفیسر خورشید احمد | اپریل۲۰۰۵ | اشارات

Responsive image Responsive image

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ آج آپ زندگی کے جس شعبے سے بھی متعلق کسی شخص سے بات کریں گے تو ٹیپ کا بند یہی ہوگا: ’’حالات بڑے خراب ہیں۔ ہر طرف گھٹاٹوپ اندھیرا ہے۔ ایک مخصوص طبقے کو چھوڑ کر‘ ہر شخص شدید مشکلات اور مصائب کا شکار اور بے بسی اور مایوسی کی گرفت میں ہے‘‘۔ نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ جس چیز کا مسلمان معاشرے میں کبھی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا‘ یعنی حالات سے بیزار ہو کر خودکشی‘ اب اس میں بھی روز افزوں اضافہ ہے۔ ان حالات میں ’’تابناک مستقبل‘‘ کی بات کیا بے وقت کی راگنی نہیں؟

اس ماحول میں بالعموم ردعمل کچھ ایسا ہی ہوتا ہے کہ ’’جسے دیکھو یہی کہتا ہے‘ ہم بیزار بیٹھے ہیں‘‘۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسے ہی حالات میں مستقبل اور خصوصیت سے تابناک مستقبل کا تصور اور اس کی طرف بڑھنے کی بات وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن جاتی ہے۔ اس لیے کہ اگر مستقبل کو حال سے بہتر بنانے کا احساس اور جستجو موجود نہ ہو تو پھر تاریکی کے چھٹنے اور حالات کو تبدیل کرنے کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا۔ بگاڑ اور تاریکی ہی کا تقاضا یہ ہے کہ بنائو کی فکر ہو‘ روشنی کی تلاش ہو اور تعمیرنو کے لیے جدوجہد کی جائے۔ ترقی اور اصلاح کا راستہ حالات کے آگے سپرڈال دینے کا نہیں‘ حالات کو صحیح رخ پر موڑنے کے عزم اور عملی کوشش کا راستہ ہے۔ زندہ رہنے اور پستی سے بلندی کی طرف اٹھنے ‘ اپنی اور مظلوم اقوام کی قسمت بدلنے کا یہی راستہ ہے۔ خاص طور پر ہرمسلمان کے لیے‘ ہرمسلمان ملک کے لیے اور بحیثیت مجموعی پوری اُمت مسلمہ کے لیے تو اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ ممکن ہی نہیں ہے۔ البتہ اس کے لیے ضروری ہے کہ ’’تابناک مستقبل‘‘ کا صحیح تصور ہمارے سامنے ہو‘ اور مستقبل کو تابناک بنانے کے لیے جن عوامل اور اقدامات کی ضرورت ہے‘ ان کا پورا پورا شعور ہو اور عملاً ایسے مستقبل کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے نہ صرف جدوجہد کا راستہ اختیار کیا جائے بلکہ اس کے تقاضے بھی پورے کیے جائیں۔ اس لیے ہماری نگاہ میں جہاں حالات کی خرابی کا ادراک ضروری ہے‘ وہیں مستقبل کے صحیح تصور اور ایک تابناک مستقبل کے حصول کے لیے مطلوبہ لائحہ عمل کی تفہیم ازبس ضروری ہے۔

مستقبل کا حقیقی تصور

سب سے پہلا سوال ہمارے غور کرنے کا یہ ہے کہ مستقبل ہے کیا؟ جس تابناک مستقبل کی بات ہم کر رہے ہیں‘ اُس کے بارے میں سب سے پہلے ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اس کی اصل وسعتیں کیا ہیں۔ یہ دنیا ایک عارضی گھرانا ہے۔ افراد ہی نہیں‘ اقوام کے لیے بھی یہ محدود امکانات سے عبارت ہے۔ البتہ اگر کوئی مستقبل ہے تو وہ صرف آخرت کا ہے‘ جو ہمیشہ کے لیے ہے۔ آخرت کی کامیابی ہی اصل کامیابی ہے۔ البتہ آخرت کی اس کامیابی کا انحصار اس دنیا ہی کی زندگی کی صحیح ترتیب و تنظیم پر ہے۔ دنیا ایک کھیتی کی مانند ہے‘ لیکن اس کھیتی سے تیار ہونے والی فصل یا منزلِ مقصود ہے یا آج کی کاروباری اصطلاح میں اس کی جو مارکیٹ ہے وہ آخرت ہے۔ اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ تابناک مستقبل وہ ہے جو آخرت میں تابناک ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس مستقبل سے محفوظ رکھے جو آخرت میں تاریک ہو۔

جب ہم اس موضوع پر انفرادی یا اجتماعی طور پر‘ ایک گروہ یا ایک قوم کی حیثیت سے‘ پاکستانی یا اُمت مسلمہ کے فرد کی حیثیت سے غور کریں تو ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اصل تابناکی اور اصل کامیابی اور اصل روشنی آخرت کی زندگی کی ہے۔ وہی ہمارا ہدف ہونا چاہیے۔ یہاں جو مشکلات بھی ہوں‘ جو صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں‘ اور پریشانیاں اور دشواریاں پیش آئیں بلکہ بظاہر جو ناکامیاں ہوں‘ وہ سب عارضی‘ وقتی اور غیرحقیقی ہیں۔ حقیقی کامیابی صرف آخرت کی کامیابی ہے۔ اس لیے جس تابناک مستقبل کا ہم خواب دیکھ رہے ہیںاور جس کے لیے ہم دعائیں کر رہے ہیں‘ جس کے لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے وہ آخرت کی کامیابی ہے۔

یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ہمارے اوپر ایک بہت بڑا انعام ہے کہ اس نے ہماری بشری کمزوریوں کو سامنے رکھ کر وعدہ فرمایا کہ اصل ہدف اور حقیقی کامیابی تو صرف آخرت کی کامیابی ہے لیکن تم کو دنیا میں بھی اس کی کچھ جھلکیاں دکھا دی جائیں گی ‘گویا اس کا کچھ حصہ تمھیں دنیا میں بھی میسرآسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے انقلابی پیغام اور مشن کا یہ بڑا اہم پہلو ہے کہ اس میں دنیا کی تعمیر اور اصلاحِ انسان ‘ اور یہاں انصاف اور خیر کا حصول اور غلبۂ آخرت کی کامیابی کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔ یہ پیغام اور مشن دوسرے مذاہب اور فلسفوں سے ہٹ کر ہے کہ اس میں وَلَا تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۹) کی بشارت موجود ہے کہ دیکھو حوصلہ نہ ہارنا اور نہ غم کرنا‘ اگر تم مومن ہو تو تم ہی غالب رہو گے‘ یعنی دنیا میں بھی تم کو کامیابی ہوسکتی ہے بشرطیکہ سچے معنی میں اہلِ ایمان کا رویہ اور کردار اختیار کرو۔ یہاں بھی حالات بدل سکتے ہیں‘ یہاں بھی تاریکیاں چھٹ سکتی ہیں‘ یہاں بھی زمین اپنی نعمتیں اُگل سکتی ہے اور آسمان اپنی برکتیں نازل کرسکتا ہے اور اس طرح یہ آخرت کی کامیابی کا آغاز ہو سکتا ہے۔ انتہا تو بہرحال آخرت ہی میں ہے البتہ آغاز یہیں سے ہوسکتا ہے کیونکہ یہ ایک تسلسل ہے۔ اس پہلو سے دنیا میں مستقبل کے تابناک ہونے کی خواہش کرنا‘ اس کی تمنا اور دعا کرنا‘ اس کے لیے کوشش اور جدوجہد کرنا بھی دراصل اسلام کے مشن کا ایک حصہ ہے۔

قرآن کی روشنی میں

اسی لیے ہمیں دعا کی صورت میں جو ہدف اور مشن دیا گیا وہ یہ ہے کہ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِo (البقرہ ۲:۲۰۱)’’اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا‘‘۔

قرآن نے اہلِ تقویٰ کو یہ بشارت بھی دی ہے کہ:

وَلَوْ اَنَّ اَھْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ (الاعراف ۷:۹۶)

اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔

اللہ تعالیٰ نے حق و باطل کی کش مکش کے بارے جس سنت الٰہی کا واشگاف اعلان کیا ہے وہ تو ہے ہی یہ کہ:

وَقُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًاo

(بنی اسرائیل ۱۷:۸۱)

اور اعلان کر دو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا‘ باطل تو مٹنے ہی والا ہے۔

اللہ کا قانون اور تاریخ کا فیصلہ بلاشبہہ یہی ہے کہ:

بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُہٗ فَاِذَا ھُوَزَاھِقٌط (الانبیاء ۲۱:۱۸)

مگر ہم تو باطل پر حق کی چوٹ لگاتے ہیں جو اس کا سر توڑ دیتی ہے اور وہ دیکھتے دیکھتے مٹ جاتا ہے۔

اللہ کا وعدہ ہے:

وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِیْنَ o اِنَّھُمْ لَھُمُ الْمَنْصُوْرُوْنَo وَاِنَّ جُنْدَنَا لَھُمُ الْغٰلِبُوْنَ o فَتَوَلَّ عَنْھُمْ حَتّٰی حِیْنٍ o وَّاَبْصِرْھُمْ فَسَوْفَ یُبْصِرُوْنَ o اَفَبِعَذَابِنَا یَسْتَعْجِلُوْنَ o فَاِذَا نَزَلَ بِسَاحَتِھِمْ فَسَآئَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِیْنَo وَتَوَلَّ عَنْھُمْ حَتّٰی حِیْنٍ o وَّاَبْصِرْ فَسَوْفَ یُبْصِرُوْنَo (الصٰفٰت ۳۷:۱۷۱-۱۷۹)

