پروفیسر محمد ابراہیم


اس وقت پوری قوم افغانستان کی سرحد کے ساتھ ملحق قبائلی علاقے میں امریکا کی قیادت میں اتحادی افواج کی طرف سے فوج کشی کے خطرات اور خدشات کے شدید احساس سے دوچار ہے۔ عالمی راے عامہ اور امریکی عوام و خواص کی توجہ بھی اسی طرف ہے۔ اس ضمن میں بنیادی   طور پر دو سوالات ابھر رہے ہیں۔ پہلا یہ کہ امریکی حملے کا امکان کتنا ہے؟ دوسرا یہ کہ اس حملے کا  ممکنہ نتیجہ کیا ہوگا؟ لیکن ان دونوں سوالات سے اہم تر سوال یہ ہے کہ اس طرح کے حالات کیوںکر پیدا ہوئے؟

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ باوجود یکہ افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات میں کبھی بھی گرم جوشی نہیں پائی گئی، افغانستان کے ساتھ پاکستان کی سرحد ہمیشہ محفوظ رہی ہے۔ شمال مغربی سرحد کے اس تحفظ کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں پر بسنے والے قبائل جیساکہ بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا تھا، پاکستان کے بازوے شمشیر زن ہیں۔ قائداعظم نے شمالی وزیرستان میں حاجی میرزالی خان المعروف فقیر آف اے پی کی زیر قیادت مجاہدین کے خلاف ۱۱ سال سے جاری انگریز کے فوجی آپریشن کو روک کر سارے قبائلی علاقہ جات سے پاک فوج کو واپس بلالیا تھا اور    یہ اعلان کیا تھا کہ اس سرحد کی حفاظت ہمارے آزاد قبائل کریں گے۔ یہ اس ملک کے لیے ایک المیے سے کم نہیں ہے کہ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعات کے بعد ہمارے فوجی حکمران امریکی دباؤ میں آگئے اور افغانستان پر حملہ آور ہونے کے لیے امریکا کو پاکستان کی فضا، ہوائی اڈے، انٹیلی جنس معلومات اور لاجسٹک تعاون فراہم کیا۔ اسی وجہ سے امریکا کے لیے افغانستان پر حملہ ممکن ہوا، افغانستان کے شمالی اتحاد کے تعاون سے طالبان کی حکومت کو ختم کیا گیا اور اتحادی فوج امریکی قیادت میں افغانستان کی سرزمین پر اُتری۔ اسی وقت سے ہماری شمال مغربی سرحد پر امریکی حملے کا خطرہ پیدا ہوا۔

پرویز مشرف کی قیادت میں فوجی حکم رانوں نے اس سنگین جرم کا ارتکاب بھی کیا ہے کہ امریکی خوشنودی کی خاطر پاکستان کے شمال مغربی سرحد کے محافظ آزاد قبائل پر پاکستانی فوج کو   حملہ آور کردیا۔ ۲۰۰۴ء میں جنوبی وزیرستان ، وانا سے اس کا آغاز ہوا۔ ۲۰۰۶ء میں شمالی وزیرستان کے اندر میر علی اور میران شاہ پر فوج کشی کی گئی۔ باجوڑ اور مہمند ایجنسی میں کئی واقعات ہوئے۔ اس دوران امریکا نے ہماری سرحد کی بیسیوں خلاف ورزیاں کر ڈالیں اور ہمارے سیکڑوں قبائلی عوام بوڑھے، بچے اور خواتین شہید کر دیے۔

قبائل کے خلاف فوجی آپریشن کے لیے یہ بہانہ بنایا گیا کہ یہاں غیر ملکی جنگجو موجود ہیں جو ہماری سرزمین کو جنگی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ۲۰۰۴ء میں جنوبی وزیرستان کے قصبہ شگئی میں پاک فوج اور قبائل کا معاہدہ ہوا جس پر کمانڈر نیک محمد اور پشاور کے کور کمانڈر نے دستخط کیے اور اس کے بعد وہ بغل گیر ہوئے۔ یہ معاہدہ امریکا کو ناقابلِ قبول تھا اس لیے اس کو توڑا گیا اور امریکی میزائل حملے میں کمانڈر نیک محمد کو شہید کردیا گیا۔ اس کے بعد میران شاہ میں باقاعدہ معاہدہ ہوا لیکن اس کو بھی سبوتاژ کیا گیا۔ جنوری ۲۰۰۶ء میں باجوڑ میں اسی طرح کا معاہدہ ہونے والا تھا کہ ایک دن قبل چینہ گئی (باجوڑ ایجنسی) میں ایک مدرسے پر میزائل حملہ کرکے حفظ القرآن کے ۸۳معصوم بچوں اور ان کے اساتذہ کو شہید کردیا گیا۔ یہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ قبائل غیرملکیوں کو پُرامن رہنے کی ضمانت دینے کے لیے ہر لحاظ سے آمادہ اور تیار ہیں اور اس مقصد   کے لیے قبائل اور حکومتِ پاکستان کے درمیان دو معاہدوں پر باقاعدہ دستخط ہوگئے اور کئی معاہدے دستخط کے لیے تیار تھے۔ لیکن امریکی دباؤ میں آکر پرویز مشرف نے اپنی فوج کو اپنے قبائلی عوام کے خلاف صف آرا کردیا۔ اس جنگ میں، حکومت کچھ بھی اعلانات کرے، فوج نے قبائل سے شکست کھائی ہے۔ دونوں جانب نقصان ہمارا ہی ہوا ہے۔

