افغانستان میں صدر حامد کرزئی کی حکومت اتحادی افواج کے سہارے اقتدار کی مسند پر فائز ہے لیکن افغانستان پر حاکمیت نہ صدر حامد کرزئی کو حاصل ہے اور نہ اُن کے مادی سہاروں (اتحادی افواج) ہی کو۔ حاکمیت کے قیام کے لیے ہر دو نے ماضی قریب میں یہ ضرورت شدت سے محسوس کی ہے کہ طالبان کے نام سے کچھ لوگوں کو اپنے ساتھ ملا لیں۔ اس غرض سے اتحادی افواج کے کمانڈر کرنل رچرڈ پیٹرسن نے یہ اعلان کیا کہ جو طالبان قومی مصالحت کے پروگرام میں شریک ہوں گے اُن کو عام معافی دی جائے گی‘ اور اُن کے لیے خصوصی شناختی کارڈ جاری کیے جائیں گے۔ اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ پیشِ نظر مقصد یہ ہے کہ طالبان تحریک کے ارکان کو بھی آزادانہ طور پر افغانستان میں دوسرے افغانوں کی طرح عام زندگی گزارنے کا موقع فراہم ہوسکے۔ یہ الگ بات ہے کہ کیا طالبان کے علاوہ افغان عوام عام زندگی بسر کرنے پر قادر ہیں یا امریکاکی سربراہی میں اتحادی افواج نے سارے افغانوں کو عام زندگی گزارنے سے محروم کر کے رکھ دیا ہے؟ کیا اتحادی افواج خود افغانستان میں آزادانہ گھوم پھر سکتی ہیں؟ ان کو یہ اختیار کہاں سے حاصل ہوگیا ہے کہ وہ افغانوں کو آزادانہ گھومنے پھرنے کی اجازت دیں یا نہ دیں؟
حامد کرزئی کی حکومت اور اتحادی افواج کے ساتھ مذاکرات کرنے والے جن افراد کے نام اب تک منظرعام پر آئے ہیں وہ درج ذیل ہیں: ۱- حبیب اللہ فوزی: جو طالبان کے دور میں ریاض (سعودی عرب) میں سفارت کار تھے‘ ۲- عبدالحکیم مجاہد: اقوام متحدہ میں طالبان کی حکومت کے نمایندے‘ ۳- مولوی ارسلان رحمانی: طالبان کے نائب وزیر براے تحصیلاتِ عالیہ‘ ۴- رحمت اللہ وحید یار: طالبان کے نائب وزیر براے مہاجرین۔ لیکن طالبان کے ترجمان لطف اللہ حکیمی نے یہ اعلان کیا ہے کہ مذاکرات کے عمل میں شریک لوگوں کا طالبان کی تحریک سے اب کوئی تعلق نہیں رہا اور وہ تحریک کے نمایندوں کی حیثیت سے مذاکرات نہیں کر رہے‘ جب کہ مذاکرات میں شریک افراد نے خود بھی یہ اعلان کیا ہے کہ وہ طالبان کے نمایندے نہیں بلکہ وہ اپنی تنظیم خدام الفرقان کی نمایندگی کر رہے ہیں۔
مذاکرات کے دوران یہ تقاضا کیا گیا کہ گوانٹاناموبے‘ باگرام اور قندھار میں طالبان کے ساتھ تعلق رکھنے کے الزام میں قید ۴۰۰ سے ۵۰۰ کی تعداد میں گرفتار افراد کو فی الفور رہا کیا جائے۔ لیکن اتحادی افواج کے ترجمان سٹیووولمین نے کہا کہ ان افراد کی رہائی افغان حکومت کا مسئلہ ہے‘ اتحادی افواج کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ اس وجہ سے مذاکرات کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا ہے۔ اگرچہ عام افغانوں کی خواہش ہے کہ یہ مذاکرات کامیاب ہوں جس کے نتیجے میں خانہ جنگی ختم ہو‘ افغان عوام مل کر اتحادی افواج سے مشترکہ طور پر مطالبہ کریں کہ وہ افغانستان سے نکل جائیں‘ اور افغان عوام کو اپنے طور پر افغانستان کے اُمورمملکت چلانے کا اختیار دیا جائے۔
