مضامین کی فہرست


اکتوبر ۲۰۱۷

ہجرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو ۱۴۳۸ھ سال گزر گئے۔ صرف یہ عرصہ ہی نہیں، قیامت تک دنیا و آخرت میں کامرانی صرف اور صرف قرآن و نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور ان کے عطا کردہ نظام کے لیے ہے۔ قیامت تک صرف وہی حق اور خیر ہے، جسے قرآن و سنت نے درست فرمادیا۔ ان سے متصادم ہر نظام، نظریے، افراد اور اقوام نے بالآخر نامراد ہونا ہے۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ کبھی شر اس قدر غالب آجائے کہ ظلم و جبر، مکاری و منافقت اور خیانت و دھاندلی ہی کامیابی کی راہ قرار دی جانے لگے۔ ایک سے ایک بڑا قارون اُٹھے اور سب اسی جیسی دولت و شہرت کی تمنا کرنے لگیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک فرعون اور نمرود سامنے آئیں، اور خود کو موت و حیات کا مالک اور ربِّ اعلیٰ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئےأَنَا أَحْیِیْ وَ أُمِیْتُ اور أَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی  کی صدائیں لگانے لگیں  لیکن بالآخر سب دعوے کھوکھلے اور ساری چکاچوند ماند پڑجائے گی۔

خود آپؐ کی بعثت اسی ابدی حقیقت کی ایک روشن مثال ہے۔آپ ایسے معاشرے میں تشریف لائے کہ جس میں صدیوں سے بیت اللہ تک کو اپنے تراشیدہ بتوں سے آراستہ کیا جارہا تھا۔ عریانی و بدکاری یوں مسلط تھی کہ خانہ کعبہ کا طواف بھی بے لباس ہوکر کیا جاتا تھا۔ دُعا و استغفار کے بجاے سیٹیاں اور تالیاں بجانا (مُکَاءً  وَّتَصْدِیَۃ) عبادت قرار دیا جاتا تھا۔ انسان اپنے ہی جیسے انسانوں کو اپنا غلام اور ’عبد‘ بنالیتے اور بھیڑ بکریوں کی طرح ان کی خریدو فروخت کیا کرتے تھے۔ آپؐ نے تمام بندگیاں چھوڑ کر صرف ’رب العالمین‘ کی بندگی کی دعوت دی تو آپؐ اور آپؐ کے ساتھیوں کو کیا کیا اذیت و عذاب نہ دیا گیا۔ آخر کار بیت اللہ کا سایہ اور آبا و اجداد کی سرزمین چھوڑ کر سیکڑوں میل دُور یثرب کی طرف ہجرت کرنا پڑی لیکن ابتلا کا یہ مرحلہ، نجات و فتح مبین کا اولیں باب ثابت ہوا۔ پھر اس دور کی عالمی قوتیں (Super Powers) روم و فارس بھی زیر ہوئیں، کعبۃ اللہ سب بتوں اور بت گروں سے پاک ہوا اور مکہ میں قیامت تک کے لیے اعلان کردیا گیا کہ جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ ط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا  O  (بنی اسرائیل ۱۷:۸۱) ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے‘‘۔

۲۳سال پر مشتمل عہد نبوت نے قیامت تک معیار حق بننے والا نظام حیات ہی عطا نہیں کیا بلکہ اس نظام کو عملاً نافذ کرتے ہوئے ایک شان دار اسلامی ریاست بھی تشکیل کرکے دکھائی۔ رب ذو الجلال چاہتا تو عظیم تبدیلی کے یہ تمام مراحل صرف ایک حکم اور اشارے ہی سے طے ہوجاتے، لیکن بندوں کو اصلاح و انقلاب کے اصول و ضوابط بتانا اور سکھانا مقصود تھا۔

  •  سیرت طیبہ پہ نگاہ دوڑائیں تو عظیم اسباق میں سے اہم ترین سبق آپ کی جہد مسلسل تھی۔ آپؐ نے نہ تو صدموں اور زخموں کی وجہ سے مایوسی کو قریب پھٹکنے دیا اور نہ فتح و نصرت کو غرور و جمود کا باعث بننے دیا۔ رب کائنات نے نبوت کے عظیم ترین منصب پر فائز کرتے ہی حکم دیا: قُمْ فَاَنْذِرْ O وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ O  (المدثر ۷۴:۲-۳) ’’اُٹھیے اور لوگوں کو خبردار کردیجیے۔ اپنے رب کی کبریائی بیان کیجیے‘‘ اور قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًا O  اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْلًا O (المزمل ۷۳:۲،۵) ’’رات کے کچھ پہر کے علاوہ ساری رات قیام اللیل کیجیے۔ ہم آپ پر ایک گراں قدر ذمہ داری ڈالنے والے ہیں‘‘ ۔ یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ط(المائدۃ۵: ۶۷)   ’’اے پیغمبرؐ ، جو کچھ تمھارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو‘‘۔

یہ فرامینِ الٰہی سنتے ہی پوری زندگی کا دھارا بدل گیا۔ اب ایک ہی مقصد اور ایک ہی لگن تھی کہ ایک ایک فرد اور ایک ایک قبیلے کو رب کی طرف بلانا ہے۔ پھر مکہ آنے یا وہاں سے گزرنے والا کوئی فرد یا قافلہ ایسا نہ تھا کہ جس تک آپ نے دین کی دعوت اور اللہ کا پیغام نہ پہنچا دیا ہو۔ اسی لگن کا مظہر وہ منظر تھا کہ جب ایک روز صبح سے شام تک کارِ نبوت انجام دیتے رہے۔ تاریکی چھانے لگی تو گھر لوٹے، کمر بستر سے نہ لگی تھی کہ کانوں میں آواز آئی کہ کسی نئے قافلے نے پڑاؤ ڈالا ہے۔  فوراً اُٹھ کر دوبارہ باہر جانے لگے۔ اہل خانہ نے عرض کیا کہ کچھ آرام فرمالیجیے، صبح دم ملاقات کرلیجیے گا۔ چہرہ انور کا رنگ بدلا اور یہ فرماتے ہوئے باہر تشریف لے گئے کہ: ’’کیا آپ کو یقین ہے کہ قافلہ رات ہی کے کسی پہر کوچ نہ کرجائے گا؟

حج کا موقع ہو، سالانہ مجلس ادب و شاعری کا انعقاد یا کھیل کود کا میدان سجے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ نے دعوت دین اور تزکیہ و تربیت کا حق ادا کردیا۔ اس دوران میں آلِ یاسر کو شہید ہوتے، سیّدنا بلالؓ کو گرم ریت پر تڑپتے، شِعب ابی طالب میں بچوں کو بلکتے اور اپنی صاحب زادی سمیت کئی صحابہ کرامؓ کو ہجرت حبشہ پر مجبور ہوتے دیکھا۔ یہی نہیں اعلیٰ و ارفع مناصب، مال و دولت کے انباروں اور بتوں کی پوجا سے نہ روکنے کی شرط پر مفاہمت کی پیش کش بھی ہوئی لیکن آپؐ کا    ایک ہی پیغام تھا کہ ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً ص  (البقرہ ۲:۲۰۸) ’’تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو‘‘۔  وَ اَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ ج وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ   ط (الانعام ۶:۱۵۳) ’’اس کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے، لہٰذا تم اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ اُس کے راستے سے ہٹاکر تمھیں پراگندا کردیں گے‘‘۔

 اس دوران دار ارقم کی تربیت گاہ میں اہل ایمان کی تعلیم و تزکیہ کا سفر بھی جاری رہا اور  اللہ کے حضور دُعائیں بھی کہ پروردگار ،مکہ کے مؤثر ترین افراد کو بھی اس قافلۂ حق کا ساتھی بنادے۔ اللہ تعالیٰ نے جناب حمزہ و عمر رضی اللہ عنہما جیسی پُروقار ہستیاں بھی عطا کردیں۔ پھر مکہ ہی نہیں قریبی بستیوں کا رخ کیا، اس ضمن میں سفر طائف ایک مکمل داستان رکھتا ہے جس کا اختتام آپ کی اس دردبھری دُعا پہ ہوتا ہے کہ ’’اے اللہ! میں اپنی کمزوری، بے بسی اور لوگوں کی نظر میں بے وقعتی کا شکوہ صرف آپ ہی کی جناب میں کرتا ہوں۔ اے اللہ! مجھے کن کے سپرد کیا جارہا ہے، ان غیروں کے جو مجھے پہچان ہی نہیں رہے؟ یا ان اپنوں کے کہ جو پہچان کر بھی نادانیوں پر اترے ہوئے ہیں… پروردگار، لیکن اگر آپ مجھ سے ناراض نہیں تو پھر مجھے کسی تکلیف کی کوئی پروانہیں‘‘۔

عہد مکہ ہی نہیں، مدینہ پہنچ کر اور اولیں اسلامی ریاست کے قیام کے بعد بھی پے در پے آزمایشیں اور مہمات درپیش رہیں۔ کبھی مشرکین مکہ کے پے درپے حملے بدرو اُحد اور احزاب کا عنوان بنے۔ کبھی عمرے کی ادایگی کی نیت سے مکہ داخل ہونے سے روک دیا گیا اور کبھی خود مدینہ کے اندر بیٹھے منافقین نے بدترین الزامات، تہمتوں اور دشمن سے گٹھ جوڑ کرنے کی شرمناک مثالیں قائم کیں۔ مدینہ کے قرب و جوار میں بیٹھے یہودی قبائل نے بھی آپؐ کو شہید کرنے کی سازش کی اور آپؐ کے ہر دشمن کو شہ دی۔ جزیرۂ عرب کے منافق قبائل نے ایمان لانے کا ڈھونگ رچا کر ۷۰،۷۰ حفاظ کرام شہید کردیے۔ کبھی شمالی سرحدوں پر ایک سوپر پاور قیصر روم نے فوجیں جمع کردیں اور کبھی مشرق میں دوسری عالمی طاقت کسریٰ فارس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارسال کردہ مکتوب مبارک ٹکڑے ٹکڑے کرکے حقارت سے پاؤں میں روند دیا۔ صفحات سیرت کا مطالعہ کرتے ہوئے انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ خالق کائنات کا محبوب، ساری انسانیت کے لیے پیغام رحمت،  تمام انبیا کی جدوجہد کا نقطۂ کمال اور اسراء و معراج جیسے منفرد و بے مثال معجزات کا حامل، لیکن ایسی جہدمسلسل، ایسی پُرمشقت صبح و شام… سبحان اللہ۔

غزوۂ اُحد کے زخم اور سیّد الشہداء حضرت حمزہؓ سمیت ۷۰ شہدا کا غم دلوں میں لیے مغرب کے بعد مدینہ واپس لوٹتے ہیں۔ مدینہ کا کوئی گھر نہ تھا جہاں سے کوئی نہ کوئی شہید نہ ہوا ہو یا زخموں کا کوئی اعزاز نہ ملا ہو۔ اسی مدینے میں اگلی ہی صبح آپ کی طرف سے منادی کروائی جارہی تھی کہ ’’مشرکین کے لشکر کا پیچھا کرنے کے لیے فوری طور پر نکلنا ہے‘‘۔ یہی نہیں بلکہ فرمایا: لَا یَخْرُجَنَّ مَعَنَا أَحَدٌ اِلَّا مَنْ حَضَرَ یَوْمَنَا بِالْأَمْسِ (ہمارے ساتھ صرف وہی لوگ جائیں گے جو کل ہمارے ساتھ میدان میں لڑے تھے)۔ اپنوں اور پرایوں کے لیے پیغام تھا کہ ہم کل کے زخموں کی وجہ سے کمزور یا شکستہ خاطر اور پست ہمت نہیں ہوئے۔ رب ذو الجلال کو یہ عزم و عزیمت اتنی پسند آئی کہ پورا واقعہ قرآن کریم میں ثبت فرمادیا۔ لشکر حمراء الاسد پہنچا۔ تین روز وہاں قیام کیا، معلوم ہوا کہ مشرکین مکہ کا لشکر اُحد کے اگلے ہی روز واپس پلٹ کر مدینے پر ہلہ بولنے کی تیاریاں کررہا تھا، آپؐ اور آپؐ کے صحابہ کرامؓ کی آمد کی خبر سن کر ہی خوف زدہ ہوکر بھاگ نکلا۔

غزوۂ احزاب، ایک فیصلہ کن اور اس قدر خوف ناک معرکہ تھا کہ قرآن کریم کے الفاظ میں اِذْ جَآئُ وْکُمْ مِّنْ فَوْقِکُمْ وَ مِنْ اَسْفَلَ مِنْکُمْ وَ اِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّوْنَ بِاللّٰہِ الظُّنُوْنَاO (احزاب۳۳: ۱۰) ’’جب دشمن اُوپرسے اور نیچے سے تم پر چڑھ آئے، جب خوف کے مارے آنکھیں پتھرا گئیں، کلیجے منہ کو آگئے اور تم لوگ اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے‘‘۔لیکن بالآخر اللہ کی نصرت آئی۔ طوفانی آندھیوں اور برفانی سردی نے دشمن کے لشکر اُلٹ دیے۔ تمام تر مہیب لمحات اور آزمایش کی گھڑیاں ختم ہوئیں، جزیرۂ عرب سے اکٹھے ہوکر آنے والے سب سفاک دشمن نامراد ہوکر لوٹ گئے۔

آپؐ اور صحابہ کرامؓ بھی ظہر کے بعد گھروں میں واپس پہنچے۔ آپؐ ابھی کمر کھول ہی رہے تھے کہ جبریل امینؑ تشریف لاتے اور فرماتے ہیں: ’’اے اللہ کے رسولؐ! آپؐ کے ساتھ غزوۂ احزاب میں شریک فرشتوں نے تو ابھی کمر نہیں کھولی اور آپؐ ہتھیار کھول رہے ہیں؟ معاہدہ ہونے کے باوجود دوران جنگ آپؐ کی مدد کرنے کے بجاے، حملہ آور فوجوں کی مدد کرنے والے بنوقریظہ سے بھی ابھی نجات حاصل کرنا ہوگی‘‘۔ آپؐ نے فوراً منادی کروادی: مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلَا یُصَلِّیْنَّ الْعَصْرَ اِلَّا فِی بَنِیْ قُرَیْظَۃ،’’جو بھی اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے، بنوقریظہ تک پہنچنے سے پہلے نماز عصر ادا نہ کرے‘‘۔ صحابہ کرامؓ فوراً پھر روانہ ہوئے اور اسلامی ریاست کو بنی قریظہ کے خطرے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کردیا۔

 پھر فتح مکہ کی لازوال تاریخ رقم ہوتی ہے… لیکن اسے بھی آخری فتح یا حصول منزل نہیں قرار دیا، فوراً ہی غزوۂ حنین اور ساتھ ہی فتح طائف کا آغاز ہوجاتا ہے۔ گویا ایک مہم کے ساتھ ہی اگلی منزلوں کی جانب سفر شروع ہوجاتا ہے۔ تکمیل دین بھی انھی معرکوں اور میدانوں میں ہوتی ہے۔ احکامِ شریعت بھی ساتھ ساتھ صادر ہورہے ہیں۔ شراب و سود اور جوے کی حرمت ہوتی ہے۔    فتح مکہ کے بعد ۸ ہجری میں پہلی بار اسلام کے بتائے اصولوں کے مطابق اسلام کا پانچواں رکن حج ادا کیا جاتا ہے۔ ۹ ہجری میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیر حج بناکر بھیجا جاتا ہے اور ۱۰ہجری کو آپؐ خود حج کی ادایگی کے لیے تشریف لے جاتے ہیں۔ خطبۂ حجۃ الوداع کی صورت میں حقوقِ انسانی کا جامع ترین اور ابدی چارٹر جاری کردیا جاتا ہے۔ حج کی فرضیت اور اہمیت جاننے کے لیے آپؐ کا یہ فرمان ہی کافی ہے کہ حج سے واپس جانے والا تمام گناہوں سے پاک ہو کر یوں واپس لوٹتا ہے، جیسے آج ہی جنم لیا ہو لیکن حکیم و خبیر ہستی نے اپنے حبیب کو زندگی کے آخری سال فریضۂ حج ادا کروایا۔ اُمتیوں کو یہ پیغام بھی دے دیا گیا کہ ترجیحات کے تعین میں اقامتِ دین، ریاست اسلامی کے قیام اور تبدیلی و انقلاب کا کیا مقام و مرتبہ ہے۔

  •  مطالعۂ سیرت سے دوسرا اہم پیغام یہ سامنے آتا ہے کہ اگرچہ ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا، لیکن نوجوان (بیٹے اور بیٹیاں) اُمت کا اہم ترین اثاثہ و سرمایہ ہیں۔ آپؐ کی دعوت پر لبیک کہنے والے اولیں افراد میں نوجوانوں کی تعداد نمایاں تھی۔ اُم المومنین حضریت خدیجہؓ کے علاوہ چاروں بنات النبی رضی اللہ عنہن حضرت علیؓ (دس سال) اور حضرت زید بن ثابتؓ (گیارہ سال) شامل تھے۔ حضرت زبیر بن العوام (۱۲ سال) حضرت طلحہ بن عبید اللہ (۱۳ سال) حضرت سعد بن ابی وقاص (۱۷ سال) حضرت عبدالرحمٰن بن عوف (۳۰ سال) حضرت عثمان بن عفان (۳۴سال) رضوان اللہ علیہم اجمعین پانچ ابتدائی ساتھی تھے۔ پھر حضرت مصعب بن عمیرؓ جیسے نوجوان بھی آئے جن کی والدہ مکہ کی امیر ترین تاجر خاتون تھیں اور جو مکہ کی جس گلی سے گزر جاتے، وہ دیر تک ان کے لگائے عطر سے مہکتی رہتی۔ عمار بن یاسر، بلال بن رباح اور صہیب رضی اللہ عنہم جیسے غلام بھی تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اہم موقعے پر ان نوجوانوں کو اہم ذمہ داریاں سونپیں جو انھوں نے بدرجۂ کمال ادا کیں۔ بیعت عقبۂ اولیٰ کے فیصلہ کن موڑ پر اہل یثرب نے درخواست کی کہ ہمارے ساتھ اپنا کوئی نمایندہ، کوئی معلم بھیج دیجیے جو ہمیں دین کی تعلیم دے سکے۔ آپؐ کی نگاہِ انتخاب حکیم و دانا اور سراپا قربانی حضرت مصعب بن عمیرؓ پر پڑی۔ انھوں نے بھی آپؐ کی اُمیدوں کو یوں پورا کیا کہ ایک ہی برس میں یثرب کا کوئی گھر ایسا باقی نہ بچا کہ جہاں نور اسلام نے اُجالا نہ کردیا ہو۔ اہلِ یثرب بیعت عقبۂ ثانیہ کے لیے آئے تو گذشتہ برس ۱۲ ؍افراد تھے اب    دو خواتین سمیت ۷۵ ہوگئے۔ اللہ کی نصرت و مشیت کے بعد یہ مصعب بن عمیرؓ کی حکمت و دعوت ہی تھی کہ سرزمین یثرب آپؐ کے استقبال کے لیے بے تاب ہوگئی۔

مدنی دور کے کئی اہم واقعات کے بعد فتح مکہ کے موقعے پر بھی یہی حکمت نبیؐ سامنے آئی اور آپؐ نے ۲۰ سالہ عتاب بن اُسید ؓکو مکہ کا گورنر مقرر کردیا۔ اہلِ عرب قریش مکہ کے بعد بنوثقیف کو سب سے معزز قبیلہ قرار دیتے تھے۔ پورا جزیرۂ عرب اسلام کے زیر سایہ آنے لگا تو بنوثقیف نے بھی اپنا وفد مدینہ بھیجا۔ آپؐ نے مسجد نبویؐ کے باہر ان کے لیے خیمہ لگوادیا کہ اہل ایمان کو   نماز پڑھتے دیکھتے اور قرآن کی تلاوت سنتے رہیں۔ وہ ظہر سے قبل مسجد میں آکر آپؐ سے مکالمہ و مذاکرات کرتے اور اپنے سامان کے پاس ایک نوجوان عثمان بن ابی العاصؓ کو چھوڑ آتے۔ ظہر کے بعد واپس آتے تو جناب عثمان دوڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرنے پہنچ جاتے۔ آپ نہ ملتے تو حضرت ابوبکر صدیقؓ سے رجوع کرتے۔ جب بنوثقیف نے طویل مذاکرات کے بعد بالآخر اسلام قبول کرلیا تو آپ نے اسی ۲۰سالہ نوجوان عثمان بن ابی العاصؓ کو ان کا سربراہ مقرر فرما دیا کہ ان کے دل میں شوق ایمان اور سوالات میں حکمت و دانائی فراواں تھی۔ دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے بھی آپؐ نے اپنا آخری لشکر ۲۰ سالہ اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی زیر قیادت ہی ترتیب دیا، جس میں جناب صدیق و عمرفاروق رضی اللہ عنہما سمیت تمام جلیل القدر صحابہ شامل تھے۔ آپؐ بار بار لشکر اُسامہ کی روانگی کی بابت دریافت فرماتے رہے جو آپ کے مرض کو دیکھ کر تاخیر کا شکار ہورہا تھا۔

بچوں اور نوجوانوں پر آپؐ کی خصوصی توجہ میں خود نوجوانوں کی لیے ایک پیغام عظیم ہے۔ آپؐ نے متعدد بار صرف نوجوانوں سے خطاب فرمایا۔ احادیث میں یَا مَعْشَرَ الشَّبَاب، اے نوجوانو! یَا بُنَّی، اے میرے مُنے! یَا غُلَام، اے بیٹے جیسے الفاظ نوجوانوں کو مسلسل ان فرمانات نبویؐ کی جانب بلارہے ہیں۔ آپؐ نے سات طرح کے افراد کو روز محشر اس وقت    اللہ کے عرش کے سایے تلے جگہ ملنے کا ذکر فرمایا، جب اس کے علاوہ کوئی اور سایہ نہ ہوگا۔ ان  سات افراد کا ذکر بھی  امام عادل، انصاف کرنے والے حکمران کے بعد دوسرے نمبر پر شَابٌّ نَشَأَ فِی طَاعَۃِ اللہِ ، ’’وہ نوجوان جس نے اللہ کی اطاعت کے سایے میں پرورش پائی‘‘ سے کیا۔

ایک جانب یہ سایۂ رحمت اور دوسری جانب آج کی یا کسی بھی زمانے کی شیطانی دنیا کو دیکھیں، تو ان کا سب سے بڑا ہدف بھی یہی نوجوان ہیں۔ دور رسالت میں قرآن و رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دُور کرنے کے لیے مشرکین مکہ دور دراز سے لونڈیاں، گویّے اور موسیقی کے آلات منگوایا کرتے تھے۔ قرآن میں بیان کیے گئے سابقہ اقوام کے عبرت ناک واقعات کے مقابلے میں قصہ گو مرد اور عورتیں بلایا کرتے تھے۔ آج ان سب شیطانی ہتھکنڈوں سے کہیں زیادہ خطرناک اور مہلک راستے کھول دیے گئے ہیں۔ ایک ایک بچے اور بڑے کے ہاتھ میں، موبائل فون کے نام پر تباہی اور غلاظت کا بارود تھما دیا گیا ہے۔ یقینا یہ ایک سہولت، مفید ٹکنالوجی اور کسی حد تک ضرورت بھی ہے، لیکن اس کی سنگینی کا اندازہ لگانے کے لیے صرف موبائل فون اور مختلف سروسز پیش کرنے والی کمپنیوں کے اشتہارات ملاحظہ کرنا ہی کافی ہے۔ اشتہار کم اور کھلم کھلا بلکہ زبردستی دعوتِ گناہ زیادہ ہوتی ہے۔ تیز رفتار دنیا سے پیچھے رہ جانا ممکن ہے، نہ دین کا تقاضا لیکن گزرجانے والے ۱۴۳۸ سال جہاں تیزی سے گزرتے وقت کی اہمیت یاد دلا رہے ہیں، وہیں آپؐ کے مبارک الفاظ میں راہ نجات بھی واضح کررہے ہیں۔ آپؐ نے دل کی جانب اشارہ فرماتے ہوئے بار بار فرمایا کہ التقویٰ ھٰہُنا، ’’اصل تقویٰ تو یہا ں ہے‘‘۔ مزید فرمایا: الاِیْمَانُ مَا وَقَرَ فِی الْقَلْبِ وَصَدَّقَہٗ الْعَمَل،’’ حقیقی ایمان وہ ہے جو دل میں راسخ ہوگیا اور عمل نے اس کی تصدیق کردی‘‘۔ دل میں اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت جتنی سچی ہوگی، ہر شیطانی یلغار کا مقابلہ اتنا ہی آسان و ممکن ہوجائے گا۔

رب ذو الجلال نے اسی محبت اور ایمان کی تجدید کے لیے دن میں پانچ بار مسجد حاضری کا اہتمام کیا۔ نماز جمعہ کی صورت میں ہفت روزہ اجتماع کا شان دار انتظام کیا۔ رمضان اور روزوں کے ذریعے ایک ماہ کی سالانہ تربیت گاہ کا حکم نازل فرمایا اور حج کی صورت میں ایک عالمی مشاورت اور اجتماع اُمت کا حکم دیا۔ان عبادات کی اصل روح دلوں میں اسی صورت اتر سکتی ہے کہ بندہ ہر وقت آپؐ اور آپؐ کی لائی ہوئی تعلیمات کے اصل ہدف سے وابستہ اور مخلص رہے۔

آپؐ کا مقصد ِبعثت ہی انسان کے لیے فائدہ مند، ہر پاکیزہ چیز کی حفاظت و نمو اور انسان کے لیے تباہ کن ہر بات اور ہر کا م کی بیخ کنی اور اس سے بچاؤ تھا۔ یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ ط (اعراف۷: ۱۵۷)’’وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور ان پر سے وہ بوجھ اُتارتاہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندش کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے‘‘۔

مغربی پالیسی ساز اداروں کے الفاظ میں آج کے ذرائع ابلاغ، ان کی خوفناک خفیہ جنگ کے خاموش ہتھیار ہیں، (Silent Weapons of a Quiet War)۔ یہ جنگ دل و دماغ کو  مسحور و مقید کرنے والی جنگ ہے (War of Hearts and Minds) ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت دلوں میں جو پاکیزگی، مقصد حیات کی تازگی اور زندگی مابعد الموت میں ابدی جنتوں کی طلب پیدا کرتی ہے، جب کہ آج اپنے عروج پر پہنچی دل و دماغ کی جنگ اسی پاکیزہ دلی کو ہر نوع کے جرائم سے معمور کردینا چاہتی ہے۔ مغربی دنیا خود اس تباہی کو بری طرح بھگت رہی ہے۔   ایف بی آئی کی رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۶ء کے دوران صرف امریکا میں زبردستی بدکاری کے ۹۵ہزار ۷سو۳۰  واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ یہ تو وہ واقعات ہیں جو رپورٹ ہوئے اور جو زبردستی بدکاری کے زمرے میں آتے ہیں، اپنی مرضی سے غلاظت پھانکنا تو ان کے ہاں جرم ہی نہیں قرار پاتا۔ اس عرصے کے دوران لوٹ مار کے ۸۰ لاکھ واقعات رپورٹ ہوئے اور ۱۷ہزار ۲سو۵۰  افراد قتل ہوئے۔ یہ تو صرف ایک پہلو اور ایک جھلک ہے۔ اس تہذیب کے دیگر اثرات جس میں ایڈز جیسی ہلاکتوں، مختلف نفسیاتی بیماریوں ، منشیات کے پھیلاؤ، رشتوں اور خاندانوں کے بکھر جانے کے واقعات، ماں باپ کے جھگڑوں یا علیحدگی کے باعث تنہا رہ جانے والے بچوں کی تعداد جیسے اعداد و شمار پر نگاہ دوڑائیں تو اوسان خطا ہونے لگتے ہیں۔ بدقسمتی مگر یہ ہے کہ ان تمام تباہیوں کی دلدل میں ڈوبتی بزعم خود مہذب دنیا، ان تباہیوں سے نجات پانے کے لیے سایۂ رحمت میں پناہ لینے کے بجاے ہم سب سے بھی یہ سایہ چھین لینا چاہتی ہے۔

  •  اس ایجنڈے پر وہ کس طرح عمل کر رہے ہیں ذرا اس کی ایک جھلک ملاحظہ کیجیے:

۲۲ستمبر کو مصر کی ایک جیل میں اللہ کے ایک ولی ۸۹ سالہ محمد مہدی عاکف اللہ کو پیارے ہوگئے۔ ۱۹۲۸ء میں پیدا ہونے والے جناب عاکف جوانی ہی سے دل میں حبیب خدا کی محبت بسائے ہوئے تھے۔ ۱۹۴۸ء میں اہلِ مغرب نے قبلۂ اوّل پر صہیونی قبضہ کرواکے اسے اسرائیل بنانے کا اعلان کردیا تو نوجوان محمد عاکف بھی الاخوان المسلمون کے نوجوانوں کے ہمراہ، مصری افواج کے شانہ بشانہ جہاد کے لیے فلسطین چلا گیا۔ اس ’گناہ‘ کی پاداش میں واپسی پر گرفتار کرلیا گیا۔ تقریباً دوسال گرفتار رہا۔ ۱۹۵۴ء میں پھر گرفتار کیا اور پورے ۲۰ برس جیل میں رکھا گیا۔ ۱۹۹۶ء میں پھر گرفتار کرلیے گئے اور تین برس بلاوجہ قید رکھے گئے۔ ۲۰۱۳ء میں جنرل سیسی کا  خونیں انقلاب آیا تو پھر گرفتار کرلیے گئے اور ۲۲ ستمبر بروز جمعہ زندان ہی سے رب کے حضور پہنچ گئے۔ تدفین بھی رات کی تاریکی میں عمل میں لائی گئی۔ اہلیہ، صاحبزادی، داماد اور وکیل کے سوا کسی کو قبرستان تک نہ آنے دیا گیا، نہ نماز جنازہ ہی کی اجازت دی گئی۔ اور تو اور اگلے روز ملک بھر میں غائبانہ نماز جنازہ پر بھی پابندی لگادی گئی۔ اب اصل المیہ ملاحظہ فرمائیے۔ محمد مہدی عاکف کا ایک ہی جرم تھا کہ وہ مصر میں اللہ اور اس کے رسول کا نظام اور شریعت چاہتے تھے۔ وہ اپنے دل میں نبی رحمتؐ کی سچی محبت رکھتے تھے۔ لیکن جس وقت اس عاشق صادق کی نماز جنازہ تک پر پابندی تھی، عین اس وقت قاہرہ کی ایک شاہراہ پر ’ہلا گلا نائٹ‘ مناتے ہوئے ہم جنس پرستوں کا ایک جشن ہورہا تھا۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہم جنس پرستوں کے معروف پرچم لہراتے، سرعام خرمستیاں کرتے خود کو ترقی یافتہ ثابت کرنے کی بھونڈی کوشش کررہے تھے۔ انھیں جنرل سیسی، عالمی ذرائع ابلاغ اور موبائل انٹرنیٹ فراہم کرنے والی مختلف کمپنیوں کی سرپرستی حاصل تھی۔

محمد مہدی عاکف کو جب سپردخاک کیا گیا تو یہ نئے ماہ کی دوسری شب تھی۔ ان کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ جب رات کے سناٹے میں شہید کا جسد ِ خاکی قبر میں اتارا جارہا تھا، مجھ سمیت سب حاضرین نے محسوس کیا کہ تاریک راتیں ہونے کے باوجود پورے ماحول پر جیسے چودھویں کے چاند کا نور چھایا ہوا ہے۔ میں نے محاصرہ کیے ہوئے پولیس اور فوج کو متوجہ کرتے ہوئے کہا: ’’الحمد للہ! یہ نور میرے مرحوم شوہر اور ہم سب کے لیے راحت و تشفی کا باعث بن رہا ہے‘‘۔ سنتے ہی پیچھے کھڑا ہوا ایک فوجی اپنے ضمیر پر طاری بوجھ کی تاب نہ لاتے ہوئے گرا اور بے ہوش ہوگیا۔

یہ نُور اللہ کی جانب سے ظالم نظام کے لیے کوئی پیغام اور استعارہ تھا ؟ اخوان کے بانی امام حسن البنا کو فروری ۱۹۴۹ء کی ایک شام شہید کیا گیا تھا، اس وقت مصر میں اسلامی تحریک کے ارکان کی تعداد چند ہزار تھی ۔ تقریباً سب گرفتار کر لیے گئے ۔ ۶۲برس بعد ڈکٹیٹرشپ سے نجات ملی تو صرف اس کے ارکان و امیدواران رکنیت کی تعداد ۲۰ لاکھ سے متجاوز ہوچکی تھی ۔ آج ایک بار پھر مصر ، بنگلہ دیش ، شام اور لیبیا سمیت کئی ممالک میں تحریکات اسلامی کے لاکھوں کارکنان جیلوں میں ہیں اور قرآن و سیرت حتمی پیغام سنارہے ہیں کہ :

اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ O (البقرہ ۲:۲۱۴) ’’واضح رہے کہ اللہ کی نصرت بہت قریب ہے‘‘۔ شرط صرف اتنی ہے کہ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے صبرواستقامت سے اپنے اپنے حصے کا کام کرتے رہیں۔

جب ہم اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم وہ گروہِ انسانی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، جو اس دنیا میں انبیا کرام ؑ کا جانشین ہے۔ جس کے ایک ایک فرد نے اپنی منفرد حیثیت میں اور پورے گروہ نے بحیثیت مجموعی اپنے آپ کو کلیتاً اپنے رب کے حوالے کر دیا ہے اور اپنی پوری زندگی اور اس کے سارے معاملات کو غیرمشروط اور برضا و رغبت خدا کی اطاعت و بندگی میں دے دیا ہے۔

دوسرے لفظوں میں اس کے معنی یہ ہیں، کہ ہم نے ہر طرف سے منہ موڑ کر پوری یکسوئی اور طمانیت ِ قلب کے ساتھ فقط اللہ رب العالمین کو اپنا الٰہ و رب، خالق و مالک، حاکم اور واضع قانون مان لیا ہے۔ سب کو چھوڑ کر فقط محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رہنما اور قائد و پیشوا بنا لیا ہے۔ سب نظام ہاے زندگی اور نظریہ ہاے حیات کو ترک کر کے صرف اسلام اور قرآن کو بطور نظامِ زندگی اور دستورِحیات کے قبول کرلیا ہے۔ ہر دوسری بازپُرس کا خیال دل سے نکال کر محض اپنے الٰہ واحد کی بازپُرس کو قابلِ لحاظ تسلیم کرلیا ہے۔

مختصر یہ کہ ہرطریق زندگی کو ترک کر کے، ہراقتدار کو ٹھکرا کر، ہرحاکمیت و عقیدت سے بغاوت کرکے اور ہرخوف اور لالچ سے بے نیاز ہوکر صرف اللہ واحد کی غلامی و وفاداری اور اطاعت کا قلاوہ اپنی گردن میں ڈال لیا ہے۔ اور ہم چاہتے ہیں کہ باہم میل ملاپ، لین دین، نکاح و طلاق اور نماز روزے سے لے کر تنظیم و سیاست، قانون وعدالت، صلح و جنگ اور ملکی نظم و نسق تک ہمارا ہرانفرادی، اجتماعی ، تمدنی اور سیاسی معاملہ، سرتاپا خدا کی حاکمیت کے تحت، اس کے قانون کے مطابق، اس کے رسولؐ کی رہنمائی میں اور محض آخرت کی بازپُرس کا لحاظ کرتے ہوئے انجام پائے۔

لیکن، ذرا انصاف سے اور کھلے دل سے موجودہ مسلمان سوسائٹی پر تنقیدی نگاہ ڈالیے اور شمال سے جنوب تک اور مشرق سے مغرب تک ان کی کروڑوں کی آبادیاں دیکھتے چلے جایئے اور بتایئے، کیا ان میں کہیں کوئی ایسا گروہ موجود ہے جو ان اسلامی اساسات پر پورا اُترتا ہو؟ ہاں، منفرد طور پر کچھ اللہ کے بندے ضرور ایسے مل جائیں گے، جنھوں نے اسلام کے اُس حصےکو،     جو انسان کی انفرادی زندگی سے تعلق رکھتا ہے، پورے شدومد کے ساتھ اختیار کر رکھا ہوگا اور اعتقاداً بھی اللہ کے سوا کسی اور کو الٰہ و رب، محمدؐ کے سوا کسی اور کو رہنما، کتاب و سنت کے سوا کسی اور شے کو قانون اور آخرت کی بازپُرس کے سوا کسی اور بازپُرس کو قابلِ اعتنا نہ سمجھتے ہوں گے۔

 لیکن، ان بزرگوں سمیت جہاں تک مسلمانوں کی اجتماعی زندگی، ان کی تنظیموں اور جماعتی پروگراموں کا تعلق ہے، ان کو آپ اسی طرح سرتاپا غیراسلامی پائیں گے اور اسلام کے بجاے مغربی نظریہ ہاے حیات کے پابند دیکھیں گے، جس طرح اللہ کے باغیوں اور اس سے پھرے ہوئے انسانوں کی اجتماعی زندگیوں، تنظیموں اور جماعتی پروگراموں کو۔ ان سب کے نزدیک کتاب و سنت نہیں بلکہ جمہوری اصول، اسوئہ فرنگ اور مغربی قوانین و آئین ہی حجت و بُرہان اور سند و سلطان کا حکم رکھتے ہیں۔ یہ صورتِ حال اس اَمر کی بین دلیل ہے کہ اگرچہ مسلمان اور ان کے رہنما زبان سے اس کا اقرار کریں یا نہ کریں، لیکن عملاً ان کے نزدیک اب اسلام محض ایک شخصی معاملہ (Personal Affair) اور اعتقادی چیز ہے، جسے ان کی اجتماعی اور سیاسی زندگی سے کوئی سروکار نہیں۔

لیکن، جن لوگوں نے قرآنِ کریم ، اسوئہ رسولؐ اور سیرتِ صحابہؓ پر سرسری نظر بھی ہدایت حاصل کرنے کے لیے ڈالی ہے، وہ جانتے ہیں کہ اسلام موجودہ زمانے کے عام رائج الوقت مفہوم میں کوئی مذہب یا Religion نہیں ہے، جو محض عبادات، ریاضات، اور کچھ انفرادی دین دارانہ اعمال و افعال پر مشتمل ہو، بلکہ وہ ایک مستقل نظریۂ حیات ، ایک مکمل نظامِ زندگی اور ایک بین الاقوامی دستورالعمل ہے، جو افراد کی انفرادی سیرتوں سے لے کر پوری دنیا کے اجتماعی نظم تک، ہرچیز کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے، اور اپنے ماننے والوں کو حکم دیتا ہے کہ تمام کافرانہ نظام ہاے زندگی کو بیخ و بُن سے اُکھاڑ کر پوری انسانی سوسائٹی کی تعمیر سراسر میری اساس پر اور میرے نظریہ و مسلک کے مطابق کرو۔ وہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی پوری زندگی کا ایک مفصل اور متعین پروگرام پیش کر کے ایمان والوں سے مطالبہ کرتاہے کہ اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً  [البقرہ  ۲:۲۰۸] ، اسے پورے کا پورا قبول کرو۔ اس کے وضع اور مرتب کرنے والے، یعنی اللہ رب العالمین نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو صاف صاف بتا دیا کہ اُسے یہ دین د ے کر دنیا میں اس غرض سے بھیجا جا رہا ہے کہ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ [التوبہ ۹:۳۳]، تاکہ وہ اسے تمام ادیانِ باطلہ، سب نظریہ ہاے حیات اور کُل نظام ہاے زندگی پر غالب کردے اور اس وقت تک وہ اور اس کے ماننے والے دم نہ لیں، جب تک کہ اس روے زمین پر اللہ کی حاکمیت و اطاعت کے علاوہ کوئی اور حاکمیت و اطاعت بھی باقی ہے، خواہ ان کا ایسا کرنا منکرین حق کو اپنی نفس پرستی، انسان دشمنی اور حماقت و ہٹ دھرمی کی بنا پر کتنا ہی ناگوار محسوس ہو۔

