حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اس وقت تک اپنے رب کی طرف سے ہدایت کے روشن راستے پر رہوگے جب تک تم پر دو چیزوں: جہالت اور دنیوی عیش و عشرت کی محبت کا نشہ غالب نہ ہوجائے۔ اس کے ساتھ تم بھلائی کا حکم کرو اور برائی سے روکو اور اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے جہاد کرو۔ لیکن جب تم پر دنیا کی محبت غالب ہوجائے تو تم بھلائی کا حکم نہیں کرو گے اور برائی سے نہیں روکو گے‘ اور اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے جہاد بھی نہیں کرو گے۔ ایسے دور میں کتاب و سنت پر قائم رہنے والے ان مہاجرین اور انصار کی مانند ہوں گے جو سابقین الاولین میں شامل تھے۔ (مجمع الزوائد‘ بحوالہ مسند بزار)
دین سے جہالت اور عیش و عشرت کی محبت ایک نشہ ہے جو آدمی کو ایمان کے تقاضوں سے اسی طرح غافل کردیتا ہے جس طرح نشے میں مدہوش انسان اپنے نفع و نقصان سے غافل ہوتا ہے۔ آج کے دور میں مسلمانوں کا ایک بڑا اور مؤثر طبقہ جہالت اور عیش و عشرت کے نشے میں مست ہے۔ وہ ہر چیز سے غافل اور ہر برائی میں مبتلا ہے۔ اللہ کا دین ان کے ہاتھوں معطل ہے۔ وہ بھلائی کو بھلائی اور برائی کو برائی سمجھنے کے بجاے بھلائی کو برائی اور برائی کو بھلائی سمجھتے ہیں۔ بھلائی ان کے نزدیک انتہاپسندی ہے اور برائی روشن خیالی اور اعتدال پسندی۔ اسلامی شعائر: پردے‘ داڑھی کی تبلیغ سے انھیں کراہت ہے اور بسنت میلہ‘ میراتھن ریس‘ جشنِ بہاراں‘ جس سے بیسیوں انسانوں کی جانیں بھی ضائع ہوجاتی ہیں‘ اس سے انھیں لطف اور سکون حاصل ہوتا ہے۔ بھلائیوں کا حکم کرنا اور برائیوں سے روکنا‘ جہاد فی سبیل اللہ کو جاری رکھنے کا وہ تصور بھی نہیں کرتے اور برائیوں کے فروغ کے لیے دن رات منصوبہ بندیاں کرتے ہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے ۱۵۰۰ سال قبل اس بھیانک دور کا تذکرہ فرما دیا۔ اس دور میں جہاں جہالت کے نشے میں مدہوش طبقہ لادینیت‘ برائی اور بے حیائی کی اشاعت میں سرگرمِ عمل ہے‘ وہیں صحابہ کرامؓ، السابقون الاولون کے کردار کو زندہ کرنے والے خوش نصیب لوگ بھی ہیں جو پورے جوش و جذبے اور استقامت کے ساتھ لادینیت اور برائی کے خلاف برسرِپیکار ہیں اور کتاب وسنت کے پاکیزہ نظام کو قائم کرنے کے لیے تمام صلاحیتیں اور وسائل کھپا رہے ہیں۔
حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شیطان ایک بھیڑیا ہے۔ جس طرح بکریوں کا ایک بھیڑیا ہوتا ہے‘ وہ دُور اور الگ تھلگ چرنے والی بکری کو پکڑلیتا ہے۔ اس لیے تم گھاٹیوں میں الگ تھلگ گھومنے کے بجاے عام مسلمانوں کی جماعت اور مسجد کے ساتھ وابستہ رہو۔ (مسند احمد)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت پر جن لوگوں نے عمل کیا وہ شیطان کے شر سے پہلے بھی محفوظ رہے اور آج کے دور میں بھی محفوظ ہیں۔ آج شیطان اپنی پوری طاقت کے ساتھ حملہ آور ہے لیکن وہ جماعت اور عام مسلمانوں کے ساتھ وابستگی کی وجہ سے ایمان و استقامت کے ساتھ صراطِ مستقیم پر گامزن ہیں۔
