اپریل۲۰۰۵

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| اپریل۲۰۰۵ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

اے ڈی جمیل ‘ جھنگ

’’کون سا اسلام؟‘‘ (مارچ ۲۰۰۵ئ) موجودہ حکومت کی اصل پالیسیوں کو واضح کرتا ہے۔ اس کے آئینے میں ملک کو بزعمِ خود ’ترقی‘ کی راہ پر گامزن کرنے والے اور ماڈریٹ اسلام کو نافذ کرنے کے ٹھیکیدار‘ صدربش کے حواری پرویز مشرف کا حقیقی چہرہ نظر آتا ہے۔ اسلام تو وہی ہے جو محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم لائے‘  اللہ کا وعدہ ہے کہ ہم نے جس ذکر کو اتارا ہے ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔


غلام مرتضٰی جوئیہ ‘ میکلوڈ گنج

جنوری‘ فروری کے شماروں میں سوڈان‘ لیبیا‘ یوکرائن کے بارے میں‘ اور وہاں پر موجود مسلمانوں اور احیاے اسلام کے لیے سرگرم تحریکوں کا اندازہ ہوا۔ اسلام کا نام زندہ رکھنے میں روایتی دینی تحریکوں‘ مدارس کا جو کردار ہے‘ اور ان دُور دراز علاقوں میں تصوف کے ذریعے اشاعت اسلام کے لیے جو کردار صوفیاے کرام نے سرانجام دیا ہے‘ اس کو بھی نمایاں کرنے کی ضرورت ہے تاکہ قارئین ماضی میں تصوف کے مثبت اور نمایاں کردار سے آگاہ ہوں اور اہلِ تصوف اور معاصر اسلامی تحریکیں باہم قریب ہوں۔ احیاے اسلام کے لیے تزکیۂ نفس ایک بنیادی شرط ہے۔ اس دُوری کو قربت میں بدلنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس سے اعتماد اُمت کی راہ ہموار ہوگی۔ احیاے اسلام سیٹ میں دعوتِ دین کی ذمہ داری کے عنوان سے جو کتابچہ ہے ‘اس میں سید مودودیؒ نے اس پہلو سے صوفیاے کرام کی خدمات کا ذکر کیا ہے۔


محمد اسماعیل ساجد ‘ ملتان

’’نئی نسل کے نام‘‘ (مارچ ۲۰۰۵ئ) بہت پسند آیا۔ بلاشبہہ بزرگ نسل نے اسلامی افکار کے احیا کے لیے اپنا فرض بہ احسن ادا کیا اور آج تحریک اسلامی ایک حقیقت ہے۔ اب نئی نسل کو اپنا قرض ادا کرنا ہے۔ یقینا نئی نسل کے لیے اس میں سبق اور عمل کا جذبہ موجزن ہے۔


ڈاکٹر توقیر احمد بٹ‘ ملتان

’’اشارات‘‘ موجودہ دور میں عام لوگوں کے دل کی آواز ہوتے ہیں۔ تجویز ہے کہ درسِ قرآن کی تیاری کو مدنظر رکھ کر بھی مضامین شاملِ اشاعت ہوں تو قاری کو دوہرا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔


طالب ہاشمی‘ لاہور

ترجمان القرآن (مارچ ۲۰۰۵ئ) میں ڈاکٹر محمد یٰسین مظہر کی تالیف عبدالمُطلب ہاشمی پر میرے تبصرے کی تین چار سطور (صفحہ ۹۹ کی سطور ۱۳‘ ۱۴‘ ۱۵‘ ۱۶)کو شاید کمپوزر نے گڈمڈ کر دیا ہے۔ اصل عبارت یوں تھی: ’’پھر ان کو نہایت قرینے سے مرتب کر کے نتائج اخذ کیے ہیں اور ساتھ ہی پوری چھٹی صدی ہجری کی   تاریخِ عرب (بالخصوص مکہ و قریش) بھی بیان کر دی ہے۔ ان کا اندازِ نگارش بڑا شُستہ اور عام فہم ہے۔ بلاشبہہ یہ کتاب پروفیسر محمد یٰسین کا قابلِ ستایش کارنامہ ہے اور اُردو کتب تاریخ و سیرت میں ایک قابلِ قدر اضافہ ہے‘‘۔


