اپریل۲۰۰۵

فہرست مضامین

یورپ کے مسلمان مخالفتوں کے درمیان

محمدظہیرالدین بھٹی | اپریل۲۰۰۵ | اسلام اور مغرب

Responsive image Responsive image

جدید امریکی تاریخ میں اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ تعامل ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء سے ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے عنوان سے ہو رہا ہے۔ اسی طرح یورپ کی بنیاد پرست اور سیکولر قوتوں کے مراکز کی کوشش ہے کہ وہ ہالینڈ کے فلم ساز وان گوخھ کے ۲ نومبر ۲۰۰۴ء کے واقعۂ قتل کو گمراہ کن رنگ دیں اور اس دن سے مسلمانوں کے خلاف جدید یورپی تاریخ کا آغاز کریں۔

بہت سے یورپی ذرائع ابلاغ نے ہالینڈ کے اس فلم ساز کے سانحۂ قتل پر اپنا ردعمل  اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت کے جذبے کے اظہار سے کیا‘ مثلاً رسالہ دیرسپیجل نے اپنی ۱۵نومبر ۲۰۰۴ء کی اشاعت میں سرورق پر یہ جلی سرخی لگائی: ’’اللہ کی بے حقوق بیٹیاں___ جرمنی میں مسلمان خواتین‘‘۔ رسالے نے اسی موضوع پر ۱۵ صفحات کا مفصل مقالہ شائع کیا۔ہفت روزہ ڈی تسایت نے ۱۸ نومبر ۲۰۰۴ء کی اشاعت میں اپنے سات صفحے مسلمانوں کے خلاف سیاہ کیے۔ یورپی ذرائع ابلاغ کے نزدیک سب سے اہم سوال یہ رہا: ’’یورپ اپنی اقدار کو اسلامی خطرے سے کیسے بچا سکتا ہے؟‘‘ اور ’’کثیرتہذیبی معاشرے کا خواب کیسے شرمندئہ تعبیر ہوسکتا ہے؟‘‘۔  ان ذرائع نے ’’یورپی قوانین میں اسلامی شریعت کی مداخلت‘‘ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہ اشارہ ان بعض یورپی عدالتوں کی طرف تھا جنھوں نے اسکولوں میں مسلم بچوں کے حقوق کے سلسلے میں احکام جاری کیے۔ یورپی ذرائع ابلاغ نے یہ مطالبہ کیا کہ ’’یورپ کی مساجد میں نفرت پھیلانے والے‘‘ خطیبوں کو نکال دیا جائے۔ ’’مسلم خواتین پر ظلم و تشدد‘‘ بھی یورپی ذرائع ابلاغ کا مرغوب موضوع ہے۔ یورپی ذرائع ابلاغ کے اسلام دشمن اور مسلم مخالف موضوعات کی فہرست خاصی طویل ہے۔ اس میں شک نہیں کہ کچھ معتدل لوگوں نے بھی اظہارِ رائے کیا اور خبردار کیا کہ جلتی پر تیل ڈالنے کا نتیجہ کتنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ لہٰذا تحریر و تقریر میں ’’ہسٹیریا‘‘ سے بچا جائے۔ یہ معتدل نقطۂ نظر موجودہ حالات میں غیر مؤثر ہے۔