صحابہ کرامؓ کی جماعت کو مشعل راہ بناکر جو جماعت تشکیل دی جائے‘ اس میں شمولیت اور فرقوں اور گروہوں میں بٹنے کے بجاے مسلم بن کر مسلمانوں کے ساتھ رہنا ایک حفاظتی حصار ہے۔ اسی طرح مسجد بھی ایک قلعہ ہے‘ جس میں مومن شیطان کا اس طرح مقابلہ کرتا ہے جس طرح ایک آدمی قلعہ بند ہوکر دشمن کا مقابلہ کرتا ہے۔
اسلامی جماعت میں شامل ہو کر اجتماعی زندگی گزارنا‘ فرقہ واریت سے بچتے ہوئے اسلام اور مسلم کے تشخص کو اختیار کرنا اور مسجد سے تعلق کی زندگی اختیار کرنا آج بھی ان لوگوں کا امتیاز ہے جو راہِ راست پر ہیں اور شیطان اور اس کی فوج کا پوری جرأت اور ہمت سے مقابلہ کرتے ہیں۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فجر کی دو رکعتیں دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے‘ اس سے بہتر ہیں۔ ایک اور روایت میں ہے کہ فجر کی دو رکعتیں مجھے ساری دنیا سے محبوب ہیں۔
فجر کی دو سنتوں کی قدروقیمت کا احساس ہو تو انسان ان کو کسی بھی صورت نہ چھوڑے۔ رات کے آخری حصے کی میٹھی نیند اور کوئی دوسری چیز اس کی بروقت ادایگی میں رکاوٹ نہ بن سکے۔ دوسری سنتوں کو بھی دنیوی فوائد پر برتری حاصل ہے اور فرائض کا فوت ہو جانا تو ایسا ہے جیسے کسی کا اہل و عیال اور سارا مال تباہ ہوجائے‘ اور جان بوجھ کر چھوڑ دے تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے اس کی ساری نیکیاں ضائع ہوگئیں‘ اس نے اپنی آخرت کا سامان جلا کر رکھ دیا جو دنیاوی نقصان سے بھی بڑھ کر ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور نیکی جس شکل میں بھی ہو اور جتنی مقدار میں ہو وہ آخرت کی کمائی ہے اور باقی رہنے والی ہے۔ تھوڑی ہو تب بھی‘ زیادہ ہو تب بھی۔ اور دنیاوی سازوسامان کتنا زیادہ ہی کیوں نہ ہو‘ وہ فانی ہے اور زیادہ ہونے کے باوجود قلیل۔ اس لیے نیکی کی راہ میں دنیا کو رکاوٹ نہیں بننا چاہیے بلکہ نیکی کے بارے میں فیصلہ کرلینا چاہیے کہ اسے ہر حال میں عملی جامہ پہنایا جائے گا‘ چاہے اس کے لیے دنیا کی بڑی سے بڑی متاع کو قربان کرنا پڑے۔ فجر کی سنتوں کا خصوصی اجر اسی لیے ہے کہ اس میں انسان کے نفس کو زیادہ مشقت کرنا پڑتی ہے۔
حضرت جابرؓ سے روایت ہے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بنی عمرو بن عوف کے پاس تشریف لائے اور ان سے گفتگو فرمائی۔ آپؐ نے فرمایا:اے انصار کی جماعت! انھوں نے عرض کیا: لبیک یارسولؐ اللہ!۔ آپؐ نے فرمایا: تم لوگ جاہلیت میں جب اللہ تعالیٰ کی عبادت نہیں کرتے تھے ‘ تب تم بے سہاروں کا بوجھ اٹھاتے تھے‘ اپنے مالوں کو بھلائی کے کاموں میں خرچ کرتے تھے اور مسافروں کی خدمت کرتے تھے۔ تم یہ کارِخیر کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر اسلام اور نبیؐ کے ذریعے احسان فرمایا۔ اب تم اپنے مالوں کو بچاکر رکھتے ہو؟ خرچ نہیں کرتے؟ (باغ اور فصل میں سے) ابنِ آدم کھاتا ہے تو اس میں اجر ہے‘ درندے اور پرندے کھاتے ہیں تو اس میں بھی اجر ہے۔ لوگ اپنے گھروں کو واپس آئے تو ہر ایک نے اپنے باغ میں ۳۰ دروازے بنا دیے تاکہ لوگ آسانی سے داخل ہوسکیں اور بھوکے اور مسافر اس سے کھاسکیں۔ (مستدرک حاکم)
