پروفیسر خورشید احمد


مشہور مقولہ ہے: ’’خدا شرے بر انگیز کہ خیرے مادر آں باشد‘‘ (کبھی شر سے بھی خیر رونما ہوتا ہے)۔ ایسا ہی ایک خیر حدود آرڈی ننس میں ’تحفظ نسواں‘ کے نام پر ترمیمی بل کے سلسلے کی بحث اور پارلیمانی پارٹیوں کے قائدین کی تحریک پر ایک علما کمیٹی کے قیام کی شکل میں رونما ہوا ہے۔ اس ضمن میں اسلامی نظریاتی کونسل کے ایک فاضل رکن نے استعفا دے دیا اور پھر خبر آئی کہ کونسل کے کے صدر‘ جنرل پرویز مشرف سے ملاقات کر کے پوری کونسل کی طرف سے اجتماعی استعفے کا اقدام کرنے والے ہیں۔ مستعفی ہونے والے رکن نے اپنے استعفے کے خط میں لکھا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل ایک دستوری ادارہ ہے اور اسے نظرانداز کرکے بالا ہی بالا ایک علما کمیٹی کے قیام اور اس کے مشورے سے کونسل کا استحقاق مجروح ہوا ہے اور اس طرح گویا اس کی بے توقیری کا پیغام دیا گیا ہے۔ تقریباً یہی موقف کونسل کے صدر اور باقی ارکان کا سامنے آرہا ہے اور ملک کے انگریزی کے سیکولر اور لبرل پریس نے اس کو خوب خوب اُچھالا ہے اور کونسل کو بانس پرچڑھا کر اس کے      اس اقدام کو حدود آرڈی ننس کے خلاف کام کرنے والی سیکولر اور غیرملکی این جی اوز کی لابی کی مہم میں کامیابی کے چند پروں کے اضافے کا رنگ دیا ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں غوروفکر کے چند ضروری نکات پر گفتگو کی جائے۔

نظریاتی کونسل کے جن ارکان نے اس موقع پر اپنی غیرت ایمانی اور ذاتی اور علمی عزوشرف پر ہونے والی دراندازی پر جن جذبات کا اظہار کیا ہے وہ اس پہلو سے تو بڑے قیمتی ہیں کہ      اس دستوری ادارے کو شاید اپنی تاریخ میں پہلی بار اپنے مقام‘ کردار اور استحقاق کا احساس ہوا۔    یہ اور بات ہے کہ اس وقت اس کی آواز جن دوسری آوازوں میں مل گئی ہے وہ اسلامی قوانین کے خلاف مہم چلانے والی سیکولر اور عالمی استعماری گروہ (lobbies) ہیں۔ اگر اس سے صرفِ نظربھی کرلیا جائے تو اسے قابلِ قدر ہی کہا جائے گا کہ اس ادارے اور اس کے ارکان کو اب یہ ہوش تو آیا کہ ان کا دستور اور قانون سازی کے نظام میں بھی ایک کردار ہے اور اگر ان کے اس کردار پر کوئی حرف آتا ہے تو اس پر احتجاج کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کو ایک دستوری ادارہ ہوتے ہوئے بھی عملاً    ایک عضو معطل ہی کا مقام دے دیا گیاہے‘ یااس نے یہ مقام اپنے لیے قبول کرلیا ہے۔دستور کی  دفعہ ۲۲۸کونسل کی تشکیل ‘ دفعہ ۲۲۹ صدر‘ گورنر‘ پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلیوں کی طرف سے مشورہ کے لیے بھیجے جانے والے ریفرنس کے بارے میں ہیں‘ اور دفعہ ۲۳۰ میں اس کونسل کے وظائف اور  ذمہ داریاں بیان کی گئی ہیں۔ کونسل کی رپورٹوں کا پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں پیش کیا جانا اور ان پر بحث ایک دستوری ذمہ داری ہے لیکن ہمارے علم کی حد تک‘ گو ۱۹۷۳ء کے دستور کے تحت قائم کیے جانے کے بعد سے اب تک‘ کونسل ۵۰ سے زیادہ رپورٹیں تیار کرچکی ہے لیکن ان میں سے کسی ایک پر بھی پارلیمنٹ میں بحث نہیں ہوئی اور نہ ان کی روشنی میں کوئی قانون سازی یا پالیسی سازی ہوئی ہے۔ حیرت کا مقام ہے کہ کونسل یا اس کے ارکان کو اس بے توقیری پر کبھی احتجاج کی توفیق نہیں ہوئی۔

اس پورے عرصے میں پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں نے دسیوں ایسے قانون بنائے ہیں جن کا بلاواسطہ یا بالواسطہ شریعت کے احکام سے تعلق ہے۔ چند قوانین تو شریعت کے نام پر بنائے گئے ہیں‘ مثلاً نوازشریف صاحب کے پہلے دورِحکومت میں منظور کیا جانے والا قانون نفاذ شریعت۔ نیز ان کے دوسرے دور حکومت میں دستور کا پندرھواں ترمیمی بل جسے قومی اسمبلی نے منظور بھی کرلیا تھا مگر وہ سینیٹ سے منظور نہ ہوسکا اور اس میں شریعت اورامربالمعروف اور نہی عن المنکر کے نام پر وزیراعظم کے لیے غیرمعمولی اختیارات حاصل کیے گئے تھے۔ ہمیں یاد نہیں کہ ان دونوں اور دوسرے متعلقہ قوانین کے باب میں کونسل کی رگ حمیت کبھی پھڑکی ہو اور اسے اپنا دستوری کردار  یاد آیا ہو۔

دستور کی دفعہ (1-d) ۲۳۰ کی رو سے یہ کونسل کی ذمہ داری تھی کہ ملک کے تمام قوانین کو اسلامی احکام سے ہم آہنگ کرنے اور مزید قانون سازی کے لیے شریعت کے متعلقہ احکام و ہدایات کو ایک جامع رپورٹ کی شکل میں پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو پیش کرے گی اور یہ کام اپنے قیام کے سات سال کے اندر اندر مکمل کرے گی۔ ہماری اطلاع کی حد تک تمام قوانین کے بارے میں جامع رپورٹ آج تک مرتب نہیں ہوئی ہے۔ جسٹس تنزیل الرحمن کی صدارت کے دوران اسی سلسلے میں کئی سو قوانین کے بارے میں شق وار تبصرہ تیار ہواتھا مگر یہ کام مکمل نہیں ہوا‘ اور ملک کے۴ہزار سے زیادہ انگریز کے زمانے میں نافذ ہونے والے اور گذشتہ ۶۰ سال میں کتابِ قانون کا حصہ بننے والے چند سو قوانین کا مکمل جائزہ اور شریعت سے ہم آہنگ کرنے کے لیے متعین ترامیم کی تیاری کا کام ہنوز کونسل کی توجہ کا منتظر ہے۔ اسلامی احکام کے مجموعے پر مرتب ایک رپورٹ ضرور تیار کی گئی ہے لیکن آج تک اس پر بھی مرکزی یا صوبائی اسمبلی اور سینیٹ میں کوئی بحث نہیں ہوئی۔ ہمیں علم نہیں کہ اس سلسلے میں کونسل نے کبھی حکومت کو اپنی دستوری ذمہ داریاں ادا کرنے پر متوجہ کرنے کی زحمت فرمائی ہو۔

دستور کی متعلقہ دفعات کے مطالعے سے یہ بات ظاہر نہیں ہوتی کہ اسلامی احکام کے بارے میں مشورہ حاصل کرنے کے پارلیمان کے حق کو اسلامی نظریاتی کونسل کے ساتھ محصور اور محدود کیا گیا ہے۔ بلاشبہہ کونسل کے قیام کا مقصد ہی قوانین اور پالیسیوں کو اسلام سے ہم آہنگ کرکے اس سے استفادہ کرنا ہے۔ لیکن ریفرنس کا اختیار صدر‘ گورنر‘ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو حاصل ہے۔ کونسل کو suo motto کوئی اختیار حاصل نہیں‘جیساکہ سپریم کورٹ یا وفاقی شرعی عدالت کو حاصل ہے۔ اسی طرح کوئی قدغن پارلیمنٹ کے اختیارات پر نہیں کہ وہ کونسل کے علاوہ کسی اور فرد‘ ادارے یا مشکل میں اپنی رہنمائی اور اعانت کے لیے کوئی اقدام نہیں کرسکتی۔ پارلیمنٹ کو   تو یہ بھی اختیار حاصل ہے کہ کونسل کو کسی معاملے کو ریفر کرنے کے باوجود قانون سازی کرلے اور کونسل کی سفارشات پر بعد میں غور کرے (دفعہ (۳) ۲۳۰)۔ ہمیں علم نہیں کہ دستور یا خود اس کے اپنے رولز آف بزنس کی کون سی دفعہ کے تحت کونسل کو یہ اختیار یا استحقاق حاصل ہے کہ پارلیمنٹ‘ صدر‘ گورنر‘ پارلیمانی پارٹیوں کے قائدین کونسل کے علاوہ کسی اور سے نہ مشورہ کرسکتے ہیں اور نہ کوئی اور مشاورتی نظام بنانے کا اختیار رکھتے ہیں۔ اگر کونسل کے فاضل ارکان اس سلسلے میں دستور یا ضوابط کار کے متعلقہ اندراجات کی وضاحت کردیتے تو معاملے کو سمجھنے میں سہولت ہوتی۔

ہم خود اسلامی نظریاتی کونسل کو بااختیار دیکھناچاہتے ہیں اور اس کے کردار کو زیادہ مؤثر بنانے کے حق میں ہیں لیکن کونسل کو بھی قوم کو یہ اعتماد دینا ہوگا کہ وہ شریعت کے احکام کی محافظ اور امین ہے اور محض بااثر گروہوں کے ایجنڈے کی شعوری یا غیرشعوری تکمیل کے راستے پر گامزن نہیں۔ سرحداسمبلی میں حسبہ بل کے باب میں جو کردار اس کونسل نے ادا کیا وہ اس کی عزت کو بڑھانے والا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کونسل کے فاضل ارکان کو علم ہوگا کہ حسبہ بل کا اصل مسودہ خود اسلامی نظریاتی کونسل نے ۲۰‘ ۲۵ سال پہلے بنایا تھا۔ اسی مسودے کی روشنی میں صوبائی اسمبلی نے ایک بل تیار کیا۔ اسی پر سیکولر لابی آتش زیرپا تھی۔ اس بل پر جو تبصرہ کونسل نے کیا‘ وہ نہ شریعت کے ساتھ انصاف تھا اور نہ کونسل کے حدودِکار کے ساتھ۔ دستوری بقراطیت کا جو مظاہرہ اس میں کیا گیا‘ اسے کونسل کے دائرہ کار سے متعلق قرار دینے کے لیے خاصی ذہنی عیاشی کی ضرورت ہے۔

موجودہ کونسل کی تشکیل جس طرح کی گئی‘ اس سے اس کے وقار اورکردار کے بارے میں بہت سے حلقوں کو تشویش ہے اور کونسل کی اب تک کی کارکردگی نے ان خدشات کو دُور کرنے میں کوئی خدمت انجام نہیں دی۔ حدود آرڈی ننس کے سلسلے کی بحث میں جس طرح کونسل  ُکودی ہے‘  اس نے ان خدشات کو مزید تقویت دی ہے۔ شاید کونسل کے موجودہ ارکان یہ بھول گئے کہ اصل حدود آرڈی ننس جسٹس افضل چیمہ صاحب کی صدارت میں قائم اسلامی نظریاتی کونسل کے تیار کردہ مسودے ہی پر مبنی ہے‘ اور جن امور میں اس میں اس کی تجاویز سے انحراف کیا گیا تھا ان کے بارے میں جسٹس تنزیل الرحمن کے دورِ صدارت میں قائم کونسل نے کئی بار متوجہ کیا تھا جو ریکارڈ کا حصہ ہے۔ ہمیں توقع ہے کہ کونسل کے موجودہ ارکان اسی کونسل کے ماضی کے فیصلوں اور سفارشات سے واقف ہوں گے۔ بلاشبہہ ایک قانونی ادارے کو اپنی یا اپنے سابقین کی آرا پر نظرثانی کا حق ہے جس طرح عدالتی ادارے کرتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ کام ایک ضابطے اور طریقے کے مطابق ہوتا ہے اور آرا سے اگر رجوع بھی کیا جائے تو ماقبل کی آرا پر بحث و تنقید اور نئے دلائل کی بنیاد پر کسی       نئے موقف کا اظہار کیا جاتا ہے۔ ہمارے علم میں نہیں کہ کونسل نے ایسی کوئی مشق (exercise) کی ہے یا نہیں اور اگر کی ہے تو اس کا حاصل کیا ہے۔

حدود آرڈی ننس میں ترمیم کی بحث کے موقع پر اسلامی نظریاتی کونسل نے جس سرگرمی (activism ) کا اظہار کیا ہے‘ اس میں judical activismکے رویے سے کچھ مماثلت ضرور ہے لیکن اس میں ان آداب اورتقاضوں کو ملحوظ نہیں رکھا گیا جو اس activismکا حصہ ہیں۔ ہمیں توقع ہے کہ کونسل نے اپنے استحقاق اور کردار کے بارے میں جس بیداری کا اظہار کیا ہے وہ    اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کی بھی فکر کرے گی۔

۱۱ ستمبر کی ستم کاریوں کی کوئی انتہانہیں ہے‘ اور امریکا کی موجودہ قیادت اقتدار اور قوت کے نشے میں عالمی قانون اور روایات‘ اور اخلاق اور تہذیب کے تمام مسلّمہ ضابطوں کو پارہ پارہ کرکے دنیا میں ظلم‘ تشدد اور دہشت گردی کا ایک طوفان برپاکر رہی ہے لیکن اس کا ایک نہایت مکروہ اور خطرناک پہلو یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دہشت گردی کی کسی متعین تعریف سے مکمل صرف نظر کرکے دنیا کو ایک نہ ختم ہونے والے تصادم، بے یقینی اور قتل وغارت گری کی جہنم میں دھکیل دیا گیا ہے اورہر اختلاف، اور ظلم، ناانصافی اور سامراجی تسلط کے خلاف احتجاج، آزادی اور حقوق کی ہر جدوجہد پر دہشت گردی کا لیبل لگانے کا گھنائونا کھیل کھیلا جارہا ہے۔

وہ کارروائیاں جنھیں دہشت گردی کی معروف تعریف کے تحت دہشت گردی قرار دیا جاسکے وہ ہر اعتبار سے قابل مذمت ہیں اور ان کے لیے جواز تلاش کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دہشت گردی کی تاریخ پیدایش ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء نہیں اور اس بات کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی کی اصطلاح کے غلط استعمال کی مذمت کے ساتھ اس امر کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ یہ کوئی نیا عمل نہیں ہے۔

ایک افسوس ناک حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ تاریخ کے تمام ادوار میں اور عملاً دنیا کے تقریباً تمام حصوں میں دہشت گردی یا ایسی ارادی اور مبنی برتشدد کارروائیاں جن کو دہشت گردی کے زمرے میں شامل کیا جاسکتا ہے ہمیشہ سے ہوتی رہی ہیں۔ دہشت گردی کا یہ عمل کسی معاشرے‘ تہذیب‘ مذہب‘ یا سیاسی امتیاز‘اور یا پھرکسی قدیم تاریخی‘ وسطی یا جدید عہد کے ساتھ بطور خاص وابستہ نہیں ہے اور نہ دہشت گردی کے فعل کی کوئی واحد‘ متعین اور یکساں صورت و شکل ہی ہے بلکہ دہشت گردی کے اظہار کے متعدد طریقے اوراسالیب ہیں۔ اسی طرح خودکش اقدام بھی کوئی     نئی ایجاد نہیں ہے۔ بہرحال‘ یہی وجہ ہے کہ میری نگاہ میں دہشت گردی (Terrorism) واحد صیغے میں نہیں بلکہ جمع کے صیغے میں یعنی بہ الفاظ صحیح تر ’دہشت گردانہ کارروائیاں‘ (Terrorisms) کا استعمال ضروری ہے۔

ایسی ٹھوس تاریخی شہادتیں موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ دہشت گردی کا یہ عمل اور فعل ایک امر واقعہ کے طور پر ایک حقیقت رہا ہے اور پھر اس کی مختلف اشکال اور احوال بھی موجود رہے ہیں۔ یہ حقیقت بھی الم نشرح کرنا ضروری ہے کہ دہشت گردی اور دہشت گرد گروہوں کی تاریخی حیثیت و اہمیت کم از کم یورپ میں قرون وسطیٰ کی ہولی رومن ایمپائر کی ابتدا سے منسلک ہے۔۱؎

لہٰذا ‘ محض القاعدہ کو دہشت گردی کی علامت کے طورپر پیش کرنا اور دہشت گردی کی پوری تاریخ اور اس کے تمام انواع و اقسام کو نظرانداز کرنا تاریخ کے ساتھ ایک مذاق ہے۔ اس بات کا اعتراف ضروری ہے کہ دہشت گردی کی اصطلاح‘ ایک وسیع تر سیاسی حقیقت ہے جس کی موجودگی تمام ادوار اور تمام ممالک میں دیکھی جا سکتی ہے۔اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر دہشت گردی کو کسی ایک ہی مرتکب کے بارے میں ہمہ وقت سوچا اور استعمال کیا جائے تو ہرقسم کے تصور‘ تجزیہ‘ تشخیص اور علاج کی پوری تصویر ہی مغالطہ آمیز ہوجاتی ہے۔ اگر ہم محض اپنی پسند کے امیدوار کے بارے میں نہیں‘ بلکہ دہشت گردی کے پیچیدہ اور مختلف الجہت عمل کے متعلق واقعی کچھ جاننے کے خواہاں ہیں تو پھر ضروری ہے کہ اس کے وسیع پس منظر کو زیرغور لا کر اس کے مفہوم اور تقاضوں کا صحیح ادراک کیا جاسکے۔

۲-            اگرچہ دہشت گردی‘ ایک خوفناک حقیقت ہے لیکن مجموعی طور پر اس کا تصور نہایت ہی مبہم اور دھندلا ہے۔ Dictionary of International Affairs پینگوئن ۱۹۹۸ء (’لغت براے بین الاقوامی معاملات‘) میں اس صورت حال کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:

’دہشت گردی کی روک تھام کے لیے کوئی معاہدہ اس لیے طے نہیں پاسکا کہ سیاسی ترجیحات کے باعث اس کی تعریف مسائل کا شکار رہی۔ اگر ایک نقطہ نگاہ کے مطابق ایک شخص ’دہشت گرد‘ ہے تو دوسرے نقطۂ نگاہ کے مطابق یہ شخص ’آزادی کی خاطر لڑنے والا‘ ہے، اور یہی وجہ ہے بین الاقوامی قانون کے مطابق اس عمل کا احاطہ نہیں کیا جاسکا ہے۔

شمڈ نے اس اصطلاح کی ایک سو سے زائد مختلف تعریفیں بیان کی ہیں۔۲؎

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی ابھی تک اس اصطلاح کی کوئی متفقہ تعریف متعین نہیں کرسکی۔ ایک عمومی متفقہ رائے کے مطابق: ’’مخصوص سیاسی مقاصد اور مفادات کے حصول کی خاطر بے گناہ اور معصوم شہریوں اور دیگر غیرمتعلقہ افراد کے خلاف دانستہ پُرتشدد کارروائی ’دہشت گردی‘ کہلاتی ہے‘‘۔

جب سیاسی تنازعات کا پُرامن حل سامنے نہیں آتا اور لوگوں کو ظلم و ستم‘ غاصبانہ تسلط یا جارحیت کے خلاف جدوجہد پر مجبور کر دیا جاتا ہے تو ان حالات میں مزاحمتی تحریک پُرتشدد کارروائیوں کی طرف جانے پر مجبور ہوتی ہے اور اس جہت کے بارے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غیرملکی تسلط کے خلاف محکوم عوام کی جدوجہد‘ خواہ اس میں تشدد کا عنصر شامل ہو‘ کو کسی بھی متفقہ دستاویز کے ذریعے‘ دہشت گردی سے منسلک نہیں کیا جا سکا بلکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کثرت رائے سے اور غیر جانبدار تحریک کے اعلانات میں متفقہ طور پر یہ استثنیٰ کھلے الفاظ میںبیان کیا گیا ہے۔

’ریاستی دہشت گردی‘ کا معاملہ بھی ابھی تک بظاہر وجۂ تنازع ہے۔ یہ امر ناقابلِ فہم ہے کہ اس دہشت گردی کو صرف انفرادی اور گروہی رویوں اور اقدامات تک ہی محدود کردیا جائے اور دیگر اقوام اور حکومتوں کے اپنے ہی ملک کے عوام کے خلاف ریاست کی مطلق العنان طاقت کا استعمال اس میں شامل نہ کیا جائے۔اس مسلمّہ اصول کا اعادہ ضروری ہے کہ ریاست کی طرف سے طاقت کے استعمال کا اختیار ان کارروائیوں کی قانونی حیثیت سے مشروط ہے‘ لہٰذا فطری طور پر‘ ریاستی دہشت گردی کو ’دہشت گردی‘ کے کسی بھی ممکنہ تصور سے خارج نہیں کیا جاسکتا۔ جب ایک غیرملکی طاقت کسی ملک پر غاصبانہ تسلط جما لیتی ہے تو ان حالات میں محکوم افراد کی حق خود ارادیت اور حق آزادی کی خاطر کی جانے والی جدوجہد کی قانونی حیثیت کو کسی بھی صورت میں سیاسی تشدد کی دیگر اقسام کے مترادف قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ان حالات میں ریاستی حکام کی طرف سے مسلح افواج کا استعمال دہشت گردی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اسی طرح ریاست کی جانب سے  اس کے اپنے عوام کے خلاف ’جنگی جرائم‘ یا ’نسل کشی کے اقدامات‘ اور یا پھر شہروں اور دیہاتوں پر بم باری‘ا جتماعی سزا اور مخصوص شخصیات کی ہلاکت اور قاتلانہ حملوں پر مشتمل ‘ شہریوں پر بلاامتیاز تشدد کو کسی طرح بھی ریاستی طاقت کا جائز اور قانونی استعمال قرار نہیں دیا جاسکتا اور نتیجتاً اس ریاستی دہشت گردی کو دہشت گردی سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔

اسی طرح ایک ملک یا قوم کا دیگر ممالک اور اقوام کے خلاف جارحیت (وہ اقدامات جو اقوام متحدہ کے منشورکے مطابق نہیں ہیں) کو بھی دہشت گرد کارروائیوں کے زمرے میں لازمی طور پر شامل کرنا چاہیے۔  نیور مبرگ ٹرائلز (Nuremberg Trials) کے وضع کردہ اصول اور اقوام متحدہ کے منشور کے احترام کے ذریعے ہی ریاست کے قانونی اور جائز رویے کا ثبوت ملتاہے۔ اقوام متحدہ کے ایک پینل نے ۲۰۰۴ء میں اقوام متحدہ کے منشور کی شق نمبر ۵۱ کی غیرضروری مزید تشریح کے خلاف اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔

شق ۵۱ کے طویل عرصے سے سمجھے جانے والے مفہوم میں نہ کسی توسیع کی ضرورت ہے‘ نہ کسی تحدید کی … جس پر وہ قائم ہے‘ یک طرفہ من مانے اقدامات کی‘ اجتماعی طور پر اٹھائے جانے والے جائز اور متفقہ اقدامات کے مقابلے میں‘ قانونی حیثیت تسلیم کی جائے۔تو اس دنیا میں‘ جو ممکنہ خطرات سے ہر وقت گھری ہوئی ہے‘ عالمی نظام اور اصول عدمِ مداخلت کو خدشات لاحق ہو جائیں گے۔ کسی ایک فرد یا افراد کو اس قسم کے فعل کی اجازت دینے کا مطلب یہ ہے کہ ہر کسی کو ان کاموں کی کھلی چھٹی حاصل ہو گی۔

نیورمبرگ ٹریبونل (Nuremberg Tribunal) نے واضح الفاظ میں ’جارحیت‘ کی یوں تعریف کی:

ایک انتہائی وسیع پیمانے پر کیا جانے والا عالم گیر جرم، ’جنگی جرم‘ سے اس بنا پر مختلف ہے کہ اس میں بدی کی تمام قوتوں کی مشترکہ خواہش شامل ہوتی ہے۔

اس ٹریبونل میں امریکا کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل رابرٹ جیکس (Robert Jackson) نے جو‘ اس وقت امریکی سپریم کورٹ میں جج ہے‘ اپنے دلائل پیش کرتے ہوئے کہا:

کسی معاہدے کی خلاف ورزی جرم ہے‘ اور یہ فعل ہر حال میں ’جرم‘ ہی کہلائے گا خواہ اس کا مرتکب امریکا ہو یا جرمنی۔ ہم دوسروں کے لیے مجرمانہ طرزِعمل کے لیے کوئی اصول طے کرنے کے لیے تیار نہیں جس کا نفاذ ہم خود اپنے لیے پسند نہیں کرتے۔ ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ جس پس منظر کی بنیاد پر ہم مدعا علیہان کے خلاف فیصلہ دیتے ہیں‘ اسی پس منظر کی بنیاد پر تاریخ کل ہمارے متعلق فیصلہ کرے گی۔ اگر ہم ان مدعاعلیہان کو زہر کا پیالہ پینے پر مجبور کریں گے تو پھر کسی وقت ہمیں بھی اس زہر کے پیالے سے ایک گھونٹ پینا ہی پڑے گا۔۳؎

نیورمبرگ ٹریبونل کے متعین کردہ اصولوں کے مطابق ریاستی حکام کے لیے یہ انتہائی لازمی اور ضروری ہے کہ وہ انسانیت کے خلاف جرائم‘ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور دیگر ممالک کے خلاف جارحیت سے گریز اور اجتناب کریں۔ یہ وہ اصول ہیں جن کی اہمیت و افادیت اور ان پر عمل درآمد کی ضرورت‘ وسط بیسویں صدی کی نسبت‘ آج بہت زیادہ ہے۔ دہشت گردی کے عمل کو کسی ایک فرد یا گروہ کی کارروائیوں تک محدود نہیں کیا جاسکتا‘ بلکہ ریاستی دہشت گردی کی کارروائیوں کو بھی اسی معیار پر پرکھنا چاہیے۔

۳- تاریخ سے یہ سبق حاصل کرنا بھی مشکل نہیں ہے کہ دہشت گردی کا عمل محدود مدت کے لیے ہوتا ہے۔ تمام ادوار اور تمام علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں لیکن یہ عمل حالات کے بدلنے اور تصادم کے اسباب کے ختم ہوجانے کے بعد آپ سے آپ ختم ہو جاتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردی کا عمل محدود بھی رکھا جا سکتا ہے اوراس کی روک تھام بھی کی جاسکتی ہے لیکن یہ محض قوت کے بے محابا استعمال سے ممکن نہیں، بلکہ دہشت گردی کی ہر مختلف نوعیت کو اس کے سماجی اور تاریخی پس منظر میں دیکھنا چاہیے اور اس کو محدود کرنے‘ اس کی روک تھام کرنے یا اس کو ختم کرنے کے لیے مناسب اور بہتر تدابیر اختیار کرنی چاہییں۔ اکثروبیش تر‘ جب معاشرے میں بحرانوں کو دُور کرنے اور تنازعات حل کرنے کے سیاسی اور افہام و تفہیم کے عمل میں ناکامی ہوتی ہے تو بالآخر دہشت گردی کسی نہ کسی شکل میں سامنے آتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ انتقامی رویہ اور محض قوت کے ذریعے اسے ختم کرنے کی حکمت عملی زیادہ کارگر نہیں ہوسکتی ‘ بلکہ حقیقتاً ‘ اس کے نقصانات کہیں زیادہ ہیں۔ اپنی تمام تر پیچیدگیوں کے باوجود‘ دہشت گردی کا یہ مسئلہ صرف اور صرف مؤثر‘ سیاسی اور کم سے کم نقصانات کی حامل تدابیر کے ذریعے ہی حل کیا جاسکتا ہے، جس میں اصل اہمیت تشدد کے اسباب کو دور کرنے کو دی جائے۔ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے انتقامی جذبے قتل و غارت‘ طاقت کے غرور اور یک طرفہ طرزعمل پر مبنی طریقوں کے ذریعے ناکامی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ بلکہ بعض اوقات تویہ اقدام معکوس نتائج دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دانش ور‘ تجزیہ نگار اور منصوبہ ساز ادارے امریکا کی طرف سے شروع کی گئی موجودہ عالم گیر ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں‘ جو ۱۱ ستمبر کے حادثے کے بعد شروع کی گئی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ حساب لگایا جائے کہ اس حکمت عملی کے ذریعے کیا کچھ حاصل ہوا اور اس کے لیے امریکا اور دنیا کی دیگر اقوام کو کیا قیمت اداکرنی پڑی۔ اگر اس جنگ کے پانچ سال ہو جانے پر یہ جو تبصرے عالمی پریس میں آتے ہیں ان کا جائزہ لیا جائے تو ۹۰ فی صدی تجزیوں کا حاصل یہ ہے کہ امریکا کی دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد جنگ کے نتیجے کے طورپر دنیا کے لیے زیادہ غیر محفوظ، تشدد کے استعمال میں غیرمعمولی اضافہ اور انسانی جان اور مال کے زیاں میں محیرالعقول اضافہ ہوا ہے یعنی ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے حادثے میں   جان بحق ہونے والے ۳ہزار افرادکے مقابلے میں ان پانچ سالوں میں ردعمل میں کی جانے والی جنگ میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ انسان موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں اور ابھی اس تباہی کے ختم ہونے کے کوئی آثار نہیں۔

ایک فرانسیسی دانش ور ایمینیول ٹاڈ (Emmanuel Todd)کے دل چسپ تبصرے پر سنجیدگی سے غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے جو ۲۰۰۴ء میں میڈرڈ سانحے کے بعد اسپین کی پالیسی میں تبدیلی کے تناظر میں کیا گیا: ’’میں اپنی بات ایک خوش گوار نکتے پر ختم کروں گا۔ اسپینی افواج کا عراق سے انخلا امید کا پیغام ہے۔ بش کی جنگی مہم کا نتیجہ یہ نکل سکتا تھا‘ یا یہ نکلنا مقصود تھا کہ تشدد کا مسلسل بڑھتا ہوا اور پھیلتا ہوا منحوس چکر شروع ہوجائے۔ اگر اسپینی‘ اطالوی‘ جاپانی‘ برطانوی اور دیگر اقوام پر ایک بار بھی حملہ ہو‘ تو ان کی آبادیاں نہ ختم ہونے والی جنگ کی منطق کے آگے شکست تسلیم کرلیں گی۔ جب حملہ آوروں نے ۱۱مارچ ۲۰۰۴ء کو میڈرڈ پر حملہ کیا تو کوئی نہیں جانتا تھا کہ اسپینی عوام کا ردعمل کیا ہوگا۔ اسپینی عوام عظیم جھوٹ کو تسلیم کرسکتے تھے‘ یعنی یہ تصور کہ عراق پر حملے کا مقصد دراصل دہشت گردی کے خطرے کو کم کرنا تھا۔ اسپین کا دہشت گردی کے خلاف ردعمل نسلی تعصب پر مبنی نفرت کی ایک لہر اور امریکا کے ساتھ زیادہ قریبی تعلقات بھی ہوسکتا تھا۔ جنگ کے ابتدائی سبب کو بھول جانا (خاص طور پر‘ سبب نہ ہونے کی موجودہ صورت میں)‘ اور قدیم جنگوں کی طرح کے منحوس چکر میں پھنس جانا بہت آسان ہوتا ہے۔ غالباً پہلی جنگ عظیم اس کی بہترین مثال ہے۔ یہ قومی مفادات کے حصول کے لیے معقول کوشش سے آگے بڑھی لیکن جلد ہی یہ ایک بے مقصد خونی غسل میں تبدیل ہوگئی۔ مغربی اقوام سب کچھ کھونے کے بعد بھی برسوں جنگ لڑتی رہیں۔ اسپین میں اس کے برعکس ہوا۔ اسپینی ووٹرز نے اپنے وزیراعظم ازنار (Aznar) سے نجات حاصل کی۔ زیپٹیرو (Zapatero) نے عراق سے اسپینی افواج واپس بلالیں۔ بڑھتا ہوا تشدد‘جس کی بہت سے لوگوں کو توقع تھی‘ اور کچھ اس کی امید لگائے بیٹھے تھے‘ اس کا چکر توڑنے کے لیے اسپین کا یہ قدم شاید کافی ہو‘ اور غالباً ہم اسپین کے عوام کے اس سے زیادہ رہینِ منت ہیں جتنا کہ ہم سمجھتے ہیں‘ بش کے الفاظ استعمال کیے جائیں تو ان کا ووٹ‘ ان کا فیصلہ یقینا نیکی کی بدی پر فتح ہے‘‘۔ (After the Empire: The Breakdown of the American Order, Emmanuel Todd, Constable and Robinson, U.K., 2004, p 210-211))

۴- یہ حقیقت تو سب کو معلوم ہونی چاہیے کہ عام مسلمان شہریوں نے بالعموم اور سرکردہ مسلم علما اور اسلامی تحریکوں کے قائدین نے بالخصوص ابتدا ہی سے ایک آواز ہوکر‘ ۱۱ ستمبر کے اندوہناک واقعے سمیت‘ انسانیت کے خلاف حقیقی دہشت گردی کی تمام کارروائیوں کی مذمت کی ہے لیکن مسلمانوں کے علاوہ بھی اس دنیا میں بسنے والے دیگر افراد کو بشمول امریکی اور یورپی شہریوں کے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر کھیلے جانے والے ڈرامے کے متعلق شدید خدشات لاحق ہیں۔ ان کے نزدیک امریکا اور اس کے اتحادیوں کی یہ تمام کارروائی بھی کسی مجرمانہ فعل سے کم نہیں ہے اس لیے کہ اس کی بدولت لاکھوں معصوم اور بے گناہ مرد و زن موت کی نیند سو چکے ہیں۔ وہ سرعام یہ پوچھتے ہیں کہ کیا دہشت گردی کے خلاف جنگ اس طرح لڑی جاتی ہے جس طرح امریکا کی موجودہ قیادت لڑ رہی ہے؟ کیا دہشت گردی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے بہت ہی مختلف اور کثیرالجہتی حکمت عملی کی ضرورت نہیں ہے؟ کیا دہشت گردی کا واضح پس منظر اور وجوہات جانے بغیر اس کے خلاف اقدامات درست ہیں؟ یقینا‘ یہ حقیقت تو کسی سے پوشیدہ نہیں کہ مقصد کے واضح تعین کے بغیر‘ دہشت گردی کے خلاف اقدامات نہیں اٹھائے جاسکتے ہیں‘ بصورت دیگر‘ یہ تمام عمل‘ یہ تمام اقدامات‘ یہ جنگ ہوا میں تلوارچلانے اور سایوں کا تعاقب کرنے کے مترادف ہے‘ جس کے باعث فکری تنازعات کے علاوہ سیاسی ابتری اور اندھے کشت و خون میں بھی اضافہ ہوتا ہے‘ اور پھر بالآخر عدمِ استحکام، سیاسی انتقام اور فساد فی الارض میں اضافے کے مناظر سامنے آجاتے ہیں۔

اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ دہشت گردی اور افراد کی جانب سے طاقت کے استعمال مثلاً بین الاقوامی قانون کے مطابق جنگ یا آزادی کے لیے حقیقی جدوجہد کے مابین تفریق کی جائے۔ ان کارروائیوں کو بلاامتیاز‘ دہشت گردی قرار دینے کا عمل‘ جیساکہ فلسطینی تحریک مزاحمت (بطور ایک مثال کے) کے سلسلے میں کیا جا رہا ہے‘ وہ نہایت ہی غلط بلکہ ضرررساں ہے۔ درحقیقت‘ آزادی کی ایسی ہی تحریکوں کو اگر ’دہشت گردی قرار دینے کی اجازت دے دی جائے تو پھر تاریخ کو ازسرنو تحریر کرنا پڑے گا جس کے مطابق جارج واشنگٹن اور نیلسن منڈیلا جیسے انسانیت کے محسن بھی دہشت گردقرار پائیں گے۔

اسی طرح‘ دہشت گردی کی تمام کارروائیوں کو یکساں قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ کارروائیاں‘ اپنی نوعیت‘ پس منظر‘ مقاصد اور محرکات کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہیں۔ ان حالات کو ٹھیک کیے بغیر جن کی وجہ سے دہشت گردی کا ظہور ہوا ہے‘ ان اسباب کو دُور کیے بغیر جو ان کو مخصوص آہنگ دیتے ہیں‘ اور ناانصافیوں اور ظلم و ستم کو ختم کیے بغیر جس نے کمزوروں کو اٹھ کھڑے ہونے پر آمادہ کیا ہے‘ دہشت گردی کو نشانہ بنانا فاش غلطی ہوگی۔ طاقت کی عدم مساوات اور تنازعات کے تصفیے کے لیے معقول طریقے کا انکار وہ حقائق ہیں جن کو نظرانداز کرنا ہمارے اور یورپی دنیا کے لیے خطرے سے خالی نہیں۔ اس المیے، کہ اس کے باعث لوگ بغاوت پر آمادہ ہوجاتے ہیں‘ کی نوعیت اور حدود کے متعلق آگہی اور سیاسی مقاصد کے لیے پُرتشدد ذرائع استعمال کرنے کے رجحان کی وجوہات اور حقائق کی چھان بین‘ لازمی ہے۔

یہ حقیقت تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ’دہشت گردی‘ ایک پیچیدہ عمل ہے اور اس کے حل کے لیے کسی یک رخی حکمت عملی کے لیے ناکامی مقدر ہے۔ اس سے صورت حال مزید سنگین ہوسکتی ہے جیسا کہ ہماری موجودہ صورت حال بتا رہی ہے۔

۵- دہشت گردی کسی مسئلے کے حل کی ضامن نہیںہے بلکہ اس مسئلے کے حل کے لیے ایک تدبیر اور سیاسی عمل کی طرف رجوع ضروری ہے، خود دہشت گردی کو اگر ایک نظریے کی حیثیت دے دی جائے جیساکہ بعض حلقوں میں کہا جا رہا ہے‘ تو پھر یہ معاملہ انتہائی خطرناک حد تک الجھ جاتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دہشت گردانہ کارروائیوں کو منصفانہ قرار دینے کے دلائل خود مغرب کی فلسفیانہ سیاسی اور  حتیٰ کہ اخلاقی اور مذہبی پس منظر کی پیداوار ہیں۔

سائسرو (Cicero) سے لے کر جس نے کہا تھا: ’’قتل کرنا ایک نیکی ہے‘‘، یورپ میں ابتری پھیلانے والوں‘ روس میں بائیں بازو کے انقلابیوں (John Most's Revolutionary War Science, 1885)‘ مقدس مائیکل برے کے A Time to Kill (USA, 1980) تک‘اس نوعیت کے لٹریچر کی کوئی کمی نہیں۔ گو حتمی تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے دفاع میں یہ لٹریچر بھی اسے فی الحقیقت ایک تدبیر سے زیادہ مقام نہیں دیتا۔ یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ ان سارے علمی اور فلسفیانہ مباحث کا حاصل بھی اس سے مختلف نہیں۔ دہشت گردی بہ نفس نفیس نہ کسی مسئلے کا حتمی حل ہے اور نہ یہ کوئی مستقل نظریہ ہے۔

دہشت گردی کی تشریح کے ضمن میں ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے مرتکب افراد   اس کوشش میں ہیں کہ دہشت گردی کو محض ایک تدبیر کے بجاے ایک نظریے یا اصول کے طور پر پیش کرکے اس مسئلے کو الجھا دیا جائے تاکہ دنیا کے سامنے اس کا کوئی واضح تصور نہ پیش کیا جاسکے۔  وہ دہشت گردی کی جڑیں مسخ شدہ مذہبی رجحانات میں تلاش کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ اس کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں کیونکہ اس کے سبب دہشت گردی کی حقیقی وجوہات اور اس کے وقوع اور بڑھاوے کا باعث بننے والے فیصلہ کُن پالیسی امور کے بجاے اس کا رُخ اقدار کے مابین تنازعہ اور تہذیبوں کے ٹکرائو کے خیالی تصورات کی طرف موڑا جا سکتا ہے۔۴؎  اس سلسلہ میں امریکا کے نوقدامت پسند (Neo-cons) ازخود صدر بش جو گل افشانیاں کر رہے ہیں وہ بڑی خطرناک اور دنیا کو نہ ختم ہونے والے تصادم اور تباہی کی طرف لے جانے والی ہیں۔ اس سلسلے میں بش اور بلیر کی "evil ideology" اور Islamo-fascism کی لن ترانی بڑے خطرناک نتائج کی حامل ہوسکتی ہے۔

شکاگو یونی ورسٹی کے ایک پروفیسر رابرٹ اے پیپ (Robert A Pape) نے اپنے ایک تحقیقی جائزے میں دہشت گردی کی ایک ذیلی صِنف ’خودکش بم دھماکوں پر انتہائی چشم کشا تحقیقی و تجزیاتی روشنی ڈالی ہے۔ اس تحقیقی جائزے کا عنوان Dying to Win (موت کے ذریعے جیت) ہے اوراس کا لوازمہ ۱۹۸۰ء سے ۲۰۰۳ء تک ہونے والے ’خودکش حملوں‘ کے متعلق معلومات و اعداد و شمار پر مشتمل ہے جسے کتابی شکل میں حال ہی میں خود امریکا سے شائع کیا گیا ہے۔ مصنف کہتا ہے کہ: ’خودکش حملوں کے ذریعے دہشت گردی اور اسلامی بنیاد پرستی کے مابین قائم کیے جانے والا فرضی تعلق گمراہ کن ہے۔ پروفیسر رابرٹ پیپ کے مطابق:

معلوماتی مواد اور اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ خودکش حملوں کے ذریعے دہشت گردی اور اسلامی بنیاد پرستی‘ یا کسی دیگر مذہب کے مابین براے نام تعلق ہے۔ درحقیقت‘ خودکش حملوں کے بانی سری لنکا کے تامل ٹائیگرز ہیں۔ یہ گروپ مارکس اور لینن کے افکار کا پیرو ہے اور گو اس کے ارکان کا تعلق ہندو گھرانوں سے ہے لیکن یہ لوگ مذہب کے سخت مخالف ہیں۔ یہ گروپ خودکش حملوں کے مجموعی ۳۱۵ واقعات میں سے ۷۶واقعات میں ملوث ہے‘ جب کہ حماس کا نام اس فہرست میں بہت نیچے ہے… البتہ ان تمام خودکش حملوں میں جو عنصر مشترک نظر آتا ہے‘ وہ مخصوص غیرمذہبی اور سیاسی اہدافی مقاصد ہیں‘ تاکہ جدید جمہوری حکومتوں کو اپنے علاقوں سے مسلح فوج واپس بلانے پر مجبور کیا جائے جو بقول ان کے‘ ان کا وطن ہے۔ اگرچہ دہشت گرد تنظیمیں اپنے وسیع مقاصد و اہداف حاصل کرنے کے لیے‘ مذہب کو اکثر ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں‘ لیکن مذہب‘ خودکش حملوں کی بنیادی وجہ نہیں ہے۔۵؎

ایک طرف دہشت گردی کے اس عمل کے نفسیاتی پہلو‘ حتیٰ کہ اس کے انفرادی کرداروں کے ممکنہ ذہنی رجحانات سمیت‘ تمام پہلوئوں کا تحقیقی اور تجزیاتی مطالعہ نہایت مفید ہے‘ تو دوسری طرف اس کے سیاسی‘ ترکیبی اور پس پردہ منظرنامے کو مدنظر نہ رکھا جائے تو یہ غیرحقیقت پسندانہ ہوگا۔ یہ تو درست ہے کہ تحریکی اور بنیادی عناصر کا لازمی طور پر مطالعہ اور تجزیہ کیا جانا چاہیے لیکن ہرچیز کو چھوڑ کر‘ صرف اس کی ’ہیئت ترکیبی‘ اور ’سیاسی‘ صورت حال ہی کو پیش نظر رکھنا‘ ایک غلط‘ فریب کن اور غیرمفید رجحان ہے۔ تشدد پر اُبھارنے والی بنیادی اوراہم وجوہات سے اگر صرفِ نظر کیا جائے تو یہ رویہ دہشت گردی کے تصور سے حقیقی آگہی اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے مناسب اور بہتر حکمتِ عملی اختیار کرنے میں سدِّراہ ہوگا۔

ہمیں حقیقی مسائل کا سامنا کرنا چاہیے۔ یہ مسائل سیاسی ناانصافیوں اور ان رویوں اور پالیسیوں سے تعلق رکھتے ہیں کہ جن کے باعث عوام اتنے غضب ناک ہوجاتے ہیں کہ وہ بے بسی‘ رسوائی اور مظلومیت کی زندگی پر موت کو ترجیح دینے لگتے ہیں۔ جب تک ظلم کی یہ صورت نہیں بدلتی اور طاقت ور عناصر و اقوام کا یہ غلط رویہ اور رجحان تبدیل نہیں ہوتا‘ حالات تو یہی ظاہر کرتے ہیں کہ ’دہشت گردانہ کارروائیاں‘ اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا عمل متوازی طور پر جاری رہے گا اور امن و سکون کا حصول محال ہوگا۔

جہاد کے متعلق مختلف نظریات اور پھر تصور شہادت‘اور اس کے ساتھ ساتھ مساجد اور مدرسے بطور اداروںکے‘ ہمیشہ ہی سے موجود ہیں۔ ’انتہا پسند‘ اور ’مسخ شدہ‘ تعبیرات تاریخ میںنادر نہیں ہیں۔ ہر مذہب‘ ہر نظریاتی جماعت اور ہر سیاسی و سماجی نظام میں یہ سر اٹھاتی رہی ہیں۔    آج جن مقدس آیات اور اداروں پر دہشت گردی کا الزام لگایا جاتا ہے‘ ان کی موجودگی کے   باوجود‘ کرۂ ارض پر ایک عرصے سے امن و امان اور باہمی ہم آہنگی کی فضا قائم رہی ہے‘ اس لیے دہشت گردی کی تنظیم اور قوت میں جو اضافہ ہو رہا ہے‘ اس کی وجوہ لازمی طور پر کہیں اور موجود ہیں اور وقت کا تقاضا ہے کہ ان کو تلاش کیا جائے اور منظرعام پر لایا جائے اور کسی خاص مذہب یا چند مذہبی تصورات میں ان کا سراغ لگانے کی غیر حقیقت پسندانہ اور شرانگیز مساعی سے اجتناب کیا جائے۔

۶- اس وقت امریکا کی طرف سے جاری ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے باعث ہونے والے تصوراتی/ ادراکی‘ سیاسی اور انسانی نقصانات کے متعلق غوروفکر اور ان کا تجزیہ‘ نہایت ہی اہم ہے۔ کتنے بے گناہ شہری ان دہشت گردانہ کارروائیوں کا شکار ہوئے ہیں اور ’دہشت گردی کے خلاف اس جنگ‘ کے باعث کتنے افراد ہلاک ہوئے ہیں؟ کیا یہ جنگ ’دہشت گردوں کو ختم کرنے میں کامیاب رہی ہے؟ یا اس جنگ کے باعث ’دہشت گردوں‘ کی تعداد پہلے سے بہت زیادہ بڑھ چکی ہے؟ امریکا ان ممالک میں کن نظروں سے دیکھا جاتا ہے جن کو بزعم خود فائدہ پہنچانے کے لیے اس نے ان ممالک پر حملے کیے تاکہ ملزم دہشت گردوں کو تباہ و ہلاک کیا جاسکے اور پھر عوام کو ’حکومت کی تبدیلی‘ اور’قومی تعمیر‘ کا تحفہ پیش کیا جائے؟ کیا امریکا نے دنیا کے عوام کی نظروں میں اعتماد‘ محبت اور عزت حاصل کی؟ یا امریکا نے اپنے انسانیت دشمن اقدامات کے باعث نہایت تیزی سے تمام دنیا کے افراد کی نفرت و عداوت سمیٹ لی ہے؟ اور دنیا کو ایک ایسی      خون آشام حالت کی طرف دھکیل دیا ہے جہاں سلامتی اور تحفظ کے ساتھ زندگی بسر کرنا ممکن ہی نہیں رہا؟ اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ دنیا کے وسیع خطے جو اس ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے پہلے سیاسی طور پر نہایت پُرامن تھے‘ اب وہی خطے دہشت گردی اور مسلسل تصادم،   خون ریزی اور جنگ و جدل کی خونی آماجگاہ بن چکے ہیں۔ جو بے اطمینانی چند علاقوں تک محدود تھی‘ اس نے تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور جس ایک اسامہ بن لادن کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لیے عالمی یورش کی گئی تھی اس کے نتیجے میں ہزاروں اسامہ وجود میں آگئے ہیں اور دہشت کسی ایک علاقے تک محدود رہنے کے بجاے زمین کے طول وعرض میں پھیلتی جارہی ہے۔

۷- متذکرہ بالا مسائل و معاملات کے علاوہ دیگر کچھ ایسے بنیادی معاملات و مسائل ہیں جو تمام دنیا کے عوام‘ خصوصاً امریکی عوام کو دعوتِ فکر دے رہے ہیں۔ وسیع پیمانے پر بنیادی حقوق کی خلاف ورزیاں‘ خاص طور پر تخلیہ کا حق‘ قانونی عمل کے بغیر گرفتاری سے آزادی کا حق‘ جب تک مجرم ثابت نہ ہو‘ بے گناہ تصور کیے جانے کا حق‘ مدعا علیہان کا اپنی پسندکے مطابق وکیل کے ذریعے اپنی صفائی پیش کرنے کا حق‘ ان حقوق کی کھلی خلاف ورزیاں ہوش اُڑا دینے والی ہیں۔ ۱۱ستمبرکے بعد سے بہت سے افراد کو کسی مقدمے کے بغیر ہی گرفتار کرکے قیدوبند میں ڈال دیا گیا ہے۔ کسی بھی قانونی عدالت سے سزا پانے والے افراد کی شرح‘ بُش انتظامیہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے ایک اوردھچکا ہے۔ ۳ ہزار سے زیادہ صرف شبہے کی بنیاد پر گرفتار ہونے والوں میں سے صرف چند ایک کو رسمی طور پر ہی فردِ جرم سنائی گئی ہے۔ ان حقوق کی خلاف ورزی کے ذریعے قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں اور کئی ممالک بشمول امریکا میں آئین کی بالادستی ایک حد تک عملاً ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ امریکا اور اس کے ’اتحادی‘ ممالک میں ’حب وطن‘ اور ’قومی تحفظ‘ کی آڑ میں عام مرد و زن کی شہری آزادیوں کے ساتھ بالعموم اور مخصوص مذہبی شخصیات اور اقلیتی جماعتوں کے ساتھ بالخصوص‘ کس قسم کا کھیل کھیلا جا رہا ہے؟ انسانی عظمت کی اقدار‘ تمام بنی نوع انسان کے برابر حقوق‘ مہذب رویے کو اپناتے ہوئے ہر ایک کے ساتھ ایک قانون کے مطابق سلوک اختیار کرنے کا حق‘ یہ سب حقوق نئے نئے خطرات کی زد میں آچکے ہیں اور مسلسل پامال ہو رہے ہیں۔اور کیا صرف گوانتاناموبے‘ ابوغریب اور بگرام ہی رستے ہوئے ناسور ہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ’مجرموں‘ کی حوالگی اور ’زبردستی تفتیش‘ جیسے غیرمہذب افعال نے اس مہذب دنیا کے کئی ممالک کو آلودہ کردیا ہے؟Huxley's Brave, Orwell's 1984, New World اورSolzhenitsyn's Gulagکے روح فرسا واقعات ’آزاد دنیا‘کی جنت کے خوش کن تصور کو ہوا میں تحلیل کر رہے ہیں۔

امریکا اور اس کے اتحادیوں کی ہوس ملک گیری اور معصوم و بے گناہ انسانوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے باعث‘ اس کرۂ ارض پر صدیوں سے مروج بین الاقوامی قانون اور پھر جنگ اور امن کے ادوار میں مہذب اخلاقیات کا نظام‘ اب خطرناک حد تک اپنی موت کی طرف رواں دواں ہے۔

بین الاقوامی قانون اور جنگ اور امن میں مہذب رویے کے بارے میں جو کچھ اتفاق راے صدیوں میں حاصل ہوا تھا‘ وہ سب خطرے میں ہے۔ مقامی اور بین الاقوامی قوانین کے  نت نئے اور ناتراشیدہ تصورات کا یک طرفہ اور من مانے طور پر تعین بھی کیا جا رہا ہے اور عملاً انھیں لاگو بھی کردیا گیا ہے۔ طاقت ور ممالک، دوسرے ممالک اور اقوام کو اپنی دھونس کے ذریعے صرف اس لیے کچلنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ کمزور ہیں۔ ایک بار پھر اس کرئہ ارض کے اُفق پر سامراجی اور غاصبانہ تسلط اور بالادستی کے منحوس سائے لہرا رہے ہیں۔ قومی خودمختاری کا تقدس ختم ہونے کو ہے اور بین الاقوامی حدود کی پابندی اب گئے وقتوں کی بات ہے۔ اقوام متحدہ روز بروز بے معنی ہوتی جارہی ہے۔ اقوام متحدہ میں متعین امریکی نمایندے مسٹر بولٹن نے یہ کہنے کی جسارت کی ہے کہ اقوام متحدہ اجازت دے نہ دے‘ امریکا ایران پر حملہ کرنے کا حق رکھتا ہے۔ دیگر ممالک میں یک طرفہ مداخلتیں اور زبردستی حکومتی تبدیلی‘ جائز قرار دے دی گئی ہے۔ طاقت ور اقوام کے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے ’اپنے دفاع‘ (self defence) کے تصور کو نئے معنی پہنائے جا رہے ہیں۔ امن اور بین الاقوامی طاقتی توازن کے لیے خطرہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے اور زیادہ سے زیادہ پُرتشدد تنازعات کے امکانات روزافزوں ہیں۔

ان تمام حالات کا اثر مختلف ممالک کے اندر بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں عوام اور مختلف گروہ حکومتی ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کو کئی ایک ممالک اپنے ہی عوام کو کچلنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ بلاشک و شبہہ‘ اس ’جنگ‘ کے ’ضمنی‘ (collateral) نقصانات خوفناک تناسب سے بڑھتے ہی جارہے ہیں اور اب انہیں محض ضمنی سمجھنا خوفناک غیر حقیقت پسندی ہو گی!!

۸-  ایک بنیادی سوال جس کا ہر پہلو سے جائزہ بہت ہی ضروری ہے‘ دہشت گردی کے خلاف مبینہ جنگ میں فوجی حکمت عملی کی حدود سے متعلق ہے۔ کیا صرف فوجی طاقت اور بندوق کے بل بوتے پرہی دہشت گردی کو ختم کیا جا سکتا ہے؟ کیااس ’ بے نام و نشان دشمن‘ سے صرف اسی طریقے سے نمٹاجاسکتا ہے؟کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ دہشت گردی کے اس عمل کے رونما ہونے کی وجوہات اور ذمہ دار عناصر کو سمجھنے اور ان کو دُور کرنے کے لیے متبادل طریقے استعمال کیے جائیں؟ ہم کب تک کسی مسئلے کی جڑوں تک پہنچنے کے بجاے اس کی شاخوں سے الجھتے رہیں گے؟ اصل مسئلہ تسلط‘ ظلم و ستم اور ناانصافی کے خلاف مزاحمت نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ تو بذاتِ خود تسلط‘ ظلم وستم اور ناانصافی ہے جس کے باعث مزاحمت پیدا ہوتی ہے۔ اگرہم مزاحمت کی وجوہ جانے بغیر اس کو نشانہ بناتے ہیں تو ہم کیوں کر کامیاب ہوسکتے ہیں؟ جب صرف مزاحمت اور مبنی برحق مزاحمت ہی کوختم کرنے پر کمر باندھ لی جائے اور اصل، حقیقی اور خوفناک حقائق کو نظرانداز کردیا جائے جن کے باعث آزادی اور انصاف کے حصول کے لیے کوشش میں اضافہ ہوجاتا ہے‘ تو یہ عمل بے سود ثابت ہونے کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔ درحقیقت یہ تمام عمل‘ دہشت گردی اور نفرتوں کو مزید فروغ دینے کا مجرب نسخہ ہے  ع

مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

وقت کا تقاضا یہ ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے روایتی نقطۂ نظر کو تبدیل کیا جائے اور براے نام تبدیلیوں کے بجاے اصل مسائل کے حل کی طرف توجہ مرکوز کی جائے۔ کھوکھلے الفاظ کے بجاے ہماری حکمت عملیاں منطق اور استدلال پر مبنی ہونا چاہییں۔ صرف یہی ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے یہ دنیا ہم سب کے لیے امن و امان کا گہوارہ بن سکتی ہے۔

۹- متذکرہ بالا تفصیلی تحقیق و تجزیے کے بعد ہمارے لیے اس بنیادی سوال کونظرانداز کرنا ممکن نہیں ہے جس کا تعلق قانون کی حکمرانی اور ایسے عالمگیر نظام کے قیام سے ہے جس کے ذریعے ہر فرد، گروہ اور قوم کو انصاف اور یکساں مواقع حاصل ہوسکیں۔ تسلیم شدہ اور متفقہ بین الاقوامی طریقہ کار کے مطابق تنازعات کا پُرامن حل‘ عالمی امن اور ہم آہنگی کے لیے پیشگی شرط ہے۔ اس تناظر میں عالم گیریت کے پیدا کردہ اہم مسائل اور تہذیبوں کے تصادم کے نظریات اور کارروائیوں سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ عقائد و نظریات اور تہذیب و تمدن کا تعدّد (plurality) ایک حقیقت ہیں۔ یہ حقیقت اتنی ہی قدیم ہے جتنی تاریخ۔ باہمی بقا‘ تعاون اور خیالات‘ نظریات اور تہذیبوں کے درمیان مسابقت ایک قدرتی بلکہ صحت مند عمل ہے جس کی وجہ سے انسان کی ترقی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ جب حقیقی تکثیریت کو مسلّمہ حیثیت نہیں دی جاتی تو پھر یہ نااتفاقی‘ تنازعہ‘ ٹکرائو اور جنگ کا ذریعہ بن جاتی ہے پر ایک مخصوص اور یک طرفہ نظریہ اور عقیدہ یا سیاسی اور معاشی نظام دوسروں پر مسلط کیا جاتا ہے۔ اگر بزورِ طاقت‘ دیگر اقوام پر اقدار مسلط کردی جائیں‘ استحصال‘ قبضے یا مداخلت کے ذریعے ان کے وسائل ان سے چھین لیے جائیں تو پھر فساد‘ جھگڑا اورتلخی کا رونما ہونا  ناگزیر ہے۔ جب بالادستی پر مبنی ایک نظام دیگر اقوام کے سر منڈھ دیا جاتا ہے اور ان ممالک اور عوام کو محکوم بنا لیا جاتاہے تو بغاوت کے جذبات کا پیدا ہونا فطری امر ہے‘ جس کی بدولت عدم تحفظ‘ عدم استحکام‘ تلخیاں اورجھگڑے‘ جنگ‘ لاتعداد دہشت گرد کارروائیاں اور انتقامی جذبات اُبل پڑتے ہیں۔

وسیع تر تناظر میں امن، سلامتی اور حق پرستی کا جذبہ رکھنے والے تمام افراد کو یہ محسوس کرنا چاہیے کہ عالم گیریت کے موجودہ مرحلے میں ایک دوسرے کا بے لوث احترام‘ مختلف اقوام کے نظام حیات‘ مذاہب اور ثقافت کی توقیر‘ اور پھر ہرقسم کے بالادستی اور نوآبادیاتی مہم جوئی سے تحفظ ہی کے ذریعے اس کرۂ ارض پر تحفظ و سلامتی اور امن قائم کیا جا سکتا ہے۔

اس بحث کے تناظر میں ’تہذیبوں کے تصادم‘ کے متعلق موجودہ بحث کا کریڈٹ سیموئیل ہن ٹنگٹن کو جاتا ہے۔ اس کی کتاب اس طرح کے تصادم کے لیے ایک دعوت کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔ بہرحال‘ اس کتاب میں چند ایک واضح نکات ایسے بھی ہیں جن پر نہایت سنجیدگی سے غوروفکر کی ضرورت ہے۔ وہ لکھتا ہے:

تاریخی لحاظ سے دہشت گردی کمزور (افراد /اقوام) کا ہتھیار ہے‘ یعنی وہ افراد یا اقوام جو روایتی مسلح طاقت سے محروم ہوتے ہیں۔۶؎

مطلب صاف ظاہر ہے‘ اگر طاقت ور قانون کی حکمرانی‘ انصاف اور مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل کا راستہ اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں‘ تو پھر دہشت گردی کو اُبھرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

اسی طرح اسلام اور مغرب کے درمیان مبینہ تصادم کے بارے میں ہن ٹنگن کہتا ہے:

مغرب کا اصل مسئلہ اسلامی بنیاد پرستی نہیں ہے بلکہ مغرب کے لیے اصل مسئلہ ’اسلام‘ ہے جس کے پیروکار اپنی تہذیب کی عظمت پر فخر کرتے ہیں اور طاقت کے لحاظ سے اپنی کم تری کے احساس کا شکار ہیں۔ اسی طرح سلام کے لیے سی آئی اے (CIA)یا امریکی محکمہ دفاع مسئلہ نہیں ہے بلکہ خود ’مغرب‘ اصل مسئلہ ہے، جہاں کی تہذیب مختلف ہے‘اور لوگ اپنی ثقافت کے عالم گیر ہونے پرنہ صرف یہ کہ یقین رکھتے ہیں بلکہ ان کا خیال یہ ہے کہ ان کی بالاتر طاقت‘ خواہ روبہ زوال ہی کیوں نہ ہو‘ ان پر یہ فرض عائد کرتی ہے کہ اپنی تہذیب و ثقافت کو تمام دنیا میں پھیلا دیں۔ یہ وہ بنیادی عناصر ہیں جو اسلام اور مغرب کے درمیان تنازعے کو ایندھن فراہم کرتے ہیں۔۷؎

ہن ٹنگٹن کے نظریے میں صرف ادھوری حقیقت بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بلاشبہہ اسلام اور مغرب دو مختلف تہذیبوں کی نمایندگی کرتے ہیں لیکن اس کی یہ بات انتہائی غلط اور گمراہ کن ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے اور ایک دوسرے کو نیست و نابود کرنے کے لیے آپس میں جنگ کرنی چاہیے۔ ایک دوسرے سے مختلف ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ایک دوسرے سے ضرور جنگ کی جائے۔ جھگڑا اور فساد تب پیدا ہوتا ہے جب زیادہ طاقت ور فرد یا قوم‘ اپنی بالادست قوت کے ذریعے دوسروں پر اپنی اقدار اور حکمرانی مسلط کرنے کا حق جتاتی ہے۔ یہ صرف ’اپنی ثقافت کو تمام دنیا میں پھیلانے کے اسی مبینہ فرض‘ کا شاخسانہ ہے جس کے باعث جھگڑا اور فساد پیدا ہوتا ہے ورنہ محض تنوع اور تکثیریت اس کا قطعاً باعث نہیں۔ اور یہ قوت کے ذریعے ایک ملک کی دوسروں پر بالادستی اور ایک تہذیب کے دوسری تہذیبوں پر غلبے کا فلسفہ اور پالیسی ہے جسے ہم’تہذیبی دہشت گردی‘ ہی کہہ سکتے ہیں جو موجودہ تصادم، بحران اورجھگڑے کی بنیاد ہے‘ جس کے باعث افراد و اقوام جنگ‘ دہشت گرد کارروائیوں اور قتل عام کی طرف دھکیلی جا رہی ہیں۔ اگر دیگر افراد واقوام کی روایات و عقائد کا احترام ایک اصول اور ضابطے کی شکل اختیار کرلے‘ تو پھر اقوام کے درمیان معاہدہ براے باہمی بقا‘ تعاون اور صحت مندانہ مسابقت پیدا ہوجائے گی اور انسانیت پھر دوبارہ سے زندہ ہوجائے گی۔ اگر اس نظریے پر عمل کیا جائے‘ یعنی دیگر افراد/ اقوام کے عقائد کا احترام نہ کہ بالادستی‘ تو پھر یہ دنیا یقینی طور پر امن و امان اور انصاف کی بستی بن سکتی ہے۔ پھر تہذیبوں کے مابین تصادم کے خدشات تحلیل ہوسکتے ہیں اور دہشت گردی کا پُراسرار خوف زمین میںدفن ہوسکتا ہے۔ صرف اسی صورت میں امن و امان‘ تحفظ وسلامتی اور خوش حالی کا راستہ بخوبی ہموار کیا جا سکتا ہے۔ کیا اب بھی وہ لمحہ اور وہ وقت نہیں آیا کہ جب دہشت گردی سے آگے کا سوچا اور اس کے لیے کوشش کی جائے؟ کیا انسان اس متبادل حل کو نظرانداز کرنے کا متحمل ہوسکتا ہے؟

آخر میں سوچنے کے لیے ایک مزید نکتہ کی طرف بھی اشارہ ضروری ہے۔ آج ’عالمی کمیونٹی‘  (World Community) کی اصطلاح بھی ’دہشت گردی‘ کی اصطلاح کی طرح بڑی بے دردی سے استعمال کی جارہی ہے اور یہ باور کرایا جارہا ہے کہ امریکا اور اس کے چند حواری عالمی کمیونٹی کے مترادف ہیں حالانکہ اصل عالمی کمیونٹی وہ ساڑھے چھے ارب عوام ہیں جو ان استعماری قوتوں کے ہاتھوں خوار و پریشان ہیں اور جو سڑکوں پر آکر احتجاج کر رہے ہیں۔ جب تک اس اصل عالمی کمیونٹی کی آواز اور اس کی تمنائوں اور خواہشوں کو اہمیت اور مرکزیت حاصل نہیں ہوتی جمہوریت اور انسانیت کی بالادستی ایک خواب پریشان ہی رہے گی۔


حواشی

  • اس ضمن میں بیسویں صدی کے آغاز سے قبل کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیے:
  •    پہلی صدی عیسوی میں رومی قبضے سے جودیا (Judia) کو آزاد کروانے کے لیے زیلٹس (Zealots) اور سکارٹس (Sicarits) کی جدوجہد۔
  •  گیارھویں اور بارھویں صدیوں میں خون آشام قتلِ عام کرنے والا گروہ ہے جسے Assassinکہا جاتا ہے۔
  • اٹھارھویں صدی میں جیکوبٹ (Jacobits) کی طرف سے قتلِ عام.
  • انیسویں صدی میں روسی حکومت کی طرف سے (People's Will) Narodnays Volyel اور
  •  یورپی اقوام کی انیسویں صدی کی تہلکہ خیز تحریک انارکسٹ

دہشت گردی کے ضمن میں بیسویں صدی کی بھی چند مثالیں ملاحظہ فرمایئے:

                ۱-            آرمینیا کی آزادی ASALA یعنی Secret Army for the liberation of Armenia اور اس کا بہیمانہ تشدد اور قتلِ عام۔

                ۲-            یہودیوں پر مشتمل اِرگون‘ سٹرن اور ہگانہ کے مسلح دہشت گرد دستے جو بعد میں اسرائیلی فوج کا حصہ بنے۔

                ۳-            قبرص کے یونانیوں کی مسلح تنظیم EOKA یعنی Ethnic's Organization Kyprion Agoniston

                ۴-            کینیا میں: مائومائو یا لینڈ اینڈ فریڈم آرمی۔

                ۵-            جرمنی میں: (i) Bader Meinhof, (ii) Red Army Factors and (iii) the 2nd June Movement of Germany.

