اپریل۲۰۰۵

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| اپریل۲۰۰۵ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

خواتین اور اسمبلیاں

سوال : آج کل اخبارات و رسائل میں دینی جماعتوں سے وابستہ اور ذمہ دار خواتین کی جو تصاویر شائع ہو رہی ہیں اُن میں پردے کی کیفیت غیرشرعی ہے۔ دونوں آنکھیں کھلی ہیں‘ جب کہ قرآن حکیم کے مطابق عورت کے لیے لازم ہے کہ وہ جب گھر سے باہر نکلے تو چہرے پر نقاب ڈالے تاکہ پہچانی نہ جائے۔ جہاں تک آنکھیں کھولنے کی اجازت ہے وہ صرف ایک آنکھ کھول کر پورے چہرے کو ڈھانپنا ہے۔ یہ بھی‘ بہ امر مجبوری ہے‘ نہ کہ عام حالات میں۔ عورت کی آواز کا بھی پردہ ہے۔ لیکن وہاں پر اسلامی تشخص کی حامل خواتین مردوں سے بھی خطاب کرتی ہیں۔ کیا یہ اصولوں سے انحراف اور مغرب کی تقلید نہیں ہے؟

جواب: یہ بات کہنا کہ اصول کی خلاف ورزی ہو رہی ہے‘ صحیح نہیں ہے بلکہ اصول کے عین مطابق عمل ہو رہا ہے۔ عام حالات اور مخصوص حالات میں فرق خود اصول کے اندر موجود ہے۔ دین کے لیے آواز اٹھانا اصول کا حصہ ہے۔ اھون البلیتین بھی اصول کا حصہ ہے۔ اصول کے تمام اجزا کو پیش نظر رکھا جائے تو کوئی اشکال پیدا نہیں ہوگا۔

’’آواز‘‘ کا پردہ ایسی نوعیت نہیں رکھتا کہ کلمۂ حق کہنے میں رکاوٹ بن جائے۔ اقامت دین‘ تعلیم و تبلیغ‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر مردوں کی طرح خواتین پر بھی فرض ہے۔ حسب ضرورت ہر ایک کو اس میدان میں کام کرنا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِط (اٰل عمران ۳:۲۱۱۰) اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو‘ بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ط وُاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o (اٰل عمران۳:۱۰۴) تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں‘ بھلائی کا حکم دیں‘اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریںگے وہی فلاح پائیں گے۔

اس حکم میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی شامل ہے۔ اس حکم کی تعمیل کے لیے تقریر و تحریر کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ اسی طرح روز مرہ کے معاملات‘ سوالات و جوابات کے سلسلے میں بھی گفتگو کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس ضرورت کو پورا کیا گیا ہے اور کبھی بھی پردہ اور اس کی مختلف شکلوں کو اس راہ میں رکاوٹ نہیں بنایا گیا۔ ازواجِ مطہرات نزولِ حجاب کے بعد بھی پس پردہ غیرمحارم سے بات کرتی تھیں‘ سوالات کے جواب دیتی تھیں۔ حضرت عائشہؓ، حضرت ام سلمہؓ، اور دیگر ازواج مطہرات سے مروی احادیث کتبِ احادیث میں مذکور ہیں۔ ان کی راوی صرف خواتین نہیں بلکہ مرد بھی ہیں۔ مردوں نے بھی ازواج مطہرات سے علم حدیث حاصل کیا اور اسے آگے بیان کیا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اختلافات کے مواقع پر ان کا علمی اور عملی کردار تاریخ کا حصہ ہے۔ صحیح بخاری کی ایک راویہ کریمہ بنت احمد بھی ہیں۔

مولانا مودودیؒ نے پردے کے احکام اور اس میں نرمی کی صورتوں پر تفصیل سے گفتگو کی ہے اور واضح کیا ہے کہ بوقت ضرورت‘ بقدر ضرورت نرمی کی جا سکتی ہے۔ فرماتے ہیں: ’’حدود و حجاب کی سختی آپ نے دیکھ لی۔ اب دیکھیے کہ ان میں نرمی کہاں اور کس ضرورت سے کی گئی ہے‘‘۔