اس عرصے میں ضلع ہنگو اور کرم ایجنسی میں شیعہ سُنّی فرقہ وارانہ فسادات ہوتے رہے اور خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ میں دیوبندی اور بریلوی کی بنیاد پر لشکرِ اسلام اور انصار الاسلام کے درمیان لڑائی چھیڑ دی گئی جس میں ہزاروں کی تعداد میں عوام جاں بحق ہوچکے ہیں۔ ان فسادات کی تہہ تک پہنچنا نہایت مشکل ہے۔ البتہ چند شواہد کی بنیاد پر کچھ نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں۔ ہماری حکومت بھارتی خفیہ ایجنسی را (RAW) اور جلال آباد میں بھارتی قونصل خانے کو موردِالزام  ٹھیرا رہی ہے جس میں کافی حد تک صداقت ہے۔ سوال یہ ہے کہ بھارت جب ہمارے خلاف یہ کارروائیاں کررہا ہے تو ہماری حکومت کو اس کے ساتھ دوستی، تجارت اور مذاکرات کا اتنا شوق کیوں ہو رہا ہے کہ ہمارے نئے حکمران کشمیر کو فراموش کرنے کے عندیے دے رہے ہیں۔

اس سارے مسئلے میں ہماری مشکل یہ ہے کہ ہمارے حکمران جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کرنے کے بجاے، خوف زدہ ہوکر بھارت اور امریکا کو اپنا دوست قرار دے رہے ہیں، جب کہ  یہ ہمارے دشمن ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ دشمنی ہماری طرف سے نہیں، اُن کی طرف سے ہورہی ہے۔ اگر ہم کسی وجہ سے دشمن کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تو اس صورتِ حال کو تبدیل کرنے کے لیے مناسب حکمتِ عملی اختیار کی جاسکتی ہے لیکن اگر دشمن کو دوست قرار دیا جائے تو اس کا نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں۔

شمال مغربی سرحد پر امریکی حملے کے امکان کو کلیتاً مسترد نہیں کیا جاسکتا لیکن اس حملے کے مقابلے کی زیادہ سے زیادہ تیاری کا مظاہرہ کرکے اس کے امکان کو کم سے کم بھی کیا جاسکتا ہے اور حملہ ہوجانے کی صورت میں اس کا مؤثر مقابلہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ اگر امریکا یہ جانتا ہو کہ پاکستانی فوج اپنی سرحدوں کی حفاظت کا فریضہ ادا کرے گی تو وہ ہرگز حملے کی جرأت نہیں کرے گا۔ اس کے ایک دن میں ۹ فوجی مرگئے تو امریکہ ہل گیا۔ اگر ہماری فوج سو ڈیڑھ سو باڈی بیگ بھی امریکا  روانہ کرنے کا داعیہ رکھتی ہو، تو امریکی ہمیں آنکھیں نہیں دکھا سکتے۔ اب تو ہر دوسرے تیسرے روز ایک دوسرے تیسرے درجے کا اہلکار ہمیں دھمکیاں دے کر بے عزت کرجاتا ہے۔ مگرہمارے وزرا جی حضور ہی کہتے رہ جاتے ہیں۔ ہماری، پاکستان کی، اس کے عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ جس فوج کو عوام نے پیٹ کاٹ کر مسلح کیا ہے، وہ حب الوطنی کے تقاضے پورے کرنے کے بجاے سرحدوں کی حفاظت کی اصل فریضے سے دست کش ہوگئی ہے۔

اب صورت حال یہ ہے کہ منتخب جمہوری حکومت کو معاملات سنبھالنے کا جو زرّیں موقع ملاتھا وہ اس نے کھو دیا ہے اور حسب سابق پرویز مشرف کی پالیسیوں کا تسلسل جاری ہے۔ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کو وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اپنی جنگ قرار دے کر امریکا کی حمایت جاری رکھنے کا اعلان کر رہے ہیں اور حد یہ ہے کہ اس کے لیے پارلیمنٹ سے منظوری یا اختیار کو بھی ضروری نہیں سمجھتے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہماری پالیسی ہمارے ہاتھ میں نہیں اور آمرانہ دور ہو یا جمہوری تماشا، پالیسیاں امریکا بنا رہا ہے، اور اس کے   آلۂ کار انھیں نافذ کر رہے ہیں۔

