نفرت، تعصب، حسد اور لالچ، ہمارے ازلی دشمن شیطان کے بنیادی ہتھکنڈے ہیں۔ لیکن اولاد آدم ہے کہ مسلسل انھی خطاؤں کی مرتکب ہوکر تباہی کے راستے پر چلی جارہی ہے۔ تعصب اور لالچ ،افراد و اقوام کی نامرادی کی بنیاد بن رہے ہیں۔ ابلیس ایک طرف ان کے زہریلے بیج بورہا ہے اور دوسری طرف ان فصلوں سے فائدہ سمیٹنے والے خناسوں کو شہ دیتے ہوئے، پہلے سے منقسم اُمت کو نت نئے تعصبات کی نذر کرتا چلا جارہا ہے۔ صدیوں پرانے مسلکی تنازعات کی بنا پر نفرت کے الاؤ مزید بھڑکائے جارہے ہیں۔ ایک ایک مسلک یا فقہ کے ماننے والوں کو نسلی، لسانی اور علاقائی بنیادوں پر ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنایا جارہا ہے۔ ان میں سے بھی کوئی اختلافی بنیاد نہ ملے تو ریاستوں کے مابین سیاسی اختلافات ہی کو جنگوں کا بہانہ بنادیا جاتا ہے۔
خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد اس وقت کے بعض مسلم حکمرانوں کو شاہ بلکہ شہنشاہ بننے کا لالچ دے کر اپنے ناپاک منصوبے نافذ کیے گئے اور پھر وفادارانہ وابستگی کے وعدے پر پورے خطے کو چھوٹی چھوٹی متحارب ریاستوں میں تقسیم کردیا گیا۔ تقسیم کرنے والے چاہتے تو اس وقت خطے میں پائی جانے والی بڑی ’کرد‘ آبادی کا بھی ایک الگ ملک بنادیتے، لیکن اصل ہدف علاقے یا عوام کا مفاد نہیں، فتنے کاشت کرنا تھا۔ کرد علاقے کو چار ممالک ترکی، شام، عراق اور ایران میں بانٹ دیا گیا، اور پھر گذشتہ پوری صدی ان کے دلوں میں ’کرد‘ شناخت کی پرستش راسخ کی گئی۔ اس جذبۂ پرستش میں شدت پیداکرنے کے لیے، مختلف مراحل میں اور مختلف حکمرانوں کے ذریعے ان کے حقوق بھی سلب کروائے گئے، اور ترقی کے خواب دکھا کر ان کے ہاتھوں میں بندوق تھما دی گئی۔
ترکی میںکرد تحریک بظاہر ختم ہوگئی، لیکن کئی مراحل کے بعد ۱۹۷۸ء میں ۳۰ سالہ باغی رہنما عبداللہ اوجلان کی صدارت میں ’پارٹی کارکراں کردستان ‘ (PKK)کی صورت میں دوبارہ سامنے آئی۔ یہ جماعت ۸۰ کے عشرے میں خوفناک مسلح کارروائیوں کے ذریعے ترکی سے علیحدگی اور کردستان کی آزادی کا نعرہ بلند کرنے لگی۔ ان مسلح کارروائیوں میں ۴۰ہزار سے زائد انسان لقمۂ اجل بن گئے۔ ترک دستاویزات کے مطابق اس بدامنی کے نتیجے میں۵۰۰ ؍ارب ڈالر سے زیادہ کے مالی نقصانات ہوئے۔ عبداللہ اوجلان نے لبنان اور شام میں مسلح تربیتی کیمپ قائم کیے، جو ۱۹۹۸ء میں ترکی کے دباؤ پر بالآخر ختم کرنا پڑے۔ فروری ۱۹۹۸ء میں ترک خفیہ ادارے اوجلان کو کینیا کے دارالحکومت نیروبی سے گرفتار کرکے ترکی لے گئے۔ عدالت نے اسے سزاے موت سنائی جو بالآخر عمر قید میں بدل دی گئی۔
۲۰۱۴ء میں اوجلان نے جیل سے اپنے پیغام کے ذریعے ترکی کے ساتھ ۳۰ سالہ مسلح تصادم ختم کرنے اور اپنی جدوجہد پُرامن رکھنے کا اعلان کیا۔ملک میں نئی کرد سیاسی جماعت وجود میں آئی۔ ایک جماعت پر عدالت نے پابندی لگادی تو دوسری وجود میں آگئی، جو اس وقت پارلیمنٹ کی اہم سیاسی جماعت ہے۔ لیکن بعض گروہ اب بھی مختلف مسلح کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ترکی سمیت دنیا کے کئی ممالک نے ’پی کےکے‘ کو دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔
۱۹۷۹ء میں انقلابِ ایران کے بعد انھیں پہلے سے بھی زیادہ سختی سے کچل دیا گیا۔ ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خمینی نے ان کے خلاف اعلانِ جہاد کرتے ہوئے ۱۹۸۲ء تک جاری رہنے والی کارروائیوں کے ذریعے ان کی آواز تقریباً خاموش کرادی۔
عراقی وزیراعظم عبد الکریم قاسم اور ملا مصطفےٰ البارزانی کے درمیان یہ گرم جوش تعلقات عراق میں امن و استحکام کی نوید سنانے لگے۔ لیکن دو برس کے اندر اندر ہی مختلف اندرونی و بیرونی قوتوں نے غلط فہمیوں کی پہاڑ کھڑے کرتے ہوئے ملک کو خانہ جنگی کی دلدل میں دھکیل دیا۔ ۲۳؍اپریل ۱۹۶۱ء کو عبد الکریم قاسم نے عراقی وزارت دفاع میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ: ’’برطانوی سفارت خانے نے تخریبی کارروائیوں اور مفاد پرست عناصر کی پشتیبانی کرتے ہوئے فتنہ جوئی کے لیے تقریباً ۵ لاکھ دینار خرچ کیے ہیں‘‘۔ عراقی سوشلسٹ پارٹی نے بھی اپنے ایک دستاویزی بیان میں انکشاف کیا کہ: ’’جون ۱۹۶۱ء کے دوران ایران میں امریکی سفیر نے دیگر امریکی سفارت کاروں اور عسکری ماہرین کے ساتھ مل کر کرد علاقوں کے کئی دورے کیے ہیں‘‘۔ شاہِ ایران نے بھی جلتی پر تیل ڈالتے ہوئے اپنے آقاؤں کا حق نمک ادا کیا۔
اس خانہ جنگی کے دوران ۸ فروری ۱۹۶۳ کو وزیراعظم عبدالکریم قاسم کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا۔ بعث پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ کردوں نے انقلاب کی حمایت کی اور کچھ عرصے کے لیے لڑائی رک گئی، لیکن جلد ہی دوبارہ شروع ہوگئی۔ اس ساری جنگ کے بنیادی مقاصد میں سے ایک اس زمانے میں عراق کے ساتھ تیل کے معاہدوں کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنا بھی تھا۔ ۱۱ستمبر ۱۹۶۱ء سے شروع ہونے والی یہ لڑائی مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی ۱۹۷۰ء میں کردستان کی داخلی خود مختاری کے معاہدے پر آکر تھمی۔
کرد قوم پرستی کی راکھ تلے دبی چنگاریاں گاہے گاہے شعلہ جوالا بن کر لاتعداد انسانی جانیں بھسم کرتی رہیں۔ اس دوران مختلف انقلابات بھی آتے رہے۔ ۱۹۷۹ میں صدام حسین نے بعثی حکومت کے لیڈر کی حیثیت سے عراق کا اقتدار سنبھالا اور کئی مواقع پر کرد آبادی کے خلاف بے مہابا قوت استعمال کی۔ ایران عراق جنگ کے اختتامی مرحلے پر ایرانی سرحد پر واقع حلبچہ نامی قصبہ، ایرانی قبضے سے چھڑواتے ہوئے اس پر کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال بھی انھی کارروائیوں کا حصہ ہے۔ جس سے بیک وقت ۵۵۰۰ سے زائد کرد شہری موت کے منہ میں چلے گئے۔ بعد کے برسوں میں ان کیمیائی اثرات کی وجہ سے مزید کئی ہزار افراد لقمۂ اجل بن گئے۔ صدام حکومت کا الزام تھا کہ یہ حملہ وہاں سے پسپا ہوتی ہوئی ایرانی افواج نے کیا ہے۔ حملہ جس نے بھی کیا ہو، لیکن اس کے نتیجے میں خطے کے تمام کردوں کے دل میں تعصب کی گرہ مزید مضبوط ہوگئی۔
۱۹۹۰ء میں عراقی صدر صدام حسین سے کویت پر چڑھائی کا ارتکاب کروایا گیا۔ اس کی آڑ میں عرب سرزمین پر امریکی افواج کی آمد کے بعد سے عراق میں ایک نیا منظرنامہ تشکیل پانے لگا۔ تیل کی وافر دولت ہونے کے باوجود پورے ملک میں تباہی و بدحالی عروج کو چھونے لگی۔ پہلے کویت کی آزادی اور پھر وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار (WMD) تیار کرنے کاالزام لگاتے ہوئے، عراق کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جانے لگا۔ اپریل ۱۹۹۱ء سے اقوام متحدہ کے ذریعے عراق کے وسیع علاقوں پر فضائی پابندیاں عائد کردی گئی تھیں۔ ان پابندیوں کا بظاہر مقصد شمال میں کردوں اور جنوب میں شیعہ آبادی کا تحفظ قرار دیا گیا۔ لیکن عملاً ان فضائی پابندیوں کی آڑ میں برطانوی اور امریکی فضائیہ، عراقی فضائی حدود پر قابض ہوگئی۔ اسی عرصے میں کرد ملیشیا ’پیش مرگہ‘ نے اربیل اور سلیمانیہ سے عراقی افواج کو بے دخل کرتے ہوئے اپنا قبضہ مستحکم کرلیا۔ پھر مئی ۱۹۹۱ء میں کرد پارلیمنٹ کا اعلان کرتے ہوئے عام انتخابات کروادیے گئے۔ مسعود البارزانی کی جماعت کردستان ڈیموکریٹک پارٹی (KDP) کو ۵۰ء۸فی صد اور جلال الطالبانی کے کرد قومی اتحاد PUK (Patriotic Union of Kurdistan) کو ۴۹ء۲ فی صد ووٹ ملے۔
۱۹۹۶ء میں اقوام متحدہ نے عراقی تیل کی قیمت کا ۱۳ فی صد حصہ کرد علاقوں کے لیے ضبط کرنے کی قرار داد منظور کرتے ہوئے، ’تیل کے بدلے خوراک‘ کا منصوبہ نافذ کردیا۔ دونوں کرد رہنماؤں مسعود البارزانی اور جلال الطالبانی کے مابین اختلافات اور جھڑپوں کی طویل تاریخ تھی۔ ۱۹۹۸ء میں امریکا نے دونوں کو واشنگٹن میں جمع کیا اور ان کے مابین جامع امن معاہدہ طے کروادیا۔ عراق سے مسلسل جنگ، چہار اطراف سے محاصرہ، اس کے بیرونی اکاؤنٹس پر تسلط، تباہ کن اسلحے کا الزام، ایک کے بعد دوسری پابندی، مسلسل نگرانی و تلاشی، ساتھ ساتھ دہشت گردی کے کارروائیاں جاری تھیں، جب کہ دوسری جانب عراق ہی کے کرد علاقوں کی مکمل سرپرستی،وافر مالی امداد اور اس پورے عرصے میں تقریباً کامل امن و امان___ ایک ہی ملک میں دو مختلف ریاستوں کا نقشہ واضح کرتا چلا جارہا تھا۔
۲۰۰۳ء کے اوائل میں صدام حسین حکومت کا خاتمہ کرتے ہوئے امریکی افواج نے پورے عراق پر قبضہ کرلیا۔ پھر اپنی مرضی کا سیاسی نظام وضع کرتے ہوئے کرد اور شیعہ آبادی کو اقتدار سونپ دیا۔ ۲۰۰۴ء میں دستور ساز اسمبلی اور ۲۰۰۵ء میں عام انتخابات بھی کروادیے۔ اہلِ سنت آبادی کے بڑے حصے نے دونوں انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ امریکی سفیر پال بریمر نے ملک میں ’نیا نظام‘ متعارف کروایا، جس کے مطابق ملک کا صدر کردی النسل، وزیراعظم شیعہ اور سپیکر اہلِ سنت میں سے ہونا طے کیاگیا۔ عراق کی تمام مسلح افواج کو تحلیل کرتے ہوئے، نئی افواج ترتیب دینے کا اعلان کیا گیا۔ البتہ کرد ملیشیا پیش مرگہ کے بارے میں طے پایا کہ اسے تحلیل کرنے کی ضرورت نہیں۔ اپنی کتاب: My Year in Iraq (عراق میں میرا سال) میں بریمر نے عراقی اور کرد رہنماؤں سے ملاقاتوں کی تفصیل لکھی ہے کہ انھوں نے کس طرح جلال الطالبانی کو عراق کی اور مسعود البارزانی کو کردستان کی صدارت کے لیے آمادہ کیا۔ بدقسمتی سے طالبانی کو صدر مملکت کا عہدہ دیا جانا یا دیگر کرد نمایندوں کو اہم مرکزی مناصب سونپنا، عراق کو متحد رکھنے کے لیے نہیں، بلکہ اسی ہدف کے لیے تھا کہ وہ فیصلہ سازی کے اہم مراکز میں بیٹھ کر کردستان کو الگ کرنے کا عمل تیز اور پھر مکمل کریں۔
۲۰۰۵ء میں منتخب کی جانے والی پارلیمنٹ کے ذریعے عراق کا نیا دستور بنایا گیا اور اس کے مطابق کردستان کو داخلی خود مختاری کے درجے سے اُٹھا کر ’کردستان ریجن‘ قرار دے دیا گیا۔ دستور کی شق ۵۳ کے الفاظ ہیں کہ :’’ عراق، کردستان ریجن کی حکومت کو ایک قانونی حکومت تسلیم کرتا ہے۔ یہ ریجن اس سرزمین پر واقع ہے، جو ۱۹ مارچ ۲۰۰۳ء سے پہلے دہوک، اربیل، سلیمانیہ، کرکوک، دیالی اور نینویٰ کے اضلاع پر مشتمل اور اسی حکومت کے زیر اختیار تھی‘‘۔ اب وہاں اپنے طور پر تیل کی تلاش کا کام مزید تیز کردیا گیا۔ اپنی الگ وزارت خارجہ کے ذریعے بیرونی دنیا سے تعلقات قائم اور معاہدے کیے جانے لگے۔ عراقی پرچم کے بجاے اور کہیں ساتھ ساتھ، کردستان کا پرچم لہرایا جانے لگا۔ اپنا قومی ترانہ متعارف کروادیا گیا۔ اسی طرح کردستان کی الگ کرنسی اور پاسپورٹ کی تیاری شروع ہوگئی۔۲۰۰۷ء میں امریکی افواج نے کردستان کے دفاع اور امن و امان کی ذمہ داری مکمل طور پر کردستان ریجن کی حکومت کے سپرد کرتے ہوئے وہ علاقہ خالی کردیا۔ ۲۰۰۹ء میں تیل برآمد کرنا شروع کردیا گیا۔ ۲۰۱۴ء میں کردستان حکومت نے داعش کے قبضے سے بچانے کا دعویٰ کرتے ہوئے، عراق میں تیل کے اہم مرکزی شہر کرکوک کو بھی اپنے انتظام میں شامل کرلیا۔ اس طرح عراقی تیل کے تقریباً ایک تہائی ذخائر کردستان کے زیر اختیار آگئے۔
عالمی رپورٹیں اعتراف کرتی ہیں کہ یہ علاقہ تیل کے سمندر پر تیر رہا ہے۔ اس علاقے میں زمین کے اندر پائے جانے والے تیل کی مقدار کا اندازہ ۴۵ ؍ارب بیرل لگایا جاتا ہے۔امریکا کی مشہور کاروباری شراکت دار کمپنی ’بلومبرگ‘ (Bloomberg) کے مطابق کردستان ریجن صرف کرکوک کے کنوئوں سے ۶ لاکھ بیرل تیل روزانہ برآمد کررہا ہے۔ اس اثنا میں تیل کی معروف عالمی کمپنیوں: امریکی ’اکسن‘(Exxon) فرانسیسی ’ٹوٹل‘(Total ) ، امریکی ’شیورون‘( Chevron)، روسی ’گیس پروم‘ (Gas Prom) سمیت تیل کے سب اہم سوداگر کردستان میں آن براجمان ہوئے۔ شیورون نے گذشتہ دو برس سے وہاں اپنا کام بند کررکھا تھا، حالیہ ریفرنڈم سے ایک ہفتہ قبل نئے معاہدے کے تحت پھر واپس آگئی۔ یہاں گیس کے ذخائر کا اندازہ ۶۶,۵ کھرب میٹر مکعب لگایا گیا ہے۔ روسی کمپنی ’گیس پروم‘ نے بھی اپنے سابقہ معاہدوں کے علاوہ حالیہ ریفرنڈم سے چند روز قبل، وہاں ۴؍ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے کیے۔
اس تاریخی و سیاسی سفر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عالم اسلام کے حصے بخرے کرنے کے منصوبے ،کس قدر طویل مدتی سازشوں کے ذریعے بالآخر حقیقت بنادیے جاتے ہیں۔ ۲۵ستمبر کو کردستان میں کرایا جانے والا ریفرنڈم تو محض ایک رسمی کارروائی تھی۔ البتہ ریفرنڈم کے بعد کے حالات بتا رہے ہیں کہ اپنوں کی منافقت اور دشمنوں کی سازشیں ایک طرف اور تدبیر الٰہی کا ایک اشارہ دوسری طرف۔ ۲۵ ستمبر کو یک طرفہ طور پر ریفرنڈم کروانے کی دیر تھی، کہ خطے میں سرد مہری کے شکار کئی مسلم ممالک میں تحرک پیدا ہوا۔
ایران کی جانب سے شام میں بشار الاسد کی بھرپور حمایت کیے جانے پر ترکی، ایران تعلقات میں بہت گرم جوشی نہ رہی تھی۔ کردستان ریفرنڈم کے بعد، پہلے ایرانی ذمہ داران نے ترکی کا دورہ کیا۔ پھر ترک افواج کے سربراہ خلوصی آکار اور ۴ ؍اکتوبر کو خود ترک صدر طیب ایردوان ایران آئے۔ عسکری اور حکومتی ذمہ داران سے مفصل مذاکرات کیے اور اعلان کیا کہ: ’’دونوں ملک کسی صورت عراق کو تقسیم کرنے اور کردستان کو الگ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے‘‘۔ خطے کے تقریباً تمام ممالک کی جانب سے ریفرنڈم مسترد کردیے جانے پر عالمی قوتوں نے بھی بظاہر اس کی مخالفت کردی۔
تیل کے وسیع ذخائر، بڑی آبادی، وسیع رقبہ (۷۲ ہزار مربع کلومیٹر) دریائے دجلہ و فرات اور زرخیز سرزمین، کردستان کے مثبت و مضبوط پہلو ہیں۔ لیکن کمزور پہلوؤں میں اہم ترین بات یہ ہے کہ اسے کوئی سمندری ساحل میسر نہیں ہے۔ خشکی میں گھرے اس علاقے کو اپنا تیل بیچنے کے لیے عراق، شام یا ترکی کا محتاج ہونا پڑتا ہے۔ وہ اب بھی جو تیل برآمد کررہا تھا، ترکی میں بچھائی گئی ’جیہان‘ نامی پائپ لائن کے ذریعے ہی بھیجا جا رہا تھا۔ ریفرنڈم کے فوراً بعد ترکی اور ایران نے، فضائی اور بری حدود بند کرتے ہوئے کردستان کے دونوں فعال ایئرپورٹ (اربیل، سلیمانیہ) مفلوج کردیے۔ زمینی راستوں سے بھی انسانی ضرورت کی انتہائی ناگزیر اشیا کے علاوہ ہر شے کی نقل و حمل روک دی۔اور سب سے اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ عراقی فوج نے، ایرانی عسکری دستوں کے تعاون اور ایرانی القدس بریگیڈ کے جنرل قاسم سلیمانی کی سرپرستی میں کارروائی کرتے ہوئے، کرکوک جیسا اہم علاقہ کردستان سے واپس لے لیا۔ جواب میں کرد مزاحمت تقریباً ناقابلِ ذکر تھی۔
ریفرنڈم کے اگلے ہفتے (۴ ؍اکتوبر۲۰۱۷ء) جلال الطالبانی، دنیا سے رخصت ہوگئے۔ تعزیت کے بہانے ان کے وارثوں سے کئی عالمی ذمہ داران کی ملاقاتیں ہوئیں۔ انھی ملاقاتوں میں ایک اہم ملاقات، عراق و شام میں نمایاں ترین عسکری کارروائیوں کے نگران ایرانی القدس بریگیڈ کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی تھی۔ انھوں نے جلال الطالبانی کی بیوہ اور بیٹے سے ملتے ہوئے انھیں کرکوک شہر کے بارے میں اپنے فیصلوں سے بھی آگاہ کیا۔مسعود بارزانی کرکوک میں شکست کا اصل ذمہ دار بھی جلال الطالبانی کے وارثوں کو قرار دے رہے ہیں۔ کرکوک ہاتھ سے نکل جانے، کردستان کے فضائی و زمینی راستے مسدود ہوجانے، بیرونی سرمایہ کاروں کی ایک بڑی تعداد کے فرار ہوجانے اور عالمی سرپرستوں سمیت ساری بیرونی دنیا کی مخالفت کے بعد فی الحال کردستان کی علیحدگی آسان نہ ہوگی۔ مگر یہ خوش فہمی بھی درست نہ ہوگی کہ کرد مسئلہ ختم ہوگیا۔ خدشہ یہی ہے کہ تقریباً ایک صدی سے سازشیں کرنے والے آیندہ بھی فتنہ جوئی کرتے رہیں گے۔
اسرائیلی وزیراعظم موشے شیرٹ نے ۱۹۵۴ء میں اپنی یادداشتوں میں لکھا تھا کہ ’’عالمِ عرب میں مختلف اقلیتوں کے دل میں علیحدگی کے جذبات کو تقویت دینا، ان سے علیحدگی و آزادی کی جدوجہد کروانا، ان کے دلوں میں ’اسلامی مظالم‘ سے نجات حاصل کرنے کی تمنا پیدا کرنا ہی اصل میں وہ کام ہے، جس سے ان علاقوں کا امن و امان تباہ کیا (اور خود محفوظ رہا) جاسکتا ہے‘‘۔ ۱۸۹۷ء میں وجود میں آنے والی ’عالمی صہیونی تنظیم‘ WZO نے ۸۰ کے عشرے میں اپنی جو حکمت عملی شائع کی، اس میں خطے کے تمام ممالک کو تقسیم در تقسیم کرنا شامل تھا۔ اس میں واضح طو رپر لکھا گیا تھا کہ: ’’عراق، شام سے زیادہ طاقت ور ہے، وہ اسرائیل کے لیے زیادہ اور فوری خطرہ ہے، اس لیے پہلے عراق کو پارہ پارہ کرنا، شام کو تقسیم کرنے سے زیادہ ضروری ہے‘‘۔ ۱۹۹۲ء میں اسرائیل نے عرب اقلیتوں کے بارے میں ایک سیمی نار منعقد کیا۔ اس کی سفارشات میں صراحت سے کہا گیا: ’’ایسی متحرک اور مضطرب اقلیتیں، اسرائیل کے محفوظ مستقبل کے لیے برابر کی شریکِ کار ہیں۔ اسلام اور عرب قومیت کے نظریات پر نظر ثانی کرنے کے عمل میں بھی ان اقلیتوں کا بنیادی کردار ہے‘‘۔
مشرق وسطیٰ اور اسلام کے بارے میں کئی اہم کتابوں کے مصنف برطانوی نژاد امریکی دانش وَر برنارڈ لیوس سے منسوب عالم اسلام تقسیم کرنے کے منصوبے، امریکی لیفٹیننٹ کرنل رالف پیٹر کا Blood Borders (خونیں سرحدیں)کے عنوان سے پیش کردہ نیا علاقائی نقشہ، امریکی کانگریس میں پاکستان سمیت کئی ممالک کے حصے بخرے کرنے کی باز گشت، امریکی دفاعی اداروں میں پڑھائے جانے والے نئے مشرق وسطیٰ کے نقشے، کئی عالمی رسائل و جرائد میں مسلسل شائع ہونے والے مضامین، قبائلی علاقائی اور لسانی تعصبات کو اُجاگر کرنے کے لیے مسلسل لکھی جانے والی کتب، عالمی یونی ورسٹیوں میں تقسیم اُمت پر کروائی جانے والی لاتعداد تحقیقات، اور مہیب ابلاغیاتی مہم دیکھیں تو موجودہ صورتِ حال کی اصل سنگینی مزید اُجاگر ہوکر سامنے آتی ہے۔
’کردستان‘ ریاست بنانے کی حالیہ کوشش سے پہلے یہی تجربہ جنوبی سوڈان اور انڈونیشیا کے علاقے مشرقی تیمور میں کیا جاچکا ہے۔ حال یا مستقبل کی کسی بھی علیحدگی پسند تحریک کے لیے ان تجربات میں بڑی عبرت کا سامان پوشیدہ ہے۔ جنوبی سوڈان میں بھی کردستان کی طرح سالہا سال کی سازشوں، قتل و غارت اور خانہ جنگی کے بعد ریفرنڈم اور اعلان آزادی کیا گیا۔ وہاں بھی تیل سے مالامال حصے کو الگ ملک بنایاگیا۔ وہاں کے عوام کو بھی اس کے نتیجے میں شان دار اقتصادی ترقی کے خواب دکھائے گئے۔ وہاں بھی شمالی سوڈان کی طرف سے جنوبی سوڈان پر مظالم اور وسائل ہڑپ کرنے کے الزامات ذہنوں میں راسخ کیے گئے۔ اسلحہ، مالی وسائل اور عسکری تربیت دی گئی۔
ایک طویل عرصے سے جاری ان کوششوں کے نتیجے میں ۲۰۱۱ء میں ریفرنڈم کے بل پر علیحدگی ہوگئی۔ علیحدگی کے بعد کا جنوبی سوڈان دیکھیں تو، اپنے قومی وقار کا بھرم رکھنے کی کوششیں کرتا ہوا متحدہ سوڈان، جنت نظیر دکھائی دیتا ہے۔ الگ ملک بنانے والے قبائل، شمالی سوڈان کے بعد، اب ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ مختلف بغاوتوں، لڑائیوں اور سازشوں کے بعد اب وہاں قحط سالی سے بھی زیادہ تباہی اور مفلوک الحالی ہے۔ جنوبی سوڈان تیل کے وسیع ذخائر کے علاوہ، انتہائی زرخیز سرزمین اور دریائے نیل سے مالامال ہے، لیکن ا س وقت دس لاکھ سے زیادہ افراد مہاجر کیمپوں میں جابسنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا مسلح قبیلہ مخالف قبائل کے سامنے سینہ سپر ہوجاتا ہے اور عالمی سامراجی آقا، فریقین کو مزید اسلحے سے نوازتا ہے۔اس الم ناک صورتِ حال سے لاتعلق عالمی کمپنیاں دھڑا دھڑ تیل نکال رہی ہیں، لیکن اقوام متحدہ کے بیان کے مطابق: ’’جنوبی سوڈان کو دنیا کے بدترین غذائی بحران کا سامنا ہے‘‘۔
پھر صرف جنوبی سوڈان ہی کو الگ کرنے پر اکتفا نہیں کیا گیا، سوڈان کے مغربی علاقے دار فور میں بھی شورش برپا کردی گئی۔ جنوبی سوڈان میں محرومیوں کا واویلا اور مسلم مسیحی اختلافات کی آگ بھڑکائی گئی تھی، دار فور میں عربی الاصل اور افریقی الاصل مسلمان قبائل کو جنگ کی آگ میں جھونک دیا گیا ہے۔
ایک طرف افغانستان، مختلف بھارتی ایجنسیوں اور بے خبر بلوچ نوجوانوں کو اپنے ناپاک عزائم کی بھینٹ چڑھانے کے لیے قائم، تربیتی کیمپوں کی آماج گاہ بن چکا ہے۔اور دوسری جانب پاکستان کے قریب ترین دوست اور برادر ممالک علی الاعلان بلوچستان الگ کرنے کی بات کر ر ہے ہیں۔ یقینا اس کی وجہ ایران عرب مخاصمت اور شیعہ سُنّی تنازعات کا افسوس ناک عروج ہے۔ یہ ممالک کبھی کبھی اس سے پاکستان کو مستثنیٰ قرار دیتے ہیں، اور ان کے سرکاری و غیر سرکاری ذرائع ابلاغ صرف ’ایرانی بلوچستان‘ کا نام ہی لیتے ہیں، لیکن اس تجاہلِ عارفانہ اور خودفریبی سے وہ عالمی منصوبے تبدیل نہیں ہوسکتے، جو پاکستان و ایران ہی نہیں ، خود افغانستان کے حصے بخرے کرنے کے لیے نافذ کیے جارہے ہیں۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ تقسیم در تقسیم کیے جانے کے ان منصوبوں کی فہرست میں تقریباً تمام ہی عرب ممالک کا نام بھی شامل ہے، حتیٰ کہ مکہ و مدینہ کو الگ کرنا بھی انھی مکروہ عزائم میں شامل ہے۔
منافقین نے ریاست نبویؐ مستحکم ہوتے دیکھی تو باہم مشورہ کرتے ہوئے اوس و خزرج اور انصار و مہاجرین کا تعصب اُبھارنا چاہا۔ آپؐ کو اطلاع ملی تو فوراً تشریف لائے۔ چہرئہ مبارک ناراضی سے سُرخ تھا۔ آتے ہی فرمایا: مَا بَالُ دَعْوَی الجَاھِلِیَّۃ ’یہ کیسی جاہلانہ بات ہے؟‘ پھر فرمایا: دعوھا فَاِنَّھَا فِتْنَۃ ’یہ تعصبات چھوڑ دو یہ بدبُودار لاش ہے‘۔
معروف تابعی جناب شَہر بن حوشب نے اُم المومنین حضرت اُم سلمہ سے دریافت کیا: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کون سی دُعا سب سے زیادہ کیا کرتے تھے؟ انھوں نے جواب دیا: آپ اکثر فرماتے تھے: یَامُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ، اے دلوں کو پھیرنے والے، میرے دل کو اپنے دین پر جما دے۔ اس بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اور معروف فرمان پر جتنا بھی غور کریں، رہنمائی کے نئے سے نئے باب کھلتے چلے جاتے ہیں۔
أَلَا وَ اِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَۃً اِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ لَہَا الْجَسَد وَ اِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ أَلَا وَ ہِیَ الْقَلْبُ ، خبردار رہو، جسم میں ایک لوتھڑا ایسا ہے کہ جب وہ درست ہوجاتا ہے تو سارا جسم درست رہتا ہے۔ وہ فساد زدہ ہوجاتا ہے تو سارا جسم فساد زدہ ہوجاتا ہے۔ خبردار رہو وہ دل ہے۔
یعنی دل ایمان، تقویٰ، عزیمت اور محبت کا مرکز بھی ہوسکتا ہے اور دل ہی کفر، عناد، تعصب، نفرت اور لالچ کی آماج گاہ بھی بن سکتا ہے۔ دلوں میں خیر و بھلائی کی شمع روشن ہوجائے، تو ایک فرد ہی نہیں، پوری قوم اور معاشرہ نجات و فلاح پاجاتا ہے۔ دل غفلت کا شکار ہوکر زنگ آلود ہوجائیں، گناہوں کے سیاہ نقطے بڑھتے بڑھتے پورے دل کو لپیٹ میں لے لیں تو افراد ہی نہیں، اقوام و ممالک تباہی و بربادی کی جانب بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
شیطان رجیم بھی اپنے دل میں پائے جانے والے تکبر اور عناد کی وجہ سے تباہ ہوا۔ پھر آدم و حوا علیہما السلام پر بھی دل ہی کی راہ سے حملہ آور ہوا: فَوَسْوَسَ لَہُمَا الشَّیْطَانُ، (شیطان نے ان کے دل کو بہکایا)۔ آکر بڑے چاپلوسانہ انداز میں قسمیں کھا کھا کر کہنے لگا: اِنِّی لَکُمَا لَمِنَ النَّاصِحِیْنَ (میں آپ دونوں کا بڑا خیر خواہ ہوں)۔ پھر کائنات کا پہلا قتل بھی آدم علیہ السلام کے دوبیٹوں میں سے ایک کے دل میں نفرت و حسد کی آگ بھڑکاتے ہوئے کروایا گیا۔ ایک کے اخلاص قلب اور تقویٰ کے باعث، اس کی قربانی قبول ہوئی، دوسرے کے دل میں کھوٹ تھا، عمل قبول نہ ہوا۔ بجاے اس کے، کہ وہ اپنی اصلاح کرتا، حسد اور نفرت کی آگ میں جلتے ہوئے اس نے بھائی کے قتل کا ارادہ و اعلان کردیا۔ لَأَقْتُلَنَّکَ (میں تمھیں قتل کرکے چھوڑوں گا)۔