میاں محمد صدیق ‘ اوکاڑہ

ترجمان القرآن (فروری ۲۰۰۵ئ) میں صفحہ ۸۱ پر ایک حدیث دی گئی ہے۔ وہ حدیث قدسی ہے‘ لہٰذا متن میں یہ الفاظ بھی دیے جانے چاہییں کہ: اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے۔


وحید الدین سلیم ‘ حیدرآباد دکن

۱- اگرچہ مولانا امیرالدین مہر نے ’’برکت کا تصور‘‘ (مارچ ۲۰۰۵ئ) بڑی محنت سے لکھا ہے‘ لیکن کثرتِ حوالہ جات کے سبب بوجھل اور تشریح میں اُلجھائو کے نتیجے میں ایک چیستاں بن گیا ہے۔ پورا مضمون پڑھ جانے کے باوجود یہ واضح نہیں ہوتا کہ برکت کیا چیز ہے؟ برکت کے لغوی معنیٰ جو کچھ بھی ہوں‘ یہ ایک اسلامی لفظ ہے اور بول چال میں بکثرت استعمال ہوتا ہے اورزبان کی فصاحت و بلاغت میں اضافہ بھی کرتا ہے۔

برکت کا مفہوم خیرکثیر اور اللہ تعالیٰ کی غیبی مدد ہے‘ مثلاً کمائی میں برکت‘ اس کی نوعیت ایسی ہے کہ ہمارے پاس ایک روپیہ ہو اور اس ایک روپے سے ۱۰۰ روپے کے برابر کام نکل جائے ۔ ایک اور مثال‘ ایک شخص کے پاس حلال آمدنی کا بہت تھوڑا روپیہ ہو اگر اللہ کے فضل و کرم سے وہ مصائب سے بچ جاتا ہے اور اس تھوڑے روپے کے ذریعے اُس کی زندگی خوش گوار گزرتی ہے تو یہ بھی برکت ہے۔ اس کے مقابل میں ایک شخص مالا مال ہے لیکن مشکلات کے گھیرے میں آگیاہے کہ زرِکثیر خرچ کر کے بھی نجات نہیں پا سکتا تو ایسا شخص برکت سے محروم ہے۔ اعمال میں برکت کی مثال یہ ہے کہ کسی نے ۶۰برس کی عمر پائی ہو اور کام ایسا انجام دیا ہو کہ کوئی دوسرا شخص   سو‘ سوا سو برس پاکر بھی انجام نہ دے سکے۔ برکت کا لفظ محض رسمی نہیں بلکہ یہ استحضار فضلِ الٰہی سے راست وابستہ ہے‘ اس کے بغیر برکت کا تصورہی نہیں کیا جا سکتا۔ زبان و بیان میں یہ ایسا معجز لفظ ہے‘ جو لفظ بھی ہے اور کلمۂ خیر بھی۔

۲- ڈاکٹر پوجا جوشی کی کتاب Jamat-e-Islami - The Catalyst of Islamization in Pakistan پر ایوب منیر کا تبصرہ (فروری ۲۰۰۵ئ)اختصار و جامعیت کے ساتھ ایک کامیاب تبصرہ ہے۔ فاضل مبصر نے مصنفۂ کتاب کی کم علمی اور حقائق تک اُس کی عدم رسائی کو آشکار کر دیا ہے۔ مولانا مودودیؒ اور جماعتِ اسلامی کے خلاف لکھنا فیشن کے سوا کچھ نہیں۔ کیا ہندو اورکیا مسلمان‘ سبھی تعصب کی راہ پر گامزن نظر آتے ہیں۔ یہ لوگ زیادہ تر تنقید پڑھ کر تنقید لکھنے کے عادی ہوتے ہیں‘ اصل شے جس پر تنقید کی جاتی ہے وہ اُن کی نظر ہی میں نہیں رہتی۔