اپنے بھیجے ہوئے بندوں سے ہم پہلے ہی وعدہ کرچکے ہیں کہ یقینا ان کی مدد کی جائے گی اور ہمارا لشکر ہی غالب ہوکر رہے گا۔ پس اے نبیؐ، ذرا کچھ مدت تک انھیں ان کے حال پر چھوڑ دو اور دیکھتے رہو‘ عنقریب یہ خود بھی دیکھ لیں گے۔

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلامی تحریک کو مخاطب کر کے یاد دلایا جاتا ہے:

وَاذْکُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِیْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِی الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ فَاٰوٰکُمْ وَاَیَّدَکُمْ بِنَصْرِہٖ وَرَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَo (الانفال ۸:۲۶)

یاد کرو وہ وقت جب کہ تم تھوڑے تھے‘ زمین میں تم کو بے زور سمجھا جاتا تھا‘ تم ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں لوگ تمھیں مٹا نہ دیں۔ پھر اللہ نے تم کو جاے پناہ مہیا کردی‘ اپنی مدد سے تمھارے ہاتھ مضبوط کیے اور تمھیں اچھا رزق پہنچایا‘ شاید کہ تم شکرگزار بنو۔

غلبۂ حق کی نوید تمام صحف سماوی میں مرقوم ہے:

وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِـنْم بَعْدِ الذِّکْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَo اِنَّ فِیْ ہٰذَا لَبَلٰغًا لِّقَوْمٍ عٰبِدِیْنَo وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَo(الانبیاء ۲۱:۱۰۵-۱۰۷)

اور زبور میں ہم نصیحت کے بعد لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے اس میں ایک بڑی خبر ہے عبادت گزار لوگوں کے لیے اور اے نبیؐ، ہم نے تم کو دنیا والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

دنیا میں کامیابی اور آزمایش دونوں ہی اہلِ ایمان کی تقدیر ہیں:

عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّھْلِکَ عَدُوَّکُمْ وَیَسْتَخْلِفَکُمْ فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُوْنَ o (الاعراف ۷:۱۲۹)

قریب ہے وہ وقت کہ تمھارا رب تمھارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تم کو زمین میں خلیفہ بنائے‘ پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔

حق و باطل کی اس کش مکش میں نشیب و فراز آتے ہیں۔ شکست و فتح دونوں سے سابقہ پڑتا ہے اور اس عمل سے گزرے بغیر منزل مقصود حاصل نہیں ہوتی لیکن استقامت اور وفاداری سے جو جدوجہد کی جائے گی‘ وہ بالآخر کامیاب ہوکر رہے گی:

اِنْ یَّمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗط وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ ج وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُھَدَآئَ ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۴۰)

اگر تمھیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمھارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے۔ یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔ تم پر یہ وقت اس لیے لایا گیا کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں‘ اور ان لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھا جو واقعی (راستی کے) گواہ ہیں۔

مخالفت کے طوفان اہلِ ایمان کے عزم و ہمت اور توکل اور ایقان میں اضافے کا باعث ہوتے ہیں اور جب وہ استقامت دکھاتے ہیںتو پھر اللہ کی مدد آتی ہے اور وہ غالب و کامران رہتے ہیں:

اَلَّذِیْنَ قَالَ لَھُمُ النُّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِیْمَانًا وَّ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُo فَانْقَلَبُوْا بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَفَضْلٍ لَّمْ یَمْسَسْھُمْ سُوْٓئٌ لا وَّاتَّبَعُوْا رِضْوَانَ اللّٰہِط وَاللّٰہُ ذُوْ فَضْلٍ عَظِیْمٍo (اٰل عمرٰن ۳: ۱۷۳-۱۷۴)

جن سے لوگوں نے کہا کہ’’تمھارے خلاف بڑی قوتیں جمع ہوئی ہیں‘ ان سے ڈرو‘‘ تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور انھوں نے جواب دیا: ’’ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے‘‘۔ آخرکار وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت اور فضل کے ساتھ پلٹ آئے‘ اور ان کو کسی قسم کا ضرر نہ پہنچا اور اللہ کی رضا پر چلنے کا شرف بھی انھیں حاصل ہوگیا‘ اللہ بڑا فضل فرمانے والاہے۔

اللہ کا وعدہ یہ بھی ہے کہ:

یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِھِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَo ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ o (الصف ۶۱:۸-۹)

یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں‘ اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہی تو ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کر دے خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔

اور پھر اہل ایمان کو دعوتِ جہاد دی جاتی ہے جو آخرت کی کامیابی‘ جو فوزِ عظیم کا زینہ اور ضمانت ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرمایا گیا کہ:

وَاُخْرٰی تُحِبُّوْنَھَا ط نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌط وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَo(الصف ۶۱:۱۳)

اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو‘ وہ بھی تمھیں دے گا‘ اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہوجانے والی فتح۔ اے نبیؐ، اہلِ ایمان کو اس کی خوشخبری دے دو۔

مشکلات اور سختیاں ضرور آئیں گی مگر پھر اللہ تعالیٰ آسانیوں اور کامیابیوں کا سامان بھی کر دے گا بشرطیکہ اس پر توکل کر کے اپنی جدوجہد جاری رکھیں اور استطاعت بھر جدوجہد میں کمی نہ کریں۔

سَیَجْعَلُ اللّٰہُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًا o (الطلاق ۶۵:۷)

بعید نہیں کہ اللہ تنگ دستی کے بعد فراخ دستی بھی عطا فرما دے۔

فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا o اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا o (الم نشرح ۹۴:۵-۶)

پس حقیقت یہ ہے کہ تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔ بے شک تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔

سب سے اہم چیز یہ ہے کہ کسی حالت میں بھی اللہ سے مایوس نہ ہوا جائے اور جدوجہد سے کسی صورت میں بھی پہلوتہی نہ کی جائے۔ مومن کی قوت کا سب سے بڑا ذریعہ اللہ رب العزت سے تعلق ہے اور اس کا وعدہ ہے کہ اہلِ ایمان اور اہلِ تقویٰ کا مستقبل ہر حال میں روشن ہے‘ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی‘ اور اگر اہلِ ایمان صحیح طریقے سے جدوجہد کریں توانھیں آخرت کی کامیابی کے ساتھ دنیا میں بھی کامرانی حاصل ہوگی‘ اس لیے حالات کیسے بھی مشکل اور نامساعد ہوں‘ اہلِ ایمان کے لیے مایوسی کی کوئی گنجایش نہیں‘ قرآن کے الفاظ میں مایوسی کفر ہے اور اللہ کی رحمت کا دروازہ ہر لمحے کھلا ہوا ہے۔ ہر حال میں مومن کی نظر اپنے اللہ کے وعدے‘ اس کی نصرت اور مدد‘ اس کی اعانت اور سرپرستی اور اس کی رضا اور خوش نودی پر ہوتی ہے اور یہی وہ چیزہے جو اس کی زندگی کے ہر لمحے کو روشن اور اس کے ہر قدم کو تابناک مستقبل کی طرف پیش رفت بنا دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میںتابناکی اور کامیابی‘ اگر وہ آخرت کی کامیابیوں کے تسلسل کے لیے ہو‘ تو وہ خود بھی اصل کامیابی کے موثر ذریعے کی حیثیت سے ایک مطلوب شے ہے‘ نامطلوب چیز نہیں ہے‘ لیکن معیار‘ آخرت کی کامیابی ہی کو ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ اگر آخرت کی کامیابی کی بنا پر یہاں ہماری ساری زندگی صعوبتوں میں گزر جاتی ہے تو بھی یہ ناکامی نہیں۔ یہ بھی روشنی کی طرف اور تابناکی کی طرف پیش قدمی ہے۔ البتہ یہ اللہ کا ہمارے اوپر بڑا انعام ہے‘ رحم ہے اور فضل ہے کہ اس نے ہماری کمزوریوں کی بناپر ہم کو کسی ایسی آزمایش میں نہیں ڈالا جو ہماری استطاعت سے بڑھ کر ہو۔ انسان کی فطرت کا لحاظ رکھتے ہوئے اُس نے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ ہمیں زمین میں خلافت اور تمکن عطا کرے گا تاکہ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ اس دین کو دوسرے تمام طریقوں کے اوپر غالب کرنا اس کی سنت اور وعدہ ہے۔ یہ ساری چیزیں بھی مسلمان کا مقدر ہیں‘ ہماری تاریخ اور جدوجہد کا حصہ ہیں۔

مستقبل کی تابناکی کے بارے میں ایک مومن کو ایک پَلکے لیے بھی شک یا خوف میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ یقینا مشکلات ہیں‘ مسائل ہیں‘ پریشانیاں ہیں‘تصادم ہے‘ مگر اس کے ساتھ ساتھ ایمان کی قوت‘ اللہ پر بھروسا اور اللہ کا یہ وعدہ لَاتَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ کہ مایوس کبھی نہ ہونا‘ ہمت نہ ہارنا اور تابناک مستقبل کا صرف خواب ہی نہیں دیکھتے رہنا بلکہ اس کے لیے سرگرم عمل ہوجانا‘ یہ مسلمان کی شخصیت کا لازمی حصہ ہے۔ تو کیسی ہی پریشانیاں اور کیسی ہی مشکلات کیوں نہ ہوں لیکن ہماری نگاہ اسلام کے روشن مستقبل ہی پر ہونی چاہیے۔

کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ جب ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پانچ ساتھیوں کے ساتھ اس دعوت اور اس پیغام کا آغاز فرمایا تو حضرت ابوذر غِفاریؓ اسلام قبول کرتے ہیں اور اُن کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ ابھی آغازِ وحی کا تیسرا اور چوتھا سال ہی ہے۔ اس موقع پر ایک اِعرابی آتا ہے‘ اسلام قبول کرتا ہے اور حضوؐر اس سے یہ کہتے ہیں کہ اپنے قریے میں چلے جائو اور انتظار کرو اس وقت کا جب یہ دین غالب ہوگا۔ آپؐ قریش کے سرداروں کو مخاطب فرما کر کہتے ہیں کہ کیا میں تم کو ایک ایسا کلمہ نہ بتا دوں کہ جس کو اگر تم مان لو تو پھر عرب اور عجم تمھارے تابع ہوں گے۔ وہ وقت کہ جب مکہ میں مسلمانوں پر ظلم و ستم اور تعذیب اس مقام پر تھی کہ حضرت خبابؓ جیسے اولوا العزم صحابی بھی بے چین ہوکر کہتے ہیں: یارسولؐ اللہ! اللہ کی مدد کب آئے گی؟ تو آپؐ فرماتے ہیں کہ خباب‘ کیا تم ابھی سے تھک گئے ہو؟ کیا تم نہیں جانتے کہ تم سے پہلی قوموں کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا‘ ان کے گوشت کو ان کی ہڈیوں سے لوہے کی کنگھیوں سے جدا کیا گیا تھا اور ان کے جسم کو آروں سے کاٹ دیا جاتا تھا لیکن وہ اللہ کی راہ پر قائم رہتے تھے۔ لیکن دیکھیے حضور اکرمؐ یہ بات کہہ کر رک نہیں گئے بلکہ آپؐ نے فرمایا: خدا کی قسم! وہ وقت آئے گا جب ایک سوار تنِ تنہا صنعا سے حضرموت تک بے خوف و خطر سفر کرے گا اور اللہ کے سوا اسے کوئی خوف نہ ہوگا‘ یعنی جب دین حق کو غلبہ حاصل ہوگا۔ پھر سب نے دیکھا وہ وقت آیا اور اَطْعَمَھُمْ مِّنْ جُوْعٍ لا وَّاٰمَنَھُمْ مِّنْ خَوْفٍo (قریش ۱۰۶:۴) کی کیفیت پیدا ہوگئی‘ یعنی بھوک سے تحفظ اور کھانے کی فراوانی اور خوف سے نجات اور امن کی نعمت۔ پھر وہ وقت کہ جب حضوؐر مکہ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ ہجرت کا وقت ہے‘ بظاہر کس مپرسی کا عالم ہے۔ اپنے وطن کو چھوڑنا پڑ رہا ہے اور اس وقت جب سراقہ آپؐ کا تعاقب کر کے آپؐ تک پہنچ جاتا ہے تو آپؐ اسے کہتے ہیں کہ تمھیں کسریٰ کا کنگن دیا جائے گا۔ کیا وقت ہے لیکن کسریٰ کے کنگنوں کا ذکر کس اعتماد کے ساتھ کیا جا رہا ہے اور پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ کسریٰ کے کنگن آئے اور اس شخص کو دیے بھی گئے‘ سبحان اللہ!

تابناک مستقبل کی بات‘ میں کسی خوش فہمی یا شاعرانہ خیال آرائی کی بنا پر نہیں کر رہا بلکہ  اللہ کی کتاب اور نبی پاکؐ کی سنت یہ دونوں ہمیں یہ اعتماد اور یقین دلاتے ہیں کہ جو بھی حالات ہوں اور جیسے بھی حالات ہوں وہ لوگ جنھیں اللہ نے ایمان کی دولت سے مالا مال کیا ہے وہ تابناک مستقبل کے بارے میں کبھی کسی غلط فہمی کا یا کسی مایوسی کا شکار نہیں ہو سکتے۔

تاریخ کی گواھـی

اگر آپ تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو آپ دیکھیں گے کہ تاریخ کے نشیب و فراز‘ قوموں کا عروج و زوال‘ پستی و بلندی کے مناظر‘ کامیابی و ناکامی کی داستانیں‘ فتح و شکست کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ اللہ کے اسی وعدے کا منظرنامہ پیش کرتے ہیں۔ معلوم تاریخ میں کم از کم ۳۶ عظیم تہذیبوں کے اسی سفر کی کہانی ملتی ہے اور عروج کے وقت ہر تہذیب کو یہی گمان تھا کہ اب اس کا کوئی مقابلہ کرنے والا نہیں ہے۔لیکن پھر چشمِ تاریخ نے دیکھا کہ اُسے زوال‘ انتشاراور شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری اقوام اُبھریں اورتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ کا یہ سلسلہ برابر چلتا رہا اور چلتا رہے گا۔ حضرت عیسیٰ ؑنے سچ کہا تھا کہ کتنے آگے ہیں جو پیچھے رہ جائیں گے اور کتنے پیچھے ہیں جو آگے نکل جائیں گے۔

قرآن کہتا ہے کہ اسی طرح ہم قوموں کے در میان اتار چڑھاؤ‘کامیابی وناکامیابی اور زندگی ا ور موت کے دور لاتے رہتے ہیں۔ تاریخ سے صاف نظر آتا ہے کہ کوئی بھی دور ابدی یا مستقل نہیں۔ نہ کامیابی کو دوام ہے اور نہ ناکامی کو۔ حالات برابر بدلتے ہیں ۔اس لیے کسی ایک صورت حال کے اوپر یہ سمجھ لینا کہ اَب تو ہم بس پھنس گئے ‘اب کوئی را ستہ نہیں۔ اب شکست ہمارا مقدر ہے اور دوسروں کے تابع دار بن کر ہی زندہ رہ سکتے ہیں‘ یہ ایک مغالطہ ہے۔ جس کی نگاہ تاریخ پر ہو گی وہ کبھی بھی اس غلط فہمی کا شکار نہیں ہو سکتا۔

پو ری تاریخ کو چھوڑ دیجیے ۔ بہت سے لوگ آج موجود ہیں ‘میں خود بھی اپنے آپ کواِن میں شامل کر تا ہوں جنھوں نے چشمِ سر سے دیکھا کہ سلطنتِ برطانیہ کا ایک زمانے میں کیا دبدبہ  تھا۔ اسے دنیا کی حکمران قوت ہونے کار زعم تھا۔ غلبہ و بالادستی کو وہ اپنا مقدر سمجھتی تھی اور غرور کا یہ حال تھا کہ اس نے انگریزی زبان میں اس محاورے کا ا ضا فہ کیا کہ:

Sun is never set in the British Empire.

چونکہ دنیا کی چو تھا ئی سرزمین پر اس کی حکمرا نی تھی‘ اس لیے اس کا دعویٰ تھا کہ ہماری حکمرانی میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا ۔ایک جگہ سے غروب ہوتا ہے تو دو سری جگہ سے اُبھر جاتا ہے۔ لیکن پھر ہم نے دیکھا کہ چند ہی سالوں میں اس کی سلطنت قصۂ پارینہ بن گئی اور کیفیت یہ ہوئی کہ وہ ایک سپرپاور سے سکڑکر ‘ صرف ڈیڑھ جزیرے کی حکومت رہ گئی۔ اور اب تو عالم یہ ہے کہ ہفتوں اس کی قلمرو میں سورج طلوع نہیں ہوتا! اسی طرح دولتِ برطانیہ نے انگریزی زبان میں اس محاورے کا اضا فہ کیا کہ Britannia rules the waves ‘یعنی دنیا کے سارے سمندروں کے پانی پرہما ری حکمرانی ہے لیکن پھر ہم نے دیکھا کہBritannia had to waive the rule [یعنی برطانیہ کو حکومت چھوڑنا پڑی]اور سمندر اس کی گرفت سے نکل گیا۔ تو یہ ہیں وہ نشیب وفراز ‘ جن میں مغرور کے طلسم کا ٹوٹنا اور مظلوم کا بالاتر قوت بن جانا‘ یہ سب مناظر دیکھے جاسکتے ہیں۔

ابھی کل کی بات ہے کہ امریکا اور اشتراکی روس دونوں بڑی طاقتیں (super powers) تھیں اور دونوں ایک دو سرے سے برابر پنجہ آزمائی کر رہی تھیں۔ کیا آپ بھول گئے کہ روس کے سربراہ مملکت خروشچیف اقوامِ متحدہ کے ہال میں میز پراپنے جوتے رکھ کرکے کہتا ہے کہ : I have come here to bury capitalism. (میں یہاں سرمایہ داری کا جنازہ نکالنے آیا ہوں)۔

اور پھر آپ نے دیکھا کہ کس طرح روس منتشر ہو جاتا ہے۔ گویا کہ محض ایک خاص موقعے پر کسی کاحا وی ہوناکوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ جس کو ابدی (everlasting) سمجھا جائے۔اقتدار‘ غلبہ اور قوت سب بڑی وقتی اور عارضی چیزیں ہیں۔ہم نے خود اس کا نظارہ کیا ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ ایسے ابھی اور بہت سے تجربات اور مناظر ہم اور آپ دیکھیں گے۔ اس لیے یہ سمجھ لینا کہ اس وقت فلاں غالب ہے تو وہی غالب رہے گا‘ درست نہیں۔