بہت سے یورپی لوگ اسلام کو اُسی پس منظر میں دیکھتے ہیں جس میں وہ مملکت اور کلیسا کے تصادم کی طویل تاریخ کو دیکھتے ہیں۔ یورپی نژاد باشندوں میں اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت‘ نیز یورپ میں مقیم مسلمانوں کی اسلامی اقدار سے وابستگی نے سیکولر یورپی قوتوں کو مشتعل کردیاہے‘ مثلاً کھیل اور پی ٹی کے پیریڈوںمیں مسلمان طالبات کا نیم عریاں لباس پہن کر شرکت کرنے سے انکار‘ اجتماعی مخلوط سیاحتی دورے میں شامل نہ ہونا وغیرہ۔ اس کے یورپی معاشرے پر مثبت اثرات بھی پڑتے ہیں اور کئی لوگ اسلام کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ مسلمان خاندان کی مضبوطی بھی اہلِ یورپ کے لیے باعث کشش ہے‘ اور وہ اسی وجہ سے اسلام قبول کرلیتے ہیں۔ یورپ میں شخصی آزادی بھی اپنے مغربی مفہوم ہی میں ہوتی ہے‘ مثلاً جنسی آزادی یا ہم جنسی کی آزادی وغیرہ۔ مسلم والدین چونکہ اپنے بچوں کو اس قسم کی مادر پدر آزادی سے روکتے ہیں‘ اس لیے انھیں ’’بنیاد پرست‘‘ قرار دے کر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی جبری تربیت کر کے انہیں بنیاد پرستی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ حالانکہ مطلق آزادی کا تصور دنیا میں کہیں بھی موجود نہیں۔ انفرادی و اجتماعی سلامتی کی خاطر سوسائٹی کو مطلق آزادی پر قدغنیں لگانا پڑتی ہیں۔ چنانچہ کسی کو مار ڈالنے اور کسی کی توہین کرنے کی آزادی پر پابندی عائد ہے۔ اسی طرح کی پابندیاں مسلم والدین اسلامی اقدار کے تحفظ کی خاطر اپنی اولاد پر لگاتے ہیں۔ مگر یورپی حکام اسلام اور مسلمانوں کی توہین کی آزادی پر پابندی نہیں لگاتے۔ مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ اس آزادی سے معاشرے میں افراتفری پھیلتی ہے اور مہذب شہریوں کی ایک بڑی تعداد کو جسمانی‘ ذہنی اور قلبی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

مقتول فلم ساز کی رسواے زمانہ فلم نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے تشخص کو مجروح کیا ہے۔ اسے قتل کرنے کا کام چند جذباتی اور حساس افراد کا ہے۔ ایسے چند افراد کے عمل کی بناپر یورپ کے تمام مسلمانوں کو موردِ الزام ٹھیرانا یقینا ناانصافی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسی فلم بنانے کی اجازت ہی کیوں دی گئی‘ نیز فلم بننے کے بعد اس کے اثرات کے تدارک کی کوشش کیوں نہیں کی گئی؟ ہالینڈ کے سیاست کار اور صحافی اپنے معاشرے کے انتشار اور کش مکش و تصادم (جس کی وجہ سے ہالینڈ کے معاشرے کو زبردست خطرے کا سامنا ہے) کا ذمہ دار مسلمانوں کو قرار دے کر‘ اور یوں مسلم اقلیت کو قربانی کا بکرا بنا کر اپنے آپ کو بری الذمہ ٹھیرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہالینڈ کے ان انتہاپسندوں میں سرفہرست گیریٹ چام (نائب وزیراعظم و وزیرخزانہ) ہے۔ اس کا تعلق دائیں بازو کی عوامی پارٹی سے ہے۔ اس شخص نے ۱۵ نومبر ۲۰۰۴ء کو ’’اسلامی بنیاد پرستوں‘‘ کے خلاف اعلانِ جنگ کرتے ہوئے کہا کہ انھیں مکمل طور پر کچل دیا جائے گا خواہ اس کے لیے کتنا ہی مالی خسارہ کیوں نہ برداشت کرنا پڑے۔ ہالینڈ کے اسی قماش کے کچھ لوگوں نے مطالبہ کیا ہے کہ مشتبہ مسلمانوں کو کسی عدالتی کارروائی اور دفتری ضوابط کے بغیر فوراً ہی ملک سے باہر نکال دینے کا قانون منظور کیا جائے۔ یاد رہے کہ فلم ساز کے سانحۂ قتل کے بعد ہالینڈ میں مسلمانوں پر منظم عوامی حملے ہوئے‘ ان کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا‘ ان کے اسکولوں کو مسمار اور مسجدوں کو نذرِ آتش کیا گیا۔ ہالینڈ کی وزارتِ داخلہ نے ملک کی ۲۵ مساجد کے خلاف سخت اقدامات کیے ہیں اور اس مہم کو ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف جنگ قرار دیا ہے۔ وزیرداخلہ جوہان ریمکس نے پارلیمنٹ میں بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ تمام مساجد کے خلاف بالعموم اور مسجد الفرقان اور مسجدالتوحید کے خلاف بالخصوص سخت کارروائی کا فیصلہ کرلیا گیا ہے‘ نیز ہالینڈ کی تمام مسجدوں کے اماموں کی فہرست بنائی گئی ہے۔