اس وقت جو خطرات ہمارے اوپر منڈلا رہے ہیں، ان کا تقاضا ہے کہ قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح متحد ہو۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت تمام قبائلی علاقہ جات میں فوجی آپریشن کو ختم کرنے کا اعلان کرکے فوج کو وہاں سے واپس بلائے۔ قبائل کے منتخب ممبرانِ پارلیمنٹ اور  دیگر عمائدین اور قبائل کے علماے کرام کے ذریعے قبائلی علاقہ جات کے انتظام و انصرام کو دوبارہ بحال کیا جائے۔

افغانستان اور قبائلی علاقے میں بیرونی مداخلت اور اس کے نتیجے میں جنگ کے ممکنہ حتمی نتیجے کے بارے میں وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ بیرونی مداخلت کار اس علاقے میں کسی جنگ میں پوری تاریخ میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکے ہیں، اور اب بھی اگر امریکا نے افغانستان کے بعد پاکستان کے قبائل پر جنگ کو مسلط کیا تو امریکا نہ صرف قبائل میں، بلکہ افغانستان میں بھی بدترین شکست سے دوچار ہوگا۔ یہ نوشتۂ دیوار ہے!

افغانستان میں صدر حامد کرزئی کی حکومت اتحادی افواج کے سہارے اقتدار کی مسند پر  فائز ہے لیکن افغانستان پر حاکمیت نہ صدر حامد کرزئی کو حاصل ہے اور نہ اُن کے مادی سہاروں (اتحادی افواج) ہی کو۔ حاکمیت کے قیام کے لیے ہر دو نے ماضی قریب میں یہ ضرورت شدت سے محسوس کی ہے کہ طالبان کے نام سے کچھ لوگوں کو اپنے ساتھ ملا لیں۔ اس غرض سے اتحادی افواج کے کمانڈر کرنل رچرڈ پیٹرسن نے یہ اعلان کیا کہ جو طالبان قومی مصالحت کے پروگرام میں شریک ہوں گے اُن کو عام معافی دی جائے گی‘ اور اُن کے لیے خصوصی شناختی کارڈ جاری کیے جائیں گے۔ اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ پیشِ نظر مقصد یہ ہے کہ طالبان تحریک کے ارکان کو بھی آزادانہ طور پر افغانستان میں دوسرے افغانوں کی طرح عام زندگی گزارنے کا موقع فراہم ہوسکے۔ یہ الگ بات ہے کہ کیا طالبان کے علاوہ افغان عوام عام زندگی بسر کرنے پر قادر ہیں یا امریکاکی سربراہی میں اتحادی افواج نے سارے افغانوں کو عام زندگی گزارنے سے محروم کر کے رکھ دیا ہے؟ کیا اتحادی افواج خود افغانستان میں آزادانہ گھوم پھر سکتی ہیں؟ ان کو یہ اختیار کہاں سے حاصل ہوگیا ہے کہ وہ افغانوں کو آزادانہ گھومنے پھرنے کی اجازت دیں یا نہ دیں؟

حامد کرزئی کی حکومت اور اتحادی افواج کے ساتھ مذاکرات کرنے والے جن افراد کے نام اب تک منظرعام پر آئے ہیں وہ درج ذیل ہیں: ۱- حبیب اللہ فوزی: جو طالبان کے دور میں ریاض (سعودی عرب) میں سفارت کار تھے‘ ۲- عبدالحکیم مجاہد: اقوام متحدہ میں طالبان کی حکومت کے نمایندے‘ ۳- مولوی ارسلان رحمانی: طالبان کے نائب وزیر براے تحصیلاتِ عالیہ‘ ۴- رحمت اللہ وحید یار: طالبان کے نائب وزیر براے مہاجرین۔ لیکن طالبان کے ترجمان لطف اللہ حکیمی نے یہ اعلان کیا ہے کہ مذاکرات کے عمل میں شریک لوگوں کا طالبان کی تحریک سے اب کوئی تعلق نہیں رہا اور وہ تحریک کے نمایندوں کی حیثیت سے مذاکرات نہیں کر رہے‘ جب کہ مذاکرات میں شریک افراد نے خود بھی یہ اعلان کیا ہے کہ وہ طالبان کے نمایندے نہیں بلکہ وہ اپنی تنظیم خدام الفرقان کی نمایندگی کر رہے ہیں۔