اپنے ملک کی تاریخ بھی آپ دیکھ لیجیے۔ کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ ایک سرپھرے آمر (اسکندر مرزا) نے مکمل اقتدار کے زعم میں برسرِاقتدار آنے کے بعد پہلا بیان یہ دیا تھا کہ ہم اِن مولویوں کو کشتیوں میں بٹھا کر کے سمندر پار بھیج دیں گے۔ لیکن اللہ کی قدرت کو آپ نے دیکھا کہ مو لوی تو الحمد للہ وہیں ہیں ۔ خود اس کو ایک مہینے کے اندر ملک چھوڑنا پڑا۔یہاں کون تھا جس نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ’’ہما ری کر سی مضبوط ہے اور اس کو کوئی نہیں ہلا سکتا‘‘۔ لیکن کون سی کر سی ہے جو با قی رہ گئی۔ آپ چا ہے وسیع تر تاریخ کے پسِ منظر میں دیکھیں‘ چاہے اپنے دور کے عا لمی سطح پر رونما ہو نے والے نشیب وفراز کو دیکھیں اور خواہ آپ اپنے ملک میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر غور کریں‘ کہیں بھی مایوسی کے لیے کوئی وجہِ جواز نظر نہیںآتی۔ اس سے انکار نہیں کہ تاریکی آتی ہے‘ شکستیں بھی ہوتی ہیں‘ لیکن ہر نشیب کے بعد فراز اور ہر شکست کے بعد کامیابی کا امکان بھی رونما ہوتا ہے۔ کیا خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کی بلندیوں کے بعداُحد کی ہزیمت نہیں دیکھی ۔کیا حدیبیہ کے بعد فتحِ مکہ کا منظر رونما نہیں ہوا۔ کیا فتح مکہ کے بعد حنین سے سابقہ پیش نہیں آیا۔یہ نشیب و فراز زندگی کی حقیقت ہیں۔لیکن ان میں سے کسی کو لے کر یہ سمجھ لینا کہ اب کچھ ممکن نہیں اورہمت ہار جانااور مایوسی میں گرفتار ہو جانا کسی مسلمان کا شیوہ نہیں۔ جس کی نگاہ تاریخ پر ہو ‘انسانی زندگی کے نشیب وفراز پر ہو وہ کبھی بھی اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہوسکتا۔ اس کے اوپر قرآن شا ہد ہے ‘سیرت شاہد ہے ‘پو ری تاریخ گواہ ہے اور میرا اور آپ کا تجربہ گواہ ہے۔تو پھر کیوں ایک خاص وقت کی کیفیت کو ہم مستقل اور دوام کا درجہ دینے کی غلطی کریں۔ ہمیں چیزوں کو ان کے حقیقی پسِ منظر میں دیکھنا چاہیے اور اسی کی رو شنی میں پھر ہمیں اپنا رویہ اور اپنا کرنے کاکام متعین کرنا چاہیے۔

قابلِ غور مثبت پھلو

اس پس منظر میں غور کرنا چاہیے کہ جہاں یہ ناقابلِ انکار حقائق ہیں اور جہاں اللہ کا یہ وعدہ ہے کہ ان شاء اللہ حق غالب ہوگا اور باطل کو شکست ہوگی‘ وہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمیں ہمیشہ پو ری دیا نت کے ساتھ حالات کا بے لاگ جا ئزہ لینا چاہیے۔ خوش فہمیوں میں رہ کر کبھی کوئی فرد یا کوئی قوم وقت کے تقا ضوں کو پورا نہیں کر سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنِ پاک میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ مبارک میں جو بھی نشیب وفراز آئے اور معرکے ہوئے‘ اُن کے اوپر خود زمین و آسمان کے مالک نے تبصرہ فرمایا ہے‘ احتساب کیا ہے‘ آیندہ کے لیے سبق سکھائے ہیں۔ یہ بھی حکمت ہے کہ اس پورے تبصرے کو ہمیشہ کے لیے قرآن کا حصہ اس لیے بنا دیا گیا تاکہ انسان خوش فہمی میں مبتلا نہ ہوں۔ ہمیں متنبہ کردیا گیا اس وقت بھی جب اللہ کا نبیؐ ہمارے درمیان تھا‘ اگر انسانوں نے حقائق سے صرفِ نظر کیا ‘احکام سے رو گر دانی کی یاجو ذمہ داری سونپی گئی ہے اس کو ادا نہ کیا گیا تو جیتی ہوئی با زی پلٹ سکتی ہے۔ اور اسی طرح اگر حق کے داعی کی آواز پر لبیک کہا تو ہا ری ہوئی با زی جیتی جا سکتی ہے۔ قرآنِ پاک میں یہ تمام چیزیں اسی لیے محفوظ کی گئی ہیں کہ ہم اُن سے سو چنے کا انداز ‘ غوروفکر کا اَسلوب اور ہر دور میں حالات کے جائزے ‘ اُن کا احتساب ‘ان کی تشخیص اور پھر ان کی رو شنی میں لائحہ عمل کی تیاری کاکام انجام دے سکیں۔

اس وقت ہم بڑے نازک امتحانی دور سے گزر رہے ہیں ۔ تاہم‘ اس میں کچھ بڑے مثبت پہلو ہیں اور ان مثبت پہلوؤں میںیہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ عددی اعتبار سے مسلمان آج ‘ایک ارب ۴۰کروڑ کے قریب ہیں جو دنیا کی آبا دی کا پانچواں حصہ ہیں ۔ہم ابھی اڑھائی تین سو سال کے کھلے کھلے استعماری دور کے تسلط سے نکلے ہیں ۔ پورا عالمِ اسلام پانچ بڑی مغربی استعماری قوتوں کی گرفت میں تھا اور ہمیں سانس لینے تک کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن ہمارے دیکھتے دیکھتے استعمار کی گرفت ڈھیلی پڑی‘ اور غلامی کے سائے چھٹے اور ۵۷ آزادمسلمان مملکتیں وجود میں آئیں۔ تقریباً۹۰ کروڑ مسلمان اِن آزاد مملکتوں میں ہیں۔ اور تقریباً ۴۰‘ ۴۵ کروڑ مسلمان ایسے ہیں کہ جو ۹۰‘ ۹۵ مسلم آبادیوں کی شکل میں غیر مسلم ممالک میں رہ رہے ہیں۔ یہ عددی قوت ہر ایک اعتبار سے بڑی اہم حقیقت ہے۔ معاشی ‘ عسکری اور نظریاتی ہر اعتبار سے دنیا کے مستقبل کا فیصلہ کر نے میں انسانوں کی اتنی بڑی تعداد اور ان کی یہ قوت ایک بڑا اہم کر دار ادا کر تی ہیں۔

پھران ممالک کا محلِ وقوع دیکھ لیجیے ۔ دنیا کے کل زمینی رقبے کا تقریباً۲۳ فی صد مسلمانوں کے اقتدار کے تحت ہے۔اور یہ سارا علا قہ معاشی وسائل سے مالامال ہے۔ پو ری دنیا کی توانائی کے ۸۰فی صد ذخا ئرہمارے پاس ہیں۔ مالی وسائل اور جنگی اعتبار سے اور معاشی نقطۂ نظر سے تمام اہم  راستے انھی علاقوں سے گزرتے ہیں۔ معاملہ خواہ زمینی رابطوں کا ہو‘ یا سمندری اور ہوائی ‘ ان تمام میں مر کزی حیثیت مسلمان ممالک کی ہے۔

لیکن ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جسے ہم آزادی کہہ رہے ہیں‘ وہ صحیح معنوں میں مکمل طور پر آزا دی نہیں ہے۔بظاہر قانونی اور سیا سی انداز میں ہم استعمار کی گرفت سے نکل گئے ہیں‘ لیکن ان کا فکری غلبہ ‘تہذیبی گرفت ‘ عسکری اور معاشی قوت کا عدم توازن اور پھر اس وقت   عالم گیریت اور گلوبل سسٹم جس انداز سے کارفرما ہیں تو اس میں ایک سوپر پاور عسکری اور سیاسی اعتبار سے ‘ اور مغربی تہذیب فکری اور سا ئنسی‘ ٹکنالوجی اور ثقا فتی اعتبار سے چھائی ہوئی ہے اور مسلمان ملکوں کی آزادی حقیقی آزادی کا رنگ اختیار نہیں کر سکی ہے۔ دوسرے الفاظ میں نوآبادیاتی تسلط ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوا۔

اس نئے دور میں نوآبادیاتی استعماری تسلط کی شکل میںبڑی جو ہری تبدیلی آئی ہے‘اس کو سمجھنا ضروری ہے۔  یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی ایک ملک کے لیے خواہ عسکری اعتبار سے وہ کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو‘ ممکن نہیں کہ وہ پوری دنیا کو زیادہ دیر تک اپنی گرفت میں رکھ سکے۔بش چار سوا چار سال سے جو کچھ کر رہے ہیں اس کا نشا نہ صرف ہم رہے‘اُس کی قیمت ہم ادا کر تے رہے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خواہ وہ افغانستان ہو یا عراق ہو‘ سوپرپاور جو کچھ کرنا چاہتی تھی نہیں کر سکی اور وہ مجبور ہے کہ اپنی قوت کی کم مایگی (limitations of power )کا بھی احساس کرے۔ وہ جو کچھ کرنا چاہتی ہے محض اپنی قوت کے زعم میں کرنہیں سکتی۔ اگر کہیں اسے جبر کی قوت سے غلبہ میسر آبھی گیا ہے‘ تب بھی اس کا اقتدار بڑا کمزور اور محدود ہے اور اسے اس کی بڑی قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ ہرجگہ مزاحمت ہے اور یہ مزاحمت ایک بہت بڑے قومی اور مؤثر عنصر کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ سوپرپاور کی قوت کا مقابلہ اس کے سامنے سر جھکا دینے اور غلامی کو قبول کر لینے سے نہیں بلکہ سامراجی قوت کی مزاحمت کرنے سے ہوتا ہے۔ نائن الیون کے واقعے سے بڑے منفی نتائج رونما ہوئے ہیں۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سوپر پاور کے لیے ہر میدان میں اپنی من مانی کرنا ممکن نہیں رہاہے۔دہشت گر دی کے خلاف جنگ کا جائزہ لیجیے۔ آج نہ صرف امریکا بلکہ پوری دنیا اُس سے کہیں زیا دہ غیر محفوظ ہے جتنا اس واقعے سے پہلے تھی۔ طا قت کی اس ساری نمایش اور کشت وخون کے ذریعے افغانستان کو کھنڈر بنا دیا گیا ۔وہاں ۲۰ سے ۲۵ہزارمعصوم افراد شہید ہوئے۔ عراق میں ایک لاکھ سے زیا دہ عام شہری شہید ہوئے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ساری قوت اور وسائل کے بے محابا استعمال کے باوجود یہ سوپرپاور افغانستان ہو یا عراق کہیں بھی محفوظ نہیں۔