                ۶-            اسپین میں: Euzkadi tes Akantasone (ETA)

                ۷-            اٹلی میں: Strategy of Tension and Red Brigades

                ۸-            برازیل میں: Marighda

                ۹-            آئرلینڈ میں:(i) IRA and (ii) Protestant Volunter Force Ireland

                ۱۰- یونان کی مسلح تحریک:November 17

                امریکا میں:             (i) Ku Klux Klan (KKK), (ii) Free Speech Movement of Berkly

                                                (iii) Christian Identity (Elohim City, Oklahoma

                                                (iv) Anti Abortionists (Rev. Michael Bray)

                ۱۱-         یوگنڈا میں: (i) Lord's Resistance Army (ii) Holy Spirit Mobile Force (HSMF)

                ۱۲-         پیرو میں: Sendero Luminose

                ۱۳-         کولمبیا میں: FARC

                ۱۴-         سری لنکا میں: LTTE

                ۱۵-         ترکی میں: PKK

                ۱۶-         فلسطین میں جارج حباش کی (i) Popular Front for the Liberation of Palestine‘     (ii)پی ایل او (PLO)‘ (iii) Islamic Jehad of Palestineاور حماس

                ۱۷- ایران میں:       (i)Fidayeen اور اشتراکی تنظیم جسے امریکا کی حمایت حاصل ہے مجاہدین خلق۔

                ۱۸-         بھارت میں: Nexalities اور دیگر گروپ۔

                یہ فہرست بطور مثال ہے ورنہ ایسی تنظیموں کی جنھوں نے سیاسی اہداف کے حصول کے لیے قوت کا استعمال کیا ہے بڑی لمبی ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:

(i) Terrorisn in Context, ed. by Martha Crenshow, Pensylvania State University  Press, 1955

(ii) Origions of Terrorism: Psychologies, Ideologies, Theologies, States of Mind, ed by Walter Reich, Woodrow Wilson Centre, Washington, 1998.

(iii) Violences, Terrorism and Justice, ed. by R.G. Frey, Cambridge University Press, 1991.

(iv) Global Terrorism: The Complete References Guide, by Harry Henduson  Checkmark Books, New York, 2001.

(v) The Terrorism Reader, ed. by David J. Whiterlu , Rutbdgi, London 2001.

۲-            Political Terrorism: A reseach Guide to Concepts, Theories, data bases and Literature, by A.P. Schmid, North Holland Publishing, Amsterdam, 1983.

                (اے پی شمڈ ‘ سیاسی دہشت گردی: تصورات‘ نظریات‘ معلوماتی مواد اور ادبیات پر ایک تحقیقی رہنما کتاب‘ نارتھ ہالینڈ پبلشنگ کمپنی‘ ایمسٹرڈم‘۱۹۸۳ئ)

۳-            نوم چومسکی کے مضمون : A Just War? Hardly کا ایک اقتباس خلیج ٹائمز میں شائع ہوا اور دی ڈیلی ٹائمز (لاہور‘ ۱۰ مئی ‘ ۲۰۰۶ئ) میں دوبارہ شائع ہوا۔

۴-            ملاحظہ فرمایئے جوزف ای بی لمبارڈ کی مرتب کردہ کتاب: Islam, Fundamentalism and the Betrayal of Tradition (Indiano: World Wisdom 2004)۔ باب ۶ میں اٹھائے گئے مسائل پر سنجیدہ بحث و مباحثہ‘ مضمون نگار ولید الانصری The Economics of Terrorism, How Bin Laden is Changing  the Rules of the Game ‘ ص ۱۹۱- ۲۳۶ ضرور مطالعہ کیجیے۔

۵-            رابرٹ اے پیپ (Robert A Pape) Dying to Win: The Stragic Logic of Suicide Terrorism, New York: Random House, p 4.

۶-            سیموئیل ہن ٹنگٹن ‘ پی (۱۹۹۷ئ) The Clash of Civilization and The Remaking of World Order: Samuel and Schuster, London. ‘ ص ۱۸۷۔

۷-            ایضاً ، ص ۲۱۷-۲۱۸

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کے فوجی انقلاب سے جنرل پرویز مشرف کی حکمرانی کا جو دورشروع ہوا  تھا وہ اکتوبر ۲۰۰۲ء کے جمہوری ڈرامے اور سائن بورڈوں کی تبدیلی کے باوجود جاری ہے۔ ان سات برسوں میں جہاں دستور‘ سول نظام کی حکمرانی اور تمام ہی انتظامی ادارات کا حلیہ بگاڑدیا گیا ہے‘ وہیں اپنے نتائج کے اعتبار سے ملک وقوم کو اس کی تاریخ کے خطرناک ترین حالات سے دوچار کردیا گیا ہے۔ ریاست کا ہر ستون آج لرزہ براندام ہے اور ملک کی سالمیت‘ اس کی شناخت‘ بلکہ آزادی‘ خودمختاری اور وجود تک معرض خطر میں نظر آرہا ہے۔ حکمران آنکھیں بند کیے تباہی اور  ایک نئی غلامی کے جال میں پھنستے چلے جارہے ہیں‘ اور قوم کے سامنے یہ تکلیف دہ سوال اُبھر کر سامنے آگیا ہے کہ کیا قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں ملت اسلامیہ پاک و ہند کی تابناک سیاسی جدوجہد اور بے مثال قربانیوںسے قائم ہونے والا پاکستان ایک بار پھر ۱۹۷۱ء کی طرح کے ایک دوسرے تباہ کن دھماکے کی طرف بڑھ رہا ہے؟ عالمی سامراج نے امریکا کی قیادت میں    عالمِ اسلام کی ٹوٹ پھوٹ اور نئی نقشہ بندی کا جو خطرناک کھیل شروع کردیا ہے اور اس خطرناک نقشے میں رنگ بھرنے اور اسے حقیقت کا روپ دینے کے لیے آج کے میرجعفر اور میرقاسم جو کردار ادا کرنے کے لیے کمربستہ ہیں‘ ان کا راستہ کس طرح روکا جائے تاکہ اس سامراجی سیلاب کے آگے‘ قبل اس کے وہ ملت اسلامیہ کو کوئی بڑا نقصان پہنچائے‘ مؤثر بند باندھے جائیں۔

جنرل پرویز مشرف کا حالیہ دورہ ایک آئینہ ہے جس میں اس کھیل کے نقش و نگار کو دیکھا جاسکتا ہے۔ حالات جس رخ پر جارہے ہیں ان کا مقابلہ کرنے کے لیے ملت اسلامیہ پاکستان کے پاس اب اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں کہ ان خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے اُٹھ کھڑی ہو اور ہرمصلحت کوبالاے طاق رکھ کر ملک کی آزادی‘ سالمیت اور اسلامی تشخص کی حفاظت کے لیے  صف آرا ہوجائے۔ آج ہماری قومی زندگی کا اصل چیلنج یہی ہے کہ وہ اپنی آزادی اور اپنے سیاسی اور نظریاتی وجود اور تشخص کی حفاظت کی فیصلہ کن جدوجہد ایمان‘ عزم راسخ اور حکمت بالغہ کے ہتھیاروں سے لیس ہوکر انجام دے‘ اور ایک ایسی قیادت کو زمامِ کار سونپے جو اللہ کے اس عطیّے اور اقبال اور قائداعظم کی اس امانت کی جواں مردی کے ساتھ حفاظت کرسکے اور نام نہاد دنیاوی    سوپر پاورز کے دوسرے اور تیسرے درجے کے سفارت کاروں کی دھمکیوں پر ملک کی آزادی‘ عزت اور حاکمیت کا سودا کرنے والی نہ ہو‘ بلکہ وقت کے بڑے سے بڑے فرعون کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا دفاع کرسکے۔

جنرل پرویز مشرف کی حکومت صرف اصولی طور پر ہی غیردستوری اور غیرقانونی نہیں بلکہ اس کا سات سالہ ریکارڈ گواہ ہے کہ ہراعتبار سے یہ پاکستان کی تاریخ کی ناکام ترین حکومت ہے اوراب اس کی وجہ سے پاکستان کی آزادی‘ عزت اور وجود کوشدید خطرہ لاحق ہے۔ اس نے پاکستان کی آزادی اورحاکمیت کا سودا کیا ہے اور محض اپنے اقتدار کی خاطر پاکستان کے نظریاتی‘ تہذیبی‘ معاشی اور سیاسی مفادات کو پامال کیا ہے۔ اسے اللہ کی خوشنودی اور پاکستانی عوام کی عزت‘ ان کے سیاسی اورسماجی عزائم اور فلاح و بہبود کے مقابلے میں صدربش کی خوشنودی اور امریکا کے استعماری پروگرام میں معاونت عزیز ہے‘ اور اس گھنائونے کھیل میں اپنی خدمات کی داد لینے کے لیے ہر کچھ عرصے بعد واشنگٹن کی یاترااس کا محبوب مشغلہ بن گیا ہے جہاں ’من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو‘ کا تماشا بار بار اسٹیج کیا جاتا ہے۔

آج پاکستان ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہواہے ___ ایک طرف روشن خیالی اور لبرلزم کے نام پر امریکا کی غلامی اور نئے سیاسی اور معاشی سامراجی نظام کی چاکری کا کردار ہے‘ اور دوسری طرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دیے ہوئے زندگی کے پروگرام کے مطابق  تحریکِ پاکستان کے اصل مقاصد کے حصول کے لیے فوجی آمریت اور مغرب پرست طبقے سے نجات اور حقیقی اسلامی جمہوری انقلاب کی راہ ہموار کرنے کی ہمہ گیر جدوجہد اور عزت کی زندگی کی دعوت ہے۔

حکیم الامت نے دل اور شکم کے استعارے میں اُمت کو اس باب میں ایک دوٹوک فیصلے کی جو دعوت دی تھی وہ آج پہلے سے بھی زیادہ اہمیت اختیار کرگئی ہے    ؎

دل کی آزادی شہنشاہی ‘شکم سامانِ موت

فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے‘ دل یا شکم؟

جرنیلی آمریت کے جرائم

آگے بڑھنے سے پہلے ہم یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہم نے موجودہ نظام کو فوجی حکومت نہیں جرنیلی آمریت کہا ہے اور یہ اس لیے کہ آج ملک کی فوج بھی ایک مخصوص باوردی اور بے وردی ٹولے کے ہاتھوں اسی طرح یرغمال بنی ہوئی ہے جس طرح ملک کا پورا سیاسی نظام۔ جنرل پرویز مشرف کے نظام کی دو ہی خصوصیات ہیں۔ ایک یہ کہ لیبل کچھ بھی ہو‘ یہ فردِ واحد کی آمریت ہے۔ دستور‘ پارلیمنٹ‘ سول انتظامیہ حتیٰ کہ فوج سب ایک شخص کے اشارہ چشم و ابرو پر گردش کر رہے ہیں اور خود وہ شخص امریکا اور صدربش کے بل بوتے پر ملک و قوم پر مسلط ہے۔ دوسرے‘ اس کی اُچھل کود کا انحصار امریکی پشتی بانی کے بعد اس وردی ہی پر ہے‘ اور یہ وہ حقیقت ہے جس کا وہ خود بار بار اعتراف کر رہا ہے۔ اکتوبر ۲۰۰۵ء کے زلزلے کے موقعے پر جنرل پرویز مشرف نے بڑے طمطراق سے اعلان کیا تھا کہ اگر میں وردی میں نہ ہوتا تو فوج اتنی سرعت سے (یعنی تباہی کے تین سے پانچ دن بعد جب کہ کشمیری مجاہد اور پاکستان کی دینی جماعتوں کے کارکن چند گھنٹوں میں محاذ پر موجود تھے) حرکت میں نہ آتی‘ اور اب امریکا میں دعویٰ فرمایا ہے کہ اگر میں وردی میں نہ ہوتا تو حدودآرڈی ننس میں ترمیمی بل لانے کی جرأت نہیں کی جاسکتی تھی۔ اسے بھول جایئے کہ   یہ وردی جناب محترم نے آج نہیں پہنی ہے اور سات سال سے اس وردی کے باوجود انھیں   حدود قوانین میں ترمیمی بل لانے کی جرأت نہیں ہوئی اور اب لائے ہیں تو جو حشر اس کا ہوا ہے اور جس طرح جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے وہ مضحکہ خیز ہی نہیں‘ عبرت ناک بھی ہے۔ اس سب کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ ان کی طاقت کا منبع نہ دستور ہے‘ نہ عوام ہیں اور نہ ہی سیاسی جماعتیں ہیں___ یہ ان کی فوج کی سربراہی اور فوج کا ڈسپلن ہے جس کا قطعی ناجائز استعمال کرکے وہ قوم کے سر پرمسلط ہیں اور رہنا چاہتے ہیں اور نتیجتاً ملک اور فوج دونوں کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اسے جرنیلی آمریت کہا ہے اور یہی اس نظام کی اصل شناخت ہے۔

آزادی اور خود مختاری پر کاری ضرب

اس جرنیلی آمریت کا پہلا جرم یہ ہے اس نے ملک کی آزدی‘ حاکمیت اور خودمختاری پر کاری ضرب لگائی ہے اور گذشتہ پانچ سال میں ملک امریکا کی ایک ذیلی ریاست (satellite state) بن کر رہ گیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے خود اپنے تازہ ترین انٹرویو میں جو سی این این کو ۲۱ستمبر ۲۰۰۶ء کو دیا گیا ہے‘ اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد امریکی نائب وزیرخارجہ نے پاکستان کو دھمکی دی تھی کہ

be prepared to be bombed: be prepared to go back to the stone age.

اور ہمارے بہادر جرنیل نے جو ایٹمی صلاحیت رکھنے والی فوج کے سربراہ تھے اس مطالبے کو جسے وہ خود ناشائستہ (rude) قرار دے رہے ہیں اور جس کے ساتھ بقول ان کے بہت سے دوسرے مضحکہ خیز (ludicrous) مطالبات تھے یعنی اپنی فضائی حدود کو ہمارے لیے کھول دو‘  فوجی اڈے فی الفور مہیا کرو‘ امریکی فوجوں کو ایک برادر ملک پر حملہ کرنے کے لیے اپنی زمین فراہم کرو‘ اس وقت کی افغان حکومت سے تعلق توڑ لو حتیٰ کہ پاکستان میں امریکا کے خلاف اورافغانستان پر حملے کے خلاف بے چینی کی جو لہراور مزاحمت کی تحریک ہے اسے دبانے (suppress)کی کارروائی کرو___ سب مطالبات پر سرِتسلیم خم کردیا۔ ستم یہ ہے کہ جناب جرنیل صاحب امریکا کی اس ظالمانہ کارروائی میں نہ صرف اس تمام دبائو‘ خوف اور دھمکیوں کے تحت شریک ہوگئے بلکہ اسے اپنی جنگ بنا لیا اور پھر وہ ’کارنامے‘ انجام دیے کہ بش صاحب بھی جھوم جھوم گئے۔ غلامی کی زنجیر پہننا ہی کم ستم نہ تھا کہ اسے زیور سمجھ کر نازاں ہونے کی ایکٹنگ بھی کی جانے لگی۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ ہر ’خدمت‘ کے بعد ’مزید‘ کے مطالبات ہو رہے ہیں اور ذلت کے تمغوں میں ہر روز اضافہ ہورہا ہے۔

ہم نے اپنی آزادی ہی کو دائو پر نہیں لگایا‘اپنی عزت اوراپنی روایات کو بھی خاک میں ملا دیا جس کی بدترین مثال ان ۶۰۰ سے زائد بے گناہ افراد کو امریکا کی تحویل میں دینا ہے جن میں سے کسی کے خلاف کوئی جرم آج تک ثابت نہیں ہوا لیکن ان کی جانوں اور عزتوں سے امریکا کے گھنائونے کھیل میں شریک ہوکر ہم خدا اور خلق کے سامنے مجرم بنے اور اسلام کی تعلیمات اور مسلمانوں کی روایات کو پامال کیا۔ اس سلسلے کی بدترین مثال پاکستان میں اس وقت کے افغانی سفیر عبدالسلام ضعیف کی ہے جن کو سفارتی تحفظ حاصل تھا لیکن اس جرنیلی قیادت نے بین الاقوامی قانون اور اسلامی احکام کی شرم ناک خلاف ورزی کرتے ہوئے جنوری ۲۰۰۲ء میں اس سفارتی تحفظ یافتہ فرشتہ صفت بھائی کو امریکا کی تحویل میں دے دیا جو انھیں بگرام اور گوانتاناموبے لے گیا‘ بدترین تعذیب کا نشانہ بنایا اور چار سال ٹارچر کرنے کے بعد بھی ان کا کوئی جرم ثابت نہ کرسکا اور بالآخر ۲۰۰۵ء میں انھیں رہا کرنے پر مجبور ہوا۔ عبدالسلام ضعیف نے اپنی روداد اسیری رقم کی ہے جس کا ایک ایک لفظ اس جرنیلی آمریت کے خلاف فردِ جرم ہے جسے پڑھ کر پوری پاکستانی قوم کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ دل اللہ کے غضب کے خطرے سے کانپ اٹھتا ہے اور بے تاب روح سے یہ صدا بلندہوتی ہے کہ خدایا! ایسے ظلم میں شریک ہونے اوراس کا آلہ کار رہنے والوں کا احتساب کب ہوگا؟ ہم دل کڑا کر کے ان کی آپ بیتی سے چند اقتباسات پیش کرتے ہیں تاکہ جرنیلی آمریت کا اصل چہرہ قوم کے سامنے آسکے:

یہ ۲ جنوری ۲۰۰۲ء کی صبح تھی۔ پاکستان میں سالِ نو کی تقریبات اختتام پذیر ہوچکی تھیں۔ میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ معمول کی زندگی گزاررہاتھا اور ہر وقت افغانستان میں رہنے والے اپنے گم شدہ بھائیوں اور شہیدوں کی فکر میں مبتلا رہتا تھا۔ میں اُن کی قسمت پر کڑھتا تھا مگر اپنی تقدیرسے لاعلم تھا۔ تقریباً ۸ بجے کا وقت تھا۔ گھر کے محافظوں نے اطلاع دی کہ چند پاکستانی سرکاری اہلکار آپ سے ملنے آئے ہیں۔ مہمانوں کو ایک چھوٹے سے کمرے میں بٹھایا‘ یہ تین افراد تھے۔ ان میں ایک پختون اور باقی دو اُردو بولنے والے تھے۔ میں نے افغان روایات کے تحت مہمانوں کا خیرمقدم کیا۔ چائے بسکٹ سے تواضع کی۔ میں متجسس تھا کہ وہ کیا پیغام لے کر آئے ہیں۔ اُردوبولنے والے ایک سیاہ رنگ کے موٹے کلین شیو شخص نے جس کے چہرے سے نفرت اور تعصب ٹپکتا تھا اوروہ کسی دوزخی کا ایلچی لگتا تھا‘ بظاہر بڑے مؤدبانہ انداز میں بات شروع کی اور پہلا جملہ اداکیا: your excellency, you are no more excellency۔ پھر وہ بولا: آپ جانتے ہیں کہ امریکا بڑی طاقت ہے اور کوئی اس کے مقابلے کی ہمت نہیں رکھتا۔ نہ ہی کوئی اس کا حکم ماننے سے انکار کی جرأت رکھتا ہے۔ امریکا کو آپ کی ضرورت ہے‘ تاکہ آپ سے پوچھ گچھ کرسکے۔ ہم آپ کو امریکا کے حوالے کرنے آئے ہیں تاکہ اس کا مقصد پورا ہو اور پاکستان کو بہت بڑے خطرات سے بچایا جا سکے۔میں نے بحث شروع کر دی اور کہا کہ چلو مان لیا امریکا ایک سپرطاقت ہے لیکن دنیا کے کچھ قوانین اوراصول بھی تو ہیں جن کے تحت لوگ زندگی گزار رہے ہیں۔ میںحیران ہوں کہ آپ لوگ کن مروجہ یا غیر مروجہ یا اسلامی یا غیراسلامی قوانین کے تحت مجبور ہیں؟ آپ کا اخلاقی فرض ہے کہ مجھے میرے سوالوں کا جواب دیں اور مجھے اتنی مہلت دیں کہ میں آپ کا ملک پاکستان چھوڑ دوں۔

لگ بھگ ۱۲ بجے کا وقت تھا جب تین گاڑیاں آئیں اورمسلح اہلکاروں نے گھرکا محاصرہ کرکے راستے اور لوگوں کی آمدورفت بند کردی۔ مجھے باہر نکلنے کو کہا گیا۔ میں ایسے حال میں گھر سے نکلا جب میرے بیوی بچے چیخ و پکار کر رہے تھے۔ میں اپنے بچوں کی طرف مڑ کے نہیں دیکھ سکتا تھا کیونکہ میرے پاس ان کے لیے تسلی کا ایک لفظ تک نہ تھا۔ ’اسلام کے محافظ‘ پاکستانی حکام سے مجھے ہرگز یہ توقع نہ تھی کہ مجھے چند پیسوں کی خاطر ’تحفتاً‘ امریکا کو پیش کردیا جائے گا۔ میں یہی سوچتا ہوا گھر سے نکلا کہ مجھ پر اتنا ظلم کیوں ہو رہا ہے؟ مقدس جہاد کی باتیں کرنے والوں کو کیا ہوگیا؟ مجھے ایک گاڑی میں درمیان میں بٹھا دیا گیا۔ گاڑی کے شیشے کالے تھے جن کے آرپار کچھ نہ دیکھا جا سکتا تھا۔ آگے سیکورٹی کی گاڑی تھی جب کہ تیسری گاڑی ہمارے پیچھے تھی جس میں مسلح اہلکار تھے۔

یہ تو تھا جرنیلی آمریت کے پاکستانی کارندوں کا سلوک۔ اب ذرا دنیا کی مہذب ترین امریکی حکومت کے نمایندوں کے کارنامے بھی ملاحظہ فرمالیں:

تیسری رات ۱۱ بجے کے لگ بھگ میں نے سونے کا ارادہ کیا کہ اچانک دروازہ کھلا اور شلوارقمیص میں ملبوس چھوٹی داڑھی والا ایک شخص اندرداخل ہوا۔ اس نے کہا ہم آپ کو ایک دوسری جگہ منتقل کر رہے ہیں۔ میں نے یہ نہ پوچھا کہ مجھے کہاں لے جایا جا رہا ہے کیونکہ مجھے سچ کی امید نہ تھی۔ مجھے واش روم استعمال کرنے کے لیے صرف پانچ منٹ دیے گئے۔ رفتہ رفتہ گاڑی ہیلی کاپٹر کے قریب ہوتی گئی اور اس کی آواز کانوں کے پردے پھاڑنے لگی۔ اس دوران مجھے ایک ضرب پڑی اور میری کلائی پر بندھی قیمتی گھڑی اس ضرب سے نیچے گرگئی یا مجھ سے لے لی گئی۔ مجھے دوافراد کی مدد سے گاڑی سے اُتارا گیا اور ہیلی کاپٹر سے چند قدم کے فاصلے پر کھڑا کردیا گیا۔ چندلمحوں بعد میں نے خدا حافظ کے الفاظ سنے۔ پھر میں نے کچھ لوگوں کی آوازیں سنیں جو انگریزی میں باتیں کر رہے تھے۔ اچانک وہ ریچھوں کی طرح مجھ پہ پل پڑے اور لاتوں‘ گھونسوں اور مکوں کی بارش کرنے لگے۔ کبھی مجھے اوندھے منہ لٹا دیا جاتا‘ کبھی کھڑا کر کے دھکا دیا جاتا‘ میرے کپڑے چاقوؤں کی مدد سے پھاڑ دیے گئے۔ اسی دوران میری آنکھوں سے پٹی اُتر گئی۔ میں نے دیکھا کہ پاکستانی افسر قطار میں کھڑے تھے۔ ساتھ ہی افسروں کی گاڑیاں تھیں جن میں سے ایک پر جھنڈا لگا تھا۔ امریکیوں نے مجھے مارا پیٹا‘ بے لباس کردیا مگر اسلام کے محافظ میرے سابقہ دوست تماشا دیکھتے رہے۔ یہ بات میں قبر میں بھی نہ بھول سکوں گا۔ میں کوئی قاتل‘ چور‘ ڈاکو یا قانون کا مجرم نہ تھا۔ مجھے بغیر کسی جرم کے امریکا کے حوالے کیا جا رہا تھا۔ وہاں موجود افسر اتنا تو کہہ سکتے تھے کہ یہ ہمارا مہمان ہے۔ ہماری موجودگی میں اس کے ساتھ یہ سلوک نہ کرو۔ وحشی اور بے رحم امریکی فوجیوں نے ایسی حالت میں مجھے زمین پر پٹخ دیا کہ میرا جسم ننگا ہوگیا۔ پھر مجھے ہیلی کاپٹر میں دھکیل دیا گیا۔ میرے ہاتھ پائوں کس کر زنجیروں سے باندھ دیے گئے۔ آنکھوں پر پٹی پھر باندھ دی گئی۔ میرا چہرہ سیاہ تھیلے سے ڈھانپ دیا گیا۔ میرے جسم کے اردگرد سر سے پائوں تک رسی لپیٹ کر ہیلی کاپٹر کے وسط میں زنجیر سے باندھ دیا گیا۔ (روزنامہ نواے وقت‘ ۲۲ستمبر ۲۰۰۶ئ)

پوری داستان دل خراش اور آبدیدہ کردینے والی ہے۔ لیکن یہ سب وہ خدمات ہیں جو  اس جرنیلی آمریت نے‘ امریکا کی خوشنودی کے لیے انجام دی ہیں اوراس طرح اپنی آزادی اور خودمختاری کو اپنے ہی ہاتھوں تارتار کیا ہے۔ امریکا پاکستان کے ہر شعبۂ زندگی میں مداخلت کر رہا ہے۔ فوجی مشقوں کے نام پر فوج کی قیادت کو دام اسیری میں لایا جا رہا ہے۔ تعلیم میں مداخلت ہے اور نصاب تعلیم تک میں تعلیمی اصلاحات کے نام پر یو ایس ایڈ کی دراندازیاں ہورہی ہیں اور قرآن کی وہ آیات تراش و خراش سے محفوظ نہیں جو جہادکے بارے میں ہیں۔ معیشت پر گرفت تو پہلے ہی کم نہ تھی مگر اب نج کاری اور بیرونی سرمایہ کاری کے ذریعے مزید مداخلت کی راہیں استوارہوگئی ہیں۔ دینی مدارس کو لگام دینے کی خدمت بھی امریکی منصوبے کے تحت کی جارہی ہے اور اب حدودقوانین‘ ناموس رسالتؐ کا قانون اور احمدیوں کو غیرمسلم اقلیت قراردیے جانے والی دستوری ترمیم سب نشانے پرہیں۔ جرنیل صاحب چاہتے تھے کہ امریکا کا دورہ کرنے سے پہلے اپنی وردی کے زعم پر حدود قوانین میں ترمیم کرا لیں لیکن اللہ کی شان ہے کہ وردی کے باوجود ترمیم دھری کی دھری رہ گئی___ ان تمام خدمات اور سپردگیوں (surrenders) کے باوجود بلکہ ان کے نتیجے میں امریکا اور بھی شیر ہوتا جارہا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دورے کے موقع پر اقوام متحدہ میں خطاب کے بعد صدر بش نے سی این این کے نمایندے وولف بلٹزر (Wolf Blitzer) کے اس سوال کے جواب میں کہ کیا صدر بش خفیہ ایجنسیوں کی قابلِ اعتماد معلومات پر القاعدہ کے قائدین کو پکڑنے یا ہلاک کرنے کے لیے پاکستان کی سرزمین پر امریکی فوج کے ذریعے بلاواسطہ کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں‘ صاف الفاظ میں کہا: absolutely (بالکل یقینا)۔

یہ ہے اس جرنیلی آمریت کے زیرسایہ اب ہماری آزادی‘ خودمختاری اور اقتدار اعلیٰ (sovereignty )کی اصل حقیقت۔

دفاعی صلاحیت میں کمی

پاکستان کے اقتدار اعلیٰ کی اس خطرناک حد تک تحلیل اور تخفیف (erosion) کے ساتھ دوسرا مسئلہ ہماری دفاعی صلاحیت کے بری طرح متاثر ہونے کا ہے۔ دفاعی صلاحیت میں سب سے اہم چیز قوت اور وسائل میں عدم مساوات کے باوجود مزاحمت‘مقابلے اور دفاع کے عزم اور    قومی مقاصد‘ آزادی اور عزت کے دفاع کے لیے جان کی بازی لگادینے کا جذبہ ہے۔ لیکن جو  فوجی قیادت ذہنی شکست کھاچکی ہو‘ مفادات کے چکر میں پڑجائے اور سمجھوتوں اور سہولتوں کو شعار بنالے وہ لڑنے اور جان دینے کے جذبے سے محروم ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس فوج کو سیاست کا چسکا لگ جائے وہ پھر دفاع کے لائق نہیں رہتی۔ جنرل پرویز مشرف کی پالیسی کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ ان کے دور میں فوج کو سیاست ہی نہیں‘ معیشت‘ حکمرانی‘ انتظامیات غرض ہر اس کام میں لگا دیا گیا ہے جس کا کوئی تعلق دفاع سے نہیں۔ پھر فوج کو اپنے ہی عوام کو  نشانۂ ستم بنانے اور انتظامی معاملات حتیٰ کہ انتخابات کے عمل میں اس بے دردی سے استعمال کیاجارہا ہے کہ اس کے نتیجے میں فوج متنازعہ بن گئی ہے اور عوام کی عزت‘ محبت اور توقیر کی جگہ نفرت اور دشمنی کا ہدف بن رہی ہے۔ اس سلسلے میں وزیرستان اور بلوچستان میں جس طرح فوج کو استعمال کیا گیا ہے اس نے صرف جرنیلی آمریت ہی کو نہیں‘ خود فوج کو ہدف تنقید و ملامت بنائے جانے کا موقع فراہم کیا ہے۔ یہ ملک کی دفاعی صلاحیت کے لیے ایک ناقابلِ برداشت دھچکا ہے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کے ساتھ سلوک

جرنیلی آمریت نے ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اور اس کے ذریعے سائنس دانوں کی پوری برادری کو جو پیغام دیا ہے‘ نیز ایٹمی صلاحیت کو مسلسل ترقی دینے کے لیے جن راہوں کو کھلا رکھنا ضروری تھا انھیں جس طرح بند کردیا گیا ہے اس نے ہماری ایٹمی سدجارحیت (nuclear deterrance)کی صلاحیت کو بری طرح مجروح کیا ہے۔ قابلِ اعتماد ذرائع اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہماری نیوکلیر صلاحیت کو آہستہ آہستہ کمزور اور تحلیل کرنے اور اس پر امریکی اثر کے بڑھنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جو بظاہر غیرمحسوس ہے مگر فی الحقیقت خطرناک حد تک یقینی ہوتا جا رہا ہے۔ نیز امریکا پر دفاعی سازوسامان کے لیے محتاجی کا نیا دور شروع ہو رہا ہے حالانکہ اس باب میں امریکا کا قطعاً ناقابلِ اعتماد ہونا ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ ایف-۱۶ کے بارے میں تاریخی دھوکا کھانے کے بعد ملک اور فوج کو ایک بار پھر اسی چکر میں مبتلا کیا جا رہا ہے اور جہاز بھی وہ دینے کی بات کی جارہی ہے جو نہ صرف جدید ترین سے بہت فروتر ہیں بلکہ ان کے استعمال اور نقل و حرکت پر بھی امریکا کی نگاہ رہے گی۔ ایسے جہاز امریکا کی محتاجی کی زنجیر ہوں گے‘ یہ آزادی کے شاہیں نہیں ہوسکتے۔

جرنیلی آمریت جس طرح ملک کی آزادی اور حاکمیت کو مجروح کرنے کا ذریعہ بنی ہے اسی طرح خود فوج کی دفاعی صلاحیت اور ملک کی نیوکلیر استعداد کو کمزور کرنے کی ذمہ دار ہے۔

چہوٹے صوبوں کی محرومی

جرنیلی آمریت کی تباہ کاری کا تیسرا میدان چھوٹے صوبوں کو ناانصافیوں اور محرومیوں کی دلدل میں دھکیل دینا ہے جس کے نتیجے میں مرکز گریز رجحانات کو فروغ حاصل ہورہا ہے۔ سندھ میں ایک طرف ایک لسانی تنظیم کی اس طرح سرپرستی کی جارہی ہے کہ صوبہ امن و چین سے محروم ہوگیا ہے‘ ہر طرف بھتہ اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ دوسری طرف فرقہ واریت کو فروغ دیا جا رہا ہے اور روزافزوں خون خرابے کے باوجود اصل مجرم محفوظ و مامون بیٹھے ہیں۔

کالاباغ ڈیم کے مسئلے کو اس بھونڈے انداز میں اٹھایا گیا کہ تین صوبے مرکز کے خلاف صف آرا ہوگئے۔ قومی مالیاتی ایوارڈ کے باب میں مرکز کا کردار نہایت غیرمنصفانہ اور  غیرحقیقت پسندانہ رہا جس کے نتیجے میں صوبوں کی ترقی بری طرح متاثر ہوئی ہے اور آج تک صوبوں کو ان کا حق نہیں مل سکا۔ یہ سب مسائل اپنی جگہ لیکن سب سے بڑھ کر اس جرنیلی آمریت نے جس طرح بلوچستان کے مسئلے کو بگاڑا ہے وہ ایک قومی جرم سے کم نہیں۔

بلوچستان کے مسائل حقیقی اور گمبھیر ہیں اور اس صوبے میں محرومی کا احساس بے چینی سے بڑھ کر بغاوت کی حدوں کو چھو رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مرکزی حکومت نے ہر دور میں نہ صرف وہاں کے مسائل کو مجرمانہ طور پر نظرانداز کیا بلکہ سیاسی مسائل کو قوت کے ذریعے اور صوبے کی سیاسی قوتوں کو بانٹ کر اور اپنے حواریوں کو اقتدار سونپ کر صوبے کے وسائل کو صوبے اور اس کے عوام کے وسیع تر مفاد کے مقابلے میں مفادپرست عناصر کے کھل کھیلنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ تعلیم‘ روزگار‘ پیداوار‘ صحت‘ انفراسٹرکچر کی ترقی‘ صنعت غرض ہر میدان میں یہ صوبہ سب سے پیچھے ہے۔ قدرتی وسائل سے مالامال مگر ان وسائل کے ثمرات سے محروم۔ جب بھی وہاں کے عوام نے اپنے حقوق کی بات کی‘ اس کا جواب بندوق اور توپ سے دیا گیا۔ اس کی سب سے نمایاں مثال وہ پارلیمانی کمیٹی ہے جو خود چودھری شجاعت حسین صاحب کی سربراہی میں قائم ہوئی تھی اور جس کی ایک سب کمیٹی نے اپنی متفقہ رپورٹ بھی پارلیمنٹ کو پیش کر دی تھی مگر عین اس وقت جب معاملات سیاسی افہام و تفہیم سے طے ہونے کے مراحل میں تھے‘ فوج کشی کا راستہ اختیار کیا گیا اور سارے کیے دھرے پر پانی پھیر دیا گیا۔ اس کا تباہ کن انجام ۲۵ اگست کو فوجی آپریشن کے نتیجے میں ۸۰سالہ نواب بگٹی اور ان کے ساتھیوں کی ہلاکت اور اس کے بعد ان کی تجہیزوتدفین کے لیے وہ سفاکانہ اور ہتک آمیز راستہ ہے جس نے پورے صوبے ہی نہیں‘ پورے ملک میں غم و غصے کی آگ بھڑکا دی ہے۔ یہ سب کچھ محض ایک شخص کی انا کی تسکین کے لیے کیا گیا جس نے کہا تھا کہ یہ ۲۰۰۶ء ہے‘ ۱۹۷۴ء نہیں ہے اور اب ایسی سمت سے حملہ ہوگا جسے دیکھا بھی نہیں جاسکے گا اور جس نے نواب اکبرخاں بگٹی کی ہلاکت کے ظالمانہ اقدام پر فوج کو کامیاب آپریشن پر مبارک باد دی جس پر بعد میں دھول ڈالنے میں عافیت محسوس کی گئی۔

امریکا کا نیا شرق اوسط

اس جرنیلی آمریت نے یہ سب کچھ ایک ایسے پس منظر میں کیا جب اس حسّاس علاقے کے بارے میں بین الاقوامی سازشوں اور شرارتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ بھارت‘ ایران‘ افغانستان اور سب سے بڑھ کر امریکہ اپنا اپنا کردار ادا کررہے ہیں اور مقامی عناصر میں سے کچھ اس میں   آلۂ کار بن رہے ہیں۔ پاکستان کے نقشے کو تبدیل کرنے کے منصوبے نئے نہیں۔ سابقہ امریکی صدر کے ایک یہودی مشیر پروفیسر برنارڈ لیوس (Bernard Lewis)کئی سال پہلے شرق اوسط کے لیے نیا نقشہ پیش کرچکے ہیں اور اس میں بلوچستان کو ایک آزاد ملک کے طور پر دکھایا گیا   ہے۔ عین نواب بگٹی کی ہلاکت سے دو ماہ قبل کولن پاول کے ایک سابق اسسٹنٹ رالف پیٹر      (Col (r) Ralph Peter ) نے امریکا کے نیم سرکاری مجلے Armed Forces Journal میں ایک زہرآلود مضمون لکھا ہے جس کا عنوان Blood Bordersہے اور اس دعوے کے ساتھ لکھا ہے کہ How a Better Middle East Would Look (ایک بہتر شرق اوسط کیسا نظر آئے گا)۔

اس میں پورے شرق اوسط کی تقسیم در تقسیم کا منصوبہ پیش کیا ہے جس سے امریکا اور اسرائیل کے مقاصد حاصل ہوسکتے ہیں۔ اس وقت اس منصوبے کے تمام پہلوئوں پر کلام مقصود نہیں صرف پاکستان اور بلوچستان کے سلسلے میں اس شرانگیز تجویز پر توجہ مبذول کرانا پیش نظر ہے۔ موصوف پاکستان کو ایک غیرفطری ریاست (an unnatural state) قرار دیتے ہیں اور بلوچستان اور پشتونستان کو اس سے الگ کرتے ہیں اور اس دعوے کے ساتھ کہ یہ سب کچھ موصوف کے اپنے عزائم کے مطابق نقشے کی نئی صورت گری نہیں بلکہ وہاں کے لوگوں کی خواہش کا اظہار ہے:

یہ نقشے کو ہماری پسند کے مطابق بنانا نہیں ہے ‘ بلکہ جسے علاقے کے لوگ ترجیح دیتے ہیں‘ وہ ہے۔

اس لیے اس تجویز میں ان کا مرکزی خیال یہ ہے کہ نئی حدبندی علاقائی‘ لسانی اور     فرقہ ورانہ بنیادوں پر ہونی چاہیے:

ہرمعاملے میں‘ یہ نئی مفروضہ حدبندیاں نسلی تعلقات اور فرقہ بندی‘ بعض صورتوں میں دونوں کی عکاسی کرتی ہیں۔

ہم موصوف کا پیش کردہ نقشہ علاقے کے موجودہ نقشے کے ساتھ پیش کرتے ہیں تاکہ اس علاقے کے بارے میں سامراجی سیاست کاری کے کھیل کا کچھ ادراک ہوسکے۔

دونوں نقشوں پر نظر ڈالیے۔ جغرافیائی سرحدوں کی ساری تبدیلی مسلم ممالک کے لیے مخصوص ہے۔ اتنا بڑا بھارت اس نقشے پر موجود ہے‘جس میں درجنوں لسانی‘ مذہبی‘ ثقافتی اور نسلی آبادیاں موجود ہیں۔ ۱۶‘ ۱۷ آزادی کی تحریکیں سرگرم ہیں‘ وہاں کسی تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی ہے    ؎    برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر!

ایک طرف یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے اور دوسری طرف جرنیلی آمریت بعینہٖ وہ فضا پیدا کررہی ہے جس میں کچھ عناصر حقیقی مسائل اور محرومیوں کے ساتھ نفرت کی آگ کی آمیزش کرکے حالات کو ایسا رخ دے سکیں جن کے جلو میں سامراجی مقاصد حاصل ہوسکیں۔

ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ بلوچستان کے مسائل کو جس طرح بگاڑا جا رہا ہے‘ وہ حددرجہ خطرناک ہے۔ صوبے کے حقیقی مسائل آج بھی آسانی سے حل ہوسکتے ہیں‘ اس کے لیے سیاسی عمل‘ افہام و تفہیم اور عدل و احسان کا راستہ ہی صحیح راستہ ہے۔ فوج کشی اور عزت سے کھیلنے سے مسائل لازماً بگڑیں گے اور حل سے دُور ہوتے جائیں گے۔ جرنیلی آمریت نے جو راستہ اختیا کیا ہے‘ وہ صرف تباہی کا راستہ ہے۔ حالات کی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ حکمت عملی کو یکسر بدلا جائے۔ بلوچ قبائل اور عوام کا غم پاکستان کے ہر شہری کا غم ہے اور وہاں کے مسائل ہمارے مشترکہ مسائل ہیں۔ سب کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے اور جوانصاف سے جتنا محروم رہا ہے‘ اس کا اتنا ہی زیادہ حق ہے۔ سیاسی عمل کے ساتھ ساتھ ان دستوری‘ قانونی اور انتظامی اصلاحات کی بھی ضرورت ہے جو حقیقی صوبائی خودمختاری اور صوبے کے وسائل پر اہلِ صوبہ کے حق کو یقینی بناسکے بلکہ جن صوبوں اور علاقوں کی حالت زیادہ خراب ہے‘ ان کو ملکی اوسط کی سطح تک لانے کے لیے صرف اس صوبے کے نہیں بلکہ متمول صوبوں اور علاقوں کے وسائل کوبھی پس ماندہ علاقوں کی ترقی کے لیے استعمال ہونا چاہییں تاکہ سب کے ساتھ انصاف ہوسکے۔ اس مقصد کا حصول حقیقی جمہوری عمل کے قیام اور انصاف اور حق کے اصولوں کی پاسداری کے بغیر ممکن نہیں۔

مسئلہ طاقت کے استعمال کا نہیں‘ عقل کے استعمال اور انصاف اور دردمندی کے ساتھ حقیقی مسائل اور مشکلات کودُور کرنے کاہے۔ یہ تصور کہ مرکز مضبوط ہوگا تو پاکستان مضبوط ہوگا ایک فاسد نظریہ ہے۔ پاکستان کی مضبوطی کے لیے صوبوں اور علاقوں کی مضبوطی ضروری ہے۔ دیوار اتنی ہی مضبوط ہوگی جتنی وہ اینٹیں مضبوط ہوں گی جس سے یہ دیوار بنی ہے۔ آمریت کا مزاج ہی مرکزیت کا مزاج ہے اور جب وہ آمریت جرنیلی آمریت ہو تو پھر اختیارات کے ارتکاز کا عالم اور بھی  گمبھیر ہوجاتا ہے اور سیاسی عمل نام نہاد کمانڈ اسٹرکچر تلے دم توڑ دیتا ہے۔ آج بلوچستان کے مسائل   شعلہ فشاں ہوگئے ہیں اور قومی سطح پر ان کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ نواب بگٹی کی ہلاکت سے جو بحرانی کیفیت پیدا ہوگئی ہے اسے قومی سطح پر مؤثر سیاسی حکمت عملی بناکر اوراس پر سب کی شرکت سے عمل کر کے حالات کو قابو میں لایا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی سامنے رہنی چاہیے کہ مسائل اور محرومیاں بلوچستان تک محدود نہیں۔ دوسرے صوبوں اور خود پنجاب کے کچھ  پس ماندہ علاقوں میں بھی مسائل سلگ رہے ہیں۔ ان کے شعلہ بننے سے پہلے ان کے حل کی ضرورت ہے جو جرنیلی آمریت کے بس کا روگ نہیں۔

مسئلہ کشمیر کی تحلیل

جرنیلی آمریت کا چوتھا نشانہ کشمیر کامسئلہ ہے جسے جنرل پرویز مشرف نے کمال بے تدبیری کے ساتھ تحلیل کرنے (liquidate) کرنے کی ٹھان لی ہے۔ پہلے دن سے کشمیر کا مسئلہ ایک قومی مسئلہ تھا اور سب جماعتیں اس پر متفق تھیں کہ کشمیر کے بغیر پاکستان نامکمل ہے‘ اس لیے کہ یہ تقسیم ملک کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ نیز یہ مسئلہ محض پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی تنازع نہیں بلکہ ریاست جموں و کشمیر کے ڈیڑھ کروڑ انسانوں کے حق خود ارادیت کا مسئلہ ہے جس سے بھارت نے انھیں محروم رکھا ہوا ہے جو صرف فوجی قوت اور سامراجی تسلط سے ریاست کے دوتہائی حصے پر قابض ہے اور وہاں شہریوں کو جبر اور ظلم کے ذریعے زیردست رکھے ہوئے ہے اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں کر ریا ہے۔ پونے پانچ لاکھ افراد ان ۶۰برسوں میں اپنی آزادی کی جدوجہد کرتے ہوئے بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں جان کی قربانی دے چکے ہیں۔ پاکستان ان کا وکیل اور ان کے حق کے حصول کی جدوجہد کا پشتی بان ہے اوران کے اس حق کے حصول کے لیے ہر قربانی دینا اپنافرض سمجھتا ہے۔ پاکستان کی فوج اور دفاعی صلاحیت کا بھی گہرا تعلق بھارت سے آنے والے خطرات کے مقابلے کی استطاعت کے ساتھ کشمیر میں حق خود ارادیت کے حصول کو ممکن بنا لینے سے ہے۔ ورنہ اتنی بڑی فوج کی جس پر قومی وسائل کا ایک معتدبہ حصہ صرف ہو رہا ہے ضرورت نہیں تھی۔

اس سارے پس منظر میں لچک کے نام پر‘ لیکن درحقیقت شکست خوردہ ذہنیت کا اسیر ہونے کے باعث‘ جنرل پرویز مشرف عملاً کشمیر سے دست کش ہوگئے ہیں اور اس طرح پاکستان کے ایک قومی ہدف کو منہدم کرنے کا ذریعہ بنے ہیں۔ فروری ۲۰۰۲ء سے ان کی پسپائی کے سلسلے کا آغاز ہوا جو اب ہوانا میں من موہن سنگھ سے ملاقات کے وقت اپنی انتہا کوپہنچ گیا ہے۔ اس قومی ہدف پر پہلی ضرب انھوں نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ایک طرف رکھ دینے کے اعلان کی لگائی۔ پھر جنگ ِ آزادی اور جہادکشمیر کو عملاً دہشت گردی قرار دے کر اپنی ہی نہیں ساری محکوم اقوام کی آزادی کی جدوجہد پر کالک ملنے کا جرم کیا۔ اوّل اوّل پاکستان کی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال کیے جانے سے احتراز کی بات کی گئی۔ پھر بھارت کو باڑ بندی کا موقع دیا‘ سیزفائر کیا۔ عملاً تحریک ِ مزاحمت کی معاونت سے ہاتھ اٹھا لیا اور اب پورے مسئلے ہی سے اس اعلان کے ساتھ دست بردار ہوگئے کہ ایسا حل نکالا جائے جو دونوں فریقوں کے لیے ناقابلِ قبول نہ ہو۔ اس سے زیادہ ناانصافی کیا ہوگی کہ اب کہا جارہا ہے مسئلہ آزادی اور حق خود ارادیت کا نہیں بلکہ کسی ایسی چیز کو قبول کرلینے کا ہے جوغاصب قوت کے لیے قابلِ قبول ہو۔ اس سے مسئلے کی نوعیت ہی بدل گئی۔

اصل مسئلہ بھارت کے غیرقانونی قبضے (illegal occupation)کا تھا اور اس کا حل جو انصاف اور حق پر مبنی ہو صرف حق خود ارادیت ہی کی شکل میں ہوسکتا ہے جس طرح سامراج سے نجات حاصل کرنے کے لیے دنیا کے گوشے گوشے میں ہوا۔ لیکن اب اس مسئلے ہی سے جنرل صاحب دست بردار ہوگئے ہیں اور حق خودارادیت کی جدوجہد دہشت گردی قرار پاگئی ہے جس کا قلع قمع کرنے کے لیے دونوں ملکوں میں مشترک اداراتی نظام قائم کیا جا رہا ہے۔ بھارت کی اس سے بڑی فتح کیا ہوگی کہ اس نے جنرل صاحب سے کہلوا لیا کہ اصل مسئلہ جموں و کشمیر کے لوگوں کی آزادی اور حق خود ارادیت کا نہیں بلکہ سرحدی دراندازی اور نام نہاد دہشت گردی ہے۔ مسئلہ بھارت کا ناجائز قبضہ نہیں بلکہ ناجائز قبضے کے خلاف جائز جنگ ِ آزادی اور تحریکِ مزاحمت ہے۔ یہ موقف تحریک آزادی کشمیر کے سینے میں خنجر گھونپنے اور اپنے ہاتھوں پاکستان کی شہ رگ پر چھری چلانے کے مترادف ہے جسے مسئلہ کشمیر اور کشمیری مسلمانوں کی عظیم تحریک مزاحمت ہی سے نہیں‘ پاکستان سے غداری کے سواکچھ نہیں کہاجاسکتا۔ کس نے جنرل پرویز مشرف کو کشمیر کی تحریک ِ آزادی کو اس طرح تباہ کرنے کا اختیار دیا___کشمیر کے عوام اور پاکستان کے عوام اس بے وفائی کو کبھی تسلیم نہیں کرسکتے۔

اسلام کا مسخ شدہ تصور

جرنیلی آمریت کا ایک اور ہدف اسلام کا وہ انقلابی اور ہمہ گیر تصور ہے جس کے تحت انسان اپنی پوری زندگی کو اللہ کی بندگی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں دیتا ہے اور انفرادی اور اجتماعی زندگی کو شریعت کے تابع کرتا ہے۔ وہ اسلام کی سربلندی کو اپنی زندگی کا مقصد بناتا ہے اور اس کے لیے جہاد کواپنا شعار قرار دیتا ہے۔اس تصورِ حیات کے مقابلے میں جرنیلی آمریت نے ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ (enlightened moderation) کے نام پر اسلام کا ایک ایسا مسخ شدہ تصور وضع کرنے کی کوشش کی ہے جو مغربی تہذیب و تمدن کا چربہ ہو‘ جس میں حجاب‘ داڑھی اور حیا و شرم کی گنجایش نہ ہو۔ جس میں شراب‘ زنا اور مخلوط معاشرت کے دروازے کھلے ہوں‘ جس میں جہاد کا ذکر بھی ممنوع ہو‘ جہاں رقص وسرود اور عریانی زندگی کا معمول ہوں‘ جس میں عیدین تو بس رسمی طور پر منائی جائیں البتہ بسنت‘ نیوایرز ڈے‘ ویلنٹائن ڈے اور اس قسم کی خرافات ترقی کا مظہر قرار پائیں۔ فکری اور سماجی دونوں اعتبار سے اسی تحویل قبلہ کا نتیجہ ہے کہ اخبارات‘ الیکٹرانک میڈیا‘ سرکاری تقریبات حتیٰ کہ سرکاری پارٹیوں اور فائیوسٹار ہی نہیں ان سے بہت چھوٹے چھوٹے ہوٹلوں اور ریستورانوں میں اب شراب کھلے بندوں دی جارہی ہے۔ پاکستانی سفارت خانوں میں بیش تر تقریبات میں شراب دی جاتی ہے اور اسلام آباد کے ایک انگریزی روزنامے نے تو حد ہی کردی کہ اپنے صفحہ اول پر ایک چوتھائی صفحہ کا جلی اشتہار ایک کلینک کی طرف سے اس عنوان کے ساتھ شائع کیا کہ شراب نوشی کوئی قباحت نہیں‘ صرف بلانوشی نامطلوب ہے اور اس کا بھی علاج ہم سے کرالیں …اناللہ وانا الیہ راجعون!

یہ جرنیلی آمریت پہلے دن سے بے تاب رہی ہے کہ کسی طرح حدود قوانین کو منسوخ کردے اور توہینِ رسالتؐ کے قانون کو کتابِ قانون سے خارج کردے مگر ہمت نہ ہوسکی۔ اب پھر وردی کے زعم پر حدود قوانین میں ترمیم کی کوششیں ہورہی ہیں اور طرح طرح کے ڈرامے رچائے جارہے ہیں۔ بلاشبہہ حدود قوانین کا نفاذ خلوص اوردیانت سے ملک میں نہیں ہوا اور ان کی برکات سے معاشرہ محروم ہے۔ مگر عورتوں پر ظلم کی وجہ یہ قوانین نہیں‘ مغربی تہذیب و ثقافت اور وہ سیکولر‘ اخلاق باختہ اور جاگیردارانہ سماج اور رویہ ہے جو اباحت پرست طبقے کا طرۂ امتیاز ہے۔ مختاراں مائی پر ظلم کسی حدود قوانین کی وجہ سے نہیں ہوا۔ روزانہ جو ہولناک واقعات رونما ہو رہے ہیں وہ ان قوانین کی وجہ سے نہیں بلکہ اسلام کے باغی عناصر کی ظالمانہ کارروائیوں اور بااثر افراد کی قانون پر بالادستی کی وجہ سے ہیں۔ اگر یہ قوانین ٹھیک ٹھیک نافذ کیے جائیں تو معاشرہ ان جرائم سے آج بھی پاک ہوسکتا ہے لیکن جرنیلی آمریت اور اس کے آزاد خیال ہم نوائوں کا مقصد معاشرے کو جرم سے پاک کرنا نہیں جرم کو معتبر بنا دینا ہے۔ ابھی امریکا کی جوسرکاری رپورٹ بنیادی حقوق کے نام پر اس ہفتے شائع ہوئی ہے اس میں پوری بے شرمی سے کہا گیا ہے کہ زنا بالرضا کو جرم بنانا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اسے criminalization of sex کا نام دیا گیا ہے۔ اگر حدود قوانین کے خلاف کی جانے والی کی بحث کا آپ بے لاگ تجزیہ کریں تویہی اصل مسئلہ سامنے آتا ہے کہ رضامندی کے ساتھ آزاد شہوت رانی کوئی جرم ہے ہی نہیں کہ اس پر سزا دی جائے۔ برطانوی دور کے ضابطہ فوجداری میں مغربی ممالک کی طرح زنا کا فعل جرم تھا ہی نہیں۔ جسے adultery قراردیا گیا وہ صرف شادی شدہ عورت سے خاوند کی مرضی کے بغیر جنسی تعلق تھا جس کی وجہ خاوند کی حق تلفی سمجھی جاتی تھی یا پھر rape جو عورت پر جبر کی وجہ سے جرم بنتا تھا اور وہ بھی صرف تین سال کی سزا یا جرمانہ کا مستوجب!

حدود قوانین میں اصل ’ظلم‘ کیا ہی یہ گیا ہے کہ ناجائز جنسی تعلق کو‘ خواہ وہ باہمی رضامندی سے ہویا جبر کی صورت میں‘ جرم قرار دیا گیاہے اوردونوں شکلوں میں اسے مستوجب سزا قرار دیا گیا ہے۔ اس سے بڑا جھوٹ کوئی نہیں کہ زنا بالجبر کے سلسلے میں عورت کی گواہی قابلِ قبول نہیں۔ فیڈرل شریعت کورٹ کے کئی فیصلے موجود ہیں جن میں چند یا صرف ایک عورت کی گواہی پر بھی سزا دی گئی ہے۔ البتہ شریعت کا حد کے باب میں ہرہر جرم کے سلسلے میں اپنا شہادت کا معیار ہے اور وہ ایک  کل نظام کا حصہ ہے۔ اصل مسئلہ اسلام اور مغرب کے جداگانہ تصور اخلاق‘ نظامِ معاشرت اور جرم و سزا کے تصورات کا ہے۔ ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کے نام پر جس دین کو فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے‘ وہ خالص مغربی معاشرت اور تمدن ہے۔ اس کا اسلام کے نظامِ اقدار‘ اخلاق اور معاشرت سے کوئی تعلق نہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ جرنیلی آمریت بھی بش اور امریکا کے کروسیڈز کے ہم زبان ہوکر اسلامی شریعت کو اپنا مدمقابل سمجھتی ہے اوراب تو جنرل مشرف صاف کہنے لگے ہیں کہ القاعدہ سے بھی بڑاخطرہ طالبان ہیں اورطالبان صرف افغانستان کے لیے نہیں طالبانائی زیشن (talibanization) پاکستان کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے اور اس کے لیے انتہاپسند‘ ترقی کے مخالف اور نہ معلوم کون کون سی گالیاں وضع کرلی ہیں لیکن یہ سب دراصل اسوۂ محمدیؐ اور شریعت محمدیؐ سے فرار کی راہیں ہیں‘ اس کے سوا کچھ نہیں۔ اقبال نے سچ کہا تھا :

اے تہی از ذوق و شوق و سوز و درد

می شناسی عصر ما با ما چہ کرد

عصر ما مارا ز ما بے گانہ کرد

از جمال مصطفیؐ بے گانہ کرد

اے شوق و محبت اور سوز و گداز سے خالی شخص‘ تجھے خبر ہے کہ زمانے نے ہمارے ساتھ کیا (ظلم) کردیا ہے۔ زمانے نے ہمیں اپنے آپ سے بے گانہ کردیا ہے اور محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے حُسنِ کردار سے بھی بے گانہ کردیا ہے۔

جہاد سے فرار اور خانقاہی نظام کے احیا کے عزائم راہِ محمدؐ سے اُمت کو ہٹانے کے شیطانی منصوبے کا حصہ ہے___ مذہب انفرادی عمل ہے۔ سیاست‘ ریاست اور تہذیب و ثقافت سے اس کا کیا رشتہ؟ ابلیس نے یہی تو کہا تھا:

ہر نفس ڈرتا ہوں اس اُمت کی بیداری سے میں

ہے حقیقت جس کے دیں کی احتساب کائنات

مست رکھو ذکرو فکر صبحگاہی میں اسے

پختہ تر کر دو مزاج خانقاہی میں اسے

اور اس شیطانی حکمت عملی کے مقابلے میں اقبال نے وہی نسخہ تجویز کیا تھا جو روحِ اسلام کا مظہرہے     ؎ 

نکل کر خانقاہوں سے ادا کررسمِ شبیری

کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ دلگیری

جرنیلی آمریت کا ’اسلام‘ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلام ایک دوسرے کی ضد ہیںاور یہی وجہ ہے کہ محمدؐ کا اسلام جرنیلی آمریت‘ کیتھولک پوپ اور امریکی بش سب کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے ___ اور اس میں انھیں اپنے لیے خطرہ ہی خطرہ نظر آتا ہے۔

معاشی ’ترقی‘ کی حقیقت

جرنیلی آمریت نے ہر میدان میں منہ کی کھائی ہے۔ گارڈین کے نمایندے کو انٹرویو دیتے ہوئے جنرل صاحب کو خود اعتراف کرنا پڑا کہ ان کی مقبولیت برابر کم ہورہی ہے۔ جب جنرل مشرف سے پوچھا گیا کہ کس میدان میں وہ اپنے کو سب سے زیادہ کامیاب پاتے ہیں تو ارشاد ہوا___ معاشی ترقی اور اقتصادی کارکردگی کے میدان میں۔ یہ تو خود ایک طرفہ تماشا ہے کہ جرنیل صاحب نہ دفاعی میدان میں کوئی کارنامہ دکھاسکے اور نہ ملک میں امن و امان کا قیام ان کے نامۂ اعمال میں کوئی مقام پاسکا اور خود انھوں نے جس میدان کو اپنے لیے کامیاب میدان قرار دیا وہ  وہ تھا جس کے بارے میں خود انھوں نے اقتدار میں آنے کے بعد کہا تھا کہ میں اس سے بالکل نابلد ہوں۔

ہم صلاحیت اور استعداد کی بحث میں پڑے بغیر ان کے اس دعوے کا جائزہ لیں تو یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ چند نمایشی پہلوئوں کو چھوڑتے ہوئے معیشت کے میدان میں بھی جرنیلی آمریت  اتنی ہی تہی دامن ہے جتنی دوسرے میدانوں میں۔ محبوب الحق ہیومن ڈویلپمنٹ سنٹر کی تازہ ترین رپورٹ ہیومن ڈویلپمنٹ ان ساؤتھ ایشیا ۲۰۰۶ء ابھی اسی مہینے (ستمبر ۲۰۰۶ئ) شائع ہوئی ہے اور اس کے مطابق اگر ایک ڈالر یومیہ کو آمدنی کا معیار قرار دیاجائے تو پاکستان میں غربت کی شرح ۳۰فی صد سے زیادہ اور اگر دو ڈالر یومیہ کو بنیاد بنایا جائے تو۷۰ فی صد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ دولت کی تقسیم میں عدمِ مساوات میں برابر اضافہ ہورہا ہے۔ علاقوں کے درمیان بھی عدمِ مساوات بڑھ رہی ہے یعنی امیر امیر تر ہو رہے ہیں اور غریب غریب تر۔ افراطِ زر اور مہنگائی نے عام انسانوں کی کمر توڑ دی ہے اور اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے افراطِ زر کا جو جائزہ ستمبر ۲۰۰۶ء میں شائع کیا ہے اس کی رُو سے پچھلے سال اشیاے خوردنی کی قیمتوں میں ۱ئ۱۱ فی صد کا اضافہ ہوا ہے اور مزدوروں کی حقیقی قوتِ خرید میں برابر کمی واقع ہورہی ہے۔ (ملاحظہ ہو ڈان اور دی نیوز ۲۲ستمبر ۲۰۰۶ئ)

وزیراعظم صاحب خوش حالی کے اشاریے کے طور پر کاروں کی فروخت کا بار بار ذکر کرتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں ۱۶ کروڑ کی آبادی میں کار استعمال کرنے والے کتنے ہیں۔ لیکن جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے‘ ان کے اپنے دست ِ راست جرنیلی آمریت کی لبرل امپورٹ پالیسی پر پریشان ہیں۔ تازہ ترین سرٹیفکیٹ ان کے اپنے وزیرمملکت نے دیا ہے:

وفاقی وزیر مملکت اور منصوبہ بندی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر اکرم شیخ نے حکومت کی گاڑیوں کی درآمد کی لبرل پالیسی پر سخت تنقید کی ہے اور اسے ملکی صنعت کاروں کے مفاد کے خلاف قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر اکرم شیخ نے کہا کہ غریبوں کو روٹی چاہیے‘ نہ کہ درآمد شدہ گاڑیاں۔ (دی نیوز‘ ۲۲ستمبر ۲۰۰۶ئ)

فوجی آمریت کی معاشی پالیسی کاحاصل ہی یہ ہے کہ ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر مہنگے پٹرول سے چلنے والی گاڑیوں کی ریل پیل ہے مگر پبلک ٹرانسپورٹ تباہ ہے اور عوام روٹی سے محروم ہیں۔

معاشی لبرلزم کا بڑا چرچا ہے اور جنرل صاحب اور ان کی معاشی ٹیم معاشی آزاد روی (economic liberalisation) پالیسی پر نازاں ہیں لیکن عالمی جائزے بتا رہے ہیں کہ اس میدان میں بھی ان کی کارکردگی خوش فہمی سے زیادہ نہیں۔ اسی مہینے جو عالمی جائزہ (Economic Freedom of the World - 2006 Annual Report) شائع ہوا ہے اس کے مطابق دنیا کے ۱۲۷ ملکوں کے سروے میں پاکستان کا نمبر ۹۵ ہے‘ جب کہ بھارت کا نمبر ۵۳ اورسری لنکا کا ۸۳ ہے۔ ہانگ کانگ اورسنگاپور نمبر ایک اور نمبر۲ پر آتے ہیں۔

جنرل صاحب اس دعوے سے اقتدار میں آئے تھے کہ کرپشن ختم کردیں گے مگر ان کے اردگرد سب وہی ہیں جوکرپشن میں بڑا نام پیدا کرچکے ہیں۔ جنرل صاحب کے دور میں یہ منظر بھی دیکھا گیا کہ سندھ کے وزیراعلیٰ نے اپنے ہی وزیر کے خلاف جومسلم لیگ(ق) کے صوبائی سیکرٹری بھی تھے بدعنوانی کی چارج شیٹ لگائی تھی اور خود ان وزیرصاحب نے اپنے وزیراعلیٰ صاحب پر جوابی چارج شیٹ لگائی اور ماشاء اللہ دونوں کو جنرل صاحب نے خاموش رہنے کا مشورہ دیا تھا اور وہ برابر ان کی ٹیم کا حصہ ہیں۔ اب انھی وزیراعلیٰ نے باقاعدہ بیان دیا ہے کہ کرپشن ہر حد کو پار کرگئی ہے اور اینٹی کرپشن کا شعبہ کرپشن ختم کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ پھر اپنے افسروں سے ارشاد فرماتے ہیں کہ اگر کرپشن کو ختم نہیں کرسکتے تو اس میں کچھ کمی توکرا دو۔ لیکن عالم یہ ہے کہ کرپشن برابر بڑھ رہی ہے اور جرنیلی آمریت کی سرپرستی میں اس میں دن دونی اور رات چوگنی ترقی ہورہی ہے۔   نج کاری میں کرپشن اداراتی سطح پر جہاں پہنچ گئی ہے‘ اس کا ایک ثبوت اسٹیل مل کی نج کاری پر  سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے۔ اس طرح کی کوئی مثال اس سے پہلے نہیں ملتی۔

ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی پاکستان پر تازہ ترین رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس دور میں کرپشن تمام پہلے ادوارسے بڑھ گئی ہے۔ اس جائزے کی رو سے کرپشن کی تصویر کچھ یوں بنتی ہے:

بے نظیر کا پہلا دور               ۹۰-۱۹۸۹ء

۸ فی صد

نواز شریف کا پہلا دور           ۹۳-۱۹۹۰ء

۱۰ فی صد

بے نظیر کا دوسرا دور          ۹۶-۱۹۹۳ء

۴۸ فی صد

نواز شریف کادوسرا دورِ        ۹۹-۱۹۹۶ء

۳۴فی صد

جنرل مشرف کا دور               ۰۲-۱۹۹۹ء

۶۹ئ۳۲ فی صد

جنرل مشرف کا تازہ دور       ۰۶-۲۰۰۲ء

۳۱ئ۶۷ فی صد

(قومی کرپشن کا جائزہ ۲۰۰۶ئ‘ ص ۳۰)

یہ ہے جرنیلی آمریت کی حقیقی کارکردگی… پڑھتا جا‘ شرماتاجا!