مسلمان جنگ میں مبتلا ہوتے ہیں۔ عام مصیبت کا وقت ہے۔ حالات مطالبہ کرتے ہیں کہ قوم کی پوری اجتماعی قوت دفاع میں صرف کر دی جائے۔ ایسی حالت میں اسلام قوم کی خواتین کو عام اجازت دیتا ہے کہ وہ جنگی خدمات میں حصہ لیں۔ مگر اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی اس کے پیش نظر ہے کہ جو ماں بننے کے لیے بنائی گئی ہے وہ سر کاٹنے اور خون بہانے کے لیے نہیں بنائی گئی۔ اس کے ہاتھ میں تیروخنجر دینا اس کی فطرت کو مسخ کرنا ہے۔ اس لیے وہ عورتوں کو اپنی جان اور آبرو کی حفاظت کے لیے تو ہتھیار اٹھانے کی اجازت دیتا ہے مگر بالعموم عورتوں سے مصافی [جنگی]خدمات لینا اور انھیں فوجوں میں بھرتی کرنا اس کی پالیسی سے خارج ہے۔ وہ جنگ میں ان سے صرف یہ خدمت لیتا ہے کہ زخمیوں کی مرہم پٹی کریں‘ پیاسوں کو پانی پلائیں‘ سپاہیوں کے لیے کھانا پکائیں اور مجاہدین کے پیچھے کیمپ کی حفاظت کریں۔ ان کاموں کے لیے پردے کی حدود انتہائی کم کر دی گئی ہیں‘ بلکہ ان خدمات کے لیے تھوڑی ترمیم کے ساتھ وہی لباس پہننا شرعاً جائز ہے جو آج کل عیسائی ننیں پہنتی ہیں۔

تمام احادیث سے ثابت ہے کہ جنگ میں ازواج مطہرات اور خواتین اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جاتیں اور مجاہدین کو پانی پلانے اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے کی خدمات انجام دیتی تھیں۔ یہ طریقہ احکامِ حجاب نازل ہونے کے بعد بھی جاری رہا ہے۔ (بخاری‘ باب حمل الرجل المراۃ فی الغزو)

ترمذی میں ہے کہ اُم سلیمؓ اور انصار کی چند دوسری خواتین اکثر لڑائیوں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئی ہیں۔ (ترمذی‘ باب ماجاء فی خروج النساء فی الغزو)

بخاری میں ہے کہ ایک عورت نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: میرے لیے دعا فرمایئے کہ میں بھی بحری جنگ میں جانے والوں کے ساتھ رہوں۔

آپؐ نے فرمایا: اللھم اجعلھا منھم (بخاری‘ باب غزوۃ المراۃ فی البحر)

جنگِ احد کے موقع پر جب مجاہدین اسلام کے پائوں اکھڑ گئے تھے۔ حضرت عائشہؓ اور حضرت ام سلیمؓ اپنی پیٹھ پر پانی کے مشکیزے لاد لاد کر لاتی تھیں اور لڑنے والوں کو پانی پلاتی تھیں۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ اس حال میں‘ مَیں نے ان کو پائنچے اٹھائے دوڑ دوڑ کر آتے جاتے دیکھا۔ ان کی پنڈلیوں کا نچلا حصہ کھلا ہوا تھا۔ (بخاری‘ باب  غزوۃ النساء وقتالھن مع الرجال۔ مسلم‘ باب غزوۃ النساء مع الرجال‘ ج۲‘ ص ۷۶)

ایک دوسری خاتون اُم سلیط کے متعلق حضرت عمرؓ نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول نقل کیا ہے کہ: جنگ اُحد میں دائیں اور بائیں جدھر میں دیکھتا‘ اُم سلیط میری حفاظت کے لیے جان لڑاتی ہوئی نظر آتی تھی [ہنگامی حالت میں خواتین نے تلوار بھی ہاتھ میں اٹھائی ہے اور نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے]۔