پھر آپ یہ دیکھیے کہ کس طرح عوامی بیداری کی ایک لہرسا ری دنیا میں رونما ہوئی ہے۔دنیا کے ہر سروے میں امریکا کی غیرمقبولیت بلکہ نفرت نمایاں نظر آتی ہے۔ وہ ممالک جن کی قیادتیں  بظاہر اس کے ساتھ ہیں‘مثلاً خود ترکی کا ایک سروے یہ بتاتا ہے کہ۸۰ فی صد سے زیادہ آبا دی اُس سے نفرت کا اظہار کررہی ہے۔جر منی اور فرانس کے ۶۰اور ۷۰فی صد لوگ امریکا اور روس کی پالیسیوں سے بے زاری کا اظہار کر رہے ہیں۔بر طا نیہ اس کا سب سے بڑا حلیف ہے لیکن وہاں عوامی ردِ عمل کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمند ر امریکا اور برطانوی حکومت کو چیلنج کر رہا ہے۔ میں نے خوداپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کس طرح لوگوں نے احتجاج کیا۔ ۱۹ مارچ ۲۰۰۵ء کو عراق پر حملے کے   دو سال بعد پورے یورپ میں اس ناجائز جنگ کے خلاف شدید عوامی مظاہرے ہوئے ہیں۔

ہما ری موجودہ فوجی حکومت بھی اس معاملے میں بش کے ساتھ ہے لیکن ملک کے کسی بھی کونے یاگوشے میں جا کر دیکھ لیجیے کہ عوام کے اس با رے میں جذ بات کیا ہیں۔نیوز ویک نے یہ دل چسپ اور عبرت آموز واقعہ ریکارڈ کیا ہے کہ افغانستان میں جس پاکستانی فوجی دستے نے ۱۰افغانوں کو شہید کیا تھا جب اس کا کما نڈر جو غالباً لیفٹیننٹ کرنل کے رینک کا تھا ‘ہلاک ہوا اور اس کا جنازہ اس کے گاؤں میں آیا تو اس کے باپ نے اپنے بیٹے کی نمازِ جنا زہ پڑھنے سے انکار کر دیا۔ نیوز ویک کے نمایندے نے اس سے پو چھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا ؟ تو اس نے کہا کہ میں نے اپنے بیٹے کو بڑی تمناؤں سے فوج میں بھیجا تھا مگر اس لیے نہیں بھیجا تھاکہ وہ جاکر مسلمانوں کو مارے ۔ اس کی نماز جنازہ بش کو پڑھنی ہے تو پڑھے‘ میں باپ ہوتے ہوئے بھی اس غدار کی نماز نہیں پڑھ سکتا۔ یہ ایک فرد کا واقعہ نہیں ہے ‘ایک باپ کا وا قعہ نہیں ہے‘یہ ایک قوم کی سوچ ہے۔    یہی پوری اُمت مسلمہ کی سوچ ہے۔

اسی طرح انڈی پنڈنٹ کے نامہ نگار رابرٹ فسک نے ایک پورا مضمون افغانستان کے بارے میں لکھا ہے جس میں وہ کہتا ہے: میں جہاں بھی گیا ہوں امریکی بم باری سے جولوگ شہید ہوئے ہیں‘ ان کے مزارلوگوں کے لیے مر جع بنے ہوئے ہیں۔ ہر جمعے کو وہاں عرس کا سماں ہوتا ہے اور امریکی فو جی تنہا با ہر نکلنے کی ہمت نہیں کرسکتے۔ اس طرح دیکھیے بظاہر امریکا کا غلبہ ہے ‘خون بھی بہہ رہا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی غورطلب ہے کہ عوامی سطح پر اس کا ردِ عمل کیا ہو رہا ہے۔ ہمیں منفی اور مثبت‘ روشن اور تا ریک دونوں پہلوئوں پر نظر رکھنی چاہیے۔ صرف ایک چیز کونہ دیکھیے۔ ساری بربادی کے باوجود‘ مَیں تو اس صورتِ حال میں ایک تابناک مستقبل کے امکانات بچشمِ سر دیکھتا ہوں۔

لیکن یہ بات ضرور میں کہنا چا ہتا ہوں کہ یہ تابناک مستقبل آپ سے آپ نہیں آئے گا۔ یہ اللہ کا قانون ہے کہ تبدیلی مسلسل جدوجہد‘ قربانی اور ثابت قدمی سے آتی ہے‘ یہی اللہ کی سنت اور قانون ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے قانون اور سنت کو بدلتا نہیں۔  فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًاج وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحْوِیْلًاo (فاطر ۳۵:۴۳) ’’تم اللہ کی سنت میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پائو گے اور تم اللہ کی سنت کو ٹلتی ہوئی ہرگز نہ دیکھو گے‘‘۔

قانون یہ ہے کہ آپ کو اس تابناک مستقبل کے لیے کوشش کرنی ہو گی۔آپ کو اس کے لیے جدوجہد کرنی ہو گی۔مجھے اور آپ کو اس کے لیے اپناکردار ادا کر نا ہو گا۔ پھر یہ تابناک ہو گا‘ اور کوئی چیز اس کو تابناک ہونے سے روک نہیں سکتی۔لیکن اگر ہم اپنا فرض ادا نہیں کریں گے‘ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے‘ یا ہم مایوسی کا شکار ہو جائیں گے تو پھر یہ مستقبل تابناک نہیں‘ تاریک ہوگا۔کسی بھی کاروبار میں نفع نقصان دونوں ہو تے ہیں۔بار بار نقصان ہوتے ہیں۔ آدمی دیوالیہ ہوجاتا ہے‘ دکان بند کرنی پڑجا تی ہے۔کارخانے پر قفل لگ جاتا ہے۔ لیکن کیا یہ ایک حقیقت نہیں ہے کہ ایک نقصان کے بعد آپ پھر نفع کے لیے کوشش کر تے ہیں۔ایک بارکاروبار میں نقصان ہونے کے بعد آپ پھر دوسرا کاروبار شروع کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔اگر کاروباری زندگی میں آپ کا یہ رویہ ہے تو پھر سیاسی ‘تہذیبی‘ دینی اور ایمانی زندگی کے لیے آپ اِس سے ہٹ کر کے کیوں سو چتے ہیں؟

منزل اور مقصد کا شعور

تابناک مستقبل تو ہمارا مقدر ہے۔ لیکن یہ اسی وقت ہمارا مقدر ہے جب ہم اس کا حق ادا کرد یں گے۔ اس کے لیے دو چیزیں بہت ضروری ہیں ۔پہلی چیز خود احتسابی ہے۔ آپ دیانت داری کے ساتھ جائزہ لیں کہ ہماری کمزوری کے اسباب کیا ہیں؟ پھر آپ یہ دیکھیں کہ ان حالات کا مقابلہ کر نے کے لیے صحیح لائحہ عمل کیا ہوسکتا ہے؟

جدوجہد اور اس کے نتیجے میں کامیابی کے لیے اولیں شرط ہے منزل اور مقصد کا شعور‘ یعنی انسان کا وژن‘ اس کا تصور ِ حیات۔ میں اگر اسے سے ذرازیا دہ کھل کر کہوں تو اس کا ایمان اور ایمان کی بنیاد پر اُس کا مقصدِ حیات اور زندگی کے اہداف۔ اگر یہ کمزو ری کا شکار ہو جائیں تو یہ سب سے بڑی مصیبت اور سب سے بڑی ناکامی ہے۔ آج مسلمانوں کا معاملہ یہی ہے کہ اللہ کی کتاب بھی موجود ہے ‘اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی موجود ہے‘ ہما ری تاریخ بھی موجود ہے اورصلحاے اُمت کی کوششیں اور کارنامے اور خدمات بھی موجود ہیں۔لیکن اس کے باوجود عملاََہم نے بھی زندگی کوخانوں میں بانٹ دیا ہے۔میں اُن کی بات نہیں کر رہا جو دین سے اتنے غافل ہیں کہ صرف دنیا کو اپنا ملجا اورماویٰ اور اپنا سب کچھ بنا چکے ہیں۔میں اُن کی بات کر رہا ہوں جو نمازیں پڑھتے ہیں ‘ جو روزہ رکھتے ہیں جو گڑگڑاگڑگڑا کر دعائیں بھی کر تے ہیں‘ جو صدقات وخیرات بھی دیتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں سو چتے کہ اِس نماز کے اثرات ہما ری انفرا دی اور اجتما عی زندگیوں پر بھی پڑنے چا ہییں۔کیا ہماری ذمہ داری صرف نماز پڑھ لینے کی ہے یا جس خدا نے ہمیں نماز پڑھنے کے لیے کہا ہے‘ اس نے ہمیں یہ بھی کہا ہے کہ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَـنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ، یعنی نماز تو وہ ہے جو انسان کو فحش اور منکر سے روکتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں جو پوری زندگی کو اللہ کی بندگی میں لانے کا ذریعہ بنتی ہے۔