راہِ عمل

حالات کے معروضی اور بے لاگ جائزے سے یہ اصولی نتیجہ سامنے آتا ہے کہ آمریت کبھی بھی صحیح نظام نہیں ہوسکتی۔ آمر اچھا انسان بھی ہوسکتا ہے اور برا بھی۔ پارسا بھی ہوسکتا ہے اور بدقماش بھی۔فوجی بھی ہوسکتا ہے اورسویلین بھی‘ لیکن آمریت کبھی خیر اور صلاح کا باعث نہیں ہوسکتی۔ یہ بلبلہ جب بھی پھٹتا ہے اس میںسے کثافت اور گندگی ہی نکلتی ہے۔ یہ تاریخ کا فیصلہ اور ہمارا اپنا تجربہ ہے۔ مسائل بے شمار ہیں اور ان میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ بلکہ جیساکہ ہم نے حقائق سے ثابت کیا ہے ملک جس خطرناک صورت حال سے آج دوچار ہے پہلے نہیں تھا___ لیکن ان سب مسائل کا حل صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ جرنیلی آمریت سے عوامی جدوجہد کے ذریعے نجات پائی جائے‘ اور یہ جدوجہد اس ہدف کو سامنے رکھ کر ہو کہ ایک جرنیل کی جگہ کوئی دوسرا جرنیل اور ایک آمر کی جگہ دوسرا آمر برداشت نہیں کیا جائے گا۔

جمہوریت اپنی تمام خرابیوں کے باوجود اپنے اندر اصلاح اور تبدیلی کا ایک راستہ رکھتی ہے اور عوام کے سامنے باربار جواب دہی کے لیے آنے کا نتیجہ بالآخر بہتری کی صورت میں نکلتا ہے۔ صبر اور تسلسل کے ساتھ اس عمل کو جاری رہنا چاہیے۔ اس سلسلے میں مختصر راستے (short cut)  کے دھوکے سے نکلنا ضروری ہے۔ آمریت سے نجات خود اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد کو آگے بڑھانے اور کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آمریت کا خاتمہ اس سلسلے میں     فتح باب کا درجہ رکھتا ہے۔ آج کی جرنیلی آمریت اس راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور جب تک یہ رکاوٹ دُور نہ ہو اسلامی نظام کے قیام کا سلسلہ شروع نہیں ہوسکتا۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستا ن کی بقا و استحکام اور خود اقامت دین کی جدوجہد کی کامیابی کے لیے دستوری عمل کی استواری‘ غیرجانب دارانہ عبوری حکومت کے تحت انتخابات‘ آزاد اور بااختیار الیکشن کمیشن کا قیام اور اس کے ذریعے انتخابات کا انعقاد‘ فوج کی سیاست سے مکمل اور دائمی بے دخلی___ یہ سب اس منزل کی طرف پیش قدمی کے لیے ضروری اقدام ہیں اوران کا حصول اس وقت پاکستان کوانتشار سے بچانے اور اس ملک کی آزادی اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔ اس وقت تمام سیاسی اور دینی قوتوں کو سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ذیلی مسائل اور اختلافات کو اپنی حدود میں رکھتے ہوئے مشترک قومی مقاصد کے لیے متحد ہوکر مسلسل جدوجہد کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت تھوڑی سی غفلت بھی بہت مہنگی پڑسکتی ہے اس لیے کہ   ع

لمحوں نے خطا کی ہے‘ صدیوں نے سزا پائی

آج بھی پاکستان ایک ایسے ہی فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے اور ہم بروقت فیصلے یا صحیح اقدام کے باب میں غفلت کے متحمل نہیں ہوسکتے اس لیے کہ    ؎

یہ گھڑی محشر کی ہے‘ تو عرصۂ محشر میں ہے

پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے

ہر جانے والا بہت سوںکو سوگوار چھوڑتا ہے لیکن ایسے کم ہی ہوتے ہیں جو پورے عالم کو سوگوار چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوں۔ ۳ستمبر ۲۰۰۶ء کو اُمت مسلمہ سے جداہونے والا مجاہد   شیخ ابوبدرعبداللہ علی المطوع ایسے ہی چند نفوس میں سے تھا جس کے غم کو دنیاکے گوشے گوشے میںمحسوس کیا گیا‘ اور اُمت مسلمہ کا شاید ہی کوئی طبقہ یا گروہ ہو جس نے اس جدائی کو ذاتی غم کی طرح نہ محسوس کیا ہو۔ اس کی بنیادی وجہ شیخ ابوبدرؒ کی دعوت اسلامی اور خدمت خلق کی وہ مساعی ہیں جو ۶۰سال کے عرصے پر محیط ہیں اور جن کا مرکز و منبع خواہ کویت ہو مگر ان کی وسعت اور اثرانگیزی مشرق و مغرب اور شمال و جنوب‘ اس کرئہ ارض کے چپے چپے تک پھیلی ہوئی تھی۔ میرے علم میں نہیںکہ گذشتہ ۶۰ سالوں میں کسی ایک فرد کی مساعی اور اس کے ثمرات کو خصوصیت سے انفاق    فی سبیل اللہ اور تعاونوا علی البر والتقوٰی کے میدان میں یہ وسعت حاصل ہوئی ہے۔ دنیاے اسلام میں جہاں کوئی کارخیر انجام دیا جا رہا ہے‘ اس میں ابوبدرؒ کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ہے  ع

یہ رتبۂ بلند ملا‘ جس کو مل گیا

الاخ ابوبدر ۱۹۲۶ء میں کویت کے ایک خوش حال اور نہایت دین دار گھرانے میں پیداہوئے۔ ابتدائی تعلیم ایک عام اسکول احمدیہ میںحاصل کی اور نوجوانی ہی میں اپنے والد محترم کے کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹانے کے لیے سرگرم ہوگئے۔ عنفوان شباب ہی میں حسن البناشہیدؒاور ان کی تحریک اخوان المسلمون سے نسبت کا رشتہ استوار ہوگیا۔ وہ اوران کے بڑے بھائی     شیخ عبدالعزیز المطوع ‘امام شہیدؒ کی دعوت سے متاثر تھے اور حج بیت اللہ کے موقع پر غالباً دوسری   جنگ عظیم کے فوراً بعد ان سے ملے اور پھر انھی کے ہوکر رہ گئے۔ کویت کے مخصوص حالات کی روشنی میں اخوان المسلمون کا باقاعدہ قیام تو عمل میں نہیں آسکا لیکن تحریک اخوان کا ایک مؤثر حلقہ وجود میں آگیا اور اسے ہر میدان میں روز افزوں ترقی حاصل ہوئی۔ اس کے قائد اور روح رواں الاخ ابوبدرؒ ہی تھے۔ اس حلقے نے اجتماعی تحریک کی شکل بھی اختیار کی مگر مقامی رنگ کے ساتھ۔ ۱۹۵۲ء میں جمعیۃ الارشاد کے نام سے کام کا آغاز کیا جس نے بالآخر ۱۹۶۳ء میں جمعیۃ الاصلاح الاجتماعی کی شکل اختیار کرلی اور یہ جمعیت کویت کی تحریک اسلامی کا گڑھ بن گئی۔ فکری‘ تربیتی‘ تعلیمی‘ دعوتی‘ سماجی‘ خدمتی اور بالآخر سیاسی جدوجہد کا مرکز و محوربنی اور کویت کی اجتماعی زندگی پر گہرے اثرات ڈالے۔ اس وقت کویت کی پارلیمنٹ میں سب سے بڑا منتخب گروپ اسی فکر کا علم بردار ہے۔

شیخ ابوبدر کی دل چسپی‘ تعلیم اور تبلیغ میں پہلے دن سے رہی۔تعلیمی اداروں کے قیام کے ساتھ انھوں نے دینی مجلوں کے اجرا کا بھی اہتمام کیا۔ سب سے پہلے الارشاد الاسلامیہ کا اجرا کیا۔ نوجوانوں کے لیے جمعیۃ کے نام سے ایک رسالہ نکالا لیکن ان کا سب سے اہم اور تاریخی کارنامہ ۱۹۷۰ء سے ہفت روزہ المجتمع کا اجرا ہے۔ یہ رسالہ کویت ہی نہیں پورے   عالمِ عرب میں اسلامی دعوت اور فکر کا نقیب ہے اور وقت کے تمام مسائل پر اسلامی نقطۂ نظر کا    مؤثر ترین ترجمان ہے۔ شیخ ابوبدرؒنے کوشش کی کہ اس کی ادارت قابل ترین ہاتھوں میں ہو۔    عالمِ اسلام کے تمام ہی چوٹی کے اہلِ قلم اس کے لکھنے والوں میں شامل ہیں۔

الاخ ابوبدر عالم اسلام کی اہم ترین تنظیموں میں مرکزی کردار ادا کرتے رہے اور ان کا شمار عالمی اسلامی تحریکوںکے ممتاز ترین قائدین میں ہوتا تھا۔ کویت کی جمعیۃ الاصلاح الاجتماعی کے وہ صدر تھے۔ رابطہ عالم اسلامی اور عالمی مساجدکونسل کے بانی ارکان میں سے تھے۔ کویت کی اہم ترین فلاحی تنظیم الہیئہ الخیریۃ الاسلامیۃ العالمیۃ کے بانی رکن اور اس کی مجلس منتظمہ کے رکن تھے۔ بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کے بانی رکن اور اس کے قیام اور ترقی میں ان کا نمایاں کردار ہے۔ اسلامی دنیا کا کوئی اہم دعوتی‘ رفاہی‘ خدمتی‘ تعلیمی منصوبہ ایسا نہیںجس کی     مالی معاونت اور فکری سرپرستی میں ابوبدر کا حصہ نہ ہو۔ وہ کویت کے متمول ترین افرادمیں سے تھے لیکن انھوں نے اپنی دولت کو صرف اپنے اور اپنے خاندان کے لیے استعمال نہیں کیا بلکہ اس سے ساری دنیا کی دعوتی‘ رفاہی اور جہادی خدمات کی آبیاری کی۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں کویت ہی نہیںپورے عالمِ عرب میں بجاطور پرامام خیرالعمل کی حیثیت سے یادکیا جاتا ہے۔

الاخ ابوبدر سے میری پہلی ملاقات ۱۹۵۹ء میں ہوئی جب وہ پاکستان تشریف لائے اور محترم چودھری غلام احمد مرحوم کے ساتھ میرے غریب خانے پر کراچی جماعت کے قائدین کی ایک نشست میں شریک ہوئے۔ گذشتہ ۵۸سالوں میں مجھے ان سے دسیوں بار ملنے‘ ان کے ساتھ سفروحضر میں وقت گزارنے‘ سیمی ناروں‘ کانفرنسوں اور مخصوص نشستوں میں شریک ہونے کا موقع ملا اور اس پورے زمانے میںایک بھی موقع شکایت اور رنجش کا پیدا نہ ہوا۔ حتیٰ کہ ان پُرآشوب ایام میں بھی جب کویت ایران پر عراق کے حملے کی حمایت کر رہا تھا اور ہم ایران کی تائید اور صدام کی مذمت کر رہے تھے لیکن یہ ابوبدر کا ظرف اور حق پرستی تھی کہ ہمارے تعلقات اورتعاون پر کوئی حرف نہ آیا۔ جہاد افغانستان‘ بوسنیا کی جدوجہد آزادی‘ فلسطین کا جہاد‘ کشمیر کی اسلامی مزاحمتی تحریک‘ ہرہرجدوجہد میں وہ دل و جان سے شریک تھے۔ صرف مالی معاونت ہی نہیں بلکہ ہر سطح پر مشورے‘ شرکت اور رہنمائی میں وہ پیش پیش ہوا کرتے تھے۔

میں نے ابوبدر کو ایک بڑاعظیم انسان پایا۔ ان کے ظاہر و باطن میںکوئی فرق نہ تھا۔ ان کے سینے میں ایک دل دردمند‘ ان کا دماغ مشکل کشا‘اور ہمت ہمہ جوان تھی۔ دولت و ثروت نے ان کواور بھی انکساری کا نمونہ بنا دیا تھااور انھوںنے مال و دولت کو ایک خادم اورخیر کے فروغ کے لیے وسیلے کے طور پر استعمال کیا۔ سادگی‘ ملنساری‘خدمت اور ایک حدتک عرب بدوانہ درویشی ان کا شعار تھی۔ وہ بڑی محبت کرنے والے انسان تھے اور ان کی شخصیت میں وہ شیرینی تھی کہ وہ بہت جلد سب کی محبت کامرکزو محور بن جاتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ بڑے کھرے انسان اوراصولوں کے معاملے میں سمجھوتہ نہ کرنے والے‘ اورحق بات کا پوری بے باکی سے اظہار کرنے والے تھے۔ دولت مند بالعموم بزدل ہوجاتے ہیں لیکن ابوبدر حق کے معاملے میں بڑے جری تھے اور بڑے سے بڑے حکمران کے سامنے حق بات کہنے میں ذرا بھی باک نہ محسوس کرتے تھے۔

پاکستان‘ مولانا مودودی ؒاورجماعت اسلامی سے ان کو بڑی محبت تھی‘ اور پاکستان پر آنے والی ہر آفت کادکھ انھوں نے ہمیشہ محسوس کیا جس طرح ایک محب وطن پاکستانی محسوس کرتا ہے۔ کشمیر کی آزادی کی تحریک سے انھیں بے پناہ لگائوتھا‘ اور وہاں کے حالات‘ مسائل اور ضروریات میں وہ خود دل چسپی لیتے تھے۔

الاخ ابوبدر کی رسمی تعلیم زیادہ نہ تھی لیکن اپنے ذاتی ذوق اور خداداد صلاحیت سے انھوں نے علم و عمل‘ دونوں میدانوں میں ممتاز مقام حاصل کیا۔ سیاسی امور میں ان کی بصیرت کسی بڑے سے بڑے ماہر سے کم نہ تھی۔ حالات کا تجزیہ کرنے اور عالمی مسائل اور تحریکات پر ان کی نظر بڑی گہری تھی۔ میں نے مخصوص اجتماعات سے لے کر علمی مجالس اور کانفرنسوں میں ان کو بڑی سلجھی ہوئی مدلل بات کرتے ہوئے دیکھا‘ اور وہ ایک کامیاب تاجر ہی نہیں‘ ایک بالغ نظر سیاسی رہنما اور  اسٹرے ٹیجک امور پر قادرالکلام مبصر بھی تھے۔

شیخ ابوبدر نے تجارت میں بھی نام پیدا کیا۔ وہ عرب دنیا کے چوٹی کے کامیاب تاجروں میں سے ایک تھے۔ لیکن ان کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ ایک طرف انھوں نے تجارت میں کبھی بددیانتی‘ اور کاروباری ہیرپھیر کا سہارا نہیںلیا اورحقیقی اسلامی اخلاق کا دامن نہیں چھوڑا‘ اور دوسری طرف ان کے کاروبار میں سود کی رتی بھر ملاوٹ نہ تھی۔ اس طرح  انھوں نے یہ مثال قائم کر دی کہ سود کے بغیر بھی ایک تاجر اعلیٰ ترین مقام پر پہنچ سکتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جو کثیر دولت ان کو    دی اس کا بڑا حصہ انھوں نے دین حق کے پھیلانے‘ غریبوں اورفلاحی اداروں کی معاونت اور اقامت ِ دین اور جہاد آزادی کی تحریکوں کی آبیاری کرنے میں صرف کی۔ یوں ہمارے اپنے دور میں سلف صالحین کے دور کی وہ مثال قائم کی جس کے بارے میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارت دی تھی کہ  سچا ایمان دار تاجر قیامت کے روز نبیوں‘ صدیقوں اور شہدا کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔

الاخ ابوبدر اللہ کے ان مخلص بندوں میں سے تھے جنھوں نے اپنے رب سے جو عہد ِ وفا کیا تھا‘ اسے عملاً نبھا دیا اور آنے والوں کے لیے ایک روشن مثال قائم کر دی۔

مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ ج فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَـہٗ وَمِـنْھُمْ مَّنْ یَّـنْتَظِرُ ز وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا o (الاحزاب ۳۳ :۲۳)   ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوںنے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچاکر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویے میںکوئی تبدیلی نہیں کی۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ الاخ ابوبدر ان لوگوںمیں سے تھے جو اللہ کو اپنا رب مان لینے کے بعد اس پر جم گئے اور اللہ کی اطاعت‘ اس کے دین کی سربلندی اور اس کی مخلوق کی خدمت میںساری زندگی اور اپنے سارے وسائل صرف کردیے۔ مسلمانوں کا ہرمسئلہ ان کا اپنا مسئلہ تھا‘اور ہر غم ان کا اپنا غم تھا۔ ان کا عالم یہ تھاکہ   ؎

خنجر چلے کسی پہ‘ تڑپتے ہیں ہم اسیر

سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

میںنے کسی علاقائی عصبیت کا کوئی پرتو ان کے فکر اور ان کی زندگی میں نہیں دیکھا۔  اسلام اور اُمت مسلمہ ان کی زندگی کا مرکز اور محور تھے اورانھی کی خدمت میں وہ مالکِ حقیقی سے جاملے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں اور خدمات کو قبول فرمائے اورانھیں جنت کے اعلیٰ ترین درجات میں جگہ دے۔  ع

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اسرائیل نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت‘ لبنان پر حملہ کر کے ۳۴ دن رات قوت کے بے محابا استعمال اور ظلم و تشدد کی ایک نئی داستان رقم کرنے کا کارنامہ انجام دیا ہے (جسے خود مغرب کی انسانی حقوق کی تنظیمیں انسانیت کے خلاف جرائم (crimes against humanity) قرار دے رہی ہیں) انھی ۳۴ شب وروز میں جدید ترین اور انتہائی تباہ کن اسلحے اور آلاتِ جنگ سے لیس دنیا کی چوتھی بڑی فوج کی ہمہ گیر جنگ (ہوائی‘ بحری اور بری) کے مقابلے میں حزب اللہ کے چند ہزار مجاہدوں کی سرفروشانہ مزاحمت ایک آئینہ ہے جس میں بہت سے چہرے اپنے تمام حسن و قبح کے ساتھ دیکھے جاسکتے ہیں۔ یوں انسان کی آنکھ دنیا ہی میں یَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْہٌ ج (اس روز کچھ لوگ سرخ رو ہوں گے اور کچھ لوگوں کا منہ کالا ہوگا۔ اٰل عمرٰن ۳:۱۰۶) کا چشم کشا اور ایمان افروز منظر دیکھ رہی ہے۔ مسئلہ کے تجزیے اور حالات کے مقابلے پر بات کرنے سے پہلے‘ عبرت اور موعظت کے ان مناظر پر ایک نظر ڈالنا مسائل کی حقیقت کو سمجھنے اور رزم گاہ کے تمام کرداروں کے چہروں کے اصل خدوخال اور نقش و نگار کو پہچاننے میں مددگار ہوگا۔

معرکۂ لبنان کے کردار

اس آئینے میں ویسے تو سارے ہی چہرے موجود ہیں لیکن ہم ان میں سے آٹھ کا ذکر مسائل کی تفہیم کے لیے ضروری سمجھتے ہیں:

سب سے پہلا چہرہ اسرائیل کا ہے اور وہی اس خونی ڈرامے کا اصل کردار بھی ہے۔ اسرائیل کوئی عام ریاست نہیں‘ مغرب کے ملمع سازوں اور تماشا گروں نے تو اسے علاقے کی ’واحد جمہوری ریاست‘ کا امیج (image) دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن اسرائیل نے خود اپنے کردار اور قوت کے نشے میں مست ہوکر انسانی تباہی‘ وسیع پیمانے پر ہلاکت خیزی اور جنگی جرائم کی نہ ختم ہونے والی حرکات کے ذریعے دنیا کو اپنی جو تصویر دکھا دی ہے‘ وہ اب کسی مصنوعی لیپاپوتی یا میڈیا کی جعل سازی سے تبدیل نہیں کی جا سکتی۔ جو باتیں بالکل واضح ہو کر سامنے آگئی ہیں وہ یہ ہیں:

۱- اسرائیل کا وجود اوراس کی بقا کا انحصار کسی اصول‘ حق یا عالمی ضابطے پر نہیں‘ قوت اور صرف قوت کے بے محابا استعمال پر ہے۔ اس کا قیام بھی تشدد اور قوت کی بنیاد پر ہوا اور علاقے میں اس کا وجود بھی صرف قوت کے سہارے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ اس کے لیے کوئی قانون ہے    اورنہ کوئی ریاستی حدود۔ چنانچہ جس فلسفے پر وہ عامل ہے اور اس کے پشتی بان اسی تصور پر اپنی   خارجہ پالیسی اورجنگی سیاست استوار کیے ہوئے ہیں کہ اسرائیل کی عسکری قوت کوناقابلِ مقابلہ (unchallengable) ہونا چاہیے اور صرف ایک یا دو پڑوسی ملکوں یا عالمِ عربی نہیں‘ بلکہ ایران اور پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک کے مقابلے میں اسرائیل کے پاس اتنی قوت ہونی چاہیے کہ وہ اس قوت کو جب چاہے اور جس موقع پر بھی وہ بزعمِ خود اپنے لیے کوئی خطرہ محسوس کرے تو بلا روک ٹوک اور جس طرح چاہے استعمال کرے۔ امریکا اور یورپ کے سامراجی ذہن نے اسے ’دفاعی اقدام‘ کا نام دیا ہے۔ جب امریکا یہ محسوس کرتا ہے کہ اسرائیل کی جارحانہ بلکہ دہشت گردانہ قوت میں کوئی کمی آرہی ہے تو آنکھیں بند کر کے اس کی قوت کو بڑھانے کے لیے جنگی سازوسامان کی ریل پیل کردی جاتی ہے۔ اسی بنیاد پر اسے نیوکلیر پاور بنایا گیا تھا۔ اس وجہ سے اسے ہرقسم کے تباہ کن اسلحے اور آلاتِ جنگ سے لیس کیا گیا‘ اسی دلیل پر ۱۹۷۳ء میں جب جنگ کا پلڑا صرف دو دن تک اس کے خلاف تھا اس کی مدد کی گئی اور اسی شرانگیز فلسفے کی وجہ سے حالیہ لبنان پر فوج کشی کے دوران امریکا نے برطانیہ کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کر کے تباہ کن بم ہی نہیں بلکہ ڈیزی کٹر اور زیرزمین مضبوط پناہ گاہیں تباہ کرنے والے بم (bunker buster) تک جہازوں میں لاد کر اسے پہنچائے۔

اسرائیل نے جو تباہی مچائی ہے اور جس پر ساری دنیا کے غیر جانب دار انسان چیخ اُٹھے ہیں۔ ٭وہ بھی اسرائیل کے اس فلسفۂ جنگ اور فلسفۂ وجود پر ایک معمولی سا دھبّا بھی نہیں لگاسکے اور اسرائیل اسی بنیاد پر قائم ہے۔

۲- اسرائیل بنیادی طور پر اس علاقے کی کوئی ریاست نہیں بلکہ اس کی حیثیت ایک استعماری قوت (colonial power)کی ہے جس نے فلسطین پر صرف قوت سے قبضہ ہی نہیں کیا بلکہ اسے آبادکاروں کی نوآبادی (settler colony) بھی بنا دیا‘ یعنی استعماری قوت کو دوام دینے کے لیے نقل آبادی اور زمینی حقائق کی تبدیلی تاکہ سرزمینِ فلسطین کے اصل باشندے یا دربدر کی ٹھوکریں کھائیں (آج ۴ ملین فلسطینی اپنے وطن سے باہر زندگی گزار رہے ہیں) یا پھر محکوم اور غلام بن کر رہیں اور یورپ اور امریکا سے کاکیش نسل کے یہودیوں کو اس سرزمین پر آباد کردیا جائے اور وہ بزور اس پر قابض رہیں۔ یہ دونوں پہلو یعنی اس کا نوآبادیاتی استعماری کردار اور آبادکاروں کی حیثیت اسرائیل کی اصل شناخت ہیں۔ لیکن اس میں ایک تیسرے پہلو کا اضافہ گذشتہ ۵۰سال میں اسرائیل اور امریکا کے سیاسی گٹھ جوڑ سے نمایاں ہوگیا ہے یعنی یہ کہ اب اسرائیل ان دونوں پہلوئوں کے ساتھ عرب دنیا میں امریکا کا ایک فوجی ٹھکانا بن گیا ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ پورے  علاقے کو امریکا کے سامراجی مقاصد کی خاطر استعمال کرنے کے لیے وہ چوکیدار کا کردار ادا کرے۔ اسے ایک غیرجانب دار مبصر نے یوں بیان کیا ہے:

اسرائیل ایک ملک نہیں ہے بلکہ مغربی ممالک کا فوجی اڈہ ہے تاکہ شرقِ اوسط اور مسلم ممالک کے تیل کے ذخائر پر کنٹرول رکھا جا سکے۔

اسرائیل کے تمام مظالم اور خلافِ انسانیت ہلاکت کاریاں اپنی جگہ‘ اس کے اصل چہرے کا سمجھنا ازبس ضروری ہے۔

اس آئینے میں دوسرا چہرہ امریکا کا صاف دیکھا جاسکتا ہے۔ امریکا اور اسرائیل کے کردار میں کوئی فرق باقی نہیں رہا ہے اور من تو شدم تو من شدی کا منظر صاف نظر آرہا ہے۔ اس لیے کہ اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے وہ امریکا کی پشت پناہی میں‘ اس کی باقاعدہ اعانت اور شمولیت سے اور اس کے علاقائی عالمی عزائم اور اہداف کے حصول کے لیے کر رہا ہے۔ یہ باہمی تعاون ایک مدت سے واضح ہے لیکن ۳۴ دن میں توہرچیز بالکل برہنہ ہوگئی ہے۔ بش اور کونڈولیزارائس نے پہلے دن سے اسرائیل کے اقدامات کی تائید کی اور صاف کہا کہ اسے حزب اللہ کو ختم کرنے اور لبنان کو سبق سکھانے کا حق حاصل ہے۔ G-8 سے لے کر روم کانفرنس تک امریکا نے تمام دنیا کی چیخ پکار اور کوفی عنان کی آہ و بکا کے باوجود فوری جنگ بندی کی پوری ڈھٹائی اور بے شرمی سے مخالفت کی‘ یورپ تک کی کوششوں کو آگے نہ بڑھنے دیا اور صاف کہا کہ اس قصے کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے اسرائیل کو تین ہفتے چاہییں اور وہ اسے ملنے چاہییں لیکن جب بازی اسرائیل کے خلاف پلٹنے لگی اور ایک ایک دن میں اسرائیل کے ۳۵ فوجی ہلاک ہونے لگے تو جنگ بندکرانے کے لیے امریکا بہادر تیار ہوگیا۔ اس زمانے میں ایران کو گالیاں دی جاتی رہیں کہ اس نے حزب اللہ کو اسلحہ دیا ہے اور خود جہاز پر جہاز اسرائیل کو روانہ کیے گئے اور اس جنگ میں ایک کھلا رفیق بن گیا جس کے نتیجے میں لبنان کے ۱۲۰۰ افراد شہید‘ ۵ہزار زخمی اور ۴۰ سے ۵۰ ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ پھر اسے زخموں پر نمک پاشی ہی کہا جاسکتا ہے کہ انسانی جانوں کی اس ہلاکت اور اس ہمہ گیر تباہی پر آنسو بہانے کے لیے امریکا نے ۵۰بلین ڈالر کی خطیرامداد کا اعلان کیا ہے۔ تفو برتو اے چرخ گرداں تفو۔ لبنان کے لیے واحد عزت کا راستہ یہی ہے کہ اس ۵۰بلین کی بھیک کو لینے سے انکار کردے اور ’عطاے تو بہ لقاے تو‘ کے اصول پر امریکا ہی کے منہ پر دے مارے!

یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ امریکا لبنان کا بڑا دوست بنتا تھا۔ رفیق حریری کے قتل کے بعد جو ڈراما ہوا اس کا اصل ہدایت کار امریکا ہی تھا۔ ماشاء اللہ لبنان کے کئی وزیراعظم بھی ہمارے شوکت عزیز کی طرح امریکا کے سٹی بنک ہی کا تحفہ ہیں اور شام کو بے دخل کرنے اور حزب اللہ کو غیرمؤثر بنانے کے منصوبے میں اہم کردارادا کر رہے تھے لیکن اسرائیل کی تائید میں لبنان کی امریکا نواز حکومت کو بھی بے سہارا چھوڑ دیا گیا اور اسرائیل کی جارحیت کو لگام دینے کی کوئی ظاہری کوشش بھی نہ ہوئی۔ جس نے ایک بار پھر اس حقیقت کو لبنان ہی نہیں پوری دنیا کے سامنے واضح کردیا کہ امریکا سے زیادہ ناقابلِ اعتماد کوئی ’دوست‘ نہیں ہوسکتا اور لبنان کے وہ عیسائی اور لبرل امریکا نواز بھی پکار اُٹھے کہ آزمایش کی اس گھڑی میں حزب اللہ اور حسن نصراللہ نے ہماری مدد کی اور جن کے دامن کو ہم نے تھاما تھا وہ گھر کو آگ لگانے والوں کا ساتھ دیتے رہے۔

یہ ہے امریکا کا اصل چہرہ!

ایک تیسرا چہرہ اقوام متحدہ کا بھی ہے۔ اس ادارے کا مقصد جارحیت کا شکار ہونے والوں کی مدد کو پہنچنا اور جارح کا ہاتھ پکڑنا ہے۔ لیکن افغانستان اور عراق پر امریکی حملوں کے وقت اس نے جو شرم ناک کردار ادا کیا‘ اس کا اظہار اس موقع پر بھی ہوا۔ ۳۴ دن تک یہ بے بسی کی تصویر بنا رہا اور امریکا کی مرضی کے خلاف کوئی اقدام نہ کرسکا۔ جب امریکا اوراسرائیل کو اپنے مقاصد میں ناکامی ہوتی نظر آئی تو جنگ بندی کی قرارداد منظور کی گئی۔

ایک چوتھا چہرہ یورپی اقوام کا بھی سامنے آتا ہے جو ایک طرف اپنے معاشی مفادات کی خاطر عرب دنیا سے قربت کا مظاہرہ کرتی ہیں اور کبھی کبھی امریکا سے کچھ اختلاف کا اظہار بھی کرتی ہیں لیکن اس کے باوجود جب آزمایش کی گھڑی آتی ہے تو عملاً ان کا وزن اسرائیل اور امریکا ہی کے ساتھ ہوتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ امریکا کھلے بندوں دل و جان سے یہ ظلم کرتا ہے اور یورپی اقوام ذرا بے دلی اور ہمدردی کے ایک آدھ بول کے ساتھ وہی کام انجام دیتی ہیں۔ ان کی دوستی اور تعاون پر بھی اعتماد دانش مندی کا تقاضا نہیں۔

اس آئینے میں ایک پانچواں چہرہ بھارت کا بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اسرائیل کی جارحیت پر خاموشی‘ لبنان اور فلسطین کی مدد اور تائید کے باب میں بے التفاتی۔ جیسے یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ امریکا اور اسرائیل سے نئی نئی دوستی پر فلسطین اور عربوں سے ساری ہمدردی سے دست برداری‘ لیکن اس سے بڑھ کر اسرائیل کو خوش کرنے اور امریکا سے دفاعی معاہدے کومستحکم کرنے کے لیے بھارت کے تمام چینلوں اور ہوٹلوں تک پر عرب چینلوں خصوصیت سے الجزیرہ کی نمایش پر پابندی تاکہ بھارت کے عوام یا بھارت میں آنے والے عرب‘ اسرائیل کے مظالم کے تصویری عکس بھی نہ دیکھ سکیں۔ یہ ہے بھارت کی ’قابلِ اعتماد دوستی‘ اور بھارت اور پی ایل او اور یاسرعرفات کی پینگوں کا حاصل!

حزب اللّٰہ کا عزم و ایمان

آئینے میں ایک چھٹا چہرہ ان عرب اور مسلمان حکمرانوں کا بھی نظر آتا ہے جنھوںنے اپنے مفادات کو امریکا سے وابستہ کرلیا ہے اور اس دبائو میں اسرائیل کے ساتھ دوستی سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ان حکمرانوں میں سے تین نے تو کھل کر پوری دریدہ دہنی کے ساتھ حزب اللہ اور حماس کو موردالزام ٹھیرایا اور انھیں سرزنش بھی کی۔ اس میں مصر کے صدر بہادر‘ اُردن کے بادشاہ سلامت اور سعودی عرب کے وزیرخارجہ سب سے پیش پیش تھے۔ لیکن بات صرف ان تین کی نہیں‘ عرب لیگ جنگ بندی کے ۳۴ دن تک کوئی متفقہ موقف اختیار نہ کرسکی۔ او آئی سی نے ۲۳ دن بعد اپنے ایک ۱۱ رکنی رابطہ گروپ کا اجلاس بلایا اور پھر خالی خولی زبانی احتجاج سے آگے نہ بڑھ سکی۔ بحیثیت مجموعی تمام ہی حکمران یا خاموش رہے یا بددلی اور بزدلی کے ساتھ چند بیانات سے آگے نہ بڑھے اور اس طرح ایک بار پھر یہ بات الم نشرح ہوگئی کہ یہ حکمران اُمت مسلمہ کے حقیقی ترجمان نہیں۔ یہ اپنے مفادات کے بندے ہیں یا امریکا اور مغربی سامراج کے کاسہ لیس‘ اس سے زیادہ ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ ان کے دل اُمت مسلمہ کے ساتھ نہیں دھڑکتے۔ انھیں اُمت کے مفادات کا کوئی لحاظ نہیں اور یہ عیش و عشرت کی اس زندگی کے عادی ہوچکے ہیں جسے اختیار کرنے کے بعد عزت کی زندگی کے سارے امکانات ختم ہوجاتے ہیں۔

ان چھے چہروں کے علاوہ بھی کچھ چہرے ہیں جو اسی آئینے میں نظر آتے ہیں اور بڑے روشن اور تابندہ نظر آتے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں اور سب سے درخشاں چہرہ حزب اللہ اور حماس کا ہے۔ جس چڑیا کو مارنے کے لیے اسرائیل نے توپ چلائی تھی وہ اسی طرح چہچہاتی رہی اور اسرائیل اپنی توپ و تفنگ کے ساتھ‘ ۳۴ دن تک آگ اور خون کی بارش برسانے کے باوجود اس کابال بھی بیکا نہ کرسکا۔ چند ہزار مجاہدین نے ایک عظیم مجاہد لیڈر حسن نصراللہ کی قیادت میں اسرائیل کے دانت کھٹے کردیے اور اس کے سارے غرور کا طلسم توڑ کر رکھ دیا۔ انھوں نے اللہ کے بھروسے پر جان کی بازی لگا دی۔ لبنان تباہ ہوگیا مگر ان کے عزم و ہمت پر آنچ بھی نہ آئی۔ اسرائیل نے لبنانی سرحد سے دو میل کے فاصلے پر بنت جبیل کے قصبے پر تین بارقبضہ کیا اور تینوں بار اسے پسپا ہونا پڑا۔ یہ صرف ایک معرکے کی داستان نہیں‘ یہ ۳۴ دن کے خونیں معرکے کے شب و روز کی کہانی ہے     ؎

اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے

اتنا ہی یہ اُبھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے

اللہ کے فضل سے حزب اللہ نے اسرائیل کے ناقابلِ تسخیر (invincible) ہونے کے دعوے کی قلعی کھول دی ہے۔ بے سروسامانی اور وسائل اور تعداد کے نمایاںترین بلکہ محیرالعقول فرق کے باوجود‘ اسرائیل اپنے کسی ایک ہدف میں بھی کامیاب نہیں ہوسکا۔ وہ اپنے دو فوجی چھڑانے آیا تھا‘ مگر اس نے اپنے ۲۰۰ فوجی مروا دیے اور وہ دو فوجی بدستور حزب اللہ کی قید میں ہیں‘ وہ حزب اللہ کی کمر توڑنے اور اسے صفحۂ ہستی سے مٹانے کے زعم کے ساتھ آیا تھا اور اس کی فوج ۳۴ دن کی گولہ باری اور فضائی‘ بحری اور بری جنگ کے باوجود حزب اللہ کے مقابلے کی قوت کو کم نہ کرسکی اور آخری دن میں اس نے اسرائیل پر ۲۴۶راکٹ داغے اور پہلی مرتبہ اسرائیل کو ایسے جنگی نقصانات برداشت کرنے پڑے جن سے پچھلے ۶۰سال میں بھی اس کو سابقہ پیش نہ آیا تھا۔ وہ تو سمجھتا تھا کہ عرب لڑنا نہیں جانتے اور ۶ سے ۱۷ دن میں ان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکتاہے۔ اس مرتبہ اسے جنگ سے نکلنے کے لیے راستے تلاش کرنا پڑے اور پہلی مرتبہ اسرائیل کے ۲۰۰ فوجی ہلاک‘ ۵۰۰ زخمی‘ اسرائیل کے اندر ۵ہزار راکٹوں کی بارش‘ ۴ لاکھ اسرائیلیوں کا حفاظتی بنکرز میں ایک مہینہ گزارنا اور ایک ملین کو نقل مکانی کرنا پڑی۔ اسرائیل پر راکٹوں کے حملے کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کا ابھی اندازہ کیا جا رہا ہے لیکن ابتدائی تخمینوں کے مطابق فوجی اور سول تنصیبات کے باب میں ۵ئ۱ ملین ڈالر اور معیشت کے میدان میں ۳ سے ۵ بلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ یہ مزہ اسرائیل نے پہلی بار چکھا ہے اور دنیا نے یہ منظر دیکھ لیا کہ ایمان‘ عزت و آبرو اور مناسب تیاری کے ذریعے کس طرح آج بھی وسائل کی کمی کے باوجود مسلمان دشمن کے دانت کھٹے کرسکتے ہیں    ؎

فضاے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو

اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

حزب اللہ اور جہادی عزم و مسلک نے اگر اسرائیل کی قوت پر ضرب کاری لگاکر اس کے ناقابلِ شکست ہونے کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے تو وہیں ایک طرف اس نے اُمت مسلمہ کا سر اللہ کے سامنے شکرکے جذبات سے جھکا دیا ہے اور دوسری طرف مادی وسائل اور عسکری قوت کی پجاری دنیا کے سامنے عزت سے بلند کردیا ہے‘ اوروہ جنھیں کمزور سمجھ کر اہلِ قوت پامال کرنے پر تلے ہوئے تھے‘ ان کو ایک نیا عزم‘ نئی ہمت‘ نیا ولولہ اور مقابلے کی نئی اُمنگ دی ہے۔ کونڈولیزا رائس اور جارج بش دونوں نے کہا تھاکہ لبنان کوسبق سکھانے کے اس جارحانہ اقدام کے بطن سے امریکا کے حسبِ خواہش ایک نیا شرق اوسط جنم لے گا___ لیکن ان شاء اللہ ایک نیا شرق اوسط تو ضرور جنم لے گا مگر وہ امریکا کا لے پالک نہیں ہوگا بلکہ اسلامی نشاتِ ثانیہ کا پیامبر ہوگا۔ حزب اللہ اب ایک تنظیم کا نام نہیں‘ ایک عالمی تحریک کا عنوان اور تبدیلی کے رخ کا مظہر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُردن کے وہی حکمران شاہ عبداللہ جس نے چار ہفتے قبل ان پر حرف زنی کی تھی وہ اب یہ کہنے پر مجبور ہوا ہے کہ:

عرب عوام کی نظروں میں حزب اللہ ہیرو ہیں‘ اس لیے کہ یہ اسرائیل کی جارحیت کا مقابلہ کر رہی ہے۔ (دی نیشن‘ ۱۲ اگست ۲۰۰۶ئ)

اور حزب اللہ کا مخالف ولید جنبلات جو دروز کمیونٹی کا لیڈر ہے اورجسے اسرائیل نے ۱۹۸۰ء کی جنگ میں حلیف بنایا ہوا تھا اب کہہ رہا ہے کہ:

آج لبنان اپنی بقا کے لیے حزب اللہ اور حسن نصراللہ کا مرہونِ منت ہے جنھوں نے اسرائیل کو شکست دی ہے۔ یہ ایک یا دوسرے حصے کو حاصل کرنے یا کھونے کا مسئلہ نہیں‘ انھوں نے اسرائیل کو شکست دی ہے۔ (دی نیشن‘ ۲۱ اگست ۲۰۰۶ئ)

یہ وہ حقیقت ہے جس کا اعتراف ہر سطح پر اور ہر حلقے میں ہو رہا ہے بجز امریکی وائٹ ہائوس کے‘ لیکن تاریخ اسے پیچھے چھوڑ گئی ہے۔ حزب اللہ کے اس تابناک چہرے کے ساتھ ان ہزاروں مصیبت زدہ انسانوں کا چہرہ بھی اسی آئینے میں نظر آرہا ہے جو اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنے ہیں‘ جن کے اعزہ ہمیشہ کی نیند سلا دیے گئے ہیں‘ جن کے گھر اور کاروبار تباہ کر دیے گئے ہیں‘ جن کے ملک کو کھنڈر بنا دیا گیا ہے مگر ان کا ایمان تابندہ ہے‘ ان کا عزم جوان ہے‘ جو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ رہے ہیں کہ ہمارے گھر تباہ ہوگئے ہیں لیکن ہمارا سر بلند ہے۔ سیکڑوں انٹرویو دنیا بھر کے میڈیا میں بشمول بی بی سی اس پر گواہ ہیں کہ ایک ماں جس کے جوان بچے شہید ہوگئے ہیں لیکن وہ پورے سکون سے کہتی ہے کہ ان کا غم اپنی جگہ ‘ لیکن مجھے اپنی قربانی پر فخر ہے۔

صرف ایک دو مثالیں:

بی بی سی کا نمایندہ ایک ملبے میں تبدیل ہوجانے والے مکان کے مالک سے پوچھتا ہے: ’’آپ کو تو بڑی قیمت ادا کرنی پڑی‘‘۔ تو اس کا جواب ہے: ’’تمھیں کیا پتا    نہیں‘ ہمارے ہاں ناک کی کیا اہمیت ہے۔ ٹھیک ہے‘ کچھ نہیں رہا مگر ناک تو اُونچی ہے۔ ہم سب ہیرو ہیں۔ گھر کا کیا ہے‘ وہ تو پھر بھی بن جائے گا۔ (بی بی سی‘ سیربین‘ ۱۵اگست ۲۰۰۶ئ)

ایک باپردہ مگر باعزم ماں جس کی اولاد شہید اور گھر تباہ ہوگیا تھا اسی ملبے پر بیٹھی ہے اور کہہ رہی ہے:

یہاں سے اب کہیں اور جانا شکست ماننا ہے۔ اسرائیل اس سے زیادہ اور کر بھی کیا سکتا ہے اور گھر تباہ کردے اور بچے مار دے لیکن کیا فرق پڑتاہے۔ جو زندہ ہیں وہ ایک دن بڑے تو ہوں گے اور پھر بندوق اٹھا لیں گے۔ (ایضاً)

جس قوم میں یہ جذبات اور یہ عزائم ہوں انھیں کوئی شکست نہیںدے سکتا۔ ضرورت صحیح لیڈرشپ‘ صحیح اہداف کے تعین اور صحیح تیاری اور نقشۂ کار کے مطابق کارکردگی کی ہے۔

جن جذبات کا اظہار لبنان کے عام مسلمان ہی نہیں‘ سب مذاہب‘ مسلکوں اور قومیتوں کے لوگ کر رہے ہیں‘ وہی جذبات اور احساسات پوری دنیا کے مسلمانوں اور انصاف پسند انسانوں کے ہیں۔ اس آئینے میں عوام و خواص اور اسٹریٹ و اسٹیٹ کے درمیان جو بعدعظیم آج پایا جاتا ہے‘ اس کے ہر نقش و نگار کودیکھا جاسکتا ہے۔ استنبول کی سڑکیں ہوں یا قاہرہ کی گلیاں‘ لاہور کی   شاہ راہ ہو یا جدہ اور مدینہ کے راہ گزار‘ ہر جگہ عام آدمی کے جذبات و احساسات ایک ہیں۔ اور اس فرق کو کوئی نظرانداز نہیں کرسکتا جو آج حکمرانوں اور عوام کے درمیان پایاجاتا ہے۔

یہ آٹھ چہرے اس دور کی سب سے اہم آٹھ حقیقتوں کے مظہر ہیں اور مستقبل کے نقوش کو ان کی آنکھوں کی چمک اور چہرے کے رنگ میں دیکھا جاسکتا ہے۔

امریکی صھیونی عزائم

معرکۂ لبنان کے اس تناظر میں اب یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جولائی کی فوج کشی کے اصل مقاصد کیا تھے؟ ۱۴ اگست کی لرزتی کانپتی جنگ بندی کے بعد اسرائیل اور امریکا کے اہداف کیا ہیں اور معرکۂ لبنان کے نتیجے میں اور اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ کے مطابق وَیَمْکُرُوْنَ وَیَمْکُرُ اللّٰہُ ط وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ (وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے۔ الانفال ۸: ۳۰)‘  اُمت مسلمہ کے لیے نقشۂ راہ کیا ہے؟ ان تینوں بنیادی امور کے بارے میں ہم مختصراً اپنی معروضات پیش کرتے ہیں:

جہاں تک ۱۲ جولائی سے شروع ہونے والی چھٹی اسرائیلی جنگ کا تعلق ہے‘ اس کی وجہ کا رشتہ فلسطین میں ایک اور لبنان میں دو اسرائیلی قیدیوں سے جوڑنا محض دھوکا اور سیاسی شعبدہ گری کا حربہ ہے۔ سرحدی چھیڑچھاڑ‘ فائرنگ‘ میزائل کا استعمال‘ ہوائی حملے‘ اس علاقے میں زندگی کا معمول ہیں۔ اسرائیل کے قبضے میں فی الوقت ایک ہزار فلسطینی‘ ایک سو سے زائد لبنانی جن میں سے ۳۰ کا تعلق حزب اللہ کے کارکنوںسے ہے اور ۳۰ اُردن کے باشندے ہیں۔ ماضی میں کئی بار قیدیوں کا تبادلہ ہواہے اور یہ ایک معمول کی کارروائی ہے۔ اس کا کوئی تعلق جولائی کے حملے سے نہیں۔ اس حملے کی تیاری اسرائیل دو سال سے کر رہا تھا‘ گذشتہ سال باقاعدہ اس کے لیے مشقوں کا اہتمام بھی کیا جاچکا تھا اور گذشتہ دو مہینے میں صرف جنگی سازوسامان اور رسد کی ترسیل ہی نہیں‘ امریکا کے مکمل تعاون کے ساتھ جنگ کا پورا نقشہ تیار کرلیا گیا تھا اور پوری تیاری سے یہ حملہ فوجیوں کی گرفتاری کو بہانہ بناکر کیا گیا۔ اس سلسلے میں سارے حقائق امریکا میںاور اسرائیل میں سامنے آچکے ہیں۔

امریکی رسالے دی نیویارکر کے ۲۱ اگست کے شمارے میں مشہور امریکی صحافی اور مصنف سائمورہرش (Seymour Hersh)کا مفصل مضمون شائع ہواہے جس میں پورے منصوبے کی اور اس میں امریکا کے کردار کی تفصیلات شائع ہوگئی ہیں۔ یہ اسرائیلی حملہ امریکا کے ایما پر اور اس کی اس خواہش کی تکمیل میں انجام دیا گیا کہ حزب اللہ پر بطور پیش بندی کارروائی کی جائے۔ ہرش کے الفاظ ہیں: a preemptive blow against Hezbollah

اس کا ایک مقصد ایک اہم امریکی شریک راز کے الفاظ میں یہ تھا: ہم چاہتے تھے کہ  حزب اللہ کو ختم کریں‘ اب ہم دوسرے سے یہ کروا رہے ہیں‘ یعنی اسرائیل نے امریکا کے پروگرام کے تحت یہ حملہ کیا۔

اس سلسلے میں ایک بڑا اہم مضمون سان فرانسسکو کرانیکل میں ۲۱ جولائی کو حملے کے ۹ دن کے بعد شائع ہوا تھا جس میں اس چار نکاتی پروگرام کی پوری تفصیل دی گئی تھی جس میں اسرائیل نے امریکی قیادت کوا پنے منصوبے سے آگاہ کیا اور اس کی تائید اور تعاون حاصل کیا۔ امریکا کی بار اِلان (Bar-Ilan) یونی ورسٹی کے شعبۂ سیاسیات کے پروفیسر جیرالڈ سٹین برگ نے اس پوری تیاری اور منصوبے کو اس طرح پیش کیا ہے:

۱۹۴۸ء کے بعد اسرائیل نے جتنی بھی جنگیں لڑی ہیں‘ یہ ان میں سے وہ تھی جس کے لیے اس نے سب سے زیادہ تیاری کی تھی۔ ایک طرح سے ۲۰۰۰ء میں اسرائیلی فوجوں کی واپسی کے بعد سے ہی یہ تیاری شروع ہوگئی تھی۔

اس لیے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ یہ طے شدہ منصوبے کے مطابق اسرائیل کی چھٹی جنگ تھی اور اس کے متعین اہداف تھے جو اللہ تعالیٰ کی حکمت سے خاک میں مل گئے۔ مگر ان کا سمجھنا ضروری ہے‘ نیز یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ اس ناکامی کے باوجود اہداف نہیں بدلے ہیں اورجنگ بندی صرف تیاری اور نئی جنگ کے لیے صف بندی کا ایک وقفہ ہے‘ چین کا سانس لینے کی مہلت نہیں۔

اس وقت اسرائیل اور امریکا کا پہلا ہدف حزب اللہ کا خاتمہ‘ حسن نصراللہ کی شہادت اور لبنان کو ایک ایسی ریاست میں تبدیل کرنا تھا جو اسرائیل کی معاون بنے اور وہاں اسلامی قوتوں کے لیے زمین تنگ کردی جائے۔

حزب اللہ کے خاتمے کے ساتھ ہدف یہ بھی تھا کہ حزب اللہ کے مؤیدین کی حیثیت سے ایران اور شام پر لشکرکشی کی جائے۔ ایران پر اس کی ایٹمی صلاحیت کو تباہ کرنے کے لیے اور شام پر فلسطین کی تحریکات مزاحمت خصوصیت سے حماس اور اسلامی جہاد کی قیادت کو پناہ گاہ فراہم کرنے اور ان تحریکوں کی سیاسی مدد کرنے کے جرم میں۔ مصر اور اُردن کو قابو کرنے‘ عراق کو تباہ کرنے اور سول وار کی آگ میں جھونک دینے اور سعودی عرب اور خلیج کے ممالک کو عملاً ایک تابع مہمل بنالینے کے بعد اب ایران اور شام آنکھوں میں کانٹوں کی طرح کھٹک رہے تھے اور ساتھ ہی پاکستان اس سلسلے کا آخری ہدف ہے کہ یہ افغانستان پر امریکی قبضے کے باوجود ان کے خیال میں دہشت گردوں کی پناہ گاہ بنا ہوا ہے۔

ایک ترتیب سے اور شاید اسی ترتیب سے___ یعنی لبنان‘ایران‘ شام اور پاکستان___ نئی جنگی حکمت کی نقشہ بندی کی گئی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ پہلی ہی منزل پر اسرائیل کو منہ کی  کھانی پڑی ہے اور امریکا کا پورا منصوبہ طشت ازبام ہوگیا ہے لیکن یہ سمجھنا کہ اسے ترک کردیا گیا ہے‘ ہمالہ سے بڑی غلطی ہوگی۔

جنگ بندی ایک عارضی عمل ہے اور اب بھی پوری کوشش کی جائے گی کہ حزب اللہ کو غیرمسلح کرنے اور لبنانی فوج جس کی اس وقت کیفیت یہ ہے کہ اس میں عیسائیوں اور دروزی عناصر کو اکثریت حاصل ہے اور مثبت پہلو صرف یہ ہے کہ اپنے اسلحے اور تربیت کے اعتبار سے وہ کوئی   بڑی قوت نہیں‘ لیکن منصوبہ یہی ہے کہ اسے اور اقوام متحدہ کی نام نہاد امن فوج کو حزب اللہ کے خلاف استعمال کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ فرانس‘ جرمنی اور اٹلی تک شاکی ہیں کہ اصل کھیل کیا ہے۔ پاکستان کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اصل نقشے کو سمجھ کر اپنی پالیسی بنائے اور اس جال میں کسی قیمت پر اور کسی شکل میں نہ پھنسے۔

مستقبل کے لیے اس نقشے میںجو توسیع کی گئی ہیں ان کو دو نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ پہلے یہ خیال تھا کہ جن ممالک میں امریکی اسرائیلی منصوبے کے خلاف مزاحمت پائی جاتی ہے وہاں حکمرانوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے۔ لیکن اب اس پر اضافہ یہ ہے کہ محض حکمرانوں کی تبدیلی سے دیرپا مقاصد حاصل نہیں ہوسکتے اس لیے علاقوں کی حیثیت میں تبدیلی (change of region) کیا جائے یعنی عرب اور مسلم دنیا (بشمول پاکستان) کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم  کیا جائے جن کی نکیل بآسانی اپنے ہاتھ میں رکھی جائے۔ اس طرح اس حکمت عملی کا پہلا ستون حکمرانوں اور علاقوں کی تبدیلی ہے۔

اس کا دوسرا اور اہم ترین ستون اسلام کی تعمیرنو ہے جس کے نتیجے میں جہاد کے تصور کو نکال دیا جائے‘ اور اسلام کے سیاسی کردار کو ختم کردیا جائے۔ روشن خیال اور اعتدال پسندی کے نام پر‘ صوفیانہ اسلام کا ایک ایسا اڈیشن تیار کیا جائے کہ ظلم اور استبداد کی قوتوں کے خلاف مزاحمت کی جو عالمی تحریک اسلام کے زیراثر رونما ہوتی رہی ہے اور ہوتی رہے گی‘ اس کا دروازہ بند کردیا جائے تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔

معرکۂ لبنان  کی اصل اہمیت یہ ہے کہ اس نے امریکی اسرائیلی منصوبے پر اس پہلے مرحلے ہی میں بند باندھ دیا ہے۔ منصوبہ بھی کھل کر سامنے آگیا ہے اور اس کے مقابلے کا راستہ بھی کسی ابہام کے بغیر اُمت کے سامنے ہے‘ اور دشمن کو بھی اس کا پورا ادراک ہے۔

مقابلے کی حکمت عملی

اگر یہ نقشۂ جنگ ہے تو پھر مقابلے کی حکمت عملی کیا ہونا چاہیے؟ جیساکہ ہم نے عرض کیا معرکۂ لبنان میں اس کے تمام خدوخال دیکھے جاسکتے ہیں۔ ہم صرف ان کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

پہلی ضرورت رجوع الی اللہ کی ہے۔ مسلمان کی طاقت کا منبع اللہ کی ذات‘ ایمان کی قوت اور اخلاق و کردار کا ہتھیار‘ جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت ہے۔

دوسری بنیادی چیز اپنے اہداف اور مقاصد کا صحیح شعور اور دشمن کے اہداف اور مقاصد کا پورا ادراک ہے۔ یہ مقابلہ حقائق کے میدان میں ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ رب سے رشتہ کے ساتھ دنیاوی اعتبار سے جو نقشۂ جنگ ہے اس کا پوراشعور اور لوہے کولوہے سے کاٹنے کی حکمت عملی پر عمل ہے۔

تیسری چیز یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مسلمانوں کی قوت کا ایک بڑا سرچشمہ ان کا اتحاد ہے اور دشمن کی چالوں میں سب سے شاطرانہ چال اُمت کو قومیتوں‘ فرقوں اور گروہوں میں تقسیم کرکے فاسد بنیادوں پر انھیں ٹکڑے ٹکڑے کردینا ہے۔ معرکۂ لبنان میں جس طرح شیعہ سنی مسئلے کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی‘ عراق میں جس طرح یہی خونی کھیل کھیلا جارہا ہے‘ پاکستان اور افغانستان میں جس طرح اسی حربے کو استعمال کیا جا رہا ہے‘ وہ ایک کھلی کتاب ہے۔ لیکن معرکۂ لبنان ہی کا یہ درس بھی ہے کہ معرکہ اُمت مسلمہ اور اسرائیل کے درمیان ہے‘ شیعہ سنی مسئلہ نہیں۔ یہ سارا امریکی منصوبہ ہے کہ عرب دنیا کی سنی قیادتوں کو شیعہ ہوّا دکھا کر شیعہ سنی تنازع کو ہوا دی جائے‘ ایک جنگی چال ہے جسے اُمت اور اس کی قیادتوں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔

چوتھی بنیادی چیز جذباتیت سے بالا ہوکر دشمن کے مقابلے کی مؤثر صلاحیت پیدا کرنے اور صحیح منصوبہ بندی اور مقابلے کی حکمت عملی کے تحت دشمن کو ناکام بنانے کی ضرورت ہے۔ حزب اللہ نے صرف اللہ ہی سے رشتہ نہیں جوڑا‘ اپنے عوام سے بھی قریب ترین تعلق استوار کیا‘ ان کے اعتماد کو حاصل کیا اور انھیں یہ یقین دلایا کہ وہ ان کے خادم اور محافظ ہیں اور صادق اور امین ہیں۔ ساتھ ہی وسائل کی کمی اور شدید ترین عدمِ مساوات کے باوجود‘ اپنے وسائل کے دائرے میںایسی متبادل تیاری کی جو ایف-۱۶ اور جدید ترین ٹینکوں کے نہ ہونے کے باوجود دشمن پر کاری ضرب لگانے اور ان کی فنی ٹکنالوجی کی برتری کو غیرمؤثر کرنے کا ذریعہ بن سکی۔ حزب اللہ نے اسرائیل کے      ہیلی کاپٹروں‘ ٹینکوں‘ بحری جنگی جہازوں کو ناکارہ بنا دیا‘ اور گوریلا جنگ کے ذریعے اسرائیل کی  اعلیٰ جنگی مشینری کو غیرمؤثر بنا دیا۔ ٹکنالوجی ہمارے لیے بھی ضروری ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ مخالف کے پاس جو کچھ ہے‘ وہ ہمارے پاس بھی ہو۔ ہاں ہمارے پاس اس کا توڑ ضرور ہونا چاہیے۔ بس یہی وہ نکتہ ہے جو معرکۂ لبنان میں بہت کھل کر سامنے آگیا ہے اور قوت اور وسائل کے   شدید عدمِ تفاوت کے باوجود دشمن کو زیر کرنے کا راستہ صاف نظر آرہا ہے۔

ان نکات کی روشنی میں سب سے اہم چیز اللہ سے رجوع کے ساتھ مقابلے کی تیاری اور اس کے لیے مسلم ممالک کے اندرونی نظام کی اصلاح کو اوّلیت دینا ضروری ہے تاکہ اُمت کے وسائل اُمت کے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال ہوسکیں اور ان پر وہ قابض نہ رہیں جن کے سامنے صرف اپنی ذات کا نفع اور اپنے وسائل کو دوسروں بلکہ دشمنوں کی خدمت میں دے دینا ہو۔

کتنے افسوس کی بات ہے کہ جس وقت لبنان کی تباہی اور بارہ سو جانوں کی ہلاکت کے ساتھ‘ جس کی کوئی قیمت نہیں ہوسکتی‘ مادی اعتبار سے ۴۰ سے ۵۰ بلین ڈالر کا اندازہ دیا جا رہا ہے سعودی عرب برطانیہ سے دسیوں ارب ڈالر کے عوض وہ جنگی جہاز (ہوائی) کا سودا کر رہا ہے جن کا کوئی تعلق عرب ملکوں یا اسلامی دنیا کے دفاع سے نہیں ہوگا جس طرح ماضی کی ایسی تمام خریداریوں کا رہا ہے۔ خود پاکستان ۵ ارب ڈالر کے عوض ایف-۱۶ حاصل کرنے کے لیے بے چین ہے جن کا کنٹرول امریکا کے ہاتھوں میں ہوگا اور امریکا کی اجازت کے بغیر ان کو پاکستان کی حدود میں بھی حرکت میں نہیں لایا جا سکے گا۔ ان حالات کا ایک ہی تقاضا ہے کہ مسلم دنیا کے سیاسی نظام کو اُمت کی بالادستی میں لایا جائے۔ ان حکمرانوںسے نجات پائی جائے جو استعماری قوتوں کے آلہ کار ہیں اور اُمت کے وسائل میں خیانت ہی نہیں کر رہے‘ انھیں دشمن کے مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ اگر حزب اللہ کو لبنان کی سیاست میں وہ حیثیت حاصل نہ ہوتی جن کی بنا پر وہ اتنا کلیدی کردار ادا کر سکی ہے تو لبنان کا معرکہ بھی تباہی کی ایک اور داستان بن جاتا لیکن اللہ سے تعلق‘ جہاد سے وفاداری‘ عوام سے رشتہ‘ مناسب تیاری اور اس کے ساتھ مؤثر سیاسی حکمت عملی نے معرکۂ لبنان کو تاریکیوں میں روشنی کی ایک تابناک کرن بنا دیا ہے___ اور یہی وہ روشنی ہے جو ہمارے مستقبل کو تابناک کرسکتی ہے۔

فلسطین میں صہیونی جارحیت‘ تشدد‘ دہشت گردی اور جبری قبضے کی خونیں داستان ایک صدی سے زیادہ عرصے پر پھیلی ہوئی ہے۔

عالمِ اسلام میں یہودیوں کو زندگی کی ہرآسایش اور ترقی کا ہر موقع تاریخ کے ہر دور میں حاصل رہا اور جب عیسائی دنیا میں ان کے لیے عزت سے زندہ رہنے کا ہر موقع معدوم کردیا گیا اور ظلم اور تعصب نے نسل کشی کی شکل اختیار کرلی تو مسلم ممالک اور خصوصیت سے عرب دنیا نے ان  ستم زدہ یہودیوں کے لیے اپنے دروازے ہی نہیں‘ اپنے سینے بھی کھول دیے۔ لیکن خالص سیکولر اور استعماری مقاصد کے لیے قائم ہونے والی صہیونی (Zionist) تحریک نے اس تاریخی احسان کا بدلہ اس طرح دیا کہ سرزمینِ فلسطین پر جبر اور تشدد‘ دھوکا اور دغا‘ استعماری طاقتوں سے سازباز اور بالآخر ننگی دہشت گردی کا ہر حربہ استعمال کر کے قبضہ جمانا شروع کر دیا اور خصوصیت سے پہلی عالمی جنگ کے فوراً بعد‘ اعلان بالفور کے سایے تلے ۳۰ سالہ عملی جنگ کے ذریعے اپنا تسلط قائم کرلیا جسے   اقوام متحدہ کی ۱۹۴۸ء کی ایک غیرقانونی قرارداد کے ذریعے ریاست کا درجہ دے دیا گیا۔

اسرائیل نے اس پر بھی قناعت نہ کی اور بار بار کی فوج کشی کے ذریعے اپنے تسلط کے دائرے کو برابر وسیع کیا اور بالآخر ۱۹۶۷ء میں پوری ارض فلسطین اور شام کی گولان پہاڑیوں‘   لبنان کے چند جنوبی سرحدی علاقوں اور مصر کے وسیع و عریض صحراے سینا پر قبضہ کرلیا۔ ۱۹۷۳ء کی جنگِ رمضان کے بعد عرب ریاستوں نے مسئلہ فلسطین سے جان چھڑانے کی روش تیز کردی اور کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو معاہدے کے ذریعے اپنے اپنے مفادات کے حصول کی جدوجہد میں لگ گئے۔ ان حالات سے دل برداشتہ ہوکر فلسطین کے عوام نے اسرائیلی سامراجی قبضے کے خلاف اپنی آزادی کی جدوجہد شروع کی اور الفتح کے جھنڈے تلے اسرائیل کے قبضے کو چیلنج کیا لیکن جب الفتح نے  جنگِ آزادی کو مذاکرات کی میز پر تحلیل کرنے کا عمل شروع کردیا‘ نیز اپنے سیاسی رخ کو سیکولرزم اور امریکا سے مفاہمت کے سانچوں میں ڈھال لیا توالقدس کے غیور مسلمانوں نے حماس اور اسلامی جہاد کی شکل میں اسلام کے پرچم تلے آزادی کی جدوجہد کا آغاز کیا۔ عرب حکومتیں اپنی تمام مادی دولت اور عسکری وسائل کے باوجود جدوجہد میں شرکت ہی سے نہیں‘ اس کی تائید سے بھی عملاً دست کش ہوتی گئیں اور اسرائیل سے الگ الگ کھلے یا خفیہ معاہدات کرکے راہ و رسم استوار کرنے میں مشغول ہوگئیں لیکن حماس نے اپنی جدوجہد جاری رکھی اور بالآخر یہ ثابت کردیا کہ وسائل اور قوت کے شدید ترین عدمِ توازن کے باوجود اسرائیل اور اس کے پشتی بانوں کو نہ صرف چیلنج کیا جاسکتا ہے بلکہ پسپائی پر بھی مجبور کیاجاسکتا ہے۔

یہ ہے وہ پس منظر جس میں عسکری میدان میں اپنا لوہا منوانے کے بعد حماس نے سیاسی جمہوری عمل میں شرکت کر کے اپنی عوامی تائید اور اس تائید کی بنیاد پر سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ غزہ اور غرب اُردن کی ٹوٹی پھوٹی فلسطین اتھارٹی کے جنوری ۲۰۰۶ء کے انتخابات میں ان کی کامیابی نے سیاسی نقشے کو بدل کر رکھ دیا اور اسرائیل اور مغربی دنیا سے ان کی کش مکش ایک نئے دور میں داخل ہوگئی۔ امریکا اور یورپی اقوام نے جمہوریت کے احترام اور فروغ کے بارے میں اپنے تمام تر اعلانات کے باوجود فلسطینی عوام کے فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور سیاسی‘ معاشی‘ مالیاتی ہر حربہ استعمال کرڈالا کہ حماس مسندِاقتدار پر متمکن نہ ہوسکے اور جب    اس میں کامیاب نہ ہوسکے تو پھر اس کی حکومت کو آغازِ کار (take off) کے ہرامکان سے محروم کرنے میں لگ گئے۔

اس پورے عرصے میں اسرائیل حماس‘ اسلامی جہاد‘ اور فلسطین کی ہر قابلِ ذکر قوت اور  عام آبادی کو مسلسل فوج کشی‘ قتل و غارت گری‘ target killing ‘ اغوا‘ غیرقانونی اور غیرعدالتی گرفتاریوںکا نشانہ بناتا رہا۔ جو ٹیکس فلسطین کے باشندوں سے وصول کیا جاتا ہے‘ اس تک کی  ادایگی کو روک دیا گیا۔ تمام بین الاقوامی امداد کو بند کردیا اور دنیابھر کے بنکوں حتیٰ کہ مسلمان اور عرب ممالک کے بنکوں تک پر پابندی لگادی کہ حماس اوراس کی حکومت کو کوئی مالی منتقلی (financial remittance) نہیں کرسکتے۔ اس طرح ایک پوری قوم کو صرف زیرحراست (under siege) ہی نہیں لایا گیا بلکہ عملاً اس کی نسل کشی (genocide) کا آغاز کردیا۔

حماس نے ان تمام حالات کا مردانہ وار مقابلہ کیا‘ طیش میں آکر جنگ کا راستہ اختیار  نہیں کیا بلکہ تمام اسرائیلی دراندازیوں‘ حملوں‘ گرفتاریوں‘ میزائل کی بارشوں کے باوجود عملاً    جنگ بندی کے ذریعے بہتر فضا پیدا کرنے کی کوشش کی اور دوسری جہادی قوتوں کو بھی صبر اور تحمل کی تلقین کی لیکن اسرائیل کی اشتعال انگیزیوں (provocations) میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی اور معصوم فلسطینیوں پر حملوں اور متعین افراد کے قتل ناحق کا سلسلہ جاری رہا۔ ان حالات میں ایک جہادی گروہ نے اسرائیلی فوج سے ایک جھڑپ میں دو اسرائیلیوں کو ہلاک اور ایک کو جنگی قیدی بنالیا۔ اس کو بہانہ بنا کر اسرائیل نے بڑے پیمانے پر فوج کشی اور تباہی پھیلانے کی کارروائیوں کا آغاز کردیا اور ۲۵ جون ۲۰۰۶ء سے ۲۰جولائی تک ۱۳۰ فلسطینیوں کو شہید کردیا جن میں عورتوں‘ بچوں کی تعداد ۷۰/۸۰ فی صد ہے۔ بجلی کے نظام‘ سڑکوں‘ پُلوں‘ اسکولوں‘ ہسپتالوں‘ اشیاے ضرورت کے ذخیروں‘ شہری علاقوں اور بازاروں کو تباہ کر کے غزہ کے پورے علاقے کے معاشی اور اجتماعی بنیادی ڈھانچے (infrastructure) کو تباہ کردیا۔

اہلِ فلسطین پر دبائو کو کم کرنے کے لیے لبنان کی حزب اللہ نے‘ جو ۱۹۸۲ء سے مختلف شکلوں میں اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنی ہوئی ہے اور ۲۰۰۰ء میں جنوبی لبنان سے اسرائیلی فوج کے انخلا کے معاہدے کے باوجود مسلسل اشتعال انگیزی کا ہدف تھی‘ ایک فوجی کارروائی کے ذریعے چنداسرائیلی فوجیوں کو ہلاک کرنے کے ساتھ دو کو جنگی قیدی بنانے کا کارنامہ سرانجام دیا۔ یہ معرکہ ۱۲جولائی ۲۰۰۶ء کو پیش آیا اور اس کے بعد سے تادمِ تحریر ۹دن میں لبنان پر کھلی فوج کشی کے ذریعے ۳۰۰ سے زیادہ لبنانی سول شہریوں کو شہید کیاجاچکا ہے جن میں ایک تہائی تعداد معصوم بچوں کی ہے اور غزہ کی طرح لبنان کے بھی پورے سول ڈھانچے کو تاراج کردیا ہے جس سے اربوں ڈالر کا نقصان ہواہے اور ۲۰سال میں لبنان نے جوکچھ بنایا تھا اسے خاک میں ملا دیا گیا ہے۔

