اپریل۲۰۰۵

فہرست مضامین

یورپ کا مستقبل اور اسلام؟

ڈیوڈ مسکی | اپریل۲۰۰۵ | اسلام اور مغرب

Responsive image Responsive image

ترجمہ و تلخیص: مسلم سجاد

پورے یورپ میں سڑکوں پر اسکارف پہنی عورتیں اور داڑھی اور ٹوپی والے مرد اب کوئی نامانوس منظر نہیں۔ دکانوں پر عربی اور دوسری مشرقی زبانوں کے سائن بورڈ لگے ہیں جہاں شرق اوسط اور دیگر مسلم علاقوں سے برآمد شدہ اشیا فروخت کی جاتی ہیں۔ صرف چند عشروں میں برمنگھم‘ راٹرڈم اور پیرس جیسے شہروں کے بعض علاقے بالکل تبدیل ہوچکے ہیں۔ جن شاہ راہوں نے یورپی تاریخ کی کئی صدیاں دیکھی ہیں‘ وہ اب غیر مغربی عوام اور غیرمغربی کلچر کی میزبان ہیں۔

یہ نیا یورپ ہے‘ جس میں مسلمانوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی ان معاشروں میں جو اب تک ایک رنگ و نسل پر مشتمل تھے‘ اپنا وجود ثابت کر رہی ہے۔ مسلمان مغربی اور وسطی یورپی ممالک میں ابھی اقلیت ہی ہیں‘ یعنی یورپی یونین کی کل آبادی کا پانچ فی صد‘ لیکن آبادی کے رجحانات آنے والے برسوں میں ڈرامائی تبدیلی کے اشارے دے رہے ہیں۔

آج‘ اسلام یورپ میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلتا ہوا مذہب ہے۔ ترکِ وطن اور شرح پیدایش کی تیزرفتاری کی وجہ سے گذشتہ ۳۰برسوں میں مسلمانوں کی تعداد تین گنا ہوگئی ہے۔ آبادی کے ماہرین آنے والے عشروں میں اتنی ہی یا اس سے بھی زیادہ اضافے کی پیش گوئی کررہے ہیں۔

اس بڑھتی ہوئی آبادی کے معاشرتی اثرات‘ مقامی یورپیوں میں شرح پیدایش کی کمی سے بڑھ جاتے ہیں۔ اس وقت یورپ میں اوسط شرح پیدایش فی جوڑا‘ ۴۵ئ۱ بچے ہیں جو ۱ئ۲ کی اس شرح نمو سے بہت کم ہے جو آبادی برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ جس براعظم نے مالتھس کی اضافۂ آبادی کی پیش گوئیاں دیں‘ آج خود سکڑتی ہوئی آبادی کا شکار ہے۔ اس صورت حال میں کئی معاشرتی چیلنج پوشیدہ ہیں۔

بہت سے یورپی مسلمان اپنی نئی جاے سکونت میں کامیاب زندگی گزار رہے ہیں‘ لیکن بہت سے ایسے بھی ہیں جو میزبان ملک کی زبان نہیں بولتے‘ اور اکثر بے روزگار اور غریب ہیں۔ علاوہ ازیں عدمِ اختلاط‘ خواہ انتخاب سے ہو یا مجبوری سے ‘ عام ہے۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد اپنے مخصوص محلوں (ghettos) میں رہتی ہے‘ جہاں جرم اور غربت کی شرح بلند ہے۔

یـورپ کو درپیش چیلنج

مسلمانوں کی آمد یورپیوں کے لیے کئی چیلنج سامنے لائی ہے۔ امریکا تارکینِ وطن کی سرزمین ہے اور وہاں کوئی نسلی گروہ غالب نہیں ہے‘ اس کے برعکس یورپ کی بیش تر قومیں ایک مشترک نسل کی آبادیوں سے تعمیرہوئی ہیں۔ ان ملکوں کی اپنی تاریخی‘ ثقافتی‘ مذہبی اور لسانی روایات ہیں۔ ان ممالک میں لاکھوں اور بعض صورتوں میں کروڑوں ایسے افراد کا داخلہ جو مختلف نظر آتے ہوں‘ مختلف زبان بولتے ہوں اور ان کے طریقے اور رویّے بھی مختلف ہوں‘ ایک مشکل صورت حال کو جنم دیتا ہے۔

مذہب کے مسئلے پر بھی کشیدگی بڑھی ہے۔ یورپی مسلمانوں کی زندگی میں اسلام کی مرکزیت جرمن‘ فرانسیسی اور سیکنڈے نیویا کے سیکولر عوام کے لیے سمجھنا مشکل ہے۔ یورپیوں کو تشویش ہے کہ ان کے مسلمان پڑوسیوں کے لیے اسلام سے ان کا تعلق مغرب کی رواداری‘ جمہوریت اور خواتین کے لیے مساوی حقوق جیسی بنیادی اقدار کو قبول کرنا مشکل بنا دیتا ہے۔۱؎ امریکا میں نائن الیون کے دہشت گرد حملے اور اس کے بعد کے واقعات خاص طور پر ۱۱ مارچ کو میڈرڈ میں ٹرین پربم دھماکے اور حال ہی میں ولندیزی فلم ساز وان گوخھ کے قتل نے معاشرتی دبائو کو بڑھا دیا ہے۔ دہشت گردی اور ’انقلابی اسلام‘ سے اس کے تعلق نے یورپیوں کو خصوصاً انھیں جو مسلمانوں کے درمیان رہتے ہیں‘ تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ ان وجوہ نے غیرملکیوں سے نفرت پر مبنی مقامی پارٹیوں کو ایندھن فراہم کیا ہے‘ جس کی بنیاد پر ان میں سے کئی سیاست کے مرکزی دھارے میں داخل ہوگئی ہیں۔ اسی دھماکا خیز فضا میں یہ مسئلہ زیربحث ہے کہ ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت ہو یا نہیں۔ ۱۷دسمبر کو یورپی یونین کے ۲۵ ممبر ممالک نے متفقہ طور پر اکتوبر ۲۰۰۵ء سے مذاکرات  شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ لیکن اس سے ترکی کا داخلہ یقینی نہیں ہوجاتا۔ متعدد یورپی ممالک میں راے عامہ کے جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کی اکثریت ترکی کی شمولیت کے خلاف ہے۔