اسلام کے اساسی عقائد اور اس کا پوری انسانی زندگی پر حاوی ہونا معلوم ہوجانے کے بعد مسلمانوں کی حیثیت،ان کے فرائض اور ان کی زندگی کا مقصد آپ سے آپ متعین ہوجاتا ہے، اور یہ حقیقت بالکل نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ: ’’مسلمان‘ نام ہے اس بین الاقوامی اصلاحی و انقلابی پارٹی کا جو اسلام کے نظریہ و مسلک کے مطابق انسانی سوسائٹی کی تعمیر کے لیے اس کارزارِ دنیا میں قدم رکھے، اور اس کام کی تکمیل کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دے، جو ان کے آقا و مالک نے اپنے رسولؐ کے ذمے اور اس کی وساطت سے خود ان کے ذمے کیا ہے‘‘۔ لیکن، اس کام کے دین کی غایت الغایات اور اس کا اساسی کام ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس معاملے کو ہمارے اتنے سے اجتہاد پر بھی نہیں چھوڑا بلکہ صاف صاف فرما دیا کہ:

لَسْتُمْ عَلٰی شَیْءٍ  حَتّٰی تُقِیْمُوا التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِیْلَ وَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ [المائدہ ۵:۶۸]،

شَرَعَ لَکُمَ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰٓی اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ [الشوریٰ ۴۲:۱۳]،

وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط [اٰل عمرٰن ۳:۱۰۴]، وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا ط[البقرہ ۲:۱۴۳]

 یعنی تمھاری یہ ساری رسمی دین داریاں اُس وقت تک ہیچ ہیں، جب تک کہ تم کتابِ الٰہی کو عملاً قائم نہ کرو، اور اس کے منشا کو پورا کرنے کے لیے سربکف نہ ہوجائو۔ تمھارے لیے وہی دین اور نظامِ زندگی مقرر کیا گیا ہے، جو نوح علیہ السلام کو دیا گیا تھا (اور اے محمدؐ! جس کی تیری طرف وحی کی گئی ہے) اور جو ابراہیم ؑ اور موسٰی اور عیسٰی ؑ (سب انبیا ؑ) کو دیا گیا تھا (اور اس کی غرض یہ ہے کہ) تم اس دین کو دنیا میں برپا کرو۔ تم میں ایک گروہ تو لازماً ایسا موجود رہنا چاہیے، جو لوگوں کو نیکی (اطاعتِ ربّ) کی طرف بلائے، معروف کا حکم دے اور منکر سے روکتا رہے۔ مسلمانو! ہم نے تمھیں دنیا کے لیے عدل و انصاف اور راست روی و حق پرستی کا نمونہ (اُمت ِ وسط) بنایا ہے، تاکہ تم دوسرے لوگوں پر دین حق کی حجت تمام کرنے کا ذریعہ بنو جس طرح ہمارا رسولؐ تم پر اتمامِ حجت کا ذریعہ بنا۔

ظاہر ہے کہ دین کو دنیا میں برپا کرنا، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینا اور بندگانِ خدا پر زندگی کے ہرشعبے میں اس کے دین کی حجت تمام کرنا منفرد اشخاص کے بس کا کام نہیں۔ ان میں سے ہرکام اجتماعی نظم اور منظم جدوجہد چاہتا ہے، جیساکہ قرآن کا منشا اور نبیؐ کا اسوہ ہے ، جس کے بقا و استحکام کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے جانیں لڑائیں اور جسے زندہ رکھنے کی خاطر خلفاے راشدین اور حضرات حسنین رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے قربانیاں کیں۔ اس کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں کہ مسلمان اُمت ِ وسط اور خیرِ اُمت کے فرائض انجام دےسکیں، اور خدا کے [راستے سے] بھٹکے ہوئے بندوں اور گروہوں کے سامنے اس کے دین کی وہ زندہ شہادت بن سکیں کہ ان کے قول اور عمل اور برتائو ہرچیز کو دیکھ کر لوگ زندگی کے ہرشعبے میں صحیح راہ پاسکیں۔ دین کو بالفعل برپا کیے بغیر شہادت علی الناس اور اَمربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینا تو درکنار، اسلام کے احکام و ضوابط کو اپنی انفرادی زندگی میں بھی پوری طرح کارفرما کرنا ممکن نہیں۔

لہٰذا، مسلمانوں کا یہ دینی فرض ہے کہ دنیا میں ایک ایسی منظم سوسائٹی بنائیں، جو اقامت ِ دین کا یہ فرض انجام دیتی رہے، اور جس کی حدود کے اندر اللہ کی حاکمیت کے سوا کسی دوسرے اقتدارِ اعلیٰ کو، اس کے قانون کے سوا کسی دوسرے قانون کو ، اس کے رسولؐ کے سوا کسی دوسرے کی رہنمائی کو، اور آخرت کی بازپُرس کے سوا کسی دوسرے کی بازپُرس کو کوئی دخل نہ ہو۔ یہ کام ایمان کا عین تقاضا ہے، مسلمان کی زندگی کا مقصد یہی ہے اور انبیا علیہم السلام کی بعثت سے مقصود یہی تھا۔ اسی کام کے لیے جماعت اسلامی وجود میں آئی ہے اور اسی کو بالفعل انجام دینا ہمارا نصب العین ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ حالات میں، جب کہ اسلامی اصولوں کے بالکل برعکس ایک ہمہ گیر نظامِ زندگی ہم پر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا پر چھایا ہوا ہے، اور اس نے ہمیں اپنے اندر  اس طرح جکڑ لیا ہے کہ روز کی روٹی بھی، جب تک اس کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائیں ملنی محال ہے۔ اس کام کو کیسے کیا جائے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ ٹھیک اسی طرح، جس طرح اس کام کے اصل علَم برداروں، یعنی  انبیا علیہم السلام نے اسے آدم علیہ السلام سے لے کر محمدصلی اللہ علیہ وسلم تک کیا۔ یہ طریقہ ایک ہی ہے اور بلااستثنا ہر زمانے، ہر ملک اور ہرقوم میں اس کام کے لیےاسی کو اختیار کیا جاتا رہا ہے۔

آپ غور فرمائیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اجتماعی کاموں کے لیے خواہ وہ حق ہوں یا باطل، اللہ تعالیٰ نے شاید ایک ہی طریقہ خلق کیا ہے اور وہ یہ کہ انسان پہلے زیربحث نظریہ و مسلک کو سامنے رکھ کر اس کو سمجھنے، جانچنے اور پرکھنے پر اپنی ساری ذہنی اور عقلی قوتیں صرف کردے۔ پھر اگر دل و دماغ اس کے حق ہونے کی گواہی دیں اور عملاً اس پر چلنے اور نظامِ حیات تعمیر کرنے سے زندگی  کی ہرکل ٹھیک بیٹھتی چلی جاتی ہو، تو مردانہ وار اس پر ایمان لے آئے اور اپنی پوری زندگی کی باگ ڈور اس نظریہ و مسلک کے ہاتھ میں دے دے۔ جو کچھ وہ کرنے کا تقاضا اور حکم کرے، اسے پورے شدومد، خلوص و دیانت اور خوش دلی سے کرنے پر کمربستہ ہوجائے، اور جس سے وہ منع کرے یا جو کچھ اس پر ایمان کے منافی ہو، اسے بلاچون و چرا چھوڑتا چلا جائے۔

پھر جب اس نظریہ و مسلک کے ایک سے زیادہ لوگ فراہم ہوجائیں، تو وہ اس کے علَم برداروں کی حیثیت سے اس عزم کے ساتھ اُٹھیں کہ پوری سوسائٹی میں اس نظریۂ حیات کو کارفرما کرکے دم لیں گے۔ اس راہ کا اوّلین قدم یہ ہے کہ اپنے اصولوں اور نظریات کو بالکل صاف اور منزہ صورت میں دنیا کے سامنے رکھ دیا جائے اور بنی نوع انسان کو اپنی کسی غرض کے لیے نہیں، بلکہ خالصتاً ان کی فلاح و بہبود اور اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے، ان اصولوں کی طرف دعوت دی جائےاور جو لوگ ان کے قائل ہوکر داعیانہ عزم کے ساتھ انھیں قبول کرتے جائیں، ان کو ملا کر ایک منظم گروہ بناتے چلے جائیں۔

ظاہر ہے کہ اِس گروہ میں، جب کہ یہ کسی رنگ و نسل یا قوم و وطن کی بنا پر نہیں بلکہ صرف انسانی فلاح کے عالم گیر اصولوں پر منظم ہو رہا ہے، ہررنگ و نسل، ہر قوم و وطن اور ہرفن و قابلیت کے لوگ آئیں گے اور جوں جوں اس کا دائرہ اور حلقۂ اثر وسیع ہوتا جائے گا اِس کی قوت، اِس کی قابلیت، اس کے ذرائع و وسائل اور اس کے سازوسامان ہرچیز میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا، اور یہ اس منظم سوسائٹی کو جنم دے گا، جس کی اُٹھان اوّل سے آخر تک ہرانفرادی اور اجتماعی معاملے میں اسلامی اساس پر ہوئی ہوگی اور جو فطرتاً اُس صاحب ِ اختیار اجتماعی نظم پر منتج ہوگی، جو اَمربالمعروف اور نہی عن المنکر اور شہادت علی الناس کے فرائض کو کماحقہٗ انجام دے سکے گا۔

اس دوران میں منفرد اشخاص کو بھی اور پورے گروہ کو بھی بہت سے مراحل (stages) میں سے گزرنا پڑے گا اور کئی رکاوٹیں پیش آئیں گی، جن سے ہرمرحلے کے حالات کے مطابق نمٹنا ہوگا۔

(ماہ نامہ ترجمان القرآن  ، مئی ۱۹۴۶ء)

اَکْمَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ   اِیْمَانًا   اَحْسَنُھُمْ  خُلُقًا (ابو داؤد ) اہلِ ایمان میں زیادہ کامل ایمان والے وہ لوگ ہیں ، جو اخلاق میں زیادہ اچھے ہیں۔

اس سے بھی زیادہ مقدم یہ بات ہے کہ ایمان جو گومذہب کا اصل الصول ہے لیکن اسی بناپر کہ وہ دل کے اندر کی بات ہے جس کو کوئی دوسراجانتا نہیں اور زبان سے ظاہری اقرار ہر شخص کرسکتا ہے، اس لیے اس ایمان کی پہچان اس کے نتائج و آثار، یعنی اخلاق حسنہ کو قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ سورۂ مومنون میں عبادات کے ساتھ ساتھ اخلاق کو بھی اہل ایمان کی ان ضروری صفات میں گنایا گیا ہے جن پر ان کی کامیابی کا مدار ہے۔فرمایا :

قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ O  الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلاَتِھِمْ خٰشِعُوْنَ O وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ O وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِلزَّکٰوۃِ فٰعِلُوْنَ O وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِفُرُوْجِھِمْ حٰفِظُوْنَ   …… وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمٰنٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رٰعُوْنَ O وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَلٰی صَلَوٰتِھِمْ یُحَافِظُوْنَ O (المومنون۲۳:۱تا۵،اور۸تا۹) یقینا فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے جو: اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں، لغویات سے دُور رہتے ہیں ، زکوٰۃ کے طریقے پرعامل ہوتے ہیں ، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں… اپنی امانتوں اور اپنے عہد و پیمان کا پاس رکھتے ہیں،اور اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں۔

ان آیتوں میں اہل ایمان کی کامیابی جن اوصاف کا نتیجہ بتائی گئی ہے ان میں وقار و تمکنت (لغویات سے اعراض )،فیاضی (زکوۃٰ)،پاک دامنی اور ایفاے عہد کو خاص رُتبہ دیا گیا ہے ۔

اخلاق حسنہ اور تقویٰ

                اسلام کی اصطلاح میں انسان کی اسی قلبی کیفیت کا نام جو ہر قسم کی نیکیوں کی محرک ہے تقویٰ ہے ۔وحی محمدیؐ نے تصریح کردی ہے کہ تقویٰ والے لوگ وہی ہیں جن کے یہ اوصاف ہیں:

لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَ لٰکِنَّ الْبِرَّمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓئِکَۃِ  وَ الْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ ج وَ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ ط  وَ السَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ ج      وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ ج  وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عٰھَدُوْا ج  وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَالضَّرَّآئِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ ط اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا ط وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ O (البقرہ ۲:۱۷۷) نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لیے یا مغرب کی طرف ، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یومِ آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا  دل پسندمال رشتے داروں اور یتیموں پر ، مسکینوں اور مسافروں پر ، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے ، نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔ اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اسے وفا کریں ، اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راست باز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں۔

اس سے ظاہر ہوا کہ راست بازی اور تقویٰ کا پہلا نتیجہ جس طرح ایمان ہے اسی طرح ان کا دوسرا لازمی نتیجہ اخلاق کے بہترین اوصاف فیاضی ،ایفاے عہد اور صبر و ثبات وغیرہ بھی ہیں۔

اللہ تعالٰی کا نیک بندہ ہونے کا شرف

                محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک تعلیم میں اللہ تعالیٰ کے نیک اور مقبول بندے وہی قراردیے گئے جن کے اخلاق بھی اچھے ہوں اور وہی باتیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کے مقبول ہونے کی نشانی ہیں:

وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَھُمُ الْجٰہِلُوْنَ   قَالُوْا سَلٰمًا O  وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّھِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًا O وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَھَنَّمَ ق اِنَّ عَذَابَھَا کَانَ غَرَامًا O  اِنَّھَا سَآئَ تْ مُسْتَقَرًّا وَّمُقَامًا O وَالَّذِیْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ        قَوَامًا O  وَالَّذِیْنَ لاَ یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰہًا اٰخَرَ وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُوْنَ ج وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَامًا O (الفرقان ۲۵: ۶۳-۶۸) رحمٰن کے (اصلی) بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں اور جاہل اُن کے منہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام جو اپنے ربّ کے حضور سجدے اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں جو دعائیں کرتے ہیں کہ ’’اے ہمارے ربّ ، جہنم کے عذاب سے ہم کو بچا لے ، اُس کا عذاب تو جان کا لاگو ہے، وہ تو بڑا ہی بُرا مستقر اور مقام ہے‘‘۔ جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل ، بلکہ اُن کا خرچ دونوں انتہائوں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے ۔جو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے ، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں___ یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا ۔

وَالَّذِیْنَ لاَ یَشْہَدُوْنَ الزُّوْرَ لا وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا O وَالَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْھَا صُمًّا وَّعُمْیَانًا O وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا O (الفرقان۲۵: ۷۲ تا ۷۴) (اور رحمٰن کے بندے وہ ہیں) جو جھُوٹ کے گواہ نہیں بنتے اور کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہو جائے تو شریف آدمیوں کی طرح گزر جاتے ہیں ۔ جنھیں اگر ان کے ربّ کی آیات سنا کر نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اس پر اندھے اور بہرے بن کر نہیں رہ جاتے ۔جو دُعائیں مانگا کرتے ہیں کہ ’’اے ہمارے ربّ ، ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیز گاروں کا امام بنا‘‘۔

دیکھو ایک ایمان کی حقیقت میں عفو ودرگزر، میانہ روی اور قتل و خوںریزی اور بدکاری نہ کرنا اور مکرو زور میں شریک نہ ہونا وغیرہ اخلاق کے کتنے مظاہر پوشیدہ ہیں۔

اہل ایمان کے اخلاقی اوصاف

وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے پیارے اور مقبول بندے ہیں محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ان کے اخلاقی اوصاف یہ بیان ہوئے ہیں:

وَعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ O وَالَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ کَبٰٓئِرَ الْاِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَاِذَا مَا غَضِبُوْا ھُمْ یَغْفِرُوْنَ O  وَالَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّھِمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ ص وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ ص وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ O وَالَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَھُمُ الْبَغْیُ ھُمْ یَنْتَصِرُوْنَ O وَجَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثْلُھَا ج  فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُہُ عَلَی اللّٰہِ ط اِنَّہٗ لاَ یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ O وَلَمَنِ انتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِہٖ فَاُولٰٓئِکَ مَا عَلَیْھِمْ مِّنْ سَبِیْلٍ O اِنَّمَا السَّبِیْلُ عَلَی الَّذِیْنَ یَظْلِمُوْنَ النَّاسَ وَیَبْغُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ ط  اُولٰٓئِکَ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ O وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ اِنَّ ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ O (الشوریٰ ۴۲: ۳۶ تا ۴۳) وہ اُن لوگوں کے لیے ہے جو ایمان لائے ہیںاور اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں۔جو بڑے بڑے گناہوں اوربے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں اور اگر غصہ آ جائے تو در گزر کر جاتے ہیں،جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں ،نماز قائم کرتے ہیں ، اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں ، ہم نے جو کچھ بھی رزق انھیں دیا ہے اُس میں سے خرچ کرتے ہیں،اور جب ان پر زیادتی کی جاتی ہے تو اس کا مقابلہ کرتے ہیں___بُرائی کا بدلہ ویسی ہی بُرائی ہے ، پھر جو کوئی معاف کر دے اور اصلاح کرے اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے ، اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔اور جو لوگ ظلم ہونے کے بعد بدلہ لیں اُن کو ملامت نہیں کی جا سکتی، ملامت کے مستحق تو وہ ہیں جو دوسروں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق زیادتیاں کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔البتہ جو شخص صبر سے کام لے اور در گزر کرے، تو یہ بڑی اُولوا العزمی کے کاموں میں سے ہے۔

اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ O الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآئِ وَ الضَّرَّآئِ وَ الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ ط وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ O(اٰل عمرٰن ۳: ۱۳۳-۱۳۴) اور وہ اُن خدا ترس لوگوں کے لیے مہیا کی گئی ہے جو ہر حال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں، خواہ بدحال ہوں یا خوش حال ، جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کردیتے ہیں۔ ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں۔

اُولٰٓئِکَ یُؤْتَوْنَ اَجْرَھُمْ مَّرَّتَیْنِ بِمَا صَبَرُوْا وَ یَدْرَئُ وْنَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ O وَ اِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْہُ وَ قَالُوْا لَنَآ اَعْمَالُنَا وَ لَکُمْ اَعْمَالُکُمْ سَلٰمٌ ز عَلَیْکُمْ ز لَا نَبْتَغِی الْجٰھِلِیْنَO  (القصص ۲۸: ۵۴-۵۵) یہ وہ لوگ ہیں  جنھیں ان کا اجر دوبار دیا جائے گا اُس ثابت قدمی کے بدلے جو انھوں نے دکھائی۔ وہ برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں اور جو کچھ رزق ہم نے انھیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ اور جب انھوں نے بے ہودہ بات سنی تو    یہ کہہ کر اس سے کنارہ کش ہو گئے کہ ’’ ہمارے اعمال ہمارے لیے اور تمھارے اعمال تمھارے لیے ، تم کو سلام ہے ، ہم جاہلوں کا سا طریقہ اختیار کرنا نہیں چاہتے۔

وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ  مِسْکِیْنًا  وَّیَتِیـْمًا  وَّاَسِیْرًا  (الدھر۷۶:۸)  اور   اللہ کی محبّت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ا یمان اورا خلاقِ حسنہ کے بارے میں ارشاد ربانی ہے: وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ O (القلم ۶۸:۴) ’’اور بے شک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو ‘‘۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا: اُیُّ الْاِیْمَا نِ اَفْضَلُ ’سب سے افضل ‘سب سے اعلیٰ اور سب سے عمدہ ایمان کون سا ہے؟‘‘۔ جواب میں ارشاد فرمایا: خُلُقٌ حَسَنٌ’’یعنی وہ ایمان  جس کے ساتھ اخلاق حسنہ موجود ہوں‘‘۔

ارشاداتِ نبویؐ کی روشنی میں

اَکْمَلُ   الْمُؤْمِنِیْنَ   اِیْمَاناً   اَحْسَنُھُمْ  خُلُقًا  (ابوداؤد ) اہلِ ایمان میں زیادہ کامل ایمان والے وہ لوگ ہیں ، جو اخلاق میں زیادہ اچھے ہیں۔

اِ نَّمَا بُـعِـثْتُ   لِاُتَمِّمَ   مَکَارِ مَ  الْاَخْلاَقِ (الادب المفرد للبخاری و مسند احمد) میں اخلاق کریمہ کی تکمیل کے لیے مبعوث ہوا ہوں۔

 اِنَّ   اَثْقَلَ شَیءٍ یُوْضَعُ  فِیْ  مِیْزَانِ  الْمُؤْمِنِ  یَوْمَ  الْقِیَامَۃِ خُلُقٌ  حَسَنٌ (ابوداؤد،  الترمذی)قیامت کے دن ، مومن کی میزانِ عمل میں ، جو سب سے وزنی اور بھاری چیز رکھی جائے گی، وہ اُس کے اچھے اخلاق ہوں گے۔

اَ لْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ(رواہ احمد ابو داؤد )نیکی اچھے اخلاق کا نام ہے۔

اِنَّ مِنْ اَحَبِّکُمْ اِلَیَّ  وَ اَ قْرَبِکُمْ مِنِّیْ مَجْلِسًا  یَوْ مَ الْقِیٰمَۃِ أَ حْسَنُکُمْ أَ خْلَا قًا (بخاری) بے شک مجھے تم میں سے سب سے محبوب اور قیامت کے دن میرے سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہوں گے جو تم میں اچھے اخلاق والے ہیں ۔

وَ عَنْ رُجُلٍ مِنْ مُزَ یْنَۃَ قَا لَ : قَا لُوْ ا : یَا رَ سُوْ  لَ اللّٰہِ  مَا خَیْرُ مَا اُعْطِیَ الْاِنْسَانُ؟  قَا لَ : اَلْخُلُقُ الْحَسَنُ (بیہقی فی شعیب الایمان) مزینہ قبیلہ کے ایک شخص سے روایت ہے کہ لوگوں نے عرض کیا :اے اللہ تعالیٰ کے رسول،انسان کو جو کچھ عطا ہو ا ہے اس میں سب سے بہتر کیا ہے ؟ آپؐ نے فرمایا:حُسن اخلاق۔

اِنَّ   الْمُؤْمِنَ   لَیُدْرِکُ   بِحُسْنِ  خُلُقِہٖ   دَرَجَۃَ  قَائِمِ   اللَّیْلِ   وَصَائِمِ   النَّھَارِ    (ابوداؤد، عن عائشۃؓ ) حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا : مومن، اپنے اچھے اخلاق سے ان لوگوں کا درجہ حاصل کر لیتا ہے ، جو رات بھر نفلی نمازیں پڑھتے ہوں اور دن کو ہمیشہ روزہ رکھتے ہوں۔

ایمان اور اخلاق حسنہ لازم و ملزوم

  •  ارشاد نبوی ؐ:  لَیْسَ الْمُؤْ مِنُ  بِا لطَّعَّانِ  وَ  لَا  اللَّعَّا نِ وَلَا الْفَا حِشِ  وَلَا الْبَذِیْءِ (سنن ترمذی) ’’مومن کبھی طعنے دینے والا ،لعنت ملامت کرنے والا،فحش گوئی کرنے والا اور بداخلاق نہیں ہوسکتا ‘‘۔
  •   نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وَ اللّٰہِ  لاَ  یُؤْ مِنُ  ،   وَ اللّٰہِ  لاَ  یُؤْ مِنُ  ، وَ اللّٰہِ  لاَ  یُؤْ مِنُ   قِیْلَ وَ مَنْ یَا رَسُوْ لَ اللّٰہَ ’’خدا کی قسم وہ شخص مومن نہیں ہے ،خدا کی قسم وہ شخص مومن نہیں ہے ،خدا کی قسم وہ شخص مومن نہیں ہے ۔پوچھا گیا :اے اللہ تعالیٰ کے رسولؐ کون ؟‘‘۔

                                جواب میں ارشاد فرمایا : اَ لَّذِ یْ لاَ  یَأْ مَنُ جَا رُ ہُ  بِوَا یِقَہُ، وہ شخص جس کی ایذارسانی سے اس کا پڑوسی چین یا امن میں نہیں۔

  •   نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: لَا  اِ یْمَانَ لِمَنْ لَّا  اَمَا نَۃَ لَہُ ، وَ لَا دِ یْنَ  لِمَنْ لَّا عَھْدَ لَہُ (مشکوٰۃ ) جس کے اندر امانت نہیں، اس کے اندر ایمان نہیں اور جسے عہد کا پاس نہیں، اس کے پاس دین نہیں ہے۔

 اخلاق حسنہ کے لیے جذبۂ محرکہ 

ایمان باللہ ، ایمان بالآخرۃ، اللہ تعالیٰ کی محبت ،اللہ تعالیٰ کی رضا جو ئی ،اللہ تعالیٰ کا خوف، تقویٰ،یہ احساس کہ اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض نہ ہو جائے ،اخلاقِ حسنہ کے لیے جذبۂ محرکہ ہیں۔  اسی طرح یہ فکرہے کہ آخرت کا خوف،آخرت کی جواب دہی کا احساس کہ ہر سانس کے ایک ایک عمل کا حساب دینا ہے ۔اس کے لیے شعور کو تازہ رکھنا اور ہر قدم پر اپنا محاسبہ کرنا کے کہیں مجھ سے کوئی غلط فعل سرزد نہ ہو جائےناگزیرہے۔    

اسلام میں جہاں ، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لانا ضروری ہے، وہیں عقیدۂ ختم نبوت بھی اس ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔ اگر ایمان و اعتقاد کی یہ بنیاد متزلزل ہوجائے تو اسلام سے وابستگی کی پوری بنیاد ہی ڈھے جاتی ہے۔

۲۲مئی ۱۹۷۴ء سے شروع ہونے والی ’تحریک ختم نبوت‘ کے دوران پاکستان کی قومی اسمبلی کے تمام ارکان نے بطور تحقیقاتی کمیٹی جب اپنی کارروائی مکمل کرلی، اور دستور میں ترمیم کرکے  منکرینِ ختم نبوت (قادیانیوں) کے غیر مسلم ہونے کا فیصلہ کیا، تب قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو نے انگریزی میں ایک طویل خطاب کیا۔ ذیل میں اس کا اُردو ترجمہ دیا جارہا ہے۔بعض مخصوص این جی اوز ’قادیانیت‘ کے بارے میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور میں مذکورہ ترمیم کو تنقید کا نشانہ بناتی ہیں اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہیں کہ یہ مسئلہ تو صرف علما کے ایک طبقے نے اُٹھایا تھا۔ جناب بھٹو کے زیرنظر خطاب سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ فیصلہ پوری قوم نے کیا تھا، جس میں علما اور منتخب عوامی نمایندے بھی شامل تھے اور کوئی ایک ووٹ بھی اس ترمیم کی مخالفت میں نہیں ڈالا گیا تھا۔(مترجم)

جناب اسپیکر، میں جب یہ کہتاہوں کہ یہ فیصلہ ایوان کا متفقہ فیصلہ ہے، تو اس سے میرا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ میں کوئی سیاسی مفاد حاصل کرنے کے لیے اس بات پر زور دے رہا ہوں۔ ہم نے اس مسئلے پر ایوان کے تمام ممبروں سے تفصیلی طور پر تبادلۂ خیال کیا، جن میں تمام پارٹیوں اور ہرطبقۂ خیال کے نمایندے موجود تھے۔ اور آج کے روز جو فیصلہ ہوا ہے، یہ ایک قومی فیصلہ ہے۔

یہ پاکستان کے عوام کا فیصلہ ہے۔ یہ فیصلہ پاکستان کے مسلمانوں کے ارادے، خواہشات اور ان کے جذبات کا عکاس ہے۔ میں نہیں چاہتا ہے کہ فقط حکومت ہی اس فیصلے کی تحسین کی مستحق قرار پائے، اور نہ میں یہ چاہتا ہوں کہ کوئی ایک فرد اس فیصلے کی تعریف و تحسین کا حق دار بنے۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ مشکل فیصلہ، کئی پہلوئوں سے بہت ہی مشکل فیصلہ، جمہوری اداروں اور جمہوری حاکمیت کے بغیر نہیں کیا جا سکتا تھا۔

یہ ایک بہت پرانا مسئلہ ہے۔ یہ ۹۰ سال پرانا مسئلہ ہے، اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ مزید پیچیدہ ہوتا چلا گیا ہے۔ اس نے ہمارے معاشرے میں بہت سی تلخیاں اور تفرقے پیدا کیے ہیں، لیکن آج کے دن تک اس مسئلے کا کوئی حل تلاش نہیں کیا جا سکا۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ:   ’یہ مسئلہ ماضی میں بھی پیدا ہوا تھا، ایک بار نہیں بلکہ کئی بار۔‘ ہمیں بتایا گیا کہ: ’ماضی میں اس مسئلے پر جس طرح قابو پایا گیا تھا، اسی طرح اب کی بار بھی ویسے ہی اقدامات سے اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔‘ مجھے نہیں معلوم کہ ماضی میں اس مسئلے سے کس طرح نبٹا جاتا رہا، لیکن مجھے یہ معلوم ہے کہ ۱۹۵۳ء میں اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے کیا کِیا گیا تھا۔

۱۹۵۳ء میں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے وحشیانہ انداز سے طاقت کا استعمال کیا گیا تھا۔  جناب اسپیکر اور اس ایوان کے محترم ارکان، کسی مسئلے کو دبا دینے سے آپ اس مسئلے کا حل نہیں نکال سکتے۔ اگر اسی طرح کے کچھ صاحبانِ عقل و فہم، حکومت کو یہ مشورہ دیتے کہ عوام پر تشدد کرکے اس مسئلے کو حل کیا جائے اور عوام کے جذبات اور ان کی خواہشات کو کچل دیا جائے، تو ہم شاید اس صورت میں ایک عارضی حل نکال لیتے، لیکن یہ مسئلے کا صحیح اور درست (genuine)حل نہ ہوتا۔ اس سے ابھرے ہوئے جذبات کو دبایا نہ جا سکتا۔ ممکن ہے مسئلہ پس منظر میں چلا جاتا، لیکن یہ مسئلہ ختم نہ ہوتا۔

ہماری موجودہ کوششوں کا مقصد یہ رہا ہے کہ اس مسئلے کا مستقل حل تلاش کیا جائے، اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم نے صحیح اور درست حل تلاش کرنے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہ درست ہے کہ لوگوں کے جذبات مشتعل ہوئے، اورغیر معمولی احساسات اُبھرے، قانون اور امن و امان کا مسئلہ بھی پیدا ہوا، جایداد اور جانوں کا نقصان ہوا، پریشانی کے لمحات بھی آئے۔ پوری قوم گذشتہ تین ماہ سے تشویش کے عالم میں رہی، کش مکش اور امید اور بے امیدی کے عالم میں رہی۔ طرح طرح کی افواہیں کثرت سے پھیلائی گئیں اور تقریریں کی گئیں۔ مسجدوں اور گلیوں میں بھی تقریروں کا سلسلہ جاری رہا، جس سے اور زیادہ پریشانی ہوئی۔

میں یہاں اس وقت یہ دہرانا نہیں چاہتا کہ ۲۲اور ۲۹ مئی [۱۹۷۴ء] کو کیا ہوا تھا۔{ FR 579 }  میں موجودہ مسئلے کی فوری وجوہ کے بارے میں بھی کچھ کہنا نہیں چاہتا، کہ یہ مسئلہ کس طرح رونما ہوا، اور کس طرح اس نے جنگل کی آگ کی طرح تمام ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ میرے لیے اس وقت یہ مناسب نہیں ہے کہ موجودہ معاملات کی تہہ تک (genesis)جائوں لیکن میں اجازت چاہتا ہوں کہ اس معزز ایوان کی توجہ اس تقریر کی طرف دلائوں، جو میں نے قوم سے مخاطب ہوتے ہوئے ۱۳جون کے روز کی تھی۔

اس تقریر میں ، میں نے پاکستان کے عوام سے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ: ’یہ ایک مذہبی مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ بنیادی اور اصولی طور پر مذہبی مسئلہ ہے۔ پاکستان کی بنیاد اسلام ہے۔ پاکستان، مسلمانوں کے مادرِ وطن کے طور پر وجود میں آیا تھا۔ اگر کوئی ایسا فیصلہ کر لیا جاتا، جسے اس ملک کے مسلمانوں کی اکثریت، اسلام کی تعلیمات اور عقیدے کے خلاف سمجھتی، تو اس سے پاکستان کے مقصدِوجود (raison d'etre)اور اس کے تصور کو بھی خطرناک حد تک صدمہ پہنچنے کا اندیشہ تھا۔ چونکہ یہ مسئلہ خالص مذہبی مسئلہ تھا، اس لیے میری حکومت کے لیے یا ایک فرد کی حیثیت سے میرے لیے مناسب نہ تھا کہ اس پر ۱۳جون ہی کو کوئی فیصلہ دے دیا جاتا۔

لاہو رمیں مجھے ایسے بہت سے لوگ بھی ملے، جو اس مسئلے کے باعث شدید طور پر مشتعل (agitated)تھے۔ وہ مجھے کہہ رہے تھے کہ: ’’آپ آج ہی، ابھی ابھی اور یہیں وہ اعلان کیوں نہیں کر دیتے، جو پاکستان کے مسلمانوں کی اکثریت چاہتی ہے۔ اوراگر میں یہ اعلان کر دوں تو اس سے میری حکومت کو بڑی دادوتحسین ملے گی۔ اور ایک فرد کے طور پر نہایت شان دار شہرت اور ناموری حاصل ہوگی‘‘۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ: ’’اگر آپ نے عوام کی خواہشات کو پورا کرنے کا   یہ موقع گنوا دیا، تو آپ اپنی زندگی کے ایک سنہری موقعے سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے‘‘۔

میں نے اپنے ان احباب سے کہاکہ: ’’یہ ایک انتہائی پیچیدہ، گہرا اور نہایت بنیادی نوعیت کا مسئلہ ہے۔ اس مسئلے نے برعظیم کے مسلمانوں کو فکری سطح پر ۹۰ سال سے مشتعل کررکھا ہے اور پاکستان بننے کے ساتھ ہی پاکستان کے مسلمانوں کے لیے بھی پریشانی کا باعث بنا ہے‘‘۔ میرے لیے یہ مناسب نہیں تھا کہ میں اس اضطراری (exigencies) موقعے سے فائدہ اٹھانے (Capitalise) کی کوشش میں کوئی فیصلہ کردیتا۔ میں نے ان کرم فرمائوں سے کہا کہ: ’ہم نے پاکستان میں جمہوریت قائم کی ہے۔ ہم نے جمہوریت بحال کی ہے۔ پاکستان کی ایک قومی اسمبلی موجود ہے۔  یہ ملکی مسائل پر بحث کرنے کا سب سے بلند مرتبہ ادارہ ہے۔ میری راے میں،میری ناچیز راے میں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے پاکستان کی قومی اسمبلی ہی مناسب جگہ ہے اور پاکستان کی قومی اسمبلی میں اکثریتی پارٹی کا لیڈر ہونے کی حیثیت سے میں قومی اسمبلی کے ممبروں پر کسی طرح کا دبائو(whip) نہیں ڈالوں گا۔ میں اس مسئلے کے حل کو ارکانِ قومی اسمبلی کے ضمیر پر چھوڑتا ہوں اور اپنی پارٹی کے ارکان کے ضمیر پر چھوڑتا ہوں کہ وہ خود فیصلہ کریں۔‘

پاکستان پیپلز پارٹی کے ارکانِ سمبلی میری اس بات کی گواہی دیں گے کہ جہاںمیں نے کئی مواقع پر انھیں بلا کر اپنی پارٹی کے موقف سے آگاہ کیا اور انھیں پالیسی کے مطابق ہدایات دی ہیں، اور انھیں پارٹی کے اختیارات دیے ہیں، لیکن اس مسئلے پر اور اس موقعے پر میں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک ممبر کو بھی بلا کر نہ کوئی ہدایت دی ہے اور نہ اس پراثر انداز ہونے کی کوئی کوشش کی ہے۔

آپ کو یہ بتاتے ہوئے جنابِ اسپیکر، مجھے حیرت نہیں ہو رہی کہ اس مسئلے کے باعث اکثر میں پریشان اور راتوں کو نیند سے محروم رہا ہوں۔ اس مسئلے پر جو فیصلہ ہوا ہے، میں اس کی شاخ درشاخ پیچیدگیوں (ramifications) اور اس ردِعمل (repercussion)سے بھی بخوبی واقف ہوں۔ جس کا اثر، مملکت کی سلامتی(security) پر ہو سکتا ہے۔ یہ کوئی معمولی سا (light)مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے کہ پاکستان وہ ملک ہے جو برعظیم کے مسلمانوں کی اس خواہش پر وجود میں آیا کہ وہ اپنے لیے علیحدہ مملکت چاہتے تھے، اور اس ملک کے باشندوں کی اکثریت کا مذہب اسلام ہے۔ میں اس فیصلے کو جمہوری طریقے سے راہ یاب کرنے (channelising) میں، اپنے کسی بھی اصول سے انحراف نہیں کررہا:

  •  پاکستان پیپلز پارٹی کا پہلا اصول یہ ہے کہ ’اسلام ہمارا دین ہے۔‘ اسلام کی خدمت پاکستان پیپلزپارٹی کے لیے اوّلین اہمیت رکھتی ہے۔
  • ہماری سیاست کا دوسرا اصول یہ ہے کہ ’جمہوریت ہماری سیاست ہے۔‘ چنانچہ ہمارے لیے فقط یہی درست راستہ تھا کہ ہم اس مسئلے کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں پیش کرتے۔
  •  اوراس کے ساتھ میں فخرسے کہہ سکتا ہوں کہ ہم اپنی پارٹی کے اس اصول کی بھی پوری طرح پابندی کریں گے کہ ’پاکستان کی معیشت کی بنیاد سوشلزم پر ہو۔‘ ہم سوشلسٹ اصولوں پر یقین رکھتے ہیں۔{ FR 580 }

یہ فیصلہ جو کیا گیا ہے، اس فیصلے میں ہم نے اپنے کسی اصول سے انحراف نہیں کیا ہے۔   ہم اپنی پارٹی کے تینوں بنیادی اصولوں پر پختگی سے پابند رہے ہیں۔ میں نے بارہا  یہ بات کہی ہے کہ اسلام کے بنیادی اصول اور اعلیٰ ترین معیارات (norms) سماجی انصاف کے حصول کے تقاضوں کے خلاف نہیں ہیں اور سوشلزم کے ذریعے معاشی استحصال کو ختم کرنے کے حامی ہیں۔

یہ ایک مذہبی فیصلہ بھی ہے اور ایک سیکولرفیصلہ بھی۔ مذہبی فیصلہ اس لحاظ سے ہے کہ یہ فیصلہ ان مسلمانوں کو متاثر کرتا ہے، جو پاکستان میں اکثریت میں ہیں،اور سیکولر فیصلہ{ FR 581 } اس لحاظ سے کہ ہم دور جدید میں رہتے بستے ہیں۔ ہمارا آئین ایک دنیاوی آئین ہے، اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے تمام شہریوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔ ہر پاکستانی کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ فخرواعتماد سے، بغیر کسی خوف کے اپنے مذہبی عقائد، اپنے طبقے کی امنگوں اور اپنے مکتب فکر (sect) کی سوچ کا اظہار کر سکے۔پاکستان کے آئین میں، پاکستانی شہریوں کو اس امر کی ضمانت دی گئی ہے۔