رب ذوالجلال نے نفرت و حسد پر مبنی اس واقعے کا ذکر کرنے کے بعد کسی ایک بے گناہ کا قتل پوری انسانیت کا قتل قرار دے دیا اور کسی ایک انسان کو بچالینا گویا پوری انسانیت کو بچالینا قرار دیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس جرم کی سنگینی بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ قتل ہونے والا کوئی بے گناہ ایسا نہیں ہے کہ اس کے قتل کے گناہ کا ایک حصہ آدم علیہ السلام کے قاتل بیٹے کو نہ پہنچتا ہو، کیوں کہ اس نے قتل متعارف کروایا۔ گویا اتنے خوفناک عذاب کا آغاز دل میں جلنے والی آتش حسد و نفرت سے ہوا۔ سب مل کر اسے بجھانے کی کوشش کریں گے تو ایک بار پھر باہم محبت و اخوت کی نعمت نصیب ہوجائے گی۔ دنیا ہی نہیں آخرت بھی سنور جائے گی:
وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا ص وَ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآئً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا ج وَ کُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْھَا ط کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَO( اٰل عمرٰن۳: ۱۰۳ ) سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔اللہ کے اُس احسان کو یاد رکھو جو اُس نے تم پر کیا ہے۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اس نے تمھارے دل جوڑ دیے اور اس کے فضل وکرم سے تم بھائی بھائی بن گئے۔ تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے ، اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا۔اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمھارے سامنے روشن کرتا ہے شاید کہ ان علامتوں سے تمھیں اپنی فلاح کا سیدھا راستہ نظر آجائے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ساتھ دینے پر آمادہ صادق الایمان نوجوانوں کی یہ دعا کہ: ’’ہمیں ظالم لوگوں کے لیے فتنہ نہ بنا‘‘، بڑے وسیع مفہوم پر حاوی ہے۔ گمراہی کے عام غلبہ و تسلّط کی حالت میں جب کچھ لوگ قیامِ حق کے لیے اُٹھتے ہیں، تو اُنھیں مختلف قسم کے ظالموں سے سابقہ پیش آتا ہے:
اس صورتِ حال میں ان داعیانِ حق کی ہر ناکامی، ہر مصیبت، ہرغلطی، ہر کمزوری اور ہرخامی ان مختلف گروہوں کے لیے مختلف طور پر فتنہ بن جاتی ہے۔ وہ کچل ڈالے جائیں یا شکست کھا جائیں تو:
اسی طرح اگر وہ اپنی دعوت کے کام میں کوئی غلطی کرجائیں، یا مصائب و مشکلات کی سہار نہ ہونے کی وجہ سے کمزوری دکھا جائیں، یا ان سے ، بلکہ ان کے کسی ایک فرد سے بھی کسی اخلاقی عیب کا صدور ہوجائے، تو بہت سے لوگوں کے لیے باطل سے چمٹے رہنے کے ہزار بہانے نکل آتے ہیں، اور پھر اس دعوت کی ناکامی کے بعد مدت ہاے دراز تک کسی دوسری دعوتِ حق کے اُٹھنے کا امکان باقی نہیں رہتا۔
رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ O [یونس ۱۰:۸۵] خدایا، ہم پر ایسا فضل فرما کہ ظالم لوگوں کے لیے ہمیں فتنہ نہ بنا۔
یعنی ہم کو غلطیوں سے، خامیوں سے، کمزوریوں سے بچا، اور ہماری سعی کو دنیا میں بارآور کردے، تاکہ ہمارا وجود تیری خلق کے لیے سبب خیر بنے، نہ کہ ظالموں کے لیے وسیلۂ شر۔ (تفہیم القرآن، ج۲،ص ۳۰۶-۳۰۷)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبی رحمت ہیں۔ آپؐ کی جملہ تعلیمات ساری انسانیت کے لیے سراسر رحمت ہے۔ آپؐ کی انسانیت نواز تعلیمات میں سے ایک اہم تعلیم یہ ہے کہ حسد سے بچا جائے اور باہم خیرخواہی کی جائے۔آپؐ نے حسد کی سخت مذمت فرمائی۔ فرمایا: حسد کی آگ انسان کی نیکیوں کو جلاکر خاکستر کردیتی ہے اور یہ وہ بیماری ہے جس نے سابقہ اُمتوں کے دین و ایمان کو برباد کردیا ہے۔ جس دل میں حسد کی آگ جلتی ہے وہ کسی بھی حال میں اس کو چین لینے نہیں دیتی۔ حاسد محسود کو نیچا دکھانے، اس کی غِیبت کرنے اور موقع پاکر اس کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں لگارہتا ہے۔ شاید اس طرح وہ اپنے دل کو تسکین کا سامان فراہم کرنے کی سعی لاحاصل میں لگا رہتا ہے۔ اسی لیے بعض دانش وروں نے کہا کہ: ’’حسد ایک ایسی آگ ہے، جس میں انسان خود جلتا ہے ، لیکن دوسروں کے جلنے کی تمنا بھی کرتا ہے‘‘۔
اسلام انسان کو سیرت و کردار کی اس پستی سے اُوپر اُٹھاتا ہے اور ان ساری خامیوں اور خرابیوں کو اس کے سینے سے نکال دیتا ہے جو معاشرے کی تباہی و بربادی کا سبب بنتی ہیں اور انسانوں کے دلوں کی کھیتی کو پیار، محبت، ہمدردی، خیرخواہی اور رافت و رحمت کی بارانِ رحمت سے سیراب کرتا ہے۔ اس طرح معاشرے میں اطمینان و سکون اور امن و امان بحال ہوتا ہے۔
امام راغب اصفہانی ؒ فرماتے ہیں: ’’حسدیہ ہے کہ حاسد منعم علیہ سے زوالِ نعمت کی تمنا کرے اور بسااوقات حاسد محسود سے ان نعمتوں کے زوال کے درپے ہوتا ہے‘‘۔ (مفردات القرآن،ص ۲۳۴)
۲- بعض سلف صالحین سے منقول ہے کہ حسد پہلا گناہ ہے جس کے ذریعے آسمان میں اللہ کی نافرمانی کی گئی اور زمین پر بھی یہ پہلا گناہ ہے جس سے اللہ کی نافرمانی ہوئی۔ آسمان میں ابلیس نے اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا، اور زمین پر پہلا خون اسی سے ہوا ہے کہ آدم ؑ کے بیٹے قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو حسد ہی کی بنیاد پر قتل کر دیا تھا۔ (نضرۃ النعیم، ج۱۰، ص ۴۴۲۷)
۳- شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے ۔ اس کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ انسانوں کو آپس میں ایک دوسرے سے ٹکرائے اور ان کے دلوں میں بُغض و حسد کی آگ بھڑکائے۔ برادرانِ یوسفؑ کے دلوں میں بھی اسی نے حضرت یوسف ؑ کے خلاف حسد کی آگ لگائی تھی اور ان کے قتل پر آمادہ کیا تھا۔ جیساکہ قرآن نے برادرانِ یوسف ؑ کا یہ قول نقل کیا ہے:’’جب انھوں نے آپس میں تذکرہ کیا کہ یوسفؑ اور اس کا بھائی ابا کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں، حالاں کہ ہم جماعت کی جماعت ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ ابا صریح غلطی پر ہیں۔ چلو یوسفؑ کو قتل کردو یا اس کو کہیں پھینک دو کہ تمھارے ابا کی توجہ تمھاری ہی طرف ہوجائے‘‘۔ (یوسف۱۲:۹)
۴- یہودی مسلمانوں سے بُغض و حسد رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اُمت مسلمہ سے پہلے یہودی امامت ِ عالم کے منصب ِ جلیل پر فائز تھے اور سلسلۂ نبوت ان ہی کے خاندان میں چلاآرہا تھا۔اللہ تعالیٰ نے ان کی اَخلاقی پستی اور نااہلی کی وجہ سے امامت ِ عالم کے عظیم منصب سے ان کو معزول کردیا۔ نبوت اولادِ اسماعیلؑ کی طرف منتقل کر دی گئی تو یہودی چراغ پا ہوکر غم و غصے اور حسد میں مبتلا ہوگئے کہ یہ نبوت تو ہمارے خاندان کی میراث تھی۔ بنی اسماعیل اس کے کیوں کر مستحق ہوسکتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: نبوت انعامِ الٰہی ہے۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اپنے فضلِ خاص سے نواز دیتا ہے۔اس سلسلے میں حیل و حجت کرنے کا تمھیں کوئی اختیار نہیں ہے:
اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰی مَآ اٰتٰھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ج فَقَدْ اٰتَیْنَآ اٰلَ اِبْرٰھِیْمَ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ اٰتَیْنٰھُمْ مُّلْکًا عَظِیْمًا O(النساء۴:۵۴) پھر کیا یہ دوسروں سے اس لیے حسد کرتے ہیں کہ اللہ نے انھیں اپنے فضل سے نواز دیا؟ اگر یہ بات ہے تو انھیں معلوم ہو کہ ہم نے تو ابراہیمؑ کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا کی اور ملک ِ عظیم بخش دیا۔
۱- بُغض و عداوت: ایک دشمن کی آرزو ہوتی ہے کہ اس کا دشمن کسی مصیبت میں گرفتار ہوجائے۔ پھر اتفاق سے اگر اس کا دشمن کسی مصیبت سے دوچار ہوجائے تو اس کو دلی خوشی ہوتی ہے اور یہی حسد ہے۔ کافروں کو مسلمانوں سے اسی قسم کا حسد ہوتا ہے: اِنْ تَمْسَسْکُمْ حَسَنَۃٌ تَسُؤْھُمْز وَ اِنْ تُصِبْکُمْ سَیِّئَۃٌ یَّفْرَحُوْا بِھَا ط (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۲۰)’’تمھارا بھلا ہوتا ہے تو ان کو بُرا معلوم ہوتا ہے اور تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یہ خوش ہوتے ہیں‘‘۔
۲- ذاتی فخر کاخیال: یہ عموماً امثال واقران (ہم عمر لوگ) میں ہوتا ہے۔ اگر ان میں سے کوئی ترقی کرجائے تو اس کے دوسرے ساتھیوں کو یہ بات گراں گزرتی ہے۔
۳- ایک شخص کسی کو اپنے حلقۂ ارادت میں باندھے رکھنا چاہتا ہے، مگر وہ کسی امتیاز کی وجہ سے اس کے حلقے سے نکل جائے تو اس کو حسد پیدا ہوتا ہے۔ کفارِ قریش کا کمزور مسلمانوں سے حسد اسی قسم کا تھا۔ وہ کہا کرتے تھے: اَھٰٓؤُلَآئِ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنْم بَیْنِنَا ط (انعام ۶:۵۳) ’’کیا یہ ہیں وہ لوگ جن پر ہمارے درمیان اللہ کا فضل و کرم ہوا ہے؟‘‘
۴- اپنی نظر میں کسی کو معمولی اور حقیر سمجھنا، پھر اگر اس کو کوئی شرف حاصل ہوجائے تو اس سے حسد کرنا۔ سردارانِ قوم، انبیا علیہم السلام سے اسی بنیاد پر حسد کرتے تھے۔
۵- دو آدمیوں میں کوئی وجہِ اشتراک ہو۔ ان میں سے کسی ایک کو کامیابی مل جائے تو دوسرا حسد میں مبتلا ہوتا ہے۔ حضرت یوسفؑ کے بھائیوں کا حسد اسی قسم کا تھا۔ یا ایک شوہر کی متعدد بیویاں ہوں تو ان میں حسد کی وجہ یہی ہوتی ہے۔
۶- جاہ پرستی اور ریاست طلبی: یہودیوں کو مسلمانوں سے اسی بنیاد پر کدوحسد ہے۔
۷- خبث نفس اور بدطینتی: بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی فطرت ہی میں کجی ہوتی ہے۔ وہ کسی کا بھلا نہیں چاہتے۔ (سیرت النبیؐ، ج۶،ص ۴۸۹)
۸- راضی برضا رہنا: اللہ تعالیٰ اس زمین کا خالق و مالک اور مختارِ کُل ہے۔ وہ اس میں جیسا چاہے تصرف کرسکتا ہے۔ اس پر کسی کو اعتراض کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ وہ جس کو چاہتا ہے بادشاہت عطا کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے فقیر بنادیتا ہے۔ جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلیل کردیتا ہے۔ کسی کو صاحب ِ اولاد بناتا ہے اور کسی کو اولاد سے محروم کردیتا ہے۔ کسی کو صحت دیتا ہے اور کسی کو بیماریوں میں مبتلا کردیتا ہے۔ انسان کے لیے ضروری ہے کہ تمام معاملات کو اللہ کے حوالے کردے اور خود اپنے تئیں راضی برضا رہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ لَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ ط (النساء۴:۳۲) ’’اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ دیا ہے اس کی تمنا نہ کرو‘‘۔ اور آگے فرمایا: وَسْئَلُوا اللّٰہَ مِنْ فَضْلِہٖ ’’ہاں! اللہ سے اس کے فضل کی دُعا مانگتے رہو‘‘۔
بعض انسانوں کی ذہنیت ہوتی ہے کہ وہ کسی کو اپنے سے بڑھا ہوا دیکھنا پسند نہیں کرتے، اور یہ ذہنیت اجتماعی زندگی میں فساد کی جڑ ہے۔ اس آیت کریمہ میں اسی غلط فکر کی اصلاح کی گئی ہے اور اس کو بدلنے کی تعلیم دی گئی ہے، تاکہ معاشرہ ہمہ قسم کے فسادات سے پاک ہوسکے۔
دَبَّ اِلَیْکُمْ دَاءُ الْامَمِ قَبْلَکُمْ، اَلْحَسَدُ وَالْبَغْضَاءُ ھِیَ الْحَالِقَۃُ: لَا أَقُوْلُ تَحْلِقُ الشَّعْرَ وَلٰکِنْ تَحْلِقُ الدِّیْنَ (ترمذی)پہلی اُمتوں کی بیماری آہستہ آہستہ تمھاری طرف سرکتی آرہی ہے۔ وہ حسد اور دشمنی ہے۔ وہ (حالقہ) مونڈنے والی ہے۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ وہ بالوں کو مونڈتی ہے بلکہ دین کو مونڈ کر صاف کردیتی ہے۔
اِیَّاکُمْ وَالْحَسَدَ ، فَاِنَّ الْحَسَدَ یَأْکُلُ الْحَسَنَاتِ کَمَا تَأْکُلُ النَّارُ الْحَطَبَ (کتاب الادب: ۴۹۰۳) لوگو! حسد سے بچو، کیوں کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھاجاتا ہے جس طرح آگ ایندھن کو کھا جاتی ہے۔
ان ہی وجوہات کی بنیاد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو تعلیم دی ہے کہ اپنے دلوں کو حسدسے بچائے رکھیں اور اس کا تریاق یہ بتایا کہ آپس میں اخوت و محبت کو پروان چڑھائیں۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وَلَا تَحَاسَدُوْا وَلَا تَبَاغَضُوْا وَکُوْنُوْا عِبَادَ اللہِ اِخْوَاناً (بخاری، کتاب الادب: ۶۰۶۶) اور ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، باہم دشمنی نہ رکھو، اللہ کے بندو! سب بھائی بھائی بن کر رہو۔
وَلَا یَجْتَمِعَانِ فِیْ قَلْبِ عَبْدٍ الْاِیْمَانُ وَالْحَسَدُ (النسائی عن ابی ہریرۃؓ، کتاب الجھاد:۳۱۱۱، حسن) ’’ کسی بندے کے دل میں ایمان اورحسد جمع نہیں ہوسکتے۔
حضرت معاویہ ؓ فرماتے ہیں : ’’میں حاسد کے سواسب آدمیوں کو خوش کرسکتاہوں،کیوں کہ حاسد زوالِ نعمت کے بغیر راضی نہیں ہوتا‘‘۔(نضرۃ النعیم، ج۱۰، ص:۴۴۲۹)
وَدَّ کَثِیْرٌ مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِّنْم بَعْدِ اِیْمَانِکُمْ کُفَّاراً حَسَداً مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِہِمْ مِّنْم بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الْحَقُّ فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہِ ط اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ O (البقرہ۲:۱۰۹)اہل کتاب میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تمھیں ایمان سے پھیر کرپھر کفر کی طرف پلٹالے جائیں۔ اگرچہ حق ان پرظاہر ہوچکاہے ، مگر اپنے نفس کے حسد کی بناپر تمھارے لیے ان کی یہ خواہش ہے۔ تم عفو و درگزر سے کام لو۔ یہاں تک کہ اللہ خود ہی اپنا فیصلہ نافذ کردے۔ مطمئن رہوکہ اللہ ہرچیزپرقدرت رکھتاہے۔
حسد نہایت بُری بلاہے، جس سے اللہ کی پناہ ڈھونڈنی چاہیے۔ ، قرآن مجید میں حاسد کے شر سے اللہ کی پناہ چاہی گئی ہے ، جیساکہ ارشاد ہے: وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ O (الفلق۱۱۳ :۵) ’’(میں اللہ کی پناہ میں آتاہوں)حاسد کے شر سے، جب کہ وہ حسد کرے ‘‘۔
۱- اللہ کی حفاظت طلب کی جائے اوراس کے لیے دعاؤں کااہتمام کیاجائے ۔
۲-حاسد کی باتوں پرصبر کیاجائے ، اس کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے ، اوراس کو نقصان پہنچانے کا خیال تک دل میں نہ لایاجائے ۔
۳- ہرحال میں تقویٰ کی روش پرقائم رہاجائے اوراللہ تعالیٰ کو یادکرتارہے ۔ جو متقی ہوتا ہے خود اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت فرماتاہے،جیساکہ ارشاد الٰہی ہے : وَ اِن تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُہُمْ شَیْئًا ط ( اٰل عمرٰن۳:۱۲۰) ’’مگر ان کی کوئی تدبیر تمھارے خلاف کارگر نہیں ہوسکتی، بشر طیکہ تم صبر سے کام لو اوراللہ سے ڈر کرکام کرتے رہو‘‘۔
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عباسؓ سے فرمایاتھا : اِحْفَظِ اللہَ یَحْفَظْکَ اِحْفَظِ اللہَ تَجِدْہُ تُجَاھَکَ (ترمذی ، ابواب صفۃ القیامۃ )’’تم اللہ کو یادرکھو، اللہ تمھاری حفاظت کرے گا۔ تم اللہ کو یادرکھو، اللہ کو اپنے سامنے پاؤگے‘‘۔
۴- اللہ پر توکل کرے :یہ دفعِ مظالم کے لیے سب سے طاقت ورذریعہ ہے۔جس کے لیے اللہ کی ذات کافی ہواس کوکسی دشمن کے ضررسے خوف کھانے کی ضرورت نہیں ہے ۔اللہ کا ارشادہے : وَمَن یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسْبُہٗ ط (الطلاق۶۵:۳)’’جو اللہ پر بھروسا کرے، اس کے لیے وہ کافی ہے ‘‘۔
۵- حاسد کی فکر سے دل کوفارغ کرلے ،ا وراس کونظر انداز کردے۔ یہ ایک فائدہ مند نسخہ ہے اوراس کے شر سے خود کوبچانے کی ایک بہترین تدبیرہے ۔
۶-اللہ کی طرف متوجہ ہواوراس سے اپنے تعلق کو اخلاص ،انابت اوراس سے محبت اوررضا کی بنیاد پر استوارکرے۔ ایسابندہ اللہ کی حفظ وامان میں ہوتاہے ، جیساکہ ارشادہے :
اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطَانٌ (الحجر۱۵:۴۲) بے شک جو میرے حقیقی بندے ہیں ان پرتیرابس نہیں چلے گا۔
۷-اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے گناہوں اورنافرمانیوں سے توبہ کرے ، کیوں کہ دشمن کے غلبے اور تسلط کاایک اہم سبب بنی آدم کے گناہ بھی ہیں ، جیساکہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے :
وَمَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُم(الشورٰی ۴۲:۳۰) تم لوگوں پر جوبھی مصیبت آئی ہے تمھارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے آئی ہے ۔
۸- صدقہ وخیرات کرتارہے۔ اس کی بھی بڑی عجیب وغریب تاثیرہے ۔ نظرِ بد ، دفعِ بلا اور حاسد کے شر سے بچنے کی یہ ایک کارگرتدبیر ہے ۔
۹- حاسد کے ساتھ بھلائی اوراحسان کامعاملہ کرے۔ اگرچہ نفس پریہ نہایت شاق گزرتا ہے ، مگر حاسد کے شرسے بچنے کی یہ بڑی اچھی تدبیرہے ،جیساکہ اللہ تعالیٰ کاارشادہے :
وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ ط اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ (حم السجدۃ۴۱:۳۴-۳۶) (اوراے نبی ؐ!) نیکی اوربدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کروجو بہترین ہو۔تم دیکھوگے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیاہے ۔
۱۰-عقیدئہ توحید پر مضبوطی سے جمارہے اوراپنے معاملات کی باگ ڈوراللہ تعالیٰ کے حوالے کردے، کیوں کہ نفع ونقصان کااکیلا مالک وہی ہے۔اس کی مرضی کے بغیر کوئی کسی کونقصان نہیں پہنچا سکتا اورنہ فائدہ ہی پہنچاسکتاہے ،جیساکہ اللہ تعالیٰ کاارشادہے :
وَ اِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہٗٓ اِلاَّ ہُوَ ج وَ اِنْ یُّرِدْکَ بِخَیْرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضْلِہٖط (یونس۱۰:۱۰۷)اگر اللہ تجھے کسی مصیبت میں ڈالے تو خود اس کے سوا کوئی نہیں جو اُس مصیبت کو ٹال دے ، اوراگروہ تیرے حق میں کسی بھلائی کاارادہ کرے تو اس کے فضل کوپھیرنے والابھی کوئی نہیں ہے۔
موجودہ دور میں مسلم معاشرہ جن مہلک اخلاقی بیماریوں میں مبتلا ہے، ان میں سرفہرست حسد ہے۔شاید ہی کوئی گھرانا اورخاندان اس سے محفوظ ہو۔یہ مرض اس قدر سرایت کرگیا ہے کہ مسلم ممالک بھی آپس میں اس ناسور کا شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نہ خود ترقی کرتے ہیں اورنہ دوسروں کی ترقی ہی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرتے ہیں۔مسلم ممالک اور عوام کے پاس اللہ کا دیا ہوا بہت کچھ ہے، مگر یہ طاقت وصلاحیت تعمیری کاموں میں کم ہی خرچ ہوپاتی ہے۔ملت کی تعمیر وترقی کے لیے ضروری ہے کہ مسلم معاشرے کا ہر فرد اس مہلک مرض سے محفوظ رہے۔ سچ فرمایا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے : ’’لوگ اس وقت تک خیر وبھلائی پر رہیں گے ، جب تک ایک دوسرے سے حسد کرنے سے محفوظ رہیں گے‘‘۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس ناسور سے محفوظ رکھے۔ آمین!
گذشتہ تین صدیوں میں انسانیت، مغرب کی زیر قیادت چار بڑے معاشی نظاموں کے تجربے سے گزری ہے: سرمایہ داری، سوشلزم [اشتراکیت]، قوم پرستانہ فاشزم اور فلاحی ریاست___ مغربی فکر سے جنم لینے والے ان تمام نظاموں کی اساس اس تصور پر استوار تھی کہ انسان کے معاشی اور اجتماعی مسائل کے حل کے لیے، مذہب اور اخلاقیات کی چنداں ضرورت نہیں ہے، اور معاشی معاملات کا بہترین حل صرف معاشی رویوں اور سیاسی ضابطوں کے تحت تلاش کیا جاسکتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ:
بلاشبہہ کچھ مخصوص میدانوں میں ان سب نے بعض نمایاں کامیابیاں حاصل کیں، مگر اس کے باوجود یہ چاروں نظریات، حقائق کی دنیا میں انسانیت کے معاشی اور سماجی مسائل حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ حالیہ تاریخ میں قوم پرستانہ فاشزم سب سے پہلے ردی کی ٹوکری کی نذر ہوا۔ پھر اس کارگہِ حیات میں گرنے اور بکھرنے والا بت، سوشلزم ہے۔ بلاشبہہ دوسرے دونوں نظریات بظاہر ابھی تک صحت مند دکھائی دے رہے ہیں، لیکن غور سے دیکھا جائے تو اپنے باطن میں وہ بھی موت آفریں کش مکش میں مبتلا ہیں۔ غربت، بے روزگاری، افراطِ زر اور قرض کے ناقابلِ برداشت بوجھ نے ان کی چولیں ہلا رکھی ہیں اور کوئی تدبیر تاریخ کا رُخ بدلتی نظر نہیں آرہی۔ اہلِ نظر، اقبال کے ہم نوا ’منتظر روزِ مکافات‘ ہیں:
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
دُنیا ہے تیری منتظر روزِ مکافات
ہمارے خیال میں یہ ایک غیر دانش مندانہ مفروضہ ہے کہ ’’سوشلزم کے انہدام سے سرمایہ داری اور فلاحی ریاستی تصور نے نہ صرف اپنا انتقام لے لیا ہے، بلکہ اب یہی ایک فاتح اور زندہ رہنے والے نظام کی حیثیت سے بقاے باہمی کی اس دوڑ میں باقی رہ گیا ہے‘‘۔ اور سرمایہ دارانہ جمہوری استعمار کی شیخی پر مبنی یہ غلط فہمی کہ سوویت یونین [یعنی سوشلسٹ روسی سلطنت اور نظریے]کے زوال نے گویا ’نظریاتی پیکار کی تاریخ کے خاتمے‘ کا اعلان کر دیا ہے، مغربی اہل دانش کے جذباتی طرزِ فکر کی غمازی کرتی ہے۔
یہ اَمرواقعہ ہے کہ سوویت یونین کے انہدام اور سوشلزم کے زوال نے بہت سے نئے سوالات کو جنم دیا ہے۔ ایسے سوالات کہ جن کا تعلق انسانیت کے نظریاتی و سماجی مستقبل سے ہے، مثلاً یہ کہ:
۱- کیا سوشلزم کا خاتمہ درحقیقت مغربی سرمایہ دارانہ معاشی نظام اور سیاسی لبرل ازم کی قطعی فتح مندی کا مظہر ہے؟ (جس کا دعویٰ مغربی سرمایہ داری کے علَم بردار کرتے ہیں)
۲- کیا سوشلزم کی اس ’موت‘ نے واقعی ’نظریاتی پیکار کے تاریخی عمل‘ کے خاتمے کا اعلان کردیا ہے؟ یا پھر ایک نئے مرحلے کو جنم دیا ہے کہ جو تاریخ کے ایک نہ ختم ہونے والے بہائو اور نشیب و فراز کی کشاکش کی طرف رواں ہے؟
۳- اگر سوشلزم اپنے فکری و عملی تضادات کے بوجھ تلے دم توڑ دیا گیا ہے، تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ خود سرمایہ دارانہ نظام نے اپنے داخلی و خارجی تضادات، غیرمنصفانہ رویوں اور دیگر بہت سی سماجی ناکامیوں پر قابو پالیا ہے؟
۴- اگر سوشلزم کا عروج جزوی طور پر اس چیز کا مظہر تھا کہ اسے سرمایہ دارانہ نظام کا بے رحمانہ استحصالی پہلو دکھائی دے رہا تھا، جس کے پکے ہوئے ناسور پر اس نے نشتر لگایا، تو پھر کیا سوشلزم کے انہدام کا مطلب یہ ہے کہ اس نے سرمایہ داری کا جو استحصالی پہلو دیکھا تھا وہ کوئی گمراہ کن فریب نظر تھا؟
۵- کیا آج کی ترقی یافتہ اقوام سے تعلق رکھنے والا انسان، اعلیٰ مادی معیارات پر مشتمل سہولت بخش زندگی پالینے کے نتیجے میں واقعی سکون و طمانیت کے دامن میں اپنے آپ کو موجود پاتا ہے؟ یا پھر یہ مراعات یافتہ انسان بھی فکروعمل کی دنیا میں، اپنی داخلی، سماجی اور معاشی زندگی کو جوں کا توں گہرے بحران میں مبتلا ہی پاتا ہے؟
۶- کیا اس سارے عمل نے انسانیت کو ایک متبادل، سماجی اور معاشی نظام کی تلاش کے رستے پر ڈال دیا ہے؟ اور انسانی معاشرہ آج بھی انصاف اور سکون اور چین کے حصول سے اسی طرح محروم ہے، جس طرح کل سوشلسٹ انقلاب سے پہلے تھا؟
مندرجہ بالا سوالات ذہنوں اور ضمیروں میں نہ صرف اضطراب پیدا کر رہے ہیں، بلکہ شافی جواب کے بھی طلب گار ہیں۔
سوشلزم یا مارکس ازم انیسویں صدی کے بہت سارے نظریات اور مفروضوں کا ملغوبہ ہے، جس میں فریڈرک ہیگل [م: ۱۸۳۱ء]کی جدلیات، لوردویگ فویرباخ [م: ۱۸۷۲ء]کی مادیت، جولیس مچل [م: ۱۸۷۴ء] کی طبقاتی کش مکش، ایڈم اسمتھ [م: ۱۷۹۰ء] اور ڈیوڈ رکارڈو [م:۱۸۲۷ء] کی معاشی فکر ، انقلابِ فرانس کے جارحانہ نعروں۱ اور چارلس ڈارون [م: ۱۸۸۲ء] کے ’حیوانی نظریۂ ارتقا‘ نے اس سیکولر روشن خیالی کو سینچا۔ خود کارل مارکس [م: ۱۸۸۳ء] انھی سیکولر اور مذہب مخالف افکار میں پروان چڑھا۔۲
سوشلزم کی تجربہ گاہ سوویت یونین اور سفاکانہ سرمایہ داری کے مراکز امریکا و یورپ کے مابین اسٹرے ٹیجک عسکری ’سرد جنگ‘ اپنے انجام کو پہنچ گئی ہے۔ اس کی جگہ اسٹرے ٹیجک معاشی جنگ نے لے لی ہے اور نئے جنگی کھیل کے نئے کھلاڑی سامنے آگئے۔۳ اور یوں ترقی، دولت اور ٹکنالوجی کی مالک ریاستوں کا غیراعلان شدہ مقصد تو دنیا بھر کے وسائل پر قبضہ جمانا اور ان تہذیبوں کو مغربی تہذیب کا خوشہ چیں بنانا ہی ٹھیرا ہے، جب کہ اعلان شدہ مقصد اپنے اور محض اپنے شہریوں کے معیارِ زندگی کو بلند کرنا ہے۔۴ اور وہ بھی تین چوتھائی سے زیادہ انسانوں کو حسرتوں، محکومیوں، ذلتوں اور غلامی کے گرداب میں پھنسا کر!