اسی جنگ میں ربیع بنت معوذ اور ان کے ساتھ خواتین کی ایک جماعت زخمیوں کی مرہم پٹی میں مشغول تھی اور یہی عورتیں مجروحین کو اٹھا اٹھا کر مدینے لے جا رہی تھیں۔ (بخاری‘ باب مداوات النسائ‘ الجرحی فی الغزو)

جنگِ حنین میں اُم سلیمؓ ایک خنجر ہاتھ میں لیے پھر رہی تھیں۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کس لیے ہے؟ کہنے لگیں کہ اگر کوئی مشرک میرے قریب آیا تو اس کا پیٹ پھاڑ دوں گی۔ (مسلم‘ باب غزوۃ النساء مع الرجال)

اُم عطیہ سات لڑائیوں میں شریک ہوئیں۔ کیمپ کی حفاظت‘ سپاہیوں کے لیے کھانا پکانا‘ زخمیوں اور بیماروں کی تیمارداری کرنا ان کے سپرد تھا۔ (ابن ماجہ‘ باب العید والنساء یشہدون مع المسلمین)

حضرت ابن عباسؓ کا بیان ہے کہ جو خواتین اس قسم کی جنگی خدمات انجام دیتی تھیں ان کو اموالِ غنیمت میں سے انعام دیا جاتا تھا۔ (مسلم‘ باب النساء الغازیات یرضح لھن)

اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اسلامی پردہ کی نوعیت کسی جاہلی رسم کی سی نہیں ہے جس میں مصالح اور ضرورت کے لحاظ سے کمی بیشی نہ ہوسکتی ہو۔ جہاں حقیقی ضروریات پیش آجائیں وہاں اس کے حدود کم بھی ہوسکتے ہیں‘ نہ صرف چہرہ اور ہاتھ کھولے جاسکتے ہیں‘ بلکہ جن اعضا کو ستر عورت میں داخل کیا گیا ہے ان کے بھی بعض حصے اگر حسبِ ضرورت کھل جائیں تو مضائقہ نہیں‘ لیکن جب ضرورت رفع ہو جائے تو حجاب کو پھر انھی حدود پر قائم ہوجانا چاہیے جو عام حالات کے لیے مقرر کیے گئے ہیں۔ جس طرح یہ پردہ جاہلی پردہ نہیں ہے‘ اسی طرح اس کی تخفیف بھی جاہلی آزادی کے مانند نہیں۔ مسلمان عورت کا حال یورپین عورت کی طرح نہیں ہے کہ جب ضروریات جنگ کے لیے اپنی حدود سے باہر نکلی ‘تو اس نے جنگ ختم ہونے کے بعد اپنی حدود میں واپس جانے سے انکار کر دیا‘‘۔ (پردہ‘ ص ۲۹۱-۲۹۴)

موجودہ حالات میں‘ پارلیمنٹ میں خواتین شوق سے نہیں مجبوراً آئی ہیں اور ایسے حالات میں آئی ہیں کہ آئے بغیرہ چارہ نہ تھا۔ دینی جماعتوں کے حلقوں سے تقویٰ اور دین داری کے زیور سے مزین مسلمان بہنیں بڑی تعداد میں رکنیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔ جن حالات میں یہ پارلیمنٹ میں پہنچی ہیں‘ ان میں کوئی بھی عالم دین اس کی مخالفت نہیں کرسکتا۔ کوئی بھی عالم دین ایسی صورت میں پارلیمنٹ کو سیکولر خواتین کے لیے کھلا چھوڑ دینے کی رائے نہیں دے سکتا۔ دینی حلقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین نے پارلیمنٹ میں پہنچ کر نفل نہیں بلکہ اپنا فرض ادا کیا ہے اور حکمران گروہ کے سیکولر ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے کی راہ میں حتی المقدور رکاوٹ ڈال دی ہے۔