میری حکومت کے لیے اب یہ بات انتہائی اہم فرض کی حیثیت اختیار کر گئی ہے کہ وہ پاکستان کے تمام شہریوں کے حقوق کی حفاظت کرے۔ یہ نہایت ضروری ہے اور میں اس بات میں کسی قسم کے ابہام (ambiguity) کی گنجایش نہیں رکھنا چاہتا۔ پاکستان کے تمام شہریوں کے حقوق کی حفاظت ہمارا اخلاقی اور مقدس اسلامی فرض ہے۔

میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں جناب اسپیکر،اور اس ایوان سے باہر کے ہر شخص کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ یہ فرض پوری طرح اور مکمل طور پر ادا کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں کسی شخص کے ذہن میں کوئی شبہہ نہیں رہنا چاہیے۔ ہم اپنے ملک میں کسی قسم کی غارت گری(vandalism) اور تہذیب سوزی یا کسی پاکستانی طبقے یا شہری کی توہین اور بے عزتی برداشت نہیں کریں گے۔

جناب اسپیکر، گذشتہ تین مہینوں کے دوران، اور اس بڑے شدید(acute)بحران کے عرصے میں کچھ گرفتاریاں عمل میں آئیں، کئی لوگوں کو جیل بھیجا گیا اور چند مزید اقدامات کیے گئے۔ یہ بھی ہماری منصبی ذمہ داری تھی۔ ہم اس ملک میں بدنظمی اور فسادی عناصر کا غلبہ برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ بدنظمی اور سرکش قوتیں حاوی ہو جائیں۔ حفاظتی اقدامات کرنا ہمارے فرائض میں شامل تھا، جن کے تحت ہمیں یہ سب کچھ کرنا پڑا لیکن میں اس موقعے پر، جب کہ تمام ایوان نے متفقہ طور پر ایک اہم فیصلہ کر لیا ہے، آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم ہر معاملے پر فوری اور جلد از جلد غور کریں گے۔ اب، جب کہ اس مسئلے کا باب بند ہوچکا ہے، ہمارے لیے یہ ممکن ہو گا کہ ایسے افراد سے نرمی(lenience) برتی جائے۔ مجھے امید ہے کہ    ان لوگوں کو جلد رہا کر دیا جائے گا، جنھوں نے اس عرصے میں اشتعال انگیزی سے کام لیا، یا کوئی اور مسئلہ پیدا کیا تھا۔

جناب اسپیکر، جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ ہمیں امید کرنی چاہیے کہ ہم نے اس مسئلے کا   باب بند کر دیا ہے۔ یہ میری کامیابی نہیں، یہ حکومت کی بھی کامیابی نہیں ہے۔ میں بار بار زور دے کر کہتا ہوں کہ یہ کامیابی پاکستان کے عوام کی کامیابی ہے، جس میں ہم بھی شریک ہیں۔ میں اس فیصلے پر سارے ایوان کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔ مجھے احساس ہے کہ یہ فیصلہ متفقہ طور پر نہ کیا جاسکتا تھا، اگر تمام ایوان کی جانب سے اور یہاں موجود تمام پارٹیوں کی جانب سے تعاون اور مفاہمت کا جذبہ نہ ہوتا۔

آئین سازی کے وقت بھی ہم میں تعاون اور سمجھوتے کا یہ جذبہ موجود تھا۔ آئین ہمارے ملک کا بنیادی قانون ہے۔ اس آئین کے بنانے میں ۲۷برس صرف ہوئے، اور وہ وقت پاکستان کی تاریخ میں تاریخی اور یاد گار لمحہ تھا، جب اس آئین کو تمام پارٹیوں نے قبول کیا اور پاکستان کی قومی اسمبلی نے اسے متفقہ طور پر منظور کر لیا۔ { FR 582 }اسی جذبے کے تحت ہم نے یہ مشکل فیصلہ بھی کر لیا ہے۔

یہ بات کسے معلوم ہے جناب اسپیکر، کہ مستقبل میں ہمیں مزید مشکل، اور زیادہ مشکل ترین مسائل کا سامنا کرنا پڑے۔ لیکن میری ناچیز راے میں، میں سوچتا ہوں کہ جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے، یہ مسئلہ سب سے زیادہ مشکل ترین مسئلہ تھا۔ میں شاید یہ سوچنے کی غلطی پر ہوں کہ کل کو اس سے بھی زیادہ پیچیدہ اور مشکل مسائل ہمارے سامنے آسکتے ہیں، جن کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

لیکن، ماضی کو دیکھتے ہوئے، اور اس مسئلے کے تاریخی پہلوئوں پر اچھی طرح غور کرتے ہوئے میں پھر کہوں گا کہ یہ بہت زیادہ مشکل مسئلہ تھا۔ گھر گھر میں اس کا اثر تھا۔ ہر گائوں میں اس کا اثر تھا اور ہر فرد پر اس کا اثر تھا۔ یہ مسئلہ اپنی وسعت کے ساتھ سنگین سے سنگین تر ہوتا چلا گیا اور وقت کے ساتھ ساتھ ایک عفریت (monster) کی شکل سی اختیار کر گیا۔

ہمیں اس مسئلے کو حل کرنا ہی تھا۔ ہمیں تلخ حقائق کا دیانت داری سے سامنا کرنا ہی تھا، کہ ہمارے لیے اس سے فرار کی کوئی راہ نہیں تھی۔ بلاشبہہ ہم ٹال مٹول سے کام لینے کے لیے، اس مسئلے کو سپریم کورٹ یا اسلامی مشاورتی کونسل کے سپرد کر سکتے تھے، یا اسلامی سیکرٹریٹ کے سامنے اس کو پیش کر سکتے تھے۔ ظاہر ہے کہ حکومت اور حتیٰ کہ افراد بھی مسائل کو ٹالنے کا فن جانتے ہیں اور جس کے تحت وہ انھیں جوں کا توں رکھ سکتے ہیں، اور درپیش صورت حال سے نمٹنے کے لیے معمولی اقدامات پر گزارا کر سکتے ہیں۔ لیکن ہم نے اس مسئلے کو اس انداز سے نبٹانے کی کوشش نہیں کی ہے، کیوںکہ ہم اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کرنے کا جذبہ رکھتے تھے۔

ہم نے اس مسئلے کو حتمی طور پر حل کرنے کے جذبے سے قومی اسمبلی کو ایک کمیٹی کی صورت میں رازدارانہ اجلاس کرنے کا کام سونپا۔ پھر قومی اسمبلی کے راز دارانہ اجلاس شروع ہوئے۔   قومی اسمبلی کے رازدارانہ اجلاس منعقد کرنے کی کئی وجوہ تھیں۔ اگر قومی اسمبلی اس رازداری سے اجلاس نہ کرتی، تو جناب! کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ تمام سچی باتیں اور حقائق ہمارے سامنے آ سکتے تھے؟ اور لوگ اس طرح آزادی اور بغیر کسی جھجک کے اپنے خیالات کا اظہار کر سکتے تھے؟ اگر ان کو معلوم ہوتا کہ یہاں گیلری میں بیٹھنے والوں کا ان پر دبائو ہے اورلوگوں تک ان کی باتیں پہنچ رہی ہیں، اور ان کی تقاریر اور بیانات کو اخبارات کے ذریعے شائع کرکے ان کا ریکارڈ رکھا جا رہا ہے، تو قومی اسمبلی کے ممبر ان اس اعتماد اور کھلے دل سے اپنے خیالات کا اظہار نہ کرسکتے، جیسا کہ انھوں نے ان رازدارانہ اجلاسوں میں اظہار خیال کیا۔

اب ہمیں ان رازدارانہ اجلاسوں کی کارروائی کا کافی عرصے تک احترام کرنا چاہیے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ کوئی بات بھی خفیہ نہیں رہتی۔ تاہم اُن باتوں کے عام کرنے کا ایک موزوں وقت ہوتا ہے۔ چونکہ اسمبلی کی کارروائی خفیہ (in camera)رہی ہے، اور ہم نے اسمبلی کے ہر رکن کو، اور ان کے ساتھ ان لوگوں کو بھی، جو ہمارے سامنے پیش ہوئے انھیں یہ کامل یقین دلایا تھا کہ ان کی باتوں کو راز رکھا جائے گا، جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں، ان بیانات کو توڑ مروڑ کر پیش نہیں کیا جائے گا۔ ان باتوں کو سیاسی یا کسی اور مقصد کے لیے بھی استعمال نہیں کیا جائے گا۔

میرے خیال میں، ایوان کے لیے یہ ضروری اور مناسب ہے کہ وہ ان اجلاسوں کی کارروائی کو ایک خاص وقت تک راز داری (secrecy) میں رکھے اور ظاہر نہ کرے۔ ایک مناسب وقت گزرنے کے بعد ہمارے لیے ممکن ہوگا کہ ہم ان خفیہ اجلاسوں کی کارروائی کو منظرعام پر لے آئیں،کیوں کہ اس کے ریکارڈ کا ظاہر ہونا بھی ضروری ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ان اجلاسوں کے ریکارڈ کو دفن (bury) ہی کر دیا جائے، ہرگزنہیں(Not at all)۔ اگر میں یہ کہوں تو یہ ایک  خلافِ واقعہ اور غیر حقیقت پسندانہ بات ہوگی۔ { FR 583 } میں فقط یہ کہتا ہوںکہ اگر اس مسئلے کا باب ہمیشہ کے لیے بند کرنے، اور ایک نئے آغاز کے لیے، نئی بلندیوں تک پہنچنے کے لیے، آگے بڑھنے کے لیے اور قومی مفاد کو محفوظ رکھنے کے لیے اور پاکستان کے حالات معمول پر رکھنے کے لیے، اور اس مسئلے کے حوالے سے ہی نہیں، بلکہ دوسرے مسائل کی بھی مناسبت سے، ہمیں ان اُمور کو خفیہ رکھنا ہوگا۔

میں ایوان پر یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اس مسئلے کا حل، دوسرے کئی مسائل پر تبادلۂ خیال اور بات چیت اور مفاہمت کا نقیب بنے گا۔ ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ یہ حل ہمارے لیے نیک شگونی کا باعث ہے، اور اب ہم آگے بڑھیں گے، اور تمام توقعات، لڑائی جھگڑے کی دعوت دینے والے مسائل کو مفاہمت اور مطابقت کے جذبے سے حل کریں گے۔

جناب اسپیکر، میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ اس معاملے کے بارے میں میرے جو احساسات تھے، انھیں بیان کر چکا ہوں۔ میں ایک بار پھر دہراتا ہوں کہ یہ ایک مذہبی معاملہ ہے۔ یہ ایک فیصلہ ہے، جس کا ہمارے عقائد سے تعلق ہے۔ یہ پورے ایوان اور پوری قوم کا فیصلہ ہے۔ یہ فیصلہ عوامی خواہشات کے مطابق ہے۔ میرے خیال میں یہ انسانی (humanly)طاقت سے باہر تھا کہ یہ ایوان اس سے بہتر کچھ فیصلہ کر سکتا۔ اسی طرح میرے خیال میں یہ بھی ممکن نہیں تھا کہ اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کرنے کے لیے موجودہ فیصلے سے کم کوئی اور فیصلہ ہو سکتا۔

کچھ لوگ ایسے بھی ہو سکتے ہیں، جو اس فیصلے سے خوش نہ ہوں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ فیصلہ ناگوار ہو۔ یہ ایک فطری سی بات ہے۔ ہم یہ توقع کیسے کر سکتے ہیں کہ اس مسئلے کے فیصلے سے تمام لوگ خوش ہوں گے، جو گذشتہ ۹۰سال سے حل نہیں ہو سکا۔ اگر یہ مسئلہ سادہ سا ہوتا اور ہر ایک کو خوش رکھنا ممکن ہوتا، تو یہ مسئلہ بہت پہلے حل ہو گیا ہوتا، لیکن ایسا ممکن نہیں ہوسکا تھا۔ ۱۹۵۳ء میں بھی ممکن نہیں ہو سکا تھا۔

وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ ۱۹۵۳ء میں حل ہو چکا تھا، وہ لوگ اصل صورت حال کا صحیح تجزیہ نہیں کرتے۔ میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں اور مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ ایسے لوگ بھی ہیں، جو اس فیصلے پر نہایت ناخوش ہوں گے۔ اب میرے لیے یہ ممکن نہیں کہ میں ان لوگوں کے جذبات کی ترجمانی کروں، لیکن میں یہ کہوں گا کہ یہ ان لوگوں کے طویل المیعاد مفاد میں ہے کہ   یہ مسئلہ حل کر لیا گیا ہے۔ آج یہ لوگ غالباً ناخوش ہی ہوں گے، انھیں یہ فیصلہ پسند نہیں ہوگا اور اس فیصلے پر رنجیدہ ہوں گے۔ لیکن حقیقت پسندی (objectively) سے کام لیتے ہوئے، اور  ذاتی طور پر  ان لوگوں سے یہ کہوں گا، کہ ان کو بھی اس بات پر خوش ہونا ہی چاہیے کہ اس فیصلے سے یہ مسئلہ حل ہوا، اور ان کو آئینی حقوق کی ضمانت حاصل ہوگئی۔

مجھے یاد ہے کہ جب حزبِ اختلاف کی طرف سے مولانا شاہ احمد نورانی[م:۲۰۰۳ء] نے یہ تحریک پیش کی، تو انھوں نے ان لوگوں کو فیصلے کی روشنی میں مکمل تحفظ دینے کا ذکر کیا تھا، جو اس فیصلے سے متاثر ہوں گے۔ اس یقین دہانی پر یہ پورا ایوان اور پوری قوم پُرعزم ہے۔ اب یہ ہرپارٹی کا فرض ہے، یہ حکومت کافرض ہے، یہ حزبِ اختلاف کا فرض ہے اور یہ ہر شہری کافرض ہے کہ وہ پاکستان کے تمام شہریوں کی یکساں طور پر حفاظت کرے۔

یہ اَمر واقعہ ہے کہ اسلام کی یہی روح (essence) ہے، اور اس کی نصیحت رواداری ہے۔ مسلمان ہمیشہ رواداری پر عمل کرتے رہے ہیں۔ اسلام نے فقط رواداری کی تبلیغ نہیں کی، بلکہ پوری تاریخ میں اسلامی معاشرے نے رواداری سے کام لیا ہے۔ اسلامی معاشروں نے اس تیرہ و تاریک زمانے (Dark Days)میں یہودیوں کے ساتھ بہترین سلوک کیا، جب کہ یورپ میں عیسائیت ان پر ظلم کر رہی تھی اور یہودیوں نے سلطنت عثمانیہ میں آکر پناہ لی تھی۔اگر یہودی دوسرے حکمران معاشروں سے بچ کر، عربوں اور ترکوں کے اسلامی معاشرے میں پناہ لے سکتے تھے، تو پھر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری مملکت ایک اسلامی مملکت ہے، ہم مسلمان ہیں، ہم پاکستانی ہیں اور یہ ہمارا مقدس (sacred)فرض ہے کہ ہم تمام فرقوں، تمام لوگوں اور پاکستان کے تمام شہریوں کو یکساں طور پر تحفظ فراہم کریں۔

جناب اسپیکر، ان الفاظ کے ساتھ ہی مَیں اپنی تقریر ختم کرتا ہوں۔آپ کا شکریہ!

[ترجمہ: سلیم منصور خالد]

اگست ۲۰۱۷ء کے شروع ہی میں یہ خبر پاکستان بھر میں تشویش کے ساتھ سنی گئی کہ:   ’’عالمی بنک جس نے ۱۹۶۰ء میں بھارت اور پاکستان کے درمیان دریائوں کے پانی کی تقسیم کا مشہور سندھ طاس معاہدہ کروایا تھا، اس نے بھارت کو دریاے جہلم کے معاون دریا کشن گنگا، جسے پاکستان کے اندر دریاے نیلم کہا جاتاہے، پر ۸۶۴ ملین ڈالر کی لاگت سے ’کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹ‘ اور دریاے چناب پر ریٹل پاور پلانٹ کی تعمیر کی اجازت دے دی ہے‘‘۔

کشن گنگا ڈیم مقبوضہ کشمیر میں ۱۳۳میٹربلند اور ۸ہزار ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے والے رینٹل پاور پلانٹ، کشمیر ہی کے موضوع ریٹل، ضلع ڈوڈا میں تعمیر کیا جائے گا۔ بھارت اس سے ۸۵۰میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا۔ اس پر پاکستانی اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے عالمی بنک نے کہا ہے کہ: ’’۱۹۶۰ء کے سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ       وہ پاکستان کے حصے میں آنے والے دریائوں پر بجلی کی پیداوارکے لیے منصوبے تعمیر کرسکتا ہے‘‘۔ بھارت نے یہ منصوبہ ۲۰۰۷ء میں شروع کیا تھا اور اُسے توقع تھی کہ ۲۰۱۶ء تک اس کی تعمیر مکمل ہوجائے گی، لیکن ابتدائی کام کے دوران ہی ۲۰۱۱ء میں ہالینڈ میں قائم Permanent Arbitration Court نے پاکستان کے اعتراضات پر اس کی تعمیر رکوا دی تھی۔ پاکستان کو خدشہ ہے کہ کشن گنگا اور ریٹل ڈیموں کی تعمیر کے بعد پاکستان کے حصے میں آنے والا وہ پانی یقینا  شدید متاثر ہوگا۔ اسی طرح زیریں حصے میں پاکستان کے اندر تعمیر ہونے والے نیلم جہلم پراجیکٹ پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

آیئے دیکھتے ہیں کہ پاکستان کس طرح پانی کی ایک ایک بوند کو ترس رہا ہے اور مستقبل مزید گمبھیر ہوتا جا رہا ہے:

سترھویں صدی کے مشہور برطانوی مصنّف تھامس فِلر نے پانی کی اہمیت کے بارے میں کہا تھا: We never know the worth of water, till the well is dry (ہم اُس وقت تک پانی کی قدروقیمت سے آگاہ نہیں ہوتے جب تک کہ کنواں خشک نہ ہوجائے)۔

جنوبی ایشیا، دنیا کی ایک چوتھائی آبادی کا مسکن ہے، جہاں زرعی معیشت ہی گزراوقات کا بڑا ذریعہ ہے۔ فصلات، مویشی و ماہی پروری، جنگلات اور باغات سب کچھ پانی ہی سے ممکن ہے۔ خطّے کا ایک بڑا حصہ انتہائی گرم اور خشک ہے، جہاں بارش کی سالانہ اوسط بمشکل ۲۵۰ملی میٹر ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر فی کس سالانہ پانی کی فراہمی بمشکل ایک ہزار سے ۱۲۰۰ کیوبک میٹر ہے، جب کہ دنیا کے بیش تر ممالک میں ۱۵۰۰ سے ۲۵۰۰ کیوبک میٹر پانی فی کس دستیاب ہے، بلکہ ناروے اور کینیڈا میں تو سالانہ فی کس ۷۰ہزار کیوبک میٹر پانی دستیاب ہے۔

پاکستان کی آبادی اور معیشت کا انحصار مکمل طور پر دریاے سندھ اور اس کے معاون دریائوں میں بہتے پانی پر ہے، جن کا منبع کوہ ہمالیہ اور دیگر پہاڑی چوٹیوں پر موجود گلیشیرز ہیں۔ تاہم، ان دریائوں کا راستہ بھارت سے ہوکر آتا ہے۔ اگر ہم تاریخ کے تناظر میں دیکھیں تو ہزاروں سال سے لوگ یا تو بارش کے پانی پر انحصار کرتے آئے ہیں، یا پھر دریائوں کے کنارے ہی بستیاں بسائی گئی ہیں۔ وادیِ سندھ کی قدیم تہذیب (ہڑپہ، موہنجوڈارو وغیرہ) دریاے سندھ کے کنارے ہی پھل پھول سکی تھی۔ پھر انیسویں صدی میں آب پاشی کے جدید نظام کی تشکیل (ذخائر کی تعمیر، نہروں، کھالوں کی کھدائی وغیرہ) کے ساتھ بڑے پیمانے پر ریگستانوں کو قابلِ کاشت بنایا گیا۔ اس طرح بڑے پیمانے پر صحرا سرسبز و شاداب کھیتوں میں تبدیل ہوگئے۔

سندھ طاس کا آب پاشی نظام، ۳۲۰۰ کلومیٹر لمبے دریاے سندھ اور اس کے معاون پانچ مشرقی دریائوں (جہلم، چناب، راوی، بیاس اور ستلج) پر مشتمل ہے۔ مجموعی طور پر ان دریائوں کی لمبائی ۴۵۰۰ کلومیٹر ہے، جب کہ پانی کی مقدار یا بہائو ۱۸۰ بلین کیوبک میٹر سالانہ ہے۔   یہ دریا صدیوں سے برصغیر میں آب پاشی کے لیے استعمال ہوتے آئے ہیں۔ تقسیم ہند سے قبل ہندستان کی مختلف ریاستوں یا صوبوں (پنجاب، بہاول پور، سندھ اور بیکانیر) کے درمیان بھی پانی کی تقسیم اور انتظام پر اختلافات اور تنازعات اُٹھتے رہے ہیں۔ تقسیم ہند اور پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد ان چار ریاستوں کے درمیان اُبھرنے والے تنازعات دو ملکوں کے تنازعات میں بدل گئے ہیں۔ مغربی پنجاب، پاکستان کے حصے میں آیا، چوںکہ اس کی زمینیں زرخیز تھیں، اس لیے برطانوی حکومت نے آب پاشی کا وسیع نظام مغربی پنجاب میں تعمیر کیا۔ تقسیم کے وقت ریڈکلف جنھیں تقسیم کی ذمہ داری سونپی گئی تھی، نے نہ صرف زمین پر تقسیم کی لکیر کھینچی، بلکہ دریائوں کے پانی اور اس کے منبعے کو بھی تقسیم کردیا۔ لہٰذا، دونوں نئی مملکتوں پر ایک ناخوش گوار ذمہ داری پہلے دن سے ہی عائد ہوگئی کہ وہ پانی کی تقسیم بارے ایک منصفانہ اور قابلِ عمل معاہدہ اور طریق کار طے کریں۔

گزرتے وقت کے ساتھ بھارت نے مشرقی پنجاب میں ہماچل پردیش، ہریانہ اور راجستھان میں آب پاشی کا ایک نظام تعمیر کرنا شروع کیا۔ دوسری طرف پاکستان کے چونکہ تمام ہی دریائوں کا منبع بھارت کے قبضے میں تھا، لہٰذا پاکستان کو پانی کی مستقل بندش، خشک سالی یا قحط کا خدشہ لگا رہا۔ مئی ۱۹۴۸ء میں اثاثہ جات کی تقسیم پر ہونے والے معاہدات میں بھارت نے پاکستان کو یہ یقین دہانی کروائی کہ وہ پاکستان کا پانی بند یا کم نہیں کرے گا۔ جون ۱۹۴۹ء میں پاکستان نے بھارت سے تحریری طور پر مطالبہ کیا کہ پانی کے معاملات میں عالمی عدالت ِ انصاف کو مداخلت اور تصفیہ کا حق دیا جائے، لیکن بھارت نے کسی بھی تیسری قوت کی مداخلت سے پہلے باہمی مذاکرات یا منصفین کے تقرر سے اختلافات کم کرنے کی تجویز دی۔ ۱۹۵۱ء میں عالمی بنک کے صدر نے پاک بھارت وزراے اعظم کو واشنگٹن مدعو کیا، جہاں اصولی طور پر اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ کوئی بھی ملک پانی کی فراہمی کے موجود نظام میں خلل نہیں ڈالے گا۔ لیکن تحریری یقین دہانیوں اور معاہدات کے باوجود پاک بھارت پانی کا تنازعہ دونوں ملکوں کے درمیان شدید سیاسی اختلافات، علاقائی کش مکش اور جنگ کے خطرات کا باعث بنتا جارہا ہے، خاص طور پر، جب کہ دونوں ملک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں۔

جدول نمبر۱ میں پاکستان میں بہہ کر آنے والے دریا، اُن کے منبع اور روٹ، یعنی جن علاقوںسے گزرکر وہ پاکستان میں داخل ہوتے دکھائے گئے ہیں۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ تمام ہی دریائوں کے منبع ہمالیہ، کوہِ سلیمان اور ہندوکش کی بلند پہاڑی چوٹیوں پر واقع ہیں، جہاں سے مقبوضہ کشمیر، بھارت کے راستے بہتے ہوئے وہ پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔ قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ اِسی لیے کہا تھا کہ ہماری Life Line اسی کشمیر سے ہوکر آتی ہے:

پاکستانی دریا اور اُن کا منبع

دریا

منبع

لمبائی

(کلومیٹر)

روٹ؍ کن علاقوں سے ہوکر پاکستان آتا ہے

سندھ

جھیل مانسرور،

 تبت، چین

۳۲۰۰

پانی کے بہائو کے لحاظ سے دنیا کا ۲۱واں بڑا دریا ہے۔  یہ تبت سے جموں کشمیر، بھارت میں ۷۰۹ کلومیٹر کا سفر طے کرتے ہوئے گلگت بلتستان اور پھر پاکستان سے گزرتے ہوئے بحیرئہ عرب میں جاگرتا ہے۔ دریاے اَستور، دریاے بلرام، دریاے گلگت، دریاے کابل، دریاے تنوبل اور دریاے زنسکر سمیت کئی چھوٹے دریا مختلف مقامات پر دریاے سندھ کاحصہ بنتے ہیں۔

جہلم

وُلّر جھیل، پیر پنجال، کشمیر

۷۷۴

وادیِ کشمیر کے جنوب مشرق سے نکل کر سری نگر اور پھر مظفرآباد کے راستے پاکستان میں داخل ہوتا ہے، جہاں دریاے نیلم اس میں شامل ہوجاتا ہے۔ ۱۹۶۷ء میں ۵ء۹ ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے والا منگلا ڈیم اِسی دریا پر تعمیر کیا گیا۔زیریں علاقوں میں رسول بیراج اور تریموں بیراج اس پر تعمیر ہیں۔

چناب

درہ باڑہ، کوہ ہمالیہ سے نکلنے والے دریا چندرا اور بھاگا

۹۶۰

ہمالیہ کی چوٹیوں سے جموں وکشمیر اور پھر سیالکوٹ کے راستے پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ تریموں (ضلع جھنگ) کے مقام پر دریاے جہلم اور اوچ شریف (بہاول پور) کے مقام پر دریاے ستلج میں شامل ہوکر پنجند کے مقام پر دریاے سندھ میں جا شامل ہوتا ہے۔

راوی

کوہ ہمالیہ کی چوٹیاں

۷۲۰

ہمالیہ کی چوٹیوں سے بہہ کر وادیِ کشمیر اور پھر بھارتی پنجاب کے جنوب مغرب سے بہتا ہوا لاہور کے مقام پر پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ ۱۹۶۰ء کے سندھ طاس معاہدے کے تحت راوی کا پانی بھارت کے حصے میں آیا ہے۔

ستلج

تبت، چین

۵۵۰

جنوبی کوہ ہندوکش ، کوہ ہمالیہ اور کوہ سلیمان کے سنگم سے نکلنے والا یہ دریا بھارتی پنجاب کی تاریخی گزرگاہ سے بہتا ہوا پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ تقسیم سے پہلے ریاست بہاول پور کا بیش تر حصہ اسی دریا سے سیراب ہوتا تھا۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت دریاے ستلج کا پانی بھی بھارت کے حصے میں آیا ہے۔

قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی پاکستان کو اپنی آبی ضروریات کے حوالے سے تین بڑے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا:

                ۱-            ملک کی تقسیم کے لیے زمین پر کھینچی گئی لکیر نے زمین اور آبادی کے ساتھ پاکستان کی شہ رگ، یعنی تمام دریائوں کو بھی کاٹ کر رکھ دیا۔ اس طرح اُن کے منبعے پاکستان کے کنٹرول میں نہ رہے۔ ایک طویل مذاکراتی عمل کے نتیجے میں بھارت اور پاکستان کی حکومتیں عالمی بنک کی شراکت سے ۱۹۶۰ءمیں سندھ طاس معاہدے کی صورت میں اس سنگین تنازعے سے  عہدہ برآ ہوئیں۔ اس معاہدے کے نتیجے میں تین مغربی دریا: سندھ، جہلم اور چناب پاکستان کے حصے میں آئے، جب کہ تین مشرقی دریا: راوی، ستلج اور بیاس کا پانی بھارت کے لیے مختص ہوکر رہ گیا۔ سندھ طاس کے پانی کا ۷۵ فی صد پاکستان، جب کہ ۲۵ فی صد بھارت کے حصے میں آیا۔

                ۲-            پاکستان کے لیے دوسرا بڑا چیلنج یہ تھا کہ اُس کے حصے میں مغربی دریا آئے، لیکن اس کی بیش تر زرعی زمینیں مشرق اور جنوب میں واقع تھیں۔ پاکستانی انجینیروں نے عالمی بنک اور دیگر ڈونر اداروں کی مدد سے یہ حیرت انگیز کارنامہ انجام دیا کہ منگلا ڈیم، تربیلا ڈیم کی صورت میں پانی ذخیرہ کرنے والے بڑے ڈیم تعمیر کیے اور سیکڑوں کلومیٹر لمبی رابطہ نہریں جو بالترتیب دریاے سندھ، جہلم اور چناب کا پانی مشر ق اور جنوبی علاقوں تک لے گئیں، تعمیر کی گئیں۔ وسیع علاقے آب پاشی کے ذریعے گل و گلزار بن گئے۔

                ۳-            رابطہ نہروں اور دریائوں کے رُخ تبدیل کرنے کی وجہ سے پنجاب اور سندھ کے وسیع علاقے سیم تھور کا شکار ہوگئے۔ لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں مکعب میٹر پانی رسائو (Seepage) کی وجہ سے زیرزمین چلا گیا۔ یوں زیرزمین پانی کی سطح بلند ہوئی، حتیٰ کہ بعض مقامات پر تو زیرزمین پانی بالکل سطح زمین تک آگیا اور کسی بھی طرح کی کاشت ممکن نہ رہی۔ سیم تھور اور کلّر کاعلاج لاکھوں ٹیوب ویل لگا کر کیا گیا، جس سے نہ صرف زیرزمین پانی اطمینان بخش حد تک نیچے چلا گیا، بلکہ زائد نمکیات بھی پانی میں گھل کر زیرزمین چلے گئے۔ ایک عذاب سے عہدہ برآ ہونے کے لیے یہ پاکستان کے زرعی اور آبی ماہرین کی بڑی کامیابی تھی۔

درپیش آبی مسائل

لہٰذا درج بالا شاندار کارکردگی کو دیکھ کر ہم پاکستان کے آبی وسائل کے گلاس کو یقینا   نصف سے زائد بھرا ہوا کہہ سکتے ہیں۔ اَمرِواقعہ یہ ہے کہ پاکستان کے آبی وسائل و مسائل کی    یہ صورت حال اتنی سادہ نہیں ہے۔ ایک دوسرے زاویے سے دیکھیں تو آبی وسائل کا یہ گلاس نصف سے زیادہ خالی نظر آتا ہے۔ ۲۲کروڑ انسانوں اور ترقی کی طرف گامزن پاکستان کا مستقبل شدید خطرات سے گھِرا ہوا ہے۔ اسی مناسبت سے درج ذیل نکات خصوصی توجہ کے مستحق ہیں:

  •  پاکستان دنیا کے انتہائی خشک اور کم پانی والے خطّوں میں شمار ہوتا ہے۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر ہم خطرے کی اُس حد سے بھی نیچے چلے گئے ہیں، جو قحط اور خشک سالی کے لیے دنیا میں متعین کی گئی ہے۔
  •  ہمارے پاس اضافی پانی کے کوئی بھی ذرائع یا ذخائر نہیں ہیں، جن سے ہم اپنے آبی وسائل میں اضافہ کرسکیں۔ گذشتہ ۴۰ برسوں میں ہمارے دریائوں اور نہروں میں سالانہ بہائو ۱۱۴ملین ایکڑ فٹ سے کم ہوکر ۹۵ملین ایکڑ فٹ رہ گیا ہے ، جب کہ ہماری ضروریات مسلسل بڑھ رہی ہیں۔
  •  پانی کی ضروریات کے لیے پاکستان کا انحصار صرف ایک ہی دریا (سندھ اور معاون) پر ہے ، جب کہ دنیا کے بیش تر ممالک میں متبادل یا ایک سے زیادہ دریائی نظام موجود ہیں۔ ایک ہی دریا پر انحصار پاکستان کے لیے خطرات اور خدشات کو مزید بڑھا دیتا ہے۔
  • پاکستان کی کمزور معاشی صورتِ حال اور قدرتی وسائل کے تحفظ سے لاپروائی ہمارے مسائل میں مسلسل اضافے کا باعث ہے، مثلاً نہری اور زیرزمین پانی کے استعمال سے ہم سالانہ ۱ء۵ کروڑ ٹن نمکیات آب پاشی کے دوران اپنے کھیتوں میں ڈال رہے ہیں، جو یقینا زمین کو کلراٹھا اور شورزدہ کر رہا ہے۔ اسی طرح ہرسال کروڑوں ٹن ریت اور مٹی ہمارے آبی ذخائر کی تہہ میں بیٹھ کر ذخیرہ کرنے کی صلاحیت مسلسل کم کر رہی ہے۔ مختلف جائزوں کے مطابق تربیلا اور منگلا ڈیم کی صلاحیتِ ذخیرہ تقریباً ۳۰ فی صد کم ہوچکی ہے۔
  • ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں فصلوں کی آبی ضروریات کے بڑھنے اور زیادہ سے زیادہ رقبے کو زیرکاشت لانے کے لیے ہم غیر دانش مندانہ طور پر زیادہ ٹیوب ویل لگا رہے ہیں، جس سے زیرزمین پانی کی بڑی مقدار پمپ ہورہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ زیرزمین پانی کے پمپنگ کو کسی ضابطے کا پابند بنایا جائے۔ اُتنا ہی پانی پمپ کیا جائے جتناکہ وہ زمین میں سالانہ چارج (اضافہ) ہوتا ہے۔ ایک بنک اکائونٹ کی مثال سے بخوبی اس پیش آمدہ خطرے کا احساس دلایا جاسکتا ہے۔ اگر ہم اکائونٹ سے ماہانہ یا سالانہ جمع کروائی جانے والی رقم سے زیادہ نکال رہے ہوں تو جلد ہی ہمارا چیک خالی لوٹا دیا جائے گا۔
  •  گلوبل وارمنگ اور دیگر ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث پنجاب اور سندھ میں ہرسال  آنے والے سیلاب کی تباہ کاریاں بڑھتی جارہی ہیں۔ ہمارے تمام ہی دریا ہمالیہ کی مغربی  چوٹیوں پر موجود بڑے بڑے گلیشیرز کے پگھلنے کی وجہ سے رواں رہتے ہیں۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے یہ گلیشیرز زیادہ تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ ماہرین شدید خطرات سے متنبہ کر رہے ہیں کہ شاید آیندہ پچاس برس تک ہمیں یہ نعمت میسر نہ رہے گی اور یوں ہمارے دریائوں میں سالانہ بہائو خطرناک حد تک کم ہوجائے گا۔
  •  آبی وسائل کے لحاظ سے ایک اور بڑا خطرہ آبی وسائل کی تعمیروترقی اور ممکنہ خطرات سے عہدہ برآ ہونے کے لیے مطلوبہ علم اور مہارت کی کمی کا ہے۔ ملک کے اندر آبی وسائل،  آبی ذخائر کی تعمیر، ماحولیات پر ان کے اثرات، مستقبل بینی جیسے موضوعات پر اعلیٰ تعلیم یافتہ اور فنی ماہرین کی اشد ضرورت ہے۔
  •  کمزور معیشت اور غلط ترجیحات کے پیش نظر ہمارے آبی ذخائر، بیراج، دریائوں اور نہروں وغیرہ کی تعمیرو مرمت کے لیے مطلوبہ فنڈز دستیاب نہیں ہیں۔
  • پاکستان کو نئے آبی ذخائر کی فوری تعمیر (Invest & Invest soon) کے لیے جرأت مندانہ اقدام کی ضرورت ہے۔ جب دریائوں میں پانی کا بہائو سال کے مختلف حصوں میں کم و بیش ہوتا رہے تو آبی ذخائر کی تعمیر ضروری ہوجاتی ہے تاکہ طلب اور رسد میں توازن رکھا جاسکے۔ دنیا کے دیگر خشک خطّوں (Arid Regions) کے مقابلے میں پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت خطرناک حد تک کم ہے۔

جدول نمبر۲: دنیا کے مختلف ممالک میں آبادی کے لحاظ سے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت

فی کس پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کیوبک میٹر

امریکا

۶۰۰۰

مراکش

۳۵۰

آسٹریلیا

۵۰۰۰

بھارت

۲۵۰

چین

۲۲۰۰

پاکستان

۱۵۰

اسپین

۱۳۰۰

ایتھوپیا

۱۰۰

ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے فی کس پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت افریقا کے قحط زدہ ممالک ایتھوپیا وغیرہ سے کچھ ہی بہتر ہے۔

اسی طرح جدول نمبر۳ میں دنیا کے خشک خطوں میں بہنے والے دریائوں پر تعمیرشدہ ذخائر (Dams) کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کا ایک جائزہ پیش کیا جارہا ہے:

تعمیرشدہ ڈیم پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت (بہائو کے دن)

کلوراڈو، امریکا

۹۰۰

بھارت مختلف دریا

۲۲۰

مُرے دارلنگ، آسٹریلیا

۹۰۰

تربیلا منگلا ،پاکستان

۳۰

اورنج ، جنوبی افریقا

۵۰۰

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ سالانہ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں ایک ملین ایکڑ فٹ کی کمی ہرسال ۱۰لاکھ ایکڑ رقبے کو ایک فٹ کم پانی کی فراہمی ہے، جو یقینا پیداوار میں لاکھوں ٹن کی کمی کا باعث بنتی ہے۔

  •   حکومتوں کی بُری انتظامی کارکردگی اور باہمی اعتماد کی کمی، ملک کے اندر پانی کی منصفانہ اور ضرورت کے مطابق تقسیم، ایک مستحکم اور پُراعتماد حکومت کا تقاضا کرتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان کی حکومتیں اس لحاظ سے قابلِ اطمینان کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکی ہیں۔
  •   پانی کی کمی کے باعث فصلوں کو آب پاشی کے باکفایت اور مؤثر طریقے متعارف اور اختیار کیے جائیں، مثلاً ڈرپ، اسپرنکلر وغیرہ۔ لیکن ہمارے ہاں ابھی تک پرانے اور فرسودہ طریقہ ہاے آب پاشی میں مروج ہیں، جن سے پانی کا ضیاع بڑھ جاتا ہے۔ پاکستان میں الحمدللہ، زرخیز زمین، محنتی کسان اور وافر سورج کی روشنی موجود ہے۔ لیکن فرسودہ اور پرانے طریقہ ہاے آب پاشی کے باعث دنیا بھر کی فی کیوبک میٹر پانی غلّہ پیدا کرنے کی اوسط سے ہم بہت نیچے ہیں۔ مثلاً: ترقی یافتہ ممالک امریکا وغیرہ میں ایک کیوبک میٹر پانی سے ۱ء۱ کلوگرام غلّہ پیدا کیا جاتا ہے۔ بھارت میں یہ شرح ۰ء۸۵کلوگرام فی کیوبک میٹر ہے، جب کہ پاکستان میں ہم بمشکل ۰ء۵ کلوگرام غلّہ فی کیوبک میٹر پیدا کرتے ہیں۔

آبی وسائل اور مسائل کے لحاظ سے یقینا ہمارا گلاس آدھا خالی ہے، لیکن نصف سے کم جو بھرا ہوا ہے، وہ اُمید اور مستقبل کی روشن تصویر بن سکتا ہے۔

آبی وسائل کی ترقی سے وابستہ ، اُمید کی روشن کرنیں

پاکستان کے آبی وسائل کی ۷۰سالہ تاریخ بیان کرتے ہوئے جہاں تشویش اور غفلت کے بے شمار در وَا ہوئے ہیں ، وہیں اُمید کی چند روشن کرنیں بھی نظر آتی ہیں، جو یقینا ہمیں عمل پر اُبھاریں گی:

                    l           ۱۹۶۰ء کے سندھ طاس معاہدے کے تحت بین الاقوامی طور پر پاکستان کا سندھ طاس کے ۷۵ فی صد پانی پر حق تسلیم کیا گیاہے۔ دنیا بھر میں بہت سے ملکوں کے اندر دریائوں کی شراکت کو آئینی اور قانونی تحفظ حاصل ہے۔ پھر ۱۹۹۱ء کے Water Accord کے تحت ملک کے چاروں صوبوں کے درمیان پانی کی منصفانہ تقسیم بھی طے پاچکی ہے۔ اب ضرورت ہے کہ پاکستان سمندر میں بہہ جانے والے پانی اور زیرزمین پانی کے استعمال بارے رہنما اُصول طے کرے اور دُور رس ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مناسب فیصلے کرے۔

  •   بھارت میں کاشت کاروں کو ٹیوب ویل کے ذریعے مفت یا سستی بجلی ضرورت سے زیادہ زیرزمین پانی کے اخراج (Pumping) کا باعث بنی ہے۔ پاکستان نے کاشت کاروں کے شدید دبائو کے باجود اس معاملے میں لچک نہیں دکھائی۔ نتیجتاً ہمارے ہاں زیرزمین پانی کی کمی ابھی خطرے کی حدوں کو نہیں پہنچی ہے۔
  •   زرعی شعبہ جو پانی کا سب سے بڑا استعمال کنندہ ہے کے اندر فی مکعب میٹر پانی سے زیادہ غلّہ پیدا کرنے کی کافی گنجایش موجود ہے، مثلاً جب ۱۹۹۹-۲۰۰۲ء کے تین برسوں میں ہمارا سالانہ دریائی بہائو ۱۱۰ ملین ایکڑ فٹ سے کم ہوکر ۸۰ملین ایکڑ فٹ رہ گیا تھا، تو سارے کاشت کاروں نے تمام ہی بڑی فصلات کی قومی پیداوار میں نمایاں کمی نہیں آنے دی۔
  •  آبی ذخائر اور پن بجلی کے منصوبوں پر خرچ کی گئی رقوم توقع سے بڑھ کر منافع بخش ثابت ہوئی ہیں، مثلاً تربیلا ڈیم سے ۹۸-۱۹۷۵ء کے ۲۳برسوں میں ملک کو ۲۴۰۰ ملین ڈالر کا منافع متوقع تھا، لیکن پن بجلی اور آب پاشی کی مَد میں ہمیں ۳۰۰۰ ملین ڈالر سے زائد منافع حاصل ہوا ۔ پھر معاشرے کے تمام ہی طبقات، مثلاً کاشت کار، صنعت کار، تاجر، زرعی، صنعتی و دیہی مزدور اس سے خوب مستفید ہوئے ہیں۔ مختلف طبقات کی آمدن میں ۳۰ سے لے کر ۸۰ فی صد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
  •  پاکستان جو گذشتہ ۳۰ سال سے توانائی کے شدید بحران کا شکار ہے اور یہ بحران ہماری معیشت، معاشرت، صنعت ، غرض یہ کہ تمام ہی شعبہ جات پر منفی اثرات ڈال رہا ہے،  کے لیے یہ اَمر خوش آیند ہے کہ پاکستان میں معاشی طور پر منافع بخش (Economically Feasible) ۵۰ہزارمیگاواٹ ہائیڈرو پاور جنریشن (آبی توانائی) کے امکانات موجود ہیں۔ ہم نے ابھی تک صرف ۱۴ فی صد امکانات کو عمل کے سانچے میں ڈھالا ہے۔ جاپان، امریکا اور یورپ اپنے ہاں موجود ۷۰ سے ۸۰ فی صد آبی توانائی کے امکانات کو رُوبہ عمل لاچکے ہیں، جب کہ ہمارے ہمسایہ ممالک چین اور بھارت تقریباً ۲۵ فی صد امکانات کو بروے کار لا کر سستی توانائی سے مستفید ہورہے ہیں۔
  • آبی وسائل کے حوالے سے ۱۹۶۰ء کا سندھ طاس معاہدہ ، آبی ذخائر و رابطہ نہروں اور بیراجوں کی تعمیر، سیم تھور کے تدارک کے لیے ٹیوب ویلوں کی تنصیب اور نکاسی نالوں کی تعمیر، شاہراہِ ترقی کے کامیاب سنگ میل ہیں۔ کامیابی کی یہ داستانیں ہماری کسی بڑے سے بڑے چیلنج سے عہدہ برآ ہونے کی استعداد کو ظاہر کرتی ہیں۔

پس چہ باید کرد!