سوشلزم یا مارکس ازم کا انہدام خود مغربی دانش وروں کے لیے ایک ہوش ربا معما ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ: ’’چنگیز خان [م: ۱۲۲۷ء] یورپ فتح کرنے کی خواہش لیے آگے بڑھ رہا تھا، کہ اچانک اس کے بڑھتے ہوئے قدم رُک گئے۔ وہ فوری طور پر پلٹا اور وسطی ایشیا میں جاکر دم لیا۔ اس اعتبار سے کمیونزم کی اچانک موت بھی چنگیز خان کی اسی پُراسرار پسپائی سے مشابہت رکھتی ہے‘‘۔۵ لیکن یہ تحیر آمیز مسئلہ صرف ان دانش وروں کا ہے، جنھوںنے انسانی زندگی کے اجتماعی رویوں اور مسئلوں کو محض مادی طاقت اور حیوانی جذبوں کی میزان پر رکھ کر پرکھا ہے، وگرنہ اہلِ نظر تو اس عبرت ناک انجام کی خبر بہت پہلے سے دے رہے تھے۔۶
برصغیر پاک و ہند میں احیاے اسلام کی تحریک نے دیگر نظاموں اور استعماری فتنوں کے ساتھ اشتراکیت کو بھی اپنے سنجیدہ مطالعے کا موضوع بنایا۔۷ اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ سوویت یونین مسلمانوں کے ایک بڑے حصے کو اپنی ظالمانہ نوآبادی بنانے، مسلمان ملکوں میں اندھی بہری آمریتوں کو سہارا دینے اور اباحیت و دہریت کو پروان چڑھانے کے ساتھ غیرفطری معاشی نظام کا بھی علَم بردار تھا۔ اگرچہ اس سے قبل مغربی نوآبادیاتی تسلط اور الحادی تحریک کے بالمقابل اسلامی فکر کے علَم بردار پوری قوت سے نبردآزما تھے (جس کا بہت بڑا ثبوت آزادی کی تمام تحریکوں میں اسلامی فکروعمل کے حامل افراد کا شان دار کردار ہے)، لیکن سمرقند و بخارا کے المیے نے مسلمانوں کو اس فتنے کا اور زیادہ وسعت کے ساتھ ادراک کرنے پر اُبھارا۔ یہ الگ بات ہے کہ اشتراکی فکر کو نہ صرف جدید تعلیم یافتہ،بلکہ مسلم مذہبی فکر کے دعوے داروں میں سے بھی ایک گروہ تائید و حمایت دینے کے لیے ملتا رہا۔
سوشلسٹ تہذیب، سوشلسٹ معیشت اور سوشلسٹ عسکریت کے انسانیت پر دُور رس مثبت اور منفی اثرات کا جائزہ لینے کے لیے بہت سا کام کرنے کی ضرورت ہے، اور یہ کام گہرے اور ٹھوس فکرومطالعے کا تقاضا کرتا ہے۔ اسی طرح روسی فیڈریشن میں محکوم مسلم ریاستوں کی حالت ِ زار پر تحقیق، تجزیے اور جدوجہد کی تائید کے لیے مثبت اقدامات کی ضرورت ہے۔۸
اس تحقیق و تجزیے کا مقصد محض تاریخ کا ریکارڈ دیکھنا پرکھنا نہیں ہونا چاہیے، بلکہ زندگی کے فکری معاملات اور عملی مسائل کا ادراک اور ان کا حل پیش کرنا بھی ہونا چاہیے۔ تاریخ کا وہی مطالعہ حیات بخش ہے، جو عصری اور مستقبل کی زندگی کو روشنی عطا کرے۔
۱- ڈاکٹر محمد عمر چھاپرا، Islam and The Economic Challenge ، دی اسلامک فائونڈیشن، لسٹر، برطانیہ، ۱۹۹۲ء، ص ۷۲
۲- ’سوشلزم‘ بنیادی طور پر ’سیکولرزم‘ ہی کا ایک نتیجہ ہے، کیوں کہ سوشلسٹ تحریک نے انقلابِ فرانس کا ’تصور انسان دوستی‘ (Humanism) وراثت میں پایا اور حقیقت یہ ہے کہ سوشلزم: فرانس،بلجیم، آئرلینڈ، اٹلی، اسپین اور لاطینی امریکا کی ہسپانوی تہذیبوں میں نمو پانے والے جارحانہ الحاد کا کڑوا پھل تھا۔
Geroge Lichtheim ، A Short History of Socialism ، ۱۹۷۸ء، ص ۳۰۸-۳۰۹
۳- فوجی سپر طاقتوں کے ’سرد معرکے‘ میں ایک طاقت (سوویت یونین )فنا کے گھاٹ اُتر گئی اور دوسری قیادت (امریکا) عسکری طاقت کے حوالے سے ڈیڑھ عشرے تک فتح یاب قرار پائی۔ دوسری طرف معاشی وسائل پر قبضہ جمانے کے لیے یورپی یونین اور جاپان اور امریکا اور چین گویا کہ تین فریق برسرِپیکار ہیں۔ اور تیسری دنیا جو تین چوتھائی سے زیادہ آبادی کی مالک ہے، وہ اسی طرح خوار و زبوں حالی کا شکار رہے گی کہ جس کے تعلیمی، سیاسی اور معاشی مستقبل کے فیصلے معاشی دنیا کے یہ محکوم لوگ نہیں کریں گے، بلکہ مادی ترقی سے سرشار اور ٹکنالوجی سے ہم کنار تین چار ممالک ہی یہ کردار ادا کریں گے۔
۴- پروفیسر لسٹر تھرو کے بقول: ’’ان سوپر طاقتوں کے درمیان اس عالمی معاشی جنگ کا ایک ہدف یہ ہے کہ وہ اکیسویں صدی کے پہلے نصف میں اپنے شہریوں کو ان سات شعبوں میں وافر سہولتیں بہم پہنچا دیں، مثلاً: مائیکرو الیکٹرانک، بائیوٹکنالوجی، نیومیٹریل سائنس انڈسٹری، ٹیلی کمیونی کیشن، شہری ہوابازی، مشینی سازوں سے لیس روبوٹ اور کمپیوٹر مع سافٹ ویئر ۔ لسٹر تھرو، Head to Head: The Coming Battle Among Japan, Europe and America ، وارنر بکس، امریکا (۱۹۹۳ء)
۵- لسٹر تھرو، ایضاً، ص ۱۲-۱۳
۶- مولانا مودودیؒ نے ۳۰دسمبر ۱۹۴۶ء کو سیالکوٹ کے مضافات میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’ایک وقت آئے گا جب کمیونزم خودماسکو میں اپنے بچائو کے لیے پریشان ہوگا۔ سرمایہ دارانہ ڈیموکریسی خود واشنگٹن اور نیویارک میں اپنے تحفظ کے لیے لرزہ براندام ہوگی۔ مادہ پرستانہ نسل پرستی اور قوم پرستی خود برہمنوں اور جرمنوں میں اپنے معتقد نہ پاسکے گی‘‘۔ (شہادتِ حق،ص ۲۲)
۷- اس ضمن میں اُردو میں مولاناسیّدابوالاعلیٰ مودودی، مولانا مسعودعالم ندوی، مظہرالدین صدیقی، اعظم ہاشمی، چودھری علی احمد خان، پروفیسر عبدالحمید صدیقی، نذر محمد خالد، عبدالکریم عابد، چودھری غلام جیلانی، مولانا خلیل احمد حامدی، آبادشاہ پوری، حسین خان، سیّد اسعد گیلانی، مختارحسن، محمود احمد مدنی، مسلم سجاد، عطاء الرحمان، انیس احمد، رفیع الدین ہاشمی اور دیگر رفقا کی تحریریں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں، جب کہ نعیم صدیقی صاحب کی زیرنگرانی ادارہ دارالفکر، لاہور اور راقم کی ذمہ داری میں اسلامک ریسرچ اکیڈمی، کراچی کے پیش کردہ مطالعے اور خصوصاً ماہنامہ چراغِ راہ، کراچی کے ’سوشلزم نمبر‘ (۱۹۶۸ء) کا اپنا مقام ہے۔
۸- آباد شاہ پوری، ترکستان میں مسلم مزاحمت (۱۹۸۳ء)، آبادشاہ پوری، مسلم اُمہ سوویت یونین میں (۱۹۸۸ء)، ڈاکٹر سفیر اختر (مدیر) دو ماہی، وسطی ایشیا کے مسلمان ، ڈاکٹر طاہر امین، Afghanistan Crisis: Implications and Option for Muslim World, Iran and Pakistan (۱۹۸۲ء)،انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد۔
جب ہم خیر امت کی تاریخ کے روشن صفحات پر نظر ڈالتے ہیں تو اُمہات المومنینؓ کے حوالے سے بہت دل کش منظر سامنے آتا ہے۔ یہ منظر بتاتا ہے کہ اُمہات المومنینؓ میں آپس میں جس قدر الفت ومحبت تھی، اس کی نظیر سگی بہنوں میں بھی کہاں ملتی ہوگی؟ اُمہات المومنینؓ کی باہمی اخوت کو ایمانی اخوت کی بہترین مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ اُمہات المومنینؓ کے گھروں میں کتاب وحکمت کا خوب خوب چرچا رہتا تھا، اور اس کی برکت سے ان کی زندگی روشن سے روشن تر ہوتی جاتی تھی۔ اللہ کے رسولؐ کی تربیت کے فیض سے ان کی سیرت شاہ کار بن گئی تھی، ان کے دل کدورتوں سے پاک اور ان کی زبانیں بے اعتدالی سے دُور تھیں۔ ایسی پاک بی بیوںؓ کے بے مثال باہمی تعلقات کی مکمل عکاسی پیش کرنا نہ راویوں سے ممکن تھا اور نہ وہ کرسکے، بس کچھ جھلکیاں روایتوں کے ریکارڈ میں محفوظ ہوگئیں۔ انھی جھلکیوں سے بہت کچھ اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ اُمہات المومنینؓ کی باہمی قربت نے ایک مثالی انجمن [یہاں لفظ ’انجمن‘ سے مراد کوئی پارٹی نہیں بلکہ ’ ہم نشینی‘ اور ’مشارکت‘ ہے] کی صورت اختیار کرلی تھی، اور اس انجمن کے اندر ہر وقت بے لوث محبت،سچّی دوستی اور حقیقی خیر خواہی کا دور دورہ رہتا تھا۔ وہ ایک دوسرے کی بہت قریبی سہیلیاں تھیں۔ ان کا آپس میں جتنا گہرا تعلق تھا، اتنا گہرا تعلق اپنی دوسری رشتے دار خواتین سے بھی نہیں تھا۔وہ ایک دوسرے کی دم ساز اور ہم راز تھیں۔وہ جب اپنی ’سوتن‘ (ضَرَّۃٌ، ہم سر) کا ذکر کرتیں، تو صَوَاحِبْی کا لفظ استعمال کرتیں، یعنی سہیلیاں اور ہم جولیاں۔ اس انجمن کی مستقل ملاقاتیں اور نشستیں ہوا کرتی تھیں۔ کبھی اللہ کے رسولؐ کے ساتھ سب کی نشست ہوتی تھی، تو کبھی آپؐ کی عدم موجودگی میں بھی۔ انھیں اللہ کے رسولؐ کے سامنے اپنا کوئی مشترکہ مسئلہ رکھنا ہوتا تھا، تو پہلے وہ آپس میں مشورہ بھی کر لیا کرتی تھیں، اور پھر آپس ہی میں اپنا ایک نمایندہ طے کرکے اسے اللہ کے رسولؐ کے پاس بھیجتی تھیں، کہ وہ سب کی طرف سے عرض داشت پیش کرے۔ایک بار انھوں نے حضرت اُم سلمہؓ کو اپنا نمایندہ بنا کر بھیجا، ان کے الفاظ میں: کَلَّمَنِیْ صَوَاحِبِیْ اَنْ اُکَلِّمَ رَسُوْلَ اللہِ (مسند احمد)، میری سہیلیوں نے مجھ سے کہا کہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے (ایک مسئلے میں) بات کروں۔
اس بے مثال انجمن کی نشستیں اللہ کے رسول کے ساتھ روزانہ شام کوباری باری سب کے گھر میں ہوا کرتی تھیں: فَکُنَّ یَجْتَمِعْنَ کُلَّ لَیْلَۃٍ فِیْ بَیْتِ الَّتِیْ یَاْتِیْھَا (مسلم، باب القسم بین الزوجات، حدیث: ۲۷۳۴)۔ وہ بادل ناخواستہ محض اللہ کے رسولؐ کے حکم کی تعمیل میں اپنی سوتن کے گھر جمع نہیں ہوتی تھیں۔ امام نووی کہتے ہیں کہ وہ سب خوشی اور رضامندی سے اپنی کسی ایک ہم سر کے گھر جمع ہوجایا کرتی تھیں: ھٰذَا الْاِجْتِمَاعُ کَانَ بِرِضَاھُنَّ (شرح نووی)
جب اُمہات المومنینؓ کی اس انجمن میں کسی نئی رکن کا اضافہ ہوتا تو سب اس کا گرم جوشی سے پرتپاک خیر مقدم کرتیں، اور اپنے اچھے جذبات اور نیک تمناؤں کا اظہار کرتیں۔ اُم المومنین حضرت زینبؓ بنت جحش آپ کے نکاح میں آتی ہیں، نان گوشت کا ولیمہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد راوی کے بقول: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک کرکے تمام بیویوں کے حجروں میں تشریف لے جاتے ہیں، اور سب بارک اللہ لک کہہ کر خیر وبرکت کی دعائیں دیتی ہیں (بخاری، مسلم)۔ امام قرطبی اس منظر سے متاثر ہوکر لکھتے ہیں: سوتن کی آمد پر ان کا یہ انداز بیان بتاتا ہے کہ ان کی سوچ کتنی بلند تھی، ان کا ظرف کتنا بڑا تھا، ان کا ساتھ رہ کر جینے کا سلیقہ کتنا عمدہ تھا، ورنہ یہ تو سوتنوں کے لیے آپے سے باہر ہوجانے اور پاس ولحاظ بھول جانے کا موقعہ ہوتا ہے، لیکن وہ تو بہترین انسان کی بہترین بیویاں تھیں، وَصُدُوْرُ مِثْلِ ھٰذَا الْکَلَامِ عَنْھُنَّ فِیْ حَالِ اِبْتِدَاءِ اِخْتِصَاصِ الضَّرَۃِ الدَّاخِلَۃِ بِہٖ، یَدُلُّ عَلٰی قُوَّۃِ عُقُوْلِھِنَّ وَصَبْرِھِنَّ وَحُسْنِ مُعَاشَرَتِھِنَّ وَاِلَّا فَھٰذَا مَوْضِعُ الطَّیْشِ وَالْخِفَۃِ لِلِضَّرَائِرِ، لٰکِنَّھُنَّ طَیِّبَاتٌ لِطَیِّبٍ(المفھم، کتاب النکاح، باب تزویج النبیؐ زینب)
اُمہات المومنینؓ کی آپس میں کس قدر محبت اور بے تکلفی ہوا کرتی تھی، اس کا ایک واقعہ حضرت عائشہؓ کی زبانی سنیے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف رکھتے تھے۔ ان کے ایک طرف سودہ بیٹھی تھیں۔ میں آپ کے لیے خزیرہ (ایک سالن) بنا کر لائی۔ میں نے سودہ سے کہا، تم بھی کھاؤ۔ سودہ نے کہا: مجھے خواہش نہیں ہے۔ میں نے کہا: کھاؤ ،ورنہ ابھی یہ تمھارے منہ پر مل دوں گی۔ سودہ نے نہیں کھایا تو میں نے اپنے ہاتھ میں سالن لگایا اور ان کے چہرے پر مَل دیا۔ آپؐ دیکھ کر مسکرا دیے، پھر آپؐ نے سودہ کے ہاتھ میں سالن لگایا اور کہا تم عائشہ کے چہرے پر مَل دو۔ اس کے بعد پھر آپؐ ہنسنے لگے۔ اتنے میں باہر سے حضرت عمرؓ کی آواز سنائی دی۔ آپؐ کو خیال ہوا شاید وہ ملاقات کرنے آئے ہیں۔ آپؐ نے دونوں سے کہا: اٹھو جلدی سے اپنا منہ دھو لو۔ (مسند ابی یعلی)۔ اس واقعے سے اُمہات المومنینؓ کے درمیان جو محبت، اپنائیت ، بے تکلفی اور صاف دلی جھلک رہی ہے، وہ نہایت دل کش اور بے نظیر ہے۔
ازواج مطہراتؓ کی اپنے شوہر سے محبت اور اپنی سوتنوں کے سلسلے میں کشادہ ظرفی کا عالم یہ تھا کہ اپنے کسی بھی حق سے خوشی خوشی دست بردار ہوجایا کرتی تھیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار ہوئے تو آپؐ کے لیے مشکل ہوگیا کہ ایک ایک دن سب کے یہاں گزاریں۔ آپؐ نے سب سے اجازت لی کہ آپؐ کی تیمار داری حضرت عائشہؓ کے یہاں رہ کر ہو۔ اس موقعے پر تمام اَزواج خوش دلی سے راضی ہوگئیں۔ (بخاری،کتاب الطب، باب اللّدود، حدیث: ۵۳۹۲)
اس موقعے سے حضرت عائشہؓ کے حجرے کو تیمار داری کا شرف حاصل ہوا، لیکن کوئی افسردہ خاطر ہوکر اپنے گھر نہیں بیٹھی، تمام ازواج فراخ دلی کے ساتھ آپ کے پاس حاضر رہیں اور مل جل کر آپ کی خدمت اور عیادت میں لگی رہیں۔ حضرت عائشہؓ کے الفاظ ہیں: ہم اللہ کے رسولؐ کی بیویاں سب کی سب آپؐ کے پاس تھیں، ہم میں سے کوئی ایک بھی وہاں سے ہٹی نہیں تھی: اِنَّا کُنَّا أَزْوَاجُ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِنْدَہٗ جَمِیْعًا، لَمْ تُغَادِرِ مِنَّا وَاحِدَۃٌ۔ (بخاری، کتاب استئذان، حدیث: ۵۹۳۷)
اُمہات المومنینؓ کی اس انجمن میں ایک دوسرے کو تحفے تحائف بھیجنے کا بھی خاص اہتمام رہتا تھا۔ کسی کے یہاں کوئی مزے دار چیز تیار ہوتی تو وہ بڑے اہتمام کے ساتھ دوسری ازواج کے گھر بھیجا کرتیں: کُنَّ أَزْوَاجُ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَھَادَیْنَ الْجَرَادَ عَلَی الْأَطْبَاقِ (سنن ابن ماجہ،کتاب الصّید، باب صید الحیتان، حدیث: ۳۲۱۸)
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک بیویوں میں آپس میں اس قدر دل داری اور غم خواری تھی، کہ اگر آپؐ کسی ایک سے ناراض ہوجاتے تو دوسری اس پر خوش ہونے کے بجاے آپؐ کی ناراضی دُور کرنے کی کوشش کرتی۔ ایک بار آپؐ کو حضرت صفیہؓ سے کچھ ناراضی ہوگئی۔ اس دن حضرت صفیہؓ کے یہاں آپ کے رہنے کی باری تھی۔ حضرت صفیہؓ حضرت عائشہؓ کے پاس آئیں، اور کہا کہ میری آج کی باری تم لے لو اور میرے سلسلے میں اللہ کے رسو ل کی ناراضی دُور کرنے کی کوشش کرو۔ حضرت عائشہؓ تیار ہوگئیں، حضرت صفیہؓ کی اوڑھنی اوڑھی، اور آپؐ کے پاس جا کر بیٹھ گئیں۔ آپؐ نے دیکھ کر فرمایا: ’تم یہاں سے جاؤ آج تمھارا دن نہیں ہے‘۔ حضرت عائشہؓ نے کہا: یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ اس کے بعد پوری بات بتائی تو اللہ کے رسولؐ کی ناراضی دور ہوگئی اور آپ حضرت صفیہؓ سے راضی ہوگئے۔ (سنن ابن ماجہ ، کتاب النکاح، باب المرأۃ، تَھَبُ یومھا لصاحبتھا، حدیث: ۱۹۶۹)
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد بھی اُمہات المومنینؓ کی یہ انجمن اپنی وحدت واُلفت کے ساتھ برقرار رہی، ان کی باہمی نشستیں اور مشاورتیں جاری رہیں۔ وہ گاہے گاہے کسی ایک کے گھر جمع ہوجایا کرتی تھیں (مستدرک حاکم)۔ حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں انھوں نے جمع ہوکر مشورہ کیا اور تجویز رکھی کہ حضرت عثمانؓ کو حضرت ابوبکرؓ کے پاس بھیجیں، اس مطالبے کے ساتھ کہ مال فے میں سے آٹھواں حصہ انھیں دیا جائے۔ حضرت عائشہؓ نے اس تجویز سے اختلاف کیا اور کہا کہ آپؐ کی ہدایت کے مطابق ہمارا اس میں کوئی حصہ نہیں بنتا ہے۔ حضرت عائشہؓ کی اس بات سے سب کو اطمینان ہوگیا اور انھوں نے اپنا مطالبہ واپس لے لیا۔ (بخاری)
اُمہات المومنینؓ کی یہ بے مثال انجمن بہت سی دینی اور سماجی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھی۔ سب بی بیاں مل کر باہم مشورے سے ایک فیصلہ کرلیتی تھیں، اور پھر مل کر اسے انجام دیتی تھیں۔ جنگ کی نازک اور پرخطر حالت میں وہ سب مل کر نکلتیں اور مشکیزوں میں پانی بھر بھر کر لاتیں اور پیارے نبیؐ کے پیارے ساتھیوں کو پانی پلاتیں: عَن أَنَسٍ أَنَّ أَزْوَاجَ النَّبِیِّ کُنَّ یُدْلِـجْنَ بِالْقِرَبِ، یَسْقِیْنَ أَصْحَابَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (مسند ابی یعلی، حدیث: ۳۳۰۰)
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کا انتقال ہوا تو رسول پاک کی تمام ازواج مطہراتؓ نے مل کر فیصلہ کیا اور پیغام بھیجا کہ جنازے کو مسجد کے اندر سے گزاریں، وہ ان کی نماز جنازہ پڑھیں گی، اور پھر ایسا ہی کیا گیا۔ ان کے حجروں کے سامنے جنازہ رکھ دیا گیا، اور انھوں نے نماز جنازہ ادا کردی۔ بعد میں انھیں معلوم ہوا کہ کچھ لوگ نکتہ چینی کررہے ہیں، کہ مسجد میں جنازہ کیوں لایا گیا۔ اس پر حضرت عائشہؓ نے ان نکتہ چینیوں کا جواب دیا اور کہا کہ: ’’لوگ جانے بغیر نکتہ چینی کرنے میں جلدبازی کیوں کرتے ہیں؟ یہ حضرات مسجد سے جنازہ گزارنے کو لے کر ہم پر تنقید کررہے ہیں، حالانکہ اللہ کے رسولؐ نے سہیل ابن بیضاءؓ کی نماز جنازہ مسجد کے اندر ہی ادا فرمائی تھی‘‘۔ (مؤطا امام مالک ، کتاب الجنائز، باب الصلاۃ، علی الجنائز فی المسجد، حدیث: ۵۴۰)
اس انجمن کا ایک اہم کام یہ تھا کہ لوگوں کو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی سنتوں سے واقف کرائیں۔ چنانچہ لوگ آتے تھے اور اُمہات المومنینؓ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات اور طریقۂ زندگی کے بارے میں پوچھا کرتے تھے، اور اُمہات المومنینؓ بلا مبالغہ سنت کی صحیح تصویر پیش کرتی تھیں۔ غلو پسندلوگوں کو بسا اوقات صحیح تصویر نہیں بھاتی تھی۔ تاہم، اُمہات المومنینؓ اپنی ذمہ داری بالکل صحیح صحیح انجام دیتی تھیں۔
اس انجمن کا ایک اہم کام یہ بھی تھا کہ اگر کسی گھر کی معاشرتی صورت حال اصلاح طلب ہو تو اس کی اصلاح کی جائے۔ اس سلسلے میں اَزواج مطہراتؓ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو باخبر کیا کرتی تھیں۔ عثمان بن مظعون کی بیوی کے ذریعے معلوم ہوا کہ ان کے شوہر نے پرہیزگاری اور عبادت گزاری کی شدتِ شوق میں اہل خانہ سے یکسر بے توجہی اختیار کر رکھی ہے، تو اللہ کے رسولؐ کو بتایا اور اللہ کے رسولؐ نے انھیں راہ اعتدال کی تعلیم دی۔ شیطان کے بہکاوے میں آکر بہت سے مرد وخواتین گھروں کو بگاڑنے اور خاندانوں کو توڑنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ یہ اللہ کی نیک بندیاں خود بھی بے مثال اُلفت ومحبت کے ساتھ رہتی تھیں اور دوسرے خاندانوں میں اُلفت ومحبت کی فضا استوار کرنے کے لیے بھی کوشاں رہتی تھیں۔
ازواج مطہراتؓ کے درمیان اس میں تو مقابلہ ہوتا تھا کہ ان میں سے ہر ایک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ سے زیادہ خوش رکھنا چاہتی تھیں، تاہم مسابقت کا یہ اعلیٰ جذبہ رقابت ومنافرت کے پست جذبات کو ابھرنے کا موقعہ نہیں دیتا تھا۔ وہ اس مقابلے کے دوران میں بھی ایک دوسرے کے لیے بے پناہ خیر خواہی کے جذبات سے لبریز رہتی تھیں، اور ایک دوسرے کے فضل ومرتبے کی بھر پور قدر کرتی تھیں اور کھل کر اس کا اعتراف بھی کرتی تھیں۔
ایک نازک موقعے پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینبؓ بنت جحش سے پوچھا کہ: عائشہؓ کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے؟ انھوں نے کہا: میری سماعت وبصارت کی خیر ہے، اللہ کی قسم! میں نے ان کے اندر بھلائی دیکھی ہے اور صرف بھلائی دیکھی ہے، بھلائی کے سوا کچھ نہیں دیکھا: وَاللہِ مَاعَلِمْتُ اِلَّا خَیْرًا (بخاری، کتاب المغازی، باب حدیث الافک، حدیث: ۳۹۲۵)
دوسری طرف حضرت عائشہؓ بھی حضرت زینبؓ کے بارے میں کھل کر اعتراف کرتی ہیں: میں نے دین داری میں، خدا ترسی میں، صاف گوئی میں، صلہ رحمی میں، صدقہ وخیرات اور اللہ سے قریب ہونے کی خاطر خود کو فنا کردینے میں زینب سے بڑھ کر کوئی خاتون نہیں پائی۔ (مسلم)
قدرو منزلت اور فضل ومرتبت کے اعتراف کی آخری بلندی یہ ہے کہ ایک بی بی کو اپنی سوتن کے اندر ذرّہ برابر برائی نظر نہیں آتی ہے، بس اچھائی ہی اچھائی نظر آتی ہے، اور دوسری بی بی کو ساری دنیا کی عورتوں میں اپنی سوتن کی نظیر نظر نہیں آتی ہے۔ اور دونوں ہی اپنے احساسات کا کھل کر اظہار کرتی ہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے، جب کہ سیرت وکردار نہایت بلند ہوں، اور دل ودماغ بالکل پاک وصاف ہوں۔ اُمہات المومنینؓ کی پوری انجمن ایسی ہی بلندیوں پر فائز تھی۔
حضرت جویریہؓ کے بارے میں حضرت عائشہؓ کا اعتراف بھی قابل قدر ہے، فرماتی ہیں: ہم نے ایسی کوئی عورت نہیں دیکھی جو اپنی قوم کے لیے جویریہؓ سے بڑھ کر بابرکت ثابت ہوئی ہو۔ ان کی خاطر بنو مصطلق کے سو خاندان آزاد کردیے گئے: فَمَا رَأَیْنَا اِمْرَأَۃً کَانَتْ أَعْظَمَ بَرَکَۃً عَلٰی قَوْمِھَا مِنْھَا، أُعْتِقَ فِیْ سَبَبِھَا مِائَۃُ أَھْلِ بِیْتٍ مِنْ بَنِیْ الْمُصْطَلِقِ (سنن ابی داؤد، کتاب العتق، باب فی بیع المکاتب، اذا فسخت الکتابۃ، حدیث: ۳۴۴۷)
ازواج مطہراتؓ میں حضرت سودہؓ اور حضرت عائشہؓ کا ساتھ سب سے پرانا تھا۔ اس طویل صحبت نے ایک دوسرے کی خوشی اور قدر شناسی میں اضافہ ہی کیا۔ حضرت عائشہؓ حضرت سودہؓ کی تعریف کرنے میں بہت فیاض تھیں۔ فرماتی تھیں: تیز مزاج عورتوں میں اگر کسی کے جیسے بننے کی خواہش میرے دل میں ہے تو وہ سودہ ہیں۔ ان کی جیسی اچھی تیز مزاج عورت میں نے نہیں دیکھی: مَا رَأَیْتُ امْرَأَۃً أَحَبَّ اِلَیَّ أَنْ أَکُوْنَ فِیْ مِسْلَاخِھَا مِنْ سَوْدَۃَ بِنْتِ زَمْعَۃَ مِنْ اِمْرَأَۃٍ فِیْھَا حِدَّۃٌ (مسلم، کتاب الرضاع، حدیث: ۲۷۳۵)۔ عورت تیز مزاج بھی ہو، اور اپنی سوتن کی بے حد محبوب ودل عزیز بھی بن جائے ، یہ سیرت وکردار کی حد درجہ بلندی کی علامت ہے۔
حضرت عائشہؓ ،حضرت میمونہؓ کی عظمت ومنزلت کا اعتراف بھی پوری فراخ دلی سے کرتیں۔ ایک موقعے پر فرمایا: ہمارے درمیان وہ سب سے بڑھ کر اللہ سے ڈرنے والی اور رشتوں کا حق ادا کرنے والی تھیں۔ (مستدرک حاکم)
ازواج مطہراتؓ کی کوشش تو یہی رہتی تھی کہ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہیں اور ساری دنیا کے سامنے اُلفت ومحبت کا ایک بہترین نمونہ قائم کریں، اور وہ اس کوشش میں ہر طرح سے کامیاب بھی تھیں۔ اس کے باوجود ان کو یہ فکر ستاتی تھی کہ کہیں ان کی طرف سے کسی کے ساتھ کوتاہی تو نہیں ہوگئی؟
حضرت اُمِ حبیبہؓ کا جب آخری وقت آیا تو حضرت عائشہؓ کو بلوایا، اور ان سے کہا: ہوسکتا ہے ہمارے درمیان کوئی ایسی بات ہوگئی ہو، جو سوتنوں کے درمیان ہوجایا کرتی ہے۔ اللہ ہم دونوں کو معاف کرے۔ حضرت عائشہؓ نے بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار کیا، اس پر انھوں نے کہا: عائشہؓ تم نے مجھے خوش کردیا، اللہ تمھیں خوش کرے،سَرَرْتِنِیْ سَرَّکِ اللہُ۔ اس کے بعد انھوں نے حضرت اُم سلمہؓ کو بلوایا اور ان کے سامنے بھی اسی طرح اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ (طبقات ابن سعد)
ان پاک بی بیوں کا آپس میں کیسا گہراقلبی تعلق تھا کہ آخری وقت میں بھی سب سے زیادہ انھی کا خیال رہتا، اور ان کو راضی کرنے اور ان سے اپنی غلطیاں معاف کرانے کی فکر رہتی۔
ازواج مطہراتؓ میں آپس میں کتنی بے تکلفی تھی، اور ایک دوسرے کے لیے ان کے دل میں کیسے نیک جذبات رہا کرتے تھے، اس کی ایک مثال حضرت عائشہؓ خود بیان کرتی ہیں: ’ایک بار اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سب سے پہلے مجھ سے وہ آکر ملے گی، جس کے ہاتھ سب سے لمبے ہیں۔ یہ سننا تھا کہ وہ آپس میں ہاتھ ناپنے لگیں، کہ کس کا ہاتھ سب سے لمبا ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ سعادت حضرت زینبؓ کے حصے میں آئی۔ وہ اپنے کام خود کیا کرتی تھیں اور صدقہ وخیرات میں سب سے پیش پیش رہتی تھیں۔ (مسلم)
ایک اور روایت میں حضرت عائشہؓ کے الفاظ اس طرح ہیں: آپ کی وفات کے بعد جب بھی ہم سب کسی ایک کے گھر میں جمع ہوتے تو دیوار پر اپنے ہاتھ ناپتے۔ ہم ایسا کرتے ہی رہے، یہاں تک کہ زینبؓ کی وفات ہوگئی تو ہم نے جانا کہ لمبے ہاتھ سے مراد صدقہ وخیرات میں آگے بڑھ جانا ہے(مستدرک حاکم)۔ ایک دوسرے سے ہاتھ کی لمبائی میں مقابلہ کرنے کے لیے ایک دوسرے سے بے تکلفی اور قربت درکار ہے، جو ان کے درمیان خوب تھی۔
اُمہات المومنینؓ کی یہ انجمن اپنے علمی تفوق اور امتیاز کے لیے بھی سب کے نزدیک معروف تھی۔ مشکل مسائل میں لوگ ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔ ایک مسئلہ درپیش ہوا تو حضرت علیؓ نے فرمایا: اس بارے میں سب سے زیادہ علم پیارے نبیؐ کی ازواج کے پاس ہے: اِنَّ أَعْلَمَ النَّاسِ بِھٰذَا أَزْوَاجُ النَّبِیِّ (مسند احمد، حدیث ۲۰۶۱۷)۔
ایک اور موقعے پر حضرت ابن عمرؓ اور حضرت ابوہریرہؓ نے کہا ازواج مطہراتؓ اس بارے میں زیادہ جانتی ہیں: أَزْوَاجُ النَّبِیِّ أَعْلَمُ بِذٰلِکَ(مسند احمد، حدیث: ۲۰۶۱۷)۔ حضرت زینبؓ کا انتقال ہوا تو حضرت عمر نے ازواج مطہراتؓ کے یہاں سوال بھیجا کہ انھیں قبر میں کون اتارے؟ (مسند بزار)۔ ازواج مطہراتؓ کے معمولات اور ان کے کاموں کو دیگر لوگ حوالے کے طور پر بیان کیا کرتے تھے: اِنَّ أَزْوَاجُ النَّبِیِّ کُنَّ یَخْتَضِبْنَ بَعْدَ الْعِشَاءِ الْاٰخِرَۃِ اِلَی الصَّبْحِ (مصنف عبد الرزاق، باب الزینۃ یوم العید، حدیث: ۵۶۷۱)
اُمہات المومنینؓ کے باہمی تعلقات پر لکھنے والے بالخصوص زیادہ تر مغربی یا مغرب زدہ مصنّفین ان کی باہمی رقابت کو تلاش کرنے پر زور لگاتے ہیں۔ اور اس طرح یہ ایک اصول متعین کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ باہمی رقابت سوتنوں کی فطرت میں شامل ہے، اور اس کے اثراتِ بد سے کوئی عورت محفوظ نہیں رہ سکتی ہے، خواہ وہ کیسی ہی دین دار اور پرہیزگار ہو۔ ایسی افسانہ طرازی کے نتیجے میں اُمہات المومنینؓ کی باہمی رقابت کے بعض قصے اتنے مشہور ہوئے کہ اُمہات المومنینؓ کی باہمی محبت کی تصویر ذہنوں سے اوجھل ہوگئی۔ اس لیے حقیقی معنوں میں حسین وجمیل تصویر کو عام اور مشہور کرنے کی ضرورت ہے۔
قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہوئے ازواج مطہراتؓ کی باہمی رقابت والی کوئی تصویر سامنے نہیں آتی ہے۔ چند مواقع پر ایسا تو لگتا ہے کہ ازواج مطہراتؓ نے کبھی آپس میں ہم آواز ہوکر حضوؐر پر اپنی پسند ناپسند کے لیے اصرار کرنے کی کوشش کی ہو۔ آپؐ کے کسی راز پر آپس میں بات کر لی ہو۔ کسی حلال چیز کو اپنے اُوپر حرام کروا لیا ہو۔ ایسے واقعات کی طرف اشارہ ملتا ہے، لیکن باہمی منافرت یا رقابت کا کوئی اشارہ تک نہیں ملتا ہے۔
قرآن مجید کا مطالعہ کرنے والا صاف محسوس کرتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اُمہات المومنینؓ کی باہمی رقابت کا کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں۔ ان کی باہمی محبت اور تعلق خاطر کا حال یہ تھا کہ رسولِ پاکؐ کے راز کا افشا بھی کیا تو اپنے میکے میں جاکر نہیں کیا،بلکہ اپنی سوتن کے سامنے کیا۔ اس زمانے میں کسی سوتن نے اپنے شوہر سے یہ نہیں کہا کہ ازواج مطہراتؓ میں بھی تو جھگڑے، بدکلامی اور منافرت کا اظہار ہوتا ہے، البتہ بیویوں نے اپنے شوہروںسے یہ ضرور کہا کہ: ’رسولِؐ پاک کی بیویاں رسولِؐ پاک سے بحث کرتی ہیں، تو ہم کیوں نہیں کرسکتے؟‘
دس سال کی طویل رفاقت کے دوران اگر معمولی نوک جھونک کے دو چار واقعات پیش آجائیں، تو مناسب نہیں ہے کہ انھیں نو بیویوں کی پوری زندگی کا عنوان بنادیا جائے۔ ان واقعات کو ان کی سیرت کی پیشانی پر چپکادیا جائے اور ہزاروں سال تک ان کا تذکرہ کیا جائے۔درحقیقت نو افراد کی مشترک زندگی میں ایسے چند واقعات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے۔ اصل اہمیت اس کی ہے کہ پوری زندگی کن احساسات، جذبات اور سرگرمیوں کے ساتھ گزاری گئی۔واقعہ یہ ہے کہ اُمہات المومنینؓ نے جس قدر باہمی محبت واُلفت کے ساتھ مل جل کر زندگی گزاری، اللہ کے رسولؐ کی رفاقت میں بھی اور دور رفاقت کے بعد بھی، وہ بے مثال ہے۔ نہ اس کی مثال پیش کی جاسکتی ہے، اور نہ اس سے بہتر کا تصور کیا جاسکتا ہے: ع نہ ہماری بزم خیال میں اور نہ دکان آئینہ ساز میں!