اسرائیل حماس کی جنوری ۲۰۰۶ء کی کامیابی سے اب تک چھے ماہ میں جن جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرچکا ہے اور کررہاہے اس پر پوری مغربی دنیا بشمول اقوام متحدہ خاموش ہے‘ جب کہ امریکا اور برطانیہ کھلے طور پر اور جرمنی ذرا ڈھکے چھپے انداز میں اسرائیل کی تائید اور حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ افسوس ناک معاملہ عرب دنیا اور مسلمان ممالک کا ہے کہ وہ ’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘ کی تصویر بنے ہوئے ہیں بلکہ مصر‘ سعودی عرب اور اُردن کی قیادتوں نے تو زخموں پر نمک پاشی سے بھی گریز نہیں کیا ہے اور مظلوم فلسطینی مجاہدین اور حزب اللہ کے جاں بازوں ہی کو مورد الزام ٹھیرانے سے بھی باز نہیں رہے ہیں۔ مسلمان عوام دل گرفتہ ہیں اور ان کے دل میں خوف نہیں وہ عملاً احتجاج کے لیے اُٹھ رہے ہیں لیکن حکمران بے حس اور امریکا اور اسرائیل سے اتنے خائف ہیں کہ اس ننگی جارحیت اور معصوم انسانوں کے خلاف ان کھلے کھلے جرائم پر زبان سے تنقیدکرنے کی بھی جرأت نہیں کر رہے اور اگر کسی نے کچھ کہا بھی ہے تو بھی بہت ہی دبے لفظوں میں اور ’اگر‘ اور ’مگر‘ کے ساتھ۔

وہ مغربی اقوام جو بالکل امریکا کی گود میں نہیں بیٹھی ہوئی ہیں یا جن کے مفادات    مشرق وسطیٰ سے اس طرح وابستہ ہیں کہ ان ملکوں کے عوامی ردعمل کو خطرناک سمجھتی ہیں‘ وہ بھی بڑے معذرت خواہانہ انداز میں اسرائیل کو بڑے ادب کے ساتھ تحمل کا مشورہ دے رہی ہیں اور تنقید کا ہدف حماس اور حزب اللہ ہی کو بنا رہی ہیں۔ مغربی میڈیا پہلے ہی سے اسلام کے خلاف جنگ میں مصروف ہے اور ان کا رویہ بھی الا ماشا اللہ معاندانہ اور جارحانہ ہی ہے۔ طوطے کی طرح رٹ   لگائی ہوئی ہے کہ تصادم کا آغاز حماس اور حزب اللہ کی طرف سے ہوا ہے اور اسرائیل اپنے        دفاع میں ساری کارروائی کر رہا ہے گو یہ بات بھی کہی جا رہی ہے کہ اسرائیل کا ردعمل متناسب (proportionality) کی حدود سے بڑھ گیا ہے۔ ان حالات میں اس بات کی ضرورت ہے کہ دلیل کے ساتھ مسئلے کی تنقیح کی جائے اور ان خطوط کی نشان دہی کی جائے جن پر اُمت مسلمہ اور دنیا کے حق پسند اور امن دوست انسانوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

پہلی بات سمجھنے کی یہ ہے کہ فلسطین کے عوام اور کم از کم شام اور لبنان کے عوام (اور حکومتیں بھی اگر وہ اپنی ذمہ داری محسوس کریں) اسرائیل کے ساتھ اصلاً جنگ کے عمل میں ہیں۔ گو یہ سلسلہ ۱۹۴۸ء اور اس سے پہلے سے شروع ہوگیا تھا لیکن ۱۹۹۷ء کے بعد سے تو حالتِ جنگ کی اصل حقیقت میں کوئی فرق نہیں پڑا ہے جسے عملاً جنگ بندی کہا جاتاہے‘ وہ بھی واجبی سی ہے اور قانونی  اور اخلاقی ہر دواعتبار سے خاصی مشتبہ ہے۔ نیز اسرائیل خود اس پورے عرصے میں یک طرفہ طور پر فوجی دراندازیاں‘ گرفتاریاں اور سول تنصیبات کی تباہیاں پورے تسلسل اور تحدی کے ساتھ کرتا رہا ہے اس لیے فریق ثانی کو بھی ردعمل کا مساوی حق حاصل ہے۔

فلسطین کی انتظامیہ کو یاسرعرفات کے دور سے لے کر آج تک‘ اور خصوصیت سے حماس کی کامیابی کے بعد‘ جس رعونت اور ڈھٹائی سے تباہ کیا گیا ہے‘ وہ مسلسل اشتعال انگیزی اور یک طرفہ اعلان شدہ جنگ (declared war) کی حیثیت رکھتا ہے۔ کئی ہزار فلسطینی شہید کیے جاچکے ہیں اور حماس کی قیادت کو تو نشانہ بنا کر مارا گیا ہے۔ لندن کے اخبار گارڈین کے مطابق ۱۹۶۷ء سے اب تک ۶ لاکھ ۵۰ ہزار بار ارض فلسطین کو نشانہ بنایا جا چکا ہے اور اس وقت بھی اسرائیل کے  عقوبت خانوں اور جیلوں میں ۹ہزار فلسطینی حراست میں ہیں‘ حتیٰ کہ حماس کی کابینہ کے ارکان اور پارلیمنٹ کے نومنتخب ارکان کی ایک بڑی تعداد تک اغوا اور حراست کا شکار ہے۔ اگر یہ سب  اشتعال انگیزی نہیں تو کیا ہے؟ حالتِ جنگ میں کسی بھی جنگی آپریشن میں جنیوا کنونشن میں     جنگی قیدیوں کی ایک پوری category ہے اور مشہور تیسری اور چوتھی کنونشنز کا تعلق ان ہی سے ہے۔ پھر اسرائیل کے ساتھ اس سے پہلے بھی فلسطین اور لبنان دونوں کے ساتھ جنگی قیدیوں اور زیرحراست افراد کے تبادلے کا عمل ہوچکا ہے۔ ان سب کی موجودگی میں محض تین سپاہیوں کے جنگی قیدی بنائے جانے کو ارضِ فلسطین اور لبنان کو اس طرح تباہ و برباد کرکے اور سیکڑوں سول شہریوں‘ عورتوں اور بچوں کو فضائی‘ زمینی اور بحری فوج کشی کے ذریعے قتل کرنے کے لیے وجہ جواز کیسے   بنایا جاسکتا ہے۔

لبنان کے ساتھ بھی ۲۰۰۰ء کے معاہدہ انخلا کے باوجود لبنان کے متعدد سرحدی علاقے اور کھیت اسرائیل کے قبضے میں ہیں اور حزب اللہ کے متعدد رکن اور جنوبی لبنان کے شہری اسرائیل کی حراست میں ہیں۔ حزب اللہ فلسطین کے زیرحراست افراد کو بھی اپنی عرب برادری کا حصہ قرار دیتی ہے۔ جنگی فضا کے ان حالات میں جہاں روزانہ اسرائیل کی طرف کوئی نہ کوئی کارروائی ہو رہی ہو‘ فلسطین کے کسی جہادی گروپ یا حزب اللہ کی طرف سے اسرائیلی فوجیوں کے خلاف متعین کارروائی کو اس طرح اور اس پیمانے پرفلسطین اور لبنان کو تباہ کرنے کے لیے بہانہ بنانا ایک صریح دھوکا اور مغالطہ دینے کی کوشش ہے اور اپنے جنگی جرائم پر پردہ ڈالنے کی ناکام سعی ہے۔

بات صرف اتنی نہیں‘ اصل مسئلہ ارض فلسطین اور دوسری عرب اراضی پر اسرائیلی قبضہ ہے جو علاقے کی خودمختار ریاستوں (sovereign states) کا حصہ ہیں۔ مرکزی ایشو اسرائیلی قبضہ ہے اور جہاں قبضہ ہوگا وہاں مزاحمت (resistance) فطری ردعمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ    بین الاقوامی قانون‘ اقوام متحدہ کا چارٹر اور غیر جانب دار تحریک کا چارٹر سب محکوم قوم کے جدوجہد آزادی کے حق کو تسلیم کرتے ہیں اور اس نوعیت کی مسلح مزاحمت کو بھی دہشت گردی کے زمرے میں شامل نہیں کرتے۔

اسرائیل اور امریکا کا سارا کھیل ہی یہ ہے کہ وہ قبضے کو اصل ایشو کے طور پر سامنے نہیں آنے دیتے اور مزاحمت کو مسئلہ بنا کر پیش کرتے ہیں‘ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اصل مجرم اسرائیل ہے اور جب تک ارضِ فلسطین پر اس کا ناجائز قبضہ ختم نہیں ہوتا اور علاقے کے اصل باشندوں کو اپنی زمین پر حقِ حکمرانی حاصل نہیں ہوتا کش مکش‘تصادم اور خون خرابہ ختم نہیں ہوسکتا۔

اس مرکزی نکتے کی روشنی میں دوسرا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ کیا استعماری قبضے کے سلسلے میں محکوم انسانوں کے لیے صحیح رویہ یہ ہے کہ وہ اپنی آزادی‘ اپنے ایمان‘ اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کریں اور اس جدوجہد میں جس قربانی کی ضرورت ہو‘ وہ پیش کریں یا سامراجی اقتدار کے آگے سپرڈال دیں اور محکومی‘ غلامی اور استبداد کے سامنے سپردگی (surrender) کا راستہ اختیار کرلیں۔ ہر حق پرست انسان یہ گواہی دے گا اور تاریخ کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ استبدادی اقتدار کچھ عرصے تو ضرور چل جاتا ہے لیکن بالآخر اس کے خلاف مزاحمت اُبھرتی ہے اور کامیاب ہو کر رہتی ہے۔ خود مغربی استعمار کی ۴۰۰ سالہ تاریخ اسی نشیب و فراز کی تاریخ ہے اور استعماری قوتوں کی بالآخر پسپائی کی تاریخ ہے۔ حال اور مستقبل کا نقشہ بھی اس سے مختلف نہیں ہو سکتا۔ ہر استعماری قوت نے اپنے کو ناقابلِ تسخیر سمجھا ہے اور اپنی سیاسی‘ معاشی اور عسکری قوت کے بل پر دوسروں کو محکوم رکھنے کی کوشش کی ہے مگر بالآخر اسے اپنے سامراج کو  پسپا ہونا پڑا ہے اور سامراج کی یہ پسپائی صرف  مزاحمت کے راستے ہی سے حاصل کی جا سکتی ہے‘ سپردگی کی حکمت عملی اختیار کرنے والے کبھی بھی آزادی اور عزت کا مقام حاصل نہیں کرسکتے۔

فلسطین اور لبنان میں جو جدوجہد آج حماس اور حزب اللہ کر رہے ہیں‘ اسے تاریخ کے اس منظر ہی میں سمجھاجا سکتاہے اور اس پہلو سے حماس کی گذشتہ ۲۰ سال پر پھیلی ہوئی جدوجہد اور خصوصیت سے جنوری کی انتخابی فتح کے بعد اس کی استقامت اور حکمت عملی اور حزب اللہ کی ۱۹۸۲ء سے اب تک کی جدوجہد اور خصوصیت سے ۲۰۰۰ء میں جنوبی لبنان سے اسرائیلی فوجوں کی واپسی میں ان کاکردار اس بات پر شاہد ہے کہ اسرائیل کے غرور اور اس کی عسکری بالادستی کو نہ صرف چیلنج کیا جاسکتا ہے بلکہ اسے پسپائی پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ مسئلہ قوت کی مساوات کا نہیں‘ موقف کی حقانیت اور صداقت اور ظلم اور سامراجیت کے خلاف مزاحمت کے لیے عزم‘ ہمت‘ استقامت اور ناقابلِ تسخیر ارادے کا ہے۔ وسائل بلاشبہہ ضروری ہیں لیکن ارادہ ہو تو وسائل بھی حاصل کیے جاتے ہیں لیکن ارادہ ہی کمزور ہو یا موجود نہ ہو تو پھر دولت کے انبار اور اسلحے کی بھرمار بھی کسی کام نہیں آتے۔ جیساکہ شرق اوسط کی عرب حکومتوں کی بے بضاعتی کی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ایک طرف اسرائیل کی فوجی قوت اور امریکا کی سیاسی‘ مالی‘ فنی اور اسلحے کی بے دریغ فراہمی کا عالم ہے اور دوسری طرف حماس کے مفلوک الحال اور حزب اللہ کے چند ہزار جاں بازوں کی وسائل سے محرومی۔ لیکن ۲۵جون اور ۱۲ جولائی کے واقعات اور ان کے جِلو میں ہونے والے سارے معرکے اور تباہ کاریاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسرائیل کوئی ناقابلِ تسخیر قوت نہیں‘ بے یارومددگار مجاہد بھی اس کا ناطقہ بند کرسکتے ہیں۔

الحمدللہ حزب اللہ نے اسرائیل کے غرور کو خاک میں ملا دیا ہے۔ حیفہ پر میزائل داغ کر انھوں نے یہ پیغام دے دیا ہے کہ لڑائی اسرائیل کے گھر تک لے جائی جا سکتی ہے اور امریکا کے دیے ہوئے پیٹریٹ (patriot) جو اعلیٰ ترین میزائل شکن (anti-missile) اسلحہ سمجھے جاتے ہیں‘ دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ پھر اسرائیل کے ان ہوائی اور بحری جنگی جہازوں کی تباہی جو اعلیٰ ترین ٹکنالوجی سے لیس تھے اور جن پر امریکا اور اسرائیل دونوں کو فخر تھا اس بات کا ثبوت ہیں کہ دستی میزائل سے بھی ان اعلیٰ درجے کی جنگی مشینوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ جنوبی لبنان میں تین دن سے زمینی جنگ جاری ہے مگر ۲۴گھنٹے میں علاقے کو فتح کرکے‘ تاراج کرکے‘ واپس آجانے کا دعویٰ کرنے والی فوج چند کلومیٹر بھی آگے نہیں بڑھ سکی ہے اور اسرائیلی فوجی ہلاک اور ٹینک تباہ ہونے کی اطلاعات آرہی ہیں۔ اسرائیل کی عسکری قوت کے ناقابلِ تسخیر ہونے کے غبارے سے ہوا نکل رہی ہے۔ یہ حماس اور حزب اللہ کا بہت بڑا کارنامہ ہے جس نے مجبور اور محکوم عوام کو مقابلے کا نیا جذبہ دیا ہے۔ لبنان کو تباہ کردیا گیا لیکن لبنان سے عام مسلمان ہی نہیں‘ عیسائی بھی حزب اللہ کی مزاحمت پر فخر کا اعلان کر رہے ہیں اور ایک عرب خاتون جس کا گھراسرائیل کی گولہ باری سے تباہ ہوگیا اور جسے گولوں کی بارش اور آگ کے شعلوں کی یورش میں درد زہ میں ہسپتال لایا گیا‘ اس نے ایک نئی جان کی ولادت کے بعد عرب قوم اور ملت اسلامیہ ہی کو نہیں اسرائیل کو بھی بڑا مؤثر پیغام دیا جب اس نے اپنے نومولود لڑکے کا نام حاتف رکھا جو اس میزائل کا نام ہے جس سے  حزب اللہ نے حیفا کو نشانہ بنایا تھا۔ جس قوم میں یہ جذبہ اور عزم ہو‘ اسے صرف  برتر ٹکنالوجی کی قوت سے محکوم نہیں رکھا جاسکتا۔ یہی حماس کا پیغام ہے‘ اور یہی پیغام عراق‘ افغانستان‘ کشمیر‘ شیشان کی تحریکاتِ مزاحمت کا بھی ہے۔

اسرائیل اور امریکا کا اصل کھیل یہ تھا کہ اسرائیل تیزرفتار اقدام (sharp action)  کے ذریعے لبنان کو اتنا تباہ کردے کہ اہلِ لبنان تنگ آکر حزب اللہ سے جان چھڑانے کی   کوشش کریں۔ حکومت کی تبدیلی  اصل ہدف تھا۔ اس کے ساتھ یہ مقصد تھا کہ اس طرح اسرائیل کا شمالی محاذ خاموش کردیا جائے‘ جنوبی لبنان کو حزب اللہ سے پاک کرلیا جائے اور وہاں اقوام متحدہ کے مبصرین کو لاکھڑا کیا جائے اور پھر اسرائیل غزہ اور غرب اُردن کا جو تیاپانچا کرنا چاہتا ہے‘ وہ کسی بڑی مزاحمت کے خطرے کے بغیر کرڈالے۔ لیکن صاف نظر آرہا ہے کہ یہ منصوبہ پورا نہیں ہوگا۔ امریکا نے اسرائیل کو ایک سے دو ہفتے دیے تھے کہ جتنی تباہی چاہتے ہو مچا ڈالو‘ پھر ہم سفارتی عمل کے ذریعے تمھاری عسکری فتوحات کو مستقل سیاسی نقشہ کا حصہ بنا دیں گے لیکن ان شاء اللہ یہ مقاصد خاک میں مل کر رہیں گے۔

اب اسرائیل کے خلاف آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ عرب اور مسلم دنیا کے عوام اُٹھ رہے ہیں اور خود اپنے حکمرانوں کا احتساب کر رہے ہیں۔ ترکی میں‘ استنبول میں لاکھوں افراد کا احتجاجی جلوس نکلا ہے اور ایک ہزار ایک سو ۳۴ کلومیٹر کا جلوس ایک امریکی فوجی چھائونی سے لے کر استنبول تک  زنجیر (chain rally) کی شکل میں ۱۷ جولائی ۲۰۰۶ء کو ہواہے جس نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ قاہرہ میں مظاہرے شروع ہوگئے ہیں اور لوگ کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ ایک قائد حسن نصراللہ ہے جس نے ۱۹۹۳ء میں اپنے بیٹے کی اسرائیل کے خلاف جہاد میں شہادت کا تمغا سینے پر آویزاں کیا ہے اور آج بھی اسرائیل کو چیلنج کر رہا ہے اور ایک حکمران مصر کا ہے جواپنے بیٹے کو اپنا جانشین بنانے کے لیے ہاتھ پائوں ما ررہا ہے۔ (ملاحظہ ہو‘انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘ ۲۰جولائی ۲۰۰۶ء کی قاہرہ کی رپورٹ On the Streets, Prayer for Hezbullah)

اسرائیل کے مشہور اخبار Haaretz نے اپنے اداریے میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ اس طرح خون خرابا کر کے ہم کب تک اس علاقے میں رہ سکتے ہیں۔ آخر تو ہمیں ان لوگوں کے ساتھ ہی رہنا ہے۔ ہمیں اپنے رویے پر غور کرکے طویل عرصے کی حکمت عملی بنانی چاہیے۔ قیدیوں کے تبادلے کے مطالبے کو حقارت سے رد کرکے اسرائیلی وزیراعظم نے کہا تھا کہ ہم مخالف قوت کو نیست و نابود کردیں گے۔ اس کی کابینہ کے ایک وزیر نے کہا ہے کہ قیدیوں کے تبادلے پر بات چیت ہوسکتی ہے اور یروشلم سے انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون کے نمایندہ Steven Eslanger نے The Use of Force: Ruthless or Requiredکے عنوان سے اپنی رپورٹ کا خاتمہ اس جملے پر کیا ہے کہ:

Wars end with diplomacy, You can't win a war with F-16's alone. (July 19, 2006)

جنگوں کا اختتام سفارت کاری پر ہوتا ہے۔ آپ محض ایف-۱۶ سے کوئی جنگ نہیں جیت سکتے۔

ابھی اس جنگ کو اپنی موجودہ شکل میں ۹ دن ہی ہوئے ہیں اور اسرائیل کے ۳۰ افراد ہلاک اور ۱۵۰ زخمی ہوگئے ہیں۔ اگر عزم و ایمان ہو تو نامساوی قوت سے بھی بڑے بڑے معرکے سرکیے جاسکتے ہیں۔

اس معرکے کا ایک اور بڑا اہم اور غورطلب پہلو یہ ہے کہ اس وقت جب امریکا کی ساری عالمی سیاسی حکمت عملی اسلام کے خلاف جنگ میں سنی اور شیعہ فرقوں کو باہم دست و گریبان کرنا‘ تقسیم در تقسیم کرنا‘ ان کے درمیان سول وار کی کیفیت پیدا کرنا اور عالمِ اسلام میں شیعہ سنی محاذآرائی کو فروغ دے کر مبنی بر مسلک ریاستوں کو جنم دینا ہے‘ حماس کی سنی قوت اور حزب اللہ کی شیعہ جماعت القدس کی عصمت کی حفاظت کے لیے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ایک دوسرے کی تقویت کا ذریعہ اور مشترک دشمن پر ضرب کاری لگانے میں تعاون کا بہترین نمونہ پیش کر رہے ہیں۔ یہ وہی نمونہ ہے جو متحدہ مجلس عمل اور اس سے پہلے ملّی یک جہتی کونسل کی شکل میں پاکستان میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ فلسطین اور لبنان میں حماس اور حزب اللہ کا تعاون اور کامیابی ملت اسلامیہ کے اتحاد کا پیش خیمہ اور دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کا ذریعہ بن کر ایک نئے دور کے آغاز کے امکان کو روشن کرسکتا ہے۔

ایک اور پیغام اس معرکے کا یہ بھی ہے کہ مسلم ممالک اور عرب ممالک کی موجودہ قیادتیں ہراعتبار سے اُمت کے اعتماد سے محروم ہوچکی ہیں اور اُمت مسلمہ کے سیاسی‘ معاشی‘ عسکری اور تہذیبی احیا کی راہ میں رکاوٹ بن چکی ہیں۔ مسئلہ ان کی بے بسی کا نہیں‘ بے حسی کا اور اللہ اور اُمت دونوں سے وفاداری کے رشتے کو منقطع کرلینے کا ہے۔ اگر یہ قیادتیں اب بھی اپنے کو نہیں بدل سکتیں تو پھر ان کو بدلنے کے سوا زندگی اور ترقی کا کوئی راستہ نہیں۔ اُمت کے سواداعظم کو اپنا اصل مقام حاصل کرنے کے لیے خود اپنے گھر کی اصلاح اور قیادت اور قوم کے درمیان بُعد بلکہ تضاد پیدا ہوگیا ہے‘ اسے جلد از جلد دُور کرنے کی ضرورت ہے۔ آج ہماری صلاحیتیں قوم اور قیادت میں تصادم میں ضائع ہو رہی ہیں۔ ہمیں ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو قوم کی اُمنگوں کی ترجمان ہو۔ عام مسلمان کے دل میں اب بھی ملّی جذبات موج زن ہیں‘ لیکن قوم کے دل اور قیادتوں کے دل ایک ساتھ حرکت نہیں کر رہے۔ اب ایک ایسی قیادت ہی حالات کو بدلنے کا ذریعہ بن سکتی ہے جو قوم کے دل کی ترجمان ہو اور اس رکاوٹ کو دُور کیے بغیر قومی اور عالمی سطح پر مسلم اُمت اپنا صحیح کردار ادا نہیں کرسکتی۔ فلسطین اور لبنان آج آگ کے شعلوں کی گرفت میں ہیں لیکن یہ آگ گلزار بن سکتی ہے اگر اسوۂ ابراہیمی ؑکو اختیار کیا جائے۔ القدس آج پوری اُمت مسلمہ کو اس جدوجہد کی طرف دعوت دے رہا ہے۔

بیسویں صدی میں اُمتِ اسلامیہ کے علمی اُفق کو جن روشن ستاروں نے تابناک کیا‘ ان میں جرمن نومسلم محمد اسد (لیوپولڈ ویز) کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ اسد کی پیدایش ایک یہودی گھرانے میں ۱۹۰۰ء میں ہوئی۔ ۲۳ سال کی عمر میں ایک نوعمر صحافی کی حیثیت سے عرب دنیا میں تین سال گزارے اور اس تاریخی علاقے کے بدلتے ہوئے حالات کی عکاسی کے ذریعے بڑانام پایا لیکن اس سے بڑا انعام ایمان کی دولت کی بازیافت کی شکل میں اس کی زندگی کا حاصل بن گیا۔ ستمبر۱۹۲۶ء میں جرمنی میں مشہور خیری برادران میں سے بڑے بھائی عبدالجبار خیری کے دستِ شفقت پر قبولِ اسلام کی بیعت کی اور پھر آخری سانس تک اللہ سے وفا کا رشتہ نبھاتے ہوئے اسلامی فکر کی تشکیل اور دعوت میں ۶۶سال صرف کر کے بالآخر ۱۹۹۳ء میں رب حقیقی سے جاملے۔

محمداسد کی داستان محض ایک انسان کی داستان نہیں‘ ایک تاریخ ساز دور کی علامت اور عنوان ہے۔ ایک بے تاب روح‘ خطروں کو انگیز کرنے والا ایک نوجوان‘ ایک تہذیب سے ایک دوسری تہذیب کا مسافر‘ ایک محقق اور مفکر‘ ایک سیاسی تجزیہ نگار اور سفارت کار‘ اور سب سے بڑھ کر قرآن کا ایک مخلص خادم___ اسد کی چند آرا سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن فکری اور تہذیبی میدانوں میں ان کے مجتہدانہ اور مجاہدانہ کارناموں سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

اسد نے مسلمانوں کی نئی نسلوں کے افکار کو متاثر کیا اور اسلامی دنیا میں اپنا مقام بنایا۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ بیسویں صدی میں‘ مغربی دنیا سے دائرۂ اسلام میں داخل ہونے والے اشخاص میں سب سے نمایاں مقام محمداسد ہی کو حاصل ہے اور بجاطور پر زیرنظر کتاب میں اسے ’اسلام کے لیے یورپ کا تحفہ‘ قرار دیا گیا ہے۔ ان کے لیے یہ الفاظ ایک دوسرے جرمن نومسلم ولفریڈ ہوف مین (Wilfred Hoffman)نے استعمال کیے ہیں‘اور یہ بھی بڑا نادر توارد ہے کہ خود مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی نے بھی چودھری نیاز علی خاں صاحب کے نام اپنے ایک خط میں غالباً ۱۹۳۶ء میں محمداسد کے بارے میں یہ تاریخی جملہ لکھا تھا: ’’میرا خیال یہ ہے کہ دورِ جدید میں اسلام کو جتنے غنائم یورپ سے ملے ہیں‘ ان میں یہ سب سے زیادہ قیمتی ہیرا ہے‘‘۔

یہ تحقیقی کتاب اس ہیرے کی زندگی‘ خدمات اور نگارشات پرمشتمل ہے جسے محمد اکرام چغتائی صاحب نے بڑی محنت‘ محبت اور قابلیت سے مرتب کیا ہے اور اس سلسلے میں اُمتِ مسلمہ پر بالعموم اور ملتِ اسلامیہ پاکستان پر بالخصوص جو قرض تھا‘ اسے فراخ دلی سے اداکردیا ہے۔ یہ ایک     فرضِ کفایہ تھا جو انھوں نے اور ٹروتھ سوسائٹی نے ادا کیا ہے اور ہم اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے بہترین اجر کی دعا کرتے ہیں۔

محمد اسد سے میرا بھی اولین تعارف‘ سیکڑوں بلکہ ہزاروں نوجوانوں اور طالبینِ حق کی طرح ان کی پہلی کتاب Islam at The Crossroadsکے ذریعے ہوا۔ میری اپنی زندگی میں قیامِ پاکستان کے بعد کے دو سال بڑے فیصلہ کن تھے اور ایک طرح میں بھی دوسرے نوجوانوں کی طرح ایک دوراہے پر کھڑا تھا___ ایک طرف مغربی تہذیب اور مغرب سے اٹھنے والی تحریکوں کی    چمک دمک تھی‘ اور دوسری طرف تحریکِ پاکستان کا نظریاتی آدرش اور اسلام کے ایک عالمی پیغام اور تحریکِ انقلاب ہونے کا احساس۔ دونوں کی اپنی اپنی کشش تھی اور میرے جیسے نوجوانوں کا      معمّا کہ ع

ادھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر پروانہ آتاہے

اقبال کے ایمان افروز کلام اور مولانا مودودی کے دل و دماغ کو مسخر کرنے والے   لٹریچر کے ساتھ جس کتاب نے خود مجھے اس دوراہے سے نجات دلائی اور شاہ راہِ اسلام کی طرف رواں دواں کردیا‘ وہ اسد کی یہی کتاب تھی۔ اس وقت سے اسد سے ایک گہرا ذہنی اور قلبی تعلق قائم ہوا اور پھر اس وارفتگی کے عالم میںتلاشِ بسیار کے بعد عرفات کے شمارے اور صحیح بخاری کے ترجمے کے پانچ ابواب حاصل کیے اور وردِجان کرلیے۔ اسٹوڈنٹس وائس (اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کا انگریزی ترجمان) کے دورِادارت میں محمد اسد سے بھرپور استفادہ کیا اور ان سے ملنے کے لیے بے چین رہا۔ یہ خواہش ۱۹۵۴ء میں پوری ہوئی جب محمد اسد چند دن کے لیے پاکستان آئے۔ کراچی میں سندھ کلب میں میری اور ظفراسحاق انصاری اور خرم مراد کی ان سے ملاقات ہوئی اور جو تصویر ذہن میں بنائی تھی‘ اس کے مطابق پایا۔

اس زمانے میں اسد پاکستان کے اقوام متحدہ کے مشن سے فارغ ہوچکے تھے اور وزارتِ خارجہ کے افسران سے خاصے بددل تھے۔ انھوں نے یہ ذکر بھی کیا کہ Road to Mecca       (شاہ راہِ مکہ)شائع ہو رہی ہے (بلکہ مجھے فخرہے کہ اس کا ایک نسخہ انھوں نے مجھے بھیجا جس پر اسٹوڈنٹس وائس میں تبصرہ میں نے ہی لکھا تھا)۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ اس کی دوسری جِلد لکھنا چاہتا ہوں جس میں پاکستان کی اس وقت کی قیادت پر تنقید بھی ہوگی۔ افسوس یہ جلد شائع نہ ہوسکی اور پتا نہیں اس کے نوٹس یا نامکمل مسودہ کہاں ہے۔ اس مجموعے میں بھی اس کاکوئی سراغ نہیں ملا۔ محمداسد نے میرے نام ایک خط میں بھی دو سال بعد اس کا ذکر کیا تھا۔

محمد اسد کی گم شدہ پونجی میں اس مذکورہ دوسری جِلدکا نامکمل مسودہ یا نوٹس‘ صحیح بخاری کے کچھ دوسرے ابواب کے بارے میں ان کے نوٹس‘ اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے نمایندے کی حیثیت سے ان کی تقاریر میری نگاہ میں قابلِ ذکر ہیں اور اب بھی ان کی تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ کم از کم اقوام متحدہ کے ریکارڈ سے ان کی تقاریر کی نقول حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اسی طرح جو خطوط اور رپورٹیں انھوںنے وزارتِ خارجہ کو اس زمانے میں لکھی تھیں‘ انھیں بھی حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

محمد اسد سے میرے تعلق کی نوعیت ایک استاد اور شاگرد اور ایک ہیرو اور اس کے مشتاق (fan) کی ہے ‘اور جو تعلق ۱۹۴۹ء میں قائم ہوا تھا وہ ۱۹۹۲ء تک قائم رہا۔ پھران سے بارہا ملاقاتیں ہوئیں اور ان کی شفقت میں اضافہ ہی ہوا۔ ۱۹۷۶ء کی لندن کانفرنس میں برادرم سالم عزام کے ساتھ مجھے کانفرنس کے سیکرٹری جنرل کے فرائض انجام دینے کی سعادت حاصل ہے اور اس زمانے میں محمد اسد سے ہمہ وقت استفادے کا موقع ملا۔ فکری اعتبارسے میں نے ان کی اپروچ میں کوئی تبدیلی محسوس نہیں کی‘ البتہ اُمت کے حالات سے دل گرفتگی اور مسلمانوں کی قیادتوں سے مایوسی آخری ۳۰سال میں کچھ زیادہ ہی محسوس ہوئی۔

افکار وعلمی خدمات

محمد اسد کبھی بھی سرگرم کارکن (activist) نہ تھے لیکن فکری اعتبار سے ان کا کارنامہ    بڑا واضح ہے اور اس میں چار چیزیں بہت نمایاں ہیں:

پہلی چیز مغربی تہذیب اور یہود عیسائی روایت (Judo-Christian Tradition) کے بارے میں ان کا واضح اور مبنی برحق تبصرہ و تجزیہ ہے۔ مغرب کی قابلِ قدر چیزوں کے کھلے دل سے اعتراف کے ساتھ مغربی تہذیب اور عیسائی تہذیبی روایت کی جو بنیادی خامی اور کمزوری ہے‘ اس کا نہایت واضح ادراک اور دوٹوک اظہار ان کا بڑا علمی کارنامہ ہے۔ زندگی کی روحانی اور مادی خانوں میں تقسیم برائی کی اصل جڑ ہے اور اس سلسلے میں عیسائی روایت اور مغربی تہذیب کا اسے اس کی   انتہا تک پہنچا دینے کا انھیں مکمل ادراک تھا۔ اس حوالے سے اپنی زندگی کے کسی بھی دور میں وہ کسی شش و پنج یا الجھائو (confusion)کا شکار نہیں ہوئے۔ مغرب کے تصورِ کائنات‘ انسان‘ تاریخ اور معاشرے پر ان کی گہری نظر تھی اور اسلام سے اس کے تصادم کا انھیں پورا پورا شعور و ادراک تھا۔ وہ کسی تہذیبی تصادم کے قائل نہ تھے مگر تہذیبوں کے اساسی فرق کے بارے میں انھوں نے کبھی سمجھوتا نہ کیا۔ اسلام کے ایک مکمل دین ہونے اور اس دین کی بنیاد پر اس کی تہذیب کے منفرد اظہار کو یقینی بنانے اور دورِحاضر میں اسلام کی بنیاد پر صرف انفرادی کردار ہی نہیں‘ بلکہ اجتماعی نظام کی تشکیلِ نو کے وہ داعی تھے اور اپنے اس مؤقف کو دلیل اور یقین کے ساتھ پیش کرتے تھے۔ اسلام کا یہ جامع تصور ان کے فکر اور کارنامے کا دوسرا نمایاں پہلوہے۔

ان کا تیسرا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اُمت کے زوال کے اسباب کا گہری نظر سے مطالعہ کیا اور اس سلسلے میں جن بنیادی کمزوریوںکی نشان دہی کی‘ ان میں تصورِدین کے غبارآلود ہوجانے کے ساتھ‘ سیرت و کردار کے فقدان‘ دین و دنیا کی عملی تقسیم‘ اجتہاد سے غفلت اور رسم و رواج کی محکومی اور سب سے بڑھ کر قرآن وسنت سے بلاواسطہ تعلق اور استفادے کی جگہ ثانوی مآ خذ پر ضرورت سے زیادہ انحصار بلکہ ان کی اندھی تقلید شامل ہیں۔ فقہی مسالک سے وابستگی کے بارے میں ان کی پوزیشن ظاہری مکتب ِفکر سے قریب تھی۔ ان کی دعوت کا خلاصہ قرآن و سنت سے    رجوع اور ان کی بنیاد پرمستقبل کی تعمیروتشکیل تھا۔ قرآن ان کی فکر کا محور رہا اورحدیث اور سنت کو وہ اسلامی نشاتِ ثانیہ کی اساس سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے تمام بڑے قیمتی مضامین کے باوصف جن کا موضوع اسلامی قانون‘ اسلامی ریاست اور مسلمانوں کی اصل ثقافتی شناخت تھا‘ ان کا اصل علمی کارنامہ قرآن پاک کا ترجمہ و تفسیر اور صحیح بخاری کے چند ابواب کا ترجمہ اور تشریح ہے   جن کی حیثیت میری نگاہ میں اس دور میں کلاسک کی ہے۔ پھر روڈ ٹو مکہ ان کی وہ کتاب ہے  جو علمی‘ ادبی‘ تہذیبی‘ ہر اعتبار سے ایک منفرد کارنامہ اور صدیوں زندہ رہنے والی سوغات ہے۔

محمد اسد کے کام کی اہمیت کا چوتھا پہلو‘ دورِ جدید میں اسلام کے اطلاق اور نفاذ کے سلسلے میں ان کی حکمت عملی‘ اور اسی سلسلے میں تحریکِ پاکستان سے ان کی وابستگی اور پاکستان کے بارے میں ان کا وِژن اور وہ عملی کوششیں ہیں جو عرفات‘ قومی تعمیرنو کے ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے ان کی نگارشات‘ ان کی تقاریر اور پھر ان کی دو کتابیں: Islam at The Crossroadsاور The Principles of State and Government in Islamہیں۔ عرفات کے زمانے کے یہ مضامین دورِحاضر میں نفاذِ اسلام کا وژن اور اس کے لیے واضح حکمت عملی پیش  کرتے ہیں۔ چند امور پر اختلاف کے باوجود اس باب میں محمد اسد کے وژن اور فکر اور دورِجدید کی اسلامی تحریکات کے وِژن میں بڑی مناسبت اور یکسانی ہے حالانکہ وہ کبھی بھی ان تحریکوں سے عملاً وابستہ نہیں رہے۔ اس سلسلے میں ایک جرمن مبصر کارل گنٹرسائمن (Karl Gunter Simon) کے مضمون سے ایک اقتباس دل چسپی کا باعث ہوگا جو محمد اسد سے ایک اہم انٹرویو پر مبنی ہے اور  جرمن پرچے‘ Frankfurter Allgemine Zeiting میں ۱۸ نومبر ۱۹۸۸ء کو ان کے انتقال سے چار سال قبل شائع ہواتھا:

لیوپولڈویز کو بھلایا جا چکا ہے لیکن کم سے کم اسلامی دنیا میں محمداسد مشہور ہیں۔وہ اس سال ۸۸ برس کے ہوجائیں گے:

’’احیاے اسلام کے لیے ہمیں باہر سے ماڈل تلاش نہیں کرنے چاہییں۔ ہمیں بس پرانے بھولے ہوئے اصولوں کو تازہ کرنے کی ضرورت ہے۔ بیرونی تہذیبیں ہمیں   نیا تحرک دے سکتی ہیں لیکن کوئی غیراسلامی چیز اسلام کے مکمل نمونے کا بدل نہیں بن سکتی‘ خواہ اس کا ماخذ مغرب ہو یا مشرق۔ اسلام کے روحانی اور اجتماعی ادارے (خود مکمل ہیں ان کو کسی بیرونی مدد سے) بہتر نہیں بنایا جاسکتا۔ اسلام کا زوال درحقیقت ہمارے قلوب کی موت یا دلوں کا خالی ہوجانا ہے…‘‘

کیا یہ اخوان المسلمون کا کوئی مناظرانہ موقف ہے؟ یا بنیاد پرستوں کا اعلان‘ خواہ وہ دنیا کے کسی بھی گوشے میں ہوں؟ نہیں‘ قطعی نہیں۔ یہ جدید بیانات ایک پرانی کتاب میں پائے جاتے ہیں جو ۱۹۳۳ء میں لکھی گئی‘ یعنی Islam at The Crossroads۔ یہ محمد اسد کی پہلی کتاب تھی (حوالہ مذکورہ کتاب‘ ص ۲۴)

اقبال اس فکر کو ۱۱-۱۹۱۰ء سے پیش کر رہے تھے۔ حسن البناء نے ۱۹۲۸ء میں    تحریک اخوان المسلمون کا آغاز اسی پیغام کے ساتھ کیا۔ سید مودودی نے ۱۹۳۳ء میں ترجمان القرآن اسی کلمے کی بنیاد پر اجتماعی زندگی میں انقلاب برپا کرنے کے لیے نکالا‘ اور محمداسد نے ۱۹۳۳ء میں یہی بات اپنے دل نشین انداز میں کہی۔ دو کا تعلق برعظیم پاک و ہند سے تھا‘ ایک مصر کے گلزار کا پھول تھا اور ایک یورپ کے روحانی قبرستان کی زندہ آواز___ لیکن سب  ایک ہی بات کہہ رہے تھے‘ اس لیے کہ ان سب کی رہنمائی کا سرچشمہ قرآن پاک اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھی۔ محمداسد بیسویں صدی میں اسلام کے نشاتِ ثانیہ کے معماروں میں سے   ایک تھے اور انھوں نے مغرب اور مشرق کے فرق کو ختم کر کے اسلام کے عالمی پیغام کی صداقت کو الم نشرح کیا۔

تحریکِ پاکستان اور پاکستان سے تعلّق

محمد اسد کے یہاں پاکستان اور تحریکِ پاکستان کے اصل مقاصد اور اہداف کا بڑا واضح اِدراک ہے اور آج کی پاکستان کی نام نہاد قیادتوں کے لیے اسد کی تحریروں میں بڑا سبق ہے اور پاکستانی قوم کے لیے عبرت کا پیغام بھی۔ دیکھیے محمد اسد فروری ۱۹۴۷ء میں اپنے پرچے عرفات میں کس وضاحت‘ فکری سلاست اور علمی دیانت کے ساتھ پاکستان کے تصور کو بیان کرتے ہیں۔ ماضی میں اُبھرنے والی بہت سی اصلاحی تحریکوں کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

تحریکِ پاکستان اس طرح کی تمام صوفیانہ تحریکوں سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ یہ کسی روحانی رہنما پر لوگوں کے اعتقاد سے جذبہ و توانائی حاصل نہیں کرتی‘ بلکہ اس کا یہ ادراک___ جو بیش تر معاملات میں ہدایت دیتا ہے‘ اور علمی حلقوں میں صاف صاف سمجھا جاتا ہے___ کہ اسلام (پورے نظامِ زندگی کی تعمیرنو کی)ایک معقول تدبیر ہے‘ اور اس کی سماجی و اقتصادی اسکیم انسانیت کو درپیش تمام مسائل کا حل فراہم کرسکتی ہے‘ اور اس کا واضح تقاضا یہ ہے کہ اس کے اصولوں کی پیروی کی جائے۔ نظریۂ پاکستان کا  یہ علمی پہلو اس کا سب سے اہم پہلو ہے۔ اس کی تاریخ کا ہم کھلی آنکھوں سے مطالعہ کریں تو ہم یہ پائیں گے کہ اپنے اوّلین دور میں اسلام کی فتح کی وجہ اس کی انسان کی فہم‘ دانش اور عقل عام سے اپیل ہے۔

تحریکِ پاکستان‘ جس کی کوئی نظیر جدید مسلم تاریخ میں موجود نہیں ہے‘ ایک نئے اسلامی ارتقا کا نقطۂ آغاز ہوسکتی ہے‘ اگر مسلمان یہ محسوس کریں‘ اور جب پاکستان حاصل ہوجائے تب بھی محسوس کرتے رہیں کہ اس تحریک کا حقیقی تاریخی جواز اس بات میں نہیں ہے کہ ہم اس ملک کے دوسرے باشندوں سے لباس‘ گفتگو یا سلام کرنے کے طریقے میں مختلف ہیں‘ یا دوسری آبادیوں سے جو ہماری شکایات ہیں‘ اس میں‘ یا ان لوگوں کے لیے جو محض عادتاً اپنے کو مسلمان کہتے ہیں‘ زیادہ معاشی مواقع اور ترقی کے امکانات حاصل کریں‘ بلکہ ایک سچا اسلامی معاشرہ قائم کرنے میں ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسلام کے احکامات کو عملی زندگی میں نافذ کرنا۔ (ص ۸۶۳- ۸۶۵)

پھر مئی ۱۹۴۷ء میں جب قیامِ پاکستان کے امکانات اُفق پر روشن ہوگئے تھے‘ قائداعظم اور لیاقت علی خاں کی تقریروں اور دعووں کا حوالہ دینے کے ساتھ کس دل سوزی سے پاکستان کی انفرادیت (uniqueness) کو بیان کرتے ہیں:

جہاں تک مسلمان عوام کا تعلق ہے‘ تحریکِ پاکستان ان کے اس وجدان کا حصہ ہے کہ وہ ایک نظریاتی برادری ہیں‘ اس لیے ایک خودمختار سیاسی وجود کا حق رکھتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں‘ وہ محسوس کرتے ہیں اورجانتے ہیں کہ ان کی برادری کا وجود دوسری برادریوں کی طرح کسی نسلی وابستگی یا کچھ ثقافتی روایات کے اشتراک پر مبنی نہیں ہے‘ بلکہ صرف اور صرف اس حقیقت پر مبنی ہے کہ وہ اسلام کے نظریۂ حیات سے مشترک وابستگی رکھتے ہیں۔ اور یہ کہ انھیں اپنی برادری کے وجود کے لیے جوازایک سماجی و سیاسی نظام قائم کرکے فراہم کرنا چاہیے جس میں اس نظریۂ حیات‘ یعنی شریعت کا عملی نمونہ دیکھا جاسکے گا۔ (ص ۹۱۲)

پھر دیکھیے کہ کس فکری دیانت اور جذبۂ ایمانی کے ساتھ اپنے دل کو چیر کر ملّتِ اسلامیہ پاکستان اور اس کی قیادت کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ پہلے ان کو مغرب کے تجربات سے متنبہ کرتے ہیں کہ تمھیں آزادی ملنے والی ہے‘ مگر دیکھو محض غیرمسلموں کے اعتراضات اور نفع عاجلہ کے چکر میں نہ پڑجانا بلکہ اپنے اصل مقصد پر قائم رہنا۔ اس غلط فہمی میں بھی نہ رہنا کہ اسلام تو طویل عرصے کا ہدف ہے اور فوری طور پر وہ کرنے کے چکر میں پڑ جائو جو وقتی مصلحت کا تقاضا ہو۔ کہتے ہیں:

ہم یہ نہیں چاہتے۔ ہم پاکستان کے ذریعے اسلام کو صرف اپنی زندگیوں میں ایک حقیقت بنانا چاہتے ہیں۔ ہم اس لیے پاکستان چاہتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک   اس قابل ہو کہ لفظ کے وسیع ترین مفہوم میں ایک سچی اسلامی زندگی بسر کرسکے۔ اور      یہ بالکل ناممکن ہے کہ کوئی شخص اللہ کے رسولؐ کی بتائی ہوئی اسکیم کے مطابق زندگی گزار سکے‘ جب تک کہ پورا معاشرہ شعوری طور پر اس کے مطابق نہ ہو اور اسلام کے قانون کو ملک کا قانون نہ بنائے۔ (ص ۹۱۸)

ایک جملے میں محمداسد نے پوری تحریکِ پاکستان کا جوہر اور ہدف یوں بیان کردیا جو مئی ۱۹۴۷ء میں ان کے اس مضمون کے آخری پیراگراف کا حصہ ہے:

مسلمان عوام وجدانی طور پر پاکستان کی اسلامی اہمیت کو محسوس کرتے ہیں اور واقعی ایسے حالات کی خواہش رکھتے ہیں جن میں معاشرے کے ارتقا کا نقطۂ آغاز لا الٰہ الا اللہ ہو۔ (ص ۹۲۵)

افسوس کہ پاکستان کی سیاسی قیادتوں نے اس اصل منزل کو مفاد پرستی اور وقتی مصلحتوں کی تلاش میں گم کردیا۔ محمداسد کو اس کا بے پناہ قلق تھا۔

دو منفرد پھلو

محمد اسد کی زندگی کے دو پہلو ایسے ہیں جن کا اعتراف نہ کرنا بڑا ظلم ہوگا اور ان میں سے کم از کم ایک میں‘ مجھے وہ دورِحاضر میں منفرد نظرآتے ہیں۔ میں نے سیکڑوں نومسلموں کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ کیا ہے اور ایک بڑی تعداد سے ذاتی طور پر تعلقات رکھنے کی سعادت پائی ہے۔

نوجوانی میں ایک کتاب ابراہیم باوانی مرحوم کی دعوت پر Islam Our Choice کے عنوان سے مرتب بھی کی تھی اور اس کے لیے بھی بڑی تعداد میں قبولِ اسلام کی سچی داستانوں کو  پڑھا تھا۔ ستاروں کی اس کہکشاں میں ایک سے ایک دل نواز شخصیت کی تصویرِ حیات دیکھی جاسکتی ہے اور ہرہرفرد اسلام کی کسی نہ کسی خوبی کافریفتہ ہوکر حلقۂ بگوش اسلام ہوا۔ زیادہ کا تعلق اسلام کی تعلیمات اور قرآن کے دل فریب پیغام سے ہے۔ لیکن محمد اسد کی ایک ذات ایسی ہے جو مسلمانوں سے مسحور ہوکر اسلام کی متلاشی اور پھر اس کی گرویدہ ہوئی۔

دل پر پہلی ہی چوٹ اس وقت لگی جب ۲۳سالہ جرمن نوجوان عرب دنیا میں ٹرین میں  سفر کرتا ہے اور کھانے کے وقت اس کا عرب ہم سفر اس اجنبی کو جانے بغیر اسے کھانے میں   شریک ہونے کی دعوت دیتا ہے۔ خودپسند اور اپنی ذات کے خول میں گم مغربی دنیا کے اس نوجوان کے لیے یہ بڑا عجیب تجربہ تھا۔ پھر جس سے بھی وہ ملتا ہے‘ جس بستی میں جاتا ہے‘ جس جگہ قیام کرتا ہے‘ اسے ایک دوسری ہی قسم کی مخلوق ملتی ہے جن کے باہمی تعلقات‘ بھائی چارے‘ محبت اور دکھ درد میں شرکت پر مبنی ہیں۔ عجیب معاشرہ ہے جو مسافر کی قدر کرتا ہے اور مہمان داری کو سعادت سمجھتا ہے۔ جو کھانا کھلا کر بل پیش نہیں کرتا۔

لیوپولڈ ویز کو یہ تجربہ بڑا عجیب لگتا ہے مگر اس کی روح اس دنیا میں بڑا سکون اور بڑی اپنائیت پاتی ہے۔ روح کی پیاس کے لیے یہاں سیرابی کا بڑا سامان ہے۔ یہ کلچر اسے اپنی طرف کھینچتا ہے اور وہ اس جستجو میں لگ جاتا ہے کہ انسانی معاشرے کے اس ماڈل کو بنانے والے عناصر کیا ہیں___ یہ اسے اسلام اور اس کے حیات بخش پیغام تک لے آتے ہیں۔ تین سال کی صحرانوردی میں وہ اس تہذیب سے دُور ہوتا جاتا ہے جہاں اس نے آنکھ کھولی تھی‘ اور اب اس کی آنکھوں کو وہ دنیا بھا جاتی ہے جس میں اب وہ زندگی گزار رہا ہے۔ پھر اسلام‘ جیساکہ اس نے ایک جگہ لکھا ہے‘ اس کے دل میں بس ایک چور کی طرح خاموشی سے داخل ہوجاتا اور پھر اس دل کو    اپنا گھر بنالیتاہے۔ چورکی تمثیل یہاں ختم ہوجاتی ہے۔ چور چپکے چپکے داخل ہوتا ہے مگر کچھ لے کر چپکے چپکے نکل جاتا ہے۔ اسلام داخل تو چپکے چپکے ہی ہوتاہے لیکن کچھ لینے کے لیے نہیں‘ کچھ دینے کے لیے اورپھر ہمیشہ اسی گھر میں رہنے کے لیے۔

لیوپولڈ ویز ایک طلسمی عمل کے ذریعے اسی دنیا کا ہوجاتا ہے جس کی خبر دوسروں کو دینے کے لیے صحافی کے لباس میں وہ ان کے درمیان آیا تھا۔ اب یہاں اس نے نہ ختم ہونے والی دوستیاں استوار کرلی ہیں۔ اب یہاں اس نے اس معاشرے کی ان اقدار کو جو اس کے لیے پہلے بالکل نئی تھیں اپنی شخصیت کا حصہ بنالیا ہے۔ اب اس کے دل کی دنیا میں ایک انقلاب آگیا ہے اور بالآخر وہ چیز جو غیرشعوری طور پر اس کے روح و بدن میں داخل ہوگئی تھی‘ وہ اسے شعوری طور پر  قبول کرلیتا ہے اور کلمۂ شہادت ادا کرکے اس کا پوری دنیا کے سامنے اعلان کر ڈالتا ہے۔   ہزاروں لاکھوں انسان اسلام کے راستے مسلمانوں میں داخل ہوئے۔محمد اسد مسلم دنیا کے   بیسویں صدی کے گئے گزرے حال میں بھی مسلمانوں کے ذریعے اسلام تک پہنچا اور پھر اسلام کو اس نے اس طرح اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا کہ مسلمانوں ہی کی حالت کی اصلاح کے لیے دل گرفتہ اور سرگرم عمل ہوگیا۔ تبدیلی (conversion )یا رجوع (reversion) کی تاریخ کا یہ بڑا دل چسپ اور سبق آموز واقعہ ہے۔

محمد اسد کی زندگی کا دوسرا پہلو جس نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا‘ وہ یہ ہے کہ  اسد نے صرف اسلام ہی کو قبول نہیں کیا بلکہ عملاً اس نے اسلامی دنیا ہی کو اپنا مسکن بنا لیا۔ اس نے مغرب سے دین کاناتا ہی نہیں توڑا بلکہ جغرافیائی سفر کر کے وہ پھر اس دنیا کا حصہ ہی بن گیا جس نے اسے مقناطیس کی طرح اپنی طرف کھینچا۔ وہ امریکا اور یورپ میں بھی رہا لیکن اس کی روح کو      سکون بدوؤں (bedoein) کی دنیا ہی میں ملتا ہے۔ اس کی آخری شریکِ حیات پولااسد نے ایک جگہ لکھا ہے کہ اسد کی روح بدوی (bedoein) تھی اور صحرا کی دنیا میں وہ سب سے زیادہ اپنے گھر کی طرح ہوتا تھا۔ اس نے صحیح معنوں میں ہجرت کی اور اپنی اسلامی زندگی کے ۶۶سال عرب دنیا‘ ہندستان‘ پاکستان اور تیونس میں گزارے‘ اور آخری ایام میں اس کا قیام اسپین کے    اس علاقے میں رہا جواندلس اور عرب دنیا کا روحانی اور ثقافتی حصہ تھا بلکہ آج بھی اس کی فضائیں باقی اسپین سے مختلف اور عرب دنیا کے ہم ساز ہیں۔

محمد اسد: یورپ کا اسلام کے لیے تحفہ‘ محمد اسد کی زندگی‘ اس کے افکار و نظریات‘ اس کے اثرات اور تاریخی خدمات کا ایک جامع مرقع ہے۔ پہلی جِلد میں اسد کی شخصیت‘ افکار اور علمی اور ثقافتی خدمات کے بارے میں ۲۸مضامین ہیں جن میں علمی اور تحقیقی مقالات کے ساتھ شخصی تاثرات‘ اور اسد کی کتابوں پر تنقیدی نگارشات شامل ہیں جو ان کی زندگی اور ان کے افکار کے ہرہرپہلو کے بارے میں سیرحاصل معلومات فراہم کرتے ہیںاور ان ایشوز کو زیربحث لاتے ہیں جن پر اسد نے کلام کیا ہے۔ دوسری جِلد کا بیش تر حصہ محمد اسد کے قیمتی مضامین اور رشحاتِ قلم کا مجموعہ ہے اور اس سارے علمی خزانے کو ایک جگہ جمع کرکے مرتب محترم نے بڑی قیمتی خدمت انجام دی ہے۔ اس طرح ان دو جلدوں میں محمداسد کی شخصیت اور ان کے افکار اور علمی خدمات کا بھرپور احاطہ کرلیا گیا ہے۔ محترم اکرام چغتائی صاحب نے یہ خدمت بڑی محنت اور دقّتِ نظر سے انجام دی ہے اور تلاش و جستجو اور تحقیق و تسوید کا بڑا اعلیٰ معیار قائم کیا ہے۔ طباعت کامعیار بھی نہایت نفیس ہے اور سارا کام بڑی خوش ذوقی سے انجام دیا گیا ہے۔ جیساکہ میں نے عرض کیا پوری اُمت کی طرف سے دی ٹروتھ سوسائٹی اور صاحبِ کتاب نے یہ فرضِ کفایہ ادا کیا ہے ‘اور اسی کتاب کے ایک    مقالہ نگار مظفراقبال کا یہ گلہ کہ اسد ایک فراموش شدہ (forgotten)پاکستانی ہے‘ اب کسی نہ کسی حد تک دُور ہوگیا ہے۔ اس خدمت کے لیے چغتائی صاحب اور ان کے رفقاے کار مبارک باد کے مستحق ہیں۔

اعداد و شمارکے سارے کھیل کے باوجود یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ پاکستان دنیا کے غریب ملکوں کی فہرست میں بھی خاصا نیچے آتاہے۔ غربت کی سرکاری تعریف اور اعدادوشمار کی تازہ ترین تزئین کے باوجود‘ جو حقیقت میں تکذیب و تحریف (falsification) کی ایک کوشش ہے‘ آبادی کا ایک چوتھائی حصہ غربت کی اس لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے کی تگ و دو کر رہا ہے جو جسم اور جان کے رشتے کو بس باقی رکھنے کے لیے ضروری ہے‘ یعنی ۱۶کروڑ انسانوں میں سے ۴کروڑ افراد اس اذیت ناک صورت حال سے دوچار ہیں۔ لیکن اگر آزاد ماہرین معاشیات کے اندازوں کو لیا جائے تو یہ تعداد آبادی کا کم از کم ۳۳ فی صد بلکہ ۴۰ فی صد ہے‘ یعنی سوا پانچ سے ساڑھے چھے کروڑ نفوس۔

یونیسیف (UNICEF) کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق جنوبی ایشیا میں پانچ سال کی عمر سے کم کے بچوںکا تقریباً نصف اپنی عمر کے مطابق مطلوبہ وزن سے کم (under weight) ہے جو کمیِ تغذیہ (under-nourishment)کا ثبوت فراہم کرتاہے۔ پاکستان میں ان پانچ سال سے کم عمرکے کمیِ تغذیہ کا شکار بچوں کی تعداد ۸۰ لاکھ ہے جو اس عمر کے بچوں کا ۴۶ فی صد ہے (ڈان‘ ۳ مئی ۲۰۰۶ئ)۔ پورے ملک میں کچی آبادیوں کا جال پھیلا ہوا ہے اور کراچی جیسے شہر میں جہاں دولت کی ریل پیل ہے‘ کُل آباد رقبے کے ۵۵ فی صد پر کچی آبادیاں ہیں جو ہر بنیادی سہولت سے محروم ہیں اور گندگی اور بیماریوں کی آماج گاہ بنی ہوئی ہیں۔ (ڈیلی ٹائمز ‘۴ مئی ۲۰۰۶ئ)

پورے ملک میں ۶ئ۵۸ فی صد آبادی کو صاف پینے کا پانی میسر نہیں ہے اور وہ مجبور ہیں کہ جراثیم اور کثافت سے آلودہ پانی استعمال کریں بلکہ دیہی علاقوں میں تو انسان اور ڈھورڈنگر ایک ہی تالاب یا نالے سے یہ آلودہ پانی استعمال کر رہے ہیں۔ (ڈیلی ٹائمز‘ ۳۱ دسمبر ۲۰۰۵ئ)

تعلیم کا جو حال ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ نصف آبادی ناخواندگی کی تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی ہے اور جو اپنے کو تعلیم یافتہ سمجھ رہے ہیں ان کی ڈگریاں روزگار کے حصول کا ذریعہ بننے سے قاصر ہیں۔ ورلڈبنک کی تازہ ترین رپورٹ کا یہ دعویٰ بھی روح فرسا ہے کہ نہ صرف جنوب ایشیا میں بلکہ غیرترقی یافتہ ممالک کی پوری فہرست میں پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جو تعلیم پر قومی دولت کا سب سے کم حصہ خرچ کر رہے ہیں۔ تعلیم پر جنوب ایشیا میں اوسطاً خرچ قومی دولت کا ۶ئ۳ فی صد ہے‘ جب کہ تمام ترقی پذیر ممالک کا اوسط ۴ئ۳ ہے۔ پاکستان میں یہ حصہ صرف ۱ئ۲ فی صد ہے (سرکاری دستاویز معاشی جائزہ‘ ۰۶-۲۰۰۵ئ)‘ جب کہ ورلڈ بنک ازراہ کرم اس رقم کو قومی آمدنی کا ۳ئ۲ فی صد کہہ رہا ہے۔ (ملاحظہ ہو‘ ورلڈ بنک کی Green Data Book 2006 ‘ بحوالہ ڈان‘ ۱۲ مئی ۲۰۰۶ئ)

غربت اور محرومی کی یہ داستان بڑی طویل ہے لیکن ان چند حقائق کے پس منظر میں اب اس غریب ملک کے حکمرانوں کی اللّے تللّے شاہ خرچیوں کا بھی ایک منظر دیکھ لیں۔ جو کچھ ہم پیش کررہے ہیں وہ اس گھنائونی اور شرم ناک تصویر کی صرف ایک چھوٹی سی جھلک ہے ورنہ تفصیل میں جائیں تو ’تن ہمہ داغ داغ شد‘ کی کیفیت ہے۔

ایوانِ صدر سے بات کا آغاز کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص اس وقت ایک نہیں‘  دو گھروں پر قابض ہے یعنی ایوانِ صدر کے ساتھ ساتھ چیف آف اسٹاف کا وہ محل بھی اسی  کے تصرف میں ہے جس کا سارا خرچ دفاع کے مقدس بجٹ سے کیا جاتا ہے۔ صرف اسلام آباد کے ایوانِ صدر کے انتظام اور رکھ رکھائو پر سال گذشتہ میں ۲۶ کروڑ ۱۶ لاکھ روپے خرچ ہوئے ہیں اور نئے سال کے لیے اس کو بڑھا کر ۲۹ کروڑ کردیا گیا ہے۔ ایوانِ صدر کے صرف باغات کی دیکھ بھال پر ۷۰ لاکھ سالانہ خرچ ہو رہے ہیں۔ ۲۰ جون ۲۰۰۶ء (ڈان‘۲۱ جون ۲۰۰۶ئ) کو سی ڈی اے نے  اپنا جو نیا بجٹ شائع کیا ہے اس میں ایوانِ صدر میں نئی تعمیرات کے لیے ۲۱ کروڑ ۵۰ لاکھ کی رقم رکھی گئی جسے مرکز کے ترقیاتی بجٹ (Public Sector Development Programme) سے لیا جائے گا۔ عوام کم از کم ۵۵ لاکھ مکانات کی کمی سے دوچار ہیں اور اسلام آباد کے سرکاری عملے کے صرف دسویں حصے کو سرکاری مکانات کی سہولت حاصل ہے مگر ’غریب دوست بجٹ‘ اور ’غربت کم کرنے والے ترقیاتی پروگرام‘ پر پہلا حق صدر محترم کا ہے۔

گذشتہ سال کے بجٹ میں وزیراعظم صاحب کے گھر اور دفتر پر خرچ ۲۳ کروڑ ۴۰ لاکھ تھا جسے آیندہ سال بڑھا کر ۵۳ کروڑ ۸۷ لاکھ کردیا گیا ہے اور وجہ زلزلہ زدگان کی مدد کے لیے    دفتری نظام کی وسعت ہے۔ زلزلہ زدگان پر تو جو بھی گزر رہی ہے وہ معلوم ہے لیکن شاید غالب نے اسی  کے لیے کہا تھا کہ ان کے نام پر

بنا ہے عیش تجمل حسین خان کے لیے

جب ایوانِ صدر اور وزیراعظم کے دفتر اور دیوان خانہ کا یہ حال ہے تو پھر قومی اسمبلی کے اسپیکر کیوں پیچھے رہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ان کے لیے جو گھر تعمیر کیا جائے وہ ۳ہزار گز کے سرکاری پلاٹ پر ۴ منزلہ ہو جس کا صرف تعمیر کا خرچ ۸ کروڑ ۴۷لاکھ ہوگا۔ اس پر پلاننگ کمیشن تک نے اعتراض کیا ہے لیکن عوام کے نمایندوں کا اصرار ہے کہ ان کے شایانِ شان مکان کے لیے کروڑوں روپے کی اس قیمتی زمین پر صرف تعمیر کے لیے ساڑھے آٹھ کروڑ کا خرچ کچھ زیادہ نہیں!

وزراے کرام کی فوج ظفر موج پر کیبنٹ ڈویژن کے بجٹ میں سال گذشتہ میں ۱۲ کروڑ رکھے گئے تھے جنھیں بڑھا کر اب ۱۴ کروڑ کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے خفیہ فنڈ (secret fund ) کے لیے ۴۰لاکھ کی رقم رکھی گئی ہے تاکہ ہر وزیر ۶لاکھ اور ہر وزیرمملکت کو ۴ لاکھ سالانہ مل سکیں جس کا کوئی حساب کتاب اس دنیا میں نہیں ہوگا۔

حکمرانوں کے بیرونی سفر بھی اس غریب ملک کے محدود وسائل کے بدترین استعمال کی    شرم ناک مثال ہیں۔ ایک ایک سفر میں پانچ دس نہیں ۶۰‘ ۶۰ شرکاے سفر کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ کوئی مہینہ ایسا نہیں کہ صدر اور وزیراعظم رختِ سفر نہ باندھیں۔ وزرا‘ ارکانِ پارلیمنٹ اور سرکاری حکام کے بیرونی اسفار کی لین ڈوری لگی ہوئی ہے اور حاصل یہ ہے کہ پاکستان دنیا میں روز بروز تنہا ہوتا جارہا ہے۔ جن کی خوشامد کے لیے سفر پر سفر کیے جا رہے ہیں وہ صرف ہاتھ مروڑنے اور مزید محکومی اور اطاعت کے مطالبات کر رہے ہیں۔ خزانے پر اس کا کتنا مالی بوجھ ہے اس کا اندازہ اس سے لگایئے کہ سالِ رواں کے بجٹ کی دستاویز کی روشنی میں صرف صدر اور وزیراعظم اور ان کے ہمراہ جانے والوں کے کُل سفری اخراجات ایک ارب روپے سے زیادہ ہیں۔ وزارتِ خارجہ کے بجٹ میں ۰۶-۲۰۰۵ء کے لیے صرف صدراور وزیراعظم کے دوروں کے لیے ایک ارب کے مصارف بیان کیے گئے ہیں اور سابقہ بجٹ میں مختص رقم میں بھی ضمنی مطالبات زرکے مطابق ۲۵کروڑ کا اضافہ کیا گیا ہے جس میں سے ۱۰ کروڑ صدر کے لیے اور ۱۵ کروڑ وزیراعظم کے لیے ہیں جن کے کل اسفار کا خرچہ ۷۵ کروڑ سے متجاوز ہے۔ (ملاحظہ ہو‘ دی نیوز‘ ۲۱ جون ۲۰۰۶ئ)

ڈان کے کالم نگار سلطان احمد نے پورے سال کے صدر‘ وزیراعظم‘ وزراے کرام‘    ارکانِ پارلیمنٹ اور اعلیٰ سرکاری حکام کے دوروں پر مجموعی خرچ ہونے والی رقم کا تخمینہ ۴ ارب روپے سے زیادہ بیان کیا ہے۔ کوئی نہیں جوقومی دولت کے اس بے محابا ضیاع کا مؤثر احتساب کرے!