یورپی یونین میں ترکی کے داخلے کامسئلہ یورپ میں مسلمانوں کے روزگار یا آزادی کی تلاش میں آنے سے وابستہ ہے۔ یورپی حکومتوں نے مختلف سطحوں پر اس مسئلے سے کامیابی کے ساتھ نمٹا ہے۔ فرانس اور برطانیہ میں تارکینِ وطن کے لیے کئی عشروں سے طے شدہ پالیسیاں ہیں خاص طور پر برطانیہ میں مسلمانوں کو وسیع تر معاشرے کے ساتھ جوڑنے میں کچھ کامیابی ہوئی ہے۔ جرمنی‘ اسپین اور اٹلی نے آج تک مسلمان آبادیوں کے وجود کو ایک عارضی عمل سمجھا ہے‘ اور یہ تصور کیے رکھا ہے کہ یہ ایسے مسلمان مزدور ہیں جو بالآخر اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں گے۔ لیکن مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد‘ دہشت گردی سے متعلق اندیشے اور معاشرتی دبائو میں اضافوں نے موجودہ عہد کی یورپی حکومتوں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ اس مسلم آبادی کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے پر غور کریں۔ ان کوششوں کا ایک دائرہ ایسے قوانین ہیں جن سے باہم جذب و انجذاب کا عمل تیز ہو‘ جیسے کہ فرانس میں اسکارف پہ حالیہ پابندی‘ اور دوسرا دائرہ ایسی تجاویز کی پیش کاری اور نفاذ کی حکمت عملی ہے کہ جن سے اسلام کا زیادہ مقامی یورپی برانڈ تیار ہو۔ یورپی مسلمانوں کا یورپی معاشرے میں کامیابی سے وابستہ ہوجانا یورپ کے مستقبل کے لیے نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ بلاشبہہ آبادی اور معاشرتی دبائو کے اثرات کے بارے میں مختلف راے ہو سکتی ہیں‘ لیکن یہ سب سمجھتے ہیں کہ مسلمان ایک اہم اور قابلِ لحاظ اقلیت رہیں گے‘ جو آخرکار اس براعظم کے مستقبل کی تشکیل میں اہم کردار ادا کریں گے۔

اگر ترکی اور سابق سوویت یونین کی مسلمان ریاستوں کو شمار نہ کیا جائے تو یورپ میں ۲کروڑ ۳۰ لاکھ مسلمان ہیں۔ اس میں سے اکثریت (ایک کروڑ ۸۰ لاکھ تک) اُن ۲۵ ممالک میں ہے جن پر یورپی یونین مشتمل ہے‘ جب کہ باقی بوسنیا‘ کو سووا‘ البانیا‘ مقدونیا اور دیگر چھوٹی ریاستوں میں ہیں۔ یورپی یونین کے اہم رکن فرانس میں ۵۰ لاکھ مسلمان ہیں‘ یعنی سب سے بڑی مسلم آبادی۔ ان مسلمانوں میں سے بیش تر کا تعلق شمالی افریقہ سے ہے اور یہ آبادی کا ۸ فی صد ہیں۔ جرمنی میں ۳۵ لاکھ‘ برطانیہ میں ۱۶ لاکھ اور اسپین اور اٹلی میں ۱۰‘ ۱۰ لاکھ مسلمان ہیں۔

اگرچہ آج یورپی یونین کی ۴۲ کروڑ (۴۲۵ ملین) آبادی میں صرف ۵ فی صد مسلمان ہیں‘ لیکن ماہرین آبادی یہ پیش گوئی کرتے ہیں کہ ۲۰۲۰ء تک یہ ۱۰ فی صد ہوجائیں گے جس کا بنیادی سبب تارکینِ وطن کی تیزرفتار آمد اور پیدایش کی زیادہ شرح ہونا ہے۔ ہر سال ۱۰لاکھ افراد قانونی طور پر یورپ میں آتے ہیں‘ جن میں سے بیش تر کا تعلق شمالی افریقہ ‘ ترکی اور دیگر مسلم ممالک سے ہوتا ہے۔ پھر مجموعی طور پر غیرقانونی آنے والوں میں بھی مسلمان ہی زیادہ ہوتے ہیں‘ جن کی تعداد ہر سال ۵ لاکھ بنتی ہے۔

اس کے ساتھ ہی جو مسلمان پہلے سے رہ رہے ہیں ان کے ہاں اپنے سفیدفام یورپی پڑوسیوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ بچے پیدا ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر جرمنی میں ایک تہائی مسلمان ۱۸ سال سے کم عمر کے ہیں‘ جب کہ کل آبادی میں ۵/۱ ہیں۔ اسی طرح برطانیہ اور جرمنی میں بھی ۵/۱ کے مقابلے میں ایک تہائی مسلمان ۱۵ سال سے کم عمر کے ہیں۔یہ نوجوان اب شادی کی عمر کو پہنچ رہے ہیں‘اس لیے اب آبادی میں زیادہ اضافہ ہوگا۔ اگر باہر سے مسلم تارکینِ وطن کی آمد کم ہو جائے تب بھی کافی اضافہ ہوتا رہے گا۔ دوسری طرف مقامی آبادی کی کم شرح بھی مسلمانوں کی آبادی کا تناسب بڑھا دیتی ہے۔ زیادہ عمر کی آبادی ان ممالک میں صحت اور پنشن کی اسکیموں پر زیادہ دبائو ڈالتی ہے اور ساتھ ہی ریٹائر ہونے والوں کو سہولت پہنچانے کے لیے زیادہ کام کرنے والوں کی باہر سے آمد کی ضرورت ہے۔ اس خلا کو پُرکرنے کے لیے شمالی افریقہ اور شرق اوسط میں رہنے والے ۲۰ سال سے کم عمر کے ۳ کروڑ مسلمان انتظار کر رہے ہیں۔ الجزائر‘ مراکش‘ مصر اور شام کی معیشت اتنی مضبوط نہیں کہ ان کو روزگار فراہم کرسکے۔ یہ دو عوامل ___ یورپ میں نوجوان کارکنوںکی ضرورت‘ اور مسلم دنیا میں لوگوں کی زائد دستیابی___ تارکینِ وطن کی آمد میں اضافہ کریں گے‘ یہاں تک کہ یورپ‘ تارکینِ وطن کی آمد پر پابندی کے لیے سخت قوانین نافذ کرے‘ جو ناممکن تو نہیں‘ تاہم متوقع بھی نہیں۔

