مضامین کی فہرست


ستمبر ۲۰۱۷

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ عالمی تحریکات اسلامی کی دعوت کا بنیادی مقصد  اقامتِ دین کے ذریعے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضا کا حصول ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جو تحریکات اسلامی کو دیگر تنظیموں سے ممتاز کرتا ہے ۔ بعض دعوتی تنظیمیں اپنی زیادہ توجہ عبادات پر دیتی ہیں ۔ چنانچہ ان کی نگاہ میں نماز ، روزہ، زکوٰۃ اور حج کا صحیح طور پر ادا کرنا دین داری کی دلیل سمجھا جاتا ہے۔ ان تنظیموں سے وابستہ افراد اسی غرض سے دُور دراز کے سفر کرتے ہیں کہ لوگوں کو عبادات کے فضائل سمجھائیں اور بالخصوص نماز کے فرائض اور واجبات سے آگاہ کریں۔ ان کی یہ خدمات قابلِ قدر اور دین کی اقامت کی کوشش کا ایک اہم ابتدائی حصہ ہیں۔ لیکن کیا اقامت ِ دین کی جدوجہد کی ابتدا اور انتہا بس یہی ہے؟

قرآنِ پاک کی تعلیمات اور اسوئہ رسولؐ کی روشنی میں اس پہلو کا سمجھنا بہت ضروری ہے۔ خصوصیت سے موجودہ عالمی حالات اور اسلام کے باب میں مغربی اور خود مسلم دنیا میں مغربی فکر کے زیراثر سوچنے والے دانش وروں اور نشری اداروں کے اسلام میں دین و دنیا اور مذہب و ریاست کے تعلق کے بارے میں فکری اور سیاسی یلغار کی روشنی میں کچھ عناصر اپنی سادگی میں اور کچھ دوسرے مقاصد سے دین کو مسجد، مدرسہ اور گھر کے دائرے میں محدود کرنے کی خدمت انجام دے رہے ہیں ۔ ان کا ہدف اسلام کا وہ تصور ہے جو زندگی کی تمام وسعتوں پر حاوی ہے۔ کچھ عناصر کوشش کرتے ہیں کہ تحریکاتِ اسلامی کے تصور ’اقامتِ دین‘ کی اصطلاح کو دین کی سیاسی تعبیر قرار دے کر اس سے اپنی براء ت کا اظہار کریں۔ کچھ اخلاص سے دین کو ایک محدود دائرے میں محصور کررہے اور دوسرے پوری ہوشیاری کے ساتھ دین کو اجتماعی زندگی سے خارج کرنا چاہتے ہیں۔

فریضہ اقامتِ دین

تحریکاتِ اسلامی ’اقامت ِ دین‘ کی اصطلاح کے استعمال پر اس لیے اصرار کرتی ہیں کہ ان کے خیال میں اسلام ایک جامع دین ہے اوردین کی جامعیت اس کے معاشرتی ، معاشی ، قانونی، ثقافتی اور سیاسی کردار کےبغیر ممکن نہیں ہو سکتی ۔

اسلام اور عیسائیت میں ایک نمایاں فرق یہی ہے کہ عیسائیت زندگی کو دوخانوں میں تقسیم کرتی ہے۔ ایک کا تعلق حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کی اخلاقی تعلیمات و عمل سے ہے اور دوسرے کا تعلق دنیاوی شان و شوکت اور معا شی اور سیاسی معاملات سے ۔چنانچہ ایک دین دار عیسائی کا مطلب یہی لیا جاتا ہے کہ وہ باقاعدگی سے چرچ جاتا ہواور اپنے پڑوسی کے ساتھ محبت سے پیش آئے، حضرت عیسیٰؑ کی طرح اگرممکن ہو تو تجرد کی زندگی اختیار کرے اور آخر کار آپ علیہ اسلا م کے اسوہ پر عمل کرتے ہوئے اپنے عقیدے کے تحفظ میں سولی پر چڑھ سکے تو یہ گویا اس کی مذہبی معراج ہوگی ۔ اسلام کا مطلوبہ معیار اس سے بالکل مختلف وہ اسوۂ حسنہؐ ہے، جس میں مکہ مکرمہ میں پیش آنے والے امتحانات ، ظلم و تشدد سے گزرنے کے بعد مدینہ منورہ میں اسلامی معاشرت، اسلامی معیشت، اسلامی ثقافت اور اسلامی طریق حکمرانی کی اعلیٰ ترین مثال آپؐ نے اپنے عمل سے پیش فرما کر دین کی تکمیل اور تفسیر فرمائی۔ اس طرح اپنے طرزِ عمل کی شکل میں زندگی کی اکائی کو غیر منقسم اور توحیدی بناکر ایک قابلِ عمل نمونہ قیامت تک کے لیے پیش فرما دیا ۔

تحریکاتِ اسلامی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی جامع تصور اسوۂ حسنہ کو اپنے لیے دین کی مستند تعبیر اورعملی مثال قرار دیتی ہیں۔اس بنا پر ان کے کارکنان راتوں کی تنہائی میں اپنے ربّ کے حضور گڑگڑا کر مدد کی درخواست کرتے ہیں اور دن کی روشنی میں اسوۂ نبویؐ کی پیروی کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر اقامتِ صلوٰۃ ، اقامتِ زکوٰۃ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کی حفاظت او ران کے نفاذ وقیام اور انسانی معاشرے میں عدل و انصاف کے قیام کو دین کا لازمی عنصر سمجھتے ہیں ۔

سوال کیا جاتا ہے کہ ’اقامتِ دین کی اصطلاح کہاں سے آگئی ؟ ہم نے بچپن سے ارکانِ اسلام کے نام سے کلمۂ شہادت ، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کے بارے میں تو سنا ہےکہ یہ دین کے ارکان ہیں ،یہ بھی سنا ہے کہ بعض فقہا جہاد کو چھٹا رکن کہتے ہیں لیکن یہ اقامتِ دین کا تصور کہاں سے آگیا؟‘ نہ صرف یہ بلکہ یہ بھی کہا جا تا ہے کہ اسلام تو دیگر مذاہب کی طرح ایک مذہب ہے اور ظاہر ہے مذاہب عالم عمو ما ًاپنے آپ کو انسان اور انسانوں کےخدا کے درمیان ایک روحانی رشتہ ہی سے تعبیر کرتے ہیں،جب کہ سیاسی اقتدار ایک مادی اور دنیاوی تصور ہے ۔ اس لیے ان کے نزدیک سیاست اور مذہب دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔

یہی وہ بنیادی فکری انتشار ہے جو آگے چل کر یہ بھی سمجھاتا ہے کہ نہ صرف مذہب اور سیاسی سرگرمی دو مختلف چیزیں ہیں بلکہ روحانیت اور للہیت اور معاشرتی اور سیاسی سرگرمی دو متضاد چیزیں ہیں۔ اس لیے ایسے افراد کے نزدیک سچی مذہبیت اور روحانیت یہ ہو گی کہ انسان خاندانی جھمیلوں سے بچ کر رہے اور اپنے رب سے لو لگانے کے لیے کسی خانقاہ ، کسی پہاڑی کے غار ، کسی صحرا میں گوشہ نشین ہو کر اپنے آپ کو ہر طرف سے کاٹ کر اپنے رب کا ’ولی‘ بن جائے ۔ انسانی فکر کے ان لامتناہی تصورات کا سلسلہ کسی ایک مقام پر جا کر نہیں رُکتا۔ سوال یہ ہے کہ پھر حق کیا ہے ؟کیا اسلام واقعی دیگر مذاہب کی طرح ایک مذہب ہے یا اس کی اپنی کوئی پہچان اور خصوصیت ہے؟

قرآن کریم کی زبان میں اسلام اپنے آپ کو مذہب کی جگہ دین قرار دیتا ہے، اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ (اٰل عمرٰن ۳:۹)۔ اس کے ساتھ ہی اپنے بارے میں ایک حرکی تصور دیتا ہے کہ یہ انسان کو تاریکی سے نکال کر نور میں لے آتا ہے ۔ اسی بنا پر ہم اسلام کو توحید کے قیام کی تحریک کہتے ہیں ۔

اقامتِ دین کا مفہوم

اقامت کا لفظ جب کسی ٹھوس چیز کے لیے بولا جائے ، اس کے معنی سیدھا کر دینے کے ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں کہا گیا: يُّرِيْدُ اَنْ يَّنْقَضَّ فَاَقَامَهٗ  ط (الکہف۱۸:۷۷) ’’دیوار (ایک طرف جھک گئی تھی اور) گرا چاہتی تھی تو اسے سیدھا کر دیا‘‘، اور جب معنوی اشیا کے لیے بولا جائے تو اس کا معنی، مفہوم کاپورا کا پورا حق ادا کردینے کے لیے آتا ہے ۔

امام راغب الا صفہانی اقامتہ الشئی کے معنی ’’ کسی چیز کا پورا پورا حق ادا کرنے کے‘‘ بیان کرتے ہیں اور قرآن سے دو مثالیں وضاحت کے لیے پیش کرتے ہیں:

 قُلْ يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰي شَيْءٍ حَتّٰي تُقِيْمُوا التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ ط وَلَيَزِيْدَنَّ كَثِيْرًا مِّنْهُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَّكُفْرًا ج  فَلَا تَاْسَ عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ o  (المائدہ۵:۶۸) صاف کہہ دو کہ   ’’اے اہل کتاب ! تم ہرگز کسی اصل پر نہیں ہو جب تک کہ تورات اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم نہ کرو جو تمھاری طرف تمھارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہیں‘‘۔ ضرور ہے کہ یہ فرمان جو تم پر نازل کیا گیا ہے ان میں سے اکثر کی سرکشی اور انکار کو اور زیادہ بڑھا دے گا، مگر انکار کرنے والوں کے حال پر کچھ افسوس نہ کرو۔ ﴿

وَلَوْ اَنَّ اَهْلَ الْكِتٰبِ اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَيِّاٰتِهِمْ وَلَاَدْخَلْنٰهُمْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ o وَلَوْ اَنَّهُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِمْ مِّنْ رَّبِّهِمْ لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ  ط مِنْهُمْ اُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ  وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ سَاۗءَ مَا يَعْمَلُوْنَ o  (المائدہ۵:۶۵-۶۶) اگر (اس سرکشی کے بجاے) یہ   اہل کتاب ایمان لے آتے اور خدا ترسی کی رَوش اختیار کرتے تو ہم ان کی برائیاں  ان سے دُور کردیتے اور ان کو نعمت بھری جنتوں میں پہنچاتے۔ کاش! انھوں نے تورات اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم کیا ہوتا جو ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس بھیجی گئی تھیں۔ ایسا کرتے تو ان کے لیے اوپر سے رزق برستا اور نیچے سے اُبلتا۔  اگرچہ ان میں کچھ لوگ راست رَو بھی ہیں لیکن ان کی اکثریت سخت بد عمل ہے۔

 گویا اسلام سے قبل بنی اسرائیل کو جب قیادت کی ذمہ داری دی گئی تو ان سے بھی یہی کہا گیا کہ وہ تورات کو پورا کا پورا جیسا اس کا حق ہےسمجھیں ، نافذ اور قائم کریں اور اس میں اپنے مطلب کے اجزا الگ کر کے دین کے ٹکڑے ٹکڑے نہ کردیں ۔ قرآن کریم نے نہ صرف تورات کے حوالے سے بلکہ دین حق کے حوالے سے بھی جگہ جگہ یہ بات واضح کر دی ہے کہ صحیح اور سیدھا دین اگر ہے تو صرف اسلام ہی ہے۔ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ  (یوسف ۱۲:۴۰) ’’یہی ٹھیٹھ سیدھا طریقِ زندگی ہے‘‘۔

اسی دین کی اقامت کے لیے اُمت مسلمہ کو خیر امتہ اور امت وسط قرار دیتے ہوئے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے پر مامور کیا گیاہے ۔ یہ کام جہاں اجتماعیت ، نظم و ضبط اور تحریک کےبغیر عقلاً ممکن نہیں ، وہاں اولین تحریک اسلامی کی تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اقامتِ دین کی جدوجہد کے لیے جن تربیت یافتہ اصحاب کی ٹیم کو تیار کیا    ان سب نے اجتماعی طور پر مدینہ منورہ میں وہ نظام قائم کیا جس نے عدل، توازن ، عبودیت اور حاکمیت ِالٰہی کی قرآنی تعلیمات و احکام کو اور قرآنی حدود و تعزیرات کو عملاً قائم کر کے دین کے کامل اور قابل عمل ہونے کو قیامت تک کے لیے جیتی جاگتی مثال بنا دیا ۔ سادہ الفاظ میں اقامتِ دین کا مفہوم اسلامی عبادات کے ساتھ دین کے معاشرتی، معاشی اور سیاسی نظام کا زمین پر نافذکرنا ہے ۔

اقامتِ دین کی حکمت

 سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اقامتِ دین کا مطلب پورے کے پورے دین کو قائم کرنا ہے جسے اس دور میں بظاہر’ بدنام‘کرنے کے لیے مغرب میں ’سیاسی اسلام‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے، تو یہ’ سیاسی اسلام‘ ان ممالک میں کیسے نافذ ہو گا جہاں لا دینی جمہوریت یا سرمایہ دارانہ نظام رائج ہے؟قرآن کریم میں اقامتِ دین کے لیے اُمت مسلمہ کو ذمہ داری دیتے وقت یہ بات بھی واضح کر دی گئی ہے کہ امت کی جواب دہی ہمیشہ بقدر استطاعت ہو گی۔ اگر مسلمان کسی اکثریتی ملک میں جہاں اہل ایمان کو یہ آزادی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے گھریلو ، معاشی، معاشرتی ، ثقافتی معاملات بلکہ سیاسی معاملات میں ایسے افراد کو ذمہ داری پر مامور کریں جو اللہ تعالیٰ کے احکام کے پابند ہوں اور ان کے نفاذ کے لیے کوشاں ہوں، لیکن وہ لوگ ایسا نہ کریں تو اس دنیا میں اور آخرت میں بھی ان سےدین کی اقامت نہ کرنےپر احتساب نہ صرف عقل کا مطالبہ ہے بلکہ قرآن کے واضح احکام کی شکل میں پایا جاتا ہے ۔

اگر مسلمان کسی ایسے ملک میں ہوں جہاں وہ ’مذہبی آزادی‘کے اصول کی بنا پر دین کے ایک حصے پر عمل کر سکتے ہوں اور بغیر کسی روک ٹوک کے دین کی دعوت بھی پیش کر سکتے ہوں لیکن تبدیلیِ اقتدار ان کے اختیار میں نہ ہو، تو اقامتِ دین کے حوالے سے ان کی ذمہ داری اور آخرت میں جواب دہی اسی حد تک ہو گی جتنا انھیں عمل کرنے کی آزادی حاصل ہے۔ لیکن اس تناظر میں انھیں یہ حق حاصل نہیں ہو گا کہ وہ مقامی صورت حال کے پیش نظر دین کی من مانی تعبیر کرتے ہوئے اس کے سیاسی ، معاشی اور قانونی تعلیمات کے منکر ہوکر دین کو صرف انفرادی زندگی تک محدود کرکے عیسائیت کی طرح ایک روحانی مذہب بنا دیں۔یہ تو اللہ کے دین کے ساتھ مذا ق اورعملی بغاوت ہوگی۔ البتہ دین کو اس کی جامعیت کے ساتھ تسلیم کرتے ہوئے حالات کی روشنی میں عمل کریں اور دعوت و تبلیغ کے ذریعے اپنی بساط بھر کوشش کرتے ہیں تو یہ صراطِ مستقیم سے قریب تر ہوگا۔ دین جیسا ہے ویسا ہی رہے گا ___ ہاں، اس کے بعض مطالبات زمان و مکان کی قید کی بناپر اس وقت تک نافذ نہیں ہوں گے جب تک ان کےنفاذ کی قوت ہاتھ میں نہ آجائے۔ اس معاملے میں قرآن کریم نے ’تکلیف‘ کے اصول کو بڑے واضح الفاظ میں بیان کر دیا ہے: لَا تُکَلَّفُ نَفْسٌ اِلَّا وُسْعَھَا ج (البقرہ ۲:۲۳۳) ’’مگر کسی پر اس کی وسعت سے بڑھ کر بار نہ ڈالنا چاہیے‘‘۔

یہ آیت ہمیں یہ اصول سمجھاتی ہے کہ انسان کس حد تک ذمہ دار اور جواب دہ ہے ۔ اس کی جواب دہی بھی انھی معاملات میں ہے جن میں اسے اختیار ہے ۔ اس لیے یہ ساری بحث کہ امریکا میں یا یورپ میں اقامتِ دین کیسے ہو گی ؟ دین کے بنیادی حقائق کو صحیح طور پر نہ سمجھنے سے پیدا ہوتی ہے ۔ دین بہت سادہ ، عملی اور عقلی ہے۔ گویا اقامتِ دین سارے کے سارے دین کی تعلیمات کی دعوت اور نفاذکا نام ہے لیکن اگر صورت حال ایسی ہو کہ بعض احکام پر مکمل عمل امکان اور اختیار سے باہر ہو تو جس حد تک عمل ہو سکتا ہے اس کا اہتمام وہی دین کا مطالبہ ہوگا ۔ مثلاًایک شخص طاقت ور مومن ہو لیکن اسے زنجیروں سے اس حد تک باندھ دیا جائے کہ وہ صرف رکوع کر سکتا ہو سجدہ نہ کرسکتا ہو تو کیا اس بنا پروہ نماز ترک کر دے گا یا رکوع کرنے کے بعد جس حد تک وہ جھک سکتا ہے ، جھکے گا اور وہی اس کا سجدہ شمار کیا جائے گا اور اس طرح ادا کی گئی نماز اور ایک آزاد فرد کی نماز کی ادائیگی میں کوئی تفریق نہیں کی جائے گی کیوں کہ رب کریم کو علم ہے کہ اس کا بندہ مجبور ہے اور اسی حد تک جسم کو جھکا سکتا ہے جتنا قید و بند میں ممکن ہے ۔

 اقامتِ دین کے لیے تمام موجود ذرائع کا استعمال کرنا اور دین کی تعلیمات کو بغیر کسی کمی بیشی کے بہترین انداز میں پیش کرنا وہ اہم فریضہ ہے جس کے لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے امت مسلمہ کو پسند فرمایا ہے ۔ امت مسلمہ کے لیے اس ذمہ داری پر مقرر کیا جانا ایک ایسا اعزاز ہے ، جس کا    شکر اداکرنا اس پر فرض ہے اور یہ شکر صرف اپنے تمام وسائل کو وہ مادی ہوں ، عقلی اور ذہنی ہوں یا تنظیمی ہوں، حتی المقدور استعمال کر کے ہی ادا کیا جاسکتا ہے ۔

 بنی اسرائیل کو جب دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی کتاب شریعت کو قائم کرنے پر مامور کیا گیا اور انھوں نے اقامتِ دین کے فریضے کی ادایگی جیسا کہ اس کا حق ہے نہ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی جگہ امت مسلمہ کو اپنے فضل سے یہ ذمہ داری سونپ دی ۔قرآن کریم اپنے سے پہلے کے الہامی مذاہب کا حوالہ دیتے ہوئےکئی مقامات پر وضاحت سے بیان کر تا ہےکہ تمام انبیاے کرامؑ کے آنے کا مقصد صرف اور صرف اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کا قائم کرنایا اقامتِ دین تھا۔فرمایا گیا:

وَلَوْ اَنَّهُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِمْ مِّنْ رَّبِّهِمْ لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ ط ( المائدہ۵:۶۶) کاش! انھوں نے تورات اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم کیا ہوتا جو ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس بھیجی گئی تھیں۔ ایسا کرتے تو ان کے لیے اوپر سے رزق برستا اور نیچے سے ابلتا ۔

تورات اور انجیل کے قائم کرنے یا اقا موا کا واضح مطلب ان کتابوں کو طبع کر کے لوگوں میں تقسیم کر دینا یا ان کو خوش الحانی سے پڑھنا نہیں ہے،بلکہ ان احکامات کو نافذ کرنے کے لیے  قوتِ نافذہ کا استعمال کرنا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد ؑ اور حضرت سلیمانؑ کے حوالے سے اس قوت نافذہ کو واضح الفاظ میں اپنے کلام عزیز میں بیان فرما دیا:

يٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِيْفَةً فِي الْاَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوٰى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ط (صٓ۳۸:۲۶) اے داؤدؑ ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے، لہٰذا تو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ حکومت کر اور خواہشِ نفس کی پیروی نہ کر کہ وہ تجھے اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی۔

 یہاں حضرت داؤد ؑسے واضح طور پر جو بات کہی گئی ہے وہ نہ صرف انھیں خلافت پر مامور کرنا ہے، بلکہ قانونی معاملات میں بااختیار حاکم اور قاضی کی حیثیت سے حق پر مبنی فیصلے کرنے کے ذریعے اقامتِ دین کرنا ہے۔اسی سورہ میں آگے چل کر حضرت سلیمانؑ کی وہ دعا بیان کی گئی ہے جس میں وہ اقامتِ دین کے لیے ایسی سلطنت کی خواہش کرتے ہیں جو بے مثال ہو:

قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَهَبْ لِيْ مُلْكًا لَّا يَنْۢبَغِيْ لِاَحَدٍ مِّنْ بَعْدِيْ  اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ (صٓ۳۸:۳۵) اے میرے رب، مجھے معاف کر دے اور مجھے وہ سلطنت (مُلْکًا) دے جو میرے بعد کسی کے لیے سزاوار نہ ہو، بے شک تو ہی اصل داتا ہے۔

قرآن کریم عیسائیت اور یہودیت کےاس ذہن کی تردید کرتا ہے جس میں قانون اور روحانیت کو دو خانوں میں تقسیم کرنے کے بعد قانون کو باد شاہت کے لیے اور روحانیت کو اہل اللہ کے لیے مخصوص کر دیا گیا اور یہی تصور صدیاں گزرنے پر نہ صرف یہودونصاریٰ بلکہ خود مسلمانوں کے کچھ طبقات کے ذہنوں میں ، خصوصاًسامراجی غلامی کے دور میں ، جاگزیں کر دیا گیا، اور اس پر مزید ایک ظلم یہ کیا گیا کہ شریعت کے ایک بڑے حصے کو شریعت سے الگ کر کے خالص روحانیت کے نام سے تصورِ طریقت ٹھیرا کر مشہور کر دیا گیا ۔ قرآن کریم جب اقامتِ دین کا حکم دیتا ہے    تو وہ عبادت، تزکیہ، حب الٰہی، اطاعت رسولؐ، ادایگی حقوق اللہ و حقوق العباد، اجتماعی اصلاح، قیام عدل و احسان میں کوئی تقسیم نہیں کرتابلکہ سب کے مجموعے کو دین القیم کانام دیتا ہے :

وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ لا حُنَفَاۗءَ وَيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَيُؤْتُوا الزَّكٰوةَ وَ ذٰلِكَ دِيْنُ الْقَيِّمَةِ  (البینۃ۹۸:۵) اور ان کو اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ اللہ کی بندگی کریں اپنے دین کو اس کے لیے خالص کر کے، بالکل یکسو ہو کر، اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃدیں۔ یہی نہایت صحیح و درست دین ہے۔

اس مختصر آیت مبارکہ میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے دین کے جامع تصورکو توحید اور اس کے دومظاہر اقامت صلوٰۃ اور اقامت زکوٰۃکے ساتھ مربوط اور واضح فرمایا ہے،یعنی یکسو ہو کر اللہ کی بندگی کا پہلا مرحلہ اقامت صلوٰۃ ہے جو اقامتِ دین کی اولین شکل ہے۔ گویا محض نماز کا پڑھنا نہیں کہ پانچ وقت نما زادا کر لی گئی یا رات کی تنہائی میں اللہ کو یاد کر لیا، بلکہ اس نظامِ عدل کا قیام جس میں نماز فحشاء اور منکرات سے بچانے کا کام کرے۔پانچ وقت اس بات کا اعلان و اعادہ کہ اللہ کی زمین پر اگر کسی کی حکومت ہے اور ہونی چاہیےتو وہ صرف مالک وخالق کائنات ہی کی ہوسکتی ہے۔وہی اکبر ہے،وہی اعلیٰ ہے، وہی ہدایت دینے والا ہے، وہی فلاح کا ضامن ہے، وہی اپنے بندوں کی دعا کو سنتا اور قبول کرتا ہےاور حکم واختیار صرف اور صرف اس کے لیے ہے۔

سورئہ حج میں اقامت ِ دین کی اس ذمہ داری اور مشن کو اس طرح بیان فرمایا گیا ہے کہ: 

اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ  ط  وَلِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ o (الحج ۲۲:۴۱) یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

اسی طرح ایک صاحبِ مال پر فرض کر دیا گیا کہ وہ معاشرے کے ضرورت مند افراد کو ان کا حق دے۔زکوٰۃ کسی پر احسان کرنا نہیں ہے، بلکہ اپنے اوپر احسان کرنا ہےکہ ایک مستحق کا وہ حق جو صاحبِ مال کو بطور امانت دیا گیا تھا وہ اس نے اصل مالک کوپہنچا دیا۔ اس کے ساتھ یہ پیغام بھی دیا جارہا ہے کہ زکوٰۃ کے ذریعے ایک غریب شخص ایمان کی تکمیل اسی وقت کر سکتا ہےجب وہ زکوٰۃ میں حاصل کی ہوئی مدد کو اس طرح استعمال کرے کہ جلد ازجلد خود زکوٰۃ دینے کے قابل بن سکے۔ اس طرح زکوٰۃ معاشرے میں معاشی خوش حالی اور خودانحصاری پیدا کرنے کے لیے ایک شرعی محرک بن کر صاحبِ مال اور غریب دونوں کو معاشی جدوجہد کی دعوت دیتی ہے۔گویااقامت زکوٰۃ کا مطلب نظام زکوٰۃ کا قائم کرنا ہے۔ یہ محض چند افراد کی مالی امداد کا نام نہیں، نہ یہ کسی قسم کا ٹیکس ہے جو امیروں پر لگایا گیا ہے۔یہ ایک عبادت ہے۔ یہ فریضہ ہے، یہ شرعی محرک ہے تا کہ غربت دُور ہو اور معاشی استحکام پیدا ہو۔

 نماز اور زکوٰۃ کا یہ نظام دین کی اقامت کے ساتھ وابستہ اور پیوستہ ہے۔ اسلامی ریاست کے فرائض و واجبات میں یہ بات شامل کر دی گئی کہ وہ نظام صلوٰۃ اور نظام زکوٰۃ کے لیے اپنی  قوتِ نافذہ کو ، حکومت کے وسائل و اختیارات کو استعمال کرے گی۔ چنانچہ سورۃ الحج میں صاف  طور پر فرمایا گیا کہ اگر ہم تمھیں زمین میں اختیار دیں تو اقامت صلوٰۃ اور زکوٰۃ کے نظام کا قیام تمھاری سرکاری ذمہ داری ہے (الحج۲۲:۴۱)۔دین کی یہ جامعیت ہی ہے جو اسے دنیا کے تمام مذاہب سے ممتاز کرتی ہےاور جس کو نہ سمجھنے کی بنا پر مسلمان اور غیر مسلم سادہ لوحی سے یہ کہنے لگتے ہیں کہ جس طرح دیگر مذاہب میں Charity  کا تصور ہے ایسے ہی اسلام میں زکوٰۃ کی تعلیم ہے۔زکوٰۃ نہ Charity ہے نہ کوئی ٹیکس اور ذاتی عمل، بلکہ یہ ایک معاشرتی فریضہ ہے جو اجتماعیت کا لازمی حصہ ہے۔ قرآن نے اس انقلابی تصور کو بڑی خوب صورتی سے ان الفاظ میں بیان کردیا ہے کہ وَفِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ (الذاریات ۵۱:۱۹) ’’اور ان کے مالوں میں حق تھا سائل اور محروم کے لیے‘‘۔

اگر بنی اسرائیل اور نصاریٰ اس بات کو سمجھتے اور اقامتِ دین کرتے تو قرآن کریم کا فرمان ہے کہ ان پر آسمان اور زمین سے رزق کے دروازے کھل جاتے، آسمان سے رزق برستا اور زمین سے اُبلتا لیکن وہ اقامتِ دین کے فریضے سے فرار اور دین کو انفرادی اور ذاتی مذہبی عبادت سے  تعبیر کر کے ایک بڑے انحراف میں پڑ گئے۔آج اس انحراف کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔      اس انحراف سے نکالنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے خاتم النبینؐ کے ذریعے دین القیم کو اس کی اصل اور درست شکل میں دوبارہ قائم کرنے کے لیے آپؐ کو رحمۃ للعالمینؐ بنا کر مبعوث فرمایااور آپؐ کے بعد اس اقامتِ دین اور شہادت حق کی ذمہ داری کوآپ کی امت پر فرض کر دیا:

وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا ط (البقرہ۲:۱۴۳) اور اسی طرح تو ہم نے تمھیں ایک ’اُمّتِ وَسَط‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔

شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ سے مرادمحض اسلام کے بعض درخشاں پہلو اچھے انداز میں بیان کردینا نہیں ہے، بلکہ اسلام کی ایک ایسی عملی مثال قائم کرنا ہے،جسے آنکھوں سے مشاہدہ کرنے کے بعد ہر دیکھنے والا اسلام کی صداقت پر شہادت دینے پر آمادہ ہو جائے۔ شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ بننے کا یہ کام صرف اللہ کی زمین پر اللہ کی ہدایت کے مطابق مکمل نظام عدل کے قیام سے ہی ممکن ہے۔

اقامتِ دین کا اسلوب

اقامتِ دین اور شہادت علی الناس کے فریضے کو قرآن کریم نے جگہ جگہ مختلف حوالوں سے سمجھانے کے لیے دعوتی اور تعلیمی اسلوب اختیار کیا ہے۔سورۃالحج میں اس اقامتِ دین کو چار اہم حکومتی فرائض کی شکل میں بیان فرمایا گیا۔ چنانچہ اہل ایمان کی تعریف (definition) یہ کی گئی کہ:

اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ ط  وَلِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ o (الحج ۲۲:۴۱) یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور بُرائی سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

لیکن اس سے ایک آیت قبل ان اہل ایمان کی اس ریاستی ذمہ داری کو بیان کرنے سے قبل جو بات کہی گئی تھی وہ غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ:

اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا  ط وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰي نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُ o نِ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ  يَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ  ط (الحج ۲۲: ۳۹-۴۰) اجازت دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے، کیوںکہ  وہ مظلوم ہیں، اور اللہ یقینا ان کی مدد پر قادر ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے ہیں ہمارا ربّ اللہ( ہی) ہے۔

سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ کیا کسی بھی مشرکانہ اور دہریت پر مبنی نظام میں کچھ لوگ وہ چاہے کم تعداد میں ہوں یا زیادہ اگر چپکے چپکے اپنے گھر میں، اپنی مسجد میں، اپنے کلیسا یا مندر میں دن کے اوقات میں اور راتوں کی تاریکی اور تنہائی میں اپنے رب کو یاد کرتے تو اس طرح کے روحانی عمل سے اردگرد کے معاشرے میں کسی کوکیا پریشانی یا تکلیف پہنچ سکتی تھی؟ اگر مکہ مکرمہ میں مسلمان اپنے گھروں کے اندر بیٹھ کر اللہ کے نام کی تسبیح اور نمازیں ادا کرتے رہتے تو اس سے مشرکین کو کیوں پریشانی ہوتی؟ واضح بات ہے کہ مکہ میں جہاں مسلمان اقلیت میں تھے، اقامتِ دین کے معنی محض ادائیگی نماز کا نام نہ تھا بلکہ تمام جھوٹے خداؤں کی جگہ صرف اللہ وحدہ لاشریک کی حاکمیت کا قائم کرنا تھا ۔ اگر معاملہ صرف اللہ جل جلالہ پر ایمان لانے کا ہوتا تو اہل مکہ بہ آسانی اپنےبہت سے خداؤں میں ایک اللہ کا اور اضافہ کر لیتے۔

بات بڑی واضح ہے۔ اللہ کو ماننے کا مطلب ہی یہ تھا کہ وہ سارے خدا جو نسل، رنگ، لسانی، قبائلی برتری، اشرافیہ کی منزلت ، دولت کی پرستش ،جنسی آزادی، شراب نوشی اور سود خوری کی اجازت دیتےتھے صرف اللہ کو رب مانتے ہی باطل ٹھیرتے اور مادہ پرست نظامِ معیشت، معاشرت، سیاست اور قانون اور ہر شعبۂ حیات سے بے شمار خداؤں کی بےدخلی کے بعدہی توحید کا قیام ممکن تھااور یہ بات اہل مکہ کو خوب اچھی طرح معلوم تھی۔ وہ توحید کا مطلب شاید ہم سے زیادہ صحیح سمجھتے تھے۔ اسی لیے وہ اس کے شدت سے مخالف تھے۔

دین کی اقامت کا مطلب واضح طور پر توحید کی اقامت تھااور اسی بنا پر مشرکین کے لیے اہل ایمان کا وجود ناقابلِ برداشت تھا۔ یہ بات سمجھانے کے لیے سورۂ حج کی یہی آیت ایک اور اہم حقیقت سے پردہ اٹھا تی ہے کہ انسانی تاریخ میں ظالم اور شیطانی قوتوں کا ہدف ہمیشہ یہی رہا ہے کہ وہ دعوت توحید کی مخالفت کریں ۔ا س لیے توحید کے ماننے والوں پر ہر دور میں ظلم کیا گیا اور انھیں ان کے گھروں سے بے دخل کیا گیا۔اسی بنا پر ان کو جنگ کی اجازت اس لیے دی جا رہی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے دینی شعائر بلکہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی مذہبی آزادی کا تحفظ بھی کر سکیں ۔

مذاہب عالم کی تاریخ اور کتب مقدسہ میں کوئی کتاب ایسی نہیں ہے جو اپنے ماننےوالوں پر یہ فریضہ عائد کر دے کہ نہ صرف اپنی مذہبی آزادی اوراپنے عبادت خانوں بلکہ دوسروں کے مقاماتِ عبادت کا بھی تحفظ کریں، تا کہ ان مذاہب کے ماننے والے اپنی عبادت گاہوںمیں جا کر اپنے مذہب کے مطابق اپنی مذہبی رسوم ادا کر سکیں ۔قرآن کریم وہ واحد الہامی کتاب ہے جویہ کہتی ہے کہ:

وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ يُذْكَرُ فِيْهَا اسْمُ اللّٰهِ كَثِيْرًا ط (الحج ۲۲:۴۰)  اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے، سب مسمار کر ڈالی جائیں۔

یہاں جنگ کی اجازت کا واضح مفہوم یہی ہے کہ یہ اجازت اجتماعی طور پر جنگ کرنے کی ہے ۔انفرادی طور پر بغیر کسی سیاسی اقتدار کے جنگ کا تصور پوری انسانی تاریخ میں نہیں پایا جاتا۔ اقامتِ دین نا ممکن ہو گی اگر اسے محض زبانی اور تحریری اشاعتِ تعلیمات اسلام سے تعبیر کیا جائے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس طرح اسلام کا قیام اوراسلام میں پورے کا پورا داخل ہونا نا ممکن رہے گا جب تک قرآن کو قائم کرتے ہوئے اس کے قوانین کو حکومت کے ذریعےنافذ نہ کر دیا جائے۔یہ تمام پہلو قرآن کریم نے بغیر کسی ابہام کے واضح کر دیے ہیں اور جو لوگ قانون اور دعوت کے درمیان لکیر کھینچتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قانون تو انگریز سامراج کا ہو اور مسجد میں عبادت اللہ کی ہو ،    قرآن اس تصور کو سخت الفاظ میں چیلنج کرتاہے۔تورات کی طرف اشارہ کرتے ہوئےسورۂ مائدہ میں فرمایا کہ وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ  (المائدہ۵:۴۴) ’’جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں‘‘۔ اس بات کو اگلی آیت میں یوں کہا کہ وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ   (المائدہ۵:۴۵)   ’’اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں‘‘۔

یہاں اقامت تورات اور اقامتِ دین اور اقامت قرآن کریم کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے دوٹوک انداز میں واضح فرما دیا کہ جب تک سیاسی قوت اور قانونی قوت کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے احکام کا نفاذ نہ کیا جائے دین کی مکمل اقامت نہیں ہو سکتی ۔یہاں یہ بات دُہرانے کی ضرورت نہیں ہے کہ جن مقامات اور حالات میں مسلمان سیاسی غلبہ حاصل نہیں کر پاتے وہاں ان کی جواب دہی صرف ان کے اختیار اور قدرت کی حد تک ہے لیکن اس کے باوجودوہ دین کو مختصر نہیں کر سکتے کہ  ان تعلیمات کو نظر انداز کر دیں جو دین کا لازمی حصہ ہیں ۔

اقامتِ دین کے تصور میں یہ بات فطری طور پر شامل ہے کہ نہ صرف عبادات اور معاملات بلکہ سیاسی اقتدار اور نفاذ قانون کے بغیر دین کے قیام کا عمل مکمل نہیں ہوسکتا ۔ سورۂ یوسف نے اس پہلو کو نہایت واضح الفاظ میں ہمارے سامنے رکھا ہے۔پہلے تو حضرت یوسف ؑ اپنے جیل کے ساتھیوں سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا بہت سے خداؤں کی بندگی اچھی ہے یا ایک مالک اور اعلیٰ ترین رب کی؟ پھر آپ ان تک وہ حق پہنچاتے ہیں جس کے لیے آپ اور تمام انبیا کرامؑ بھیجے گئے:

يٰصَاحِبَيِ السِّجْنِ ءَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَيْرٌ اَمِ اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ o مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖٓ اِلَّآ اَسْمَاۗءً سَمَّيْتُمُوْهَآ اَنْتُمْ وَاٰبَاۗؤُكُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ ط   اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ   ط اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ  ط ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ o (یوسف۱۲:۳۹-۴۰) اے زنداں کے ساتھیو، تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے ؟ اس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کر رہے ہو وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمھارے آباو اجداد نے رکھ لیے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے کوئی سَنَد نازل نہیں کی۔ فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔

قرآن کریم نے حضرت داؤد ؑ، حضرت سلیمانؑ اور حضرت یوسف ؑکے حوالے سے یہ بات  وضاحت سے بیان فرمائی ہے کہ اقامتِ دین کے لیے نہ صرف ابلاغ کے ذریعےبلکہ ریاستی ذرائع کا استعمال دین کا تقاضا اور مطالبہ ہے۔پس یہی وجہ ہے کہ دین زندگی کو دین، چرچ اور بادشاہت میں تقسیم کا روادار نہیں ہے۔ چنانچہ خاتم النبینؐ کی شکل میں نبوت اور ریاست دونوں کو یک جا کرنے کے بعد ہی آپؐ کے اس مجموعی داعیانہ کردار کو اسوۂ حسنہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔جہاں آپؐ کا ہرہر قول و عمل ایک سنت ہے اور آپؐ کی دعوتی زندگی جو ۲۳سالوں پر پھیلی ہوئی ہے اور جو مکی اور مدنی دونوں اَدوار کی اپنی پوری جامعیت کے ساتھ امین ہے اور جس کا نقطۂ عروج آپؐ کا حجِ وداع کا خطبہ ہے، آپ کی سنت ِ کبریٰ ہے جس کا دوسرا عنوان اقامت ِ دین ہے۔