طالبان کے وزیرِخارجہ مولوی وکیل احمد متوکل کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ مذاکرات کے بعض ادوار میں شریک رہے ہیں۔ ان کے بارے میں پہلے بھی اس طرح کی خبریں پھیلانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ وہ موجودہ افغان حکومت سے مل گئے ہیں‘ لیکن بعد میں وہ خبریں جھوٹی ثابت ہوئی ہیں۔
یہ بات اب محتاج ثبوت نہیں کہ بیرونی افواج کے ذریعے افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ امریکا کی یہ دیرینہ پالیسی رہی ہے کہ افغانوں کو مختلف ناموں سے تقسیم کرے اور تقسیم در تقسیم کے ذریعے مختلف گروپوں میں پھوٹ ڈالے۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات اسی پالیسی کا تسلسل ہے۔ طالبان میں ’اعتدال پسند طالبان‘ اور ’انتہا پسند طالبان‘ کی تقسیم امریکا کا ایک ناکام حربہ ہے۔ افغانستان کے مسئلے کا واحد حل آزادانہ ‘ منصفانہ اور غیر جانب دارانہ انتخابات کے ذریعے افغان عوام کی مرضی کی منتخب حکومت کو مکمل اختیارات سونپنا اور امریکی افواج اور ان کے اتحادیوں کا افغانستان سے مکمل انخلا ہے۔ اگر امریکا کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ شام سے مطالبہ کرے کہ وہ لبنان سے اپنی فوجیں نکال لے‘ تو افغانوں کو بھی یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ ان کے مطالبے پر افغانستان سے امریکی فوج نکل جائے۔
فی الوقت افغانستان میں ایک اور اہم واقعہ جنرل عبدالرشید دوستم کا افغان مسلح افواج کا سربراہ مقرر کیا جانا ہے۔ افغان صدر حامد کرزئی نے مارچ کے شروع میں ان کی تقرری کا اعلان کیا۔ جنرل عبدالرشید دوستم نہ صرف افغانستان کی ایک متنازع شخصیت اورافغان عوام کے خلاف انتہائی گھنائونے جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں‘ بلکہ انھوں نے افغان جہاد کے قائدین بالخصوص انجینئر احمد شاہ مسعود اور انجینئر گلبدین حکمت یار کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا‘ اور اس طرح افغانستان میں عدمِ استحکام اور خانہ جنگی کا باعث رہے ہیں۔ درآں حالیکہ مذکورہ بالا دونوں افغان رہنمائوں کا خیال یہ تھا کہ وہ جنرل عبدالرشید دوستم کو اپنے حق میں اور دوسروں کے خلاف استعمال کرسکیں گے۔ یہ ان دونوں کی اپنی اپنی جگہ پر ایک بڑی فاش غلطی تھی۔ درحقیقت احمد شاہ مسعود یا گلبدین حکمت یار نے جنرل عبدالرشید دوستم کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں کیا‘ بلکہ اُلٹا عبدالرشید دوستم نے ان دونوں رہنمائوں کو باری باری ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا۔
صدارتی انتخابات کے بعد افغانستان میں پارلیمانی انتخابات کی آمد آمد ہے اور شاید افغان صدر حامد کرزئی نے ان انتخابات پراثرانداز ہونے کے لیے جنرل عبدالرشید دوستم کو افغان مسلح افواج کا سربراہ مقرر کیا ہے۔ لیکن حامد کرزئی کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اُن کے اس عمل سے افغان عوام انتہائی ناخوش ہیں‘ اور ماضی کے تجربات کو دیکھتے ہوئے شاید عبدالرشید دوستم کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنے کے بجاے خود حامد کرزئی اُن کے ہاتھوں استعمال ہوجائیں۔