اس وقت مسلم اقلیت‘ یورپی منظرنامے کو خصوصاً شہری علاقوں کو تبدیل کر رہی ہے۔ مارسیلز اور راٹرڈم (ہالینڈ) میں یہ آبادی کے ۲۵ فی صد‘ سالمو (سویڈن) میں ۲۰ فی صد‘ برسلز اور برمنگھم میں ۱۵ فی صد‘ لندن‘ پیرس اور کوپن ہیگن میں ۱۰ فی صد یا اس سے بھی زیادہ ہیں۔ آیندہ چند عشروں میں کئی بڑے یورپی شہروں کے مسلم اکثریتی شہر بن جانے کا امکان ہے۔

تاریخی پس منظر

پیغمبرمحمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی رحلت کے ۸۰ سال کے اندر مسلم افواج نے اسپین پر حملہ کر دیا اور تیزی سے تقریباً پورے ملک پر قبضہ کرلیا۔ ۷۳۲ء میں فرانسیسی افواج نے طورس (Tours) میںمسلم افواج کو شکست دے کر فرانس کی متوقع فتح کو روکا۔ ۱۰۹۹ء میں یورپی افواج نے حملہ کیا اور تقریباً ایک صدی کے لیے یروشلم پر قبضہ کرلیا۔ دوسری طرف اسپین میں مسلمانوں کو شکست دی گئی اور ۱۴۹۲ء میں مسلمانوں کا اقتدار ختم ہوگیا‘ لیکن اس دوران یورپ کو وسط ایشیا سے عثمانی ترکوں کی جانب سے ایک نیا چیلنج درپیش تھا۔ چند صدیوں میں عثمانیوں نے ایک طاقت ور مسلم سلطنت قائم کرلی۔ ۱۶ویں صدی میں انھوں نے بلقان کا بیش تر علاقہ فتح کرلیا تھا اور یورپ کے قلب میں داخل ہو رہے تھے۔ ۱۶۸۳ء میں ویانا میں پولینڈ اور آسٹریا کی افواج کے ہاتھوں عثمانی افواج کی شکست سے فتوحات کا یہ سلسلہ رکا۔

اٹھارہویں‘ انیسویں اور بیسویں صدی میں بیش تر مسلم ممالک‘ یورپی اقوام سے شکست کھاگئے۔ آخری معرکہ ۱۹۱۸ء میں ہوا‘ جب پہلی جنگِ عظیم [۱۸-۱۹۱۴ئ] میں شکست کھا نے کے بعد عثمانی سلطنت کا خاتمہ ہوگیا۔

یہ سمندر پار یورپی نوآبادیاں‘ مسلمانوں کو یورپ خاص طور پر فرانس میں لائیں‘ لیکن بڑے پیمانے پر یہ عمل اس وقت ہوا جب یورپ کے تباہ شدہ معاشروں نے معاشی ترقی شروع کی۔ ۵۰ اور ۶۰ کے عشرے مغربی یورپ میں معاشی کرشمے کے عشرے کہے جاتے ہیں۔ ۱۹۴۸ء اور ۱۹۶۷ء کے درمیان مغربی جرمنی میں صنعتی ترقی میں ۱۰۰ فی صد اضافہ ہوا۔ اسی عرصے میں فرانس میں تین گنا‘ اٹلی میں پانچ گنا اور برطانیہ میں دگنا ہوا۔ ان برسوں میں لاکھوں تارکینِ وطن‘ ترقی پذیر دنیا سے یورپ آئے جن میں بیش تر سابقہ یا موجودہ نوآبادیوں سے تھے۔ ایک تعداد ان لوگوں کی بھی تھی‘ جو اپنے ملک کے ناموافق سیاسی حالات یا جبر کے ہاتھوں مجبور ہوکر یورپ کے آزاد ماحول میں آئے۔ ۱۹۶۲ء میں الجزائر کی آزادی کے بعد وہاں سے ایک لاکھ مسلمان نقل مکانی کرکے فرانس آئے۔ ۵۰ اور ۶۰ کے عشرے میں آنے والے بیش تر لوگ واپس نہیں گئے بلکہ بعد کے عشروں میں اپنے بال بچوں کو نئے ملک میں رہنے کے لیے ساتھ لے آئے۔ اب بھی بیش تر مسلمان اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ رہنے کے لیے ہی یورپ آتے ہیں۔ جو لوگ یورپ میں رہ گئے انھیں مشکل حالات سے سابقہ پیش آیا۔ جو ملازمتیں پہلے تھیں‘ اب نہ رہیں۔ تعلیم کی کمی اور زبان کی دقت نے نئے مواقع کو مسلمان تارکینِ وطن اور ان کے بچوں سے دُور کردیا۔ اس لیے مسلمانوں میں بے روزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے‘ مثلاً جرمنی میں‘ تُرک آبادی کی یہ شرح ۲۴ فی صد ہے جو قومی اوسط کا ڈھائی گنا ہے۔ اسی طرح فرانس میں ۳۰ فی صد ہے جو قومی اوسط کا تین گنا ہے۔

