رہی یہ غلط فہمی کہ ہم زاہدوں اور گوشہ نشینوں کا ایک گروہ بنا رہے ہیں تو اگر یہ عمداً واقعہ کی غلط تعبیر نہیں ہے اور واقعی غلط فہمی ہی ہے تو اسے ہم صاف صاف رفع کر دینا چاہتے ہیں۔ ہم دراصل ایک ایسا گروہ تیار کرنا چاہتے ہیں جو ایک طرف زہد و تقویٰ میں اصطلاحی زاہدوں اور متقیوں سے بڑھ کر اور دوسری طرف دنیا کے انتظام کو چلانے کی قابلیت و صلاحیت بھی عام دنیاداروں سے زیادہ اور بہتر رکھتا ہو۔ ہمارے نزدیک دنیا کی تمام خرابیوں کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ نیک لوگ نیکی کے صحیح مفہوم سے ناآشنا ہونے کی بنا پر گوشہ گیر ہوکر بیٹھ جاتے ہیں اور پرہیزگاری اس کو سمجھتے ہیں کہ دنیا کے معاملات ہی سے پرہیز کریں‘ اور دوسری طرف ساری دنیا کے کاروبار بدوں کے ہاتھ میں آجاتے ہیں جن کی زبان پر نیکی کا نام اگر کبھی آتا ہے تو صرف خلقِ خدا کو دھوکا دینے کے لیے۔ اس خرابی کا علاج صرف یہی ہو سکتا ہے کہ صالحین کی ایک جماعت منظم کی جائے‘ جو خدا ترس بھی ہو‘ راست باز اور دیانت دار بھی ہو‘ خدا کے پسندیدہ اخلاق و اوصاف سے آراستہ بھی ہو اور اس کے ساتھ دنیا کے معاملات کو دنیاداروں سے زیادہ اچھی طرح سمجھے اور خود دنیاداری ہی میں اپنی مہارت و قابلیت سے ان کو شکست دے سکے۔ ہمارے نزدیک اس سے بڑا اور کوئی سیاسی کام نہیں ہوسکتا اور نہ اس سے زیادہ کامیاب سیاسی تحریک اور کوئی ہوسکتی ہے کہ ایسے ایک صالح گروہ کو منظم کرلیا جائے۔
بداخلاق اوربے اصول لوگوں کے لیے دنیا کی چراگاہ میں بس اسی وقت تک چرنے چگنے کی مہلت ہے جب تک ایسا گروہ تیار نہیں ہوجاتا‘ اور جب ایسا گروہ تیار ہو جائے گا تو آپ یقین رکھیے کہ نہ صرف آپ کے اس ملک کی بلکہ بتدریج ساری دنیا کی سیاست اور معیشت اور مالیات اور علوم و آداب اور عدل و انصاف کی باگیں اسی گروہ کے ہاتھ میں آجائیں گی اور فساق و فجار کا چراغ ان کے آگے نہ جل سکے گا۔ یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ انقلاب کس طرح رونما ہوگا لیکن جتنا مجھے کل سورج کے طلوع ہونے کا یقین ہے اتنا ہی مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ یہ انقلاب بہرحال رونما ہوکر رہے گا۔ (’’جماعت اسلامی کے پہلے کل ہند اجتماع کی روداد‘‘، ترجمان القرآن‘ جلد ۲۶‘ عدد۳-۶‘ ربیع الاول تا جمادی الثانی ۱۳۶۴ھ‘ مارچ تا جون ۱۹۴۵ئ‘ ص ۱۴۳)