  •  پانی جیسے ایک بہت ہی پیچیدہ قدرتی اثاثے (زراعت، صنعت، توانائی، ماحولیات، زمین، زیرزمین، مویشی و ماہی پروری، جنگلات، سیلاب، خشک سالی، حال، مستقبل، بین الاقوامی و بین الصوبائی ، سیم تھور غرضیکہ لامتناہی جہتوں کو ملحوظ رکھنا) کا دیرپا انتظام و اِنصرام جس میں مستقبل کی ۵۰ یا ۱۰۰ سالہ ضروریات کو بھی پیش نظر رکھا جائے۔
  •  سب سے پہلے ہمیں نیچرل سائنسز، انجینیرنگ سائنسز اور سوشل سائنسز میں اعلیٰ تعلیمی اور فنی صلاحیتوں کا حصول درکار ہے، مثلاً ذخائر کی تعمیر، ماحول پر اُس کے اثرات، گلیشیرز کے غیرمعمولی رفتار سے پگھلنے، آب پاشی کے وسیع ترین ڈھانچے کی نگہداشت اور تعمیروتوسیع، کروڑوں ٹن نمکیات کا زرخیز زمینوں میں جمع ہونا، زیرزمین پانی کی مسلسل گھٹتی بڑھتی مقدار اور معیار کا مطالعہ وغیرہ ، تاکہ ہم ایک جامع اور دیرپا نظام اُستوار کرسکیں۔
  • بلاشبہہ دنیا کے سب سے بڑے آب پاشی نظام، تربیلا اور منگلا جیسے ذخائر اور رابطہ نہروں وغیرہ کی کامیاب تعمیر سے ہمارے انجینیرز نے دنیا بھر میں اپنی فنی مہارت کا لوہا منوایا۔ اُنھیں دنیا بھر میں ایک قائدانہ مقام بھی حاصل تھا۔ لیکن وہ ایک نسل تھی جو اپنا کردار ادا کر کے رخصت ہوگئی۔ اگلی نسل کے ایری گیشن انجینیرز میں یہ فنی مہارت منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔
  •  زراعت جو پانی کا سب سے بڑا استعمال کنندہ ہے، میں باکفایت اور مؤثر طریقہ ہاے آب پاشی کو متعارف اور فروغ دیا جائے۔
  • زیرزمین پانی جو دریائی پانی کے بعد ہمارے آبی وسائل کا سب سے بڑا ماخذ ہے، اس کی ریگولیشن ، یعنی کسی بھی علاقے سے سالانہ زیادہ سے زیادہ کتنا پانی پمپ کیا جائے کیوں کہ الل ٹپ اور حد سے بڑھی ہوئی مقدار میں پمپنگ اس قیمتی متاع کو Deplate کررہی ہے۔
  •  آبی ذخائر کی فوری تعمیر کے لیے قومی اتفاق راے اور وسائل کی فراہمی ترقیاتی منصوبوں کی اوّلین ترجیح ہونی چاہیے۔

بنگلہ دیش میں برما سے ہجرت کرکے آنے والے روہنگیا مسلمانوں کی حالتِ زار جاننے، اور امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے ۹سے ۱۱ستمبرکے دوران بنگلہ دیش جانا ہوا۔  ۷۲گھنٹے میں نے ان علاقوں میں گزارے جہاں روہنگین مسلمانوں آکر رُکے ہوئے ہیں۔ جب ہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ابھی تک کافی بڑی تعداد میں ان خانماں برباد مظلوموں کے قافلے سمندری اور دریائی پانیوں اور دلدلوں کو پار کرکے بے سروسامانی اور بڑی ہی قابلِ رحم حالت میں چلے آرہے تھے۔ ان کے چہرے کیچڑ سے اَٹے ہوئے تھے۔ کسی نے اپنے والد کو اٹھایا ہوا تھا تو کسی نے والدہ کو۔ اس کے علاوہ چھوٹے چھوٹے نومولود بچے بھی ان کے ساتھ ہیں۔ یاد رہے کہ اس علاقے میں بارشیں بہت ہوتی ہیں اور وہ سبھی کھلے آسمان تلے سڑکوں پر رہنے پر مجبور ہیں۔

اس کیفیت کے باوجود دو چیزیں بنگلہ دیش میں ہوئیں۔ بنگلہ دیش حکومت کا پہلا رد عمل یہ تھا کہ ہم ان کو قبول ہی نہیں کرتے، ان کو واپس دھکیلا جائے۔ ظاہر ہے اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو دھکیلنا ممکن نہیں ہوتا۔ لیکن اس نازک موڑ پر جو کردار جمہوریہ ترکی کی طیب اردگان حکومت نے اداکیا ہے، وہ حددرجہ لائقِ تحسین ہے ۔ انھوں نے روہنگیا مہاجرین کی آبادکاری کے لیے بنگلہ دیش حکومت کو ہر طرح کے مالی تعاون کی مکمل یقین دہانی کرائی ہے۔اسی لیے بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد نے وہاں کا دورہ بھی کیا اور اس حوالے سے کافی حوصلہ افزا بیانات دیے۔ جس سے اب وہاں کچھ بہتری آنے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔ ملکی و بین الاقوامی این جی او ز یا رفاہی تنظیمیں وہاں پہنچ رہی ہیں۔ الخدمت پاکستان نے یہ طے کیا کہ ہم مقامی رفاہی تنظیموں کے ساتھ تعاون کریں گے، جو ان کے حالات سے واقف ہیں اور مقامی طور پر ا ن کی بہتر انداز سے مدد کرسکتے ہیں۔

چار میدانِ کار ہماری توجہ کا ہدف ہیں۔ پہلا ہدف یہ ہے کہ ان کو کھانے اور ادویات کی فراہمی۔ دوسرا سینی ٹیشن (حوائج ضروریہ) کے لیے انتظام ہے۔ جہاں لاکھوں لوگ ایک چھوٹے سے علاقے میں آکر ڈیرہ لگا لیں تو وہاں خواتین، بچوں اور مردوں کی ان ضرورتوں کو پورا کرنا سخت مشکل ہوتا ہے۔ اس کے لیے ہم نے مقامی مددگاروں کے ساتھ مل کر منصوبہ بندی کی ہے۔ تیسرا پہلو ان کے لیے چھت اور سایے کابندوبست کرنا ہے، تاکہ بارش کے دوران ان لوگوں کے پاس سر چھپانے کے لیے کوئی جگہ موجود ہو۔اور چوتھا میدان ہے پینے کے صاف پانی کی فراہمی۔ اگر یہ کام نہ ہوئے تو اگلے چند ہفتوں میں وہ وبائیں پھیلیں گی کہ لوگوں کو سنبھالنا بڑا مشکل ہوجائے گا۔ ہم انھی چاروں میدانوں میں مقامی رفاہی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں۔ ان تنظیموں میں بنگلہ دیش کے مقامی باشندے شامل ہیں۔

جہاں تک میانمار کا معاملہ ہے ، تو وہاں نہ کسی این جی او کا جانا ممکن ہے اور نہ کسی این جی او کا وہاں سے آنا ممکن ہے۔ وہ ایک مکمل فوجی انتظام میں گھرا علاقہ ہے۔یورپ کی جن دوچار این جی اوز نے میانمار میں کام کرنے کی اجازت لی ہوئی تھی، ان کو بھی نکا ل دیا گیا ہے۔

بنگلہ دیش میں ترکی ، ملایشیا، انڈونیشیا اور سری لنکا کی رفاہی تنظیمیں ہاتھ بٹا رہی ہیں۔ تاہم، پاکستان کے بارے میں بنگلہ دیش میں احتیاط پائی جاتی ہے کہ ان کی آمد سے ملک میں پتا نہیں  کیا ہوجائے گا۔ اس لیے اسلام آباد سے ویزہ ملنا مشکل ہے۔ برطانیہ ،امریکا اور یورپ میں رہنے والوں کے لیے آسانی ہے کہ ان کو ایئرپورٹ پر بھی ویزہ مل جاتا ہے۔

ہم انڈونیشیا کی ایک تنظیم کے ساتھ مل کر ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کا کام کررہے ہیں۔ پہلے ان کے ساتھ مل کر میانمار کے اندر بھی کام کررہے تھے، لیکن اب یہ ممکن نہیں رہا۔ اسی طرح ملایشیا کی تنظیم بھی ہماری معاون ہے۔ برطانیہ اور ناروے کی تنظیمات رابطے میں ہیں۔ ترکی کی سب سے بڑی رفاہی آرگنائزیشن آئی ایچ ایچ [انسانی یاردم]ہے، جو فلسطین میں فلوٹیلا لے کر گئی تھی اورپیشہ ورانہ بنیادوں پر بہت اچھا کام کر رہی ہے۔اس کے علاوہ ’حیرات‘ اور ’جانسیو‘ کے پاس تو باقاعدہ لائسنس تھا، حتیٰ کہ میانمارکے اندر بھی ان کے دفاتر تھے، لیکن اب ان پر پابندی عائد کرکے انھیں وہاں سے نکال دیا گیا ہے۔ اب وہ کاکسز بازار (بنگلہ دیش) میں کیمپ لگاکر کام کر رہی ہیں۔   اسی طرح ترکی کی ’ٹیکا‘ بھی ایک بڑی تنظیم ہے، جسے سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔ یہ صدر طیب اردگان کی اہلیہ کے ساتھ گئے تھے۔ ان تمام تنظیموں کے ساتھ ہمارے قریبی رابطے ہیں۔

مقامی لوگوں سے بھی ہماری بات ہوئی، جنھوں نے بتایا کہ ہم  نے بنگلہ دیش کے اندر مہم چلائی ہے اور اس وقت تک اس مد میں کثیر رقم جمع کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ان مسلمان بھائیوں کی مدد کے لیے بنگلہ دیش کے اندر ہمدردی کی ایک لہر ہے۔ ایک طرف عالمی سطح پر اُٹھنے والے ردعمل نے حکومت پر دباؤڈالا ہے تو دوسری طرف مقامی آبادیوں میں بھی اس پر اچھا ردعمل موجود ہے۔ واپسی پر جہاز میں کچھ کاروباری حضرات سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ وہ اپنے اپنے کام چھوڑ کر اس علاقے میں شیلٹرز بنوانے اور باقی امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے گئے ہوئے تھے۔ بنگلہ دیش کی مقامی مسلم آبادی اس مسئلے کو نظر انداز نہیں کرسکتی کہ ان کی سرزمین پر ان کے بھائی آئے ہوں اور وہ ان کی مدد کو نہ نکلیں۔

آج کی دنیا میں سوشل میڈیا ایک ایسا ذریعہ ہے جس پر کسی کا کنٹرول نہیں۔ چند تصویریں جو پرانی تھیں یا غلط طور پر روہنگیا مسلمانوں سے منسوب کی گئی تھیں، ان کے حوالے سے مخالفانہ پروپیگنڈا کیا گیا۔ لیکن ان چند غلطیوں سے بنیادی حقائق کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ یہ جو تین چار لاکھ لوگ ہجرت کرکے آئے ہیں، کون کہہ سکتا ہے کہ یہ من گھڑت کہانی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کسی تکلیف کی وجہ سے گھربار چھوڑ کر آئے ہیں، اور جو آپ بیتیاں سناتے ہیں وہ رونگٹے کھڑے کرنے والی ہیں۔

میں نے رات کے وقت ایک ایسا کیمپ بھی دیکھا، جس کو کاغذ کے ہلکے سے ٹکڑے کو استعمال میں لاکر صرف سر چھپانے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس میں کم از کم ستر اسّی ایسے بچے تھے، جن کی عمریں لگ بھگ ایک سے تین سال کے درمیان تھیں۔ وہ بے یارومددگار پڑے بلبلا رہے تھے۔ہوسکتا ہے ان کے والدین ان کے لیے کھانے پینے کا بندوبست کرنے گئے ہوں۔ لیکن اس وقت کوئی بڑا ان بچوں کے پاس موجود نہیں تھا۔ جب کوئی انسان ایسی صورتِ حال کو آنکھوں سے دیکھے گا تو کوئی اسے من گھڑت کیسے کہہ سکتا ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ جو لوگ وہاں پہنچ پائے ہیں،  یہ اس مظلوم آبادی کا صرف ایک حصہ ہے ۔ ایک بڑی تعداد وہ ہے جواَب تک پہنچ نہیں پائی اور جنگلوں میں اس انتظار میں ہے کہ کوئی انھیں یہاں سے نکالے، ورنہ وہ ذبح کردیے جائیں گے۔ یہ ایسے حقائق ہیں جن کی نفی کسی صورت میں ممکن نہیں ہے۔

جن علاقوں میں یہ لوگ پھنسے ہوئے ہیں، ان میں کچھ علاقے تو وہ ہیں کہ جہاں پانی اتنا گہرا نہیں ہے اور چھوٹی لانچوں سے نکالا جاسکتا ہے ۔ لیکن بعض علاقے ایسے ہیں جہاں گہرے پانیوں سے ان کو گزر کر خشکی پر آنا ہوتا ہے، جو کہ صرف بڑی لانچوں کا کام ہے۔ انسانی اسمگلنگ کا کام کرنے والوں کے لیے بھی یہ ایک کاروبار بن چکا ہے کہ وہ رقم لے کر ان لوگوں کو سمندروں اور دلدلوں سے نکال کر خشکی پر لائیں ورنہ وہ سمندر ہی میں موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔ جن کا تذکرہ میں کر رہا ہوں وہ بہت قابل رحم ہیں۔ جن لوگوں کے پاس وسائل ہیں وہ انسانی جانوں کو محفوظ مقام پر پہنچانے کا اہتمام کرسکتے ہیں۔یہ بھی ایک اہم میدانِ کار ہے۔ اس کے لیے چاہیے کہ لوگ آگے بڑھیں اور اپنا کردار ادا کریں۔

 روہنگیا بھائیوں کی مدد کرنے والے بہنوں اور بھائیوں سے ہماری درخواست ہے کہ وہ چیزیں بھیجنے کے بجاے زیادہ سے زیادہ نقد عطیات دیں۔ لوگ ہمیں بار بار یہ کہتے ہیں کہ:    ’’ہم چاول اور اس طرح کی دوسری اشیا بھیجنا چاہتے ہیں‘‘۔ چوںکہ چاول وہاں کی مقامی پیداوار ہے، لہٰذا اگر ہم یہاں سے لے کر وہاں بھیجیں گے تو دگنی قیمت میں پڑیں گے۔ انھی دنوں ملایشیا نے ایک بڑی کھیپ غذائی اشیا کی بھیجی ہے۔ ملایشیا بالکل قریب بھی ہے اور ان کے پاس سرکاری وسائل بھی ہیں۔ لیکن ان کے برعکس پاکستان سے افراد نقدی ہی کو ترجیح دیں۔ اگر سامان آ بھی جائے تو اسے ہم براہِ راست نہیں بھیج سکیں گے۔ اسے انڈونیشیا یا ملایشیا کی تنظیموں کو دینا ہوگا اور یوں یہ ایک لمبے روٹ سے ہوکر ادھر پہنچے گا۔

 بنگلہ دیش کی جن تنظیموں کے ساتھ ہم نے کام کیا ہے، وہ وہاں کی رجسٹرڈ تنظیمیں ہیں۔ یادرہے پاکستان سے مالی امداد کا پہنچانا، وہاں کی حکومت شک کی نظر سے دیکھتی ہے۔ اس لیے   ہم مظلوموں کی مدد کے لیے رقم کی فراہمی کو کسی شک و شبہے کا شکار بنانے کے بجاے، انھی کے حوالے کر رہے ہیں، جن کے بارے میں بنگلہ دیشی حکومت اطمینان رکھتی ہے۔

پاکستان کی قومی اور بین الاقوامی ۲۵تنظیموں نے روہنگیا ٹاسک فورس بنائی ہے اور یہ طے کیا کہ پاکستان سے یہ امداد وہاں پہنچائی جاسکے۔ ہمیں اور ہماری لیڈر شپ کو بنگلہ دیشی ہائی کمشنر سے ملنا چاہیے اور انھیں کہنا چاہیے کہ باقی اختلافات اپنی جگہ، لیکن انسانی ہمدردی میں آپ نے جو اقدامات کیے ہیں ہم اس کو خوش آمدید کہتے ہیں۔آپ اپنے حفاظتی اقدامات کو پیش نظر رکھتے ہوئے، مسلم ملکوں سے امداد کے راستے کھولیں جو خود آپ کے لیے بھی فائدہ مند ہیں۔ اسی طرح کراچی میں ۳سے ۴ لاکھ روہنگین مسلمان پچھلے ۵۰ سال سے آباد ہیں، جنھیں ابھی تک شہری حقوق نہیں ملے ہیں۔ وہ پاسپورٹ اور شناختی کارڈ نہیں بنوا سکتے اور ملازمتیں حاصل نہیں کرسکتے۔ حکومت پاکستان ان کو شہریت دے تاکہ ان کی مشکلات دُور ہوں اور وہ زیادہ ذمہ دار شہری کے طور پر خدمات انجام دےسکیں۔

جموں و کشمیر میں جبری بھارتی قبضے سے آزادی حاصل کرنے کے لیے رواں عوامی تحریک نے بھارت اور اس کے مقامی گماشتوں کو لرزہ براندام کر کے رکھ دیا ہے۔ اس تحریک کو کچلنے کے لیے بھارتی فورسز اور پولیس فورس ریکارڈ توڑ مظالم ڈھا رہی ہیں۔ بھارتی سفاک فورسز نہتے لوگوں کو  گلی کوچوں ، سڑکوں ، بازاروں اور گھروں میں گھس کر بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارنے میں مصروف ہیں۔ بلالحاظ عمر لوگوں کو بے رحم اور انسان کُش قوانین کے تحت گرفتار کر کے پابندِ سلاسل بنانے کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔

جموں وکشمیر میں جاری قتل وغارت اور درپردہ خفیہ منصوبہ سازی،بھارتی بوکھلاہٹ کی عکاس ہے۔بھارت اس حقیقت سے بہ خوبی واقف ہے کہ وہ یہاں تعینات کی گئی سات لاکھ سے زیادہ فوج کے بل بوتے پر قابض ہے اور یہی ٹڈی دَل فوج ہماری آزادی کی راہ میں سد راہ ہے۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد ہم اس مقام پر پہنچنے میں کامیاب ہو چکے ہیں کہ ہمیں اپنی منزل صاف دکھائی دے رہی ہے ۔ یہ اس اَن تھک اور دلیرانہ جدوجہد کا نتیجہ ہے، جس میں جموں وکشمیر کے لوگوں نے بے باک مزاحمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کے فوجی قبضے میں وحشت ناک مظالم کا مقابلہ کر کے، اس بات کا ثبوت پیش کیا ہے کہ لوگوں کے عزم واستقامت کے سامنے نہ کوئی قابض فوج مزاحم ہوسکتی ہے اور نہ طاقت کے بل پر دبایا جاسکتا ہے۔

رواں عوامی تحریک کوئی حادثاتی واقعہ نہیں ہے کہ جس کا تعلق محض ایک صدمہ انگیز واقعے سے ہو، بلکہ یہ جموں وکشمیر کے لوگوں کی، بھارت کے جبری قبضے سے آزادی حاصل کرنے کی طویل جدوجہد کا تسلسل ہے۔ کمانڈر برہان مظفر وانی شہید اور ان کے دو ساتھیوں کی شہادت پر لوگوں نے گھروں سے نکل کر والہانہ عقیدت کا اظہار کیا۔ پابندیوں اور قدغنوں کے باوجود لاکھوں کی تعداد میں اپنے ان شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ترال کی جانب مارچ کیا اور ان کے مشن کے ساتھ وفاداری کا ثبوت پیش کیا۔

اس وقت سے لے کر آج تک تحریک آزادی کے ساتھ وادی کے ہر بستی ، ہر قصبے ، ہرشہر ، ہر سڑک اور ہر بازار میں جس جذبے اور وابستگی کا اظہار کیا جا رہا ہے، وہ ا س حقیقت کا کھلا ثبوت ہے کہ ہمارے اور بھارت کے درمیا ن اگر کوئی تعلق ہے، تو وہ صرف مظلوم وظالم ، مقہور و قابض اور مجبور وجابر کا ہے۔ بھارت نے متعدد شکلوں میں اپنے جو گماشتے تیار کر رکھے تھے، وہ اس عوامی تحریک کے سامنے بے نقاب ہوچکے ہیں۔ ہم نے بار بار یہ کہا کہ یہ مفادات و مراعات یافتہ اور ہندنواز طبقہ کلہاڑی کے دستے کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ قابض بھارت کی کٹھ پتلیاں ہیں، جو جموں وکشمیر میں بھارتی قبضے کو مضبوط بنانے کے علاوہ بھارتی فورسز کی وحشت ناک قتل وغارت گری اور شرم ناک  ظلم وجبر اور لوگوں کو اپاہج اور اندھا بنانے جیسے مظالم کا جواز پیش کرنے اور ان کا دفاع کرنے کا کام انجام دے رہی ہیں۔

رواں عوامی تحریک نے ہماری جدوجہد آزادی میں ایک سنگِ میل کی حیثیت اختیار کر لی ہے، جس سے بھارت حواس باختہ ہو چکا ہے۔ اس کے حکومتی ایوانوں ، پارلیمنٹ اور متعصب میڈیا چینلوں میں ہلچل بپا ہے۔ اس عوامی تحریک نے بھارتی مکروفریب پر مبنی فوجی منصوبوں کو ہلاکے  رکھ دیا ہے۔ حصولِ آزادی کے لیے ہمارے عزم راست کے سامنے ان کے شیطانی منصوبے اور فریب کاری مات کھا رہے ہیں۔

 موجودہ حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ہم ۱۹۴۷ء سے لے کر آج تک اور بالخصوص ۱۹۸۹ء کے بعد سے اپنے ان جانباز شہیدوں ،مجاہدوں اور محسنوں کی بیش بہا قربانیاں یاد رکھیں، جو انھوں نے تحریک آزادی کشمیر کو پروان چڑھانے کے لیے پیش کی ہیں۔ ۱۹۹۰ء میں پوری دنیا ورطۂ حیرت میں پڑگئی کہ اب جموں و کشمیر کے لوگ بھارت کے فوجی قبضے کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔

یہ پُرزور تحریک آزادی کشمیر عالمی برادری کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اس کامیابی کے جواب میں بھارت نے طویل ظلم وتشدد اور جبرو سفاکیت کا مسلسل بازار گرم کیے رکھا ہے۔ قتل وغارت گری ، لوٹ مار، گھیرائو جلائو، عصمت دری اور کُشت وخون سے پوری ریاست کو لالہ زار بنا دیا گیا ہے۔ بھارتی سفاکوں کا خیال تھا کہ اس کے نتیجے میں اہل کشمیر،  تحریک آزادی سے دست بردار ہو جائیں گے اور بھارت کی غلامی پر رضامند ہو جائیں گے ۔ لیکن ہمارے مجاہدین اور بہادر عوام نے عظیم قربانیاں دے کر بھارتی منصوبوں کو ناکام بنا کر، تحریک آزادی کی شمع فروزاں رکھی ہے۔ عام شہریوں اور ہتھیار بند مجاہدین میں کوئی تمیز کیے بغیر بھارتی فورسز  گھپ اندھیروں میں اور دن دہاڑے بے تحاشا قتل عام انجام دیتی رہیں۔ بھارت کے اس ظلم وجبر کے باوصف ہر موقعے پر جذبۂ مزاحمت کے پیکر ہمارے بزرگوں اور نئی نسل نے بھارتی فوجی قبضے کے خلاف ہر ممکن طریقے سے مزاحمت جاری وساری رکھی ہے۔

گذشتہ دو عشروں کے دوران بھارت نے بچوں اور خواتین سمیت ہمارے لاکھوں لوگوں کو شہید کر ڈالا ہے۔ ۱۰ ہزار سے زائد لوگوں کو گرفتار کر کے لاپتا کر دیا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں ہمارے بچوں کو یتیم کر دیا گیا ہے۔ ہماری ہزاروں بہنوں اور بیٹیوں کو بیوائوں اور نیم بیوائوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں ہمارے جوانوں اور بزرگوں کو ٹارچر سیلوں میں اپاہج اور معذور بنا دیا گیا ہے۔ ہزاروں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید یا لاپتا کر دیا ہے۔ بھارت کی اس سفاکیت نے بڑی تعداد میں لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کر دیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ ہمارا جذبۂ آزادی کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔

ہم ان الم ناک واقعات و حوادث کے باوجود آج بھی اپنی آزادی کے مطالبے کو لے کر پوری جاںفشانی کے ساتھ میدانِ عمل میں موجود ہیں۔ ہمارے دل جذبۂ آزادی سے سرشار ہیں۔  ۲۰۰۸ء، ۲۰۰۹ء، ۲۰۱۰ء اور اب۲۰۱۶ء سے اُبھار پانے والی عوامی تحریک نے ہماری جدوجہد آزادی کو نئی زندگی اور نئی قوت بخشی ہے۔ قابض بھارت کے پاس دنیا کی تیسری بڑی فوج ہے، جس میں سے سات لاکھ سے زیادہ فوجی صرف جموں وکشمیر میں تعینات ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے۔ اس کے مقابلے میں نہ ہمارے پاس کوئی فوجی طاقت ہی ہے، نہ وسائل وذرائع ہیں اور نہ ذرائع ابلاغ اور میڈیا کی طاقت ہے۔ اگر ہمارے پاس کوئی طاقت ہے تو وہ اللہ کی رحمت اور ہماراجذبۂ مزاحمت ہے۔ ہماری سب سے بڑی قوت اللہ پر توکل اور تحریک کی صداقت ہے۔ ہماری طاقت ہمارا باہم اتحاد اور اعتماد او ر غلامی کی ذلّت سے آزادی حاصل کرنے کا عزمِ صمیم ہے۔ ہماری فتح ونصرت کا ثبوت اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ بھارتی قابض فوج کو کشمیر میں آزادی کی آواز کو دبانے کے لیے عمر رسیدہ خواتین اور بزرگوں، چار چار سالہ معصوم بچوں پر فائرنگ اور جواں سال کالج اساتذہ کو لاٹھیوں اور بندوق کے بٹوں سے تشدد کرکے اَبدی نیند سلانا پڑتا ہے۔ اگر ۷۰سال کے فوجی قبضے کے بعد بھی بھارتی فوجی اہلکاروں کو ایک نہتی عورت اور ہاتھ میں چھوٹا سا پتھر اٹھانے والے کمسن بچے کو کشمیر کو بھارت کے جبری قبضے میں رکھنے کے لیے گولیوں سے بھون ڈالنا پڑتا ہے، تو آپ خود ہی بتائیے کہ اس سے بڑھ کر ان کی بدترین شکست کی اور کیا مثال پیش کی جا سکتی ہے۔

کوئی بھی تحریک قربانیوں کے بغیر منزل کی طرف رواں نہیں رہ سکتی۔ہماری تحریک قربانیوں سے مزین ہے۔ ہم نے اپنی جانوں کی بے مثال قربانیاں پیش کی ہیں۔ ہمارے بچے قابض بھارتی ٹارچر سنٹروں میں تختہ مشق بنائے جا رہے ہیں۔ بزدل بھارت ہمارے بچوں کو منصوبہ بند انداز میں اندھا بنا رہا ہے۔ ہم نے اپنی کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں کو معطل کرکے، ظلم کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کیا ہے۔ ہمارا مزدور ، کاشتکار ، ٹرانسپورٹر ، بڑھئی، غرض معاشرے کا ہر طبقہ ہر لحاظ سے قربانیاں پیش کر کے ہماری تحریک کا ہر اول دستہ ہے ۔ یہ تحریک، یہاں کے  ایک ایک فرد کے دل کی آواز ، آرزو اور تمنا کا مظہر ہے۔ چاہے کوئی فرد درس وتدریس ، تجارت ، ڈاکٹری ، نوکری یا کسی پیشے سے تعلق رکھتا ہو، اس کے دل کی اُمنگ آزادی ہے۔ ہماری یہ قربانیاں آزادی کی اس عمارت کے پیوست اور راست ستون ہیں۔

رواں عوامی تحریک کے دوران لوگوں نے جس باہمی اخوت وہمدردی اور اتحاد واتفاق کا مظاہرہ کیا ہے، اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہم نے ایک آزاد قوم کی حیثیت سے جینے کا آغاز کیا ہے ۔ ہمارے گلی کوچوں سے لے کر ہمارے قائدین تک، ہم تحریک آزادی کے لیے یک جا اور یک سو ہیں۔ حالاں کہ ہمیں باربار سخت کرفیو میں جکڑا جارہا ہے۔ ہمیں جیلوں میں قید اور گھروں میں نظر بند کیا جارہا ہے۔ ہمیں تعذیب وتشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ لیکن وہ کبھی بھی ہم سے ہمارا   جذبۂ آزادی چھین نہیں سکتے اور ہمیں غلامی پر رضا مند نہیں کرسکتے۔ ہم ایک ہیں ، ہم متحد ہیں، اور ہمیں متحد ہو کر رہنا ہے۔ ہمارا اتحاد واتفاق ہی ہمارے دشمن کی شیطنت کی موت ہے۔

ہماری تحریک میں ہمیشہ کی طرح اس بار بھی پاکستان نے ہمارے محسن ، وکیل اور دوست ہونے کا ثبوت پیش کیا ہے۔ پاکستانی حکومت اور عوام نے ہمارا درد محسوس کیا ، ہمارے حق میں آواز بلند کی اور ہر سطح پر ہماری سفارتی اور اخلاقی مدد کا یقین دلایا۔ یہ بات بڑی خوش آیند ہے کہ جموں وکشمیر کے لوگوں نے آزادی کے لیے آج جو زور دار آواز اٹھائی ہے، وہیں پاکستانی حکومت اور عوام بھی اخلاقی ، سیاسی اور سفارتی سطح پر حمایت کرنے کے لیے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔    ہم عوامی جمہوریہ چین ، ناروے، سعودی عرب ، نیوزی لینڈ، ایران اور اسلامی تعاون تنظیم کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انھوں نے ہمارے حق میں آواز اٹھائی اور جموں وکشمیر میں جاری بھارتی جارحیت کی مذمت کی۔ ترکی کی جانب سے بھارت کے خلاف اور ہماری تحریکِ آزادی کی غیر مبہم اور برملا سپورٹ کرنے پر ہم دل کی گہرایوں سے ان کے شکر گزار ہیں۔

ایک وقت ایسا بھی تھا کہ ہمیں خطوط لکھنے اور انھیں دنیا کے ایوانوں تک پہنچانے کے لیے بھی دوسروں کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ ہماری آزادی کی اُمنگ اور درد وکرب اور مظالم کی داستانیں، برہمنی قوم پرست صحافیوں اور قلم کاروں کے استحصال کا شکار ہوتی تھیں۔ ہم پر ٹوٹنے والی افتاد کی اصلی صورت حال، بگاڑ کر دنیا کے سامنے پیش کی جاتی تھی۔ سواے چند حقیقت پسند اور انسانیت دوست افراد کے، بھارت کی تمام میڈیا مشینری جھوٹ کا سہارا لے کر ہماری مبنی برحق وصداقت تحریکِ آزادی کو دہشت گردی سے موسوم کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتی تھی۔ ہندستانی میڈیا دراصل بھارتی حکومت کی پالیسیوں کا ترجمان ہے اور بھارت کا جموں وکشمیر پر قبضہ قائم رکھنے کے لیے یہ ادارے حکومتی ڈکٹیشن پر من وعن عمل پیرا ہیں۔

ہمارے لیے حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ ہمارے قلم کار اور مصنّفین، بڑی دلیری اور غیرمبہم طریقے سے بھارتی مظالم اور تحریک آزادی کے ساتھ یہاں کے لوگوں کی وابستگی کی حقیقی صورت حال دنیا کے سامنے لا رہے ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بین الاقوامی میڈیا ہماری سڑکوں ، گلی کوچوں اور ہسپتالوں سے حقیقی صورت حال کی رپورٹنگ کر رہا ہے۔ ہم بین الاقوامی پریس کی طرف سے دیانت دارانہ انداز میں حقیقی صورتِ حال کو دُنیا کے سامنے پیش کرنے پر ان کے شکرگزار ہیں۔

آج، جب کہ ہم بہ حیثیت قوم، اجتماعی طور پر حصول آزادی کی تحریک میں یکسو ہو کر برسرِپیکار ہیں، وہیں ہم غاصب بھارت کے طرف دار گنتی کے ان مقامی مفاد پرست عناصر سے تحریکِ آزادی میں شامل ہونے کی ایک بار پھر اپیل کرتے ہیں ۔ کیوںکہ اپنی قوم کے ساتھ دغابازی کا مرتکب یہ طبقہ اس بات سے بہ خوبی واقف ہے کہ وہ تاریخ اور تحریک کی سچائی اور حقیقت کے مدمقابل کھڑا ہوکر محض ذاتی مفادات ومراعات کے لیے قابض بھارت کا آلۂ کار ہے۔     اس حیثیت سے وہ اپنے ہی لوگوں کے خلاف بر سرِ جنگ ہو کر اپنی عاقبت کو برباد کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ یہ فریب خوردہ مقامی لوگ، فاشسٹ برہمن قوتوں سے اقتدار حاصل کرنے کے بہکاوے میں آئے ہیں،جنھوں نے ریاست جموں وکشمیر کا مسلم اکثریتی کردار ختم کرنے کی ٹھان رکھی ہے ۔     یہ ہمارے ملّی اور دینی تشخص کو مٹانے کے در پے ہیں، اور ہم سے ہماری تہذیب اور ثقافت چھیننے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔ ان مقامی فریب خوردہ عناصر کے لیے اب بھی موقع ہے کہ وہ اس طرزِعمل سے باز آ جائیں اور اپنی قوم کے ساتھ شانہ بشانہ چل کر غداری اور دغا بازی سے کنارہ کش ہوجائیں، اور اس طرح اپنے بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کے محفوظ مستقبل کے لیے تحریکِ آزادی کشمیر میں شمولیت اختیار کریں۔

ہم خصوصاً ان لوگوں سے بھی اپیل کرتے ہیں،جو محض رزق کے چند ٹکڑوں کے لیے قابض بھارتی مشینری کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیں، اور اپنے ہی لوگوں پر مظام ڈھانے اور تحریکِ آزادی کو کچلنے کے عمل کو فرض شناسی تصور کرتے ہیں ۔ میں ان بھائیوں کو یقین دلاتا ہوں کہ ظالم اور ظلم سے اجتناب کریں اور حق وصداقت کا ساتھ دیں تو اللہ آپ کے دلوں کو طمانیت اور سکون سے نوازے گا۔ اللہ آپ کے لیے رزق کی فراہمی کے ذرائع واسباب کشادہ کرے گا۔ ظالم وجابر کا مددگار بننے پر اللہ تعالیٰ نے خوف ناک انجام کی وعید سنائی ہے۔ اس لیے آپ قابض بھارتی قوتوں کا مدد گار بننے سے تائب ہوں، اور مظلوم قوم کی اجتماعیت میں شامل ہو کر جاری جدوجہد میں شریک ہوجائیں۔

وقت کا یہ اہم تقاضا ہے کہ ہم مزاحمتی تحریک کے اس دور کو راسخ اور پیوست کریںاور سودے بازی کے بجاے مزاحمت کو اپنی زندگی کا شعار بنائیں ۔ ترجیحات اور ذمہ داریوں کا ادراک کر کے تحریک آزادی کو مستحکم اور منظم کریں۔ ہماری اس مزاحمت اور قربانیوں نے تحریکِ آزادی کو کسی بھی ابہام اور شک وشبہے سے محفوظ کر دیا ہے ۔ تحریک تسلسل کا نام ہے ۔ ہم واضح اور شفاف تحریک، اور اس کی منزلِ مقصود کو ابہام اور دھندلاہٹ کا شکار نہ ہونے دیں۔ اس مقدس مشن کو  گم کرنے کی کوئی دانستہ یا نادانستہ کوشش نہیں ہونی چاہیے، بلکہ ہمیں اس مرحلے کو اپنی منزل حاصل کرنے کے لیے ایک مشعل کی حیثیت دینا ہو گی۔ ہمیں فوراً اپنے گردونواح میں رواں تحریک میں متاثرہ افراد، اہل خانہ اور دیگر متاثرین تک پہنچنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہر بستی میں بیت المال قائم کر کے حاجت مندوں کی حاجت روائی کی جانی چاہیے۔ شہدا ، زخمیوں ، جیلوں میں بند ہم وطنوں اور ان کے لواحقین اور دیگر متاثرین کی جانب خصوصی توجہ کے ساتھ دل جوئی اور معاونت کا خیال رکھا جائے، تا کہ ہند نواز اور تحریک مخالف عناصر کے استحصال سے انھیں محفوظ رکھا جا سکے ۔

ہمارے ایمان، ہماری قوت، اتحاد اور عزمِ صمیم سے حواس باختہ ہو کر بھارت نام نہاد اور لایعنی بات چیت، ٹریک ٹو گفت وشنید اور ڈپلو میسی کا جھانسہ دے کر ہمارے ارادوں کو کمزور اور راے کو منقسم کرنے کی چال بازی کر رہاہے۔ یہ محض دکھاوے کی باتیں اور وقت گزاری کے حربے ہیں، جو اس کا آزمودہ نسخہ رہا ہے۔ یہ انفرادی واجتماعی طور پر ڈراما رچانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں ؟ حالاںکہ وہ اس حقیقت سے بہ خوبی واقف ہیں کہ ہم صرف اور صرف بھارت کے ناجائز قبضے سے آزادی چاہتے ہیں اور ہم دیر سویر اسے حاصل کر کے ہی دم لیں گے۔ ان شا اللہ!