 سیرت پاکؐ کی پیروی اور آپؐ کے اسوہ کا قیام اسی وقت ممکن ہے جب آپؐ کے مکی اور مدنی دور دونوں پر یکساں عمل کیا جائے اور مکہ کی تیرہ سالہ آزمایش بھری زندگی کی تکمیل کے مدنی مراحل کو الگ نہ کیا جائے ۔ اسوۂ حسنہ مکہ اور مدینہ دونوں کی یک جائی کانام ہے ۔

اسوۂ حسنہ کی پیروی نامکمل ہو گی اگر صرف چند اخلاقی اصول تو اختیار کر لیے جائیں اور آپؐ کے قانونی کردار اور ریاستی معاملات میں آپؐ کےرویے کو نظر انداز کر دیا جائے۔ اقامتِ دین صرف اسی وقت صحیح طور پر ہو سکتی ہے جب یہ دونوں پہلو یک جا ہوں اور ان میں کوئی فاصلہ نہ پایا جائے۔

اقامتِ دین اور عصری رویـے

ان قرآنی حقائق کی روشنی میں دو اہم عصری رویوں پر غور کرنا بھی ضروری ہے۔

  •  اول یہ کہ بعض اسلامی تحریکا ت سیاسی تبدیلی کو اس حد تک اولیت دیتی ہیں اور ان کے خیال میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد ہی اُوپر سے نیچے کی طرف تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے دستوری اور غیر دستوری جو ذرائع بھی ممکن ہوں ان کے استعمال کو بھی درست سمجھتی ہیں۔
  •   دوسرا رویہ یہ ہے کہ راستہ صرف ایک ہے، یعنی نچلی سطح سے اُوپر کی جانب پیش قدمی۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ اجتماعی اُمور کو متاثر کرنے اور ان کی صورت گری کی فکر کرنا بعد کی بات ہے۔ اصل اور ساری توجہ بنیادوں کو مضبوط کرنے میں صرف کرنی چاہیے جس کے لیے عوام الناس میں کام کیا جائے چاہے اقامتِ دین کی اس جدوجہد کے ذریعے انقلاب امامت و قیادت میں غیرمعمولی طویل وقت لگے۔ اس رویے کے ماننے والے مکی دور دعوت اور ابنیاے کرام کے اسوہ کی روشنی میں یہ راے قائم کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اصل چیز عقیدے کی اصلاح اور تعمیرسیرت کی جدوجہد ہے۔ اگر اس دنیا میں کامیابی حاصل ہوجائے تو یہ اللہ کا فضل ہے ، اگر یہاں کامیابی نہ بھی ہو تو آخرت کی کامیابی کا وعدہ ایک مسلمان کے لیے زندگی کا حاصل ہے ۔ اس بنا پر جدوجہد کے طویل ہونے اور نتائج کے حد نظر تک نظر نہ آنے کی بنا پر مایوس ہونا اور اپنی دعوت اور اسوۂ انبیاؑ سے اخذ کردہ طریقِ دعوت پر شک کرنا ہماری بے صبری ظاہر کرتا ہے ۔ ایک مومن کی اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے۔ یہاں پر کامیابی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا انعام و فضل ہے۔
  •   ان دو رویوں کا جائزہ لیتے وقت ایک ضمنی پہلو یہ بھی ابھرتا ہے کہ جن ممالک میں مسلمان اکثریت میں نہیں ہیں یا ایسی ریاستوں میں جہاں مغربی سیکولر جمہوریت قائم ہے وہاں اقامتِ دین کس طرح کی جائے گی؟ اس اہم سوال پر غور کرنے سے قبل اگر اس بات کا جائزہ لےلیا جائے کہ دعوت دین یا دعوت حق سے مراد کیا ہے؟یہ کس قسم کی شہادت ہے جس کی دعوت قرآن کریم ہمیں دیتا ہے تو سوال کا اگلا حصہ زیادہ آسانی سے حل کیا جا سکتا ہے ۔

ہم جانتے ہیں کہ قرآن کریم کی انقلابی دعوت کا نقطۂ آغاز توحید ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ انسان صرف اور صرف اپنے خالق حقیقی اور مالک کو اپنا رب مانتےہوئےاپنے آپ کو مکمل طور پر  اس کی اطاعت میں دے دےاور اس کام کوشعوری طور پر احساس ذمہ داری کے ساتھ کیا جائے۔ اسی لیے اس عمل کے لیے شہادت کا لفظ استعمال کیا گیا ۔شہادت قولی ہو یا عملی، ہر دو صورتوں میں انسان پورے احساس ذمہ داری، اختیاراور جواب دہی کےاحساس کے ساتھ ہی شہادت دیتا ہے۔ ایک نابینا شخص کسی واقعے کی عینی شہادت نہیں دے سکتا لیکن کسی بات کی سماعت کی شہادت دے سکتا ہے۔ایک شخص جو سننے کے لیے کسی آلے کا استعمال کرتا ہوسمعی شہادت بھی صرف اس وقت دے سکتا ہے جب یہ ثابت ہو جائے کہ وہ آلۂ سماعت پہنے ہوئے تھا۔اس لیےقرآن کریم جب شہادت حق کی بات کرتا ہے تو اہل ایمان سے توقع رکھتا ہے کہ وہ اپنی زبان سے ہی نہیں بلکہ اپنے طرزعمل، طرزفکر، اپنے معاشی،سیاسی ،معاشرتی رویے سے توحید کی شہادت دیں گے۔ قرآن کریم جب کسی انسان کو ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے تو بات قولی اقرار تک نہیں رہتی فوراً اس اقرار کو ناپنے کا پیمانہ بھی پیش کر دیا جاتا ہے کہ صلوٰۃ قائم کرو اور زکوٰۃ دو۔ یہ دونوں عبادات اقامتِ دین کی اوّلین مظہر ہیں اور اسلامی معاشرت کی پہچان ہیں۔مدینہ منورہ پہنچنے پر سب سے پہلا کام جو کیا گیا وہ مسجد کے قیام کے ساتھ مدینہ کے اقتدار اعلیٰ کا فیصلہ تھا۔ چنانچہ میثاقِ مدینہ قلم بند کیا گیااور اس طرح اقامت صلوٰۃ اور اسلامی ریاست میں غیر مسلموں سے تعلقات کی نوعیت کا تعین نظامِ عدل کا قیام ، معاشرے سے فواحش اور منکرات کے خاتمے کی بنیادیں رکھی گئیں ۔چنانچہ فرمایا گیا:

 يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ لِلّٰهِ شُهَدَاۗءَ بِالْقِسْطِز (المائدہ۵:۸)     اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بنو۔

اسی بات کو زیادہ وضاحت سے یوں فرمایا گیا:

وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا ط (البقرہ ۲:۱۴۳) اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمّت ِ وَسَط‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔

یہ اتنا اہم فریضہ ہے کہ اگر اسے ادا نہ کیا جائےیا اس سے رُوگردانی برتی جائےتو قرآن اس پر وعید کرتا ہے:

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهَادَةً عِنْدَهٗ مِنَ اللّٰهِ  ط (البقرہ ۲:۱۴۰) اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا، جس کے ذمے اللہ کی طرف سے ایک گواہی ہو اور وہ اسے چھپائے؟

چنانچہ جو شہادت حق کو چھپاتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر ذلت اور غلامی مسلط کر دیتا ہے:

ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَاۗءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ ط (البقرہ ۲:۶۱)   ذلّت و خواری اور پستی و بدحالی ان پر مسلط ہوگئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھِر گئے۔

اقامتِ دین ہی وہ واحد عمل ہے جو ذلت و محکومی سے نجات دلا تا ہے۔لیکن یہ کس طرح ہو؟ کیا محض اجتماعات میں تقاریر سے یہ کام ہو سکتا ہے،یا سال میں تین مرتبہ کسی مقام پر چند منتخب افراد کا تین چار دن کےلیے یک جا ہو کر مطالعہ قرآن و حدیث اور نوافل کا اہتمام کرنا اس کے لیے کافی ہے،یا جب تک سیاسی اقتدار حاصل نہ کر لیا جائے؟ تزکیہ و تربیت کردار کو یکساں اہمیت دیتے ہوئے تبدیلیِ قیادت و نظام اور حصول اقتدار کی منظم جدوجہد کے ذریعے معاشرے کی تطہیر کی جدوجہد کا نام اقامتِ دین ہے ۔اقامتِ دین کا یہ قرآنی شعور ہر دور میں تحریکات اسلامی کے کارکنوں کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کا تسلی بخش جواب فراہم کرتا ہے ۔ ایک سادہ مثال سے مزید وضاحت کی جا سکتی ہے۔ایک ڈاکٹرکے پاس جب ایک مریض آتا ہےجس کی نبض کی رفتار درست نہ ہو، قلب بھی صحت مند نہ ہو، خون کا دباؤ بھی زیادہ ہو ، سانس لینے میں بھی دقت پیش آرہی ہو، رات کو سو بھی نہیں سکتا، تو وہ اس کا مکمل جائزہ لینے کے بعد ہی یہ طے کرتا ہے کہ اصلاح کا آغاز کہاں سے  کیا جائے۔ چنانچہ معائنے کی روشنی میں ہی وہ دوائیں تجویز کرتا ہے ۔ اسی طرح اگر کسی مقام پر مسلمان اقلیت میں ہوں اور وہ دین کی تمام تعلیمات کی اقامت نہ کر سکتے ہوں تو اقامتِ دین کا آغاز انھی اقدامات سے ہو گا جن کے کرنے پر وہ آزاد اور مختار ہوں۔ بقیہ تعلیمات کو جوںکا توں مانتے ہوئے مناسب وقت آنے پر ان کا نفاذ کیا جائے گا ۔

اقامتِ دین کے مراحل

اقامتِ دین کا پہلا مرحلہ شعوری طور پر اسلام لانا اور تطہیر افکار یا توحید خالص کا ذہنوں میں جا گزیں کرنا ہے۔ یہ ایک طویل مرحلہ ہے۔ یہ دو چار برس کی با ت نہیں ۔جب مکہ جیسی تربیت گاہ میں کسی اور کو نہیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے منتخب کردہ خاتم النبینؐ کو ۱۳سال جدوجہد کرنی پڑی تو ہم  کیسے چار پانچ سال کی مہم میں متوقع نتائج حاصل کر سکتے ہیں (وما توفیقی الا باللہ)۔ ضرورت    اس بات کی ہے کہ نتائج سے بے پروا ہو کر پوری قوت ، حکمت اور منصوبہ بندی کے ساتھ اقامتِ دین کے پہلے نکتے پر توجہ دی جائے۔اور تطہیر ِ افکا روہ لوگ کریں جو خودنہ صرف تحریکی لٹریچر بلکہ قرآن و حدیث اور سیرت طیبہ سے سے براہ راست واقفیت رکھتے ہوں اور دعوت کو آسان اور مؤثر انداز سے پیش کر سکتے ہوں، نیز ان کی سیرت ،دعوت کی دلیل پیش کرے:

وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَى اللّٰهِ وَعَمِلَ صَالِحًـا وَّقَالَ اِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ (حم السجدہ ۴۱:۳۳) اور اس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہو گی، جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔

 تحریکاتِ اسلامی کے لیے اصل لمحۂ فکریہ تطہیر افکار اور فہم دین کے حوالے سے یہ جائزہ ہے کہ کیا ان کا ہر کارکن اپنی عملی زندگی اور معاملات سے اپنی دعوت پیش کررہا ہے ؟یا وہ عوامی نعروں سے متاثر ہو کر تحریک میں تو آگیا، لیکن اس کی اپنی زندگی ابھی تک اسی ڈگر پر ہے، جس پر دوسروں کو دیکھتا ہے؟ کیا اس کے معاملات وہ مالی نوعیت کے ہوں یا باہمی تعلقات سے متعلق ہوں، ان اصولوں کی پیروی کر رہے ہیں جن کی آسان تشریح ایک اہم تحریکی کتاب تحریک اسلامی میں کارکنوں کے باہمی تعلقات میں تحریک کے ایک خادم نے تحریر کر دی ہے، اور کیا اس نے اس تحریر کو شعوری طور پر مطالعہ کر کے جذب بھی کیا ہے؟

نتائج ہمیشہ اسباب کے تابع ہوتے ہیں۔اگر ایک دیوار کی بنیاد کمزور ہو تو عمارت کتنی بلند کیوں نہ بن جائےوہ ناپایدارہی ہو گی۔تحریک اسلامی کی کامیابی محض سیاسی کامیابی اور نشستوں کی تعداد سے نہیں ناپی جاسکتی ۔ اس کا اصل پیمانہ افراد کی اسلامی شخصیت ہے ۔ ان کا خلوص اور دین سے عملی وابستگی ہے۔ اگر یہ ٹھوس بنیاد تعمیر ہو گئی تو نتائج چاہے صدیوں میں نکلیں تحریک ایک کامیاب تحریک ہے۔ نتائج کا نکالنا تحریک کا مسئلہ نہیں،نہ وہ ان کے لیے جواب دہ ہے۔ یہ مسئلہ اس کا ہے جو اس دنیا میں اصلاح، عدل اور اپنا نظا م چاہتا ہے۔ صحیح کوشش، جدو جہد اورسعی اصل بنیاد ہے۔ کوشش اور جدوجہد ہی کا نام جہاد ہے۔ جتنی کامیابی بدر کی ہے، اتنی ہی کامیابی اُحد اور حنین کی بھی ہے۔ جو اجر بدری کو ملے گا وہی اجر احد اور حنین والے کو بھی ملے گا۔ اس لیے یہ سوال کہ اقامتِ دین کے لیے ہمیشہ اسمبلی نشستیں جیتنا کامیابی کا معیار ہے، قرآن و سنت سے مناسبت نہیں رکھتا۔لیکن  اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ سیاسی جدوجہد کو نظرانداز کیا جائے یا سیاسی جدوجہد کے نتائج کو غیراہم سمجھا جائے۔تاہم، تحریک کی کامیابی اور ناکامی کا اصل پیمانہ اور معیار محض اس کو نہیں بنایا جاسکتا۔

اقامتِ دین ایسےجامع طرزِعمل کا نام ہے جس میں زندگی کے تمام شعبوں میں انقلاب برپا کرنے کی کوشش اصل ہدف ہے۔ ظاہر ہے اس کا آغاز فکری انقلاب سے ہو گا ، سیرت کے انقلاب سے ہو گا جو آخر کار معاشرت ، معیشت اور قانون و سیاست پر جا کر مکمل ہو گا۔ اقامتِ دین کا آغاز تطہیرِ افکار اور تعمیرِ سیرت سے ہی ہو گا۔ جب یہ بنیادی مرحلہ شروع ہو جائے گا تو فطری طور پر اصلاحِ معاشرہ کے ساتھ ساتھ اصلاح اقتدار کا مرحلہ بھی آئے گا۔ چوتھا مرحلہ اوّلین تین مراحل کے ساتھ فطری طور پر جڑا ہوا ہے، ان سے الگ اور آزاد نہیں ہے۔

زمینی حقائق کا اِدراک

 یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ اقامتِ دین کے لیے تحریک کی حکمت عملی زمینی حقائق پر مبنی ہو نی چاہیے۔ہم کسی بھی معاشرے میں بس رہے ہوں اس کا آغازجب تک گھر سے نہیں ہو گا ہم اپنا ہدف حاصل نہیں کر سکیں گے۔ہمیں غیر اسلامی روایا ت اور رواج کو گھروں سے دور کرنا ہو گاتاکہ لوگ آنکھوں سے دیکھ لیں کہ اسلامی گھرانہ اور اسلامی معاشرت کیسی ہوتی ہے۔ ہمیں نہ صرف تربیت کے ذریعے صالح افراد پیدا کرنے ہوں گے بلکہ معاشرے میں بہت سے موجود صالح افراد کو تلاش کرکے اپنے سے قریب لانا ہو گا۔ ان کے خدشات کو دُور کرنا اور ان سے فاصلے کو کم کرنا ہو گا اور زمینی حقائق کے پیش نظر ترجیحات کا تعین کرنا ہو گا۔

ان صالح افراد کو بھی محض جمع کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ انھیں مزید عملی تربیت کے لیے معاشرتی کاموں میں مصروف کرنا ہو گا۔شہروں اور دیہا توں میں سڑکوں پر صفائی کی مہم ، مساجد اور مدارس میں تعاون کی پیش کش، مساجد میں حکمت کے ساتھ حلقہ ہاے قرآن کا قیام ، تعلیمِ بالغاں کے مراکز، مساجد کے قریب کسی مطالعہ گھر کا قیام جس میں قرآن و حدیث اور تحریکی لٹریچر نہ صرف کتابی شکل میں بلکہ سمعی مواد کی شکل میں بھی موجود ہو۔بستی کے یتیم و معذور افراد کی خدمت کے لیے مستقل بندوبست، مزدوروں کے مسائل سے آگاہی اور ان میں نفوذ، اساتذہ اور پیشہ ور افراد ، وکلا، تاجر برادری سے محض سیاسی مہم میں نہیں بلکہ ان سے دعوتی تعلق، ان کے مسائل میں آگے بڑھ کر ان کی رہنمائی اور حق کے لیے جدوجہد، اس اولین مر حلے کے لوازم ہیں ۔

پورے ملک میں نجی شعبے میں تعلیم گاہوں کا ایک ایسے مربوط نظام کا قیام ،جس میں وہ نصابی کتب شامل ہوں، جو کردار سازی کرتی ہیں اور طلبہ وطالبات کو ایسا ماحول میسر آئے،جس میں دین کے جامع تصور کو سمجھ سکیں ۔

یہ کام کسی بہت لمبے عرصے کا مطالبہ نہیں کرتا۔ اس سارے کام کو حکمتِ عملی کے ساتھ کرنے میں اصل پیمانہ ہمہ تن کوشش، جذبۂ قربانی، اور اپنی تمام تر قوت کا اقامتِ دین کے لیے استعمال کرنا ہے۔ عزم الامور کے بعد نتائج کو اللہ پر توکل کرتے ہوئے اس پر چھوڑ دینا ہی قرآن کا طریقہ ہے۔

جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں ان کے لیے بھی اقامتِ دین کے ان مراحل میں کوئی تبدیلی کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ قرآن و سنت کی روشنی میں صرف اس کے لیے مکلف ہیں جو وہ کر سکتے ہیں۔ جس نظام میں وہ رہ رہے ہیں اس میں تبدیلیِ امامت کے لیے وہ مشروط طور پر مکلف ہیں، یعنی اگر مکمل بھلائی نہیں پیدا کر سکتے تو کم ازکم کم تر برائی کے ذریعے ایک لمبےعمل کے ذریعے بھلائی کے لانے کے امکانات پیدا کر سکتے ہیں۔ ان سے سوال ان کے حالات کے مطابق اصلاح کی کوشش کے باب میں ہوگا، آخری ہدف کی میزان پر نہیں۔ بلاشبہہ ان سے یہ پوچھا جائے گا کہ جن معاملات میں ان پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی تھی، ان میں کیا کارنامہ کیا؟ کیا کسی نے ان کو اس سے روکا تھاکہ وہ اپنے گھر میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ اجتماعی مطالعہ قرآن و سیرت کریں؟ کیا کسی نے حکم دیا تھا کہ بچوں کو لازماً عریاں اور جنسی کارٹون دکھائیں؟ کیا کسی نے پابندی لگائی تھی کہ وہ اپنے ارد گرد مسلم اور غیر مسلموں کو اپنے کردار سے متاثر کر کے دین سے متعارف کرائیں؟ کیا کسی نے یہ کہا تھا کہ وہ باہمی تعاون کے ایسے ادارے جو تجارتی کام غیر سودی شکل میں کریں قائم نہ کریں؟

اقامتِ دین کے مراحل واضح ہیں۔ ضرورت اپنے ذہن کو صاف کرنے کی ہےاور یہ بات سمجھنے کی ہے کہ تحریکا تِ اسلامی نے اقامتِ دین کے جو اَبدی اصول قرآن وسنت سے اخذ کیے ہیں وہ نہ وقتی ہیں نہ جغرافیائی کہ صرف پاکستان یا مصر یا سوڈان میں قابلِ عمل ہوں اور امریکا ، کینیڈا اور آسٹریلیا میں ان پر عمل نہیں ہو سکتا۔اصل مسئلہ اپنے ذہن کو مغرب کی مرعوبیت سےآزاد کر کے ان اصولوں پر عمل کر کے انھیں عملاً نافذ کرنے کا ہے۔ یہ کام وہی لوگ کر سکتے ہیں جو    اپنا تعلق سب سے کاٹ کر صرف اورصرف اللہ تعالیٰ اور اللہ کے رسولؐ سے ایک ایسے عہد کے ساتھ کریں جو صرف ان کے اور ان کے رب کے علم میں ہو ۔

جماعت اسلامی کو کیوں اصرار ہے کہ وہ جمہوری ذرائع سے ہی انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے اور غیرجمہوری ذرائع کے استعمال کی مخالف ہے؟ اس کو چند الفاظ میں بیان کیے دیتا ہوں۔ جماعت نے جو مسلک اختیار کیا ہے، وہ یہ ہے کہ وہ کسی قسم کے تشدد کے ذریعے سے، یا کسی قسم کی سازشوں کے ذریعے سے انقلاب برپا نہیں کرنا چاہتی، بلکہ جمہوری ذرائع سے ہی انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے۔ یہ قطعاً اس لیے نہیں ہے کہ ہم اپنی صفائی پیش کرسکیں کہ ہم دہشت پسند نہیں ہیں، اور ہمارے اُوپر یہ الزام نہ لگنے پائے۔ اصل بات یہ ہے کہ اسلامی انقلاب اس وقت تک مضبوط جڑوں سے قائم نہیں ہوسکتا، جب تک کہ لوگوں کے خیالات نہ تبدیل کر دیے جائیں، جب تک لوگوں کے اَخلاق، لوگوں کی عادات کو تبدیل نہ کر دیا جائے۔ اگر کسی قسم کے تشدد کے ساتھ، یا کسی قسم کی سازشوں کے ساتھ، یا کسی قسم کی دھوکے بازیوں کے ساتھ اور جھوٹ اور اسی طرح کی مہم کے ساتھ انتخابات جیت بھی لیے جائیں، یا کسی طریقے سے انقلاب برپا کر بھی دیا جائے، تو چاہے یہ انقلاب کتنی دیر تک رہے، یہ اسی طرح اُکھڑتا ہے، جیسے اس کی کوئی جڑ ہی نہ ہو۔ آپ نے [فیلڈمارشل] ایوب خاں صاحب کا دور دیکھا کہ کوئی شخص تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ اس شخص کو کوئی ہٹاسکے گا، لیکن جب وہ ہٹے تو یہ معلوم ہوا کہ ان کی کوئی جڑ ہی نہیں تھی۔ اس طرح سے جن لوگوں نے ناجائز ذرائع سے انتخابات جیت کر بظاہر جمہوری طریقے سے اقتدار حاصل کیا ہے، ان کی بھی حقیقت میں کوئی جڑ نہیں ہے۔ ان میں سے کوئی دو آدمی ایسے نہیں ہیں جو ایک دوسرے کے مخلص ہوں۔ ان کو اغراض نے ایک دوسرے کے ساتھ جمع کیا ہے اور اغراض ہی ان کو ایک دوسرے سے پھاڑتی ہیں۔

اب دوسرا کام جو آپ کے سامنے ہے اور بہت بڑا کام ہے، وہ یہ ہے کہ عام لوگوں کے خیالات کو تبدیل کیا جائے۔ عام لوگوں کے اندر اسلامی فکر اور اسلامی نظام کے بنیادی تصورات کو بٹھایا جائے، اور لوگوں کے اندر اخلاقی انقلاب برپا کیا جائے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔   اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ پچھلے [برسوں] میں جن لوگوں کے ہاتھ میں ملک کے اختیارات رہے ہیں، خواہ وہ سیاسی اختیارات ہوں، خواہ وہ معاشی اختیارات ہوں، خواہ وہ تعلیمی اختیارات ہوں، جن لوگوں کے ہاتھ میں بھی ملک کو چلانے کے اختیارات رہے ہیں، انھوں نے قوم کے ذہن کو بگاڑنے کی کوشش کی ہے، اور اس کو اسلام سے دُور سے دُور تر کرنے کی کوشش کی ہے۔ انھی کوششوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ آخرکار مشرقی پاکستان، پاکستان سے الگ ہوگیا۔ وہاں یہ ذہن پیدا کیا گیا کہ بنگالی بولنے والا ہندو اور مسلمان ایک قوم ہیں اور جو بنگالی نہیں بولتا وہ دوسری قوم ہے۔ اور اب یہاں اس کفر کو پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہاں ملک کے اندر یہ ذہن پیدا کیا جارہا ہے، اور زبردستی پیدا کیا جارہا ہے کہ یہ پٹھان ہے، یہ بلوچی ہے، یہ سندھی ہے اور یہ پنجابی ہے۔ کیا یہ پاکستان کی بنیاد تھی؟ سارے ہندستان کے مسلمان یہ بھول گئے تھے کہ وہ مسلمان ہونے کے سوا بھی کچھ ہیں۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے انھوں نے کوشش کی اور متحدہ مطالبہ کیا، تب پاکستان وجود میں آیا۔ اگر گجراتی، مدراسی، سندھی، پٹھان اور پنجابی الگ الگ قوم رہتے اور الگ الگ اپنی قومیتوں کا تصور رکھتے تو پاکستان کبھی نہیں بن سکتا تھا۔

اس موقعے پر یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ یہاں جمہوریت کو کبھی چلنے نہیں دیا گیا اور جمہوری طریقے سے جب کبھی انتخابات ہوتے ہیں، وہ انتہائی بے ایمانی اور تشدد، اور انتہائی بددیانتی کے ذریعے سے ہوتے ہیں۔ ہمیں اس صورتِ حال کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ اس کے لیے پوری جدوجہد کرنی ہوگی کہ جن لوگوں کے ہاتھوں سے یہ کام لیا جارہا ہے، ان کے ذہن کو تبدیل کیا جائے۔ ہمیں یہ کوشش کرنی ہے کہ انتخابات کے مراکز پر اگر کچھ لوگ بے ایمانیاں کرنا چاہیں بھی تو نہ کرسکیں۔

ایک وقت ایسا آتاہے جب یہ خیالات ملک کے اندر پوری طرح سے مضبوطی سے جم جاتے ہیں اور قوم کے اندر پورا ارادہ پیدا ہوجاتا ہے، تو پھر کوئی طاقت انقلاب آنے سے نہیں روک سکتی۔ یہ ہر راستے سے آتا ہے۔ ایسے راستے سے آتا ہے کہ جس کے بند کرنے کا خیال کوئی سوچ تک نہیں سکتا۔ آپ اس بات کی فکر نہ کریں کہ انقلاب کس راستے سے آئے گا۔ آپ صرف کام کریں۔ اپنی سیرت کو درست کریں۔ جب آپ اسلام کی طرف دعوت دینے اُٹھیں گے تو لوگ یہ دیکھیں گے کہ یہ دعوت دینے والے کیسے لوگ ہیں۔ (ہفت روزہ، ایشیا، لاہور، اپریل ۱۹۷۴ء)

سوال: ہمارے ہاں بعض علما، مولانا مودودی صاحب پر اعتراض کرتے ہیں کہ    وہ قرآنِ مجید کے بعض الفاظ کے ایسے معانی بیان کرتے ہیں جو عام طور پر بیان نہیں کیے جاتے، چنانچہ وہ اس چیز کو مولانا کی مخالفت کا جواز بناتے ہیں۔ چنانچہ ایک مولوی صاحب نے اس سلسلے میں کہا ہے کہ قرآنِ مجید میں جہاں لفظ ’طاغوت‘ آیا ہے مفسرین نے تو اس کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اس سے مراد شیطان ہے، مگر مولانا مودودی، انسانوں پر  اس کا اطلاق کرتے ہیں اور اسٹالن، لینن، چرچل وغیرہ جیسے غیرمسلم لیڈروں کو بھی ’طاغوت‘ کہتے ہیں۔ عبادت کے معنی تو ہیں بندگی، غلامی اور کسی کو سجدہ کرنا، اور مودودی صاحب کسی دوسرے انسانی قانون کی اطاعت و فرماں برداری کو بھی عبادت  کہتے ہیں، اور لا اِلٰہ اِلَّا اللہ میں اِلٰہ کے معنی ’حاکم‘ کرتے ہیں اور یوں لکھتے ہیں کہ اس کلمۂ طیبہ کا مطلب ہے لَاحَاکِمَ اِلَّا اللہُ، حالاں کہ کسی نے بھی اِلٰہ کا ترجمہ حاکم نہیں کیا۔ مولوی صاحبان کی ان تقاریر سے لوگ متاثر ہوجاتے ہیں اور مولانا مودودی کے مخالف ہوکر اسلامی دعوت کی بھی مخالفت کرتے ہیں۔ آپ ہماری رہنمائی کیجیے کہ کیا   یہ اعتراضات واقعہ میں صحیح ہیں، اور یہ مولانا صاحب کا قرآنی الفاظ کے معانی کو بدلنا ہے یا وہ کسی دلیل سے یہ لکھتے ہیں؟

جواب: بہتر تو یہ ہوتا کہ آپ خود مولانا مودودی صاحب سے پوچھتے کہ آپ کن دلائل اور کن کتابوں کے حوالے سے ’طاغوت‘، ’عبادت‘ اور اِلٰہ کے یہ معنی کرتے ہیں۔ یقینا وہ پوری تفصیل کے ساتھ اس کا جواب دے کر آپ کو مطمئن کرتے، مگر اعتراض کرنے والے علما کا اطمینان پھر بھی نہ ہوتا، کیوںکہ مجھے معلوم ہے کہ یہ حضرات مولانا مودودی صاحب کی مخالفت کچھ اور وجوہ کی بنا پر کرتے ہیں۔ چند مسائل کو یا اس قسم کے سطحی اعتراضات کو تو محض بہانہ بنایا اور لوگوں کو یقین دلایا جاتا ہے کہ ہماری مخالفت دینی بنیادوں پر ہے۔ آپ نے مجھ سے پوچھا ہے، تو اگرچہ     مولانا مودودی صاحب کی عبارات اور ان کی تحقیقات پر اعتراضات کی جواب دہی میری ذمہ داری نہیں ہے کہ ہمارے ’کرم فرما‘ جو اعتراض کریں اور میں مدافعت کے لیے اُٹھ کھڑا ہوں۔ لیکن جب قرآنی اصطلاحات کے بارے میں آپ نے پوچھا ہے اور آپ درحقیقت مجھے ایک ثالث  سمجھ کر یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں: مذکورہ چند علما اور مولانا مودودی دونوں سے قطع نظر میں آپ کو صحیح بات اپنے علم و فہم کے مطابق بتا دوں تو اب شرعاً میری ذمہ داری ہوگی کہ آپ کو اس کا جواب اس طرح دوں کہ کسی فریق کی حمایت کے جذبے کے بغیر اپنے علم و مطالعے کی بنا پر اس سے حق واضح ہوجائے۔

اس وقت: مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلِمٍ فَکَتَمَہُ أَلْجَمَہُ بِلِجَامٍ مِّنْ نَارِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ     (ابی داؤد:  ۳۶۵۸) ’’جس سے کسی معلومات کے بارے میں پوچھا گیا اور اس نے وہ معلومات چھپائیں، اس کو آگ کا لگام پہنایاجائے گا‘‘، حدیث نبویؐ میرے سامنے آگئی ہے۔ میں مولوی صاحبان کی رعایت کرکے یاا ُن کی ناراضی سے ڈر کر اپنے علم کو چھپائوں اور سوال کا صحیح جواب نہ دوں تو  لِجَامٍ مِّنْ  نَارِ کی وعید سامنے آتی ہے، لہٰذا جواب عرض کر رہا ہوں۔

طاغوت کا مفہوم

سورئہ بقرہ میں فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ(۲:۲۶۵) کی تفسیر کرتے ہوئے علامہ ابوالثناء شہاب الدین آلوسیؒ [۱۰دسمبر ۱۸۰۲ء-۲۹ جولائی ۱۸۵۴ء]نے روح المعانی میں لکھا ہے:

اَلطَّاغُوْتُ اَلشَّيْطَانُ وَهُوَ الْمَرْوِيُّ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، وَالْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ تَعَالٰى عَنْهُمْ - وَبِهٖ قَالَ مُجَاهِدٌ، وَقَتَادَةُ  وَعَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَيْرٍ، وَعِكْرِمَةَ أَنَّهٗ الْكَاهِنُ، وَعَنْ أَبِي الْعَالِيَةَ أَنَّهٗ السَّاحِرُ، وَعَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ كُلُّ مَا عُبِدَ مِنْ دُوْنِ اللهِ تَعَالٰى وَعَنْ بَعْضِهِمْ الْأَصْنَامُ، وَالْأَوْلٰى أَنْ يُّقَالَ بِعُمُوْمِهٖ سَائِرُ مَا يَطْغٰى، وَيُجْعَلُ الْاِقْتِصَارُ عَلٰى بَعْضٍ فِيْ تِلْكَ الْأَقْوَالِ مِنْ بَابِ التَّمْثِيْلِ وَهُوَ نَبَاءٌ مُبَالَغَةً كَالْجَبَرُوْتِ وَاخْتُلِفَ فِيْهِ فَقِيْلَ  هُوَ مَصْدَرٌ فِي الْأَصْلِ وَلِذٰلِكَ يُوَحَّدٌ وَيُذَكَّرُ كَسَائِرِ الْمَصَادِرِ الْوَاقِعَةِ عَلَى الْأَعْيَانِ وَ اِلٰى ذٰلِكَ ذَهَبَ الْفَارِسِيُّ- وَقِيْلَ: هُوَ اِسْمُ جِنْسٍ مُفْرَدٌ فَلِذٰلِكَ لَزِمَ اِلَيْهِ ذَهَبَ سَيْبَويْه  وَقِيْلَ: هُوَ جَمْعٌ  وَهُوَ مَذْهَبُ الْمُبَرَّدِ   وَقَدْ يُؤَنَّثُ ضَمِيْرُهٗ كَمَا فِي قَوْلِهٖ تَعَالٰى: وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ أَنْ يَعْبُدُوْهَا [الزمر۳۹:۱۷] وَهُوَ تَأنِيْثٌ اِعْتِبَارِيٌّ وَ اِشْتِقَاقُهٗ  مِنْ طَغٰى يَطْغٰى أَوْ طَغٰى يَطْغُوْ  وَمَصْدَرُ الْأَوَّلِ الطُّغْيَانُ. وَالثَّانِيْ الطُّغْوَانُ ، وَأَصْلُهٗ عَلَى الْأَوَّلِ طَغْيُوْتٌ، وَعَلَى الثَّانِيْ  طَغْوُوْتٌ فَقُدِّمَتِ اللَّامُ وَأُخِّرَتِ الْعَيْنُ فَتَحَرَّكَ حَرْفُ الْعِلَّةِ وَالْفَتْحُ مَا قَبْلَهٗ فَقُلِّبَ اَلِفًافَوَزْنُهٗ مِنْ قَبَلُ فَعْلَوُوْتٌ وَالْآنَ فَلْعُوْتٌ (روح المعانی، ج۳،ص ۱۳)

[’ طاغوت‘ سے مراد شیطان ہے۔ یہ بات حضرت عمرؓ اور حضرت حسینؓ سے روایت کی گئی ہے۔ مجاہدؒ، اور قتادہؒ نے بھی یہی بات کی ہے۔ سعید بن جبیرؒ اور عکرمہؒ سے منقول ہے کہ اس سے مراد کاہن ہے۔ ابو العالیۃ سے منقول ہے کہ اس سے مراد جادوگر ہے۔ امام مالکؒ سے منقول ہے کہ ہر وہ ذات جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے۔ بعض سے یہ نقل کیا گیا ہے کہ اس سے مراد بُت ہیں، مگر بہتر یہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ وہ   تمام اشیا ’طاغوت‘ ہیں جو طغیان (یعنی سرکشی) کرتی ہیں۔ ان اقوال میں سے کسی ایک قول پر اکتفا کرنے کو تمثیل کے باب سے قرار دیا جاسکتا ہے۔یہ لفظ (طاغوت) مبالغہ کے لیے آتا ہے، جیسے جبروت۔

[اس لفظ کی اصل لغوی حقیقت میں اختلاف ہے۔ کسی نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مصدر ہے۔اسی وجہ سے اس کو واحد مذکر قرا ردیا جاتا ہے، جیسا کہ متعین چیزوں کے لیے باقی مصادر ہیں۔ یہی راے فارسی کی ہے۔ کسی نے کہا ہے کہ یہ اسم جنس مفرد ہے، اسی وجہ سے یہ لازم ہے۔ یہ راے سیبویہ کی ہے۔ یہ بھی کہاگیا ہے کہ یہ جمع ہے۔ یہ [ابوالعباس محمد، المعروف] مبرَّد کا مذہب ہے۔ بعض اوقات اس کے لیے مؤنث کی ضمیر بھی استعمال کی جاتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَالَّذِیْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ اَنْ یَّعْبُدُوْھَا وَاَنَابُوْٓا اِلَی اللّٰہِ (الزمر۳۹: ۱۷)، [بخلاف اس کے  جن لوگوں نے طاغوت کی بندگی سے اجتناب کیا اور اللہ کی طرف رجوع کرلیا ان کے لیے خوش خبری ہے] یا یہ اعتباری تانیث ہے۔ یہ لفظ طَغٰی یَطغٰی یا طَغٰی  یَطغُوا سے نکلا ہے۔ پہلے کا مصدر طُغْیَانْ اور دوسرے طغوان ہے۔ پہلی صورت میں اس لفظ کی اصل شکل طغیوت ہوگی اور دوسری صورت میں طغووت۔ لام کلمہ کو مقدم اور عین کلمہ کو مؤخر کیا گیا ہے۔ چنانچہ حرف علت متحرک ہوگیا ہے۔ اور اس سے پہلے جو زَبر تھا وہ الف میں تبدیل ہوگیا ہے۔ چنانچہ اس کا وزن پہلے فعلووت تھا اور اب فلعوت ہے۔]

مزید اَوْلِیَآءُ ھُمُ الطَّاغُوْت کے ذیل میں لکھا ہے:

اَیِ الشَّیَاطِیْنُ اَوِ الْاَصْنَامُ اَوْ سَائِرُ الْمُضِلِّیْنَ عَنْ طَرِیْقِ الْحَقِّ (ایضاً، ص۱۴) [ یعنی شیطان یا بت یا وہ سارے لوگ جو حق کے راستے سے گمراہ کرنے والے ہیں]۔

مزید لکھتے ہیں:

صَارَ  اِسْمًا لِّمَا یُعْبَدُ مِن دُوْنِ اللہِ تَعَالٰی  (ایضاً) [یہ نام بن گیا ہر اس چیز کا جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے]۔

روح المعانی میں دوسری جگہ: وَالَّذِیْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ اَنْ یَّعْبُدُوْھَا وَاَنَـابُوْٓا اِلَی اللّٰہِ (الزمر ۳۹:۱۷) کی تفسیر میں علامہ آلوسیؒ تحریر فرماتے ہیں:

وَالطَّاغُوْتُ فَعْلُوْتٌ مِنَ الطُّغْیَانِ کَمَا قَالُوْا لَا فَاعُوْلٌ کَمَا قِیْلَ بِتَقْدِیْمِ اللَّامِ عَلَی الْعَیْنِ نَحْوَ صَاعِقَۃٌ وَصَاقِعَۃٌ وَیَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ الْاِشْتِقَاقِ وَاِنْ طَوَّغَ وَطِیْغَ یَھْدِیْنِ وَاَصْلُہٗ طَغْیُوْتٌ اَوْ طَغْوُوْتٌ مِنَ الْیَاءِ اَوِ الْوَاوِ لِاَنَّ طَغٰی یَطْغٰی وَیَطْغُوْ کِلَاھُمَا ثَابِتَانِ فِی الْعَرَبِیَّۃِ نَقَلَہُ الْجَوْھَرِیُّ وَنُقِلَ اَنَّ الطُّغْیَانَ وَالطُّغْوَانِ بِمَعْنًی وَکَذَا الرَّاغِبُ وَجَمْعُہٗ عَلَی الطَّواغِیْتِ یَدُلُّ عَلٰی اَنَّ الْجَمْعَ بُنِیَ عَلَی الْوَاوِ   وَقَوْلُھُمْ  مِنَ الطُّغْیَانِ لَا یَرُدُّوْنَ بِہٖ خُصُوْصَ الْیَاءِ بَلْ اَرَادُوْا الْمَعْنَی وَھُوَ عَلٰی مَا فِی الصِّحَاحِ الْکَاھِنُ وَالشَّیْطَانُ وَکُلُّ رَأْسٍ فِی الضَّلَالِ وَقَالَ الرَّاغِبُ ھُوَ عِبَارَۃٌ عَنْ مُتَعَدٍّ وَکُلِّ مَعْبُوْدٍ مِن دُوْنِ اللہِ  تَعَالٰی وَسَمّٰی بِہِ السَّاحِرَ وَالْکَاھِنَ وَالْمَارِدَ مِنَ الْجِنِّ وَالصَّارِفَ عَنِ الْخَیْرِ وَیُسْتَعْمَلُ فِی الْوَاحِدِ وَالْجَمْعِ وَقَالَ الزَّمَخْشَرِیُّ فِی ھٰذِہِ السُّوْرَۃِ  لَا یُطْلَقُ عَلٰی غَیْرِ الشَّیْطَانِ وَذُکِرَ اَنَّ فِیْہِ مُبَالَغَاتٌ مِنْ حَیْثُ الْبِنَاءِ فَاِنَّ صِیْغَۃَ فَعْلُوْت لِلْمُبَالَغَۃِ وَلِذَا قَالُوْا الرَّحْمُوْتُ الرَّحْمَۃُ الْوَاسِعَۃُ وَمِنْ حَیْثُ التَّسْمِیَۃِ  بِالْمَصْدَرِ وَقَدْ  اَطْلَقَہٗ  فِیْ سُوْرَۃِ النِّسَاءِ عَلٰی کَعْبِ بْنِ الْاَشْرَفِ وَقَالَ سَمَّی طَاغُوْتًا لِاِفْرَاطِہٖ فِی الطُّغْیَانِ وَعَدَاوَۃِ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَوْ عَلٰی التَّشْبِیْہِ بِالشَّیْطَانِ فَلَعَلَّہٗ اَرَادَ  لَا یُطْلَقُ عَلٰی غَیْرِ  الشَّیْطَانِ عَلَی الْحَقِیْقَۃِ   وَجَعَلَ کَعْبًا عَلَی الْاَوَّلِ مِنَ الْوَجْھَیْنِ مِنْ شَیَاطِیْنِ الْاِنْسِ وَفِی الْکَشْفِ کَاَنَّہٗ لَمَّا رَاٰہُ مَصْدَرًا فِی الْاَصْلِ مَنْقُوْلًا اِلَی الْعَیْنِ کَثِیْرَ الْاِسْتِعْمَالِ فِی الشَّیَاطِیْنِ حَکَمَ بِاَنَّہٗ حَقِیْقَۃٌ فِیْہِ بَعْدَ النَّقْلِ مَجَازٌ فِی الْبَاقِیْ لِظُھُوْرِ الْعَلَاقَۃِ  اِمَّا اِسْتِعَارَۃً  وَاِمَّا نَظَرًا اِلٰی تَنَاسُبِ الْمَعْنَی وَالَّذِیْ یَغْلِبُ عَلَی الظَّنِّ اَنَّ الطَّاغُوْتَ فِی الْاَصْلِ مَصْدَرٌ نُقِلَ اِلَی الْبَالِغ الْغَایَۃَ فِی الطُّغْیَانِ وَتَجَاوُزِ الْحَدِّ وَ اِسْتِعْمَالُہٗ فِیْ فَرْدٍ مِنْ ھٰذَا الْمَفْھُوْمِ الْعَامِّ شَیْطَانًـا کَانَ اَوْ غَیْرُہٗ یَکُوْنُ حَقِیْقَۃً وَیَکُوْنُ مَجَازًا عَلٰی مَا قَدَّرُوْا فِی اِسْتِعْمَالِ الْعَامِّ فِیْ فَرْدٍ  مِنْ اَفْرَادِہٖ کَاسْتِعْمَالِ الْاِنْسَانِ فِیْ زَیْدٍ وَشُیُوْعُہٗ فِی الشَّیْطَانِ لَیْسَ اِلَّا لِکَوْنِہٖ رَأْسَ الطَّاغِیْنَ وَفَسَّرَہٗ ھُنَا مُجَاہِدٌ وَیَجُوْزُ تَفْسِیْرُہٗ بِالشَّیَاطِیْنِ جَمْعًا عَلٰی مَا سَمِعْتُ مِنَ الرَّاغِبِ وَیُؤَیِّدُہٗ

قِرَاءۃُ الْحَسَنِ اِجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اِنْتَھٰی (روح المعانی، پ۲۳، سورئہ زمر، ص۲۲۸)

[طاغوت بوزنِ فعلوت طغیان سے نکلا ہے، جیسا کہ ماہرین لغت کہتے ہیں۔ یہ فاعول کے وزن پر نہیں ہے جیسا کہ کہا گیا ہے کہ لام کلمہ عین کلمے پر مقدم ہوگیا ہے، جیسے: صَاعِقَۃٌ اور صَاقِعَۃٌ۔ اسی بات پر یہ اشتقاق دلالت کرتا ہے کہ وَاَنْ طَوَّغَ وَطِیْغَ یَھْدِیْنِ۔ اس کی اصل طَغْیُوْتُ یا طَغْوُوْت ہے، یعنی یاء یا واو کے ساتھ۔اس لیے کہ طغی یطغٰی  اور طغٰی یطغوا دونوں عربی میں ثابت ہیں۔ اس کو علامہ جوہری نے نقل کیا ہے۔ انھوں نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ طُغْیَان   اور طُغْوَان دونوں ایک ہی معنی میں ہیں۔ اسی طرح امام راغب نے بھی نقل کیا ہے۔اس کی جمع طواغیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس کی جمع واو پر مبنی ہے۔ اور ماہرین لغت کا یہ کہنا کہ یہ طغیان سے ہے، اس سے ان کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس میں یاء کی خصوصیت ہے، بلکہ ان کی مراد معنی ہے اور وہ جیسا کہ الصحاح میں آیا ہے کاہن یا شیطان ہے، یا وہ ہرشخص جو گمراہی کا سرغنہ ہو۔ راغب کہتے ہیں کہ یہ لفظ ہر سرکشی کرنے والے پر بولا جاسکتا ہے۔ نیز ہر اس معبود پر جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے۔ چنانچہ جادوگر، کاہن، سرکش شیطان اور بھلائی سے پھیرنے والے پر اس کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس لفظ کا استعمال واحد اور جمع دونوں کے لیے ہوتا ہے۔ زمخشری کہتے ہیں کہ اس سورت میں اس کا اطلاق شیطان کے علاوہ کسی پر نہیں ہوگا۔ اس نے ذکر کیا ہے کہ بناوٹ کے لحاظ سے اس میں مبالغہ سے کام لیا گیا ہے۔ اس لیے کہ فَعْلُوْت  کا لفظ مبالغہ کے لیے ہوتا ہے۔ اسی لیے کہاجاتا ہے کہ اَلرَّحْمُوْت  سے مراد وسیع رحمت ہے۔ مصدر کے تسمیہ کی حیثیت سے سورۃ النساء میں اس لفظ کا اطلاق کعب بن اشرف (یہودی) پر کیا گیا ہے۔ کہا کہ اس کو طاغوت اس بنا پر کہا گیا ہے کہ طغیان میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دشمنی میں حد سے بڑھا ہوا تھا، یا اس وجہ سے کہ اس کو شیطان سے تشبیہ دی گئی ہے۔شاید (زمخشری) کی مراد یہ ہو کہ حقیقت کے لحاظ سے اس کا اطلاق شیطان کے علاوہ کسی پر نہیں ہوگا۔ اور کعب کو پہلی وجہ کے لحاظ سے شیاطین الانس میں شامل کرلیا ہے۔ اور کشف میں یہ بھی ہے کہ جب انھوں نے دیکھا کہ اصل میں تو یہ لفظ مصدر ہے اور پھر اس کو متعین اشیا کی طرف نقل کیا گیا ہے اور یہ شیاطین میں کثیر الاستعمال ہے، تو انھوں نے اس پر یہ حکم لگادیا کہ یہ اسی معنی میں حقیقت ہے اور باقی معانی میں مجاز ہے۔ اس لیے کہ دونوں کے درمیان تعلق ظاہر ہے، کہ یا تو یہ استعارہ ہے اور یا یہ کہ دونوں معانی میں مناسبت پائی جاتی ہے۔

غالب گمان یہ ہے کہ ’طاغوت‘ اصل میں مصدر ہے مگر مصدریت سے منتقل ہوکر یہ اس ذات کے بارے میں استعمال ہوا ہے جو سرکشی میں مبالغے کی حدتک پہنچی ہوئی ہو اور اس نے سارے حدود کو پار کیا ہو۔اب اس مفہوم کے کسی فرد میں اس کا استعمال حقیقت ہی ہوگا، چاہے وہ فرد شیطان ہو یا اس کے علاوہ کوئی ہو۔یہ مجاز اس صورت میں ہوگا جب لفظ عام کو اس کے کسی فرد کے بارے میں استعمال کیا جائے گا، جیسے لفظ انسان کا استعمال زید کے بارے میں۔ اس لفظ کا شیطان کے معنی میں شہرت پانا اس وجہ سے ہے کہ وہ سرکشوں کا سردار ہے۔یہاں مجاہد نے اس کی تفسیر اسی مفہوم میں کی ہے۔ اس کی تفسیر شیاطین کے لفظ جمع کے مطابق بھی کی جاسکتی ہے، جیسا کہ میں نے راغب سے سنا ہے۔اس کی تائید حسن کی قراء ت سے بھی ہوتی ہے جو یہ ہے کہ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ۔ (روح المعانی، پارہ ۲۳، سورہ زمر، ص۲۲۸)]

روح المعانی میں اس طرح ہے:

اَیِ الشَّیَاطِیْنُ اَوِ الْاَصْنَامُ اَوْ سَائِرُ الْمُضِلِّیْنَ عَنْ طَرِیْقِ الْحَقِّ… وَصَحَّ جَمْعُہٗ عَلَی الْقَوْلِ بِاَنَّہٗ مَصْدَرٌ لِاَنَّہٗ صَارَ اِسْمًا لِمَا یُعْبَدُ مِنْ دُوْنِ اللہِ تَعَالٰی (ج۳، ص۱۴) [یعنی شیطان یا بت یا وہ سارے لوگ جو حق کے راستے سے گمراہ کرنے والے ہیں۔ یہ نام بن گیا ہر اس چیز کا جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے۔]

گویا طاغوت سے مراد مَنْ یَّطَاعُ مِنْ دُوْنِ اللہِ ہے۔ آپ تفسیر روح المعانی کی    یہ عبارات ان مولوی صاحبان کو دکھا دیجیے اورخاص طور سے خط کشیدہ الفاظ کی طرف متوجہ کیجیے اور کعب بن الاشرف کو تو تمام مفسرین نے بالاتفاق سورئہ نساء کی آیت میں طاغوت کا مصداق قرار دیا ہے۔ دراصل طاغوت کے معنی تو کثیر الطغیان ہے، یعنی ایسا شخص جو اللہ کا باغی ہو، سرکش ہو اور   اللہ کے نظام و قانون کے مقابلے میں اللہ کے بندوں پر اپنا نظام اور خود ساختہ قانون چلانا چاہتا ہو۔ لہٰذا اس معنی کے اعتبار سے لینن، اسٹالن، چرچل اور جانسن کو اگر مولانا مودودی نے طاغوت کہا ہے، تو کون سی غلطی کی یا قرآنِ مجید کے الفاظ کی کون سی غلط تاویل و توجیہ کی؟ کچھ تو ہمارے اِن مولوی صاحبان کو بلاوجہ مولانا مودودی کی مخالفت کا شوق ہوتا ہے اور کچھ اُن میں سے بعض کا علم بالکل محدود ہوتا ہے۔ جلالین شریف کے سوا کسی اور تفسیر کا وہ مطالعہ ہی نہیں کرتے۔ کم علمی اور مخالفت کا جذبہ دونوں مل کر ایسے گُل کھلاتے رہتے ہیں۔

 تفسیر کبیر میں امام فخرالدین رازیؒ [۱۰۴۹ء، رے - ۱۱۰۹ء، ہرات]نے سورئہ نساء کی آیت (۷۶): وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ الطَّاغُوْتِکی تفسیر میں لکھا ہے:

وَهٰذِهِ الْآيَةُ كَالدَّلَالَةِ عَلٰى أَنَّ كُلَّ مَنْ كَانَ غَرَضُهُ فِي فِعْلِهِ رِضَا غَيْرِ اللَّه فَهُوَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ، لِأَنَّهُ تَعَالَى لَمَّا ذَكَرَ هَذِهِ الْقِسْمَةَ وَهِيَ أَنَّ الْقِتَالَ إِمَّا أَنْ يَكُونَ فِي سَبِيْلِ اللهِ : أَوْ فِي سَبِيْلِ  الطَّاغُوتِ وَجَبَ أَنْ يَكُونَ مَا سِوَى اللهِ طَاغُوتًا...(تفسیر کبیر، ج۳،ص ۲۶۴) [یہ آیت گویا دلالت کرتی ہے اس بات پر، کہ ہر وہ شخص جس کا اپنے کسی فعل سے مقصود اللہ کے سوا کسی اور کی رضا ہو تو وہ ’طاغوت‘ کے راستے میں ہے۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے جب یہ تقسیم بیان کی (اور وہ یہ کہ جنگ یا تو اللہ کے راستے میں ہوگی اور یا پھر ’طاغوت‘ کے راستے میں ) تو یہ بات لازمی ہوگئی کہ اللہ کے سوا جو کچھ ہوگا، وہ ’طاغوت‘ ہوگا۔ ]

عبادت کا جامع تصور

دوسرا سوال آپ نے یہ کیا ہے کہ مولانا مودودی صاحب احکام و قوانین کی اطاعت کو عبادت کہتے ہیں اور یہ لفظ عبادت کی غلط تفسیر ہے۔

اس کے بارے میں بھی عرض ہے کہ عبادت کے معنی تو ہیں بندگی اور غلامی۔ اس صورت میں اگر کسی آقا کے احکام و قوانین کی اطاعت و فرماں برداری اگر بندگی اور غلامی نہیں ہے، تو بندگی اور غلامی اور کیا ہوتی ہے؟ یہ بات صحیح ہے کہ کبھی کسی قانون کی اطاعت خوش دلی کے ساتھ نہیں ہوتی۔ عقیدتاً کسی کو آقا اور قانون چلانے کا حق دار تسلیم نہیں کرتا، مگر کچھ ایسی مجبوریاں اور کمزوریاں ہوتی ہیں کہ بادلِ نخواستہ وہ حکم مان لیتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ یہ کسی حقیقی حاکم و قانون ساز کا حکم نہیں ہے۔ ایسی صورت میں تو اطاعت ِ قانون کو عبادت نہیں کہا جائے گا، لیکن اگر کسی کو قانون سازی کا  حق دار مان لیا جائے اور خوش دلی کے ساتھ اس کے حکم کی تعمیل و اطاعت کی جاتی ہو اور عقیدہ یہ ہو کہ یہ حکم برحق اور آقا کی طرف سے ہے تو وہ یقینا عبادت ہے۔ (دیکھیے قرآنِ مجید میں جہاں ذکر ہے):

وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ (المائدہ ۵:۴۴) [جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں] ۔ اور دوسری جگہ اُوْلٰئِکَ ھُمُ الْفَاسِقُوْنَ  میں عام طور سے مفسرین یہی فرق کرتے ہیں کہ مَا اَنْزَلَ اللہ کے خلاف فیصلہ اگر اس نظریے کے ساتھ کوئی کر رہا ہے کہ مَا اَنْزَلَ اللہ   کے خلاف حکم کو عقیدتاً برحق سمجھ کر فیصلہ دے رہا ہے تو یہ کفر ہے اور وہ شخص کافر ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر مَا اَنْزَلَ اللہ  کے خلاف کو عقیدتاً غلط سمجھ رہا ہے، اللہ کے سوا کسی دوسرے کو قانون سازی کا حق نہیں دیتا، مگر عملاً اس کے خلاف فیصلہ دیتا ہے، تو یہ فسق ہے اور ایسا فیصلہ کرنے والا فاسق ہے۔

حضرات علماے دیوبند کی بہت سی تحریروں اور تقریروں میں بھی یہ ذکر ملتا ہے کہ انھوں نے احکامِ الٰہی کی اطاعت و فرماں برداری کو مطلقاً عبادت کہا ہے اور لکھا ہے کہ عبادت درحقیقت آقا کے احکام کی اطاعت و فرماں برداری کا نام ہے، یعنی جیسے آقا حکم دے ویسے عمل کرنا یہ آقا کی عبادت ہے۔ رمضان المبارک کے مہینے میں روزہ رکھنا عبادت ہے، کیوںکہ اللہ تعالیٰ نے جو حقیقی حاکم اور آقا ہے، اس مہینے میں روزہ رکھنے کا حکم دیا ہے، اور جب شوال کا چاند نظر آجائے تو یکم شوال کو روزہ رکھنا اللہ کی نافرمانی ہے اور روزہ نہ رکھنا اور کھانا پینا عبادت ہے، کیوں کہ عید کے دن کے لیے آقا کا حکم یہی ہے۔

میں یہاں بھی امام فخرالدین رازی ؒ کی چند عبارتیں نقل کر رہا ہوں، جن سے یہ معلوم ہوگا کہ انھوں نے قرآنِ مجید کے الفاظ عَابِدُوْن کی تفسیر مُطِیْعُوْنَ سے کی ہے:

وَقَوْمُھُمَا لَنَا عَابِدُوْنَ [المومنون ۲۳:۳] اَیْ خَادِمُوْنَ مُنْقَادُوْنَ لَنَا کَالْعَبِیْدِ [ابو السعود، ج۷، ص ۱۶۰] وَفِی التَّفْسِیْرِ الْکَبِیْرِ أَنَّ قَوْمَ مُوسٰى وَهَارُوْنَ كَانُوا كَالْخَدَمِ وَالْعَبِيدِ لَهُمْ قَالَ اَبُو عُبَيْدَةَ الْعَرَبُ تُسَمِّي كُلَّ مَنْ دَانَ لِمَلِكٍ عَابِدًا لَهُ وَيُحْتَمَلُ اَنْ يُقَالَ اَنَّهُ كَانَ يَدَّعِي الْإِلٰهِيَّةَ فَادَّعَى اَنَّ النَّاسَ عِبَادُهُ وَأَنَّ طَاعَتَهُمْ لَهُ عِبَادَةٌ عَلَى الْحَقِيقَةِ (تفسیر کبیر،ج۶، ص ۱۹۷) اور ان کی قوم ہماری عبادت گزار ہوگی (المومنون ۲۳:۳)، [یعنی ہماری خدمت گزار اور ہمارے آگے جھکنے والی، جیسا کہ غلام ہوتے ہیں (ابو السعود، ج۷، ص۱۶۰)۔ اور تفسیرکبیر میں ہے کہ حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کی قوم فرعونیوں کے لیے نوکروں اور غلاموں کی طرح تھی۔ ابوعبیدہ نے کہا ہے کہ عرب ہر اس شخص کو ’عبادت گزار‘ کہتے ہیں جو کسی بادشاہ کے آگے جھک جائے۔یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ وہ الوہیت کا دعویٰ کرتا تھا، اس لیے اس نے دعویٰ کیا کہ انسان اس کے بندے ہیں اور میری پیروی ان کے لیے عبادت ہے۔ (تفسیر کبیر، ج۶، ص۱۹۷)]

قوله تعالٰى: وَعَبدَ الطَّاغُوتَ قِیْلَ الطَّاغُوتُ الْعِـجْلُ وَقِيلَ الطَّاغُوتُ الْأَحْبَارُ ، وَكُلُّ مَنْ اَطَاعَ اَحَدًا فِي مَعْصِيَةِ اللهِ فَقَدْ عَبَدَهٗ (تفسیر کبیر، ج۳، ص۴۲۵) [رہا اللہ تعالیٰ کا یہ قول کہ وعبد الطاغوت   تو اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ’طاغوت‘ سے مراد بچھڑا ہے۔ کسی نے کہا ہے کہ یہاں ’طاغوت‘ سے مراد اُن کے علما ہیں۔ اس لیے کہ جو بھی کسی کی اطاعت کرتا ہے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہوئے تو در اصل اس نے اس کی عبادت کی۔ ]

چار عملی ارکانِ اسلام کو فقہا نے جو عبادت کہا ہے تو وہ محض ایک علمی اصطلاح کے طور پر کہا ہے کہ یہ عبادات ہیں اور یہ معاملات۔ اس کا مقصد حصر[بخل] نہیں تھا کہ ان ارکانِ اربعہ کے سوا اللہ تعالیٰ کے کسی دوسرے حکم کی اطاعت عبادت نہیں ہے۔ اگر اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃ  اللہ تعالیٰ کا  حکم ہے اور اس کی تعمیل اور اس فرمانِ الٰہی کی اطاعت اگر عبادت ہے، تو اسی طرح قرآنِ مجید میں وَاَقِیْمُوا الْوَزْنَ  بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ (الرحمٰن ۵۵:۹)،بھی اللہ تعالیٰ کا ایک واجب التعمیل فرمان ہے۔ اگر ایک تاجر دکان میں بیٹھ کر خریدار کو سودا تولتے وقت پورا تول کر دینے اور ڈنڈی نہ مارنے کو حکمِ خداوندی سمجھ کر اس کی اطاعت کر رہا ہے تو یہ عبادت کیوں نہیں؟ اور اگر کسی نے اس کو عبادت کہا تو کون سا جرم کیا؟

اس پر تمام ان احکام کی اطاعت کو قیاس کیجیے جو معاملات کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے بندوں کو دیے ہیں۔ فقہاے کرام نے تو نکاح کو بھی عبادات میں شمار کیا ہے۔ اگرچہ نکاح غیرمسلم بھی کرتے ہیں، لیکن چوں کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کے حکم فَانْکِحُوا کی تعمیل میں عفت و عصمت کی خاطر کرتے ہیں اور اس طریقے پر کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے، اس لیے یہ عبادت ہے۔ اور اگر یہ نظریہ پیش نظر نہ ہو، غیرمسلموں کی طرح محض خواہشِ نفس کی بنا پر ہو، یا اللہ کے رسولؐ کے طریقوں کے خلاف ہو تو پھر وہ عبادت نہیں، بلکہ بعض صورتوں میں نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا۔ ہمارے یہ مولوی صاحبان تو جب سوتے ہیں تو اس کے لیے بھی کہتے ہیں کہ نَومُ الْعَالِمِ عِبَادَۃٌ ،یعنی عالم کا سونا بھی عبادت ہے اور کھانا پینا بھی کُلُوْا وَاشْرَبُوْا کے حکمِ الٰہی کی تعمیل میں عبادت ہے، لیکن مولانا مودودی نے تمام احکامِ الٰہی کی اطاعت و فرماں برداری کو عبادت کہا تو اس پر کیا اعتراض کرنا ضروری ہے؟ اور ان کو بدنام کرنے کی کوشش کرنا لازمی ہے؟

اِلٰـہ کے معنی

تیسرا اعتراض یہ ہے کہ وہ اِلٰہ کے معنی حاکم کرتے ہیں۔ مولانا مودودی صاحب نے اپنی تصانیف میں اِلٰہ کے معنی صرف حاکم نہیں کیے، بلکہ وہ فرماتے ہیں کہ یہ لفظ اِلٰہ جامع لفظ ہے۔ اس کے بہت سے معانی میں سے ایک معنی یہ بھی ہے کہ الٰہ سے مراد حاکم و قانون ساز ہو، اور جس طرح  دوسرے معانی کے اعتبار سے اللہ کے سوا اس کائنات میں کوئی اِلٰہ نہیں،اسی طرح اس کائنات میں ایک اللہ کے سوا دوسرا کوئی حاکم نہیں۔ نہ تکوینی حکم دینے والا، نہ تشریعی حکم دینے والا، اور یہ معنی  قرآنِ مجید کی آیت: اَلَالَہُ الْحُکْمُ [الانعام ۶:۶۲] اور اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ [الانعام ۶:۵۷]، اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ [اعراف ۷:۵۴] اور اسی مضمون کی دوسری بے شمار آیتوں سے ثابت ہے۔

اُمید ہے کہ ہمارے یہ مولوی صاحبان ،امام فخرالدین رازیؒ کو تو بہرحال مانتے ہوں گے اور اُن کی تفسیر تو ان کے ہاں قابلِ اعتماد ہوگی۔ اِلٰہ کے بارے میں امام رازیؒ کی چند عبارتیں نقل کرتا ہوں:

فِیْ تَفْسِیْرِ قَوْلِہٖ تَعَالٰی : مَا عَلِمْتُ لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرِیْ  (القصص) فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَيْسَ الْمُرَادُ مِنْهُ أَنَّـهُ كَانَ يَدَّعِيْ كَوْنَهٗ خَالِقًا لِلسَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْبِحَارِ وَالْجِبَالِ وَخَالِقًا لِذَوَاتِ النَّاسِ وَصِفَاتِهِمْ، فَإِنَّ الْعِلْمَ بِامْتِنَاعِ ذٰلِكَ مِنْ أَوَائِلِ الْعُقُولِ فَالشَّكُّ فِيهِ يَقْتَضِي زَوَالَ الْعَقْلِ، بَلِ الْإِلَهُ هُوَ الْمَعْبُودُ فَالرَّجُلُ كَانَ يُنْفِي الصَّانِعَ وَيَقُولُ لَا تَكْلِيفَ عَلَى النَّاسِ إِلَّا أَنْ يُطِيعُوا مَلِكَهُمْ وَيَنْقَادُوا لِأَمْرِهِ، فَهٰذَا هُوَ الْمُرَادُ مِنْ ادِّعَائِهِ الْإِلٰهِيَّةَ لَا مَا ظَنَّهُ الْجُمْهُورُ مِنْ ادِّعَائِهِ كَوْنَهُ خَالِقًا لِلسَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، لَا سِيَّمَا وَقَدْ دَلَّلْنَا فِي سُورَةِ طٰهٰ [۲۰:۴۹] فِي تَفْسِيرِ قوله: فَمَنْ رَّبُّکُمَا یٰمُوْسٰی عَلٰى أَنَّهُ كَانَ عَارِفًا بِاللهِ تَعَالٰى وَأَنَّهُ كَانَ يَقُولُ ذٰلِكَ تَرْوِيجًا عَلَى الْاِغْمَارِ مِنَ النَّاسِ (تفسیر کبیر، ج۲، ص۴۴۲) [اللہ تعالیٰ کے اس قول کی تفسیر میں کہ مَا عَلِمْتُ لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرِیْ (القصص ۲۸:۳۸)، جان لو کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ یہ دعویٰ کرتا تھا کہ وہ آسمانوں اور زمین کا خالق ہے، سمندروں اور پہاڑوں کا خالق ہے اور وہ لوگوں کی ذات اور صفات کا خالق ہے۔ ان چیزوں کا غلط ہونا تو عقل کا ابتدائی درجہ ہے۔ ان چیزوں میں شک کرنا عقل کے زائل ہونے کا تقاضا کرتا ہے۔ چنانچہ یہاں اِلٰـہ سے مراد معبود ہی ہے۔ اس لیے کہ کوئی شخص اس بات کی نفی کرسکتا تھا کہ کائنات کا کوئی خالق نہیں ہے اور وہ کسی قاعدے اور قانون کے پابند بھی نہیں ہیں، سواے اس کے کہ وہ اپنے بادشاہ کی بات مانیں اور اسی کے حکم کی پیروی کریں۔یہ ہے مطلب فرعون کے دعواے الوہیت کا، نہ کہ وہ جس کا گمان جمہور مفسرین کو ہوا ہے کہ فرعون نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ آسمان اور زمین کا خالق ہے۔ خصوصاً، جب کہ ہم نے سورۂ طٰہٰ میں فَمَنْ رَّبُّکُمَا یٰمُوْسٰی کی تفسیر میں اس بات پر دلائل دیے ہیں کہ فرعون اللہ تعالیٰ کے بارے میں جانتا تھا۔]

گویا فرعون کے ہاں اپنے آپ کو اِلٰہ کہنے کا مطلب یہ تھا کہ جس کے حکم کی اطاعت کی جائے اور جس کے قانون کو تسلیم کر کے اس کی پابندی کی جائے۔ اس معنی میں صرف مَیں اِلٰہ  ہوں، دوسرا کوئی اِلٰہ  نہیں ہے کیوں کہ میں مُلکِ مصر کا بادشاہ اور حکمران ہوں۔

اور سورئہ طٰہٰ کی آیت فَمَنْ رَّبُّکُمَا یٰمُوسٰی کی تفسیر میں لکھا ہے:

اِنَّ فِرْعَوْنَ کَانَ عَارِفًا بِاللّٰہِ ،فرعون، اللہ کے بارے میں جانتا تھا۔

اور امام رازیؒ نے اس کی چھے دلیلیں دی ہیں (ملاحظہ فرمائیں:  تفسیر کبیر، ج۶، ص۴۱)  نیز فرماتے ہیں:

وَأَمَّا ادِّعَاؤُهُ الرُّبُوبِيَّةَ لِنَفْسِهِ فَبِمَعْنَى أَنَّهُ يَجِبُ عَلَيْهِمْ طَاعَتُهُ وَالِانْقِيَادُ لَهُ وَعَدَمُ الِاشْتِغَالِ بِطَاعَةِ غَيْرِهِ ، [رہا اس (یعنی فرعون)کا اپنی ربوبیت کا دعویٰ کرنا تو اس کے معنی یہ تھے کہ لوگوں پر اس کی اطاعت اور اس کے آگے جھکنا واجب ہے۔ کسی اور کی اطاعت میں مشغول ہونا جائز نہیں۔]

ان عبارات کا مطلب تو واضح ہے کہ اِلٰہ کے معنی واجب الطاعۃ حاکم کے ہیں، مگر شاید یہ کہا جائے گا کہ اس میں تو یہ کوئی تصریح نہیں کہ اِلٰہ   کا ترجمہ حاکم کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے میں  آپ کو توجہ دلاتا ہوں حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیو بندیؒ کے ترجمۂ قرآن کی طرف ۔ آپ حضرت شیخ الہند کا اُردو ترجمۂ قرآن نکال کر بیسویں پارے کا آغاز ان معترض صاحبان کےسامنے رکھیے۔ ایک ہی رکوع میں پانچ دفعہ آیا ہے: اَاِلٰہٌ مَّعَ اللہِ۔اور پانچوں جگہ اس کا ترجمہ لکھا ہے: ’’اب کوئی اور حاکم ہے اللہ کے ساتھ‘‘۔

پھر نکالیے سورئہ قصص کی آیت ۳۸: مَا عَلِمْتُ لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرِیْ۔اس کا ترجمہ انھوں نے کیا ہے: ’’مجھ کو تو معلوم نہیں تمھارا اِلٰہ حاکم ہو میرے سوا‘‘۔

پھر نکال کر دکھایئے پارہ ۱۹ میں سورئہ شعراء کی آیت ۲۹: لَئِنِ اتَّخَذْتَ اِلٰـہًا غَیْرِی لَاَجْعَلَنَّکَ مِنَ الْمَسْجُوْنِیْنَ  o اس کا حضرتؒ نے ترجمہ کیا ہے کہ: ’’اگر تو نے ٹھیرایا کوئی اور حاکم میرے سوا تو ضرور ڈالوں گا تجھ کو قید میں‘‘۔

درحقیقت اِلٰہ کا ترجمہ ان مقامات پر ’’حاکم‘‘ حضرت شاہ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ نے کیا ہے اور موقع محل کے اعتبار سے یہاں اِلٰہ کا یہی ترجمہ مناسب تھا۔ اسی لیے حضرت شیخ الہندؒنے اُسی کو باقی رکھا۔

اعتراض کرنے والے علماے کرام کو یہ حوالہ جات دکھانے کے بعد پوچھیے کہ ان دونوں بزرگوں کے بارے میں آپ کی کیا راے ہے اور اب ان پر آپ کون سا فتویٰ لگائیں گے ؟ ان ترجموں کے بارے میں وہ جو کچھ کہیں یا کوئی تاویل کریں وہ مجھے آپ بتا دیجیے، تاکہ ان لوگوں کی دیانت و انصاف اور حق پسندی کا اندازہ ہوجائے! (تفہیم الاحکام، اوّل، ص ۴۱-۵۲)

[مضمون میں شامل عربی اقتباسات کا ترجمہ جناب گل زادہ شیرپائو نے کیا ہے۔ ادارہ]

قیامِ پاکستان کے ۷۰سال گزرنے کے بعد جب مَیں پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی تاریخ پر نظر ڈالتا ہوں تو تمام ناہمواریوں کے باوجود یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ان دونوں ممالک کے باہمی تعلقات اچھے ہمسایوں والے ہو سکتے تھے۔ آغاز تو امیدافزا تھا۔ تقسیم بھی اتفاق راے سے ہوئی تھی۔ دوسب سے بڑی سیاسی جماعتوں نے برطانوی تجویز پر صاد کیا اور خود ارادیت کے بنیادی انسانی حقوق کے غیر مبہم اصول کو تسلیم کرنے کے نتیجے میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔

پُرامن ذرائع سے پاکستان کے حصول کے بعد قائد اعظم کا خیال یہ تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود تمام اختلافات بھی بین الاقوامی قانون اور عدل کے اصولوں کے مطابق حل کر لیے جائیں گے۔ دونوں ملکوں نے اقوام متحدہ کا چارٹر (Charter) تسلیم کیا تھا، جو اپنے ارکان سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ طاقت کے استعمال سے باز رہیں گے۔ باہم تنازعات دو طرفہ گفتگو اور مذاکرات سے حل کریں گے اور اگر اس طرح سے تنازعات طے نہ ہوسکیں تو ان کے حل کے لیے غیر جانب دارانہ (مصالحتی ) طریق کار، مثلاً ثالثی وغیرہ کو اختیار کیا جائے گا۔ لیکن عملی دنیا میں یہ دیکھ کر پاکستان جلد ہی حیرت زدہ رہ گیا کیوںکہ انڈین نیشنل کانگریس عظیم طاقت بننے کے ایک فرسودہ تصور سے متاثر ہو کر جنوب ایشیائی خطے پر غلبہ حاصل کرنے پر تل چکی تھی۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان کش مکش کی بنیاد کو اس سامراجی ریت (paradigm) کی روشنی میں بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے جس کے تحت ایک بڑی ریاست، طاقت کی عدم مساوات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ، پاکستان جیسے ایک نسبتاً کم طاقت ور ملک پر اپنی مرضی ٹھونسنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اصل میں آزادی کی تحریک کے آغاز ہی سے یہ برہمنی ذہنیت زدہ کانگریس کے رہنمائوں کا محبوب ترین خواب تھا۔ یہ بات اس کے اس مطالبے سے بھی واضح ہو جاتی ہے، جو   اس نے ۱۹۱۹ء میں ’پیرس امن کانفرنس‘ میں نشست حاصل کرنے کے لیے کیا تھا۔ اس کے لیے یہ دلیل دی کہ: ’بھارت (India ) کا عظیم طاقت بننا اس کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے‘۔ حیران کن طور پر پنڈت جواہر لال نہرو،جو ایک بیرسٹر تھے اور جنھوں نے بیرسٹر محمدعلی جناح کی طرح انگلستان کے ایک معروف قانون کے ادارے میں تعلیم حاصل کی تھی، انڈیا کے بارے میں قرونِ وسطیٰ کا    یہ نظریہ رکھتے تھے کہ وہ ایک عظیم طاقت ہے۔ ان کا مستقبل کا تصور یہ تھا کہ بھارت کا دائرۂ اثر    باب المنداب سے آبنائے ملاکا تک ہو گا۔

نہرو کی قیادت میں، بھارت نے نیپال اور بھوٹان پر غیر مساویانہ معاہدے ٹھونسے اور پرتگالی گوا کو فتح کر لیا۔ طاقت کے عدم توازن سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے بھارتی عمل کا اوّلین ہدف پاکستان تھا۔ بھارت نے بعد از تقسیم برطانوی ہند کے اثاثوں کی تقسیم کے لیے معاہدوں پر دستخط کیے، لیکن ان میں سے کچھ پر عمل درآمد کرنے سے انکار کر دیا۔ تقسیم کے ایک ہی سال بعد حیدرآباد دکن کی خودمختار مسلم ریاست کو ایکشن کرکے بھارت میں ضم کرلیا۔

جب جونا گڑھ کی ننھی سی ریاست کے نواب نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا تو  بھارت نے وہاں فوجیں داخل کر دیں تو اس کے لیے دلیل یہ دی کہ یہ تقسیم کے اصول کی صریح خلاف ورزی ہے، لیکن جموں اور کشمیر کے حوالے سے ’صریح خلاف ورزی ‘کا مرتکب ہونے پر نہرو کو ضمیر کی خلش نام کی کوئی چیز لاحق نہیں ہوئی۔

اس سے بھی زیادہ حیران کن امر یہ تھا کہ نہرو دانستہ طور پر دھوکا دہی پر اتر آئے۔ انھوں نے اقوام متحدہ کی ان قرارداد وں کو، جن میں جموں اور کشمیر میں راے شماری (Plebiscite) کے لیے کہا گیا تھا، بھارت نے اسے قبول کرنے کی منظوری دی تھی، لیکن ایک خفیہ نوٹ (note ) میں اپنے اس ارادے اور نیت کا اظہار کیے رکھا کہ استصواب کی قرار داد پر عمل نہیں ہونے دیا جائے گا۔

اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت (رکن ممالک پر ) یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے تنازعات، غیر جانب دارانہ بین الاقوامی ضابطوں ، مثلاً ثالثی کے تحت حل کریں۔ لیکن ’سندھ طاس‘ معاہدے اور ’رن آف کچھ‘ کی حد بندی کے دو معاملات کے سوا ، بھارت کی طرف سے اس ذمہ داری سے سر کشا نہ فرار ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ اس طرزِ عمل میں بھی بھارت کی ’عظیم طاقت بننے والی‘ جارحانہ عصبیت کا رفرما نظر آتی ہے۔

اُوپر جن دو معاملات کا ذکر ہوا ہے ، ان میں سے اوّل الذکر کے لیے عالمی بنک نے مدد دی تھی اور اس معاہدے کے نتیجے میں ہونے والے ادل بدل کے لیے پاکستان میں درکار تعمیراتی منصوبوں کے لیے فنڈز فراہم کرنے کی تحریک کی تھی۔ ’رن آف کچھ‘ کی حد بندی کا معاملہ ثالثی کے ذریعے طے کیا گیا۔ اگرچہ اس کے نتیجے میں متنازعہ علاقے کا صرف ۱۰فی صد پاکستان کو دیا گیا ، لیکن اس کے باوجود بھارت نے اپنے طور پر یہ عہد کر لیا کہ وہ آیندہ کبھی بھی غیر جانب دارانہ ثالثی پر اتفاق نہیں کرے گا۔ 

