یوں تو مصنف کی شخصیت علمی اعتبار سے ہمہ جہت ہے‘ مگر ان کا خصوصی تعلق علوم الفقہ اور اسلامی قانون سے ہے۔ ان کی زیرتبصرہ کتاب علوم القرآن کے متنوع مضامین کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ پیش لفظ (ص ۹) کے مطابق مؤلف موصوف کی مزید کتابیں محاضراتِ حدیث‘ محاضراتِ فقہ اور محاضراتِ سیرت بھی بالترتیب منظرعام پر آنے والی ہیں۔ یہ ان کی متنوع علمی دل چسپیوں کا ثبوت ہے۔
زیرنظر خطبات الہدیٰ انٹرنیشنل‘ اسلام آباد کی ایک ورکشاپ میں شریک ان خواتین کے سامنے پیش کیے گئے جو خود مختلف حلقوں میں بطور مدرّسات‘ دروسِ قرآن کا اہتمام کرتی ہیں۔ مجموعہ کل ۱۲ خطبات پر مشتمل ہے۔ سبھی موضوعات‘ نہایت اہم اور پُرکشش ہیں اور قرآن اور علوم القرآن کے ہر متعلم و معلم کے لیے ان کا مطالعہ ضروری بلکہ ناگزیر ہے‘ مثلاً: تدریسِ قرآن مجید‘ ایک منہاجی جائزہ (ص ۱۱)‘ تاریخ نزولِ قرآن مجید (ص ۸۵)‘ تدریسِ قرآن مجید‘ دورِ جدید کی ضروریات اور تقاضے (ص ۳۷۵)‘ وغیرہ۔
خطبات کا انداز تحریری اور تحقیقی کے بجاے تقریری اور داعیانہ ہے۔ مؤلف کے مطابق ’’اندازِ بیان میں خطیبانہ رنگ کہیں کہیں بہت زیادہ نمایاں ہوگیا ہے‘‘ (ص ۹)۔ لیکن اندازِ بیان واقعتا اتنا دل چسپ‘ اور مشمولات اتنے معلومات افزا ہیں کہ قاری کی دل چسپی کم نہیں ہوتی۔
مجموعی طور پر یہ کتاب مؤلف کی وسعتِ علمی‘ ذخیرئہ معلومات اور علومِ قرآنیہ سے گہری دل چسپی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مضبوط یادداشت اور داعیانہ تڑپ کی بناپر فاضل مؤلف ایک موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کئی ضمنی موضوعات پر بھی روانی سے معلومات فراہم کرتے چلے جاتے ہیں‘ مثلاً: مفسرین قرآن کے تفسیری مناہج کے ضمن میں ڈاکٹر حمیداللہ مرحوم کے ہاتھ پر مسلمان ہونے والے مشہور فرانسیسی موسیقار ژاک ژیلبر کا دل چسپ واقعہ اور قرآن کے بارے میں اُس کے سوالات (ص ۲۲۷-۲۳۰)۔اسی طرح اعجاز القرآن کے ضمن میں کعبۃ اللہ کے پردوں کی کیفیت کا بیان (ص ۲۶۴)‘ وغیرہ۔ گویا علوم القرآن سے متعلق ان محاضرات میں تاریخِ اسلام کی جھلک بھی نمایاں ہے۔ مؤلف کی بعض آرا سے علمی اختلاف کی گنجایش کے باوجود‘ کتاب کی افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ (ڈاکٹر محمد حماد لکھوی)
صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وہ نفوسِ قُدسی ہیں جن کو خاتم الانبیا والمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے جمالِ جہاں آرا سے اپنی آنکھیں روشن کرنے‘ آپؐ پر ایمان لانے اورآپؐ سے براہِ راست استفاضے کا شرف حاصل ہوا۔ اِن پاک نفس ہستیوں نے تہذیب و تمدن کی زُلفوں کو سنوارا‘ سیاست و معیشت کے چہرے کو نکھارا‘ جہالت کے اندھیروں اور کفروشرک کی ظلمتوں میں ہدایت کی شمعیں روشن کیں۔ ان کی عظمت اور رفعتِ کردار پر اللہ تعالیٰ نے قرآنِ حکیم میں جابجا مُہرِتصدیق ثبت فرمائی اور ان کی عظیم الشان ’کامیابی‘ کا ذکر اس طرح فرمایا: رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُط ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ o (المائدہ ۵:۱۱۹) [اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے]۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے بعد صحابۂ کرامؓ (بشمول صحابیاتؓ) کے سوانح حیات کے مطالعے سے تعلق باللہ اور عشقِ رسولؐ محکم و متحرک ہوتا ہے۔ زیرِنظر کتاب ۵۵ صحابۂ کرامؓ اور تین صحابیاتؓ کے ایمان افروز سوانح حیات پر مشتمل ہے۔ یہ مصر کے نامور ادیب ڈاکٹر عبدالرحمن رافت پاشا کی عربی تالیف صُوَرٌ مِنْ حیاۃ الصّحابہؓ کا اُردو ترجمہ ہے۔ ترجمہ نہ صرف رواں‘ شگفتہ‘ شستہ اور عام فہم ہے بلکہ اس میں ادبیت بھی پائی جاتی ہے۔ فاضل مترجم نے پوری کوشش کی ہے کہ عربی نثر کا زورِ بیان اُردو ترجمے میں منتقل ہوجائے۔ اس کوشش میں وہ خاصے کامیاب نظر آتے ہیں سوائے اس کے کہ انھوں نے کتاب کے عربی الفاظ (بالخصوص صحابہؓ و صحابیاتؓ کے اسما) پر اِعراب لگانے کا التزام نہیں کیا۔ آج کل تلفظ کی غلطیاں عام ہوچکی ہیں‘ اس لیے عربی الفاظ پر اِعراب لگانا ضروری ہے۔
کتاب کے صفحات ۷۳ تا ۷۸ اور ۲۶۸ تا ۲۷۰ پر جحش (ج ح ش) کو جابجا حجش (ح ج ش) کمپوز کیا گیا ہے۔ آیندہ ایڈیشن میں اس غلطی کو درست کر لینا چاہیے۔ صفحہ ۲۷۳ پر ’خوشی سے پھولی نہ سمائیں‘ کی جگہ ’خوشی سے پھولا نہ سمائیں‘ہونا چاہیے کیونکہ محاورے میں تبدیلی درست نہیں۔ بحیثیت مجموعی سیر الصحابہ کے موضوع پر یہ ایک لائقِ مطالعہ کتاب ہے۔ گیٹ اَپ نہایت عمدہ ہے۔ (طالب الہاشمی)
کتاب کا عنوان تو محدود ہے‘ لیکن مندرجات میں بڑی وسعت اور جامعیت ہے۔ مسجد سے متعلق ہر ممکن پہلو زیربحث آگیا ہے۔
مصنف نے لکھا ہے کہ یہ موضوع گذشتہ ۲۰ سال سے ان کے پیشِ نظر رہا اور اب وہ اسے ضابطۂ تحریر میں لائے ہیں۔ آدابِ مسجد اور امام‘ موذن اور مقتدی‘ مسلم معاشرے میں مسجد کی اہمیت‘ تاریخی جائزہ‘ اہم مساجد کے بارے میں ضروری معلومات اور دور جدید میں پیش آمدہ مسائل‘ سب ہی کا بخوبی احاطہ کیا گیا ہے۔ ’’دورحاضر میں مسجد کے حقیقی کردار کی بحالی‘‘ کے زیرعنوان مصنف نے جہاں تاریخی ومذہبی پہلو کو اجاگر کیا ہے‘ وہاں عصرحاضر کے تقاضوں پر بھی بحث کی ہے اور عملی تجاویز پیش کی ہیں۔ چند عنوانات: تعلیم قرآنی ناظرہ اور تعلیم بالغاں‘ کوچنگ کلاسیں یا شام کا اسلامی اسکول‘ مسجد اور خواتین کی تعلیم‘ رفاہی و اصلاحی مرکز‘ دارالمطالعہ‘ مہمان خانہ اور مسافرخانہ‘ قانونی مشورہ‘ فون کی سہولت‘ میت گاڑی‘ شفاخانہ‘ پنچایت کمیٹی‘ سماجی اجتماعات و کانفرنسیں‘ ایک اسلامی سنٹر کا نقشہ‘ عمررسیدہ لوگوں کے لیے دن کا مرکز‘ نوجوانوں کی سرگرمیاں‘ تجہیز وتکفین کی سہولیات وغیرہ۔ ۲۲ سے زائد عنوانات ہیں۔ اس موضوع پر جامعیت کے لحاظ سے اپنی نوعیت کی یہ پہلی کتاب ہے۔
تجویز کیا گیا ہے کہ مساجد کونسل قائم کی جائے۔اس کا ایک لائحہ عمل ہو۔تربیت خطبا‘ ائمہ اور مؤذنین نومسلموں اور نوجوانوں کے لیے تربیتی کورس‘ بیرون ملک تربیتی کورس‘ فہم قرآن مراکز‘ افتا و تحقیق کا شعبہ‘ تربیت حجاج پروگرام وغیرہ اس کونسل کے نمایاں فرائض ہوں۔
آخری باب اسلام میں مسجد کی مرکزیت و اہمیت کے پیشِ نظر مسجد کے کردار کے خلاف کی جانے والی کش مکش پر مبنی ہے۔ دورِنبوتؐ سے لے کر تاحال صورت حال کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس باب میں مسجد کو اس کے حقیقی مقام سے ہٹانے کے اسباب کا بھی تذکرہ ہے۔