بہت زیادہ اہم شخصیت (VVIP) کے زیراستعمال جہاز کی صرف ایک سال کی دیکھ بھال اور اس کی تزئین و آرایش پر ۵۷کروڑ ۷۰ لاکھ روپے خرچ کیے گئے ہیں (بحوالہ Supplementary Demands for Grants and Appropriations 2005-06 ص ۲۱)

جس ملک کے عام شہری کو سائیکل/ موٹرسائیکل یا اچھی پبلک ٹرانسپورٹ میسر نہیں‘ اس کے حکمرانوں کی قیمتی کاروں کی ہوس کی کوئی انتہا نہیں۔ گذشتہ چند سال میں کیبنٹ ڈویژن نے     اہم شخصیات (VVIPs) کے استعمال کے لیے ۵۵ لگژری کاریں درآمد کی ہیں جن پر ۲ ارب روپے سے زیادہ خرچ ہوا ہے۔ ان میں ۳۲ مرسڈیز بینز کاریں اور جیپیں ہیں۔ لگژری کاروں کی خرید میں اضافے کی رفتار اس طرح ہے کہ ۲۰۰۳ء میں ۱۰‘ ۲۰۰۴ء میں ۱۴ اور ۲۰۰۵ء میں ۳۱۔ ۰۶-۲۰۰۵ء کے حسابات میں صرف مزید ۱۰ گاڑیاں درآمد کی گئی ہیں جو ایک ارب سے زیادہ کی مالیت کی ہیں اور ان کی درآمدی ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی مد میں ۳۶ کروڑ ۶۰ لاکھ کا خرچ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ وزیراعظم کے دفتر کے لیے مزید دو گاڑیاں ایک کروڑ ۶۴ لاکھ کے صرفے سے خریدی گئی ہیں۔

شاہ خرچیوں کی ایک اور قسم وہ تحائف ہیں جو اس غریب ملک کے حکمران بڑے بڑے امیر ملکوں کے حکمرانوں اور کارندوں کو بڑی فراخ دلی سے پیش کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ ان کے دل جیت رہے ہیں حالانکہ درحقیقت وہ اپنے آپ کو ان کے مضحکے کا ہدف بنانے کے سوا کچھ حاصل نہیں کرسکتے۔ اس کی تازہ مثال وہ تفصیل ہے جو امریکا کے اخبارات میں پاکستانی حکمرانوں کی طرف سے صرف ایک سال میں دیے گئے تحفوں کی شائع کی گئی ہے۔ اس میں صدربش‘ ان کی بیگم‘ امریکی وزرا‘ حتیٰ کہ سی آئی اے کے کارکنوں کو صدر‘ ان کی اہلیہ اور وزیراعظم کی طرف سے دیے گئے قیمتی قالینوں‘ شالوں‘ جواہرات‘ زیورات اور نایاب نوادرات کا تذکرہ بڑے کڑوے طنز کے ساتھ کیا گیا ہے۔ دو ایک نمونے ہماری قوم کے سامنے بھی آجانے چاہییں۔

جنرل پرویز مشرف نے دسمبر ۲۰۰۴ء میں صدر بش کو نگینوں سے مزین ایک چوبی میز تحفتاً دی جس کی قیمت ۱۴۰۰ ڈالر تھی۔ اس کے علاوہ بش صاحب کو ایک پرانی بندوق (antique muzzle loader) جو ۲۰۰ سال پرانی ہے‘ نیز پاکستان کا بنا ہوا قیمتی اُونی کوٹ اور ٹوپی بھی   پیش کی گئی ہے۔ بیگم مشرف نے لورا بش کو سونے اور ہیروں بھرے قیمتی بُندے پیش کیے جسے  امریکی اخبارات نے اس طرح بیان کیا ہے: "gold light and dark pink garnet and pink tourmaline chandelier ear rings"۔ اس کے علاوہ محترمہ نے موصوفہ کو ایک نیکلس بھی پیش فرمایا جس کی منظرکشی امریکی اخبارات نے ان الفاظ میں کی ہے: "17 light and dark pink tourmaline beaded necklace".

کہا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ تحفے‘ تحفہ دینے والوں کی دل آزاری سے بچنے کے لیے قبول کیے گئے۔ واضح رہے کہ جنرل پرویز مشرف اور ان کی اہلیہ کی فیاضی صرف صدربش اور لورابش تک ہی محدود نہ تھی بلکہ سیکرٹری آف اسٹیٹ کولن پاول‘ ڈپٹی سیکورٹی ایڈوائزر اسٹیفن ہیڈلے‘ ان کے ماتحت افسران‘ ارکانِ سینیٹ حتیٰ کہ سی آئی اے کے کارندوں کو بھی قیمتی تحفوں سے نوازا گیا___ اور وہ ایسا کیوں نہ کرتے؟ آخر پاکستان کے غریب عوام کے خون پسینے کی کمائی کا ان آقایانِ والامدار سے زیادہ حق دار کون ہوسکتا تھا؟

خرچ کی ایک اور دل خراش مَد‘ خوش حال پاکستان کی پبلسٹی اور پاکستان کی خوش گوار تصویر (soft image) پیش کرنے کی مہم ہے جن پر علی الترتیب ۱۰ کروڑ اور ۱۲ کروڑ ۶۲ لاکھ روپے خرچ ہوئے ہیں۔ اگر یہ ۲۲کروڑ روپے اور دوسری تمام رقوم جو مل کر اربوں روپے بنتے ہیں تعلیم‘ غریبوں کے علاج یا محتاجوں کی مدد کے لیے استعمال ہوتے تو پاکستان فی الحقیقت خوش حالی کی منزل کی طرف بڑھ سکتا تھا اور صرف تصویر (image ) ہی نہیں بلکہ حقیقت میں ایک ایسا ملک بن سکتا تھا جس کی نیک نامی کسی نمایشی پروپیگنڈے کی محتاج نہ ہوتی۔

اسلام نے قومی خزانے کے امانت ہونے کا جو تصور دیا ہے اور دورخلفاے راشدہ میں   اس سلسلے میں جو معیار قائم کیا گیا اس کی تو بات ہی کیا‘ خود پاکستان کے بانی قائداعظم کی مثال بھی کچھ کم ایمان افروز نہیں۔ انھوں نے اپنے لیے بطور گورنر جنرل نیا جہاز حاصل کرنے سے انکار کردیا۔ ملک کے باہر اپنا علاج کرانے سے روک دیا۔ سرکاری خزانے سے کی جانے والی دعوتوں پر شدید کنٹرول رکھا‘ مہمانوں کی تواضع کے لیے بھی کھانے کی مقدار اور پھلوں تک کی تعداد مقرر کی اور جب ان کے لیے ایک باورچی کو لاہور سے زیارت لایا گیا جس کا پکایا ہوا کھانا وہ رغبت سے کھاتے تھے‘ تو فوراً اسے واپس کرا دیا اور اس کی آمدورفت کا خرچ بھی اپنی جیب سے ادا کیا۔

ایک وہ قائد تھے اور ایک آج کے حکمران۔ یہی فرق ہے کہ ان قائدین کی جدوجہد کے نتیجے میں انگریز اور ہندو کی ہمہ جہت مخالفت کے باوجود پاکستان کی جدوجہد کامیاب ہوئی اور مسلمانانِ ہند کو آزادی کی سعادت نصیب ہوئی۔ اور رہے آج کے حکمران‘ تو یہ قومی دولت کو آنکھیں بند کر کے لٹا رہے ہیں‘ ان کی عیاشیوں اور تن آسانیوں کی کوئی حد نہیں رہی ہے اور ان کے ہاتھوں ملک کی آزادی‘ حاکمیت‘ عزت اور حمیت سب دائو پر لگے ہوئے ہیں۔ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ قوم امانت میں خیانت کرنے والوں کا حقیقی احتساب کرے اور ایسی قیادت بروے کار لائے جو صادق اور امین ہو۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کسی بھی حکومت کی کارکردگی اور اس کی کامیابی اور ناکامی کو جانچنے کے لیے پوری دنیا میں چار سے پانچ سال کی مدت کافی سمجھی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے پارلیمنٹ کی مدت بالعموم زیادہ سے زیادہ پانچ سال رکھی جاتی ہے اور جہاں کسی بھی نوعیت کا صدارتی نظام ہے‘ وہاں بھی عام طور پر صدر کی ایک مدت کے لیے چار یا پانچ سال مقرر کیے جاتے ہیں۔

جنرل پرویز مشرف ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو فوجی انقلاب کے ذریعے برسرِاقتدار آئے اور   ان کی معاشی ٹیم اپنی حکمرانی کے سات سال پورے کرنے کو ہے۔ اس پورے زمانے میں     جنرل مشرف چیف ایگزیکٹو کا کردار ادا کرتے رہے ہیں اور شوکت عزیز صاحب ان کی معاشی ٹیم کے کرتادھرتا کی حیثیت سے کارفرما رہے ہیں۔ جنرل صاحب ایک عرصے سے اپنے اور اپنی ٹیم کے معاشی کارناموں کو اپنی سب سے بڑی کامیابی کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ امریکا‘ برطانیہ اور بھارت تینوں کے ٹی وی چینلوں کو انٹرویو دیتے ہوئے اس چبھتے ہوئے سوال کا کہ: آپ کا سب سے بڑا کارنامہ کیا ہے؟ جواب دیتے ہوئے‘ انھوں نے بڑے فخر سے فرمایا: معاشی ترقی اور    خوش حالی کا حصول۔ جناب شوکت عزیز صاحب نے اس دعوے میں مزید رنگ بھرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ملک میں فی کس آمدنی اب ۸۰۰ ڈالر سالانہ ہوگئی ہے۔ غربت میں ۷ فی صد کی کمی واقع ہوئی۔ بے روزگاری میں بھی کمی ہوئی ہے اور وہ اب ۷ئ۷ فی صد سے کم ہوکر ۵ئ۶ فی صد پر آگئی ہے۔ آخری لیبر سروے کے ذریعے حاصل کردہ معلومات کے مطابق‘ ان کا ارشاد ہے کہ ۰۴-۲۰۰۳ء میں بے روزگاروں کی تعداد ۳۵ لاکھ تھی جو ۰۵-۲۰۰۴ء میں کم ہوکر ۳۳لاکھ ۳۰ ہزار رہ گئی ہے۔ انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ حقیقت میں شرح نمو ۶ اور ۸فی صد کے درمیان ہے اور پرائمری تعلیم میں اس درجہ اضافہ ہوا ہے کہ پرائمری تعلیم کے لائق بچوں کا ۸۶ فی صد اب تعلیمی اداروں میں داخل ہورہا ہے اور بچوں کی آبادی کا ۸۳ فی صد صحت کی ابتدائی سہولت یعنی immunization سے فیض یاب ہو رہا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ۲۰۰۷ء تک تمام دیہاتوں تک بجلی کی روشنی پہنچ جائے گی اور ملک کی پوری آبادی کو صاف پانی دستیاب ہونے لگے گا۔

جنرل صاحب کی معاشی ٹیم ان خوش نما دعووں کا اس کثرت سے اعلان کر رہی ہے کہ ہٹلر کے دروغ گوئی کے مشہور وزیر گوبلز کی یاد تازہ ہوگئی ہے۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ ان دعووں کا بے لاگ علمی جائزہ لیا جائے اور صحیح معاشی صورت حال بے کم و کاست قوم کے سامنے رکھی جائے۔ چونکہ جون کے مہینے میں نیا بجٹ بھی آنے والا ہے‘ اس لیے اس جائزے کے لیے اس سے زیادہ اور کوئی موزوں وقت نہیں ہوسکتا۔

ہم معاشی حالات کے جائزے سے قبل اس بات کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں کہ حکومت کے نمایندوں کے ان دعووں پر ہم ہی انگشت بدنداں نہیں‘ ملک کے اکثر ماہرین معاشیات حیران و ششدر ہیں اور ورلڈبنک‘ ایشین ڈویلپمنٹ بنک‘ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (UNDP) اور امریکا کے مشہور رسالے فارن پالیسی کی تجزیاتی ٹیم سب ہی نے ان دعووں کے برعکس اعلان کیا ہے کہ زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔ اور ملک کا ہر شہری اپنے روزمرہ کے تجربے کی بنیاد پر ان حقائق پر گواہی دے رہاہے کہ اعداد و شمار کا یہ کھیل حقیقت سے کوئی نسبت نہیں رکھتا۔ مرکزی حکومت کے ایک سابق سیکرٹری ڈاکٹر جیلانی نے دی نیوز میں اپنے ایک مضمون میں بڑے دل چسپ انداز میں لکھا ہے کہ میں ہی نہیں میرا ڈرائیور‘ باورچی اور خاکروب تک بازار سے جو چیز بھی لینے جاتا ہے‘ اس کا تجربہ سرکاری اعلانات کی ضد ہوتا ہے۔ ڈاکٹر شاہد جاوید برکی جو ڈان میں معاشی امور پر  ہفتہ وار کالم لکھتے ہیں‘ ورلڈبنک میں اعلیٰ مناصب پر فائز رہے ہیں اور ایک عبوری حکومت میں وزیرخزانہ کی ذمہ داری بھی اداکرچکے ہیں‘ حکومت کو متنبہ کرتے ہیں کہ:

حکومت کوئی قدم اٹھا سکتی ہے بشرطیکہ وہ دو باتیں پہلے کرے۔ سب سے پہلے اسے یہ خیال جھٹک دینا چاہیے کہ معیشت میں سب اچھا ہے۔ (ڈان، ۱۸ اپریل ۲۰۰۶ئ)

ملک کے توازن ادایگی (balance of payments) میں شدید خسارے کے رجحان‘ اسٹاک ایکسچینج ہی میں نہیں پوری معیشت میں سٹہ اور سٹّے کی بنیاد پر تجارتی سرگرمی اور بنکوں کے نظام کی کمزوری کی روشنی میں موصوف نے اس طرح کے خطرے تک کے امکان کا اظہار کیا ہے جیسا میکسیکو میں چند سال پہلے رونما ہوا تھا۔

جب میں ان باتوں کی طرف دیکھتا ہوں جو میکسو کے بحران سے پہلے پیش آئیں‘ تو میں انھیں آج کے پاکستان میں موجود پاتا ہوں۔(ڈیلی ٹائمز، ۲۶ اپریل ۲۰۰۶ئ)

ایک اور آزاد ماہر معاشیات ڈاکٹر ایس اکبر زیدی اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھتے ہیں:

گو کہ نمو (growth)کے اور اسٹاک مارکیٹ کے اعداد و شمار پروپیگنڈے کے لیے اچھے نظر آتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ حقیقی معیشت پر ان کا اچھا اثر ہو‘ جیساکہ چند برس پہلے بھارت میں ظاہر ہوچکا ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ غربت اور بے روزگاری میں کمی آئی ہے‘ اگرچہ اسے ابھی یہ انکشاف کرنا ہے کہ یہ اعداد و شمار اسے کہاں سے ملے۔ یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ پاکستان میں عدمِ مساوات میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ ہرکسی کو نظر آتا ہے اور پاکستان کے شہری منظرنامے سے ظاہر ہے۔ کچھ ہی صارف تسلیم کریں گے کہ افراطِ زر اتنا کم ہے‘ زیادہ تر لوگ یقین رکھتے ہیں کہ معیشت میں ’بہتری‘ کے باوجود ان کی زندگی کا معیار گرا ہے۔ (روزنامہ ڈان، ۷ اپریل ۲۰۰۶ئ)

ڈاکٹر اکمل حسین ٹی ایس ایلیٹ کے مشہور مصرعے: between ideas and reality fall the shadows (تصورات اور حقیقت کے درمیان سائے ہوتے ہیں) کاحوالہ دے کر لکھتے ہیں:

حکومت کی معاشی کارکردگی کے تصور اور عوام کو جن معاشی حقائق کا سامنا ہے‘ ان کے درمیان خلیج بڑھ رہی ہے‘ جب کہ حکومت زیادہ نمو کے کارنامے کی خوشی منا رہی ہے۔ عوام کی اکثریت بنیادی ضروریات اور افراطِ زر سے حقیقی آمدنی میں کمی کے مسلسل استحصال کا شکار ہے۔ حکومت بتاتی ہے کہ بڑے پیمانے کے صنعتی سیکٹر میں ۱۹ فی صد سے زائد اضافہ ہوا ہے‘ لیکن اس میں پُرتعیش گاڑیوں کا حصہ امیر اور غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے تفاوت پر بے چینی کا مظہر ہے۔(ڈیلی ٹائمز، یکم مئی ۲۰۰۶ئ)

حکومت کے دعووں‘ عام آدمی کے شدید محرومی کے تجربات اور آزاد معاشی ماہرین کے سرکاری دعووں کے بارے میں واضح تحفظات کے اظہار نے بے یقینی کی جو فضا سی پیدا کر دی ہے‘ اس کا تقاضا ہے کہ حقیقت کو جاننے کی معروضی کوشش کی جائے اور یہ جائزہ علمی بنیادوں پر اور  اعداد وشمار کی صحیح تعبیر کے ساتھ لیا جائے۔ ان صفحات میں اس کی کوشش کی جارہی ہے۔

۱- پہلی بات جو ہم سب کے لیے تشویش کا باعث ہے وہ سرکاری اعدادوشمار کے قابلِ اعتماد ہونے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ ایک سانحہ ہے کہ آزادی کے ۵۸سال کے بعد بھی ہم    اعدادو شمار جمع کرنے کے آزاد اور قابلِ اعتماد ادارے سے محروم ہیں۔ بلکہ اس وقت تو عالم یہ ہے کہ دو سال سے سرکاری شعبہ شماریات سیکرٹری اور شماریات کے علم میں تخصص رکھنے والے ماہرین کے بغیر چلایا جارہا ہے۔ اس ادارے کو جوائنٹ سیکرٹری اور ڈپٹی سیکرٹری کے عہدے کے افراد چلا رہے ہیں۔ افسوس ہے کہ یہ اہم ادارہ اعلیٰ فنی ماہرین کی رہنمائی سے بھی محروم ہے۔ بار بار آزاد شماریاتی مقتدرہ (statiscal authority) کے قیام کے وعدے کیے گئے ہیں لیکن اس مرکزی اہمیت کے ادارے کو مناسب بنیادوں پر قائم کرنے کے کام سے مجرمانہ تغافل برتا جا رہا ہے۔ ورلڈبنک‘ ایشین ڈویلپمنٹ بنک اور پارلیمنٹ کی کمیٹیاں برسوں سے فریاد کناں ہیں مگر کوئی پیش رفت نہیں ہوتی جو اس شبہے کو تقویت دیتی ہے کہ یہ سب کچھ اعداد وشمار کو حسب خواہش مرتب کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف بار بار متنبہ کرچکاہے کہ پاکستان کی وزارتِ خزانہ ہمیں غلط اعداد وشمار دیتی رہی ہے اور یہ بات پوری قوم کے لیے شرمندگی کاباعث رہی۔ صاف نظر آرہا ہے کہ حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اسٹیٹ بنک کی رپورٹ میں ایک جگہ نہیں نصف درجن سے زیادہ مقامات پر کہا گیا ہے کہ یا ہمیں تازہ ترین اعداد و شمار نہیں دیے جا رہے یا ہمارے اعداد و شمار اور  محکمہ شماریات کے اعداد وشمار میں مطابقت نہیں۔ فنی اعتبار سے لاپروائی کا یہ حال ہے کہ صارف کے لیے قیمتوں کا اشاریہ‘ جو ہراعتبار سے ایک بنیادی اہمیت کا حامل اشاریہ ہے‘ اس کے مرتب کرنے کے لیے جن مقامات اور جن منڈیوں (markets) کا انتخاب کیا گیا ہے‘ ان میں دیہی آبادی کا ایک بھی مرکز شامل نہیں۔ صرف شہری آبادی کے ۳۵ مراکز اور ۷۱مارکیٹوں سے ساری معلومات جمع کی جاتی رہی ہیں اور باربار کی گرفت کے باوجود اس کی اصلاح نہیں کی گئی۔ اب وعدہ کیا جا رہا ہے کہ ۲۰۰۷ء میں شہری اور دیہی دونوں آبادیوں سے معلومات حاصل کی جائیں گی اور غالباً بنیادی سال بھی تبدیل کیا جائے گا۔

برآمدات میں اضافے کی بات بڑے کروفر سے کی جارہی ہے کہ اس سال کُل برآمدات ۱۷ یا ۱۸ بلین ڈالر تک پہنچ جائیں گی مگر چمڑے اور چمڑے کی مصنوعات کی برآمد کے بارے میں جواعداد و شمار سامنے آئے ہیں‘ اس پر چمڑے کے صنعت کاروں اور برآمد کنندگان کی ایسوسی ایشن کا جو سرکاری ردعمل آیا ہے وہ چشم کشا ہے۔ شماریات کے فیڈرل بیورو کے سرکاری اعداد و شمار کی رو سے اس سال میں چمڑے کی مصنوعات کی برآمدات میں ۵۷ فی صد اضافہ ہوا ہے‘ جب کہ متعلقہ صنعت کے ذمہ داروں کا کہناہے کہ اس اضافے میں بڑا دخل جھوٹے بلوں (fake invoicing) کا ہے جو صرف رعایت (rebate) لینے کے لیے کیا جاتا ہے۔ ایسوسی ایشن کے نمایندوں کا کہنا  یہ ہے کہ پچھلے سال کے ۲۴۴ ملین ڈالر کے مقابلے میں اس سال ۳۸۷ ملین ڈالر کی برآمدات دکھائی گئی ہیں جس کا حقیقت سے تعلق نہیں۔ جولائی تادسمبر ۲۰۰۵ء کے اعداد و شمار کو چیلنج کرتے ہوئے ایسوسی ایشن کے ذمہ دار ترجمان نے کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے ۲۰۰۴ء کے متعلقہ زمانے میں برآمدات صرف ۷ملین ڈالر تھیں جو اس سال ۶۰ملین ڈالر دکھائی گئی ہیں حالانکہ حقیقت میں اس عرصہ میں برآمدات ۵ ملین ڈالر سے زیادہ نہیں ہوسکتیں۔ اسی طرح سعودی عرب کو ۱۰ملین ڈالر برآمدات دکھائی گئی ہیں‘ جب کہ گذشتہ سال ۲ملین ڈالر تھیں اور اس سال بھی اس سے زیادہ نہیں۔ یہی صورت حال جنوبی افریقہ اور دوسرے ممالک کی ہے۔مختلف صنعتوں کے نمایندوں کا اندازہ ہے کہ صرف زیادہ قیمت کے بلوں (over-invoicing)کی بنا پر برآمدات کے اعداد و شمار میں ۵ئ۱ بلین ڈالر سے ۲ بلین ڈالر تک مصنوعی اضافے کا امکان ہے۔ اس طرح اصل برآمدات ۱۷یا ۱۸ نہیں ۱۵ یا ۱۶بلین ڈالر ہوں گی۔ (دی نیوز‘ ساجد عزیز‘ ۱۲ مئی ۲۰۰۶ئ۔ ڈان‘ ۸مئی ۲۰۰۶ئ)

اس کے ساتھ اگر اس رپورٹ کو بھی سامنے رکھا جائے کہ سنٹرل بورڈ آف ریونیو (CBR) کے ایک سابق ملازم نے ذمہ دار حضرات سے گٹھ جوڑ کر کے موجودہ حکومت کے دور میں ۲۰۰۲ء تک ۲۰ ارب روپے refundکے ذریعے نکلوائے۔ گویا ایک طرف برآمدات کو بڑھا کر دکھایا گیا اور دوسری طرف ان کے نام پرrefund کی صورت میں اربوں روپے حاصل کیے۔    یہ بدعنوانی (corruption )اور ملی بھگت (collusion) کی صرف ایک مثال ہے۔

وزیراعظم صاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ ۲۰۰۰ء سے ۲۰۰۵ء میں معیشت کاحجم دگنا ہوگیا ہے لیکن اگر اقتصادی سروے اور اسٹیٹ بنک کی رپورٹوں میں اضافے کی سالانہ رفتار کا مطالعہ کیا جائے تو ۰۱-۲۰۰۰ء میں اضافہ ۸ئ۱ فی صد‘ ۰۲-۲۰۰۱ء میں ۱ئ۳ فی صد‘ ۰۳-۲۰۰۲ء میں ۱ئ۵ فی صد‘ ۰۴-۲۰۰۳ء میں ۴ئ۶ فی صد اور ۰۵-۲۰۰۴ء میں ۴ئ۸ فی صد تھا۔ اس کا مجموعی input ۲۵ فی صد سے زیادہ نہیں ہوسکتا۔ پھر یہ معجزہ کیسے رونما ہوا؟ یہ صرف شماریات کے لیے بنیادی سال کی تبدیلی اور افراط زر کا پیدا کردہ مغالطہ ہے۔ اسے معیشت کے حقیقی طور پر دگنا ہوجانے کا نام دینا یا    صریح غلط بیانی ہے اور یا معیشت کے حقیقی نمو اور مالی شعبدہ بازی کے فرق کو نظرانداز کرکے عوام کو بے وقوف بنانا۔

جس ملک کے اعداد و شمار اور معاشی ٹیم کی ترک تازیوں کا یہ حال ہو‘ اس کی قیادت کے خوش نما دعوئوں پر کون اعتماد کرے گا۔

۲- ہم دلیل کے لیے تسلیم کرلیتے ہیں کہ صدر اور وزیراعظم صاحبان معیشت کی ترقی کی جس رفتار کا دعویٰ کر رہے ہیں‘ وہ درست ہے یعنی ۰۵-۲۰۰۴ء میں یہ رفتار ۴ئ۸ فی صد سالانہ تھی اور سال رواں میں ہدف تو ۷ فی صد کا تھا مگر توقع ۳ئ۶ سے ۸ئ۶ کے درمیان کی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس اضافے کے مآخذ (sources) کیا ہیں اور ان میں کتنا دخل حکومت کی پالیسیوں کا ہے اور کتنا بیرونی (exogenous) عوامل کا۔ ڈاکٹر شاہد جاوید برکی نے نہایت علمی انداز میں یہ تجزیہ کیا ہے اور ۰۵-۲۰۰۴ء کے ۴ئ۸ فی صد اضافے کو تحلیل کر کے انھوں نے ثابت کیا ہے کہ اس اضافے کے چار مآخذ ہیں جن میں سے دو بیرونی اور ایک اتفاقی ہے۔ رہا چوتھا ماخذ تو وہ بلاشبہہ معیشت کی پیداواری صورت ہے۔ پہلا سبب موسم اور قدرت کی کرم فرمائی ہے جس کا خصوصی اثر زرعی پیداوار پر پڑتا ہے اور اس سال کی زرعی پیداوار میں ۷ فی صد اضافے میں ان قدرتی عوامل کا بڑا دخل تھا جس کا مجموعی قومی پیداوار (GDP) اضافے پر ۵ئ۱ فی صد کی حد تک اثر متعین کیا جاسکتا ہے۔ دوسرا اہم بیرونی سبب بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات ہیں جو اس زمانے میں ایک ارب ڈالر سے بڑھ کر ۴ ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں اور بڑی حد تک ناین الیون کے اثرات کی وجہ سے ہیں۔ اس میں کوئی دخل حکومت کی کسی پالیسی کا نہیں ہے۔ اس ذریعے کا عملی اثر جی ڈی پی پر ۲ فی صد کے قریب شمار کیا جاسکتا ہے۔ ان دو عوامل کے علاوہ ایک اندرونی پہلو اور بھی تھا جو دوبارہ پیش نہیں آسکتا۔ یعنی یہ کہ ۲۰۰۰ء سے ۲۰۰۳ء تک آئی ایم ایف کے دبائو تلے جو پالیسی اختیار کی گئی اس کی وجہ سے stabilization کے نام پر نمو کو suppress کیا گیا۔ یہ suppressed growth ۰۳-۲۰۰۲ء کے بعد اپنا اظہار کرتی ہے اور اس طرح ۰۵-۲۰۰۴ء کے اضافے میں ۵ئ۱ فی صد اس کا دخل نظر آتاہے ۔ اگر ان ۵ فی صد کو الگ کیا جائے تو اصل اضافہ صرف ۴ئ۳ فی صد کا ہے جسے structural growth کہا جاسکتا ہے اور اس کی بنیاد پر ۷ اور ۸ فی صد مسلسل اضافے کی توقعات لگانا سائنسی اعتبارسے درست نہیں۔دوسرے معاشی ماہرین نے بھی ان پہلوؤں کو قابلِ غور قرار دیا ہے اور حکومت کے اس دعوے کو محل نظر قرار دیا ہے کہ مروجہ پالیسیوں کے پس منظر میں کُل پیداوار میں ۷ اور ۸ فی صد سالانہ اضافہ تسلسل کے ساتھ برقرار رکھنا ممکن ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹیٹ بنک نے ۷ فی صد کے ہدف کو قابلِ حصول قرار نہیں دیا اور سال رواں کے لیے ۳ئ۶فی صد کے لگ بھگ اضافہ کو ممکن قرار دیا ہے اور اس میں بھی بیرونی ترسیلات کے تقریباً ۲فی صد حصہ کو بیرونی عامل کے طور پر تسلیم کرنا ہوگا۔

ہم نے یہ فنی تجزیہ صرف اس لیے پیش کیا ہے کہ عام آدمی تو ۷ اور ۸ فی صد اضافے سے مرعوب ہوسکتا ہے لیکن جن کی نگاہ تمام معاشی عوامل پر ہے‘ وہ sustained rate of growth کے نقطۂ نظر سے ایک دو سال کے رفتار اضافہ کو economic break throughتسلیم نہیں کرسکتے۔

اسی طرح فنی اعتبار سے یہ ایک معما ہے کہ معاشی ترقی کے لیے جو چیز سب سے زیادہ اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے وہ ملک میں بچت کی شرح (rate of domestic saving) اور سرمایہ کاری کی شرح (rate of investment) ہے۔ پاکستان میں بچت کی شرح نہ صرف یہ کہ علاقے کے تمام ہی ممالک کے مقابلے میں کم ہے بلکہ مالی سال ۲۰۰۳ء میں جو بچت کی شرح  مجموعی قومی پیداوار کا ۸ئ۲۰ تھی وہ ۲۰۰۴ء میں ۷ئ۱۸ اور ۲۰۰۵ء میں ۱ئ۱۵ رہ گئی۔ اس طرح ملک میں سرمایہ کاری کی شرح مطلوب شرح سے نمایاں طور پر کم ہے۔ ۷ فی صد کی رفتار سے جی ڈی پی میں تسلسل کے ساتھ اضافے کے لیے موجودہ incrementel capital output ratio کے مطابق ۳۰فی صد شرح سرمایہ کاری مطلوب ہے جب کہ یہ شرح ۲۰ فی صد سے بھی کم ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مجموعی قومی پیداوار (GDP)کی نسبت سے  domestic investment ratio میں ۲۰۰۱ء کے مقابلے میں کمی آئی ہے جس کی تلافی بیرونی ترسیلات اور بیرونی سرمایہ کاری (FDI) جس میں نج کاری سے حاصل شدہ رقم بھی شامل ہے‘ نے کی ہے۔ لیکن دونوں مل کر بھی مطلوب شرح سرمایہ کاری سے نمایاں طور پر یعنی تقریباً ۳۰ فی صد کم ہیں۔

ان حالات میں جو بھی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے وہ بڑی حد تک consumption based ہے مطلوبہ حد تک investment based نہیں جو بہت fragile ہے اور لمبے عرصے کے لیے قابلِ اعتماد نہیں۔ ان بنیادی معاشی حقائق کی روشنی میں ترقی کے خوش کن دعوے اور break through اور turning the corner کے مبالغہ آمیز بیانات سیاسی نعروں اور تعلّیوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔

۳-  ہم نے خالص علمی اور فنی نقطۂ نظر سے جو معروضات پیش کی ہیں ان کا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ حکومت کے دعووں کی زمینی حقائق سے تائید نہیں کی جاسکتی۔ لیکن یہ تو علمی بحث ہے۔ عام آدمی کی دل چسپی مجموعی پیداوار کی شرح نمو یا زرمبادلہ کے ذخائر میں افزونی نہیں__ اسے تو اپنی ضروریات زندگی کی فراہمی‘ بنیادی سہولتوں کے حصول اور روزگار اور خوش حالی کے پیمانے پر حکومت کی معاشی پالیسیوں کی کامیابی یا ناکامی کو جانچنا ہوتا ہے اور اس اعتبار سے عام آدمی کی زندگی معاشی محرومی‘ استحصال اور ظلم کی تلخیوں سے بھری پڑی ہے۔ غربت کی شرح ۳۰ سے ۴۰ فی صد تک پہنچ چکی ہے اور حکومت کے ان دعووں میں کوئی صداقت نہیں کہ ۲۰۰۱ء کے مقابلے میں ۲۰۰۵ء میں ۷ فی صد کی کمی ہوئی ہے۔ حکومت کس بنیاد پر یہ دعویٰ کر رہی ہے‘ کسی کو علم نہیں اور بار بار کے مطالبات بلکہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کی مالیاتی کمیٹی کے متعین مطالبے کے باوجود نہ تو تفصیلی رپورٹ فراہم کی گئی ہے اور نہ ہی اس کے طریق کار (methodolgy)کو ظاہر کیا گیا۔ ورلڈ بنک اور ایشین ڈویلپمنٹ بنک نیز ABN-Amro بنک کی رپورٹ میں غربت کو ۳۲ فی صد ہی دکھایا گیا ہے حتیٰ کہ پلاننگ کمیشن کے دس سالہ وسط مدتی منصوبے  میں جو ۲۰۰۵ء میں آیا تھا اور حکومت کے غربت میں کمی کے دعوے کے بعد شائع ہوا ہے‘ غربت کی شرح کو آبادی کا ایک تہائی قرار دیا گیا ہے۔ ابھی امریکی مجلہ فارن پالیسی نے جو Failed States Index شائع کیا ہے اس میں بھی پاکستان میں ۳۲ فی صد غربت کی بات کی ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ ایکونومکس کے اپنے جائزے کے مطابق بھی غربت ۳۲ فی صد سے ۳۷ فی صد تک ہے۔

غربت کا مسئلہ اوّلین معاشی مسئلہ ہے۔ پیداوار میں وہ اضافہ جو امیروں کی ضروریات کو پورا کرے یا مبادلہ خارجہ کمانے کا ذریعہ ہو‘ عوام کے لیے غیرمتعلق ہے۔ ان کی ضرورت یہ ہے کہ زندگی کی بنیادی ضروریات اور سہولتیں قابلِ برداشت قیمت پر حاصل ہوں‘ یعنی رسد بھی کافی ہو اور قیمت بھی ان کی دسترس میں ہو___ اور اس وقت دونوں ہی مفقود ہیں۔

ایک زرعی ملک جو تقسیم سے قبل پورے ہندستان کی ضروریات پوری کر رہا تھا اور ۱۹۸۰ء اور ۱۹۹۰ء میں بھی بڑی حد تک زرعی اجناس کی حد تک خودکفیل ہوگیا تھا اب گندم‘ چینی‘ پیاز‘ ٹماٹراور دالوں تک کے لیے دوسروں کا محتاج ہوگیا ہے اور تمام ہی ضرورت کی اشیا کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پاکستان میںقیمتیں دوسرے ممالک سے کم ہیں لیکن حقائق اس کی تائید نہیں کرتے۔ ہم صرف پاکستان‘ بنگلہ دیش اور بھارت میں چند اشیاے ضرورت کی قیمتوں کے تازہ ترین اعداد و شمار پیش کرتے ہیں جو انٹرنیٹ سے حاصل کیے گئے ہیں اور پاکستان کی کرنسی میں اپریل کے آخر اور مئی ۲۰۰۶ء کے شروع کی معلومات فراہم کرتے ہیں:

اشیا

پیمانہ

Unit

اسلام آباد

(۰۶-۰۵-۰۴)

ڈھاکہ

(۰۶-۰۴-۲۷)

نئی دہلی

(۰۶-۰۴-۲۷)

آٹا

کلوگرام

۱۶ئ۱۳

۹۴ئ۱۶

۴۴ئ۱۶

ماش کی دال

"

۵۰ئ۷۵

۵۹ئ۴۶

۲۰ئ۸۲

گائے کا گوشت

"

۵۰ئ۱۳۷

۶۰ئ۱۱۸

۳۷ئ۵۱

بکری کا گوشت

کلوگرام

۵۰ئ۲۵۷

۴۳ئ۱۶۹

۵۰ئ۲۶۵

چینی

"

۸۸ئ۳۷

۱۳ئ۴۹

۱۴ئ۳۰

سویابین تیل

لٹر

۰۰ئ۸۲

۵۹ئ۴۶

۶۵ئ۶۱

آلو

"

۵۰ئ۲۶

۸۶ئ۱۱

۷۰ئ۱۳

پیاز

"

۲۵ئ۱۹

۵۵ئ۱۳

۹۶ئ۱۰

پٹرول

"

۷۷ئ۵۷

۱۲ئ۳۸

۳۸ئ۶۱

ڈیزل

"

۸۰ئ۳۸

۴۱ئ۲۵

۵۴ئ۴۲

مٹی کا تیل

"

۰۰ئ۴۰

۶۵ئ۲۹

۳۲ئ۴۹

LPG

کلوگرام

۶۴ئ۴۳

۷۷ئ۲۲

-

CNG

کیوبک میٹر

۳۷ئ۳۱

۳۱ئ۶

۶۶ئ۲۴

DAP

کلوگرام

۰۰ئ۲۳

۷۹ئ۱۲

-

یوریا

"

۰۰ئ۱۱

۲۴ئ۴

-

سیمنٹ

فی بوری

۰۰ئ۳۲۵

۲۱ئ۲۳۷

۹۴ئ۲۲۱

اس جدول سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے عام شہری کو بحیثیت مجموعی اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بنگلہ دیش کے مقابلے میں دگنا اور بھارت کے مقابلہ ایک تہائی زیادہ قوت خرید درکار ہے‘ جب کہ عام آدمی کی اوسط آمدنی ان ملکوں میں برابر برابر ہے۔ اقبال نے صحیح کہا تھا   ع

ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات

پاکستان میں کم سے کم اُجرت قانونی طور پر ۳۰۰۰ روپے ماہانہ ہے لیکن عملاً اس سے نصف اور دو تہائی پر بھی بڑی تعداد کو کام کرنا پڑتا ہے‘ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جس خاندان کی آمدنی ۵ہزار ماہانہ سے ۱۰ ہزار تک ہے وہ بھی اس آمدنی میں ضروریاتِ زندگی پوری نہیں کرسکتا۔ اور اس بنیاد پر ملک میں غربت کی سطح کی گرفت میں ۶۰ اور۷۰ فی صد آبادی آجاتی ہے۔

یہی وجہ ہے یو این کے Human Development Indexمیں دنیا کے ۱۷۷ممالک میں پاکستان کا نمبر ۱۳۵ واں ہے اور گذشتہ ۶ سال میں ہم نیچے گئے ہیں‘ اُوپر نہیں آئے ہیں۔ ڈاکٹر شاہ رخ رفیع خاں کی کتاب Hazardous Home Based Labour جسے اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس نے ۲۰۰۵ء میں شائع کیا ہے‘ اس میں بچوں کی لیبر کی جس زبوں حالی کا نقشہ کھینچا گیا ہے‘ وہ رونگٹے کھڑے کرنے والا ہے۔ کارپٹ‘ چوڑیوں کی صنعت‘ پلاسٹک‘ موم بتی بنانے کے کارخانوں میں ۸ سے ۱۲ سال کے لڑکے اور لڑکیاں تک ۱۶ گھنٹے روزانہ کام کرتے ہیں اور ۱۷۰۰ سے ۲۰۰۰روپے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے۔ کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والوں کو ایک ہزار اینٹ بنانے کے ۶۰ روپے ملتے ہیں اور یہی ہزاراینٹ منڈی میں ۴ہزار روپے میں فروخت ہوتی ہے۔ زراعت میں بھی چھوٹے کاشت کار اور مزارع کی حالت دگرگوں ہے۔ بظاہر زرعی اجناس کے لیے support price کا اعلان ہوتا ہے مگر عملاً بڑا زمین دار ہی اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے اور چھوٹے کاشت کار کو جس کے اندر اپنی پیداوار کو روک رکھنے کی سکت نہیں‘ کم دام پر فروخت کرنا پڑتی ہے۔

پاکستان قومی ترقیاتی رپورٹ ۲۰۰۳ء میں ڈاکٹر اکمل حسین نے Asymmetric Markets for Inputs and Outputs میں جو حقائق پیش کیے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ چھوٹا کاشت کار مجبور ہوتا ہے کہ اپنی پیداوار کو بڑے زمین دار کی پیداوار کے مقابلے میں سستا بیچے اور جو زرعی ضروریات اسے درکار ہیں وہ بڑے زمین دار کے مقابلے میں مہنگی حاصل کرے جس کے نتیجے میں انھی اشیا کی خرید و فروخت پر چھوٹے کاشت کار کو بڑے زمین دار کے مقابلے میں اوسطاً ۳۳ فی صد کم آمدن ہوتی ہے یا ۳۳ فی صد زیادہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔

شہری آبادی کے بارے میں بھی متعدد جائزے یہ حقیقت سامنے لاتے ہیں کہ گذشتہ ۱۰سال میں حقیقی اُجرت (real wages) کم ہوئی ہے اس میں اضافہ نہیں ہوا جو غربت میں اضافے کا باعث ہے۔

روزگار کے سلسلے میں حقیقت یہ ہے کہ بے روزگاری جتنی زیادہ آج ہے‘ پہلے کبھی نہیں تھی۔ نیز روزگار کی فراہمی کے جو وعدے کیے جا رہے ہیں‘ ان میں صداقت نہیں۔ ایک تو روزگار کی تعریف ہی نہایت ناقص ہے یعنی اگر ایک شخص کو ہفتے میں دس گھنٹے کا کام بھی مل جائے تو وہ برسرِروزگار ہے حالانکہ اتنے گھنٹے کا کام پیٹ بھرنے کے لیے آمدن نہیں پیدا کرسکتا۔ پھر ایک عجیب و غریب قسم برسرِروزگار کی بنائی گئی ہے یعنی unpaid house labourاور ملک میں جن ۲۳ لاکھ افراد کو روزگار فراہم کرنے کا دعویٰ کیا جارہا ہے ان میں سے ۱۱لاکھ سے زیادہ کا تعلق اسی unpaid house labourسے ہے۔

ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہیے؟

تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بے روزگاری کی صورت حال لیبر سروے کے تجزیہ پر مبنی     ڈاکٹر جنیداحمد کے ایک مضمون کے مطابق کچھ یوں بنتی ہے کہ ۲۰۰۲ء کے مقابلے میں ۲۰۰۶ء میں میٹرک تک تعلیم پانے والوں کی بے روزگاری میں ساڑھے دس فی صد اضافہ ہوا ہے‘ جب کہ   اس عرصے میں گریجویشن یا اس سے اُوپر تعلیم حاصل کرنے میں سوا اٹھارہ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ دوسالوں کے دوران ان تعلیم یافتہ بے روزگاروں میں ۲۴ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ ۳۷ لاکھ      بے روزگاروں میں سے ۱۳ لاکھ بے روزگار ایسے ہیں جنھوں نے میٹرک سے زیادہ اور گریجوایشن سے کم تعلیم حاصل کی ہے۔

اُجرت کی کمی‘ قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ‘ سرکاری طور پر فراہم کی جانے والی خدمات کا فقدان یا ان کی ناگفتہ بہ حالت جیسے تعلیم‘ علاج کی سہولت‘ صاف پانی کی فراہمی‘ مکان‘ سڑکوں اور روشنی تک رسائی‘ ان سب کے مجموعی اثرات کا نتیجہ ہے کہ عام آدمی کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہوگیا ہے اورایمان کی کمزوری اور اخلاقی زوال کے اس دور میں مسلمان معاشرے میں ان حالات کے ردعمل میں ایک طرف تخریب کاری‘ چوری‘ ڈاکا اور قتل و غارت گری طوفان کی شکل اختیار کررہے ہیں تو دوسری طرف مایوسی اور بے بسی کی وہ کیفیت رونما ہو رہی ہے جو جسم فروشی اور خودکشی کی طرف لے جا رہی ہے۔ اس صورت حال کی ذمہ داری سب سے زیادہ حکومت اور معاشرے کے متمول طبقات پر آتی ہے۔

حکومت کے کرتادھرتا کتنے ہی بغلیں بجائیں‘ حقیقت یہ ہے کہ یونیسف (UNICEF) کی تازہ ترین رپورٹوں کے مطابق پاکستان اور جنوب ایشیا میں under nourished اور under weight بچوں کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے یعنی پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں یہ شرح ۴۶ فی صد ہے جو دنیا کے اوسط سے تقریباً دگنا ہے۔ پاکستان میں ان بچوں کی تعداد ۸۰لاکھ کے قریب ہے۔ (ڈان، ۳مئی ۲۰۰۶ئ)

تعلیم کے لیے وسائل بڑھانے کے تمام دعووں کے باوجود ورلڈبنک کی تازہ ترین رپورٹ Little Green Book 2006 کے مطابق پاکستان میں تعلیم پر اخراجات قومی پیداوار کے تناسب سے کم ہیں یعنی ۳ئ۲ فی صد‘ جب کہ جنوب ایشیا کا اوسط ۶ئ۳ فی صد اور پوری دنیا کے  کم ترقی یافتہ ممالک کا اوسط ۴ئ۳ فی صد ہے (ڈان، ۱۲ مئی ۲۰۰۶ئ)۔ اور بات صرف تعلیم کے بجٹ کی نہیں اس بجٹ کا استعمال‘ کرپشن‘ اسکولوں کی زبوں حالی‘ اساتذہ کا فقدان اور بے توجہی‘   تعلیمی معیار کی پستی اور شکستہ حالی سب کے سامنے ہے۔

وزیراعظم صاحب دعویٰ کر رہے ہیں کہ پرائمری عمر کے طلبا کا ۸۶ فی صد اسکولوں میں جارہا ہے‘ جب کہ ورلڈ بنک کی یہ رپورٹ کہہ رہی ہے کہ اس عمر کے بچوں کا صرف ۵۰ فی صد تعلیم کی سہولت تک رسائی پارہا ہے یعنی ۵ سے ۹ سال کے بچوں کی موجودہ تعداد ۲کروڑ کا صرف نصف تعلیم حاصل کر رہا ہے اور ان میں سے بھی اسکول چھوڑ جانے والوں (drop outs)کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ایک جائزے کے مطابق پانچویں تک آتے آتے تعداد نصف رہ جاتی ہے۔

کراچی ملک کا امیرترین شہر ہے‘ اس کے ایک حالیہ جائزے کے مطابق شہر کا ۵۵ فی صد کچی آبادیوں پر مشتمل ہے جو زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ (ڈیلی ٹائمز، ۴مئی ۲۰۰۶ئ) اور پورے ملک کے بارے میں جائزے بتا رہے ہیں کہ آبادی کا ۵۹ فی صد آلودہ پانی استعمال کر رہا ہے جو پیٹ کی بیماریوں کا بڑا سبب ہے۔ (ڈیلی ٹائمز، ۳۱ دسمبر ۲۰۰۵ئ)

یہ ہیں عام آدمی کی زندگی کے حالات ___نہ پیٹ بھر کر روٹی میسر ہے‘ نہ صاف پانی‘   نہ گھرکی سہولت حاصل ہے‘ نہ تعلیم اور صحت کی۔ اور حکومت دعوے کر رہی ہے کہ ہم آسمان سے تارے توڑ لائے ہیں اور زمین پر دودھ کی نہریں بہا دی ہیں۔

۴-  معاشی صورت حال کا ایک دوسرا دل خراش پہلو دولت کی ناہمواری‘ معاشرے کی طبقاتی تقسیم‘ اور حکومت کی وہ سوچی سمجھی پالیسی ہے جس کے نتیجے میں پیداوار میں نام نہاد اضافہ‘ بیرونی تجارت کا فروغ اور زرمبادلہ کے ڈھیر اصل ہدف ہیں‘ جب کہ غربت کا خاتمہ‘ روزگار کی فراہمی‘ دولت کی منصفانہ تقسیم اور عدل و انصاف اور ضروریاتِ زندگی پر مبنی آمدنی پالیسی (income policy)کا فقدان ہے۔ سرمایہ داری اپنی بدترین شکل میں پروان چڑھائی جارہی ہے۔ آزاد معیشت‘ منڈی کا نظام‘ نج کاری (privatization) اور de-regulation کے نام پر ایک استحصالی معیشت کو فروغ دیاجا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک اشرافی معیشت (elitist economy)وجود میں آئی ہے جس میں دولت کا ارتکاز ایک محدود طبقے کے ہاتھوں میں ہورہا ہے اور عام افراد غریب سے غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ چند لاکھ گھرانے ہیں جو دولت کے تمام وسائل پر قابض ہیں اور ان کا پُرتعیش طرزِ زندگی اسراف اور تبذیر کی بدترین مثال ہی پیش نہیں کر رہا بلکہ معاشرے میں طبقاتی منافرت پھیلانے کا ذریعہ بن رہا ہے۔ حکومت اور اس کے کارپرداز جس طرزِ زندگی کو فروغ دے رہے ہیں اور جو مثال قوم کے سامنے پیش کر رہے ہیں اور سرکاری وسائل کو جس بے دردی سے عیش و عشرت اور نام و نمود کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے‘ وہ ایک طرف     قومی وسائل کے ضیاع کا باعث ہے تو دوسری طرف قوم کے محروم طبقوں میں نفرت کی آگ سلگا رہا ہے اور معاشرے کو تصادم کی طرف لے جا رہا ہے۔ صرف چند حقائق پیش کیے جا رہے ہیں جن سے  اس خطرناک صورت حال کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

اسٹیٹ بنک نے ملک میں بنک کاری کے نظام اور کارکردگی کے بارے میں جو تازہ ترین اعداد وشمار جاری کیے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جون ۲۰۰۱ء میں ملک کے تمام بنکوں میں کل کھاتہ داروں کی تعداد ۲کروڑ ۷۲ لاکھ ۷۰ہزار تھی جو جون ۲۰۰۵ء میں کم ہوکر ۲کروڑ ۶۹لاکھ ۸۰ہزار رہ گئی۔ اصل کمی ان کھاتہ داروں میں ہوئی ہے جن کے ڈپازٹ ۴۰ ہزار روپے یا اس سے کم تھے اور اس کے برعکس اضافہ ان میں ہوا ہے جن کے ڈپازٹ پانچ لاکھ روپے یا اس سے زیادہ ہیں۔ ایسے افراد کی تعداد ایک لاکھ ۸۳ ہزار سے بڑھ کر ۳ لاکھ ۹۵ ہزار ہوگئی ہے۔ بنک نج کاری کے بعد جس طرح اپنے کھاتہ داروں کا استحصال کر رہے ہیں اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ ۲۰۰۱ء میں کھاتہ داروں کو جو نفع دیا جا رہا تھا اگر اسے افراط زر سے adjustکرکے real returnمتعین کی جائے تو وہ صرف ۶ئ۰ تھی مگر اب ۲۰۰۵ء اور اس کے بعد کے اعداد و شمار کی روشنی میں کھاتہ داروں کی real returnمنفی ہے یعنی ۸ئ۵-۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بنکوں کا spread یعنی جس شرح پر وہ کھاتہ داروں کو نفع/سود دیتے ہیں اور جس شرح سے advance پر سود وصول کرتے ہیں وہ ۷ اور ۵ئ۷ فی صد ہے جو دنیا میں کہیں نہیں۔ اس کا نتیجہ ہے کہ ۲۰۰۶ء کے پہلے تین ماہ میں بنکوں کے نفع میں ۲۰۰۵ء کے پہلے تین ماہ کے نفع پر۵۸ فی صد اضافہ ہوا ہے اور یہ رقم ۱۴ ارب روپے بنتی ہے۔ اس طرح اگر ۲۰۰۵ء میں بنکوں کے نفع کا جائزہ لیا جائے تو ۲۰۰۴ء کے مقابلے میں ۷ئ۹۸ اضافہ ہوا۔ ٹیکس ادا کرنے کے بعد یہ نفع ۵ئ۴۷ ارب روپے تھا۔ واضح رہے کہ بنکوں کے ٹیکس کی شرح کو بھی گذشتہ سالوں میں کم کیا گیا ہے جو ۴۵ فی صد سے کم کرکے ۳۸ فی صد کردیا گیا ہے اور دعویٰ ہے کہ آیندہ سال مزید ۳ فی صد کم کردیا جائے گا۔

بنک تو پھر بھی کچھ ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اسٹاک ایکسچینج میں جو سٹہ کا کاروبار ہو رہا ہے اور جس میں گذشتہ ۶ سال میں کراچی اسٹاک ایکسچینج کا index جو ۱۹۰۰ تک گرگیا تھا‘ بڑھ کر ۱۱۰۰۰ سے تجاوز کرگیا ہے۔ چند بڑے بڑے کھلاڑی ہیں جنھوں نے اربوں روپیہ بنالیا ہے‘ جب کہ ہزاروں عام سرمایہ کار ہیں جوبالکل لٹ گئے ہیں۔ سینیٹ کی مالیاتی کمیٹی کی تجویز تھی جسے سینیٹ نے باقاعدہ حکو مت کو بھیجا تھا کہ اسٹاک ایکسچینج کے کاروبار پر capital gains taxلگایا جائے مگر سرمایہ پرست لابی نے اسے نامنظور کردیا بلکہ اسٹاک ایکسچینج کے لیے جو    نگران ادارہ ہے جب اس نے بڑی مچھلیوں پر گرفت کی ہلکی سی کوشش کی تو اس کے سربراہ کو بیک بینی و دوگوش کوئی وجہ بتائے بغیر برطرف کر دیا گیا۔ اسی طرح زمینوں کی قیمتوں کا مسئلہ ہے جس میں land mafiaنے اربوں روپے کمائے اور کوئی ٹیکس نہیں‘ نگرانی کا کوئی نظام نہیں۔  چھے سال میں زمین کی قیمتیں ۱۰ سے ۲۰ گنا بڑھ گئی ہیں اور ایک عام آدمی کے لیے گھر بنانے اور سرچھپانے کا اہتمام کرنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے اور یہ تمام طبقات ٹیکس کی گرفت سے ہی باہر ہیں۔

قیمتی ترین کاروں کی ریل پیل ہے۔ ہر مہینے ہزاروں کاریں سڑکوں پر آرہی ہے اور ایک سے ایک قیمتی کار درآمد کی جارہی ہے۔ گذشتہ سال صرف کاروں کی درآمد پر ایک ارب ڈالر سے زیادہ صرف ہوا ہے۔ جو کاریں ملک میںبنائی جارہی ہیں ان کے لیے مشینری اور پرزوں کی درآمد کو بھی اس میں شامل کرلیا جائے تو یہ رقم دگنی ہوجاتی ہے۔ اس پر مستزاد اسمگل شدہ گاڑیوںکی مالیت بھی اربوں میں ہے۔ سڑکوں کی جو حالت ہے‘ پٹرول کی درآمد سے جو بوجھ ملک کے زرمبادلہ پر پڑرہا ہے فضا کو خراب کرنے اور آلودگی کے جو تباہ کن اثرات ہورہے ہیں ان سب کا معاشی پالیسی بنانے والوں کو کوئی ادراک نہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بری حالت میں ہے۔ ریل کی ترقی کے لیے کوئی منصوبہ نہیں۔ شرم کا مقام ہے کہ جو ۵ ہزار کلومیٹر ریلوے لائن ۱۹۴۷ء میں تھی ۲۰۰۶ء میں بھی وہی ہے۔ اس میں چند کلومیٹر کا اضافہ نہیں ہوا‘ جب کہ بھارت میں ۳۰ ہزار کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ٹرین سروس عام آدمی کے لیے ٹرانسپورٹ کا موثر اور سستا نظام فراہم کر رہی ہے۔ پھر ان کے کرایوں میں بھی بین الاقوامی قیمتوں کا نام لے کر اضافہ روز مرہ کا معمول ہے مگر انرجی پالیسی اور ٹرانسپورٹ پالیسی کا فقدان ہے اور ایسی جامع پالیسی (comprehensive policy) کا توکوئی تصور ہی نہیں جو مواصلات کے جملہ پہلوؤں‘ وسائل اور کم سے کم لاگت کو سامنے رکھ کر بنائی جائے۔

سرکاری وسائل کو جس بے دردی سے استعمال کیا جا رہا ہے اس کا اندازہ صرف ایوانِ صدر اور ایوانِ وزیراعظم کے اخراجات اور وزرا کی فوج ظفرموج پر کیے جانے والے اخراجات پر    ایک نظر ڈالنے سے کیاجاسکتا ہے۔ صرف ان دو عہدوں پر فائز انسانوں پر روزانہ ۲لاکھ روپے سے زیادہ خرچ ہو رہا ہے‘ جب کہ ایک عام شہری کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں۔ صدر‘ وزیراعظم‘ وزرا‘ ارکان پارلیمنٹ اور سرکاری عہدہ داروں کے صرف اس سال کے بیرونی سفر کے اخراجات کا جو تخمینہ سلطان احمد نے ڈان میں پیش کیا ہے اس نے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ ڈان کا کالم نگار لکھتا ہے کہ صرف پچھلے چھے ماہ میں ۷۰۵ملین ڈالر ان شاہانہ اسفار پر خرچ ہوئے ہیں۔ سرکاری استعمال کے لیے ۶۰ مرسڈیز سال گذشتہ میں منگوائی گئی تھیں‘ اب اسمبلی کے اسپیکر اور سینیٹ کے چیئرمین متمنی ہیں کہ ان کی پرانی مرسڈیز متروک کر دی جائیں‘ سوا سو کروڑ کی نئی مرسڈیز خریدی جائیں۔ اسپیکراسمبلی اپنے لیے ۱۰کروڑ کا مکان بنوانا چاہتے ہیں۔ نئے وزیروں کے لیے ۲۰کروڑ ۵۰ لاکھ روپے Minister's Enclosure میں اضافے کے لیے منظور کیے گئے ہیں۔ اسلام آباد میں بڑے لوگوں کے لیے ۱۱-H میں ایک سوشل کلب بنانے کے لیے ایک ارب روپے کا منصوبہ ہے۔ کراچی میں کراچی پورٹ کے سامنے سمندر میں ایک ۶۲۰فٹ اُونچا فوارہ ۲۲کروڑ ۵۰لاکھ روپے سے بنایا ہے جو کام نہیں کر رہا۔

اور اس قیادت کے ذہنی افلاس اور اخلاقی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ سنٹرل بورڈ آف ریونیو نے اپنے تازہ ترین فرمان کے ذریعے صدر مملکت‘ وزیراعظم اور چاروں گورنروں کے لیے خصوصی احکام جاری کیے ہیں کہ ان کے لیے منگوائے جانے والے غیرملکی سگریٹ اور سگار فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی سے مستثنیٰ ہوں گے۔ (ڈان، ۱۴ مئی ۲۰۰۶ئ)

ایک طرف غربت‘ افلاس‘ بے روزگاری‘ بے چارگی اور دوسری طرف اسراف‘ تبذیر‘ عیاشی اور دولت کی نمایش کا یہ ہولناک تفاوت ہے جو ملک کی معیشت ہی نہیں معاشرے کی تمام اقدار کو گھن کی طرح کھا رہا ہے اور بے چینی اور اضطراب کے اس لاوے کی پرورش کر رہا ہے جو نہ معلوم کب آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑے۔

۵-  بین الاقوامی تجارت کا خسارہ جو اس سال بڑھ کر ۱۰ سے ۱۲ بلین ڈالر کی حدوں کو چھونے والا ہے اور سابقہ سال کے مقابلے میں دگنا ہوگیا ہے اور جس کے نتیجے میں توازن ادایگی بھی اب اتنے خسارے میں جا رہا ہے جو ۴ سے ۵ بلین ڈالر ہوسکتا ہے‘ جو سابقہ سال کے خسارے کے مقابلے میں تین گنا ہے‘ خطرے کی ایک اور گھنٹی ہے۔ بیرونی قرضوں میں کوئی نمایاں کمی نہیں ہوئی اور اندرون ملک قرضوں میں اضافہ ہوا ہے اور بجٹ کا خسارہ بھی تقریباً دگنا ہوگیا ہے۔ اپنے وسائل سے بڑھ کر رہن سہن (living beyond means) کی پالیسی تباہ کن ہے لیکن معاشی ترقی کے نشے میں مست قیادت ان تمام warning signals کو نظرانداز کیے ہوئے ہے اور ملک کو بہت ہی خطرناک صورت حال کی طرف لے جا رہی ہے۔

پانی کی قلت کا مسئلہ بڑا اہم مسئلہ ہے مگر اسے بھی سیاست کی نذر کردیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ گذشتہ ۷سال سے آپ حکمران ہیں۔ اس سلسلے میں آپ نے کیا اقدام کیے؟ ترجیحات کے تعین اور قومی اتفاق راے پیدا کرنے کے لیے کیا مساعی کی گئیں؟ پانی کے صحیح استعمال کے طریقوں کو رائج کرنے کے لیے کیا کیاگیا؟ پانی کا مسئلہ آج آپ کے علم میں آیا ہے؟ قیمتوں کے سلسلے میں بھی جنرل مشرف صاحب نے ۱۶مئی ۲۰۰۶ء کو ایک خطاب میں فرمایا ہے کہ کھانے کی اشیا کی قیمتوں میں ۵۰ فی صد کمی کر دی جائے گی۔ (ڈیلی ٹائمز، ۱۷ مئی ۲۰۰۶ئ)

سبحان اللہ! گویا صرف آپ کے حکم کی کمی تھی۔ لیکن اس فرمان کے جاری فرمانے میں اتنی تاخیر کیوں کی جارہی ہے؟

چینی کا بحران آج بھی موجود ہے اور اب جو بحث اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی اور وزیرتجارت کے درمیان اخبارات میں ہورہی ہے‘ اس نے اس حکومت کے سارے کرداروں کو بالکل بے نقاب کردیا ہے۔ کس طرح ذاتی منافع کے لیے سرکاری پالیسیوں کو تبدیل کیا گیا‘ بنکوں کو استعمال کیا گیا‘ درآمد کی جانے والی چینی کو بھی سرکار میں بیٹھے ہوئے مل مالکوں نے اپنے لیے    نفع اندوزی کا ذریعہ بنایا‘نیب نے مداخلت کی تو اس کو کان پکڑ کر باہر کردیا گیا۔ آج بھی چینی ۳۷روپے کلو مل رہی ہے۔ پٹرول کی قیمتوں کا معاملہ بھی ایک اسیکنڈل سے کم نہیں۔ اس حکومت کے دور میں ۴۵ بار اس میں اضافہ کیا گیا ہے اور صارف کو آج اس قیمت سے تین گنا زیادہ قیمت دینا پڑ رہی ہے جو ۱۹۹۹ء میں دے رہا تھا اور ستم یہ ہے کہ قیمت میں ۴۲ فی صد حصہ سرکاری ٹیکسوں کا ہے۔

پانچ سال پہلے اسی حکومت کی کابینہ نے طے کیا تھا کہ قیمتوں کا تعین تیل اور گیس کی اتھارٹی (OGRA) کرے گی مگر اس پر عمل درآمد نہ کیا گیا۔ پٹرول کی قیمتیں غیرملکی کمپنیاں مقرر کرتی رہیں اور من مانی کرتی رہیں جن میں سیلزٹیکس اور ایکسائز پر بھی اپنا کمیشن لینا شامل ہے   جس مد میں ساڑھے چار ارب روپے پچھلے چند سالوں میں ان کمپنیوںنے عوام سے وصول کیے۔ جب اس راز سے پردہ اُٹھا تو کمپنیوں نے یہ رقم واپس کرنے کے بجاے مزید سرمایہ کاری نہ کرنے کی دھمکیوں سے بلیک میل کرنا شروع کردیا۔ نیب نے نوٹس لیا تو نیب کے پیچھے پڑ گئے اور خطرہ ہے کہ جس طرح چینی کے معاملے میں نیب کی انکوائری کو دفن کر دیا گیا‘ اس طرح اس معاملے کو بھی ختم کردیا جائے گا۔

۶- ایک اور اہم مسئلہ صوبوں کے ساتھ سوتیلی ماں سے بھی بدترسلوک ہے۔ مرکز نے صوبوں کے وسائل پر قبضہ کرلیا ہے۔ سارے ٹیکس مرکز لگا رہا ہے اور جو ٹیکس ہمیشہ سے صوبوں کا حق تھے یعنی سیلزٹیکس‘ اسی طرح صوبے کے قدرتی وسائل کی رائلٹی وغیرہ‘ یہ سب اب مرکز کی گرفت میں ہیں اور ۱۹۷۳ء کے دستور کے تحت تقسیم کا جو نظام تجویز کیا گیا ہے اس پر عمل نہیں ہو رہا حتیٰ کہ   این ایف سی ایوارڈ بھی معرض التوا میں پڑا ہوا ہے۔ ٹیکس جمع کرنے پر مرکز جو کمیشن لیتا ہے وہ     سی بی آر کے اصل اخراجات سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ مرکز نے صوبوں کو نقد ترقیاتی قرضے دیے ہیںوہ بالعموم رعایتی شرح سود پر باہر سے حاصل کیے گئے ہیں مگر مرکز صوبوں سے ۱۴ سے ۱۷ فی صد سالانہ سود وصول کر رہا ہے اور یہ قرضے ۲۰۰ بلین روپے سے متجاوز ہیں۔ صوبے مطالبہ کررہے ہیں کہ ہم سے قرض واپس لے لیں اس لیے کہ مارکیٹ سے وہ اس سے نصف شرح سود پر قرض لے کر یہ رقم واپس کرسکتے ہیں لیکن ظلم ہے کہ ان کو قرض واپس کرنے کا حق بھی نہیں دیا جا رہا۔ این ایف سی کا جو من مانا (arbitrary) ایوارڈ صدر نے دیا ہے اس میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ صوبوں کو     ۴۴ ارب روپے زیادہ مل رہے ہیں لیکن اس کی سزا یہ دی جارہی ہے کہ سرکاری شعبے کے ترقیاتی پروگرام سے ملنے والی اس سے ۱۲ ارب زیادہ رقم یعنی ۵۶ ارب سے ان کو محروم کیا جا رہا ہے۔


خرابی کی جڑ دو چیزیں ہیں: ایک شخصی حکومت‘ پارلیمنٹ کی بے بسی‘ جمہوریت کا فقدان  اور جواب دہی کا عدم وجود اور دوسرا معاشی پالیسی کے بنیادی نمونے (paradigm) کا بگاڑ‘ وژن کا افلاس اور حقائق سے بے تعلقی۔

دوسرے تمام معاملات کی طرح معاشی حالات کی اصلاح کا دارومدار بھی حقیقی جمہوری‘ عوام کی خادم اور عوام کے سامنے جواب دہ حکومت کے قیام پر ہے۔ ایسی حکومت کے ذریعے معاشی ترقی کے ایک بالکل دوسرے ماڈل کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے جو پاکستان کو سرمایہ دارانہ نظام کا دم چھلہ نہ بنائے بلکہ خودانحصاری کی بنیاد پر عوام کی فلاح و بہبود اور انصاف اور عدل اجتماعی پر مبنی ایک ہمہ جہتی معاشی پالیسی تشکیل دے تاکہ معاشی ترقی اور استحکام کے ساتھ تمام انسانوں کو باعزت زندگی گزارنے کا موقع ملے‘ اور ملک کے تمام باشندوں اور تمام علاقوں کے درمیان دولت کی تقسیم منصفانہ ہو اور وسائل حیات سب کے لیے یکساں طور پر اور وافر مقدار میں میسر ہوں۔ یہ اسلام کا تقاضا ہے‘ اور یہی ایک مہذب معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے۔اس انقلابی تبدیلی کے بغیر ہم اس دلدل سے نہیں نکل سکتے جس میں سیاسی طالع آزمائوں اور سرمایہ داری کے اسیر معاشی کارپردازوں نے اس ملک کو پھنسا دیا ہے۔ بقول اقبال     ؎

کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟

دنیا ہے تری منتظر روزِ مکافات

بسم اللہ الرحمن الرحیم

’تہذیبی تصادم: حقیقت یا واہمہ؟ آج کی عالمی سیاست کا ایک نہایت اہم موضوع ہے۔ اس پر نظری بحث اور سیاسی بساط پر عملی صف بندی‘ دونوں کی روشنی میں ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ تہذیبی تصادم اب ایک واہمہ نہیں‘ بلکہ ایک حقیقت کا روپ دھارتا جا رہاہے۔البتہ اس میں ذرا بھی کلام نہیں کہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو غیر فطری‘ غیر ضروری‘ نامطلوب اور تباہ کن ہے‘  لیکن اب اس سے مفر ممکن نہیں۔ اس لیے جہاں اصل چیلنج یہ ہے کہ اس صورتِ حال کا مقابلہ کیسے کیا جائے‘ اور اس کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی جائے‘ وہاں یہ تسلیم کرنا بھی ضروری ہے کہ یہ تکلیف دہ اور ناخوش گوار حقیقت موجود ہے اور محض آنکھیں بند کرلینے سے زمینی حقائق پادر ہوا نہیں ہوسکتے۔

تہذیب اور تہذیبی تصادم کا مفہوم کیا ہے؟ انسان کی مدنی زندگی اور اجتماعی زندگی کے حوالے سے تہذیب ایک فطری اور بنیادی ضرورت ہے۔ اس دنیا میں ایک بچہ دو انسانوں کے درمیان ایک تعلق سے وجود میں آتا ہے۔ ماں کی گود کے بغیر وہ پروان نہیں چڑھ سکتا‘ اس کی نشوونما کے لیے خاندان ‘ معاشرہ اور مدرسہ‘ سب کی ضرورت ہے۔ مدنیت انسان کی ضرورت ہے اور تہذیب اس کی اساس ہے۔ سویلائزیشن (تہذیب) کو آپ لفظی اعتبار سے دیکھیں یا تاریخ کے حوالے سے اس کا مطالعہ کریں‘ اس کا  تعلق اجتماعی زندگی سے ہے۔ عربی میں اس کے لیے مدنیت‘ حضارۃ اورثقافت جیسے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔

انگریزی زبان میں بھی civil‘city‘ civicیہ سب civilization کے مصدر ہیں۔ یہ ایسا گہوارہ ہے جس میں انسانیت پروان چڑھتی ہے‘ انسان کا تشخص بھی قائم ہوتا ہے اور ااس کے لیے ترقی کی راہیں بھی استوار ہوتی ہیں۔ انسانوں کے درمیان خیالات‘ اقدار‘ ادارے‘ تعلقات‘ نظام‘ یہ سب اس کا نتیجہ ہیں۔ ثقافت (کلچر) اور تہذیب (سویلائزیشن) کی ا صطلاحات عمرانیات (سوشیالوجی) تاریخ اور فلسفے کے مباحث میں استعمال ہوتی ہیں۔ البتہ ان کی تکنیکی تعریف میں خاصا اختلاف پایا جاتا ہے۔ نیز ان دونوں کو ایک دوسرے کے مترادف کے طورپر بھی استعمال کیا گیا ہے۔ عقیدے‘ اقدار اور اصول کی بنیادی قدریں جو کسی انسانی گروہ کی مشترک اساس ہوں اور جن کی بنیاد پر کسی قوم یا معاشرے کو ایک اجتماعی تشخص حاصل ہو‘ وہ کلچرہے۔ لیکن کلچر‘ عقیدہ‘ فکر‘ عادات اور اخلاق کے ساتھ ساتھ سیاسی‘ اجتماعی‘ معاشرتی اداروںحتیٰ کہ بین الاقوامی میدانوں میں بھی اپنا اظہار کرتا ہے۔ اس کے نتیجے کے طور پر مختلف فنون وجود پذیر ہوتے ہیں۔ آرٹ کی متنوع صورتیں سامنے آتی ہیں۔فنِ تعمیر رونما ہوتا ہے۔ معاشی ادارے تشکیل پاتے اور سیاسی نظام بنتے ہیں۔ اس مجموعی تشخص کو تہذیب (سویلائزیشن) کہا جاتا ہے۔ ایک کو علوم عمرانی کی اصطلاح میں ذہنی تشکیل (mentafacts)کہا جاتا ہے اور دوسرے کو مادی اور سماجی مظاہر (artefacts)‘ لیکن یہ دونوں ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔

ستم یہ ہے کہ آج تہذیبوں کے تصادم کو دنیا کا مقدر بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ اصل تصادم تہذیب اور وحشت‘ خیر اورشر‘ نیکی اور بدی اور ظلم و ناانصافی کے درمیان ہے۔ تہذیبوں کے درمیان تو تصادم ہی ضروری نہیں ہے۔ تہذیبوں میں تنوع‘ فکرونظر کا اختلاف‘ مختلف علاقوں میں اور مختلف زمانوں کے دوران ایک سے زیادہ تہذیبوں ا ور تمدنوں کا وجود فطری اور ایک تاریخی حقیقت ہے۔ نیز ان کے درمیان ربط و ارتباط‘ مکالمہ اور اتصال‘ تعاون اور مسابقت بھی ایک فطری امر ہے۔ کچھ حالات میں یہ مقابلہ اور تصادم کی شکل بھی اختیار کرسکتا ہے اور تاریخ میں کرتا رہا ہے لیکن محض تہذیبوں کے اختلاف کو لازماً تصادم پر منتج ہونے کے تصور کو ایک ناگزیر تاریخی حقیقت بنانا استعماری ذہنیت کا غماز ہے۔ ہر تہذیبی اختلاف کو تصادم بنانا اور اختلاف کے نتیجے میں تصادم کو انسانیت کا مقدر ٹھیرانا خود تہذیب کے تصور کی نفی ہے۔

یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ گو حق و باطل کی کش مکش تاریخ کی سب سے بڑی حقیقت ہے اور حق کا غلبہ فطرت کا تقاضا اور انسانیت کی ضرورت ہے‘ لیکن یہ تصور صحیح نہیں کہ حق کا یہ غلبہ صرف جنگ اور خونی تصادم کے ذریعے بروے کار آسکتا ہے۔ حق انسان کی فطرت سے مطابقت رکھتا ہے اور حق کی قبولیت کا اصل محل انسان کا دل‘ اس کا ارادہ اور ایمان ہے اور ایمان جبر سے نہیں اختیار اور دل کی گہرائیوں سے قبولیت کا دوسرا نام ہے۔ وہ اپنی صداقت کو دلیل کی قوت‘ فطرت سے مطابقت‘ اور انسانی زندگی کو عدل و انصاف اور توازن و ہم آہنگی سے مالامال کرنے کی صلاحیت سے منواتا ہے۔ یہی وہ بات ہے جسے لَا ٓ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قف قَدْ تَّـبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْـغَیِّ (البقرہ ۲:۲۵۶)‘کے قرآنی اصول میں بیان کیا گیا ہے۔ بلاشبہہ جب حق کو انسانوں تک پہنچنے سے روکا جائے اور ظلم اور عُدوان کی دیواریں حق اور انسانیت کے درمیان کھڑی کر دی جائیں تو پھر ان موانع کو رفع کرنے کے لیے قوت کا استعمال بھی ناگزیر ہوجاتا ہے۔اس وقت مغربی تہذیب کے علَم بردار اور خصوصیت سے امریکا کی حکمران قیادت تہذیبوں کے تصادم کے نام پر انسانیت پر ایک مخصوص تہذیب و تمدن کو مسلط کرنے کی جنگ کر رہی ہے اور دوسری تہذیبوں کے خلاف خاک و خون کی ہولی کھیل کھیلتے ہوئے ٹیکنولوجیکل بالادستی کا فائدہ اُٹھا کر انھیں صفحۂ ہستی سے مٹانا چاہتی ہے یا یہ کہ وہ کم از کم وہ مغرب کی غلام بن کر رہیں۔یہ ہے اصل نقشۂ جنگ جس کا بھرپور مقابلہ کرنے کے لیے اس کی حقیقی نوعیت کو سمجھنا ضروری ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو جب اپنا خلیفہ بنایا تو فرشتوں نے اپنے اضطراب کا اظہار اس بنیاد پر کیا کہ یہ فساد پھیلائے گا اور خون خرابا کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اِنِّیْ اَعْلَمُ مَالَا تَعْلَمُوْنَ، (جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔) دراصل خلافت کے معنی ہی آزادی‘ اختیار اور انتخاب کے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ خیر اور شر تمھارے سامنے آئے گا‘ کچھ خیر کو قبول کریں گے‘ کچھ شر کو۔ عقیدے اور عمل کا یہ اختلاف انسانی زندگی کی ایک حقیقت کے طور پر باقی رہے گا اور اپنے اس انتخاب اور عمل کے بارے میں سارے انسان بالآخر آخرت میں جواب دہ ہوں گے۔ دنیا میں بھی اس کے کچھ نتائج ضرور رونما ہوں گے۔ سورۂ فاتحہ میں انسانیت کے دو دھاروں کاذکر ہے۔ ایک وہ جن پر اللہ کا انعام ہے‘ اور دوسرا وہ جو مغضوب اور غلط کار ہے۔ گویا وہ سب ایک جیسے نہیں ہوں گے۔ لہٰذا یہ تنوع اور یہ اختلاف کائنات کی بنیادی حقیقت ہے اور پوری تاریخ انسانی اس سے بھری پڑی ہے۔ یونانی فکر میں یہ تصور موجود ہے کہ ہم مہذب ہیں اور باقی سب وحشی۔ یہی چیز رومی سلطنت میں رہی۔ عیسائیت نے الہامی روایت سے انحراف کرتے ہوئے اس خون آشام یونانی اور رومی تصور کو قرونِ وسطیٰ میں عملاً قبول کرلیا جس کے نتیجے میں نہ ختم ہونے والی جنگیں اور مذہبی انتہاپسندی وجود میں آئی۔

آج کی جدید مغربی تہذیب بھی اسی مریضانہ سوچ کی وارث ہے اور اس کا اظہار امریکا اور برطانیہ کی سیاسی قیادت اور فکری رہنمائی کرنے والوں کے ان بیانات سے کھل کر دنیا کے سامنے آگیا ہے جن کا اس کے سوا کوئی مدعا نہیں ہوسکتا کہ صرف مغرب کی اقوام ہی مہذب اور تہذیب کی علم بردار ہیں اور دوسرے سب گویا تہذیب ہی کے دشمن ہیں۔ حالانکہ یورپ کے تاریخی کردار اور آج کے مغرب کے اس سامراجی تہذیبی ذہن کے مقابلے میں دنیا کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ مصر ‘ شام ‘ چین ‘ ہندستان یا افریقہ کے ممالک‘ ہر جگہ تہذیبی تنوع اور اختلاف ایک حقیقت رہی ہے۔ مگر اختلاف کے نتیجے میں تہذیبی تصادم یا ٹکرائو لازماً انسانیت کا مقدر نہیں ہوا اور نہ یہ صورت رونما ہوئی کہ ایک دوسرے کو لازماً محکوم بنانے اور نیست و نابود کرنے کے لیے قوت آزمائی کی جائے۔ مسلمان مفکرین نے پوری دنیا کو دارالدعوۃ قرار دیا اور دارالسلام اور دارالحرب کے ساتھ دارالامن اور دارالعھد کے تصور سے بین الاقوامی قانون کو روشناس کیا‘ بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہے بین الاقوامی قانون کی بنیاد ہی مسلمانوں نے رکھی جس میں صلح‘ امن اور جنگ سب کے اصول اور ضوابط کو مرتب کیا اور بقاے باہمی اور انصاف اور اصول کی بنیاد پر قوموں کے درمیان معاملہ کرنے کی بنیاد رکھی۔

تاریخی پس منظر

مہذب دنیا میں عدمِ برداشت (intolerance) بھی خالص مغربی تصور ہے۔ یہ بات میں نہیں کہہ رہا‘ بلکہ مغربی تہذیب پر ٹائن بی‘ وِل ڈوراند حتیٰ کہ برٹرینڈ رسل کی تحریریں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ یہ عدمِ برداشت یورپ کا خاصّا رہا ہے۔ وہ آزادی کے سارے دعووں کے باوجود‘ بنیادی امور کے سلسلے میں اختلاف کو گوارا کرنے اور اسے معتبر (authentic) ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ پھر یہی چیز سیاسی اور تہذیبی میدان میں رونما ہوئی ہے‘ جس کا پہلا بڑا مظہر اندھی بہری استعماریت (امپیریلزم) کی شکل میں چودھویں صدی سے لے کر بیسویں صدی کے نصف تک دنیا کے سامنے آیا‘ خود یورپ کے اندر فاشزم کا فروغ اور غلبہ بھی اسی ذہن کاثمرہ تھا اور پھر اس کا حالیہ اظہار گذشتہ تقریباً ۲۰‘ ۲۵ سال سے سامنے آرہا ہے اور اکیسویں صدی میں مغربی تہذیب بھی اسی تصور کی بنا پر دنیا کو تباہی اور خون آشامی کی آماجگاہ بنانے کی طرف بڑھ رہی ہے۔

فلسفہ تاریخ کے اہم مباحث میں انسانی تاریخ میں پائی جانے والی تہذیبوں کے متعدد مطالعے سامنے آئے ہیں‘ ان میں آرنلڈ ٹائن بی نے ۲۶ تہذیبوں کا اور پروفیسر سوروکن نے ۳۶تہذیبوں کا تقابلی مطالعہ کیاہے۔ ان کے مشاہدے کے مطابق بھی ہرتہذیب کا بنیادی تصور کسی نہ کسی حیثیت سے خالق کائنات سے کسی نہ کسی نوعیت کے تعلق کی بنیاد پر تشکیل پاتا تھا۔ خواہ وہ توحید کی بنیاد پر ہو یا شرک کی بنیاد پر‘ البتہ آفاقیت‘ مابعد الطبیعیاتی قوت سے رشتہ اور تعلق‘ کائنات کی روحانی حقیقت کا اعتراف کسی نہ کسی شکل میں ہر تہذیب میں موجود تھا۔ نیز خالق سے تعلق اور اس کائنات کا ایک اخلاقی وجود اور اس دنیا پر علاقائی نہیں بلکہ کائناتی اور پھر اخروی زندگی کا تصور کسی نہ کسی شکل میں ہر تہذیب میں موجود رہا ہے۔ انسانی تاریخ اور تہذیب میں بگاڑ ضرور ہوا ہے‘ لیکن اسے تخت یا تختے کی بنیاد نہیں بنایاگیا۔ یہ صرف جدید مغربی تہذیب ہے‘ جس نے خالق سے اس تعلق کو کاٹ دیا ہے۔ الہامی روایت اور مذہب کی رہنمائی کو ناکارہ اور غیرضروری قرار دیا ہے۔ اس کی جگہ مختلف عقلی تصورات اور مفادات کو جوڑتوڑ کر ایک نظامِ فکر کی شکل میں ڈھال دیا ہے‘ جس میں تین تصورات مرکزی حیثیت رکھتے ہیں یعنی:عقل پرستی (rationalism)‘ فردیت (indiviualism) اور انسان پرستی (humanism )۔ انھی کے مظاہر نیشنلزم‘ جمہوریت‘ سیکولرازم اور کمیونزم کے طور پر وجود میں آئے۔

یہ وہ تہذیب ہے جس نے رہنما اصول کی حیثیت سے دنیا پرستی‘ مادیت اور انسانی    عقل و تجربے کو مرکزی حیثیت دی۔ پھر اس پر ظلم یہ کیا کہ اسی کا نام تہذیب رکھا گویا کہ باقی    سب غیرمہذب تھے اور ہیں۔ امپیریلزم کی اس پوری تاریخ میں خواہ وہ فرانسیسی ہو یا برطانوی‘  جرمن سامراج ہویا ولندیزی‘ یا پھر ہسپانوی سامراج‘ یا اس کی تازہ ترین شکل امریکی استعمار‘    اس میں دوبڑے کلیدی تصورات دکھائی دیتے ہیں۔ ایک تہذیب سکھانے کا مشن (civilizing mission) اور دوسرا گوری نسل کا بوجھ (white man's burden)۔ گویا روے زمین پر صرف یہی تہذیب ہے‘ باقی ساری دنیا جہالت اور تاریکی میں ہے۔ اسی تہذیب کا غلبہ اور اسی کے نقشِ قدم پر سب کا چلنا تہذیب کی نشانی ہے‘ اور اس کو فروغ دینے کے لیے سامراجی طاقت اور فوجی قوت کا استعمال ناگزیر ہے‘ بلکہ غلبے کا اصل ذریعہ۔ ساڑھے تین چار سو سال انسانیت نے ظلمت کا جو دور دیکھا ہے‘ وہ اسی ذہنیت کی پیداوار تھا۔

بیسیویں صدی میں سامراجی قوتوں کا زوال ہوا۔ حالانکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ ہمارے اقتدار کا  سورج کبھی غروب نہیں ہوگا۔ لیکن‘ فوجی قوت کے باوجود دوعالمی جنگوں اور اندرونی خلفشار‘ عدم مساوات‘ ناانصافی‘ ظلم اور اداروں کے انتشار کی وجہ سے ان کا زوال شروع ہوا۔ ۱۹۴۵ء اور ۱۹۸۰ء کے درمیان تقریباً ۱۵۰ آزاد ملک دنیا کے سیاسی نقشے پر اُ بھرے۔ جن میں مسلم ممالک کی تعداد ۵۷ہے۔ یہ تعداد اقوام متحدہ کے ارکان کی کل تعداد ۱۹۲ کے ایک تہائی سے کچھ ہی کم ہے۔

برطانیہ کبھی دنیا کے ایک چوتھائی حصے پر حکمران تھا‘ لیکن اس کے باوجود وہ نہ صرف اپنے آپ کو برطانیہ عظمیٰ کہتا تھا بلکہ یہ دعویٰ بھی کرتا تھا کہ دنیا کے سارے سمندر اس کے زیراقتدار ہیں۔آج اس کے جغرافیے پر نگاہ ڈالیں تو وہ زمین کا چھوٹا سا ٹکڑا ہے جو چند جزیروں پر مشتمل ہے۔ وہ سورج جو کبھی اس پر غروب نہیں ہوتا تھا‘ نہ صرف غروب ہوا بلکہ آج عالم یہ ہے کہ جسے اب برطانیہ عظمیٰ کہا جاتا ہے‘ وہاں ہفتوں سورج طلوع ہی نہیں ہوتا۔ برطانیہ اب سکڑ کر ایک چھوٹا سا ملک بن کے رہ گیا ہے۔ گو غرورو تکبر اب بھی اس کا شعار ہے۔ رسّی جل گئی مگر بل نہ گیا۔

اس کے بعد دو سوپر طاقتوں امریکا اور روس کی کش مکش شروع ہوئی۔ یہ کش مکش بالآخر ۱۹۸۹ء میں روس کے انتشار و انہدام اور امریکا کی واحد سوپرپاور رہ جانے کی شکل میں منتج ہوئی۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے استعماریت کا نیا دور شرو ع ہوتا ہے۔ یہی وہ دور ہے جس کی طرف توجہ مبذول کرانا مقصود ہے۔ اس دور کو تہذیبوں کے تصادم کا دور کہا جا رہا ہے۔ اس میں جن لوگوں نے بہت کام کیا ہے‘ ان میں سے تین‘چار اہم شخصیات کا ذکر کروں گا۔

ابھی افغانستان میں جہاد جاری تھا اور روس کا زوال نہیں ہواتھا کہ ۱۹۸۵ء میں امریکا کے مشہور رسالے فارن افیرز میں امریکا کے سابق صدر رچرڈنکسن نے ایک مضمون میں یہ بات کہی کہ امریکا اور روس افغانستان کے اندر لڑ رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ کیا ہو گا‘ میں نہیں کہہ سکتا‘ لیکن مجھے صاف نظر آرہا ہے کہ امریکا اور روس کا مفاد آپس میں لڑنے میں نہیں ہے۔ اصل خطرہ کچھ اور ہے‘ اس کا شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور وہ ہے اسلامی بنیاد پرستی کا خطرہ۔

اس وقت تک صرف تین چار چیزیں ہوئی تھیں‘ جن میں ایک ۵۷ مسلم ممالک کا آزاد  ہونا تھا مگر وہاں بھی حکمرانی انھی قوتوں کے ہاتھوں میں تھی جو کسی نہ کسی شکل میں خود امریکا اور روس کی تابع تھیں۔ مسلم ممالک کی معیشت پر امریکا‘ یورپ اور کثیرالقومی اداروں کا قبضہ تھا۔ دوسرا یہ کہ ۱۹۶۹ء میں مسجد الاقصیٰ کو آگ لگانے کے نتیجے میں مسلمانوں نے اسلامی ممالک کی تنظیم (OIC) قائم کی جو خواہ کتنی ہی لولی لنگڑی ہو لیکن اتحاد اسلامی کی علامت بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اسی طرح ۱۹۷۳ء میں پہلی مرتبہ مسلمانوں نے اپنی تیل کی قوت کو ایک سیاسی ہتھیار کے طورپر استعمال کرنے کی کوشش کی۔ پھر فروری ۱۹۷۹ء میں امام خمینی کی قیادت میں ایران کے انقلاب نے ’اسلامی خطرے‘ کو ایک عالمی ہوّا بنادیا۔

دراصل دوسری جنگ کے بعد امریکا اور مغرب کی استعماری طاقتوں کی حکمت عملی ہی یہ تھی کہ آزادی کے باوجود مسلمان اور عرب ممالک کو عالمی‘ سیاسی اور معاشی اداروں کے ساتھ شاہِ ایران اور اسرائیل جیسے عناصر کے ذریعے قابو میں رکھیں۔ ایران کے انقلاب اور افغانستان میں جہادی قوت کی کامیابی نے نقشہ بدل دیا۔ اکتوبر ۱۹۷۳ء میں رمضان کی جنگ میں یہ بات سامنے آئی کہ مسلمان اور عربوں کی تمام تر کمزوریوں کے باوجود اسرائیل کو چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت امریکا اگر بلیک میل ہو کر اسرائیل کو بڑے پیمانے پر ملٹری امداد فراہم نہ کرتا تو اسرائیل نے یہ کہہ دیا تھا کہ ہم ایٹم بم استعمال کریں گے۔ یہ ہے وہ پس منظر جس کی بنا پر مغرب کے یہ مفکر اور حکمت کار (strategists) ایک نئے دشمن کی تلاش میں تھے کہ جس کا ہوّا دکھا کر اور اپنے شہریوں کو خوف زدہ کر کے وہ اپنے مذموم مقاصد حاصل کرسکیں۔ اور وہ دشمن انھیں اسلام اور مسلم دنیا کی شکل میں نظرآیا۔ اسی لیے امریکا کے سابق صدر اور سیاسی دانش ور نکسن نے ۱۹۸۵ء میں روس کو‘ اس کی زیرقبضہ مسلم آبادی کے بارے میں خبردار ضرور کر دیا تھا کہ سارا وسطی ایشیا‘ افغانستان اور مسلم دنیا‘  یہ تمھارے لیے خطرہ ہیں‘ امریکا کے لیے نہیں‘ اس لیے آئو! ہم تم مل کر کوئی راستہ نکالیں۔

بہرحال کوئی مشترکہ راستہ تو نہیں نکلا‘ لیکن جب ۱۹۸۸ء میں روسی حکمران میخایل گورباچوف نے ذہنی اور سیاسی شکست تسلیم کرلی اور یہ کہا کہ دوسال کے اندر ہم افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلالیں گے تو یہ وہ زمانہ ہے جب امریکا اور یورپی ممالک نے اپنی اصل حکمت عملی بروے کار لانا شروع کی۔ وہ حکمتِ عملی کیا تھی؟ یہ کہ اسلام اور مسلمان ہمارے اصل دشمن ہیں ۔ سب سے پہلے ناٹو کے سیکرٹری جنرل نے یہ بات کہی تھی کہ سرخ خطرہ ٹل گیا ہے‘ لیکن سبز خطرہ  رونما ہوگیا ہے۔ اس کے بعد ایک بڑے اہم یہودی مفکر برنارڈ لیوس نے‘ جو لندن یونی ورسٹی میں  پروفیسر رہا اور پھر ۱۹۸۰ء میں امریکا منتقل ہوگیا‘ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مشیر اور امریکا کے پالیسی ساز اور پوری اسرائیلی لابی کے دماغ کی حیثیت سے کام کرتا ہے‘ اس نے ۱۹۹۰ء میں‘ جب روسی فوجیں افغانستان سے واپس ہوئیں‘ امریکا کے اہم رسالے اٹلانٹک منتھلی (Atlantic Monthly) میں اپنے مضمون میں پہلی بار clash of civilizations کے الفاظ استعمال کیے۔ وہ اس مضمون میں کہتا ہے:

اب یہ بات واضح ہوجانا چاہیے کہ ہم مسائل‘ پالیسیوں اور ان کو لے کر چلنے والی حکومتوں کی سطح بلند ہونے کی کیفیت اور تحریک کا سامنا کررہے ہیں۔ یہ تہذیبوں کے تصادم سے کم بات نہیں ہے۔ غالباً یہ ہمارے یہود مسیحی ماضی‘ ہمارے سیکولر حال اور  ان دونوں کی عالم گیر توسیع کے خلاف ایک قدیم دشمن کا شاید غیرعقلی لیکن یقینا   تاریخی ردعمل ہے۔ (جیفرسن لیکچر ۱۹۹۰ئ‘ برنارڈ لیوس The Rage of Islam ، اٹلانٹک منتھلی‘ ستمبر ۱۹۹۰ئ)

اسی مضمون میں جو پہلے جیفرسن لیکچر کی شکل میں دیا گیا اور پھر اٹلانٹک میں شائع ہوا اور پھر کتابی شکل میں بھی آگیا‘ برنارڈ لیوس نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ:

اسپین میں مسلمانوںکی پہلی آمد سے لے کر ویانا میں دوسرے ترک محاصرے تک ایک ہزار سال کے دوران یورپ مسلسل اسلام کے خطرے کی زد میں رہا ہے۔

مقابلے کی جن دو قوتوں کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ نام نہاد اسلامی بنیاد پرستی (islamic fundamentalism) ایک طرف اور سیکولر‘ سرمایہ دارانہ جمہوریت دوسری طرف ہیں اور موخرالذکر کو جدیدیت کی علَم بردار اور یہود مسیحی (Judo-Christian) تہذیب کی وارث کی حیثیت سے پیش کیا جا رہا ہے۔

یہ تھا دراصل وہ پہلا پتھر جو پھینکا گیا۔ پھر اس نکتے کو سیموئیل ہن ٹنگٹن نے آگے بڑھایا۔ یہ ایک اور یہودی ہے جو ہارورڈ یونی ورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کا پروفیسر ہے۔ اس نے ۱۹۹۳ء میں مشہور رسالے فارن افیرز میں ایک مضمون لکھا: The Clash of Civilizations۔  اس پر بحث کا آغاز ہوا‘ درجنوں مضامین لکھے گئے اور کتابوں کا بھی ایک طوفان آگیا۔ اپنی    پوری بحث کو ہن ٹنگٹن نے پوری شرح و بسط کے ساتھ ۱۹۹۶ء میں اپنی کتاب Clash of Civilizations and Remaking of New World Order کی شکل میں پیش کر دیا ہے۔ اس وقت سے اب تک یہ کتاب تہذیبوں کے تصادم کے نظریے کی دانش ورانہ بائبل بن  گئی ہے۔ اس کے بعد بیسیوں نہیں‘ سیکڑوں کی تعداد میں کتابیں‘ تقاریر‘ اسٹرے ٹیجک پیپرز اور  دانش وروں اور ماہرین (تھنک ٹینکس) کی رپورٹیں اس موضوع پرآئی ہیں۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسلمان حکمرانوں اور مسلما ن دانش وروں کو اندازہ تک نہیں کہ ان ۲۵ سالوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کتنا کام ہوا ہے اور کس طرح ذہنوں کو علمی مباحث ‘میڈیا اور سیاسی چالوں کے ذریعے ایک عالمی تصادم کے لیے  تیار کیا گیا ہے۔ یہ ہے وہ پس منظر جس میں ناین الیون رونما ہوا اور اس کے بعد جو کھیل کھیلا جا رہا ہے وہ کوئی اتفاقی چیز نہیں ہے بلکہ وہ اس پورے منصوبے کا ایک حصہ ہے۔

اس وقت جو نقشۂ جنگ ہے اس میں ایک طرف مسلم دنیا ہے جو ذہنی طورپر انتشار کا شکار ہے‘ سیاسی طور پر منقسم ہے‘ معاشی طور پر خود اپنے وسائل پر قدرت نہیں رکھتی‘ عسکری طور پر نہایت کمزور ہے۔ دوسری طرف چونکہ اسلام ایک تہذیبی اصول‘ ایک تحریک اور ایک متبادل قوت کی حیثیت سے ابھر رہا ہے اور اپنے اندر یہ طاقت رکھتا ہے کہ وہ ایک عالمی تہذیب کی بنیاد بن سکے‘ اس لیے اسے خطرہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے تاکہ ان کے الفاظ میں To nip the evil in the bud،  یعنی اس کو حقیقی خطرہ بننے سے پہلے ہی ختم کر دیا جائے۔

ھن ٹنگٹن کا تجزیہ اور استدلال

میں یہ چاہوں گا کہ سیموئیل ہن ٹنگٹن کا تجزیہ اور اس کا استدلال آپ کے سامنے رکھوں۔ اس نے اسلام اور مسلمانوں کو ہّوا بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے لیے وہ تاریخ سے بھی مثالیں لایا ہے اور حالیہ رجحانات کو بھی بحث میں کھینچ لایا ہے۔ اس کے لیے سروے کی تکنیک کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے‘۳۵ہزار افراد کی راے کو اس شکل میں پیش کیا ہے کہ      دو چیزیں ہیں جو امریکیوں کی نظر میں آج سب سے بڑا خطرہ ہیں: ایک ایٹمی اسلحے کا پھیلائو ہے‘ اور دوسرا ’دہشت گردی‘۔ یہ سروے ناین الیون سے سات سال پہلے ۱۹۹۴ء کا ہے۔ پھر اس نے بتایا ہے کہ ان دونوں میں باہم کیا تعلق ہے؟ بھارت ۱۹۷۴ء میں ایٹمی تجربہ کرچکا تھا‘ اور اسرائیل ۱۹۷۰ء میں ایٹم بم بنا چکا تھا۔ ابھی پاکستان نے ایٹمی تجربہ بھی نہیں کیا تھا لیکن اس نے کہا کہ   ایٹمی اسلحے کے پھیلائو کا اصل خطرہ ہمیں اسلام اوراسلامی تحریکوں سے ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ان دونوں کا منبع مسلمان ہیں۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: 60 % of American people regard Islamic revival a threat to US interests in the Middle East. (۶۰ فی صد امریکی عوام شرق اوسط میں اسلامی احیا کو امریکی مفادات کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں)۔

وہ مزید کہتا ہے کہ مسلمان آج تو کمزور ہیں لیکن اگر ان کو قابو نہ کیا گیاتو معاشی اعتبار سے یہ اپنے وسائل کو اپنے قبضے میں لے آئیں گے اور ایک بڑی معاشی طاقت بن جائیں گے۔ پھر آبادی کے اعتبار سے ان کی عالمی پوزیشن بدل رہی ہے۔ وہ مزید کہتا ہے کہ ۱۹۹۰ء میں دنیا کے عیسائیوں کی آبادی ۲۵ فی صد اور مسلمانوں کی ۲۰‘ ۲۱ فی صد تھی لیکن اب عیسائیوں کی آبادی کم ہورہی ہے اور مسلمانوں کی بڑھ رہی ہے۔ اس کے اندازے کے مطابق ۲۰۲۵ء تک مسلمانوں کی آبادی دنیا کی آبادی کا ۳۰ فی صد ہوجائے گی اور عیسائیوں کی آبادی سے بھی بڑھ جائے گی۔ اس دوران اگر مسلمانوں نے اپنی فوج اور اپنی ایٹمی قوت کو ترقی دی تو پھر وہ مغرب کی بالادستی (superamacy ) کو چیلنج کردیں گے۔ یہ ہے مغربی تہذیب کے لیے اصل خطرہ۔

اس کے تجزیے کا دوسرا پہلو بڑا اہم ہے۔ وہ کہتا ہے‘ اور اس کا ایک ایک فقرہ غور طلب ہے:

مغرب کے لیے اصل مسئلہ اسلامی بنیاد پرستی نہیں بلکہ اسلام ہے جو ایک مختلف تہذیب ہے‘ اور جس کو ماننے والے اپنی ثقافت کی برتری پر یقین رکھتے ہیں اور اقتدار میں اپنے کم تر حصے پر پریشان ہیں۔(The Clash of Civilizations and the Remaking of the World Order، نیویارک‘ Simon Schuster ‘ ۱۹۹۶ئ‘ ص ۲۱۷-۲۱۸)

دوسرے الفاظ میں اس کا دعویٰ یہ ہے کہ مسلمان اپنا تشخص رکھتے ہیں اور انھیں یہ یقین ہے کہ ان کی تہذیب‘ ان کی اقدار برتر ہیں‘ لیکن ساتھ ساتھ الفاظ استعمال کرتا ہے upset with the inferiority of their power ‘تو یہ ان کی بے چارگی ہے جس کی وجہ سے ان کا غصہ‘ مقابلے کی قوت پیدا کرنے کا محرک ثابت ہوگا جو دہشت گردی کی شکل اختیار کر سکتا ہے‘ اور جو بڑھتے بڑھتے ہمہ گیر تصادم کا روپ دھار سکتا ہے۔ ہن ٹنگٹن نے اسی کتاب میں ایک بڑی اہم بات یہ کہی ہے کہ: Terrorism is the weapon of the weak against the strong. (دہشت گردی کمزور کا طاقت ور کے خلاف ہتھیار ہے)۔ اس طرح اسلام اور دہشت گردی کا رشتہ جوڑنے کا شاطرانہ کھیل کھیلا گیا ہے۔ آگے چل کر وہ مزید کہتا ہے:

اسلام کے لیے مسئلہ سی آئی اے یا امریکا کا محکمہ دفاع نہیں ہے‘ بلکہ خود مغرب ہے جو ایک مختلف تہذیب ہے جس کے ماننے والے اپنی ثقافت کی آفاقیت پر یقین رکھتے ہیں‘ اور سمجھتے ہیں کہ ان کی بالاتر طاقت‘ خواہ زوال پذیر ہو‘ ان پر یہ فریضہ عائد کرتی ہے کہ پوری دنیا کو اپنی ثقافت کے سانچے میں ڈھال دیں۔ یہ وہ بنیادی عناصر ہیں جو اسلام اور مغرب کے درمیان تنازعے کا ایندھن فراہم کرتے ہیں۔(ایضاً)

اس کی نگاہ میں مرکزی ایشو ثقافت اور قوت ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جب تک کہ ثقافت قوت نہ حاصل کر ے‘ اس وقت تک وہ اپنا صحیح کردار ادا نہیں کرسکتی:

دنیا میں ثقافتوں کی تقسیم‘ قوت و اقتدار کی تقسیم کا عکس ہوتی ہے۔ تجارت طاقت کے تابع ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی۔ تاریخ میں کسی تہذیب کی طاقت کی توسیع اس کی ثقافت کی نشوونما کے ساتھ ساتھ ہوتی ہے‘ اور ہمیشہ اس طاقت کو دوسرے معاشروں میں اپنی اقدار‘ روایات اور اداروں تک پہنچانے میں استعمال کیا گیا ہے۔ ایک آفاقی تہذیب‘ آفاقی طاقت کا تقاضا کرتی ہے۔

اسلام اور مغرب دو جداگانہ تہذیبیں ہیں۔ صرف اسلام اور مغرب ہی نہیں‘ اور بھی تہذیبیں ہیں مگر ان میں اختلاف کے معنیٰ یہ نہیں ہیں کہ تصادم لازم ہو۔ ان تہذیبوں میں تعاون بھی ہوسکتا ہے‘ مسابقت بھی اور بقاے باہمی (co-existance) بھی ہوسکتی ہے۔ اختلاف کا لازمی نتیجہ تصادم نہیں۔ انسانی تاریخ میں تہذیبوں کی ترقی کا راستہ تہذیبوں کے درمیان اتفاق‘ مکالمے‘ تعاون اور مسابقت کا راستہ ہے۔ محض اپنے تصورات‘ اقدار اور طور طریقوں کو دوسروں پر قوت کے ذریعے مسلط کرنے اور اسے تہذیبی تصادم قرار دینے کا راستہ تو تباہی کا راستہ ہے۔ بلاشبہہ جنگیں سیاسی اور معاشی وجوہ سے برپا ہوئیں اور وہ تاریخ کا حصہ بنیں۔ محض تہذیبوں کے تنوع‘ اقدار کے اختلاف اور اصولوں اور اجتماعی نظاموں کے باہم مختلف ہونے کے معنیٰ یہ نہیں ہیں کہ تہذیبیں ایک دوسرے سے ٹکرائیں۔ یہ مغرب کا استعماری تصور ہے جو اس سے کہلوا رہا ہے کہ:

[اہلِ مغرب] اپنی ثقافت کی آفاقیت پر یقین رکھتے ہیں‘ اور سمجھتے ہیں کہ ان کی بالاتر طاقت‘ خواہ زوال پذیر ہو‘ ان پر یہ فریضہ عائد کرتی ہے کہ پوری دنیا کو اپنی ثقافت کے سانچے میں ڈھال دیں۔

گویا قوت کے ذریعے سے ایک کلچر ‘ اس کے تصورات‘ اس کی اقدار‘ اس کے اصولوں‘ اس کے اداروں اور اس کے نظام کو دوسروں کے اوپر مسلط کرنا۔ یہ امپیریلزم ہے‘ تہذیبوں کا تصادم نہیں‘ اور اگر اس نوعیت کا تصادم کہیں پیدا ہوتا ہے تو وہ امپیریلزم کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔

اسلام کا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے انسان کو اختلاف کا حق دیا ہے۔ ہر ایک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ دلیل سے بات کرے۔ تبادلۂ خیال‘ اظہار راے کی آزادی اور دعوت اسی چیز کا نام ہے۔ لیکن کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اپنے عقائد اور تصورات کو دوسروں کے اوپر قوت سے نافذ کرے کہ یہی لااکراہ فی الدینہے۔ لہٰذا تہذیبوں کے لیے اگر کوئی راستہ ہے تو وہ مکالمہ‘ مسابقت اور تعاون ہے‘ جب کہ تصادم ایک دوسرے کو ختم کرنا یا نیست و نابود (eleminate) کرنا تہذیب کا نہیں وحشت اور استعماریت کا راستہ ہے۔ آج جس چیز کو تہذیبوں کا تصادم کہا جا رہا ہے اس کی بنیادی وجہ یہی استعماری ذہن ہے۔ اس کی اصل جڑ یہ زعم ہے کہ ہم دوسروں سے زیادہ طاقت ورہیں اور محض قوت کی بنا پر یہ ہمارا حق ہے کہ ساری دنیا میں ہم اپنی تہذیب‘ اپنی معیشت‘ اور اپنے اداروں کو قائم کریں۔ یہ ہے خرابی کی اصل جڑ۔

تہذیبی غلبے کے لیے جس حکمت عملی پر اس وقت عمل ہو رہا ہے اس نظریے کو دنیا میں چیلنج کرنے والے بھی موجود ہیں۔ ایک امریکی خاتون مفکر ڈاکٹر شیریں ہننگر نے جو واشنگٹن کے ایک اہم تھنک ٹینک سنٹر فار اسٹرے ٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کی پروفیسر ہیں کہا ہے:

مسلم معاشروں کا مکمل طور پر سیکولر ہوجانا اور مغربی تہذیب کے اہم پہلوئوں کو اختیار کرلینا بھی مغربی اور مسلم ممالک کے درمیان مستقل مفاہمت کی ضمانت نہیں دے سکتا‘ جب تک کہ مغربی اور مسلم ممالک کے درمیان باہمی نزاع کے اسباب باقی رہتے ہیں۔ خاص طور پر مسلم ممالک کی یہ خواہش کہ مغرب کے مقابلے میں طاقت کے عدمِ توازن کو دُور کیا جائے۔

ہمیں اس کے تجزیے سے اتفاق ہے کہ تہذیبوں کے تصادم کو دھوکے سے عنوان بنایا گیا ہے۔ اصل مسئلہ قوت کے توازن اور مسلم دنیا پر سیاسی‘ معاشی اور عسکری غلبہ اور تسلط ہے۔ بلاشبہہ سیکولرزم کا فروغ اس حکمت عملی کا حصہ ہے لیکن اصل مقصد دنیا پر غلبہ اور اسے اپنے زیرتسلط لانا ہے اور اس میں اسلام‘ مسلمان اُمت اور ان کا تصورِجہاد اصل رکاوٹ سمجھے جارہے ہیں۔

ہن ٹنگٹن نے جو حکمت عملی تجویز کی ہے اس میں پہلی چیز ہے امریکا کی عالمی بالادستی۔ اس کا کہنا ہے کہ: سیاسی‘ معاشی‘ فنی اور عسکری کنٹرول کا حصول ہی ہمارا اصل ہدف ہے۔  اس کے لیے ہمیں یہ یقینی بنانا پڑے گا کہ دوسری چیلنج کرنے والی کوئی طاقت وجود میں نہ آئے۔ یہی نقطۂ نظر برزنسکی کی کتاب The Chessboard of Nationsمیںجو کئی سال پہلے آئی تھی پیش کیا گیا ہے۔برزنسکی‘ صدر کارٹر کے دور میں نیشنل سیکورٹی کا مشیر رہا ہے اور یونی ورسٹی کا پروفیسر ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس وقت امریکا واحد سوپرپاور ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ آیندہ بھی یہی واحد سوپرپاور رہے۔ اس لیے امریکا کو اسے یقینی بنانا چاہیے کہ کم از کم آیندہ ۲۵سالوں میں کوئی اسے چیلنج کرنے والا میدان میں نہ آسکے‘ اور خاص طور پر یورپ ‘ چین اور مسلم دنیا کو نظر میں رکھا جائے۔

دوسری چیز دنیا کے دوسرے ممالک میں مداخلت کی حکمت عملی ہے(right of intervention)۔ اس کے مطابق جہاں کہیں کوئی خطرہ دیکھو‘ یا خطرے کی بو سُونگھو‘ قبل اس کے کہ وہ تمھارے لیے کوئی خطرہ بن سکے‘ مداخلت کرکے اسے نیست و نابود کردو۔ یہی پالیسی ہے جس پر بش انتظامیہ چل رہی ہے۔ اور اب انھوں نے اپنے اسٹرے ٹیجک ڈاکٹرائن میں کھل کر یہ بات کہی ہے کہ ’روکنا یا مداخلت کرنا‘ ان کا حق ہے‘ اقوام متحدہ کی مدد کے ساتھ یا اس کے بغیر۔ اسی خطرے کو وہ ’عدم برداشت‘ اور ’انتہا پسندی‘ کا نام دیتا ہے۔ اور اگر مسلم دنیا کے کچھ حکمران ان لفظوںکا بے محابا استعمال کرکے اپنے ہم وطنوں کو دھمکاتے ہیں تو درحقیقت وہ اپنے مشاہدے یا اپنے ذہن سے کام نہیں لیتے بلکہ ہن ٹنگٹن کے افکار کی جگالی کر رہے ہوتے ہیں۔

تیسری بات جسے وہ استحصال کی حکمت عملی کہتا ہے‘ یہ ہے کہ معاشی وسائل کو اپنی گرفت میں رکھو۔ اس لیے کہ تیل‘ توانائی‘ معدنی وسائل اور رسل و رسائل کے ذرائع اور راستے اسٹرے ٹیجک اثاثے ہیں اور ان پر ہمارا قبضہ ہونا چاہیے۔

چوتھی چیز میڈیا کی قوت کا استعمال ہے۔ ہرنوع کے ذرائع ابلاغ اس کا حصہ ہیں۔ یہ افکار اور اذہان پر کنٹرول‘ ان کی تشکیل یا انھیں مخصوص تہذیبی سانچے میں ڈھالنے کا عمل ہے۔

پانچویں چیز وہ یہ کہتا ہے کہ امریکا شاید ایک عرصے تک یہ کام اکیلے نہ کرسکے‘ اس لیے امریکا کو یورپ کے ساتھ سیاسی‘ معاشی اور فوجی اتحاد کرنا چاہیے۔ جس میں اب اسرائیل اور روس کے ساتھ بھارت کا اضافہ بھی کرلیا گیا ہے۔ اس کے نزدیک مقابلے میں اصل قوت مسلم دنیا اور عوامی جمہوریہ چین ہے۔ اس کے الفاظ میں: اسلامی اور چینی ممالک کی روایتی اور غیر روایتی عسکری طاقت میں اضافے کو روکنا۔

آخری چیز یہ بیان کرتا ہے کہ یورپ اور امریکا میں مسلمان تارکین وطن خود ہمارے اندر ایک خطرے کی چیز بن گئے ہیں۔ وہ کہتا ہے:

مغربی کلچر کو مغربی معاشروں کے اندر موجود گروپوں سے چیلنج درپیش ہے۔ اب ایک چیلنج ان تارکین وطن کی طرف سے ہے جو [ہمارے معاشرے میں] جذب ہونے کو مسترد کرتے ہیں اور اپنے ممالک کے کلچر‘ رسوم و رواج اور اقدار کو پھیلانے میں لگے رہتے ہیں۔ یہ موجودگی سب سے زیادہ یورپ اور امریکا میں ہے۔

ان پانچ نکات کی روشنی میں امریکا اور مغربی اقوام کے تیار کردہ نقشۂ جنگ کے اہم خدوخال دیکھے جاسکتے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ تہذیبی تنوع کا نتیجہ تہذیبوں کا تصادم نہیںہے‘ نہ یہ ضروری ہے اور نہ مطلوب۔ لیکن جب ایک تہذیبی قوت جسے معاشی‘ سیاسی‘ عسکری بالادستی بھی حاصل ہو‘ یہ چاہے کہ وہ اپنے نظام کو ساری دنیا کے اوپر قوت کے ذریعے مسلط کرے‘ دوسروں کو اپنے رنگ میں رنگے اور ان کی معیشت‘ ان کی سیاست اور ان کی معاشرت کو اپنی زنجیروں میں جکڑ لے___ تب تصادم پیدا ہوتا ہے۔ اِس وقت اپنے سیاسی اہداف کے حصول کے لیے تصادم کی فضا پیدا کرنے کے لیے مغرب نے یہی راستہ اور طریقہ اختیار کیا ہے۔

مقابلے کی حکمت عملی

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے لیے اس کا مقابلہ کرنے کی کیا صورت ہے؟ کسی جذباتی‘ جوشیلے یا محض منفی ردعمل سے اس جنگ کو نہیں جیتا جاسکتا۔ کچھ مہم جُو حضرات ایسے اقدام کر سکتے ہیں جن سے وقتی طور پر کچھ تسلی ہو‘ اور یہ سمجھ بیٹھیں کہ ہم نے دشمن کو زک پہنچا دی ہے‘ لیکن یہ راستہ اختیار کرنا بڑی کوتاہ نظری (short sighted) کی حکمت عملی ہوگی۔ اُمت مسلمہ ایک پیغام اور دعوت کی علم بردار اُمت ہے۔ ہماری تہذیبی جدوجہد محض قوت‘ محض وسائل‘ محض مادی منفعتوں اور دولت کے حصول کے لیے نہیں ہے۔ ہماری تہذیب کا بنیادی اصول اعلیٰ اخلاقی اقدار ہیں اور انسانی معاشرے کی تعمیر عدل و احسان کی بنیادوں پر کرنا ہے تاکہ دنیا میں عزت اور امن اور آخرت میں اصل کامیابی حاصل کی جاسکے۔

اسلامی تہذیب کی شناخت کے تین حوالے ہیں: سب سے پہلی چیز توحید‘ یعنی اللہ سے رشتہ جوڑناہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اپنے آپ کو  خودکفیل اور دنیا سے بالکل بے نیاز نہ سمجھنا‘ اس دنیا کو ہی سب کچھ نہ سمجھناا ور صرف اللہ کو محض خالق کی حیثیت سے ہی نہیں ماننا بلکہ رب‘ حی وقیوم‘ صاحب امر‘ ہدایت کا منبع‘ قوت کا سرچشمہ تسلیم کرنا۔ توحید کے معنیٰ ہی یہ ہیں کہ پوری انسانیت کو اللہ کی بندگی کے راستے کی طرف لانے کی جدوجہد کی جائے۔ یہ ہماری پہلی بنیاد ہے۔

دوسری بنیاد یہ ہے کہ اسلام صرف ایک عقیدہ نہیں ہے۔ بلاشبہہ یہ عقیدہ ضرور ہے اس لیے کہ عقیدہ ہی نقطۂ آغاز ہے‘ لیکن اسلام ایک مکمل دین ہے۔ وہ اس عقیدے کی بنیاد پر ایک اجتماعی زندگی ہے‘ جس کا مظہر وہ تمام انسانی رشتے اور انسانی ادارے ہیں‘ خاندان‘ معاشرہ ‘معیشت اور سیاست ہے جو ایک مربوط اور مکمل نظام کی صورت میں عقیدے کے بیج سے ایک تناور درخت کی شکل میں رونما ہوتا ہے۔ اسے ہم ایک لفظ میں شریعت کہہ سکتے ہیں‘ یعنی اللہ کا دیا ہوا قانون۔ عیسائیت میں اگر بنیادی چیز تھیالوجی ہے تو اسلام میںبنیادی چیز شریعت ہے ‘یعنی اللہ کو مانو‘ اس کے دامن کو تھامو‘ اس سے رہنمائی حاصل کرو اور زندگی کے نظام کو اللہ کی بندگی اور اطاعت کے اصول پر قائم کرو جو آزادی اور انصاف کا ضامن ہے۔

تیسری بنیاد امت کا تصور ہے جو رنگ ‘ نسل ‘ جغرافیے‘ مفاد اور تاریخ سے بالاتر ہے۔ یورپ اور امریکا کے وہ لوگ جن کی تاریخ‘ تہذیب اور روایات ہم سے مختلف ہیں‘ وہ جس وقت لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ کہتے ہیں اسی وقت ہمارا حصہ بن جاتے ہیں۔ کوئی بھی زبان بولنے والا‘ خواہ کسی بھی رنگ و نسل سے تعلق رکھتا ہو‘ دنیا کے کسی بھی مقام پر رہتا ہو‘ وہ یہ کلمہ پڑھ کر اُمت مسلمہ کا حصہ بن سکتا ہے۔

یہ تین بنیادی چیزیں ہیں اور ان کا لازمی تقاضا ہے کہ ایک طرف ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ان اصولوں پر قائم کریں‘ تمام وسائل کو اس مقصدکے لیے استعمال کریں اور مزید ترقی دیں۔ اجتماعی طاقت کا حصول بھی اس کا اہم حصہ ہے۔ نیز دنیا کے سامنے صحیح نمونہ پیش کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ البتہ دین کا فروغ اور اسلامی تہذیب کی ترویج ہم قوت کے ذریعے سے نہیں‘ دلیل کے ذریعے کرنے کے پابند ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ اپنا پیغام عام کریں اور دلیل سے کریں تاکہ قَدْ تَّـبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْـغَیِّ  کا مقصد پورا ہو‘ یعنی ہمارا طریقہ یہ ہے کہ رشد‘ دلیل اور حکمت کے ذریعے سے پیغام کو دنیا تک پہنچانا ۔ دوسری طرف قوت سے حق کا اور اپنے نظام کا دفاع کرنا اور ظلم و جبرکے خلاف مزاحمت کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ جہاد دراصل انھی دو پہلوئوں سے عبارت ہے۔ ایک پہلو یہ کہ اللہ کی بندگی کے طریقے کو قبول کرنا‘اور دوسری طرف ظلم اور جارحیت کے خلاف مزاحمت کرنا۔ یہی وجہ ہے کہ جہاد ہمیشہ سے دشمن کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا رہا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اسلام کی مخالف قوتوں نے جن کے استعماری عزائم کی راہ میں مسلمانوں کا جذبۂ جہاد حائل ہے ہمیشہ تصورِ جہاد ہی کو ہدف بنایا ہے۔ خصوصیت سے پچھلے ۴۰۰سال کی تاریخ پڑھ لیجیے۔ مغربی استعمار کا جہاں بھی مقابلہ ہوا ہے‘ مسلمانوں ہی نے کیا ہے اور جہاد کی بنیاد ہی پر کیا ہے۔ مغرب کے مفکرین خواہ مستشرق ہوں یا مشنری یا حکمران‘ سب نے جہاد کو ہدف بنایا ہے۔

آج مسلم دنیا پر قابض حکمران طبقے جہاد اکبر اور جہاد اصغر کی جو بحثیں چھیڑ رہے ہیں‘ یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ انیسویں صدی کا لٹریچر پڑ ھ لیجیے‘ مغربی مفکرین‘ ان کے مستشرق اور خود ہندستان میں سامراجی حکمرانوں کے ہم نوا یہی بات کہتے تھے‘ حتیٰ کہ جہاد کو منسوخ کرنے کے لیے جھوٹا نبی تک بنایا گیا‘ مختصر یہ کہ کوئی نئی چیز نہیں۔

اسلامی تہذیب محض قوت کی بنیاد پر آگے نہیں بڑھ سکتی۔ قوت کی اگر ضرورت ہے تو اس کو مستحکم کرنے کے لیے ہے۔ اس کی اپنی صحیح شکل میں اس پر عمل کرنے کے لیے ہے اور اس کے دفاع کے لیے ہے۔ مسلمانوں نے قوت کے ذریعے سے کبھی بھی اپنی اقدار کو دوسروں پر نہیں ٹھونسا۔ کیوں کہ یہ طریقہ اللہ کی حکمت بالغہ کے خلاف ہے۔ ایمان‘ دل کی رضامندی سے‘      دل ودماغ کی یکسوئی سے اور انسانی اختیار کے استعمال سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ ایک اخلاقی عمل ہے اور کوئی اخلاقی عمل جبر کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ اخلاقی عمل تو آزادی و اختیار کی فضا میں اور رضامندی کے ساتھ فروغ پاتا ہے۔

اس تہذیبی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے پہلی ضرورت ہے کہ ہم اللہ سے اپنا رشتہ جوڑیں اور اسے مستحکم کریں۔ جس طرح توحید اسلامی تہذیب کی بنیاد ہے‘ اسی طرح اسلام کی دفاعی حکمت عملی کا پہلا اصول اللہ سے تعلق‘ اللہ سے رشتے کو گہرا کرنا‘ اللہ سے استعانت طلب کرنا اور اللہ کے بھروسے پر اس سارے کام کو انجام دینا ہے۔ اگر اس میں ذرا بھی کمزوری ہے تو باقی جتنے بھی وسائل ہوں گے‘ وہ ریت کی دیوار ثابت ہوں گے۔ لہٰذا پہلی چیز ایمان ہے اور ایمان کا تقاضا ہے: کردار‘ تقویٰ اور للٰہیت۔ ایک ایک فرد اس کے اندر اہم ہے۔ جس طرح زنجیر میں ایک ایک کڑی اہم ہوتی ہے کیوں کہ اگر ایک کڑی بھی کمزور ہوتو زنجیر ٹوٹ جاتی ہے۔ اسی طرح عمارت کی اینٹیں اور بنیادیں ہیں۔ اگر وہ کمزور ہوں گی تو دیوار نہیں ٹھیرسکے گی۔ اس لیے فرد‘ اس کا کردار‘ اس کی للٰہیت اور تقویٰ خود ہماری دفاعی حکمت عملی کا بنیادی نکتہ ہے۔

دوسری چیز مسلمانوں کا اتحاد اور ان کی اجتماعیت ہے۔ اگر مسلمان متحد نہ ہوں‘ اور وہ فرقوں میں اور گروہوں میں بٹے ہوئے ہوں‘ ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہوں تو ان کی قوت منتشر ہوکر کمزور پڑ جائے گی۔ اس لیے اجتماعیت اور اتحاد ہماری حکمت عملی کا دوسرا بنیادی نکتہ ہے۔

تیسری چیز دعوت ہے۔ ہم جامد نہیں ہوسکتے۔ ہم ایک دعوت کے علم بردار ہیں اور ہماری طاقت اللہ کی تائید کے بعد‘ انسانوں کی قوت سے ہے۔ اس لیے تعلیم‘ تبلیغ‘ دعوت اور انسانوں کو اپنے اندر جذب کرنا‘ ان کی تربیت کرنا‘ یہ ہمارا مستقل پروگرام ہے۔

اخلاقی قوت اس راستے کی اصل معاون ہے۔ اسی کے نتیجے میں انسانوں کے دل فتح کیے جاسکتے ہیں۔ ان انسانی وسائل کے ساتھ ساتھ مادی قوت بھی ضروری ہے۔ اگر ہم نے مادی قوت کو نظرانداز کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کے لیے جو قانون بنایا ہے‘ ہم اس سے انحراف کریں گے۔ یہاں آگ جلاتی ہے‘ برف ٹھنڈک دیتی ہے‘ اور سورج روشنی دیتا ہے۔ یہ اس دنیا میں اللہ کا قانون ہے۔ اگر آپ پیاسے ہوں اور پانی کا گلاس آپ کے سامنے ہو تو آپ محض پانی پانی کہتے رہیں تو آپ کی پیاس نہیں بجھے گی۔ قدرت نے جو قوانین بنائے ہیں‘ ان کے ذریعے سے وسائل کو حاصل کرنا استخلاف کے معنی ہیں۔ آپ دنیا کے سارے وسائل کے امین بنائے گئے ہیں۔ استخلاف ایک حرکی تصور ہے جس کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کے اندر جو وسائل ودیعت کیے ہیں‘ ان کو دریافت کرنا‘ ان کو ترقی دینا اور ان کو صحیح مقاصد کی خدمت کے لیے استعمال کرنا۔ اس لیے قرآن نے سورۂ انفال میں صاف کہا ہے کہ اپنے گھوڑوں کو تیار رکھو۔ قوت تمھیں حاصل ہونی چاہیے اور قوت بھی ایسی کہ تمھارا دشمن اور اللہ کادشمن اس سے خوف محسوس کرے۔ قوت ایمان اور اخلاق سے‘ اور ٹکنالوجی‘ معیشت اور عسکری طاقت سے حاصل ہوتی ہے۔ لہٰذا ایمان و عمل کے ساتھ ترقی بھی اشد ضروری ہے۔ اگر اسے آپ نظرانداز کریں گے تو اِس تہذیبی یلغار کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔

ایٹمی طاقت آج کی دنیا میں ایک بہت ہی اہم ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مسلمان ملک کو تھوڑی سی ایٹمی صلاحیت حاصل ہوئی ہے تو اس پر دنیا بھر میں کتنا واویلا ہوا ہے۔ کہا گیا کہ  یہ صلاحیت بلیک مارکیٹنگ کے ذریعے حاصل کی گئی ہے‘ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ امریکا سے   لے کر بھارت تک جس نے بھی ایٹمی صلاحیت حاصل کی ہے وہ بلیک مارکیٹ سے‘ پھیلائو (proliferation ) سے اور دوسروں کے کیے ہوئے کام سے فائدہ اٹھا کر ہی کی ہے اور جائز ناجائز‘ ہر طریقے سے کی ہے۔ کیا امریکا نے جرمن سائنس دان کو اغوا کرکے اس کی صلاحیت کو استعمال نہیں کیا؟ کیا بھارت نے امریکا اور کینیڈا سے نیوکلیئر پلانٹ حاصل کیے بغیر یہ صلاحیت حاصل کر لی؟ اسرائیل نے یہ صلاحیت کیسے حاصل کی ہے؟ ایران ہی پر آخر کیوں یہ دبائو ہے۔ اس لیے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایٹمی صلاحیت ہی طاقت کے عدم توازن کا توڑ ہے۔

ایٹمی طاقت کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر ٹکنالوجی بھی ایک بہت اہم میدان ہے۔ اس بات کا پورا امکان ہے کہ اس سلسلے میں اچھی صلاحیت سے ایک نہایت ہی ترقی یافتہ ملک کے اعلیٰ اور فنی نظام کو غیر موثر بنایا جا سکتا ہے۔ اگر ایک ۱۶ سال کا امریکی لڑکا پینٹاگون کی خفیہ معلومات کو دریافت کر کے اس کے کمپیوٹر کو جام کر سکتا ہے تو یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے ذریعے کسی بھی ملک کے نظام کو تہ وبالا کیاجاسکے۔ اب دنیا سائبری جنگ (cyber warfare)کی طرف جارہی ہے اور ہم اس میں پیچھے نہیں رہ سکتے۔

آج کی دنیا میںطاقت کے عدم توازن کے معنی بدل گئے ہیں۔ اس لیے سدِّجارہیت (deterrance) ایک فنّی اصطلاح نہیں ہے بلکہ ایک حرکی تصور ہے جس کے معنی برابری نہیں اتنی قوت ہے کہ آپ مدمقابل کی قوت کو غیرموثر بناسکیں اور اسے جارحیت سے روک سکیں۔ آپ کو قطعاً اس کی ضرورت نہیں ہے کہ آپ کو برابری حاصل ہو لیکن آپ کے پاس اس درجے کی قوت ہونی چاہیے کہ آپ نہ صرف اپنا دفاع کرسکیں‘ بلکہ دشمن پر کاری ضرب لگاسکیں۔اسے یہ احساس ہو کہ اس عمل اور ردعمل سے اسے کیا قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ قرآن پاک میں مقابلے کی قوت کا جو مقام بیان کیا گیا ہے‘ وہ یہ ہے کہ تمھارے دشمن اور اللہ کے دشمن اس سے خائف ہوں اور یہ لازماً ہماری حکمت عملی کا حصہ ہونا چاہیے۔ یہ قابلِ حصول ہے‘ اس کے لیے مساوات ضروری نہیں۔ اس کے لیے صرف صحیح حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

یہ کام استقامت اور حکمت کا تقاضا بھی کرتا ہے۔ استقامت نام ہے اپنے مسلک پر ایقان اور اعتماد کے ساتھ ڈٹ جانے کا‘ اپنے مقصد اور اپنی منزل کے صحیح شعور اور ادراک کا۔ یہ نام ہے اللہ کے بھروسے‘ اُمت کی تائید اور تعاون کا۔ استقامت صحیح منصوبہ بندی ‘ وسائل کی ترقی اور وسائل کے مؤثر استعمال اور حکمت اور اس خوف کا صحیح صحیح استعمال کا نام ہے۔ یہ بھی صبرواستقامت ہے کہ نفع عاجلہ سے بچنا اور ایسے اقدام سے بچنا جن سے جذبات کی تسکین تو ہوجائے لیکن پوری امت کو دیرپا نقصانات ہوں۔

تہذیبوں میں مکالمہ‘ تعاون‘ مسابقت حتیٰ کہ مثبت مقابلہ‘ سب درست لیکن تہذیبوں میں تصادم‘ جنگ و جدال‘ خون خرابا اور ایک دوسرے کو مغلوب اور محکوم بنانے کے لیے قوت کا استعمال انسانیت کے شرف اور ترقی کا راستہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تہذیبوں کا تصادم ہمارا لائحہ عمل نہیں‘ یہ مسلمانوں پر زبردستی ٹھونسا جا رہا ہے۔ یہ تباہی کا پیغام ہے لیکن اگر ایک سوپر پاور طاقت کے زعم میں اندھی ہو گئی ہے اور دنیا کو اپنی گرفت میں لینے اور اس پر بہ جبر بالادستی قائم کرنے کے لیے قوت کا استعمال کر رہی ہے تو اس کے آگے ہتھیار ڈالنے ‘ اور اپنے دفاع سے دست بردار ہوجانے سے بڑا جرم کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہماری لڑائی نہ امریکا کے عام انسانوں سے ہے‘ نہ یورپ کے نہ روس کے اور نہ ہندستان کے۔ ہماری قوت اور پہچان اسلام ہے‘ اور اسلام ساری انسانیت کے لیے پیغام رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔ ہمارا اللہ‘ رب العالمین ہے اور ہمارا رسولؐ، رحمۃ للعالمین۔ ہم انسانوں کے لیے تباہی کا پیغام نہیں بن سکتے۔ اللہ کے تمام نبی انسانوں کو تباہی سے بچانے کے لیے آئے اور قوموں کو سیدھا راستہ دکھانے اور خیر کو قبول کرنے کی دعوت دینے کے لیے آئے‘ فوج دار بنا کر نہیں بھیجے گئے۔ ہمارے لیے امریکا کے عام انسان بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنے پاکستان کے‘ یا مکے اور مدینے کے۔ لیکن اگر امریکی اور مادی تہذیب کی قیادت مادی قوت اور عسکری قوت کے زعم میں یہ سمجھتی ہے کہ وہ پوری دنیا کو دھوکا دے سکتی ہے اور ان کو اپنا محکوم بناسکتی ہے تو یہ ممکن نہیں‘ اور نہ یہ جائز ہے کہ اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیا جائے۔

مسلمان ہی نہیں ‘ساری دنیا کے اچھے انسان اس صورت حال پر کرب محسوس کرتے ہیں اور اس مصیبت سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دنیا کے گوشے گوشے میں لاکھوں افراد نے عراق میں جنگ کے خلاف احتجاج کیا ہے اور کر رہے ہیں‘ امریکا میں بھی کر رہے ہیں۔ آج جو تازہ ترین جائزے آئے ہیں اس میں بش کی مقبولیت ۳۱ فی صد ہے‘ اور ۶۹ فی صد سمجھتے ہیں کہ اس نے انسانیت کو ایک غلط جنگ میں جھونک دیا ہے۔ وہ ۲۳۰۰امریکی فوجی جو عراق میں مارے گئے ہیں‘ ان کے خاندان احتجاج کررہے ہیں‘ عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹا رہے ہیں۔ بش کی قیام گاہ کے باہر احتجاجی ہڑتالیں ہورہی ہیں۔ امریکا کی ان پالیسیوں اور دست درازیوں کے خلاف مسلم دنیا کی ۹۰سے ۹۸ فی صد آبادی احتجاج کر رہی ہے۔ یورپ میں ۷۰ سے ۸۰ فی صد اور افریقہ میں ۷۰سے ۹۰ فی صد لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔ غرض دنیا کا کوئی علاقہ ایسا نہیں جہاں بش کی انسانیت کش پالیسیوں کے خلاف نفرت نہ پائی جاتی ہو۔

میں تہذیبوں کے تصادم کو اس فریم ورک میں نہیں لینا چاہتا جس میں ہمارے دشمن اسے ہم پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ میری نگاہ میں یہ تصادم تہذیب اور جاہلیت‘ تہذیب اور وحشی پن میں اور امن اور جنگ کے پجاریوں میں ہے۔ ہمیں اخلاقی اقدار‘ قانون کی حکمرانی‘ انصاف‘ انسان کا شرف اور عزت اور تمام انسانوں کے لیے اللہ کی زمین کو رہنے کے لائق بنانا اور رکھنا ہے۔ بلاشبہہ اس جنگ میں ہمارا ان سے مقابلہ ہے جو تباہی مچانے والے‘ امن کو پارہ پارہ کرنے والے اور ساری دنیا کو دہشت زدہ کرنے والے ہیں۔ ان کے مقابلے کے لیے ہمیں حلیفوں کی ضرورت ہے۔ یہ جنگ ہمیں تن تنہا نہیں لڑنا چاہیے۔ بلاشبہہ ہم اس کا پہلا نشانہ ہیں لیکن دوسرے بھی نشانے پر ہیں۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم اچھی سیاست خارجہ کے ذریعے سے حلیف پیدا کریں اور مل کے اس کا مقابلہ کریں۔ مجھے یقین ہے کہ حلیف صرف چین ہی میں نہیں ‘ یورپ اور امریکا میں بھی ملیں گے۔ اور یہی دراصل ایک داعی کا ذہن اور کردار ہونا چاہیے۔ ہم اصحاب دعوت ہیں‘ ہم نفرتوں کے پجاری نہیں ہیں‘ اس لیے ہمیں بتانا چاہیے کہ اصل جنگ تہذیب اور وحشت کے درمیان ہے۔

آئیے! تہذیب کا تحفظ کریں اور وحشت کا مل جل کر مقابلہ کریں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

صدربش کے دورے کے تناظر میںبنیادی تبدیلی کی ضرورت

صدر جارج بش کا افغانستان‘ بھارت اور پاکستان کا دورہ (۲۸ فروری تا ۴ مارچ ۲۰۰۶ئ) بھارت کے لیے تو بجاطور پر تاریخ ساز اور کامیاب ترین قرار دیا جا رہا ہے‘ مگر پاکستان کے لیے‘ جنرل پرویز مشرف اور ان کے حواریوں کے علاوہ‘ سب ہی اسے ناکام اور ذلت اور پشیمانی کا باعث تصور کرتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ خود جنرل صاحب صدربش کے ساتھ ۴مارچ کی   مشترکہ پریس کانفرنس میں زبانِ حال (body language)سے وہی بات کہہ رہے تھے جو اندرونِ ملک اور بیرون ملک تمام اصحابِ نظر کی زبان پر ہے۔ انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون نے ایک ہی جملے میں پورے مضمون کا مفہوم سمو دیا ہے:

Bush gives Indians a hug and Pakistan a friendly pat.