ہم بڑے اہتمام سے رمضان کا استقبال کرتے ہیں ‘سحری اور افطار کا اہتمام کر تے ہیں‘ عیدیں منا تے ہیں لیکن یہ بھول جا تے ہیں کہ یہ روزہ تو تقویٰ کے لیے ہے۔یہ رو زہ تو اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے ہے۔قرآن نے تو اس کا مقصد اور حاصل یہ بتایا ہے کہ جس ہدایت‘ یعنی قرآن سے تمھیں سرفراز کیا ہے اسی پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکرگزار بن جائو (وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَo البقرہ ۲:۱۸۵)۔ گویا روزہ تو اس مقصد کے لیے ہے کہ ہم قرآن کے پیغام کو پھیلائیں‘ اللہ کی حاکمیت کو قائم کریں اور دین کی سربلندی کی جدوجہد میں مسلسل مصروف رہیں۔

ایمان کی فکر اور ایمان کے مطابق زندگی گزارنے کا عزم ہماری قوت کی پہلی بنیاد ہے۔ ضرورت ہے کہ ہم اپنا جا ئزہ لے کر کے یہ دیکھیں کہ ایمان ‘ایمان کے تقاضے ‘ زندگی کا مقصد اس کے اہداف اوروژن ‘اور اِس وژن کے ساتھ ساتھ پھر اِیمان اور عمل کے تعلق کی کیا کیفیت ہے۔ اسلام میں ایسا کوئی تصور موجود نہیں ہے کہ ایمان عمل کے بغیرہو ‘ جس طرح عمل ایمان کے بغیر ممکن نہیں ہے اسی طرح ایمان بھی عمل کے بغیر نامکمل اور بے ثمر ہے‘ یہ دونوں ساتھ ساتھ ہیں۔ لہٰذا ہماری پہلی کمزوری ایمان کی‘ تصورِ زندگی کی ‘مقصودِ حیات کی‘ ہدف کی اور منزل کے شعور کی ہے۔ اگر اسے ہم درست کر لیں تو باقی تمام معاملات صحیح رُخ پر آسکتے ہیں ۔اور جب تک یہ درست نہ ہو تو تابناک مستقبل ایک خواب اور سراب رہے گا‘ وہ ہمارا مستقبل نہیں بن سکے گا۔

اخلاقی قوت

ایمان کے ساتھ دوسری بنیادی چیز اخلاقی قوت ہے۔اخلاقی قوت کی بنیاد ایمان ہے۔ عبادات اِس قوت کو پیدا کرنے کا ذریعہ ہیں۔ یہ وہ قوت ہے جو انسان کو سکھاتی ہے کہ وہ ظلم کو    نہ برداشت کرے بلکہ اسے چیلنج کرے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے صاف کہا کہ اگر تم اخلاق کے اعلیٰ مقام پر ہو گے تو پھر تم میں سے ہر ایک دس دشمنوں کے لیے کا فی ہوگا۔اور اگر تمھا رے اخلاق کمزور ہو جائیں گے توتم دو کے لیے کافی ہوجاؤ گے۔لیکن آج معا ملہ یہ ہے کہ ہم ایک کا مقابلہ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ اس لحاظ سے ہماری دوسری کمزوری یہی اخلاقی قوت کی کمزوری ہے۔ اور اخلاقی قوت ایمان اور عبادات کے ساتھ پیدا ہوتی ہے‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے جلا پاتی ہے اور دعوت الی الخیر اور قربانی دینے سے اس میں نمو اور ترقی رونما ہوتی ہے۔

مادی وسائل کی ضرورت

تیسری اہم بات ما دی قوت ہے۔اگر آپ ما دی قوت کوحاصل کر نے میں غفلت برتتے ہیں اور مقابلے کی قوت پیدا کرنے کی فکر نہیں کرتے تو صرف ایمان اور اخلاق کے ذریعے سے آپ یہ با زی نہیں جیت سکتے ہیں۔ اسلام ہم میں حقیقت پسندی پیدا کرتا ہے اور فطرت کے قوانین کے احترام کی تلقین کرتا ہے۔

اسلام کی خوبی ہی یہ ہے کہ اس کی قوت اس کے اندر ہے کہ اس نے  ایمان ‘اخلاق اور مادی قوت‘اِن تینوں کو ایک وحدت میں تبدیل کردیا ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس بات کاحکم نہیں دیا کہ قوت حاصل کرو‘ اتنی قوت کہ دشمن پر تمھارا خوف اور دبدبہ قائم ہوسکے اور تم اس کو منہ توڑ جواب دے سکو:

وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ وَاٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِھِمْ ج لَا تَعْلَمُوْنَھُمْ ج اَللّٰہُ       یَعْلَمُھُمْ (الانفال ۸:۶۰)

اور تم لوگ‘ جہاں تک تمھارا بس چلے‘ زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلے کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعدا کو خوف زدہ کرو جنھیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔

قرآن میں طاقت کے حصول اور گھوڑوں کو تیار رکھنے کی جو بات کہی گئی ہے وہ محض گھوڑوں تک محدود نہیں بلکہ وہ اس بات کی دعوت ہے کہ اپنے وقت کی بہترین معاشی‘ سائنسی‘ عسکری ٹکنالوجی کو اپنی گرفت میں لاؤ۔ اس بارے میں قرآن نے بڑے پیا رے انداز میںاپنی بات کہی ہے کہ یہ قوت اتنی ہو نی چاہیے کہ تمھا رے دشمن کو خوف ہو جو دراصل تمھا را دشمن ہی نہیں‘ اللہ کا دشمن بھی ہے اور یہ دشمن وہ ہیں جنھیں تم جانتے ہو اور وہ بھی جن کو تم نہیں جانتے لیکن اللہ کو ان کا علم ہے۔

اجتما عی نظام کی اصلاح کے لیے قوت کا حصول ضروری ہے۔ یہ ما دی قوت اگر اللہ کے دین کی سر بلندی کے لیے ہو ‘ اگر اُمت مسلمہ کے شہداء علی الناس کے مشن کو ادا کرنے کے لیے ہو تو یہ عبادت ہے۔ یہ دنیا پرستی نہیں ہے‘یہ ما دہ پرستی نہیں ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ سب کچھ دیا ہی اسی لیے ہے کہ اُسے ہم مسخر کر کے اُن اخلاقی مقاصد‘اور نظر یات کے غلبے کے لیے استعمال کریں جو استخلاف کی بنیاد پرہما رے ذمے کیے گئے ہیں۔

معاشرے اور قیادت کا بگاڑ

ان تین بنیا دی چیزوں کے بعد پھر میں یہ بات کہنا چا ہتا ہوں کہ ِاس وقت جہاں انفرادی طور پر‘ الحمدللہ ہما رے معا شرے کے اندربہت خیر موجود ہے اور  میری طرح جن افراد کو بھی دنیا کے گوشے گوشے میں جا نے کا موقع ملا ہے‘ وہ یہ گوا ہی دے سکتے ہیں کہ خراب مسلمان معا شرہ   بھی اپنے اندر بڑا خیر رکھتا ہے۔لیکن اس اعتراف کے بعد ‘یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ آج  مسلم معاشرہ ‘مسلمانوں کا اجتما عی نظامِ قانون ‘ اخلاق‘ معیشت سب زبوں حالی کا شکار ہیں۔ اس پر پردہ ڈالنے سے کوئی فا ئدہ نہیں ۔ ہمیں سمجھنا چا ہیے کہ یہ بگاڑکی گرفت میں ہیں اور خود پورے معاشرے اور ریاست کی اصلاح اور تعمیرنو تابناک مستقبل کے حصول کے لیے ضروری ہے۔ انفرادی اصلاح کافی نہیں‘ دعوت‘ نیکی کا حکم‘ برائی کو مغلوب کرنے اور معاشرے اور ریاست کو شریعت اسلامی کے مطابق منظم اور سرگرم کرنا بھی دنیا اور آخرت کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔

پانچویں چیز مسلمانوں کی قیادت کا بگاڑ ہے۔اور میں یہاں ’قیادت‘ کے لفظ کو اس کے وسیع ترین مفہوم میں استعمال کر رہا ہوںجس میں گھر کا سر براہ‘ استاد اور تعلیمی ادارے کا سر براہ‘معا شی حیثیت سے قیادت کے مقام پر فائز لوگ‘ اور پھر اجتما عی اور سیاسی قوت اور سربرا ہی۔ اس وقت اُمتِ مسلمہ کا بہت بڑامسئلہ قیادت کا بگاڑ اور اسلامی معیار سے کوسوں دُور ہونا ہے۔ عوام کی خامیاں اپنی جگہ‘ مگر قیادت کا بگاڑ‘ اصل خرابی ہے۔ عوام الناس‘ عمل میں خواہ کتنے بھی گئے گزرے ہوں‘ ان کی خواہشات ‘ اور تمنائیںسب کا ہدف دورِ رسالت مآب اوردورِ خلافت را شدہ ہی ہے۔آپ کسی اَن پڑھ بڑھیا سے پو چھ لیں کہ تم کون سا نظام چا ہتی ہو؟ وہ کہے گی کہ مجھے وہ عدل چاہیے جو حضرت عمر فاروق ؓ نے دنیا کو دیا تھا۔ یہ احساس موجود ہے۔ لیکن قیادت ‘اس کا قبلہ ‘ اس کی وفاداریاں‘ اس کی ترجیحات سب بگاڑ کا شکار ہیں اور عوام اور قیادت کے درمیان ایک سمندر حائل ہے۔صرف سمندر ہی حائل نہیں بلکہ ان کے درمیان مسلسل کش مکش ہے اور اب تو عالم یہ ہے کہ اس قیادت میں ایسے بدنصیب بھی ہیں جن کو یہ تک کہنے کی جسارت ہو تی ہے کہ کیا میں لوگوں کے ہاتھ کاٹنا شروع کر دوں‘اور اس طرح پوری قوم کولنجا کر دوں۔انھیں ڈاڑھی اور حجاب کا تمسخر اُڑاتے ہوئے بھی کوئی شرم نہیں آتی۔ یہ بگاڑ بڑا بنیادی بگاڑ ہے۔