اس تمام عرصے میں بھارت کا طرزِ عمل یہ رہا ہے کہ اگر گفت وشنید سے معاہدات طے بھی پاجاتے ہیں تو وہ اس پر عمل درآمد میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے اس کی یک طرفہ تشریح پر اصرار کرتا ہے۔ جولائی ۱۹۷۲ء کے ’شملہ معاہدے‘ میں یہ پیمان کیا گیا تھا کہ فریقین جموں اور کشمیر میں لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی اور طاقت کے استعمال سے مکمل اجتناب کریں گے، لیکن بھارتی فوج نے لائن آف کنٹرول کی آخری حد سے آگے بڑھ کر سیاچین کے پہاڑوں میں گلیشیروں  والے علاقے پر قبضہ کر لیا۔

بھارت کے ایک رہنما کا تنقیدی حوالے سے بار بار نام لینا قابلِ افسوس ہے، لیکن نہرو نے قانون اور اخلاقیات کے اصولوں کی جس حقارت آمیز طریقے سے بار بار بے حُرمتی کی ہے، اس کی وجہ سے یہ اذیت ناک ذکر ناگزیر ہے۔ تاہم، خوش قسمتی سے بعد میں چند وزراے اعظم نے اصولوں کے مطابق رویہ اختیار کیا۔ مثال کے طور پر مرار جی ڈیسائی نے دوسرے جنوب ایشیائی ممالک میں عدم مداخلت کے اصول کی سختی سے پابندی کی۔ جب قتل کے مقدمے میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان کی عدالت عظمیٰ کا فیصلہ آیا تو اس پر بھارتی صدر نے کھلے عام تبصرہ کیا، مگر واجپائی نے صدر کے اس فعل کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

  ایک اور ممتاز رہنما ، جس نے پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی، اٹل بہاری واجپائی تھے۔ لاہور کے دورے کے دوران انھوں نے بی جے پی کے نمایاں رہنمائوں کو مینارِ پاکستان لے جا کر وہاں پھول چڑھائے ۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ انھوں نے تقسیم کو تسلیم کر لیا ہے،  جس کی ۱۹۴۷ء سے جن سنگھ مخالفت کرتی رہی تھی۔ جنگی ہتھیاروں (strategic weapons) میں پوشیدہ خطرات کو ذہن میں رکھتے ہوئے، انھوں نے ایٹمی جنگی ہتھیاروں سے وابستہ خطرات کو    کم کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔

تاہم، ابھی تک بھارتی اسٹیبلشمنٹ عظیم طاقت کے قدیم تصور کی غلام ہے۔ جموں اور کشمیر کے مقبوضہ حصوں کے عوام پر اپنا قبضہ ناجائز طور پر برقرار رکھنے کے لیے اس نے غیر انسانی   ظلم وستم کا بازار مسلسل گرم کر رکھا ہے۔ کشمیر ی عوام نے آزادی کی جدوجہد میں عالی حوصلگی سے قربانیاںدی ہیںاور کشمیر ی عوام کے اس انصاف پر مبنی نصب العین کی حمایت میں پاکستان بھی ثابت قدم رہا ہے۔ جب تک بھارت تشدد اور ظلم وستم کو جاری رکھے ہوئے ہے، پاکستان اور بھارت کے درمیان امن اور معمول کے تعلقات ایک خواب ہی رہیں گے۔

باہمی بقا کے تحفظ کے لیے ، دونوں ملکوں کو اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنا ہو گی اور بین الاقوامی برادری نے جنگ کی روک تھام اور تنازعات اور اختلافات کے پُرامن تصفیے کے لیے جو طریقِ کار طے کیا ہے، اس سے فائدہ اٹھانا ہو گا۔انسانی تہذیب کی ترقی،من مانے نتائج (جو کہ عام طور پر تباہ کن ہوتے ہیں ) کے حصول کے لیے طاقت کے استعمال سے دست برداری سے براہِ راست منسلک ہے۔ (ترجمہ: پروفیسر خالد محمود)

قیامِ پاکستان کے وقت دونوں حصوں، مغربی پاکستان (اب پاکستان) اور مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) کی مجموعی طور پر آبادی ۶کروڑ تھی۔ اب پاکستان کی آبادی ۲۱کروڑ سے زیادہ اور بنگلہ دیش کی ساڑھے ۱۶ کروڑ ہے۔ یہاں ۷۰برسوں میں کم و بیش نصف مدت فوجی اور نصف مدت جمہوریت کی حکمرانی رہی۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں برابری (Parity) کا اصول   طے کرنے کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان کا پہلا دستور ۱۹۵۶ءمیں بنا اور ۷؍اکتوبر ۱۹۵۸ء کو صدر اسکندر مرزا نے مارشل لا لگا کر اس دستور کومنسوخ کر دیا۔ پھر ۲۷؍اکتوبر ۱۹۵۸ء کو سپہ سالار جنرل ایوب خان نے صدر اسکندر مرزا کو معزول کر کے اسی مارشل لا کے تحت عنانِ حکومت سنبھال لی۔ پھر اپنی مرضی سے دوسرا دستور ۱۹۶۲ء میں نافذ کیا۔ انھی کے جانشین جنرل یحییٰ خاں نے ۱۹۶۹ء میں اس دستور کو بھی منسوخ کر دیا۔ ۷دسمبر کو متحدہ پاکستان میں ’ون مین ون ووٹ‘ کے اصول پر پہلے قومی انتخابات ہوئے۔

مشرقی اور مغربی پاکستان میں الگ الگ پارٹیاں منتخب ہوئیں۔ یہ دونوں کسی متفقہ آئینی فارمولے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ ہوئیں۔ مشرقی پاکستان سے کامیاب عوامی لیگ نے کھلم کھلا بغاوت اور بھارت سے فوجی و سیاسی امداد کا راستہ اختیار کیا۔ انجامِ کار ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء کو بھارت کی عریاں فوجی جارحیت کے نتیجے میں مشرقی پاکستان الگ ہوکر بنگلہ دیش بن گیا۔ مغربی پاکستان، جو ۲۰دسمبر ۱۹۷۱ء کے بعد پاکستان کہلایا، اس میں ۱۰؍اپریل ۱۹۷۳ء کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا پہلا متفقہ دستور پاس ہوا اور ۱۴؍اگست ۱۹۷۳ء کو نافذ ہوا۔ آج تک پاکستان کے چاروں صوبوں، قبائلی علاقہ جات ، شمالی علاقہ جات اور آزاد کشمیر کی اساس یہی دستور ہے۔ اس دستور میں اب تک ۲۲ترامیم ہوچکی ہیں۔

الغرض پاکستان میں جمہوریت کا تسلسل جاری نہ رہ سکا، نہ سیاسی جماعتیں مضبوط ہوئیں اور نہ دستوری حدود کے اندر رہتے ہوئے ادارے ہی مضبوط ہوسکے۔ اس لیے ہمارے ہاں مقتدرہ کبھی علانیہ اور کبھی پس پردہ کرامات دکھاتی رہی۔اب درست یا غلط، بدقسمتی سے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ آزاد عدلیہ کا مقتدرہ کے ساتھ ایک غیرمرئی تعلق قائم ہے، واللہ اعلم بالصواب۔ ہمارے ہاں پارلیمنٹ، جمہوری اداروں اور سیاسی جماعتوں کے مستحکم نہ ہونے کی ذمہ داری خود سیاست دانوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ ۱۹۸۵ء میں غیر جماعتی بنیاد پرقومی انتخابات ہوئے۔ ان کا مقصد بھی سیاسی جماعتوں کو کمزور اور منقسم کرنا تھا اور فی الواقع ایسا ہی ہوا۔ لسانی بنیادوں پر سیاسی جماعتوں کی تشکیل اور مذہبی گروہوں کے مسلح جتھے اور ان کی باہم آویزش کا آغاز بھی فوجی حکمرانی کے دور میں ہوا۔ صدر جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم اور صدر جنرل پرویز مشرف صاحب کی عسکری حکمرانی کے نتائج پاکستان اب تک بھگت رہا ہے۔

پس، ہمارے سیاست دانوں کو اپنی ناکامیوں، نادانیوں اور عاقبت نااندیشیوں کا بھی اعتراف کرنا چاہیے اور سارا بوجھ دوسری جانب ڈال کر اپنی معصومیت و بے گناہی کا واویلا نہیں کرنا چاہیے۔ وطن عزیز کو ایسے قائد (Statesman) اور مُدبّر کی ضرورت ہے، جو لمحۂ موجود کا اسیر بن کر   نہ رہے، بلکہ دُوراندیش اور صاحب ِ بصیرت ہونا چاہیے۔کوتاہ بینی کا انجام تو آج سب کے سامنے ہے۔ ہمارا شعار یہ ہے کہ : ’’اولاد، ماں باپ کے تجربے سے اور شاگرد، استاد کے تجربے سے سبق حاصل نہیں کرتا، تاوقتیکہ اسے خود ٹھوکر نہ لگے‘‘۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے سیاست دان اور حکمران تاریخ یا دوسروں کے تجربات سے سبق حاصل کرنا تو درکنار، خود ٹھوکر کھا کر بھی سبق حاصل نہیں کرتے۔ ان کا شعار اپنی غلطیوں کو بار بار دُہرانا اور ہربار ایک ہی انجام سے دوچار ہوناہے۔

حضرت ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے: ’’تم ضرور ہو بہو پچھلی اُمتوں کے طریقوں کی پیروی کرو گے، یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے، تو تُم بھی ان کی پیروی کرو گے۔ ہم نے عرض کیا:یارسولؐ اللہ! آپؐ کی مراد یہود و نصاریٰ ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: اور کون؟ ‘‘ (بخاری: ۷۳۲۰)

سو، ہمارے سیاست دانوں کی کمزوریاں، اُن کی فطرتِ ثانیہ بن چکی ہیں، جیسے اب جناب نوازشریف کو عوام کا مینڈیٹ اور پارلیمنٹ کی بالادستی سب کچھ یاد آرہا ہے، لیکن کیا انھوں نے چار سال تک پارلیمنٹ، کابینہ اور خود اپنی سیاسی جماعت کو وہ وقعت دی، جو ان کا استحقاق تھا؟

۱۹۸۸ء سے ۱۹۹۹ء تک کے جمہوری اَدوار میں سیاسی قائدین ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوتے رہے۔ ۲۰۰۲ء کے انتخابات میں مصنوعی سیاسی جماعت تشکیل دینے کے لیے اداروں کے ہاتھوں استعمال ہوئے۔ ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی اپنے اتحادیوں سمیت اقتدار میں آئی لیکن آزاد عدلیہ کے دبائو میں رہی کہ اس حکومت پر کرپشن اور نااہلی کی چھاپ کا شہرہ تھا۔ ۲۰۱۳ء کے انتخاب کے بعد مسلم لیگ (ن) کی حکومت آئی، لیکن تحریک ِ انصاف کی جانب سے اس کے خلاف مسلسل محاذ آرائی جاری رہی۔

پاکستان کی سپریم کورٹ نے جس آئینی و قانونی بنیاد پر جناب نواز شریف کو نااہل قرار دیاہے، اس کے بارے میں آئینی و قانونی ماہرین کی آرا منقسم ہیں۔ہمیں محدود عصبیتوں سے نکل کر بحیثیت مجموعی ملکی اور قومی وقار کو بھی دیکھنا چاہیے اور اس سے غرض نہیں ہونی چاہیے کہ کون چلا گیا اور اس کی جگہ کون لے گا؟

ان ۷۰برسوں میں پاکستان نے دفاعی حوالے سے جو غیرمعمولی کارنامہ انجام دیا، وہ ایٹم بم بنانا ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کو ایک طرح کا تحفظ مل گیا ہے اور ایٹم بم کو سدِّجارحیت کا ذریعہ قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم، یہ بات پوری قوم کے ذہن میں رہنی چاہیے کہ ایٹم بم آج تک صرف امریکا استعمال کرسکا ہے۔ مسلم ممالک پر تو چڑھائی کرنے میں امریکا ایک لمحے کی تاخیر نہیں کرتا اور ’تمام بموں کی ماں‘ گرا دیتاہے، لیکن شمالی کوریا کے خلاف اقتصادی پابندیوں اور طاقت کے استعمال کی دھمکیوں کے سوا کوئی عملی اقدام نہیں کرسکا۔ اشتراکی روس، افغانستان میں اپنی ہزیمت، پسپائی اور تحلیل برداشت کرگیا، لیکن ایٹم بم چلانے کی ہمت نہیں کرسکا۔ دفاع اور عالمی وقار کے لیے ملک و قوم کا سیاسی و معاشی استحکام، قومی اتفاق راے اور ملّی اتحاد بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہماری نئی نسل پاکستان کی تاریخ سے بالکل بے بہرہ ہے اور دوسرا یہ کہ تاریخ پڑھائی بھی نہیں جاتی۔ میڈیا جو تاریخ بیان کرتا ہے، وہ متنازعہ، مسخ شدہ اور بیان کرنے والوں کی اغراض کی آلۂ کار ہوتی ہے، مگر تاریخ ہرگز نہیں کہلاسکتی۔ تاریخ کے حوالے سے ہرایک کی تعبیر اپنی اپنی عصبیتوں کے تابع ہے۔ ایک کے نزدیک کوئی ابلیس ہے، تو دوسرے کے نزدیک فرشتہ، ایک کے نزدیک کوئی شہید ہے، تو دوسرے کے نزدیک قاتل۔ پاکستان میں کرپشن کی ابتدا    جعلی کلیموں سے شروع ہوئی، لوگوں کے نسب بدل گئے، کئی نامی بے نام ہوگئے اور کئی بے نام   نام وَر بن گئے۔ نذیردہقانی نے خوب کہا ہے  ؎

کیسے کیسے ایسے ویسے ہوگئے      ایسے ویسے کیسے کیسے ہوگئے

پھر کرپشن، لُوٹ مار اور بددیانتی ہمارے جسد ِ ملّی کے رگ و پے میں سرایت کرتی چلی گئی۔ پہلے راشی اور مرتشی ہونا عیب تھا، مگر ازاں بعد اعزاز بن گیا۔ علم اور کردار بے توقیر ہوگئے اور دولت ذریعۂ وقار و افتخار بن گئی۔ یہ اَخلاقی امراض وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مرضِ مُزمن (chronic) کی شکل اختیار کرگئے۔ آج پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو صدر ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے اَدوار غنیمت نظر آتے ہیں۔ خاص طور پر صدر ایوب خان کے دور تک اعلیٰ بیوروکریسی کے انتخاب میں اقرباپروری نہیں تھی، مگر ۱۹۷۱ء کے بعد تنزل، اقرباپروری اور ذاتی پسند و ناپسند کا جو سلسلہ شروع ہوا، وہ ختم ہونے میں نہیں آرہا۔ اسی طرح جن اکابر علما ے دین نے تحریکِ پاکستان میں جان دار کردارادا کیا تھا، آج ان کے اسماے گرامی آپ کو نصابی کتابوں اور قومی تاریخ میں نہیں ملیں گے۔ دین اور اہلِ دین کے حوالے سے ہر آن زہر اُگلا جاتا ہے اور تحریکِ پاکستان کے سب سے بنیادی اور جوہری محرک، دین اسلام کو نظرانداز کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس ظلم کا مداوا سیکولر قوتوں نے نہیں، بلکہ دینی حمیت اور ملّی وابستگی رکھنے والے محب ِ وطن اہلِ دانش نے کرنا ہے۔ لیکن افسوس کہ ایسی جنس گراں مایہ ذرا کم ہی دکھائی دیتی ہے۔

l ہم جو آزاد قوم ہیں: الحمدللہ علٰی احسانہ، ہم ایک آزاد قوم ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک آزاد اور خودمختار وطن کی نعمت سے نوازا ہے۔ ہمارا اپنا ایک دستور اور ایک نظامِ ریاست و حکومت ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمارے وطنِ عزیز کو ایک غیرمعمولی محلِ وقوع سے نوازا ہے، اس لیے دنیا کی بڑی طاقتیں پاکستان کو یکسر نظرانداز نہیں کرسکتیں۔ ہم دنیا کی ساتویں اور مسلم ممالک کی پہلی ایٹمی قوت ہیں۔ ہمارا ایٹمی پروگرام اور میزائل ٹکنالوجی ہمارے حریف ملک بھارت سے بہتر اور برتر ہے۔ ہم کافی حد تک اپنے لیے دفاعی سامانِ حرب تیار کر رہے ہیں اور برآمد بھی کر رہے ہیں۔ پاکستانی فوج افرادی قوت کے اعتبار سے دنیا میں ساتویں نمبر پر ہے اور ہمارا دعویٰ ہے کہ پیشہ ورانہ تربیت، عزم و حوصلے، جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت کے اعتبار سے ہم اپنے حریف ملک کے مقابلے میں بہت آگے ہیں۔ ہماری قوم ذہانت کے اعتبار سے بھی مسلّم ہے، امریکی اور مغربی ممالک میں ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ باعزت شعبوںسے وابستہ ہیں۔ ہمارے نوجوان عزم، ولولہ اور ذہانت سے معمور ہیں۔

ہمارے حریف ملک بھارت نے کمپیوٹر کی سافٹ ویئر انڈسٹری کو کافی ترقی دی ہے، بالخصوص جنوبی ہند اس کا بہت بڑا مرکز ہے۔ اگر ہمارے نوجوانوں کو جدید کمپیوٹر، سافٹ ویئر کی تربیت دی جائے، سہولتیں فراہم کی جائیں تو ان شعبوں میں بھی ہم کافی ترقی کرسکتے ہیں۔ نادراسافٹ ویئر اسی شعبے میں ہماری مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ الغرض پاکستان میں امکانی استعداد اور مواقع بہت ہیں۔ کاش! ہم ان سے پوری استعداد کے مطابق فائدہ اُٹھا سکیں۔

اسی طرح ہمارے منفی پہلو بھی بہت ہیں۔ ہم اگرچہ جسمانی اور جغرافیائی طور پر آزاد ہیں، لیکن ذہنی و فکری آزادی اور معاشی خودکفالت کی آزادی تاحال حاصل نہیں کرپائے۔ ہمارے ہاں دستوری و جمہوری نظام کا تسلسل نہیں رہا۔ ہم ہمیشہ شکست و ریخت سے دوچار رہتے ہیں۔ ہم وقفے وقفے سے فوجی حکمرانی اور جمہوریت کے تجربات کرتے رہتے ہیں، لیکن بحیثیت قوم ہمارے مزاج میں قرار و سکون اور استقلال نہیں ہے۔ ہم چند ہی برسوں میں ایک طرح کے نظام سے بیزار ہوجاتے ہیں، تبدیلی کی خواہش کرنے لگتے ہیں اور پھر اس تبدیل شدہ ڈھانچے سے بھی جلد اُکتا جاتے ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا کے لیے ہم پر اعتماد کرنا دشوار ہے، دنیا کو پتا نہیں کہ ہمارا آنے والا کل کیسا ہوگا؟ لہٰذا، ہم سے دیرپا معاملات کرنے میں انھیں دشواری ہے۔ ہم نے امریکا اور یورپ کو شروع ہی سے دوست بنایا۔ سیٹو اور سینٹو ایسے معاہدات میں امریکا کے طفیلی بن گئے، مگر اس کے نتیجے میں مادی دنیا میں ممکنہ امکانات سے پورے فوائد نہ اُٹھا سکے اور دوسری جانب امریکا اور مغرب پر انحصار نے ہمیں مکمل خودکفالت سے محروم رکھا۔

بھارت تو ہمارا روزِ اوّل سے دشمن ہے۔ کشمیر کا تنازع دونوں کے درمیان دائمی وجہِ نزاع ہے اور اُس کے پُرامن حل کے لیے بھارت تیار نہیں ہے۔ ماضی میں بھارت امریکا سے دُور اور اشتراکی روس کے نہایت قریب تھا۔ لیکن اب چین کا حریف، بڑی معیشت اور بڑی مارکیٹ ہونے کی وجہ سے وہ امریکا اور مغرب کا منظورِ نظر ہے۔ امریکا ہمارا حلیف ہونے کے باوجود ہمیں F-16 ، جیٹ فائٹر اور دیگر جدید اسلحہ دینے پر تیار نہیں ہے، جب کہ بھارت کو وہ یہی اور اس سے بھی جدید اسلحہ ٹکنالوجی سمیت فروخت کرنے کے لیے تیار ہے۔ طالبان کے دور کے علاوہ افغانستان سے ہمارے تعلقات کبھی خوش گوار نہیں رہے، اس کا جھکائو ہمیشہ بھارت کی طرف رہا ہے۔ ایران سے بھی ہمارے اقتصادی تعلقات کبھی اعلیٰ سطح کے نہیں رہے اور نہ دوطرفہ تجارت کا حجم معتدبہ سطح تک پہنچ پایا، لیکن اب ہم ایران کے ساتھ تنائو اور بے اعتمادی کے دور سے گزر رہے ہیں۔

مشرقِ وسطیٰ میں سعودی عرب کا ایران و شام اور اب قطر کے ساتھ تنائو انتہائی حدوں کو چھورہا ہے اور اس کی وجہ سے ہماری پوزیشن ڈانواں ڈول ہے، جب کہ بھارت بیک وقت باہم متصادم اور محاذ آرا ان ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو اعلیٰ سطح پر قائم رکھے ہوئے ہے۔ اس کے برعکس سعودی عرب کا ہم سے علانیہ یا غیرعلانیہ مطالبہ ہے کہ ایران کو چھوڑ کر ہمارے کیمپ میں آجائو، جب کہ ہم اس مطالبے پر پورا اُترنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، کیوں کہ ایران ہمارا قریب ترین ہمسایہ ہے اور اُسے ہم پر اعتماد بھی نہیں ہے۔ متحدہ عرب امارات سے بھی پہلے جیسے تعلقات نہیں ہیں۔ علامہ اقبال نے نظم ’فریادِ اُمت‘ میں جو کچھ لکھا ہے ، آج ہم اس کا مصداق ہیں:

رند کہتا ہے ولی مجھ کو، ولی رند مجھے

سن کے ان دونوں کی تقریر کو حیراں ہوں مَیں

زاہدِ تنگ نظر نے مجھے کافر جانا

اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلماں ہوں میں

کوئی کہتا ہے کہ اقبال ہے صوفی مشرب

کوئی سمجھا ہے کہ شیدائے حسیناں ہوں میں

ظاہری ٹھیرائو کے باوجود داخلی طور پر ہم معاشی عدمِ استحکام، سیاسی افراتفری اور اضطراب کے دور سے گزر رہے ہیں۔ ہمارے جمہوری نظام میں شامل سیاسی رہنمائوں کے درمیان نفرتیں انتہا پر ہیں۔ ایک دوسرے کی بے توقیری اور تحقیر و تضحیک اُن کا من پسند مشغلہ ہے۔ ہر ایک جزوی طور پر اقتدار میں حصہ دار بھی ہے اور اختلاف کے دبدبے سے بھی لطف اندوز ہورہا ہے۔ ریاستی اداروں کے درمیان باہمی اعتماد کا فقدان ہے اور ہم یہ سوچ کر حیران ہیں کہ انھیں حالات کی نزاکت اور گردوپیش کی حساسیت کا اِدراک کیوں نہیں ہے؟

ہمارا وطن پاکستان عقل اور اُمنگ کا حسین امتزاج ہے۔اسے ہم بالفاظِ دگر ایک ناممکن الحصول خواب کی تعبیر بھی کہہ سکتے ہیں۔اغیار اس کا حصول ناممکن سمجھتے تھے۔ ہمارے طلب کردہ پاکستان کی ایک ممکنہ مشکل یہ تھی کہ اسے ایسے دو خطّوں پر مشتمل ہونا تھا، جو ایک دوسرے سے ڈیڑھ ہزار کلومیٹر کی دُوری پر تھے۔ اس لیے اس کا انتظام چلانا محال تھا، مگر پاکستان کی محبت نے یہ دُوری بے حقیقت بنادی اور اسے ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء تک چلا کے بھی دکھا دیا۔ اس کا سقوط دونوں بازوئوں کی دُوری کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ سیاسی دغابازوں کی مکاری کی وجہ سے ہوا۔ دغاباز عناصرپاکستان کی اسمبلیوں پر غالب آگئے تھے۔ اقتدار اگر اکثریتی جماعت کو منتقل کر دیا جاتا تو یہ تسلسل کے ساتھ چلتا رہتا۔

پاکستان کے برعکس آزاد ہندستان یا ہندو انڈیا صدی بھر سے ایک ملک تھا۔ حکومت چلانے کی تمام انتظامی سہولتیں اس کی دسترس میں تھیں۔ بنا بنایا دہلی کا دارالحکومت، بھرا پُرا خزانہ، ہر طرح سے مسلح فوج، ہر طرح کے عمالِ حکومت، سمندری تجارت اور ذرائع رسل و رسائل کا بھرپور نظام، اس ہندو انڈیا کے پاس تھا۔ اس کے برعکس پاکستان کے پاس ان میں سے کچھ بھی نہ تھا۔ جو کچھ ہمیں ملنا تھا اسے ہنود دبائے بیٹھے تھے۔ برطانوی حکومت کے چھوڑے ہوئے روپے پیسے میں سے پاکستان کا جو حصہ بنا تھا، اس کا بھی ایک چوتھائی حصہ ہندو انڈیا نے اقتدار ہاتھ میں لیتے ہی دبا لیا تھا تاکہ پاکستان ماہی بے آب بن جائے۔ یہ اتنی ظالمانہ حرکت تھی کہ خود گاندھی جی [م:۳۰ جنوری ۱۹۴۸ء] سے بھی برداشت نہ ہوئی اور انھوں نے پاکستان کا رُکا ہوا حصہ دلوانے کے لیے بھوک ہڑتال کردی۔ تاہم، پاکستان کے پاس فرزندانِ پاکستان کی محبت تھی۔ اس محبت نے ناقابلِ شکست طاقت دکھائی۔ اسی جذبے کی بدولت پاکستان کے نیم مسلح قبائلی مجاہدین نے کشمیر کا ایک حصہ بھارت سے چھین لیا۔ آزاد کشمیر اسی کا نام ہے۔

اگست ۱۹۴۷ء کے اسی ناتواں پاکستان کی آج کی سربلندی دیکھیے کہ دشمن اسے زیر کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس کی وجہ بیان کرنے کے لائق ہے۔ پاکستان اس مطلوبہ خطۂ ارض میں اسلام کے نفاذ کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ کیوں کہ پہلے بھی ۱۲۰۲ء سے ۱۸۵۷ء، یعنی ۶۵۱ برس تک یہاں کسی نہ کسی شکل میں اسلام نافذالعمل رہ چکا تھا۔اس ٹھوس حقیقت کی وجہ سے پاکستان بنتے ہی  ۱۲مارچ ۱۹۴۹ء کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے قراردادِ مقاصد منظور کی۔ اس کی منظوری پاکستان کے وجود کی سب سے مضبوط اینٹ ہے جسے ہمارے بے دین حکمران بھی اکھیڑ نہ سکے۔

پاکستان کی دوسری بڑی طاقت اس کا اسلامی آئین اور اس کے اسلامی قوانین ہیں۔ یہی اجزا نظریۂ پاکستان (Pakistan Ideology) کہلاتے ہیں۔ اس کو دو قومی نظریہ بھی کہا جاتا ہے۔ نظریۂ پاکستان ہم مسلمانوں کو فکری ورثے میں ملا۔ اس فکری ورثے کی ابتدا عہد ِ رسالتؐ کی تاسیس اور آپؐ کے معاً بعد ۶۳۲ء میں حضرت عبداللہ بن ابی قحافہ، ابوبکرصدیقؓ [م: ۲۳؍اگست ۶۳۴ء] کی خلافت [۸جون ۶۳۲ء-۲۲؍اگست ۶۳۴ء]کے قیام کے ساتھ ہوئی۔ پھر یکے بعد دیگرے خلافت بنواُمیہ ، خلافت ِ عباسیہ اور خلافت ِ عثمانی سے ہوتی ہوئی ۱۹۲۴ء تک، بالفاظِ دگر ۱۳ طویل صدیوں تک قائم رہی۔ کسی اور سیاسی نظام کو دنیا میں ۱۳ صدیوں کی طویل عمر نصیب نہیں ہوئی۔

۱۳صدیوں پر محیط اس اسلامی یا مسلم خلافت کی دیرینہ تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ اسلامی خلافت مسلمانوں کی بالخصوص برعظیم کے مسلمانوں کی دیرینہ تڑپ کا نام ہے۔ اسی لیے عثمانی خلافت کے خلاف ۱۹۱۳ء میں مغربی اقوام کے زیراثر جو جنگ ِ بلقان چھڑی تو ہندستان کے مسلمانوں نے ڈاکٹر مختاراحمد انصاری [۲۵دسمبر ۱۸۸۰ء- ۱۰مئی ۱۹۳۶ء]کی قیادت میں جنگ ِ بلقان کے زخمیوں کی طبّی امداد کے لیے ایک میڈیکل مشن ترکی بھیجا۔ اس مشن میں ڈاکٹروں کے علاوہ ہندستان کی اعلیٰ مسلم قیادت کے درج ذیل سات ارکان: ڈاکٹر ایم اے انصاری، شعیب قریشی، عبدالرحمٰن سندھی، چودھری خلیق الزماں، عزیز انصری، ملک غلام محمد (جو بعدازاں گورنر جنرل پاکستان بنے) اور منظور محمود شامل تھے۔ یہ میڈیکل مشن بھی خلافت ِ عثمانیہ کے لیے برعظیم کے مسلمانوں کی دیرینہ تڑپ کی بیّن مثال ہے۔

برعظیم سے مسلم حکومت کے خاتمے کے بعد بھی اسلامی قوانین کا نفاذ بہ اندازِ دگر ہندستان میں قائم رہا۔ اسے نظامِ افتا (فتوے دینے کا نظام) کے ذریعے قائم رکھا گیا۔ پورے ہندستان میں آسام و بنگال سے صوبہ سرحد [اب خیبرپختونخوا]تک دارالافتا قائم کیے گئے، جن میں عبادات اور دیگر معاملات کے بارے میں مفتیانِ دین سے فتوئوں کے لیے رجوع کیا جاتا۔یہ نظام آج بھی جاری ہے۔ ان کے فتوئوں کے مجموعے آج بھی مستعمل ہیں۔ ان میں سے سب سے بڑا ۳۰جلدوں پر مشتمل مجموعہ فتاویٰ عالم گیری کے نام سے مشہور ہے۔ ہندستان کے مسلم فرماں روائوں کے اقتدار کے خاتمے کے بعد سے برعظیم کی مسلم حکومت یہاں کے نظامِ فتاویٰ کے رُوپ میں قائم ہے۔

ترکیہ کی عثمانی خلافت سے اگرچہ ہندستان کے مسلمانوں کو براہِ راست کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا تھا، مگر اس کے باوجود ۱۹۲۴ء میں اس کے خاتمے کا یہاں کے مسلمانوں کو اتنا دُکھ تھا کہ اس کی بحالی کے لیے ان لوگوں نے بمبئی میں ۱۹۲۰ء کے لگ بھگ خلافت کانفرنس قائم کی۔ خلافت کو  ختم ہونے سے تو وہ بچا نہ سکے، تاہم ہندستان میںا سلامی حکومت کے احیا کا جو بیج خلافت کانفرنس بو گئی تھی، اس نے اپنا کام خوب دکھایا۔ انھی بیجوں نے ہندستان کے چند مسلمان اکابر کو برعظیم کے مسلم اکثریتی پانچ صوبوں پنجاب، سرحد (افغان صوبہ)، کشمیر، سندھ اور بلوچستان اور بعدازاں بنگال پر پاکستان بنانے اور وہاں اسلامی قوانین نافذ کرنے کا جذبہ اُبھار دیا۔

اس جذبۂ صادق کے محرکین نواب اسماعیل خاں اور چودھری خلیق الزمان تھے۔ اُن اصحاب نے جن میں ہندستان کے ملک گیر علما و فضلا جن میں مولانا سیّدسلیمان ندوی، مولانا عبدالماجد دریابادی، مولانا آزاد سبحانی، ڈاکٹر ذاکرحسین خاں، مولاناسیّد ابوالاعلیٰ مودودی بھی شامل تھے۔ ان فرزندگانِ اسلام نے کئی برس کی محنت ِ شاقہ سے اسلامی نظامِ حکومت کا ایک ۲۷نکاتی خاکہ  قیامِ پاکستان سے پہلے ہی تیار کر دیا تھا۔ جسے ایک دردمند مسلمان، عزیز الدین نے ۱۹۵۶ء میں کراچی سے شائع کر دیا تھا۔

اس پوری داستان سے واضح طور پر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نظریۂ پاکستان کا مفہوم اس سرزمین کے مسلم اکثریتی خطے میں اسلامی قوانین کا نفاذ ہے۔ اس سے رُوگردانی اپنے ماضی سے رُوگردانی ہے۔

آخر میں اتنا اور عرض کرنا سودمند نظر آتا ہے کہ پاکستان کے سالِ تاسیس ۱۹۴۷ء سے رواں سال ۲۰۱۷ء کے دوران میں جہاں ہمارے اہلِ وطن، پاکستان کے مختلف النوع فوائد سے بہرہ وَر ہوتے رہے، وہیں ہم ایک بہت مُزمِن (chronic) اور وسیع الاثر نقصان سے دوچار ہیں۔ وہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی جمہوریت کی باگ ڈور فضلا اور خردمندوں کے بجاے عامیو ں کے ہاتھ میں چلی جانے دی۔ تاہم، اس سے بڑھ کر، ہمیں ناقص حکومت، ناقص طریقۂ انتخاب کی وجہ سے ملی۔ اگر اس کی اصلاح نہیں کی گئی تو ہم نااہلی کی تاریکی میں بھٹکتے رہیں گے۔

اس خرابی کو دُور کرنے کا کارگر طریقہ یہ ہے کہ انتخابات کرانے کا پورا انتظام اور اس کی تاریخ مقرر کرنے کا اختیار، اوّل تا آخر، حکومت کے ہاتھ سے نکال کر انتخابی مشینری کے ہاتھ میں دے دیا جائے۔ انتخابی مشینری بے غرض ہونے کی بنا پر صاف ستھرے انتخابات کرانے اور ہمارے آئین میں اسمبلی کی رکنیت کی اہلیت کے لیے دفعہ ۶۲ اور ۶۳ میں تحفظات پر اطمینان بخش طریقے پر عمل درآمد کراسکے گی۔

صحت، اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے جوہرشخص کابنیادی اورقانونی حق ہے۔صحت حاصل کرنے اور اُسے برقرار رکھنے کے لیے سب زیادہ ذمہ داری ریاست پرعائد ہوتی ہے، کیوں کہ وہ اپنے عوام کی صحت وسلامتی اوردیگربنیادی ضروریات کی ضامن ہوتی ہے۔

صحت کیاہے جس کا حصول اتنا اہم قراردیاگیاہے؟اس انسانی حق کی تعریف ’عالمی ادارہ صحت‘ (WHO) کے مطابق اس طرح ہے:

ایک مکمل جسمانی،ذہنی،نفسیاتی اورسماجی (Well Being)تسلی بخش حالت، جومحض بیماری اورمعذروی(Infirmity)سے نجات تک محدود نہ ہو۔( ۱۹۴۸ء)

مختلف طبقوں اورعلاقوں کے انسانوں کے لیے معیارصحت میں کوئی فرق نہیں ہے۔  انسان خواہ جس حیثیت ،نسل،مذہب،رنگ،زبان سے تعلق رکھتاہو،عالمی ادارہ صحت وغیرہ انھی خطوط پر اپنی انتہائی مہنگی خدمات فراہم کرنے کے لیے دُنیا بھر میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

تاہم، ملکی سطح پریہ منظر بدل جاتاہے۔یہاں امیرغریب،دیہاتی شہری،خواندہ اَن پڑھ، مزدور اَجر،افسرماتحت،مافیاغیرمافیا،اشرافیہ عوامیہ،حاکم محکوم،ممبراسمبلی اورووٹر، شہری اور فوجی کے لیے قانون میں فرق ہے اور اطلاق جداجدا ہے ۔یہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ صحت کی تعریف، معیار اوراُس کی سہولیات بھی الگ الگ ہوجاتی ہیں۔پاکستان میں صحت پہلے وفاقی موضوع تھا، اب ۱۸ویںترمیم کے بعد صوبائی ذمہ داری قرار پایاہے، البتہ کئی کلیدی اُمور پر وفاق کاکنٹرول ہے۔

انگریز کے لیے ہندستانی عوام کی صحت کی ضرورت اورحفاظت صرف اپنے کام کے ملازم، سپاہی اورفوجی تک محدود تھی، ورنہ عوام کسی کھاتے میںشمارنہیں ہوتے تھے۔انگریز کے لیے اپنے گورے سول اورفوجی ملازم ہی اہم تھے۔ چنانچہ چھائونیوں میں پہلے اُن کے لیے ہسپتال بنے اورصفائی کانظام بہترکیاگیا۔فوج کی صحت کے بعد انسپکٹرجنرل ڈسپنسریز اور جیل خانہ جات کاعہدہ قائم کیاگیا، جس نے فوجی پیداکرنے والے علاقوں میں ڈسپنسریوں کاآغازکیا،تاکہ صحت مند نسل کے نوجوان تاج برطانیہ کی حفاظت کے لیے بھرتی ہوسکیں۔وبائی امراض سے بچائو کے لیے بڑے شہروں اورقصبوں میں سینی ٹیشن اور چیچک وٹائیفائیڈ سے بچائو کے لیے حفاظتی ٹیکوں کاانتظام کیا گیا۔ دیہات جہاں۸۰ فی صد سے زائد محنت کش آبادی رہتی تھی اُسے آفات اور تعویذ گنڈے، جھاڑپھونک کے رحم وکرم پرچھوڑدیاگیا۔’نظریۂ ضرورت‘ کے تحت نظام صحت وصفائی میں کچھ بہتری اس وقت آئی، جب انگریز کواپنی’نوآبادیاتی مملکت‘ پرجرمنی، اٹلی اورجاپان کے حملے کے خطرات منڈلاتے نظر آئے۔ تب اُس نے شہری دفاع،فائربریگیڈ اور شہری علاقوں میںسول ہسپتال قائم کیے۔

 ۱۹۴۷ء میں موجودہ پاکستان میں جہاں آبادی تقریباً ۳کروڑنفوس تھی، اس کےچاروں صوبوں اور مشرقی پاکستان میں انتظامی اضلاع اورڈویثر نوں کی تعدادبہت تھوڑی تھی۔ہرضلعی صدرمقام پر ایک سول ہسپتال اورضلع کے چند شہروں اور دوسرے حصوں میں محدود پیمانے پر ڈسپنسریاں تھیں۔ ان ڈسپنسریوں میں کئی مقامات پر LSMF ڈاکٹر یا نیم تربیت یافتہ ڈسپنسر تعینات کیے گئے تھے، جہاں زیادہ ترمقامی طورپرتیارکردہ گولیاں ،مکسچراور سفوف (پائوڈر) استعمال ہوتے تھے۔ مسلّمہ دواساز فیکٹری کی تیارشدہ ادویات نہیں ہوتی تھیں۔ملک بھرکے دیہات کسی ایمرجنسی اور میڈیکل امدادی سہولت سے محروم تھے۔ سیلاب اورمتعدی وبائی امراض اُن کا مقدررہے۔ مائوں، بچوں اور ضعیفوں کا کوئی پُرسانِ حال نہ تھا۔ عوام حفاظتی اور تائیدی صحت سے محروم تھے۔ سادہ زندگی میں امراض بھی سادہ تھے۔سیاسی اَدوار میں عام ہسپتالوں اورڈسپنسریوں میںمعتدبہ اضافہ نہ ہوا۔ البتہ پنجاب میں نشترمیڈیکل کالج، ملتان اور فاطمہ جناح میڈیکل کالج، لاہور کے علاوہ چند ضلعی ہسپتال تعمیر ہوئے۔ انتظامی سہولت کے لیے ضلعی صدرمقام پرسول سرجن کی پوسٹ کومیڈیکل سپرنٹنڈنٹ(MS) اور ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر(DHO) میں بانٹ دیا گیا۔ایک شہر کے علاج کے لیے،دوسرا باقی ضلع میں صحت وصفائی اوروہاں قائم شدہ چند ڈسپنسریوں کی نگرانی کے لیے۔