۱۹۹۷ء میں اخبارات و جرائد کے ذریعے ہالینڈ کے باشندوں (ہالینڈ نژاد عوام‘ عربوں اور مسلمانوں) سے ایک سوال دریافت کیا گیا تھا کہ کیایہاں نسلی تفریق (discrimination) پائی جاتی ہے؟ اکثریت نے اس پر اپنی یہ رائے ظاہر کی کہ نسلی تفریق تو ہے مگر پوشیدہ ہے‘ ظاہر نہیں ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہالینڈ اور دیگر یورپی ممالک میں مسلمانوں سے نفرت و عداوت اور نسلی تفریق اب ڈھکی چھپی نہیں رہی بلکہ کھل کر سامنے آگئی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف معاندانہ کارروائیوں کے بعد اب امریکا کی طرح یورپ میں بھی مسلمانوں کی نگرانی کی جارہی ہے۔ گویا مسلمانوں کے خلاف اقدام کسی حادثے کا منتظر تھا۔

اب یورپ کی مسلم دشمنی پر مبنی اقدامات کے چند گوشے ملاحظہ فرمائیے:

  • ائمہ مساجد کے خلاف رویہ: بہت سے یورپی ممالک سے ائمہ مساجد اور خطبا کو نکالنے کے لیے قانون سازی ہو رہی ہے۔ نشانہ زیادہ تر عرب علما و خطبا ہیں اوربالخصوص جامعہ ازہر کے فاضلین پر الزام یہ ہے کہ ان ائمہ و خطبا کے انتہاپسند جماعتوں سے تعلقات ہیں‘ نیز یہ اپنے مقتدیوں اور سامعین کو تشدد پر اُبھارتے ہیں۔ متعدد یورپی ممالک نے عرب اور مسلم خطبا کو باہر سے نہ آنے دینے کی منصوبہ بندی کرلی ہے‘ بلکہ مسلمانانِ یورپ کو اس امر کا پابند کر دیا ہے کہ وہ اپنے اماموں اور داعیوں کی پہلے یورپی یونی ورسٹیوں میں تربیت کا اہتمام کریں اور اس کے بعد انھیں اپنی دینی سرپرستی کے لیے متعین کریں۔ ہالینڈ کے مسلمانوں کو تو چار سال کی مہلت دی گئی ہے کہ وہ اس دوران اپنے اماموں کو یونی ورسٹیوں سے تربیت دلوائیں۔ اس کے بعد کسی عرب امام و خطیب کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ عرب خطیبوں کو دہشت گردی سے مربوط قرار دے کر ملک سے نکالنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ چنانچہ ۱۷ نومبر ۲۰۰۴ء کو ہالینڈ کی وزارتِ تارکین وطن نے الجزائر کے باشندے عبدالحمید یوشیما کو ملک سے نکال دیا۔ ان پر الزام تھا کہ وہ مسلمانوں کو تشدد پر اُکساتے ہیں۔ اس وزارت نے کہا ہے کہ آیندہ سے امام و خطیب کے مذہب کے لیے ویزا حاصل کرنے پر سخت شرائط عائد کر دی گئی ہیں۔
  • مساجد‘ مدارس اور مسلم تنظیموں کی نگرانی: کئی یورپی ممالک نے اپنی سیکورٹی فورسز اور خفیہ ایجنسیوں کو حکم دیا ہے کہ وہ مسلم اقلیت پر کڑی نظر رکھیں‘ مسجدوں کی سرگرمیوں پر نگاہ رکھیں اور مساجد میں دیے جانے والے دروس‘ تقاریر اور خطبات جمعہ کی نگرانی کریں۔ اسلامی مدارس کے نصاب کا بھی باریک بینی سے جائزہ لیا جا رہا ہے‘ نیز اسلامی خیراتی و رفاہی تنظیموں اور مسلمانوں کے مالی منصوبے بھی حکومت کے احتساب کا شکار ہیں۔
  • جرمنی: جرمنی میں بھی مسلم ائمہ مساجد کے لیے پابندیوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ جرمن زبان کے سوا باقی زبانوں میں مسجدوں میں تقریر کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ جرمن حکومت نے ’’بنیاد پرست مسلمانوں‘‘ کے خلاف وسیع اقدامات کا اعلان کیا ہے۔   حکومت خود ائمہ مساجد تیار کرے گی‘ نیز انتہاپسند ائمہ کو سزا دی جائے گی۔ میری لویز بیک (جرمن امورِ تارکین وطن کی ذمہ دار) نے کہا ہے کہ تارکینِ وطن سے متعلق ایک نئی جامع پالیسی تیار کرلی گئی ہے جو ۲۰ شقوں پر مشتمل ہے۔ اس کے تین اہداف ہیں:

۱- جرمن مسلمانوں میں موجود بنیاد پرستی کی تحریک اور فکر کا سختی سے محاسبہ‘ ۲- ملک کی اسلامی تنظیموں سے مسلسل مکالمہ‘ ۳- قانونِ مذاہب کے تحت جرمنی میں اسلام کو سیاسی طور پر تسلیم کرنا۔

برلن میں ۲۳ نومبر ۲۰۰۴ء کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے میری لویز نے مسلمانوں کے خلاف اس پالیسی کی بعض شقوں کو واضح کیا۔ یاد رہے کہ یہ پالیسی ۳۰ لاکھ سے زائد مسلمانوں کے خلاف ہے۔ بتایا گیا کہ جرمن کے متعین مراکز میں ائمہ مساجد کو تربیت دی جائے گی۔ جرمنی آنے والے تمام ائمہ مساجد کو جرمن زبان اور ثقافت سے کافی حد تک روشناس کرایا جائے گا۔ انھیں جرمن ثقافت کے کورس کرنا ہوں گے۔ جرمنی کی تمام مسجدوں میں خطباتِ جمعہ اور دروس کو ریکارڈ کیا جائے گا اور ان مساجد کی رجسٹریشن کی جائے گی تاکہ نگرانی میں آسانی رہے۔ ۲۰۰۵ء سے جرمنی میں آنے والے تمام نئے تارکینِ وطن کے لیے جرمن زبان سیکھنا لازمی ہوگا۔

جرمنی کی دونوں مسیحی پارٹیوں نے تین ہزار شدت پسند مسلمانوں کے اخراج کا مطالبہ کر دیا ہے۔ جرمنی کی سب سے بڑی حزبِ اختلاف نے مطالبہ کیا ہے کہ جرمنی میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو ملک سے نکال باہر کیا جائے کیوں کہ ان میں تشدد کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ جرمن حزبِ اختلاف کی ان دو بڑی مسیحی پارٹیوں (ڈیموکریٹک کرسچین پارٹی اور سوشل کرسچین پارٹی) کا یہ مطالبہ ملک کی انٹیلی جنس کی اس رپورٹ کے بعد ہوا ہے کہ جرمنی میں مقیم مسلمانوں کی تشدد کی طرف مائل تعداد ۳ ہزار ہے۔ اس رپورٹ نے جرمن مسلمانوں کو پریشان کر دیا ہے‘ کیوں کہ اس میں ۳ ہزار سے مراد وہ مسلمان ہیں جو مسجدوں میں باجماعت نمازیں ادا کرتے ہیں اور دینی امور میں شرکت کرتے ہیں۔ ان دونوں مسیحی پارٹیوں کے پارلیمانی اتحاد کے نائب صدر وولف جانچ نے جرمن پارلیمنٹ کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے کہا ہے: ’’ہمارا فرض ہے کہ ہم ان لوگوں سے آج ہی جان چھڑا لیں‘‘۔ اُدھر جرمن صدر ہورسٹ کولر نے گوئٹجن یونی ورسٹی کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے: ’’عیسائیت اور مسیحی اقدار یورپی تشخص کے اجزاے ترکیبی ہیں۔ روشن خیالی‘ حقوقِ انسانی اور آزادی نسواں کی تحریکیں بھی ہمارے تشخص کی علامات ہیں۔ ہم اس تشخص کو نقصان پہنچانے کی کسی کوشش کو برداشت نہیں کریں گے اور اسے سختی سے کچل دیں گے‘‘۔