کشمیر کی مخصوص شناخت نے یہاں کی سیاست اور اجتماعی جدوجہد کو متاثر کیا ہے۔ کشمیر کے سیاسی عمل کے مستقبل کا تعین کرنے کے لیے اس کی شناخت ایک اہم حوالہ ہے۔ آزادی، خودمختاری اور خود اختیاری جیسے نعرے عام طور پر ایک چیز، یعنی کشمیری شناخت سے جڑے ہوئے ہیں۔ جب بھی کوئی حکومت اس شناخت کو بگاڑنے کی کوشش کرتی ہے تو لوگوں کو شدید نوعیت کی بیگانگی محسوس ہوتی ہے۔ اپنی نام نہاد حکومتوں کے خلاف کشمیریوں کی بے زاری کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ یہ مدتوں سے ہے۔ مہاراجا ہری سنگھ کی حکمرانی کے دوران تلخی دو وجوہ سے بڑھی تھی:

 ۱- مسلمانوں کے لیے سرکاری ملازمتوں میں کوئی حصہ نہیں تھا۔ جس کا ایک بڑا سبب   ان کی تعلیمی پس ماندگی تھی، اور المیہ یہ کہ خود ڈوگرہ حکومت انھیں تعلیم میں پس ماندہ رکھنا چاہتی تھی۔

۲- ڈوگروں اور پنڈتوں کا اس پر اتفاق تھا کہ حکومتی خدمات کے لیے باہر سے تو لوگ لیے جاسکتے ہیں، مگر مسلمان ہرگز نہیں۔

سیاست میں دو پہلوئوں سے پیش رفت یہ ہوئی کہ اسی عرصے میں مسلم کانفرنس کا قیام عمل میں آیا، جو جموں و کشمیر میں آزادی کی تحریک کے لیے بنیاد فراہم کرنے کا ذریعہ بنی۔ دوسرے یہ کہ پنڈتوں اور ڈوگروں نے الگ سے تحریک چلائی کہ ’’کشمیر، کشمیریوں کے لیے ہے‘‘۔ دراصل یہ تحریک پنڈتوں کے مفادات کو محفوظ بنانے کے لیے تھی۔ اس تحریک نے فوجی خدمات میں مسلمانوں کی شمولیت کا بھی راستہ کھول دیا۔ لیکن اس تحریک نے مہاراجا ہری سنگھ کو یہ قانون بنانے پر مجبور کیا کہ غیر ریاستی لوگوں اور غیرریاستی ملازموں کو زمین خریدنے کی بھی اجازت نہیں ہوگی۔

اس طرح ریاست نے غیر ریاستی باشندوں کے مقابلے میں ، ریاستی عوام کے حقوق کو تحفظ فراہم کیا، اور اس استدلال کو تسلیم کرتے ہوئے ۱۹۲۷ء میں ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے '’ریاستی موضوع‘ کی اصطلاح وضع کی گئی۔ زمین کی ملکیت کے لیے قانون سازی کی گئی اور کہا گیا کہ زمین خریدنے والے ہرفرد کی حیثیت پر سوال اُٹھایا جاسکتا ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ۱۹۵۲ء میں شیخ عبداللہ اور بھارت کی حکومت نے دہلی میں اتفاق کیا کہ ریاست کو قانون سازی کے ذریعے ریاست کے مستقل رہایشیوں کے حقوق کے تحفظ اور ملکیت کے استحکام کی قوت حاصل ہوگی، خاص طور پر غیرمنقولہ ملکیت کے حصول سے متعلق معاملات کے بارے میں۔

’ریاستی موضوع‘ کے لحاظ سے یہ خاص حیثیت ہی درحقیقت بھارت کے ساتھ ریاست جموں و کشمیر کے مکمل انضمام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی چلی آرہی ہے۔ بھارتی دستور کا آرٹیکل ۳۷۰ کشمیر کی خودمختاری کو ختم کرنے کے لیے بھارتی قوم پرست قوتوں کے لیے بے چینی کا سبب ہے، اور وہ ابتدا ہی سے اسے ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ تاہم، آرٹیکل کو مکمل طور پر ختم کرنے کی کوئی حکومت ہمت نہیں کرسکی۔ البتہ اس کی خصوصی اہمیت کو بے اثر اور بے وقعت بنانے کے لیے نئی دہلی حکومت طرح طرح کی پالیسیاں بناتی اور نافذ کرتی رہی ہے۔ حالیہ زمانے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے ایسی قاتلانہ قانون سازی کی کھلی کھلی کوششیں ہورہی ہیں، مثال کے طور پر:

  • فوجی کالونیاں قائم کرنا: سری نگر میں فوجی کالونی قائم کرنے کے لیے زمین الاٹ کرنے کی تجویز کے تازہ تنازعے نے کشمیر کی شناخت کا مسئلہ اُٹھا دیا ہے۔ اپریل ۲۰۱۵ء میں، گورنر این این وورا کی سربراہی میں ’راجیہ سینک بورڈ‘ (آر ایس بی)نے سری نگر کے ایک ہوائی اڈے کے قریب فوجی کالونی کی منظوری دے دی تھی۔ وزارتِ داخلہ نے اپنے اعلامیے میں لکھا کہ: ’’راجیہ سینک بورڈ کے زیراہتمام فوجی کالونی کے لیے ۱۷۳کنال زمین مختص کی گئی ہے‘‘۔     یہ منظوری اُس وقت کے وزیراعلیٰ، مفتی سعید نے دی تھی۔ اب ان کی بیٹی محبوبہ مفتی اس مقصد کی تکمیل کر رہی ہیں۔ جموں و کشمیر پر بھارت کے قبضے کو مضبوط بنانے کے لیے یہ پختہ اقدام ایک مؤثر حکمت عملی کے طور پر اختیار کیا گیا ہے۔ یہ بھارتی فوجی اب کشمیر کے باشندوں اور ریاست پر قبضہ مضبوط بنانے کے ایک اہم محرک کی حیثیت اختیار کریں گے۔ یہ اقدام غیر ہندستانی معاشرے کو ہندستانی معاشرے میں تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔ حُریت کانفرنس نے اس اقدام کی پُرزور مذمت کی ہے۔ حُریت کانفرنس کے سربراہ سیّدعلی گیلانی کے بقول: ’’کشمیر میں بھارتی فوجی کالونیاں قائم کرنا کشمیری قوم کا قتلِ عام ہے، جس کی مزاحمت کے لیے آخری سانس تک جدوجہد کرنا ہوگی‘‘۔ گیلانی صاحب کے مطابق ان کالونیوں میں سابق بھارتی فوجیوں کو آباد کرنے کا کوئی اخلاقی یا قانونی جواز نہیں ہے۔ یہ ریاست، بھارت کی ۲۸ریاستوں سے بالکل الگ پہچان اور متنازعہ حیثیت رکھتی ہے۔ سیّدعلی گیلانی نے اسے کھلی جارحیت قرار دیا اور اس جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے  قومی اتفاق راے کے بھرپور اظہار کے لیے تمام سیاسی و سماجی تنظیموں کو یک زبان اور یک جا ہونے پر اُبھارا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ: ’’فوجی کالونیوں کی آبادکاری کے لیے زمین مخصوص کرنا ایسا اقدام ہے، جو ۲۰۰۸ء میں ’امرناتھ شراین بورڈ‘ کو ۴۰کنال زمین منتقل کرنے سے بھی زیادہ سنجیدہ، گہرے منفی اور دُور رس اثرات کا حامل فعل ہے۔ تب کشمیر کی سیاسی قیادت کی مشترکہ جدوجہد کے نتیجے میں ’شراین بورڈ‘ کا فیصلہ منسوخ ہوگیا تھا۔ لیکن اگر اب بھارتی سیکورٹی ایجنسیوں کے غیرقانونی قبضے سے کئی لاکھ کنال زمین کو نہ نکالا گیا، تو یہ اہل کشمیر کو ایک بدترین مستقبل کی طرف دھکیل دے گا۔

۲۴؍ اگست ۲۰۰۹ء کو ریاستی قانون ساز اسمبلی میں دیے گئے اعداد و شمار سے یہ پتا چلتا ہے کہ فوج نے ۱۰ لاکھ ۵۴ہزار ۷سو ۲۱ کنال زمین پر بزور قبضہ جمایا ہے، جن میں ۸ لاکھ اور ۵۵ہزار کنال پر تو ۱۰۰ فی صد غیرقانونی طور پر قبضہ کیا گیا ہے اور اس کی بنیاد پر مزید ایک لاکھ ۹۹ہزار ۳سو۱۴ کنال زمین سیکورٹی ایجنسیوں نے قبضے میں لے رکھی ہے۔ ’لینڈ ریکوزیشن ایکٹ‘ کے تحت وادیِ کشمیر کی مزید ۵ لاکھ ۹۹ہزار ۴سو۵۵ کنال اور جموں کی ۳لاکھ ۲۱ہزار ۹سو۵۱ کنال زمین بھارتی فوجیوں نے ہتھیا لی ہے۔

  •   مغربی پاکستان سے پناہ گزینوں کی آباد کاری: جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ تقسیمِ ہند کے وقت ​​لاکھوں ہندواور سکھ مغربی پاکستان کے مختلف علاقوں سے بھارت، اور بھارت کے مختلف علاقوں سے لاکھوں مسلمان مغربی پاکستان میں منتقل ہوگئے تھے۔ ہندوئوں اور سکھوں کی ایک تعداد جموں میں منتقل ہوکر سرحدی علاقوں میں آباد ہوگئی تھی۔ ۲۰۱۲ءمیں جموں و کشمیر اسمبلی میں پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق ۲۱ہزار۹سو ۷۹ افراد پر مشتمل ۴ہزار ۷سو۴۵ خاندان ہیں، جو مغربی پاکستان سے جموں و کشمیر منتقل ہوگئے تھے۔ ان پناہ گزینوں کی ایکشن کمیٹی کا اب کہنا ہے کہ ان مہاجرین کی موجودہ آبادی ۲لاکھ ۵۰ہزار ہے۔ ان میں سے ۹۵ فی صد نچلی ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں اور باقی راجپوت اور برہمن ہیں۔ انھیں بھارتی شہریت تو دی گئی ہے، لیکن ریاست جموں و کشمیر کی شہریت نہیں دی گئی۔ جب ’مشترکہ پارلیمانی کمیٹی‘ (جے پی سی) نے سفارش کی کہ ریاست جموں و کشمیر ان پناہ گزینوں کو ووٹنگ اور شہریت کے حقوق دے، تو اس بات پر تنازع پیدا ہوگیا۔ یہ کمیٹی (جے پی سی) انتخابات سے پہلے تشکیل دے گئی تھی، کیوںکہ بی جے پی ان پناہ گزینوں کو اپنی انتخابی مہم کے لیے بطور سہارا استعمال کرنا چاہتی تھی۔ اسی لیے وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی اور بی جے پی کی حکومت نے یہ اقدامات کیے۔

ممبراسمبلی مظفر حسین بیگ نے کہا کہ ان پناہ گزینوں کا مسئلہ باوقار طریقے سے حل کرنا چاہیے، اور انھیں نئی اُمید دینی چاہیے۔کشمیر اور جموں کی زمینوں پر بھارتی کالونیوں کی تعمیر کے مسئلے پر، بھارت سے وابستہ رہنے اور بھارت سے الگ ہونے والے لوگ مشترکہ موقف رکھتے اور کہتے ہیں کہ ایسے اقدامات نہ صرف ریاست کی متنازعہ نوعیت کو تبدیل کر ڈالیں گے، بلکہ ریاست میں آبادی کے تناسب کو بھی تبدیل کر ڈالیں گے۔ حُریت (ع) کے چیئرمین عمر فاروق نے کہا کہ: ’’مظفربیگ کا بیان کوئی سیاسی، قانونی یا اخلاقی موقف نہیں ہے۔ وہ اگر پناہ گزینوں کی بحالی کے بارے میں فکرمند ہیں، تو انھیں بھارت لے جائیں‘‘۔

  •   علیحدہ کالونیوں میں کشمیری پنڈتوں کا مسئلہ : کشمیری پنڈتوں کا مسئلہ اہم اور سب سے زیادہ پیچیدہ معاملہ ہے۔ بی جے پی، جس نے جموں میں اچھا انتخابی فائدہ اُٹھایا، خود اس کو بھی اسمبلی میں اس مسئلے کا سامنا ہے۔ وہ کشمیری پنڈتوں کے لیے علیحدہ قصبوں کو قائم کرنے کی پالیسی کے ساتھ برسرِاقتدار آئی ہے۔ اس پالیسی نے ریاست، عوام اور سیاسی جماعتوں میں ایک ردعمل پیدا کیا ہے۔ جو لوگ بھارت کے ساتھ وابستگی چاہتے ہیں اور جو آزادی کے لیے جدوجہد کررہے ہیں، ان میں کانگریس اور نیشنل کانفرنس نے اس اقدام پر تنقید کی ہے۔ سیّد علی گیلانی نے اس منصوبے کو مسترد کرکے اسے غیر قانونی قرار دیا ہے۔ اگرچہ، پی ڈی پی نے بھی اسرائیلی انداز میں پنڈتوں کی کسی بھی قسم کی آبادکاری کے خصوصی اہتمام کو مسترد کر دیا ہے، مگر بی جے پی اور پی ڈی پی اتحادی سیاست کے ذریعے ریاست میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی لانے کی جانب بڑھا جارہا ہے، جس میں بڑے شہروں کو ہدف بنایا جانا پیش نظر ہے۔

یہ بات مدنظر رہنی چاہیے کہ کشمیری مسلمان، اپنے ہم وطن پنڈتوں کی واپسی کے خلاف نہیں ہیں، کیوںکہ وہ کشمیر کا ایک حصہ ہیں، لیکن جس طریقے سے ان کی آبادکاری کا منصوبہ مسلط کیا جارہا ہے، اس طریقے کی مخالفت کی جارہی ہے۔

اس تنازعے میں وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ: ’’کشمیری، تارکین وطن کی اپنی وادی میں آبادکاری کے لیے اس طرح سوال کرتے ہیں جیسے بلیوں کے آگے کبوتر ڈالنے کا معاملہ ہو‘‘۔  محبوبہ مفتی کے اس بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا کہ یہ باتیں مسلمانوں کے لیے واضح طور پر  توہین آمیز اور نفرت انگیز الزام تراشی کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ مسلمانوں نے کبھی کشمیری پنڈتوں کو ’کبوتروں‘ کی طرح نشانہ نہیں بنایا، اور جنھوں نے انفرادی طور پر کبھی کسی کو نشانہ بنایا تو کشمیری قیادت نے نہایت سختی سے اس کی مذمت کی ہے۔

  •   نئی صنعتی پالیسی: یہ پالیسی انڈسٹری اینڈ کامرس ڈپارٹمنٹ کی طرف سے تشکیل دی گئی ہے اور ریاستی انتظامی کونسل نے ۱۵مارچ ۲۰۱۶ء کو اس کی منظوری دی ہے۔یہ کونسل گورنر این این ووہرا کی سربراہی میں قائم ہوئی تھی۔ بظاہر اس پالیسی کا مقصد ہرسال ۲ہزار کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کا ارادہ ہے۔ لیکن پالیسی کے اصولوں کے پیچھے یقینی طور پر کچھ ایسے چھپے ہوئے سازشی عناصر موجود ہیں، جو نئی صنعتی پالیسی کے جھانسے میں، غیر ریاستی لوگوں کو زمین حاصل کرنے کی گہری سازش کر رہے ہیں، تاکہ وہ نام نہاد ۹۰ سالہ لیز پر فیکٹریاں لگانے کے ساتھ ساتھ اپنی بستیاں بھی آباد کرتے چلے جائیں۔

اس حوالے سے آسیہ اندرابی صاحبہ نے کہا ہے کہ: ’’بھارتی صنعتی پالیسی کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ بھارت کے بڑے بڑے سرمایہ داراورصنعت کار، دولت کے بل بوتے پر کشمیر میں پنجے گاڑ کر، یہاں کی آبادی کا تناسب بدل ڈالیں۔ مزید یہ کہ بھارتی سرمایہ دار اور سرمایہ پرست، افرادی قوت بھی بھارتی ریاستوں سے لائیں گے، جس کے نتیجے میں یہاں کی تہذیب و تمدن، روزگار اور آزادی، سبھی کچھ بھارتی کنٹرول میں چلا جائے گا اور یہاں غربت و ذلّت کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔

  •   جموں و کشمیر میں جی ایس ٹی پر عمل درآمد : جموں و کشمیر میں جی ایس ٹی (ٹیکس) کا نفاذ ریاست کا بھارت کے ساتھ انضمام کے عمل کی نشان دہی کرتا ہے۔ بھارتی وزیرداخلہ نے اس موقعے پر کہا کہ ’’حکومت کے اس اقدام سے کشمیر کے بھارت میں انضمام کا خواب پورا ہوگیاہے‘‘۔ ایک دوسرے موقعے پر انھوں نے کہا کہ: ’’جمو ں و کشمیر کا جی ایس ٹی نظام کا حصہ بننا سیاسی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے۔ اس لیے کہ یہ ریاست کا باقی ملک [بھارت] کے ساتھ انضمام کا اشارہ ہے اور جی ایس ٹی دراصل ایک عمل کی انتہا ہے‘‘، جب کہ شاما پرشاد مکرجی نے ریاست کے بھارت کے ساتھ مکمل انضمام پر بات کی۔ تاہم، اس کے برعکس بھارت کے ممتاز دانش وَر اے جی نُورانی نے جی ایس ٹی کو ’آرٹیکل ۳۷۰ کی عصمت دری‘ قرار دیا۔

جی ایس ٹی نے ریاست سے ہر طرح کی معاشی خودمختاری چھین لی ہے۔ آرٹیکل۳۷۰ ریاست کو محصول اور ٹیکس کی وصولی کا اختیار دیتا ہے، لیکن اب یہ اختیار ریاست کو حاصل نہیں ہے۔ عبدالرحیم راتھر، سابق وزیرخزانہ نے ریاست اور مرکزی حکومت کے اعلان کو رَدکرتے ہوئے کہا کہ: ’’نئے ٹیکس نظام کے تحت، نئی دہلی کو جی ایس ٹی کے ذریعے سیلزٹیکس جمع کرنے کا اختیار حاصل ہوگا، جو کہ دوسری صورت میں جموں و کشمیر حکومت کے دائرئہ اختیار میں ہوتا ہے‘‘۔

جی ایس ٹی میں توسیع کا سادہ مطلب جموں و کشمیر کے خصوصی اختیارات نئی دہلی کے حوالے کرنا ہے۔ مرکزی حکومت نے اپنے فیصلے کی میکاولین وضاحتیں کی ہیں۔ ڈاکٹر حسیب درابو ریاستی وزیرخزانہ نے بل کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ: ’’ہم آرٹیکل ۳۷۰ کو ایک ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں‘‘، اور یہ انھی خطوط پر گفتگو تھی جیساکہ بی جے پی کے نظریے کے حامی بات کرتے ہیں۔

آرٹیکل ۳۵-اے کو حذف کرنے کی حکمت عملی

جموں و کشمیر کا آئین اپنے تیسرے حصے میں مستقل رہایشی اور اس کے اختیارات اور مستقل رہایشی کے حقوقِ ملکیت وغیرہ کی تعریف کرتا ہے۔ مستقل رہایشی کی تعریف کرنے کے  ساتھ ساتھ آئین آرٹیکل۹ کے تحت ریاستی اسمبلی کو تمام اختیارات دیتا ہے، جس کے تحت اسمبلی ریاستی شہری کی تعریف میں کوئی بھی تبدیلی لاسکتی ہے۔ آرٹیکل ۹: درج ذیل اُمور کی وضاحت کرتا ہے، جیسے:

۱- ریاست کے مستقل شہری کی وضاحت کرنا یا تعریف میں تبدیلی کرنا، افراد کی نوعیت (کلاسز) جو بھی ہیں یا ہوں گی،

۲- مستقل شہریوں کو خصوصی حقوق یا اختیار عطاکرنا،

۳- مستقل شہریوں کے خصوصی حقوق یا اختیارات کو مقررہ ضابطے کے تحت چلانا یا ان میں تبدیلی کرنا۔ یہ اسمبلی سے تب منظور کیے جائیں گے، جب اسے اسمبلی کی دوتہائی اکثریت کی تائید حاصل ہوگی۔

جموں و کشمیر کے شہریوں کے حقوق نہ صرف بھارتی حکومت نے تسلیم کیے ہیں،بلکہ ان کے تحفظ کے لیے آرٹیکل ۳۵-اے آئین کا حصہ بھی ہے۔ یہ آرٹیکل ایک آئینی شق ہے، جو جموں و کشمیر کے مستقل شہریوں کے خصوصی حقوق بہ سلسلہ ملازمت، ناقابلِ انتقال جایداد کا حصول، آبادکاری اور اسکالرشپ کی وضاحت کرتی ہے۔ یہ آرٹیکل جموں و کشمیر میں صدر راجندرا پرشاد کے حکم سے ۱۴مئی ۱۹۵۴ء میں نافذ کیا گیا۔ قانونی ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ اگر آرٹیکل کو حذف کیا گیا تو جموں و کشمیر تمام خصوصی مراعات بشمول اسٹیٹ سبجیکٹ لا، جایداد کا حق، ملازمت کا حق اور آبادکاری کا حق کھو دے گا۔ بھارتی انتہاپسند قوم پرستوں کے مطابق بظاہر یہی دکھائی دیتا ہے کہ کشمیریوں کے خصوصی استحقاق کو مسخ کرنے کے لیے ایک بڑی حکمت عملی تیار کرلی گئی ہے۔ بی جے پی کے مشن۴۴ کا ہدف کشمیریوں کے خصوصی استحقاق کے اس دستاویزی ثبوت سے نجات حاصل کرنا ہے۔

جموں و کشمیر کی تمام اپوزیشن جماعتوں نے متفقہ طورپر اس تحریک کے خلاف اپنے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے متنبہ کیا ہے کہ اگر آرٹیکل ۳۵-اے کو منسوخ کیا گیا تو جموںو کشمیر میں بغاوت ہوسکتی ہے (روزنامہ گریٹر کشمیر، یکم اگست ۲۰۱۷ء)۔ اسی طرح وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھارتی حکومت کو سختی سے متنبہ کیا ہے کہ اگر آرٹیکل ۳۵-اے کو حذف کیا گیا تو وادی میں ترنگے کو بلند کرنے والا کوئی نہ رہے گا۔ اپوزیشن، حکمران جماعت پی ڈی پی ، علیحدگی پسند اور عوام آرٹیکل ۳۵-اے کی تنسیخ پر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے ہیں۔

آرٹیکل ۳۵-اے کی منسوخی نے مرکز اور ریاست میں شدید بحث کھڑی کر دی ہے۔ زیریں سطح پر بہت سے حقائق نے کشمیر کے تشخص پر سخت یورش کو ثابت کر دیا ہے۔ مثلاً ’پرماننٹ ریذیڈنٹ سرٹیفکیٹ‘ (PRC) سے متعلق افواہوں نے ریاست کے عوام میں یہ خدشہ پیدا کردیا ہے کہ حکومتی سطح پر کچھ گڑبڑ ہے۔ ’اسٹیٹ سبجیکٹ انکوائری کمیشن رپورٹ‘ کے مطابق تقریباً  ۱۳۰۰ پی آر سی سرٹیفکیٹ زیرغور ہیں جو کہ حیران کن ہے۔ اے کیو پرے نے کہا ہے کہ ان مقدمات میں انھوں نے پی آر سی سرٹیفکیٹ منسوخ کرنے اور جایداد ضبط کرلینے کی منظوری دی ہے۔ اے کیو پرے نے کہا کہ یہ حیران کن ہے کہ غیر ریاستی IAS کے غیرمتعلقہ افسر پی آر سی سرٹیفکیٹ جاری کر رہے ہیں جو کہ قوانین و ضوابط کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

جس روز سے رسمی معاہدے کے تحت بھارت نے ریاست کا انتظام سنبھالا ہے، مرکزی بھارتی قیادت کی خواہش ہے کہ جیسے دوسری ریاستیں بھارت میں ضم ہوگئی ہیں اسی طرح کشمیر بھی بھارت میں مکمل طور پر ضم ہوجائے۔ خودمختاری میں فرسودگی کا عمل اس طریق کار کی زندہ مثال ہے۔ عوام محض اس شبہے کے اظہار کے سوا کیا کرسکتے ہیں کہ یہ ان کے علیحدگی کے تشخص کو منسوخ کرنے کا ایک ٹھوس منصوبہ ہے۔ دستورِ ہند سے آرٹیکل ۳۷۰ کی منسوخی کے لیے بھارت میں واویلا زوروں پر ہے اور اس کو حذف کرنا بی جے پی حکومت کے کارڈوں میں سے ہے۔

اگرچہ اپوزیشن کی مختلف جماعتوں کی طرف سے انتقامی پالیسیوں کی نشان دہی کی گئی ہے لیکن اہم ترین پہلو یہ ہے کہ کیا اپوزیشن جماعتیں کشمیر کے تشخص کے خلاف اس بھرپور یورش کو روکنے کے لیے متحد ہوتی ہیں یا کشمیرامرناتھ پارٹ ٹو کی طرف بڑھ رہا ہے؟

ترجمہ: حافظ محمد ابراہیم

انسان تواضع اختیارکیے بغیرعروج،بلندی،قدرومنزلت حاصل نہیں کرسکتا، اور اس کے بغیر انسان حقیقی معنی میں انسان مطلوب نہیںبن سکتا۔ یہ اخلاقی قدر جو انسان کے دل سے پھوٹتی ہے، اپنے آپ کو اللہ کے سامنے جھکانے سے حاصل ہوتی ہے۔عجز انسان کوہمیشہ اللہ کے ارادے کے تابع بنادیتا ہے۔ اللہ کی تابع داری کرنے والا انسان یہ جان لیتا ہے،کہ اس انکسار نے اللہ کی نظر میںاس کی شان وعزت بڑھادی ہے۔یہ عجز کا ایک پہلو ہے۔اس کا دوسرا پہلو یہ ہے جب انسان کو یہ بات معلوم ہے کہ انسان تمام مخلوق میں سب سے زیادہ اہم، عظیم اور بلند ہے ،تواس کے ساتھ پیارومحبت،شفقت ورحمت کا معاملہ کرے۔اس پراپنی بڑائی نہ جتائے،اور نہ اس کو حقارت کی   نظر سے دیکھے ،اور نہ اپنے آپ کوایک لمحے کے لیے دوسروں سے بہتر تصور کرے۔

’تورات‘ میں تواضع کے متعلق واضح ہدایات ہیں۔ انسان کے احترام کو لازم قرار دیا ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی صورت اور مثال پر پیدا کیا۔اس کی پیدایش میں ایسی علامت ہے، جو اسے یاد دلاتی ہے کہ وہ کس شے سے پیداہوا، اس کی انتہا کیاہے اوروہ کس طرف جائے گا: ’’اپنی پیشانی کا پسینہ بہا کر تو اپنا روز گار کماتا ہے،یہاں تک کہ توزمین کی طرف لوٹ جائے گا۔ مٹی سے تو پیدا ہوامٹی کی طرف لوٹے گا‘‘۔(تکوین، باب ۳،آیت۱۹)

اس میںاس انسان کے لیے تنبیہ ہے، جو اپنے جیسے لوگوں پر بڑائی کی کوشش کرتا ہے۔ اسے ڈرایاگیا کہ اس کی ابتدابھی مٹی سے ہے اور اس کی انتہا بھی مٹی ہے: ’’اے انسان! اللہ تعالیٰ کی تیرے ساتھ محبت کا تقاضا یہ ہے، کہ تو ہمیشہ اس ادب و احترام کا دامن تھامے رکھے،جس کاحکم اللہ کی طرف سے ہے، تاکہ توتربیت اور تہذیب کا راستہ سیکھ سکے‘‘۔

جو عزت تلاش کرتا ہے وہ تواضع کے بغیر عزت حاصل نہیں کرسکتا۔عزت نہ تو زیادہ مال میں ہے اور نہ اقتدار اور بادشاہت ہی میں۔ کہا گیا ہے: ’’امیر کی دولت اس کے شہر کا قلعہ ہے اور وہ اس کے خیال میں بلند عمارت ہے،لیکن عاجزی وانکساری اس کا مینار ہے۔ عزت کے حصول سے پہلے تواضع اختیار کرنا ضروری ہے‘‘(امثال، باب ۱۸، آیت۱۱-۱۲)۔ بہت سے لوگ مال حاصل کرنے کے لیے دوڑ دھوپ کرتے ہیں۔یہ سمجھتے ہیں کہ مال و دولت حقیقی امیری ہے، جو کہ انسان کو دوسرے لوگوںسے ممتاز کرتی ہے۔ وہ یہ بھی خیال کرتے ہیںکہ امیر لوگ غربا سے زیادہ عزت دار ہیں۔ ان کا یہ خیال غلط ہے۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ اللہ کی نظر میں سب برابر ہیں،کیوں کہ وہ سب کا خالق ہے :’’امیر و غریب دونوں برابر ہیں، رب دونوں کو پیدا کرنے والا ہے۔ عقل مندآدمی شر کو دیکھتاہے تواس سے بچتا ہے، جب کہ نادان برائی کی طرف جاتا ہے اور سزا پاتا ہے۔تواضع کااجر اور رب کا خوف حقیقی امیری ،عزت اور زندگی ہے‘‘۔(الامثال، باب ۴، آیت ۲۲)

یہود کے ہاں چھے کام رب کی ناراضی کا سبب ہیں اور سات چیزیں مکروہ ہیں:  ۱- غلط جگہ پڑنے والی نگاہیں،جھوٹی زبان،خون بہانے والے ہاتھ،برائی کا حکم دینے والادل،گناہ کی طرف اٹھنے والے قدم، جھوٹی گواہی،لوگوںکے درمیان لڑائی کا بیج بونے والا آدمی(امثال، باب ۶،آیت ۶-۱۹)۔جو نجات چاہتاہے اس کے لیے عاجزی اختیارکرنا اور اللہ کے سامنے جھکنا لازم ہے۔

اللہ تعالیٰ ان متواضعین کے ساتھ محبت کی بشارت دیتا ہے،جن کا ایمان مضبوط اور ارادے سچے ہیں۔انھوں نے حق کوپہچانا اور اس پر سختی سے عمل کیا، جس سے اللہ کی رضا کا حصول ان کے لیے ممکن ہے۔اللہ پاک صرف پاکیزہ اعمال قبول کرتا ہے۔وہ پاکیزہ روح کی قربانی قبول کرتا ہے، وہ عاجز اور شکستہ دل انسان کی تذلیل نہیں کرتا۔ (مزمور، باب۵۱،آیت ۱۷)

متواضعین کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے شمارا نعامات ہیں۔ بزرگ و برتر ذات فرماتی ہے:’’ میںبلند اور پاکیزہ جگہ رہتا ہوں۔میں عاجز اور متواضع لوگوں کے ساتھ ہوں تا کہ میں عاجز لوگوں کو روحانی زندگی دوں، اور ٹوٹے ہوئے دلوں کو خوش کروں‘‘۔ (اشعیا، باب ۵۷، آیت۱۵)

اللہ تعالیٰ نے جس طرح عاجز اور نیک لوگوں کے لیے اپنی محبت کا اعلان کیا،اسی طرح اس نے متکبرین،خود پسند لوگوں کے لیے ناراضی کا اظہار فرمایا: ’’ عاجز اور متکبرین کے درمیان واضح فرق یہ ہے ، کہ متکبر انسان ذلیل ہوتا ہے، جب کہ متواضع انسان عزت حاصل کرتا ہے‘‘ (امثال، باب ۲۹، آیت ۲۳)۔ تکبر برے لوگوں کا راستہ ہے ،تواضع سچے، نیک لوگوں کا راستہ ہے۔ اللہ عاجزی کرنے والوںکواپنی خوشنودی سے نوازتا ہے۔ کتاب مقدس میں ہے: ’’رب کی لعنت برے لوگوںکے گھر پر برستی ہے لیکن وہ نیک کے گھر میںبرکت پیدا کرتا ہے۔ وہ متکبر مذاق اڑانے والوں کا مذاق اڑاتا ہے اور متواضعین پراپنی رضا کی موسلا دھار بارش برساتا ہے‘‘۔(امثال، باب ۳،آیت۲۳-۲۴)

تکبربربادی اورذلت لاتا ہے،جب کہ عاجزی انسان کو بلند کرتی ہے۔ کتاب مقدس میں واضح الفاظ میں ذکر ہے :’’ہلاکت سے پہلے بڑائی ہے،زوال سے پہلے نفس کی خود پسندی ہے، دانائوںکے سامنے نفس جھکانا،متکبرین کے ساتھ مال غنیمت تقسیم کرنے سے زیادہ بہتر ہے‘‘ (امثال، باب ۱۶،آیت ۱۸-۱۹)۔ ’’تین کاموں میں غورکرو کسی بڑی غلطی میں مبتلا نہیں ہوگے: ۱- تو کہاں سے آیا ہے؟ ۲- تو کہاں جائے گا؟ ۳- توکس عظیم ہستی کے سامنے حساب وکتاب کے لیے پیش ہوگا؟‘‘۔ (آباء، آیت ۲۹ )

’’اگر تو نے ان سوالوںکا جواب پہچان لیا تو یقینا تو نے بھلائی پالی۔بہترین چیز عاجزی، فنائیت اور تواضع ہے،توان کو اختیار کرتاکہ ہلاکت سے بچ جائے۔دانا کون ہے؟جو تمام لوگوں سے سیکھے۔طاقت ور کون ہے؟جو اپنی خواہشات کو کنٹرول کرے ۔امیر کون ہے؟جو اپنے حصے پر قناعت کرے۔شریف کون ہے؟جو اپنے ہم جنسوں کا احترام کرے‘‘۔ (آباء، باب ۴۶،آیت ۴۹)

 عیسائیت میں محبت کو اہمیت حاصل ہے ،اور یہ بات واضح ہے کہ تواضع محبت کی صورتوں میں سے ایک ایسی صورت ہے کہ اس کے بغیر انسانوں کے درمیان تعلق اور بھائی چارے کی فضا قائم نہیںکی جاسکتی۔ انجیل میں ہے: ’’اے مصیبت زدہ اور بوجھ اٹھانے والو میری طرف آجائو،میں تمھیں آرام دوں گا۔ میرا دامن پکڑو،مجھ سے سیکھو کیوںکہ میں سنجیدہ،خاموش طبع،پُرسکون اور متواضع القلب ہوں، تم اپنی خواہشات پائوگے‘‘۔ (متی، باب۱۱،آیت ۲۸-۲۹ )

 جو انسان نیکی اور دانائی سیکھنا چاہتا ہے، رفعت وعزت کا متلاشی ہے، تواس کو چاہیے کہ  وہ خادم بنے مخدوم نہیں،غلام بنے آقا نہیں۔ ایک بار یسوع(عیسٰیؑ)نے لوگوں کو بلایا اور فرمایا:  ’’تم جانتے ہو کہ امتوں کے سردار ان کی قیادت کرتے تھے اور بڑے لوگ ان پر غلبہ چاہتے تھے۔ تم میں ایسے لوگ نہیں ہونے چاہییں بلکہ تم میں سے جو بڑا بننا چاہتا ہے،وہ خادم بنے جو تم میں بہتر بننا چاہتا ہے وہ غلام بنے‘‘ (متی، باب ۲۰، آیت ۲۰-۲۱ )۔حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ تو ایک زمانے تک ان الفاظ کی طرف کان لگا جو تیرے سامنے بزرگی کے راستے کھولتے ہیں،جس کی حد سیّدناعیسٰیؑ نے مقررکی تھی۔ جب آپ’ کفر ناحوم‘(بستی)میں آئے تو ان سے سوال کیا،تم راستوں پر آپس میں بات چیت کیوں کرتے ہو؟ وہ خاموش ہوئے،کیوںکہ راستوں میں ان کے کچھ لوگ اپنے سے افضل لوگوں سے لڑتے تھے۔ آپؑ بیٹھ گئے اور ان کے بارہ لوگوں کو بلایا،ان سے کہا: ’’اگر تم میں سے کوئی مقام چاہتا ہے تو وہ سب کا خادم بنے‘‘ (مرقس، باب۹، آیت ۳۴-۳۵ )۔ ایک اور مقام پر فرمایا:’’اگر تم میں سے کوئی عاجزی کے راستے پر چلنا چاہتا ہے،تو وہ خوشامد اور غصہ سے بچے۔ وہ ہر نیکی کو بھول جائے،اپنے آپ کو دوسروں سے کم تر،حقیر اور سب سے زیادہ خطاکار سمجھے‘‘۔