بش نے بھارت کو تو کو گلے لگا لیا اور پاکستان کو فقط ایک دوستانہ تھپکی پر ٹرخا دیا۔

نیویارک ٹائمز نے کوئی پردہ نہ رکھا اور بڑے طنز سے لکھا:

یہ بالکل سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے کہ کیا مسٹربش نے آدھی دنیا کے گرد سفر صرف اس لیے کیا کہ اپنے سب سے اہم حلیفوں میں سے ایک کے ساتھ کھڑے ہوں اور اس کو شرمندہ کریں۔

صدربش نے جنرل صاحب کے منہ پر کہا کہ میں تو صرف یہ دیکھنے کے لیے آیا ہوں کہ تم کتنے پانی میں ہو___ دہشت گردی کے خلاف میرے ساتھ تعاون کے بارے میں جو کہہ رہے ہو‘ عملاً کچھ کر بھی رہے ہو؟ اس سے پہلے کابل میں حامدکرزئی کی ہم زبانی میں فرمایا کہ میں جنرل پرویزمشرف سے سرحدوں کی خلاف ورزی اور دراندازی کے بارے میں پوچھوں گا۔ پھر دہلی میں کشمیر کے پس منظر میں یہی بات کہی۔ اور بالآخر ۴مارچ کو اسلام آباد میں جنرل صاحب کو مخاطب کرکے‘ ٹی وی کے کیمروں کے سامنے‘ خسروانہ شان سے فرمایا: میرے مشن کا ایک حصہ یہ طے کرنا تھا کہ آیا صدر (پرویز مشرف) ان دہشت گردوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے اتنے ہی سنجیدہ ہیں جتناکہ وہ پہلے تھے؟

اسرائیلی ویب سائٹ Debka File نے A chill has crept over US-Pakistan relations(پاک امریکا تعلقات سردمہری کا شکار ہوگئے ہیں) کے عنوان سے بش اور مشرف کی مذکورہ بات چیت کی یوں منظرکشی کی ہے:

تعلقات کو متلاطم لہروں کا سامنا ہے۔ دونوں رہنما اپنی گفتگو کے اصل موضوعات پر مختلف راے رکھتے تھے۔ بش انتظامیہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں مشرف کے مرکزی مقام کا ازسرنو جائزہ لے رہی ہے‘ جب کہ جوہری پھیلائو ہمیشہ سے زیادہ دکھتی رگ ہے… پاکستان‘ دہلی اور واشنگٹن دونوں جگہ ہار رہا ہے۔ اس لیے بش کا  دورئہ اسلام آباد دہشت گردی کے خلاف پاک امریکا شراکت کے لیے ایک اہم لمحہ تھا‘ اور اسی طرح یہ مشرف کے اپنے سیاسی مستقبل کے لیے بھی اہم تھا۔ بش انتظامیہ کی نظروں میں اس کے آہنی ہاتھ کی بڑی قدروقیمت تھی‘ مگر اب تو اس کے اُلٹے نتائج سامنے آرہے ہیں۔ طالبان کی باقیات افغانستان میں شکست سے دوچار ہوتی نظر نہیں آتی۔ اسامہ بن لادن اور اس کے صف اوّل کے رہنما ئوں نے اپنی گرفتاری کو مسلسل ناممکن بنا رکھا ہے۔ مسئلہ کشمیر ایک کھلا زخم ہے۔ اسلام آباد کے بعض باخبرسفارتی ذرائع کو اندیشہ ہے کہ بش انتظامیہ اس یقین تک پہنچ رہی ہے کہ اب ایک کمزور پاکستانی فوج اتنی ہی ضروری ہے جتنی ایک طاقت ور فوج ناین الیون کے بعد اس وقت ضروری تھی‘ جب امریکا کو افغانستان پر حملے کے لیے اس کی حمایت کی ضرورت تھی۔ پاکستان چاہتا ہے کہ امریکا کے ساتھ اس کی ایک منافع بخش اسٹرے ٹیجک شراکت قائم رہے مگرفی الحقیقت مشرف کا پاکستان‘ بھارت کے مقابلے میں تیزی سے بازی ہاررہا ہے۔ بش کے دورے نے پانچ سالہ پرانی شراکت میں بڑھتی ہوئی دراڑوں کو مزید نمایاں کردیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ واشنگٹن اب جنرل کے اس موقف کوتسلیم نہیں کرتا کہ وہی ملک کا واحد سیکولر لیڈر ہے جو ملاؤں اور جہادیوں سے جو پاکستان کے لیے طاعون ہیں‘ نمٹ سکتا ہے۔ (Debka File، ۵مارچ ۲۰۰۶ئ)

اس کی بازگشت واشنگٹن پوسٹ کے ۳مارچ کے اداریے (بہ عنوان: جنرل مشرف کے لیے ایک پیغام) میں سنی جاسکتی ہے:

صدربش نے کل افغانستان کا اچانک دورہ کیا تاکہ اس کی نئی جمہوریت کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کریں۔ انھوں نے بالکل درست کہا کہ ساری دنیا کی نظریں اس جمہوریت پر لگی ہوئی ہیں۔ پھر وہ بھارت گئے جہاں ان کے دورے کا مرکزی نکتہ امریکا اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت [بھارت] کے تیزی سے بڑھتے ہوئے   مشترک مفادات تھے۔ دورے کے تیسرے مرحلے میں وہ پاکستان پہنچے۔ بھارت  [کی جمہوریت] اور پاکستان کے فرق کو نظرانداز کرنا مشکل ہے‘ جہاں پرویز مشرف نے ۱۹۹۹ء میں ایک منتخب حکومت کو برطرف کرکے اقتدار پر قبضہ کیا‘ اور اِس وقت بھی وہ اقتدار کے واحد مالک ہیں۔ گذشتہ ہفتے مسٹربش نے اپنے پاکستانی دوست کے بارے میں کہا کہ مجھے یقین ہے وہ آزاد اور غیر جانب دارانہ انتخابات کے انعقاد کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔ اگر مسٹر بش واقعی یہ یقین رکھتے ہیں تو وہ بہت سے پاکستانیوں سے زیادہ سادہ لوح ہیں جنھوں نے بہت عرصہ قبل ایک ایسے لیڈر کے برسرِعام کیے گئے  وعدوں پر یقین کرنا چھوڑ دیا ہے‘ کیوں کہ اس نے اپنے وعدوں کو ایک سے زیادہ دفعہ توڑا ہے۔ جنرل مشرف اقتدار پر اپنے قبضے کے بعد جمہوریت بحال کرنے کا وعدہ کرتے آرہے ہیں لیکن جب سے وہ اقتدار میں آئے ہیں انھوں نے پاکستان کی سیکولرجمہوری پارٹیوں کو دبانے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے اپنی مدت کو ۲۰۰۷ء تک بڑھانے اور صدر اور فوج کے لیے نئے دستوری اختیارات کے بدلے میں ۲۰۰۴ء کے اختتام تک آرمی چیف آف اسٹاف کا عہدہ چھوڑنے کا وعدہ کیا تھا۔ بعدازاں وہ اس سے منحرف ہوگئے۔

اب جنرل مشرف کے ساتھی یہ کہہ رہے ہیں کہ آیندہ سال جن انتخابات کا وعدہ ہے‘   وہ ان کو ملتوی کردیں گے اور پارلیمنٹ جو ۲۰۰۲ء کے انتہائی بے قاعدہ انتخابات میں منتخب ہوئی تھی‘ ان کو ازسرنو منتخب کرلے گی۔ مختصر یہ کہ جنرل مشرف کو واضح طور پر امید ہے کہ وہ اپنی فوجی حکومت کو غیرمعینہ مدت تک طول دے لیں گے‘ جب کہ امریکی صدر کی سیاسی و معاشی حمایت انھیں حاصل رہے گی۔ دوسری طرف امریکی صدر نے اپنی انتظامیہ کو مسلم دنیا میں جمہوریت کی پیش رفت کے لیے وقف کردیا ہے۔مسٹربش کو داددینی چاہیے کہ وہ جنرل کے کھیل کو سمجھتے ہیں اور اسے روکنے کی کم سے کم ایک چھوٹی سی کوشش کر رہے ہیں۔

اس میں پاکستان کی سیکولر سیاسی پارٹیوں کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے اور ۲۰۰۷ء کے انتخابات کے لیے حقیقی طور پر تیار کرنے کے لیے کوششیںشامل ہونی چاہییں۔ مشرف کے بہت سے وعدوں کے باوجود‘ پاکستان ایک انتہائی غیرمستحکم ملک ہے جہاں اسلامی انتہاپسندی کا خطرہ بہت بڑا ہے اور بڑھ رہا ہے۔ اگرچہ جنرل اس خطرے کے خلاف امریکا کا تدبیراتی (tactical) اتحادی ہے‘ ملک میں جمہوریت بحال کرنے کے ان کے انکار نے صورت حال کو محض خراب تر کیا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ امریکا اس ناقابلِ اعتبار جنرل پر انحصار کرنا چھوڑ دے اور اس کی جگہ لینے والی جمہوری حکومت کے لیے منصوبہ بندی کا آغاز کرے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کا نمایندہ چارلس دھاراپِک اپنے ۱۱مارچ ۲۰۰۶ء کے مکتوب میں پاکستان کی زبوں حالی کا نقشہ Pakistan Feels Jilted and Sulks  (پاکستان محسوس کرتا ہے کہ اسے جھانسہ دیا گیا ہے اور برہم ہے)کے عنوان سے کچھ اس طرح کھینچتا ہے:

جارج بش کے بھارت کے ’تاریخی‘ دورے کے بعد ۳‘۴ مارچ کو پاکستان میں ان کے قیام کو لازماً ایک ضدِّعروج (anti climax) ہونا تھا۔ لیکن یہ اس سے بھی زیادہ خراب ثابت ہوا۔ اس نے پاکستان کی امریکا مخالف بڑی لابی کو تضاد‘ تلون اور    بے وفائی کے الزامات کے لیے بہت زیادہ لوازمہ فراہم کیا۔ پاکستان کے صدر پرویز مشرف نے جو امریکا کے ساتھ اتحاد کے چیمپین ہیں اور جنھیں صدربش ’اپنا یار‘ کہتے ہیں‘ خود کو ہمیشہ سے زیادہ مشکلات میں گھِرا ہوا پایا۔

بش نے بھارت میں اپنے میزبانوں کے لیے نیوکلیر طاقت اور اسلحے کے بارے میں عالمی قواعد میں استثنا مہیا کرکے تاریخی اقدام کیا۔ اس کے برعکس پاکستان جس نے بھارت کی طرح ۱۹۹۸ء میں ایٹمی دھماکا کیا اور عالمی عدم پھیلائو کے معاہدے میں شریک نہیں ہوا‘ اسے اس طرح نہیں نوازا گیا۔

امریکا نے بھارت سے اسٹرے ٹیجک شراکت اور اسے ۲۱ویں صدی کے لیے ایک   عالمی طاقت (global force)اور عالمی شریک کار (global partner) قرار دیا اور دفاع‘ تعلیم وتحقیق‘ تجارت و معیشت‘ مشترک سرمایہ کاری‘ فوجی مشقوں میں شراکت‘ اور چین کا راستہ روکنے والی مزاحمتی قوت بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصدکے لیے امریکا نے بھارت سے نیوکلیر ٹکنالوجی اور مشترک دفاعی پیداوار کے میدانوں میں بھرپور بلکہ بے قید تعاون کے جو معاہدے کیے‘ انھوں نے عالمی سیاسی نقشے میں بھارت‘ امریکی‘ اسرائیلی گٹھ جوڑ پر مہرتصدیق ثبت کردی ہے۔ اس سے بھارتی قیادت کا دماغ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا ہے۔ اس کا کچھ اندازہ کلدیپ نائر کے   تازہ ترین مضمون سے بھی کیاجاسکتا ہے جس میں پاکستان اور جنرل مشرف کو‘ جو خود کو امریکا کا بہترین حلیف اور ناٹو کا غیررکن شریک کار سمجھتے ہیں (بش اور مشرف ایک دوسرے کو اپنا یار ’buddy‘کہتے ہیں)‘ یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ جس طرح کبھی چین سے تعلق استوار کرنے کے لیے اسلام آباد کا راستہ اختیار کیا گیا تھا‘ اب امریکا سے دوستی کے لیے دہلی کا رخ کرنا پڑے گا۔ ان کا مشورہ یہ ہے:

پاکستان کے حق میں بہتر یہی ہے کہ وہ نیویارک پہنچنے کے لیے دہلی کا راستہ اختیار کرے۔ لیکن بھارت یہ چاہے گا کہ پہلے جہادیوں کے تربیتی کیمپ ختم کردیے جائیں‘ اور آئی ایس آئی دراندازی کے منصوبے کو ایک آپشن کے طور پر استعمال کرنا ترک کردے۔ دہلی میں بش اس کے قائل ہوگئے تھے کہ بھارت کے ساتھ پاکستان کی پالیسی کا ایک اہم جز سرحدپار دہشت گردی ہے۔

پاکستان کی اصل پریشانی کشمیر ہونی چاہیے۔ اسلام آباد سے جاری ہونے والے  مشترکہ بیان میں امریکا نے اس کا ذکر تک نہیں کیا۔ ایک پاکستانی صحافی کے سوال کے جواب میں بش نے یہ کہتے ہوئے اپنے پہلے موقف کو دہرایا: یہ ان دو ممالک کا معاملہ ہے کہ وہ کشمیر کے مسئلے کا تصفیہ کریں‘ اگر مطلوب ہو تو امریکا کی مدد سے۔

صدربش کے دورے کا اگر کوئی ناقابلِ تردید پیغام ہے تو وہ یہ ہے کہ امریکا نے اپنی    عالمی سیاست میں پورے سوچ بچار اور ۱۵ سال پر پھیلی ہوئی تیاری کے ساتھ بھارت سے   اسٹرے ٹیجک شراکت پر مہرتصدیق ثبت کردی ہے اور اسرائیل کے بعد اب بھارت اس کا سب سے معتمدعلیہ حلیف ہے۔ یہ ایک آئینہ ہے جس میں جنرل پرویز مشرف اور ان کے حواری اپنی    خارجہ پالیسی کی ناکامی کا اصل چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ اگر وہ اب بھی اس حقیقت کوتسلیم کرنے کو تیار نہیں اور دہشت گردی میں تعاون کے تنکوں کا سہارا لینے پر تلے ہوئے ہیںتو اس کے علاوہ کیا کہاجاسکتا ہے کہ تاریخ ان کا شمار ایسے لوگوں میں کرے گی جن کے بارے میں کتاب الٰہی کا فیصلہ ہے کہ ان کی آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں‘ کان ہیں مگر سنتے نہیں اور قلب ہیں جو تفکر سے محروم ہیں۔

بش کے اس دورے کے حوالے سے بھارت اور امریکا کے نیوکلیر معاہدے کو مرکزی اہمیت دی جارہی ہے اور وہ اس کا مستحق ہے۔ لیکن یہ حقیقت سامنے رکھنی چاہیے کہ امریکا‘ بھارت سے اپنے تعلقات اسٹرے ٹیجک بنیادوں پر استوار کرنے کا مدت سے خواہاں تھا۔ ۱۹۶۲ء میں بھارت چین تصادم کے موقع پر امریکا نے بھارت کی بھرپور مدد کی۔ بھارت کو اپنے نیوکلیر اداروں کے تشکیلی دور میں امریکاسے مدد ملی۔ سردجنگ کے خاتمے کے بعد بھارت اور امریکا کے تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہوگئے۔ دوطرفہ افادیت کی حامل‘ تجارت اور انفارمیشن ٹکنالوجی کا حصول راجیوگاندھی کے ۱۹۹۵ء کے دورے سے شروع ہوا تھا جو پچھلے ۱۰ برسوں میں مستحکم سے مستحکم تر ہوتا گیا۔ اسرائیل نے بھی اس سلسلے میں خصوصی کردار ادا کیا۔ کلنٹن کے دورحکومت میں اسٹرے ٹیجک شراکت استوار کرنے کی ابتدا ہوئی (تفصیل کے لیے دیکھیے: کلنٹن کے مشیر ٹالبوٹ کی کتاب Engaging India)‘ ناین الیون کے بعد یہ تعلقات تیزی سے آگے بڑھے۔ رینڈ کارپوریشن کے ایک اہم مطالعے میں جو امریکی فضائیہ کے لیے کیا گیا‘ بھارت اور پاکستان دونوں کے بارے میں ’ردِّدہشت گردی‘(counter terrorism) کے سلسلے کی تفصیل موجود ہے اور پاکستان کی ساری خدمات کے مقابلے میں بھارت کے تعاون کی ضرورت اور اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک دوسرا نہایت اہم مطالعہ عالمی امن کے لیے کارنیگی وقف کے زیراہتمام ایک اہم امریکی مفکر ایشلے جے ٹیلیز نے کیا ۔ اس کا عنوان ہی اس کے مقصد کا عکاس ہے: India: As a New Golbal Power - An Action Agenda for the United States. [بھارت‘ ایک نئی گلوبل قوت: امریکا کے لیے منصوبۂ عمل]۔

جو کچھ ۱۸جولائی ۲۰۰۵ء کے بش ‘من موہن سنگھ اعلامیے میں کہا گیا اور جسے ۲مارچ ۲۰۰۶ء کے دہلی معاہدے میں آخری شکل دی گئی‘ وہ ان کوششوں کا نتیجہ ہے جو ۱۰ سال سے خاموشی سے کی جارہی تھیں اور جس کے لیے بھارتی سفارت کار‘ بھارت کے لیے مہم چلانے والے پیشہ ور افراد اور ادارے اور سیاسی قیادت سرگرم عمل تھی۔

اس معاہدے نے این پی ٹی کو عملاً غیرموثر کر دیا ہے اور اب امریکا کھلے بندوں بھارت کو نیوکلیر میدان میں ہرمدد دینے کا اعلان کر رہا ہے۔ نام پُرامن استعمال کیا گیا ہے مگر حقیقت میں وہ وہ تمام ری ایکٹر جو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں‘ اپنے تصرف میں رکھنے اور انھیں عالمی معائنے سے باہر رکھنے کا حق دیا گیا ہے۔ گویا اس کو عملاً ایک نیوکلیر اسلحہ رکھنے والا ملک تسلیم کرلیاہے اور اس کے اپنے افزود کردہ پلوٹونیم کو مزیداسلحہ سازی کے لیے کھلاچھوڑ دیا گیا۔ اس کارنیگی سنٹر کی ایک محقق اور سائنس دان جوزفن سِرِن کیون (Josphen Cirincion) نے کہا ہے:

اس کے ایک تہائی ری ایکٹروں کا کسی قسم کا کوئی معائنہ نہیں کیا جاسکے گا‘ اور یہی اصل مسئلہ ہے۔ درحقیقت اس سودے کا مطلب یہ ہے کہ بھارت ہرسال جتنی مقدار میں ایٹمی ہتھیار بناسکتا ہے‘ وہ اسے دگنا یا تین گنا کرنے کے قابل ہوجائے گا۔ اس وقت وہ ۶سے ۱۰ تک بنا سکتا ہے۔ غیرعسکری ری ایکٹروں کو امریکی ایندھن کی فراہمی سے اس کے لیے یہ ممکن ہوجائے گا کہ وہ اپنے ملٹری ری ایکٹروں کی پیداوار کو تین گنا کردے۔  اس سے ایٹمی ہتھیاروں کی ایک دوڑ شروع ہوجائے گی‘ اس لیے کہ پاکستان یہ سب کچھ ہوتے دیکھ کر‘ خاموشی سے نہیں بیٹھ سکتا‘ نہ چین یہ دیکھ سکتا ہے‘ اور جاپان کیا کرے گا؟ یہ خطے کے لیے مسئلہ ہے اور حکومت کے لیے بھی۔

امریکا کو خود اپنے چھے سے زیادہ قوانین کو تبدیل کرنا ہوگا تاکہ بھارت کو نیوکلیر ری ایکٹر اور دوسرا مواد فراہم کرسکے۔

بھارت اور امریکا کا یہ گٹھ جوڑ فقط نیوکلیر میدان ہی میں نہیں بلکہ دفاع‘ تجارت‘ سرمایہ کاری اور ٹکنالوجی کی منتقلی‘ غرض ہرمیدان میں ہے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے کہ یہ ایک وسیع تر حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اسی لیے اسے اسٹرے ٹیجک شراکت کہا گیا ہے اور کُھل کر اس بات کا اعلان کیا گیا ہے کہ یہ بھارت کو اکیسویں صدی کی ایک عالمی قوت بنانے اور امریکا اور بھارت کے مل کر عالمی سیاسی بساط کا نقشہ بنانے کے لیے ہے۔ وہ نقشہ کیا ہے؟ اس کے چار بڑے بڑے اہداف ہیں:

۱- پہلا ہدف یہ ہے کہ امریکا اکیسویں صدی میں سب سے بالاتر عالمی قوت رہے اور کوئی اس کی طاقت کو چیلنج کرنے والا نہ اُبھر سکے۔ اس کام کو انجام دینے کے لیے امریکا نے دو حلیف منتخب کیے ہیں: ایک اسرائیل جو شرق اوسط میں اس کا نقیب ہوگا‘ اور دوسرا بھارت جسے ایشیا کی چودھراہٹ سونپی جارہی ہے۔

۲- دوسرا بنیادی ہدف چین کا محاصرہ ہے‘ اس لیے کہ امریکا یہ سمجھتا ہے کہ وہ یورپ کو ناٹو کی وجہ سے اپنے دائرے میں رکھ سکتا ہے‘ البتہ چین اس کے لیے اصل مدِّمقابل (challenger) بن سکتا ہے اور اس کا راستہ روکنے کے لیے ایشیا ہی سے ایک طاقت کو میدان میں لانا ضروری ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کے چین سے اسٹرے ٹیجک تعلقات ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ بھارت اور پاکستان کو الگ الگ سلوک کا سزاوار سمجھا جائے۔

۳- تیسرا ہدف یہ ہے کہ اسلام اور عالمِ اسلام کو ایک منظم قوت بن کر اُبھرنے کا موقع نہ دیا جائے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ہدف بھی اسلامی احیا کا راستہ روکنا‘ مسلم ممالک کو    فوج کشی اور معاشی مقاطعے کے ذریعے کمزور کرنا‘ اور اسلامی اتحاد کی جگہ مسلم ممالک کو مزید تقسیم در تقسیم کا شکار کرنا ہے۔

۴- چوتھا ہدف گلوبلائی زیشن‘ کھلی منڈی اور آزاد تجارت اور آزاد سرمایہ کاری کے ذریعے‘ نیز کثیرقومی کارپوریشنوں اور این جی اوز کے توسط سے معاشی طور پر پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لینا اور ٹکنالوجی اور فوجی قوت کے میدانوں میں امریکا اور اس کے حلیف ممالک کی ایسی بالادستی کو  دوام بخشنا ہے کہ مقابلے کی قوتیں اور تہذیبیں اُبھر نہ سکیں اور اس طرح امریکا کی قیادت میں ایک نئے سامراجی دور کو مستحکم کیا جا سکے۔

اپنی بالادستی کو قائم کرنے کے لیے معاشی اور سیاسی حربوں کے ساتھ فوجی قوت کا استعمال اور اس کے لیے ایک نئے فلسفے اور خارجہ پالیسی کے ایک نئے آہنگ کو فروغ دیا جا رہا ہے‘ جس کے ذریعے عالمی ادارے اور بین الاقوامی قانون کے مسلمہ اصولوں کو نظرانداز کر کے اپنی من مانی کی جاسکے۔ یک طرفہ کارروائی‘ پیش بندی کی بنیاد پرحملے‘ حکومت کی تبدیلی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر صدمے اور رعب کی حکمت عملی (shock and awe strategy) اس کا اہم حصہ ہے۔ عالمی امن کے لیے اصل خطرہ اگر آج کسی سے ہے تو اسی ذہن اور اسی منصوبۂ کار سے ہے۔

امریکا اور بھارت کے معاشی اور توانائی کے میدان میں بظاہر تعاون کے پیچھے بھی یہی نقشۂ جنگ ہے۔ ٹائمنے اپنی ۶مارچ ۲۰۰۶ء کی اشاعت میں اس منصوبے پر یوں روشنی ڈالی ہے:

نیوکلیر پیش رفت سے آگے بڑھ کر‘ امریکا اور بھارت کچھ اور حوالوں سے بھی‘ ایک دوسرے کو ہم خیال سمجھ رہے ہیں۔ دونوں جمہوریتیں ہیں‘ دونوں کے پھلتے پھولتے اور اضافہ پذیر باہم مربوط ٹکنالوجی کے سیکٹر ہیں۔ دونوں انگریزی بولتے ہیں‘ ایک ہی جیسے یوگا کے گروؤں کو مانتے ہیں‘ نیز فلموں میں ایک جیسی فراریت‘حتیٰ کہ ایک جیسی غذا سے محظوظ ہوتے ہیں۔ بش نے ایشیا سوسائٹی کو بتایا کہ بھارتی نوجوان ڈومینو اور پیزاہٹ کے پیزا کے ذائقے کو پسند کرتے ہیں۔ واشنگٹن اور بھارت دونوں اسلامی عسکریت سے برسرِجنگ ہیں اورچین کی بڑھتی ہوئی طاقت سے یکساں طور پر پریشان ہیں۔ بھارت کے سیکرٹری خارجہ شیام سرن نے ٹائم کو بتایا کہ اس کے امریکی ہم منصب بہت واضح طور پر ایک ایسے مضبوط اور دیرپا اتحاد کی خواہش رکھتے ہیں جو شرق اوسط سے ایشیا تک اسلامی عدمِ استحکام کی قوس کے خلاف کام کرے‘ اور ایشیا میں بہت زیادہ توازن پیدا کرے‘ یعنی دوسرے الفاظ میں بھارت چین کا ہم پلّہ(counterweight) ہو۔

ہنری کسنجر نے بش کے دورے کے مقاصد کو بالکل صاف لفظوں میں یوں بیان کیا ہے: جارج بش کا بھارت کادورہ‘ امریکا بھارت تعلقات کو تعاون اور باہم انحصار کی اس سطح تک لے آیا جس کی مثال نہیں ہے۔بھارت اس میں کیا کردار ادا کرے گا‘ اس کی تفصیل کے چند پہلو ہنری کسنجر نے یوں واضح کیے ہیں:

اپنے قریبی پڑوسیوں اور بھوٹان‘ سِکم‘ نیپال‘ سری لنکا اور بنگلہ دیش تک جیسی چھوٹی ریاستوں کے لیے بھارت کی پالیسی کا موازنہ مغربی نصف کرّے میں امریکی مونرو ڈوکٹرائن سے کیاجاسکتا ہے‘ یعنی بھارتی بالادستی کو برقرار رکھنے کی کوشش میں‘ اگر ضرورت پڑے توطاقت کے استعمال سے بھی گریز نہ کیا جائے۔ شمال میں بھارت کا مقابلہ ہمالیہ اور تبت کے پار چینی دیو سے ہے۔ یہاں بھارت اپنے حریف سے مقابلے کے لیے کلکتہ اور سنگاپور کے درمیان علاقے میں اپنی معاشی‘ سیاسی اور اسٹرے ٹیجک اہمیت کے مطابق کردار چاہتا ہے۔

ممبئی اور یمن کے درمیانی علاقے میں بھارت اور امریکا کے مفادات انقلابی اسلام کو شکست دینے کے لیے تقریباً ایک جیسے ہیں۔ ناین الیون تک اسلامی دنیا میں حکومت عام طور پر مطلق العنان حکمرانوں کے ہاتھ میں تھی۔ بھارتی قیادت مسلم مطلق العنان حکمرانوں سے تعاون کر کے غیرجانب داری کو اپنی مسلم اقلیت کو خوش کرنے کے لیے استعمال کرتی تھی۔ یہ صورت حال اب باقی نہیں رہی ہے۔ بھارتی قیادت جانتی ہے کہ بنیاد پرست جہاد‘ دہشت گردی کے اقدامات کے ذریعے سیکولر معاشروں کی بنیادیں ڈھاکر مسلم اقلیتوں کو انقلابی بنارہا ہے۔

موجودہ بھارتی قیادت یہ بات سمجھ چکی ہے کہ عالمی بے چینی کا یہ مظاہرہ اگر پھیل گیا تو بھارت جلد یا بدیر ایسے ہی حملوں کا شکار ہوگا۔ چنانچہ دہشت گردی کے خلاف امریکی کوشش کا نتیجہ بھارت کی طویل المدت سلامتی سے بنیادی طور پر متعلق ہے۔ امریکا بھارت کی کچھ جنگیں لڑ رہا ہے۔ جہاں تدابیر میں فرق ہے‘ وہاں بھی دونوں ملکوں کے مقاصد متوازی ہیں۔

آزادی کے وقت برطانوی ہندستان کو پاکستان اور بھارت میں تقسیم کردیا گیا۔ چونکہ تقسیم سے ہندومسلم آبادیاں مکمل طور پر الگ نہ ہوسکیں‘ اس لیے آج بھی بھارت میں ۱۵کروڑ مسلمان رہتے ہیں۔ قوم پرستوں کے نزدیک پاکستان ان کے تاریخی ورثے سے علیحدہ کیا ہوا حصہ ہے۔ یہ بھارتی ریاست کے لیے ایک مستقل چیلنج ہے‘ کیوں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان ہندو بالادستی کے تحت اپنا تشخص برقرار نہیں رکھ سکتے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار اور بھارت کے ساتھ بڑھتی ہوئی شراکت میں توازن رکھنے کے لیے غیرمعمولی حساسیت اور اس حقیقت کا ادراک ضروری ہے۔

چین کے ساتھ ساتھ اسلام اور عالم اسلام کو حصار میں رکھنا اس حکمت عملی کا ایک اہم حصہ ہے جسے خود صدربش کی تقاریر میں دیکھا جاسکتا ہے اور امریکا کے درجنوں مفکر اور میڈیا کے    مبصر اس لَے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ناین الیون کمیشن کی رپورٹ سے لے کر فرانسس فوکویاما کی   حالیہ تحریروں تک میں اسے صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے اسلامی بنیاد پرستی‘ سیاسی اسلام اور انقلابی اسلام کی اصطلاحات استعمال کی جارہی ہیں۔ مارچ ۲۰۰۶ء میں امریکا نے قومی سلامتی کی حکمت عملی کی جو دستاویز شائع کی ہے‘ اس میں دہشت گردی کے ساتھ اس کا رشتہ an aggressive ideology of hatred and murder (نفرت اور قتل کا ایک جارحانہ نظریۂ حیات) کے عنوان سے مسلمانوں سے جوڑا گیا ہے البتہ ذرا پردہ رکھ کر بات کو یوں کہاگیا ہے:

دہشت گردی کے خلاف جنگ نظریات کی جنگ ہے‘ مذاہب کی جنگ نہیں۔ ہمارے مقابلے پر آئے ہوئے مختلف اقوام کے دہشت گرد اسلام جیسے قابلِ فخر مذہب کا استحصال کرتے ہیں کہ وہ ایک پُرتشدد سیاسی وژن کے طور پر کام کرے۔ وہ     دہشت گردی اور تخریب کاری کے ذریعے ایک ایسی سلطنت کا قیام چاہتے ہیں جو ہرطرح کی سیاسی اور مذہبی آزادی کا انکار کرے۔ یہ دہشت گرد جہاد کے تصور کو مسخ کرکے اسے ان لوگوں کے خلاف قتل کی دعوت میں تبدیل کردیتے ہیں جن کو وہ کافر سمجھتے ہیں‘ بشمول عیسائی‘ یہودی‘ ہندو‘ دیگر مذہبی روایات کے حامل‘ اور وہ سب مسلمان جو ان سے متفق نہیں۔ بلاشبہہ ۱۱ستمبر کے بعد بیش تر دہشت گرد حملے مسلمان ملکوں میں ہوئے ہیں اور زیادہ تر ہلاک ہونے والے بھی مسلمان ہی تھے۔

بھارت اور امریکا کے حالیہ معاہدات اور صدربش کے دورے کے مقاصد اور چیلنجوں کو اس پس منظر میں دیکھنے اور غور کرنے کی ضرورت ہے۔


عالمی تناظر میں امریکا اور بھارت کی مشترکہ حکمت عملی کو ٹھیک ٹھیک سمجھ لینے کے بعد ضروری ہے کہ صدربش کے حالیہ دورے کے ان مضمرات کو بھی سمجھا جائے جن کا تعلق پاک بھارت تعلقات سے ہے۔

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ۱۹۵۴ء میں جب سے پاکستان کھلے طور پر امریکا کے حلقۂ اثر میں آیا اور دفاع اور سیاست دونوں میدانوں میں اشتراکی اور روس کی تحدید کے فلسفے کے تحت ان معاہدوں اور اداروں کا رکن بنا جو اس سلسلے میں امریکا نے قائم کیے تھے۔ امریکا کی طرف سے باربار کی بے وفائیوں کے باوجود چار چیزیں ایسی ہیں جن کا ایک حد تک امریکا کی حکومتوں نے‘ خواہ ان کا تعلق ری پبلکن پارٹی سے ہو یا ڈیموکریٹس سے‘ احترام کیا۔

اوّل: پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں ایک توازن اور برابری کا رویہ اختیار کیا۔ ان دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات میں ایک سے معاملہ کرتے وقت دوسرے پر اس کے اثرات اور ردّعمل کو ملحوظ رکھا گیا۔ سیاسی معاملات‘ معاشی تعلقات اور فوجی ضرورت کے لیے اسلحے کی ترسیل میں ایک درجے کا توازن قائم رکھنے اور اس میں اس پالیسی کو بنیادی اہمیت حاصل رہی۔ گویا پاکستان اور بھارت سے پالیسی کے امور کی ایک جڑواں حیثیت ہے۔

دوم: پاکستان سے دوستی اور بنیادی امور پر ہم آہنگی کا رویہ اختیار کرنے کا دعویٰ کیا گیا‘ تاہم ۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۱ء میں یہ توقعات پوری نہیں ہوئیں۔ اس کے باوجود مذکورہ تصور کا خمار (hang over) باقی رہا اور افغانستان پر روس کی فوج کشی اور اس کی مزاحمت کی تحریک میں پاکستان کے کردار نے اسے مزید تقویت دی۔ حتیٰ کہ اس خودفریبی (make believe)کی چھتری میں پاکستان ساری پابندیوں اور مخالفتوں کے باوجود اپنے ایٹمی پروگرام کو ترقی دے سکا۔ یہ ایک پردہ سا تھا جو ہمیشہ رہا اور اس کا سہارا لے کر ناین الیون کے بعد دوستی کے نام پر زیردستی کا دور شروع ہوگیا۔

سوم: پاکستان کے دفاع اور سلامتی میں خصوصی دل چسپی اور اس سلسلے میں فوجی اور معاشی امداد اور تعاون کو مرکزی اہمیت دی گئی۔ بھارت اسے پاکستان کے ساتھ امریکا کا امتیازی سلوک قرار دیتا رہا اور برابر احتجاج کرتا رہا لیکن ساری اُونچ نیچ کے باوجود یہ سلسلہ جاری رہا‘ اور اس کے نتیجے میں پاکستان کا دفاعی نظام امریکی سسٹم کا حصہ بن گیا جس کے مثبت اور منفی دونوں ہی پہلو ہیں ___حقیقت میں منفی پہلو کہیں زیادہ ہیں‘ کیوں کہ اس سے ہم خطرناک حد تک امریکا کے محتاج ہوگئے ہیں۔ منفی پہلو کا اندازہ ایف-۱۶ کے سلسلے میں امریکا کی بدعہدی سے کیا جاسکتا ہے۔

چہارم: کشمیر کے معاملے میں امریکا کی دل چسپی اور اصولی طور پر پاکستان کے اس موقف کی تائید کہ جموں و کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے جو عالمی امن کے لیے خطرہ (flash point)    بن سکتا ہے۔ شروع میں تو امریکا بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہی مسئلہ کشمیر کے فیصلے کی بات کرتا تھا‘ جب کہ روس کُھلے طور پر بھارت کے موقف کی تائید کر رہا تھا۔ اس طرح اقوام متحدہ میں روس کے ویٹو کے مقابلے میں امریکا پاکستان کی حمایت کرتا رہا اور کشمیر میں مسلح تحریکِ مزاحمت کو (پچھلے دو تین سالوں میں رونما ہونے والے انحرافی رویے کے برعکس) تحریکِ آزادی ہی    تصور کرتا رہا۔ جہادی تحریک ۱۹۸۹ء سے جاری ہے اور ناین الیون کے بعد بھی امریکا نے اس کے خلاف کبھی بیان نہیں دیا۔ امریکی پالیسی میں تبدیلی کا آغاز دسمبر ۲۰۰۱ء میں دہلی کی پارلیمنٹ پرہونے والے حملے یا ڈرامے سے ہوا جو آہستہ آہستہ پختہ ہوتی گئی۔

صدربش کے حالیہ دورے نے ان چار بنیادی مقدمات (premises) میں تبدیلی پر مہرتصدیق ثبت کردی۔ اب پاکستان سے دوستی اور تعلق صرف ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا ایک پہلو ہے‘ جب کہ بھارت سے دوستی ہمہ گیر اور ہمہ جہت ہے اور مشترکہ عالمی حکمت عملی کا حصہ۔

پہلی بنیاد کی جگہ اب دونوں کے بارے میں الگ پالیسی بنانے کے اصول کو مسلمہ بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ اس تصور پر عرصہ ۱۰‘ ۱۵ سال سے کام ہو رہا تھا۔ صدربش نے صاف لفظوں میں واشنگٹن‘دہلی اور پھر اسلام آباد میں یہ اعلان کرکے کہ بھارت‘ بھارت ہے اور پاکستان‘ پاکستان اور دونوں کی ضروریات اور دونوں کی تاریخ الگ الگ ہے‘ اس نقطۂ اتصال کو بھی پارہ پارہ کردیا جو ۵۰سال سے پاکستان کی قیادتوں کی نگاہ میں بھارت کے جارحانہ عزائم کے خلاف ایک ٹوٹی پھوٹی ڈھال بنا ہوا تھا اور اب اسے پے درپے ضربوں سے اڑادینے کی کوشش کی جارہی ہے۔

یہ نہایت عیاری مگر ایک گونہ شایستگی کے ساتھ کچھ اسی قسم کا یوٹرن ہے جو ناین الیون کے بعد پاکستان کی موجودہ قیادت نے افغانستان کی حکومت کے بارے میں بڑے بھونڈے اور بے دردانہ انداز میں لیا تھا۔ انسانوں کو سبق سکھانے اور ان کی آنکھیں کھولنے کے لیے قدرت کے طریقے بھی عجیب و غریب ہیں۔ رہی پاکستانی قوم‘ تو وہ نہ پہلے مطمئن تھی اور نہ اب خائف اور دل گرفتہ۔

یہ اس جوہری تبدیلی کا کرشمہ ہے کہ اب قوم کو بتایا جارہا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی بھارت کے محور کے گرد (India Centric) نہیں گھومنی چاہیے۔ حالانکہ جنرل پرویز مشرف    نہ معلوم‘ کب کے اپنی پالیسی کا محور بدل چکے ہیں۔ ان کے دور میں ہماری پالیسی خاص طور پر صرف ایک محور کے گرد گھوم رہی ہے اور وہ ہے امریکا کا حکم اور امریکا کا مفاد۔ اب امریکا کا فلسفہ یہ ہے کہ پاکستان عملاًغیرمتعلق (irrelevent) ہے‘ اسے بھارت کے حلقۂ اثر میں رہ کر ہی اپنا مستقبل سوچنا چاہیے اور بھارت کو ایک عالمی قوت بنانا ہے تاکہ وہ چین کے دائرۂ اثر کو روک سکے۔

امریکا اور بھارت کا ایٹمی معاہدہ اسی مقصد کے حصول اور کامیابی کی منزل کے لیے ایک زینے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی کو امریکی سفارت کار کہہ رہے ہیں کہ: It is no more a zero sum game (اس میں کسی کے لیے تخت یا تختے والی بات نہیں ہے)۔ اس لیے کہ   اب بھارت امریکا کے لیے امریکی نائب وزیرخارجہ نکسن برن کے الفاظ میں singularly important (واحد اہم) ملک ہے اور بین الاقوامی امور کے بھارتی ماہرین بھی صاف سمجھ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ: اس ہفتے سب سے بڑا جیتنے والا بھارت ہی نظر آرہا تھا۔ پاکستان کے حصے میں پشت پر ایک ہلکی سی تھپکی سے زیادہ کچھ نہیں آیا۔ (سومینی سین گپتا‘ نیویارک ٹائمز)

بھارت اور امریکا کے لیے بلاشبہہ یہ بہت بڑی کامیابی ہے___ لیکن پاکستان کے لیے بھی یہ ایک انداز میں ایک حقیقی کامیابی بن سکتی ہے بشرطیکہ اس آئینے میں پاکستان کی موجودہ قیادت اپنا اصل چہرہ دیکھنے کی زحمت کرے اور سمجھ جائے کہ نئے زمینی حقائق کیا ہیں اور کس نوعیت کی متبادل حکمت عملی کا تقاضا کرتے ہیں۔ اگر اب بھی ہم حالات کا معروضی جائزہ لے کر اپنا راستہ خود متعین کریں تو پھراس ناکامی سے حقیقی کامیابیوں اور سرفرازیوں کے کئی دَر وَا ہو سکتے ہیں۔ شکست کو فتح بناکر پیش کرنے والے تباہی کے غار میں جاگرتے ہیں اور شکست کو شکست سمجھ کر نئے عزم کے ساتھ اپنی منزل کی طرف گامزن ہونے والے تاریخ کے رخ کو بدلنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اس وقت پاکستان ایک ایسے ہی فیصلہ کن لمحے (moment of truth) سے گزر رہا ہے۔

امریکا ایک سوپر پاور ضرور ہے لیکن کوئی سوپر پاور ہمیشہ سوپر پاور نہیں رہی۔ تاریخ بیسیوں سوپرپاورز کا قبرستان ہے اور امریکا تو اپنی قوت کے نقطۂ فراز سے نشیب کے سفر پر چل پڑا ہے۔ صدربش دنیا کی نگاہ میں اس وقت امریکی تاریخ کے سب سے ناکام اور ناپسندیدہ حکمران ہیں۔ خود امریکا میں ان کی شرح مقبولیت زمین کو چھو رہی ہے۔ اس وقت ۶۸ فی صد سے زیادہ امریکی ان کی کارکردگی سے غیرمطمئن ہیں۔ ادھر امریکا کا پبلک قرض مجموعی قومی پیداوار سے بڑھ گیا ہے۔ بیرونی قرضوں کا بوجھ ۴ ہزار بلین ڈالر سے متجاوز ہے۔ صرف بجٹ کا سالانہ خسارا ۲۲۰ بلین ڈالر اور   تجارتی خسارا ۷۰۰ بلین ڈالر سے متجاوز ہے۔ افغانستان اور عراق میں وہ بری طرح پھنس گیا ہے اور نکلنے کا راستہ نہیں مل رہا۔ جسے حقیقی معنی میں عالمی برادری کہاجاسکتا ہے وہ اس سے متنفر ہے اور   ابھی ۱۸مارچ کو عراق پر حملے کے تین سال مکمل ہونے پر دنیاکے کونے کونے میں بشمول امریکا   بش انتظامیہ کے خلاف بھرپور مظاہرے ہوئے ہیں۔

امریکا اور بھارت کے اپنے عزائم ہیں‘ لیکن پاکستان اور اُمت مسلمہ کے لیے اس کی گرفت سے آزاد ہوکر ایک خارجہ پالیسی اور ریاستی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے جو ایک ہی طاقت کی تابع فرمان بنے رہنے کے بجاے آزادی کے تصور پر مبنی ہو۔ اس میں یورپ‘      چین‘ لاطینی امریکا اور عالمِ اسلام کا بڑا اہم کردار ہوسکتا ہے۔ جاپان اور روس بھی اس میں اہم  کارفرما قوتیں ہوں گی۔ محض ردّعمل (reactive)کی نہیں‘ پیش قدمی (pro-active) پر مبنی خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے۔ ملک کے لیے سب سے زیادہ خطرناک اور ناکام خارجہ پالیسی وہ ہے جو ذہنی مرعوبیت‘ مجبوری اور خوف کی بنیادوں پر استوار کی جائے۔ چھوٹا یا بڑا ملک ہونا کوئی مسئلہ نہیں۔ شمالی کوریا اور لبنان کوئی بڑے ملک نہیں۔ شام‘ ایران اور بیلاروس ہم سے بڑے ملک نہیں۔ سوئٹزرلینڈ‘ بلجیم‘ ہالینڈ‘سویڈن اور ناروے کوئی سوپر پاور نہیں لیکن اپنے اپنے قومی مفاد اور عزائم کی روشنی میں خارجہ پالیسی تشکیل دیتے ہیں۔ آخر ہم کیوں خوف اور مجبوری کے تحت اپنی پالیسیاں بنائیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تشکیلِ نو درحقیقت اس کی داخلہ پالیسیوں اور نظامِ حکمرانی کی اصلاح کے بغیر ممکن نہیں۔

ہماری خارجہ پالیسی ہو یا داخلہ پالیسی‘ اصل سانحہ ہی یہ ہے کہ ملک کے دستور کے تحت اداروں کے ذریعے پالیسی سازی کے بجاے‘ فردِواحد کی پریشان فکری اور کھلنڈرانہ افتادِ طبع کے تابع ہیں۔ فوج جس کا کام سول نظام کے تحت خدمت انجام دینے کا ہے‘ اس کی قیادت سیاست‘ معیشت‘ تعلیم‘ خارجہ پالیسی‘ ہر ایک میں فیصلہ کن حیثیت اختیار کرگئی ہے۔یہ بھی ایک تلخ اور     الم ناک حقیقت ہے کہ امریکا کا بلاواسطہ ربط فوج کی قیادت سے ۱۹۵۴ء سے کسی نہ کسی شکل میں ہے۔ امریکا کے جو پانچ صدر پاکستان آئے ہیں‘ فوجی حکمرانوں کے دور ہی میں آئے ہیں۔  وائٹ ہائوس اور شعبہ دفاع (پینٹاگون) کو جو کچھ حاصل کرنا ہوتا ہے وہ جی ایچ کیو کے ذریعے حاصل کرتا ہے۔ جنرل زینی اور جنرل فرینک کی خودنوشت پڑھ لیجیے۔ جس دور میں بھی جو کام امریکا کو کروانا ہوتا ہے وہ چیف آف اسٹاف کے توسط سے کراتا ہے‘ حتیٰ کہ ایمل کاسی کے بطور مجرم حوالگی (extradition ) کو بھی اسی راستے سے حاصل کیا گیا تھا۔ خارجہ پالیسی کی تشکیل میں نہ دفترخارجہ کا کلیدی کردار ہے‘ نہ کابینہ کا‘ اور نہ پارلیمنٹ اور سیاسی قیادتوں کا___ ڈورصرف ایک مقام سے  ہل رہی ہے جسے MWA (ملٹری وہایٹ ہائوس الاینس)ہی کہا جاسکتا ہے۔ سب سے پہلے اس کی اصلاح کی ضرورت ہے تاکہ قوم کے نمایندے‘ قومی مشاورت اور گہرے سوچ بچار کے بعد‘    محض سلامتی کے نام پر نہیں بلکہ ملک و قوم کے مقاصد‘ عزائم‘ مفادات اور دیرپا ضروریات اور تقاضوں کی روشنی میں پالیسی سازی کرسکیں۔

پالیسی سازی کے طریق کار کی اصلاح کے ساتھ پالیسی کے خدوخال کو بھی ازسرنو مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکا سے دوستی اور ربط و تعلق ایک حقیقی ضرورت ہے اور اس سے      نہ صرف کسی کو انکار نہیں بلکہ اسے خارجہ سیاست میں ایک مقام حاصل ہے اور ہونا چاہیے۔ البتہ صرف امریکا کو محور مان کر بنانے والی پالیسی تباہی کا راستہ ہے جس سے جلدازجلد نجات ضروری ہے۔

ہم اُلٹے پائوں بھاگنے کے بجاے صرف سمت کی ایسی تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں‘ جس میںبجاطور پر پالیسی کا محور پاکستان ہو۔ ہماری پہلی ضرورت ہے: ذہن‘ سمت اور پالیسی کے پورے پس منظر کی تبدیلی۔ خارجہ پالیسی کے جن بنیادی پالیسی امور پر گہرے غوروخوض‘ کھلے مباحثے اور تمام متاثر ہونے والے عناصر (stake holders) بشمول فوجی قیادت کی سرگرم شرکت سے‘ نئے فیصلوں کی ضرورت ہے‘ وہ یہ ہیں:

۱- دہشت گردی کے خلاف امریکا کی نام نہاد جنگ میں پاکستان کا کردار۔ آج تک پاکستان کی ساری خارجہ پالیسی اسی ایک محور پر گھوم رہی ہے جس چکر میں امریکا نے ہمیں ڈال دیا ہے‘ اس سے نکلنا ضروری ہے۔ حقیقی دہشت گردی کے ہم خلاف ہیں لیکن کیا چیز دہشت گردی ہے اور کیا نہیں ہے اور جن اسباب‘ عوامل اور حالات کی اصلاح کے بغیر سیاست میں قوت کے استعمال کو قابو نہیں کیاجاسکتا ‘ان کے بارے میں موثر حکمت عملی کا بنایا جانا اور اس پر عمل ضروری ہے ورنہ پوری دنیا تباہی کی دلدل میں دھنستی چلی جارہی ہے اور عام انسانوں میں عدم تحفظ کا احساس تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ امریکا کے اشارے پر رقصِ بسمل کرنے کے بجاے سوچ سمجھ کر قومی و ملّی مفادات کے حصول کے لیے نئی پالیسی وضع کرنا ضروری ہے۔

۲- پاکستان کی افغان پالیسی آج تارتار ہے۔ مقتدر طبقے نے دوستوں کو دشمن بنالیا ہے اور جو محاذ محفوظ تھے ان کو غیرمحفوظ کردیا ہے۔ جو قربانیاں پاکستان نے گذشتہ ۲۵سال میں دیں‘ وہ  رایگاں جارہی ہیں اور ہاتھ میں ہزیمت اور اتہامات کے سواکچھ نہیں۔ افغان پالیسی پر مکمل نظرثانی کی ضرورت ہے اور اسے مکمل طور پر عدم مداخلت کی بنیاد پر مرتب ہونا چاہیے۔ آج بھارت‘ افغانستان میں ایک ’سخت پاکستان دشمن‘ کردار ادا کر رہا ہے اور امریکا بھارت کے اس کردار کی تحسین کر رہا ہے۔ اسلام آباد اور کابل الزامات کا تبادلہ کر رہے ہیں اور معصوم پاکستانی سرحد کے اِس پار اور اُس پار مارے جارہے ہیں۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ اس ناکام اور نامراد پالیسی کو ختم کیا جائے اور حالات کے مطابق نئی پالیسی بنائی جائے ۔

۳- بھارت کے بارے میں بھی پالیسی کی تشکیلِ نو ضروری ہے۔ بھارت امریکا گٹھ جوڑ اور اس علاقے میں اسرائیل کے ایک کارفرما قوت بن جانے کے بعد ہماری پالیسی کے پرانے خطوط  بے کار ہوگئے ہیں۔ کشمیر کے معاملے میں جو قلابازیاں فوجی حکمرانوں نے کھائی ہیں‘ اس نے کشمیر کے عوام اور مزاحمتی تحریک کو مایوس کیا ہے۔ تاہم ابھی وقت ہے کہ سنبھل کر بھارت سے تعلقات اور مسئلہ کشمیر پر ایک جامع پالیسی وضع کی جائے اور فوری نتائج سے زیادہ اصل مقاصد اور اہداف کی روشنی میں وسطی مدت اور طویل مدت کی حکمت عملی تیار کی جائے تاکہ پوری قوم اس کی پشت پر ہو۔

۴- ایران کے بارے میں بھی پالیسی کو واضح کرنے اور پاک ایران اتحاد کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ ایران پر امریکی حملہ پاکستان پر حملے کا پیش خیمہ ہی نہیں‘ پاکستان پر ایک بھرپور وار ہوگا۔ اس وقت اس کی پیش بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس محاذ پر بھی پیش اِقدامی (pro-active) پالیسی کی ضرورت ہے۔

۵- چین سے ہمارے تعلقات استوار رہے ہیں۔ اگر کوئی ہمارا اسٹرے ٹیجک شراکت دار ہے تو وہ چین ہی ہے۔ اس کے ساتھ پالیسی کو زیادہ موثرانداز میں مربوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح یورپ‘ روس‘ جاپان اور جنوبی امریکا کے ممالک سے روابط اور پالیسیوں میں ہم آہنگی ضروری ہے۔

۶- سب سے بڑھ کر مسلم ممالک کی تنظیم (OIC) کو متحرک و منظم کرنا اور اسے موثر بنانا ضروری ہے۔ اس کے لیے بہترین حکمت عملی وہ ہے جسے ۱۰سال پہلے ترکی کے اس وقت کے وزیراعظم ڈاکٹر نجم الدین اربکان نے ڈی-۸ کے منصوبے کے تحت پیش کیا تھا۔ آٹھ مسلمان ملک عالمِ اسلام کی طاقت کے مراکز ہیں۔ ان کا منظم ہونا‘ مل کر سیاسی‘ تعلیمی‘ معاشی اور دفاعی حکمت عملی تیار کرنا سب کی قوت کا ذریعہ ہوگا اور وسیع تر اسلامی اتحاد اور دنیا میں امن کا ذریعہ بنے گا۔

۷- توانائی اور پانی دو بڑے مسئلے ہیں جن پر مستقبل کی ترقی اور ملک کی آزادی کا انحصار ہے۔ ان کے بارے میں دُور رس پالیسی بنانا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں اُمت مسلمہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ دنیا کے توانائی کے وسائل کا ۸۰ فی صد مسلم دنیا کے پاس ہے۔ صحیح توانائی پالیسی سے ہم عالمی سیاست میں بڑا اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

یہ سب کام اسی وقت ممکن ہیں جب پاکستان کا اندرونی نظام حکمرانی درست ہو۔ اپنے گھر کی اصلاح اور تنظیم نو کے بغیر کوئی کام ممکن نہیں۔ ملک میں دستور کے تحت حقیقی جمہوری نظام کا قیام ازبس ضروری ہے۔ فوج کی بالادستی کے ذریعے جو نظام‘ پاکستان میں مسلط کیا گیا ہے‘ وہ ملک کے استحکام‘ فوج کی قوت اور عوام کی فلاح و بہبود کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ آج وزیرستان اور بلوچستان جس آگ میں جل رہے ہیں‘ اسے بجھائے بغیر اور سیاسی مسائل کو سیاسی حکمتِ عملی سے حل کیے بغیر‘ کوئی خیرحاصل نہیں کیاجاسکتا۔ اس لیے ملکی نظام کی اصلاح خود خارجہ سیاست کو درست کرنے کے لیے ضروری ہے۔

اسی طرح معیشت کا استحکام اور ترقی‘ تعلیم و تحقیق کا فروغ‘ جدید ٹکنالوجی کا حصول اور اسے مزید ترقی دینے کی مساعی اندرونی اصلاح کا اہم حصہ ہیں۔ یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہے جب ایک مخصوص ٹولے کی بالادستی کو ختم کرکے ملک کے تمام دستوری اداروں کو متحرک کرنے‘ استحکام بخشنے اور ان کے ذریعے ملک کی ترقی کی راہیں ہموار کی جائیں۔

آج اگر پاکستانی قوم اور اس کی موجودہ قیادت صدر جارج بش کے دورے کے نتیجے میں حاصل ہونے والی ہزیمت اور بدنامی سے صحیح سبق سیکھ لے اور اپنا قبلہ درست کرلے‘ تو پھر یہ چرکا کوئی زخم نہیں چھوڑے گا بلکہ اصلاح اور بلندی کی طرف سفر کے لیے تازیانہ بن جائے گا۔ ایسے تازیانے قوموں کی زندگی میں بڑا تاریخی کردار ادا کرتے اور شکست کے مقابلے میں فتح کے دروازے کھول دیتے ہیں۔

کیا پاکستانی قوم اور قیادت اس شکست کو فتح میں تبدیل کرنے کے لیے تیار ہے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جس طرح جنگ میں دشمن کے مقابلے کے لیے صحیح حکمت عملی کے تعین کے لیے ضروری ہے کہ نقشۂ جنگ اور محرکاتِ جنگ کو ٹھیک ٹھیک سمجھا جائے‘ بالکل اسی طرح فکری اور تہذیبی جنگ میں کامیابی کا انحصار بھی نقشۂ جنگ اور محرکاتِ جنگ دونوں کے صحیح ادراک پر ہے۔ آج ڈنمارک کے اخبار یولاند پوسٹن (Jyllands Posten) کے ۱۲ کارٹونوں کے ذریعے مغرب کے سورمائوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک‘ اسلام اور مسلمانوں کو تمسخر‘ تضحیک اور اہانت کا ہدف بناکر اور دہشت گردی کا منبع اور علامت قرار دے کر جس عالمی تہذیبی جنگ کا   اعلان کیا ہے اس کی اصل نوعیت کو سمجھنا اور اس کے مقابلے کے لیے صحیح حکمت عملی بنانا فی الوقت دنیاے اسلام کا سب سے اہم مسئلہ بن گیا ہے۔

فطری طور پر مسلم عوام نے اپنے عالم گیر ردّعمل سے یہ ظاہر کردیا ہے کہ اُمت صرف مٹی کا ڈھیر نہیں ہے۔ اس میں ایمان اور غیرت کی وہ چنگاری بھی موجود ہے جو طاقت کے زعم میں بدمست اربابِ اقتدارکے متکبرانہ اقدامات کو چیلنج کرنے کا داعیہ رکھتی ہے اور جس میں ایسا شعلہ جوالہ بننے کی استعداد بھی ہے جو بڑے بڑے محل نشینوں کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔

اُمت مسلمہ کا ردّعمل فوری بھی ہے اور فطری بھی‘ لیکن مسئلہ محض وقتی ردّعمل کا نہیں بلکہ مقابلے کی مکمل اور مربوط حکمت عملی اور ہرسطح پر اس کے مطابق پوری تیاری کے ساتھ مسلسل جدوجہد کا ہے۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ ان شیطانی کارٹونوں کے ذریعے اُمت مسلمہ کو جس تہذیبی کروسیڈ کا ہدف بنایا گیا ہے‘ اس کے اصل نقشے اور اس جنگ کے اسلوب‘ اہداف اور تمام محاذوں کو سمجھا جائے اور مقابلے کی تیاری کی جائے۔ جہاں فوری ردّعمل ضروری تھا‘ وہیں دوسرے تمام پہلوئوں کو نظرانداز کرکے محض جذباتی اظہارِ نفرت اور غیظ و غضب سے اس معرکے کو سر نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ اُمت مسلمہ اور اس کی قیادت گہرائی میں جاکر حالات کا صحیح ادراک کرے اور مقابلے کی حکمت عملی ان تمام پہلوئوں کو سامنے رکھ کر طے کرے۔


مغرب کی استعماری قوتوں کا یہ خیال تھا کہ دوسری جنگ کے بعد جو عالمی نظام قائم ہوگا ‘وہ صرف امریکا اور یورپی اقوام کے سیاسی غلبے سے ہی عبارت نہیں ہوگا بلکہ پوری دنیا میں مغربی تہذیب‘ فلسفے‘ اقدار‘ معیشت اور اصول حکمرانی کا دور دورہ ہوگا۔ ان کا خیال تھا کہ مذہب کا دور اب ختم ہوچکا ہے اور لادینی تہذیب کو مادی اور عسکری غلبے کے ساتھ ساتھ فکری بالادستی بھی حاصل ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں وہ پوری انسانیت کو اپنے رنگ میں رنگ لے گی۔ امریکا اور روس کی سردجنگ ایک ہی تہذیب کے دو مرکزوں کی جنگ تھی جو بالآخر امریکا کی بالادستی پر منتج ہوئی اور جلد ہی روس میں بھی لبرلزم اور جمہوریت کی وہی آوازیں بلند ہونے لگیں جو امریکا اور نام نہاد آزاد دنیا کی شناخت تھیں۔ اس زمانے میں ڈیڑھ سو سے زیادہ نئے ملک دنیا کے سیاسی نقشے پر اُبھرے لیکن بظاہر ان کے پاس نہ تو کوئی اپنا نظریہ تھا اور نہ سیاسی‘ معاشی اور عسکری اعتبار سے وہ کوئی وزن رکھتے تھے اس لیے روس کے اشتراکی ڈھانچے کے تتر بتر ہوتے ہی صرف ایک نظریے اور ایک تہذیب کے عالمی غلبے کے خواب دیکھے جانے لگے___ لیکن اس میں ایک سدّراہ کی بھی نشان دہی کی جانے لگی یعنی اسلام، ’سیاسی اسلام‘ اور اُمت مسلمہ جو اپنا تہذیبی تشخص رکھے اور اس تشخص کے اظہار اور استحکام کے لیے اجتماعی نظام‘ قانون‘ معیشت‘ معاشرت‘ تمدن اور سیاسی قوت کی طلب گار ہو۔ یہی وجہ ہے کہ روس کے عالمی قوت کی حیثیت سے میدان سے باہر ہوتے ہی اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا آغاز ہوگیا۔

مغربی استعمار کے خلاف جنگ‘ بظاہر آزادی اور قوم پرستی کے نام پر ہورہی تھی اور حق خودارادیت اس کا محور تھا مگر اسلامی دنیا میں اس کی پشت پر جو سب سے قومی محرک تھا وہ اسلام اور اس کا دیا ہوا تصورِحیات تھا۔ تحریک پاکستان میں یہ پہلو زیادہ واضح اور کھلا کھلا تھا‘ جب کہ دوسرے ممالک میں اگرچہ یہ مؤثر طور پر موجود تھا۔ اصحابِ نظر اور تاریخ پر گہری نگاہ رکھنے والے بخوبی اس سے واقف تھے مگر اظہار اور اعلان کے اعتبار سے ہر جگہ اتنا نمایاں نہیں تھا۔ ولفریڈ اسمتھ اس حقیقت کا کھلا اعتراف کرتا ہے کہ:

جوں جوں آزادی کی تحریک عوام میں مقبول ہوتی چلی گئی ‘ اس کی پس پشت قوت کے طور پر مذہب سامنے آتا گیا۔ اگرچہ تحریک کے نظریات‘ ہیئت اور قائدین زیادہ تر مغربی انداز پر قوم پرستانہ خیالات کے حامل تھے‘ تاہم عام وابستگان اور ان کے اعمال اور احساسات میں نمایاں طور پر اسلامی رنگ کا غلبہ تھا۔ مسلم عوام نے قومیت کا کوئی ایسا تصور قبول نہیں کیا جو اسلام کے بندھنوں سے ماورا کسی برادری کے ساتھ وفاداری یا کسی  اور تعلق پر مبنی ہو۔ (Islam in Modern History ‘ پرنسٹن ۱۹۵۷ئ‘         ص ۷۵-۷۷)

۱۹۷۹ء کے ایران کے اسلامی انقلاب‘ ۱۹۷۹ء تا۱۹۸۹ء کے جہاد افغانستان اور ۱۹۷۳ء کے بعد مسلم ممالک میں اسلامی تحریکات اور اتحاد اسلامی کی اجتماعی مساعی نے جہاں اُمت مسلمہ میں اپنے تشخص کی حفاظت اور اپنی اقدار اور تصورات کے مطابق اجتماعی زندگی کی نقشہ بندی کا احساس پیدا کیا‘ وہیں مغربی اقوام کے لیے یہ احساس اور یہ کوشش خطرے کی گھنٹی بن گئی اور اسلام کو مغربی اقوام کے سیاسی مقاصد کے حصول کی راہ میں ایک رکاوٹ اور خطرہ بناکر پیش کیا جانے لگا۔ اس سلسلے میں صہیونی اور امریکی اہلِ قلم نے کلیدی کردار ادا کیا جن میں برنارڈ لیوس‘ سیمویل ہن ٹنگٹن‘ ڈینیل پائپس‘ ہنری کسنجر اور فرانسس فوکویاما خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں۔ ناین الیون کے بعد اسلام کوجس بے دردی سے دہشت گردی کا مذہب اور ہرمسلمان کو ایک بالقوہ دہشت گرد (potential terrorist) کے روپ میں پیش کیا جارہا ہے اس کے فکری ڈانڈے تہذیبی جنگ کے متذکرہ بالا اوّلین قائدین کے رشحاتِ قلم سے جاملتے ہیں۔ صدربش اور ان کے نیوکونز (neo-cons) کا پورا طائفہ مختلف انداز میں کبھی بالکل کھلے طور پر اور کبھی منافقانہ انداز میں اور شاطرانہ اسلوب میں یہی بات کہہ رہا ہے۔ صدربش کے اس سال کے خطاب بہ عنوان State of the Nation (جنوری ۲۰۰۶ئ) میں کھل کر کہا گیا ہے کہ ہمارا اصل مقابلہ ’سیاسی اسلام‘ (political Islam)اور اسلامی بنیاد پرستی (Islamic fundamentalism) سے ہے۔ اور یہی وہ مرکزی نکتہ ہے جو ہن ٹنگٹن نے پوری چابک دستی کے ساتھ مغرب کے پالیسی سازوں کے ذہن میں بٹھانے کی کوشش کی ہے‘ یعنی:

مغرب کا اصل مسئلہ اسلامی بنیاد پرستی نہیں‘ خود اسلام ہے۔ یہ ایک مخصوص تہذیب ہے جس کے وابستگان اپنے تمدن کی برتری کے قائل ہیں اور اور اقتدار و اختیار سے محرومی کی وجہ سے پریشان ہیں۔ اسلام کے لیے مسئلہ سی آئی اے یا امریکا کا محکمہ دفاع نہیں‘ مغرب ہے۔ یہ ایک مختلف (اور متصادم) تہذیب ہے جس کے داعی اپنی تہذیب کی آفاقیت کے قائل ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ ان کی (بظاہر زوال پذیر) مگر بالاتر طاقت تقاضا کرتی ہے کہ اس تمدن کو پوری دنیا میں پھیلا دیا جائے۔ یہ وہ بنیادی عناصر ہیں جو اسلام اور مغرب کے درمیان تنازعے میں جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں۔ (The Clash of Civilizations ،سیمویل پی ہن ٹنگٹن)

بات بہت واضح ہے۔ تصادم کی وجہ دو تہذیبوں کا اختلاف نہیں۔ مغرب کا یہ عزم ہے کہ اس کی تہذیب بالاتر ہے اور اسے دنیا میں بالادست ہونا چاہیے۔ جو چیز کش مکش اور تنازعے کو   جنم دے رہی ہے اور پروان چڑھا رہی ہے وہ یہ تصور ہے کہ جو طاقت مغرب کو حاصل ہے‘ اس کا استعمال مغربی تہذیب کو ساری دنیا پر مسلط کرنے کے لیے ہونا چاہیے اور یہ گویا کہ ایک واجب   اور فرض ہے جسے انجام دینا مغرب کی ذمہ داری ہے۔ مغرب کی حکمت عملی میں دو تہذیبوں کی بقاے باہمی اور تعاون اور ایک دوسرے کے احترام کا کوئی مقام نہیں‘ اور یہی وہ چیز ہے جو عالمی امن کے لیے خطرے اور جنگ و جدال کی راہ ہموار کرنے کا سبب ہے۔ قوت کے عدمِ توازن کی وجہ سے کمزور ممالک اور اقوام وہ راستے اختیار کرنے پر مجبور ہوتی ہیں جو برابربرابر کی جنگ سے مختلف ہیں۔

یہ ہے وہ فکری‘ تہذیبی اور عسکری نقشۂ جنگ جس میں:

  • ۳۰ ستمبر ۲۰۰۵ء کو ڈنمارک کے اخبار یولاند پوسٹن نے ۱۲ شیطانی کارٹون شائع کیے۔
  •  اس پر مسلم دنیا کا ردّعمل نرم رہا۔
  • آگ کو تیز کرنے اور جلتی پر تیل ڈال کر‘ اُسے مزید بھڑکانے کے لیے جنوری ۲۰۰۶ء میں ۲۲ممالک کے ۷۵ اخبارات و رسائل میں انھیں شائع کیا گیا۔
  •  ۲۰۰ ریڈیو اور ٹی وی چینلوں پر اُنھیں دوبارہ بلکہ سہ بارہ نشرکیا گیا۔ اور یہ سب آزادیِ اظہار‘ آزادیِ صحافت اور سیکولر جمہوریت کے نام پر کیا گیا۔
  •  ہالینڈ کے اخبارات نے لکھا کہ ہم یہ کارٹون ہر ہفتے شائع کیا کریں گے تاکہ مسلمان ان کے عادی ہوجائیں۔
  •  اٹلی کے ایک وزیر نے ان کی ٹی شرٹ خود استعمال کی اور اسے ایک فیشن کے طور پر فروغ دینے کے پروگرام کا اعلان کیا۔