صدر ایوب خان کے عہد میں پانچ سالہ ترقیاتی منصوبوں کاآغاز ہوا۔بیرونی امداد کے ساتھ ’عالمی ادارہ صحت‘ بھی فعال ہوتاچلاگیا۔انھوں نے حصول صحت اورتدارک امراض کی سہولیات اور ’بنیادی مراکز صحت‘(PHC) کے حوالے سےآٹھ نکات پرترقی پذیرملکوں کی توجہ مرکوزکرائی۔بنیادی صحت کے یہ عناصر ملک کی دیہی اورشہری تمام آبادی کے لیے یکساں ضروری قرارپائے: ۱-بنیادی علاج ،۲- بنیادی ادویات کی فراہمی،۳-زچہ بچہ،۴-حفاظتی ٹیکے، ۵-متعدی امراض خصوصاً ملیریاسے بچائو،۶-صاف پانی اورسینی ٹیشن،۷-متوازن غذا، اور ۸-تعلیم و صحت۔

اس تناظر میں ہریونین کونسل میں ایک بنیادی مرکزصحت تعمیرہوا۔ان مراکز کا مقصد یہ تھاکہ خصوصاً دیہی آبادی کو بنیادی صحت کے مذکورہ بالا آٹھ عناصر اُن کے گھرکے نزدیک میسر ہوں۔ ہرچند کہ عملہ وافر تھا، مگر یہ مراکز بہت کم اپناہدف یامقبولیت حاصل کرسکے۔ دیہی مرکز پر ایکسرے، ڈینٹل چیئر، لیبارٹری، آپریشن روم،لیبرروم،کمپائوڈر،ایمبولینس موجود ہیں مگر کرپشن (بدنظمی، بدعنوانی، لاپروائی، قانون سے بے خوفی وغیرہ) کی بنا پران کی موثرکارکردگی مشتبہ ہے۔اتنے بڑے منصوبے کی بے اثری کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ صحت اوردیگر تعمیری کاموں میں پلاننگ، بجٹ، فنڈنگ، تعمیر، کارکردگی، غرض تمام کنٹرول بیوروکریٹ کلاس کے افسروں کارہا۔اُن پالیسی سازوں کی توجہ کا ارتکاز بدستور بڑے شہر،بڑے ہسپتال ،ذاتی مفاد اور حکمرانوں کی خوشنودی رہا۔ اُن مراکز صحت کی تعمیر میں اصل ہدف تو ’بنیادی مراکز صحت‘ کےآٹھ نکات کوکامیاب بناناتھا۔ لیکن یہ مراکز،پہلے سے موجود ڈسپنسریوں اورسول ہسپتال کی طرح بیوروکریسی کی نااہلی اور لاپروائی کاشکار ہوتے رہے۔اس بے خبری میں ڈاکٹروں نے بھی اپنی پیشہ وارانہ کوتاہی سے فائدہ اُٹھایا۔

آج ملک کے۱۳۶ اضلاع میں۵ہزار ’بنیادی مراکز صحت‘،۶۰۰ ’دیہی مراکز‘ اور ۱۰۰۰کے لگ بھگ ضلعی اورتحصیلی ہسپتال ہیں۔ان میں تدریسی،سپیشل اورڈویزنل ہسپتال بھی شامل ہیں۔ ۶۰ فی صد بنیادی اور۲۵فی صد ’دیہی مراکزصحت‘ شروع دن سے ایسی جگہوں پرتعمیرکیے گئے ہیں، جو قبرستان کے ہمسایے اورآبادی سے دُور، ویرانے میں ہیں۔ناقص تعمیرکردہ عمارتیں اکثر کھنڈربن چکی ہیں۔ سامان ناقص اورٹرانسفارمر غائب۔ بعض جگہوں پر مقامی وڈیروں، ارکانِ اسمبلی کے ساتھیوں کاقبضہ ہے۔عملہ علاقے کی گروہی سیاست کاشکار ہے۔ جو مراکز کام کررہے ہیں وہاں کا عملہ اکثرکام چوراورنااہل ہے ۔برابرتربیت کا نظام ناپید ہے۔ دوائیں ناکافی ہیں اورکام کی دوائیں بچتی نہیں۔خریداری میں کمیشن کا بھائو بہت بڑھ گیا ہے۔ عملے کی نگرانی اورکنٹرول کے لیے نوکرشاہی کااستعمال غیرمؤثررہاہے، بلکہ اس سے کارکردگی مصنوعی اورسطحی ہوکررہ گئی ہے۔

o نظامِ صحت، اہداف اور ترجیحات: صحت عامہ سے متعلق مختلف طبی کاموں کے دائرے کچھ اس طرح ہیں:

ا   :علاج معالجہ (Curative) ،  ب: حفاظت وتدارک (Preventive) ، ج:تائیدوترقی صحت (Promotive)،  د: طبی تعلیم وتربیت (Training Education)، س:مطبی تحقیق وترقی (Development & Research)۔

َٓاِن دائروں میں کام کرنے والے ادارے درج ذیل ہیں:

۱- صوبائی اوروفاقی حکومتیں(سرکاری) ۲- فوجی ونیم فوجی، نیم سرکاری اور بلدیاتی ادارے ۳-نجی(پرائیویٹ)سیکٹر۔

  • مریضوں کے علاج کے لیے استعمال ہونے والے طریقے یہ ہیں:lایلوپیتھی: سرکاری، فوجی اورنجیlہومیوپیتھی: سرکاری اور نجی حکمت(طب): سرکاری اورنجیlدیسی وعطائی(مقامی ٹوٹکے و نیم ایلوپیتھی): دیہی اورنجی۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق ۹۰ فی صد سے زائد عوام ایلوپیتھی طریقۂ علاج سے استفادہ کرتے ہیں۔صحت کے اداروں نے معیارصحت جانچنے کے جومعیارات طے کیے ہیں اور ’عالمی ادارہ صحت‘ کے MDG  (Mallinium Development Goal) یہ ہیں:

۱- نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات میں کمی، ۲-حاملہ مائوں کی شرح اموات میں کمی،۳-ایڈز سے شرح اموات میں کمی، ۴- حیات کے متوقع دورانیہ میں اضافہ، ۵- متعدی امراض میں شرح اموات میں کمی،۶- پینے کے صاف پانی کی فراہمی، ۷-بیت الخلا اورنکاسی آب کی سہولت،۸- کم عمر بچوں کے لیے غذائی توازن اورمناسب وزن،۹- ۵ سال تک کے بچوں میں بیماریوں کے خلاف مدافعت اور بچائو، ۱۰-ماحولیاتی صحت اورصفائی۔

لیکن صدی کے بین الاقوامی مطلوبات کے ساتھ پاکستان کے معروضی حالات میں درج ذیل اُمورِ صحت بہت اہمیت کے حامل ہیں، جن کو ہرحال میں ملحوظ رکھنا ہی حصول صحت میں مددگار اورمعاون ثابت ہوسکتاہے۔اُن کو نظرانداز کرکے حصول صحت کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا:

  •  کثرتِ آبادی، جو ۲۰۱۷ء کی مردم شماری میں ۲۱کروڑ سے زیادہ نفوس پر مشتمل ہے۔ اس بڑی تعداد میں غذائی قلت کے شکار پانچ سال سے کم عمر بچے،کمزوراورخون کی کمی کی شکارخواتین اور عوارض میں مبتلابزرگ شامل ہیں۔ یہ طبقہ خودکمانے والے لوگوں میں شمار نہیں ہوتا۔ ۶۰فی صد دیہی آبادی بدستور غذائی کمی،متعدی امراض کانشانہ ہے۔ صحت کی سہولیات میں دیہات پر خصوصی توجہ درکارہے۔
  •      پینے کاصاف پانی اورگندے پانی کانکاس(سینی ٹیشن)۔بڑے شہروں کی بڑھتی ہوئی نوآبادیاں،چھوٹے شہر اوردیہات آج بھی صدیوں پرانامنظر پیش کرتے ہیں۔
  •   بنیادی ’مراکز صحت‘ کی تعمیر و فعالیت کے حصول کے لیے مؤثرنظام اوراس کاثانوی نظم صحت کے ساتھ مربوط تعلق ۔
  •  حاملہ مائوں اورنوزائیدہ بچوں کی صحت وسلامتی کے لیے محفوظ وضع حمل اورنرسری بالخصوص دیہی آبادی کے لیے۔
  •  متعدی امراض سے بچائو کے حفاظتی ٹیکوں کا وسیع نظام۔
  •  اسکول ہیلتھ سروس: بوقت داخلہ اور دوران تعلیم بچوں کی صحت کی نگہداشت۔ سرکاری، پرائیویٹ اور دینی مدارس تینوں میں داخل بچوں کی صحت کی حفاظت۔
  •  دیہات میںرائج عطائیت کے لیے متبادل نظام، تاکہ لوگوں کوسستا،فوری علاج ملتا رہے۔
  • جنیرک(Generic) بنیاد پرسستی اورمعیاری دوائوں کی فراہمی۔{ FR 585 } m
  • الیکٹرانک میڈیا اور جدید موبائل سروس کے ذریعے انفرادی و شخصی تعلیم صحت۔
  •   میڈیکل اورسرجیکل اور شاہراہوں پر حادثات کی صورت میں مستعدایمبولینس سروس جو دیہات کےClusters (جمگھٹ )کومرکزصحت کے ساتھ مربوط کرے۔{ FR 587 }

پنج سالہ منصوبوں اوردیگرسالانہ ترقیاتی پروگراموں کے ذریعے علاج معالجے کی سہولتیں خصوصاً میگا ہسپتالوں(Tertiary Care) کی تعمیراورقیمتی برآمدی مشینوں کی خریداری پر کثیررقوم صرف ہوئی ہیں۔یونیسیف اور WHO کی مدد سے تائیدی اورحفاظتی پروگراموں میں توسیع ہوئی ہے، جیسے نیشنل لیڈی ہیلتھ پروگرام مگربعد میںاس پر مزید فرائض لاد دیے گئے۔ یوں اس پروگرام کا اصل مقصد فوت ہوکررہ گیا۔اس پروگرام کے تنقیدی جائزے اور تبدیلی کی ضرورت ہے۔ یرقان اور ایڈز کاتدارک وعلاج، بنیادی صحت کے مراکزمیں ۱۰۰ فی صد کے لگ بھگ عملے کااضافہ ہواہے، جو وقت کی سیاسی حکومت کے مقامی ارکانِ اسمبلی کے مرہونِ احسان ہیں۔ خدمات اورکام کے لحاظ سے مراکزصحت کی مجموعی کارکردگی متاثرکن نہیں ہوسکی۔ بلاشبہہ آبادی کئی گنا بڑھ گئی ہے اورمسائل اس سے بھی زیادہ، لیکن آبادی کی ضرورت کے مطابق اضافے کے بجاے سہولیات صحت میں کمی آئی ہے: کمیت، یعنی تعداد ومقدار اورکیفیت، یعنی معیار اوراثرمیں۔

شعبہ صحت عامہ میں بہ نظرظاہرشان دارعمارتوں، قیمتی مشینوں اورعملے کی تنخواہوں میں وافر اضافے کے باوجود کیا وجہ ہے کہ عام آدمی اپنی صحت وسلامتی کے بارے میں مطمئن نہیں ہے؟ ملکی اہداف صحت اورعالمی اہداف صحت دونوں پورے نہیںہورہے ۔پولیو کے خاتمے کے لیے ان گنت مرتبہ قطرے پلائے جاچکے ہیں، لیکن پولیو ہے کہ ختم ہونے کانام نہیں لیتا۔ایک ایک بستر پر ۳،۳مریض،ایمرجنسی سروسز ناکافی ،حادثات میںبڑھتی ہوئی اموات، جگہ جگہ فارماانڈسٹری لگانے اور قیمتیں بڑھانے کے باوجود دوائوں کا بحران، ڈاکٹروں،معاون عملے اور ہسپتالوں کے خلاف بڑھتی ہوئی شکایات ،بڑے ہسپتالوں میں مہنگی مگر خراب مشینری کے گورستان، غرض جوں جوں سسٹم کے اندراُترتے جائیں تومعلوم ہوتاہے کہ سرکارصرف دکھاوے کا کام کرر ہی ہے مگر صحت کے نظام کی اصلاح کی قائل نہیں ہے۔سسٹم پوری طرح ناکارہ بلکہ کمپیوٹراصطلاح میں کرپٹ ہوچکاہے اور اس میں اصلاح کرنے پرکوئی مائل نہیںنظرآتا۔

oدرپیش مسائل اور حل: موجودہ نظامِ صحت کی چیدہ چیدہ خرابیوں کی چند بڑی بڑی وجوہ اوراصلاح احوال کے لیے متعدد تدابیرکاتذکرہ درج ذیل ہے:

  •  عملے کی بھرتی سے اس کے تبادلے تک، اس کی کارکردگی سے کام چوری تک، عمارتی تعمیر سے سامان اوردوائوں کی خریداری تک ___کرپشن اور بدانتظامی، جس میں قانون شکنی، بدعنوانی، بدنیتی ،رعونت، سفارش،رشوت،مفاد پرستی،مافیا نوازی، جھوٹ، شوبازی، جعلی اعداد و شمار،سائل اور مریض سے حقارت،فرائض سے پہلو تہی،سیاسی مفادات کی نگہداشت، غرض اخلاقی اورانتظامی مفاسد کی بھرمار ہے ۔
  • سیاسی مصلحتوں اور شعبدے بازیوں کے تحت نئے قائم شدہ میڈیکل کالجوں اورملحقہ تدریسی ہسپتالوں میں معیار اورسٹاف کی کمی،یوں زیرتعلیم ڈاکٹروں کی ناقص تربیت۔
  •     نجی شعبے کے میڈیکل کالجوں میں بڑے بڑے نمایشی ناموں کے باوجود معیار اورتربیت کا شدید فقدان اور صحت عامہ کولاحق خطرات۔
  •  بنیادی صحت،جنرل پریکٹس اورنجی شعبے کے لیے میڈیکل آفیسروںکی کمی۔
  •   صحت سے متعلق تمام پلاننگ ،بجٹ اور عمل درآمد کے سارے کام وفاق میں بھی اور صوبوں میں بھی نوکرشاہی کرتی ہے۔ان کاموں میں ڈاکٹروں کا کہیںکوئی کردار نہیں ہوتا۔اسی لیے ڈاکٹراپنے محکمے کے انتظام و انصرام میں دل چسپی نہیں لیتے اور حاکموں کی طرح وہ بھی اپنے محکمے میں مہمان بنے رہتے ہیں۔
  •    سول سیکرٹریٹ میںمحکمہ صحت چلانے کے لیے سیکریٹریٹ کا۹۵ فی صد عملہ اور وزراے اعلیٰ سیکرٹریٹ میں صحت سے متعلق ۱۰۰فی صد عملہ نان ڈاکٹروںپرمشتمل ہے۔ سیکرٹری و اسپیشل سیکرٹری صحت، گریڈ ۱۹، ۲۰ کے اورتین ایڈیشنل سیکرٹری صحت گریڈ۱۸کے سول سرونٹ ہوتے ہیں۔۱۴  /۱۲ ڈپٹی سیکرٹریوںمیں ڈاکٹر صرف دو ہوتے ہیں۔یہ نان ڈاکٹرعملہ دوڈھائی سال تک سیرسپاٹوں اورسہولتوں سے استفادے کے بعد واپس محکمہ جنگلات یا ماہی پروری (فشریز) یا جنگلی حیات (وائلڈلائف) یا آب پاشی میں تعینات ہوجاتا ہے۔ میڈیکل کے معاملات بالخصوص: حفاظت و تدارک، علاج معالجے، میڈیکل کی تعلیم، حساس میڈیکل مشینری کی تربیت وغیرہ کے بارے میں کچھ نہیںجانتے، مگر وہ امرت دھارا بن کرچند مہینے کے لیے طبّی اُمور کے پردھان بن جاتے ہیں۔ اس حکمران کلاس کے   غلط فیصلوں سے صحت عامہ بہترنہیں ہورہی۔ صحت کا نظام چلانے کے لیے وہی کارندے درکار ہیں، جن کاتعلق سسٹم سے ہواور وہ اس کام، محکمے اور میدانِ کار سے دل چسپی رکھتے ہوں۔
  •      صحت کا بجٹ آبادی اور بیماریوں کی یلغار کے لحاظ سے کم ہے اوراس میں مریضوں کے لیے استعمال ہونے والاحصہ کم ترہوتاہے۔قومی جی ڈی پی تعلیم کی طرح مندی کا شکار ہے۔ جب وفاقی بجٹ میں اضافہ ہو گا توباقی سطحوں پر بھی بہتری آئے گی۔
  •   بڑے بڑے ہسپتالوں کاانتظام عملاً ناممکن ہے۔چھوٹے یونٹ، یعنی بستروں کی تعداد کم ہوتو وہ پھر بھی قابلِ انتظام ہوسکتے ہیں۔
  •  بیوروکریٹ اپنی سروس کے دوران غیر ملکی تربیت کے لیے سات، آٹھ مرتبہ باہر جاتا ہے۔ مریضوں اورہسپتالوں کے لیے کبھی کوئی ڈاکٹرتربیت یا فنی مشاہدے کے لیے بیرون ملک سرکاری خرچ پرباہرنہیں گیا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ صحت کے تکنیکی کورسز اور دورے بھی یہی اعلیٰ اختیاراتی حکمران کلاس خودہی کرلیتی ہے۔
  •   صوبے میں ایک ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز ہے۔واقعہ یہ ہے کہ اس سے زیادہ بے وقعت، بے اختیار اوربے اثر ادارہ شایدہی کوئی ہو،عملاً مفلوج ! سارے اختیار سول سیکریٹریٹ کے سیکرٹری، ڈپٹی سیکرٹری اور سیکشن افسراستعمال کرتے ہیں۔ فی الواقع گریڈ۱۸ تک تقرر اور تبادلے کے ساتھ ساتھ نگرانی اورکارکردگی کی مانیٹرنگ کاکام اس ادارے کو کرنا چاہیے۔ صحت عامہ کے فیصلوں میں اُسے مؤثر رول ملناچاہیے، مگر سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
  • ’شریف شاہی‘ کے انتظامی جرائم میں ایک بڑااورسنگین جرم کارسرکار میں خودبھی اوراپنے  ارکانِ اسمبلی کے ذریعے مسلسل اورشدیدمداخلت ہے۔ لاہورشہر میں تمام تقرریاں اور تبادلے وزیراعلیٰ کے صاحبزادے کے ذریعے ممکن ہیں،کارکردگی اوراہلیت کاکوئی دخل نہیں۔ یہی حال مضافات کا ہے۔سفارشی کہاں صحیح کام کرتے ہیں؟
  • عملی طورپر صحت کے پبلک اورپرائیویٹ اداروں کی کارکردگی اورمعیار کارکے لیے تشخیصی نگرانی کا نظام ناپید ہے۔
  •  ہیلتھ کیئرکمیشن کے لیے نئے اہداف اور مقاصد کے ساتھ اس کے کام کے بے لاگ جائزے کی ضرورت ہے۔ بہتری کیسے آئے گی؟پرائیویٹ پریکٹس ایک بے لگام گھوڑابن چکا ہے، جوغریب، مجبور اور لاچار مریضوں کو روندرہاہے۔
  • انتظامی اور دیگر اُمور میں اختیارات کا ارتکاز (سنٹرلائزیشن) تبادلوں، منصوبوں اور پروگراموں کی حالت یہ ہے کہ ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز بے اختیارہے۔ مثلاً وزیراعلیٰ پنجاب کے ۳۲ محکموں سے روزانہ سیکڑوں سمریاں جاتی ہیں، وزیراعلیٰ ان کو سرسری طورپر دیکھ بھی نہیں سکتا۔سارے فیصلے نوعمر ڈپٹی سیکرٹری اور گھاک قسم کے بیوروکریٹ کرتے ہیں۔ یہی کام نیچے کے تکنیکی لوگ، یعنی محکمہ صحت میں ڈاکٹر خود کیوں نہیں کرسکتے؟
  •  واقعہ یہ ہے کہ صوبے کے تمام محکموں اورخاص طور پر محکمہ صحت کوچلانے کے لیے حکومت پنجاب کے موجودہ ایکٹ ۱۹۷۳ء (Rules of Business)کے ضابطۂ کار میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ اس فرسودہ ایکٹ کی وجہ سے شعبہ صحت بھی جکڑ بندی کاشکارہے۔
  •  صحت کی ہر اسکیم جوگورے کسی ایجنسی کے ذریعے بھیج دیں، محکمہ صحت میں براجمان نوکرشاہی آنکھیں بند کرکے صادرکردیتی ہے۔حالاں کہ ایسی صحت اسکیموں کا ملکی ماہرین اپنے وطن کے احوال کی روشنی میں جائزہ لیں اوراپنی ضرورتوں کے موافق ترامیم کے بعد  قبول کریں۔
  •         ملک میںبڑھتے ہوئے امراض(Burden of Diseases) کے مطابق ماہرین ڈاکٹر تیارکیے اورلگائے جائیں، جیسے امراض دل، گردہ، کینسر، ذیابیطس، نفسیات، جلد، چشم، بچگان،مستورات، معدہ وجگر وغیرہ کے لیے۔دیہی ضرورتوں کے لیے بجاے فیلوشپ کے کم خرچ ڈپلومہ کورسزجاری کیے جائیں۔
  •  محکمہ صحت میں بڑھتی ہوئی کرپشن اورنااہلی اورنجی شعبے کی بے لگامی اورڈاکٹروں کی   حرص وبددیانتی کے پیش نظر’ صحت محتسب‘ (Ombudsman) ضروری ہے۔ جس پرکوئی دیانت دار(امین اور صادق) پروفیشنل ڈاکٹر یااُستادکام کرے۔
  • بڑے شہروں کے میگاہسپتالوں پرآئوٹ ڈور کا رش کم کرنے کے لیے شہروںمیںفلٹرکلینک یاڈسپنسریاں بنائی جائیں۔
  •   بہترکارکردگی کے لیے دیہی صحت کے مراکز کو چلانے کااختیارمقامی لوگوں کے حوالے کیا جائے اورہیلتھ انشورنس کادائرہ وسیع کیاجائے۔
  •   حاملہ مائوں کولیڈی ڈاکٹروں کی لالچ سے بچانے کے لیے سی سیکشن (بڑے آپریشن) پر تحدیداورفطری وضع کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
  •  محکمہ بہبود آبادی اصل میں صحت کاحصہ ہے۔بیوروکریسی نے اپنے مفادکی خاطر اسے الگ کرکے عملاً غیرفعال اور غیرموثر کردیاہے۔
  •  ضرورت ہے کہ موجودہ حالت ِ صحت کی روشنی میں صحت کے لیے اہداف اور صحت کا قومی بیانیہ تیار کیاجائے۔
  •  میڈیکل ایجوکیشن کے موجودہ نصاب کوملکی ضروریات اورقومی اُمنگوں کے مطابق ڈھالا جائے۔نصاب کویورپ کی یونی ورسٹی یاامریکی کالجوں اور ہسپتالوں میںداخلے کے لیے نرسری نہ بنایاجائے۔حرص ،بدیانیتی،کام چوری اور دوسرے اخلاقی عوارض کے لیے نصاب میں اسلامی اوراخلاقی پہلوئوں پر عملی توجہ از حد ضروری ہے۔
  •         شعبہ طب نامکمل ہے اگر اس کامعاون عملہ، یعنی نرسیں،پیرامیڈیک اورٹیکنیشن صحیح طورپر تربیت یافتہ اور اخلاق یافتہ نہ ہوں۔

غرض شعبہ صحت میں پچھلے ۷۰ سالوں میںاگر ایک قدم آگے بڑھا ہے تو تین قدم ہم پیچھے ہٹے ہیں۔عملے ،عمارتوں اورمشینوں کے باوجود اخلاص،اخلاق ،خداترسی اورتکنیکی مہارت غائب ہوگئی ہے ۔ طب ایک کمرشل کاروبار کی شکل اختیارکرچکاہے ۔معالجوں کامشینوں پر اعتباربڑھ گیا ہے۔ ہرمریض سونے کاانڈا دینے والی مرغی بن کررہ گیا ہے، کیوں کہ جوکچھ اُوپرہورہاہے اُسی کا عکس نیچے پڑتاہے۔ڈاکٹروں میں انسان نوازی اورمریض دوستی بلکہ قوم پرستی جنسِ نایاب ہوکر رہ گئی ہے۔ صحیح تشخیص،مناسب علاج،سستی دوائیں ،ہمدردانہ رویہ اورمناسب خرچ (Affordable) وقت کی ضرورت ہے۔

o تحقیق ناگزیر تقاضا: ترقی کے عمل میں تحقیق و ترقی (R & D) ایک ناگریز ضرورت ہے۔پاکستان میں عام جامعات ہوں یامیڈیکل کے ادارے ،تحقیق نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ کاغذوں میں لکھا ہے کہ اسسٹنٹ ایسوسی ایٹ اور فل پروفیسر بننے کے لیے ایک مقررہ تعداد میں جینوئن اوراوریجنل ریسرچ پیپردرکارہیں۔یہ بات حیران کن نہیں ہونی چاہیے کہ دیگر اداروں اورجامعات کی طرح محکمہ صحت کے ٹیچنگ کیڈر میں حاضراساتذہ کے ریسرچ پیپر ساختہ، جعلی اورکسی دوسرے طالب علم کی عارضی محنت کاحاصل ہوتے ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ کوئی میڈیکل کالج، میڈیکل یونی ورسٹی یاکالج آف فزیشنزوسرجنز طب میں،پبلک ہیلتھ میں،فارمامیں کوئی ریسرچ نہیں کروا رہا۔ یہ سب فرضی کام کرتے ہیں،کیوں کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کی طرح پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل(PMDC) کو ان ’چھوٹے‘ کاموں میں کوئی دل چسپی نہیں ہے۔جب اُستاد ہی  جعلی ریسرچ پر تعینات ہوگاتو ایم ایس، M.Phil  اور FCPS کی ریسرچ میںشاگردوں کی کیا رہنمائی کرے گا؟

تحقیق کے لیے بجٹ ، ریسرچ اسکالرز،لائبریری اوردیگرسہولیات کافقدان ہے۔وجہ یہ ہے کہ پلاننگ اور ڈویلپمنٹ کاشعبہ بیوروکریسی کے پاس ہے جو تحقیق و ترقی (R&D)کو کارفضول سمجھتے ہیں۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ ہمارے طبی محقق ملک کی بیماریوں اورقوم کے مسائل صحت کے حوالے سے تحقیق کریں جوہمارے لیے مفیداورنظام صحت کو بہتربنانے میں مدد دے اور     جن سے ملک وقوم کوواضح فائدہ ملے۔

قیامِ پاکستان کے ۷۰برس گزرنے کے بعد بھی مملکت ِ خداداد میں دینی نظامِ تعلیم ایک سوالی بن کر حاکموں، قانون سازوں اور خود عوام کے سامنے کھڑا ہے۔ ذرا پس منظر ملاحظہ فرمایئے:

دینی مدارس کے موجودہ آزادانہ نظام کا آغاز ۱۸۵۷ء کے بعد اس وقت عمل میں لایا گیا تھا جب ’ایسٹ انڈیا‘ کمپنی کی جگہ تاجِ برطانیہ نے متحدہ ہند کا اقتدار سنبھال لیا اور عدالتی و دفتری نظام کی یکسر تبدیلی کے ساتھ ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے اس تعلیمی نظام کی بساط لپیٹ دی، جو ’درسِ نظامی‘ کے عنوان سے اورنگ زیب عالم گیرؒ کے دور سے چلا آرہا تھا۔

’درسِ نظامی‘ کے اس نظام کے تحت قرآن و حدیث، فقہ اور عربی و فارسی زبانوں کے ساتھ دیگر عصری علوم بھی پڑھائے جاتے تھے۔ تاہم، جب نظام میں عربی و فارسی کی جگہ انگریزی اور فقہ و قانون کی جگہ برطانوی قانون نے حاصل کرلی، تو دینی و معاشرتی ضروریات کے تحت قرآن و حدیث، فقہ و شریعت اور عربی و فارسی کی تعلیم و تدریس کا تسلسل قائم رکھنے کے لیے ایک مستقل نظامِ تعلیم کی ضرورت محسوس ہوئی، جس کا برطانوی حکومت کے پروگرام میں ہرگز کوئی امکان نہیں تھا۔ اس طرح کچھ خدا ترس اور باہمت لوگوں نے امداد باہمی کے تحت نجی سطح پر دینی مکاتب و مدارس کا سلسلہ شروع کیا، جو بے سروسامانی اور حوصلہ شکن حالات کے باوجود مسلم معاشرے کی دینی و معاشرتی ضرورت پوری کرنے کے لیے سرگرمِ کار ہوا۔

تقریباً ۹۰برس تک ان مدارس نے مسلم معاشرے میں دینی رہنمائی اور علمی ضروریات کی فراہمی کے علاوہ مسجد و مکتب کا ادارہ قائم رکھنے کے لیے رجال کار مثلاً: امام، خطیب، مدرس، قاری، حافظ اور مفتی مہیا کیے۔ اس عظیم الشان خدمت سے معاشرے میں مسجدومکتب کا نظام قائم رہا اور اس حوالے سے مسلمانوں کی ضروریات کی فراہمی کا سلسلہ تعطل کا شکار نہیں ہوا۔

برطانوی مقبوضہ ہندستان میں دینی مدارس کا یہ دور ’تحفظاتی دور‘ کہلاتا ہے، جس میں انھیں خود کو ریاستی مداخلت سے بچانا تھا اور اپنے دائرۂ کار کو اس حدتک محدود رکھنا تھا کہ ان کی محنت کے نتائج صرف اس مقصد کے لیے کارآمد ہوں۔ چنانچہ پوری بصیرت اور حکمت عملی کے ساتھ دینی مدارس کا یہ نظام خود کو سادگی، قناعت اور ایثار کے دائروں میں محدود رکھتے ہوئے کام کرتا رہا۔

۷۰برس پیش تر ۱۹۴۷ء میں قیامِ پاکستان کے بعد اس میں دو تبدیلیاں ضروری تھیں:

ایک یہ کہ اسلام کے نام پر اور اسلامی احکام و تعلیمات کی معاشرتی عمل داری کے عزم کے ساتھ وجود میں آنے والی نئی ریاست کا نظامِ تعلیم، ۱۸۵۷ء کے بعد کے ماحول میں محصور رہنے کے بجاے اس سے قبل کے دور میں واپس چلا جاتا۔ اس طرح ریاستی، انتظامی اور عدالتی ضروریات کے ساتھ دینی و معاشرتی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک مشترکہ ریاستی و قومی تعلیمی نظام تشکیل دیا جاتا۔

 دوسری تبدیلی یہ ضروری تھی کہ دینی مدارس کا یہ آزادانہ نظامِ تعلیم اپنے اہداف میں وسعت پیدا کر کے دینی و معاشرتی ضروریات کے ساتھ ساتھ قومی و ریاستی ضروریات کو بھی مقاصد میں شامل کرلیتا، مگر نہ تو ریاستی اداروں نے حالات کی تبدیلی کو قبول کر کے ایک نئے قومی نظامِ تعلیم کی طرف پیش قدمی کی اور نہ دینی مدارس نے اس تبدیلی کے تقاضوں کو محسوس کیا۔

ریاستی اداروں اور ان کی پشت پر کارفرما مقتدر قوتوں نے یہ طے کرلیا تھا کہ ’آزادی اور پاکستان‘ کے عنوان سے رُونما ہونے والی اس تبدیلی کو خلا میں ہی رکھنا ہے، اور اسے ملک کی فضا اور زمین پر اُترنے کا کوئی موقع فراہم نہیں کرنا ہے۔ اس لیے سامراجی دور کی نوآبادیاتی تعلیمی و ریاستی پالیسیوں کا تسلسل بدستور جاری رہا، اور جس میں آج تک کوئی وقفہ نہیں آیا۔ دوسری جانب خود دینی مدارس نے یہ سوچ کر انھی رستوں پر چلتے رہنے میں عافیت محسوس کی کہ جب دوسری طرف کوئی تبدیلی نہیں آرہی تو ہم خود کو اپنے پرانے ’ٹریک‘ سے ہٹا کر نئے خطرات کیوں مول لیں؟

اس کے ساتھ ہی ملکی مقتدر قوتوں اور اس کے پس پردہ عالمی مقتدر قوتوں کی یہ خواہش بھی دھیرے دھیرے بے نقاب ہوتی چلی گئی کہ ان دینی مدارس کو ان کے روایتی تعلیمی اور معاشرتی کردار سے محروم کر دیا جائے، اور ملک کے پورے کے پورے دینی تعلیمی نظام و نصاب کو ۱۸۵۷ء کے بعد کےنو آبادیاتی دور میں شروع کیے جانے والے ریاستی تعلیمی نظام کے حصار میں بند کردیا جائے۔ چنانچہ دینی مدارس کے نصاب و نظام میں تبدیلی کی آوازیں تو وقتاً فوقتاً اُٹھتی رہیں اور اس کے لیے منصوبے بھی سامنے آتے رہے ہیں، مگر ریاستی تعلیمی نظام میں دینی اور معاشرتی ضروریات کو سمونے کی کوئی تحریک نہیں اُٹھی۔

اس مرحلے میں اس سوال کا جائزہ لینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ دینی مدرسے اور اسکول و کالج کے تعلیمی نصاب و نظام میں یہ تفریق آخر پیدا کس نے کی ہے؟ اور کون اسے باقی رکھنے پر اصرار کر رہا ہے؟ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ: ’’مولوی صاحبان کی اس ضد نے یہ تفریق پیدا کی تھی اور وہی اس کو جاری رکھے ہوئے ہیں‘‘۔ حالاں کہ یہ بات مغالطہ آفرینی کے سوا کچھ نہیں ہے۔

ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ یہ تفریق، ریاستی نظامِ تعلیم میں عربی، فارسی، فقہ اور قرآن و حدیث کے مضامین کو نکال دینے کے باعث ہوئی تھی۔ دینی مدارس ریاستی نظام سے نکالے گئے مضامین کی تعلیم و تدریس کا تسلسل باقی رکھنے کے لیے میدانِ عمل میں آئے تھے، اس لیے اس تفریق کی ذمہ داری ان پر بہرحال عائد نہیں ہوتی۔ آج دینی مدارس اپنے نصاب میں مڈل اور میٹرک تک کے عصری نصاب کو شامل کرچکے ہیں اور اس سے آگے بھی معقول شرائط کے ساتھ گریجویشن تک مطابقت (adjustment) پیدا کرنے کے لیے تیار ہیں، مگر ریاستی تعلیمی نظام ابھی تک قرآن کریم کی ناظرہ تعلیم تک کی بھی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، بلکہ اپنے نصاب کے وہ حصے بتدریج خارج کرتا جارہا ہے، جن میں کسی نہ کسی حد تک دینی تعلیم کا کچھ نہ کچھ لوازمہ موجود ہے۔ اس حقیقت سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ دینی و عصری تعلیم یا دوسرے لفظوں میں ’مسٹر اور مُلّا‘ کی یہ معاشرتی تفریق کس کی پیدا کردہ ہے؟ اور کون اسے مسلسل جاری رکھنے پر بضد ہے؟

بہرحال، قیامِ پاکستان کے بعد ریاستی نظامِ تعلیم اور دینی مدارس کے نظاموں سے جو توقعات وابستہ ہوئی تھیں اور ابھی تک معاشرہ اس طلب پر قائم ہے، انھیں مختصراً یوں بیان کیا جاسکتا ہے:

  •  ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے عدلیہ و انتظامیہ کے مختلف شعبوں میں ضرورت کے مطابق ایسے رجالِ کار کی فراہمی جو دینی، عصری اور فنّی تعلیم سےبہرہ ور ہوں۔
  • عالمی سطح پر جاری تہذیبی و فکری کش مکش کے ادراک سے سرشار اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے تحفظ و فروغ کے تقاضوں سے باخبر اصحابِ فکر و دانش کی تیاری اور تربیت۔
  •  اسلامی عقائد و احکام کے خلاف جاری عالمی اور ملکی میڈیا مہم اور بین الاقوامی لابنگ کے مقابلے کے لیے رجالِ کار کی تیاری اور فکری و علمی حلقوں کو منظم کرنا۔
  •  عالم اسلام کے داخلی اور فکری انتشار پر قابو پانے اور باہمی تنازعات کو حل کرنے کے لیے اداروں اور علمی حلقوں و مجلسوں کا قیام اور ان کی رہنمائی۔
  •   ملک میں نفاذِ اسلام کی راہ میں حائل رکاوٹوں کی نشان دہی اور ان کے سدّباب کے لیے علمی و فکری سطح پر محنت و کاوش۔
  •  تجدد و الحاد کے فکری و علمی حلقوں کا دلیل و بُرہانِ قاطع سے سامنا وغیرہ۔

یہ ہمارے دینی فرائض، قومی تقاضے اور ملّی ضروریات کا درجہ رکھتے ہیں، جو اصلاً تو ریاستی نظامِ تعلیم کی ذمہ داری ہے، لیکن چوں کہ ہماری موجودہ مقتدرہ دورِ غلامی کا ورثہ ہے، اس لیے اس سے بظاہر کوئی توقع وابستہ نہیں کی جاسکتی اور سب کی سب اُمیدیں سمٹ کر دینی مدارس پر آکر مرکوز ہوجاتی ہیں۔ اس لیے دینی مدارس کے اکابر علماے کرام اور وفاقوں کے ذمہ داران کو ان اُمور کا جائزہ لینا چاہیے۔

یہ بات درست ہے کہ قومی اور عالمی سطح پر دینی مدارس کے آزادانہ معاشرتی کردار کو جن خطرات کا پہلے سامنا تھا، اب بھی دہ بدستور قائم ہیں۔ دینی نظام کے اس خودمختار نظام کو ’اجتماعی دھارے‘ (main stream) کے نام سے تحلیل کر دینے کی کوششیں مسلسل ہورہی ہیں۔ ان کے وسائل و ذرائع کے محدود کرنے کے منصوبے آگے بڑھ رہے ہیں اور ان کی کردارکشی میں روز بروز شدّت آرہی ہے۔ لیکن ان میں سے کوئی بات بھی ان کے لیے نئی نہیں ہے۔ ان سے نمٹنے کا حوصلہ بھی ان میں الحمدللہ آج تک موجود ہے۔ اس لیے دینی مدارس کے تمام وفاقوں سے ہماری یہ گزارش ہے کہ  وسیع تر عالمی، علاقائی اور قومی تناظر میں دینی و عصری تعلیم کے حوالے سے معاشرتی، قومی اور بین الاقوامی ضروریات کا ازسرِنو جائزہ لے کر علمی و فکری رہنمائی میں اپنا کردار ادا کریں۔