یورپی مسلمان آبادیاں ۳۰ مختلف ممالک سے آئی ہیں‘ جو خود ایک دوسرے سے ہزاروں کلومیٹر دُور رہیں‘ اور نسلی و ثقافتی لحاظ سے بہت مختلف ہیں۔ ترکی سے ایک روزگار کا متلاشی‘   الجزائر کے سیاسی جبر کے ہاتھوں تنگ آکر بھاگنے والے اسلام پسند سے بالکل مختلف ہوگا۔ لیکن یہ مسلمان اتنے بھی مختلف نہیں ہیں کہ ان میں مشترکات نہ ہوں۔ ان میں سب سے اہم رشتہ اسلام ہے۔ اسلامی شناخت کا یہ احساس حالیہ دنوں میں بڑھتی ہوئی مذہب پسندی کے ساتھ مضبوط ہوا ہے۔ فرانسیسی اخبار لی مانڈے کے ایک جائزے کے مطابق ۱۹۹۴ء کے مقابلے میں ۲۰۰۱ء میں زیادہ مسلمان‘ زیادہ پابندی سے مسجدوں میں نماز ادا کر رہے ہیں۔ لندن میں ایک حالیہ سروے سے معلوم ہوا کہ حیرت انگیز طور پر ۸۰ فی صد مسلمانوں کے بقول وہ پابندی سے مسجد جاتے ہیں۔   حتیٰ کہ جرمنی میں مقیم سیکولر ترک بھی زیادہ باعمل ہوتے جا رہے ہیں‘ جس کا اظہار خواتین میں اسکارف پہننے اور مردوں کے ہاں داڑھی رکھنے سے ہوتا ہے۔

مذہب اسلام میں یہ نئی دل چسپی ان مسلمانوں میں زیادہ ہے جو یورپ میں پیدا ہوئے ہیں‘ یعنی ۶۰‘ ۷۰ کے عشروں میں آنے والوں کی دوسری اور تیسری نسل۔ اس نسل کے ہاں  مذہب کے اظہار سے جو کشیدگی پیدا ہوتی ہے‘ وہ اس کے باوجود ساتھ رہنے کے لیے رضامند ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ مذہبی سرگرمی میں اضافہ حقیقی مذہبی احساس کے جذبے کے اُبھار کی علامت نہیں ہے۔ یہاں کے مسلمانوں میں رمضان کے روزے جیسی علامتی چیزوں میں اضافہ ہے۔ لیکن‘ یہ ایک کھلا سوال ہے کہ کیا وہ زیادہ باعمل اور نیک بھی ہو رہے ہیں؟ اس رائے کے مطابق یہ کوئی چیلنج نہیں۔ یہ لوگ اپنی شناخت تلاش کرتے ہیں۔ جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ یورپ کے یہ نوجوان اپنے اصل ملک کے مقابلے میں‘ یہاں اسلام سے زیادہ دل چسپی رکھتے ہیں۔

لیکن یورپیوں کو تشویش ہے کہ یہ بڑھتی ہوئی مذہب پسندی ’انقلابی اسلام‘ کی آواز کو زیادہ بلند کرے گی‘ جس سے تشدد میں اضافہ ہوگا۔ سیکولر یورپ میں یہ سوال بھی اٹھایا جاتا ہے کہ: ’’کیا اسلام‘ مغرب کی بنیادی اقدار جمہوریت‘ رواداری اور فرد کے حقوق سے واقعی ہم آہنگ ہوسکتا ہے؟‘‘ اس تشویش کے پیچھے بم دھماکے‘ قاتلانہ حملے اور دھمکیاں خاص طور پر سلمان رُشدی کے خلاف فتویٰ‘ اسلامی انتہاپسندوں کی گذشتہ تین عشروں کی سرگرمیاں‘ اور اس کے آخر میں ۲۰۰۱ء میں امریکا میں نائن الیون کے مبینہ حملے ہیں جس کے بعد تین برسوں میں برطانیہ‘ جرمنی اور اسپین سمیت کئی یورپی ملکوں میں القاعدہ کے مراکز دریافت کیے گئے ہیں۔ یہودیوں کے خلاف پُرتشدد حملوں میں بھی مسلمانوں کا ہاتھ نظر آیا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف حکومتوں نے سیکڑوں مسلم انتہاپسندوں کو گرفتار کیا ہے‘ یا اپنے ملکوں سے باہر نکالا ہے۔ ان لوگوں میں سے بیش تر غیرملکی مسلمان تھے‘ جنھوں نے اسامہ بن لادن اور دوسرے دہشت گردوں سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ مختلف جائزوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ مذہبی رہنما جن لوگوں کو خطاب کر رہے ہیں‘ وہ ان کے ہمدرد ہیں۔ گارجین‘ لندن کے ایک حالیہ جائزے میں برطانوی مسلمانوں کے ۱۳ فی صد نے اس راے کا اظہار کیا کہ امریکا پر القاعدہ کے مزید حملوں کا جواز ہے۔

یورپی اندیشوں کو بڑھانے والا ایک بڑا قابلِ ذکر واقعہ ۲ نومبر ۲۰۰۴ء کو ہوا‘ جب ایک ولندیزی فلم ساز تھیووان گوخھ کو ایک ۲۶ سالہ مراکشی مسلمان اور اس کے چار دوسرے ساتھیوں نے ایمسٹرڈیم میں قتل کر دیا۔ اس کے ساتھ ایسا اس لیے کیا گیا کہ اس نے اسلام میں خواتین کے حقوق کے بارے میں ایک تنقیدی فلم Submission (خودسپردگی) بنائی۔ اس کے ردعمل میں ہالینڈ کے نائب وزیراعظم نے ’انقلابی اسلام‘ کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا: ’’ہم لڑائی کو بڑھائیں گے اور  یقینی بنائیں گے کہ ہالینڈ سے انقلابی اسلامی تحریکیں ختم ہو جائیں‘‘۔ وان گوخھ کے قتل کے بعد دہشت گردی سے تعلق کے شبہے میں درجن سے زائد مسلمانوں کو پکڑا گیا۔ ملک بھر میں عوامی غم و غصے کا اظہار‘ مسلمان مقامات پر ۲۰ حملوں کی صورت میں ہوا‘ جس کے نتیجے میں دومسجدوں اور ایک اسکول کو نذرِ آتش کردیا گیا۔

ایک حالیہ سروے کے مطابق ۸۰ فی صد آبادی سخت اقدامات کے حق میں ہے۔ جن یورپی ممالک میں اس طرح کا واقعہ نہیں ہوا ‘وہاں بھی جس چیزکو اسلامی خطرہ سمجھا جاتا ہے اس کے خلاف کافی لکھا اور کہا جا رہا ہے۔ قومی سطح کے سیاست دان سوال اٹھا رہے ہیں:’’کیا اسلام مغربی اقدار کے ساتھ چل سکتا ہے؟‘‘ اٹلی کے وزیراعظم نے کھلا اعلان کیا: ’’اسلامی تہذیب‘ مغرب سے کم تر ہے‘‘۔ بلجیم کے وزیرداخلہ نے اُن تہذیبوں کی مذمت کی: ’’جہاں خواتین کو کم تر مقام دیا جاتا ہے‘ جس کے نتیجے میں انھیں اپنے جسموں کو ڈھکنا پڑتا ہے‘‘___ جو ایک اسلامی طریقہ ہے۔