ہمیں ان پانچوں دائروں میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ ان میں سے ہم کسی ایک کو بھی اگر نظر انداز کر تے ہیں تو پھر تابناک مستقبل ایک خواہش تو ہو سکتا ہے‘ ایک حقیقت نہیں بن سکتا۔ یقین جا نیے ان میں سے کوئی مشکل اور کوئی سبب بھی ناقابلِ تسخیر نہیں ۔ہم نے آج بھی ان    گئے گزرے حالات میں اپنی آنکھو ں سے دیکھا ہے کہ کس طرح افراد کی زندگیاں بدلتی ہیں؟  کس طرح قوموں کی تقدیریں بدلتی ہیں؟ میں دو واقعات آپ کو بتانا چا ہتا ہوں۔

دو روشن مثالیں

جب ملایشیا آزا د ہوا تو اس وقت کی حکومت نے یہ طے کیاکہ انگریزوں کی حکمتِ عملی پر عمل کر تے ہوئے اسکول کے بچوں اور بچیوں کو تعلیم کے لیے بیرونِ ملک بھیجیں ۔اس کے لیے برطانیہ‘ آسٹریلیا اور امریکا ان تین ملکوں کا انتخاب کیا گیا۔اور ہزاروں کی تعدادمیں نوجوان نابالغوں اور اسکول کی عمر کے بچوں بچیوں کو بھیجا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ وہ اس طرح مغرب کے رنگ میں رنگ کرکے آئیں گے کہ پھر زندگی کی انھی رنگینیوں کو ملک میں عام کریں گے۔اور ہم اس طریقے سے ان کو آزادی دینے کے بعد بھی اپناغلام رکھ سکیں گے۔لیکن میں آپ کو بتاتاہوں کہABIM اوراسلامی تحریک وہاں پر انھیں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی وجہ سے رونما ہوئی اور بالکل فضا     بدل گئی۔

اس سے بھی زیا دہ آنکھیں کھولنے والی مثال الجزائر کی ہے۔ہم نے تو بر طانوی استعمار کو دیکھا ہے۔ جس میںفرانسیسیوں کے مقابلے میں پھر بھی کچھ معقولیت تھی۔ کچھ قانون کا احترام تھا۔ کچھ مذہبی روادا ری تھی ۔فرانس کا حال تو یہ تھا کہ انھوں نے اپنے مقبو ضہ علاقوں کو سیا سی اور معاشی اعتبار سے ہی تباہ نہیں کیا‘ بلکہ اخلاق ‘ تعلیم ‘حتیٰ کہ زبان‘ کسی کو نہیں چھوڑا۔ الجزائر میں استعمار کے جارحانہ رویے کے نتیجے میں یہ قوم عربی زبان سے محروم ہوگئی تھی۔جب ۵۵/۱۹۵۴ء میں وہاں کی قومی محاذ آزادی (این ایل ایف) کے سربراہ یہاں پاکستان آئے تو اس وقت میں جمعیت کا   ناظم اعلیٰ تھا۔ہم ان سے ملنے کے لیے میٹروپول ہوٹل میں گئے۔ہم اپنے ساتھ ایک عربی کا مترجم لے کر گئے۔جب ان سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ میں عربی نہیں بول سکتا ۔ کوئی فرانسیسی مترجم لائیے۔یہ کیفیت تھی وہاں کی مسلمان قیادت کی۔

اگر آپ فرانس کی میڈیا پالیسی کو دیکھیں تو سر پکڑ لیں گے کہ فرانسیسی دور اقتدار میں جو فلمیں فرانس میں نہیں دکھائی جا سکتی ہیں‘ وہ فحش پروگرام الجزائر میں پوری بے باکی سے ٹیلی کاسٹ کیے جاتے تھے۔ مقصد تھا پورے معاشرے کو بگاڑنا اور اخلاقی انارکی میں مبتلا کرنا۔ اس کا ردِعمل یہ ہوا کہ اسلامی مزاحمت اور اسلامی تحریک نے دل و دماغ میں طوفان برپا کر دیا۔ عربی زبان کا احیا ہوا‘ اسلامی نظام کی پیاس اتنی بڑھی کہ ۱۹۹۲کے انتخابات میں اسلامی فرنٹ کو تقریباً ۹۰ فی صد ووٹ ملے۔

مزاحمت‘ اصل طاقت

استعمار کی منصوبہ بندی ہمیشہ سے یہی رہی ہے جس کی تلقین آج بش صاحب اور ان کی ٹیم کر رہی ہے کہ تعلیم کو تبدیل کرو‘مدرسوں کو سیکولر رنگ میں رنگو۔ جہاد کا لفظ تو آج نہیں‘ پہلے دن سے دشمنوں کا ہدف رہا ہے ۔آپ کو معلوم ہے کہ اسلام پر غالباََ دو سری صدی ہجری کے اندر پہلی تنقیدی کتاب جو ایک عیسائی عالم کی طرف سے آئی ہے‘ اُس میں اصل ہدف جہاد اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے‘یعنی نبی پاک ؐ کی ذاتِ مبارک اور جہاد کا تصور ہمیشہ سے اصل ہدف رہے ہیں۔ فرانسیسی‘ برطا نوی‘ فرانسیسی‘ اطالوی استعما ری دور کا مطالعہ کر لیجیے‘ سب کے سامنے اصل ہدف جہاد تھا۔ خواہ وہ السنوسی کی تحریک ہو‘خواہ وہ الجیریا کے عبدالقادر کی تحریک ہو‘ خواہ وہ صومالیہ کی تحریک ہو‘ خواہ برعظیم کے شاہ اسماعیل شہیدؒ کی تحریک ہو۔ہر جگہ آپ دیکھیں گے کہ جہاد ہی نے استعمار کا راستہ روکا اور جہاد ہی کو استعمار نے ہدف بنایا۔یہ نئی نہیں‘ بڑی پرا نی حکمتِ عملی ہے۔ اور بظاہر معلوم ہو تا ہے کہ پتا نہیں یہ کیا کر لیں گے لیکن جہاد کا تصور ہو یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی سنت کی مرکزی حیثیت‘ دشمن کی ساری یلغار کے باوجود ان پر کوئی دھبا نہیں آسکا اور نہیں آسکتا۔ جھوٹی نبوتیں تک برپا کی گئیں لیکن دین حق پر کوئی آنچ نہ آئی۔ اسلام کو دبانے کی جتنی کوششیں ہوئیں‘ وہ اتنا ہی مستحکم ہوا    ؎

اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے

اتنا ہی یہ اُبھرے گا‘ جتنا کہ دبا دیں گے

تاریخ میں ہم پر بڑے سخت دور گز رے ہیں۔شا ید سب سے سخت دور وہ تھا جب چنگیز اورہلاکو کی فوجوں نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی ۔اور مسلمانوں کی مایوسی اور بے بسی کا عالم یہ تھا کہ مؤرخین لکھتے ہیں کہ اگرکوئی تاتار مسلمانوں سے کہتا تھا کہ تم لیٹ جاؤ اور انتظار کرو کہ میں اپنے گھر سے اپنی تلوار لے ا ٓؤں اور اس سے میں تم کو ذبح کروں تو وہ لیٹے رہتے تھے۔ حتیٰ کہ وہ اپنا خنجر لاتے اور ان کو ذبح کر دیتے۔یہ کیفیت تھی مسلمانوں کی۔لیکن اس کے بعد دیکھیے کہ      دو سوسال کے اندر اندر پھر حالات بدل گئے اور انھی تاتاریوں کے دل و دماغ کو اسلام نے مسخر کرلیا‘ جنھوں نے مسلمانوں کو فتح کیا تھا۔ اسلام نے ان کو فتح کرلیا اور بقول اقبال     ؎

ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے

پاسبان مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

وہی تاتار جو مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھا رہے تھے اور شہدا کے سروں سے مینار بناتے تھے‘ انھی کے ذریعے سے پھر۴۰۰ سال تک مسلمانوں کی حکمرانی کا نظا رہ چشمِ تا ریخ نے دیکھا۔ لہٰذا تاریخ کے نشیب وفراز سے پریشان نہ ہوں ۔لیکن اس میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ میرا اور آپ کا ردِ عمل کیا ہو تا ہے؟ غلامی یہ نہیں ہے کہ ہمارے ہاتھوں میں زنجیریں پڑجائیں اور ہمارے پاؤں بیڑیوں سے جکڑے ہوئے ہوں‘ بلکہ غلامی یہ ہے کہ ہم ظلم کی بالادستی کو قبول کرلیںاورمزا حمت کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔جہاد نام ہی مزا حمت کا ہے ۔جہاد نام ہے ظلم اور کفر کے غلبے کے خلاف جدوجہد کرنے کا۔خواہ وہ قلم سے ہو‘ زبان سے ہو‘ ذہن سے ہو‘مال سے ہو یا جان سے ہو۔یہ سب اس کی مختلف شکلیں ہیں۔اور اس وقت دشمنوں کا یہی ہدف ہے کہ مسلمانوں میں روحِ جہاد باقی نہ رہے ۔ ان کا ہدف ہماری قوتِ مزاحمت ہے‘ شر سے سمجھوتا نہ کرنے کا جذبہ ہے۔ حالات کے آگے سپر نہ ڈالنے کا داعیہ ہے‘ مقابلے کا جذبہ اور اُمنگ ہے۔ اقبال نے ’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘ میں ابلیس کی اس پریشانی کا اظہار بڑے واضح الفاظ میں کر دیا ہے    ؎