کفار بھوکوں اور پیاسوں کو کھلائیں پلائیں اور مسلمان دولت ذخیرہ کرتے رہیں‘ ایمان کے منافی ہے۔ مسلمان کو خلقِ خدا کی خیر خواہی‘ ہمدردی اور غم گساری میں آگے ہونا چاہیے۔ ایک مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔ مسلمان حکومت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ دولت ذخیرہ کرے درآں حالیکہ ملک کے باشندے بھوکے اور ننگے ہوں۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ کافر ممالک اپنے باشندوں کو خوراک‘ پوشاک‘ رہایش اور علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کریں اور مسلمان ممالک میں اس کا انتظام نہ ہو۔ بہانہ یہ کریں کہ خزانے میں اس کی گنجایش نہیں ہے۔ یہ شرم کی بات ہے۔ اصل بات وسائل اور مال و دولت کی کمی کی نہیں ہے بلکہ غیرمنصفانہ تقسیم کی ہے۔ اس خزانے سے ایک طرف کسی ایک شخص کی محض حفاظت اور آمدورفت پر یومیہ لاکھوں خرچ ہورہے ہیں اور دوسری طرف ایک شخص اپنے اور بال بچوں کے لیے خشک روٹی بھی نہیں پاتا۔ مسلمان ممالک اس میدان میں کافروں سے پیچھے ہوں‘ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عار دلائی ہے۔ جس کو اللہ نے زیادہ نوازا ہے‘ اسے کھلے دل سے بندگانِ خدا کی ضروریات پوری کرنے پر خرچ کرنا چاہیے۔
ابن عمرؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں کہ جب قرآن پاک کی یہ آیت: جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں‘ اُن کے خرچ کی مثال ایسی ہے‘ جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سو دانے ہوں۔ اِسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے‘ افزونی عطا فرماتا ہے۔ وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی(البقرہ ۲:۲۶۱)‘ نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی: ’’اے اللہ! میری اُمت کو مزید عطا فرما‘ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اُتاری: اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَھُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ o (صبر کرنے والوں کو تو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا۔ الزمر ۳۹:۱۰)۔ (ابن حبان)
انفاق فی سبیل اللہ ایسی سرمایہ کاری ہے جس کے ۷۰۰ گنا نفع بلکہ زیادہ کا اللہ کا وعدہ ہے۔ مسئلہ وعدے پر یقین کا ہے۔ کمپنیوں کے حصص کی پیش کش آتی ہے یا جہاں بھی محض دو تین گنا منافعے کا یقین ہو‘ مطلوبہ رقم سے کئی گنا اربوں روپے اسی مسلم معاشرے سے جمع ہوجاتے ہیں‘ جہاں اللہ کے دین کی سربلندی کے کئی منصوبے محض وسائل کی کمی سے تشنہ تکمیل رہ جاتے ہیں۔ آیئے‘ ایمان کو تازہ کریں‘ دنیا کو دنیا کی جگہ اور آخرت کو آخرت کی جگہ رکھیں‘ پھر نصرتِ الٰہی کا وعدہ پورا ہونے کی امید کریں۔