دینی مدارس کے اخراجات کا سرچشمہ ؟

دینی مدارس پر مغربی دنیا کی یلغار کئی عنوانات سے جاری رہتی ہے، جس میں ایک بڑا حربہ ان کی مالی اعانت کے سلسلے کو کاٹ دینا بھی ہے۔ ایک قومی روزنامے میں ۳ جولائی۲۰۱۵ء کو  سپریم کورٹ کے حوالے سے شائع ہونے والی خبر کا ایک حصہ ملاحظہ فرمائیے: ’’اٹارنی جنرل نے صوبائی قانون سازی ایکٹ کے سیکشن ۱۲ کو پڑھا، جس میں پاکستان بھر میں مدارس کے خلاف کاروائی کی بات کی گئی ہے، تو جسٹس جواد ایس خواجہ صاحب نے سوال کیا کہ: ’’صرف مدارس کے بارے میں آپ کیوں بات کر رہے ہیں، دوسروں کے بارے میں بھی دیکھنا ہوگا‘‘۔

ان دنوں سپریم کورٹ این جی اوز کے حوالے سے جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ ایک مقدمے کی سماعت کر رہا تھا۔

ہمارے مقتدر حلقوں کی جانب سے دینی مدارس کو بھی روایتی این جی اوز کا ہی ایک نیٹ ورک سمجھا جاتا ہے، جہاں ہزاروں دینی مدارس ملک بھر میں لاکھوں طلبہ اور طالبات کو مفت تعلیم فراہم کر رہے ہیں۔اس تعلیم میں قرآن و حدیث اور دیگر دینی علوم کے ساتھ ساتھ میٹرک تک عصری تعلیم اور کئی مقامات پر کمپیوٹر ٹریننگ بھی شامل ہے۔ اصحاب ثروت اپنی زکوٰۃ و صدقات اور عطیات وغیرہ کے ساتھ تعاون کرتے ہیں، جو مستحق طلبہ اور طالبات پر خرچ کی جاتی ہے۔ اس طرح یہ مدارس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی تُؤْخَذُ مِنْ أغْنِیَائِھِمْ فَتُرَدُّ عَلٰی فُقَرَائِھِمْ [ابوداؤد، کتاب الزکوٰۃ، حدیث: ۱۳۶۴، زکوٰۃ معاشرے کے مال دار حضرات سے لی جاتی ہے اور فقرا کو لوٹا دی جاتی ہے] کا عملی نمونہ پیش کر رہے ہیں۔ اکثر مدارس اپنے حسابات کا باقاعدہ آڈٹ کراتے ہیں اور اپنی سالانہ کارگزاری میں آڈٹ رپورٹ کو شامل کرتے ہیں۔ اور ویسے بھی اصحاب خیر کی بڑی تعداد علماے کرام اور دینی مدارس کے منتظمین پر اس قدر اعتماد رکھتی ہے کہ لوگ بھاری رقوم ان کے حوالے کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں۔

اس پر ایک واقعہ ذہن میں آگیا ہے جسے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ بہت عرصہ قبل یوسف کمال صاحب، ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ کے ساتھ مختلف مکاتب فکر کے علما کی میٹنگ ہوئی۔  ڈپٹی کمشنر صاحب نے خطاب کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ: ’’مجھے علماے کرام کی معاشرتی حالت پر بہت ترس آتا ہے اور یہ سوچتا رہتا ہوں کہ ان کا معاشرتی مقام کیسے بلند کیا جائے، ان کی تو روزی ہی لوگوں کی جیبوں سے وابستہ ہے‘‘۔

بریلوی مکتب فکر کے بزرگ عالم دین صاحبزادہ سید فیض الحسن شاہ صاحب بھی اس مجلس میں تشریف فرما تھے اور مَیں ان کے ساتھ ہی بیٹھا تھا۔ انھوں نے ڈپٹی کمشنر صاحب کا یہ جملہ سن کر آہستگی سے فرمایا: ’’بہت زیادتی ہے‘‘۔ میں نے جوابی سرگوشی میں عرض کیا کہ: ’’حضرت دعا فرمائیں، ان شاء اللہ تعالیٰ حساب برابر ہوجائے گا‘‘۔ تھوڑی دیر میں میری گفتگو کی باری آئی تو ڈپٹی کمشنر صاحب سے مخاطب ہو کر عرض کیا کہ: ’’آپ کی ہمدردی کا شکریہ! مگر محترم، ہماری طرح آپ کی روزی بھی لوگوں کی جیب سے ہی وابستہ ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آپ کی روزی انکم ٹیکس آفیسر اور تحصیل دار، سسٹم کی طاقت سے لوگوں کی جیب سے نکالتے ہیں،جب کہ ہماری روزی لوگ خود آکر پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضرت قبول فرمائیے اور ہمارے لیے دعا کر دیجیے‘‘۔

میٹنگ سے فارغ ہو کر ہال سے باہر نکلے تو صاحبزادہ محترمؒ نے مجھے سینے سے لگا کر بہت دُعائیں دیں۔ صاحبزادہ سید فیض الحسن شاہؒ ضلع سیالکوٹ میں آلو مہار کی نقشبندی خانقاہ کے مسند نشین تھے۔ مجلس احرار کے مرکزی عہدے دار اور امیر شریعت حضرت سیّدعطا اللہ شاہ بخاریؒ کے رفیق کار رہے۔ بعد میں بریلوی مکتب فکر کی ملک گیر جماعت ’جمعیۃ العلما پاکستان‘ کے مرکزی صدر بنے۔

دینی مدارس کے نظام پر اصحاب خیر کا یہ اعتماد ہی دراصل ان کی بقا و تسلسل کا باعث ہے اور جب تک مدارس کے منتظمین سادگی، قناعت، خلوص اور جہد مسلسل کے حوالے سے اپنا یہ اعتماد قائم رکھ سکے ان کے اس نظام کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔

چند سال قبل یورپی یونین کا ایک وفد دینی مدارس کے حوالے سے مطالعاتی دورے پر پاکستان پہنچا تو گوجرانوالہ بھی آیا۔ وفد کی سربراہ ایک برطانوی خاتون نے جامعہ نصرۃ العلوم اور جامع مسجد نور کے اخراجات کے بارے میں پوچھا، تو میں نے عرض کیا کہ: ’’دونوں کے اخراجات ملا کر قریباً ایک کروڑ روپے کا تخمینہ بنتا ہے‘‘۔ انھوں نے پوچھا کہ: ’’کہاں سے آتا ہے یہ روپیہ پیسہ؟‘‘ مَیں نے کہاکہ: ’’کہیں باہر سے نہیں آتا، گوجرانوالہ شہر کے لوگ ہی پورا کرتے ہیں بلکہ لوگ خود ہی آکر دے دیتے ہیں‘‘، مگر موصوفہ کا ذہن اس بات کو قبول کرنے میں تیار دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

اَمرواقعہ ہے کہ علماے کرام اور معاشرے کا یہ باہمی تعلق اور اعتماد، مساجد و مدارس کے وسیع تر نظام کی بنیاد ہے۔ جب تک یہ اعتماد قائم ہے، مساجد و مدارس کے اس نیٹ ورک کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکتا، اور مدارس کے اس نظام پر سیکولر حلقوں کے مسلسل سیخ پا رہنے کی وجہ بھی یہی ہے۔

بات دُور نکل گئی۔ گفتگو ’نیشنل ایکشن پلان‘ میں دینی مدارس کو بطور خاص ہدف بنانے پر سپریم کورٹ کے معزز جج جسٹس جواد ایس خواجہ صاحب کی طرف سے تحفظات کے اظہار پر ہورہی تھی۔ اس بارے میں جن تحفظات کا اظہار ہم آغاز سے کر رہے ہیں، ہمیں خوشی ہے کہ عدالت عظمیٰ کے فورم پر بھی وہ سامنے آنے لگے ہیں۔ پاکستان میں دینی مدارس اپنے نظامِ کار میں اصلاح وبہتری کے لیے ہر آن کھلے دل سے تیار ہیں، مگر اس کے ساتھ وہ، انھیں لپیٹ دینے کی کوشش اور سازش کے سامنے سینہ سپر ہیں۔

قیام پاکستان کا مقصد اور تقاضا

اس موقعے پر اس اَمرِواقعہ کی نشان دہی بھی ضروری ہے کہ قیامِ پاکستان کا بنیادی مقصد اور فلسفہ یہ تھا کہ مسلم اکثریت کے علاقے میں حکومت خود مسلمانوں کی ہونی چاہیے اور قرآن و سنت کے احکام و قوانین کے مطابق ملک کا نظام تشکیل پانا چاہیے۔ یہ خواہش اور عزم اسلام کے تقاضوں میں سے ایک اساسی تقاضا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ِ مبارکہ ہے ، اور ملّت اسلامیہ کی تاریخ اور ماضی کے تسلسل کا حصہ ہے۔

خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ِ مبارکہ کے حوالے سےعرض ہے کہ مکّہ مکّرمہ سے ہجرت کے بعد جب مدینہ منورہ میں مسلمانوں کا ایک معاشرہ قائم ہوا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتماعی زندگی کو ایک نظم میں مربوط کرتےہوئے پہلا کام یہ کیا کہ حکومتی اور ریاستی نظام قائم کیا۔ جس کی بنیاد ’میثاقِ مدینہ‘ کے نام سے مختلف قبائل اور مذاہب کے لوگوں کے درمیان ایک معاہدے پر رکھی گئی، جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاکم کی حیثیت حاصل تھی۔

اس دوران ریاست مدینہ کے لوگوں کے تنازعات کے فیصلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے۔ قبائل کے باہمی جھگڑوں کا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے۔ مسلمانوں کے تنازعات و مقدمات تو اپنی جگہ تھے، مسلمانوں اور غیر مسلموں کے باہمی جھگڑوں کا مقدمہ بھی    نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں پیش ہوتا تھا، بلکہ غیر مسلموں کے باہمی تنازعات و مقدمات میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاکم کی حیثیت حاصل تھی۔ اس لیے اسلامی تاریخ کا آغاز    نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت مبارکہ سے ہوا تھا کہ جونہی مسلم سوسائٹی کو یہ حیثیت حاصل ہوئی تو اسلامی ریاست کی تشکیل کی گئی اور قرآن و سنت کے احکام و قوانین کا نفاذ عمل میں لایا گیا۔

برصغیر : پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت وغیرہ میں مسلمانوں نے ایک ہزار سال کے لگ بھگ حکومت کی ہے اور ہر دور میں اسلامی احکام و قوانین کی عمل داری کا اہتمام ہوتا رہا ہے۔ مسلمان عددی اعتبار سے اقلیت میں تھے، مگر طاقت اور تدبّر کی وجہ سے انھوں نے اتنا طویل عرصہ حکومت کی۔  جب انگریز قابض ہوئے اور دنیا میں طاقت کے بجاے ووٹ اور گنتی کے ساتھ اقتدار کے فیصلے ہونے لگے تو اس خطے کے بہت سے مسلمان دانش وروں کو خطرہ محسوس ہوا کہ ہم اقلیت میں ہیں اور ووٹ اور تعداد کے بل بوتے پر ہندو ہمیشہ کے لیے غلبہ قائم کر لیں گے، اس لیے جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے انھیں الگ ریاست کی شکل دے کر مسلمانوں کے اقتدار اور اسلامی تہذیب کے تحفظ کا اہتمام ضروری ہے۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے قیام پاکستان کی تحریک چلائی گئی۔  قائداعظم محمد علی جناح مرحوم کے ساتھ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ ، شیخ الاسلام       علامہ شبیراحمد عثمانیؒ ، مولانا ظفر احمد عثمانیؒ ، مولانا عبد الحامد بدایونیؒ ، پیر صاحب آف مانکی شریفؒ ، اور مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹیؒ جیسے اکابر علماے کرام اور مشائخ عظام نے تحریک پاکستان کا ساتھ دے کر اسے کامیاب بنایا اور ۱۹۴۷ء میں ’پاکستان‘ کے نام سے ایک اسلامی ریاست وجود میں آگئی۔

تاہم،قیامِ پاکستان کو ۷۰ سال گزر جانے کے بعد ابھی تک اس کا مقصدِ وجود، تشنہ تکمیل ہے۔ یہی نظر آتا ہے کہ کوئی حکومت بھی پاکستان میں نفاذ اسلام کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے ملک فکری اور اخلاقی انارکی کا شکار ہے۔ اس لیے ہم سب کو اس بات کا عہد کرنا چاہیے کہ ہم پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک اسلامی ریاست بنا کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کو قائم کریں گے اور قیامِ پاکستان کے مقصد کی تکمیل کرتے ہوئے ملک کے باشندوں کو امن و سلامتی کی حقیقی منزل سے ہم کنار کریں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

دوکروڑ ۲۳لاکھ ہیکٹر [’ہیکٹر بین الاقوامی یونٹ ہے، جو ہمارے ڈھائی ایکڑ کے برابر ہوتا ہے] پر لہلہاتے کھیت، خوبانی، سیب، انگور، کِنوں، مالٹا، آم اور کھجور کے پھولوں پھلوں سے لدے باغات، دریاے سندھ، اس کے معاون دریائوں اور جھیلوں میں تیرتی انواع و اقسام کی مچھلیاں اور دیگر آبی پرندے، شمالی علاقہ جات، پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی چراگاہوں میں چرتے دودھ اور گوشت فراہم کرنے والے کروڑوں مویشی اور فضائوں میں رقصاں لاکھوں رنگ برنگ پرندے___ یہ ۲۲کروڑ آبادی والا دنیا کا چھٹا گنجان آباد ملک پاکستان ہے۔ پاکستان دنیا بھر میں گندم، چاول، کپاس، گنا، پھل اور سبزیاں، دودھ اور گوشت کی پیداوار کے لحاظ سے ساتواں یاآٹھواں بڑا زرعی ملک ہے۔

برصغیر پاک و ہند میں زراعت کی تاریخ چھے تا سات ہزار سال قبل مسیح سے شروع ہوتی ہے، جب وادیِ سندھ کی قدیم تہذیب مہرگڑھ اور موہنجوڈارو وغیرہ میں آب پاشی، جانوروں کے ذریعے زمین میں ہل چلا کر غلّہ کاشت کرنا شروع ہوا۔ قابلِ کاشت زمین اور دریائوں جھیلوں کا پانی اس خطے کے قدرتی وسائل میں سب سے نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند کے بعد بھارت چوں کہ ایک بڑی اور گنجان آبادی والا ملک تھا، اس لیے بھارتی قیادت نے زراعت کے فروغ کو اپنی معاشی پالیسیوں میںا وّلین ترجیح قرار دیا۔ لیکن پاکستان میں جس اعلیٰ سطحی بیوروکریسی نے ملک کا نظم و نسق سنبھالا وہ ابتدائی برسوں میں زراعت کی ترقی کے لیے مطلوب زمینی حقائق کا ادراک نہ کرسکی۔

مغربی اور مشرقی پاکستان میں ۹۰ فی صد چھوٹے کاشت کار زراعت میں جدید اور ترقی یافتہ ذرائع استعمال کرنے کے لیے مطلوبہ وسائل سے محروم تھے۔ ملک کے آبی وسائل کی تنظیم نو اور ذخائر کی تعمیر بھی بھاری فنڈز کی متقاضی تھی۔ آزادی کے وقت زراعت گو ملکی جی ڈی پی کا ۵۰ فی صد حصہ فراہم کر رہا تھا، لیکن یہ قلیل مقدار ملک کی معاشی نمو میں کوئی نمایاں کردار ادا کرنے سے قاصر تھی۔

قیامِ پاکستان سے پہلے متحدہ ہندستان میں پنجاب کو برعظیم کی ’فوڈ باسکٹ‘ کہا جاتا تھا۔ مشرقی پنجاب جو تقسیم کے بعد بھارت کے حصے میں آیا، کا زرعی کاشتہ رقبہ گو مغربی پنجاب سے ایک تہائی تھا، لیکن بھارتی حکومت نے ’نہرو پلان‘ کے تحت مفت آب پاشی، سستی کھاد اور بیج، زرعی تعلیم و تحقیق کے لیے وافر فنڈز، زرعی منڈیوں اور دیہی آبادی میں سڑکوں کی تعمیر کے نتیجے میں جلد ہی زرعی پیداوار میں حیرت انگیز کارکردگی کا مظاہرہ کیا، جب کہ پاکستان میں غریب کاشت کار سحرخیزی اور دن رات خون جما دینے والی سردی اور جسموں کو جھلسا دینے والی گرمی میں کام کرنے کے باوجود نان جَویں اور بنیادی انسانی ضروریات کے حصول میں ناکام رہے۔

قیامِ پاکستان کے وقت پاکستان کی سالانہ غلے کی پیداوار صرف ۸ٌٌٌء۳ ملین ٹن گندم تھی، جب کہ آج الحمدللہ ہم سالانہ ۲۲ملین ٹن گندم، ۵ء۶ ملین ٹن چاول، ۱۲ملین کپاس کی گانٹھیں،   وافر چینی، پھل اور سبزیاں پیدا کر رہے ہیں۔ شعبہ مرغبانی و حیوانات جو زراعت ہی کا ایک سب سیکٹر ہے، ۳۰ ملین ٹن دودھ، ۵۳۰ ملین مرغیاں، ۱۱ء۲ ارب انڈے سالانہ پیدا کرتا ہے، جب کہ ۱۴کروڑ سے زائد گائے، بھینس اور بھیڑبکری ہمارا مستقل اثاثہ ہیں، جو دودھ، گوشت اور چمڑا  فراہم کرتے ہیں۔ شعبہ فصلات، حیوانات کے علاوہ جنگلات اور ماہی پروری بھی زراعت ہی کے سب سیکٹرز ہیں، جو ہماری قومی ضروریات پوری کرنے کے علاوہ برآمدات کے ذریعے قابلِ قدر زرمبادلہ بھی فراہم کرتے ہیں۔ زراعت کی دنیا میں کامیابیوں کا یہ سفر کس طرح طے ہوا؟ ہم اس کا ایک مختصر جائزہ پیش کرتے ہیں:

جیساکہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ آزادی کے بعد ابتدائی برسوں میں ہماری حکومتیں زراعت کی ترقی اور آبی وسائل کی تنظیم نو کے لیے کوئی خاطرخواہ کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکیں، لیکن ۱۹۶۰ء کے عشرےاور ایوب خان کے ۱۰ سالہ دورِ حکومت میں زراعت کی ترقی اور مطلوب آبی ذخائر کی تعمیر کے ذریعے نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئیں۔

پاکستان کے آبی وسائل کا تخمینہ دریاے سندھ اور اس کے معاون دریائوں ، جھیلوں، شمال کے پہاڑی سلسلوں میں موجود گلیشیرز کی صورت تقریباً ۱۴۰ ملین ایکڑ فٹ سالانہ ہے۔ زیرزمین پانی جو تقریباً ۱۰ لاکھ ٹیوب ویل کی مددسے ہمیں آب پاشی کے لیے میسر آتا ہے، ۵۵ ملین ایکڑ فٹ ہے۔ مون سون کی بارشیں جو تین مہینے جاری رہتی ہیں ہمارے آبی ذخائر کو بھرنے کا بڑا ذریعہ ہیں۔ صرف ۱۹ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت جو ۴۰برس گزرنے کے بعد ۳۵ فی صد کم ہوکر صرف ۱۲ ملین ایکڑ فٹ رہ گئی ہے، کی وجہ سے ۳۰ تا ۴۰ ملین ایکڑ فٹ پانی سیلاب کی صورت میں بڑی تباہی کے بعد سمندر میں جاگرتا ہے۔ آب پاشی کے لیے ۱۴۰ ملین ایکڑ فٹ دستیاب پانی کا تقریباً ۴۰فی صد جذب و تبخیر(Seepage & Evaporation) جیسے نقصانات کے بعد صرف ۹۰ ملین ایکڑ فٹ کھیت تک پہنچ پاتا ہے۔ یہ اَمر قابلِ افسوس ہے کہ گذشتہ ۴۰برس میں کوئی بھی نیا ڈیم تعمیر نہیں کرسکے، اگرچہ ہم چشمہ، ورسک، خان پور، منگلا، تربیلا جیسے آبی ذخائر، ۱۸بیراج، ۱۲لنک کینال، ۴۵ آب پاشی نہروں اور ۱۰ہزار ۷۰۰ کھالوں کے ساتھ دنیا کے سب سے بڑے نہری نظام کے حامل ہیں۔

پاکستان چوں کہ دنیا کے گرم اور خشک خطے میں واقع ہے، جہاں زیرزمین پانی بھی زیادہ تر نمکین ہے۔ اس لیے بڑھتی ہوئی آبادی اور کم ہوتے آبی وسائل کے پیش نظر اسے پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ دوسری جانب پنجاب اور سندھ میں زرعی آب پاشی کے لیے نصب لاکھوں ٹیوب ویل زمین میں کھارے پانی کی وجہ سے کلر اور سیم و تھور کا باعث بن رہے ہیں۔

جدول نمبر۱ میں پانی کی فی کس کم ہوتی ہوئی صورتِ حال کا ایک جائزہ پیش کیا گیا ہے:

سال

۱۹۴۷ء

۱۹۵۵ء

۱۹۹۰ء

۲۰۱۵ء

۲۰۲۵ء

دستیاب فی کس پانی

(مکعب میٹر)

۴۵۰۰

۲۴۹۰

۱۶۷۲

۱۰۰۰

۸۳۷

نوٹ: یاد رہے کہ دنیا بھر میں فی کس ۱۰۰۰ مکعب میٹر سالانہ سے کم دستیاب پانی والے ممالک / علاقوں کو خشک سالی/قحط کا شکار گردانا جاتا ہے۔

ایک وسیع ترین نہری نظام کے باوجود پاکستان کے ۲۲ء۳ ملین ہیکٹر زیرکاشت رقبے میں سے صرف ۱۴ء۵۶ ملین ہیکٹر رقبہ ہی نہری پانی سے سیراب ہوپاتا ہے۔ زراعت اور دیگر ضروریات کے لیے وافر پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے مزید آبی ذخائر کی تعمیر اور آب پاشی کے لیے سپرنکلر (Sprinkler) اور ڈرپ (Drip) جیسے مستعد اور کفایت شعار آب پاشی نظام اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ۱۹۶۰ء کے عشرے میں زراعت کی ترقی اور آبی ذخائر کی تعمیر کے لیے سندھ طاس معاہدے کے تحت منگلا اور تربیلا جیسے بڑے ڈیم تعمیر کیے گئے۔ ان منصوبہ جات کے لیے ورلڈبنک اور دیگر مالیاتی اداروں و دوست ممالک نے کثیرفنڈز فراہم کیے۔ لیکن یہ بات باعث ِ تشویش ہے کہ پاکستان ایوبی دور کے اِن تعمیرشدہ آبی ذخائر کے بعد مزید آبی ذخائر کی تعمیر میں کوئی کارکردگی نہیں دکھاسکا، جب کہ بھارت مسلسل بیسیوں ڈیم تعمیرکرچکا ہے۔ آبی ذخائر کی تعمیر کے علاوہ زراعت کے دیگر شعبے بھی ماضی اور آج کی حکومتوں کی عدم دل چسپی کا شکار ہیں۔

حسب ذیل جدول کے مطابق قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک مختلف اَدوار میں زراعت اور آبی وسائل کے لیے فراہم کردہ فنڈز کا میزانیہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ شعبۂ زراعت مسلسل نظرانداز ہورہا ہے:

جدول نمبر۲: قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک زراعت کے لیے مختص فنڈز (فی صد)

زراعت

۹ء۴۶

۸ء۵۷

۱۰ء۴۵

۸ء۵۹

۹ء۶۹

۷ء۱۳

۴ء۴۵

۰ء۷۵

۱ء۴۲

۲ء۲

پانی

۱۹ء۹۵

۴۳ء۴

۳۴ء۲

۱۷ء۱

۱۰ء۲۹

۹ء۰۸

۸ء۱۱

۷ء۳۹

۱۶ء۷

۱۳ء۰

اُوپر دیے گئے اعداد و شمار سے ظاہر ہے کہ صرف ۱۹۶۰ء کے عشرے میں زراعت کے لیے قابلِ ذکر رقوم فراہم کی گئیں جو تربیلا، منگلا ڈیم بنانے اور زراعت کو ترقی دینے میں معاون ہوئیں۔ بعد میں تسلسل سے مختص شدہ رقوم میں بالترتیب کمی ہوتی گئی۔ مختلف ادوار میں جی ڈی پی کا ۳۰، ۴۰ فی صد فراہم کرنے والا شعبہ بمشکل ۸، ۱۰ فی صد فنڈز حاصل کرتا رہا ہے۔

زراعت میں سالانہ شرحِ نمو (Annual Growth Rate) ایک ایسا پیمانہ ہے، جس سے ہم زراعت کی ترقی ماپ سکتے ہیں۔ حقائق کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ سواے ۱۹۶۰ء کے عشرے اور ۱۹۸۰ء کے عشرے میں زراعت کی سالانہ شرح نمو اطمینان بخش نہیں رہی ہے۔

۱۹۶۰ء ہی کے عشرے میں میکسیکو کے رہایشی نوبل انعام یافتہ نارمن بورلاگ کی قیادت میں زرعی سائنس دانوں کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے دنیا میں سبز انقلاب برپا کیا۔ یہ بات ہمارے لیے قابلِ فخر ہے کہ فیصل آباد پاکستان کے دو زرعی سائنس دان ڈاکٹر ایس اے قریشی اور ڈاکٹر منظوراحمد باجوہ بھی اس تاریخی معرکے میںشریک تھے۔ اس ٹیم نے گندم کی بیماریوں کے خلاف مزاحمت رکھنے والی اور تقریباً دگنا پیداواری صلاحیت کی حامل اقسام دریافت کیں اور یوں دنیا کو بھوک اور قحط کے خطرے سے نجات دلانے میں معاونت کی۔

درج بالا جائزے سے یہ بات عیاں ہے کہ زراعت ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے۔ قیامِ پاکستان کے وقت ملکی جی ڈی پی کا ۵۰ فی صد فراہم کرنے والا شعبہ آج صنعت اور سروسز سیکٹر کے ساتھ تیسرا بڑا شعبہ ہے، جو ۲۴ فی صد جی ڈی پی اور روزگار کے ۵۰ فی صد مواقع فراہم کرتا ہے۔ ملکی برآمدات کا ۶۶ فی صد زرعی شعبے سے حاصل ہوتا ہے۔ کپاس، چاول، پھل، سبزیاں، چمڑے کی مصنوعات ہماری بڑی بڑی زرعی برآمدات ہیں، جب کہ خوردنی تیل اور چائے درآمد کرنے پر ہمارا بڑا زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے۔

زراعت میں نئے آبی وسائل /ذخائر کی تعمیر، جدید مشینری کا استعمال اور کیمیائی کھادوں و کیمیائی ادویات کا محفوظ استعمال اور گلوبل وارمنگ مستقبل میں قومی زراعت کے بڑے بڑے چیلنج ہیں۔   اگر ہم ان سے بہ احسن عہدہ برآ ہوسکے تو ان شاء اللہ ہم نہ صرف قومی ضروریات پوری کریں گے، بلکہ اپنی برآمدات بڑھا کر کثیرزرمبادلہ بھی کمائیں گے اور اللہ کی مخلوق کو خوراک بھی فراہم کر رہے ہوں گے۔

دسمبر۲۰۱۴ء کے انتخابات کے بعد جب جموں و کشمیر میں ایک معلّق اسمبلی وجود میں آئی اور پیپلزڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی بیساکھی کے سہارے اقتدار میں آئی، تب دونوں کے درمیان طے ہوا تھاکہ: ’’ہندو قوم پرست بی جے پی بھارتی آئین کی دفعہ ۳۷۰ کے تحت کشمیر کو دیے گئے خصوصی اختیارات کو موضوع بحث نہیں بنا ئے گی‘‘۔ بظاہر  یہ وعدہ ایفاتو ہوا، مگر چور دروازے سے بی جے پی کی سرپرست تنظیم ’راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ‘   (آر ایس ایس) سے وابستہ ایک تھنک ٹینک نے سپریم کورٹ میں رٹ دائر کی۔ جس میں دفعہ ۳۷۰ کے بدلے دفعہ ۳۵-اے کو نشانہ بنایا گیا، اور عدالت نے یہ پٹیشن [استدعا] سماعت کے لیے منظور بھی کرلی۔ اب حال ہی میں ایک اسپیشل بنچ قائم کر کے اس کی سماعت اگلے چند ہفتوں میں شروع کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔

دفعہ ۳۵-اے کے تحت جموں و کشمیر میں غیر ریاستی باشندوں کے نوکری حاصل کرنے، ووٹ دینے اور غیرمنقولہ جایداد خریدنے پر پابندی عائد ہے۔ اگر یہ دفعہ ختم کر دی گئی تو اس کے نتائج دفعہ۳۷۰ کے خاتمے سے بھی زیادہ خطرناک ہوں گے۔ اگرچہ اسی طرح کی شقیں دیگر علاقوں یعنی: ناگالینڈ، میزورام، سکم، اروناچل پردیش، آسام، منی پور، آندھرا پردیش اور گوا کو خاص اور منفردحیثیت عطا کرتی ہیں۔ وہاں بھی دیگربھارتی شہریوں کو غیرمنقولہ جایدادیں خریدنے پر پابندی عائد ہے یا اس کے لیے خصوصی اجازت حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، مگر مسلم دشمنی اور متعصب ذہنیت کے حامل افراد کو بھارتی آئین کی یہ شقیں نظر نہیں آتیں۔ اس پر ظلم یہ کہ بھارت کی مرکزی حکومت جو آئین کی محافظ اور نگران ہے، اس نے سپریم کورٹ میں آئین کی اس شق کا دفاع کرنے کے بجاے ’غیر جانب دار‘ رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر عدلیہ اس شق کو منسوخ کرتی ہے، تو بھارتی حکومت دنیا کو یہ باور کروائے گی کہ: ’’یہ تو آزاد عدلیہ کا معاملہ ہے اور حکومت کا اس کے ساتھ کچھ لینا دینا نہیں ہے‘‘۔ تاہم، سبھی رمزشناس یہ جانتے ہیں کہ دوسال تک اس پٹیشن کو التوا میں  رکھ کر بھارتی حکومت، جسٹس دیپک مشرا کے چیف جسٹس بننے کا انتظار کر رہی تھی۔ خدشہ تھا کہ   اگر اس پٹیشن کی سماعت اس سے قبل ہوتی تو حال ہی میں ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس، جسٹس ایم کے کیہر اور ان کے پیش رو جسٹس ٹی ایس ٹھاکر اس کومسترد کرسکتے تھے۔چند برس قبل دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب میں ایک مذاکرے کے دوران موجودہ وزیرخزانہ ارون جیٹلی نے کہا تھا کہ: ’’کشمیر کا واحد مسئلہ اس کا مسلم اکثریتی کردار ہے اور بھارتی آئین میں اس کی خصوصی پوزیشن نے اس کو اور بھی پیچیدہ بنا دیا ہے‘‘۔ان کے مطابق: ’’کشمیر کی ترقی میں بھی یہ شق سب سے بڑی رکاوٹ ہے، کیوں کہ بھارت کے دیگر علاقوں کے لوگ وہاں بس نہیں سکتے جس کی وجہ سے سرمایہ کاری نہیں ہوسکتی‘‘۔

یاد رہے کہ عشروں تک کشمیر میں خدمات انجام دینے والے انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس (IAS) اور انڈین پولیس سروس (IPS) سے وابستہ غیر ریاستی افراد بھی ریٹائرمنٹ کے بعد، کشمیر سے باہر زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ بیوروکریٹک سروس اور فوج ہی دو ایسے ادارے ہیں، جن کے بارے تصور کیا جاتا ہے کہ یہ بھارت کو متحدہ رکھنے میں ریڑھ کی ہڈی کا کام کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر جنوبی صوبہ کیرالا کے کسی نوجوان کو سول سروس کا امتحان پاس کرنے کے بعد جب پنجاب کا کیڈر دیا جاتا ہے، تو باقی زندگی وہ عملاً پنجابی ہی کہلائے گا۔ اکثر اعلیٰ بیوروکریسی میں تعینات یہ نوجوان اپنے پیدایشی صوبے کو پس پشت ڈال کر، شادیاں اور رشتہ داریاں کیڈر والے صوبے میں ہی کرتے ہیں اور پھر ۳۰سال سے زائد عرصہ سروس میں رہنے کے بعد اسی صوبے میں ریٹائرڈ زندگی گزارتے ہیں۔

اگرچہ جیٹلی ، بی جے پی اور آر ایس ایس کے ’لبرل چہرے‘ کی سی شہرت رکھتے ہیں، مگر انھوں نے سوال اُٹھایا کہ: ’’آخر مسلمان جہاں بھی تھوڑی اکثریت میں ہوتے ہیں ، وہ اپنی شناخت کیوں الگ رکھنا چاہتے ہیں؟ حالاں کہ ان کی اوّلین شناخت بھارتیہ ہونا اور اس کے کلچر کو  ترجیح دینا ہونا چاہیے‘‘۔ ایک رپورٹر کی حیثیت سے مَیں اس مذاکرے میں سامع تھا، مگر میں نے جیٹلی صاحب کو یاد دلایا: ’’جناب، بھارتی آئین کی جن شقوں سے پریشانی کا اظہار کیا جارہا ہے، وہ ایک ہندو ڈوگرہ مہاراجا ہری سنگھ کی دین ہیں، جن کو بحال رکھنے کی گارنٹی دے کر ۱۹۴۷ء میں  شیخ محمدعبداللہ کو شیشے میں اُتارا گیا۔ وادیِ کشمیر میں پنڈت لیڈر شنکر لال کول اور جموں میں ڈوگرہ سبھا کی ایما پر ۱۹۲۷ء میں مہاراجا نے یہ قانون نافذ کیا تھا، جس کی رُو سے اس کی اجازت کے بغیر کوئی بھی غیرریاستی شخص، ریاستی حکومت میں نہ ملازمت کا حق دار ہوگا اور نہ غیرمنقولہ جایداد رکھنے کا مجاز ہوگا‘‘۔

تاریخ کے اَوراق پلٹتے ہی مَیں نے انھیں یہ بھی یاد دلانے کی کوشش کی کہ: ’’جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ یا دیگر آزادی پسند تنظیموں کے منظرعام پر آنے سے بہت پہلے مئی ۱۹۴۷ء میں    آر ایس ایس کی ایما پر ہندو مہاسبھا کی ورکنگ کمیٹی نے، جموں میں بلائے گئے ورکنگ کمیٹی کے ایک اجلاس میں پاس کی گئی قرارداد کے مطابق ایک ’ہندو اسٹیٹ‘ کو سیکولر بھارت کے ساتھ اپنی شناخت ضم نہیں کرنی چاہیے۔ وہ مہاراجا کو ہندو مفادات کا نگران تصور کرتے تھے۔ اُس وقت یہ پینترے بازیاں شاید اس وجہ سے ہورہی تھیں کہ ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی صورت میں ہندو آبادی کے حقوق محفوظ کیے جائیں۔ تاریخ کے موڑ نے جب کشمیر کو بھارت کی جھولی میں گرا دیا تو شناخت اور حقوق کے تحفظ کا مسئلہ مسلمانوں کی طرف پلٹ گیا‘‘۔

جموں و کشمیر کی مسلم اکثریتی شناخت نہ صرف فرقہ پرستوں بلکہ خود کو سیکولر کہلوانے والی سیاسی جماعتوں کی آنکھوں میں کھٹکتی رہی ہے۔ فروری ۲۰۱۵ء کو جموں میں اپنی رہایش گاہ پر پی ڈی پی کے سرپرست اور سابق وزیراعلیٰ مرحوم مفتی محمد سعید سے ایک انٹرویو کے دوران میں نے بنیادی سوال پوچھا کہ: ’’کہیں بی جے پی کو اقتدار میں شریک کرواکے آپ کشمیریوں کے مصائب کی رات کو مزید تاریک کروانے کے مرتکب تو نہیں ہوں گے؟‘‘ جواب میں انھوں نے کہا کہ: ’’کشمیر کی خصوصی پوزیشن اور شناخت کے حوالے سے بھارت کی دونوں قومی جماعتوں کا موقف تقریباً ایک جیسا ہے‘‘۔ اس سلسلے میں انھوں نے ایک واقعہ سنایا: ’’مارچ ۱۹۸۶ء میں جب مَیں ریاستی کانگریس کا سربراہ تھا اور مَیں نے اس وقت کے وزیراعلیٰ غلام محمد شاہ کی حکومت سے حمایت واپس لی تھی، تو وزیراعظم آنجہانی راجیوگاندھی کی خواہش تھی کہ اگلے دو سال تک سری نگر میں کانگریس کو حکومت کا موقع ملنا چاہیے۔ حکومت سازی پر بات چیت کے لیے مجھے دہلی بلایا گیا۔ وزیراعظم ہائوس میں کیے گئے اجلاس میں کانگریس کے قومی کارگزار صدر ارجن سنگھ بھی شامل تھے۔ راجیوگاندھی نے ارجن سنگھ کو مخاطب کرکے پوچھا کہ کانگریسی حکومت کے برسرِاقتدار آنے کے بعد کیا ترجیحات ہونی چاہییں؟ ارجن سنگھ نے جواب دیا کہ پورا بھارت، جموں و کشمیر کے انڈین یونین میں مکمل انضمام کا خواہش مند ہے اور یہ عمل ۱۹۷۵ء کے بعد شیخ عبداللہ کے برسرِاقتدار آنے کے بعد رُک گیا تھا۔ اس عمل کو دوبارہ شروع کروانے اور منطقی انجام تک پہنچانے کی ضرورت ہے اور یہ ہماری حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ ہوگا‘‘۔

اسی دوران راجیو گاندھی نے اپنے پرائیویٹ سیکرٹری سے کہا کہ ’’گورنر ہائوس اور مفتی سعید سے رابطہ رکھ کر ان کی بطور کانگریسی وزیراعلیٰ، حلف برداری کی تقریب کا اس طرح تعین کریں کہ مَیں بھی جموں جاکر تقریب میں شامل ہوسکوں‘‘۔ مفتی سعید صاحب نے مزید کہا: ’’میں اس بات چیت سے انتہائی دل برداشتہ ہوگیا، اور واپس جموں پہنچ کر ایسی صورتِ حال پیدا کر دی کہ کانگریس کی حکومت سازی کا پلان چوپٹ ہوگیا۔ پھر ایک سال بعد ’راجیو- فاروق ایکارڈ‘ کے نتیجے میں فاروق عبداللہ کی قیادت میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی مشترکہ حکومت قائم ہوئی‘‘۔

مفتی سعید نے میرے سامنے اعتراف کیا کہ: ’’۱۹۵۳ء سے ۱۹۷۵ء تک کشمیر کی انفرادیت اور شناخت کو بُری طرح مسخ کیا گیا ہے اور ایک طرح سے کشمیریوں کی عزت و آبرو کو تارتار کر کے برہنہ کیا گیا ہے۔ بھارت کے آئین کی دفعہ ۳۷۰ کی موجودہ شکل تو اب صرف زیرجامہ بچا ہوا ہے۔ مین اسٹریم، یعنی بھارت نواز کشمیری پارٹیاں چاہے نیشنل کانفرنس ہو یا پی ڈی پی، ان کا فرض ہے کہ اس زیرجامہ کو بچاکر رکھیں، جب تک کہ مسئلہ کشمیر کے دائمی حل کی کوئی سبیل پیدا ہو‘‘۔