زندگی ایسے واقعات کے تسلسل کا نام ہے، جو بڑی حد تک انسان کی اپنی گرفت میں نہیں ہوتا۔ بلاشبہہ انسان کے اپنے عزم، محنت، جدوجہد اور تگ و تاز کی بھی بڑی اہمیت ہے، لیکن ’لالے کی حنا بندی‘ میں اہم کردار فطرت ہی کا ہوتا ہے۔ پردۂ تقدیر میں کیا چھپا ہے؟ کوئی نہیں جانتا۔ اس میں بھی خالقِ ارض و سما کی ان گنت حکمتیں پوشیدہ ہیں، وگرنہ معلوم نہیں انسان کی زندگی کیسا بے ذوق تماشا بن جاتی۔ کوئی نہیں جانتا کہ اُس کی زندگی میں کب، کس مرحلے پر، کس آن کون سا سعید لمحہ، سینۂ افلاک سے پھوٹ کر، اُس کے دامن کو مالا مال کر جائے گا۔ یکایک اُس کے دامن کے سب داغ دھبے دُھل جائیں گے، اور وہ صبح ازل کی طرح اجلا اور شفاف ہو جائے گا۔ اسی طرح کسی کو خبر نہیں ہوتی کہ کس آن، کوئی لمحہ ایک سانحہ سا بن کر اُس کی زندگی میں آ ٹپکے گا اور چشم زدن میں اس کی عمر بھر کی کمائی کو گٹھڑی میں باندھ کر غائب ہو جائے گا، اور وہ بھرے شہر میں بے سروساماں ہوکر رہ جائے گا۔
’یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے، یہ بڑے نصیب کی بات ہے‘ کہ اللہ کسی پر مہرباں ہو، اُس کی لغزشوں اور کوتاہیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے، اُسے کسی ایسے کارِ خاص کے لیے چُن لے، جو اُس کے لیے زندگی بھر کا ہی نہیں، آنے والے کئی زمانوں کے لیے بھی اثاثہ اور صدقۂ جاریہ بن جائے۔ اس کرم و عطا کی حکمت آموز مثالیں ہمیں کثرت سے ملتی ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر آفتابِ رسالت طلوع ہوا اور غار حرا سے اسلام کے مہرِتاب دار نے انگڑائی لی، تو کچھ عالی نصیب ایسے تھے، جنھیں ایمان کی بے بہا دولت اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کا بلند اعزاز عطا ہوا۔ مگر اُسی شہر مکہ میں کچھ ایسے بد نصیب بھی تھے، جو بدستور تاریکیوں میں بھٹکتے اور اپنے لیے آگ سمیٹتے رہے:
حسنؓ ز بصرہ، بلالؓ از حبش، صہیبؓ از روم
زخاکِ مکہ ابوجہل، ایں چہ بو العجبی ست
(کیا عجیب بات ہے کہ بصرہ سے حسن بصریؓ، حبشہ سے بلال حبشیؓ اور روم سے صہیب رومیؓ جیسے صحابہ کرامؓ پیدا ہوئے اور خود مکہ کی خاک پاک سے ابوجہل نے جنم لیا۔)
اس ’بوالعجبی‘ کا سلسلہ ہر دور میں جاری رہا ہے۔ کسی پر اللہ نے رحمتوں اور برکتوں کے دَروا کر دیے اور وہ محبوب و مقبول ٹھیرا۔ کسی کے لیے محرومیاں اور نامرادیاں مقدر کر دی گئیں اور وہ راندۂ درگاہ قرار پایا۔ اس کا معیار کیا ہے؟ اللہ کس کسوٹی پر پرکھتا ہے؟ کس ترازو میں تول کر مقبول و مردود کے فیصلے صادر کرتا ہے؟ ان سوالات کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ انسان کی محدود عقل اس راز کو پانے کی قدرت نہیں رکھتی:
یہ رُتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دارورسن کہاں
o
اور کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں، جنھیں چُن لیا جاتا ہے۔ اللہ انھیں اپنی بے پایاں عنایات کی آغوش میں لے لیتا ہے۔ صحابۂ کرامؓ تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی قربتوں اور اس عہدِسعید کی برکتوں سے براہِ راست فیض یاب ہوئے،مگر ایسے بامراد ہر دور میں گزرے ہیں، جن کے دلوں میں عشقِ رسولؐ کا چراغ روشن ہوا اور ان کی زندگی کے ہر لمحے کو فروزاں کر گیا۔
ایک صدی سے زائد کا عرصہ ہوا۔ ڈیرہ غازی خان کے ترین قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک پٹھان،اللہ داد خان کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا۔ اُس کا نام محمد رمضان [م:۷ جمادی الاول ۱۳۸۸ھ/۲؍اگست۱۹۶۸ء] رکھا گیا۔ رمضان ہونہار طالب علم نکلا۔ بی اے کے بعد بی ٹی کا امتحان پاس کیا اور بطور انگلش ٹیچر، سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔ طبیعت میں فقیرانہ استغنا بھی تھا اور صوفیانہ بے نیازی بھی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سرکارِ انگلیسیہ کا ملازم ہونے کے باوجود کبھی دیسی لباس ترک نہ کیا۔ چہرہ سنت رسولؐ سے سجا تھا۔ ہمیشہ ہاتھ میں ایک موٹی سوٹی اورکندھے پر بڑا سا تولیہ ڈالے رکھتے۔ فارسی اور اُردو میں شعر کہتے۔ علامہ محمد اقبالؒ کے عشاق میں سے تھے۔ اُن کے کئی اشعار پر تضمین کہی، جو علامہ نے بہت پسند کی۔ مولانا فیض محمد شاہ جمالی کے مرید اور حضرت خواجہ نظام الدین تونسویؒ کے حلقہ نشین تھے۔ ایک سیاسی خاندان کے نوجوان، عطا محمد جسکانی سے گہرے لگائو کے باعث عطائی تخلص اختیار کیا اور محمد رمضان عطائی کہلانے لگے۔
یہ اُن دنوں کا ذکر ہے جب عطائی ڈیرہ غازی خان کے گورنمنٹ اسکول میں تعینات تھے۔ تب اُن کے قریبی شناسا مولانا محمد ابراہیم ناگی[م:۱۹۶۴ء]، ڈیرہ غازی خان میں سب جج تھے [جو ڈیرہ کے علاوہ، لدھیانہ، امرتسر، ہوشیارپور میں سب جج اور ۱۹۴۷ء کے بعد ریٹائرمنٹ تک لاہور میں سیشن جج رہے۔] ابراہیم ناگی ایک درویش منش اور صاحب علم شخصیت تھے۔ آپ انیس ناگی [م:۲۰۱۰ء] کے والد اور معروف صحافی واصف ناگی کے دادا تھے۔ علامہ اقبال سے گہری محبت رمضان عطائی اور ابراہیم ناگی کے درمیان دوستانہ قربت کی قدرِ مشترک تھی۔ مولانا ابراہیم کو علّامہ اقبال سے ملاقاتوں کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
ایک دن مولانا محمدابراہیم لاہور گئے اور علامہ اقبال سے ملاقات ہوئی ۔ واپس آئے تو سرِشام معمول کی محفل جمی اور علامہ اقبال سے ملاقات کا ذکر چلا تو عطائی کا جنوں سلگنے لگا۔ مولاناابراہیم نے جیب سے کاغذ کا ایک پرزہ نکال کر عطائی کو دکھایا، او رکہنے لگے: ’’لوعطائی، علامہ صاحب کی تازہ رُباعی سنو‘‘۔ پھر وہ عجب پُر کیف انداز میں پڑھنے لگے:
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روز محشر عذر ہاے من پذیر
ور حسابم را تو بینی نا گزیر
از نگاہ مصطفےٰؐ پنہاں بگیر
مولانا محمد ابراہیم کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے، لیکن محمد رمضان عطائی کی کیفیت روتے روتے دگرگوں ہو گئی۔ اسی عالم ِ وجد میں فرش پر گرے، چوٹ آئی اور بے ہوش ہو گئے۔ رُباعی اُن کے دل پر نقش ہو کے رہ گئی۔ اُٹھتے بیٹھتے گنگناتے اور روتے رہتے۔ اُنھی دنوں حج پر گئے۔ اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ: ’جب حجاج اوراد اور وظائف میں مصروف ہوتے تو میں زاروقطار روتا اور علامہ کی رُباعی پڑھتا رہتا۔‘ حج سے واپسی پر عطائی کے دل میں ایک عجیب آرزو کی کونپل پھوٹی: ’’کاش! یہ رُباعی میری ہوتی یا مجھے مل جاتی‘‘۔
یہ خیال آتے ہی علامہ اقبال کے نام ایک خط لکھا: ’’آپ سر ہیں، فقیر بے سر۔ آپ اقبال ہیں، فقیر مجسم ادبار، لیکن طبع کسی صورت کم نہیں پائی‘‘۔ انھوںنے علامہ کے اشعار کی تضمین اور اپنے چیدہ چیدہ فارسی اشعار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا: ’’فقیر کی تمنا ہے کہ فقیر کا تمام دیوان لے لیں اور یہ رُباعی مجھے عطا فرما دیں‘‘۔ کچھ ہی دن گزرے تھے کہ اُنھیں علامہ کی طرف سے ایک مختصر سا خط موصول ہوا۔ لکھا تھا:
’’جناب محمد رمضان صاحب عطائی
سینئر انگلش ماسٹر، گورنمنٹ ہائی سکول، ڈیرہ غازی خان
جنابِ من! میں ایک مدت سے صاحب فراش ہوں۔ خط و کتابت سے معذور ہوں۔ باقی شعر کسی کی ملکیت نہیں۔ آپ بلاتکلف وہ رُباعی، جو آپ کو پسند آگئی ہے، اپنے نام سے مشہور کریں۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔
فقط
لاہور: ۱۹ فروری۱۹۳۷ء محمد اقبال
علامہ کی یہ عطا، جنابِ عطائی کے لیے توشۂ دو جہاں بن گئی۔ علامہ نے یہ رُباعی اپنی نئی کتاب ارمغانِ حجاز کے لیے منتخب کر رکھی تھی، مگر عطائی کی نذر کر دینے کے بعد انھوں نے اسے کتاب سے خارج کرکے، تقریباً اسی مفہوم کی حامل ایک نئی رُباعی کہی جوارمغانِ حجاز میں شامل ہے:
بہ پایاں چوں رسد ایں عالمِ پیر
شَود بے پردہ ہر پوشیدہ تقدیر
مکُن رُسوا حضورِ خواجہؐ ما را
حسابِ مَن زچشمِ او نہاں گیر
(اے میرے رب! جب (روز قیامت) یہ جہانِ پیر اپنے انجام کو پہنچ جائے اور ہر پوشیدہ تقدیر ظاہر ہو جائے تو اُس دن مجھے میرے آقا ومولاؐ کے حضور رُسوا نہ کرنا اور میرا نامۂ اعمال آپؐ کی نگاہوں سے چھپا رکھنا۔)
عطائی ایم اے فارسی کا امتحان دینے لاہور گئے تو شکریہ ادا کرنے کے لیے حضرت ِ علامہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہمراہ جانے والے چودھری فضل داد نے تعارف کراتے ہوئے کہا: ’’بوڑھا طوطا ایم اے فارسی کا امتحان دینے آیا ہے‘‘۔
علامہ ایک کُھرّی جھلنگا چارپائی پر سفید چادر اوڑھے لیٹے تھے۔ بولے: ’’عاشق کبھی بوڑھا نہیں ہوتا‘‘۔ رُباعی کا ذکر چل نکلا۔ عطائی نے جذب و کیف سے پڑھنا شروع کیا: ’’تو غنی از ہر دوعالم…‘‘ علامہ کی آنکھوں سے اشک جاری ہو گئے۔ اتنا روئے کہ سفید چادر کے پلو بھیگ گئے۔ اس کے بعد عطائی کی علامہ سے دو ملاقاتیں ہوئیں۔
محمد رمضان عطائی کی آخری ملاقات علامہ اقبال سے ان کے انتقال سے کوئی چار ماہ قبل دسمبر۱۹۳۷ء میں ہوئی۔ انھوں نے علامہ سے کہا: ’’سنا ہے جناب کو دربارِ نبویؐ سے بلاوا آیا ہے‘‘۔ علامہ آبدیدہ ہو گئے… آواز بھرا گئی۔ بولے:’’ہاں! بے شک، لیکن جانا نہ جانا یکساں ہے۔ آنکھوں میں موتیا اُتر آیا ہے۔ یار کے دیدار کا لطف دیدۂ طلب گار کے بغیر کہاں؟‘‘ عطائی نے کہا: ’’جانا ہو تو دربار نبویؐ میں وہ رُباعی ضرور پیش فرمائیے گا، جو اَب میری ہے‘‘۔ علامہ زاروقطار رونے لگے۔ سنبھلے تو کہا: ’’عطائی! اس رُباعی کو بہت پڑھا کرو۔ ممکن ہے خداوند کریم مجھے اس کے طفیل بخش دے‘‘۔
۲۱؍اپریل۱۹۳۸ء کو علامہ اقبال انتقال فرما گئے۔ عرصے بعد بادشاہی مسجد کے صدر دروازے کی سیڑھیوں سے متصل اُن کے مزار کی تعمیر شروع ہوئی، تو ہر ہفتے اور اتوار کو ایک مجذوب سا شخص لاٹھی تھامے مسجد کی سیڑھیوں پہ آبیٹھتا اور شام تک موجود رہتا۔ وہ زیر تعمیر مزار پر نظریں گاڑے ٹک ٹک دیکھتا رہتا۔ کبھی یکایک زاری شروع کر دیتا، کبھی مزار کے گرد چکر کاٹنے لگتا۔ اُس پروانے کا نام محمد رمضان عطائی ہی تھا۔
مولانا محمد ابراہیم ناگی کبھی کبھی کہا کرتے: ’’ظالم عطائی! کان کنی تو میں نے کی اور گہر تو اُڑا لے گیا۔ بخدا، اگر مجھے یہ علم ہوتا کہ حضرت غریب نوازؔ (علامہ اقبال) اتنی فیاضی کریں گے، تو میں اپنی تمام جایداد دے کر یہ رُباعی حاصل کر لیتا اورمرتے وقت اپنی پیشانی پر لکھوا جاتا‘‘۔
محمد رمضان عطائی سنیئر انگلش ٹیچر نے اس جہانِ فانی سے رخصت ہونے سے قبل اپنی وصیت میں لکھا: ’’میرے مرنے پر اگر کوئی وارث موجود ہو تو رباعی مذکور میرے ماتھے پر لکھ دینا اور میرے چہرے کو سیاہ کر دینا‘‘۔ مجھے معلوم نہیں پسِ مرگ اُن کے کسی وارث نے اس عاشقِ رسولؐ کی پیشانی پر وہ رباعی لکھی یا نہیں۔
چند سال قبل، مَیں خاص طور پر محمد رمضان عطائی کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے ڈیرہ غازی خان گیا۔ ’ملا قائد شاہ‘ کے قدیم قبرستان میں ایک پرانی قبر کے سرہانے کھڑے ہو کر میں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو آنکھیں نم ہو گئیں۔ لوحِ مزار پر کندہ تھا:
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روز محشر عذر ہائے من پذیر
ور حسابم را تو بینی نا گزیر
از نگاہِ مصطفےٰؐ پنہاں بگیر
o
اور آج مجھے ایک اور شخص بھی یاد آ رہا ہے، جس پر سعادت کا ایک ایسا مبارک لمحہ نازل ہوا کہ اس کی کئی نسلوں کی تقدیر بدل کر رکھ دی۔ اُس کی کہانی کئی سال پہلے شروع ہوتی ہے۔ بانکے لال نے ۱۹۴۳ء میں بلریا گنج (اعظم گڑھ، اترپردیش، بھارت) کے ایک ہندو گھرانے میں جنم لیا۔ اُس کا والد ایک سرکردہ برہمن اور آسودہ حال کاروباری شخص تھا۔ جس کا کاروبار اعظم گڑھ سے کلکتہ تک پھیلا ہوا تھا۔ بچے کو وہ ساری آسایشیں میسر تھیں کہ جن کا تصور کیا جا سکتا تھا۔ ۱۴برس کی عمر میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد اس نے شبلی کالج اعظم گڑھ میں داخلہ لیا۔
اُس لڑکے کی تربیت، خالص ہندو ماحول میں ہو رہی تھی اور برہمن خاندان کا سپوت ہونے کے باعث اسلام کے بارے میں ایک خاص سوچ اُس کے دل و دماغ میں راسخ کی جارہی تھی۔ گرمیوں کی تعطیلات میں وہ بلریا گنج آیا اور اس نے اپنی طبیعت کی بے چینی اور اضطراب کا تذکرہ کیا تو اس کے دوست اور استاد جنید نے اصرار کیا: ’’چلیں آج حکیم محمد ایوب صاحب{ FR 584 } سے ملتے ہیں‘‘۔ یہ لڑکا انکار کرتا رہا کہ: ’’وہ مصروف ہوں گے‘‘۔ لیکن جنید صاحب اصرار کرکے حکیم محمد ایوب صاحب کے مطب پر لے آئے اور ملاقات میں حکیم صاحب سے درخواست کی: ’’میرے اس دوست کو، آپ ہندی میں کوئی کتاب پڑھنے کے لیے دیں، یہ ان چھٹیوں میں بلریا گنج ہی میں رہے گا‘‘۔
جستجو کے اس سفر میں حکیم محمد ایوب صاحب نے سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی ایک چھوٹی سی کتاب دینِ حق کا ہندی ترجمہ ستیہ دھرم بانکے لال کو پڑھنے کے لیے دیا۔ اس نے گھر والوں سے چھپ کر اُسے پڑھا۔ ایک بار، دوبار بلکہ بار بار، اور پھر اُسے یوں محسوس ہوا جیسے تاریکی کی مہیب سیاہی سے روشنی کی ایک لکیر سی پھوٹ رہی ہو، اور اُس کے دل کی دہکتی لوح پر شبنم سی گرنے لگی ہو۔ اسے یوں لگا کہ جیسے اس چھوٹی سی کتاب نے اس کے سامنے زمین و آسمان کے خزانے ہیچ کر دیے ہیں۔ اُس نے سید مودودی کی وہ تمام کتابیں پڑھ ڈالیں، جوہندی زبان میں ترجمہ ہو چکی تھیں۔
سیّد مودودی کی فکر سے متاثر، کالج کے ایک مسلم اُستاد نے روشنی کی تلاش میںمگن اس ہونہار طالب علم کی بھرپور سرپرستی کی۔ اب برہمن خاندان کا یہ متجسس نوجوان، اعظم گڑھ میں ایک ہفتہ وار درسِ قرآن میں جانے لگا۔ اتفاق سے درس قرآن دینے والے استاد بھی مولانا مودودی کی فکر سے متاثر تھے۔ اسی عرصے میں ایک روز خواجہ حسن نظامی[م:۱۹۵۵ء] کا ہندی ترجمۂ قرآن اس کے ہاتھ لگا۔
اب اُس نوجوان کی عمر ۱۷ سال ہو چکی تھی اور تیرگی میں پھوٹنے والی روشنی کی لکیر پھیلنے لگی تھی۔ تاہم، بعض خدشات دل و دماغ میں ابھر ابھر کر اس کے روحانی سفر کی راہ میں حائل ہوجاتے اور وہ ٹھٹھک کر رہ جاتا۔ اپنے آبائی مذہب سے انس ابھی تک موجود تھا۔ دوراہے پر کھڑے، اس نے آخری بار اپنے سنسکرت کے پروفیسر سے ملاقات کی، جو گیتا اور ویدوں کے ماہر تھے۔ ان کے سامنے دیومالائی تصورات اور اوہام پر بے اطمینانی کا اظہار کرتے ہوئے تشفی بخش جواب چاہا، مگر وہ سوالوں کا جواب دینے میں ناکام رہے۔ ان دنوں وہ معمول کے مطابق اپنے بستر پر لیٹتا، لیکن نیند کہیں دُور نکل جاتی اور وہ شب بھر بے کلی سے کروٹیں بدلتا رہتا۔ گھر والے اُس کی مضطرب کیفیت کو دیکھتے اور اس کو نوجوانی کے ہیجان سے تعبیر کرتے رہے، مگر وہ تو کسی شیریں چشمے کی تلاش میں صحرا کی تپتی ریت پر ننگے پائوں چلتا جا رہا تھا۔
سیّد مودودی کی کتابوں کے مطالعے اور حلقۂ درس قرآن میں باقاعدگی سے شمولیت نے قبول اسلام کے جذبے کو دوآتشہ کر دیا۔ چند برسوں پر پھیلی اس آبلہ پائی کے بعد یہ ۱۹۶۰ء کی ایک صبح خوش جمال تھی، جو اُس برہمن زادے کے اُفقِ دل پہ نور کی لپٹ بن کر چمکی۔ اس روز، درسِ قرآن میں سورۂ عنکبوت کی آیت۴۱ [جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسرے سرپرست (اولیا) بنالیے ہیں، ان کی مثال مکڑی جیسی ہے، جو اپنا ایک گھر بناتی ہے، اور سب گھروں سے زیادہ کمزور گھر مکڑی کا گھر ہی ہوتا ہے۔ کاش! یہ لوگ علم رکھتے]کی تلاوت و تشریح نے کایا پلٹ دی، تذبذب ختم ہوا اور اسی مجلس میں استاد سے التجا کرکے اسلام قبول کر لیا۔
کچھ دن تو اُس نے اپنے گھر والوں کو اس کی خبر نہ ہونے دی۔ ماں باپ نے یہی جانا کہ اُس پر کسی جن بھوت کا سایہ ہو گیا ہے، جس پر پنڈتوں اور پروہتوں نے اُسے گھیر لیا۔ اُس کے سامنے اسلام کی بے حد مکروہ اور گھنائونی تصویر پیش کی جانے لگی۔ ماں باپ نے بیٹے پر دبائو ڈالنے کے لیے ’مرن بھرت‘ تک رکھ لیا۔ یلغار بڑھی تو سترہ سالہ نوجوان نے کھلے بندوں اعلان کر دیا کہ: ’’ہاں، میںمسلمان ہوں اور تم کتنے ہی ستم آزمالو میں مسلمان رہوں گا‘‘۔
وہ رمضان المبارک کی ایک سنہری صبح تھی، جب اُس نے اپنا گھر چھوڑا اور صعوبتوں کے ایک لمبے سفر پر نکل گیا، کوچہ بہ کوچہ، شہر بہ شہر۔ مسلمان اُسے پناہ دیتے اور اُس کا تحفظ کرتے رہے۔ وہ رام پور پہنچا۔ وہاں سے بدایوں چلا گیا، جہاں ڈیڑھ سال تک ایک دینی مدرسے میں تعلیم حاصل کی۔ وہاں سے نکلا تو مدراس [چناے]جا پہنچا اور چار سال تک ایک مشہور دینی درس گاہ ’دارالسلام‘ عمرآباد سے کسبِ فیض کرتا رہا۔ ۱۹۶۶ء میں مدینہ منورہ کی معطر ہوا کا کوئی جھونکا مدراس کی طرف سے گزرا اور اُسے اپنے ساتھ لے گیا۔ اُسے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ (مدینہ یونی ورسٹی) میں داخلہ مل گیا۔ چار سال میں اُس نے گریجوایشن کر لی۔ پھر ایم اے کے لیے جامعۃ الملک عبدالعزیز (جامعہ اُم القریٰ، مکہ معظمہ) میں داخلہ لے لیا اور حضرت ابوہریرہؓ سے روایت شدہ احادیث مبارکہ پر معتبر تحقیقی کام کیا اور امتحان اعزاز کے ساتھ پاس کیا۔ ایم اے کے بعد جامعہ الازہر قاہرہ سے ڈاکٹریٹ کی سندِ فضیلت حاصل کی۔ اُن کے مقالے کا موضوع تھا: حضور رسالت مآبؐ کے فیصلے۔ یہ عظیم اور قابل قدر مقالہ اقضیۃُ الرّسولؐ اللہ کے نام سے عربی میں شائع ہوا، جس کے اُردو سمیت متعدد زبانوںمیں تراجم ہوئے۔
ظلمت سے نور کی طرف سفر کرنے والے اس شخص کو دنیا اب پروفیسر ڈاکٹر محمد ضیاءالرحمٰن اعظمی کے نام سے جانتی ہے۔ اترپردیش کے برہمن خاندان کا بیٹا بہت دُور رہ گیا ہے۔ برسوں پہلے مدینہ منورہ میں اُن سے ملنے کی مجھے سعادت نصیب ہوئی۔ ڈاکٹر اعظمی صاحب کا کمرہ ہزاروں دینی کتابوں سے سجا تھا۔ اُن کی میز پر بھی کتابیں، قلم اور اوراق بکھرے پڑے تھے۔ ایک کونے میں کمپیوٹر آراستہ اور فوٹو سٹیٹ مشین نصب تھی، اور وہ اپنی دنیا بدل دینے والی روشنی کو عام کرنے کے مشن میںمصروف تھے۔ اعظم گڑھ کے آسودہ حال برہمن نے کب سوچا ہوگا کہ اُس کا بیٹا ایک دن اسلام کا نامور مبلغ، مفکر، مصنف اور محقق بنے گا۔ وہ ’رابطۂ عالم اسلامی‘ کا ایک اہم رُکن بنے گا۔ وہ برسوں مدینہ یونی ورسٹی میں کلیۂ حدیث کا پروفیسر اور ڈین رہے گا اور عربی زبان میں اس کی بیسیوں تصانیف دینی درس گاہوں کے نصاب کا حصہ بنیں گی۔
ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی کی ہر کتاب کے کئی کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ تب وہ ایک ہندی انسائی کلوپیڈیا کی تیاری میں مصروف تھے، جس میں اسلام کی پانچ سو معروف اصطلاحات اور موضوعات کی وضاحت مقصود تھی۔صحیح احادیث مبارکہ کے انتخاب کا ایک بہت بڑا منصوبہ بھی ڈاکٹر صاحب کی جاری مصروفیات کا حصہ تھا۔
ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن صاحب کا کہنا تھا کہ: ’’احادیث کی کم وبیش ایک سو کتب اور دوسرے ماخذوں میں ایسی احادیث رسولؐ موجود ہیں، جو صحیح احادیث کے معیار پر سو فی صد پورا اترتی ہیں، لیکن انھیں مرتب نہیں کیا جا سکا‘‘۔ انھوںنے مجھے اپنی جستی الماری کا قفل کھول کر اب تک کیے گئے کام کا مسودہ دکھایا۔ ڈاکٹر صاحب ایسی احادیث کی تعداد کم و بیش پندرہ ہزار بتاتے ہیں، جنھیں مرتب کرنے کے لیے ۱۵جلدیں تیار کرنا ہوں گی اور ان کے لیے پندرہ سال درکار ہوں گے۔ پھر انھوںنے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا: ’’دُعا کیجیے، اللہ بارہ سال اور عطا فرما دے کہ میں یہ کام مکمل کرسکوں‘‘۔ ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی نے گنگا سے زم زم تک کے نام سے آپ بیتی بھی تحریر کی ہے۔
برسوں بعد جب حالات نے موقع دیا تو محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی نے اپنے ماں باپ سے رابطہ کیا اور اُن کی ایسی خدمت کی کہ اعظم گڑھ کے گھر گھر میں خدمت و سعادت کی قابلِ رشک کہانیاں بیان ہونے لگیں۔ اب وہ دونوں دنیا میں نہیں رہے اور محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی کو مدینہ منورہ کی آغوش رحمت نے اپنی بانہوں میں سمیٹ رکھا ہے۔
خالقِ ارض وسما کے فیصلے کس قدر لامحدود ہیں اور وہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فیضان عام کرنے کے لیے کہاں کہاں سے صاحبانِ جنوں چُن کر صراطِ مستقیم پر گام زن فرما دیتا ہے۔
’ ایمان ویقین ‘ اقبال کا سب سے پہلا مربی اور مرشد ہے اور یہی اس کی طاقت وقوت اور حکمت وفراست کا منبع اور سرچشمہ ہے۔ لیکن اقبال کا وہ یقین وایمان اس خشک جامد ایمان کی طرح نہیں جو بے جان تصدیق یا محض جامد عقیدہ ہے، بلکہ اقبال کا ’یقین ‘ عقیدۂ ومحبت کا ایک ایسا حسین امتزاج ہے جو اس کے قلب وجدان ، اس کی عقل وفکر ، اس کے ارادہ وتصرف ، اس کی دوستی ودشمنی ، غرض یہ کہ اس کی ساری زندگی پر چھایا ہوا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال اسلام اور اس کے پیغام کے بارے میں نہایت شدید الایمان تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی محبت ، شغف اور ان کا اخلاص انتہا درجے کا تھا۔ اس لیے ان کے نزدیک اسلام ہی ایک ایسا زندۂ جاوید دین ہے کہ اس کے بغیر انسانیت فلاح وسعادت کے بامِ عروج تک پہنچ ہی نہیں سکتی ۔اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم رُشد وہدایت کے آخری مینار ، نبوّت ورسالت کے خاتم اور مولاے کُل ہیں ؎
وہ دانائے سُبل ختُم الرّسل، مولاے کُل جس نے
غُبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سِینا
اس دورِ مادّیت اور مغربی تہذیب وتمدن کی ظاہری چمک دمک سے اقبال کی آنکھیں خیرہ نہ ہو سکیں ۔ حالاںکہ اقبال نے جلوۂ دانشِ فرنگ میں زندگی کے کئی ایک طویل ایام گزارے ۔ اس کی وجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اقبال کی والہانہ محبت ، جذبۂ عشق اور روحانی اتصال تھا۔ بلاشبہہ ایک حُبِ صادق اور عشق حقیقی ہی قلب ونظر کے لیے اچھا محافظ اور مشعلِ راہ بن سکتا ہے ؎
خِیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ!
سُرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
_____
عذابِ دانشِ حاضر سے باخبر ہوں مَیں
کہ مَیں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیل ؑ
_____
رہے ہیں، اور ہیں فرعون میری گھات میں اب تک
مگر کیا غم کہ میری آستیں میں ہے یدِبیضا
_____
عجب کیا گر مہ و پرویں مرے نخچیر ہو جائیں
کہ برفتر اکِ صاحب دولتے بستم سرِ خُود را
علامہ اقبال نے اپنی کتاب اسرارِ خودی میں ملّت اسلامیہ کی زندگی کی بنیادوں اور ان ستونوں کے ذکر کے سلسلے میں جن پر تاحیات ملّت اسلامیہ موقوف ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے روحانی تعلق ، دائمی اتصال اور اپنی فدا کارانہ محبت کا بھی ذکر کیا ۔ جب وہ اللہ کے نبیؐ کا تذکرہ کرتے ہیں تو ان کا شعری وجدان جوش مارنے لگتا ہے اور مدحیہ اشعار اُبلنے لگتے ہیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے محبت وعقیدت کے چشمے پھوٹ پڑے ہوں۔ اس سلسلے میں چند اشعار پیش خدمت ہیں جن سے اقبال کے محبت بھرے جذبات کا قدرے اندازہ ہو گا:
در دلِ مسلم مقامِ مصطفےٰؐ است
آبروے ما زنام مصطفےٰؐ است
بوریا ممنونِ خوابِ راحتش
تاجِ کسریٰ زیر پاے اُمتش
درشبستانِ حِرا خلوت گزید
قوم و آئین و حکومت آفرید
ماند شبہا چشمِ او محرومِ نوم
تا بہ تختِ خسروی خوابید قوم
وقتِ ہیجا تیغِ اَو آہن گداز
دیدۂ او اشکبار اندر نماز
جوں جوں زندگی کے دن گزرتے گئے، اقبال کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ والہانہ محبت و اُلفت بڑھتی ہی گئی۔ یہاں تک کہ آخری عمر میں جب بھی ان کی مجلس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر آتا یا مدینہ منورہ کا تذکرہ ہوتا، تو اقبال بے قرار ہو جاتے ، آنکھیں بھر آتیں، یہاں تک کہ آنسو رواں ہو جاتے ۔ یہی وہ گہری محبت تھی جو ان کی زبان سے الہامی شعروں کو جاری کر دیتی تھی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں ؎
مکن رسوا حضورِ خواجہؐ ما را
حسابِ من ز چشمِ او نہاں گیر
(اس دن مجھے میرے آقاؐ کے سامنے رُسوا نہ کرنا، میرا حساب لینا، مگر آپؐ کی نگاہ سے پوشیدہ۔)
محبت وعقیدت کا یہ شعر کتنا اچھا مظہر ہے۔
دراصل علامہ اقبال کا یہی وہ ایمان کامل اور حُبّ ِ صادق تھی جس نے اقبال کے کلام میں جوش ، یہ ولولہ، یہ سوز وگداز پیدا کر دیا۔ اگر آپ تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو یہ حقیقت عیاں ہو جائے گی کہ دراصل رقیق شعر ، عمیق فکر ، روشن حکمت ، بلند معنویت ، نمایاں شجاعت ، نادر شخصیت ، اور عبقریت کا حقیقی منبع وسرچشمہ محبت ویقین ہی ہے ۔ اور تاریخِ عالم میں جو کچھ بھی انسانی کمالات یا دائمی آثار ونشانات نظر آتے ہیں وہ سب کے سب اسی محبت ویقین کے مرحونِ منّت ہیں۔ اگر کوئی شخصیت یقین ومحبت کے جذبے سے خالی ہو تو پھر وہ صرف گوشت پوست کی صورت ہے۔ اور اگر پوری امّت اس سے خالی ہے تو پھر اس کی وقعت بکریوں اور بھیڑوں کے گلے سے زیادہ نہیں۔ اگر اسی طرح کسی کلام میں یقین ومحبت کی روح کار فرما نہیں ہے تو پھر وہ ایک مقفٰی اور موزوں کلام ہوسکتا ہے لیکن ایک زندہ جاوید کلام نہیں بن سکتا۔ اور جب کوئی کتاب اس روح سے خالی ہو تو اس کتاب کی حیثیت مجموعہ اوراق سے زیادہ نہیں ہو گی۔اسی طرح اگر کسی عبادت میں محبت ویقین کا جذبہ شامل نہیں ہے تو پھر ایسی عبادت بیکار ہے اور وہ ایک بے روح ڈھانچا ہے۔ غرض یہ کہ پوری زندگی اگر محبت ویقین کے جذبے سے خالی ہے تو پھر وہ زندگی، زندگی نہیں، بلکہ موت ہے۔ اورپھر ایسی زندگی کیا ؟ جس میں طبیعتیں مردہ وافسردہ ہوں، نظم ونثر کے سر چشمے خشک ہوں، اور زندگی کے شعلے بجھ چکے ہوں۔ ایسی حالت میں یقین کامل اور حُبّ ِ صادق ہی حیاتِ انسانی میں جلا پیدا کرتی ہے اور انسانی زندگی نُور ورنگ سے معمور ہو جاتی ہے ۔ پھر شُستہ پُر سوز و پُر درد ، روح نواز اور جاں بخش کلام سننے میں آتے ہیں۔ خارقِ عادت شجاعت وقوت دیکھنے میں آتی ہے اور علم وادب کے نقوش بھی زندۂ جاوید بن جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہی محبت اگر پانی ، مٹی اور اینٹ ، پتھر میں داخل ہو جائے تو اس کو بھی زندۂ جاوید بنا دیتی ہے۔ ہمارے سامنے اس کی روشن مثال مسجد ِ قرطبہ، قصرِ زہرا اور تاج محل ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ محبت ویقین کے بغیر ادب وفن مُردہ وافسردہ و ناتمام ہیں ؎
نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سوداے خام خونِ جگر کے بغیر
بڑی غلط فہمی میں وہ لوگ مبتلا ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اہل علم حضرات اپنی قوتِ علم، کثرتِ معلومات اور ذکاوت وذہانت کی وجہ سے ایک دوسرے سے سبقت لے جاتے ہیں، یا ایک دوسرے پر فضیلت رکھتے ہیں۔ اسی طرح شعرا کو ان کی فطری قوتِ شاعری ، لفظوں کا حُسنِ انتخاب، معانی کی بلاغت ، انھیں ایک دوسرے سے ممتاز کرتی ہے، اور مصلحینِ وقت اور قائدین ملت کی بلندی وپستی موقوف ہے اُن کی ذہانت کی تیزی ، خطابت کی بلندی ، سیاسی سوجھ بوجھ اور حکمتِ عملی پر! حالاںکہ ایسا نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ا ن میں سے ہر ایک کی فضیلت وبلندی کا دارو مدار محبت واخلا ص پر ہے۔ ان کا حُبّ ِصادق اور مقصد سے اخلاصِ کامل ہی ان کی عظمت و بزرگی کا سبب ہے۔ اس لیے کہ اس کا مقصد وموضوع اور غرض و غایت اس کی روح میں سرایت کرجاتی ہے، قلب میں جاگزیں ہو جاتی ہے اور فکروعمل پر چھا جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی ذاتی خواہش مغلوب اور شخصیت گھٹ جاتی ہے۔ اب وہ جب کوئی بات کرتا ہے تو مقصد کی زبان سے کرتا ہے، جب کچھ لکھتا ہے تو مقصد کے قلم سے لکھتا ہے۔ غرض کہ اس کے فکرو خیال ، دل ودماغ اور اس کی پوری زندگی پر اس کا مقصد چھا جاتا ہے۔
ایک عظیم گناہ جو اس جدید تمدن کا پیدا کردہ ہے وہ ہے مادہ پرستی ، اور پھر اس سے نفع پسندی، جنسی محبت اور نفسانی خواہش۔ جو درحقیقت جدید عصری مادی تعلیم کا ثمرہ ہے جس نے ہماری نئی نسلوں کو تباہ کر رکھا ہے۔ اور آج حال یہ ہے کہ ان کے قلوب و ایمان کی حرارت حُبّ ِ صادق کی تپش اور یقین کے سوز سے خالی ہیں اور یہ عالم نو ایک ایسی متحرک شے بن کر رہ گیا ہے کہ جس میں نہ کوئی زندگی ہے، نہ کوئی روح، نہ شعور ووجدان ہے، نہ مسّرت وغم کا احساس ! اس کی مثال اس جامد شے کی طرح ہے جو کسی جابرو قاہر شخص کے دستِ تصرف میں ہو، وہ جس طرح چاہے اسے حرکت دے اور استعمال کرے۔
جب آپ اقبال کے کلام کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ اقبال کا کلام ہمارے جانے پہچانے شعرا سے بہت کچھ مختلف ہے۔ اقبال کا کلام ہمارے شعور و احساس ، قلب ووجدان اور اعصاب میں حرکت وحرارت ، سوز وگداز اور تپش پیدا کرتا ہے۔ پھر ایک ایسا شعلۂ جو الہ بن کر بھڑک اٹھتا ہے جس کی گرمی سے مادیت کی زنجیریں پگھل جاتی ہیں، فاسد معاشرہ اور باطل قدروں کے ڈھیر جل کر فنا ہو جاتے ہیں۔ جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر کس قدر طاقت ور ایمان، پُردرد و پُرسوز سینہ اور بے چین روح رکھتا ہے ۔ قابلِ صد ستایش ہے وہ دوسرا مدرسہ جس نے اتنی اچھی تربیت کی اور ایسی قابلِ قدر شخصیت تیار کی۔
اقبال کی شخصیت کو بنانے والا دوسرا عنصر وہ ہے جو آج ہر مسلمان گھرانے میں موجود ہے، مگر افسوس کہ آج خود مسلمان اس کی روشنی سے محروم ، اس کے علم وحکمت سے بے بہرہ ہیں۔ میری مراد اس سے قرآن مجید ہے۔ اقبال کی زندگی پر یہ عظیم کتاب جس قدر اثرانداز ہوئی ہے، اتنا نہ وہ کسی شخصیت سے متاثر ہوئے ہیں اور نہ کسی کتاب نے ان پر ایسا اثرڈالا ہے۔ اقبال کا ایمان چوںکہ ’نومسلم ‘ کا سا ہے، خاندانی وراثت کے طور پر انھیں نہیں ملا ہے، اس لیے ان کے اندر نسلی مسلمانوں کے مقابلے میں قرآن سے شغف، تعلق اور شعور واحساس کے ساتھ مطالعے کا ذوق بہت زیادہ ہے۔ اقبال کا قرآن پڑھنا عام لوگوں کے پڑھنے سے بہت ہی مختلف رہا ہے، جیسا کہ خود اقبال نے اپنے قرآن مجید پڑھنے کے سلسلے میں ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ ان کایہ ہمیشہ کا دستور تھا کہ روزانہ بعدنمازِ صبح قرآن مجید کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ اقبال کے والد جب انھیں دیکھتے تو فرماتے، کیا کررہے ہو ؟ اقبال جواب دیتے ، قرآن پڑھ رہا ہوں ۔ کچھ دنوں تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ آخر ایک دن اقبال نے پوچھا: ابّا جان ! آپ مجھ سے روزانہ پوچھتے ہیں اور میں ایک ہی جواب دیتا ہوں اور پھر آپ خاموش چلے جاتے ہیں ، تو انھوں نے جواب دیا کہ میں تم سے کہنا چاہتا ہوں کہ تم قرآن اس طرح پڑھا کرو کہ جیسے قرآن اسی وقت تم پر نازل ہو رہا ہے۔ اس کے بعد سے اقبال نے قرآن برابر سمجھ کر پڑھنا شروع کیا اور اس طرح کہ گویا وہ واقعی ان پر نازل ہو رہا ہے۔ اپنے ایک شعر میں بھی وہ اس کا اظہار یوں فرماتے ہیں ؎
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشّاف
علامہ اقبال نے اپنی پوری زندگی قرآن مجید میں غورو فکر اور تد بّر و تفکر کرتے گزاری ، قرآن مجید پڑھتے ، قرآن سوچتے، قرآن بولتے۔ قرآن مجید ان کی وہ محبوب کتاب تھی جس سے انھیں نئے نئے علوم کا انکشاف ہوتا ۔ اس سے انھیں ایک نیا یقین ، ایک نئی روشنی ، اور ایک نئی قوت و توانائی حاصل ہوتی ۔ جوں جوں ان کا مطالعۂ قرآن بڑھتا گیا، اُن کے فکر میں بلندی اور ایمان میں زیادتی ہوتی گئی۔ اس لیے کہ قرآن ہی ایک ایسی زندۂ جاوید کتاب ہے جو انسان کو لدُنی علم اور اَبدی سعادت سے بہرہ ور کرتی ہے۔ وہ ایک ایسی شاہ کلید ہے کہ حیاتِ انسانی کے شعبوں میں سے جس شعبے پر بھی اسے لگایئے ، فوراً کھل جائے گا۔ وہ زندگی کا ایک واضح دستور اور ظلمتوں میں روشنی کا مینار ہے!
_______________
اقبال کی شخصیت کا امتیازی پہلو
مولانا سیّد ابوالحسن علی ندوی
’ ایمان ویقین ‘ اقبال کا سب سے پہلا مربی اور مرشد ہے اور یہی اس کی طاقت وقوت اور حکمت وفراست کا منبع اور سرچشمہ ہے۔ لیکن اقبال کا وہ یقین وایمان اس خشک جامد ایمان کی طرح نہیں جو بے جان تصدیق یا محض جامد عقیدہ ہے، بلکہ اقبال کا ’یقین ‘ عقیدۂ ومحبت کا ایک ایسا حسین امتزاج ہے جو اس کے قلب وجدان ، اس کی عقل وفکر ، اس کے ارادہ وتصرف ، اس کی دوستی ودشمنی ، غرض یہ کہ اس کی ساری زندگی پر چھایا ہوا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال اسلام اور اس کے پیغام کے بارے میں نہایت شدید الایمان تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی محبت ، شغف اور ان کا اخلاص انتہا درجے کا تھا۔ اس لیے ان کے نزدیک اسلام ہی ایک ایسا زندۂ جاوید دین ہے کہ اس کے بغیر انسانیت فلاح وسعادت کے بامِ عروج تک پہنچ ہی نہیں سکتی ۔اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم رُشد وہدایت کے آخری مینار ، نبوّت ورسالت کے خاتم اور مولاے کُل ہیں ؎
وہ دانائے سُبل ختُم الرّسل، مولاے کُل جس نے
غُبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سِینا
اس دورِ مادّیت اور مغربی تہذیب وتمدن کی ظاہری چمک دمک سے اقبال کی آنکھیں خیرہ نہ ہو سکیں ۔ حالاںکہ اقبال نے جلوۂ دانشِ فرنگ میں زندگی کے کئی ایک طویل ایام گزارے ۔ اس کی وجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اقبال کی والہانہ محبت ، جذبۂ عشق اور روحانی اتصال تھا۔ بلاشبہہ ایک حُبِ صادق اور عشق حقیقی ہی قلب ونظر کے لیے اچھا محافظ اور مشعلِ راہ بن سکتا ہے ؎
خِیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ!
سُرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
_____
عذابِ دانشِ حاضر سے باخبر ہوں مَیں
کہ مَیں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیل ؑ
_____
رہے ہیں، اور ہیں فرعون میری گھات میں اب تک
مگر کیا غم کہ میری آستیں میں ہے یدِبیضا
_____
عجب کیا گر مہ و پرویں مرے نخچیر ہو جائیں
کہ برفتر اکِ صاحب دولتے بستم سرِ خُود را
علامہ اقبال نے اپنی کتاب اسرارِ خودی میں ملّت اسلامیہ کی زندگی کی بنیادوں اور ان ستونوں کے ذکر کے سلسلے میں جن پر تاحیات ملّت اسلامیہ موقوف ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے روحانی تعلق ، دائمی اتصال اور اپنی فدا کارانہ محبت کا بھی ذکر کیا ۔ جب وہ اللہ کے نبیؐ کا تذکرہ کرتے ہیں تو ان کا شعری وجدان جوش مارنے لگتا ہے اور مدحیہ اشعار اُبلنے لگتے ہیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے محبت وعقیدت کے چشمے پھوٹ پڑے ہوں۔ اس سلسلے میں چند اشعار پیش خدمت ہیں جن سے اقبال کے محبت بھرے جذبات کا قدرے اندازہ ہو گا:
در دلِ مسلم مقامِ مصطفےٰؐ است
آبروے ما زنام مصطفےٰؐ است
بوریا ممنونِ خوابِ راحتش
تاجِ کسریٰ زیر پاے اُمتش
درشبستانِ حِرا خلوت گزید
قوم و آئین و حکومت آفرید
ماند شبہا چشمِ او محرومِ نوم
تا بہ تختِ خسروی خوابید قوم
وقتِ ہیجا تیغِ اَو آہن گداز
دیدۂ او اشکبار اندر نماز
lحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام، مسلمان کے دل میں ہے، اور حضوؐر ہی کے نام سے ہماری آبرو ہے۔ lآپؐ خوابِ رحمت کے لیے بوریا کو ممنون فرماتے (دوسری طرف) آپؐ کی اُمت نے کسریٰ کا تاج پائوں تلے روند ڈالا۔ lآپؐ نے شبستانِ حرا کی خلوت اختیار فرمائی، اور (ایک نئی) ملّت، نیا آئین اور (نئے انداز کی) حکومت وجود میں لائے۔ lآپؐ نے کئی راتیں بے خوابی میں گزاریں، تب کہیں جاکر آپ کی اُمت نے تخت خسروی پر آرام پایا۔ lجنگ کے دوران میں آپؐ کی تلوار لوہے کو بآسانی کاٹ کے رکھ دیتی، نماز کے دوران آنجنابؐ کی آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑیاں لگ جاتیں۔
جوں جوں زندگی کے دن گزرتے گئے، اقبال کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ والہانہ محبت و اُلفت بڑھتی ہی گئی۔ یہاں تک کہ آخری عمر میں جب بھی ان کی مجلس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر آتا یا مدینہ منورہ کا تذکرہ ہوتا، تو اقبال بے قرار ہو جاتے ، آنکھیں بھر آتیں، یہاں تک کہ آنسو رواں ہو جاتے ۔ یہی وہ گہری محبت تھی جو ان کی زبان سے الہامی شعروں کو جاری کر دیتی تھی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں ؎
مکن رسوا حضورِ خواجہؐ ما را
حسابِ من ز چشمِ او نہاں گیر
(اس دن مجھے میرے آقاؐ کے سامنے رُسوا نہ کرنا، میرا حساب لینا، مگر آپؐ کی نگاہ سے پوشیدہ۔)
محبت وعقیدت کا یہ شعر کتنا اچھا مظہر ہے۔
دراصل علامہ اقبال کا یہی وہ ایمان کامل اور حُبّ ِ صادق تھی جس نے اقبال کے کلام میں جوش ، یہ ولولہ، یہ سوز وگداز پیدا کر دیا۔ اگر آپ تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو یہ حقیقت عیاں ہو جائے گی کہ دراصل رقیق شعر ، عمیق فکر ، روشن حکمت ، بلند معنویت ، نمایاں شجاعت ، نادر شخصیت ، اور عبقریت کا حقیقی منبع وسرچشمہ محبت ویقین ہی ہے ۔ اور تاریخِ عالم میں جو کچھ بھی انسانی کمالات یا دائمی آثار ونشانات نظر آتے ہیں وہ سب کے سب اسی محبت ویقین کے مرحونِ منّت ہیں۔ اگر کوئی شخصیت یقین ومحبت کے جذبے سے خالی ہو تو پھر وہ صرف گوشت پوست کی صورت ہے۔ اور اگر پوری امّت اس سے خالی ہے تو پھر اس کی وقعت بکریوں اور بھیڑوں کے گلے سے زیادہ نہیں۔ اگر اسی طرح کسی کلام میں یقین ومحبت کی روح کار فرما نہیں ہے تو پھر وہ ایک مقفٰی اور موزوں کلام ہوسکتا ہے لیکن ایک زندہ جاوید کلام نہیں بن سکتا۔ اور جب کوئی کتاب اس روح سے خالی ہو تو اس کتاب کی حیثیت مجموعہ اوراق سے زیادہ نہیں ہو گی۔اسی طرح اگر کسی عبادت میں محبت ویقین کا جذبہ شامل نہیں ہے تو پھر ایسی عبادت بیکار ہے اور وہ ایک بے روح ڈھانچا ہے۔ غرض یہ کہ پوری زندگی اگر محبت ویقین کے جذبے سے خالی ہے تو پھر وہ زندگی، زندگی نہیں، بلکہ موت ہے۔ اورپھر ایسی زندگی کیا ؟ جس میں طبیعتیں مردہ وافسردہ ہوں، نظم ونثر کے سر چشمے خشک ہوں، اور زندگی کے شعلے بجھ چکے ہوں۔ ایسی حالت میں یقین کامل اور حُبّ ِ صادق ہی حیاتِ انسانی میں جلا پیدا کرتی ہے اور انسانی زندگی نُور ورنگ سے معمور ہو جاتی ہے ۔ پھر شُستہ پُر سوز و پُر درد ، روح نواز اور جاں بخش کلام سننے میں آتے ہیں۔ خارقِ عادت شجاعت وقوت دیکھنے میں آتی ہے اور علم وادب کے نقوش بھی زندۂ جاوید بن جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہی محبت اگر پانی ، مٹی اور اینٹ ، پتھر میں داخل ہو جائے تو اس کو بھی زندۂ جاوید بنا دیتی ہے۔ ہمارے سامنے اس کی روشن مثال مسجد ِ قرطبہ، قصرِ زہرا اور تاج محل ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ محبت ویقین کے بغیر ادب وفن مُردہ وافسردہ و ناتمام ہیں ؎
نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سوداے خام خونِ جگر کے بغیر
بڑی غلط فہمی میں وہ لوگ مبتلا ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اہل علم حضرات اپنی قوتِ علم، کثرتِ معلومات اور ذکاوت وذہانت کی وجہ سے ایک دوسرے سے سبقت لے جاتے ہیں، یا ایک دوسرے پر فضیلت رکھتے ہیں۔ اسی طرح شعرا کو ان کی فطری قوتِ شاعری ، لفظوں کا حُسنِ انتخاب، معانی کی بلاغت ، انھیں ایک دوسرے سے ممتاز کرتی ہے، اور مصلحینِ وقت اور قائدین ملت کی بلندی وپستی موقوف ہے اُن کی ذہانت کی تیزی ، خطابت کی بلندی ، سیاسی سوجھ بوجھ اور حکمتِ عملی پر! حالاںکہ ایسا نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ا ن میں سے ہر ایک کی فضیلت وبلندی کا دارو مدار محبت واخلا ص پر ہے۔ ان کا حُبّ ِصادق اور مقصد سے اخلاصِ کامل ہی ان کی عظمت و بزرگی کا سبب ہے۔ اس لیے کہ اس کا مقصد وموضوع اور غرض و غایت اس کی روح میں سرایت کرجاتی ہے، قلب میں جاگزیں ہو جاتی ہے اور فکروعمل پر چھا جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی ذاتی خواہش مغلوب اور شخصیت گھٹ جاتی ہے۔ اب وہ جب کوئی بات کرتا ہے تو مقصد کی زبان سے کرتا ہے، جب کچھ لکھتا ہے تو مقصد کے قلم سے لکھتا ہے۔ غرض کہ اس کے فکرو خیال ، دل ودماغ اور اس کی پوری زندگی پر اس کا مقصد چھا جاتا ہے۔
ایک عظیم گناہ جو اس جدید تمدن کا پیدا کردہ ہے وہ ہے مادہ پرستی ، اور پھر اس سے نفع پسندی، جنسی محبت اور نفسانی خواہش۔ جو درحقیقت جدید عصری مادی تعلیم کا ثمرہ ہے جس نے ہماری نئی نسلوں کو تباہ کر رکھا ہے۔ اور آج حال یہ ہے کہ ان کے قلوب و ایمان کی حرارت حُبّ ِ صادق کی تپش اور یقین کے سوز سے خالی ہیں اور یہ عالم نو ایک ایسی متحرک شے بن کر رہ گیا ہے کہ جس میں نہ کوئی زندگی ہے، نہ کوئی روح، نہ شعور ووجدان ہے، نہ مسّرت وغم کا احساس ! اس کی مثال اس جامد شے کی طرح ہے جو کسی جابرو قاہر شخص کے دستِ تصرف میں ہو، وہ جس طرح چاہے اسے حرکت دے اور استعمال کرے۔
جب آپ اقبال کے کلام کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ اقبال کا کلام ہمارے جانے پہچانے شعرا سے بہت کچھ مختلف ہے۔ اقبال کا کلام ہمارے شعور و احساس ، قلب ووجدان اور اعصاب میں حرکت وحرارت ، سوز وگداز اور تپش پیدا کرتا ہے۔ پھر ایک ایسا شعلۂ جو الہ بن کر بھڑک اٹھتا ہے جس کی گرمی سے مادیت کی زنجیریں پگھل جاتی ہیں، فاسد معاشرہ اور باطل قدروں کے ڈھیر جل کر فنا ہو جاتے ہیں۔ جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر کس قدر طاقت ور ایمان، پُردرد و پُرسوز سینہ اور بے چین روح رکھتا ہے ۔ قابلِ صد ستایش ہے وہ دوسرا مدرسہ جس نے اتنی اچھی تربیت کی اور ایسی قابلِ قدر شخصیت تیار کی۔
اقبال کی شخصیت کو بنانے والا دوسرا عنصر وہ ہے جو آج ہر مسلمان گھرانے میں موجود ہے، مگر افسوس کہ آج خود مسلمان اس کی روشنی سے محروم ، اس کے علم وحکمت سے بے بہرہ ہیں۔ میری مراد اس سے قرآن مجید ہے۔ اقبال کی زندگی پر یہ عظیم کتاب جس قدر اثرانداز ہوئی ہے، اتنا نہ وہ کسی شخصیت سے متاثر ہوئے ہیں اور نہ کسی کتاب نے ان پر ایسا اثرڈالا ہے۔ اقبال کا ایمان چوںکہ ’نومسلم ‘ کا سا ہے، خاندانی وراثت کے طور پر انھیں نہیں ملا ہے، اس لیے ان کے اندر نسلی مسلمانوں کے مقابلے میں قرآن سے شغف، تعلق اور شعور واحساس کے ساتھ مطالعے کا ذوق بہت زیادہ ہے۔ اقبال کا قرآن پڑھنا عام لوگوں کے پڑھنے سے بہت ہی مختلف رہا ہے، جیسا کہ خود اقبال نے اپنے قرآن مجید پڑھنے کے سلسلے میں ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ ان کایہ ہمیشہ کا دستور تھا کہ روزانہ بعدنمازِ صبح قرآن مجید کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ اقبال کے والد جب انھیں دیکھتے تو فرماتے، کیا کررہے ہو ؟ اقبال جواب دیتے ، قرآن پڑھ رہا ہوں ۔ کچھ دنوں تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ آخر ایک دن اقبال نے پوچھا: ابّا جان ! آپ مجھ سے روزانہ پوچھتے ہیں اور میں ایک ہی جواب دیتا ہوں اور پھر آپ خاموش چلے جاتے ہیں ، تو انھوں نے جواب دیا کہ میں تم سے کہنا چاہتا ہوں کہ تم قرآن اس طرح پڑھا کرو کہ جیسے قرآن اسی وقت تم پر نازل ہو رہا ہے۔ اس کے بعد سے اقبال نے قرآن برابر سمجھ کر پڑھنا شروع کیا اور اس طرح کہ گویا وہ واقعی ان پر نازل ہو رہا ہے۔ اپنے ایک شعر میں بھی وہ اس کا اظہار یوں فرماتے ہیں ؎
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشّاف
علامہ اقبال نے اپنی پوری زندگی قرآن مجید میں غورو فکر اور تد بّر و تفکر کرتے گزاری ، قرآن مجید پڑھتے ، قرآن سوچتے، قرآن بولتے۔ قرآن مجید ان کی وہ محبوب کتاب تھی جس سے انھیں نئے نئے علوم کا انکشاف ہوتا ۔ اس سے انھیں ایک نیا یقین ، ایک نئی روشنی ، اور ایک نئی قوت و توانائی حاصل ہوتی ۔ جوں جوں ان کا مطالعۂ قرآن بڑھتا گیا، اُن کے فکر میں بلندی اور ایمان میں زیادتی ہوتی گئی۔ اس لیے کہ قرآن ہی ایک ایسی زندۂ جاوید کتاب ہے جو انسان کو لدُنی علم اور اَبدی سعادت سے بہرہ ور کرتی ہے۔ وہ ایک ایسی شاہ کلید ہے کہ حیاتِ انسانی کے شعبوں میں سے جس شعبے پر بھی اسے لگایئے ، فوراً کھل جائے گا۔ وہ زندگی کا ایک واضح دستور اور ظلمتوں میں روشنی کا مینار ہے!
علّامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ اپنی دانش کے آئینے میں ایک بے مثل مبلّغ ہیں جنھوں نے شاعری کے ذریعے مسلمانانِ برصغیر کے اندر آزادی کی روح پھونکی جس کی مثال عصرِحاضر کے ذرائع ابلاغ، باوجود اپنی بے پایاں جدت و وسعت کے اور آزادی کے بلند بانگ نعروں کے پیش نہیں کرسکتے۔
اس وقت اہلِ پاکستان اپنی آزادی کی ۷۰ویں سالگرہ مناتے ہوئے حقیقتاً مصورِ پاکستان کے غیرمعمولی ابلاغی کردار کے سبب اُن کے زیراحسان ہیں۔ جب ہندستان پر مسلمانوں کا طویل دورِ حکمرانی ختم ہورہا تھا، اس مایوس کن صورتِ حال میں مسلمانوں کے ملّی وجود کو جن دماغوں نے سہارا دیا، اقبال اس قافلے کے شہ دماغ ہیں۔ اُن کے افکار نے مسلمانوں کو نفسیاتی اور ذہنی پسپائی سے روکا اور ایک ایسی عمارت کو جو اسلام کے نام پر کھڑی تھی، اس سے پہلے کہ انہدام کا شکار ہوتی، اس خطرے سے نکالا، پشتیبانی کی اور بچالیا۔ اقبال کا یہ کارنامہ اتنا عظیم ہے کہ اس سے خود ایک تاریخ مرتب ہوتی ہے‘‘۔ (شورش کاشمیری، فیضانِ اقبال، الفیصل ناشران، ص ۲۰)
اقبال کی دانش و بصیرت کی گہرائیوں کے آئینے میں دیکھا جائے تو وہ اپنے بلندپایہ افکار اور ذرائع ابلاغ شعرونثر کے باوصف مسلمانوں کے اندر ماضی کے آئینے میں روشن مستقبل کی روح پھونکنا چاہتے تھے، جو ریاست مدینہ کے آئیڈیل اور اسوئہ حسنہ کی صورت میں اُن کے سامنے موجود تھا ؎
دل بہ محبوبِ حجازی بستہ ایم
زیں جہت بایک دگر پیوستہ ایم
(ہم نے اپنا دل محبوبِؐ حجازی سے لگایا ہے۔ اس لحاظ سے ہم ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔)
ریاستِ مدینہ کا ماڈل اور پاکستان
ایک اسلامی نظریاتی ریاست کا پاکیزہ ابلاغ علّامہ اقبال نے ۸۷سال قبل خطبہ الٰہ آباد کے دوران ۱۹۳۰ء میں کیا تھا، جب وہ کُل ہند مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں صدارتی خطبہ پیش فرما رہے تھے: ’’میں یہ دیکھنا پسند کروں گا کہ پنجاب، شمال مغربی سرحد، صوبہ سندھ اور بلوچستان ایک خودمختار ریاست میں ضم ہوں جو برٹش ایمپائر کے اندر ہوں یا اس سے باہر۔ ایک مستحکم شمال مغربی ریاست کی تشکیل مجھے مغربی ہندستان میں مسلمانوں کا مقدرِ حتمی دکھائی دے رہا ہے‘‘۔
جب کُل ہند مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے اقبال کی یہ تجویز منظرعام پر آئی، تو ہندوئوں اور انگریزوں نے اس پر سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ نہرو کمیٹی نے اسے مسترد کیا اور برطانوی وزیراعظم جیمز رمزے میک ڈونلڈ نے کہا: ’’اقبال نامی ایک شاعر نے متحدہ ریاست ہندستان کے لیے کی جانے والی ہماری کاوشوں پر پانی پھیر کر تباہ کر دیا ہے‘‘۔
دوسرے دن ٹائمز لندن نے اداریے میں یہ پروپیگنڈا کیا کہ ’’یہ مشرقِ وسطیٰ ، ایران، افغانستان اور روسی ریاستوں پر مشتمل مسلم ریاست متحدہ کے احیاے ثانی کا خواب ہے‘‘۔ (مکرر اشاعت: Time Magazine، ۱۳؍اگست ۲۰۰۷ء)
دورِ غلامی میں اقبال کی شاعری نے دلوں کو فتح کیا تھا۔ خود اقبال فرماتے ہیں: ’’میری شاعری اسلامی تفکّر اور قرآنی فقہ کی تعبیروتفسیر ہے۔ اس کا آرٹ کے مغربی تصور سے کوئی تعلق نہیں ہے‘‘ (فیضانِ اقبال، ص ۲۲۰)۔ شعر کے ذریعے آزادی کا پیغام دراصل اسلام کا پیغام تھا، کیوں کہ ہندستان کے مسلمانوں کی محض سیاسی و اقتصادی بہبود ہو اور حفاظت اسلام کا عنصر اس میں شامل نہ ہو، تو اقبال کے نزدیک مسلمان اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ (ایضاً، ص ۲۷۱)
جس وقت اقبال مسلمانانِ ہند کے لیے آزاد اسلامی وطن کا مطالبہ کر رہے تھے، اس وقت مسلمان غلامی کی چکّی کے دو پاٹوں میں پس رہے تھے، جو ڈیڑھ صدی سے اُن پر مسلط تھی۔ ہندو، انگریز استعمار کے سہارے مسلمانوں سے اپنے ہزار سالہ دورِ غلامی کا بدلہ لینا چاہتے تھے اور اسپین کی طرح برصغیر سے مسلمانوں کے خاتمے کا خواب دیکھ رہے تھے۔تب اقبال نے مسلمانوں کو اس طرح بیدار کیا کہ ؎
اِک ولولۂ تازہ دیا مَیں نے دلوں کو
لاہور سے تاخاکِ بخارا و سمرقند
اقبال، اسوئہ حسنہ کی روشنی میں یہ جانتے تھے کہ ایمان اور ذوقِ یقیں ہی وہ قوت ہے، جو ۷۵فی صد ہندو اکثریت اور انگریز استعمار کے چنگل سے اُن کو آزادی دلا سکتی ہے، ورنہ مسلمانوں کو تائید ایزدی اور نصرتِ خداوندی نصیب نہیں ہوسکتی تھی ؎
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
اقبال ، قرآن کے زیرسایہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور اسوئہ حسنہ کی روشنی میں اُمت مسلمہ کو متحد دیکھنا چاہتے تھے۔ مکہ مکّرمہ اور حرمِ کعبہ کو مسلمانوں کی سیاسی اور معاشرتی ترتیب میں اہم مقام حاصل ہے۔اسی مرکز کے تحت وہ مسلمانوں کو اکٹھا اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار دیکھنا چاہتے تھے۔ اُن کی فکر کی بنیادوں کو یوں سمجھا جاسکتا ہے:
اقبال کے محرکاتِ فکر اسی سانچے میں ڈھلے تھے، جس کے نتیجے میں قدیم سے اُس نے عرفان حاصل کیا اور جدید سے فیض۔ بدقسمتی سے اقبالؒ کے کلام کے علمی اور جدید فکری پس منظر اور نصب العین کو سمجھنے کی طرف توجہ کم رہی۔ اس کے لیے جو علم درکار تھا اور یہ متاع، جدید تعلیم کی مہربانی سے کم سے کم دستیاب ہے۔ (فیضانِ اقبال، ص ۱۳)
اے کہ می نازی بہ قرانِ عظیم
تا کجا در حجرہ می باشی مقیم
درجہاں اسرارِ دیں را فاش کن
نکتۂ شرعِ مبیں را فاش کن
کس نہ گردد درجہاں محتاج کَس
نکتۂ شرعِ مبیں این است و بس
(اے وہ بندے! جو قرآنِ عظیم پر ناز کرتا ہے، تُو کب تک اپنی ڈیوڑھی میں گوشہ نشین رہے گا۔ اُٹھو! دین مبین کے اسرار دُنیا پر فاش کرو اور اُن کے سامنے شرعِ مبین کو آشکارا کر دو تاکہ اس جہاں میں انسان دوسرے انسان کا محتاج نہ رہے۔ بس یہی وہ نکتہ ہے شریعت مبین کا)۔
خوش قسمتی سے ’قدیم‘ سے عرفان حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ حصولِ علم کی تلاش میں برطانیہ کے دورے اور قیام کے دوران اللہ تعالیٰ نے اقبال کو علمِ جدید سے فیضان حاصل کرنے کا بھی موقع فراہم کیا۔ وہ مغربی علوم کے شعلوں میں اور جدید نظریات کے الائو میں اُتر کر کندن بن گئے تھے۔ بجاطور پر اُن کا دعویٰ تھا ع کہ مَیں اس آگ میںڈالا گیا ہوں مثلِ خلیل
مغرب نے اپنے تاریک اَدوار (Dark Ages)کے ایک ہزار سال کے ناگفتہ بہ تجربات کے بعد آسمانی اقدار اور خدائی مذہب (Devine Religion) سے جان چھڑانے کے لیے سیکولرزم کو اپنی پناہ گاہ قرار دیا، کیوں کہ وہ خودساختہ عیسائی مذہبی طبقے کی ناروا سختیوں سے تنگ آچکےتھے اور بالآخر انھوں نے سیاست اور مذہب کو دو الگ الگ خانوں میں تقسیم کر دیا۔ سولھویں اور سترھویں صدی کے اندر مغربی دانش وروں نے اس نئے نظریے کے تحت نشاتِ ثانیہ اور صنعتی انقلاب کی راہ ہموار کی۔ معروف مصنف ہاروے ککس اپنی کتاب The Secular City میں نکولومیکیاولی کو انقلابِ فرانس اور نشاتِ ثانیہ کا اصل بانی قرار دیتے ہیں، جو شاطرانہ سیاست کے بانی سیاست دان تھے۔ اقبالؒ نے اُن کی زہرناک سیاسی چال بازیوں اور خدا دشمن نظریات کے سبب میکیاولی کو ’مرسلے از شیطان‘ یعنی شیطان کا بھیجا ہوا پیغمبر قرار دیا تھا کیوں کہ وہ قومی ریاستوں (National States) کا اوّلین نظریاتی پرچارک تھا، اور اس نے بادشاہوں اور رعایا کو مستقل کش مکش میں مبتلا کرنے والی بدنامِ زمانہ کتاب The Prince لکھی۔
نکولو میکیاولی (۱۴۶۱ء- ۱۵۲۹ء) کے شاطرانہ وژن اور مطلق العنان آزادی کے نام پر مغرب نے قومی ریاست (Nation State) کے تصور کو پروان چڑھایا۔ اس طرح مغرب جغرافیائی سرحدوں کے تقدس اور وطن پرستی کا اسیر ہوکر آسمانی اقدار اور توحیدی افکار سے محروم ہوگیا ؎
گو فکر خداداد سے روشن ہے زمانہ
آزادیِ افکار ہے ابلیس کی ایجاد
اقبالؒ نے رُموز بے خودی میں میکیاولی کے ابلیسی افکار کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور اس الحاد کے مقابلے میں عیسائیت کی بے بسی کو موضوعِ سخن بنایا:
اُسقُف از بے طاقتی درماندۂ
مہرہ ہا ازکف بروں افشاندۂ
قوم عیسیٰ بر کلیسا پازدہ
نقدِ آئین چلییا وازدہ
دہریت چُوں جامۂ مذہب درید
مرسلے از حضرتِ شیطاں رسید
(لاٹ پادری (اُسقُف) اپنی بے طاقتی کے باعث عاجز اور بے بس ہوکر رہ گیا۔ اس نے سارے مہرے ہاتھ سے پھینک دیے۔ یوں مسیحیت کے پیروکاروں نے کلیسا کو ٹھکرا دیا اور مذہب سے دُور ہوگئے۔ نتیجتاً دہریت والحاد نے مذہب کا لباس پھاڑ ڈالا کیوں کہ اُن کے پاس شیطان کے دربار سے ایک پیغام بر آن پہنچا تھا)۔
آں فلا رنساویٔ باطل پرست
سرمۂ اُو دیدۂ مردم شکست
نسخۂ بہرِ شہنشہاں نوشت
در گلِ ما دانۂ پیکار کشت
(یہ تھے فلارنس (اٹلی) کا وہ باطل پرست (میکیاولی) جس کے سُرمے نے انسانوں کی آنکھوں کو پھاڑ ڈالا (اُن سے نُورِ بصیرت چھین لیا)۔ اس شخص نے بادشاہوں کے لیے ایک کتاب (The Prince) لکھ ڈالی اور ہماری اِس رُوے زمین پر جنگ اور خوں ریزی کا بیج بو دیا)۔
اقبال مرحوم نے اس شاطر انسان کو بُت تراش آذر سے تشبیہ دی کیوں کہ اس کی قوتِ فکر نے وطن کو معبود قرار دیا اور مذموم چیز کو محمود بنا کر پیش کیا۔ حیلہ گری اور فریب کاری نے سیاسی فن کی صورت اختیار کرلی اور دھوکا و دجل مصلحت بن گئی۔ یوں زمین پر اقتدار کے حصول کے لیے مسیح کے پیروکار آسمانی اقدار سے دست بردار ہوگئے اور مذہب ایک پرائیویٹ معاملہ بن گیا اور اجتماعی اداروں سے مذہب کا نام و نشان مٹا دیا گیا، اور اس کو انھوں نے روشن خیالی، آزادی کا نام دے دیا کیوں کہ انھوں نے اپنی معاشرتی زندگی سے خدا کو بے دخل کر دیا تھا۔ یہ نشاتِ ثانیہ کی تحریک کا حقیقی پس منظر تھا جس کا محور وطن پرستی کا بُت اور نسلی و سیاسی لحاظ سے قومیتوں کا افتراق تھا جسے اقبالؒ نے مغرب کے تراشے ہوئے تازہ خدائوں سے تعبیر کیا ہے ؎
ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے ، وہ مذہب کا کفن ہے
اقبالؒ وطنیت کے اس فروغ پذیر نظریے کو، مغرب کی جانب اسلام کی روحانی پیش رفت قرار دیتے ہیں اور حقیقی اسلامی نظریے کی قوت سے اِن بتوں کو پاش پاش کرنا چاہتے ہیں۔ علمی دُنیا میں اقبال کو ایسے بُت شکن کی تلاش تھی۔ ۲۹مئی ۱۹۳۳ء میں جب سابق صدر دارالعلوم دیوبند مولانا انور شاہ کشمیریؒ کا انتقال ہوا تو اس عظیم فلسفی کے تعزیتی اجلاس کے موقعے پر اقبال نے محدث کشمیری کو زبردست خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ فکرِ اسلامی کے احیا کے تجدیدی کام کے لیے شاہ صاحب کی شخصیت میرے پیش نظر تھی اور میں نے آپ کو ڈابھیل سے لاہور منتقل ہونے کا مشورہ دیا تھا مگر زندگی نے وفا نہ کی۔ علامہ اقبالؒ نے محدث کشمیری سے علامہ فخرالدین عراقیؒ کے قلمی مخطوطے کی نقل بھی حاصل کی تھی اور خط و کتابت کے ذریعے غایۃ الامکان فی درایۃ المکان کو سمجھا۔ سائنسی اور روحانی تجربات پر مبنی اس کتاب کے مصنّف علامہ فخرالدین عراقی غالباً نصیرالدین طوسی کے ہم عصر تھے، جن کی کتاب سترھویں صدی میںEuclid کے نام سے پڑھائی جاتی تھی اور جو ۱۵۹۴ء میں روم میں چھپ گئی تھی۔ اپریل ۱۹۲۹ء میں حیدرآباد دکن میں چھپنے والے ایک مضمون میں اقبال نے علامہ عراقیؒ کی کتاب پر تبصرہ کیا تھا۔
نشاتِ ثانیہ کی تحریک اور اقبالؒ
نشاتِ ثانیہ تاریخ یورپ میں ایک سنگ ِ میل کی حیثیت رکھتی ہے کیوں کہ جدید یورپ کی پس پردہ فکری تبدیلی اسی تحریک کے سر ہے۔ نشاتِ ثانیہ کے بعد کا یورپ ماضی کے یورپ سے قطعی مختلف ہوگیا۔ اس حد تک کہ نئے یورپ کے تمام ادارے بشمول کلیسا، مذہب، سیاست، اخلاق اور معیشت، کلچر، رسم و رواج اور سائنس سبھی کچھ بدل گئے۔ اس تحریک ِ احیا کے نتیجے میں انفرادی اور اجتماعی رویے شکست و ریخت سے دوچار ہوگئے۔ مذہبی فکر میں اس کے نفوذ کے بعد عیسائیت ایک نئے زمینی مذہب کے رُوپ میں ڈھل گئی۔ اس لیے کہ اس کی پشت پر نکولو میکیاولی کی شرانگیز استعماری فکر کے علاوہ اہم ترین دانش وروں کا بھی ہاتھ تھا، جنھوں نے اصلاحِ مذہب (Reformation) کا نعرہ بلند کیا۔ اُن میں اصلاح مذہب کے علَم بردار اور پروٹسٹنٹ فرقے کے روح رواں مارٹن لوتھر (۱۴۸۴ء-۱۵۶۴ء)، زونگلی (۱۵۳۱ء، سوئٹزرلینڈ)، ابراسمس مانڈس (۱۴۶۶ء-۱۵۳۶ء، برطانیہ)، اور کولون (م:۱۵۶۴ء، جنیوا) شامل تھے۔ مقاصد کے اعتبار سے یہ تحریک عیسائیت کو بظاہر اس کی ’اصل‘ فراہم کرنا چاہتی تھی، مگر اس کے نتیجے میں مذہب ہی منہدم ہوگیا۔
ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ قومی ریاست کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم کے نظریے کا سولھویں اور سترھویں صدی میں ہدف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیا گیا آسمانی مذہب تھا، اور میکیاولی کی شرارت اور منفی ذہانت پر مبنی سیاست کے نتیجے میں تمام عیسائی آہستہ آہستہ اپنے ’اصل‘ یعنی وحی کے فیضان سے محروم ہوتے گئے اور قیصر کو خدا کی خدائی میں شریک بنا لیا۔ بدقسمتی سے ۲۰ویں صدی تک روے زمین پر شاذ ہی ایسا عیسائی بچ گیا ہو جو انجیل کی اصل تعلیمات سے واقف ہو۔ ایک خودساختہ زمینی مذہب نے آسمانی مذہب کی جگہ لے لی اور ۲۱ویں صدی میں مذہب اسلام کو امپریلزم نے اپنا ہدف بنالیا۔ انیسویں صدی کے اختتام پر علامہ اقبالؒ نے یہ بھانپ لیا تھا کہ کہیں لاٹ پادری کے پیروکاروں کی طرح مسلمان بھی اپنے مذہب اور وحی کے فیضان سے محروم نہ ہوجائیں، جو پرلے درجے کی گمراہی ہوگی اور روے زمین پر اللہ کی وحدانیت گہنا جائے گی۔ اس لیے اپنے شعرو نثر پر مبنی ابلاغی پیغا م کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں کو جھنجھوڑا اور انھیں حقیقی آزادی کا درس دیا اور یورپی افکار کا طلسم توڑا اور ’روشن خیالی‘ کے دعوے کو طشت ازبام کیا۔
۱۷ویں صدی میں یورپ میں شروع کی گئی تحاریک: اکرامِ انسانیت (Humanism)، عقلیت (Rationalism) اور افادیت (Utilitarianism) دراصل انسانیت کو دجل و فریب کے ذریعے اللہ کی حاکمیت کے خاتمے اور عبدیت کے آسمانی تصور کو مٹانے اور اللہ کے مقام پر انسان کو کھڑا کرنے اور عقل کو وحی کا متبادل کے طور پر لانے اور افادیت پرستی کے نام پر شریعت کے حلال و حرام کے لیے مقرر کردہ قیود سے آزادی کی تحریکیں تھیں جنھیں خوب صورت اصطلاحات کے پیرایے میں متعارف کروایا گیا اور اقوامِ عالم کو، حقوق کے چارٹر کے طور پر ان اُقدار کا خوگر بنایا گیا۔اس طرح انسان کو خدا کے بجاے خود انسان اور اس کی عقل کا غلام بنالیا گیا اور انبیا ؑ کی جگہ پر انسانی خواہشات کی غلامی کو اختیار کرنے کی راہ سجھائی گئی۔ یہ اُن ائمہ ضلالت کا کارنامہ تھا کہ چار صدیاں گزرنے کے باوجود انسانیت، سیکولرزم کے گمراہی کے اِن اسباب کا اِدراک نہ کرسکی، جس کا اقبالؒ نے بروقت اِدراک کرلیا تھا۔اس لحاظ سے فکروعمل میں اسلام کی تہذیبی بالادستی کے لیے متحرک قافلے کے سرخیل ہونے کا سہرا اُسی داناے راز کے سر ہے، جو اُسوئہ رسولؐ کے شیدا تھے۔ اُن کا پیغام تھا: ’’یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام کوئی کلیسائی نظام نہیں بلکہ یہ ایک ریاست ہے، جس کا اظہار رُوسو سے بھی کہیں پیش تر ایک ایسے وجود میں ہوا، جو عقدِاجتماعی کا پابند ہو۔ (خطبۂ الٰہ آباد، ۱۹۳۰ء)
سب اپنے بنائے ہوئے زنداں میں ہیں محبوس
خاور کے ثوابِت ہوں کہ افرنگ کے سیّار
پِیرانِ کلیسا ہوں کہ شیخانِ حرم ہوں
نے جدّتِ گفتار ہے، نے جدّتِ کردار
ہیں اہلِ سیاست کے وہی کُہنہ خم و پیچ
شاعر اسی افلاسِ تخیّل میں گرفتار
دنیا کو ہے اُس مہدیِ برحق کی ضرورت
ہو جس کی نگہِ زلزلۂ عالمِ افکار
عیسائیت پہلے بھی یونانی نظریات کے سہارے چل رہی تھی۔ عیسائی لبادے میں ملبوس یہ یونانی خیالات سیکولر یلغار کے نتیجے میں عصرحاضر کا ساتھ نہ نبھا سکے تو انھیں متروک کرنا پڑا جس کی زد عیسائیت پر پڑی، اور اب نشاتِ ثانیہ جدیدیت کا رُوپ دھار کر اکیسویں صدی میں اسلام کے ساتھ نبردآزما ہے جس کا بنیادی مقصد اسلام کو بطور ضابطۂ حیات مشکوک قرار دینا ہے۔ پس منظر اپنے پیش منظر کو خود متعین کرتا ہے۔ نشاتِ ثانیہ کا پس منظر یورپ کے معاشرتی اداروں سے مذہبی افکار کا خاتمہ کر کے انھیں مکمل سیکولر بنیادوں پر استوار کرنا تھا، جب کہ جدیدیت کا پیش منظر مسلم دنیا کے معاشرتی اور سماجی اداروں، معیشت، معاشرت و سیاست اور ابلاغیات سے مذہبی فکر کو علیحدہ کرکے انھیں سیکولر بنیادوں پر استوار کرنا اور عیسائیت کی طرح اسلام کو بھی فرد کا ذاتی معاملہ قرار دے کر انفرادیت تک محدود کرنا ہے۔ عصرِحاضر میں ماضی کی تحریک عقلیت و انسان دوستی کی تحریکوں کو فروغ دیا جارہا ہے۔ مذہبی اقدار و شعائر کا تمسخر اُڑایا جارہا ہے۔ علما کے مقابلے میں نامور شخصیات اور اینکرز کو توقیر دی جارہی ہے تاکہ مسلمان نظریاتی اقدار سے تہی دامن رہیں۔
اقبال کے نزدیک یہ آزادی اور جمہوریت کی علامات ہرگز نہیں ہوسکتیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کی حیلہ گریاں ہیں جو جمہوری قبا میں تاریخ کے مختلف مراحل میں منظرعام پر لائی جاتی ہیں۔ ’خضرراہ‘ میں آزادی کی اس نیلم پری پر وہ اشعار پیش کرتے ہیں:
اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دارِ حیلہ گر
شاخِ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات
دیوِ استبداد جمہوری قبا میں پاے کوب
تُو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
یہیں سے اقبال کے ہاں نظریاتی کے بجاے قومی ریاست اور وطنیت کی مخالفت کا دھارا پھوٹتا ہے اور وہ ’بہ مصطفےٰ برسان خویش را کہ دیں ہمہ اوست‘ کا نعرۂ مستانہ بلند کرتے ہیں اور جذبۂ ایمانی کی قوت کے اظہار کو اس شعر کے قالب میں ڈھالتے ہیں ؎
قلندر جُز دو حرفِ لا اِلٰہ کچھ بھی نہیں رکھتا
فقیہہِ شہر قاروں ہے لُغَت ہاے حجازی کا
اقبال، علمی قیادت پر تنقید کے علاوہ غیرنظریاتی سیاسی قیادت کا بھی بھرپور احتساب کرتے ہیں اور محمد رسولؐ اللہ کو اصل قائد کے طور پر ’اسوہ‘ کی صورت میں سامنے لاتے ہیں، تاکہ اُمت مسلمہ کے جملہ قائدین آفتاب رسالتؐ کی حقیقی قیادت پر متحد ہوجائیں اور اُسی آفتاب کی کرنوں سے روشنی حاصل کریں ورنہ ڈُور کٹی پتنگ کی طرح اُمت سے اُن کا رابطہ منقطع ہوجائے گا اور وہ طوافِ کعبہ کے بجاے ’حرمِ مغرب‘ کے زائرین بن کر رہ جائیں گے ؎
یہ زائرانِ حریمِ مغرب ہزار رہبر بنیں ہمارے
ہمیں بھلا ان سے واسطہ کیا جو تجھ سے ناآشنا رہے ہیں
محترم سیّدابوالحسن علی ندویؒ لکھتے ہیں:’’اقبال اُن سیاسی زعما و قائدین کے رویوں پر سخت افسوس کا اظہار کرتے ہیں جو عالمِ اسلام میں قیادت و سیادت کے دعوے دار تو ہیں مگر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے اُن کا کوئی قلبی و روحانی تعلق و رابطہ نہیں۔ (نقوشِ اقبال، ص ۴۶، طبع ۱۹۷۶ء)
فکرِ اسلامی کی تشکیل نو پر دیے گئے اپنے لیکچرز میں اقبال انھی علمی اور سیاسی زعما کا محاسبہ کرتے ہیں: ’’نجات دہندہ خود ہی بتدریج غلامی کی اُن زنجیروں میں جکڑے جاتے ہیں جن کا مشن اِن زنجیروں سے دوسروں کو آزادی دلانا تھا‘‘۔ (Speeches, Writings & Statements of Iqbal ،اقبال اکادمی، ۲۰۱۵ء، ص ۱۱۷)
اس طرح اقبال نے ’آزادی‘ اور ’عبدیت‘ کے حسین امتزاج کا ایسا تصور پیش کیا تھا، جس سے انسان پر انسان کی خدائی کا خاتمہ بھی ہوسکتا ہے اور ظلم سے پاک ایک نئی دنیا کی تعمیر بھی۔ مولانا مودودی کے نزدیک بھی خرابی کی اصل جڑ یہی ہے، جس کی اقبال نے نشان دہی کی تھی۔ (تحریکِ آزادی ہند اور مسلمان، ص ۲۴-۲۵)
اس بڑے مشن کی تکمیل کے لیے اقبال نے مولانا مودودی کو دعوت دے کر دارالاسلام پٹھانکوٹ بلایا اور ملاقاتیں کرکے فکر ِ اسلامی کے احیا، تحقیق اور رجالِ کار کی تیاری کے اداراتی خدوخال طے کیے۔ مارچ ۱۹۳۸ء میں مولانا مودودی حیدرآباد سے پٹھانکوٹ منتقل ہوئے اور اپریل کے مہینے میں علامہ اقبالؒ اس دنیا سے چل بسے___ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْن
ایک وقت ایسا تھا کہ یورپی افکار اسلامی دنیا سے روشنی اور قوت حاصل کرتے تھے مگر اب اسلام روحانی طور پر مغرب کی جانب متحرک ہے، کیوں کہ فطرت پر غلبہ پانے والی انسانی طاقت نے مغرب کو ایک نیا عقیدہ عطا کیا ہے۔( تشکیل جدید الٰہیات ، ص۶)
گمراہی کی طرف جانے والے مغرب کو دوبارہ اسلام کے افکار سے ہم آہنگ کرنے کے لیے، اسلامی افکار کی تشکیلِ نو (Reorientation ) اقبال کے مدنظر وقت کی اہم ضرورت تھی کیوں کہ اس مقصد کے حصول میں عیسائیت ناکام ہوچکی تھی۔ اقبال کے اِن لیکچروں کا مقصد بھی یہی تھا:
ہمیںاپنے ایمان کی تشکیل نو اور افکار کی تعمیرنو کی ضرورت ہے جس میں عیسائیت ناکام ہوچکی ہے۔ (ایضاً، ص ۶)
آزادی کے بعد یہ سوال ہنوز جواب طلب ہے کہ مغرب پرستی کے بجاے اسوہ حسنہؐ کی روشنی میں مغرب اور مغرب کی طرف دوڑنے والوں کی ہم نے کتنی رہنمائی کی ہے، جس کی طرف آزادی سے پہلے اقبال واضح نشان دہی فرما گئے تھے۔ فکروعمل کے میدان میں یہ وہ قرض ہے جس کی ادایگی ملت ِاسلامیہ کے ذمّے فرض ہے اور جس کے لیے اقبال نے اپنی زندگی وقف کی تھی اور ان زریں اصولوں کی بنیاد پر دنیا میں امن و استحکام آسکتا ہے، جس کی انسانیت متلاشی ہے:
ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکرِخاکی میں جاں پیدا کرے
پھونک ڈالے یہ زمین و آسمانِ مستعار
اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے
حال ہی میں ایک مقتدر انگریزی روزنامے میں حکومت ِپاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ جناب ریاض محمد خان نے اپنے ایک مضمون میں یہ دلیل دینے کی کوشش کی ہے کہ ’’تنازعہ جموں و کشمیر دراصل مسلم اکثریتی وادیِ کشمیر کا مسئلہ ہے‘‘ اور ان کے بقول: ’’دیگر دو خطے جموں و لداخ غیرمسلم اکثریتی علاقے ہیں، اس لیے لاتعلق ہیں‘‘۔تنازعۂ کشمیر کو جغرافیائی و سیاسی تناظر میں دیکھنے کے بجاے انسانی زاویے سے دیکھنے کے لیے ان کا موقف یقینا ستایش کے قابل ہے، مگر متنازعہ ریاست کی آبادیاتی ساخت اور اس کے مختلف خطوں کی مذہبی شناخت پر ان کی کم علمی اور ناقص معلومات پر افسوس کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے۔
جموں و کشمیر کی آبادیاتی (Demographic) ساخت کے بارے میں عموماً یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ اس کے تین خطوں: ’’کشمیر وادی، لداخ اور جموں میں سے صرف ایک خطے میں مسلمانوں کی اکثریت ہے‘‘۔ تاہم، بھارتی وزارتِ داخلہ کے رجسٹرار آف سنسس کی طرف سے ۲۰۱۱ء میں کرائی گئی مردم شماری کے اعداد و شمار اس غلط فہمی کو دُور کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاست کے تمام خطّے لسانی اور ثقافتی اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں، مگر جموں کا خطہ جو انتظامی لحاظ سے ایک ڈویژن ہے، دراصل تین خطوں، یعنی جموں (توی ریجن)، پیر پنچال اور وادیِ چناب میں منقسم ہے۔
اوّل الذکر خطّہ، یعنی جموں توی ریجن میں مختلف ہندو ذاتوں کی اکثریت ہے، جب کہ دیگر دونوں خطّوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔
جموں توی کے پانچ اضلاع ادھم پور، سانبھا، ریاسی، جموں اور کٹھوعہ کی آبادی ۳۳ لاکھ سے زیادہ ہے۔ اس خطّے کےبھی ریاسی ضلع میں ہندو اور مسلمانوں کا تناسب تقریباً برابر ہے:
جموں اور کشمیر کی مردم شماری 2011ء
کُل آبادی: ایک کروڑ 25 لاکھ 41 ہزار 302
مسلمان
85,67,485
68.31%
ہندو
35,66,674
28.43%
سکھ
2,34,848
1.87%
بودھ
1,12,584
0.89%
وادی کشمیر (اضلاع)
اضلاع
کُل آبادی
ہندو
فی صد
مسلمان
فی صد
کپواڑہ
8,70354
37218
4.26
8,23286
94.59
بڈگام
7,53745
10110
1.34
7,36054
97.65
بارہ مولا
10,08039
30621
3.03
9,59185
95.15
بانڈی پورہ
3,92232
8439
2.15
3,82006
97.39
سری نگر
12,36829
42540
3.43
11,77342
95.19
گاندربل
2,97446
5592
1.88
2,90581
97.69
پلواما
5,60440
13840
2.46
5,35159
95.48
شوپّیاں
2,66215
3116
1.17
2,62263
98.51
اننت ناگ
1,07869
1318
1.2
10,57005
97.98
کلگام
4,24483
4247
1.05
4,18076
98.49
میزان
68,88475
1,68813
2.45
66,40957
96.40
جموں (اضلاع)
اضلاع
کُل آبادی
ہندو
فی صد
مسلمان
فی صد
کٹھوعہ
6,16435
5,40063
87.61
64234
10.42
اودھم پور
5,54985
4,89044
88.11
59771
10.76
ریاسی
3,14667
1,53896
48.90
1,56275
49.66
جموں
15,29958
12,89240
84.26
1,07489
7.02
سامبا
3,18898
275311
86.33
22950
7.19
میزان
33,34943
27,47554
82.38
4,10719
12.31
پیر پنجال (اضلاع)
اضلاع
کُل آبادی
ہندو
فی صد
مسلمان
فی صد
پونچھ
4,76836
32604
6.83
4,31279
90.44
راجوری
6,42415
2,21880
34.53
4,02879
62.71
میزان
11,19251
2,54484
22.73
8,34158
74.52
وادی چناب (اضلاع)
اضلاع
کُل آبادی
ہندو
فی صد
مسلمان
فی صد
ڈوڈا
4,09936
1,87621
45.76
2,20614
53.81
رمبن
2,83713
81026
28.55
2,00516
70.67
کشتواڑ
2,30696
93931
40.71
1,33225
57.74
میزان
9,24345
3,62578
39.22
5,54355
59.97
لداخ (لیہہ اور کرگل اضلاع)
اضلاع
کُل آبادی
ہندو
فی صد
مسلمان
فی صد
بودھ مت
فی صد
لیہہ
1,33487
22882
17.14
19057
14.27
88635
66.39
کرگل
1,40802
10341
7.34
1,08239
76.87
20126
14.29
میزان
2,74289
33223
12.11
1,27296
46.40
1,08761
39.65
(Census of India 2011, Registerar of Census, Govt of India, Ministry of Home Affairs, New Delhi, 2015)
پیرپنچال اور وادیِ چناب کے خطے اپنی علیحدہ شناخت رکھتے ہیں۔ پیرپنچال کا خطہ، راجوری اورپونچھ کے دو اضلاع پر مشتمل ہے۔ یہاں مسلمانوں کا تناسب ۷۵ فی صد ہے۔
اسی طرح ایک اور خطّہ ہے وادیِ چناب، جو دریاے چناب کے دامن میں بسا ہوا ہے۔ اس خطّے کو بھی انتظامی اعتبار سے جموں ڈویژن کا حصہ بنایا گیا ہے۔ اس کے تین اضلاع ہیں: کشتواڑ، رام بن اور ڈوڈہ۔ تینوں اضلاع مسلم اکثریتی ہیں۔ اس خطے میں مسلم آبادی کا تناسب ۶۰ فی صد ہے۔