مصنف کے اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال ۱۰ ہزار نئی مساجد تعمیر ہوتی ہیں اور ۲ لاکھ سے زائد موجود ہیں۔ اگر یہ مساجد صحیح معنوں میں اپنا کردار ادا کریں تو معاشرے میں وہ تبدیلی لائی جاسکتی ہے جس کا تقاضا اسلام کرتا ہے۔ مسجد کے کردار اور ائمہ مساجد کی تربیت پر یہ ایک گائیڈبک ہے۔ کتاب کی جامعیت کا تقاضا ہے کہ نام میں تبدیلی کی جائے‘ مثلاً مسجد: جامع تصور‘ تہذیبی کردار اور جدید چیلنج۔
کتاب میں مختلف مساجد کی خوب صورت تصاویر بھی شامل ہیں۔ مناسب تھا کہ ہر تصویر کے نیچے ایک وضاحتی جملہ دے دیا جاتا۔ (مسلم سجاد)
دانش پاروں کے اس مجموعے کا مطالعہ کرتے ہوئے ہر تحریر دل میں اترتی محسوس ہوتی ہے اور بعید نہیں کہ کوئی پارہ ایسا خیال اوراتنا عمل انگیز ثابت ہو کہ وہ قاری کی زندگی کا رخ بدل دے۔ یہ تحریریں مؤلف کے تجربے‘ مشاہدے اور غوروفکر کا ماحصل ہیں۔ یہ ایسی سچائیوں اور حقائق پر مبنی ہیں جو کائنات‘ انسان اور خالق کائنات کی ذات اور ان کے باہمی تعلق پر غور کرنے سے منکشف ہوتے ہیں۔ ذہانت اور گہرے تفکر کے باوجود‘ اللہ تعالیٰ کی خاص عطا کے بغیر‘ یہ انداز نصیب نہیں ہوتا۔ بات کہنے کا سلیقہ اورخاص انداز اور الفاظ کی ایک خاص ترتیب جو دل پر نقش ہو جاتی ہے۔ مشتے نمونہ از خروارے ملاحظہ ہو:
دانش پاروں کا یہ اسلوب خلیل جبران کا سا ہے۔ مصر کے ابن عطا اللہ (م: ۱۳۰۹ئ) نے اسی انداز میں لکھا ہے اور ہمارے ہاں واصف علی واصف نے اسی اندازِ بیان کو اپنایا ہے۔ اب ریاض احمد ہرل اس صف میں شامل ہوئے ہیں۔ مقدمہ نگار جناب شہزاد احمد کے نزدیک یہ حکمت کی باتیں ہیں جن میں چند لفظوں میں بہت بڑے خیال کو باندھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ نامور ادیبہ بانو قدسیہ نے مصنف اور ان کے اسلوب کی تحسین کی ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
مصنف انگریزی زبان و ادب کی تدریس سے وابستہ ہیں۔ انھوں نے مباحثوں اور تقریری مقابلوں میں حصہ لینے والے طلبا کی رہنمائی کے لیے اپنی تحریر کردہ‘ انگریزی تقاریر کو یکجا کرکے شائع کر دیاہے۔
مقدمے میں مؤلف نے خطباتِ رسولؐ کے حوالے سے‘ فنِ تقریر و خطابت کے موضوع پر‘
تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ اس حصے میں مصنف نے آپؐ کے بعض خطبوں کے (ترجموں کے) اقتباسات بھی دیے ہیں جو بڑے مؤثر ہیں۔ ضمیمے میں آپؐ کے اصل عربی خطبوں کے نمونے بھی دیے گئے ہیں۔ بطور نمونہ حضرت عیسٰی ؑ، جعفر بن ابی طالب‘ قائداعظم‘ ابراہام لنکن‘ گاندھی‘ سقراط وغیرہ کی ایک ایک تقریر‘ اور ہٹلر‘ چرچل اور اسٹالن کی تقاریر کے اقتباس دیے گئے ہیں۔ بعدازاں طلبا کے مابین مباحثوں اور تقریری مقابلوں کے لیے موافقت اور مخالفت میں‘ مختلف موضوعات پر ۳۰تقاریر دی گئی ہیں‘ مثلاً:
اس کتاب کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ واقعی کچھ کلمات و خطابات‘ سننے والوں میں زندگی کی نئی روح پھونک دیتے ہیں۔ پروفیسر صاحب نے علمی دیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ تمام حوالہ جات پیش کر دیے ہیں جن سے اُنھوںنے خوشہ چینی کی ہے۔ طباعت مناسب ہے۔ یہ کتاب طلبا‘ اساتذہ اور اہلِ علم کے لیے یکساں مفید ہے۔ کتاب کے آخر میں Animal Farm ناول کا تعارف شامل ہے۔ ہمارے خیال میں اس کی ضرورت نہ تھی۔(محمد ایوب منیر)
مصنف تقریباً ایک سال تک ایچی سن کالج میں اُردو کی تدریس پر مامور رہے۔ اس کتاب میں انھوں نے کالج کی تاریخ اور تعلیمی سرگرمیوں کے بارے میں کچھ تفصیلات اور مشاہدات پیش کیے ہیں۔
ایچی سن کالج برطانوی ہندستان کے راجوں اور نوابوں کے بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے ۱۸۸۶ء میں ۲۱۱۱۲۱ روپے کی خطیر رقم خرچ کر کے تعمیر کیا گیا تھا۔ کالج کے افتتاحی تقریب کے موقع پر‘ اس کے بانی لیفٹیننٹ گورنر سر چارلس امفرسٹن ایچی سن نے کہا تھا: کالج میں حکومت کے وفادار خاندانوں کو باہمی رابطوں کی استواری کا موقع ملے گا‘ جس سے مجموعی طور پر ہمارے مقصد کو تقویت پہنچے گی اور یوں یہ ادارہ برطانوی حکومت کے استحکام کا ایک ذریعہ ثابت ہوگا۔
ایچی سن کالج کے مقاصدِ قیام کے پیشِ نظر کالج کے مؤسسین‘ مذہب اور مذہبی تعلیم کی حوصلہ شکنی کرتے تھے کیوں کہ مذہب اور مذہبی جذبے کی بقا سے انگریز حکمرانوں کے مفادات پر چوٹ پڑتی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ تمام طالب علموں میں ایک ہی رشتہ ہو‘ برطانوی حکومت سے وفاداری کا رشتہ۔
تاہم‘ اب سے ایک ڈیڑھ عشرہ پیش تر اس کالج کے ایک پرنسپل جناب عبدالرحمن قریشی صاحب نے الوداعی تقریر میں تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا: ’’ایچی سن کے طلبا اپنے تہذیبی ورثے سے بیگانہ ہیں‘‘۔
کتاب میں فارسی اشعار اور ذومعنی جملوں سے بھی مصنف نے اپنی بات واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ مثال کے طور پر ایک جگہ ایچی سن کالج کے پرشکوہ عمارت کی منظرکشی کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’… اس برآمدے میں سفید پتھر کی سلوں پر سامراج کے لیے جان ہار جانے والوں کے سیاہ نام درج ہیں‘‘۔
یہ کتاب ایک تحقیق‘ تخلیق اور خوب صورت پیش کش ہے‘ جسے پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے‘ جیسے کسی باغ کی سیر ہو رہی ہے۔ البتہ اس باغ کی سیر کے لیے ٹکٹ (قیمت کتاب) ۶۰۰ روپے پاکستانی سکّہ رائج الوقت ہے۔ (نوراسلم خاں)
زیرنظر کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے جس میں مصنف نے جہیز کے تباہ کن اور جاہلانہ رواج کے سبب بڑھتے ہوئے مسائل کو اجاگر کیا ہے۔ انھوں نے جہیز کی قبیح رسم کے معاشرتی‘ اخلاقی اور طبی نقصانات کو دلائل و شواہد کے ساتھ واضح کیا ہے۔ جہیز کے معاملے میں راہِ راست کیا ہے؟ شریعت کیا کہتی ہے؟ اس سلسلے میں مؤلف نے حضور اکرمؐ اور صحابہ کرامؓ کے فرمودات کو بطور نمونہ اور دلیل پیش کیا ہے۔ آخر میں اس موضوع پر مفتی محمد تقی عثمانی‘ مولانا عبیداللہ رحمانی اور حافظ صلاح الدین یوسف کی تحریریں بھی شامل کی گئی ہیں۔
یہ کتاب جہیز کے مسئلے پر ایک مختصر مگر خوب صورت کاوش ہے۔ تعجب ہے کہ لفظ ’جہیز‘ کا املا اوّل تا آخر ہر جگہ غلط (جھیز) لکھا گیا ہے۔ (اللّٰہ دتّا جمیل)