مسلمان اقلیت سے متعلق پالیسیاں

مغربی یورپ کے ملکوں نے مسلمان اقلیتوں سے معاملہ کرنے کے لیے مختلف پالیسیاں اپنائی ہیں۔ اپنے اندر جذب کرنے کے لیے جارحانہ کوششوں سے لے کر عملاً نظرانداز کرنے تک۔ ایسی گریزپائی کے نتیجے میں یہ مسلم آبادیاں مقامی آبادیوں سے الگ تھلگ ہوگئی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال فرانس ہے۔ فرانس نے تعلیمی اور دوسرے اداروں کے ذریعے مسلم آبادی کو جذب کرنے کی پالیسی اختیار کی ہے۔ ہدف یہ ہے کہ ملک کے شمالی افریقہ کے تارکینِ وطن اور ان کی آنے والی نسلوں سے مستقبل کے فرانسیسی پیدا کیے جائیں۔ اس پالیسی کی بنیاد اٹھارہویں صدی کا فرانسیسی انقلاب ہے‘ جس کے مطابق آزادی۲؎، مساوات اور اخوت جیسی آفاقی اقدار کا اطلاق ہرایک پر ہوسکتا ہے۔ فرانسیسیوں کا یقین ہے: ’’یہ روشن خیال اصول اور ملک کی اعلیٰ ثقافتی روایات نئے آنے والوں کے لیے جذب ہونا ممکن بنا دیتے ہیں‘‘۔

دوسری طرف برطانیہ نے ایک زیادہ کثیر ثقافتی ماحول اپنایا ہے‘ جس کا ہدف آنے والوں کو انگریز بنا نا نہیں ہے‘ بلکہ برطانیہ کے بنیادی اداروں کو قبول کرانا اور انگریزی سکھانا ہے۔ کچھ اہلِ علم کا کہنا ہے کہ اس حکمت عملی نے اچھے نتائج دیے ہیں اور دوسرے ملکوں کے مقابلے میں یہاں سب سے بہتر حالت ہے۔ برطانیہ کے مسلمان سیاست اور تجارت میں‘ دوسرے ممالک کے مقابلے میں زیادہ آگے بڑھ رہے ہیں۔

اٹلی‘ جرمنی اور اسپین سمیت بیش تر یورپی ملکوں نے کم سے کم حالیہ زمانے تک تیسرا طریقہ اختیار کیا ہے‘ جس کے تحت مسلم اقلیتوں کے وجود کو ایک عارضی عمل سمجھا گیا ہے جو بالآخر ختم ہوجائے گا اور اس لیے آسانی سے نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔

مثال کے طور پر جرمنی نے سنہ ۲۰۰۰ء تک اپنی شہریت کے حقوق کی بنیاد علاقے کی نسل پر رکھی۔ اسی وجہ سے تُرک اور دوسرے تارکین جو نسلی طور پر جرمن نہیں تھے وہ اور ان کی آیندہ نسلیں شہریت حاصل نہیں کرسکیں۔ وہ جتنے عرصے بھی رہیں گی‘ ان کی حیثیت مہمان کی ہوگی اور مہمان بہرحال عارضی ہوتا ہے۔ لیکن ۲۰۰۰ء میں جرمنی نے اپنے قوانین کو تبدیل کیا‘ جس کے مطابق جو ان کے ملک میں پیدا ہوا‘ وہ شہری ہو سکتا ہے۔ لیکن ابھی تک جرمنی میں کوئی مستقل غیرجرمن اقلیت نہیں ہے۔

نائن الیون کے بعد تمام یورپی حکومتوں اور ان کے عوام نے اپنے درمیان موجود اسلامی آبادیوں کا زیادہ توجہ سے نوٹس لیا ہے۔ دہشت گردی کے خوف کی وجہ سے ان میں بعض نے انھیں اپنے اندر جذب کرنے کے لیے زیادہ مؤثر ماڈل اختیار کیا ہے۔ ڈنمارک میں حکومت نے طے شدہ شادی پر پابندی لگا دی ہے جو مسلمانوںمیں بہت مقبول ہے۔

نائن الیون کے بعد سیاسی و سماجی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں میں سب سے زیادہ شہرت فرانس کے اسکولوں میں حجاب کی پابندی کو ملی۔ اس پابندی کے خلاف کہیں کہیں مزاحمت بھی ہوئی‘ لیکن عام مزاحمت اور سول نافرمانی کے اندیشے بے بنیاد ثابت ہوئے۔ مبصر اس رویے کو اس چیز کی علامت سمجھتے ہیں کہ مسلمان‘ یورپی اقدار کے ساتھ مفاہمت پیدا کر رہے ہیں۔ لیکن کچھ حلقوں کی رائے میں بڑے پیمانے پر مزاحمت اس وجہ سے نہیں ہوئی کہ نائن الیون کے بعد مسلمان دیوار سے لگا دیے گئے ہیں اور اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہونے سے خوف زدہ ہیں کہ اس طرح وہ خوامخواہ نشانے پر آجائیں گے۔