تاہم، یہ بات اب سری نگر میں زبان زد عام و خاص ہے کہ یہ وہ پی ڈی پی نہیں، جس نے ۲۰۰۳ء اور ۲۰۰۵ء کے درمیان دہلی کی روایتی کٹھ پُتلی حکومت کے بجاے ایک پُراعتماد اور کشمیری عوام کے مفادات اور ترجیحات کے ترجمان کے طور پر ایک نئی تاریخ رقم کی تھی۔ اس سے قبل اقتدار کی شدید ہوس نے کشمیر کی سب سے بڑی قوم پرست پارٹی نیشنل کانفرنس کو بزدل بناکر رکھ دیا تھا۔ یہی حال اب کچھ پی ڈی پی کا بھی ہے۔ بدقسمتی سے اس جماعت کا یہ محور بنا ہوا ہے کہ اقتدار کی نیلم پری پر دسترس کو کس طرح برقرار رکھا جائے؟

دفعہ ۳۵-اے دراصل بھارتی آئین کی دفعہ ۳۷۰ کی ہی ایک توسیع اور توضیح ہے۔ معروف قانون دان اے جی نُورانی کے بقول: ’’آرٹیکل ۳۷۰ ، اگرچہ ایک عبوری انتظام تھا اور بھارتی حکومت کی ۶۰ کے عشرے تک یہ پالیسی تھی کہ جموں و کشمیرکے مستقبل کا فیصلہ استصواب راے سے کیا جائے گا۔ ۱۹۴۸ءمیں جموں و کشمیر پر بھارتی حکومت کے ایک وائٹ پیپر میں سردار پٹیل کا  یہ بیان موجود ہے: ’’الحاق کو تسلیم کرتے ہوئے بھارتی حکومت نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ اسے بالکل عارضی مانتی ہے، جب تک کہ اس بارے میں ریاست کے لوگوں سے ان کی راے نہیں معلوم کی جائے گی‘‘۔ نُورانی کے بقول: ’’جن سنگھ کے بانی شیاما پرساد مکھرجی، جن کا نام آرٹیکل ۳۷۰ کی مخالفت کرتے وقت بی جے پی اُچھالتی ہے، انھوں نے اس کی مکمل حمایت کی تھی۔ بی جے پی اس وقت کے وزیرداخلہ سردار پٹیل کا نام بھی اس پروپیگنڈے کے لیے استعمال کرتی ہے کہ انھوں نے اس مسئلے پر پنڈت جواہر لعل نہرو کی مخالفت کی تھی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پٹیل نے بھی آئین کی اس دفعہ کی مکمل تائید کی تھی‘‘۔

اے جی نُورانی کا کہنا ہے کہ: ’’کشمیر واحد ریاست تھی جس نے الحاق کے لیے اپنی شرائط پر حکومت سے مذاکرات کیے تھے۔ وہ بھارت میں ضم نہیں ہوئی تھی بلکہ اس نے الحاق کیا تھا، اس لیے آرٹیکل ۳۷۰ دونوں کے درمیان ایک مقدس معاہدہ ہے، جس کی کسی شق میں کوئی بھی فریق یک طرفہ ترمیم نہیں کرسکتا‘‘۔ نورانی اس بات کا تذکرہ کرتے ہیں کہ: ’’این گوپال سوامی نے ۱۶؍اکتوبر ۱۹۴۹ء کو اس سلسلے میں پہلی خلاف ورزی اس وقت کی، جب انھوں نے یک طرفہ طور پر مسودے میں تبدیلی کے لیے پارلیمنٹ کی لابی میں حتمی شکل دی تھی۔ جیسے ہی شیخ عبداللہ اور مرزا افضل بیگ کو  اس تبدیلی کا علم ہوا وہ دونوں ایوان کی طرف دوڑے، لیکن تب تک یہ ترمیمی بل پاس ہوچکا تھا۔ اس طرح یہ ایک افسوس ناک اعتماد شکنی کا معاملہ تھا۔ اگر اصل مسودہ پاس کیا جاتا تو ۱۹۵۳ء میں  شیخ عبداللہ کو اقتدار سے بے دخل کیا جانا ممکن نہ تھا۔ ۱۹۵۱ء میں کشمیر اسمبلی کے لیے جو انتخابات منعقد کیے گئے، ان سے بھارت کے جمہوری دعوئوں کی کشمیر میں قلعی تو اسی وقت کھل گئی تھی۔ انتخابی دھاندلیوں کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے گئے۔ تمام اُمیدوار ’بلامقابلہ‘ منتخب قرار پائے۔ یہ وہی اسمبلی تھی، جس نے ریاست کا دستور وضع کیا اور الحاق کے دستاویز کی توثیق کی تھی‘‘۔

خود اس اسمبلی کے جواز پر سوال کھڑا کیا جاسکتا ہے کیوں کہ ۵ فی صد سے بھی کم لوگوں نے اس کی تشکیل میں اپنے حق راے دہی کا استعمال کیا تھا۔ یہ اسمبلی ریاست کا مستقبل اور اس کی حیثیت طے کرنے کے سلسلے میں دستورساز اسمبلی کا درجہ رکھتی تھی۔ کشمیر کی اس آئین ساز اسمبلی کی حقیقت اور حیثیت کی قلعی خود اس وقت کے انٹیلی جنس سربراہ بی این ملک نے یہ کہہ کر کھول دی:  ’’ان اُمیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی کو مسترد کر دیا گیا، جو حزبِ مخالف کا کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتے تھے‘‘۔اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ الحاق کی دستاویز کی توثیق اور کشمیر کے آئین کی منظوری کو کوئی عوامی تائید حاصل نہیں تھی۔ بہرحال پچھلے ۶۹برسوں میں بھارتی حکومتوں نے آرٹیکل ۳۷۰ کو اس بُری طرح سے مسخ کر دیا ہے کہ اس کااصلی چہرہ اب نظر ہی نہیں آتا۔ کئی مواقع پر خود کشمیری لیڈروں نے اپنی عزتِ نفس کا خیال نہ کرتے ہوئے ان آئینی خلاف ورزیوں کے لیے راہ ہموار کی۔ اگر ایک طرح سے یہ کہا جائے کہ آئین کی اس شق نے کشمیریوں کو سیاسی گرداب سے بچنے کے لیے جو کپڑے فراہم کیے تھے، وہ سب اُتر چکے ہیں اور اب صرف دفعہ۳۵-اے کی صورت میں ایک نیکر بچی رہ گئی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ فرقہ پرست عناصر اب اسی نیکر کو اُتارنے، کشمیریوں کی عزت نیلام کرنے اور ان کو اپنے ہی وطن میں اقلیت میں تبدیل کروانے کے لیے ایک گھنائونا کھیل کھیل رہے ہیں، جس کے لیے عدالتی نظام کا سہارا لیا جارہا ہے۔

عدالت میں یہ معاملہ لے جاکر آر ایس ایس نے جموں و کشمیر کی آبادیاتی ساخت کی تبدیلی کے حوالے سے اپنے مکروہ عزائم واضح کردیے ہیں۔ کانگریس کے سابق ریاستی صدر اور سابق مرکزی وزیر سیف الدین سوز کا کہنا ہے: ’’سپریم کورٹ کی طرف سے اس پٹیشن کو شنوائی کے لیے منظور کرنا ہی باعث ِ حیرت ہے‘‘۔ اٹانومی اور سیلف رول کے ایجنڈوں کے خواب دیکھنا دُور کی بات ہے، فی الحال جس تیزرفتاری سے مودی سرکار اور اس کی ہم نوا ریاستی حکومت، کشمیریوں کے تشخص اور انفرادیت کو پامال کرنے کے حوالے سے جنگ آزمائی کے راستے پر چل نکلی ہے، اس کا توڑ کرنے میں نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی کے باضمیر افراد اور حُریت پسند جماعتوں کو باہمی تعاون کرنے کی کوئی سبیل نکالنی چاہیے۔

جولائی ۱۹۵۷ء میں تیونس کی آزادی کے بعد سے لے کر نومبر ۱۹۸۷ تک حبیب بورقیبہ ملک کے سیاہ و سفید کا مالک رہا۔ اس دوران اپنے مخالفین پر ناقابل بیان مظالم کے پہاڑ توڑنے کے علاوہ، عالم اسلام کے کئی آمروں کی طرح موصوف نے خود اسلام کو بھی مشق ستم بنانے کی کوشش کی۔ فروری ۱۹۶۰ میں محنت کشوں کے ایک اجتماع سے خطاب کے دوران ’فرمایا‘ کہ: ’’ہم ملک میں تعمیر و ترقی کے جہاد اکبر میں مصروف ہیں، اس لیے ہمیں روزہ ترک کردینا چاہیے۔ ہاں، ریٹائرمنٹ کے بعد یا کسی اور مناسب موقعے پر ان روزوں کی قضا ادا کی جاسکتی ہے‘‘۔ بعدازاں تیونس کے مفتی اعظم محمد العزیز جعیط سے اس حکم کے حق میں فتویٰ بھی جاری کروادیا۔ لیکن بات جب تیونس کے جلیل القدر عالم دین الطاہربن عاشور تک پہنچی تو انھوں نے قوم سے ایک مختصر ترین خطاب کیا۔ حمد و صلاۃ کے بعد فرضیت صیام کی قرآنی آیت تلاوت کی اور پھر تین بار فرمایا: صَدَقَ اللہُ وَ کَذَبَ بوُ رقیبہ، اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا اور بورقیبہ نے کہاجھوٹ۔ اس ایک مختصر جملے نے بورقیبہ کا حکم شاہی خاک میں ملادیا۔

روزہ ساقط کرنے کی جسارت ہی نہیں، موصوف نے کئی واضح اسلامی تعلیمات کو بھی بدلنے کی ناکام کوشش کی۔ قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ بیان کیے گئے احکام وراثت کو قانوناً تبدیل کرتے ہوئے مرد و عورت کے حصے برابر قرار دے دیے۔ بزعم خود مساوات کا ثبوت دیتے ہوئے بہ امر مجبوری بھی مردوں کی ایک سے زیادہ شادی پر پابندی لگادی۔ حج پر جانے سے منع کرتے ہوئے فتویٰ دیا کہ ’’اس فضول خرچی کی کیا ضرورت ہے۔ تیونس میں ابوزمعہ البلویؓ کی قبر پہ حاضری ہی کافی ہے‘‘۔ ایک روز ترنگ میں آکر کہنے لگا کہ ’’مجھے ذرا سرخ قلم دینا میں قرآن میں موجود اغلاط درست کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ پھر اس ظالم شخص کا انجام یہ ہوا کہ ہر نافرمانی میں شریک اپنے ہی وزیراعظم نے اس کا تختہ الٹ کر نظربند کردیا۔ پھر ذرائع ابلاغ پر ایک ڈاکٹری سرٹیفکیٹ کی خبر چلنے لگی کہ ’’طوالت عمر کے باعث دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے‘‘۔ بورقیبہ کا جانشین زین العابدین بن علی بھی اپنے سلف کے نقش قدم پر چلا اور بالآخر جنوری ۲۰۱۱ء میں عوام نے خوف کا بت توڑتے ہوئے اسے بھی ظالم حکمرانوں سے بھرے تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا۔

تیونس اور پھر مصر، لیبیا، یمن اور شام میں شروع ہونے والی تحریک ’عرب بہار‘ کو کس طرح خزاں میں بدلا گیا او رمسلسل بدلا جارہا ہے وہ ایک الگ المناک باب ہے، لیکن اُمت مسلمہ میں ایک بار پھر ’اسلام اکبری‘ کے نفاذ کا بھوت کئی حکمرانوں پر سوار ہے۔ ۱۳ اگست کو تیونس کے حالیہ صدر ۹۱ سالہ الباجی قائد السبسی نے اپنے خطاب میں اعلان کیا کہ وراثت کوئی دینی مسئلہ نہیں،      ایک معاشرتی ضرورت ہے۔ آج کی خاتون کو وراثت میں برابر حصہ دینے کا قانون بنایا جائے۔     یہ قانون بھی بنایا جائے کہ مسلم خاتون کو غیر مسلم مرد سے شادی کی اجازت ہے۔ بدقسمتی سے تیونسی دارالافتاء نے بھی اس فرمان کی تائید کردی ہے، اور مصری صدر عبد الفتاح السیسی کے تابع مفتیان اور جامعہ ازہر کے بعض ذمہ داران نے بھی حمایت کردی ہے۔ اب تیونسی صدر نے ایک قانونی کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو ۲۰۱۴ء میں منظور ہونے والے دستور کی روشنی میں مزید قانون سازی کرے گی۔ لیکن عوام کی اکثریت نے نہ صرف اس بیان کو مسترد کردیا ہے، بلکہ وہ اس انتظار میں ہیں کہ بورقیبہ کا یہ سابق دست راست کب اپنے پیش رو کے انجام کو پہنچتا ہے۔

روشن خیال ،معتدل، دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ، اور نہ جانے کن کن خوش نما پردوں میں چھپے یہ اقدامات صرف تیونس تک محدود نہیں، پورے عالم اسلام اور ساری دنیا کے مسلمانوں کے لیے یہی ایجنڈا زیر تکمیل ہے۔ آئیے اس پورے کھیل کے پالیسی ساز اور اصل عالمی حکمرانوں کے احکامات کی چند جھلکیاں دیکھیں۔

امریکا میں بحث و تحقیق اور پالیسی سازی کے لیے کے بہت سارے ادارے کام کرتے ہیں۔ برطانوی رسالے اکانومسٹ نے ایک بار لکھا تھا کہ یہ ادارے (Think Tanks) ہی امریکا کی اصل حکومت ہیں۔ اصل سیاسی فیصلے یہی ادارے کرتے ہیں، حکومتوں کا کام صرف ان پر دستخط کرنا ہوتا ہے۔ ’رینڈ کارپوریشن‘ کا نام ان اداروں میں بہت نمایاں ہے۔ اس کا سالانہ بجٹ ۱۵۰ ملین ڈالر (۱۵ کروڑ ڈالر) ہے، جب کہ اس کے بنائے گئے منصوبوں پر عمل درآمد کا بجٹ بعض اوقات اربوں ڈالر تک جاپہنچتا ہے۔ آج سے دس سال پہلے ۲۰۰۷ء میں اس ادارے نے ۲۱۷ صفحات پر مشتمل ایک منصوبہ پیش کیا جس کا عنوان تھا : Building Moderate Muslim Networks  ’معتدل مسلمانوں کے نیٹ ورک کی تشکیل‘۔ اس دستاویز کے مطالعے سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ یہ نہ صرف مسلمانوں کو قابو میں لانے کی سفارشات ہیں بلکہ خود اسلام کی جڑیں کاٹنے کی ایک اور جسارت بھی ہے۔ اس دستاویز میں بتایا گیا کہ جس طرح ہم نے سوشل ازم کا مقابلہ کرنے کے لیے خود ان کے اندر سے مختلف گروہ تشکیل دیے تھے، اسی طرح ان تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے اب اسلام اور مسلمانوں کو اپنی ڈھب پہ لایا جائے گا۔ واضح رہے کہ ان سفارشات کا ہدف صرف ’اسلام پسند‘ طبقہ ہی نہیں تمام مسلمان ہیں ۔ کیونکہ اب ہرمسلمان کو ایک امکانی خطرے کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ ان سفارشات میں جس طرح کے ’مسلمان‘ بنانے کی تجویز دی گئی ہے ان کی چند نمایاں خصوصیات ملاحظہ کیجیے:

  •  شریعت کے احکام پر عمل، یعنی اس کے نفاذ کو ضروری نہ سمجھتا ہو۔
  •   خواتین کا یہ حق تسلیم کرتا ہو کہ وہ (شادی کے بغیر) اپنا ساتھی چن سکتی ہیں۔
  •  مسلم اکثریتی ممالک میں اقلیت سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کو اعلیٰ ترین عہدہ ملنے کا حق دینے کا قائل ہو۔
  •  جمہوریت کے مغربی تصور کو بلاکم و کاست تسلیم کرتا ہو (یعنی جس طرح کئی مغربی ممالک میں انسانی اقدار کی نفی بلکہ توہین کرنے والی حرام کاریوں کو قانونی جواز بخشا گیا ہے، وہ ان سب کو بھی جمہوری حق قرار دیتا ہو)۔

ان سفارشات میں کئی ایسے سوالات بھی درج کیے گئے ہیں جن کے ذریعے یہ امر یقینی ہوسکتا ہے کہ فلاں شخص واقعی مطلوبہ معیار کا ’روشن خیال‘ ہوگیا یا نہیں۔ مثلاً اس سے پوچھا جائے کہ کیا تم ایک مسلمان کو یہ حق دیتے ہو کہ وہ چاہے تو اپنا مذہب تبدیل کرلے؟ پھر اسی سوال کی آڑ میں اسلام میں مرتد کی سزا کو ’ظالمانہ‘ قرار دینے کا پورا ایجنڈا سامنے آجاتا ہے۔ مختلف مسلم ممالک سے مختلف شخصیات کا تعارف کرواتے ہوئے مطلوبہ ’روشن خیال‘ عناصر کی مثالیں بھی دی گئی ہیں۔    یہ امر یقینا اتفاقیہ نہیں کہ ان میں سے اکثر افراد پر یا تو قرآن کریم کے بارے میں تشکیک کا الزام تھا، جیسے مصری نام نہاد دانش ور نصر ابوزید۔ اس کا قرآن کے بارے میں کہنا تھا کہ: Work of Litrature and a Text that should be subjected to Rational and Scholarly Analysis.  ’’یہ ایک ادب پارہ اور ایک ایسا متن ہے جس کا عقلی جواز اور دانش ورانہ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ یا پھر اس رپورٹ کے ’مثالی روشن خیال‘ ایسے لوگ ہیں کہ جنھوں نے کسی نہ کسی حوالے سے توہینِ رسالت کا ارتکاب کیا تھا۔ اس ضمن میں پاکستان کے ڈاکٹر یونس شیخ کی مثال دی گئی ہے جو ۲۰۰۰ء میں توہین رسالت کے الزام میں گرفتار ہوا اور پھر رہائی پاکر یورپ جاپہنچا۔ یا ایسے افراد ہیں جو اسلام کو صرف ایک معاشرتی یا انفرادی معاملہ قرار دیتے ہوئے دین اور ریاست و حکومت کو جدا جدا رکھنے کا پرچار کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ترک رہنما فتح اللہ گولان اور شامی ’روشن خیال اسکالر‘ محمدشحرور کا مفصل ذکر کیا گیا ہے۔ جو یہ کہتے ہیں کہ: چوںکہ ہر انسان اپنے اعمال کا خود جواب دہ ہے، اور دین کسی پر جبر نہیں کرتا، اس لیے ریاست و حکومت کا دین اور اس کی تعلیمات کے نفاذ میں کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔ ان سفارشات میں ایسے تمام عناصر کو باہم مربوط کرنے کے لیے مختلف عملی اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ انھیں مختلف کانفرنسوں اور اجتماعات میں اکٹھے کرنے کا ذکر ہے۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعے ان کی تشہیر و تعریف کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ نیز ان کی اخلاقی، سیاسی اور مالی مدد کرنے کا مطالبہ و منصوبہ پیش کیا گیا ہے۔

دیگر معاملات کے علاوہ مساوات مردوزن کا مسئلہ بھی خاص طور پر زیر بحث لایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ: The Issue of Women's right is a major battle ground in the war of ideas within Islam ’حقوق نسواں کا مسئلہ خود اسلام کے اندر چھیڑی جانے والی فکری جنگ کا ایک مرکزی میدان ہے‘۔ اسی ضمن میں خاتون کے حق وراثت اور ’اپنی مرضی کی ذاتی زندگی‘ گزارنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ وراثت کے بارے میں بات کرتے ہوئے بعینہ وہ دلائل دیے گئے ہیں کہ جو سابقہ و حالیہ تیونسی صدر یا ان کے ہم نواؤں کی زبان سے ادا ہوتے ہیں۔ یعنی  یہ کہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے زمانے میں حالات کے تقاضے اور ضروریات مختلف تھیں، جب کہ آج کے حالات و ضروریات مختلف ہیں، کہ جب ہر خاتون معاشی زندگی کا فعال حصہ بن چکی ہے۔ نہ جانے ان عالمی پالیسی سازوں کو یہ کیوں معلوم نہیں ہوسکا کہ اس وقت بھی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا جیسی کامیاب تجارت کرنے والی عظیم خاتون موجود تھیں اور آج بھی کسی مسلم خاتون کی تجارت و محنت پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ خالق کائنات کی خواتین پر رحمت تو یہ ہے کہ تب بھی کسی خاتون پر کسی طرح کا مالی و معاشی بوجھ نہیں ڈالا گیا تھا اور آج بھی ایک خاتون کی زندگی کے ہر مرحلے میں اس کے معاشی حقوق اس کے خاندان ہی کے ذمے ہیں۔ یہ تو مغربی تہذیب ہے کہ شوہر اپنی بیگم اور بیٹے اور اپنی ماں تک کی معاشی ذمہ داری اُٹھانے سے انکار کردیتے ہیں۔ مقصد چوں کہ اسلام پر حملہ آور ہونا ہے، اس لیے خواتین پر ظلم جیسے یہ بے بنیاد الزامات مسلسل دہرائے جاتے رہیں گے۔

گذشتہ عرصے میں اس عالمی ایجنڈے اور پروپیگنڈے کی باز گشت اس لیے بھی زیادہ رہی کہ ایک ہی طرح کی بات بیک وقت کئی ممالک سے سنائی دی جانے لگی۔ اس کا ایک اندازہ آپ کو معروف سعودی تجزیہ نگار جمال خاشقجی کے کالم ’سیکولرزم کی دکان‘ سے لیے گئے ان چند جملوں سے ہوسکتا ہے۔ واضح رہے کہ جمال خاشقجی کا تعلق اعلیٰ ترین سرکاری حلقوں سے رہتا ہے۔ ارب پتی سعودی شہزادے ولید بن طلال نے جب اپنا بڑا ٹی وی چینل کھولنے کا ارادہ کیا تھا تو انھیں ہی اس کا سربراہ بنایا  تھا۔ سعودی انٹیلی جنس کے سابق سربراہ اور شاہ فیصل مرحوم کے صاحبزادے ترکی الفیصل نے جب افغانستان اور خطے کے بارے میں کئی قسطوں پر مشتمل اپنے تہلکہ خیز انٹرویو نشر کروائے تو    وہ انٹرویو بھی جمال ہی نے کیے۔ اپنے تازہ کالم میں وہ لکھتے ہیں: ’’سیکولرزم کوئی دکان نہیں کہ ہم میں سے کوئی وہاں جائے، سامان کا جائزہ لے اور اپنی مرضی کی ایک دو چیزیں خرید کر باقی سب کچھ وہیں چھوڑ کر آجائے، لیکن ہمارے بعض ساتھی سیکولرزم کو ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ ہمارے اخبارات میں اچانک سیکولرزم کے فضائل و محاسن بیان کرنے کا مقابلہ شروع ہوگیا ہے۔ ایسا کرنے والے لوگ سیکولرزم کو ہمارے اس نظام میں شامل کرنا چاہتے ہیں جو اپنے مزاج و ترکیب کے اعتبار سے بالکل مختلف ہے۔ مملکت سعودی عرب اپنے اساسی نظام حکومت کے اعتبار سے ایک اسلامی ریاست ہے۔ اس میں آپ یہ تو کرسکتے ہیں کہ اسلام کی حقیقی تعلیمات کو سمجھنے کی مزید کوشش کریں۔ لیکن اگر آپ اس کے وجود اور بقا و تسلسل کی بنیاد ہی تبدیل کرنا چاہیں تو یہ ایک بہت بڑا خطرہ ہوگا‘‘۔

اس سے پہلے امریکا میں متحدہ عرب امارات کے سفیر یوسف العتیبہ کا ایک امریکی ٹی وی PBS  سے انٹرویو بہت مشہور ہوا جس میں اس نے قطر کے ساتھ اختلافات کے سبب بتاتے ہوئے واضح طور پر کہا تھا کہ ’’اگر آپ امارات، سعودیہ، اُردن، مصر اور بحرین سے پوچھیں کہ وہ آج سے دس سال بعد کس طرح کا مشرق وسطیٰ چاہتے ہیں، تو ان کا جواب قطر کے جواب سے بالکل مختلف ہوگا۔ ہم علاقے میں ’سیکولر‘ اور ترقی یافتہ حکومتیں چاہتے ہیں۔ لیکن اگر گذشتہ ۱۵ سال میں قطر کی پالیسیاں دیکھیں تو وہ الاخوان المسلمون، حماس، طالبان، شام کی مسلح تنظیموں اور لیبیا کی مسلح تنظیموں کی مدد کررہا ہے۔ یہ ہماری ان تمام پالیسیوں کے بالکل برعکس ہے جن کے بارے میں ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے خطے کو ان کی طرف بڑھنا چاہیے‘‘۔ اب ایک طرف ان صدارتی فرمانوں، انٹرویووں، ابلاغیاتی جنگوں اور سوشل میڈیا پر ہونے والی لڑائیوں کو دیکھیں اور دوسری جانب امریکی پالیسی ساز اداروں میں ہونے والی بحثوں کو دیکھیں، جن میں مسلم ممالک کے نصاب تعلیم کے بارے میں اظہار تشویش کیا جارہا ہے۔ مثلاً کچھ عرصہ قبل امریکی کانگریس میں ہونے والی بحث کے یہ الفاظ ملاحظہ فرمائیں کہ: ’’سعودی عرب کا اپنے نصاب تعلیم میں سے وہ تمام حصے حذف کرنا کہ جو انتہاپسندی کی تعلیم دیتے ہیں، صرف ایک درست اقدام ہی نہیں، ہماری قومی سلامتی کا جزو ہے۔ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ اس کے بغیر نہیں جیتی جاسکتی۔ گذشتہ مئی میں ہم نے انھیں ایک طویل فہرست ان عبارتوں کی پیش کی ہے، جو انتہا پسندی کی تعلیم دیتی ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ سال ۱۷ -۲۰۱۶ءکی نصابی کتب میں بھی ان تمام اقدامات پر موت کی سزا کی تعلیم دی جارہی ہے جنھیں امریکی قانون شخصی آزادی قرار دیتا ہے۔ مثلاً زنا، اور اسلام کا مذہب ترک کرنا (مرتد ہونا) وغیرہ… اسی طرح یہ کتب مسیحیت اور یہودیت بالخصوص صہیونیت کے خلاف بات کرتی ہیں۔ ان میں لکھا گیا ہے کہ مسیحیت ایک تحریف شدہ دین ہے… ان کتابوں میں ایسی قرآنی آیات پڑھائی جاتی ہیں کہ (اے اہل ایمان یہود و نصاریٰ کو اپنے جگری دوست نہ بناؤ۔ وہ ایک دوسرے کے مددگار ہیں)۔ ان تمام چیزوں کو نصاب سے خارج کرنا ہوگا‘‘۔

امریکی کانگریس کے ایک اور سیشن میں سعودی خواتین میں تبدیلی کی ضرورت پر براہِ راست بحث کی گئی۔ سوال کیا گیا کہ کیا سعودی عرب میں دینی آزادی اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے پائی جانے والی صورت حال، حقوق انسانی کی صریح خلاف ورزی نہیں ہے؟ کانگریس کمیٹی کے سامنے اس کا جواب دیتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ ٹیلرسن نے کہا: ’’سعودی عرب اور امریکا کی اقدار یقینا مختلف ہیں، لیکن خطے میں امریکی مفادات سعودیہ کو مسلسل اس بات پر اُبھار رہے ہیں کہ وہ ان انسانی حقوق کا احترام کریں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ گذشتہ عرصے میں اس سلسلے میں بہت سارا سفر طے ہوچکا ہے‘‘۔

یہی امریکی وزیر نصابی اور دینی کتب کے بارے میں کہتے ہیں کہ: ’’ریاض کانفرنس کہ جس میں دہشت گردی کے خلاف مرکز قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے کے بعد، نئی نصابی کتب تیار کی جارہی ہیں جو تمام مدارس اور دنیا بھر کی مساجد میں بھی عام کی جائیں گی۔ یہ کتب ان پرانی کتابوں کی جگہ لیں گی، جن میں ’متعصب وہابی‘ تعلیمات دی جاتی تھیں اور جن میں تشدد کا جواز فراہم کیا جاتا تھا۔ ہم نے صرف نئی کتب متعارف کروانے کا ہی نہیں، پرانی کتابیں اُٹھالینے کا بھی مطالبہ کیا ہے‘‘۔ وزیر موصوف کا مزید کہنا تھا کہ: ’’یہ تو صرف ایک مثال ہے وگرنہ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ میڈیا او رسوشل میڈیا کے ذریعے بات کیسے پھیلانا ہے؟ نوجوان ائمہ مساجد کو کیسے اور کیا تربیت دینا ہے؟ یہ وہ تمام اُمور ہیں جو امریکی وزارت خارجہ سعودی عرب اور دیگر مسلم ممالک کے ذریعے انجام دے رہی ہے اور جس پر ہم خود کو جواب دہ سمجھتے ہیں‘‘۔

                ایک طرف ان تمام عالمی منصوبوں، سازشوں اور ان پر عمل درآمد کو دیکھیں اور دوسری طرف اپنی غفلت کی جانب نگاہ دوڑائیں کہ ہم اپنی تباہی سامنے دیکھ کر بھی اس سے بچنے کی کوئی فکر نہیں کررہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن جو دام بچھانا چاہتے ہیں ہم خود آگے بڑھ کر اس کا کام آسان کرنے لگ جاتے ہیں۔ تاہم، ایک ابدی حقیقت جو اپنوں پرایوں سب کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی ہیں۔ قرآن کریم آخری کتاب ہے اور قرآن و سنت پر مبنی دین حنیف نہ صرف قیامت تک ہر تحریف و ہزیمت سے پاک رہنا ہے بلکہ اسے بہرصورت غالب ہوکر رہنا ہے۔ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں: ’’عزت مندوں کی عزت میں اضافہ کرتے ہوئے اور ذلیلوں کو مزید ذلیل کرتے ہوئے‘‘۔

ہر سال ۴ستمبر پوری دنیا میں ’عالمی یوم حجاب‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کا انعقاد فرانس میں حجاب پر پابندی کے بعد لندن میں ۲۰۰۴ء میں ایک کانفرنس کے موقعے پر عالم اسلام کے ممتاز رہنمائوں نے طے کیا تھا، جس کی قیادت علامہ یوسف القرضاوی کرر ہے تھے۔

اس کا پس منظر یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد اسلام اور مسلمانوں کے مذہبی شعائر کے خلاف مغربی میڈیا کا تعصب بڑھتا ہی جارہا ہے۔ حجاب کے خلاف کہیں پارلیمنٹ میں قانون سازی ہورہی ہے تو کہیں جرمانے عائد کیے جارہے ہیں۔ ان شعائر کو جو اسلامی تہذیب کی علامات ہیں: انتہا پسندی، قدامت پرستی اور دہشت گردی سے جوڑا جارہا ہے۔ فرانس، ہالینڈ، ڈنمارک، بلجیم اور اٹلی حجاب پر پابندی عائد کرچکے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل سابق فرانسیسی وزیر برنر سٹازے کی زیرصدارت کمیٹی نے تمام سرکاری اداروں میں حجاب پر پابندی لگاتے ہوئے کہا: ’’ہم کوئی بھی دینی علامت لے کر تعلیمی اداروں میں آنے کی اجازت نہیں دے سکتے چاہے وہ حجاب ہو یا صلیب کا نشان ہو یایہودی ٹوپی ’کیپا‘‘‘، جب کہ مسلم ملک تیونس کے صدر نے برملا کہا کہ ’’حجاب میں جارحیت کی جھلک دکھائی دیتی ہے‘‘۔

مشاہدے کی بات ہے کہ سیکورٹی فورسز کا ایک ملازم یہ چاہتا ہے کہ اس کے لباس سے لوگ اندازہ کرلیں کہ وہ قانون کا محافظ ہے، ایک عیسائی نن کے لباس یا ڈاکٹر کے سفید کوٹ سے لوگ ان کے کردار کی شناخت کرلیں۔ بالکل اسی طرح ایک مسلمان عورت کاساتر لباس یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ چاہتی ہے کہ لوگ اس کے ساتھ احترام کے ساتھ پیش آئیں، تو پھر یہ حجاب ان کی نظر میں تشدد کی علامت کیسے ہوگیا؟

  • طرفہ تماشہ: طرفہ تماشا دیکھیے کہ جو معاشرے تیراکی کے مختصر لباس (bikini) کو انتہاپسندی اور اپنے کلچر کے لیے خطرہ نہیں سمجھتے ،وہ ایک مختصر سے کپڑے سے سر ڈھانپنے کو انتہاپسندی گردانتے ہیں۔ اگر مختصر ترین اسکرٹ اور بلائوز کسی عورت کا انسانی حق ہوسکتا ہے تو حجاب بھی انسانی حق ہے۔ لیکن حجاب کو مغرب میں ایسا ظلم قرار دیا جاتا ہے، جو گویا کہ مردوں کی طرف سے عورتوں پر مسلط کیا گیا ہو۔ پھر حجاب کو بنیاد پرستی سے جوڑ کر عورتوں پر تعلیمی اداروں اور ملازمتوں کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور اگر وہ شدید اصرار کریں تو ان کو جیل تک بھیج دیا جاتا ہے۔

ایک اور ظلم یہ کہ آزادیِ افکار کا راگ الاپنے والے معاشرے مسلمانوں کو حجاب کے حوالے سے اپنا موقف پیش کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتے۔ جب بھی حجاب کی وجہ سے مسلمانوں سے امتیازی سلوک کی شکایت کی جاتی ہے، تو جواب میں ایک ایسا پروپیگنڈا شروع کردیا جاتا ہے کہ جس میں دنیا کے سارے جرائم اور تشدد کو مسلمانوں سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ خود کو انسانی حقوق کا چیمپئن گرداننے والے یہ مغربی انتہاپسند، مسلمان عورت کو گز بھر کپڑا سر پر رکھنے کی اجازت دینے کو تیار نہیں، جب کہ حجاب صرف عورتوں ہی کی ضرورت نہیں بلکہ معاشرے کو بھی پاکیزہ بناتا ہے۔ جس طرح عریانی اور فحاشی کے معاشرے پر اثرات ہوتے ہیں اس طرح حجاب کے بھی معاشرے پر گہرے مثبت اثرات ہوتے ہیں۔ لیکن چاہے حجاب ہو یا داڑھی، ان کو بلاجواز متنازعہ بناکر ان پر پابندیاں لگائی اور طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں باحجاب طالبات کی تضحیک کی جاتی ہے اور ان کے اسکارف اتروائے جاتے ہیں۔ مغربی ممالک میں رہنے والے مسلمان ان متعصب رویوں اور امتیازی قوانین کی وجہ سے بہت سے مسائل سے دوچار ہیں۔

  •  مغرب کا المیہ: دوسری طرف مغربی معاشروں میں فکری وجنسی بدراہی (perversion) نے ان کے خاندانی نظام کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ ان کی نوجوان نسلیں شدید فرسٹریشن کا شکار ہیں اور اکثریت ذہنی سکون کے لیے منشیات کا سہارا لیتی ہے۔ لیکن اپنی مادی قوت کے سہارے وہ اپنی اس بے لگام تہذیب کو جبری طور پر دنیا پر غالب دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے مسلمانوں کا خاندانی نظام اور پاکیزہ اقدار ان کا خاص ہدف ہیں۔ ہمارے خاندانی نظام اور نظامِ عفت وعصمت کا شیرازہ بکھیرنے کے لیے وہ یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ اسلامی قوانین میں عورتوں پر زیادتیاں کی گئی ہیں۔ حجاب اور پردے کے ذریعے انھیں گویا پابند اور غلام رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مسلمان خواتین کو سازشوں کے ذریعے اکسایا جاتا ہے کہ ان پابندیوں کو توڑ کر ہی تمھیں آزادی نصیب ہوگی۔ حالانکہ ان پابندیوں کو توڑنے کا انجام خود ان کے ہاں بے راہ روی اور خاندانی نظام کی تباہی اور معاشرتی انتشار کی صورت میں سامنے آچکا ہے ۔ خاندانی نظام کھو کر اور رشتوں کا تقدس پامال کر کے وہ ایسی دلدل میں دھنس چکے ہیں جہاں سے نکلنے کی کوئی صورت انھیں نظر نہیں آتی۔
  •  لاتعلقی کا رویّہ کیوں؟ مسلمان اس مسئلے سے لاتعلق کیسے رہ سکتے ہیں؟ جب ریاست کے قوانین ہر ایک کو مذہبی آزادی کی اجازت دیتے ہیں تو پھر مسلمان اس سے مستثنیٰ کیوں ہوں؟ اگر اسکارف پر کہیں پابندی عائد کی جاتی ہے تو کیا عورتوں کو اسکارف اتار دینا چاہیے؟ یا گھروں میں قید ہو جانا چاہیے؟نہیں، انھیں انسانی حق کے لیے آواز اٹھانا چاہیے اور اس پابندی کے خلاف دلیل کی بنیاد پر مقدمہ پیش کرنا چاہیے۔ کیا ہمارے اہلِ اقتدار اور اہلِ دین و دانش نے کبھی سوچا کہ ہم اتنے کمزور کیوں ہیں کہ ہر کسی کے لیے ہمارے حق پر ڈاکا ڈالنا آسان ہوگیا ہے؟

ہمیں اس چیلنج کو سمجھنا ہوگا کہ مسلمان خاندان اور ان کے اسلامی شعائر، سامراج کی نظروں میں کھٹکتے ہیں اور دنیا بھر میں استحصالی قوتیں مسلمان عورت کے اس بنیادی حق کو سیکولر ازم کے بالمقابل دہشت گردی کی علامت کے طور پر پیش کررہی ہیں۔ باحجاب مسلمان عورت، مغرب یا مغرب زدہ لوگوں کی نظر میں ’پس ماندہ اور فرسودہ‘ ہے، جب کہ اس کے برعکس یہی مسلمان عورت حجاب میں خود کو زیادہ محفوظ اور باوقار محسوس کرتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان عورت کو حجاب نے کبھی صحت مند معاشرتی کردار ادا کرنے سے نہیں روکا۔

  • حجاب پسماندگی یا آزادی؟:اب مسلمان عورت کے سر پر اسکارف، آزادی کی توانا علامت اور مسلم شناخت کا احساس بن کر اُبھر رہا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ :

                oحجاب، عورت کو تقدس ہی نہیں تحفظ بھی عطا کرتا ہے۔ یہ شیطان اور اس کے حواریوں کی ناپاک نظروں سے بچنے کے لیے ایک محفوظ قلعہ ہے۔

                oجب عورت پردہ اتار دیتی ہے تو اس کی مثال فوج کے اس سپاہی جیسی ہوتی ہے، جو میدان جنگ میں اپنے ہتھیار پھینک دے اور خود کو دشمن کے حوالے کردے۔ کیوں کہ پردہ مسلمان عورت کی ڈھال ہے۔

                oایک مسلمان عورت کے لیے یہ ایمان کے بعد خوب صورت ترین تحفہ ہے، جو معاشرے سے بے حیائی کی جڑ کاٹ کر اس کی نسلوں کو پاکیزہ ماحول مہیا کرتا ہے۔

                oحجاب، عورت کو ظاہری نمود ونمایش اور غیر ضروری اخراجات سے روکتا ہے اور سادگی سکھاتا ہے۔

                oشرم وحیا، عورت کا سب سے بڑا زیور ہے اور اس قیمتی زیور کی حفاظت پردے کے بغیر ممکن نہیں۔

                oایک باحجاب عورت بلاضرورت گھر سے باہر نکلنے سے گریز کرتی ہے۔ اس طرح وہ اپنے گھریلو فرائض کے لیے زیادہ وقت نکال سکتی ہے۔ یہی وہ عمل ہے جس کو اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کا جہاد کہا ہے۔

                oایک باحجاب عورت خود کو محفوظ سمجھتی ہے، اور اسے معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

                oوہ ماحول کی آلودگی اور موسم کی شدتوں سے دیگر خواتین کی بہ نسبت زیادہ محفوظ ہوتی ہے۔

                oایسی عورتوں پر لعنت کی گئی ہے جو لباس پہن کر بھی ننگی رہتی ہیں اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق وہ جنت کی خوشبو تک نہ پاسکیں گی۔