قرآن کریم نے’’ عقیدہ ایمان،، کی بنیاد اس بات پررکھی کہ، عظمت ،بڑائی اور جلال صرف اور صرف اللہ کی ذات کے لیے ہے،اور یہ کہ تمام مخلوق اللہ کی غلام ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’وہ اللہ پوشیدہ اور ظاہر ہر چیز کو جانتا ہے جوکہ بڑا اور بلند ہے‘‘۔ (الرعد۱۳: ۹ )

قرآن مجید کی واضح آیتیں تمام انسانوں سے تکبر کی نفی کرتیں ہیں،کیوں کہ یہ صفت اللہ کے ساتھ خاص ہے۔ قرآن مجیدکی تعلیمات یہ ہیں کہ،ہر انسان اللہ کی بندگی کرے کیوںکہ ہر ایک اس کا غلام ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’ ہر وہ مخلوق ہے جو آسمانوں اور زمینوںمیں ہے رحمن کی غلام بن کر آئے گی‘‘۔ ( مریم ۱۹: ۹۳ )

یہاں تک کہ رسولِؐ اعظم اور نبی محترم بھی اللہ کے بندے ہیں۔رب کائنات نے قرآن مجید میں فرمایا:’’اللہ وہ پاک ذات ہے جس نے راتوں رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی سیر کرائی۔ وہ مسجد اقصیٰ کہ جس کے ماحول کو ہم نے بابرکت بنایاتاکہ ہم انھیں اپنی نشانیاں دکھائیں۔  بلاشبہہ اللہ خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے‘‘۔ (بنی اسرائیل ۱۷: ۱)

سورۃ الفرقان میں ارشاد ہے:’’نہایت متبرک ہے وہ ہستی جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی تاکہ وہ لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرائے‘‘(فرقان۲۵:۱ )۔اللہ تعالیٰ نے کسی بھی انسان کوبڑائی کی صفت نہیں دی بلکہ اپنی بلند ذات کوبڑائی کی صفت کے ساتھ خاص فرمایا ہے۔  اللہ نے فرمایا:’’اللہ کے لیے ان دونوں(آسمان وزمین)کی حفاظت کوئی مشکل نہیں،وہ بس ایک بزرگ وبرتر ہستی ہے‘‘ (البقرہ۲: ۲۵۵ )۔ قرآن مجید نے تواضع کی اعلیٰ اخلاقی تعلیمات کو ذکر   کیا ہے، اور یہ بات بیان کہ بڑائی ،بلندی اور عظمت اللہ کے لیے خاص ہے اور کسی کے لیے نہیں۔ انسان کو جو چیز تواضع سکھاتی اور تکبر سے بچاتی ہے، وہ یہ ہے کہ انسان اپنی پیدایش کی حقیقت کو پہچانے۔ قرآن مجیدمیںہے :’’انسا ن غور کرے اسے کس چیزسے پیداکیاگیا،اسے اُچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا،جو کہ پیٹھ اور چھاتی کے درمیان سے نکلتا ہے‘‘۔ (الطارق۸۶:۵-۶ )

پھر ارشاد ربانی ہے:’’ہم نے انسان کو مخلوط نطفے سے پیدا کیا،تاکہ ہم اس کا امتحان لیں اور اس غرض ومقصد کے لیے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا‘‘ (الدھر۷۶:۲)۔ ایک اور مقام پر اللہ رب العزت کا فرمان ہے:’’ کیا انسان نے غوروفکر نہیں کیاکہ بلاشبہہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیااچانک وہ صریح جھگڑا لو بن گیا‘‘ (یٰٓس۳۶: ۷۷ )۔جس نے غوروفکر، سوچ وبچار کی اس نے جان لیاکہ تکبر انسانی پیدایش کے متعارض ہے۔ جب انسان کے دل میں دوسروںپر تکبرکاخیال پیداہوتو وہ اپنی اس پیدایش کو یاد کرے۔

یہ اہم حقیقت ہے جو انسان کوعاجزی پرآمادہ کرتی ہے۔کئی احادیث مبارکہ بھی عاجزی پر آمادہ کرتیں ہیں۔حضرت ابو سعیدؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جو اللہ کے لیے ایک درجہ عاجزی اختیارکرتا ہے اللہ اسے ایک درجہ بلند کرتا ہے،یہاں تک کہ اسے    اعلیٰ علیین میں جگہ دیتا ہے۔اور جو ایک درجہ تکبر کرتا ہے اللہ اسے ایک درجہ گراتاہے،یہاں تک کہ اسے سب سے نچلے درجے میں پھینک دیتا ہے‘‘۔ (کنز العمال)

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل تواضع کی تعلیم دیتے تھے۔ آپ چاہتے تھے کہ لوگوں کا ہاتھ پکڑ کرانھیںاللہ کی خوش نودی کی طرف لے جائیں۔حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا:’’ جو اللہ کے لیے تواضع اختیار کرتاہے اللہ اس کے مرتبے کو بلند کرتا ہے۔ وہ اپنے نفس میں چھوٹا ہوتا ہے لیکن لوگوں کی نظروں میں عظیم ہوتا ہے۔ اور جو متکبر ہوتا ہے اللہ اس کے مرتبے کو پست کردیتا ہے۔ وہ اپنی نظروں میں بڑاہوتاہے، جب کہ لوگوںکی نگاہوںمیں ذلیل ہوتا ہے، یہاں تک کہ وہ لوگوں کے ہاں کتے اور خنزیر سے بھی زیادہ ذلیل ہوتا ہے‘‘۔ (کنز العمال)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے عاجزی و انکساری کی بلند مثال پیش کی۔ حضرت قیس بن ابی حازمؓ فرماتے ہیں،کہ ایک آدمی حضورؐ کے پاس آیا۔جب آپ کھڑے ہوئے تو وہ کانپنے لگا۔آپ ؐنے فرمایا:’’پُرسکون رہو میں کوئی بادشاہ نہیں ہوں بلکہ ایسی قریشی عورت کا بیٹاہوںجو خشک روٹی کے ٹکڑے کھایاکرتی تھی‘‘۔ (مستدرک حاکم)

حضرت ابن ابی اوفیؓ فرماتے ہیں: ’’ حضورر صلی اللہ علیہ وسلم بیوہ اور مسکین کے ساتھ چلنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے ساتھ جاتے اور ان کی ضرورت پوری کرتے‘‘۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں،میں نے کہا: اے اللہ کے رسول میری جان آپ پر قربان ہو! آپ ٹیک لگا کر کھائیں،یہ کھانے کاآسان طریقہ ہے ،توحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: عائشہؓ! میں ٹیک لگا کر نہیں کھائوں گا بلکہ اس طرح کھائوں گاجس طرح ایک غلام کھاتا ہے،اور غلام کی طرح بیٹھوں گا‘‘۔(بغوی شرح السنۃ)

حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے کہ:’’ مسجد نبویؐ کی تعمیرکے وقت تمام صحابہ کرامؓ اینٹیں اُٹھارہے تھے اور آپؐ بھی ایک عام مزدور کی طرح کام کررہے تھے۔ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا،آپ کے پیٹ پرپتھربندھا ہوا ہے۔ میں نے خیال کیاکہ اس پتھرنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مشقت میں ڈال دیا ہے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ! یہ پتھر مجھے دے دیں۔آپؐ نے فرمایا: اے ابوہریرہؓ! اس کے علاوہ کوئی اور پتھرلو،اورحقیقی زندگی توآخرت کی زندگی ہے‘‘۔

حضوؐر کی زندگی انسانیت کے لیے نمونہ ہے۔آپؐ اللہ کے ہاں ساری مخلوق سے افضل ہیں۔اعلیٰ اخلاق سے مزین ہیں۔آپؐ میں اعلیٰ درجے کی تواضع بھی ہے۔یہ کیسے نہ ہو، جب کہ  اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے:’’بلاشبہہ آپؐ اخلاق کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہیں (القلم۶۸:۴ )۔ دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’آپ اپنے بازئوںکو مومنین کے لیے جھکا دیں۔ ان کے ساتھ عاجزی سے پیش آئیں‘‘ (الحجر۱۵:۸۸)۔قرآن کریم نے تکبر، خودپسندی اور غرور کی مذمت کی: ’’تم زمین پراکڑکر نہ چلو، نہ تم زمین پھاڑ سکتے ہو اور نہ ہی پہاڑوں کی بلندیوںکو پہنچ سکتے ہو۔ ان اُمور میں سے ہر ایک کام تیرے رب کے نزدیک ناپسندیدہ ہے‘‘۔ (بنی اسرائیل ۱۷: ۳۷-۳۸)

آپ ؐنے تکبرسے منع کیا۔حضرت ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ آپؐنے فرمایا:’’ تکبر سے بچو،بندہ ہمیشہ تکبرکرتا ہے، یہاں تک کہ اللہ عزوجل فرماتے ہیں کہ اس بندے کا نام متکبرین میں  لکھ دو‘‘ (کنز العمال)۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’ لوگوںسے بے رخی اختیار نہ کرو اور زمین پر اکڑ کر نہ چلو۔بے شک اللہ ہر متکبر، مغرور انسان کو پسند نہیںکرتا، اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرواپنی آواز پست کرو،بے شک آوازوںمیں سب سے بُری آواز گدھوںکی ہے‘‘۔ (لقمان ۳۱:۱۸-۱۹)

ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا:’’جو آدمی اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے اوراپنی چال میں تکبرکرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کو اس حال میںملے گاکہ وہ اس پرغصے ہوگا‘‘۔ (کنز العمال)

قرآن کریم لوگوںکو اس بات سے آگاہ کرتا ہے کہ زمین میں تکبر کا انجام ناکامی ہے۔   اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’میںاپنی نشانیوںسے ان لوگوںکو پھیردوں گاجو ناحق بڑے بنتے ہیں۔ اگروہ تمام نشانیاں دیکھ لیں، تب بھی وہ ان پرایمان نہیںلائیں گے۔اگروہ ہدایت کاراستہ دیکھ لیں تواس پرنہیں چلیں گے،اور اگر ٹیڑھا راستہ نظرآئے تواس پر چل پڑیں گے۔ یہ اس لیے کہ انھوںنے ہماری نشانیاں جھٹلائیں اور ان سے بے پروائی کرتے رہے‘‘۔ (الاعراف ۷:۱۴۶)

اللہ تعالیٰ متکبرین پرسخت غصے کااظہار کرتاہے۔انھیںاپنے عذاب سے ڈراتا ہے۔ فرمایا: ’’یقینا اللہ تعالیٰ جانتا ہے جسے وہ چھپاتے ہیںیا ظاہر کرتے ہیں،بلاشبہہ اللہ تکبر کرنے والوںسے محبت نہیں کرتا‘‘ (النحل۱۶:۲۳)۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’کیا جہنم متکبرین کاٹھکانہ نہیں؟ (الزمر۳۹: ۶۰)۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’ آج کے دن تمھیںرسوا کن عذاب کا بدلہ دیا جائے گا، زمین میں تمھارے ناحق تکبراور تمھاری نافرمانیوںکے سبب‘‘ (الاحقاف۴۶:۲۰)۔یہ تمام سزائیں اس لیے ہیںکہ وہ صفت بڑائی میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ جھگڑتے ہیں۔حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’بڑائی میری چادرہے،عظمت میری ازارہے۔ جس نے میرے ساتھ ان صفات میں جھگڑاکیا،میں اسے آگ میں ڈال دوںگا‘‘۔ (کنز العمال)

سیرتِ رسولؐ ایک ایسے انسان کی داستانِ زندگی ہے جو اپنی زندگی کو اس دعوت کی نذر کردیتا ہے جس میں اس کا کوئی ذاتی مفاد نہیں۔ دولت و ثروت، اثر و نفوذ یا منصب و اقتدار کی کوئی خواہش نہیں، حتیٰ کہ تاریخی بقا و دوام بھی پیش نظر نہیں کیونکہ وہ تو اللہ کے ہاں دوام پرایمان رکھتاہے۔ ایسا انسان جو بچپن سے لے کر ۴۰ سال تک کی زندگی نہایت پاکیزگی سے گزارتا ہے۔ پھر ۴۰برس سے انتہاے عمر تک کی زندگی عبادت و ہدایت اور جہاد و جدوجہد میں گزارتا ہے اور  دنیا اس کے سامنے زیر ہو جاتی ہے، تو وہ دنیا کے تمام تر باطل معیارات کو کالعدم کرتا ہے اور اپنے راستے پر پھر سے رواں دواں ہو جاتا ہے۔

آیئے!آپؐ   کی رسالت و نبوت کے ابتدائی برسوں کے چند لمحات پر ایک نظر ڈالیں!  یہ برس ایسے ہیں کہ صبر و ثبات اور صدق و عظمت میں ان کی مثال نہیں ملتی۔ ان برسوں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ہادی و معلّمِ انسانیت جنابِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبیاں دوسرے برسوں کی نسبت ان برسوں میں کھل کر سامنے آئیں۔ یہ برس زندہ کتاب کا دیباچہ تھے۔

یہ رسالت کے وہ سال ہیں جب رسولؐ اللہ تنہا تھے۔ آپؐ نے اپنا تمام تر سکون اور راحت کو تج دیا تھا اور لوگوں کے پاس ایسی چیز لے کر گئے تھے جس سے لوگ آشنا نہیں تھے بلکہ  وہ اس کو ناپسند کرتے تھے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا پیغام لے کر ان کے ذہنوں پر دستک دینے نکلے۔ اہل دانش جانتے ہیں کہ عوام کے ذہنوں کو مخاطب کر کے اس وقت کوئی بات کرنا تو بڑا آسان ہوتا ہے جب آدمی اجتماعی توقعات اور اُمیدوں میں خود بھی ان کے ساتھ کھڑا ہو مگر جب انھیں ایسے مستقبل بعید کی طرف بلایاجائے جس کو آدمی خود تو دیکھ رہا ہو مگر لوگ اسے نہ دیکھ رہے ہوں تو یہ انتہائی مشکل ہوتا ہے! جی ہاں، جب آدمی عوام کے ذہنوں پر دستک دے اور اُن کی زندگی کی بنیادوں کو امانت دارانہ اور مخلصانہ طور پر منہدم کرنے کے لیے اٹھے اور اس کے پیچھے کوئی ذاتی غرض، مَجدو شرف اور خواہش و آرزو بھی نہ ہو تو ایسی صورتِ حال میں پیش آنے والے خطرے کا سامنا کرنا اولوالعزم صالحین و مرسلین ہی کا کام ہے۔ محمد رسولؐ اللہ اس موقعے کے مردِ میدان اور رجلِ عظیم ہیں! یہ وہ موقع ہے جب بتوں کی عبادت ہی اصل عبادت تھی اور انھی کے شعائر اصل دین تھا۔

اس موقعے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرگز کسی چال کی آڑ نہ لی۔ راستے کی دشواری اور مصائب کی شدت دونوں اس بات کی اجازت دیتی تھیں کہ یکدم کلمۂ توحید پیش کرڈالنے سے قبل افرادِ کار کو تیار کرنے میں آپؐ اپنی نادر ذہانت کو استعمال کر لیں۔ یہ آپؐ کے دائرہ اختیار میں بھی تھااور آپؐ  کا حق بھی تھا کہ آپؐ  صدیوں سے بتوں کی عبادت سے وابستہ معاشرے کو اس سے دُور کرنے کے لیے فضا سازگار بناتے اور راہ ہموار کرتے، پھر رفتہ رفتہ تحریک کو اس تباہ کن مزاحمت سے بچاتے ہوئے آگے بڑھاتے جو اول لمحے ہی سے قوم کے بغض و کینہ کی صورت میں متحرک ہوجانے اور اپنے تمام تر اسلحے کو میدان میں لا ڈالنے والی تھی مگر آپؐ  نے اس طرح کا کوئی ایک کام بھی نہ کیا۔ اور یہی سب سے بڑی نشانی تھی کہ آپؐ  اللہ کے رسول ہیں جس نے آسمانی صدا کو اپنے دل میں یہ کہتے ہوئے سنا کہ کھڑے ہو جائو تو کھڑے ہو گئے۔ اس نے کہا: پیغام پہنچا دو تو پیغام پہنچا دیا۔ اس میں لمحہ بھر کے لیے توقّف کیا نہ ذرّہ بھر فرار کی کوشش کی۔آپؐ  نے اول روز بلکہ اول لمحے ہی سے رسالت کے جوہر اور مسئلے کی اصل کو بیان کرتے ہوئے یوں لوگوں کو مخاطب کیا:

لوگو!میں تمھاری طرف بھیجا گیا اللہ کا رسول ہوں تاکہ تمھیں یہ بتائوں کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائو۔یہ بت جن کی تم عبادت کرتے ہو، لغو و باطل ہیں۔ تمھارے کسی نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں!

آپؐ  نے لمحۂ اوّل سے انھی واضح اور کھلے الفاظ سے لوگوں کو مخاطب کیا اور اسی لمحے سے اس سخت معرکہ آرائی کا سامنا شروع کر دیا جس میں ساری زندگی گزار دی۔

محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت پیش کی تو قریش کا شعلوں کی مانند لپکتا ہوا ردّعمل فوراً سامنے آ گیا۔ ایک ایسی جان پر مخالفتیں اور مزاحمتیں ٹوٹ پڑیں جس نے ساری زندگی ایسا اعزاز و اکرام اور عزت و احترام دیکھا تھا کہ اس سے بڑھ کر عزت و احترام کا کوئی مرتبہ نہیں!

رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا پہلا درس ہی حیران کن اور عجیب فداکاری کے رنگ میں پیش کرنا شروع کیا اور یہ وہ منظر ہے جس نے زمان و مکان کو بلکہ تاریخ کو بھر دیا۔ مکہ کے زندہ ضمیر اس پر تعجب و حیرت کااظہار بھی کر رہے تھے اور اس کے قریب بھی آتے جا رہے تھے۔

انھوں نے قربانی، استقامت اور عظمت کو دیکھا۔ انھوں نے جو کچھ اس روز دیکھا جب اشرافِ قریش کا ایک وفد جناب ابو طالب کے پاس گیا، یہ تو اور زیادہ خوب صورت اور خوش کن منظر تھا۔ اشرافِ قریش نے جناب ابو طالب کو مخاطب کر کے کہا:

اے ابو طالب!آپ کو ہمارے اندر بزرگی، شرف اور قدرومنزلت کا مقام حاصل ہے، اور ہم نے آپ کو اپنے بھتیجے کو باز رکھنے کے لیے کہا ہے لیکن آپ نے اسے باز نہیں رکھا۔ اللہ کی قسم! ہم اپنے آبا و اجداد کی بے عزتی، اپنے تصورات کی حماقت اور اپنے معبودوں کی عیب جوئی پر صبر نہیں کر سکتے۔ لہٰذا اس کو ہم سے باز رکھ لیں۔ نہیں تو ہم اسے بھی اور آپ کو بھی جنگ میں اُتار لیں گے، یہاں تک کہ ہم دونوں فریقوں میں سے ایک ہلاک ہو جائے۔

جناب ابوطالب نے قریش کو اس حد تک پہنچتے دیکھا تو بھتیجے کے پاس گئے اور کہا:

بھتیجے!تیری قوم کے لوگ میرے پاس آئے ہیں اور انھوں نے تیرے معاملے کے بارے میں بات کی ہے۔ لہٰذا تم مجھے اور خود کو مشکل میں نہ ڈالو اور مجھے کسی ایسے امر سے دوچار نہ کرو جس کو برداشت کرنے کی میرے اندر طاقت نہیں۔

وہ تن تنہا شخص جو ایک جانب کھڑا تھا اور ظاہر یہ ہوتا تھا کہ وہ اس جدوجہد سے دست بردار ہوجائے گا یا یہ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اس قبیلۂ قریش کے مقابلے کی تاب نہیں لا سکے گا جس نے اس کے خلاف اپنی خوفناک کچلیاں نکال لی ہیں۔لیکن ادھر ایک اور ہی منظر اور مظاہرہ سامنے آتا ہے اور رسولؐ اللہ کسی تردّد و توقّف کا اظہار کرتے ہیں نہ آپؐ  کے عزم میں کوئی کمزوری رُونما ہوتی ہے۔ نہیں ہرگز نہیں!آپؐ  تو ایسے الفاظ بھی تلاش نہیں کرتے جن کے ذریعے اپنے ایمان کو قائم رکھنے کی کوشش کریں۔ آپؐ  کا ایمان تو منصب استاذیت کے بلند مقام پر پہلے ہی کھڑا تھا جو پوری انسانیت پر بلیغ درس اور دائمی ہدایات بہا رہا تھا۔ پھر آپؐ  یوں بولتے ہیں کہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ کوئی انسان بات کررہا ہے یا پوری کائنات نغمہ سرا ہے؟

آپؐ  فرماتے ہیں:

یَا عَمِّ وَ اللّٰہِ لَوْ وَضَعُوا الشَّمْسَ فِی یَمِیْنِیْ، وَ القَمَرَ فِی یَسَارِی ، عَلٰی اَنْ اَتْرُکَ ھٰذَا الاَمْرَ حَتّٰی یُظِھِرَہُ اللّٰہُ اَوْ اَھْلُکَ فِیْہِ، مَا تَرَکْتُہ!!

چچا جان اللہ کی قسم! اگر یہ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند لا کر رکھ دیں کہ میں اس امر کو چھوڑ دوں تو میں اسے نہیں چھوڑوں گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسے غالب کر دے یا میں اس (جدوجہد) میں ختم ہو جائوں۔

جناب ابو طالب نے یہ سنا تو فوراً اپنے آبا و اجداد کی روایت کا مظاہرہ کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں سے بھتیجے کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا:

بھتیجے! جو چاہو کہو، میں تمھیں کبھی کسی چیز کے حوالے نہیں کروں گا۔

شدائد ہر جانب سے آپؐ پر ٹوٹ پڑے تھے اور وہ غم خواری جو آپؐ  کو اپنے چچا جناب ابوطالب اور زوجہ حضرت خدیجہؓ سے مل رہی تھی وہ بھی آپؐ  سے منہ پھیر لیتی ہے اور یہ دونوں شخصیتیں تھوڑے تھوڑے وقفے سے وفات پا جاتی ہیں۔

اگر کوئی شخص اس تشدد کی انتہا اور جنگ کی شدت کا تصورکرنا چاہے جو قریش نے تن تنہا رسول کے خلاف برپا کر رکھی تھی، تو اس کے لیے یہی جان لینا کافی ہے کہ وہ ابو لہب جو رسولؐ اللہ کا بدترین دشمن تھا ایک دن اس کا ضمیر بھی اس تشدد کو دیکھ کر یہ اعلان کرنے پر مجبور ہو گیا کہ وہ رسولؐ اللہ کو پناہ دے گا اور آپؐ  کے دشمنوں سے آپؐ  کی حفاظت کرے گا!! لیکن رسولؐ اللہ اسے اس کی پناہ واپس لوٹا دیتے ہیں اور خود تنہا کھڑے قربانی پیش کرتے جاتے ہیں۔ کوئی نہیں جو آپؐ سے اس تشدد کو روکے اور آپؐ  کا دفاع کرے کیونکہ کوئی یہ طاقت ہی نہیں رکھتا کہ وہ اس تشدد کو روک سکے۔  حتیٰ کہ عظیم المرتبت ابوبکرؓبھی اس صورتِ حال پر رونے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے!

ایک روز رسولؐ اللہ کعبہ کی طرف جاتے ہیں اور جونہی طواف شروع کرتے ہیں تو انتظار میں بیٹھے اشرافِ قریش ٹوٹ پڑتے ہیں۔ آپؐ  کو گھیرے میں لے لیتے ہیں اور کہتے ہیں: تم ہو جو ہمارے معبودوں کے بارے میں یہ یہ کہتے ہو؟

آپؐ  پورے سکون و اطمینان سے جواب دیتے ہیں: ہاں!میں ہوں جو یہ کہتا ہوں۔ قریش یہ سنتے ہی آپؐ  پر پل پڑتے ہیں اور آپؐ  کو زدوکوب کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ جنابِ ابوبکرؓ ان کی طرف بڑھتے ہیں اور روتے ہوئے کہتے ہیں:کیا تم ایک ایسے آدمی کو مار ڈالنا چاہتے ہو جویہ کہتا ہے کہ اللہ میرا رب ہے؟

جس شخص نے طائف کے روز رسولؐ اللہ کو دیکھا ہو اس نے تو آپ کی صداقت و فدویت کی ایسی نشانی دیکھی ہو گی جو آپؐ  ہی کے شایانِ شان تھی!

رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم ثقیف کی طرف رُخ کرتے ہیں اور انھیں اللہ کی طرف بلاتے ہیں۔ کیا وہی سلوک کافی نہیں جو آپؐ  کی قوم نے آپؐ  سے کیا تھا کہ آپؐ  ایک اور قوم کی جانب چل پڑے ہیں؟ اور پھر اس قوم کے درمیان اور آپؐ  کے درمیان کوئی قرابت داری بھی نہیں کہ وہ اس کا لحاظ رکھتے ہوئے آپؐ  کے ساتھ بات کریں!

نتائج و عواقب کسی بھی صورت میں آپؐ  کے حق میں نہیں تھے کیونکہ آپؐ  کے رب نے آپؐ  سے کہہ دیا تھا کہ عَلَیْکَ الْبَـلَاغ   (تبلیغ تمھارے اوپر فرض ہے)۔ لہٰذا اب آپؐ  کو طائف کی طرف جانا تھا کہ اس کے لوگوں کو بھی اللہ کا پیغام پہنچا دیا جائے۔

جب آپؐ  یہاں پہنچے تو اس علاقے کے اشراف نے آپؐ  کو گھیرے میں لے لیا۔ اِنھوں نے اپنے احمقوں اور اوباشوں کو اُکسایا، حتیٰ کہ مہمان کی عزت اور پناہ طلب کرنے والے کو پناہ دینے کی مقدس ترین عربی خصلت کو بھی بالاے طاق رکھ دیا۔ انھوں نے ان اوباشوں کو آپؐ  کے پیچھے لگادیا اور وہ آپؐ  کو پتھر مارنے لگے ۔

جس کو پتھر مارے جا رہے ہیں، یہ وہ شخص ہے جس کو قریش نے پیش کش کی تھی کہ وہ اتنا مال و دولت اس کے لیے جمع کر دیتے ہیں کہ وہ مکہ کا امیر ترین شخص بن جائے، منصب و اقتدار  ایسا پیش کر دیتے ہیں کہ وہ پوری مکی قوم کا سردار اور بادشاہ بن جائے لیکن اس شخص نے یہ کہتے ہوئے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا تھا کہ: اِنَّمَا اَنَا عَبْدُ اللّٰہِ وَ رَسُوْلُہُ (میں تو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں)۔ میں ان چیزوں کے حصول کے لیے یہ کام نہیں کر رہا ۔ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ (اس کا بدلہ تو مجھے اللہ سے ملنا ہے) اللہ اکبر!

طائف کا وہ منظر دیکھیے جب آپؐ  ایک باغ میں داخل ہو کر اس کی دیوار کی اوٹ لے کر ان احمقوں اور اوباشوں سے محفوظ ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپؐ  کا دایاں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا ہوا ہے اور آپؐ  دعا فرما رہے ہیں اور بایاں ہاتھ چہرے پر رکھ کر پتھروں سے بچائو کے لیے ڈھال بنایا ہوا ہے۔ اپنے مولا و خالق سے عرض کر رہے ہیں:

اِنْ لَمْ یَکُن بِکَ غَضَبٌ عَلَیَّ فَلَا اُبَالِی، وَلٰکِنَّ عَافِیَتَکَ اَوْسَعُ لِی، اگر مجھ پر تو ناراض نہیں تو مجھے کسی کی پروا نہیں لیکن تیری عافیت میرے لیے زیادہ کشادہ ہے۔

کیوں نہیں، آپؐ  تو اللہ کے رسول ہیں۔ آپؐ  بخوبی جانتے ہیں کہ اپنے رب سے کس عظیم ادب کے ساتھ ہم کلام ہونا ہے۔ جب آپؐ  اعلان کرتے ہیں کہ راہِ خدا میں آنے والی تکلیف کی مجھے کوئی پروا نہیں تو آپؐ  اسی طرح یہ اعلان بھی کرتے ہیں کہ آپؐ  کو اس عافیت کی اشد ضرورت ہے جو اللہ کی طرف سے عنایت ہوتی ہے۔

اس طرح کے مواقع پر آپؐ  اپنی ہمت و برداشت اور شجاعت و بسالت پر فخر کرتے ہیں اورنہ اترانے کا اظہار، کیونکہ ایسے فخر کا معنی اللہ پر احسان دھرنا ہے اور جنابِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ چیز کیسے مخفی رہ سکتی تھی۔لہٰذا ایسے مواقع پر شجاعت و برداشت کی جو بہترین تعبیر ہو سکتی تھی وہ اللہ کے سامنے گڑگڑانا اور آہ و زاری کرنا تھا۔یہی وجہ ہے کہ آپؐ  اپنے رب سے گلو گیر آواز میں عرض گزار ہوتے ہیں:

اَللّٰھُمَّ اِلَیْکَ اَشْکُوْ ضُعْفَ قُوَّتِی وَقِلَّۃَ حِیْلَتِی وَھَوَانِیْ عَلَی النَّاسِ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ، اَنْتَ رَبُّ المُسْتَضْعَفِیْنَ وَاَنْتَ رَبِّی، اِلٰی مَنْ تَکِلُنِی؟ اِلَی بَعِیْدٍ یَتَجَھَّمُنِیْ اَمْ اِلٰی عَدُوٍ مَلَّکْتَہُ اَمْرِی؟ اِنْ لَمْ یَکُنْ بِکَ عَلَیَّ غَضَبٌ فَلَا اُبَالِی، وَلٰکِنَّ عَافِیَتَکَ ھِیَ اَوْسَعُ لِیْ، اَعُوْذُ بِنُورِ وَجْھِکَ الَّذِی اَشْرَقَتْ لَہُ الظُّلُمَاتُ وَصَلُحَ عَلَیْہِ اَمْرُ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ مِنْ اَنْ یَنْزِلَ بِی غَضَبُکَ اَوْ یَحِلَّ عَلَیَّ سَخَطُکَ، لَکَ العُتَبِی حَتّٰی تَرْضٰی وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِکَ، بار الٰہا! میں اپنی کمزوری و بے بسی اور لوگوں کے نزدیک اپنی بے قدری کا شکوہ تجھی سے کرتا ہوں، یا ارحم الرحمین! تو کمزوروں کا رب ہے اور تو ہی میرا بھی رب ہے۔ تومجھے کس کے حوالے کر رہا ہے؟ کسی بیگانے کے جو تندی سے میرے ساتھ  پیش آئے؟ یا کسی دشمن کے جس کو تو نے میرے معاملے کا مالک بنا دیا ہے؟ اگر مجھ پر تو ناراض نہیں ہے تو مجھے کسی کی ذرا پروا نہیں، لیکن تیری عافیت میرے لیے زیادہ کشادہ ہے۔ میں تیرے چہرے کے اس نور کی پناہ چاہتا ہوں جس سے اندھیرے روشن ہو جاتے ہیں اور دنیا و آخرت کے معاملات کا سدھار اسی پر ہے، کہ مجھ پر تیرا غضب نازل ہو یا تیرا عتاب مجھ پر وارد ہو تیری ہی رضا مطلوب ہے۔ یہاں تک کہ تو خوش ہو جائے اور تیرے بغیرکوئی زور اور طاقت نہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی دعوت سے یہ کیسا تعلق اور وابستگی ہے کہ جہاں بھی جاتے ہیں دعوت پیش کرتے ہیںتو شدائد آپؐ  کا استقبال کرتے ہیں۔ ان حالات میں دنیاوی اسباب میں سے کوئی چیز ایسی نہیںجو آپؐ  کی ہمت کو سہارا دیتی اور آپؐ  کی ڈھارس بندھاتی لیکن آپؐ پھر بھی پورے تسلسل کے ساتھ ان حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب طائف سے مکہ کی طرف واپس لوٹتے ہیں تو مایوس نہیں، شکست خوردگی کا احساس نہیں، ناکامی کا خیال نہیں، بلکہ پُرامیدی کی ایک گہری کیفیت ہے جس نے آپؐ کو ڈھانپ رکھا ہے اور اللہ کی راہ میں قربان ہو جانے کا ایک بھرپور جذبہ ہے جو آپؐ  کے اندر موجزن ہے!

آپؐ  قبائل کے پاس جا کر اپنی دعوت ان کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ ایک روز قبیلہ کندہ کے پاس جاتے ہیں، ایک روز قبیلہ بنی حنیفہ کے پاس اور اگلے روز قبیلہ بنی عامر کے پاس تشریف لے جاتے ہیں۔ اس طرح یکے بعد دیگرے ہر قبیلے کے پاس پہنچتے ہیں اور ان سب سے یہی کہتے ہیں: میں تمھاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں۔ اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائو اور اس کو چھوڑ کر جن بتوں کی عبادت کرتے ہو، ان سے دست بردار ہو جائو۔

قریب قریب کے قبائل کے پاس جب آپؐ  تشریف لے جاتے تو ابولہب آپؐ  کے پیچھے پیچھے یہ کہتا جاتا کہ اس کی بات نہ ماننا! یہ تمھیں گمراہی کی طرف بلا رہا ہے۔

ان حالات میں لوگوں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی مشکل میں ہیں، آپ مومنین و حامیان کی تلاش میں ہیں لیکن ہر جگہ انکار اور دشمنی ہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لوگوں نے دیکھا کہ ان سخت حالات کے باوجود آپؐ نے ہر قسم کی سودے بازی سے انکار کیا اور ایمان کے بدلے کوئی دنیاوی قیمت وصول نہ کی، خواہ یہ بادشاہت کی پیش کش ہی کیوں نہ تھی! ان جھلسا ڈالنے والے ایام میں آپؐ  نے اپنے آپؐ  کو قبیلہ بنی عامر بن صعصعہ پر پیش کیا۔ آپؐ  ان کے پاس بیٹھے قرآنِ حکیم کی تلاوت کر رہے تھے اور اللہ کی باتیں بتا رہے تھے کہ انھو ں نے آپؐ  سے پوچھا: اس بارے میں تم کیا کہتے ہو کہ اگر ہم تمھاری بیعت کر لیں، پھر اللہ تعالیٰ تمھیں اپنے مخالفین پرغلبہ عطا کر دے، توکیا تمھارے بعد حکمرانی ہمیں ملے گی؟

رسولؐ اللہ نے جواب دیا: حکمرانی اللہ کی ہے وہ جہاں چاہتا ہے اسے رکھتا ہے۔

بنو عامر نے یہ سنا تو یہ کہتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوئے کہ ہمیں تمھارے معاملے کی کوئی ضرورت نہیں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دیا۔ دراصل آپؐ تو ایسے اہل ایمان کی تلاش میں تھے جو اپنے ایمان کو حقیر قیمت پر بیچ ڈالنے والے نہ ہوں۔

لوگوں نے دیکھا کہ ایک چھوٹی سی تعداد آپؐ  کے اوپر ایمان لائی لیکن قلّتِ تعداد کے باوجود اس کے اندر ٹوٹ کر محبت کرنے اور ہر قیمت پر ساتھ چلنے کا جذبہ موجود تھا۔ قریش نے یہ فیصلہ کیا کہ ہر قبیلہ ان اہل ایمان کو سزا سے دوچار کرے گا۔ پھر اچانک آندھی کی مانند تمام مسلمانوں پر تشدد ٹوٹ پڑتا ہے۔ مشرک کوئی ہتھکنڈا ایسا نہیں چھوڑتے جس کو آزما نہ لیا ہو۔ ادھر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام مسلمانوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے کا حکم دیتے ہیں اورخود تن تنہا یہاں رہ کر دشمن کا سامنا کرتے ہیں۔آپ بھی کسی دوسری جگہ پر جا کر کیوں اللہ کا پیغام نہیں پہنچاتے، اللہ تو تمام جہانوں کا رب ہے اکیلے قریش ہی کا نہیں۔آپؐ  اپنے ان ساتھیوں کو کیوں اپنے پاس نہیں رکھ لیتے کہ ان کے یہاں رہنے میں یقینی فائدہ ہے۔ کیونکہ قلت تعداد کے باوجود وہ لوگوں کو اللہ کے دین میں داخل ہونے کے لیے آمادہ کر سکتے ہیں اور پھر ان میں قریش کی اعلیٰ قیادت میں سے بھی کچھ افراد شامل ہیں جو بہرحال ایک قوت و طاقت اور اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔

اس مقام پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت روشن ہو کر سامنے آتی ہے کہ آپؐ  کوئی فساد کرنا چاہتے ہیں نہ اندرونی جنگ بھڑکانے کا ارادہ رکھتے ہیں خواہ اس صورت میں آپؐ  کو مدد پہنچنے کا امکان بلکہ یقین ہی کیوں نہ ہو۔

اس موقعے پر آپؐ کی انسانیت اور رحمت واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ آپؐ  اپنی وجہ سے مومنوں کو مبتلائے عقوبت نہیں دیکھ سکتے۔ کیوںکہ آپؐ  کو اس بات پر یقین تھا کہ قربانی ہر عظیم دعوت اور بامقصد جہاد کا خراج ہوتی ہے، لہٰذا جب اس قربانی سے مفر نہیں تو اسے پیش کرنا ہی چاہیے۔

انسانیت اور رسالت دونوں چیزیں آقائے نامدار جنابِ محمد بن عبد اللہ کے اندر پوری شدت کے ساتھ یک جا ہو گئی تھیں۔ جن لوگوں نے آپؐ  کی رسالت میں شک کیا وہ آپؐ  کی عظمت اور انسانیت کے لیے محبت میں شک نہیں کر سکے۔ اور اللہ تعالیٰ ایسی ذات ہے جو اس بات کا بہترین علم رکھتا ہے کہ اسے اپنی رسالت کو کہاں رکھنا ہے۔ اسی لیے اس نے جس انسان کو اس منصب کے لیے چنا اس کو ایسی رفعت، بلندی اور امانت سے سرفراز کیا کہ انسانیت اس کے حصول کی خواہش بھی اپنے اندر پیدا نہیں کر سکتی۔ لوگوں نے دیکھا اور سنا کہ آپؐ  کسی کو ڈانٹ بھی پلاتے ہیں تو اس شخص کی حد درجہ تعظیم کے ساتھ یہ کام کرتے ہیں بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ حددرجہ سے بھی کہیں بڑھ کر یہ کام کرتے ہیں۔ آپؐ  اس بات سے بھی منع کر دیتے ہیں کہ جب آپؐ تشریف لائیں تو بیٹھے ہوئے لوگ آپؐ  کے اعزاز میں کھڑے ہو جائیں۔ ایک بار جب ایسا موقع پیش آیا تو آپؐ  نے فوراً اس کی تصحیح کرتے ہوئے فرمایا:

لَا تَقُوْمُوْا کَمَا یَقُومُوا الاَعَاجِمُ، یُعَظِّمُ بَعْضُھُمْ بَعْضًا ،اس طرح کھڑے نہ ہوا کرو جس طرح عجمی لوگ کھڑے ہوتے ہیں کہ ان میں سے کچھ لوگ کچھ کو بڑا سمجھتے ہیں۔

آپؐ کے بیٹے جنابِ ابراہیم کی وفات کے روز سورج کو گرہن لگ گیا تو لوگ یہ کہنے لگے کہ ابراہیم کی وفات کے غم میں ایسا ہوا ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسی وقت اٹھے اور اس  بے بنیاد تصور اور دعویٰ کو لوگوں کے ذہنوں میں پختہ ہونے سے پہلے ہی محو کرڈالا۔ آپؐ  منبرپر جلوہ افروز ہوئے اور لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا:

اِنَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ آیَتَانِ مِنْ آیَاتِ اللّٰہِ، لَا یَنْخَسِفَانِ لِمَوتِ اَحَدٍ وَلَا لِحَیَاتِہٖ،سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، یہ کسی کی موت اور زندگی پر گرہن زدہ نہیں ہوتے۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اس بات کا علم الیقین رکھتے تھے کہ آپؐ  حیاتِ انسانی کو بدلنے کے لیے مبعوث کیے گئے ہیں۔ آپؐ  صرف قریش کی طرف بھیجے گئے رسول نہیں ہیں، نہ صرف عرب کی طرف مبعوث کیے گئے ہیں بلکہ آپؐ  تو ساری کائنات کے لیے رسول بنائے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی بصیرت کو اس انتہا تک کھول دیا تھا جہاں تک آپؐ  کی دعوت کو پہنچنا اور آپؐ  کے جھنڈے کو لہرانا تھا۔ آپؐ نے یقین کی آنکھ سے اس دین کے مستقبل کو دیکھ لیا تھا جس کی آپؐ  دوسروں کو خوشخبری دیتے تھے، اور اس دوام کا بھی مشاہدہ کر لیا تھا جو عنقریب اس دین کو عطا ہونے والا تھا کہ اللہ روے زمین کا آپؐ  کو وارث بنا دے گا۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود آپؐ  اپنی ذات، اپنے دین اور اپنی کامیابی کو جس کی زمین نے کوئی مثال نہیں دیکھی، عمارت میں ایک اینٹ کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔آپؐ  پوری وضاحت کے ساتھ اعلان کرتے ہیں:

مَثَلِی وَ مَثَلُ الاَنْبِیَائِ قَبْلِیِ، کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنٰی بَیْتًا فَاَحْسَنَہُ وَاَجْمَلَہُ اِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَۃٍ فِی زَاوِیَۃٍ مِنْ زَوَایَاہُ، فَجَعَلَ النَّاسُ یَطُوْفُوْنَ بِہِ وَیَعْجَبُوْنَ لَہُ، وَ یَقُوْلُوْنَ: ھَلَّا وُضِعَتْ ھٰذِہِ اللَّبِنَۃُ؟ فَاَنَا تِلْکَ اللَّبِنَۃُ وَ اَنَا خَاتَمُ النَّبِیّٖنَ ، میری اور مجھ سے قبل کے انبیا ؑ کی مثال اس آدمی جیسی ہے جو ایک مکان بنائے اوراس کو آراستہ پیراستہ کرے مگر ایک کونے میں ایک اینٹ لگانا چھوڑ دے۔ لوگ اس مکان کو دیکھنے کے لیے اس کے اردگرد گھوم رہے ہوں اور اس پر پسندیدگی کا اظہار کر رہے ہوں اور یہ بھی کہہ رہے ہوں کہ یہ اینٹ کیوں نہیں لگائی گئی؟ (انبیاء کی عمارت) میں یہ اینٹ میں ہوں (جو ابھی لگنا باقی تھی) اور میں خاتم النبیینؐ ہوں!