اُدھر جرمن کابینہ نے وزیرداخلہ کی یہ تجویز منظورکرلی ہے کہ جرمنی میں قیام کے متمنی ہر شخص کو ’’جذب ہونے کے کورسز‘‘ کرنا ہوں گے۔ جرمنی میں نوواردوں کو اب جرمن زبان ۶۰۰گھنٹے میں سیکھنا ہوگی‘ جب کہ ۳۰ مزید گھنٹوں پر مشتمل جرمن تاریخ‘ ثقافت اور قانون کے مبادیات کے کورس پاس کرنا ہوں گے۔

یاد رہے کہ ہالینڈ کے فلم ساز تھیووان گوخھ کے نومبر ۲۰۰۴ء کے اوائل میں سانحۂ قتل اور وہاں پر مساجد اور اسلامی مدارس پر ہونے والے حملوں نے جرمن راے عامہ کو متاثر کیا ہے۔ چنانچہ جرمنی میں مستقل رہنے والے ۳۰ ہزار سے زائد مسلمانوں نے (جن کی اکثریت ترک ہے) مذہب کے نام پر تشدد اور امتیازی رویے کے خلاف احتجاج کیا ہے۔

  • سوئٹزرلینڈ: اقلیتوں کے ساتھ رواداری اور غیر جانب داری کی شہرت رکھنے والے اس ملک کی صورتِ حال بھی انتہائی ڈرامائی ہوچکی ہے۔ یہاں کی یونی ورسٹیوں میں ائمہ مساجد کے لیے تعلیمی شاخیں کھول دی گئی ہیں تاکہ ان ائمہ کو سوئٹزرلینڈ کی مغربی تہذیب اور غیرملکی زبانیں سکھلائی جائیں۔ وہاں یہ خطرہ بھی زیرِبحث ہے کہ اگر مسلم اقلیت کی تعداد میں اضافے کی یہی رفتار جاری رہی تو مسلمان مستقبل میں اکثریت اختیار کرلیں گے۔ سوئٹزرلینڈ کی بڑی مسیحی تنظیمیں کافی عرصے سے اس امر کا مطالبہ کر رہی تھیں کہ ائمہ کی تیاری کا سرکاری ادارہ قائم کیا جائے جس کی نگرانی ملک کے محکمۂ تعلیم کے اعلیٰ افسر کریں تاکہ ائمہ مساجد کو ’’مغربی لبرل زندگی کے ساتھ تعامل‘‘ کے قابل بنایا جاسکے۔ اس مطالبے کا اصل مقصد ’’اسلام کو یورپی قالب میں ڈھالنا‘‘ ہے۔ یہاں کے تارکینِ وطن کے وفاقی محکمے کے ترجمان نے کہا ہے کہ تمام تارکینِ وطن کے لیے یہاں کی ثقافت و زبان کی تعلیم جبری ہوگی بالخصوص ائمہ مساجد کے لیے تو یہ انتہائی ناگزیر ہے۔ اس لیے کہ یہ ائمہ حضرات ہی مسلمانوں پر چھائے ہوئے ہیں۔ ان اماموں کو مسجدوں میں صرف قرآن ہی کے بارے میں گفتگو نہیں کرنا چاہیے بلکہ سوئٹزرلینڈ کے معاشرے کی متفقہ قدروں کے بارے میں بھی اپنے سامعین کو بتانا چاہیے‘جیسے مساواتِ مردو زن وغیرہ۔