  •  حجاب اور شاعر مشرق: علامہ محمد اقبالؒ عورت کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں  ؎

بتولےؓ باش و پنہاں شو ازیں عصر

کہ در آغوش شبیرےؓ بگیری

[ارمغانِ حجاز]

سیّدہ فاطمۃ الزہرا [بتول] بن جائو، اور اس زمانے کی نظروں سے چھپ جائو کہ تمھاری گود میں ایک شبیرؓ پرورش پاسکے۔

ان کے خیال میں اللہ تعالیٰ کو یہ حجاب اور پردے کی صفت اتنی محبوب ہے کہ ہر تخلیق کرنے والی ہستی کو اپنی طرح حجاب میں رہنے کا پابند بناتا ہے، تاکہ وہ اپنی تخلیق کی بہتر حفاظت اور پرورش کرسکے۔ چنانچہ ایک شعر میں فرماتے ہیں   ؎

حفظِ ہر نقش آفریں از خلوت است

خاتمِ اُورانگین از خلوت است

[جاوید نامہ]

ہر نقش آفریں کی حفاظت خلوت سے ہے، اورخلوت ہی اس کی انگوٹھی کا نگینہ ہے۔

مراد یہ ہے کہ آفاق کے سارے ہنگامے پر نظر ڈالو۔ تخلیق کرنے والی ہستی کو جلوت کے ہنگاموں کی تکلیف نہ دو۔ اس لیے کہ ہر تخلیق کی حفاظت کے لیے خلوت کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے صدف کا موتی خلوت میں جنم لیتا ہے۔

پھر فرماتے ہیں[ارمغانِ حجاز]  :

بہل اے دخترک ایں دلبری ہا

مسلماں را نہ زیبدکافری ہا

منہ دل بر جمالِ غازہ پرورد

بیاموز از نگہ غارت گری ہا

اے میری پیاری بیٹی، دلبری (آرایش وزیبایش) کے انداز چھوڑ دو کہ مسلمانوں کو یہ کافرانہ ادائیں زیب نہیں دیتیں ۔(یعنی، اس مصنوعی آرایش وغازے کی سرخی کو چھوڑ کر کردار کی طاقت سے دلوں کو مسخر کرنا سیکھو)۔

ایک ایسے وقت میں، جب کہ اقبال کی شاعری کو بطور فیشن ہر مقرر اپنی تقریر کی زینت بنارہا ہے ہمیں اُن کی شاعری کے اصل پیغام کو سمجھنا اور اُس پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔

ہمیں کیا کرنا ہے؟

                oہمیں مغرب کے منافقانہ طرز عمل کے خلاف ہر سطح پر آواز اٹھانا چاہیے اور دنیا بھر میں پردے اور حجاب کی بنیاد پر امتیازی سلوک یا تعصب کا نشانہ بننے والی خواتین کے ساتھ اظہار یک جہتی کرنا چاہیے۔

                oمیڈیا اور کاروباری ادارے جس طرح عورت کی خوب صورتی کو تجارتی اور گھٹیاتشہیری مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، یہ عورت کی توہین ہے۔ خود خواتین کی جانب سے اس کی مذمت اور مخالفت کی جانی چاہیے۔

                oمعاشرے میں حیا کے چلن کے فروغ کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے، جس کے لیے قرآن وسنت دونوں اصناف (مردوں اور عورتوں) کو واضح ہدایات دیتے ہیں۔

                oمعاشرے میں عورت کے اس تحفظ اور احترام کو یقینی بنانا چاہیے، جس کی بنیاد پر ہم اسلام اور مسلمانوں کو مغرب سے بہتر سمجھتے ہیں اور اس برتری کو ثابت بھی کرتے ہیں۔

                oمغربی اور بھارتی فلمی کلچر کے اثرات کے باعث عورتوں کو عریانیت کی طرف لانے والے عوامل کی اصلاح کرنی چاہیے۔

                oیہ بتانا چاہیے کہ حجاب نہ صرف دل اور آنکھ کا ہے اور نہ صرف اُوڑھے ہوئے برقعے، چادر یا اسکارف کا، بلکہ آنکھ اور دل بھی ان کے ہم رکاب ہونے چاہییں۔

                m            ۴ستمبر یوم حجاب کے طور پر منایا جاتا ہے [یہ دن تو ایک علامت ہے، وگرنہ ایک مسلمان کے لیے ہر روز، ’یومِ حجاب‘ ہے]۔اس موقعے پر ہم اس بات کا عزم کریں کہ حجاب محض سر لپیٹنے کا نام نہیں ہے بلکہ ہمیں اپنے پورے معاشرے کو شیطان اور اس کے چیلوں سے آزادی دلانی ہے۔ یہ نظام شیطانی اخلاق سے آزادی حاصل کرنے اور اپنے معاشرے اور اپنے خاندان کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے کا نظام ہے۔

                oحجاب ایک تحریک ہے، چادر بتولؓ اور یادگارِ فاطمہؓ و عائشہؓ ہے۔ بس یہی ایک ذریعہ ہے جس سے ہم اپنے معاشرے اور مستقبل کا تحفظ کرسکتے ہیں اور اپنے پیچھے ایک پاکیزہ نسلِ انسانی کو چھوڑ کر جاسکتے ہیں۔

                oاپنے بہترین خاندانی نظام اور اقدار کی حفاظت وقدردانی کریں اور اپنی نسلوں کی تربیت قرآن وسنت کی روشنی میں کریں تاکہ حیا کا کلچر پروان چڑھے۔

عورت ہی تہذیب کی عمارت کا ستون ہے۔ وہ مایوسیوں میں اُمید کے چراغ کو روشن کرتی ہے۔ اپنے خون جگر سے ایک بے جان لوتھڑے کو انسان بناتی ہے۔ وہ ایک روشن مشعل کی طرح اندھیروں سے لڑبھڑ جانے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ کبھی نہ بجھنے والے چراغ کی مانند نسلِ نو کی رہنمائی کرتی ہے۔ اُس کی پکار ہمیشہ محبت کی پکار ہوتی ہے۔ اُس کی صدا زندگی کا پیام بن کر صدیوں سے راہیں منور کررہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اُس کی ردا اُسے لوٹانے میں اپنا حصہ ڈالیں۔

کسی قوم، معاشرے یا اجتماعیت پر اللہ تعالیٰ کا یہ فضل و احسان ہوتا ہے کہ اس میں اصحابِ علم و دانش کی فراوانی ہوتی ہے اور ارباب تدبر و تفکر کا وجود پایا جاتا ہے۔ لیکن اگر کسی اجتماعیت میں یہ جنس گراں مایہ کم ہو یا موجود ہی نہ ہو، تو سمجھ لیجیے کہ اس کی اُلٹی گنتی شروع ہوچکی ہے، چاہے ظاہربین نظریں اس کی شان و شوکت، ہائوہو اور کثرتِ تعداد سے کتنا ہی دھوکا کھا بیٹھیں۔

مسلم اُمہ کے لیے عام طور پر اور اسلامی تحریک ِ احیاے اسلام کے لیے خاص طور پر ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری ایسی ہی سرمایۂ ملّت ہستی تھی۔ ایک صاحب ِ علم و فضل اور تحریک ِ پاکستان سے وابستہ عظیم شخصیت مولانا ظفراحمد انصاری صاحب کے ہاں پیدا ہوئے۔ لڑکپن میں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان سے وابستہ ہوئے، اور اس تنظیم کی علمی، فکری اور تہذیبی تشکیل کا بنیادی کردار ادا کرنے والی سہ رکنی ٹیم (دو ارکان خرم مراد اور خورشیداحمد) میں کارہاے نمایاں انجام دیے۔ جمعیت کا انگریزی ترجمان Student's Voice درحقیقت خورشیداحمد صاحب اور ظفرصاحب کی رفاقت کا چشمۂ فیض تھا۔ اسی عرصے میں جناب خرم مراد، جمعیت کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے تو جمعیت کے دستور کی تدوین و تشکیل کا بنیادی کام بڑی جاں کاہی کے ساتھ اسی سہ رکنی ٹیم نے انجام دیا۔

 ظفراسحاق تعلیم مکمل کرکے تدریس اور تحقیق سے وابستہ ہوئے۔ گیارہ برس کراچی یونی ورسٹی میں پڑھایا، ڈاکٹریٹ کے لیے میک گل یونی ورسٹی کینیڈا گئے اور پھر تدریس و تحقیق کے لیے بیرونِ ملک بھی خدمات انجام دیں۔ دل و جان، فکروخیال اور مال و حال کی دولت لیے زندگی کی آخری ساعت تک تحریک ِ اسلامی کا حصہ بنے رہے۔ تاہم، اس مقصد کے لیے انھوں نے اپنا میدانِ کار، جلسہ اور جلوس کے بجاے تعلیم، تربیت، تحقیق اور رابطے کو اپنی توجہات کا مرکز بنایا اور پوری زندگی اسی مورچے پر ڈٹے رہے اور اسی عالم میں ۲۴؍اپریل ۲۰۱۶ء کو رحلت فرمائی، انا للّٰہ  وانا الیہ راجعون۔

ماہ نامہ تعمیرافکار، کراچی کے مدیر جناب سیّد عزیز الرحمٰن شکریے کے مستحق ہیں کہ انھوں نے قارئین کو ایسی دل کش، علم پرور او ر تہذیب و شائستگی سے مملو شخصیت سے متعارف کرانے کے لیے یہ اشاعت ِ خاص پیش کی ہے۔ وہ آغاز میں لکھتے ہیں: ’’یہ اشاعت دراصل ڈاکٹر صاحب کو ایک طالب علمانہ خراجِ عقیدت ہے، اور بس۔ گزرنے والوں کو یاد رکھنا اور بھول جانے والوں کو  ان گزرے ہوئوں کی یاد دلاتے رہنا… اور کسی اِدعا کے بغیر یہ خدمت انجام دینا، اس اشاعت [کا مقصد] ہے… حضرت ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمات کا دائرہ وسیع بھی تھا اور متنوع بھی۔ ہم اس کا احاطہ تو کیا، سرسری تذکرہ بھی نہیں کرسکے۔ یہ صرف ابتدائی نوعیت کا یادنامہ ہے‘‘(ص۹)۔ ہمارے خیال میں یہ سرسری تذکرہ نہیں بلکہ بے قدری اور مردم ناشناسی کے سنگین ماحول میں، ایک بھرپور خراجِ عقیدت ہے، جس پر جناب عزیز الرحمٰن مبارک باد کے مستحق ہیں۔

یہ خصوصی شمارہ جناب ظفر اسحاق انصاریؒ کی یاد میں مطبوعہ اور کچھ غیرمطبوعہ مضامین کے علاوہ ان کی چند تحریروں، کچھ دیباچوں اور خطوط پر مشتمل ہے۔ مشمولہ مضامین کی خوشبو کا رچائو، شخصی خوبیوں کے اعتراف کا بہائو اور ایک رشکِ دوراں شخصیت کی اُلفت، قاری کے ہم رکاب ہوتی ہے۔ ان احوال و آثار پر مشتمل ۲۸مضامین میں سے چند اقتباسات مطالعے کے لیے حاضر ہیں:

ظفرصاحب کے ۶۷ برس کے رفیق لبیب، پروفیسر خورشید احمد کہتے ہیں:  ’’راجا بھائی [ظفراسحاق] اور خرم بھائی، تحریکِ اسلامی میں میرے پیش رو ہی نہیں بلکہ راستہ دکھانے والے بھی تھے۔خرم بھائی کو قرآن سے عشق تھا اور راجا بھائی سیاست اور اجتماعی علوم پر گہری نظر رکھتے تھے۔ جب وہ بی اے کے طالب علم تھے، اس وقت کراچی کے ایک روزنامے کی عملاً ادارت کے فرائض انجام دیتے تھے‘‘ (ص ۴۸)۔ ڈاکٹرسیّد سلمان ندوی نے بتایا ہے: ’’وہ مجلسی آدمی نہیں تھے، لیکن علمی راے پیش کرنے اور مدلل گفتگو کا عمدہ سلیقہ رکھتے تھے۔ انھوں نے تفہیم القرآن کا انگریزی ترجمہ کیا… [جو] قرآنِ کریم کے چند بہترین انگریزی ترجموں میں سے ایک ہے‘‘ (ص ۳۹، ۴۰)۔ پروفیسر خورشید احمد کے بقول: ’’مولانا مودودی نے ترجمۂ قرآن، اُردوے مبین میں کیا تھا، اور ظفراسحاق نے اسے انگریزیِ مبین میں ڈھال دیا، جو ایک سدابہار یادگاری کارنامہ ہے‘‘۔ (ص ۵۱)

طبعی طور پر: ’’[ظفرصاحب] ان چند افراد میں سے ایک تھے، جو اکثر و بیش تر وقت، کسی گہری سوچ بچار اور اسے احاطۂ تحریر میں لانے میں صرف فرماتے ہیں اور دنیا سے چلے جانے کے بعد اپنا سرمایۂ تحریر، صدقۂ جاریہ کے طور پر چھوڑ جاتے ہیں‘‘ (ڈاکٹر حافظ افتخار احمد،ص ۲۵)۔   ایک کرم فرما کہتے ہیں: ’’ان کی دل چسپی صرف فقہی احکام تک محدود نہیں تھی، وہ دین کے تمام بنیادی تصورات کو قرآنی تعلیمات کی روشنی میں سمجھنا چاہتے تھے‘‘ (ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی، ص ۷۲)۔  سچی بات یہ ہے کہ: ’’انصاری صاحب کا شمار اہلِ علم کے قبیلے کے ان معدودے چند افراد میں ہوتا ہے، جو جدید مغربی علوم اور افکار و علومِ اسلامی دونوں پر یکساں دسترس رکھتے ہیں‘‘ (احمد حاطب صدیقی، ص ۱۴۸)۔ اسی طرح مفتی محمد زاہد بیان کرتے ہیں: ’’ان کے انہماکِ علمی کا اندازہ تو ان کے علمی و تحقیقی کام کی وسعت اور گہرائی سے لگایا جاسکتا ہے… ایک طرف تو علم و تحقیق میں فنائیت کی حدتک پہنچا ہوا   یہ انہماک، دوسری طرف ملنساری اور خوش خلقی ایسی کہ اس علمی انہماک نے خشکی نام کی کوئی چیز ان [کے مزاج] میں پیدا نہیں ہونے دی‘‘ (ص ۸۳)۔ پھر یہ کہ: ’’وہ زندگی کے آخری لمحات تک علمی کام کرتے اور دوسروں کو علمی کام پر [لگاتے] رہے۔ شدید بیماری کے زمانے میں بھی انھوں نے علمی کام مکمل کیے‘‘۔ (علی طارق، ص ۱۵۹)

کتب کی ترتیب و تدوین میں انھوں نے زندگی کا بڑا حصہ صرف کر دیا، یعنی دوسروں کی تحریروں کے معیار کو بلند تر بنانے کے لیے انتہا درجے تک محویت اور لگن کی راہ اپنائی۔ نصیراحمد سلیمی بتاتے ہیں: ’’کتب کی ایڈیٹنگ میں ان جیسی محنت کرنے والا خوش ذوق شاید ہی کوئی ہوگا۔ وہ ایک کتاب کے مسودے پر اتنی بار نظرثانی کرتے کہ اصل متن نظروں سے اوجھل ہوجاتا۔ ان کی ایڈیٹنگ کے ساتھ چھپنے والی کتب پر مختلف مصنّفین کے نام لکھے ہیں، لیکن حقیقت میں مصنّف کہلانے کے حق دار انصاری صاحب ہی تھے‘‘۔ (ص ۱۰۸)

خود میرا بھی ایک تجربہ ہے۔ یہ ۱۹۷۷ء کی بات ہے۔ میں نے ذاتی شوق کے تحت جمعیت کے ناظم اعلیٰ عبدالملک مجاہد صاحب سے اجازت لی، اور اسلامی جمعیت طلبہ کے دستور کا انگریزی ترجمہ کرنے کے لیے پروفیسر عبدالحمد صدیقی صاحب سے درخواست کی۔ انھوں نے علالت کے باعث انگریزی کے ایک پروفیسر صاحب کو یہ کام سونپ دیا۔ جوں ہی ترجمہ ہاتھ میں آیا،تو میں نے زندگی میں پہلی بار تخاطب کا اعزاز حاصل کرتے ہوئے ازراہِ احتیاط وہ ترجمہ انصاری صاحب کو سعودی عرب بھیج دیا۔ پھر کیا تھا، جناب! انھوں نے مذکورہ ترجمے کی ایک ایک سطر ادھیڑ کر رکھ دی۔ سارا ترجمہ جگہ جگہ سے تبدیل کر کے واپس بھیجا۔ میں نے کمپوز کرایا تو خط آیا: ’’جوں ہی پروف نکلیں دوبارہ بھیجیں‘‘۔ ایک بار بھیجا اور پھر دوبارہ، سہ بارہ بھیجا، قصّہ کوتاہ ڈیڑھ سال میں آٹھ پروف انھوں نے ٹھیک کرکر کے واپس بھیجے۔ شائع ہونے کے بعد اپنی دل چسپی کے لیے میںنے بنیادی مسودے کے ساتھ موازنہ کیا تو سواے دفعات کی گنتی اور جمعیت کے نام کے، ہر چیز تبدیل تھی۔ یہ محنت، یہ توجہ، یہ جز رسی اور ایسی ذمہ داری کہ مثال پیش کرنا ممکن نہیں۔

تہذیبی ترفع ظفرصاحب کی شخصیت کا امتیازی پہلو تھا: ’’سلام میں پہل، مسکرا کر ملنا، محبت سے مصافحہ اور تمام متعلقین کے حال اَحوال دریافت کرنا ان کی مخصوص عادتیں تھیں…ایک مرتبہ جب وہ بہ طور صدرِ جامعہ (بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی) فرائض انجام دے رہے تھے، اطلاع ملی کہ طلبہ کے احتجاجی جلوس میں مخلوط ماحول دیکھنے میں آیا ہے۔ جس کا انھوں نے فوری نوٹس لیا اور سختی سے ہدایت کی کہ آیندہ اس قسم کا ماحول جامعہ میں برداشت نہیں کیا جائے گا‘‘ (ڈاکٹر سہیل حسن، ص۷۹)۔ اور یہ کہ: ’’ڈاکٹر صاحب بلاشبہہ ایسے خوش نصیبوں میں سے تھے، جو حق کو دائرۂ شعور کا زندہ مرکز بنا لیتے ہیں اور خیر کو دائرۂ وجود کا… بارہا دیکھا کہ کسی نے منہ پر ان کی تعریف کرنے کی کوشش کی تو انھوں نے ابتدائی فقرہ بھی پورا نہ ہونے دیا۔اپنی مدح سننے سے گریز کا یہ عمل رسمی عاجزی کے ساتھ نہیں، بلکہ بے تکلفی اور قدرے ناگواری کے ساتھ ہوا کرتا تھا‘‘ (احمد جاوید، ص ۴۴)۔  پھر یہ کہ: ’’ایک بہترین انسان اور تحقیق و تعلیم میں ہمہ تن مشغول رہنے والی شخصیت تھے، جو کسی طبعی علالت کو علمی و تحقیقی کام میں سنگِ گراں نہیں بننے دیتے تھے‘‘۔ (ڈاکٹر جمیلہ شوکت، ص ۹۱)

طبیعت میں ایسی انسان پروری، شگفتگی اور دل آویزی کہ: ’’یوں ہی خیال آتا ہے کہ اگر مولانا مودودی صاحب کے پیش کردہ نظریا ت کے نتیجے میں [ظفراسحاق] انصاری صاحب جیسے لوگ پیدا ہونے لگیں، تو ہم جیسے [تصوف کے طرف دار] لوگ اسی پر مطمئن ہوجائیں، کیوںکہ تصوف کا منشا بھی تو یہی ہے کہ ایسا معاشرہ قائم ہو، جس میں انسان انسان کی ڈھال بنے، اس کے لیے تلوار نہ بن جائے‘‘۔ (ڈاکٹر نجیبہ عارف، ص ۱۱۹)

قرآنِ عظیم سے محبت اور سیرتِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے شیفتگی کے مظاہر ان کی زندگی میں کئی حوالوں سے سامنے آتے ہیں: ’’ڈاکٹر صاحب انتہائی رقیق القلب تھے۔ میں نے خود دیکھا جب ایک محفل میں نعت ِ رسولؐ پڑھی جارہی تھی اور آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے‘‘ (ڈاکٹر ضیاء الدین رحمانی، ص ۱۴۶)۔ ڈاکٹر صاحبزادہ ساجد الرحمٰن لکھتے ہیں: ’’نعتیہ اشعار سناتے وقت ان کی آنکھوں میں تیرتے آنسو، سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے والہانہ عشق کے غماز ہوا کرتے تھے۔ گاہے کوئی پسندیدہ شعر سنانے کو جی چاہتا تو دفتر بلواتے اور محبت سے سناتے۔ ایک مرتبہ آسی جونپوری کا ایک شعر رندھی ہوئی آواز میں سنایا  ؎

وہاں پہنچ کے یہ کہنا صبا سلام کے بعد

تیرے نام کی رَٹ ہے ، خدا کے نام کے بعد

ایک مرتبہ طلب فرمایا اور ماہرالقادری کا یہ شعر سنایا:

تاروں سے یہ کہہ دو کوچ کریں، خورشید منور آتے ہیں

قوموں کے پیمبر آ تو چکے، اب سب کے پیمبر آتے ہیں

(ص ۶۷)

وہ ایک بہترین مترجم، شان دار مصنّف،اعلیٰ پاے کے دانش ور، شفیق استاد اور نجیب الطرفین انسان تھے۔ کارِ تحقیق اور اشاعت ِ دین ہی کے جذبے نے انھیں اُردو کے علاوہ عربی، فارسی، انگریزی، جرمن اور فرانسیسی زبانوں پر دسترس کے حصول پہ اُبھارا۔ان کی وفات پر جناب مجیب الرحمٰن شامی نے دُکھ کا اظہار اس آہ کی صورت میں کیا: ’’ڈاکٹر ظفراسحاق انصاری رخصت ہوئے تو اربابِ صحافت اور سیاست کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔ کسی نے ایک کان سے سنا بھی، تو دوسرے سے اُڑا دیا۔ نہ صدر مملکت کا کوئی بیان نظر سے گزرا، نہ وزیراعظم کی توجہ ہوئی، اور  سراج صاحب بھی لاتعلق نظر آئے… شوروغوغا کو زندگی سمجھ لینے والے معاشرے بالآخر کہاں پہنچ جاتے ہیں، یہ جانے والے کے لیے نہیں، یہاں رہ جانے والوں کے لیے سوچنے کا مقام ہے‘‘۔ (ص ۹۶)

اس مختصر تبصراتی مضمون میں اسی قدر ذکرِ یار ممکن ہے، جب کہ راہروانِ عشق، اس داستانِ لذیذ کو مذکورہ اشاعت کے مطالعے ہی سے آویزئہ گوش بنا سکتے ہیں۔ [اشاعت ِ خاص، ماہ نامہ تعمیرافکار، کراچی]، مدیر:سیّد عزیز الرحمٰن۔ ناشر: زوّار اکیڈمی پبلی کیشنز ۔ فون: ۳۶۶۸۴۷۹۰- ۰۲۱۔ صفحات: ۳۰۴۔ قیمت: ۴۵۰ روپے۔

قرآنِ مجید بحیثیت ماخذ ِ سیرت، مولانا محمد عمراسلم اصلاحی۔ ناشر: مکتبہ قاسم العلوم، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۴۸۲۰۹- ۰۴۲۔ صفحات:۳۳۵۔قیمت: ۴۶۰ روپے۔

سیرتِ طیبہؐ کے مختلف پہلوئوں اور گوشوں پر بیسیوں بلکہ سیکڑوں کتابیں اور مقالات لکھے جاچکے ہیں لیکن قرآنِ حکیم کی روشنی میں سیرتِ پاکؐ پر کم ہی قلم اُٹھایاگیا ہے۔ ایک صدی پہلے   مولانا ابوالکلام آزاد نے لکھا تھا: ’’آج تک کبھی اس کی کوشش نہیں کی گئی کہ صرف قرآنِ حکیم میں دائرہ استناد و اخذ محدود رکھ کر ایک کتاب سیرت میں مرتب کی جائے‘‘۔ مولانا آزاد نے مولانا شبلی  کو بھی اس طرف متوجہ کیا تھا۔ ۲۰۱۰ء میں دارالمصنّفین اعظم گڑھ میں منعقدہ سیمی نار بہ عنوان  ’مصادرِ سیرت‘ میں مولانا محمد عمر اسلم اصلاحی نے اپنے لیے موضوع ’’سیرتِ رسولؐ کا اہم ترین ماخذ قرآنِ مجید‘‘ منتخب کیا۔ زیرنظر کتاب اسی مقالے کی توسیع ہے۔

فاضل مصنّف کہتے ہیں کہ قرآنِ حکیم سیرتِ رسولؐ کا سب سے اہم، بنیادی، معتبر اور مستند ماخذ ہے۔ کتاب کے پہلے حصے میں ۲۴ عنوانات کے تحت سیرتِ پاکؐ کے مختلف پہلو نمایاں کیے گئے ہیں۔ ہر عنوان میں اوّلاً ایک مختصر سی ’تمہید‘ ہے۔ بعدہٗ قرآنِ حکیم کی متعلقہ آیات اور ان کا  اُردو ترجمہ، پھر اس کی وضاحت۔ اسی طرح دوسرے حصے میں دعوت کے ۱۸ پہلوئوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

ہمارے ہاں محبت ِ رسولؐ اور عشقِ رسولؐ کے اظہار کے لیے بہت کچھ کیا جاتا ہے۔ اگر اس کتاب کی مدد سے قرآنِ حکیم کی روشنی میں دیکھا جائے کہ محبت ِ رسولؐ کے اصل تقاضے کیا ہیں، تو شاید ہماری عملی زندگیوں میں کچھ تبدیلی آجائے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


   تذکرہ ساداتِ مودود چشتیہ، مرتب: سیّد محمود حسین نقوی مودودی۔ ناشر: مکتبہ علومِ افکارِ اسلامیہ، مکان نمبر۳۰، سٹریٹ نمبر ۱، اے بلاک، سوان گارڈن، اسلام آباد۔ صفحات: ۲۵۶۔ قیمت: ۳۰۰روپے۔

سیّد محمود حسین نقوی مودودی (وفات: ۳۰ نومبر ۱۹۸۷ء) نے خاندانِ مودود چشتیہ کا تذکرہ تیار کیا تھا جو ۳۵ شخصیات (از سیّدنا امام علی زین العابدین تا سیّدابوالاعلیٰ مودودی) پر مشتمل ہے۔اس فہرست میں چودھویں بزرگ کا نام قطب الاقطاب خواجہ سیّد مودود چشتی تھا۔   انھی کی پیڑھی کے تمام بزرگ مودودی چشتی کہلاتے تھے۔

دیباچہ نگار سیّدخالد محمود نقوی مودودی (مقیم لندن) لکھتے ہیں: صوفیہ کے چودہ سلاسل ائمۂ اہلِ بیت، سادات کے توسط سے حضرت علیؓ ابن ابی طالب تک پہنچتے ہیں۔ ان میں سے ایک سلسلہ ساداتِ مودود چشتیہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس خاندان کے بزرگوں نے تیرہ سو برس تک ارشادو ہدایت اور فقرو درویشی کو جاری رکھا۔یہ تاریخ انھی بزرگوں کے تذکرے پر مشتمل ہے۔ ہربزرگ کے حالات متعدد ضمنی عنوانات (نام، نسب، ولادت، تعلیم و تربیت، اخلاق و اوصاف، عبادات، وفات وغیرہ) کے تحت دیے گئے ہیں۔ مزید عنوانات، متعلقہ شخصیت کے امتیازی پہلوئوں کے مطابق قائم کیے گئے ہیں۔ بعض بزرگوں کے حالات مختصر اور بعض کے حالات نسبتاً طویل ہیں۔ ایسے تذکروں میں تذکرہ نگار، عموماً بزرگوں کے کشف و کرامات کے قصّے بہ کثرت بیان کرتے ہیں لیکن جیسا کہ سیّد محمود حسین نے لکھا ہے: مصنف مرحوم نے اِس تذکرے میں کرامات کے بیان سے کافی حد تک اجتناب کیا ہے۔ اِس اعتبار سے اِس کتاب کی نوعیت تربیتی ہے۔

یہ سارے بزرگ عوام کو شعائر اسلامی کی پابندی کی تلقین کرتے اور امرا اور سلاطین کو  عدل و انصاف، مظلوم کی داد رسی، رعایا پرور ی اور شریعت کی پیروی کی نصیحتیں کرتے تھے۔ ہمیں دیباچہ نگار کی اِس راے سے اتفاق ہے کہ اگر ہندستان کو فتح کرنے میں محمد بن قاسم، محمود غزنوی اور شہاب الدین غوری اور بابر کا ہاتھ ہے تو یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ ہندستان کی روح کو مودود چشتی درویشوں نے فتح کیا۔ یہ درویش صفت انسان کی باطنی زندگی اور ظاہری زندگی کے نبض شناس تھے۔ حالات و واقعات کا پیرایۂ بیان دل چسپ ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


عزیمت کے راہی (حصہ ششم)، حافظ محمد ادریس۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۲۵۲۴۱۹- ۰۴۲۔ صفحات: ۳۵۲۔ قیمت: ۳۵۰ روپے۔

رفتگاں کی یاد اور ان کے کارناموں کو تازہ رکھنے کے لیے فاضل مصنّف کی نئی کتاب ہے۔ سلسلۂ رفتگاں کا یہ چھٹا حصہ ہے، جس میں ۲۱ شخصیات کا تذکرہ شامل ہے۔ اس تذکرے میں عزیمت کے بلند منصب پر فائز شہداے بنگلہ دیش (مولانا مطیع الرحمٰن نظامی، علی احسن محمدمجاہد، میرقاسم علی) کے مفصل حالات شامل ہیں۔ اسی طرح تحریکِ اسلامی کے وابستگان (ملک محمداسلم،  گل انداز عباسی، معراج الدین خان، ظفرجمال بلوچ، حکیم عبدالرحمٰن عزیز،مولانا عبدالوکیل علوی وغیرہ) کے علاوہ کچھ ایسے رفتگان کا ذکر بھی ہے، جو براہِ راست تحریک سے وابستہ نہیں تھے،    مگر مقصد ِ زندگی کی یکسانیت کی بنا پر تحریک سے ان کے ذہنی اور قلبی روابط استوار تھے۔

اس کتاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلامی تحریک نے کیسے کیسے صاحبانِ کردار پیدا کیے،  جو ہمارے معاشرے کے لیے بہترین انسانوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دنیا میں انھوں نے خواہ کیسی ہی تنگی و ترشی میں زندگی گزاری ہو، آخرت میں وہ بامراد ہوں گے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


فکرونظر کے دریچے، مولانا ڈاکٹر غلام زرقانی۔ ناشر: دارالاسلام، ۸-سی، پہلی منزل، محی الدین بلڈنگ، داتا دربار مارکیٹ، گنج بخش روڈ، لاہور۔فون: ۳۷۱۱۵۱۶۵- ۰۴۲۔صفحات:۲۴۰۔ قیمت:درج نہیں۔

انقلاب(بمبئی) بھارت کی اُردو دنیا کا مقبول روزنامہ ہے۔ زیرنظر کتاب انقلاب میں گذشتہ پانچ چھے برسوں کے دوران میں شائع ہونے والے ڈاکٹر زرقانی کے کالموں کا مجموعہ ہے۔ زرقانی عالمِ دین ہیں۔ لیبیا اور دیگر عرب ممالک میں زیرتعلیم رہے۔ ہیوسٹن (امریکا) کی ایک مسجد کے خطیب اور وہاں کے لون اسٹار کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ انھوں نے اسی زاویے سے مشرق (مسلم) اور مغرب کے مسلم حکمرانوں پر اور اُن کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کی ہے جو زیادہ تر بجا ہے۔

انڈونیشیا سے انھیں بڑی اُمیدیں وابستہ ہیں۔ ۳۹ممالک میں کروائے گئے ایک سروے کے مطابق انڈونیشیا کے تقریباً ۹۸ فی صد لوگ پابندی سے زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح مسجد جانے والوں کا تناسب سب سے زیادہ انڈونیشیا ہی میں ہے۔ فی کس آمدنی کے لحاظ سے انڈونیشیا ۱۲۶ویں نمبر پر ہے، مگر دین داری کے اعتبار سے بہت اُوپر ہے۔

مصنّف نے سعودی عرب میں غیرملکیوں کے لیے نظامِ کفالیٰ پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ عصرِحاضر میں نظامِ کفالیٰ دراصل رواجِ غلامی کی ترقی یافتہ شکل ہے (ص ۷۱)۔ بعض کفیل صرف دستخط کرنے کے عوض غیرملکیوں سے بھاری رقم وصول کرتے ہیں۔ غیرملکی مزدوروں کے ساتھ زیادتی کے متعدد واقعات کی نشان دہی بھی کی گئی ہے۔

مجموعی حیثیت سے یہ تبصرے تعمیری ہیں۔ وہ مسلم معاشروں کی حالت پر افسردہ خاطر ہیں اور مسلمانوں کو اتحاد کا درس دیتے ہیں۔ یہ مجموعہ پہلے دہلی سے چھپا تھا۔ پاکستانی ناشر نے اِس نوٹ کے ساتھ شائع کیا ہے کہ ’’پبلشر کا مصنّف سے کامل اتفاق ضروری نہیں‘‘۔ (رفیع الدین ہاشمی)


تعارف کتب

o امام الانبیاؐ کا سفرِ حج ، انجینیرمحمد ارشد۔ ناشر: مثال پبلشرز، رحیم سنٹر، پریس مارکیٹ، امین پوربازار، فیصل آباد۔ فون:۶۶۶۸۲۸۴- ۰۳۰۰۔ صفحات: ۲۴۰۔ قیمت: ۵۰۰ روپے ۔[اس کتاب کا مقصد رسولؐ اللہ کے حج و عمرے کے طریقے (سنت) و واقعات کو ایک مسلمان تک پہنچانا ہے‘‘ تاکہ وہ ان عبادات میں آپ کا اتباع اختیار کرسکے (مصنّف)۔ ۳۱عنوانات کے تحت آپؐ کے حج اور عمرے کے اَسفار کا ذکر احادیث کے حوالے سے کیا گیا ہے، مثلاً یہ کہ مسجدالحرام میں آپؐ کب اور کس طرح داخل ہوئے، اور آپؐ نے وہاں کیا فرمایا، یا مثلاً مزدلفہ کے قیام میں آپؐ نے کیا کچھ کیا اور فرمایا، وغیرہ۔ حج اور عمرے کے عازمین کے لیے یہ ایک مفید کتاب ہے۔]

o حرف حرف روشنی  ،ترتیب و تالیف: احمد علی محمودی۔ ملنے کا پتا: ندائے ملت پبلی کیشنز، دارالسلام ، عزیزآباد کالونی، وہاڑی روڈ، حاصل پور (ضلع بہاول پور)۔ فون: ۶۳۴۷۵۷۲- ۰۳۳۳۔ صفحات:۴۹۔ قیمت: ۶۰ روپے۔ [اقوالِ زریں اور حکمت و دانش پر مبنی مختصر اور جامع نصائح۔ علمی و ادبی ورثے سے عمدہ انتخاب، نیز بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے رہنمائی۔ تزکیہ و تربیت اور سوشل میڈیا پر مختصر پیغامات اور دعوت کے لیے مفیدکتابچہ۔]

رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ کی انوکھی شان

واقعہ یہ ہے کہ کسی انسانی معاشرے میں آپس کی محبت و اُلفت ، باہمی ہمدردی و خیراندیشی، اور ایک دوسرے کے حقوق کا لحاظ اور مرتبے کا احترام اس درجے کا نہیں پایا جاتا اور نہ پایا گیا ہے جیساکہ صحابہ کرامؓ کے معاشرے میں نظر آتا ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ان کے اندر یہ صفت انتہائی ممکن کمال تک پہنچی ہوئی نظر آتی ہے، جس کا کسی انسانی معاشرے کے حق میں تصور کیا جاسکتا ہے۔ لیکن انسان جب تک انسان ہیں، اِن کے اندر بہرحال کبھی نہ کبھی اختلافات بھی پیدا ہوسکتے ہیں اور وہ اختلافات لڑائی جھگڑے کی صورت بھی اختیار کرسکتے ہیں۔ صحابہ کرامؓ بھی انسان ہی تھے۔ عالمِ بالا سے کوئی فوق البشر مخلوق، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت و معیت کے لیے اُتر کر نہیں آئی تھی۔ ایک دوسرے کے ساتھ رہن سہن، لین دین اور اجتماعی زندگی کے معاملات کرتے ہوئے لامحالہ بہ تقاضاے بشریت ان میں اختلافات بھی ہوجاتے تھے، اور بعض اوقات یہ اختلافات شدید نوعیت بھی اختیار کرگئے ہیں....

بے شک وہ جنگ جمل و صفّین میں ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہوئے ہیں، مگر کیا دُ نیا کی کسی خانہ جنگی میں آپ فریقین کو ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے ہوئے بھی ایک دوسرے کا وہ احترام ملحوظ رکھتے دیکھتے ہیں، جو اِن بزرگوں میں نظر آتا ہے۔ وہ نیک نیتی کے ساتھ اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہوئے لڑے تھے، نفسانی عداوتوں اور اغراض کی خاطر نہیں لڑے تھے۔ انھیں افسوس تھا کہ دوسرا فریق ان کی پوزیشن غلط سمجھ رہا ہے اور خود غلط پوزیشن اختیار کرتے ہوئے بھی اپنی غلطی محسوس نہیں کر رہا ہے۔وہ ایک دوسرے کو فنا کردینے پر تلے ہوئے نہیں تھے، بلکہ اپنی دانست میں دوسرے فریق کو راستی پر لانا چاہتے تھے۔ ان میں سے کسی نے کسی کے ایمان سے انکار نہیں کیا، اس کے اسلامی حقوق سے انکار نہیں کیا، بلکہ اس کی فضیلت اور اس کی اسلامی خدمات کا انکار بھی نہیں کیا۔ انھوں نے ایک دوسرے کو ذلیل و رُسوا کرنے کی کوشش نہیں کی.... لڑ کر گر جانے والے کے لیےوہ سراپا رحم و شفقت تھے، اور گرفتار ہوجانے والے پر مقدمہ چلانا اور اس کو سزا دینا یا اس کو ذلیل و خوار کرنا تو درکنار، قید رکھنا اور کسی درجے میں بھی نشانۂ عتاب بنانا تک انھوں نے گوارا نہ کیا۔ (’رسائل و مسائل‘ ،سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۴۸، عدد۶، ذی الحجہ ۱۳۷۶ھ، ستمبر ۱۹۵۷ء، ص ۴۲-۴۳)