مذاکرات کے دوران یہ تقاضا کیا گیا کہ گوانٹاناموبے‘ باگرام اور قندھار میں طالبان کے ساتھ تعلق رکھنے کے الزام میں قید ۴۰۰ سے ۵۰۰ کی تعداد میں گرفتار افراد کو فی الفور رہا کیا جائے۔ لیکن اتحادی افواج کے ترجمان سٹیووولمین نے کہا کہ ان افراد کی رہائی افغان حکومت کا مسئلہ ہے‘ اتحادی افواج کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ اس وجہ سے مذاکرات کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا ہے۔ اگرچہ عام افغانوں کی خواہش ہے کہ یہ مذاکرات کامیاب ہوں جس کے نتیجے میں خانہ جنگی ختم ہو‘ افغان عوام مل کر اتحادی افواج سے مشترکہ طور پر مطالبہ کریں کہ وہ افغانستان سے نکل جائیں‘ اور افغان عوام کو اپنے طور پر افغانستان کے اُمورمملکت چلانے کا اختیار دیا جائے۔

طالبان کے وزیرِخارجہ مولوی وکیل احمد متوکل کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ مذاکرات کے بعض ادوار میں شریک رہے ہیں۔ ان کے بارے میں پہلے بھی اس طرح کی خبریں پھیلانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ وہ موجودہ افغان حکومت سے مل گئے ہیں‘ لیکن بعد میں وہ خبریں جھوٹی ثابت ہوئی ہیں۔

یہ بات اب محتاج ثبوت نہیں کہ بیرونی افواج کے ذریعے افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ امریکا کی یہ دیرینہ پالیسی رہی ہے کہ افغانوں کو مختلف ناموں سے تقسیم کرے اور تقسیم در تقسیم کے ذریعے مختلف گروپوں میں پھوٹ ڈالے۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات اسی پالیسی کا تسلسل ہے۔ طالبان میں ’اعتدال پسند طالبان‘ اور ’انتہا پسند طالبان‘ کی تقسیم امریکا کا ایک ناکام حربہ ہے۔ افغانستان کے مسئلے کا واحد حل آزادانہ ‘ منصفانہ اور غیر جانب دارانہ انتخابات کے ذریعے افغان عوام کی مرضی کی منتخب حکومت کو مکمل اختیارات سونپنا اور امریکی افواج اور ان کے اتحادیوں کا افغانستان سے مکمل انخلا ہے۔ اگر امریکا کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ شام سے مطالبہ کرے کہ وہ لبنان سے اپنی فوجیں نکال لے‘ تو افغانوں کو بھی یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ ان کے مطالبے پر افغانستان سے امریکی فوج نکل جائے۔

فی الوقت افغانستان میں ایک اور اہم واقعہ جنرل عبدالرشید دوستم کا افغان مسلح افواج کا سربراہ مقرر کیا جانا ہے۔ افغان صدر حامد کرزئی نے مارچ کے شروع میں ان کی تقرری کا اعلان کیا۔ جنرل عبدالرشید دوستم نہ صرف افغانستان کی ایک متنازع شخصیت اورافغان عوام کے خلاف انتہائی گھنائونے جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں‘ بلکہ انھوں نے افغان جہاد کے قائدین بالخصوص انجینئر احمد شاہ مسعود اور انجینئر گلبدین حکمت یار کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا‘ اور اس طرح افغانستان میں عدمِ استحکام اور خانہ جنگی کا باعث رہے ہیں۔ درآں حالیکہ مذکورہ بالا دونوں افغان رہنمائوں کا خیال یہ تھا کہ وہ جنرل عبدالرشید دوستم کو اپنے حق میں اور دوسروں کے خلاف استعمال کرسکیں گے۔ یہ ان دونوں کی اپنی اپنی جگہ پر ایک بڑی فاش غلطی تھی۔ درحقیقت احمد شاہ مسعود یا گلبدین حکمت یار نے جنرل عبدالرشید دوستم کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں کیا‘ بلکہ اُلٹا عبدالرشید دوستم نے ان دونوں رہنمائوں کو باری باری ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا۔

صدارتی انتخابات کے بعد افغانستان میں پارلیمانی انتخابات کی آمد آمد ہے اور شاید  افغان صدر حامد کرزئی نے ان انتخابات پراثرانداز ہونے کے لیے جنرل عبدالرشید دوستم کو   افغان مسلح افواج کا سربراہ مقرر کیا ہے۔ لیکن حامد کرزئی کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اُن کے اس عمل سے افغان عوام انتہائی ناخوش ہیں‘ اور ماضی کے تجربات کو دیکھتے ہوئے شاید عبدالرشید دوستم کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنے کے بجاے خود حامد کرزئی اُن کے ہاتھوں استعمال ہوجائیں۔