سوئٹزرلینڈ کے وزیرِاطلاعات و نشریات نے اپنے ملک کے جرمن زبان کے ٹیلی وژن کے ذریعے بتایا ہے کہ ملک میں ائمہ مساجد کی تعلیم و تربیت کے اداروں کے قیام سے تشدد کے پرچار کی روک تھام ہوسکے گی۔ اس کے برعکس دائیں بازو کی متشدد پیپلز پارٹی کے سربراہ اولی ماؤز نے اس خیال کی مخالفت کی ہے۔ اخبار NZZ میں شائع ہونے والے بیان میں انھوں نے کہا: ’’سوئٹزرلینڈ ایک مسیحی ملک ہے۔ اسلام کے بارے میں یہاںکسی تدریسی اکیڈمی کے قیام کی کوئی گنجایش نہیں ہے‘‘۔

  • فرانس: فرانس کی وزارتِ داخلہ نے مارچ ۲۰۰۴ء میں ہی ’’ماہرین کی کمیٹی‘‘ قائم کر دی تھی جس کا کام ’’ادارہ براے تربیت ائمہ مساجد‘‘ کے لیے منصوبہ بندی کرنا ہے۔ فرانسیسی حکام کے نزدیک اس ادارے کا قیام ضروری ہے کیونکہ فرانس میں تقریباً ۱۵۰۰ ائمہ مساجد ہیں۔ ان کی مسلسل تربیت کے نتیجے میں یہ حضرات اس قابل ہوسکیں گے کہ فرانسیسی ماحول کے قریب تر ’فرانسیسی اسلام‘ اپنے سامعین تک پہنچا سکیں۔ فرانسیسی وزیرِداخلہ نے کہا ہے کہ ماہرین کی کمیٹی کا تعین مملکت کی طرف سے ہوا ہے‘ تاہم وزارتِ داخلہ ان ارکان کی نگرانی کرے گی۔ فرانس کی اسلامی تنظیموں کے اتحاد نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ عام طور پر فرانسیسی حکومت مذہبی امور میں مداخلت نہیں کرتی مگر اب وہ مذہبی امور میں براہِ راست مداخلت کر رہی ہے۔ خدشہ یہ ہے کہ حکومت فرانس ان اداروں کے ذریعے اپنی گرفت مضبوط بنائے گی۔ اس اتحاد نے مطالبہ کیا ہے کہ تربیت ائمہ کے اداروں کے قیام کے لیے ایک مستقل غیرجانب دار کمیٹی تشکیل دی جائے جس کے ارکان کا تعین اسلام کی فرانسیسی کونسل سے کیا جائے۔

فرانس میں ائمہ مساجد کے خلاف گھیرا تنگ کیے جانے کی نمایاں مثال امام یاسر علی ہے جو پیرس کے مضافات میں ارجونٹائے کی مسجدالسلام کے امام تھے۔ ان کے خلاف یہ الزام لگا کر کہ وہ اپنی رہایش گاہ پر انتظامی نگرانی کے عدالتی فیصلے کا احترام نہیں کرتے‘ گرفتار کرلیا گیا۔ ان پر یہ الزام بھی تھا کہ ان کے خطبات ’’قدامت پسندانہ انتہا پسندی‘‘ کے حامل ہوتے ہیں۔

  • اسپین‘ اٹلی اور ڈنمارک: یورپ کے ان تینوں ممالک میں بھی ایسی ہی صورت حال ہے۔ خوسیہ ثاباتیرو کی سربراہی میں اسپین کی سوشلسٹ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ اسپین کے مسلمانوں کی نمایندگی کے لیے ایک منتخب اسلامی کونسل تشکیل دی جائے گی جس کا مقصد ’’متشدد ائمہ مساجد‘‘ کے اثر و نفوذ کی روک تھام ہوگا۔