یہ ہیں معلّمِ انسانیت اور خاتمِ انبیا !جناب محمد رسولؐ اللہ!

سیّد محمدحسنین(۲۳مارچ۱۹۱۷ء-۱۴جنوری۲۰۰۵ء)اکتوبر۱۹۴۱ء سے جماعت اسلامی ہند سے وابستہ ہوئے اور تادمِ مرگ یہ وابستگی قائم رہی بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ پختہ تر ہوتی گئی۔ اس دوران انھوں نے مختلف جماعتی ذمہ داریاں اداکیں۔مشرقی ہند کے قیم،شمالی بہارکے امیرحلقہ اور کُل ہندجماعت مجلس شوریٰ کے رکن رہے۔مزیدبرآںدرس گاہِ اسلامی دربھنگاکے ناظم بھی رہے۔جماعت اسلامی سے وابستگی کے سبب کئی بارپابندسلاسل بھی ہوئے۔بقول اے یو آصف: ’’ان کی پوری زندگی جماعت کے کازکے لیے وقف تھی‘‘۔ (دعوت دہلی، ۷مارچ۲۰۰۵ء)

ان کا آبائی تعلق صوبہ بہار(کورونی،بھپوڑا،دربھنگا)سے تھا۔ابتدائی تعلیم سوری ہائی اسکول مدھوبنی سے حاصل کی۔ حصولِ علم کا شوق انھیں کشاںکشاں دہلی لے آیا۔وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں گھروالوں کو بتائے بغیر پڑھنے کے لیے آئے تھے۔شیخ الجامعہ ڈاکٹر ذاکر حسین کی توجہ سے محمدحسنین کو اگست۱۹۳۴ء میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ثانوی سوم میں داخلہ مل گیا۔مئی۱۹۴۰ء میں جامعہ سے بی اے کیا۔ زمانۂ طالب علمی میںوہ ہمیشہ ہرکلاس میںاوّل رہے۔مزیدبرآںجامعہ کالج کے طلبہ کی تنظیم انجمن اتحادکے ناظم اورانجمن اتحاد کے ترجمان قلمی رسالے کے اڈیٹربھی رہے۔ علامہ اقبال پررسالے کاخاص نمبرجوہراقبال کے نام سے شائع ہوا۔ جامعہ میںاُن کاقیام بورڈنگ ہاؤس (اقبال ہال)میں تھا۔ وہ اس ہاؤس کے سینئرمانیٹرتھے۔روایت ہے کہ مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒکسی موقعے پرجامعہ ملیہ گئے توسیّد محمد حسنین کے کمرے میں بھی تشریف لے گئے۔

 ڈاکٹر ذاکرحسین سے طالب علمی کے زمانے میں حسنین صاحب کا جو تعلق قائم ہوا، اسے اوّل الذکر نے ٹوٹنے نہیں دیا، عمر بھر قائم رکھااورآفرین ہے مؤخرالذکر پرکہ انھوں نے (باوجود گورنر صوبہ بہار اور    صدر جمہوریہ ہند ہو جانے کے) حسنین صاحب کویاد رکھا، بھلایانہیں۔ ذاکرصاحب فوت ہوئے تو حسنین صاحب نے حسب ذیل مضمون میں ذاکرصاحب سے اپنے تعلق کی ابتدا اور ان تعلقات میںنشیب وفراز کی تفصیل قلم بند کی۔یہ مضمون پٹنہ کے خدا بخش لائبریری جرنل میں شائع ہوا تھا۔

اس مضمون سے جہاں خود حسنین صاحب کے مزاج اوران کی شخصیت کااندازہ ہوتا ہے،خصوصاً ان کی دعوتی سرگرمیوںاوردعوتِ دین کے طریق کار کا پتا چلتاہے،وہیں ڈاکٹرذاکرحسین کی دل نواز مگر مصلحت پسند شخصیت کی جھلکیاں بھی سامنے آتی ہیں۔ وہ جماعت اسلامی کی دعوت کو سمجھتے تھے اور کانگریسی ہونے کے باوجود جماعت کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے جیسا کہ زیرِ نظر مضمون سے اندازہ ہوتا ہے۔(مرتب)

 

وہ ایک مرد قلندرتھے ___ مروّت حسن عالم گیرتھا،استادذاکرکا ___

  • پہلی ملاقات: استاد ذاکرحسین رحمۃ اللہ سے میری تین یادگار ملاقاتوںمیں سے پہلی ملاقات؛ اگست۱۹۳۴ء میں ہوئی۔ جب میں داخلے کے لیے جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی پہنچا توداخلے کے آخری مرحلے پرمجھ کو استادرحمۃ اللہ کی خدمت میں پیش کیا گیا کہ وہ میرے داخلے کے فارم پر دستخط کردیں۔ انھوں نے تعارف کے لیے میرے حالات دریافت کیے۔ میں ایک خط لکھ کر لے گیا تھا؛ جس میں مَیں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں داخلہ لینے کی غرض بتائی تھی اور یہ عرض کیاتھا کہ میں اپنی والدکی مرضی کے خلاف اپنے تعلیمی سلسلے کوچھوڑ کرجامعہ ملیہ اسلامیہ اس لیے آیاہوں کہ مجھ کو معلوم ہواہے کہ یہاں اسلامی اور دنیوی دونوں طرح کی تعلیم ساتھ ساتھ دی جاتی ہے۔ مدھونبی بہار کے جس اسکول میں،مَیں تعلیم حاصل کررہاتھا،اس میں اسلامی تعلیم کا کوئی موقع نہیں تھا اور میرے والد صاحب کا حوصلہ یہ تھاکہ وہ مجھ کو وکیل بنائیںاورمجھے وکیل بننے سے کوئی دل چسپی نہیں تھی۔ دوسری بات یہ کہ میں چاہتاہوں کہ جب میں اپنے والد کی مرضی کے خلاف اپنے تعلیمی سلسلے کو چھوڑ کرجامعہ میں تعلیم حاصل کرنے آیاہوں ،توان پراپنی تعلیم کے مصارف کا بارنہ ڈالوں اورآپ سے یہ درخواست کرنا چاہتاہوں کہ اگرمیراداخلہ جامعہ میں ہوجائے تو تعلیمی اوقات کے علاوہ کسی وقت جامعہ کی کوئی خدمت مجھ سے لیں اوراس کے عوض اتنا معاوضہ دیں جس میں کسی طرح یہاں کا خرچ نکال سکوں۔ _میرے خط کوپڑھ کروہ خاموش رہے اورفارم پر دستخط کرنے سے پہلے فرمایا: ’’میں آپ سے ایک عہدلیناچاہتاہوں‘‘۔میں نے عرض کیا:وہ کیا؟ فرمایا: ’’عہدکیجیے کہ میں ہمیشہ سچ بولنے کی کوشش کروں گا‘‘۔ میں نے عرض کیا:’’الحمدللہ، میں شعوری طورپر پہلے سے اس پرعامل ہوں‘‘۔ انھوںنے میرے فارم پردستخط کردیے۔

[اے یوآصف راوی ہیں کہ ڈاکٹرذاکرحسین نے ان کے شوقِ تعلیم اورجستجو کو دیکھ کر داخلے کی منظوری تو دے دی لیکن وطن واپس جا کروالد سے اجازت لے کرآنے کاکہا۔ ان کے حکم کے مطابق وہ واپس آگئے اورپھراجازت حاصل کی۔]

ہاں، یہ بتا دوں کہ جب میں ان کے کمرے میں داخل ہواتوایک نہایت حسین ووجیہ پُروقار شخصیت سے سامناہواتھا۔اس وقت ان کی عمر۳۵-۴۰ کے قریب رہی ہوگی۔ سرخ،سفید چہرہ اور اس پر بھر پورسیاہ داڑھی،بقول حفیظ جالندھری: ع جلال بھی ہے جمال بھی ہے،یہ شخصیت کاکمال بھی ہے۔

انھوں نے ہنستے ہوئے گرمجوشی سے میرا استقبال کیااورمصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ وہ ایک نہایت سفیدفرش پربیٹھے تھے۔ فرش کے اوپرناریل کی چٹائی تھی۔ سامنے فرشی میز تھی جس پرہرچیزاپنی جگہ انتہائی سلیقے سے سجی ہوئی رکھی تھی۔ ان کی بائیں طرف دیوار پرشیشے کاایک فریم آویزاں تھا جس پریہ شعرخوش خطی کا بہترین نمونہ پیش کررہاتھا   ؎

آسایش دوگیتی تفسیر ایں دوحرف است

بادوستاں تلطّف ، بادشمناں مدارا

جب انھوں نے میرے فارم پر دستخط کردیے توان سے الوداعی مصافحہ کرکے کمرے سے باہر آیااوربہت خوش اورمسرورتھا۔

چند دنوں کے بعد جامعہ کے احاطے میں ان سے آمناسامناہوا۔انھوں نے مجھے روک کر فرمایا:’’تعلیم ختم ہوجانے کے بعددوگھنٹے صدرمدرس کے دفترمیں آپ کام کیاکریں گے۔ اس کے عوض آپ کو۸روپے ماہانہ ملا کریں گے جس سے آپ اپناجامعہ کا خرچ پورا کرنے کی کوشش کریں‘‘۔اس پرمیں نے ان کا شکریہ اداکیا۔

میں نے اپناداخلہ جامعہ میں غیرمقیم طالب علم(Day Scholar) کی حیثیت سے کرایا، کیوںکہ اس وقت جامعہ میں دارالاقامہ میں قیام وطعام کے مصارف۱۶ روپے ماہانہ تھے۔ اس وقت مَیں جامعہ ملیہ قرول باغ دہلی سے اُتر کی جانب سبزی منڈی کے ریلوے اسٹیشن کے احاطے میں ایک مسجد میں رہتاتھاجس کی دوری جامعہ قرول باغ سے دو (۲) میل سے کم نہ تھی۔ ایک روزپھر جامعہ میں میرا اُن سے آمناسامنا ہوااوریہ پوچھاکہ ’’آپ کہاں رہتے ہیں؟‘‘ میں نے بتایا کہ سبزی منڈی،ریلوے اسٹیشن کی مسجدمیں۔یہ سن کرخاموش ہوگئے۔ چنددنوں کے بعدپھر اسی طرح سرِراہ ملاقات ہوگئی۔ انھوں نے فرمایا:’’قرول باغ میںجامعہ سے متصل ہی ان کے عزیز، احمد خاں رہتے ہیں،جوطبیہ کالج میں پڑھتے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھاہے،ان کے کمرے میں گنجایش ہے،آپ ان کے ساتھ رہ سکتے ہیں‘‘۔ میں نے ان کا شکریہ اداکیااورچنددنوں میںسبزی منڈی سے قرول باغ منتقل ہوگیا۔ احمدخاںصاحب نے اپنے کمرے میںجگہ دی لیکن کرایہ قبول نہ کیا۔

ایک سال تک ان کے ساتھ رہا۔ نہایت مخلص اورشریف آدمی ثابت ہوئے۔۸ روپے جامعہ سے جو بطور معاوضہ کے ملتے تھے ،اس میں سوادوروپے میں نے جامعہ کی فیس تعلیم اداکی اورچارروپے میں جامعہ کے مطبخ سے دونمبرکھاناجاری کرالیاجس میں صرف دال اور چپاتیاں ملاکرتی تھیں۔ باقی پونے دوروپے ناشتہ اوراوپرکے خرچ کے لیے کافی ہوجایاکرتے تھے۔ کچھ دنوں بعد پھر ایک روز جامعہ میں سرِ راہ ملاقات ہوئی تواستاد علیہ الرحمہ نے مجھے روک کر فرمایا: ’’ڈاکٹرسلیم الزماں صاحب کے چھوٹے بچے کو شام کوایک گھنٹہ ان کی کوٹھی پر جاکر پڑھا دیاکریں۔دس روپے ماہانہ معاوضے کے طورپروہ دیاکریں گے‘‘۔ اس طرح جامعہ میں بہ سہولت تعلیم حاصل کرنے کا موقع میرے لیے پیداکرادیااورجب تک جامعہ میںقیام رہا، ان کی نوازشوں اورکرم فرمائیوں کاسلسلہ جاری رہا۔

ان ساری نوازشوں کا تذکرہ اس وقت نامناسب ہے لیکن ایک واقعے کا تذکرہ کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ایک روز جامعہ لائبریری کے برآمدے میں اسٹینڈ پر جہاںروزنامہ اخبارلگے رہتے تھے، لوگ کھڑے ہو کر اخبارپڑھ رہے تھے،میں بھی اخبار دیکھ رہا تھا۔ بائیں طرف کے راستے سے استاد علیہ الرحمہ گزررہے تھے۔میں نے اپنی آنکھیں اٹھائیں توان سے آنکھیں چار ہوئیں اوربغیران کو سلام کیے میں دوبارہ اخبارپڑھنے میں مشغول ہوگیا۔ استادعلیہ الرحمہ چلتے چلتے رُک گئے اور پھرجب میں نے نظراُٹھا کر ان کو دیکھا توانھوں نے جھک کرمجھ کو فرشی سلام کیااورآگے بڑھ گئے۔ میں نے جواب تو دیالیکن سلام نہ کرنے کی کوتاہی پربڑی ندامت محسوس کی___ یہ تھا ان کا ایک اندازِ تربیت!

  •  دوسری ملاقات کا تاثر:۱۹۴۰ء میں جامعہ ملیہ سے فارغ ہوکر میںدربھنگا آگیا۔ [اے یوآصف لکھتے ہیں:’’۱۹۴۰ء میں مرحوم سیدصاحب جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تعلیم کی فراغت کے بعد،رخصت ہوتے وقت جب ذاکرحسین سے ملنے گئے تو انھوں نے ان سے برجستہ کہا: تمھارے لیے تو لائبریری میں ذمہ دار کا عہدہ میرے ذہن میں ہے۔ تم کہاںجارہے ہو؟ یہیں رہوتاکہ ہم سب مل کرجامعہ کی خدمت کریں۔ اس پر حسنین سید کہنے لگے: استاد محترم، آپ نے جو تعلیم وتربیت دی ہے،اس کاتقاضا ہے کہ میں پوری زندگی اسلام کے کاز میںلگادوں،لہٰذا معذرت خواہ ہوں اور دربھنگاواپس جا رہاہوں‘‘۔]

۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی کی تشکیل عمل میں آئی اورمیں اس سے وابستہ ہوگیا۔ جماعت اسلامی کا مرکزلاہورسے پٹھان کوٹ منتقل ہوگیا۔ ۱۹۴۴ء میں آل انڈیاجماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ میں رکن بنایاگیا۔ مجلس شوریٰ میں شرکت کے لیے پٹھان کوٹ آتے جاتے میں دہلی میں رک کر  احباب سے ملاقات اوراپنے اساتذۂ کرام کی خدمت میں حاضری دیاکرتاتھا۔ استاد علیہ الرحمہ جب علی گڑھ کے وائس چانسلرہوئے تب بھی دہلی آتے جاتے،ان کی خدمت میں حاضرہوتاتھا۔ جماعت کا لٹریچر ان کی خدمت میںپیش کرتااورجماعت کی سرگرمیوں سے ان کوواقف کراتاتھا۔  وہ ہمیشہ بڑی محبت اور شفقت سے پیش آتے تاآنکہ وہ۱۹۵۷ء میںبہارکے گورنرہوکے پٹنہ تشریف لائے۔ ان کاگورنری کاعہدہ قبول کرنامجھ کو پسند نہ آیا۔ میرے خیال میںیہ منصب ان کے مقام سے بہت فروترتھا۔ نہ میں اُن سے ملنے گیااورنہ ان کی خدمت میںخیرمقدم کاکوئی خط ارسال کیا۔ تقریباًچھے مہینے کے بعد انھوں نے پٹنہ کے کسی صاحب سے میرے متعلق تذکرہ کیاکہ’’یہاں بہار میں میرے ایک شاگردہیںحسنین۔وہ اب تک ملاقات کے لیے نہیں آئے،پتانہیں کیابات ہے۔کبھی کبھی وہ میراایمان تازہ کردیاکرتے تھے‘‘۔ ان صاحب نے پٹنہ میں محبی شبیراحمد (جو ان دنوں پٹنہ میں ایک سوڈافیکٹری کے منیجرتھے)سے میرے بارے میں استادعلیہ الرحمہ کی گفتگو دہرائی۔ ایمان تازہ کرنے کی بات یہ ہے کہ جب میں ان کی خدمت میں حاضری دیاکرتاتھاتوجماعت کی کوئی نہ کوئی کتاب ان کی خدمت میں پیش کیاکرتاتھا۔ محبی بشیر احمدصاحب نے مجھ کو پٹنہ سے ایک کارڈ لکھاکہ تم اب تک اپنے استادسے کیوں نہیں مل سکے اور استاد علیہ الرحمہ کی گفتگونقل کی۔ اُن کا خط ملنے پر میں نے استادؒکی خدمت میں ایک عریضہ ارسال کیا،بعد القاب وآداب میں نے عرض کیاتھا:

’’گورنر کی حیثیت سے آپ کو پٹنہ تشریف لائے ہوئے کافی دن ہو گئے،لیکن افسوس ہے کہ میں نہ تو آپ کی خدمت میں حاضر ہو سکا اور نہ خیر مقدم کا کوئی خط ہی ارسال کیا ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اس الجھن میں ہوں کہ آپ کے لیے گورنری ،قلندری سے کیسے افضل ہو گئی؟اور آپ نے اسے کیسے پسند فرما لیا؟ اخبارات میں یہ پڑھ کر خوشی ہو ئی کہ آپ اس ریاست کو نمونے کی ریاست دیکھنا چاہتے ہیں لیکن جس کے کار پردازوں کا طرزِعمل ظلم و جور کا ہو،اس کو نمونے کی ریاست بنانے میں آپ کو بہت دشواری پیش آئے گی۔جماعتِ اسلامی ہند سے توآپ بہت حد تک واقف ہیں ۔جماعت اسلامی کے سلسلے میں حکومتِ بہار کا جو رویہ ہے ،اس کے متعلق دعوت، اخبار میں میرا ایک بیان شائع ہوا ہے۔اس کا تراشا ارسالِ خدمت ہے‘‘۔(ان دنوں حکومتِ بہار نے جماعت اسلامی پرsubversive activities [تخریبی سرگرمیوں]کا الزام لگایا تھا اور ملازمین کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ لوگ جماعت کی سرگرمیوں سے دور رہیں ورنہ Conduct Rule دفعہ ۳۳ کے تحت ان کے خلاف کاروائی کی جائے گی)۔ دوسری بات میں نے یہ عرض کی تھی کہ ’’اب مجھ جیسا معمولی آدمی آپ کی خدمت میں حاضر ہونابھی چاہے تو کیسے حاضر ہو سکتا ہے؟اور جماعت کا کچھ تازہ لٹریچر بھی خط کے ساتھ رجسٹرڈ ڈاک سے استاد علیہ الر حمہ کی خدمت میں ارسال کر دیا لیکن پندرہ دنوں تک ان کی طرف سے نہ کوئی جوب آیا اور نہ خط کی رسید ہی ملی۔اس پر میں نے ڈاک سے دوسرا عریضہ ان کی خدمت میں ارسال کیااور اس میں عرض کیا کہ دو ہفتوں سے زائد ہوگئے آپ کی خدمت میں ایک عریضہ اور اور چند کتابیں ارسال کی تھیں۔ تعجب ہے کہ اس کے جواب میں نہ تو آپ کا کوئی گرامی نا مہ ملا اور نہ خط کی رسید ہی ملی۔اندیشہ ہوتا ہے کہ یہ دونوں چیزیں  آپ تک نہیں پہنچ سکیں ورنہ آپ سے ایسی توقع نہیں ہے کہ آپ میرے عریضے کا جواب نہ دیں گے۔میرے اس عریضے کے جواب میں رانچی سے ان کا گرامی نامہ ملا۔اس خط کا مضمون یہ ہے:

راج بھون -رانچی کیمپ ، ۱۰ستمبر ۱۹۵۷ء

عزیزم حسنین صاحب،السلام علیکم ورحمتہ اللہ!

آپ کے دونوں محبت نامے ملے۔آپ کا بھیجا ہوا لٹریچر بھی ملا ۔معافی چاہتا ہوں کہ پہلے خط کے جواب میں اتنی دیر ہوئی کہ آپ کو یاد دہانی کرنی پڑی۔شاید آپ کو غلط فہمی ہو، اس لیے وجہ لکھے دیتا ہوں ۔میں ذاتی خطوط کے جواب لکھنے میں بہت کاہل ہوں۔ پھر اگر کوئی دوست یا عزیز اپنے خط میں کوئی ایسا سوال کر دیتا ہے،جو میری شخصی داخلی زندگی سے متعلق ہو تو مجھے اس کا جواب لکھنا اور دشوار ہو جاتا ہے۔آپ نے اپنے پہلے خط میں الجھن یہ بتائی کہ قلندری سے گورنری کیسے اور کب سے افضل ہو گئی اور میں نے گورنری کو قلندری پر کیسے ترجیح دی؟

پہلے تو عزیز ِمن !میں قلندر کب تھا ؟لیکن سوال کو اپنی ذات سے الگ کر کے ایک اصولی سوال سمجھوں تو اس کا بہت اچھا جواب حضرت مخدوم سیدّعلی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ المعروف داتا گنج بخش ؒنے اپنی کتاب کشف المحجوبمیں ایک جگہ دیا ہے___ اپنی طرف سے کچھ نہیں لکھتا :

                [وہ فرماتے ہیں ]:استاد ابوالقاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ سے ہم نے سنا،فرمایا:فقیری اور مال داری کے سلسلے میں لوگوں نے بات کہی ہے اور ا س کو اختیار کیاہے، میں اس کو اختیار کرتا ہوں جو اللہ تعالیٰ میرے لیے پسند فرمائے اور مجھ کو اپنی نگاہ میں رکھے۔ اگر مال داری کی حالت میں رہوں تو اللہ سے غافل نہ ہونے پاؤں اور اگر غربت کی حالت میں رہوں تو حریص اور لالچی نہ بنوں۔ لہٰذا مال داری نعمت ہے اوراس حال میں اللہ سے غفلت آفت ہے۔ غریبی اور فقیری بھی نعمت ہے اوراس حال میں حرص آفت ہے۔

دوسری الجھن کا جواب سہل ہے۔ میں ابھی کوئی تین چارہفتہ یہاں ہوں۔ وسط اکتوبرسے ان شاء اللہ پٹنہ میںرہوں گا۔ آپ ایک کارڈ میرے سیکرٹری کو لکھ دیں ،وہ مجھ سے پوچھ کرآپ کے لیے وقت مقرر کردیں گے۔ ضرور تشریف لائیے۔ مفصل گفتگو کو بہت جی چاہتاہے۔خداکرے کہ آپ خیریت سے ہوں اورخوش بھی۔خیرطلب:ذاکرحسین

میں نے استادؒ کی ہدایت کے مطابق ان کے سیکرٹری کوخط لکھااوران سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ انھوں نے وقت مقررکرکے مجھ کو مطلع کیا۔ مقررہ وقت پر میں راج بھون پہنچا۔ ان کے ملٹری سیکرٹری نے میرااستقبال کیااوران کے کمرے تک میری رہ نمائی کی۔ میں کمرے کے اندر داخل ہوگیاتوانھوںنے دروازہ بند کردیا۔ استادؒ کو میں نے سلام کیااورمصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ انھوں نے کھڑے ہوکرمعانقے کے لیے کھینچ لیااور اسی حال میں ہنستے ہوئے فرمایا: ’’آپ لوگ حکومت پر بہت تنقید کرتے ہیں‘‘۔ پھر اپنے قریب کی کرسی پربیٹھنے کی ہدایت کی۔

میں نے جواب میں عرض کیا:’’جب ہم مجبور ہوتے ہیںتبھی حکومت پرتنقید کرتے ہیں‘‘۔

اس کے بعد دوسراسوال انھوں نے یہ کیا:’’کیا ابھی مولاناابواللیث صاحب امیرجماعت اسلامی ہندنے کہیں یہ کہا ہے کہ’’جماعت اسلامی پاکستان نہیں چاہتی تھی؟‘‘ میں نے عرض کیا: ’’کہاہوگا۔ جماعت اسلامی تو پوری دنیا میں اللہ کی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے،لیکن کچھ لوگوں نے ہندستان کے دوٹکڑوں پرہی قناعت کرلی ہے‘‘۔

انھوں نے فرمایاکہ’’حسنین صاحب! آپ لوگ حکومت الٰہیہ قائم کرناچاہتے ہیں لیکن  عام طورسے ہندستان کے مسلمان حکومتِ الٰہیہ نہیں چاہتے ہیں‘‘۔ میں نے ان سے کہا: یہ کم حوصلگی اور پست ہمتی ہے ورنہ مسلمان کی حیثیت سے:’’ہر ملک، ملکِ ماست کہ ملکِ خداماست‘‘۔ ہرملک میں حکومت الٰہیہ یا اللہ کا دین قائم ہوناچاہیے‘‘۔ اس کے بعد میں نے عرض کیا:’’آپ کی حکومت نے جماعت اسلامی کو subversive [تخریبی]کیسے قراردے دیا، ہم لوگ توپُرامن طریقے پرلوگوں کو اللہ کے راستے پربلاتے ہیں ،کوئی توڑ پھوڑ، قتل وغارت گری کا طریقہ نہیں اپناتے ہیں‘‘۔ انھوں نے فرمایا:’’subversive ہونے کے لیے اتنا کافی ہوسکتاہے کہ حکومت کے دستور کوتسلیم نہ کیا جائے اور غیر پارلیمانی طریقے سے حکومت کوتبدیل کرنے کی کوشش کی جائے۔ دیکھیے! کمیونسٹوں نے ملک کے دستور کو مان کرکیرالا میں الیکشن میں حصہ لیااورالیکشن میں کامیاب ہونے پر وہاں حکومت بنائی۔ آپ لوگ بھی دستورکو مان کرپارلیمانی طریقے سے حکومت کو بدل سکتے ہیں‘‘۔ میں نے عرض کیا کہ اگرsubversive سے یہ مطلب ہے توہم اقراری مجرم ہیں۔    یہ فرمائیے کہ کیا ہم آپ کی ریاست میں اللہ کا نام لے سکتے ہیں؟ انھوں نے فرمایاکہ اس سے آپ کو کون روک سکتاہے۔ میں نے عرض کیاکہ جب ہم لاالٰہ الا اللہ کی تشریح کریں گے تو پھر subversive آجائے گا۔اس پر آپ نے فرمایاکہ ایک چیز پھل ہے اور ایک چیزدرخت ہے۔ پھل سے اگر لوگوں کواختلاف ہے، قبل از وقت پھل کا تذکرہ مت کیجیے۔ درخت لگانے کی کوشش کیجیے۔ جب لوگ آپ کے میٹھے پھل کو چکھیں گے تومخالفت ترک کردیں گے۔ میں نے بہ ادب عرض کیا:درخت لگانے کا عمل چپکے سے اور اکیلے تو نہیں ہوگا،اس کی خوبیوںکو بتا کرکچھ لوگوں کو تواپنے ساتھ لینا ہی ہوگااوران کے تعاون ہی سے یہ کام انجام پاسکتاہے۔ میں نے جماعت اسلامی کی دعوت اورطریقۂ کار کا مختصراً تعارف کرایا۔ آپ نے توجہ اورصبرسے میری باتوں کو سنا اور فرمایا: ’’ٹھیک ہے جس بات کوآدمی حق سمجھے،اس کے لیے جدوجہدکرے‘‘۔ا س کے بعد میں نے عرض کیاکہ’’آپ کی حکومت میری ہمہ وقت نگرانی کیوں کرتی ہے؟ سی آئی ڈی کے دوآدمی سایے کی طرح میرے ساتھ رہتے ہیں؟‘‘ جواب میں انھوں نے فرمایا:’’یہ آپ کے لیے ہی مخصوص نہیں ہوگا، تمام سیاسی ورکروں کی نگرانی کی جاتی ہے،آپ کی بھی کی جاتی ہوگی۔ اس میں گھبرانے اور پریشان ہونے کی کوئی بات نہیںہے۔ وہ اپنا کام کرتے ہیں،آپ اپنا کام کیجیے۔راہِ حق میں دشواریاں توپیش آتی ہی ہیں‘‘۔

جب میں استادؒ سے ملاقات کے لیے پٹنہ پہنچاتوبرادرم سیدوسیم اللہ صاحب کے یہاں قیام کیا تھا،جو ان دنوںسیکرٹیریٹ میںملازم تھے اور کسی اونچے منصب پر فائز تھے۔ جماعت اسلامی سے ان کا تعلق’ہمدردی‘کاتھالیکن اس تعلق کی بنا پران کے خلاف کارروائی چل رہی تھی۔ استاد محترم سے پہلے جو گورنرصاحب تھے،انھوں نے کوئی آرڈیننس جاری کیاتھاکہ جو سرکاری ملازم کسی سیاسی سرگرمیوں میںملوث پایاجائے گا،اس کا compulsory retirement [جبری سبک دوشی] ہوسکتی ہے۔ اسی آرڈی ننس کے تحت وسیم اللہ صاحب کے خلاف کارروائی ہورہی تھی۔ حالاںکہ  اس آرڈی ننس کی مدت ختم ہوچکی تھی اورگورنرصاحب بھی تشریف لے جا چکے تھے۔میں نے وسیم اللہ صاحب سے اس آرڈی ننس کا نام اورنمبروغیرہ لے کر اسے استادؒ کی خدمت میں پیش کیا۔ انھوںنے چشمہ بدل کربغوراس کو پڑھا اور پوچھاکہ’’اس طرح کے کتنے آدمیوں کے خلاف کارروائی ہوئی ہے‘‘؟ میں نے عرض کیا: ’’بہار میں تقریباً ۲۰اشخاص کو جوجماعت اسلامی کے رکن تھے اور سرکاری ملازم بھی تھے،پرائمری سکول کے ٹیچرسے لے کرگزیٹیڈآفیسر تک کوجماعت اسلامی کی رکنیت کے جرم میں برطرف کیا جاچکاہے۔ ان لوگوں نے ملازمت سے برطرفی کو گوارا کیا اور جماعت سے تعلق کوبرقرار رکھا۔ لیکن وسیم اللہ صاحب جماعت کے رکن نہیں ہیں۔ ان پر جماعت کی رکنیت کاغلط الزام لگا کران کو پریشان کیاجارہاہے‘‘۔استادؒ نے اس پرزے کورکھ لیا۔

ہماری یہ ملاقات بہت زیادہ طویل ہوگئی تھی اوران کے پاس یاددہانی کی گھنٹی بار بار بجتی رہی۔ جب ہماری گفتگوختم ہوئی تووہ اُٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایاکہ مقررہ وقت سے زیادہ ہی وقت صرف ہوچکاہے اورلوگ انتظار میں بیٹھے ہوں گے۔باقی ان شاء اللہ آیندہ۔اس طرح ان سے مصافحہ کرکے رخصت ہوااوروہ دروازے تک پہنچاگئے۔

کچھ دنوں کے بعد جب وسیم اللہ صاحب سے ملاقات ہوئی توانھوںنے بتایاکہ ان کے خلاف کارروائی ختم ہوچکی ہے اوران کی ترقی کے ساتھ ان کی تنخواہ میں بھی اضافہ کیاگیاہے اورمیرے ساتھ جوسی آئی ڈی کی نگرانی تھی،وہ بھی ختم ہوگئی۔ دربھنگا میں سی آئی ڈی کے ایک افسرنے آکراطلاع دی کہ ہمارے پاس آرڈرآگیاہے کہ اب آپ کی نگرانی نہ کی جائے۔

  • تیسری اور آخری ملاقات:جماعت اسلامی ہندنے مجھ کو۱۹۶۲ء میںجماعت کی دعوت کے تعارف کے سلسلے میںآسام کاامیرحلقہ بناکرگوہاٹی بھیجا۔ ۱۹۶۲ء سے۱۹۷۰ء تک میں گوہاٹی آسام میں رہا۔ ابتدامیں۱۹۶۷ء میں جماعت اسلامی ہندکے اجتماع میں شرکت کے لیے مجھ کو دلی جاناتھا۔ میں نے استاد محترم کی خدمت میں ایک عریضہ ارسال کیاکہ میں دلی حاضر ہورہا ہوں اور ان تاریخوں میںمرکزجماعت اسلامی میں مقیم رہوں گا۔ آپ کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتا ہوں، اگر موقع ہوتووقت مقررفرماکرمرکزجماعت اسلامی کے پتےپرمجھے مطلع فرمائیں۔ ا س کے جواب میں استادؒ کاجلد ہی ایک گرامی نامہ ملاجس میں درج تھاکہ’’جن تاریخوں میں آپ دلی رہیں گے، ان تاریخوں میںافسوس ہے کہ میں دلی میں نہ رہ سکوں گا۔پہلے سے جنوب کا پروگرام بن چکاہے۔ ان شاء اللہ جلدملاقات ہوگی۔

اس کے کچھ ہی دنوںکے بعدگوہاٹی میں استاد کے پرائیویٹ سیکرٹری اورملٹری سیکرٹری کے خطوط ملے۔ جس میں درج تھاکہ استادؒ۲۵؍اپریل کو گوہاٹی پہنچ رہے ہیں۔ اس شام کوساڑھے پانچ بجے سرکٹ ہاؤس میں مجھ سے مل کروہ خوش ہوں گے۔ اس کے بعد دوسرے دن سی آئی ڈی کے ایک افسر میرے پاس آئے اور بتایاکہ پریسیڈنٹ ۲۵؍اپریل کوگوہاٹی پہنچ رہے ہیں۔ ان کے پروگرام میں آپ سے ملاقات بھی شامل ہے۔ مہربانی کرکے سی آئی ڈی آفس آیئے،آپ کو ایک پاس دیاجائے گا۔اس کولے کر ہی آپ ان سے مل سکتے ہیں۔چنانچہ میںسی آئی ڈی دفترپہنچ گیا۔سی آئی ڈی افسرنے مجھ سے پوچھاکہ صدرجمہوریہ ہند کس سلسلے میں آپ سے ملنا چاہتے ہیں اوران کاآپ سے کیاتعلق ہے؟ میں نے ان کو بتایاکہ وہ میرے استاد رہ چکے ہیں۔میں نے جامعہ ملیہ میں تعلیم حاصل کی ہے۔۱۹۳۴ء سے ۱۹۴۰ء تک میں وہاں رہا۔ وہ ہمارے استاد بھی رہے اوروائس چانسلر بھی رہے۔ اسی تعلق سے اُن سے ملناہے۔چنانچہ مجھ کو ایک پاس دیاگیا،اس کولے کرمیں ان سے ملا۔ میری ملاقات سے پہلے گوہاٹی کے ایک بڑے میدان میںان کی تقریرتھی۔ پہلے میں جلسے میں شریک ہوا اوراُن کی تقریر سنی۔اس کے بعد مقررہ وقت سے چندمنٹ پہلے سرکٹ ہاؤس پہنچ گیا۔