یہ محض چند کارٹون نہیں بلکہ اِن کی اشاعت ایک وسیع تر مہم کا حصہ ہے‘ پوری اسلامی دنیا کے عقیدے اور تہذیب کے خلاف برملا اعلانِ جنگ ہے اور خودپسندی اور تکبر کے مقام بلند سے استہزا‘ تذلیل اور اہانت کے ہتھیاروں سے اُمت مسلمہ کی غیرت اور عزت پر حملہ ہے۔ اگر اس کا بروقت اور مؤثر جواب نہ دیا جاتا تو اس سے بڑا سانحہ اُمت کی تاریخ میں نہ ہوتا۔ مسلم عوام نے اپنی سیاسی کمزوری کے باوجود‘ اپنی غیرتِ ایمانی کا اظہار کر کے تاریخ کا ایک نیا باب رقم کیا ہے اور وقت کے فرعونوں‘ جابر حکمرانوں اور دوسروں کی عزت سے کھیلنے والوں کو چیلنج کیا ہے اور اُمت اپنے دین‘ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور ناموس کا دفاع اور اپنی تہذیب اور اقدار کے تحفظ کے لیے پوری سرفروشی کے ساتھ میدان میں اتر آئی ہے۔ یہ جنگ طویل ہے اور فیصلہ کن بھی___ فوری احتجاج‘ جلسے اور جلوس‘ سفارتوں کا انقطاع‘ سیاسی تنائو‘ معاشی بائیکاٹ اس کا صرف پہلا مرحلہ ہیں۔ بلاشبہہ یہ ناگزیر تھے اور دشمن کے اعلانِ جنگ کے بعد دعوت مبارزت قبول کرنے کا اوّلیں اقدام___ لیکن اصل جنگ فکری‘ تہذیبی‘ معاشی اور سیاسی ہے اور بہت طویل ہے۔ اس لیے ہر سطح پر اس میں شرکت‘ مقابلے کے لیے مناسب تیاری‘ اور صحیح حکمت عملی کے ذریعے بازی سر کرنے کی نقشہ بندی اُمت مسلمہ کی اوّلیں ضرورت ہے۔ ان تمام مراحل اور ان کے لیے وسائل اور ضروری تیاری (mobilization) کے بغیر اس جنگ کا جیتنا ممکن نہیں۔ اللہ پر بھروسا ہماری قوت ہے‘ اصل سرچشمہ ہے لیکن یہ بھی اللہ ہی کا حکم ہے کہ مقابلے کے لیے ایسی قوت بھی حاصل کرو جو مدمقابل پر ہیبت طاری کردے۔

وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ وَاٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِھِمْ لَا تَعْلَمُوْنَھُمْ - (الانفال ۸:۶۰)

اور ان کے لیے جس حد تک کرسکو فوج اور بندھے ہوئے گھوڑے تیار رکھو جس سے  اللہ کے اور تمھارے ان دشمنوں پر تمھاری ہیبت طاری رہے اور ان کے علاوہ کچھ دوسروں پر بھی جنھیں تم نہیں جانتے ہو۔


یہ ۱۲ شیطانی کارٹون اتفاقی طور پر شائع نہیں ہوگئے۔ ان کا خاص پس منظر ہے۔ یولاند پوسٹن کے ثقافتی امور کے ایڈیٹر فلیمنگ روز (Flemming Rose)نے باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت اس فکری اور تہذیبی جنگ کا آغاز کیا۔ اس اقدام سے ایک سال پہلے وہ امریکا گیا اور وہاں اسلام دشمنی کی مہم چلانے والوں کے سرخیل ڈینیل پائپس سے خصوصی صلاح و مشورہ ہوا۔ ڈینیل پائپس پچھلے ۴۰ سال سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف قلمی جنگ کر رہا ہے۔ دسیوں کتابوں اور سیکڑوں مضامین کا مصنف ہے۔ صہیونی تحریک میں اونچا مقام رکھتا ہے اور فلسطینیوں کے بارے میں کھلے عام کہتاہے کہ ان کو فوجی قوت سے نیست و نابود کرنے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں۔ صدربش نے اسے ایک ایسے تھنک ٹینک کا مشیر بنایا تھا جس کے مصارف سرکاری خزانے سے برداشت کیے جاتے ہیں۔ اس مشاورت کے نتیجے میں فلیمنگ روز نے کارٹون بنانے والے ۴۰افراد کو دعوت دی اور کہا کہ تم سب موضوعات پر کارٹون بناتے ہو اور شخصیات کا تمسخر بھی اُڑاتے ہو لیکن اسلام کو تم نے کبھی تختۂ مشق نہیں بنایا۔ تو اب اسلام کا چہرہ دکھانے کے لیے اپنے برش حرکت میں لائو۔ ان ۴۰میں سے ۱۲ افراد کے کارٹون ۳۰ستمبر ۲۰۰۵ء کی اشاعت میں The Painting of a Portrait of Islam's Prophet (پیغمبراسلام کی تصویر کا خاکہ) کے عنوان سے شائع کیے گئے اور اس دعویٰ سے کیے گئے کہ اس طرح مسلمانوں کی ’تنگ نظری‘ کا علاج ہوسکے گا۔ ان کارٹونوں کو ہر کسی نے ناخوش گوار‘ اشتعال انگیز اور توہین آمیز قراردیا۔ واشنگٹن پوسٹ نے انھیں a calculated insult (ایک نپی تلی توہین) قرار دیا مگر عالمِ اسلام کے تمام احتجاج کے باوجود ایڈیٹر‘ کارٹونسٹ‘ مغربی میڈیا کی اکثریت اوروہاں کی سیاسی قیادت نے آزادیِ صحافت‘ آزادیِ اظہار راے اور سیکولر جمہوریت کا سہارا لے کر ان کا دفاع کیا اور اب تک ان کی اشاعت کو غلطی تسلیم کرکے معذرت کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ مصلحت کے تحت جو بات کہی جارہی ہے وہ صرف یہ ہے کہ ہم نے تو جو کیا‘ وہ درست کیا تھا۔ افسوس صرف اس پر ہے کہ اس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ حالانکہ اصل مقصد ہی اسلام‘ اسلام کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو دہشت گرد دکھانا اور اُنھیں بے ہودہ جنسی مذاق کا نشانہ بنانا تھا۔ اب تک فلیمنگ روز کا دعویٰ ہے کہ I do not regret having commissioned these cartoons. (مجھے یہ کارٹون بنوانے پر کوئی افسوس نہیں ہے)۔

اسی طرح اصل کارٹونسٹ کرٹ ویسٹرگارڈ (Kurt Westergaard) کا بیان لندن کے اخبارات میں ۱۸ فروری کو شائع ہوا ہے۔ ہیرالڈ نامی رسالے کے استفسار پراس نے صاف کہا کہ کارٹونوں کا اصل محرک یہ دکھانا ہے کہ اسلام اور پیغمبر اسلام [صلی اللہ علیہ وسلم] نعوذ باللہ دہشت گردی کی علامت ہیں۔

جب پوچھاگیا کہ کیا اسے ان کارٹونوں کی اشاعت پر افسوس ہے؟ اس نے صاف جواب دیا: نہیں۔ اس نے کہا کہ ان خاکوں کے پیچھے ایک جذبہ کارفرما تھا: دہشت گردی جسے  اسلام سے روحانی اسلحہ فراہم ہوتا ہے۔ (اے ایف پی رپورٹ‘ ڈان، ۱۹ فروری ۲۰۰۶ئ)

ڈنمارک کے وزیراعظم نے پہلے ۱۱ مسلمان سفرا سے ملنے سے انکار کیا۔ جب ۲۷ مسلمان تنظیموں کے نمایندے ۱۷ہزار مسلمانوں کے دستخطوں سے ان کے خلاف احتجاج اس کو دینے گئے تو لینے سے انکار کردیا گیا اور اب سارے عالمی احتجاج کے باوجود ان کا موقف یہ ہے کہ یہ سب ایک جمہوری ملک میں آزادیِ اظہار کا مسئلہ ہے اور اصرار کے باوجود انھوں نے کھلے طور اسے غلطی ماننے اور صاف الفاظ میں مسلمانوں سے معافی مانگنے سے احتراز کیا ہے۔ الاھرام کے ایڈیٹر نے طرح طرح سے سوالات کیے مگر ڈنمارک کے وزیراعظم ٹس سے مس نہ ہوئے اور یہی کہتے رہے کہ: جو کچھ بھی شائع ہوا ہے ‘ اس کے لیے ڈنمارک کے عوام اور حکومت کو ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔(ہفت روزہ الاھرام، ۱۲ فروری ۲۰۰۶ئ)

نہ صرف ڈنمارک کے وزیراعظم اور وزیرخارجہ کا رویہ تکبر اور تعصب سے بھرا ہوا ہے بلکہ مسلمانوں کو طیش دلانے اور ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے ناروے‘ جرمنی‘ فرانس‘ اٹلی‘ اسپین اور خود امریکا کے چند اخبارات نے ان کارٹونوں کو شائع کیا۔ یورپین یونین کے صدر نے مسلمانوں سے ہمدردی کے اظہار کے ساتھ آزادیِ صحافت کے نام پر ان شیطانی کارٹونوں کی اشاعت کی مذمت سے انکار کیا بلکہ خود صدربش اور ٹونی بلیر نے اپنے خبث باطن کے اظہار کے لیے ڈنمارک کے وزیراعظم کو ٹیلی فون کر کے اپنے تعاون کا یقین دلایا جس نے ڈنمارک کے وزیراعظم کو یہ کہنے کا موقع دیا کہ Islamic World must realise we are not isolated (اسلامی دنیا کو محسوس کرنا چاہیے کہ ہم تنہا نہیں ہیں۔ انٹرویو‘ ڈیلی ٹائمز‘ ۱۴ فروری ۲۰۰۶ئ)۔

سارے حالات اورحقائق سے ظاہر ہے کہ یہ محض ڈنمارک کے ایک اخبار کی شرارت نہیں بلکہ ایک عالمی مہم ہے جس میں ڈنمارک کو ذریعہ بنایاگیا ہے اور سب کا ہدف اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنانا اور اسلام کی سب سے مقدس شخصیت اور اللہ کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی اور ان کو نعوذ باللہ دہشت گرد کے روپ میں دکھاکر مسلمانوں کو دہشت گردی کا منبع قرار دینا ہے۔ اسی طرح جہاد کو‘ جو انصاف کے قیام کی ضمانت‘ آزادی کا محافظ اور ظلم اور بیرونی قبضے کے خلاف مزاحمت کا ذریعہ ہے‘ دہشت گردی کا نام دے کر مسلمانوں کو تہذیبی ہی نہیں سیاسی اور معاشی غلامی کے جال میں پھنسانا ہے___ الحمدللہ! مسلمان اس شیطانی کھیل کو سمجھتے ہیں اور مسلمان حکمران خواہ کتنے بھی غافل ہوں بلکہ ان میں سے کچھ سامراجی قوتوں کے آلہ کار ہی کیوں نہ ہوں‘ لیکن مسلمان عوام اپنے دین‘ اپنے ایمان‘ اپنے نبیؐ کی عصمت اور عزت اور اپنے نظریۂ حیات کی بنیادی اقدار کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگانے کو تیار ہیں اور کوئی رکاوٹ اس جہاد میں ان کا راستہ نہیں روک سکتی۔ دنیا کے ہر خطے سے احتجاج اُمت مسلمہ کی زندگی کی علامت ہے اور باطل کی قوتوں کے لیے اس میں واضح پیغام ہے کہ مسلمانوں کو نرم نوالا نہ سمجھا جائے۔


اس احتجاج کے نتیجے میں پہلی فتح مسلمانوں کو یہ حاصل ہوئی ہے کہ اب سب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ کارٹون نامناسب تھے‘ مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے والے تھے‘ اور بدذوقی ہی نہیں بدکلامی‘ تضحیک اور عزت پر حملے کے مترادف تھے___ لیکن اس اعتراف کے باوجود       دو دعوے پورے تسلسل سے اور ڈھٹائی کے ساتھ کیے جارہے ہیں اور ایک جوابی اعتراض کی شکل میں مزید داغا جا رہا ہے جن کا جائزہ ضروری ہے۔

پہلا دعویٰ یہ ہے کہ مغربی معاشرے کی بنیاد اظہار راے کی آزادی یعنی آزادیِ صحافت پر ہے اور اس پر کوئی قدغن نہیں لگائی جاسکتی۔ دوسرے الفاظ میں گو ان شیطانی خاکوں سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں اور ایسا عالم گیر احتجاج رونما ہوا ہے جس میں بیسیوں افراد شہید ہوگئے ہیں اور اربوں کا نقصان ہوا ہے لیکن پھر بھی مغربی ممالک اور حکومتوں کے لیے اظہار راے کی تحدید ممکن نہیں اور خوداحتسابی (self-censorship) کے علاوہ کوئی راستہ ایسے شیطانی حملوںکو روکنے کا نہیں۔ اظہار راے اور آزادیِ صحافت پر پابندی مغربی معاشرے و تہذیب کی بنیادی اقدار کے منافی ہوگی۔

دوسرا دعویٰ یہ ہے کہ مغربی تہذیب کی بنیاد سیکولرزم پر ہے اور مسلم معاشرہ مذہبی اقدار پر ایمان رکھتا ہے۔ سیکولرزم میں مذہب اور مذہبی شخصیات کا مذاق اڑانا ایک معمول ہے‘  جب کہ مسلمان اس کے عادی نہیں اور اسی وجہ سے یہ تصادم کی کیفیت پیدا ہوئی ہے۔ یہ دو رویوں (attitudes) کا معاملہ ہے اور سوسائٹی کے بارے میں دو تصورات کا اختلاف ہے___ اور دعویٰ یہ ہے کہ سیکولرزم میں ایسا ہی ہوتا ہے اور ہوگا اور مسلمانوں کو اگر سیکولر معاشرے میں رہنا ہے تو اس کو گوارا کرنا ہوگا۔

تیسری بات کا تعلق احتجاج کی اس نوعیت سے ہے جو چند ملکوں میں رونما ہوئی ہے اور اس میں تشدد کا عنصر آگیا جس سے بہت سی جانوں اور مال کاضیاع ہوا ہے۔ نیز مغربی ممالک کے نقطۂ نظر سے معاشی بائیکاٹ بھی احتجاج کی ایک ناقابلِ قبول صورت ہے اور یورپی یونین نے اس صورتِ حال میں عالمی تنظیم تجارت (WTO)  سے دادرسی تک کی دھمکی دی ہے۔

ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان تینوں امور کا بے لاگ جائزہ لیا جائے اور مغرب کے   دانش وروں‘ اہل قلم‘ صحافیوں اور سیاسی قائدین کے ان بیانات کا علمی تعاقب کیا جائے۔

آزادیِ اظہار راے اور آزادیِ صحافت پر مغربی اقوام اپنی اجارہ داری کا کیسا ہی دعویٰ کریں‘ حقیقت یہ ہے کہ ان کا تعلق ہمیشہ سے انسانی معاشرے اور تہذیب سے رہا ہے اور یہ ان کی ایجاد نہیں۔ آج بلاشبہہ مغربی ممالک میں ان اقدار کا بالعموم اہتمام و احترام ہو رہا ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ انھی ممالک میں ان آزادیوں کا خون نہ کیا جا رہا ہو۔ دنیا کی تمام تہذیبوں میں اپنے اپنے زمانے میں آزادیِ اظہار کا ایک مرکزی مقام رہا ہے گو اس کے آداب اور اظہار کے طریقوں میں فرق رہا ہے۔اسلام نے اوّل دن سے آزادیِ اظہار کو ایک بنیادی انسانی ضرورت اور قدر کی حیثیت سے تسلیم کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزادی دے کر پیدا کیا ہے اور وہ اس آزادی کو اس حد تک بھی لے جاسکتا ہے کہ خود اپنے خالق کا انکار کر دے۔ بلاشبہہ اس انکارکے نتائج اس کو بھگتنے پڑیں گے مگر انکار کا حق اسے دیا گیا ہے۔ مغرب کو زعم ہے کہ روسو نے یہ کہا تھا کہ Man is born free, but is everywhere in chains.(انسان آزاد پیدا ہوا‘ لیکن ہر جگہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے)۔ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ آزادی کا تصور وحی الٰہی پر مبنی ہے اور قرآن اس کا جامع بیان ہے۔ نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ حجۃ الوداع (۹ہجری) تاریخ کا پہلا چارٹر ہے اور سیدنا حضرت عمررضی اللہ عنہ نے روسو سے بارہ سو سال پہلے فرمایا تھا کہ تم نے انسانوں کو غلام کب سے بنا لیا؟ ان کی مائوں نے انھیں آزاد جنا تھا۔

قولوا قولاً سدیدا کا حکم دے کر قرآن نے آزادیِ اظہار کا دستوری حق تمام انسانوں کو دیا۔ لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ کے اصول میں مذہبی رواداری اور حقیقی تکثیریت (genuine plurality) کی قانونی اور اخلاقی حیثیت کو تسلیم کیا گیا۔ امرھم شورٰی بینھم کے ذریعے پورے اجتماعی نظام کو آزادی‘ مشاورت اور حقیقی جمہوریت سے روشناس کرایا گیا۔ حکمرانوں سے اختلاف کے حق کو فان تنازعتم فی شیء فردوہ الی اللّٰہ ورسولہ کے فرمان کے ذریعے قانون کا مقام دے دیاگیا۔ آزادیِ اظہار پر مغرب کی اجارہ داری کا دعویٰ تاریخ کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔

لیکن آزادی کے معنی مادر پدر آزادی نہیں‘ آزادی تو صرف اس وقت ہی ممکن ہوسکتی ہے جب اس کی حدود کا واضح تعین ہو اور ایک کی آزادی دوسروں کے لیے دست درازی اور غلامی کا طوق نہ بن جائے۔ جرمن مفکر ایمانویل کانٹ (Immanul Kant)نے بڑی پتے کی بات کہی ہے جب اس نے کہا کہ:

I am free to move my hand but the freedom of my hand ends where your nose begins.

میں اپنے ہاتھ کو حرکت دینے میں آزاد ہوں‘ لیکن جہاں سے تمھاری ناک شروع ہوتی ہے‘ میرے ہاتھ کی آزادی ختم ہوجاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آزادی اور انارکی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ آزادی اگر حدود سے آزاد ہوجائے تو پھر انارکی بن جاتی ہے اور دوسروں کے حقوق پامال ہوتے ہیں۔ آزادی اور   ذمہ داری اور آزادی اور حدود کی پاس داری لازم و ملزوم ہیں۔ آزادیِ اظہار کے نام پر نہ تو دوسروں کی آزادی اور حقوق کو پامال کیا جاسکتا ہے اور نہ آزادیِ اظہار کو دوسروں کی عزت سے کھیلنے اور ان کے کردار کو مجروح کرنے کا ذریعہ بننے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر نظام میں آزادی کو قانونی‘ اخلاقی اور ملکی سلامتی کی حدود میں پابند کیا جاتاہے۔ جان‘ مال‘ عزت و آبرو کی حفاظت کے فریم ورک ہی میں آزادی کارفرما ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قومی سلامتی‘ معاشرے کی بنیادی اقدار کا تحفظ اور شخصی عزت و عفت کا احترام ہر نظام قانون کا حصہ ہے۔ اقوام متحدہ کا چارٹر آف ہیومن رائٹس بھی آزادی اور حقوق کو ملکی قانون اور معاشرے کی اقدار سے غیرمنسلک (delink) نہیں کرتا۔

آزادیِ اظہار کا حق غیرمحدود نہیں ہے۔ عالمی ضابطہ براے شہری اور سیاسی حقوق (International Convention on Civil and Political Rights - ICCPR)  اس آزادی کو صاف الفاظ میں تین چیزوں سے مشروط کرتا ہے‘ یعنی امن عامہ‘ صحت اور اخلاق کو قائم رکھنا (maintenance of public order, health and morals) ۔اس کے نفاذ کے لیے ہر ملک اپنا قانون بناتا ہے لیکن عالمی سطح پر بھی کچھ اہم ضوابط (conventions)   ہیں اور دنیا کے بیش تر ممالک نے ان کی توثیق کی ہے اور وہ بین الاقوامی قانون کا حصہ ہیں۔   اس سلسلے میں ایک عالمی ضابطہ نسلی امتیاز کی تمام شکلوں کے خاتمے کے لیے (International Convention on Elimination of All Forms of Racial Discrimination -ICERD ) ہے جس کے ذریعے نسلی تفاخر‘ نفرت اور نسلی تفریق کے فروغ کو ممنوع قرار دیا گیا ہے اور اس قانون کے تحت لازم کیا گیا ہے کہ تمام ممالک ان لوگوں کوسزا دیں جو نسلی اور گروہی منافرت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میںعالمی سطح پر نسلی امتیاز کے خاتمے کے لیے ایک کمیٹی (The Committee on the Elimination of Racial Discrimination -CERD) ہے جو متذکرہ بالا قانون (ICERD) کے نفاذ کی نگرانی کرتی ہے۔ اس کمیٹی کی عمومی ہدایات  (xv of CERD) یہ ہیں کہ:

ملکی جماعتوں کے لیے لازمی ہے کہ نسلی تفاخر یا نسلی منافرت پر اُکسانے کو قابلِ تعزیر جرم قرار دیں۔ کسی بھی قسم کی قومی‘ نسلی یا مذہبی منافرت کی وکالت جسے نسلی امتیاز پر اُبھارنا قرار دیا جاسکے‘ قانوناً ممنوع ہوگی۔ اس طرح کی تعزیر اظہار راے کی آزادی سے مطابقت رکھتی ہے۔ ان فرائض کو ادا کرنے کے لیے سرکاری پارٹیاں نہ صرف مناسب قانون سازی کریں گی بلکہ اس کے نفاذ کو یقینی بنائیں گی۔ کسی شہری کا آزادی اظہارراے کا یہ حق خصوصی ذمہ داری اور فرائض رکھتا ہے۔ (عمومی سفارش نمبر۱۵‘ سی ای آر ڈی)

اسی طرح انسانی حقوق کی کمیٹی (Human Rights Committee -HRC) ہے جس نے درجنوں رپورٹیں تیار کی ہیں اور ان میں وہ رپورٹ بھی موجود ہے جس میں آزادی کے اظہار کی حدود کا واضح تعین کردیا گیا ہے اس لیے کہ اوپر مذکورہ کنونشن کی دفعہ (۲) ۲۰ میں مرقوم ہے کہ: آزادی اظہار راے کے حق کا استعمال اپنے ساتھ خصوصی فرائض اور ذمہ داریاں رکھتا ہے۔ (آرٹیکل ۲۰ [۲۵])

ایک مشہور عدالتی فیصلے Faurisson vs France میں HRC کا فیصلہ ہے کہ

ایسے بیانات پر‘ جو یہودیت دشمن جذبات کو اُبھاریں یا انھیں تقویت دیں‘ پابندیوں کی اجازت ہوگی تاکہ یہودی آبادیوں کے مذہبی منافرت سے تحفظ کے حق کو بالادست بنایا جاسکے۔

اسی طرح انسانی حقوق کے یورپی کنونشن کا فیصلہ ہے کہ:

اظہار راے کی آزادی کے اس حق کا اطلاق ان معلومات اور نظریات پر بھی ہوگا جو ریاست یاآبادی کے کسی حصے کو ناراض کریں‘ صدمہ پہنچائیں یا پریشان کریں۔ کثیرالقومیتی معاشرت اور رواداری کے یہی تقاضے ہیں جن کو پورا کیے بغیر کوئی جمہوری معاشرہ قائم نہیں ہوتا۔ (Hyndyside کیس)

اسی طرح ایک اور اہم فیصلے میں عدالت نے یہ اصول اس طرح بیان کیا ہے:

دفعہ ۹ میں کسی مذہب کے ماننے والوں کے مذہبی احساسات کے احترام کی جو ضمانت دی گئی ہے‘ بجاطور پر کہا جا سکتا ہو کہ مذہبی احترام کی علامات کو اشتعال انگیز انداز میں پیش کر کے اس کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ مذہبی احترام کی ان علامات کا اس طرح سے پیش کرنا اس رواداری کے جذبے کی بدنیتی سے خلاف ورزی قرار دی جاسکے جو  ایک جمہوری معاشرے کی خصوصیت ہونا چاہیے۔

مذہبی عقائد کی جس انداز سے مخالفت کی جائے یا انکار کیا جائے‘ اس کا جائزہ ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے‘ یہ ذمہ داری کہ خاص طور پر دفعہ ۹ کے تحت جس حق کی ضمانت دی گئی ہے اسے ان عقائد کے علم بردار پُرامن طور پر استعمال کرسکیں۔

عدالت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی ایسے فرد پر پابندی لگا دے جو کسی مذہب کی مخالفت یا انکار میں اس طرح کے خیالات کا اظہار کرتا ہے تاکہ جہاں تک ممکن ہو‘ ان خیالات سے بچا جاسکے جو دوسروں کے لیے اشتعال انگیز ہوں۔ (Otto Preminger Institut vs Austria)

اسی اصول کو اور بھی وضاحت کے ساتھ ایک دوسرے مقدمے کے فیصلے میں اسی عدالت نے یوں بیان کیا ہے:

مذہبی تقدس کی حامل باتوں کا اشتعال انگیز اور پُرتشدد طور پر پیش کرنا دفعہ ۹ کے تحت دیے گئے حقوق کی خلاف ورزی شمار ہوسکتا ہے۔ ریاست کا یہ فریضہ ہے کہ عقائد کے بارے میں حساس اقلیتوں کو حملے سے تحفظ دے۔ ریاست کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ کسی حق کے استعمال کو کسی قاعدے میں لانے کے لیے کسی فرد کی اظہار راے آزادی میں مداخلت کرے۔ ریاست کا یہ فریضہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ افراد اور سرکاری اداروں کے درمیان تعلقات کے دائرے میں مذہبی احترام کو یقینی بنائے۔ اس فریضے کومناسب ترقی دینے سے ہی یہ ممکن ہے کہ یورپی کنونشن برطانیہ میں اقلیتی مذاہب کو آگے بڑھانے میں اہم کردارادا کرسکے۔

بین الاقوامی قانونی اور عالمی عدالتوں کے فیصلے اس سلسلے میں بالکل واضح ہیں اور کوئی جمہوری ملک محض جمہوریت اور آزادیِ اظہار و صحافت کے نام پر مذہبی منافرت‘ مذہبی شخصیات کی تذلیل اور تضحیک اور کسی انسانی گروہ کے جذبات سے مذہبی‘ تہذیبی یا لسانی اہداف کو تحقیر اور تمسخر کا نشانہ بناکر کھیلنے کا حق نہیں رکھتا اور اس سلسلے میں معاملہ صرف خوداحتسابی کا نہیں‘ بلکہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ افراد‘ گروہوں اور برادریوں کے اس حق کا تحفظ کریں۔

خود ڈنمارک کا قانون اس باب میں خاموش نہیں ہے۔ اس ملک میں مذہبی عقائد‘ شعائر اور شخصیات کی عزت کے تحفظ کے لیے ناموسِ مذہب کا قانون (Blasphemy law) صدیوں سے موجود ہے۔ اسی طرح ہر فرد کی عزت کے تحفظ کے لیے Law of Libel and Slander موجود ہے۔ پھر ملک کے قانون فوج داری میں صاف صاف ایسی تمام حرکتوں کو قابل دست اندازی جرم قرار دیا گیا ہے جو دوسرے کی تذلیل اور ان کے جذبات کو مجروح کرنے والے اور مختلف گروہوں اور برادریوں کے خلاف امتیازی سلوک کے مرتکب ہوں۔ ڈنمارک کے ضابطۂ فوج داری کی دفعہ ۱۴۰ اس طرح ہے:

جو لوگ کسی مذہبی برادری کی عبادات اور مسلّمہ عقائد کا کھلا مذاق اڑائیں یا ان کی توہین کریں‘ ان کو جرمانے یا چار ماہ کی قید کی سزا دی جائے گی۔

اسی طرح دفعہ بی ۲۶۶ میں مرقوم ہے کہ:

کوئی بھی فرد جو کھلے عام یا وسیع تر حلقے میں پھیلانے کی نیت سے کوئی بیان دے یا کوئی اور معلومات پہنچائے جس کے ذریعے وہ لوگوں کے کسی گروہ کو ان کی نسل‘ رنگ یا   قومی و نسلی عصبیت‘عقیدے یا جنس کی بنیاد پر دھمکی دے‘ توہین کرے‘ یا تذلیل کرے وہ جرمانے‘ سادہ حراست یا دوسال سے کم قید کی سزا کا مستحق ہوگا۔

یہ خود اس ملک کا قانون ہے جس میں مسلمانوں کے ایمان کے ساتھ یہ گھنائونا کھیل کھیلا جارہا ہے اور جس کا دفاع آزادیِ اظہار کے نام پر کرنے کی جرات مغربی اقوام کے دانش ور اور سیاسی قائد کر رہے ہیں۔

بات صرف قانون اور نظری حیثیت کی نہیں‘ اگر ان ممالک کے تعامل پر نگاہ ڈالی جائے تو صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ معاملہ مذہبی امتیاز (religious discrimination) کا ہے۔ اسی اخبار کے ایڈیٹر نے ۲۰۰۳ء میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ہتک آمیز کارٹون چھاپنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ میں نہیں سمجھتا کہ قارئین ان خاکوں کو اچھا سمجھیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ میرا خیال ہے کہ اس سے ہنگامہ برپا ہوجائے گا۔ اس لیے میں انھیں استعمال نہیں کروں گا۔

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف یہ شرمناک اور ہتک آمیز کارٹون شائع کرنے کے بعد جب احتجاج ہوا اور ایران نے جرمنی کے ہولوکاسٹ کے بارے میں کارٹون بنانے کی دعوت دی تو اس اخبار کے کلچرل ایڈیٹر فلیمنگ روز نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات کا عندیہ دیا کہ وہ ہولوکاسٹ پر بھی کارٹون شائع کرے گا۔ لیکن اس اعلان کے فوراً بعد اخبار کے ایڈیٹر نے اس کی تردید کی اور ساتھ ہی فلیمنگ روز کو طویل رخصت پر بھیج دیا۔ آج یورپ کے کم از کم سات ممالک میںقانونی طور پر ہولوکاسٹ کو چیلنج کرنا جرم ہے اور آسٹریا میں تاریخ کا ایک پروفیسر ڈیوڈ ارونگ (David Irving) جیل میں اس لیے بند ہے کہ اس نے برسوں پہلے ہولوکاسٹ کے بارے میں دیے جانے والے اعداد وشمار کو چیلنج کیا تھا اور اب اسے تین سال کی سزا ہوگئی ہے حالاںکہ اس نے عدالت کے سامنے بیان دیا کہ مجھے غلط فہمی ہوئی تھی اور میں نے اپنے خیالات سے رجوع کرلیا ہے___ وہ آسٹریا کا باشندہ بھی نہیں مگر اس کو آسٹریا میں سزا دی گئی ہے۔ اسرائیل میں باقاعدہ قانون ہے کہ دنیا میں کہیں بھی کوئی شخصی ہولوکاسٹ کو چیلنج کرے تو اسرائیل کو حق ہے‘ اسے اغوا کر کے لے آئے اور اس کو سزا دے۔ انگلستان کے اخبار انڈی پنڈنٹ نے کسی نبی یا یہودی مذہبی لیڈر نہیں ایک دہشت گرد جرنیل ایریل شیرون کے بارے میں ایک کارٹون شائع کیا تھا جس میں اسے فلسطینی بچوں کا خون چوستے دکھایا گیا تھاجس پر ساری دنیا میں ہنگامہ ہوگیا تھا۔ برطانوی یہودیوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا اور جرمنی کے اخبار نے اس کارٹون کو چھاپنے سے انکار کردیا تھا۔ فرانس میں حضرت عیسٰی علیہ السلام پر ایک فلم میں رکیک جنسی حوالوں کی وجہ سے ہنگامے ہوئے‘ ایک سینما کو آگ لگا دی گئی اور ایک شخص جل کر مرگیا۔ آج یورپی ممالک میں گھر میں بلندآواز سے میوزک سننا منع ہے کہ ا س سے پڑوسیوں کی سمع خراشی ہوتی ہے۔ سڑک پر ہارن بجانا خلافِ قانون ہے اور گاڑی میں زور سے گانا نہیں سنا جاسکتا مگر دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات پر نشترچلانے کی آزادی ہے اور اس کا دفاع بھی جمہوریت کے نام پر کیا جاتا ہے___ کیا آزادی کے ایسے تباہ کن تصور کو‘ جو دراصل فسطائیت کی ایک ’مہذب‘ (sophisticated) شکل ہے‘ ٹھنڈے پیٹوں قبول کیا جا سکتا ہے؟

مسلمانوں کو تحمل اور برداشت کا درس دینے والوں کوا پنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے اور سمجھ لینا چاہیے کہ ظلم کی سرپرستی اور ترویج کا اس سے بھی بہتر کوئی طریقہ نہیں ہوسکتا۔ ظلم کا استیصال تو اسے چیلنج کرکے اور مزاحمت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔


دوسرا دعویٰ سیکولرزم کے نام پر کیا جا رہا ہے جو انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ تم مذہبی لوگ ہو اور ہم سیکولر ہیں۔ ہمیں مذہب کا مذاق اڑانے کا حق ہے۔ سیکولرزم کے چہرے کو بگاڑنے کی اس سے زیادہ قبیح صورت اور کیا ہوسکتی ہے۔ سیکولرزم کے اس اصول سے مسلمانوںکو ہی نہیں‘ تمام اہل مذہب بلکہ ابدی اخلاقی اقدار کے تمام ماننے والوں کو اختلاف ہے‘ وہ یہ ہے کہ  دین و مذہب‘ الہامی ہدایت اور ابدی اقدار کا سیاسی اور اجتماعی زندگی میں کوئی کردار نہیں اور محض انسانوں کے ووٹ سے ہوائوں کے رخ کو دیکھ کر حق و باطل اور خیروشر کا تعین کیا جاسکتا ہے۔ یہ وہ خطرناک نظریہ ہے جو سیکولرزم کی اساس ہے اور ہمیں اس سے بنیادی اختلاف ہے۔ اس کے معنی ہیں کہ جس طرح آج ہم جنسی کو محض راے عامہ کی بنیاد پر جائز قرار دے دیا گیا ہے‘ کل کچھ انسانوں کے بنیادی حقوق کو بھی باطل قرار دیا جا سکتاہے ۔ عملاً مذہب کے ماننے والوں کو تفریق اور امتیاز کا نشانہ بنایا جارہا ہے جیساکہ فرانس میں خواتین کو اسکارف استعمال کرنے کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ مذہب نے کچھ ابدی اقداردی ہیں جنھیں محض ووٹ سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں ہمارا اور سیکولرزم کا بنیادی اختلاف ہے۔ سیکولرزم کا دوسرا ستون رواداری اور خصوصیت سے مذہبی کثرتیت (religious plurality) کا تصور ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں مذہب کے ماننے والوں کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کلچر اور ملکی روایات کی بنیاد پر اپنے مذہبی شعائر سے محروم کیا جاسکتا ہے۔ مذہبی رواداری کے معنی ہی یہ ہیں کہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے اپنے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کے مساوی مواقع حاصل ہوں اور اس کا لازمی تقاضا دوسرے مذاہب کا احترام ہے۔ ان کے عقائد‘ شعائر‘ عبادات اور بنیادی مظاہر کو تحقیر‘ تذلیل اور تضحیک کا نشانہ نہیں بنایا جاسکتا۔ علمی انداز میں ہر موضوع پر بحث و اختلاف ہوسکتا ہے۔ لیکن سیکولرزم کے نام پر دوسرے مذاہب کی تضحیک اور تمسخر سیکولرزم کا نہیں فسطائیت اور شیونزم  کا خاصا ہے اور آج سیکولرزم کے نام پر یہی کھیل کھیلا جا رہا ہے جو خود سیکولرزم کے بنیادی اصولوں کی نفی ہے۔ مسئلہ نہ آزادیِ اظہار کا ہے اور نہ سیکولرزم کا‘ بلکہ ایک گہرے تہذیبی تعصب‘ طاقت کے نشے میں رعونت اور دوسروں پر اپنی اقدار اور عادات کو مسلط کرنے کی شرمناک کوشش کا ہے جو اب ایک اجتماعی جنگ کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ ڈنمارک میں جو کچھ ہو رہا ہے اور جس طرح اس کی پشت پناہی کی جارہی ہے وہ اس خطرناک کھیل کا حصہ ہے۔

خود مغرب کے کچھ دانش ور کس طرح اس رجحان پردل گرفتہ ہی نہیں متوحش ہیں۔ رابرٹ فسک اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھتا ہے:

یہ سیکولرزم بمقابلہ اسلام کا مسئلہ نہیں ہے۔ مسلمانوں کے لیے رسولؐ اللہ وہ شخصیت ہیں جنھوں نے اللہ تعالیٰ سے براہِ راست کلامِ ربانی وصول کیا۔ ہم اپنے پیشوائوں اور نبیوں کو تاریخی شخصیات سمجھتے ہیں جو ہمارے انسانی حقوق کے جدید تصورات اور آزادیوں کے مدمقابل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارتے ہیں‘ ہم نہیں گزارتے ہیں۔ انھوں نے تاریخ کے اَن گنت نشیب و فراز میں اپنے عقیدے کو محفوظ رکھا ہے۔ ہم اپنا عقیدہ کھو چکے ہیں۔ اسی لیے ہم اسلام کے مقابلے پر مغرب کی بات کرتے ہیں بجاے اس کے کہ اسلام کے مقابلے پر عیسائیت کی بات کرتے۔ اس لیے کہ یورپ میں عیسائی زیادہ تعداد میں نہیں بچے ہیں۔ ہم اس بات سے باہر نہیں نکل سکتے کہ دنیا کے تمام مذاہب کو سامنے لے آئیں اور کہا جائے کہ ہمیں کیوں رسولؐ کا مذاق نہیں اڑانے دیا جا رہا ہے؟

مارٹن بورکارتھ (Martin Burcharth) جو ڈنمارک کے اخبار Information کا نمایندہ ہے‘ لکھتا ہے:

اس بات پر کچھ تعجب کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ڈنمارک کے عوام اور ان کی حکومت اس اخبار اور اس کے اس فیصلے کی کہ‘ پیغمبر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے خاکے شائع کیے جائیں‘ پشت پناہی کررہے ہیں۔ کیا ڈنمارک کے لوگوں کے بارے میں نہیںسوچا جاتا کہ وہ عموماً غیرمعمولی طور پر روادار اور دوسروں کا احترام کرنے والی قوم ہیں؟

غیرملکی جس بات کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں وہ یہ ہے کہ گذشتہ کچھ برسوں سے ہم ڈنمارک کے لوگوں میں غیرملکیوں سے نفرت و حقارت کے جذبے میں اضافہ ہو رہاہے۔ میرے خیال میں‘ کارٹونوں کی اشاعت کا خود احتسابی اور آزادیِ اظہار کی بحث شروع کرنے میں بہت کم حصہ ہے۔ اسے صرف ڈنمارک میں کسی بھی مسلم شعار کے خلاف متعدی دشمنی کی فضا کے سیاق میں سمجھا جا سکتا ہے۔

ڈنمارک میں ۲ لاکھ سے زیادہ مسلمان ہیں‘ جب کہ ملک کی کُل آبادی ۵۴ لاکھ ہے۔ چند عشرے پہلے‘ ڈنمارک میں ایک بھی مسلمان نہ تھا۔ اس پر کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ بہت سے مقامی لوگ اسلام کو ڈنمارک کی ثقافت و تمدن کی بقا کے لیے ایک خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔

۲۰ برس قبل‘ مسلمانوں کو کوپن ہیگن میں مسجد کی تعمیر کے لیے اجازت نہ دی جاتی تھی۔ مزیدبرآں‘ ڈنمارک میںمسلمانوں کے لیے کوئی قبرستان بھی نہیں ہے‘ جس کا مطلب ہے کہ وہ مسلمان جن کا یہاں انتقال ہوجائے ان کی مناسب تدفین کے لیے ان کی میتوں کو ان کے ملکوں کو واپس بھجوانا ہوتا ہے۔

اور سب سے واضح اور چشم کشا تبصرہ نیویارک ٹائمز میں اس کے مضمون نگار رابرٹ رائٹ ( Robert Wright) کا ہے جس پر سب کو ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے:

امریکا کے دائیں اور بائیں بازو کے لوگ آپس میں زیادہ باتوں پر اتفاق نہیں رکھتے۔ لیکن ہفتوں کے مظاہروں اور سفارت خانوں کی آتش زدگی نے دونوں کو ایک نکتے کی طرف دھکیل دیا ہے: اگر تہذیبوں میں تصادم نہیں ہے تب بھی کم سے کم مغربی دنیا اور مسلم دنیا میں ایک بہت بڑا خلا ہے۔

خوش قسمتی سے اس خلا کے حجم میں مبالغہ کیا جا رہا ہے۔ ڈنمارک کے ان کارٹونوں پر مسلمانوں کا شوروغوغا امریکی کلچر کے لیے اتنا اجنبی نہیں جتنا ہم سمجھتے ہیں۔ ایک دفعہ آپ اسے دیکھیں تو ایک معقول اور بنیادی طور پر امریکی ردّعمل سامنے آتا ہے۔ بہت سے امریکی جو کارٹون کی اشاعت کی مذمت کرتے ہیں اس موقف کو تسلیم کرتے ہیں جو ڈنمارک کے اخبار کے اب مشہورزمانہ ایڈیٹر نے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ مغرب میں ہم عام طور پر مخصوص مفادات کے حامل گروہوں کو یہ اجازت نہیں دیتے کہ وہ ہم کو   خوف زدہ کر کے اس بات کے لیے آمادہ کریں جسے خوداحتسابی کہا جاتا ہے۔

یہ کتنی واہیات بات ہے۔ بڑے بڑے امریکی میڈیا کے ایڈیٹر خصوصاً نسلی اور مذہبی مفادات کے حامل گروہوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے سے بچنے کے لیے بہت سے الفاظ‘ جملے اور تصاویر حذف کردیتے ہیں۔ مثالیں پیش کرنا مشکل ہیں اس لیے کہ ان کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا مگر آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں۔ ایک عیسائی مبلغ (ہیوج ہیوٹ) نے پیغمبرمحمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے کارٹونوں کے مقابلے میں ایک مناسب مثال پیش کی: اسقاطِ حمل کے ایک کلینک پر بم باری کے بعد حضرت عیسٰی ؑکے کانٹوں بھرے تاج کا کارٹون جس میں کانٹوں کو ٹی این ٹی کی سلاخوں میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ ایسا کارٹون بہت سے امریکی عیسائیوں کے جذبات کو مجروح کرسکتا تھا۔ یہی ایک وجہ ہے کہ ایسا کوئی کارٹون کسی بڑے امریکی اخبار میں نہیں دیکھا گیا۔

رابرٹ رائٹ نے اس اعتراض کا بھی بھرپور جواب دیا ہے جو مغرب کے دانش ور مسلمانوں کے مظاہروں میں تشدد کے عنصر سے آجانے پر کر رہے ہیں۔ ہم بھی تشدد کو کسی اعتبار سے صحیح نہیں سمجھتے بلکہ اپنے مقصد کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہیں۔ لیکن انسانی حقائق سے صرفِ نظر بھی ممکن نہیں۔ اس اعتراض کا جواب ہم خود دینے کے بجاے رابرٹ رائٹ کے مضمون کا متعلقہ حصہ دینا مناسب سمجھتے ہیں:

جوں جوں اس واقعے کے بارے میں تفصیلات ہمارے سامنے آرہی ہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک بے ساختہ اشتعال انگیزی نہیں تھا۔ کارٹونوں کے خلاف مسلمانوں کا فوری ردّعمل تشدد کا نہیں تھا بلکہ ڈنمارک میں چھوٹے چھوٹے مظاہرے ہوئے اور ڈنمارک کے مسلمانوں نے ایک مہم چلائی جو کئی مہینے چلتی رہی لیکن دنیا کی راڈر اسکرین پر اس کا پتا نہ چلا۔ ان سرگرم لوگوں کو جب ڈنمارک کے سیاست دانوں نے جھڑک دیا اور انھیں مسلم ریاستوں کے طاقت ور سیاست دانوں سے حمایت ملی تو بڑے مظاہروں کا آغاز ہوا۔ ان میں سے بعض مظاہرے پُرتشدد ہوئے لیکن بیش تر مظاہروں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکومتوں‘ دہشت گرد گروپوں اور دوسرے سیاسی عناصر نے منظم کیے۔

دوسری طرف ‘کون کہتا ہے کہ اپنی بات پہنچانے کے لیے تشدداستعمال کرنے کے لیے کوئی امریکی روایت نہیں ہے۔۱۹۶۰ء کے عشرے کے فسادات کو یاد کیجیے جو ۱۹۶۵ء کے وائس رائٹ فسادات سے شروع ہوئے جس میں ۳۴ آدمی مارے گئے (ان فسادات کے نتیجے میں سیاہ فام آبادی کو زیادہ مقام ملا)۔ سیاہ فاموں کی ترقی کی قومی انجمن ۵۰کے عشرے سے جس شو کے خلاف احتجاج کر رہی تھی ۱۹۶۶ء میں جاکر سی بی ایس نے اس پر کارروائی کی۔ کوئی رابطہ ثابت تو نہیں کیا جا سکتا لیکن اس بات میں کوئی شبہہ نہیں کہ ۶۵ کے عشرے کے فسادات نے میڈیا میں سیاہ فام لوگوں کی تصویرکشی (اور مضحکہ خیزی) کے بارے میں حساسیت کو بڑھا دیا۔ اسی کو حساس تر خود احتسابی کہاجاسکتا ہے۔

کارٹونوں پر احتجاج کے دوران کچھ قدامت پرست کٹر عناصر نے تنبیہہ کی کہ جو شکایات تشدد کے ساتھ پیش کی جائیں‘ ان کو حل کرنا انھیں تسلی دینے (appeasement) کے مترادف ہے‘ اور اس سے زیادہ تشدد پیدا ہوگا اور مغربی اقدار کمزور ہوں گی۔ مگر ۶۰ کے عشرے میں تو تسلی دینے کے عمل نے اس طرح کام نہیں کیا۔ ۱۹۶۶ء میں صدر جانسن نے فسادات کے لیے جو کرنر کمیشن قائم کیا تھا اس نے سفارش کی کہ غیرمساوی تعلیم کے مواقع‘ غربت‘ ملازمت اور رہایش میں امتیاز کے مسائل پر زیادہ توجہ دی جائے۔ یہ توجہ فوراً دی گئی اور اس سے آنے والے عشروں میں فسادات نہیں بڑھے۔ کارٹونوں کے شوروغوغا میں یہ احساس بہت کم ہے۔ جب کہ امریکی اس سوال پر یکسو ہوکر سوچ رہے ہیں کہ ایک کارٹون کس طرح لاکھوں افراد کو مشتعل کرسکتاہے؟ جواب ہے کہ آپ کن لاکھوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ غزہ میں اصل ایندھن اسرائیلیوں سے کشیدگی نے فراہم کیا۔ ایران میں بنیاد پرستوں نے امریکا سے پرانی دشمنی کو استعمال کیا۔ پاکستان میں مغرب کی حامی حکمران حکومت کی مخالفت نے کردار ادا کیا اور اسی طرح دوسری جگہوں پر ہوا۔ غم و غصہ اور زیرزمین شکایات کا یہ تنوع چیلنج کو پیچیدہ کرتا ہے۔ ظاہراً محض مذہبی حساس امور کو چھیڑنے سے احتراز کافی نہیں ہوگا۔ پھر بھی زیربحث جرم جامع تر چیلنج کی ایک واضح علامت ہے۔ کیونکہ بہت ساری شکایات اسی احساس میں مجتمع ہیں کہ خوش حال طاقت ور مغرب مسلمانوں کااحترام نہیں کرتا (جیسے کہ فسادات برپا کرنے والے سیاہ فام سمجھتے تھے کہ خوش حال طاقت ور ‘ سفیدفام ان کا احترام نہیں کرتے)۔ ایک کارٹون جو رسولؐ کی توہین کرکے اسلام کی بے عزتی کرتا ہے وہ لبلبی کی مانند ہے اور انتہائی اشتعال دلانے والا ہے۔

جس چیزسے زیادہ اختلاف نہیں کیا جا سکتا وہ مسلمانوں کا بڑے بڑے میڈیا چینل سے خود احتسابی کا مطالبہ ہے۔ اس طرح کی خوداحتسابی صرف ایک امریکی روایت ہی نہیں ہے بلکہ ایک ایسی روایت ہے جس نے امریکا کو دنیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہم آہنگ ‘ کثیرنسلی اور کثیرمذہبی معاشرہ بنایا ہے۔


ان تینوں ایشوز پر پیش کردہ معروضات کی روشنی میں آیندہ کی حکمت عملی کے خطوط کار پر غور ضروری ہے۔ مسلمانوں کا ردّعمل صرف وقتی اور جذباتی نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہمیں معاملے کے سارے پہلوئوں پر غور کرکے فوری اقدام اور دور رس حکمت عملی دونوں کی فکر کرنی چاہیے۔

فوری طور پر احتجاج وقت کی ضرورت تھی اور اسے پرامن قانونی ذرائع سے جاری رہنا چاہیے۔ اس کے تین محاذ ہیں:

۱- عالمی سطح پر مسلمانوں کے جذبات اور احساسات کا بھرپور اظہار اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے پُرامن جدوجہد۔ ڈنمارک کی حکومت حتیٰ کہ متعلقہ اخبار‘ اس کے کارٹونسٹ اور کلچرل ایڈیٹر کسی نے بھی کھلے انداز میں نہ اپنی غلطی تسلیم کی ہے اور نہ معذرت کی ہے۔ لفظوں کی عیّاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے محض مسلمانوں کے جذبات مجروح ہونے پر افسوس کا اظہار ہے جسے کسی حیثیت سے بھی غلطی کا اعتراف اور قرارواقعی معافی نہیں کہا جاسکتا جس کے بغیر ایسے واقعات کے دوبارہ رونما ہونے کے خطرے کاسدّباب ممکن نہیں۔ اسی لیے عوامی اور حکومتی سطح پر یہ سلسلہ برابر جاری رہنا چاہیے___ البتہ اسے پرامن رکھنا اور دلیل اور اجتماعی ضمیر کی قوت کے ذریعے سے اپنے موقف کا لوہا منوانا اسی وقت ممکن ہے جب جذبات میں آکر تشدد کا ارتکاب نہ کیا جائے جس کا نتیجہ اپنے ہی جان و مال کا ضیاع اور تباہی ہے۔

۲- دوسرا محاذ معاشی اور سفارتی دبائو ہے جو ملکی اور بین الاقوامی سیاست کے معروف  طریقے (instruments) تسلیم کیے جاتے ہیں۔ اس وقت بھی تھوڑے سے معاشی دبائو کی وجہ سے‘ جس کے نتیجے میں ڈنمارک کی سات بلین کرونا کی تجارت خطرے میں پڑگئی ہے‘ ڈنمارک کی تجارتی کمپنیاں اپنی حکومت کو روش بدلنے کا مشورہ دے رہی ہیں۔ یہ دبائو جاری رہنا چاہیے۔

۳- تیسرا محاذ خود مسلمان ملکوں کا اپنا اندرونی معاملہ ہے کہ حکمران بالعموم عوام کے جذبات‘ احساسات اور امنگوں سے غافل ہیں اور اپنے شخصی اور گروہی مفادات کا شکار ہیں۔ عوامی دبائو سے مجبور ہوکر ہی وہ نہایت کمزور احتجاج پر آمادہ ہوئے ہیں۔ فطری طور پر اس احتجاج کا ایک ہدف خود اپنے ملکوں میں عوام کو متحرک اور تیار کرنے کے ساتھ حکمرانوں کی روش کی تبدیلی اور جو تبدیل ہونے کے لیے تیار نہ ہو‘ اس کو تبدیل کرنے کی جدوجہد ہے۔

اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ او آئی سی اور مختلف مسلم ممالک میں مغرب میں اسلام کے خلاف جو تحریک (Islamophobia) چل رہی ہے اس کا بغور جائزہ لیا جاتا رہے اور اس کا سائنسی بنیاد پر جواب دیا جائے۔ اسی طرح مسلم اقلیتوں پر کام کرنے اور ان کو تقویت پہنچانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ اس پر بھی سنجیدگی کے ساتھ کام ہونا چاہیے کہ جس          طرح anti-semetismکے سلسلے میں عالمی معاہدے اور قانون نافذ کیے گئے ہیں‘ اسی طرح Islamophobia کے خلاف بھی قانونی ضابطے مرتب کیے جائیں۔ یہ تمام کام منظم اور مرتب جدوجہد اور سیاسی اور سفارتی کوششوں کے ذریعے انجام پاسکتے ہیں بشرطیکہ مسلم حکمراں اور او آئی سی اس کے لیے مؤثر انداز میں کام کرنے کا بیڑا اُٹھائیں۔

لیکن معاملہ محض ان فوری اہداف کا نہیں‘ اصل مسئلہ زیادہ بنیادی اور پیچیدہ ہے۔ اس کے لیے گہرے سوچ بچار اور مناسب حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے چند اہم پہلو یہ ہیں:

۱- اُمتِ مسلمہ کا انتشار‘ سیاسی اور معاشی وحدت کی کمی‘نظریاتی اور تہذیبی اعتبار سے ضعف‘ حکمرانوں اور عوام میں بُعد‘ تعلیم‘ سائنس اور ٹکنالوجی اور مقابلے کی قوت کا فقدان۔ ہم دنیا کی بالادست قوتوں سے عزت اور انصاف کی توقع اس وقت تک نہیں رکھ سکتے جب تک ہم خود مضبوط نہ ہوں___ ہر اعتبار سے نظریاتی اور اخلاقی‘ معاشی اور عسکری‘ تعلیمی اور سائنسی‘ معاشرتی اور تہذیبی۔ یہ ہماری کمزوری ہے جس کا دوسرے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور یہی وہ تاریخی حقیقت ہے جسے اقبال نے اس طرح بیان کیا ہے    ؎

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

جوبیداری اس شرمناک اور شیطانی کارٹون کی اشاعت سے اُمت مسلمہ میں پیدا ہوئی ہے‘ وہ اس کے اندر خیر اور اخلاقی قوت کی غماز ہے۔ اس کو پروان چڑھانا اور اُمت میں اتحاد‘ یکسوئی اور اخلاقی‘ مادی‘ معاشی اور عسکری قوت کا حصول اور عالمِ اسلام کی سیاسی قوت کو ایک مرکز پر جمع کرکے اُمت کی ترقی اور اس کے مفادات کے تحفظ اور انسانیت کی فلاح کے لیے استعمال کرنا ہے۔

۲- دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ ہمیں اس جنگ کو تہذیبوں کی جنگ نہیں بننے دینا ہے۔ ’تہذیبوں کے درمیان جنگ‘ کا تصور ہی ایک جاہلانہ اور فسطائی تصور ہے۔ تہذیبوں کا تنوع انسانیت کا سرمایہ ہے اور جس طرح انگریزی مقولہ ہے variety is the spice of life (زندگی کا حُسن تنوع میں ہے) اسی طرح تہذیبوں کا اختلاف بھی انسانیت کے حُسن کا باعث اور انتخاب کے مواقع فراہم کرکے ترقی اور مسابقت کا ضامن ہے    ؎

گلہاے رنگ رنگ سے ہے رونق چمن

اے ذوق! اس جہاں کوہے زیب اختلاف سے

آج انسانیت کو جو خطرات درپیش ہیں اور خصوصیت سے ایٹمی اور عالم گیر تباہی کے  دیگر ہتھیاروں کے وجود میں آنے کے بعد جنگ سراسر تباہی کا راستہ ہے۔ اسی طرح کسی ایک طبقے‘ ملک یا تہذیب کی قوت کے بل بوتے پر کسی ایک کا بالادست ہوجانا بھی سلامتی کا راستہ نہیں ہے۔ صحیح راستہ حقیقی اور مستند کثرتیت (genuine and authentic pluralism) میں پوشیدہ ہے جس میں دوسروں کو جینے دینے اور دلیل‘ افہام و تفہیم اور اعلیٰ اصولوں اور انصاف پر مبنی سماج کا نمونہ پیش کر کے اتفاق اور اختلاف میں توازن اور رد و اختیار کا موقع فراہم ہوتا ہے۔

دراصل دو قومی نظریے کی اصل بھی یہی اصول ہے کہ اقوام کو‘ خواہ وہ اکثریت میں ہوں یا اقلیت میں‘ اپنے دین و مذہب اور تہذیب و ثقافت کے تحفظ و ترقی کا حق ہے اور اس کے مناسب مواقع سب کو حاصل ہونے چاہییں۔ دوقومی نظریہ محض تقسیم کا نظریہ نہیں‘ بقاے باہمی کا نظام ہے‘ اس اصول کے ساتھ کہ جہاں اپنا مخصوص تشخص رکھنے والی قوم کو اپنے عقائد و تہذیبی اقدار کے مطابق زندگی گزارنے کے مواقع حاصل نہ ہوں اور جغرافیائی اعتبار سے ان کے ایک الگ وحدت بننے کا امکان اور موقع ہو تو وہاں سرحدوں کی ازسرنو ترتیب بھی اس کا حق ہے لیکن جہاں یہ ممکن ہو کہ مختلف قومیں تعاون اور ہم آہنگی کے ساتھ رہ سکتی ہیں وہاں ریاست کو اپنا مخصوص تشخص رکھنے کے ساتھ دوسری تمام قوموں کو بھی اپنا اپنا تشخص باقی رکھنے کا موقع دینا چاہیے۔ اس لیے      قومی حکومت (Nation State) کے مقابلے میں قوموں کی حکومت (State of Nationalities) ایک بالاتر سیاسی ماڈل ہے اور آج کی دنیا میں ایک ایسے ہی سیاسی ماڈل میں انسانیت کی نجات ہے جہاں قوت اور تشدد کے مقابلے میں کثرتیت  کو مستند تسلیم کیا جاسکے۔

۳- تیسری بنیادی بات یہ ہے کہ جو شرمناک رویہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مغرب کے چند ممالک اور کچھ طبقات نے اختیار کررکھا ہے‘ اس کا کوئی تعلق نہ آزادیِ اظہار سے ہے‘ نہ سیکولرزم سے۔ نام نہاد تہذیبوں کے اختلاف اور تصادم میں لڑائی تہذیبوںکے درمیان نہیں‘ تہذیب اور جاہلیت کے درمیان ہے‘ انصاف اور ظلم کے درمیان ہے‘ خیر اور شر کے درمیان ہے‘ انسانیت اور فسطائیت کے درمیان ہے۔ اس میں ایسا نہیں ہے کہ سارے مسلمان ایک طرف ہوں اور دوسری اقوام ان کے مدمقابل بلکہ خود مغربی ممالک میں عام انسانوں کی بڑی تعداد اور ان کے دانش وروں میں بھی ایک معتدبہ تعداد اسے تہذیبوں کی جنگ نہیں بلکہ تہذیب کے خلاف جنگ سمجھ رہی ہے۔ مذاہب اور ان کی مقدس ہستیوں کا احترام سب کا مشترک سرمایہ ہے۔ قرآن نے تو یہ اصول پیش کیا ہے کہ ایک انسان کی ناحق موت پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے اور ایک معصوم انسان (محض مسلمان نہیں) کی جان کا بچانا ساری انسانیت کو زندگی عطا کرنے کی مانند ہے۔

قرآن نے تو جھوٹے خدائوں کو بھی گالی دینے سے منع کیا ہے کیوںکہ اس طرح مخالفین اپنی جہالت میں کائنات کے حقیقی خالق اور آقا سے گستاخی کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔ جس پاک ہستی صلی اللہ علیہ وسلم کو دہشت گردی کی علامت بناکر پیش کیاجا رہا ہے‘ وہ تو پوری انسانیت کے لیے رحمت بن کر آیا تھا اور اس کا لایا ہوا دین ہے ہی دین رحمت اور پیغامِ امن و انصاف۔ اس کا کردار تو یہ تھا کہ جو اس کی راہ میں کانٹے بچھاتے تھے‘ وہ ان کی بھی دادرسی کرتا تھا‘ جنھوں نے اسے اذیتیں دے کر اپنا گھربار اور وطن چھوڑنے پر مجبور کیا جب وہ ان کے درمیان فاتح کی حیثیت سے آیا تو کسی سے بدلہ نہ لیا اور نفیرعام دے دی کہ لا تثریب علیکم الیوم۔ جس نے ایک یہودی کے جنازے کی آمد پر بھی اس کا استقبال تعظیم کے ساتھ کھڑے ہوکر کیا اور اس بات پر کہ یہ ایک یہودی کا جنازہ ہے‘ فرمایا:کیا وہ انسان نہیں‘ سیدنا عمرؓ نے جب ایک بوڑھے یہودی کو محنت مزدوری کرتے دیکھا تو اس کا بیت المال سے مشاہرہ مقرر کردیا اور یہ تاریخی الفاظ ارشاد فرمائے:  تم ان انسانوں سے جب وہ جوان اور قوی تھے کام لیتے تھے اور جب ان کے قویٰ مضمحل ہوجاتے ہیں تو انھیں بے سہارا چھوڑ دیا ہے۔

ایسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرووں اور ایسے دین کے حامیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ’تہذیبوں کی جنگ‘ میں آنکھیں بند کر کے کود نہ جائیں بلکہ تہذیب کے غلبے کے لیے خود بھی اور تمام معقول انسانوں کو منظم و متحرک کریں اور اس طرح اس ایجنڈے ہی کو بدل دیں جس پر ظالم قوتیں اور مفاد پرست عناصر کارفرما ہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب ہم اپنے داعیانہ کردار کو سمجھیں اور اسے صحیح طریقے سے ادا کریں۔ آج بھی‘ ساری مخالفت کے باوجود‘ مغربی ممالک میں اسلام سب سے تیزی سے بڑھنے والا دین ہے۔ ہمارے لیے تہذیبی جنگ کی اس آگ میں کودنااور فریق بنناسب سے بڑی غلطی ہوگی۔ اس کے مقابلے میں ہمیں سمجھنا چاہیے کہ یہ ہمارے لیے ایک اچھا موقع ہے: اپنے دین کا صحیح صحیح نمایندہ بننے اور اس کی تعلیمات کو انسانوں تک پہنچانے کا۔ پھر آپ دیکھیں گے کہ یہ مخالفتیں آپ کے لیے نئے مواقع اور امکانات کا پیغام بن جائیں گی   ؎

تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اُڑانے کے لیے

۴-چوتھی بنیادی بات یہ ہے کہ اس موقع پر اُمت مسلمہ اور اس کی قیادت کو خصوصیت سے اوآئی سی کو تمام مذاہب کے احترام کے بارے میں کچھ اصولوں (پروٹوکول) پر دنیا کی تمام اقوام کو متفق کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ضرورت ہے کہ واضح الفاظ میں بقاے باہمی ہی نہیں‘ تعاون باہمی کا ایک ایسا چارٹر تیار کیا جائے جس پر سب عمل پیرا ہوں اور جسے قانونی اور اخلاقی دونوں اعتبار سے ایک بالاتر ضابطے کی حیثیت حاصل ہو۔ اس کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس بھی بلایا جا سکتا ہے لیکن ضروری تیاری (home work)کے بعد۔ اس کے لیے مختلف سطح پر سیمی نار‘ مذاکرات اور تحقیقی کام کی بھی ضرورت ہے۔ اس کے لیے عالمی سطح پر مکالمہ وقت کی ضرورت ہے۔ اگر ان شیطانی کارٹونوں کے نتیجے میں دنیا ایک ایسے پروٹوکول پر متفق ہوجائے تو اس شر سے ایک بڑے خیر کے نکل آنے کا امکان ہے۔ جس ڈنمارک سے یہ کروسیڈ شروع ہوا ہے اس کے ایک دانش ور اور سابق وزیرخارجہ (Uffe Ellemann Jensen) نے بڑی دردمندی سے اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھا ہے کہ:

اب‘ جب کہ پیغمبرمحمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے کارٹونوں پر تنازع ختم ہورہا ہے‘ یا میں اس کی امید کرتا ہوں‘ یہ بات واضح ہے کہ اس میں جیتنے والے صرف انتہاپسند ہیں‘ اسلامی دنیا میں بھی اور یورپ میں بھی۔ مجھے اس بات پر افسوس ہے کہ تنازع میرے ملک میں شروع ہوا جب ایک اخبار نے آزادیِ اظہار راے کا مظاہرہ کرتے ہوئے کارٹون شائع کیے۔ یہ گذشتہ خزاں میں ہوا اور اس وقت میں نے اس کے خلاف کھلے عام آواز اٹھائی۔ اسے میں بے حسی پر مبنی ایک اقدام سمجھتا تھا کیوں کہ یہ دوسرے لوگوں کے مذہبی جذبات کو تکلیف پہنچاتا ہے۔ یہ واقعہ غیرضروری اشتعال انگیزی تھا اور خود ہماری اس آزادی کا مذاق اڑانے کے مترادف تھا جو ہمیں ازحد عزیز ہے اور جس کی ہمارے دستور میں ضمانت دی گئی ہے۔ میرے والد بھی ایک صحافی تھے‘ وہ کہا کرتے تھے کہ آزادیِ اظہار راے ہمیں وہ کچھ (جو آپ سوچتے ہیں) کہنے کا حق تو دیتی ہے لیکن ایسا کرنا لازمی نہیں ہے۔

میری رائے میں اس منحوس واقعے کے سبق بالکل واضح ہیں۔ ہم سب کو تسلیم کرنا چاہیے کہ جدید دنیا میں یہ ضروری ہوتا جا رہا ہے کہ تمام معقول لوگ باہمی احترام‘ رواداری اور بہتر افہام و تفہیم کے لیے کام کریں۔ ہمیں ایسی صورت حال سے بچنا چاہیے جہاں مختلف اقدار ایک دوسرے کے مقابل ایسے طریقوں سے آجائیں کہ تشدد یک دم برپا ہوجائے۔ اس کے بجاے ہمیں کوشش کرنا چاہیے کہ مذاہب‘ اخلاق اور معمولات کے درمیان رواداری کے ذریعے پُل تعمیر کریں۔

آپ چاہیں تو اسے خود احتسابی کہہ لیں لیکن معقول لوگ ہمیشہ خوداحتسابی پر عمل کرتے ہیں۔ اگر آپ ایسے کمرے میں ٹھیرنا چاہتے ہیں جس میں دوسرے لوگ بھی ہیں تو آپ کو کوشش کرنا چاہیے کہ غیرضروری اشتعال انگیزیوں سے آپ ان کو ناراض نہ کریں۔ ہم جس کمرے کے بارے میں بات کر رہے ہیں‘ وہ مقامی تالاب نہیں بلکہ عالمی گائوں ہے‘ بقاے باہمی کی کلید ہے۔

دنیا میں ایسے افراد کی کمی نہیں۔ موجودہ صورت حال کتنی ہی خراب اور تکلیف دہ کیوں نہ ہو اگر اصحاب خیر ہمت کر کے کوشش کریں تو اسے انسانوں کے درمیان دوستی اور اعتماد باہمی کے    پُل باندھنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

آخر میں ہم پاکستان کی اسلامی قوتوں سے بالخصوص اور تمام سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں سے یہ اپیل کرنا چاہتے ہیں کہ جس طرح اس فتنے کا بروقت نوٹس لینا ضروری تھا‘ اسی طرح اس شیطانی کروسیڈ کے مقابلے اور اس کی شکست کے لیے دیرپا لائحہ عمل کی تیاری اور اس پر    ہوش مندی سے عمل بھی ضروری ہے۔ یہ ایک تاریخی موقع ہے اور اس موقعے پر ذرا سی غفلت بڑی مہنگی پڑسکتی ہے۔ ملک کی اس قیادت کو بھی ہوش کے ناخن لینا چاہییں جو اپنے عوام کے جذبات اور احساسات سے غافل اور بیرونی سہاروں پر اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کی کوشش کر رہے ہیں۔   یہ سہارے بڑے بودے اور دھوکا دینے والے ہیں۔ اصل سہارا اللہ کا ہے‘ اس کے دین کا ہے اور اس کے ان بندوں کا ہے جو اصول اور اقدار کے لیے جان کی بازی لگانے میں دنیا اور آخرت کی کامیابی دیکھتے ہیں۔ یہی اس قوم کا اصل سہارا ہیں اور یہی سہارا قابلِ بھروسا اور زمانے کی آزمایشوں پر پورا اُترا ہے۔ وما علینا الا البلاغ۔