کچھ ملکوں نے نائن الیون کے بعد مسلم اقلیتوں کے ساتھ رابطے قائم کرنے کی نئی کوششیں کی ہیں۔ مثال کے طور پر اسپین نے ایک فائونڈیشن بنائی ہے‘ جس کا مقصد مسلمانوں کو اپنے وسیع تر معاشرے میں شامل کرنا ہے۔ برطانیہ اور اٹلی میں بھی ایسے ہی اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ یہ تنظیمیں پہلے سے موجود نجی طور پر قائم ان ہزاروں تنظیموں میں اضافے کی صورت میں نمایاں ہورہی ہیں جو گذشتہ چند عشروں میں مسلمانوں کو سیاسی قیادت سے لے کر سماجی خدمات تک‘ ہرچیزبہم پہنچانے کے لیے قائم کی گئی ہیں۔ کچھ کا تعلق بیرونی حکومتوں سے ہے‘ جیسے ترکی اور مراکش کی تنظیمیں اور وہ صرف اپنے ہی لوگوں کی خدمت کرتی ہیں۔ بہت سی دوسری تنظیموں کو صاحب ثروت افراد اور اسلامی دنیا کی بہت سی سیاسی و مذہبی تحریکوں سے مدد ملتی ہے‘ مثلاً فرانس میں اسلامی تنظیموں کی فیڈریشن (UOIF) کے اخوان المسلمون سے قریبی تعلقات ہیں۔ اخوان المسلمون ایک وسیع بنیاد پرست تحریک ہے‘ جو تشدد کی تاریخ بھی رکھتی ہے لیکن اب یہ پُرامن نظرآتی ہے۔۳؎  لیکن ان گروپوں کو خواہ یورپی حکومتیں قائم کریں یا غیرملکی‘ اکثر کو اعتماد اور ساکھ کا مسئلہ درپیش ہے۔

مسلم آبادی میں اصل قیادت مقامی مسجد کے امام کو حاصل ہے۔ یہ اب حکومتی دل چسپی کا تازہ ہدف ہیں۔ کئی یورپی ملکوں میں امام تشدد پر اُبھارنے کے الزام میں گرفتار کیے گئے۔ بہت سے مسلمانوں اور غیرمسلموں کے خیال میں اس کا حل یہ ہے کہ خود یورپ میں ائمہ تیار کرنے کے لیے نظام تشکیل دیا جائے۔ یہ تجویز ہے کہ امامت کے لیے لائسنس جاری کیا جائے۔ اس قسم کا کام آہستہ آہستہ شروع بھی ہوگیا ہے اور برطانیہ‘ اسپین اور ہالینڈ میں ائمہ کے لیے مطلوبہ صفات پر غور کیا جا رہا ہے۔ ہالینڈ نے اس طرح کے پروگرام شروع کر دیے ہیں‘ جن میں ائمہ کو ولندیزی اقدار کی تعلیم دی جاتی ہے۔ بیش تر ملکوں میں امام ہونے کے لیے کوئی معیار نہیں ہے۔

مساجد بھی عموماً عارضی طور پر لی گئی جگہوں پر ہوتی ہیں‘ گوداموں میں‘ پرانی فیکٹریوں میں یا ایسی جگہوں پر جو عبادت کے لیے تعمیر نہیں ہوئی ہیں۔ جیسے جیسے مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے مساجد کی کل تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ۱۹۹۷ء میں برطانیہ میں ۶۱۳ مساجد تھیں‘ اب ایک ہزار ہیں۔ جرمنی میں ۲۴۰۰ ہیں۔ ائمہ کی طرح مساجد کی تعمیر بھی نجی طور پر کی جاتی رہی ہے‘ لیکن اب سیاسی رہنما حکومتی کردار کی بات کر رہے ہیں۔ حال ہی میں فرانس کے سابق وزیرخزانہ اور متوقع صدارتی امیدوار نکولس سارکوزی نے مساجد کی تعمیر میں حکومت کے فنڈ فراہم کرنے کے حق میں بات کی تو ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ اس لیے کہ اس وجہ سے ملک کے ۱۹۰۵ء کے قانون میں تبدیلی کرنا پڑے گی‘ جس نے چرچ اور ریاست کو جدا کیا۔ فرانس کے سیکولر سیاست دان اکثر اپنی سیکولر روایت سے دل لگی کرتے رہتے ہیں۔ اس وقت بھی ٹیکس دہندگان سے حاصل کردہ وسائل ہزاروں کیتھولک چرچوں کی دیکھ بھال پر خرچ کرتے ہیں‘ کیونکہ انھیں تاریخی یادگار قرار دے کر مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہے۔ کچھ لوگ سارکوزی کی تجویز کی حمایت کر رہے ہیں کہ اس طرح مسلمان ملک کے مرکزی دھارے کے قریب آئیں گے۔

کیا یورپ کے مسلمان کامیابی سے جذب ہو رہے ہیں؟ مارسیلز کے مفتی شعیب بن شیخ کے مطابق فرانسیسی مسلمانوں کی بڑی اکثریت مرکزی دھارے میں شامل ہو رہی ہے۔ برطانیہ میں ملک کے سب سے بڑے ایشیائی اخبار ایسٹرن آئی کے جائزے کے مطابق ملک کے ۸۷ فی صد مسلمانوں نے کہا : ’’ہم برطانیہ کے وفادار ہیں‘‘۔ لیکن دوسری طرف ایک یہودی مصنفہ کا کہنا ہے: ’’مسلمان کبھی بھی جذب نہ ہوں گے اور وہ اسے یوربیہ (Eurabia) بنا دیں گے‘‘۔ ایک اور رائے کے مطابق مسلمانوں کی ایک واضح اکثریت جذب نہیں ہوئی اور وہ بھی ایک مستقل مسئلہ ہے جس کے کئی اسباب ہیں: حکومت کی بے عملی‘ تعصب‘ جائز ثقافتی اختلافات اور خود مسلمانوں میں آپس میں میل ملاپ کی خواہش۔ حکومتیں چاہتی ہیں کہ ان کو مخصوص آبادیوں میں رکھیں اور وہ خود بھی الگ ہو کر ساتھ رہنا چاہتے ہیں جس سے یکجائی (integration) کا عمل متاثر ہوتا ہے۔

اس وقت مغربی یورپ میں کئی شہروں میں مسلم علاقے موجود ہیں‘ جہاں بے روزگاری‘ جرائم‘ غربت اور مایوسی کی شرح بہت زیادہ ہے۔ ان میں سے بعض میں سفیدفام لوگوں کا داخلہ ممنوع ہے حتیٰ کہ پولیس بھی جانے سے ڈرتی ہے۔ ان محلوں کی وجہ سے مسلمان اکثریتی آبادی سے الگ ہو جاتے ہیں‘ اور دونوں طرف ایک علیحدگی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ عملاً علیحدگی کے ساتھ ساتھ ثقافتی اختلافات ہیں جو اکثریت اور اقلیت کے درمیان باہمی تفہیم میں حقیقی رکاوٹ ہیں۔ بعض اختلافات بہت واضح ہیں‘ مثلاً یورپی خواتین کا لباس جو زیادہ پارسا یا تہذیبی تشخص کے حامل مسلمانوں کو ناگوار ہوتا ہے۔ بیش تر مسلمان شراب نہیں پیتے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے‘ اس لیے کہ یورپ میں شراب نوشی بہت عام ہے۔