مجھے ویٹنگ روم میں بٹھایاگیا۔ ان کے ملٹری سیکرٹری میرے پاس آئے اوربتایاکہ سب سے پہلے آپ کی ملاقات ہے اور آپ کی ملاقات کے لیے۵منٹ کاوقت دیا گیا ہے۔جب آپ کی طلبی ہوگی تومیںآپ کو کمرئہ ملاقات میں پہنچا دوں گااورکمرہ بند ہوجائے گا۔جب آپ کا وقت ختم ہوجائے تو میںدروازہ کھول کرکھڑاہوجاؤں گاتو مہربانی کرکے آپ اٹھ جائیے گا،ورنہ جب تک آپ بیٹھے رہیں گے،وہ بھی آپ سے باتیںکرتے رہیں گے اورآپ کے بعدآنے والوں کو موقع نہیں مل سکے گا۔ اس لیے کہ اس کے بعد نماز کا وقت ہوجائے گااوروہ نماز پڑھیں گے۔میں نے ان سے کہا کہ ٹھیک ہے ،مجھے کوئی عرض داشت نہیں پیش کرنی ہے اور نہ کوئی لمبی چوڑی گفتگو ہی کرنی ہے۔ ہم ایک دوسرے کی خیروعافیت دریافت کریں گے اوروقت ختم ہونے پر اُٹھ آئیں گے۔ ہماری یہ گفتگوملٹری سیکرٹری سے ہورہی تھی کہ استادؒ بی کے نہروکے ساتھ،جو اس وقت آسام کے گورنر تھے،سامنے آئے اور اُن سے جداہوکرملاقات کے کمرے میں گئے اور گھنٹی بجائی۔ مقررہ وقت سے پہلے ہی مجھے طلب کرلیا۔ میں اندر داخل ہوااورسلام عرض کیا۔وہ اٹھے،بڑھ کر گلے لگایا۔ خیریت دریافت کی اورپوچھاکہ’’ آپ آسام کیسے آگئے؟‘‘میں نے عرض کیاکہ’’آپ تو جانتے ہیں کہ ہم لوگوں نے جماعت اسلامی ہند بنائی ہے اور کچھ لوگوں نے اپنی زندگیاں جماعتی سرگرمیوں کے لیے وقف کردی ہیں۔میںبھی اُن میں سے ایک ہوں۔۲۲سالوں تک بہار، اڑیسہ، بنگال میں جماعت اسلامی ہند کی دعوت پیش کرتا رہا۔اللہ کے فضل وکرم سے وہاں کچھ کارکن تیار ہوگئے تو اب جماعت نے مجھ کو آسام بھیجا ہے تاکہ یہاں بھی جماعت اسلامی کی دعوت پیش کروں۔ساتھ ہی ساتھ آسامی زبان میں اسلامی لٹریچر تیار کرانے کا کام میرے سپرد ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ آسامی زبان میں اسلامی لٹریچرکی بڑی کمی ہے‘‘۔

انھوں نے فرمایا کہ ’’آپ نے بڑے استقلال سے کام کیا‘‘۔میں نے عرض کیاکہ محض اللہ کی توفیق اور آپ لوگوں کی تعلیم وتربیت ہے کہ اس کام کی سعادت حاصل ہوئی۔آپ نے فرمایاکہ ’’آسامی زبان میںاسلامی لٹریچر کے تیار کرنے کرانے کاکام بھی بہت اہم ہے‘‘۔ انھوں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالااورایک سوروپے کا نوٹ نکال کرآسامی زبان میں اسلامی لٹریچر کے لیے دیا۔میں نے قبول کرنے میں تامّل کیاکہ آپ سفر کی حالت میں ہیں،فوری طور پر دیناکیا ضروری ہے۔انھوں نے میری جیب میںنوٹ ڈال دیا۔اس کے بعد فرمایاکہ:’’پچھلے دنوںآپ نے محسن انسانیت بھیجی تھی،سیرت پریہ کتاب مجھ کوبہت پسندآئی۔ سیرت پرمیں نے بہت ساری کتابیں پڑھی ہیں،حتیٰ کہ مولانا شبلی کی سیرت النبی ؐ   بھی دیکھی ہے مگرمحسن انسانیت    مجھ کو بہت پسند آئی۔

اس کے بعد وہ خاموش ہوگئے۔میں نے سوچاکہ اس مختصر ملاقات میں زیادہ ترانھی کے ارشادات سنوں گا اور اپنی طرف سے کوئی بات نہیں پوچھوں گالیکن وہ خاموش ہوگئے تو میں نے عرض کی کہ آج جمعہ کا دن ہے،اگرگوہاٹی کی کسی مسجد میںجمعہ کی نماز بھی آپ کے پروگرام میںشامل ہوتی تو اچھاہوتا۔ یہاں کے مسلمانوں کو توقع تھی کہ مسلمان صدرجمہوریہ ہند یہاں کی کسی مسجد میں نماز اداکریں گے توقریب سے انھیں دیکھنے کاموقع ملے گا۔اس سلسلے میں گوہاٹی کے مسلمانوں کو مایوسی ہوگی۔

انھوں نے فرمایاکہ’’میرے دونوں گھٹنوں میں تکلیف رہتی ہے اور فرش پرنمازاداکرنے میں تکلیف زیادہ محسوس ہوتی ہے۔میں چوکی پربیٹھ کرپاؤں لٹکا کے نمازپڑھتا ہوں۔ کبھی کبھی عید، بقرعیدکے موقعے پردہلی کی عیدگاہ میں چلا جاتاہوںتو بڑی تکلیف کے ساتھ نماز اداکرپاتاہوں‘‘۔ میں نے عرض کیا:یہ عذرمعقول ہے لیکن لوگوںکو اس کی خبرنہ ہوگی۔

اس کے بعد میں نے عرض کیاکہ’’آپ کے جوبھی ہوم منسٹر ہوتے ہیں،جماعت اسلامی کے خلاف غلط الزامات لگایاکرتے ہیں اور ہم لوگ ان کی صفائی میں جو کچھ کہتے ہیں،ان کا وہ کوئی نوٹس نہیں لیتے۔ ایک طرح کے الزامات بارباردہراتے رہتے ہیں‘‘۔

انھوں نے فرمایاکہ’’وہ اپنا کام کرتے ہیں۔ آپ اپناکام کیجیے۔ بات دراصل یہ ہے کہ آج کل سب لوگوں کواورسب جماعتوں کوخوش رکھنے کے لیے اورتوازن برقرار رکھنے کے لیے سیاسی لوگ ایسی بات کہتے ہیں اورایسی حرکتیں کرتے ہیں جو حقیقت اورصداقت کے خلاف ہوتی ہیں۔ پتا نہیںکہ خودچوہان جی کی(جو اس وقت ہوم منسٹرتھے) جماعت کے بارے میں اپنی رائے کیاہے۔ لیکن عام طورسے ایساہوتاہے کہ الیکشن میں کامیابی کی خاطر لوگ ایسا کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے الیکشن کا موجودہ طریقہ غلط ہے‘‘۔

اس موقعے پر میں نے عرض کیاکہ’’تب تو الیکشن میںجماعت اسلامی کا حصہ نہ لینا    حق بجانب ہے‘‘۔ اس کاانھوں نے خاموش مسکراہٹ سے جواب دیا۔ اس کے بعد میں نے عرض کیا کہ بھارت میں فسادات کا سلسلہ آخرکب ختم ہوگا؟ میرے اس سوال پروہ افسردہ ہوگئے اور کچھ دیر سکوت کے بعد فرمایا:’’ہم لوگ مسلمان ہیں اور فسادات سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں، لہٰذا فسادات کوزیادہ محسوس کرتے ہیں،ورنہ حکومت کی کون سی کل سیدھی ہے؟ دیکھیے تلنگانہ میں کیا ہورہا ہے؟(اس وقت آندھراپردیش میں تلنگانہ کی پُرتشدد تحریک زوروں پرتھی)۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری لیڈرشپ بہت کمزورہے‘‘۔

یہ سن کرمیں حیرت میں مبتلا ہوگیاکہ اپنی ہی حکومت کے سلسلے میں صدرجمہوریہ کیا فرما رہے ہیں۔ بات یہاں تک پہنچی تھی کہ صدرکے ملٹری سیکرٹری دروازہ کھول کرنمودارہوئے اور میں ان کی ہدایت کے مطابق اُٹھ کھڑاہوا۔ استاد محترم بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ میں الوداعی سلام کرکے ہاتھ ملاکردروازے کی طرف بڑھا۔ وہ بھی میرے کاندھوں پرشفقت سے ہاتھ رکھے ہوئے دروازے تک یہ کہتے ہوئے آئے:’’اللہ آپ لوگوں کوکامیاب کرے،آپ لوگوں کی میرے دل میں بڑی قدرہے‘‘۔ اس آخری ملاقات کے بعد جب میں باہر نکلاتومیں بہت خوش اور مسرورتھاکہ انھوں نے میری سرگرمیوں کی تائید فرمائی اور دعادی۔ ان کی حوصلہ افزائی اوردعائیں میرے کانوں میں گونجتی رہیں اوراب تک گونج رہی ہیں،مگرافسوس کہ میری خوشی اورمسرت کے لمحات بہت عارضی ثابت ہوئے۔

ایک ہفتہ بعد۳ مئی ۱۹۶۹ء کو میرے ایک دوست نے آکرخبر دی کہ صدرجمہوریہ ہند ڈاکٹرذاکرحسین انتقال کرگئے ہیں،اِنَّـالِلّٰہِ وَاِنَّـااِلَیْہِ رٰجِعُوْن۔ یہ خبر سن کرمیں اس درجہ متاثر ہواکہ بستر پر جاکرلیٹ گیااوردیرتک روتارہا۔ جب کچھ سکون ملاتووہاں سے اپنے ایک عزیزکے یہاں چلا گیاجن کے پاس ریڈیو سیٹ تھا۔ بستر پرلیٹے لیٹے،اس وقت تک ریڈیو سنتارہاجب تک ان کی تجہیزوتکفین نہ ہوگئی۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے اوراپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے___ آمین۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کی زندگی ان دوحرفوں کی تفسیرتھی:’’بادوستاں تلطّف، بادشمناں مدارا‘‘ یااقبالؒ کے اس مصرع کے مصداق تھے:’’مروت حسنِ عالم گیرہے مردانِ غازی کا‘‘___ یااللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے مطابق تھے:’’تم میں سے اچھا انسان   وہ ہے جو اخلاق میں سب سے اچھاہو۔ اور اللہ نے مجھ کو اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث فرمایا‘‘۔ اورارشاد باری تعالیٰ ہے: اِنَّ اَ کْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقٰکُمْط(الحجرات ۴۹:۱۳)’’تم میں سب سے محترم ومکرم بندہ وہ ہے جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرکرزندگی گزارنے والا پرہیز گارہو‘‘۔

 

نوٹ: ڈاکٹر ذاکر حسین برعظیم کی سیاست ، دانش وَری اور تعلیم کے شعبوں میں ایک بڑا نام ہے۔ صدر جمہوریۂ ہند کے منصب پر فائز ہوکر وہ ترقی اور عروج کی انتہا کو پہنچ گئے۔ برعظیم میں کوئی شخص، خصوصاً ایک بھارتی مسلمان، اس سے بڑے عہدے کا تصور نہیں کرسکتا۔ ڈاکٹر ذاکرحسین کا سیاسی گراف تو بہت اُونچا چلا گیا مگر تعلیم (جو اُن کا اصل میدان تھا) یا دانش وَری کے بارے میں ان کی آدرشیں کیا ہوئیں؟

اُن کے قریبی رفیق اور دانش ور پروفیسر محمد مجیب نے ان کی سوانح عمری میں ان کی شخصی خوبیوں کے ساتھ ان کی مصلحت اندیشی کا ذکر بھی کیا ہے۔ علی گڑھ کے پروفیسر اور نامور ادبی شخصیت اسلوب احمد انصاری نے ذاکرصاحب کی وائس چانسلری کے زمانے میں انھیں قریب سے دیکھا۔ وہ لکھتے ہیں: ’’حکمت عملی اور مصلحت اندیشی ان کی زندگی کے دو بنیادی تشکیلی اصول تھے۔ اس کا نتیجہ ہمیشہ مفاہمت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور کسی طرح کے    تعہّد (commitment) کی نفی کرتا ہے۔ مصلحت اندیشی، حق شناسی اور حق گوئی کے راستے میں، ان کے لیے عمربھر زنجیرپا بنی رہی۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے وائس چانسلر کی حیثیت سے انھوں نے بڑے قابلِ قدر   کام کیے [مگر] بعض اوقات صاحبانِ جاہ و منصب کے زیراثر اور ان کے دبائو میں آکر نامنصفانہ طورپر اور جانب داری کے ساتھ ایسے لوگوں کو آگے بڑھایا جو اس اعزازاور ترقی کے کسی طرح مستحق نہیں تھے۔ ذاکرصاحب کے ذہین اور فطین اور اعلیٰ فن کار ہونے میں کسی شک و شبہے کی گنجایش نہیں لیکن ان کا کوئی کارنامہ نہیں ہے‘‘۔

ذاکرصاحب کی اس مثال سے یہ واضح ہے کہ انسان کی ذہانت و فطانت، اگر مصلحت کوشی کو راہ نما بنالے تو حاصلِ حیات کیا ہوتا ہے۔ (مرتب)

روح الامین کی معیت میں کاروانِ نبوتؐ، ڈاکٹر تسنیم احمد۔ جلد اوّل تا جلد پنجم۔ ناشر: دعوت الحق، ۹۳-اے، اُٹاوا سوسائٹی، احسن آباد، کراچی- ۷۵۳۴۰۔ فون: ۲۱۲۰۸۶۸- ۰۳۱۴۔ صفحات: (علی الترتیب): ۱۷۵، ۲۵۶، ۲۸۸، ۲۸۸،۳۰۴۔ قیمت: (علی الترتیب):۲۵۰ روپے، ۲۵۰ روپے، ۳۰۰ روپے، ۳۵۰ روپے، ۳۵۰ روپے۔

زیرنظر سیرت النبیؐ، سیرت کی عمومی کتابوں سے خاصی مختلف اور منفرد ہے۔ مصنف نے کتاب کے دو کلیدی موضوعات بتائے ہیں: نزولِ قرآن اور سیرت النبیؐ۔ ان کی وضاحت کے لیے انھوں نے متعدد تصاویر، نقشے، جدولیں اور اشاریے شامل کیے ہیں۔

باب اوّل کا عنوان ہے: ’محمدؐ کے جدِّ اعلیٰ ابراہیمؑ،۔ اس میں حضرت ابراہیم ؑ کے ساتھ مکہ اور یثرب کی مختصر تاریخ کا ذکر ہے۔ دوسرے باب میں بعثت ِ محمدی سے قبل اہلِ ایمان کی آزمایش (اصحابِ کہف ، اصحاب الاخدود وغیرہ)۔ آیندہ ابواب میں آں حضوؐر کا خاندان، ولادت، پرورش، آغازِ نبوت، دعوت کا آغاز، کاروانِ نبوت میں شامل ہونے والی اوّلین اور مابعد شخصیات کا تذکرہ، واقعات کےمتوازی زمانوں میں اُترنے والی آیات، ان کے مطالب اور قرآن کے انھی حصوں سے صحابہؓ کی تربیت کا ذکر۔ جلد دوم میں واقعات کے حوالے سے کاروانِ نبوت آگے بڑھتا ہے۔ راہِ حق میں آں حضوؐر اور صحابہ کرامؓ کی مشکلات اور آزمایشوں پر علمی بحثیں بھی ہیں اور تفصیلی واقعات بھی۔ ساری پانچوں جلدیں پاورق حوالوں اور تعلیقات سے مزین ہیں۔

مختصر یہ کہ کاروانِ نبوتؐ  سیرت النبیؐ پر (مکی زندگی تک محدود) ایک مستند اور مفصل کتاب ہے۔ اسے آپ قافلۂ دعوتِ حق کی تاریخ بھی کہہ سکتے ہیں۔ ضمناً اس میں بہت سے تبصرے اور بہت سی معلومات آگئی ہیں۔ مصنف لکھتے ہیں: ’’مؤلف کو رسولؐ اللہ اور آپؐ کے لائے ہوئے دین اسلام سے جو محبت ہے اس کی خاطر یہ کتاب صرف اللہ کی رضا کے حصول کے لیے لکھی اور شائع کی گئی ہے‘‘ (جلد۲، ص۹)۔ بلاشبہہ یہ پانچ جلدیں مصنف کے خلوص، لگن، تحقیق ، محنت اور عزمِ صمیم کا حاصل ہیں۔

مصنف کا اسلوب سادہ اور آسان ہے۔ کتاب خوب صورت اور طباعت و اشاعت معیاری ہے۔ درحقیقت یہ ایک مستقل زیرمطالعہ رکھنے والی کتاب ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


 حیاتِ انبیا ؑ، تالیف: محمد اقبال مرزا۔ ملنے کا پتا: دارِحمزہ، CB-18/1 سرسیّد کالونی،نیو گدوال،  واہ کینٹ۔ فون: ۴۹۰۹۲۳۸-۰۵۱۔ صفحات: ۲۲۴۔ قیمت: ۲۵۰ روپے ۔

مؤلف کو اپنی ملازمت کے دوران لندن میں کچھ عرصہ قیام کا موقع ملا۔ وہاں عیسائیوں سے بحث مباحثے کے دوران انھیں محسوس ہوا کہ عیسائیت کے بارے میں اِن کا علم محدود ہے،  جب کہ عیسائی بھی اسلام کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے قرآن، بائبل اور جدید سائنس کی روشنی میں مطالعہ و تحقیق کے بعد مذکورہ کتاب مرتب کرنے کا فیصلہ کیا۔یہ کتاب حضرت آدم ؑ سے لے کر حضرت اسماعیلؑ و حضرت اسحاق ؑ تک کے تذکرے پر مبنی ہے۔ قرآن اور بائبل کے حوالوں اور تقابلی مطالعے کے ساتھ ساتھ جدید سائنس اور آثارِ قدیمہ کے شواہد بھی پیش کیے گئے ہیں۔ اس طرح یہ جہاں اسلام اور عیسائیت کے حوالے سے تقابل ادیان کے لیے مفید مطالعہ ہے، وہاں جدید معلومات نے اس کتاب کو مزید دل چسپی کا باعث بنا دیا ہے۔ تقابل ادیان کے ساتھ ساتھ دعوتی مقاصد کے لیے مفید کتاب۔(امجد عباسی)


فکرِ سیاسی کی تشکیلِ جدید، ڈاکٹر معین الدین عقیل۔ ناشر: مکتبہ تعمیر انسانیت، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار ، لاہور۔فون: ۳۷۲۳۷۵۰۰- ۰۴۲ ۔صفحات : ۹۳۔ قیمت (مجلد): ۱۸۰ روپے۔

قوموں کی تعمیر و تخریب تخت نشینوں کے ہاتھوں ہوتی ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ ہربرسرِاقتدار گروہ نے راج تو کیا سیاست کی بساط پر، مگر جو تخت کی بارہ دری سے باہر ہے اسے کہا: ’’سیاست گندا کھیل ہے‘‘ یا ’’تمھارا کیا کام سیاست سے؟‘‘

ڈاکٹر معین الدین عقیل نے اس مختصر سی کتاب میں، ہماری قومی زندگی کے حوالے سے  اہم فکری، سیاسی اور تہذیبی لوازمہ فراہم کیا ہے۔ انھوں نے اس مطالعے کو سرسیّداحمد خاں اور     علّامہ اقبال کے افکار سے منسوب کیا ہے، جو اس حد تک درست ہے کہ سرسیّد کا خطبہ (ص ۴۱-۴۹) اور اقبال کا خطبہ (۵۶-۷۲) شامل ہے۔ یہ دونوں خطبات کسی تشریح کے محتاج نہیں کہ یہ اپنی جگہ فکرودانش کی دستاویزات ہیں۔ معین صاحب کے حواشی نے ان کی افادیت دوچند کردی ہے۔  تاہم، اس قیمتی فکری اثاثے کی روح وہ مقالہ ہے، جو ڈاکٹرمعین الدین نے ’سیّد احمد خاں اور اقبال‘ (ص۱۰-۳۵) تحریر کیاہے۔ ہند میں مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ روایت کے فکری، عملی، سیاسی اور مذہبی اُتارچڑھائو، بلکہ تضادات و امکانات کے دَر وَا کرتا ایسا جان دار بہی کھاتہ، اس انداز سے کبھی پہلے نظر سے نہیں گزرا۔ اس تخلیقی مضمون اور تاریخ و تہذیب پر نقد کے حوالے سے معین صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں۔ البتہ اتنی عام فہم کتاب کا عنوان اتنے تکلف کی نذر کرنا ضروری نہیں  تھا۔ (سلیم منصور خالد)


ڈاکٹر ابن فرید، علمی و ادبی خدمات، ڈاکٹر زبیدہ جبیں۔ ناشر: ادارہ ثقافت اسلامیہ، ۲-کلب روڈ، لاہور۔ فون:۳۶۳۰۵۹۲۰-۰۴۲۔ صفحات(مجلد): ۳۴۶۔ قیمت: ۶۰۰ روپے۔

ادب و تحقیق اور تاریخ و صحافت کے میدان میں لکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ لیکن ذہن اور قلم کو اعلیٰ قدروں اور اخلاقی ضابطوں کی ترویج کے لیے استعمال کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے، اور اس چھوٹی سی تعداد میں بھی مؤثر ابلاغ کرنے والے تو مزید کم ہیں۔ ڈاکٹر ابن فرید (۱۹۲۵ء- ۲۰۰۳ء) اسی کم یاب تعداد سے تعلق رکھتے تھے۔ انھوں نے اسلامی ادبی تحریک کے خدوخال نمایاں کرنے اور تنقیدی اصولوں کو مرتب کرنے میں قابلِ لحاظ کردار ادا کیا۔

ڈاکٹر ابن فریدایک نام وَر نقّاد، بلندپایہ افسانہ نگار اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں سماجیات کے معلّم تھے۔ انھوں نے ادب کے عمومی موضوعات کے علاوہ بچوں اور خواتین کے سماجی مسائل پر بھی بطور ایک سماجی مصلح کے قلم اُٹھایا ہے۔ انھوں نے افسانوی ادب کا قابلِ قدر قلمی اثاثہ چھوڑا ہے۔ ان کی اسی خوبی نے زیرنظر کتاب کی مصنفہ کو اس چیز پر آمادہ کیا کہ وہ ان کے علمی و قلمی آثار کا تحقیقی مطالعہ کریں۔ اس کوشش میں وہ کامیاب بھی رہی ہیں۔ علی گڑھ کے پروفیسر اصغر عباس کے بقول: وہ اُردو کے معتبر ادیبوں میں سے تھے لیکن ان کی ادبی عظمت کا ابھی تک اعتراف نہیں ہوا تھا۔ ڈاکٹر زبیدہ جبیں نے پہلی بار بڑی کاوش سے ابن فرید کی بڑی مربوط تصویر پیش کی ہے… اس لیے یہ [پی ایچ ڈی کے] روایتی تحقیقی مقالوں میں منفرد ہے‘‘۔

اگرچہ، ابن فریدمرحوم کی کئی تحریریں ہمارے زیرمطالعہ رہی رہیں، لیکن اس کتاب نے مرحوم کی علمی وفکری قدرومنزلت کے باب اس مہارت اور محنت سے کھولے ہیں کہ انھیں دوبارہ پڑھنے اور دوسروں تک پہنچانے کی اُمنگ پیدا ہوئی ہے۔(س م خ )


نارمل زندگی، ترجمہ: خالد لطیف، تدوین ڈاکٹر شائستہ خالد: ناشر: اعزاز کامران پبلی کیشنز، لاہور۔ فون: ۶۲۳۹۳۲۹- ۰۳۰۰۔ صفحات: ۲۵۶۔ قیمت (مجلد): ۳۰۰ روپے۔

سواے چند مستثنیات کے، اللہ تعالیٰ انسانوں کی عظیم اکثریت کو نارمل زندگی عطا فرماتا ہے۔ لیکن کہیں پر خانگی اور سماجی ماحول، یا پھر خود فرد کے غیرمعتدل رویے اس کی زندگی کو ناہنجار اور ابنارمل بنا دیتے ہیں۔ اس طرح وہ فرد اپنی ذات اور معاشرے کے لیے بھی آزمایش کا ذریعہ بن جاتا ہے۔

زیرنظر کتاب میں محنت سے دنیا کے معروف ماہرین نفسیات کے مشاہدات و تجربات کو یک جا کیا گیا ہے۔ اس طرح ارادی اور غیرارادی محرکات کا سراغ لگاکر، ان نفسیاتی صدمات اور نقصانات سے بچنے کی تدابیر بیان کی ہیں۔ ایک سائنسی موضوع ہونے کے باوجود زبان عام فہم اور پُراثر ہے۔ (س م خ )


شوگر کو شکست دیجیے، مرتبہ: محمد متین خالد۔ ناشر: علم و عرفان ، الحمدمارکیٹ، ۴۰-اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۲۳۵۸۴- ۰۴۲۔ صفحات : ۳۱۸۔ قیمت (مجلد): ۶۰۰ روپے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو صحت ، صلاحیت اور ذہن کی اَنمول نعمت عطا فرمائی ہے۔ تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ صحت اور صلاحیت ِ کار میں ضُعف و اضمحلال پیدا ہوتا چلا جاتا ہے۔ عصرِحاضر کے بہت سے مفاسد میں چند بیماریاں اتنی عام اور مہلک ہیں کہ مریض ان کا نام سن کر ہی ہمت چھوڑ دیتا ہے۔ ایسی ہی ایک عام بیماری شوگر یا ذیابیطس ہے۔

محمد متین خالد نے زیرنظر کتاب میں ایسے اکیاون مضامین مرتب کرکے پیش کیے ہیں، جو اس بیماری کے خوف سے آزادی، پنجہ آزمائی اور زندگی کو کارآمد بنا کر گزارنے کے گُر سکھاتے ہیں۔ یہ کتاب دل چسپ بھی ہے اور معلومات افزا بھی۔ (س م خ )

دانش یار ، لاہور

ماہِ ستمبر کے شمارے میں مولانا مفتی سیاح الدین کاکاخیل ؒ کا مضمون پڑھا تو یاد آیا کہ مفتی صاحبl ، دارالعلوم دیوبند سے سند ِ فراغت حاصل کرنے والے سب سے فائق طالب علم تھے۔ حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنیl نے اِن کو اپنے طلبہ پر علمی فضیلت کے باعث قابلِ فخر قرار دیا تھا۔ قیامِ پاکستان سے ایک عشرہ پہلے  مولانا مودودیؒ کی کتاب قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں چھپ چکی تھی،اور مفتی صاحبؒ نے      جن اعتراضات کا جواب دیا ہے، اِسی زمانے سے سنے جارہے تھے۔ یاد رہے، اس  کتاب کا پہلامضمون ہی   اِلٰہ پر ہے___ حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوریؒ نے اس کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد فرمایا: ’’یہ شخص (یعنی مولانا مودودیؒ) مُلْھِمْ مِنَ اللہِ معلوم ہوتا ہے‘‘۔ مجھ سے اس تبصرے کا ذکر میرے مرحوم کرم فرما بزرگ قاری محمد عبداللہ (اوکاڑہ والے) نے کیا تھا۔ اصل میں یہی مفہوم و معنی دعوتِ اسلامی کی بنیاد ہے اور اسی کو ہمارے قائدین اور ذمہ داران کو اپنے خطبات اور گفتگوئوں میں مسلسل واضح کرتے رہنا چاہیے۔


خِرقہ پوش صحافی ، میرپور،آزاد کشمیر

ستمبر ۲۰۱۷ء کا شمارہ زیرمطالعہ ہے۔ ’چند قرآنی اصطلاحات کی تعبیر کا مطالعہ‘ میں مفتی سیّد سیاح الدین کاکاخیل نے تفصیل اور قرآنی حوالہ جات سے جو جواب دیا ہے، اس سے ہرباشعور پاکستانی کی آنکھیں کھل جانی چاہییں۔ جن لوگوں نے مولانا مودودی کے ’طاغوت‘ کے معنی اور تشریح پر اعتراض کیا ہے،بدقسمتی کی بات ہے کہ وہ آج بھی شیطانی طاغوت کے آلۂ کار بنے بیٹھے ہیں ۔ یہ طاغوتی قوت کو سہارا دینے والے، مولانا مودودی جیسے لوگوں کے خلاف ہی دندناتے رہیں گے؟ اللہ انھیں ہدایت دے، آمین!


محمد حسین  عارف، گوجرانوالہ

مولانا مفتی منیب الرحمٰن صاحب اور مولانا زاہد الراشدی صاحب کی تحریریں ترجمان القرآن کے قارئین کے لیے اپنے موضوع اور اسلوب کے اعتبار سے نہایت قیمتی اضافہ ہیں۔


اسما معظم ، کراچی

ستمبر کے شمارے میں ’۶۰ سا ل پہلے‘ میں انوکھی شان کے حوالے سے واقعتاً جامع انداز میں بہت بڑا سبق سمجھادیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مولانا مودودیؒ کو غریقِ رحمت فرمائے کہ کس خوب صورتی سے اتنی اہم بات سمجھا دی۔ ’اشارات‘ میں ڈاکٹر انیس احمد صاحب نے ’اقامت ِ دین اور عملی تقاضے‘ میں دعوت وتربیت کے کام کی وسعت واضح کی ہے، ورنہ ہمارے ذہنوں میں یہ تصور انتہائی محدود ہوکر رہ گیاہے۔ اس مضمون کو کارکنوں میں خوب پھیلانا چاہیے۔ پھر مولانا مودودیؒ کی تقریر سے ’انقلاب کا راستہ اور دعوت‘ بھی بہت جامع تحریر ہے۔ زراعت اور صحت کے ساتھ خارجہ تعلقات پر تحریروں نے معلومات میں خوب اضافہ کیا۔


ڈاکٹر افضل عظیم ، نورورسک، راجا محمد عاصم، موہری ،کھاریاں

اشارات ’اقامت ِ دین اور عملی تقاضے‘ ایک جامع تحریر ہے۔ اقامتِ صلوٰۃ کی طرح اقامت ِ دین کی جدوجہد ہمارے فرائض میں شامل ہے۔ یہ بڑی اہم توجہ ہے کہ: ’’تحریک ِ اسلامی کی کامیابی محض سیاسی کامیابی اور نشستوں کی تعداد سے نہیں ناپی جاسکتی۔ اس کا اصل پیمانہ افراد کا خلوص اور دین سے عملی وابستگی ہے‘‘۔


ڈاکٹر علیم احمد نیازی ، راولپنڈی

اگست اور ستمبر کے شمارے تازہ ہوا کا جھونکا ہیں۔ ستمبر کے شمارے میں ڈاکٹر ظفراسحاق انصاری ؒپر مختصر اور مؤثر مضمون نے طبیعت کو اداس کر دیا اور باربار احساس ہوا کہ ہم نے اتنی بڑی شخصیت کو نہ سمجھا اور   نہ اس سے فیض پایا۔ اسی طرح ڈاکٹر انوار احمد بگوی نے پاکستان کی صحت پالیسی کی حالت ِ زار پر نہایت جامع تحریر لکھی ہے۔ پھر ڈاکٹر مسعوداحمد شاکر نے زرعی صورتِ حال کے بارے میں آنکھیں کھول دی ہیں۔


محمد سعید کھوکھر ، گوجرانوالہ

متحدہ پاکستان کے پہلے اور آخری نام نہاد آزاد انہ الیکشن کی انتخابی مہم کے سلسلے میں مولانا مودودی مرحوم کے ٹی وی خطاب کو ترجمان القرآن (ماہِ اگست) میں پڑھ کر اس پُرآشوب دور کی بہت سی تلخ و شیریں یادیں تازہ ہو گئیں۔ میں اُس وقت اسلامی جمعیت طلبہ کا رفیق اور بی اے کا طالب علم تھا۔ اس انتخابی مہم کے ابتدائی دنوں میں ہونے والے دو جلسہ ہاے عام کے نقوش آج تک ذہن میں تازہ ہیں۔ یہ جمعے کا دن تھا۔ نمازِجمعہ کے بعد مولانا مرحوم و مغفور نے شیرانوالہ با غ گوجرانوالہ میں عوام سے خطاب کیا ۔ مولانا مودودی مرحوم نے ۱۹۴۷ء سے لے کر اس روز تک کی تاریخ اور جدو جہد پر روشنی ڈالتے ہوئے واضح کیا کہ اگرحصولِ آزادی کے ساتھ ہی اسلامی اقدار کے فروغ اورترقی کی طرف توجہ دی جاتی تو پاکستان بہت سے بحرانوں اورخلفشارسے بچ جاتا۔ انھوں نے جماعت اسلامی پاکستان کے منشور اور پروگرام کی وضاحت کے ساتھ تجویز دی کہ دستورساز اسمبلی کے انتخاب کے بجاے، ملک میں ۱۹۵۶ء کے دستور کے تحت مقننہ کاانتخاب کرایا جائے اور آئینی مسا ئل آیندہ منتخب پارلیمان پر چھوڑ دیے جائیں۔ اس خطاب کے ٹھیک ایک ہفتے بعد جمعے ہی کے دن جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے نیشنل اسٹیڈیم گوجرانوالہ میں ایک بڑے جلسۂ عام سے خطاب کیا اور مولانا کی اس تجویز کا خاکہ اُڑاتے ہوئے کہا کہ: ’’کیا چھپن چھپن کی رٹ لگا رکھی ہے، آئین چپلی کباب نہیں جوغریب کے بچے کاپیٹ بھرتا ہے، آئین اسپتال نہیں جہاں غریب کا علاج ہو تا ہے، آئین اسکول نہیں جہاں غریب کے بچے کو تعلیم ملتی ہے، لوگوں کو آئین نہیں، روٹی کپڑا مکان دو‘‘ ۔ظاہر ہے کہ یہ بات ایک سیاسی نعرے بازی کے سوا کچھ نہ تھی۔

جماعت اسلامی نے ان انتخابات میں بھر پور حصہ لیا۔ اس کے نا مزد اُمیدواروں کا تعلیمی معیار اور صحتِ کردار دوسری پارٹیوں کے اُمیدواروں کے مقابلے میںمثالی تھی۔ تعلیم، سوجھ بوجھ، وقار اور متانت میں سب سے بہتر تھے۔ اگرچہ جماعت ان انتخابات میں خاطر خواہ نشستیں نہ لے سکی، لیکن اس کا ووٹ بنک بہترین تھا۔ وابستگان جماعت کی وابستگی (کومٹ منٹ) خالص نظریاتی تھی۔ ووٹ کے استعمال کا تصور، امیدوار کی عملیت پسندی کے اعتراف، سچی شہادت اور حق دار کی امانت سے منسوب تھا۔ سیاسیات کے طلبہ اور علماکے لیے تحقیق کا    ایک دل چسپ موضوع یہ بھی تھا کہ کُل پاکستان امیر جماعت سے لے کر نچلی سطح تک حلقے کے ذمہ دار کے بیان میں کوئی تضاد اور بے پَرکی نعرے بازی یا سوقیانہ الزام تراشی نہیں تھی۔ وحدت فکر و نظر اور حُسنِ گفتار وبیان کا    یہ بے مثال مظا ہرہ جماعت اسلامی کی پہچان تھا۔


عبدالرزاق ، کوہاٹ

ماہِ اگست کے ’اشارات‘ میں مولانا مودودی مرحوم کی جامع تقریر اور اس پر پروفیسر خورشیداحمد صاحب کی تعارفی سطور پڑھ کر ایمان تازہ اور نشانِ منزل بھی واضح ہوا۔ اس اثاثے سے واقفیت عطا کرنے پر ماہنامہ ترجمان القرآن مبارک باد کا مستحق ہے۔


عمران احمد خان ، مردان

اگست کا شمارہ پڑھا۔ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ یہ دین اور دنیا میں رہنمائی کے لیے ایک جامع پرچہ ثابت ہوا۔ بہترین لکھنے والوں کی ایک کہکشاں ہے۔ اس چمکتے دمکتے اور علم و نُور کی کرنیں بکھیرتے ہوئے رسالے میں تحریک ِ پاکستان کے حوالے سے ہرپہلو کا جائزہ ہے۔ اس شمارے کے کسی بھی مضمون کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، تمام ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ امام سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تقریر پر مشتمل ’اشارات‘ نئی نسل کے لیے  ایک زبردست تحفہ ہے۔ ۵۰، ۶۰ سال پہلے کہی گئی باتیں آج حرف بہ حرف سچ ثابت ہورہی ہیں۔ یہ تقریر بھی اُن کی لکھی ہوئی تحریر کی طرح تروتازہ لگنے کی اصل وجہ صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ، سیّد مودودی قرآن و سنت کی روشنی میں لکھتے تھے۔ اسی طرح دیگر مضامین کا بہترین گلدستہ پیش کرنے پر ہم مدیر محترم کے تہ دل سے شکرگزار ہیں۔

اصلاحِ معاشرہ اور انتخابات

ہم جس لائحۂ عمل پر برسوں سے کام کر رہے ہیں، اس کے چار میں سے تین اجزا اصلاحِ معاشرہ ہی کی تدابیر پر مشتمل ہیں۔ یہ ہمارا دائمی پروگرام ہے جس پر ہمیں سال کے ۳۶۵ دن کام کرنا ہے، خواہ انتخابات ہوں یا نہ ہوں۔ اس لیے یہاں اصل بحث یہ نہیں ہے کہ آیا تبدیلیِ قیادت کے لیے اصلاحِ معاشرہ کا کام کیا جائے یا صرف انتخاب لڑے جائیں، بلکہ یہ ہے کہ آیا اصلاحِ معاشرہ کی یہ ساری کوشش جاری رکھنے کے ساتھ انتخابات میں بھی حصہ لیا جائے یا نہیں؟ ہماری اسکیم یہ ہے کہ یہ دونوں کام ایک ساتھ ہونے چاہییں.... [ایک] غلط بات یہ فرض کی گئی ہے کہ انتخاب صرف ووٹ لینے اور دینے کا کام ہے،  معاشرے کے بنائو اور بگاڑ سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ حالاں کہ دراصل معاشرے کو بنانے اور بگاڑنے میں اس کا بہت بڑا حصہ ہے۔ اور کوئی ایسا شخص جو ’اصلاحِ معاشرہ‘ کا محض لفظ ہی نہیں بلکہ اس کے معنی بھی جانتا ہو، اُن اثرات کو نظرانداز نہیں کرسکتا، جو انتخابات سے معاشرے پر پڑتے ہیں.... کیوں کہ معاشرے کا ہربالغ شخص اس میں ووٹر ہوتا ہے۔ ان ووٹروں سے اگر روپے کے عوض ووٹ خریدے جائیں، یا طرح طرح کے دبائو ڈال کر، یا لالچ دے کر ان کے ووٹ حاصل کیے جائیں، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ کے گردوپیش ایک ضمیرفروش، لالچی اور دَبُّو معاشرہ تیار ہورہا ہے، اور ساتھ کے ساتھ اسی معاشرے میں اُن دلالوں، غنڈوں اور بدکردار طالبینِ اقتدار کی تربیت بھی ہورہی ہے، جو اپنی قوم کی اِن اخلاقی کمزوریوں سے ناجائز فائدہ اُٹھانے والے ہوں۔

دوسری طرف اگر ان ووٹروں سے برادریوں اور قبیلوں اور [علاقوں، نسلوں] کے نام پر بھی ووٹ لیے جائیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے معاشرے کو تنگ نظری، جاہلانہ تعصبات اور افتراق و انتشار کی تربیت بھی دی جارہی ہے،اور اس کے ساتھ آپ ہی کی قوم کے کچھ ذہین اور بااثر عناصر کو یہ تعلیم مل رہی ہے کہ اپنی ذاتی ترقی کے لیے وہ یہ ہتھکنڈے بھی استعمال کریں۔تیسری طرف اگر معاشی مفادات کے نام پر یا کچھ دوسرے لادینی اصولوں اور نظریات کی تبلیغ کرکے بھی ووٹ لیے جائیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے پورے معاشرے کو مادہ پرستی ، دنیا پرستی اور لادینی نظریۂ حیات کے حق میں راے دینے کے لیے بھی تیار کیا جارہا ہے۔ ان عناصر کو اس تخریب معاشرہ کے لیے کھلی چھٹی دے دینا اور یہ کہنا کہ ہم تو انتخابات کو چھوڑ کر صرف اصلاحِ معاشرہ کریں گے، آخر کیا معنی رکھتا ہے؟ (’اشارات‘ ،سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۴۹، عدد۱-۲، محرم، صفر ۱۳۷۷ھ، اکتوبر، نومبر ۱۹۵۷ء، ص ۱۱-۱۲)