باصلاحیت اور دین دار خواتین کا پارلیمنٹ میں آجانا سیکولر اور مغرب پرست اہل حل وعقد کے عزائم کی راہ میں ایک بڑی بامعنی رکاوٹ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں ان خواتین کی رکنیت موجب شکرگزاری ہے جن کی بدولت علما اور مرد ارکان پارلیمنٹ مطمئن ہیں کہ انھیں آزاد خیال اور مغرب زدہ خو اتین کو جواب دینے کے لیے زحمت نہیںاٹھانی پڑتی۔ کیونکہ یہ خواتین علمی اور عملی‘ ہر سطح پر ان عناصر کو جواب دینے کے لیے کافی اور شافی ہیں۔

جہاں تک پردے کا تعلق ہے تو اس میں بے شک احتیاط کرنا چاہیے‘ لیکن دینی ضرورت کے لیے جب باہر نکلنے کی اجازت ہے تو اپنے تحفظ کے لیے مجبوری کی صورت میں ایک آنکھ کی جگہ دو آنکھیں بھی کھولی جاسکتی ہیں۔ ایک آنکھ کھولنے کی اجازت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بوقت ضرورت دوسری آنکھ کھولنے کی اجازت نہیں ہے۔ جہاں تک زینت کے ظاہر ہونے کا تعلق ہے تو جو زینت مجبوراً ظاہر ہو وہ  الا ما ظھرمنھا میں شامل ہے۔ اس میں برقع اور آنکھیں وغیرہ سب شامل ہیں۔

جب تک موجودہ سسٹم موجود ہے اس میں دینی خواتین کی تعداد اتنی زیادہ ہونی چاہیے‘ کہ سیکولر خواتین کا راستہ بند ہوجائے۔ اسے اھون البلیتین کہا جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا: جب تم دو مصیبتوں سے دوچار ہوجائو تو پھر ان میں سے اس صورت کو اختیار کرو‘ جس میں مصیبت کم ہو۔

اس لیے موجودہ حالات میں اسلامی اور دینی جذبے سے سرشار خواتین شوقیہ نہیں بلکہ اھون البلیتین کے اصول کے تحت اسمبلیوں میں گئی ہیں۔ اگر نہ جاتیں تو پھر ان کی نشستیں    مادر پدر آزاد مغرب زدہ خواتین حاصل کرلیتیں‘ جو ملت اسلامیہ کے لیے بہت بڑا حادثہ ہوتا۔

الحمدللہ اس وقت دینی جماعتوں سے وابستہ خواتین حدود و حجاب کی پوری پابندی کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر دعوتی خدمات سرانجام دے رہی ہیں‘ جو قابلِ قدر اور خراجِ تحسین کے لائق ہے۔ دینی ضرورت اور وقت کے تقاضے کے پیشِ نظر وہ پارلیمنٹ میں بھی گئی ہیں‘ مختلف ’’دینی ایشوز‘‘ کی خاطر جلسے‘ جلوس اور احتجاجی ریلیاں نکالتی ہیں‘ خدمت خلق کے کاموں میں حصہ لیتی ہیں لیکن ان تمام حالتوں میں پردے کی پابندی کرتی ہیں‘ جان کی حفاظت اور ٹکرائو سے بچنے کے لیے حسب ضرورت پردے کے احکام میں نرمی سے فائدہ بھی اٹھاتی ہیں لیکن بہت کم‘ صرف اتنا کہ ایک آنکھ کے بجاے دونوں آنکھیں کھلی ہوں۔ ان خواتین نے دنیا کے سامنے یہ نمونہ پیش کر دیا ہے کہ عورت کس طرح شرعی آداب اور پردے کی پابندی کرتے ہوئے اقامتِ دین کی جدوجہد میں حصہ لے سکتی ہے۔ زمانۂ حاضر اور مستقبل کے لیے ایک روشن مثال قائم کردی گئی ہے جس کو پیشِ نظر رکھ کر ان شاء اللہ ’’خاتون‘‘ پہلے کی طرح آج کے دور میں بھی دعوتِ دین اور اقامتِ دین میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکے گی۔(مولانا عبدالمالک)