ہے اگر مجھ خطر کوئی تو اِس اُمت سے ہے

جس کے خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو

یہ جو شرارِ آرزو ہے‘یہ جو ظلم کے آگے ہتھیار نہ ڈالنے اور حق کے لیے جدوجہد کرنے کا جذبہ ہے‘ یہ ہماری اصل طاقت ہے۔ اگر یہ جذبہ آپ میں موجود ہے تو کوئی آپ کو غلام نہیں بناسکتا‘ کوئی ہمیں مغلوب نہیں کرسکتا۔اور اگر یہاں ہم نے شکست کھا لی تو ہمارے پاس اگر سونے کے انبار ہو ں ‘بنکوں میں ڈالروں کی ریل پیل ہو‘ حتیٰ کہ اسلحے کی فراوانی ہو‘ تب بھی ہم غلامی سے نجات نہیں پا سکتے۔ اس لیے اگرآپ مجھ سے ایک لفظ میںپو چھنا چا ہتے ہیں کہ تابناک مستقبل کی ضمانت کیا ہے؟ تو وہ ہے آرزو‘ وہ ایمان ہے ‘ وہ یہ جذبہ ہے ‘ وہ یہ مزاحمت ہے‘  وہ یہ احساس ہے کہ ہمیں اللہ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کو قبول کرنا     ہے‘ اس کے داعی بننے کے لیے جدوجہد کرنی ہے۔ اسی سے دنیا اور آخرت دونوں میں ہمارا مستقبل روشن ہو سکتا ہے۔

اتحاد کی ضرورت

میں بات ختم کرنے سے پہلے ایک اور امر کی طرف آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جو فتنے اورمشکلات آج ہمیں در پیش ہیں‘ اُن میں ایک ہمارا آپس کی تفرقہ با زی ‘کفر سازی‘ اور جزوی امور کو اتنی اہمیت دے دینا ہے کہ اصول پامال ہوجائیں اور باہم رواداری پارہ پارہ ہوجائے۔ اصول ‘ بنیاد اور متفق علیہ معاملات کو نظرانداز کر کے فرو عی ‘جزوی‘ غیر متعلق باتوں میں اُلجھ جانے اور ان کی بنیاد پر ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے کا مرض ہمارے مخالف بڑی کامیابی سے ہمارے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ یہ ایک ایسی حکمتِ عملی ہے جس سے ہمارے مخالف ہمیں نان ایشوز میں الجھا کراصل ایشوز سے جن کو ہمیںمل جل کر حل کر نا ہے‘ غافل رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کی مثال میں آپ کو یہ دینا چا ہتا ہوں کہ عراق میں امریکی قوتوں کے غلبے کے بعد جو سب سے زیا دہ اہم ایشو اٹھایا گیا وہ یہ ہے کہ عراق میں اتنے شیعہ ہیں اتنے سنی ‘اور یہ کبھی ساتھ نہیں رہ سکتے۔اور بددیانتی کی انتہا ہے کہ کرد جو آبا دی کا پانچواں حصہ ہیں‘ وہ ۱۰۰ فی صد سنی ہیں مگر انھیں کوئی سنی نہیں کہتے ۔لیکن جو ۲۲‘۲۳فی صد عرب سنی ہیں انھیں سنی قرار دیتے ہیں اور باقیوں کو   شیعہ قرار دیتے ہیں۔یہی چیز افغانستان میں آپ نے دیکھی۔پشتون اور فا رسی بولنے والے‘    سنی اورشیعہ‘یعنی یہ سارے تنازعات پیداکیے جا رہے ہیں۔ انھی کا پرتو آپ پاکستان میں بھی   دیکھ سکتے ہیں۔

میں نے آغاز میں کہا تھا کہ ایمان کے ساتھ ساتھ دین کا صحیح وژن ضروری ہے۔ اور اس وژن کے اندر ایک بڑی چیز ہے: الاقدم فالاقدم کہ جو اہم ہے اسی کو اہم ہونا چا ہیے۔جو مرکزی ہے اسی کو مرکزی ہونا چا ہیے۔جو اصول ہے اسی پر ہما ری اصل نظرہو نی چا ہیے۔اور جو اختلاف ہے ‘ جو فرو عی ہے اس کے با رے میں ہمیں توسع ‘ رواداری کواپنانا چا ہیے ۔مکالمہ ضرور کیجیے لیکن اس میں اُلجھ کر اصل کو بھول جانا اور تر جیحات کا بگڑ جانا یہ بہت بڑی تبا ہی ہے۔میں نے    جتنا مطا لعہ کیا ہے‘ میں آپ سے ایمان داری سے کہتا ہوں کہ اہلِ سنت کے درمیان جو مکاتب فکر ہیں ان میں ۹۵ فی صد ایشوز وہ ہیں کہ جن میں کوئی بنیادی اختلاف نہیں۔ سا رے اختلافات صرف ۵ یا ۶ فی صد معاملات کے اُوپر ہیں۔اور اگر آپ اہلِ سنت اور اہلِ تشیع کے مابین اختلافی امور کا جائزہ لیں تو یہ زیادہ سے زیا دہ بڑھ کر کے ۸ سے ۱۰فی صدامور کے بارے میں ہیں‘ جب کہ  ۹۰ فی صد امور میں ہم سب مشترک ہیں۔

کیا ظلم ہے کہ ۹۰ فی صد اور ۹۵فی صد قدر مشترک کو تو ہم بھول جاتے ہیں‘ اور اس پانچ سات فی صد جس کے با رے میں اختلاف ہے ‘اس میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ ہم اختلاف سے انکار نہیں کرتے لیکن اگر ہم اس اختلاف کو اس کی حدود میں رکھیں‘ اختلافی امور میں روادا ری بر تیں اور جو ہما رے مشترکات ہیں اس پر ڈٹ جائیںتو ہما ری کتنی بڑی قوت ہے ۔اور یہی وجہ ہے کہ میں کہتا ہوں کہ فقہ نظامِ زندگی ہے ‘ قانون ہے ‘ ہمارا راہنما ہے۔لیکن ہما ری تر جیحات میں سب سے پہلی چیز قرآن ہو نی چا ہیے۔پھر سنتِ رسول ؐ ، پھر فقہ‘اور پھر تاریخ ۔اگر یہ تر تیب آپ رکھیں گے تو کبھی بگاڑ نہیں آئے گا۔ اس سے بڑا سانحہ کیا ہوگا کہ ہم قرآن کو بھول جائیں ‘ سنت کی ہم فکر نہ کریں ‘فقے میں بھی مشترکات کو ہم نظرانداز کر دیں اور صرف فروعات میں ہی الجھ جائیں تو پھر حالات خراب نہ ہوں تو کیا ہو؟

عزمِ نو

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی صحیح بات کہی تھی کہ لن یصلح آخر ھذہ الامۃ الا بما یصلح بہ اولھا ، اِس اُمت کے آخری دور کی اصلاح بھی اُسی سے ہوسکتی ہے جس سے اِس کے پہلے دور کی اِصلاح ہوئی تھی۔اور وہ ہے قرآن۔تو آئیے ! اس کتابِ ہدایت کو تھام لیں اور غلبۂ اسلام کی اُس اُمنگ کو جو ساری قوت کا سرچشمہ ہے ‘اِس جذبے کو بیدار اور اُجاگر کریں کہ ہمیں ظلم کے آگے کبھی بھی سپر نہیں ڈالنا بلکہ مزاحمت کرنا ہے۔اور اگر آپ تاریخ پر غور کریں تو آپ یہ دیکھیں گے کہ خیر اور شر کی کش مکش سے ہی قوموں میں ساری تخلیقی قوت (creativity) پیدا ہو تی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح فزکس میں رگڑ (friction) سے انرجی پیدا ہوتی ہے ۔اسی طرح انسانی زندگی میں بھی اسی کش مکش سے تخلیقی قوت پیدا ہوتی ہے اور طاقت کے نئے سر چشمے پھوٹتے ہیں۔

تو آئیے!ہم ایمان اور اُمید کا دامن تھام لیں۔ اللہ کو اپنی قوت کا ذریعہ بنائیں ۔ اور اپنے عوام کو بیدار اور منظم کریں کہ اللہ کی نصرت کے لیے یہ ضروری ہے۔  ھُوَ الَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَ o (الانفال ۸:۶۲ )’’وہی وہ ذات ہے جس نے اپنی مدد اور مومنوں کے ذریعے سے تمھاری تائید فرمائی‘‘۔ اپنے رب سے مدد طلب کریں ۔ تاریکی سے مایوس نہ ہوں۔ بچپن میں‘ میں نے ایک قطعہ سنا تھا جسے حرزِجان بنا لیا‘ اس پر بات ختم کرتاہوں:

یوں  اہلِ  توکل  کی  بسر  ہوتی  ہے

ہر  لمحہ   بلندی  پہ  نظر  ہوتی  ہے

گھبرائیں نہ ظلمت سے گزرنے والے

آغوش میں ہر شپ کے سحر ہوتی ہے


یہ اشارات اس تقریر پر مبنی ہیں جو مدیر ترجمان القرآن نے ۱۱ مارچ ۲۰۰۵ء کو فاران کلب کراچی کے ایک بڑے اجتماع میں کی جس میں کراچی کے اہل دانش اور تاجر برادری کے سرکردہ افراد شریک تھے۔ ضروری نظرثانی اور اضافوں کے ساتھ۔

(کتابچہ دستیاب ہے۔ قیمت: ۵ روپے۔ سیکڑے پر رعایت۔ منشورات‘ منصورہ‘ لاہور۔ فون:۵۴۳۴۹۰۹)