لیکن ان چیلنجوں کے باوجود بعض ماہرین یکجائی کے امکانات کے لیے بہت پُرامید ہیں۔ اس کی بنیاد وہ جائزے ہیں جو بتاتے ہیں کہ یورپی مسلمان علیحدگی کا احساس نہیں رکھتے۔ برلن میں ترکوں کے ۲۰۰۱ء کے ایک جائزے میں ۸۰ فی صد لوگوں نے یہ جواب دیا کہ: جرمن معاشرہ منصفانہ ہے اور مساوی مواقع دیتا ہے۔ ۵۰ فی صد وہ مسلمان جو یورپ میں پیدا ہوئے ہیں ان سے بھی اچھی امید ہے۔ فرانس میں تیسری اور چوتھی نسل کے نوجوان موجود ہیں‘ جو اپنے کو فرانس کے مستقبل کا حصہ سمجھتے ہیں۔ یورپی شہروں میں مسلم علاقے مایوسی کی دلدل نہیں‘ بلکہ    خوش حال‘ پھلتی پھولتی آبادیاں ہیں جن میں چھوٹی تجارت میں برابر اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ ممنوعہ علاقے نہیں بلکہ یہاں سفید فام لوگ شرق اوسط کے کلچر کا نظارہ کرنے آتے ہیں۔

اب حکومتیں یہ احساس کر رہی ہیں کہ اگر انھوں نے فائونڈیشنوں ‘ مسجدوں اور دوسرے اداروں کی مدد نہ کی تو اس خلا کو اسلامی انتہاپسند پورا کریں گے۔ فرانس نے ستمبر میں مسلمان عورتوں کی معاشرتی اصلاح اور خرابیاں دُور کرنے کے لیے ایک ارب ڈالر کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ ان علاقوں میں مختلف لوگ ان کی توجہات اپنی طرف کھینچ رہے ہیں‘ ایک طرف داڑھی رکھنے والے بنیاد پرست مبلغ ‘اور دوسری طرف ایک سرگرم اور دل چسپی لینے والی حکومت۔

حقیقت کچھ بھی ہو‘ یورپی عوام کا عام طور پر یہ خیال ہے کہ مسلمان قومی دھارے میں شامل نہیں ہو رہے ہیں۔ فرانس‘ آسٹریلیا‘ اٹلی‘ ڈنمارک‘ برطانیہ اور ہالینڈ میں اس احساس نے دائیں بازو کی پارٹیوں کو تقویت پہنچائی ہے اور اس حد تک کہ یہ بعض جگہ قومی دھارے میں شامل ہوگئی ہیں۔ ایسے بہت سے امیدواروں اور پارٹیوں نے الیکشن میں اچھے نتائج حاصل کیے‘ جنھوں نے تارکینِ وطن اور بیرونی ممالک سے آمد پر سخت اقدامات کا منشور اپنایا۔

۱۹۹۹ء میں آسٹریلیا میں جارج حیدر کی فریڈم موومنٹ دوسرے نمبر پر آئی اور کچھ عرصے مخلوط حکومت میں شامل بھی رہی۔ اٹلی میں بھی اس رجحان کی علم بردار دو پارٹیاں نادرن لیگ اور نیشنلسٹ الائنس نے ۲۰۰۱ء کے انتخابات میں اچھے نتائج دکھائے اور حکومت میں شامل ہوئیں۔ ۲۰۰۲ء میں فرانس میں تارکینِ وطن کے خلاف تحریک کے علم بردار لی پین نے صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں شیراک کے اصل مخالف جاسپن سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ اگرچہ لی پین کو دوسرے مرحلے میں فیصلہ کن شکست ہوگئی‘ لیکن سب نے یہ محسوس کیا کہ ان رجحانات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

ہالینڈ کے شہر راٹرڈم میں ۴۰ فی صد آبادی غیر ملکی ہے‘ جس میں بیش تر مسلمان ہیں۔ یہاں پم فارچیون نے یہ کہا کہ ترک وطن پر مکمل پابندی لگا دی جائے‘ اس لیے کہ اسلام پسماندہ ہے اور جدید مغربی اقدار‘ جیسے رواداری کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ اگر مسلمانوں کی آبادی بڑھتی رہی تو ہالینڈ کی بنیادی اقدار تبدیل ہوجائیں گی۔ فارچیون نے مقبولیت حاصل کی اور اس کی پارٹی نے ۲۰۰۲ء میں شہری حکومت کا کنٹرول سنبھال لیا۔ دو ماہ بعد‘ جب کہ یہ سمجھا جا رہا تھا کہ اس کی پارٹی قومی انتخابات میں پہلے یا دوسرے نمبر پر آئے گی‘ اسے قتل کر دیا گیا۔ بعد میں پارٹی کی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے وہ قوی منظر سے اوجھل ہوگیا۔

یہ پارٹیاں کتنے عرصے عروج میں رہیں‘ اس سے قطع نظر‘ محض ان کا عروج یورپ میں ترکِ وطن مباحثے کی کیفیت کا آئینہ دار ہے۔ ابھی یورپ کے اشرافیہ مسلمانوں کے حوالے سے کوئی واضح موقف نہیں اپنا سکے۔ امریکی سیاسی مفکر فوکویاما اور ہن ٹنگٹن کا استدلال ہے کہ: ’’یورپی اشرافیہ کو بڑھتے ہوئے اسلام کے مقابلے میں انسان دوستی اور عیسائیت کی روایات کا دفاع کرنے میں شرمانا نہیں چاہیے‘‘۔ فوکویاما نے کہا ہے کہ: ’’یقینا ایک یورپی کلچر ہے اور یہ رواداری کے وسیع تر کلچر کا حصہ ہے لیکن یورپی کلچر مسلمانوں سے یہ کہے تو غیرمعقول نہ ہوگا کہ تمھیں اسے قبول کرنا ہوگا۔ یورپیوں کو اپنی سیاسی احتیاط پسندی کو ختم کرنا چاہیے اور جو کچھ ہو رہا ہے اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے‘‘۔