ڈنمارک نے تارکینِ وطن کے خلاف سخت پالیسی اپنائی ہے جس کا خصوصی ہدف ملک میں ائمہ مساجد کی آمد کو روکنا ہے۔ اٹلی کے حکام نے ایک جزائری معلّم کو ملک سے نکال دیا ہے۔ اس پر ’’دہشت گرد‘‘ جماعت سے تعلق کا الزام لگایا گیا‘ جب کہ اصل بات یہ ہے کہ اس نے حماس کے قائد الشیخ احمد یاسین شہیدؒ کی غائبانہ نمازِ جنازہ روم کی ایک مسجد میں پڑھائی تھی۔

یورپ میں مسلم علما‘ خطبا اور اماموں کے ساتھ یہ کچھ مسیحی حکام کر رہے ہیں تو عرب اور مسلم ممالک میں مسلمان حکمرانوں کے اشاروں پر کئی ائمہ مساجد اور خطبا کو بھی ان کے مناصب سے جدا کر دیا گیا ہے۔

  • یھودی لابی کا کردار: مغرب اور مسلمانوں کے حالات پر نظر رکھنے والے اصحابِ بصیرت کا خیال ہے کہ یہودی لابی نے موجودہ حالات کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کے لیے اسلام اور مغرب کے مابین ایک آہنی دیوار تعمیر کر دی ہے۔ مغرب میں بسنے والے مسلمان اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ یہودی لابی کے پروپیگنڈے کا جواب دے سکیں۔ مسلمانوں اور اسلام کے خلاف ہونے والی اس یورش میں اپنی صفائی پیش کر سکیں‘ جب کہ صہیونی لابی اور دائیں بازو کی مغربی جماعتیں مسلمانوں کے خلاف مکمل جانب داری کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ بہت سے سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ابھی تو ابتدا ہے آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟

مسلمانوں اور مغرب کے مابین یہ کش مکش انتہائی خطرناک صورت اختیار کرنے والی ہے۔ اس صورتِ حال نے بہت سے مسلمانوں کو شکستہ خاطر اور مایوس کر دیا ہے کیوں کہ عرب اور مسلم ممالک کے حکمرانوں کی اکثریت امریکا کی خوشنودی اور یورپی حکمرانوں کے ساتھ تعاون میں تو پیش پیش ہے مگر وہ امریکی اور یورپی حکمرانوں پر مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے اثرانداز ہونے سے قاصر ہیں۔ یہ بزدل حکمران اپنے مغربی سرپرستوں اور آقائوں سے یہ کہنے کے بھی روادار نہیں کہ وہ مغرب میں بسنے والے مسلمانوں کے جذبات و احساسات کا خیال رکھیں‘ نہ مسلم حکمران ہی مسلمانوں کے خلاف مغربی پروپیگنڈے مہم کو رکوانے کے لیے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان کا سارا زور اپنے ہی عوام کو دبانے پر چلتا ہے۔

اُدھر بعض مغربی قلم کار اسے ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ قرار دے کر مغرب کی ایک غلطی کا ازالہ ایک دوسری غلطی سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ درپردہ مغربی زیادتیوں کو اس کش مکش کا قدرتی مظہر قرار دے کر انھیں حق بجانب ٹھیرا رہے ہیں۔

اس تصادم کے پس پردہ صہیونی لابی سرگرمِ عمل ہے۔ ایک سرکردہ صہیونی لیڈر نے کہا ہے کہ ہم مسلمانوں اور عیسائیوں کو باہم لڑا کر خود ایک طرف ہو جائیں گے اور یوں سرخ رو ہوکر دنیا کی قیادت کے لیے تازہ دم ہو جائیں گے۔ (تلخیص المجتمع‘ شمارہ ۱۶۳۱‘ ۱۸ دسمبر ۲۰۰۴ئ)