لداخ خطّے کے بارے میں سب سے زیادہ غلط فہمی پھیلائی گئی ہے کہ یہ بودھ اکثریتی علاقہ ہے، جو حقیقت کے بالکل برعکس ہے۔ اس خطے میں دو اضلاع لیہ اور کرگل ہیں۔ تناسب کے اعتبار سے بودھ ۳۹ء۶۵ فی صد اور مسلمان ۴۶ فی صد ہیں۔ اس طرح مردم شماری کے یہ اعداد و شمار لداخ کے بودھ اکثریتی علاقہ ہونے کی تردید کرتے ہیں۔
لداخ کے صرف ضلع لیہہ میں بودھ آبادی کا تناسب ۶۶ فی صد ہے، جب کہ مسلمان ۱۴فی صد ہیں۔ اس ضلع کی آبادی لیہ کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ یعنی خطے کی مجموعی آبادی میں ۲لاکھ ۷۴ہزار ۲سو ۸۹ میں سے مسلمانوں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ ۲۸ہزار ہے، جب کہ بودھوں کی ایک لاکھ ۸ہزار ہے۔
وادیِ کشمیر کے بارے میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ یہاں مسلم آبادی کا تناسب ۹۶ فی صد ہے۔
ریاست کی جملہ آبادی ایک کروڑ ۲۵لاکھ ۴۱ ہزار سے کچھ زیادہ ہے، جس میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً ۸۶لاکھ ہے، جب کہ ہندوئوں کی ۳۵لاکھ سے زیادہ اور سکھوں کی تقریباً ڈھائی لاکھ اور بودھ مت کے پیروکاروں کی تعداد ایک لاکھ سے کچھ زیادہ۔
ہندستان ٹائمز کی لیڈر شپ سمٹ میں شرکت کرنے کے لیے جب پاکستان کی سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹوصاحبہ [م: ۲۰۰۷ء] نئی دہلی آئی تھیں اور موریہ شیریٹن ہوٹل میں مَیں ان کا انٹرویو لے رہا تھا توانھوں نے [آسٹریلیا کے سابق چیف جسٹس اور اقوام متحدہ کے نمایندے] سراون ڈکسن [م: ۷جولائی ۱۹۷۲ء] کے ’کشمیر پلان‘ کے حوالے سے تفصیلات پر مجھ سے تبادلۂ خیال کیا۔
میں نے کہا: ’’اگر پورے جموں و کشمیر میں کسی ایک ایشو پر اتفاق راے ہے تو یہی ہے کہ ریاست کی وحدت برقرار رہنی چاہیے۔ تقسیم کی صورت میں جموں اور کرگل کی ایک بہت بڑی مسلم آبادی کو نقل مکانی کرنی پڑے گی‘‘۔
بے نظیر صاحبہ کا کہنا تھا :’’مجھے تو بریفنگ کچھ اور ہی دی گئی ہے‘‘۔ یہ کہہ کر انھوں نے اگلا سوال یہ کیا کہ: ’’پھر ان علاقوں میں کبھی کوئی تحریک برپا کیوں نہیں ہوتی؟‘‘
میں نے جواب دیا کہ ’’ایک تو یہ بہت ہی دُور دراز علاقے ہیں اور وادیِ چناب کے علاوہ دیگر علاقے لائن آف کنٹرول سے قریب ہونے کی بنا پر ہمہ پہلو فوجی حصار بھی ان علاقوں میں سب سے زیادہ ہے‘‘۔
سابق خارجہ سیکرٹری محترم ریاض محمد خان صاحب کا ایک اور استدلال یہ بھی ہے کہ: ’’پاکستان کے آبی وسائل، یعنی دریاے چناب اور دریاے سندھ ریاست کے غیرمسلم اکثریتی علاقوں سے ہوکر گزرتے ہیں‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں دریا اپنا بیش تر سفر بالترتیب وادیِ چناب اور ضلع کرگل میں طے کرتے ہیں اور یہ دونوں مسلم اکثریتی علاقے ہیں۔
افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس طرح کا استدلال ان چند ہندو جماعتوں کو تقویت فراہم کرتا ہے، جو جموں کو الگ ریاست اور لداخ کو براہِ راست دہلی کے تحت انتظامی علاقہ بنانے کا مطالبہ کرتی ہیں۔ دراصل یہ مطالبہ سیاسی مایوسی کی پیداوار ہے۔ اگر جموں کو مذہبی اعتبار سے الگ کیا جاتا ہے ، تو اس کے تینوں خطوں کو بھی الگ الگ کرنا پڑے گا، کیوں کہ مذہبی پیمانے پر خطے کی تقسیم کے معنی پیرپنچال اور وادیِ چناب کو مسلم اکثریت ہونے کی بنا پر الگ کرنا پڑے گا۔ اس صورت میں جموں توی ایک چھوٹے سے علاقے میں سمٹ جائے گا۔
ایک منصوبے کے تحت ان علاقوں کو جان بوجھ کر وادیِ کشمیر سے الگ تھلگ رکھا گیا تھا، تاکہ مسلم اکثریتی آبادی کو احساسِ کمتری میں مبتلا کر کے مسلمانوںکو اس خطے سے بے دخل ہونے پر مجبور کیا جائے۔ وادیِ چناب اور پیرپنچال میں ایک عشرے سے زائد سیکورٹی ایجنسیوں کی شہ پر ویلج ڈیفنس کمیٹیوں (وی ڈی سی) نے مسلم اکثریتی طبقے کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ عسکریت سے نبٹنے کے نام پر ان علاقوں میں سویلین افراد پر مشتمل فورس بنائی گئی تھی،جو نہ سرکار کے تابع ہے اور نہ کسی کے سامنے جواب دہ اور ان میں صرف ہندو اقلیتی افراد کو بھرتی کیا گیا تھا۔ ان خطوں میں اس فورس کے ذریعے اغوا، تاوان، زیادتیوں کی وارداتیں عام ہیں۔ ظاہر ہے کہ خمیازہ مسلم آبادی کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
۲۰۰۳ء اور ۲۰۰۵ء کے درمیان وزیراعلیٰ مفتی محمد سعید [م: ۲۰۱۶ء] نے پیرپنچال کو دوبارہ وادیِ کشمیر سے جوڑنے کے لیے مغل روڈ کے احیا کا بیڑا اُٹھایا تھا۔ یہ شاہراہ اب مکمل ہوچکی ہے، جو پونچھ کی بفلیاز تحصیل کو جنوبی کشمیر کے شوپیاں قصبے سے ملاتی ہے۔ اکثر مغل حکمران لاہور سے اسی سڑک کے ذریعے وادیِ کشمیر میں وارد ہوتے تھے۔ مغل شہنشاہ جہانگیر [م: ۱۶۲۷ء] کا انتقال ہی بفلیاز کے پاس کشمیر واپسی پر راستے میں ہوا تھا۔ بغاوت کے ڈر سے انتقال کی خبر کو راز میں رکھنے کی غرض سے ملکہ نورجہاں [م: ۱۶۴۵ء] نے آلایش و اعضا نکال کر اسی علاقے میں دفن کر دیے تھے اور بقیہ نعش اسی تزک و احتشام کے ساتھ لاہور کی طرف عازم تھی، گویا کہ بادشاہ خود قافلے کی قیادت کر رہے ہوں۔ ۱۹۷۵ء میں شیخ محمدعبداللہ [م: ۱۹۸۲ء] نے اقتدار میں آتے ہی اس سڑک کو کھولنے کی بھرپور سعی کی، مگر کچھ رقوم کی عدم دستیابی اور کچھ بھارت کے وزارتِ دفاع کے اعتراضات نے اس کو التوا میں ڈال دیا۔ یہی حال کچھ کرگل اور وادیِ کشمیر کے گاندربل اضلاع کا ہے۔ زوجیلا پاس کے نیچے سے یہاں بھی ایک سرنگ کئی عشروں سے تعمیر اور تکمیل کا انتظار کر رہی ہے۔
ان علاقوں میں مسلم آبادی کو احساسِ محرومی کا مزید شکار کرنے کے لیے اب تاریخ بھی مسخ کی جارہی ہے، تاکہ یہ باور کرایا جائے کہ ’’جموں کے نجات دہندہ، ڈوگرہ حکمران ہی تھے‘‘۔ اکھنور میں جیاپوتا کے مقام پر تو کئی برسوں سے راجا گلاب سنگھ [م: ۱۸۵۷ء]کا جنم دن منایا جاتا ہے۔ ان کا ایک مجسمہ بھی نصب کیا گیا ہے۔ شعوری طور پر کوشش کی جارہی ہے کہ راجا گلاب سنگھ اور ان کے جانشینوں کو ’تاریخ کے ہیرو‘ بنا کر پیش کیا جائے۔ یہ بھی کوشش رہی ہے کہ راجا گلاب سنگھ اور راجا ہری سنگھ [م: ۱۹۶۱ء]کے یومِ پیدایش پر سرکاری چھٹی منظور کرائی جائے۔ اس سلسلے میں جموں شہر میں حال ہی میں ہتھیاروں سے لیس ہندو انتہا پسندوں نے سڑکوں پر مارچ کیا۔ جاگیردارانہ لوٹ کھسوٹ کرنے والے مہاراجوں، جبروتشدد کرنے والے مطلق العنان راجواڑوں اور عوامی مفادات بیچ کر اقتدار حاصل کرنے والے حاکموں کو تاریخ ساز ہیرو قرار دینا تاریخ کے ساتھ سب سے بڑا اور گھنائونا ظلم ہے۔
ان ظالموں نے اس ریاست میں راج کن وسائل اور ذرائع سے حاصل کیا، وہ تاریخ میں درج ہے۔ راجا گلاب سنگھ نے پہلے جموں کے عوام، پھر لاہور کے سکھ دربار سے بے وفائی کر کے جبروتشدد کے ذریعے جموں و کشمیر کی ریاست میں اقتدار حاصل کیا تھا۔ پھر ان کے لواحقین اور جانشین بدترین انداز سے جاگیردارانہ لوٹ کھسوٹ کرتے رہے۔ ایسے ڈاکو راج کو بھلا جموں کا ہیرو کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟
جب مہاراجا رنجیت سنگھ [م: ۱۸۳۹ء] نے پیش قدمی کرکے جموں کو فتح کرنے کی کوشش کی تو جموں میں اس کی زبردست مزاحمت ہوئی۔ جموں میں لاہور دربار کے خلاف زبردست گوریلا لڑائی لڑی گئی، جس کی قیادت میاں ڈیڈو اور دیگر ڈوگرہ جنگ جُو کر رہے تھے۔ راجا گلاب سنگھ کے والد اور خود گلاب سنگھ نے ڈوگرہ سرفروشوں کو پیٹھ دکھا کر، مہاراجا رنجیت سنگھ کی فوج میں ملازمت اختیار کرکے ڈوگرہ مدافعتی جنگ سے دامن بچایا اور مہاراجا رنجیت سنگھ کا ایجنٹ بن کر میاں ڈیڈو اور دوسرے کئی ڈوگرہ جنگجوئوں کو قتل کیا۔ ڈوگرہ مدافعت کو کچلنے، مہاراجا رنجیت سنگھ کی سلطنت کو جموں میں وسعت دینے اور ڈوگرہ سرفروشوں کو قتل کرنے کے عوض راجا گلاب سنگھ کو جموں کی باج گزار ریاست عطا ہوئی۔ لاہور دربار کو خوش کرنے کے لیے میاں ڈیڈو کے علاوہ جسروٹہ، بلادر، بسوہلی، بھمبر، ٹکری، کرمچی، کشتواڑ، بھدرواہ، سراج، کوٹلی ، راجوری، پونچھ، میرپور اور دوسرے علاقوں کے راجگان کے سر قلم کرکے ان کے پسماندگان کو ملک بدر کیا گیا۔ کھالوں میں بھوسہ بھر کر درختوں کے ساتھ لٹکایا گیا اور وحشت اور سفاکیت کا دور جاری کیا گیا۔
لیکن راجا رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد جب سکھ سلطنت کا زوال شروع ہوا اور انگریزوں نے پنجاب پر چڑھائی کی تو جموں کا یہ راجا، لاہور کے دربار سے غداری کر کے انگریزوں سے مل گیا۔ اس خدمت ِ خاص کے عوض ۷۵ لاکھ روپے نانک شاہی کی رقم جو انگریزوں نے ان پر تاوانِ جنگ ڈالا تھا، اس کی ادایگی کر کے ’بیع نامہ امرتسر‘ کے ذریعے کشمیر کا یہ صوبہ راجا گلاب سنگھ نے حاصل کیا۔ ۱۸۴۶ء سے ۱۹۴۷ء تک جموں کے ان نام نہاد ’ہیروز‘ کے اس خانوادے نے جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ جو سلوک کیا وہ تاریخ میں رقم ہے۔ظلم کی اس سیاہ رات میں اصل خونیں بارش یہاں کے مسلمانوں پر برسی۔
سرزمین بنگال کی قسمت میں قربانی، سازش اور ظلم ساتھ ساتھ چلتے نظر آتے ہیں۔ قیامِ پاکستان سے قبل انگریزوں اور ہندوئوں کے ظلم سہتے ہوئے بنگالی مسلمانوں نے گراں قدرقربانیاںپیش کیں اور غیرت و حمیت پر آنچ نہ آنے دی۔ لیکن قیامِ پاکستان کے بعد انھی ہندوئوں کے ہاتھوں میں کھیلنے کے لیے مشرقی پاکستان کی بڑی سیاسی قوت نے خودسپردگی کا ایک ایسا رویہ اختیار کیا، جس نے انھیں تاحال سکون اور قومی خوداختیاری کی دولت سے محروم رکھا ہے۔ حالیہ دنوں میں بنگلہ دیش کی کٹھ پتلی عوامی لیگی حکومت نے کچھ ایسے اقدامات کیے ہیں، جن پر یہ معروضات پیش ہیں:
o
اگرچہ جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کو عوامی لیگی حکومت مسلسل نشانۂ ستم بنائے ہوئے ہے ، لیکن ستمبر کے آخری ہفتے میں جماعت اسلامی پر عتاب کا نیا وار کرتے ہوئے جماعت کے کارکنوں کی اچانک پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ ۲۷ستمبر کو ضلع پبنہ کی سانتھیا تحصیل کے امیرمستفیض الرحمٰن فیروز اور جماعت اسلامی کی حلقہ خواتین کی فعال کارکنان کو بلاجواز گرفتار کرلیا۔ اسی طرح ضلع سرسنگدی کی تحصیل پولاش کے امیر مولانا امجد حسین کو بھی زیرحراست لے لیا گیا۔
۹؍اکتوبر کو نمازِ عشاء سے تھوڑی دیر پہلے، حکومت نے جماعت اسلامی کے امیر مقبول احمد، نائب امیر و سابق رکن پارلیمنٹ میاں غلام پروار اور سیکرٹری جنرل ڈاکٹر شفیق الرحمٰن، محمد شاہ جہاں (امیرچٹاگانگ)، نذرالاسلام، سیف الاسلام، جعفرصادق اور نذرالاسلام ثانی کو گرفتار کرلیا۔ جماعت اسلامی نے تمام حکومتی مظالم، دھاندلیوں اور خوف ناک زیادتیوں کے باوجود جمہوری، پُرامن اور ایک اصولی پارٹی کے طور پر اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھا ہے۔ ان قائدین کو گرفتار کرتے وقت الزام یہ لگایا گیا کہ ’’ڈھاکا کے ایک گھر میں دہشت گردی کا منصوبہ بنایا جارہا تھا‘‘، جب کہ جماعت کے ترجمان نے اس شرم ناک الزام کی تردید اور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ: ’’وہ ایک گھر کے احاطے میں سماجی تقریب میں شریک تھے، خفیہ یا تخریب کاری جیسے گھنائونے الزام کی کوئی حقیقت نہیں۔ ہم ایک جمہوری پارٹی ہیں اور جمہوری طریقوں سے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ باوجود اس کے کہ جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت کو جھوٹے الزامات اور غیرمنصفانہ اور یک طرفہ مقدمات میں مطیع الرحمٰن نظامی سمیت جماعت اسلامی کے پانچ مرکزی رہنمائوں (سیکرٹری جنرل علی احسن محمد مجاہد، ڈپٹی سیکرٹری جنرل قمرالزمان خان، اسسٹنٹ سیکرٹری عبدالقادر مُلّا، مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن میرقاسم علی) کو پھانسی پر لٹکادیا گیا، مگر جماعت نے کوئی غیرقانونی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ اور جو پُرامن احتجاج کیے، ان میں بھی جماعت کے بہت سے کارکنوں کو حکومت کے ایما پر گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا۔ پھر شہید مطیع الرحمٰن نظامی کی پھانسی کے بعد منتخب امیرجماعت اسلامی بنگلہ دیش مقبول احمد صاحب نے بوجوہ بڑے جلسوں میں شرکت سے گذشتہ پورے سال کے دوران میں اجتناب برتا ہے، مگر اس کے باوجود انھی پر شرم ناک الزام لگانا، حکومتی حلقوں کا ذہنی دیوالیہ پن ہے‘‘۔ یاد رہے ۲۰۱۳ء سے جماعت اسلامی پر انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے کہ: ’’جب تک وہ اپنے دستور اور منشور کو سیکولر نہیں بناتی وہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتی‘‘۔
جناب مقبول احمد کی گرفتاری کے بعد جماعت اسلامی نے سابق ممبر پارلیمنٹ پروفیسر مجیب الرحمٰن کو قائم مقام امیر اور جناب اے ٹی ایم معصوم کو قائم مقام سیکرٹری جنرل مقرر کیا ہے۔
۹؍اکتوبر ہی کو بنگلہ دیش سپریم کورٹ میں جماعت اسلامی کے تین لیڈروں کی نظرثانی کی اپیلوں پر کارروائی ۲۱نومبر تک ملتوی کی گئی۔ یاد رہے کہ ان میں اے ٹی ایم اظہرالاسلام، سیّدمحمد قیصر اور عبدالسبحان کو بنگلہ دیش کی خصوصی [جعلی] عدالتیں سزاے موت کی سزا سنا چکی ہیں۔ (روزنامہ ڈیلی اسٹار، ۱۰؍اکتوبر ۲۰۱۷ء)
قائم مقام امیرجماعت اسلامی کی اپیل پر ۱۲؍اکتوبر کو پورے ملک میں پُرامن ہڑتال کی گئی۔ابتدا میں تو نہیں، البتہ ہڑتال کے دوران بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے جماعت اسلامی کی ہڑتال کی حمایت کا اعلان کر دیا (NTV ڈھاکا، ۱۲؍اکتوبر)۔ اسی دوران میں جماعت کے بہت سے احتجاجی کارکنوں کو گرفتار کرکے تھانوں میں بند کردیا گیا۔ نیڑو تحصیل کے امیر ماسٹر نذرالاسلام ، سراج گنج کے امیر پروفیسر شاہدالاسلام اور رنگ پور سے تین مقامی لیڈروں کو پولیس نے اُٹھا لیا۔ ۱۵؍اکتوبر کو ست خیرا میں جماعت کے امیر پروفیسر عبدالغفار کو گرفتار کرلیا۔ اسی طرح کومیلا کے امیر قاضی دین محمد سمیت گیارہ ارکان، چاندپورسے امیرجماعت محمد حسین اور یہیں سے حلقہ خواتین کی ناظمہ فردوسی سلطانہ اور سیکرٹری فرزانہ اختر کو قید کر دیا گیا۔یاد رہے ریمانڈ کا پروانہ لے کر کارکنوں کو پولیس ٹارچر سیلز میں لے جاتی اور انسانیت سوز مظالم ڈھاتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس ظلم پر میڈیا خاموش، عدالت تماشائی اور قوم بے بس نظر آتی ہے۔
جماعت اسلامی کے ۸۰ سالہ امیر جماعت مقبول احمد کی جیل میں صحت بُری طرح خراب ہے۔ وہ ذیابیطس ، بلڈپریشر اور امراضِ دل میں مبتلا ہیں۔ ریڑھ کی ہڈی میں شدید درد کے باعث ان کے لیے سیدھے کھڑے ہونے اور بیٹھنے میں سخت مشکل پیش آتی ہے، اس لیے روزانہ فزیوتھراپی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ادویات میں بے قاعدگی، پرہیزی خوراک کے خاتمے اور جسمانی مشق کی کمی کے باعث ان کی صحت بگڑ گئی ہے، مگر حکومت آج ۲۵؍اکتوبر تک انھیں ہسپتال بھیجنے کے لیے تیار نہیں۔
حسینہ واجد کی کٹھ پتلی حکومت نے اخلاق اور جمہوری روایات کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ۱۸؍اکتوبر کو ڈھاکا سے اسلامی جمعیت طالبات بنگلہ دیش (اسلامی چھاترو شنگھستا) کی ۲۱ کارکنان اور عہدے داران کو درسِ قرآن کی ہفتہ وار کلاس سے گرفتار کرلیا۔ یہ طالبات اعلیٰ درجوں میں میڈیکل، سماجیات اور انجینیرنگ کے شعبہ جات سے وابستہ ہیں۔ اس ’روشن خیال اور لبرل‘ حکومت کے مطالبے پر ڈھاکا ہائی کورٹ نے طالبات کی درخواست ضمانت مسترد کرتے ہوئے انھیں پولیس کے ریمانڈ میں دے دیا، اور دو روز کے ریمانڈ کے بعد جیل بھیج دیا۔
راج شاہی یونی ورسٹی سے اسلامی چھاترو شبر کے آٹھ کارکنان کو گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا اور دہشت گردی کا الزام لگایا۔ اسلامی چھاتروشبر کے مرکزی صدر یاسین عرفات نے اس پر کہا ہے کہ: ’’ایک غیرقانونی حکومت، اندھی قوت کے نشے میں بدمست ہوکر گھٹیا الزام لگاتے ہوئے اخلاق، قانون اور قومی اداروں کو تباہ کررہی ہے۔ یہ گرفتاریاں، تشدد اور پھانسیاں تحریک ِ اسلامی کا راستہ نہیں روک سکتیں‘‘۔
o
حسینہ واجد حکومت نے پہلے بنگلہ دیش کی اعلیٰ عدلیہ کو اپنی باج گزار بناکر اس سے خاص طور پر ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ کی کارروائی کی تائید اور انصاف کے قتل کے لیے زرخرید غلاموں کی طرح کام لیا۔ یوں بنگلہ دیش سپریم کورٹ نے آنکھیں بند کرکے، نام نہاد خصوصی ٹریبونلی فیصلوں پر ایک ایک کر کے عمل کرایا اور جماعت اسلامی کے پانچ رہنمائوں اور صلاح الدین قادر چودھری کو پھانسی پر لٹکا دیا، جب کہ قائدتحریک اسلامی پروفیسر غلام اعظم اور ان کے دو رفقا کو جیل کے اندر ہی موت کی وادی میں اُتار دیا۔ حالیہ عرصے میں اسی بنگلہ دیشی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سریندر کمار سنہا نے سات ججوں سمیت بنگلہ دیشی پارلیمنٹ کی ۱۶ویں ترمیم کو اس کی اصل شکل میں نامنظور کرتے ہوئے، ۳جولائی ۲۰۱۷ء کو ۷۹۹صفحات پر مشتمل فیصلہ لکھا اور ۳؍اگست ۲۰۱۷ء کو ۳۹نکاتی فارمولا تجویز کرتے ہوئے متفقہ فیصلے کا اعلان کیا۔
عوامی لیگی حکومت کی طرف سے دراصل یہ ترمیم اس مقصد کے لیے کی گئی تھی کہ :’’آیندہ پارلیمنٹ کے ارکان، اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کا مواخذہ (impeachment) کرسکیں گے‘‘۔ فیصلے کے متن میں چیف جسٹس نے ایک جگہ ۱۹۷۱ء کے ہنگامی حالات میں شیخ مجیب کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے ساتھ یہ جملہ بھی لکھا کہ ’’وہ جدوجہد فردِ واحد کا ثمر نہیں تھی بلکہ اس میں پوری قوم نے حصہ لیا تھا‘‘۔ اس جملے کو عوامی لیگ نے مجیب کی توہین قرار دے کر چیف جسٹس کے خلاف مخالفانہ بلکہ توہین آمیز مہم چلانے اور دبائو بڑھانے کا آغاز کیا ،تاکہ وہ استعفا دیں۔
یہ مسئلہ اُس وقت اپنی انتہا کو پہنچ گیا، جب جسٹس سنہا نے چند روز قبل ایک عدالتی کارروائی کے دوران یہ کہہ دیا کہ: ’’ہمیں جذبات پر قابو رکھنا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے تو وزیراعظم نواز شریف کو برطرف کر دیا ہے، لیکن کیا وہاں پر سپریم کورٹ کو اس طرح تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے؟‘‘ اس جملے کا میڈیا پہ آنا تھا کہ حسینہ واجد نے اسی روز شدید غصے اور برہمی میں چیف جسٹس سنہا کا نام لیے بغیر کہا:’’اسے اب سپریم کورٹ چھوڑنا ہی پڑے گا، اس لیے کہ اس نے پاکستان کے ساتھ بنگلہ دیش کا موازنہ کیا ہے۔ کسی معاملے میں پاکستان کی مثال پیش کرنا ہمارے لیے توہین آمیز اور ناقابلِ برداشت فعل ہے‘‘۔ مزید کہا: ’’عوام کی عدالت زیادہ بڑی عدالت ہے۔ کوئی فرد عوام کی عدالت کو نظرانداز نہیں کرسکتا، میں عوام ہی کی عدالت سے انصاف کی طالب ہوں‘‘۔ حسینہ واجد کے مذکورہ بیان کے چند گھنٹوں بعد ۱۹۶۹ء کی عوامی لیگی اسٹوڈنٹ لیڈر موتیا چودھری، جو آج کل وزیرزراعت ہیں، نے بیان داغا: ’’چیف جسٹس کو ملک چھوڑ دینا چاہیے یا پھر دماغی امراض کے ہسپتال سےعلاج کرانا چاہیے‘‘۔ اُدھر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے چیف جسٹس سے یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کی مذمت کی کہ: ’’عوامی لیگی حکومت نے عملاً چیف جسٹس کو قیدی بنا رکھا ہے‘‘۔ (India TV News Desk، ۱۲؍اکتوبر ۲۰۱۷ء)
ڈھائی ماہ پر پھیلی اس دھماچوکڑی کے بعد ۱۳؍اکتوبر کو چیف جسٹس سنہا نے ایک ماہ کی رخصت پر آسٹریلیا جاتے ہوئے اخبار نویسوں کو چند سطروں پر مشتمل یہ تحریر دی: ’’میں بیمار نہیں ہوں بلکہ صحت مند ہوں۔ میں بھاگ نہیں رہا بلکہ واپس آئوں گا۔ اگرچہ مجھے حکومتی رویے سے دُکھ پہنچا ہے لیکن عدلیہ کا سرپرست ہونے کی حیثیت سے میں اپنا کردارادا کروں گا‘‘ (ڈیلی نیوایج، ۱۴؍اکتوبر)۔ چیف جسٹس کی پرواز کے صرف تین گھنٹے بعد ان کے خلاف گیارہ الزامات کی فہرست جاری کردی گئی۔ ساتھ ہی سپریم کورٹ میں ان کے متعدد ساتھی ججوں نے ان الزامات کی موجودگی میں چیف جسٹس کے ساتھ کام کرنے سے انکار کر دیا۔ (بی ڈی نیوز، ۱۵؍اکتوبر ۲۰۱۷ء)
مزید یہ کہ قائم مقام چیف جسٹس محمد عبدالوہاب میاں نے چیف جسٹس سریندرکمار سنہا کے آسٹریلیا روانہ ہونے کے ۴۸گھنٹے کے اندر اندر سپریم کورٹ اور اعلیٰ عدلیہ کے ۲۵اعلیٰ افسروں کو ان کے عہدوں سے ہٹا کر تبادلے کر دیے ہیں۔ ان عدالتی افسروںمیں جسٹس سنہا کے قریبی رفقا شامل ہیں۔ اس اقدام سے ایک ہی روز قبل وزیرقانون انیس الحق اور اٹارنی جنرل محبوب عالم نے بیان دیا تھا کہ ’’قائم مقام چیف جسٹس تمام اقدامات اور فیصلے کرسکتا ہے‘‘۔(بی ڈی نیوز۲۴، ۱۶؍اکتوبر)
جماعت اسلامی کے قائم مقام سیکرٹری جنرل اے ٹی ایم معصوم نے اس صورتِ حال کو: ’’عدالتی معاملات میں حکومت کی سیاسی، حکومتی اور غیراخلاقی مداخلت قرار دیا، اور کہا کہ دراصل حسینہ حکومت عدالتی افسروں، ججوں اور عدالتی عمل پر مکمل گرفت قائم کرنا چاہتی ہے‘‘،جب کہ قائم مقام چیف جسٹس نے یہ بیان داغ دیا ہے کہ: ’’جسٹس سنہا کو جاتے جاتے منصب کے احترام میں ایسا بیان نہیں دینا چاہیے تھا‘‘ (ڈیلی اسٹار ، ۱۷؍اکتوبر)۔ پیش نظر رہے کہ جسٹس سنہا نے ڈھائی ماہ تک عوامی لیگی طوفانی پروپیگنڈے، گندے کارٹونوں اور گھنائونے الزامات کے جواب میں صرف یہی تین جملے لکھے۔
اس صورتِ حال سے یہ اندازہ ہوتا ہے، بھارت اپنی نوآبادی بنگلہ دیش کا نظام ٹھیک طور سے نہیں چلنے دینا چاہتا۔ اس کی یہی کوشش ہے کہ ۱۶کروڑ آبادی کا یہ ملک ہرآن کسی نہ کسی افراتفری کا شکار رہے ، تاکہ معاشی، سماجی اور سیاسی استحکام کی عدم موجودگی میں وہ ایک مجبور اور غیرمستحکم ریاست کے طور پر تاجِ دہلی کا دست ِ نگر رہے۔ اس آئینے میں، اس خطّے ہی کے نہیں بلکہ خود عرب دنیا کے نام نہاد علاقائی قوم پرستوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جب بڑی طاقت ، نفرت کے بل پر نام نہاد آزادی دلاتی ہے تو بنیادی کنٹرول اپنے ہاتھ ہی میں رکھتی ہے۔ اپنی ملّت سے غداری کرنے والوں کو محض علامتی اختیار دیتی ہے اور لیلاے اقتدار سے نہیں نوازتی۔
o
بنگلہ دیش کے ہمسایہ ملک برما (میانمار) میں ایک عرصے سے مسلمانوں کی نسل کشی کا گھنائونا کھیل جاری ہے۔ اس دوران عوامی لیگی حکومت نے بھی عزت، آبرو اور جان بچاکر آنے والے روہنگیا مسلمانوں کو سمندر میں دھکیل کر موت کی لہروں کے سپرد کیا۔ تاہم، گذشتہ چندماہ میں بنگلہ دیشی حکومت کے رویے میں مثبت تبدیلی آئی، جس کا بڑا سبب عالمی اور ملکی راے عامہ کا دبائو بھی تھا۔
روہنگیا مسلمانوں کی وحشیانہ نسل کشی کے خلاف راے عامہ کی توجہ مبذول کرانے کے لیے جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے حتی المقدور کوششیں شروع کیں۔ جماعت اسلامی کے امیرمقبول احمد نے روہنگیا مسلمانوں کی ناقابلِ بیان صورتِ حال، میانمار حکومت، میانماری فوج اور بدھ بھکشوئوں کی جانب سے بدترین قتل و غارت گری و بے چارگی پر دنیا کا ضمیر جھنجھوڑنے کے لیے ہم وطن اہلِ درد سے اپیل کی کہ وہ مظلوموں کی مدد کریں اور اپنی اپنی بساط کے مطابق، دنیابھر کے مؤثر اداروں کے دروازے کھٹکھٹائیں۔ مقبول احمد صاحب نے اقوام متحدہ اور عالمی ضمیر سے دردمندانہ اپیل کرتے ہوئے کہا: ’’روہنگیامسلمانوں کے سفاکانہ قتل عام کو رُکوانے میں وہ اپنا اثرو رسوخ استعمال کریں۔ میں عالمی تنظیموں، مسلمان ملکوں اور رفاہی تنظیموں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ مدد کے لیے تڑپتے روہنگیا مسلمانوں کی مدد کے لیے بنگلہ دیش کا ہاتھ بٹائیں۔ اس بحران میں پوری بنگلہ دیشی قوم یک آواز اور ہم قدم ہے‘‘۔(بی ڈی نیوز ۲۴، ۱۲ستمبر ۲۰۱۷ء)
عالمی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ (HRW) کے مطابق:’’ ۲۰ستمبر تک میانمار میں مسلمانوں کے ۲۴۴ گائوں مکمل طور پر تباہ کردیے گئے تھے‘‘(ڈیلی نیونیشن، ۲۰ستمبر)۔ بنگلہ دیشی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک ۵لاکھ ۳۶ہزار روہنگیا مہاجر بنگلہ دیش آچکے ہیں۔ اسی دوران حسینہ واجد کے سیاسی مشیر حسان توفیق امام نے مغالطہ انگیزی پیدا کرتے ہوئے کہا: ’اراکان روہنگیا مجاہدین آزادی‘، بنگلہ دیش اور برما دونوں کے دشمن ہیں، ہم انھیں قدم نہیں جمانے دیں گے‘‘(مِزما نیوز،میانمار، ۲۱ستمبر)۔ اس کاغذی تنظیم کا تذکرہ کرکے بنگلہ دیشی حکومت نے روہنگیا مظلوموں کے زخموں پر نمک پاشی کی اور ان کے دُکھ درد میں اضافہ کیا۔ یہ طرزِ بیان بھارت کی بی جے پی، آر ایس ایس اور برمی فوج کا ہے، جسے ڈھاکا حکومت نے اپنی طرف سے نشر کیا۔ حسینہ واجد حکومت کے اسی دوغلے پن کو نظام احمد نے اپنے مضمون: ’ڈھاکا دہلی رومانس اینڈ روہنگیا‘ میں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا(ڈیلی آبزرور ، ۲۰ستمبر)۔ پھر ۲۰ روز بعد روہنگیا مسلمانوں کی مدد کے لیے کام کرنے والی تین رفاہی تنظیموں: مسلم ایڈ بنگلہ دیش ، اسلامک ریلیف اور علامہ فضل اللہ فائونڈیشن پر پابندی عائد کر دی گئی اور صحافیوں نے اس انتہائی اقدام کا سبب جاننا چاہا، تو ڈائرکٹر رجسٹریشن نے جواب دینے سے انکار کر دیا۔(بی ڈی نیوز ۲۴، ۱۲؍اکتوبر ۲۰۱۷ء)
درحقیقت بنگلہ دیشی حکومت ، جہاں ایک طرف روہنگیا مسلمانوں کی حالت ِ زار کے نام پر دنیا سے مدد حاصل کر رہی ہے، وہیں نہ صرف عالمی سطح کی بلکہ مقامی رفاہی تنظیموں کو بھی ان کی مدد کے لیے ہاتھ بٹانے سے روک رہی ہے۔ روزانہ کوئی نئے سے نیا حکم نامہ آکر، بے لوث خادموں کی راہ میں رکاوٹ پیدا کردیتا ہے۔ بنگلہ دیش کے صحافتی حلقے یہ بات برملا کہتے ہیں کہ: ’’ستمبر سے بنگلہ دیش جماعت اسلامی پر قیدوبند کی حالیہ یلغار کے پیچھے ایک یہ سبب بھی ہے کہ کہیں جماعت اسلامی کے کارکنوں کی اَن تھک کوششوں سے اس کی نیک نامی میں مزید اضافہ نہ ہوجائے اور حکومتی اداروں کی بدانتظامی کا پول کھل نہ جائے‘‘۔
جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کی آمد اور یہاں ان کے ایک نئے اور مختلف معاشرے کی تشکیل کے مراحل میں، اسلامی تہذیب اور ہندو تہذیب کے باہمی اختلافات کے باوجود،جس نئے معاشرے نے جنم لیا، اس میں ان دونوں تہذیبوں کے اتصال اور ملاپ کے قوی امکانات موجود تھے۔ چنانچہ ایک طویل عرصے تک باہم ساتھ رہنے کی وجہ سے ان دونوں کے درمیان زندگی کے تمام ہی پہلوئوں میں اختلاف و اشتراک پیدا ہوا اور یوں ایک ایسے نئے معاشرے نے جنم لیا، جس نے ایک یکسر مخلوط معاشرے کی شکل اختیار کی۔
اس نئے معاشرے میں برہمن اسرارِ توحید سیکھنے اور قرآن کا درس دینے کے قابل ہوگئے اور مسلمان علما ہندوئوں کے علوم کے درس و تدریس اور تراجم میں مصروف ہوگئے۔۱ یہی دور تھا کہ جب ہندو مسلم بھائی بھائی کے نظریے کو فروغ حاصل ہوا۔ اس نظریے کے حامیوں نے ، جو زیادہ تر ہندو یا ہندوئوں سے متاثر مسلمان تھے، اس خیال کو عام کرنا شروع کیا کہ کفرواسلام ایک ہی دریا کے دو دھارے ہیں جو ایک انتہا پر باہم مل جاتے ہیں۔ اس صورتِ حال سے ہندوئوں نے بہت فائدہ اُٹھایا۔ ایک جانب انھوں نے ہندودھرم کے احیا کی جانب قدم بڑھائے اور دوسری جانب مسلمانوں کو باقاعدہ مرتد کرنا شروع کیا۔۲
اسی عرصے میں تصوف کے فروغ اور اس کی مقبولیت نے مزید ستم ڈھایا۔ صوفیا نے صلح کُل کا مشرب عام کیا جس نے ’رام‘ اور’ رحیم‘ کے فرق کو مٹانے میں بڑا مؤثر کردار ادا کیا۔
قرونِ وسطیٰ کے اس زمانے میں کہ جب ہندستان میں ’بھگتی تحریک‘کا اثر پھیل رہا تھا اور ’تصوف‘ اور’ ویدانت‘ کے پیروکار مذہب کا نام لے کر عوام میں مذاہب کے باہمی اشتراک اور ’رام‘ اور ’رحیم‘ کے ایک ہونے کا پیغام دے رہے تھے، ہندوئوں نے مسلمان فاتحین اور حکمرانوں کی رضا اور خوش نودی کے لیے حمد، نعت اور سلام و مرثیے اور منقبتیں لکھنی شروع کیں۔ فارسی زبان کو اختیار کیا، قرآن کے منظوم ترجمے کرنے لگے اور صوفیا اور بزرگوں کی محفلوں میں شرکت اور ان کے مزاروں پر حاضری دینے کو خود اپنے لیے حاجت روائی اور نجات کا وسیلہ سمجھنے لگے۔ اس کے جواب میں مسلمانوں نے رام، کرشن اور شیو اور گنگا جمنا پر نظمیں لکھنی شروع کیں۔ ڈھولک کی تھاپ پر درگاہوں اور خانقاہوں میں سماع اور قوالی کو ثواب سمجھ کر اپنا لیا اور بسنت کی تقریبات اہتمام سے منائی جانے لگیں۔ مسلمان حکمرانوں نے ’رام لِیلا‘ اور ’دَسَہرے‘ کے تیوہارکو عوامی انداز میں سرکاری سطح پر رائج کیا۔ جو ’لطف‘ انھیں ’بھگتی تحریک‘ کے زمانے میں کیرتن اور بھجن کے عوامی ناچ گانوں میں آتا تھا وہ بعد میں دلی اور لکھنؤ کے امام باڑوں اور کربلاے معلی میں سوزخوانی کی محفلوں اور تعزیہ نکالنے میں ملنے لگا۔
اسی زمانے سے بعض جگہ تو ہندوئوں اور مسلمانوں کی آپس کی شادیاں، یا پھر ایک دوسرے کی شادی کی تقریبات اور تیج تیوہاروں میں باہمی شرکت اور ہولی دیوالی مشترکہ طور پر منائی جانے لگیں۔ یہ سماجی قربت انھیں اور قریب تر کرنے کا باعث بنی۔ چنانچہ مسلمان صوفیا نے ہندو پنڈتوں سے سنسکرت زبان اور الٰہیات کے درس لینے شروع کر دیے اور ہندو جوگیوں کی پیروی میں رہبانیت کو نجات کا راستہ سمجھ کر اسے اختیار کرنے لگے، تو ان کی تہذیب و ثقافت، تمدن اور فکروعمل، یہاں تک کہ ان کے عقائد کیسے متاثر نہ ہوتے۔ چنانچہ اس وقت کے صوفیا میں حددرجہ تعظیم کے احساس کے تحت آں حضوؐر کی ذات کے مافوق الفطرت ہونے کا خیال بھی عام ہوگیا تھا۔۳ اسی طرح تصوف کے زیراثر دیگر شعبہ ہاے حیات کی مانند اُردو ادب اور خاص طور پر اُردو شاعری نے عہدِ قدیم کے ہندستانی ادب سے ہرسطح پر اثرات قبول کیے۴ اور اس بنیاد پر اُردو نعت بھی ان خیالات و مضامین سے خود کو محفوظ نہ رکھ سکی، جو اس وقت کے ہندستانی ادب اور ’کیرتن‘ اور ’بھجنوں‘ میں پیش کیے جاتے تھے۔
اس صورتِ حال میں، جس کا آغاز مسلمانوں کی یہاں آمد کے وقت ہی سے شروع ہوچکا تھا لیکن ’بھگتی تحریک‘ کے دور میں اسے گہری بنیادیں اور وسعت حاصل ہوگئی۔ پھر مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر (م: ۱۶۰۵ء) کی خام خیالی نے’دین الٰہی‘ کی حکمت کے تحت اسلام کے عقیدے اور معاشرتی نظام کو بہت بُری طرح متاثر کیا۔ ہندو اکثریت کو خوش کرنے کے لیے اس نے ان کے بہت سے عقائد اور رسوم کو اختیار کرنے کے احکامات صادر کر دیے اور فرائض اسلامی کو ممنوع تک قرار دے دیا۔۵
اکبر کے عہد میں شرعی طور پر حالات اس قدر ناگفتہ بہ ہوگئے تھے کہ سیّد احمد سرہندی مجددالف ثانی (م: ۱۶۲۴ء) بھی اس دور میں ظہورِ مہدی کے منتظر تھے۔۶ ایسے مایوس کن حالات میں کچھ جرأت مند اور راسخ العقیدہ علما، اکبر کے اقدامات کی مزاحمت پر کمربستہ ہوگئے۷ لیکن اکبر ان کی مخالفتوں کو دبانے میں کامیاب ہوگیا۔ اس کی وفات کے بعد مجدد الف ثانی نے اپنی حکمت عملی سے اس صورتِ حال میں مثبت تبدیلیاں لانے کی کچھ کامیاب کوششیں کیں، جنھیں ’تحریک ِ احیاے دین‘ کا نام دیا گیا ہے۔ ان کی اس تحریک کا بنیادی مقصد مسلمانوں کو ہندوئوں کے ساتھ اشتراکِ عمل سے روکنا تھا۔۸
اکبر کے بعد مغل فرماں روا اورنگ زیب (م: ۱۷۰۷ء) تک صورتِ حال کی اصلاح طلبی یوں ہی برقرار رہی۔ اورنگ زیب کے عہد میں سرکاری سطح پر اور طبقہ اولیٰ میں، بمثل داراشکوہ (م:۱۶۵۹ء)، ہندومت سے قرب یا یگانگت کے احساس کے تحت فکری مماثلت کی کسی نے بظاہر عملی کوشش نہیں کی۔ لیکن عوامی سطح پر صورتِ حال راسخ العقیدگی کے لحاظ سے قابلِ اطمینان نہ تھی۔ داراشکوہ کے برعکس اورنگ زیب نے دینِ اسلام سے قربت کی مجدد الف ثانی جیسی روش اختیار کی۔
اکبرکی پیدا کردہ مذہبی، سیاسی اور معاشرتی صورتِ حال میں راسخ العقیدگی کو سلطنت میں دوبارہ رواج دینا کچھ آسان نہ تھا، لیکن اورنگ زیب نے برسرِاقتدار آکر نہ صرف سلطنت کو استحکام بخشا،بلکہ دینی علوم کی ترویج و سرپرستی کے ساتھ مسلم قومیت کو بھی تشخص آشنا کیا۔ اخلاقی انحطاط کو روکنے اور اسلام کو غیراسلامی زوائد سے پاک کرنے کی مؤثر کوشش کی۔ لیکن اورنگ زیب کے بعد مغلیہ سلطنت تیزی سے زوال پذیر ہوئی اور یہ اس کا انتشار ہی تھا کہ جس کے باعث صرف۵۰سال کے عرصے میں برطانوی تاجروں کی ’ایسٹ انڈیا کمپنی‘ نے ۱۷۵۷ء میں ہندستان کے سب سے زرخیز صوبے بنگال کے مسلمان حکمران کو شکست دے کر اس کی حکومت و وسائل پر قبضہ کرلیا اور اگلے ایک سو سال کے بعد ۱۸۵۷ء میں آخری مغل حکمران محمدبہادر شاہ ظفر (۱۸۳۷ء-۱۸۵۷ء) پر بغاوت کا الزام عائد کرکے قید کردیا۔ اس عرصے میں ہندوئوں کی جنگجو قوتیں اُبھرتی رہیں، جنھوں نے انگریزوں کے ساتھ شریک ہوکر مسلمانوں کو اپنے انتقام کا نشانہ بنایا اور ہندو قومیت کے جذبات کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ مستقبل کے سارے اَدوار میں مسلمانوں کے مقابل ایک مستقل حریف کے طور پر سامنے رہے۔
یہ سارا عرصہ مسلمانوں کے لیے سیاسی زوال اور معاشرتی، مذہبی اور اخلاقی انحطاط سے عبارت ہے۔ ایسی صورتِ حال میں ایک اصلاحی اور فکری تحریک کی ضرورت مسلم ملّت کو تھی، جو اس وقت کے سب سے بڑے اور مؤثر مفکرومصلح شاہ ولی اللہ (۱۷۰۳ء-۱۷۶۱ء) نے شروع کی، جو اپنے وقت کے اُن کُل عوارض سے واقف تھے، جن میں ملت اسلامیہ مبتلا تھی۔ ان کے ذہن میں مذہب کا منطقی اور عملی تصور موجود تھا اور اس تصور کو عملی شکل دینے کی صلاحیتیں بھی ان میں موجود تھیں۔ پہلے تو وہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کے سیاسی اقتدار کو تباہی سے بچایا جائے اور امن و امان قائم کیا جائے تاکہ مذہبی، معاشرتی اور ثقافتی اصلاحات کا انقلاب برپا کیا جاسکے۔ ان کی اس ضمن میں عملی کوششیں تو بارآور نہ ہوسکیں کہ حکمران کاہلی اور کوتاہ بینی سے نکل نہ سکے۔ تاہم، شاہ صاحب نے اپنے وابستگان میں جو شعور پیدا کر دیا تھا، اس سے بعد میں آنے والے مصلحین اور مجاہدین: شاہ عبدالعزیز (م:۱۸۲۴ء) ، شاہ اسماعیل (م: ۱۸۳۱ء) اور سیّداحمد بریلوی (م: ۱۸۳۱ء) نے اپنی اپنی حد تک استفادہ کیا اور مسلم ملّت کے لیے تبلیغ و جہاد کو اختیار کرکے اپنی جدوجہد سے ایک تاریخ رقم کرڈالی۔
سیّداحمد شہید کی تحریکِ جہاد کو بظاہر کامیابی نصیب نہ ہوسکی، لیکن انگریزوں کے خلاف ۱۸۵۷ء کی جنگ ِ آزادی ان ہی کے جذبہ و احساس کے زیراثر شروع ہوئی۔ مسلمانوں کے لیے یہ جنگ ناکامی لے کر آئی لیکن اس کے اثرات کے طفیل وہ اس قابل ضرور ہوئے کہ کچھ ہی عرصے بعد اپنی ناکامیوں کا محاسبہ کرسکیں اور اپنے قومی مستقبل کے لیے ایک ایسی راہِ عمل کا انتخاب کرسکیں جس پر چل کر اپنا مستقبل تعمیر کرسکیں اور اپنے مٹتے ہوئے وجود کو سنبھالا دے سکیں۔ مسلمانوں کے لیے اس قیامت خیز زمانے میں سرسیّداحمد خاں (۱۸۱۷ء- ۱۸۹۸ء) ایک فکری، رفاہی اور تعلیمی ایجنڈا لے کر سامنے آتے ہیں۔{ FR 613 }
جنوبی ایشیا کے نوآبادیاتی دور میں فی الحقیقت ہندو اور مسلمان تہذیبی بساط پر پہلے سے زیادہ فاصلے پر نظر آتے ہیں۔ اس عہد میں ہندو ایک نئے اور بڑے طاقت ور طبقے کے طور پر اُبھرے جنھوں نے بڑی حکمت و چالاکی کے ساتھ انگریزوں کی سرپرستی میں اپنے لیے نئے تصورات، نئی زبان (ہندی) اور نئے تعصبات کو وضع کیا اور ان کے مطابق نیا مستقبل متعین کرلیا۔ اس نے انگریزوں سے اپنے مخالفین کو زیر کرنے اور راے عامہ کو اپنے حق میں منظم کرنے کے طورطریقے بھی سیکھے۔ اس تبدیلی کے بعد اس نے انگریزوں کو للکارنا بھی شروع کیا، تاکہ اس کے عوض اس کے طبقاتی مفادات بھی پورے ہوتے رہیں۔
ہندوئوں کے اس طرزِعمل پر برطانوی طریق حکومت اور اندازِ زندگی کی چھاپ تھی، جس کے بغیر یہ تحریک آگے نہ بڑھ سکتی تھی۔ ان کے مقابلے میں مسلمان یہاں اپنی روایات اور باقیات کو سینے سے لگائے بیٹھے تھے۔ نئے تصورات اور حقیقتوں کا ادراک کرنے سے خائف اور گریزاں تھے۔۹ ان دونوں قوموں میں ایک نفسیاتی فرق یہ پیدا ہوگیا کہ ہندو اپنی ہر تحریک معاشرتی اصلاح اور قدیم رسومات کو ترک کرنے کے لیے شروع کر تے، جب کہ مسلمان ابھی تک آٹھ نو سو سالہ حکمرانی کے سحر میں گرفتار رہے۔ ایک مستقبل پانے کے لیے تو دوسرا ماضی میں گم رہنے کے لیے کوشاں رہا۔ نوآبادیاتی دور کے استحکام کے عرصے میں ہندوئوں کا عمل محض اپنے قومی مفادات کے حصول پر مرتکز رہا۔ اس عہد کی تاریخ دراصل دو ہندستانوں کی تاریخ ہے۔
نوآبادیاتی عہد کے ہندستان میں، کہ جب ۱۸۵۷ء کی ناکام جنگ ِ آزادی کے بعد یہاں کی سیاسی زندگی میں مسلمانوں کا حصہ بہت معمولی رہ گیا تھا۔ اس صورتِ حال میں سرسیّداحمد خاں اور علّامہ اقبال مسلمانوں کے قومی وجود کے تحفظ کی جدوجہد میں نہایت اہم مفکرین کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔ ان دونوں نے اپنے اپنے عہد کے قومی مسائل میں ان کے حل کے ساتھ ساتھ مستقبل کے لیے بھی سوچا اور اس کی تعمیر و تشکیل کی منصوبہ بندی بھی کی:
اوّلاً: ان دونوں میں جوقدر مشترک تھی وہ یہ کہ ان دونوں نے اپنے اپنے طرزِ احساس اور خلوص کے مطابق ضروری خیال کیا تھا کہ انگریزوں اور ہندوئوں کے مقابلے میں اپنی قوم کو نبردآزما کرنے کے لیے قوم کو جدید حالات کے تقاضوں کے مطابق تیار کیا جائے، ان میں قومی شعور پیدا کیا جائے اور سیاسی شعور کو عام کیا جائے۔
سیّداحمدخاں نے مسلمانوں کی سیاسی، معاشی اور سماجی تباہی کا حل بجاطور پر تعلیمی بیداری میں دیکھا۔ اس کے لیے عملی جدوجہد کے دوران محض ہندستان کے ماحول ہی میں نہیں بلکہ مسلم دنیا کے وسیع تناظر میں مسلمانوں کے قومی مسائل کو موضوع بنایا۔ بالکل اسی طرح اقبال کی فکر اور ان کے پیغام میں خلوص بھی تھا، اثر بھی اور زور بھی، خود ان کے اپنے دور ہی میں جنوبی ایشیا کی ملت اسلامی کے لیے خاصا انقلابی اور پُرکشش تھا۔ اس کے اثرات گہرے اور دیرپا ثابت ہوئے۔
اگرچہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے اتحاد پر ایک مدت تک سیّد احمد خاں زور دیتے رہے، لیکن انگریزی سامراج کے زیراثر ہندوئوں کی مسلم دشمن تحریکوں کے نتیجے میں، وہ اس کی طرف سے یکسر مایوس ہوگئے ۔ پھر سیّداحمد خاں نے دو قومی نظریہ پیش کرتے ہوئے علانیہ اظہار کیا کہ: ’اب ہندستان میں ہندو اور مسلمان ایک ساتھ نہیں رہ سکتے‘۔ علّامہ اقبال کے عہد تک پہنچتے پہنچتے دوقومی نظریہ اپنی ارتقا کی انتہائی منزلوں پر تھا، اور درمیانی عرصے میں علیحدگی کے جذبات کا مختلف اکابر کی طرف سے آئے دن مختلف النوع اظہار ہوتا رہا۔
بیسویں صدی کے ہندستان میں مسلمانوں کے لیے یہ سیاسی مسائل مزید خدشات اور خطرات کا سبب بن گئے۔ چنانچہ اقبال نے ان مسائل اور خطرات پر گہری تشویش کااظہار کیا۔ اپنے زمانے کے عام حالات کا جائزہ لیتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ: ’’ہندی اور اُردو کے نزاع سے لے کر جب سالہا سال ہوئے مسلمانوں کی آنکھیں کھلیں اور انھوں نے محسوس کیا کہ سرسیّد کا یہ قول کہ ’ہمارا اور ہندوئوں کا راستہ الگ الگ ہے‘، حرف بحرف صحیح ثابت ہورہاہے۔ یہ احساس اس وقت بھی قائم تھا، جب ترک موالات کی تحریک زوروں پر تھی اور اس وقت بھی جب کانگریس نے علی الاعلان مسلمانوں کی جداگانہ قومیت سے انکار کیا، جب ’نہرو رپورٹ‘ پیش کی گئی اور جب اس سیاسی محاذ کے ساتھ قومی تعلیم اور قومی زبان کے نام سے ایک نیا محاذ ہماری تہذیب و تمدن اور ہمارے اخلاق و معاشرت کے خلاف قائم کیا گیا‘‘۔؎۱۰
سرسیّد بجا طور پر ہندی یا ہندستانی کے نعرے کو مسلمانوں کے خلاف ہندوئوں کی ایک سازش سمجھتے تھے۔ چنانچہ ان کا خیال تھا کہ ’ہندی کی تحریک‘ دراصل اُردو پر حملہ ہے اور اُردو کے پردے میں بالواسطہ اسلامی تہذیب پر یلغار ہے۔؎۱۱ یہی وجہ ہے کہ علی گڑھ کی بدولت مسلمانوں میں جدید تعلیم سے وابستہ بیداری پیدا ہوئی، جسے ایک طبقہ، ہندی مسلمانوں کی نشاتِ ثانیہ کی تحریک کہتا ہے۔؎۱۲ جب کہ دوسرے طبقے کی راے میں: ’سرسیّد کے طرزِفکر نے مغرب زدگی اور تجدّد پسندی کی جو راہ ہموار کی تھی ، اس کے برگ و بار آج تک ہماری قومی زندگی میں تلخی پیدا کیے ہوئے ہیں‘۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال نے بھی وطنی قومیت کے نظریے کی تردید کی اور مسلم اُمہ کو دنیاے اسلام کے ناقابلِ تقسیم ہونے کے خیال سے سرشار کیا۔ پھر انھیں کم از کم برعظیم کے مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک آزاد اسلامی مملکت کے ایک واضح تصور کی تشکیل کا حصہ دار بنادیا۔
۱- ’جیسے رزاق اللہ مشتاقی اور میاں طٰہٰ کو ہندوئوں کے علوم پر بڑا عبور حاصل تھا‘ خلیق احمد نظامی،سلاطین دہلی کے مذہبی رجحانات، اعظم گڑھ، ۱۹۸۵ء،ص۴۵۱؛ ’محمد غوث گوالیاری ہندوئوں کے علوم پر دسترس رکھتے تھے، شیخ محمد اکرام، ۱۹۷۵ء، رُودِ کوثر، لاہور،ص ۳۹؛ مزید تفصیلات کے لیے: ڈاکٹر محمد اسلم، ۱۹۷۰ء دینِ الٰہی اور اس کا پس منظر، لاہور، ص ۲۶، ۱۴۶-۱۵۱
۲- اس عہد کی تاریخوں میں ایسے متعدد واقعات ملتے ہیں جن سے مسلمانوں کے ارتداد کی اطلاعات ملتی ہیں۔ تفصیلات کے لیے دینِ الٰہی اور اس کا پس منظر، از ڈاکٹر محمد اسلم، ص ۲۷-۲۸؛ ان سے یہ بھی علم ہوتا ہے کہ ہندودھرم کے احیا اور شدھی کی تحریکوں نے جارحیت کا انداز اختیار کرلیا تھا۔ مختلف اَدوار میں اس کی مثالوں کے لیے: اے پنجابی، ۱۹۳۹ء،Confedracy of India، لاہور،ص ۵۱-۵۴
۳- این میری شیمل،۱۹۶۳، Gabriel's Wing، ص ۱۷۷
۴- متعدد محققین نے اس موضوع پر دادِ تحقیق دی ہے ۔ ایک مبسوط مطالعہ، مونس، پرکاش، اُردو ادب پر ہندی ادب کا اثر، الٰہ آباد، ۱۹۷۸ء،اس موضوع کا مفصل احاطہ کرتا ہے، جب کہ اس کے برعکس ایک باہمی اثرپذیری کے مطالعے کے لیے ، سیّد اسد علی، ۱۹۷۹ء، ہندی ادب کے بھگتی کال پر مسلم ثقافت کے اثرات، دہلی ، مفید ہے۔
۵- اس کے مذہبی عقائد کے بارے میں کافی لکھا جاچکا ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر محمد اسلم، تصنیف مذکور؛ خلیق احمد نظامی، Akbar and Religion ؛ اطہر عباس رضوی، ۱۹۶۵ء، Muslim Revivalist Movement in North India in the Sixteenth and Seventeenth Centuries ،لکھنؤ ،۱۹۶۵ء مفصل ہیں۔ نیز ڈاکٹراشتیاق حسین قریشی، ۱۹۷۲ء، Ulema in Politics ، ص ۴۳-۸۱، کراچی
۶- شیخ احمد سرہندی، مکتوباتِ امام ربانی، جلداوّل، لکھنؤ ۱۹۲۵ء، ص ۱۶۳؛ ایک اور مکتوب میں وہ لکھتے ہیں کہ کفّار صرف اس پر راضی نہیں کہ اسلامی حکومت میں علانیہ کافرانہ قوانین نافذ ہوجائیں بلکہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ اسلامی احکام اور قوانین سرے سے ناپید کردیے جائیں اور ان کومٹا دیا جائے تاکہ اسلام اور مسلمانوں کا کوئی اثر اور نشان یہاں باقی نہ رہے۔(ایضاً، ص ۱۰۵)
۷- تفصیلات کے لیے، ص ۲۳۹-۲۴۰؛ حفیظ ملک، Muslim Nationalism in India and Pakistan، ۱۹۶۸ ء ، ص ۵۳-۵۴، واشنگٹن
۸- اسی بنا پر علّامہ محمد اقبال نے مجدد الف ثانی کو برعظیم میں مسلم قومیت کا بانی قرار دیا تھا۔
۹- اسلام کے تعلق سے ان کوششوں کا ایک جائزہ: فری لینڈ ایبٹ Islam and Pakistan، ص ۶۶- ۷۶ ؛ حفیظ ملک: Muslim Nationalism in India and Pakistan میں ہے، ص ۶۴-۶۹
۱۰- مقالاتِ سرسیّد، ج اوّل، ایضاً، ص ۴۹
۱۱- ایضاً، ص ۱۳۶
۱۲- سیّد نذیر نیازی [مرتبہ]،اقبال کے حضور، لاہور، ۱۹۷۶ء، ج ۱، ص ۲۹۲-۲۹۳
ماہِ اکتوبر کے شمارے میں ’اشارات‘ کے طور پر محترم عبدالغفار عزیز کی تحریر بہ عنوان ’نیا ہجری سال ، اسوۂ رسول ؐ اور تقاضے ‘ پڑھ کر سیرتِ طیبہ کے اہم اور سبق آموز واقعات کی روشنی میں ابلاغِ دعوت کے فریضے کی ادایگی میں پیش آنے والی مشکلات کے باوجود مسلسل جدوجہد کرتے رہنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اسوۂ رسول ؐ رحمۃ للعالمین کی روشنی میں جدید دور کے فتنوں سے بچنے اور صبر واستقامت کے ساتھ اسلامی انقلاب کے لیے جدوجہد کرتے رہنے کی تلقین کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نصرت کا مژدہ بھی سنایا گیا ہے۔ l محترم میاں طفیل محمد مرحوم ومغفور کی تحریر ’ ہمارا نصب العین اور طریق کار ‘ کے عنوان سے نہایت مفید تذکیر ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام کرنے والوں کو بہت مفید ہدایات دی گئی ہیں۔ گاہے گاہے باز خواں! lپاکستانیات کے ضمن میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی قومی اسمبلی میں ستمبر ۱۹۷۴ء میں کی جانے والی تقریر کا اُردو ترجمہ بھی خوب کیا گیا ہے۔ ایک معروف سیکولر حکمران کی زبان سے قادیانیوں کو اقلیت قرار دیے جانے کی قومی اسمبلی کے متفقہ فیصلے کو ’مذہبی فیصلہ اور سیکولر بھی‘ قرار دینے کی یاددہانی بہت مفید ہے۔ اس سے دستور میں دوسری ترمیم کو تنقید کا نشانہ بنانے والوں کا پروپیگنڈا ہوا ہو جاتا ہے۔ lاس پرچے میں قائد تحریک حریت کشمیر سید علی گیلانی حفظہ اللہ کے نجی ریڈیو پر قوم سے خطاب کو ’تحریک کشمیر کا موجودہ مرحلہ اور تقاضے ‘ کے عنوان سے شائع کر کے آپ نے ’جہاد کشمیر‘ سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے حوصلہ افزا پیغام دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ بوڑھے مجاہد قائدتحریک حریت کو اس عزم میں کامیاب فرمائے کہ ’’ہم بھارت کے ناجائز قبضے سے آزادی چاہتے ہیںاور ہم اسے حاصل کر کے ہی دم لیں گے، ان شا اللہ ! ‘‘ lڈاکٹر مسعود احمد شاکر صاحب کا ’ گھٹتے ہوئے آبی وسائل کا تذکرہ ‘ بہت مفید اور معلومات افزا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے چاروں صوبوں کے سیاست دانوں کو اس مسئلے کو سیاست کی نذر کر دینے سے بچائے اور اسے قومی نقطۂ نظر کے ساتھ حل کرنے کی توفیق اور ہمت عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ محترم پروفیسر خورشید احمد مدظلہ العالی کی رہنمائی میں پرچے کے معیار کو بلند سے بلند تر کرنے کا بہترین اجر عطا فرمائے۔ آمین !
ڈاکٹر سعید مراد کا مضمون ’ عاجزی اور انکسار‘، اور ڈاکٹر ذاکر حسین کے بارے سیّد محمد حسنین کے مضامین اس شمارے کی بہترین اور عمدہ تحریریں ہیں۔ محترم عبدالغفار عزیز نے ’اشارات‘ میں جس انداز سے بچوں اور نوجوانوں کو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام سے آگاہ کیا ہے، اگر آج کے بچے اور نوجوان اس پر عمل پیرا ہوجائیں تو وہ دنیا اور آخرت میں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوں گے، ان شاء اللہ! محترم ارشاد الرحمٰن صاحب کا مضمون سیرت نبویؐ کے موضوع پر جامع اور معلوماتی مضمون ہے۔ سیرتِ نبویؐ پر اس طرح کے مضامین ہر ماہ شائع ہونے چاہییں تاکہ قارئین ان کو پڑھ کر اور اس پر عمل پیرا ہوکر دنیا اور آخرت میں سرخرو ہوسکیں۔
اکتوبر کے ترجمان میں ’اشارات‘ مایوس دلوں کے لیے اُمید کا پیغام ہیں۔ سیرتِ رسول ؐ کا یہ پہلو عزم و حوصلہ اور عزیمت کا باعث ہے کہ راہ خدا میں کتنی ہی مشکلات کے باوجود آپ ؐ نے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹایا اور مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں بالآخر اسلام غالب آ کر رہا۔ آج بھی اسی عزم وحوصلے اور عزیمت کی ضرورت ہے۔
ماہ ِ اکتوبر کے شمارے میں ’ اصلاح معاشرہ اور انتخابات‘ از سید ابوالاعلیٰ مودودی (۶۰سال قبل ) اور’ہمارا نصب العین اور طریق کار‘ از میاں طفیل محمد ‘ (۶۱ سال قبل ) کی بصیرت افروز تحریریں آج کے حالات پر من وعن صادق آ رہی ہیں۔ انھیں پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہو رہا ہے گویا موصوف ہمارے سامنے موجود اور خطاب فرما رہے ہوں (اللہ تعالیٰ کی بے حد وحساب نعمتوں کا ان پر نزول ہو ۔آمین ) ۔
ترجمان میں سابق وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی تاریخی تقریر پڑھ کر جہاں ایمان تازہ ہوا، وہیں ادارہ ترجمان کی وسعت ِ قلبی اور حق شناسی کے لیے عصبیت سے بالاتر رہنے کا شان دار نمونہ بھی دیکھنے کو ملا۔
ستمبر ۲۰۱۷ء کا شمارہ پڑھنے کا موقع ملا۔ جناب مفتی سیّد سیاح الدین کاکاخیلؒ کا مضمون ’چند قرآنی اصطلاحات کی تعبیر کا معاملہ‘ مدلل علمی نکات پر مشتمل ہے اور قرآنِ مجید کی سورۃ الانفال کی آیت کریمہ لِیُحِقَّ الْحَقَّ وَ یُبْطِلَ الْبَاطِلَ کی عملی تفسیر ہے۔ قول سدید اور حق بیانی مومنانہ صفات ہیں، جب کہ تعصب اور کتمانِ حق منافقانہ طرزعمل ہے۔
عالمی ترجمان القرآن ایمان و عبادات، اَخلاق و کردار،معاملاتِ حیات، تزکیہ و تربیت، انفرادی و اجتماعی اور قومی و ملّی مسائل میں راہ نمائی کا فریضہ احسن طریقے سے انجام دے رہا ہے۔ستمبر۲۰۱۷ء کے شمارے میں ’زراعت کے ۷۰سال‘ کا یہ جملہ کہ: ’’پاکستان دنیا بھر میں گندم، چاول، کپاس، گنا، پھل اور سبزیاں، دودھ اور گوشت کی پیداوار کے لحاظ سے ساتواں یا آٹھواں بڑا زرعی ملک ہے‘‘ پڑ ھ کر دلی خوشی ہوئی ، لیکن اکتوبر میں مضمون: ’گھٹتے ہوئے آبی وسائل‘ نے تو ساری خوشی ہی کافور کردی۔ ذمہ دارانِ حکومت کو اس تشویش ناک پہلو پر بھی توجہ دینی چاہیے۔
شرعی اصطلاح میں جس چیز کو ’بدعت‘ کہتے ہیں، اس کی کوئی قسم حسنہ نہیں ہے، بلکہ ہربدعت سیئہ اور ضلالہ ہی سے ہے۔ جیساکہ حدیث میں ارشاد ہوا ہے: کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ۔ البتہ لغوی اعتبار سے محض نئی بات کے معنی میں بدعت حسنہ بھی ہوسکتی ہے اور سیئہ بھی۔ عربی زبان میں ’بدعت‘ کا لفظ قریب قریب اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے جس میں لفظ ’جدت‘ ہم اُردو میں استعمال کرتے ہیں، یعنی ایک نئی بات جو پہلے نہ ہوئی ہو یا جس کی کوئی مثال موجود نہ ہو۔ لیکن شریعت میں یہ لفظ اس وسیع مفہوم میں استعمال نہیںہوتا، نہ اس مفہوم میں ہرنئی چیز یا ہرنئے کام اور طریقے کو گمراہی قرار دیا گیا ہے۔ شرعی اصطلاح میں ’’بدعت سے مراد یہ ہے کہ جن مسائل و معاملات کو دین اسلام نے اپنے دائرے میں لیا ہے، اُن میں کوئی ایسا طرزِفکر یا طرزِعمل اختیار کرنا، جس کے لیے دین کے اصلی مآخذ میں کوئی دلیل و حجت موجود نہ ہو‘‘۔ اس تعریف کی رُو سے وہ مسائل و معاملات، یا مسائل و معاملات کے وہ پہلو جن سے دین نفیاً یا اثباتاً کوئی تعرض نہیں کرتا، جن کے متعلق صاحب ِ شریعت نے خود فرما دیا کہ اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِاُمُورِ دُنْیَاکُمْ، بدعت و سنّت کی بحث سے خود بخود خارج ہوجاتے ہیں۔
کسی چیز کے بدعت ہونے یا نہ ہونے کا سوال صرف اُنھی اُمور میں پیدا ہوتا ہے، جن میں انسان کی رہنمائی کرنا دین نے اپنے ذمّہ لیا ہے اور جن میں اللہ اور اس کے رسولؐ نے احکام دیے ہیں یا اصولی ہدایات عطا فرمائی ہیں۔ خواہ وہ عقائد اور خیالات و تصورات کے باب سے تعلق رکھتے ہوں، یا اخلاق سے، یا عبادات اور مذہبی رسوم سے، یا معاشرت، تمدن، سیاست، معیشت اور دوسری اُن چیزوں سے، جنھیں عام طور پر دنیوی معاملات سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ان اُمور میں جب کوئی ایسی بات کی جائے گی، جس کے ماخذ کا حوالہ خدا کی کتاب اور اس کے رسول کی تعلیم و ہدایت میں نہ دیا جاسکتا ہو، یا جس کے حق میں دین کے اِن مآخذ اصلیہ سے کوئی معقول دلیل نہ پیش کی جاسکتی ہو، تو وہ بدعت ہوگی۔ اور اگر وہ کتاب و سنّت کی تعلیمات کے خلاف پڑتی ہو تو اس پر محض بدعت کا نہیں بلکہ فسق اور معصیت کا اطلاق ہوگا۔
’بدعت‘ کے شرعی مفہوم کی اس تشریح کے بعد یہ بات محتاجِ کلام نہیں رہتی کہ اس معنی میں جو چیز بدعت ہو اُس کے حسنہ ہونے کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا، وہ تو لازماً سیئہ ہی ہوگی اور اس کو ’سیئہ‘ ہی ہونا چاہیے، کیوں کہ دین نام ہے اُس نظام کا جو خدا اوراس کے رسولؐ کی تعلیم و تربیت پر مبنی ہو۔ اور اس نظام میں بہرحال ایسی کوئی چیز داخل نہیں ہوسکتی، جو اس تعلیم و ہدایت پر مبنی نہ ہو۔ ایسی کوئی چیز جب بھی اس میں داخل ہوگی، اس نظام کے مزاج اور اس کی ترکیب کو بگاڑدے گی۔ پھر کیسے تصور کیا جاسکتا ہے کہ کوئی بگاڑنے والی چیز حسنہ بھی ہو؟ (’رسائل و مسائل‘ ،سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۴۹، عدد۱-۲، صفر ۱۳۷۷ھ، نومبر ۱۹۵۷ء،ص ۹۹-۱۰۱)