اھلِ یـورپ کو تشویش

مشہور مستشرق برنارڈ لیوس نے حال ہی میں بطور امرواقعہ یہ بیان کر کے یورپ میں بیش تر لوگوں کو ششدر کر دیا کہ اگر جلدی نہیں تو ۲۱ویں صدی کے اختتام تک یورپ مسلم اکثریتی علاقہ ہوگا۔ سوئٹزرلینڈ کی مفکر بیت یور اس پیش گوئی سے آگے بڑھ کر کہتی ہے کہ مسلمانوں کی آبادی کا بہائو یورپ کے: ’’ناراض نہ کرنے‘ دوسروں کو جگہ دینے اور اپنی ثقافت سے دست بردار ہونے کے ساتھ شامل ہو کر نئی روایات تشکیل دے گا جو آج کے یورپ سے کوئی مشابہت نہ رکھیں گی‘‘۔ وہ لکھتی ہے کہ یورپ اس نئی حقیقت کی طرف آگے بڑھ رہا ہے: ’’یہودی عیسائی تہذیب سے   ارتقا پاکر روشن خیالی اور سیکولر عناصر کے ساتھ یوربیہ(Eurabia)‘ یعنی ایک سیکولر مسلم تبدیل پذیر معاشرہ جس کی روایتی یہودی عیسائی اقدار تیزی سے مٹ رہی ہوں‘‘۔

مگر بہت سے دانش ور اس طرح کی آبادی کی اور ثقافتی تبدیلی کے تصورات کو غیرحقیقی سمجھتے ہیں۔ ایک اسکالر کا کہنا ہے کہ ’’مجھے یہ پیش گوئی بظاہر ہی ناممکن نظر آتی ہے۔ کیا ہم نے تاریخ میں کبھی ایسی مثال دیکھی ہے؟ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ میں نے ایسا کہیں نہیں دیکھاکہ کوئی آبادی ایک صدی میں ۵ فی صد سے ۵۰ فی صد ہوگئی ہو‘‘۔

اس طرح کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر یورپ میں بہت بڑے پیمانے پر آمد ہوئی تو ضروری نہیں کہ یہ سب یا بیش تر مسلم دنیا سے ہو۔ ایشیا اور افریقہ کے ان علاقوں سے بھی آئیں گے جو مسلم علاقے نہیں ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مسلمان ایک چھوٹی اقلیت رہیں گے۔ یقینا وہ ایک بڑی اقلیت بن جائیں گے لیکن رہیں گے اقلیت ہی۔ ایک اور اسکالر کا کہنا ہے کہ یورپ میں ایک بڑا اسلامی گروپ ہوگا جو زیادہ روادار‘ زیادہ دوسروں کے ساتھ چلنے والا اور غیر یورپی اسلام کے مقابلے میں کم روایتی ہوگا۔

مسلمان یورپ کے کلچر کو تباہ نہیں کریں گے‘ بلکہ اس کے ساتھ اپنی جگہ بنائیں گے جیسا کہ امریکی معاشرے میں ہوا۔ ایک نیا یورپی کلچر وجود میں آئے گا۔ اسلام اور مغرب دونوں کے درمیان سمجھوتا ہوگا اور دونوں کے بہترین پہلوئوں کو جذب کیا جائے گا‘ جیسا کہ تاریخ میں ماضی میں ہوا۔ لیکن کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ مسلمانوں میں علیحدگی پسندی‘ اسلامیت اور ملنے جلنے کی کمی مستقبل میں اشتراک کے لیے کوئی اچھی علامت نہیں ہے۔ مسلمان صرف سطحی طور پر ساتھ چل رہے ہیں۔ وہ خوداپنے کو اور یورپی بھی انھیں غیرسمجھتے ہیں۔ جب تک یہ صورت حال برقرار رہتی ہے‘ جب تک مسلمان اپنے کو جرمن‘ سویڈش یا فرانسیسی نہیں سمجھتے‘وہ غیر ہی رہیں گے۔

کچھ دوسروں کا خیال ہے کہ ساتھ مل کر نہ رہنے سے مسلسل علیحدگی کی بہ نسبت زیادہ خراب نتائج پیدا ہوسکتے ہیں۔ ایک عام احساس ہے کہ اجتماعی تصادم ناگزیر ہوتا جا رہا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ کئی برسوں سے یہ لاوا پک رہا ہے اور اب سطح تک آگیا ہے۔ وہ یورپی آوازیں جو کہتی ہیں کہ سب برابر ہیں مگر ہم مسلمانوں سے زیادہ برابر ہیں‘ زیادہ طاقت ور ہو رہی ہیں۔ لیکن کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ تصادم کی پیش گوئیاں ایک غلط بنیاد پر استوار ہیں‘ یعنی یہ کہ مسلمان بنیادی مغربی اقدار کو قبول کرنے کے قابل نہیں ہیں لیکن جمہوریت‘ رواداری اور دوسری اقدار جو یورپ کو عزیز ہیں‘  مسلم دنیا میں غیرمعروف نہیں ہیں۔ قرآن میں احتساب کا تصور موجود ہے۔ سرکاری ادارے عوام کے سامنے جواب دہ ہیں۔ یہی جمہوری اصولوں کی بنیاد ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عیسائیت بھی تو جمہوریت کے لیے کوئی سند نہیں دیتی لیکن عیسائی جمہوری نظام چلا رہے ہیں‘ اسی طرح مسلمان بھی چلائیں گے۔ یہ سمجھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ اسلام غیرجمہوری ہے۔ یورپ کے مسلمان اسلام کی وہ تعبیر اختیار کریں گے جس میں جمہوریت کی حمایت ہو۔

اچھا مستقبل دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ ملنے جلنے کا عمل اس وقت تک جاری رہے گا‘   جب تک یورپی عوام مسلمانوں کی انتہاپسند اقلیت کے خلاف اپنے جذبات کو عمومی مسلم آبادی کو  خوش آمدید کہنے میں رکاوٹ نہیں بنائیں گے۔